اردو محاورات کا تہذیبی مطالعہ

اردو محاورات کا تہذیبی مطالعہ0%

اردو محاورات کا تہذیبی مطالعہ مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب

اردو محاورات کا تہذیبی مطالعہ

مؤلف: ڈاکٹر عشرت جہاں ہاشمی
زمرہ جات:

مشاہدے: 79962
ڈاؤنلوڈ: 4143

تبصرے:

اردو محاورات کا تہذیبی مطالعہ
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 81 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 79962 / ڈاؤنلوڈ: 4143
سائز سائز سائز
اردو محاورات کا تہذیبی مطالعہ

اردو محاورات کا تہذیبی مطالعہ

مؤلف:
اردو

ردیف "ڈ"

ڈاڑھی کا ایک ایک بال کرنا

ہمارے یہاں مذاہب میں اپنی اپنی جو وضع قطع رکھنا چاہا اور اپنے ماننے والے طبقات میں اس کو رائج کیا اُن میں کیا کس کی وضع قطع کے علاوہ ڈاڑھی کو بھی ایک سماجی حیثیت حاصل ہے۔ ڈاڑھی عزت و وقار اور بڑی حد تک تقدس کی علامت ہے اسی لئے ڈاڑھی پکڑنا اور ڈاڑھی میں ہاتھ ڈالنا بے عزتی کی بات سمجھی جاتی ہے۔ اور کسی ذلیل کرنے کے لئے کہا جاتا ہے کہ میں تیری ڈاڑھی کے ایک ایک بال کر دوں گا اِس سے ہم اپنے ماحول کی تہذیبی قدروں کو سمجھ سکتے ہیں ڈاڑھی نوچ لینے کے بھی یہی معنی ہیں اور بال بال کر دینے کے ہیں یعنی بے عزتی کرنا ہے۔

ڈال کا پکا، ڈال کا ٹوٹا

ہمارے ہاں"آم" ایک مشہور پھل ہے قدیم زمانہ سے سنسکرت اور ہندی لٹریچر میں اس کا ذکر آتا رہتا ہے اور تعریفوں کے ساتھ آتا ہے ہمارے ہاں آموں کے باغ کے علاوہ ایک سطح پر آموں کے جنگل ہوتے تھے جب آموں کے باغ لگائے جانے لگے تو وہ آم ملنے لگے جو ڈال پر پک کر تیار ہو اور جس کو ڈال سے توڑ کر کھایا جا سکے اس لئے کہ تازگی اسی پھل میں ہوتی ہے ایسے پھل بھی ہوتے ہیں جنہیں پال میں دبا کر یا کوئی دوا چھڑک کر پکایا جائے۔ آم تو عام طور سے پال میں دبائے جاتے ہیں اور پسند کئے جاتے ہیں ایک ڈال کے پکے ہوئے آم کی یا کسی بھی پھل کی لذت اور لطف کچھ اور ہی ہوتا ہے۔ اسی لئے ڈال کا پکا کہتے ہیں ویسے آم مٹکے کا بھی ہوتا ہے اور اس کو محاورے میں ٹپکے کا آم بھی کہتے ہیں کہ جب وہ پکتا ہے تو شاخ کو چھوڑ کر زمین پر گر جاتا ہے۔

اُس کے مقابلہ میں وہ پکا پھل جسے ڈال سے توڑا جاتا ہے وہ زیادہ قابلِ تعریف اور خوش مزہ سمجھا جاتا ہے اسی لئے ڈال کا ٹوٹا کہتے ہیں اور اسی نسبت سے آدمیوں کے کردار اور اُن کی قدر و منزلت کا ذکر بھی ہوتا ہے اور پھلوں کا اِطلاق آدمیوں کی شخصیتوں پرکیا جاتا ہے۔

ڈنکے کی چوٹ کہنا

"ڈنکا"ہمارے دیہاتی قصباتی اور شہری سماج میں ایک خاص معنی رکھتا ہے ڈنکے کی چوٹ کہنا ڈنکا بجنا جیسے محاورے ہمارے یہاں ایک خاص معنی رکھتے ہیں ہم کسی بات کا اعلان کروانے کے لئے مُنادی کروا دیتے تھے تاکہ سب کو خبر ہو جائے اس کو"ڈھنڈھورا" بھی کہتے تھے ڈنکا پیٹنا بھی اسی سے نکلا ہے اور ڈنکا پیٹنا بھی دونوں شہرت دینے اور شہرت پانے کا عمل ہے مگر بُرائی کے معنی ہیں۔ جس بات کو اچھا نہیں سمجھا جاتا اور اُس کی شہرت ہوتی ہے اسے ڈنکا بجنا کہتے ہیں مگر وہ صرف برے معنی میں نہیں آتا۔ اُن کی شہرت کا ڈنکا بج رہا ہے ایسے ہی موقعوں پر بولا جاتا ہے۔

دہلی میں ملکہ زینت محل جب محل سے باہر آتی تھیں تو اُن کے ساتھ ڈھول بجتا ہوتا تھا یا دوسرے باجے تاشے بجتے تھے اِسی لئے اُن کو ڈنکا بیگم کہا جاتا تھا۔ آج شہرت پانے اور شہرت دینے کے ذریعہ میڈیا کی وجہ سے دوسرے ہو گئے تواب ڈنکے کا لفظ محاورہ میں رہ گیا مگر معاشرہ اس سے دُور ہوتا گیا"ڈھول پیٹنا" بھی اسی مفہوم کی طرف اِشارہ کرتا ہے اور ڈھول بجنا بھی یہ ہمارے تمدن کی ایسی یادگاروں میں سے ہے جن کو ہم بھولتے جا رہے ہیں مگر ہمارے محاوروں کے ذریعہ گویا یہ حالات اور یہ ماحول Preserve ہو گیا ہے۔

ڈوبتے کو تنکے کا سہارا (بہت ہوتا ہے) ڈوب مرنا

ڈوبنا ہمارے ایسے الفاظ میں سے ہے جو سماجی حقائق میں سے روشنی ڈالتے ہیں دیہات قصبات کے لوگ"ڈوبے ڈھیری" کہتے ہیں جس کے معنی ہیں اُس کا قصّہ ختم ہو گیا۔ جب ہاتھ اُدھار کی رقم واپس نہیں آتی تو اُسے رقم ڈوب جانا کہتے ہیں نقصان کی صُورت میں بھی رقم ڈوبنے کا ذکر آتا ہے۔ اسی طرح گھر ڈوب گیا تباہی کے معنی میں آتا ہے یا پھر بہہ جانے کے معنی میں آتا ہے۔ اُردو کا ایک مصرعہ ہے۔

ایسا برسا ٹوٹ کے بادل، ڈوب چلا میخانہ بھی

ڈوبتے کو تنکے کا سہارا ایسے ہی موقعوں پر بولا جاتا ہے جب شخصی وجود خطرہ میں پڑ گیا ہو اور سہارا ملنے کی کوئی صورت نہ ہو۔ دوسروں کے غیر مخلصانہ رویوں کی وجہ سے آدمی کسی پراعتماد بھی نہ کر سکتا ہو ایسے بُرے وقت میں کوئی کمزور سے کمزور سہارا بھی آدمی کو بڑی بات نظر آتی ہے اسی لئے کہا جاتا ہے کہ ڈوبنے کو تنکے کا سہارا بھی بہت ہوتا ہے بلکہ واقعتاً وہ سہارا کچھ نہیں ہوتا ایک نفسیاتی عمل ہوتا ہے اور بس۔

ڈھاک کے تین پات، ڈھائی دن کی بادشاہت، ڈھائی گھڑی کی آنا

ڈھاک ہمارے اپنے علاقہ کے معروف درختوں میں ہے جس کے جنگل کے جنگل کھڑے رہتے تھے اور" ٹیسو کے پھول" ڈھاک ہی کے پھول ہوتے ہیں۔ اِس کا اپنا خاص رنگ ہوتا ہے یہ داؤں میں کام آتے ہیں ڈھاک کے پتے سودا سلف کے کام آتے تھے گوشت اسی میں رکھ کر دیتے تھے اور"پھول" اور"ہا ر" وغیرہ انہی پتوں میں رکھ کر دیئے جاتے تھے لیکن ڈھاک نے ہمیں ایک عجیب محاورہ دیا اور وہ ڈھاک کے تین پات رہ گئے اس لئے کہ ڈھاک کے تین ہی پات ہوتے ہیں اور ہمارے معاشرہ میں کچھ ایسا ہے کہ اکثر کوششیں نا کام ہوتی ہیں اور کوئی مثبت نتیجہ نہیں نکلتا ایسے ہی موقع پر ڈھاک کے تین پات کہتے ہیں۔

ڈھائی چلّو لہو پینا یا پلانا، ڈیڑھ اینٹ کی مسجد چُننا

چُلّو ہاتھ کے پیمانے کو کہتے ہیں اب اس کا ذکر بھی اور دور بھی ختم ہوا ورنہ دیہات و قصبات میں بعض محاورات میں چُلّو کا لفظ بہت آتا تھا۔ اور کہتے تھے کہ ڈیڑھ چُلّو پانی میں ڈوب مرو۔

ڈیڑھ اور ڈھائی بھی محاوراتی، کلمات میں آتے ہیں۔ جیسے ڈیڑھ اینٹ کی مسجد بنانا یا ڈھائی گھڑی کی، بننا، تجھے بن جائے ڈھائی ڈھائی گھڑی کی۔ یہ عورتیں کو سننے کے طور پر محاورہ استعمال کرتی تھیں۔

"ڈھائی دن کو جھونپڑا" دہلی کے خاص محاوروں میں ہے اس اعتبار سے ڈھائی چلو لہو پینا یا پلانا اس طرح کا محاورہ ہے جس میں ایک خاص انداز سے معاشرتی فکر اور پیمانہ کا اظہار کیا جاتا ہے۔

مطلب ڈھائی گھڑی یا ڈھائی دن نہیں ہوتا ایک خاص مدت ہوتی ہے جس کی ناپ کا پیمانہ ڈھائی کو مقر ر کیا جاتا ہے۔ ڈھائی دن کی بادشاہت اسی ذیل میں آتا ہے۔

ڈھلتی پھرتی چھاؤں ہے

"چھاؤں" ہمارے یہاں سایہ کو کہتے ہیں اور سایہ سرپرستی محبت اور عارضی حالت کی طرف اشارہ کرتا ہے جیسے باپ کا سایہ سر سے اُٹھ گیا یا سایہ دیوار بھی میسر نہ آیا۔ سایہ میں پڑا رہنا نکمے پن کو کہتے ہیں اپنا مارتا ہے تو چھاؤں میں بٹھا تا ہے ہاتھوں چھاؤں کرتا ہے۔

اسی چھاؤں کو ہم اپنے دن رات کے تجربہ کی روشنی میں چلتی پھرتی چھاؤں بھی کہتے ہیں کہ ابھی چھاؤں ہے تو ابھی دھوپ ہے اور جہاں جہاں دھُوپ آتی ہے وہاں وہاں چھاؤں تو ہوتی ہی ہے یہ الگ بات ہے کہ اُن کے" پینترے"بدلتے رہتے ہیں اچھے وہ بھی ہمیشہ نہیں رہتے اور بُرے دن بھی گزر جاتے ہیں ظاہر کرنے کے لئے چلتی پھرتی دھُوپ چھاؤں کہا جاتا ہے۔

ڈھونگ رَچانا، ڈینگ مارنا

ڈھونگ خواہ مخواہ کی بات کو کہتے ہیں اور جو آدمی اس طرح کی باتیں کرتا یا کام کرتا ہوا نظر آتا ہے جس کی کوئی حقیقت نہیں ہوتی اس کو ڈھونگ رچانا کہتے ہیں کہیں کہیں یہ محاورہ ڈھونگ باندھنے کی صورت میں بھی سامنے آتا ہے اور"ڈینگ مارنا" اس کی ایک اور شکل ہے یعنی جھوٹی سچی باتوں کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنا۔ یہ وہی ہے جو ہوا باندھنا کے معنی کے طور پر آتا ہے غالب کا مصرعہ ہے۔

ہم بھی مضموں کی ہوا باندھتے ہیں

ڈھیل دینا، ڈھیلی ڈور چھوڑنا یا کرنا، (ڈور ڈھیلی کرنا)

نظرانداز کرنا ہے اسی لئے محاورے کے طور پر کہا جا تا ہے کہ اس نے ڈھیل دے رکھی ہے ڈھیل دینا دراصل پتنگ بازوں کی اصطلاح ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ اُسے اپنے کنٹرول میں نہیں رکھا بلکہ اُسے آزاد چھوڑ دیا اسی لئے ڈور ڈھیلی کرنا اور ڈھیلی چھوڑنا غیر ضروری آزادی دینے کو کہتے ہیں جس میں نرمی برتنے کا مفہوم شامل ہے۔ اس سے ہمارے تہذیبی رویوں کو بھی سمجھا جا سکتا ہے کہ ہم انتظام میں ایک گونہ سختی اور باقاعدگی کو ضروری سمجھتے تھے جوش نے تو ایک موقع پر یہ بھی کہا ہے۔

کھُردُرے ہاتھوں میں رہی ہے حکومت کی لگام

یعنی حکومت کے لئے سختی لازمی ہے اور انتظام میں ذرا سی بھی ڈھیل دینا اُس میں خلل پڑنے کا باعث ہو جاتا ہے اسی لئے زندگی کو پُل صراط کا سفر کرنا قرار دیا جاتا ہے جس کے لئے کہا جاتا ہے کہ یہ وہ پگڈنڈی ہے جو تلوار سے زیادہ تیز اور دھار سے زیادہ باریک ہے اور ذرا سی توجہ اگر راستہ سے ہٹ جاتی ہے اور پیروں میں لغزش آ جاتی ہے تو آدمی ایسے گہرے کھڈ میں گرجا تا ہے کہ وہاں سے واپسی نہیں ہوتی۔

ردیف "ذ"

"ذ" کے محاورہ کل چھ ہیں لیکن بہت معمولی طور پر شامل کئے گئے ہیں اس لئے اُن کا مطالعہ باقاعدہ طور پر یہاں پیش نہیں کیا گیا۔ اس سے ذہن اُس طرف منتقل ہوتا ہے کہ تمام حرفوں سے بننے والے الفاظ ایک ہی سی نوعیت نہیں رکھتے اور اُسی سے اُن کی تعداد میں بھی فرق آتا ہے اور اُن کے استعمال میں بھی۔

ردیف "ر"

رات تھوڑی ہے سانگ بہت ہے

سانگ ہمارے یہاں دیہاتی ڈرامہ بھی ہے جو ایک طرح سے"سوانگ" ڈرامہ ہوتا ہے یعنی گیتوں بھرا تماشہ اس کے علاوہ سانگ بھرنا بھی محاورہ ہے لباس وضع قطع تبدیل کرنا۔ نمود و نمائش کے لئے جب ایسا کیا جا تا ہے تو اُسے کہتے ہیں کہ یہ کیا سانگ بھرا ہے یاوہ بہت"سانگ"بھرنے کا عادی ہے یعنی جھوٹی سچی باتیں کرتا ہے اِس کو سانگ کرنا وار بھرنا بولتے ہیں اور اسی نسبت سے کہا جاتا ہے کہ ابھی تو بہت سا"سانگ"باقی ہے اور یہ بھی کہ رات تھوڑی ہے اور سانگ بہت ہیں۔

چونکہ پچھلی صدی عیسوی تک ہمارے یہاں سانگ ڈرامہ کا رواج بہت تھا اور کبھی کبھی تو صبح ہو جاتی تھی اور ان کا سلسلہ ختم نہیں ہوتا تھا اسی طرف اِس محاورہ میں اشارہ کیا گیا ہے اور مراد یہ لی گئی ہے کہ وقت تھوڑا ہے کام بہت ہے۔

راجا اندر کا اکھاڑا

راجا اندر در اصل موسم کا راجا ہے۔ موسم کے ساتھ طرح طرح کے کام گیت"سنگیت" اور کھیل تماشہ ہوتے ہیں تماشہ کرنے والی" منڈلیاں" ہوتی تھیں وہ اکھاڑے کہلاتے تھے ہم اکھاڑا صرف کشتی ہی کے اکھاڑے کو سمجھتے ہیں اِس سے ایک طرح کی غلط فہمی ہوتی ہے۔ راجا اندر کا اکھاڑا پر یوں کے غول پر مشتمل ہوتا ہے اور کہا جاتا ہے راجہ اِندر کے اکھاڑے کی پریاں اور راجا اندر وہ شخص ہوتا ہے جس کے پاس بہت سی حسینائیں جمع ہوں اسی لئے مذاق کے طور پر یا طنزیہ انداز میں یہ کہا جاتا ہے کہ وہ راجا اِندر بنے رہتے ہیں یہ محاورہ ہویا مذکورہ محاورہ دونوں سانگ و سنگیت سے متعلق ہیں دونوں کی ایک سماجی حیثیت ہے۔

راستہ یا رستہ بتانا یا دیکھنا راستہ پر آنا، راستہ یا رستہ ناپنا۔ راہ لگانا، راہ پیدا کرنا وغیرہ

رستہ ہمارے لئے زندگی میں کوئی بھی کام کرنے کی غرض سے ایک ضروری وسیلہ ہوتا ہے۔ چاہے وہ چلنے کا راستہ ہو چاہے کام کرنے کا سلیقہ طریقہ اِس کو جاننا بھی پڑتا ہے اِس کے بارے میں سوچنا سمجھنا بھی ہوتا ہے اور دوسروں کی مدد بھی درکار ہوتی ہے جو ہمیں راستہ بتا دیں طریقہ سکھلا دیں وقت پر مناسب مشورہ دیدیں اسی لئے ہم کہتے ہیں کہ کوئی راستہ بتلائے اس لئے کہ اگر راستہ غلط ہو گیا تو منزل بھی غلط ہو جائے گی اور مقصد پورا نہ ہو گا۔

یہیں آدمی دوسروں کی اچھائیوں سے بھی واقف ہوتا ہے اور برائیوں سے بھی کہ لوگ کچھ بتلانا نہیں چاہتے اور خود غرض لوگ غلط راستہ بتاتے ہیں یعنی مکاریوں سے بھرا کوئی مشورہ دیتے ہیں راستہ بتانا یا راستہ دکھانا صلاح و مشورہ دینا خلوص کی بات ہوتی ہے مگر اسی میں ساری بد خلوصیاں انتقام کا جذبہ یا مکاری بھی شامل ہوتی ہے آدمی کبھی ٹالتا ہے کبھی بہانے بازیاں کرتا ہے کبھی بہت دلچسپ اور پُر فریب صورتِ حال کو سامنے لاتا ہے تاکہ جس کو غلط راستہ پر ڈالنا مقصد ہے وہ اپنی سُوجھ بُوجھ سے کام نہ لے سکے۔

راستہ سے متعلق جو محاورے ہیں اور جن کے اوپر درج کیا گیا ہے وہ اسی دھوپ چھاؤں جیسی صورتِ حال کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ راستہ نکالنا، راستہ نکل آنا، راستہ سے بھٹکے جانا، راستہ بھول جانا یا بھلا دینا سب اسی سلسلہ کے محاورے ہیں اور اِس سے ہم اندازہ کر سکتے ہیں کہ ہمارے محاوروں کا ہماری سماجی صورتِ حال سے کیا رشتہ ہے اور وقت و حالات اور ماحول کا ہماری سماجی صورت حال سے اور ماحول کیا رشتہ ہے اور وقت و حالات اور ماحول کے ساتھ ا س میں کیا تبدیلیاں ہوتی رہتی ہیں راستہ کو راہ بھی کہتے ہیں اور یہ محاورے"راہ" سے بھی وابستہ ہیں۔

رام رام کرنا (رام رام جپنا) رام نام کی لُوٹ، رام دُہائی، رام کی کہانی، رام کی مایا، رام لیلا، رام کی بچھیا وغیرہ

رام کی مذہبی اور تہذیبی شخصیت ہمارے معاشرے میں غیر معمولی اہمیت رکھتی ہے۔ اور ہندو معاشرے کی سائیکی میں داخل ہے۔ گاؤں کے اور آدمیوں کے نام" رام" کے نام پر رکھے جاتے ہیں"راون" رام کے مقابلہ میں ایک دوسرا کردار ہے جس کو بُرائیوں کا ایک علامتی کردار خیال کیا جاتا ہے" راون کی سیتا""راون کی نگری" یا راون کی لنکا اسی نسبت سے محاوروں میں داخل ہوتی ہے۔

"رام"کو یاد کرنا نیکیوں کے سر چشمے کی طرف اشارہ کرنا ہوتا ہے جیسے"رام رام کرو" رام بھلی کرے گا رام نام کی لوٹ مُفت کا مال ہے بڑی چیز ہے تم جتنی بھی چاہو یہ دولت تمہاری بن سکتی ہے۔

مصیبت کے وقت میں رام کی دہائی بھی دی جاتی ہے اور مصیبتوں بھری کہانی کو"رام کہانی" کہا جاتا ہے"رام کتھا" بھی رام کہانی ہی ہے مگر اس کا مفہوم کچھ دوسرا ہے رام کے نام پر آنے والے محاورے اس طرح اشارہ کرتے ہیں کہ ہماری زبان اور محاوروں کے سرچشمہ میں کہاں کہاں میں کہاں کہاں ہیں اور کن سماجی مُحرکات کے ذریعہ محاوروں سے متعلق مفہوم و معنی کے سلسلہ پیدا ہوتے ہیں۔ یہ سب"رام کی مایا"ہے اسی معنیاتی سلسلہ کی طرف اشارہ کرنے والے محاورہ ہے۔

رُستم یا افلاطون کا سالا

بعض کردار عوام کے دلوں میں اُتر جاتے ہیں ذہنوں پر چھا جاتے ہیں۔ اُن میں ایک افلاطون کا کردار بھی ہے جو یونان کا تقریباً ڈھائی ہزار برس پہلے ایک فلسفی گزرا ہے جو"ارسطو" کا استاد تھا۔ اس کا فلسفہ ہمارے یہاں علمِ حکمت اور دینی مسائل میں بھی رہنمائی کرتا رہا ہے ہمارے عوام کے دلوں میں یہ فلسفیانہ مسائل تو کیا اترتے وہ افلاطون کو ایک بہت بڑی چیز سمجھتے ہیں اور دوسروں کے لئے اُسے بطورِ برائی استعمال کرتے ہیں وہ افلاطون ہو رہا ہے خود کو افلاطون کا سالا سمجھتا ہے یا افلاطون بنا کر پھرتا ہے افلاطون کو اُن نفسیاتی رویوں سے کوئی تعلق نہیں لیکن ہماری زبان ہمارے ذہن اور ہمارے زمانے کے عام لوگوں کے پاس یہی تصور ہے۔ ورنہ عام لوگ افلاطون کو کیا جانیں۔

رُستم قدیم ایران کا ایک پہلوان تھا بہت بڑا بہادر جس کی حیثیت اب ایک اساطیری کردار کی سی ہو گئی ہے اور بہادری میں اس کانام بطورِ مثال آتا ہے ویسے ہمارے یہاں بڑا پہلو ان اور طاقتور سمجھتے ہیں اس کو" رستم زمان" خیال کرتے ہیں"گاماں"پہلوان کا خطاب"رستم" ہند تھا اب یہ ایک الگ بات ہے کہ افلاطون کی طرح رستم کا حوالہ بھی عوام کی زبان پر طنز کے طور پر آتا ہے کہ وہ بڑے رستم زماں بنے پھرتے ہیں یا پھر اپنے آپ کو" رستم کا سالا" سمجھتے ہیں افواہِ عوام میں پڑی ہوئی بات کو آسانی سے ردّ بھی نہیں کیا جا سکتا کہ وہ تو ہمارے محاورہ کا حصّہ بن جاتی ہے اور جیسا کہ روز اشارہ کیا گیا ہے جو محاورہ میں آئی ہوئی بات اس کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ وہ ہماری سائکی میں اتر گئی ہے نفسیات کا جُز بن گئی وہ تاریخ نہیں ہے افسانہ ہے لیکن سماجی سچائی کا حصّہ ہے۔

رس مارے رسائن ہو

"رس" کا لفظ ہندی میں بہت بامعنی لفظ ہے اس کے معنی"لطف و لذت" کے بھی ہیں جذبہ و احساس کے بھی، مشروبات (پینے) کی چیز میں اور مسموعات میں بھی یعنی جو ہم سنتے ہیں جیسے کانوں میں"رس گھولنا" رسیلی آواز" رس بھرا لہجہ" ایسا پھل جس کا عرق میٹھا اور خوش ذائقہ ہوتا ہے وہ بھی رسال رسیلا اور رس بھرا کہلاتا ہے۔ "رس بھری" ہمارے یہاں ایک پھل بھی ہے۔

ہندی میں مختلف جذبوں کو"رس" کہتے ہیں جیسے ہاسیہ سے ہاسیہ رس، ویر رس شر نگار رس یہاں اس محاورے میں"رس" کورساس کہا گیا ہے رسائن کے معنی ہیں۔

دوا علاج کی غرض سے کھِلائی پلائی جانے والی اشیاء اِس محاورے کے معنی ہوئے کہ اگر وہ رس کا چھینٹا مار دے اچھی بات کہہ دے تو جی خوش ہو جائے اور ایسا محسوس ہو جیسے کسی دُکھ درد کی دوا مل گئی یہ خالص ہندوی محاورہ ہے اُردو میں مستعمل نہیں مگر بہت اچھا ہے۔

رسّی جل گئی پربل نہیں جلا، یا رسّی جل گئی پربل نہیں نکلا(گیا)

ایک اہم سماجی محاورہ ے"رسی" ایسے میٹریل سے بنائی جاتی ہے جو گل بھی جاتا ہے اور جل بھی جاتا ہے لوہے کی رسیّوں کا تصور پہلے زمانہ میں نہیں تھا وہ اب کی بات ہے ایسی صورت میں اگر رسّی جل بھی جاتی تھی تو اس کے بل راکھ میں بھی نظر آتے تھے۔ اس مشاہدہ سے یہ محاورہ اخذ کیا گیا کہ رسی جل گئی مگر بل نہیں گئے۔ اور اس کا اطلاق ایسے موقعوں پر ہوتا ہے جب آدمی دولت مند نہیں رہتا یا با اقتدار نہیں رہتا مگر اس کے ناز نخرے یا ادب و آداب کو پسند کرنے کا طریقہ وہی رہتا ہے تو یہ کہا جاتا ہے کہ رسی جل گئی مگر بل نہیں گئے طور طریقے وہی رہے جو نوابی کے زمانہ کے تھے یا افسری کے زمانہ کے تھے۔

رفوچکر ہونا

لفظی اعتبار سے غیر معمولی محاورہ ہے کہ رفو اور شئے ہے چکر کچھ اور رفو کا چکر سے کوئی تعلق نہیں جب کہ اُن دونوں سے جو محاورہ بنا ہے اس کے معنی غائب ہو جانے کے ہیں اور عام طور سے استعمال ہوتا ہے جہاں کسی آدمی سے متعلق کوئی کام کیا جا تا ہے اور وہ اس سے پہلوتہی کرتا ہے۔ اور وہاں سے غائب ہو جاتا ہے تو اُسے رفو چکر ہونا کہتے ہیں یعنی کسی ذمہ داری سے بچنا اور غیر ذمہ داری کے ساتھ نکل جانا۔

رکابی مذہب ہونا

رکابی کھانے کی پلیٹ کو کہتے ہیں اور پلیٹ میں کھانا کھانا بڑی بات سمجھا جاتا تھا عام طور پر غریب آدمیوں میں یہ دستور تھا کہ ایک ہی برتن میں سب کھاتے تھے یا پھر روٹی پر رکھ کر کھاتے تھے اب جن لوگوں کے یہاں رکابی میں رکھ کر کھانے کا رواج ہوتا تھا اور اچھے لوگ سمجھے جاتے تھے ان سے لوگ قریب آتے تھے اور اُن کی خوشامدیں طرح طرح سے کرتے تھے ایسے ہی لوگ خوشامد ی نہ کہلا کر رکابیہ مذہب کہلاتے تھے یعنی ان کا مقصد خوشامد ہے اور اس خوشامد کے طور پر یہ ان کے مذہب کی بھی تعریف کرنے لگیں گے۔

اس صورتِ حال سے یہ پتہ چلتا ہے کہ ہمارے سماج میں لوگ مذہب کی بھی کوئی خاص اہمیت نہیں سمجھتے تھے بلکہ جیسا موقع ہوتا تھا اس کے مطابق مذہب اختیار کر لیتے تھے۔

اُردو میں ایک دوسری کہاوت ہے جو اِسی مفہوم کی طرف اشارہ کرتی ہے"جہاں دیکھا توا برات وہیں گزاری ساری رات" یعنی جہاں اپنا کام بنتا دیکھا وہیں کے ہو رہے اور انہی کی سی بات کرنی شروع کر دی۔

رگ پٹھے سے واقف ہونا، رگ و ریشہ میں پڑنا

یہ محاورہ حکیموں یا پہلوانوں کا ہونا چاہیے۔ اس لئے کہ رگ پٹھوں سے واقف ہونا انہی کا پیشے کا تقاضہ ہے۔ لیکن ہماری سماجی زندگی میں بھی یہ محاورہ داخل ہے اور اس سے یہ ظاہر کرنا مقصود ہوتا ہے کہ میں ان سے اچھی طرح واقف ہوں۔ خوب جانتا ہوں۔ آدمی اپنے آپ کو طرح طرح کے نقابوں میں چھُپانا چاہتا ہے اسی کا جواب سماج کے دوسرے افراد کی طرف سے یہ آتا ہے کہ وہ ہم سے نہیں چھُپ سکتے۔ داغ کا مصرعہ ہے۔

وہ ہم سے بھی چھپیں گے وہ کہاں کے ایسے ہیں

اور اسی لئے لوگ یہ کہتے نظر آتے ہیں کہ ہم تو ان کے رگ و ریشے سے یا رگ پٹھوں سے واقف ہیں یعنی ایک ایک بھید جانتے ہیں۔

اگر دیکھا جائے تو شخصی، جماعتی یا خاندانی راز چھُپائے جاتے ہیں۔ مصلحتیں اسی میں ہوتی ہیں مگر عزیزوں رشتے داروں ملنے جلنے والوں یہاں تک کہ پاس پڑوس والوں کی یہ خوشی اور خواہش رہتی ہے کہ وہ ایک ایک بات کو جانیں یہ ہمارا معاشرتی انداز نظر ہے ایک حد تک اور خاص خاص موقعوں پر یہ ضروری بھی ہو سکتا ہے لیکن معاشرہ میں اس رو یہ کی عمومیت اچھی بات نہیں ہوتی۔

رنگ چڑھنا، رنگ جمنا یا جمانا، رنگ دیکھنا رنگ پھیکا پڑنا، وغیرہ

رنگ ہمارا ایک تہذیبی لفظ ہے مختلف تہذیبی رویوں کے ساتھ رنگ وابستہ بھی ہوتے ہیں۔ رنگوں کا احساس اور اُس کا الگ الگ ہونا فطرت کی دین ہے جنگلوں کا رنگ پھولوں پھلوں کا رنگ پتھروں اور پانیوں کا رنگ ہمیں قدرت کی رنگا رنگی کا احساس دلاتا ہے رنگ بکھرنا رنگ پھیلنا رنگ اڑنا رنگ پھیکا پڑنا جیسے محاورے رنگ ہی سے وابستہ ہیں بعض محاورے ہماری معاشرتی زندگی اور اُس کے ذہنی رویوں کی طرف بھی اشارہ کرتے ہیں۔

رنگ جمانا ایسا ہی ایک محاورہ ہے کہ دوسروں میں اپنی کوشش خواہش اور عمل سے اپنے بارے میں ایک احساس پیدا کرنا۔ رنگ جمنا بھی اسی صورت کی طرف اشارہ کرتا ہے اور"رنگ پھیکا پڑنا" بھی اور یہ بھی کہ ہم نے یہ رنگ بھی دیکھے ہیں یعنی ان کے یاکسی کے بارے میں ہماری نظر میں یہ سب باتیں بھی ہیں اُردو کا مشہور مصرعہ ہے"رنگ کے بدل" جانے کی طرف اشارہ کرتا ہے۔

بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے

اس کا پہلا مصرعہ ہے۔

زمینِ چمن گل کھلاتی ہے کیا کیا

یعنی زمانہ میں کیا کیا انقلاب ہوتے ہیں اور زندگی میں کیا کیا رنگ دیکھنے پڑتے ہیں۔ کن کن حالات سے گزرنا ہوتا ہے۔

رنگ رلیاں منانا، رنگیں مزاج ہونا

ہم رنگیں طبیعت بھی کہتے ہیں مزاج بھی کہتے ہیں رنگین مزاج بھی اور اُس سے مراد شوقین مزاج لیتے ہیں زندگی گزارنے کے کچھ مختلف طریقہ ہیں۔ سنجیدہ مزاج لوگوں کے کچھ اور طریقہ ہوتے ہیں شوقین مزاج لوگوں کے کچھ اور وسائل کا فرق اس میں بہت کچھ دخل رکھتا ہے۔ مال دار لوگ یا جاگیردار اور زمین دار خاندانوں کے افراد اکثر عیش اور مزے اڑاتے ہوئے دیکھے جاتے ہیں اسی کو"رنگ رلیاں منانا" کہتے ہیں اب اس میں جاگیریں جائدادیں تباہ ہو جاتی ہیں خاندان مفلس ہو جاتے ہیں یہ ایک الگ بات ہے اور اس پر غیر سنجیدہ افراد اور امیر زادے کوئی توجہ نہیں دیتے کہ کل کو کیا ہو گا۔

اِس سے ہم اپنے معاشرتی رویوں کا پتہ چلا سکتے ہیں کہ زندگیاں کیسے گزاری جاتی ہیں اور ان سے اچھے بُرے نتیجے کیا نکلتے ہیں۔

رُوح بھٹکنا، رُوح تھرانا یا کانپنا، رُوح نکالنا، رُوح نکلنا وغیرہ

"رُوح" ہمارے جسم میں وہ جوہر یاقوّت ہے جو بھیدوں بھری ہے وہ کیا ہے اور کیا نہیں ہے یہ کوئی نہیں جانتا مگر اسی کے سہارے ہم زندہ رہتے ہیں اور اسی کے تقاضہ ہمیں اپنی مادّی ضرورتوں سے اوپر اٹھاتے ہیں ہماری ایک انسانی اور رُوحانی اخلاقی اور مذہبی سوچ بنتی ہے جس سے نسبت کے ساتھ ہم اُسے روحانی طریقہ فکر کہتے ہیں۔

ہمارا خوف دہشت تکلیف اور راحت سب رُوح کے ساتھ ہے رُوح بدن سے نکل گئی تو نہ کچھ تکلیف ہے نہ راحت ہے نہ زندگی ہے نہ قیام ہے نہ بقا ہے اسی لئے کہا جاتا ہے کہ ہمارا بدن یا جسم ناشور ہے (فنا ہونے والا ہے) اور باقی رہنے والی رُوح ہے جو نہ کٹ سکتی ہے نہ گُل سکتی ہے۔ اسی سے ہمارے بہت سے محاورے بنے ہیں۔

رُوح کے بھٹکنے کے معنی ہیں کہ انسان کا ذہن بھٹک رہا ہے اُس کو سکون نہیں مل رہا ا س سے ایک خیال یہ بھی پیدا ہوا ہے کہ مرنے کے بعد انسان کی روح بھٹکتی ہے مسلمان یہ سمجھتے ہیں کہ وہ جنت یا دوزخ یا اعراف میں چلی جاتی ہے تصورات ہیں جو اعتقاد ات میں بدل گئے مگر اس میں کوئی شک نہیں کہ روح کا ہم سے تعلق ہمارے بدن اور ہماری زندگی کے معاملات سے اس کا رشتہ انسانی نفسیات کا اور اُس سے آگے بڑھ کر سماجیات کا ایک گہرا رشتہ ہے جس کی طرف مذکورہ محاورات اشارہ کرتے ہیں روح تھرّانا انتہائی خوفزدگی ہے سراسیمگی اور پریشانی کا عالم ہے۔

روغنِ قاز ملنا

روغنِ قاز ملنا ایک عجیب و غریب محاورہ ہے"قاز" جیسا کہ ہم جانتے ہیں ایک آبی پرندہ ہے۔ ایک خاص موسم میں اُڑ کر اِدھر آتا ہے اور پھر واپس چلا جاتا ہے۔ اِس کا روغن ایک فرضی بات معلوم ہوتی ہے خاص طور پر اس لئے کہ کہ روغنِ قاز ملنا ایک محاورہ بن گیا ہے اور اس کے معنی ہیں جھوٹ سچ بول کر یا خوشامد کر کے دوسروں کو بیوقوف بنانا اور یہی صورت حال ہمارے سماجی رویوں کی طرف اشارہ کرتی ہے۔

رونگٹے یا روئیں کھڑے ہونا، رُونگ رُونگ میں بسنا، رونمائی دینا، روتی صورت یا شکل رومال پر رومال بھگونا

بعض محاورے سماجی زندگی سے اتنا تعلق نہیں رکھتے جتنا ان کا رشتہ ہمارے شاعرانہ طرز فکر سے ہوتا ہے رونگٹے کھڑے ہونا سنسنی خیز ہونے کی ایک صورت ہوتی ہے جو ایسی باتوں کو سن کر جو انتہائی دکھ درد والی ہوتی ہیں ہم جذباتی طور پر محسوس کرتے ہیں۔ جیسے اُن کے مظالم کی کہانیاں سن کر رونگٹے کھڑے ہوتے ہیں۔ یا روم روم میں سنایا مرا رونگٹا رونگٹا میرا حسان مند ہے یا اس طرح کے محاورے شاعرانہ حیثیت کے آئینہ دار ہوتے ہیں۔ اور تشبیہہ و استعارہ کی مبالغہ آمیز صورت کو پیش کرتے ہیں جیسے میری آنکھیں نمک کی ڈلیاں بنی رہیں۔ یا آگ کھائے گا انگارے اُگلے گا یہ ایک طرح کی شاعری ہے عمل ہے اور اس معنی میں محاورہ معاشرت کے اس تہذیبی پہلو سے رشتہ رکھتا ہے جس کا تعلق ہماری شعر و شعور سے ہے رُونمائی دینا رسم ہے"دلہن کو منہ دکھائی دی جاتی ہے" اور دولہا کو سلامی اس طرح کے محاورے اور بھی ہیں جس کا تعلق بڑی حد تک ہماری سوچ سے ہے طرز اظہار سے ہے۔ تشبیہوں استعاروں سے ہے سماج کے کسی رو یہ پر روشنی ڈالنے سے نسبتاً کم ہے جو ہمارے لئے قابلِ گرفت یا لائقِ اعتراض ہوتا ہے۔ "روتی صورت" یا مشکل بھی ایسے ہی محاوروں میں ہے رومال پر رومال بھگونا یعنی بہت رُونا ہے یہ ایک شاعرانہ اندازِ بیان بھی ہے۔ اور ایک صورتِ حال کی طرف اشارہ بھی ہے۔

ریت بِلونا، ریت کی دیوار کھڑی کرنا

ریت ایک طرح کی شاعری ہے اس لئے کہ ریت جمتا نہیں ہے۔ بکھرتا رہتا ہے ریت کی دیوار کھڑی ہوہی نہیں سکتی اِس سے مراد ایک بے تکی اور بے بنیاد بات کو اٹھانا اور اس پر زور دینا ریت کی دیوار کھڑی کرنا ہے۔

ریت پانی نہیں ہوتا پانی کو بھی"بلونے" سے کوئی فائدہ نہیں کہ جتنا چاہے پانی کو بلو نے کا عمل کرو نتیجہ کچھ نہیں۔ دیوتاؤں نے سات سمندروں کو"بلو کر" بھلے ہی اَمرت نکالا ہو آدمی تو نہیں نکال سکتا چہ جائیکہ ریت کو"بلویا" جائے۔ سوائے دھُول اٹھنے یا دھول اڑنے کے کوئی نتیجہ نہیں ہو گا اسی بے نتیجہ بات کی طرف اس محاورے میں اشارہ کیا گیا ہے۔

سماج کا رو یہ یہاں بھی پیشِ نظر رہا ہے کہ لوگ بے تُکی باتیں کرتے ہیں اور یہ نہیں دیکھتے کہ جو کچھ وہ کہہ رہے ہیں یا کر رہے ہیں اُس کے کچھ معنی بھی ہیں یا نہیں۔

اگر ہم محاورات پر نظر ڈالیں اور اُن کے معنی کو زندگی کے مسائل و معاملات سے جوڑ کر دیکھیں توہم بہت کچھ نتائج اخذ کر سکتے ہیں۔ ریت کے ساتھ اور بھی محاورے ہیں جیسے" ریت مٹی ہونا" ریت کی طرح بکھرنا ریت کو مٹھی میں تھامنا اب یہ ظاہر ہے کہ زندگی کے تجربہ ہیں روزمرہ کے مشاہدہ ہیں کہ انسان کے نیک اعمال بھی اچھے کام بھی گاہ گاہ بُرے نتائج پیدا کرتے ہیں اس میں تقدیر کو بھی دخل ہو سکتا ہے اور تدبیر کو بھی سُوجھ بُوجھ کو بھی نہ سمجھی کو بھی جسے بے تدبیری کہنا چاہیے۔

ریوڑی کے پھیر میں آ جانا

"ریوڑی" تل اور شکر سے بنی ہوئی ایک مٹھائی ہے اس کے لئے شکر کا قوام تیا ر کرنا اور پھر اسے ایک خاص ترکیب اور عمل کے ذریعہ اس مرحلہ تک لانا جہاں اس سے ریوڑیاں بن جائیں ایک محنت طلب اور دشوار مرحلہ ہوتا ہے جن لوگوں نے شکر کے قوام سے"ریوڑیاں" بنتی دیکھی ہیں وہ اُس بات کے معنی سمجھ سکتے ہیں کہ" ریوڑی" کے پھیر میں پڑنا کس طرح کے پیچیدہ عمل سے گزرنا ہے جس کو سب سمجھ بھی نہیں سکتے عام طور پر دشوار عمل کو اِس محاورے سے تعبیر کرتے ہیں کہ وہ تو آج کل ریوڑی کے پھیر میں پڑا ہوا ہے۔

ریشم کے لچھے

"ریشم کے لچھے" ایک خاص طرح کا شاعرانہ انداز ہے ریشم خوبصورت پُرکشش نرم اور گُداز شے ہے خوبصورت بالوں کو بھی ریشم کے لچھے کہتے ہیں اور اسی طرح سے خوبصورت باتوں کو بھی اگر ہم اس سچائی کو سامنے رکھیں تو یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ محاورے ہمارا شعور بھی ہیں اور ان کا تعلق شعریت سے بھی ہے کہ محاوروں میں تشبیہہ استعارہ اور کنایہ جو کام کرتے ہیں اُن کا تعلق گاہ گاہ ہماری شعری حیثیت سے ہوتا ہے۔