اردو محاورات کا تہذیبی مطالعہ

اردو محاورات کا تہذیبی مطالعہ0%

اردو محاورات کا تہذیبی مطالعہ مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب

اردو محاورات کا تہذیبی مطالعہ

مؤلف: ڈاکٹر عشرت جہاں ہاشمی
زمرہ جات:

مشاہدے: 79971
ڈاؤنلوڈ: 4143

تبصرے:

اردو محاورات کا تہذیبی مطالعہ
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 81 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 79971 / ڈاؤنلوڈ: 4143
سائز سائز سائز
اردو محاورات کا تہذیبی مطالعہ

اردو محاورات کا تہذیبی مطالعہ

مؤلف:
اردو

ردیف "س"

سات پردوں، یا سات تالوں میں چھُپا کر رکھنا، سات دھار ہو کر نکلنا

سات کا عدد ہماری تہذیبی زندگی اور تاریخی حوالوں میں خاص اہمیت رکھتا ہے اس میں مذہبی حوالہ بھی شامل ہیں۔ ہم سات آسمان کہتے ہیں سات بہشتیں کہتے ہیں۔ سات سمندر کہتے ہیں قوسِ قزح (دھنک) کے سات رنگ کہتے ہیں۔ سات ستارے کہتے ہیں یہ سب گویا ہماری سماجی فِکر کا حصہ ہیں اِس کو اگر ہم محاورات میں دیکھتے ہیں تو ہمیں اس کا مزید احساس ہوتا ہے کہ سماجی زندگی سے سات کا عدد کس طرح جڑا ہوا ہے کوئی چیز تالوں میں بند کی جاتی ہے تو ایک سے زیادہ تالے لگائے جاتے ہیں کہتے ہیں لیکن محاورے کے طور پر سات تالوں میں بند کرنا کہتے ہیں اور اس طرح کہتے ہیں اور اس طرح پردوں کے ساتھ سات پردے کہتے ہیں۔ مقصد تاکید اور زیادہ سے زیادہ توجہ کی طرف ذہن کو منتقل کرانا ہوتا ہے اور اُس سے سماجی فکر کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے۔

جب کوئی بات ہماری نفسیات کا جُز بن جاتی ہے تو وہ ہمارے لسانی حوالوں میں آتی رہتی ہے اور اُس کے محاوروں میں شامل ہونے کے یہ معنی ہیں کہ وہ ہماری نفسیات میں گہرا دخل رکھتی ہے اصل میں لٹریچر کا مطالعہ سماجی نقطہ نظر سے یا ایک معاشرتی ڈکشنری کے طوپر نہیں ہوتا ورنہ محاورہ صرف زبان کا اچھا قدیم رو یہ نہیں ہے جو فرسودہ ہو چکا ہو یہ صحیح ہے کہ ہم شہری زبان میں اب محاورے کو زیادہ اہمیت نہیں دیتے قصباتی اور طبقاتی زبان میں ضرور محاورے کی اہمیت ہے لیکن محاورہ سماج کو سمجھنے کے لئے اور مختلف سطح پر محاورے استعمال اس کے رواج اور سماج سے اس کے رشتہ کے بارے میں جتنی معلومات ہمیں محاوروں سے ہو سکتی ہے وہ شاید لٹریچر کے کسی دوسرے لسانی پہلو اور ادبی رو یہ سے نہیں ہو سکتی۔

سات دھار ہو کر نکلنا یہ ایک اہم بات ہے اور اس طرف اشارہ کرتا ہے کہ ہم بہت سے اُمور کو سات کے دائرے میں لا لا کر رکھنا زیادہ پسند کرتے ہیں زیادہ تر چشمے ایک دھارے میں پھوٹتے ہیں یا ایک سے زیادہ دھاروں میں مگر سات دھارے ہمارے روایتی اندازِ فکر کو ظاہر کرتے ہیں اس لئے کہ دھاروں کے ساتھ سات کا عدد ضروری نہیں ہے۔ لیکن تہذیبی نقطہ نظر سے سات دھاروں کا تصور بڑی اہمیت رکھتا ہے۔

ساز باز کرنا

ساز کا لفظ فارسی ہے"ساز" کسی بھی آلہ موسیقی کو کہہ سکتے ہیں"باز" کے معنی ہیں کھولنا یا دوبارہ حاصل ہونا جیسے"باز یافت" اسی معنی میں دوبارہ پا جانے کے عمل کو کہتے ہیں۔ "ساز" کسی لفظ کے ساتھ مِلا کر اِسم فاعل بھی بناتے ہیں جیسے گھڑی ساز، سُمن ساز، تاریخ ساز یہ فارسی زبان کے اردُو پر اثرات کی نمائندگی کرتا ہے اسی طرح"باز" کا لفظ بھی جب کسی لفظ کے ساتھ ملا دیا جاتا ہے تو اسم فاعل بن جاتا ہے جیسے"پٹہ باز"""بلَّے باز" یہاں تک کہ"تگڑم باز" اب یہ عجیب اتفاق ہے کہ اِن دو لفظوں کو ملا کر ایک نئے معنی نکالے گئے یعنی"سازش" کہ اِس نے اِس معاملہ میں دوست یا دشمن کے ساتھ ساز باز کر لی۔ اِس اعتبار سے یہ ہماری سماجی زندگی سے گہرا رشتہ رکھنے والا ایک محاورہ بن جاتا ہے۔

لفظوں کا معاملہ عجیب ہے یہ طرح طرح کے معنی دیتے ہیں بعض معنی ذہن کو علمی بڑائی اور ادبی خوبصورتی کی طرف لے جاتے ہیں اور بعض سماج کی ذہنی اور عملی بدصورتیوں کو ظاہر کرتے ہیں الفاظ وہی ہوتے ہیں۔ لیکن معنی میں زمین آسمان کا فرق پیدا ہو جاتا ہے اور یہی زبان کا سماجی استعمال ہے۔ Connotation of the Words یعنی الفاظ کے باہمی رشتے اور معنیاتی سلسلے محاورات کو اور عام زبان کے ساتھ اُن کے رشتوں کو سمجھنے میں یہ صورت حال بہت مدد دیتی ہے۔ اور اس سے کسی زبان کے سماجی کردار کو اچھی طرح سمجھا جا سکتا ہے۔

ساکھ جاتی رہنا یا ساکھ بننا

ساکھ ہماری زبان کے اہم سماجی الفاظ میں سے ہے اور اِس کے معنی ہیں اعتبار، اعتبار سیاسی بھی ہوتا ہے اور سماجی بھی علمی بھی ہوتا اور کاروباری بھی ہم تحریروں سے زیادہ زبان پر اعتبار کو ضروری خیال کرتے ہیں اور اُس پر اعتماد کرتے ہیں اسی کو" ساکھ بننا"کہتے ہیں ساکھ باقی رہنا کہتے ہیں" اور اگر یہ اعتبار ختم ہو جاتا ہے چاہے ایک فرد پر سے ختم ہو چاہے ایک جماعت پر سے یا دکان اور ادارے سے بہرحال ساکھ باقی رہنا بڑی بات ہے اور سماجی نقطہ نظر سے اس محاورے کو سماجی رشتوں کے ساتھ جوڑ کر اگر دیکھا جائے تو اُس کے معنی غیر معمولی طور پر اہم ہو جاتے ہیں۔ ساکھ جاتی رہنے کو بھی اسی روشنی میں دیکھا جانا چاہیے۔

سانپ سُونگھ جانا، سانپ کا کاٹا رسی سے ڈرتا ہے، چھاچھ کو پھُونک پھُونک کر پیتا ہے، سانپ مرے نہ لاٹھی ٹوٹے، سانپ کی طرح پھن مار کر رہ جانا، سانپ نکل گیا لکیر کو پیٹا کرو۔

سانپ جس کی بہت سی قسمیں اور نسلیں ہیں ہماری زندگی کا کئی اعتبار سے ایک اہم حوالہ ہے۔ وہ جانداروں میں سب سے زیادہ زہریلا ہوتا ہے اور اُس کے کاٹے کا مشکل ہی سے علاج ہوتا ہے۔ سانپ" گُل کنڈے" کھا کر اپنے آپ کو سمیٹ لیتا ہے اور دُم کو اپنے منہ میں لے لیتا ہے یہ گویا ابتدا کو انتہا سے ملانا ہے وہ بغیر پیروں کے دوڑ سکتا ہے یہ ایک عجیب و غریب صفت ہے وہ اپنے سہارے پر سیدھا کھڑا ہو جاتا ہے۔ اس طرح کی کچھ خو بیاں ہیں جو سانپ کے کردار میں شامل ہیں مثلاً"کالا سانپ"، "بین پر رقص کرتا" ہے اور اس کی آواز پر کھنچا چلا آتا ہے سانپ کی آنکھوں میں غیر معمولی کشش ہوتی ہے۔

سانپ سے متعلق بہت سے محاورے ہیں جو سماج کی روش و کشش کو ظاہر کرتے ہیں اور اس آئینہ میں ہم انسان کے کردار کو سمجھ سکتے ہیں کہ کس وقت اُس کا عمل اور رد عمل کیا ہوتا ہے اور اس کا ہمارے فکر و خیال سے سماجی طور پر کیا رشتہ بنتا ہے۔ مثلاً سانپ سونگھ جانا، مثلاً جب آدمی کسی بات کو سُن کر چُپ ہو جاتا ہے اور لاجواب ہونے کے عالم میں پہنچ جاتا ہے تو اسے سانپ سونگھنا کہتے ہیں جب کوئی موقع ہاتھ سے نکل جاتا ہے تو سانپ نکل جانا کہتے ہیں شاہ نصیر کا استادانہ شعر ہے۔

خیالِ زلفِ بُتاں میں نصیر پیٹا کر

گیا ہے سانپ نکل اب لکیر پیٹا کر

لکیر پیٹنا یوں بھی وقت گزر جانے پر کسی کام کو کرنا ہے جو بے سُود ہوتا ہے اور اُس سے کوئی نتیجہ نکلنے والا نہیں ہوتا سانپ مرے نہ لاٹھی ٹوٹے ایک بہت اہم بات ہے کہ دشمن کو آپ نقصان پہنچائے مگر خود نقصان میں نہ پڑیں اگر خود ہی نقصان میں پڑ گئے اور سانپ مارنے میں لاٹھی ٹوٹ گئی تو گویا خود ہی خطرے میں پڑ گئے اور نقصان اٹھا گئے۔

سانپ خاص طور پر کالا سانپ کاٹتا نہیں ہے صرف پھَن مار کر رہ جاتا ہے جہاں اُس کے سامنے کوئی چیز آئی اور اُس نے پھَن مارا جب کہ کاٹنے کے لئے پلٹنا ضروری ہے سانپ کے دانت سیدھے نہیں ہوتے وہ پلٹ کر ڈنک مارتا ہے اگر پلٹ نہیں سکتا تو ڈنک بھی نہیں مار سکتا اور جب وہ پھَن پھیلائے ہوتا ہے تو پلٹ نہیں سکتا اسی لئے کاٹ نہیں سکتا اور یہیں سے یہ محاورہ پیدا ہوا کہ وہ سانپ کی طرح پھَن مارتا ہے۔

سانس نہ نکالنا

سانس لینا زندگی کی سب سے اہم ضرورت ہے لیکن ایک وقت ایسا بھی ہوتا ہے کہ آدمی سانس بھی احتیاط سے لیتا ہے بلکہ نہیں لیتا میر کا شعر ہے۔ اس سلسلہ کے بہترین اشعار میں سے ہے۔

لے سانس بھی آہستہ کہ نازک ہے بہت کام

آفاق کی اِس کار گہہ شیشہ گری کا

سانس روکنا صوفیوں کا عمل بھی ہے جس کو وہ دمِ سادھنا بھی کہتے ہیں سانس نہ لے یہ بڑی دھمکی ہوتی ہے۔ جس کے لئے غالب نے شعر کہا تھا۔

دھمکی میں مرگیا جو نہ باب نبرد تھا

عِشق نبرد پیشہ طلب گارِ مرد تھا

یعنی جس میں ہمت نہیں ہوتی حوصلہ نہیں ہوتا وہ دھمکی میں مر جاتا ہے بلکہ دوسروں کی غضبناک نگاہوں کا مقابلہ بھی نہیں کر سکتا اور اُس کا سانس رک جاتا ہے اور کہتے بھی ہیں کہ دیکھو سانس مت نکالو۔

سایہ پڑ جانا

ہم سایہ کو بہت پُر اسرار اور بھید بھرا سمجھتے ہیں پرچھائیوں کو اِسی زُمرے میں رکھتے ہیں۔ اور کہتے ہیں کہ کس کی پرچھائی پڑ گئی سایہ ہو جانا جن بھُوتوں کا اثر ہو جانا ہے گلزارِ نسیم کا مصرعہ ہے۔

سایہ ہو تو دوڑ دھوپ کیجئے سایہ سر سے اٹھنا

یعنی اگر اوپَر کے پرایہ کا سایہ پڑ گیا ہے تو اس کو دور کرنے کی کوشش کی جائے۔ ہمارے یہاں توہم پرستی کہ ذیل میں جو باتیں آتی ہیں اُن میں سایہ پڑنا بھی ہے نظر لگنے سے سایہ پڑنے تک توہم پرستانہ خیالات کا ایک سلسلہ ہے جس میں لوگ عقیدہ رکھتے ہیں اور طرح طرح سے یہ باتیں سامنے آتی رہتی ہیں اور سماج کے مطالعہ میں مدد دیتی ہیں سایہ سر سے اٹھنا یتیم ہو جانا بزرگوں کی سرپرستی مہربانی اور عنایت کا۔

سب چیز کی لہر بہر ہے

اصل میں ہمارے معاشرے میں کمی بہت تھی غریب طبقہ کے پاس کچھ بھی نہیں ہوتا تھا۔ یہاں تک کہ گھڑے پر پیالہ بھی نہیں کئی محاورے اِس صورتِ حال کی طرف اشارہ کرتے ہیں جیسے میں نے روٹی پہ روٹی رکھ کے کھائی جس کا یہ مطلب ہے کہ بعض خاندانوں میں اتنی غربت ہوتی تھی کہ ایک ایک روٹی مشکل سے میسر آتی تھی اور روٹی پر روٹی رکھ کر کھانا تو معاشرتی طور پر خوش حال ہونا تھا سوکھے ٹکرے پانی میں بھگو کر کھانا بھی ہماری معاشرتی زندگی کا ایک حصّہ رہا ہے۔ روکھی روٹی کا ذکر اب تک آتا ہے سالن بھی مشکل سے میسر آتا تھا گھی، پیسے چُپڑی ہوئی روٹی کسی کسی کے حصّہ میں آتی ہو گی۔

دیہات کی ایک مثل ہے جاڑا لگے یا پالا لگٹے دم کھچڑی فَنڈوے کی روٹی گھی چپڑی یعنی دم کی ہوئی کھچڑی اور فنڈوے کی روٹی کے لئے ترستے تھے اور جن لوگوں کو گیہوں کی روٹی میسر نہیں آتی تھی وہ چنے جُوار باجرہ اور فنڈوے کی روٹی کھاتے تھے اور یہ آئیڈیل تھا کہ اگر وہ گھی چُپڑی روٹی ہو تو کیا کہنا لوگ یہ کہتے ہوئے سنے جاتے تھے سیاں (سوئیاں ) ہوں پر کھیلا (اکیلا) ہو۔ اب بھی کہتے ہیں کہ اُن کے حالات تو بہت اچھے ہیں پیسے میں پیسہ اور چیز میں چیز ہے یعنی پیسہ بھی پاس ہے اور ضرورت کی چیزیں بھی پہلے زمانہ میں نہ پیسہ ہوتا تھا نہ ضرورت کی چیزیں ہوتی تھیں۔

سُبکی ہونا

سبک ہلکے کو کہتے ہیں جیسے سُبک ناک نقشہ والی لیکن معاشرہ میں سُبکی ہونے کے معنی ایک سطح پر بے عزت ہونے کے ہیں اسی لئے کہتے ہیں کہ اُن کی سُبکی ہوئی۔ سُبکنا بچوں کے رونے کا ایک خاص انداز ہوتا ہے جسے سُبک سُبک کر رونا کہتے ہیں۔

سِتارہ چمکنا، ستارہ گردش میں ہونا۔ ستارہ پیشانی

ستارہ آسمان کے اُن ستاروں کو کہتے ہیں جو اپنی جگہ پر رہتے ہیں اِس کے مقابلہ میں"سیارہ" گھومنے والے سِتارے کو کہتے ہیں ہمارے معاشرے میں ستاروں سے قسمت کو وابستہ کیا جاتا ہے۔ اسی لئے قسمت کا ستارہ کہتے ہیں اور یہ بھی کہ اُس کی قسمت کا ستارہ چمک رہا ہے اور اُس کے مقابلہ میں یہ کہ اُس کی قسمت کا ستارہ گردش میں ہے خوش قسمت آدمی کی پیشانی کو بھی ستارہ پیشانی کہا جاتا ہے اِس لئے کہ ہمارا ایک معاشرتی تصور یہ بھی ہے کہ جو کچھ قسمت میں لکھا ہے وہ ہماری پیشانی میں منقش ہے۔ اسی لئے قسمت کی برائی کا ذکر کرتے ہوئے اپنی پیشانی کی طرف اشارہ کیا جاتا ہے ستارہ جبیں کے معنی بھی یہی ہیں کہ اس کی قسمت کا ستارہ چمک رہا ہے۔ ہم لڑکیوں کا نام مہہ جبیں رکھتے ہیں یعنی چاند جیسی پیشانی والی۔

ستّرا بہتّرا

عُمر کا حِساب اکثر ہمارے یہاں سماجیاتی فقروں میں لیا جاتا ہے یا اُس کی طرف اشارہ کیا جاتا ہے جیسے ستّرا بہتّرا یا ساٹھا پاٹھا جیسا کہ میر حسن نے لکھا ہے۔

برس پندرہ یا کہ چودہ کا سِن

جوانی کی راتیں مُرادوں کے دن

یا محاورے کے طور پر کہتے ہیں انیس بیس کا فرق چھٹے چھماس میں بھی عدد شامل ہے چھٹی کے دُودھ میں بھی اور چلّا چھٹی میں بھی شامل شمار موجود ہیں۔

سِتم توڑنا، ستم ٹوٹنا

سماج کے ظالمانہ رو یہ کی طرف اشارہ کرتا ہے اسی لئے ستم کرنے کو ستم توڑنا کہا جاتا ہے اس سے سماج کے محسوسات کا پتہ چلتا ہے وہ کس طرح اعمال کو دیکھتا اور اپنے محاورے کے اعتبار سے اس پر تبصرہ کرتا ہے۔

سِٹی گُم ہو جانا

حیرت یا خوف کی وجہ سے آدمی کا گُم سُم رہ جانا بول نہ سکنا محاورہ میں سِٹی گُم ہونا کہا جاتا ہے۔ محاورہ زبان میں جو تبدیلیاں کرتا ہے اور زبان کے استعمال کے سلسلہ میں جو نئے پہلو محاورے کے باعث پیدا ہوتے ہیں وہ سماجی لسانیات کے سلسلہ میں بڑی اہمیت رکھتے ہیں اور زبان کے سمجھنے کے معاملہ میں اس سے بڑی مدد ملتی ہے چُپ سادھنا اسی ذیل میں آتا ہے۔

سخت و سُست کہنا

ہمارا سماجی رو یہ گفتگو میں اکثر سامنے آتا ہے محبت کی زبان کچھ اور ہوتی ہے نفرت کی زبان کچھ اور اسی طرح طنز کی زبان اور تعریف کی زبان میں فرق ہوتا ہے۔ ناراضگی میں سخت و سُست کہا جاتا ہے اور خوشی میں اچھی اچھی باتیں کی جاتی ہیں اس سے لب و لہجہ بھی بدلتا ہے الفاظ میں بھی تبدیلی آتی ہے اور مغنیاتی سطح میں بھی اس پر غور نہیں کیا جاتا ورنہ سماج کے بہت سے ذہنی رو یہ زبان کے استعمال میں خود کو واضح کر دیتے ہیں۔ سخت و سُست کہنا بھی اسی سلسلہ گفتگو کا ایک خاص انداز ہے جس میں بُرا بھلا کہا جاتا ہے ڈرانا دھمکانا اس ذیل میں آتا ہے جو غصّہ کے عالم میں ہوتا ہے مگر ناراضگی کی ایک دوسری سطح ہے۔

سر آنکھوں چڑھنا، سر آنکھوں میں ہونا، سر آنکھوں سے آنا، سر آنکھوں پر رکھنا

سر ہمارے معاشرے میں احترام کی چیز ہے اسی لئے سر جھکانا، سر جھکنا، سر چھپانا ایسے کچھ محاورات ہیں جو سر سے تعلق رکھتے ہیں۔

سرکے ساتھ آنکھیں ہماری معاشرتی زندگی کی اعضائی علامتوں میں بڑی علامت ہے۔ آنکھوں سے لگانا آنکھیں دیکھنا آنکھ رکھنا آنکھوں سے آنکھوں پیار کرنا، آنکھوں میں رکھنا جیسے بہت سے محاورے آنکھوں ہی سے متعلق ہیں۔ بعض محاوروں میں سر آنکھیں ایک ساتھ آتے ہیں جیسے سر آنکھوں رکھنا جس کے معنی ہیں بہت احترام اور محبت سے رکھنا جیسے آپ کا خط آیا سر آنکھوں پر رکھا یا اُن کی بات تو سر آنکھوں پر رکھی جاتی ہے سر آنکھوں سے آنا یعنی بڑے احترام و عزت اور عقیدت کے ساتھ آنا اِس کے مقابلہ میں سرپر چڑھنا بے ادبی ہے اور بے ادبی کا یہ پہلو سر آنکھوں پر چڑھنے میں بھی موجود ہے۔

سرپر خاک ڈالنا، سر پر چھپَّڑ رکھنا

سرپر خاک ڈالنا انتہائی افسوس کی علامت ہے خاک مٹی کو کہتے ہیں دھول مٹی ایک عام ذہن کے لئے اس معنی میں قابلِ احترام نہیں ہے کہ وہ پیروں کے نیچے رہتی ہے روندی جاتی ہے اور ہوا کے ساتھ جب اڑتی ہے تو دوسری چیزوں پر بیٹھتی ہے اور انہیں میلا کرتی ہے دھُول سے اینٹھتی ہے اور گرد آلود کرتی ہے اسی لئے سرپر خاک ڈالنا اظہارِ ملال کرنا ہے۔

مٹھی بھر خاک بھی یہ کہیے کہ ایک بے قیمت شئے ہے اسی لئے مشت خاک بھی بے قیمت شے ہی کو کہتے ہیں سرپر رکھنا اپنی جگہ عزت دینے اور احترام پیش کرنے کو کہتے ہیں مگر سر پر چھپَّر رکھنے کے معنی ہیں ذمے داریوں سے دبا رہنا اور اُن کا بوجھ سرپر رکھا جانا زیادہ اولاد کی صورت میں بھی یہ محاورہ استعمال ہوتا ہے اور سماجی نقطہ نظر سے اس تصور کی بے حد اہمیت ہے کہ اس کے سرپر قرض یا فرائض کا چھپَّر رکھا ہوا ہے اب تو چھپَّر یا چھپریاں شہروں اور قصبوں میں کم دیکھنے میں آتی ہیں مگر کسی زمانہ میں تو غریبوں کے مکانوں میں چھت کی جگہ چھپریا چھپر یاں ہی ہوتی تھیں اور ان پر پھونس بھی نہیں ہوتا تھا۔ مندرجہ ذیل محاورات کو بھی اسی ذیل میں رکھنا چاہیے اور مختلف فکری زاویوں سے اُن کا مطالعہ کرنا چاہیے۔ جیسے"سرپر ہاتھ رکھنا"پرورش یا تربیت کرنا ہے سر سے سایہ اٹھ جانا بزرگوں کی محبت اور سرپرستی سے محروم ہونا ہے سرپر ناچنا ایک طرح سے بے عزتی کرنا ہے"سرپر ہاتھ دھر کر رونا"یا سر پکڑ کر رونا رنج و غم کا ایسے موقعوں پر غیر معمولی اظہار ہے جب آدمی کو کسی خاص معاملہ میں اپنی نارسائی اور ناکامی کا احساس بھی شدت سے شامل ہو سرپھرا ہونا، سر پھرنا، سر چکرانا جیسے محاورات بھی سر ہی سے متعلق ہیں اور ہماری سماجی زندگی سے گہرا رشتہ رکھتے ہیں سرپھرا ہونا غیر معمولی جوش و جذبہ رکھنا اسی لئے دوسروں کو ہم یہ کہتے ہوئے سنتے ہیں کہ ارے بھئی وہ تو سر پھرے آدمی ہیں عجیب و غریب انسان ہیں اُن کی سوچ دوسروں کو سماجی سوچ سے بہت مختلف ہے۔

اس میں ہم ان محاورات کو بھی شامل کر سکتے ہیں جیسے سر کھپانا، سر جوڑنا، سر جوڑ کے بیٹھنا، سر جھاڑ منہ پہاڑ، سر توڑ کوشش انتہائی کوشش کو کہتے ہیں جس میں آدمی اپنے سر پیر کا کچھ خیال نہیں رکھتا سر جھاڑ منہ پہاڑ ایسے شخص کو کہتے ہیں جو بے تکے انداز سے رہتا ہے کبھی بالوں میں کنگھا نہیں کرتا اپنے ہاتھ منہ کا خیال نہیں کرتا اور بے سر پیر کی بات کہتے ہیں"سر سے کھیلنا"اردُو کا مشہور محاورہ ہے جو کہاوت کا درجہ رکھتا ہے اثر کے تحت جھومنا بھی ہے اب تو نہیں مگر اب سے کچھ پہلے تک بعض عورتوں کے سرپر یہ کہا جاتا تھا کہ اُن کے سر ماموں اللہ بخش آتے ہیں اور تب ہی ان کا حال ہوتا ہے کہ اُن کے سامنے ڈومنیاں گیت گاتی ہیں اور وہ سر سے کھیلتی ہے۔

سر سفید ہونا سفید بال ہو جانا عام طور سے سفید بال ہونے کے معنی یہ ہوتے تھے کہ اس عورت یا مرد کی عمر کا فی ہو چکی ہے اور زیادہ عمر کے معنی ہیں زیادہ تجربہ اسی لئے یہ بھی کہا جا تا تھا کہ میں نے یہ بال دھوپ میں سفید نہیں کئے ہیں اس کے پیچھے میری عمر اور تجربہ موجود ہے۔

سر سنہرا ہونا جب کسی اچھے کام کی ذمہ داری کسی کے سر ہوتی ہے اور وہ اسے خوبصورتی سے انجام دیتا ہے تو یہ کہتے ہیں کہ اس کا سہرا اُس کے سر ہے۔ معنی اس سلسلہ میں کسی تعریف و تحسین عزت و عظمت کا سلسلہ میں مستحق فلاں شخص ہے۔ ویسے ایک کہاوت یہ بھی ہے کہ"سر بڑا سردار کا پیر بڑا گنوار کا" یعنی جو عقلمند با شعور اور خوش نصیب ہوتا ہے" اس کا سر بڑا ہوتا ہے" اور جو گاودی گنوار ہوتا ہے اُس کے پیر بڑے ہوتے ہیں۔

اعضائے جسمانی میں بہت سے عضو ایسے ہیں جو محاورات میں شامل ہیں اُس کے معنی یہ ہیں کہ ہم نے اپنے وجود کو یا انسانی وجود کے مختلف حصّوں کو اپنی سوچ میں شامل رکھا ہے اور ان کو اپنی سوچ کے مختلف مرحلوں اور تجربوں میں اظہار کا وسیلہ بنایا ہے اس میں گردن بھی ہے زبان بھی ہے ہاتھ پیر بھی ہیں اور تن پیٹ بھی ہے۔

سر سے چلنا، سرکے بل چلنا

سرکے بل چلنا بھی ان محُاورات میں ہے جو سماجی نفسیات کو پیش کرتے ہیں پیروں سے چلنا الگ بات ہے اور گھٹنوں سے چلنا ایک دوسری بات ہے جسے گُڈلیاں چلنا کہتے ہیں جو بچوں کے لئے ہوتا ہے مگر سر سے یا سرکے بل دینا ویسے تو عجیب سی بات ہے لیکن محاورے کے طور پر یہ انتہائی احترام کے لئے آتا ہے کہ میں تو سر کے بل چل کے وہاں آؤں گا یا جاؤں گا۔

سر سے کفن باندھنا

"سر سے کفن باندھنا" تہذیبی محاورات میں سے ہے اور اپنی معنویت کے لحاظ سے غیر معمولی ہے۔ بعض آدمیوں میں یا قوموں میں جان دینے کا جذبہ بہت شدت سے ہوتا ہے وہی یہ کہتے بھی ہیں کہ میں" سر سے کفن باندھے رہتا ہوں" یعنی ہر وقت جان دینے کے لئے تیار ہوں۔ غالب نے کہا ہے۔

آج واں سر سے کفن باندھے ہوئے جاتا ہوں میں

عذر میرے قتل کرنے میں وہ اب لائیں گے کیا

غالباً یہ دستور بھی رہا ہے کہ جو لوگ جہاد میں حصہ لیتے تھے وہ اپنے سر سے کفن باندھتے رہتے تھے تاکہ شہید ہونے کے بعد کسی کو اُس کے کفن دفن کی فکر نہ ہو۔

سر گریبان میں ڈالنا، سر در گریبان ہونا

یہ اُردو فارسی دونوں زبانوں میں بطورِ محاورہ آتا ہے یعنی سر جھکا کر سنجیدگی سے کسی بات کو لینا اور اپنی نارسائی یا غلطی کا اعتراف کرنا۔ سماج کے رویوں کا ہم محاورات میں جو مطالعہ کرتے ہیں اس کا اندازہ اس محاورے پر غور کرنے سے ہوتا ہے کہ ہم با اعتبار فرد یا با اعتبار جماعت دوسروں کے لئے یا پھر خود اپنے لئے کیا رو یہ اختیار کرتے ہیں سر گریبان میں ڈالنا اسی روش کی طرف اشارہ کرتا ہے۔

سر نیچا ہونا

یعنی جو آدمی بہت تکبّر کرتا ہے اور جس کی گردن گھمنڈ اور غرور کے ساتھ تنی رہتی ہے اس کو کبھی ذلیل بھی ہونا پڑتا ہے اسی کے لئے ہمارے یہاں محاورہ ہے غرور کا سر نیچا یعنی جو بہت گھمنڈ کرتا ہے وہی بہت بے عزت بھی ہوتا ہے۔

سسرال کا کُتا

"کُتا" ایک جانور ہے جو آدمی کا وفادار ہے اور اُس کی قبائلی زندگی سے لیکر مہذب شہری زندگی تک ایک وفادار پالتو جانور کی حیثیت سے اِس کے ساتھ رہا ہے۔ اس پر بھی مشرقی اقوام نے اس کو کوئی عزت نہیں دی اور اس کا ذکر ہمیشہ ذلت کے ساتھ آیا اس محاورے میں بھی ایسے کسی آدمی کی سماجی حیثیت کو برائی سے یاد کیا گیا ہے جو"جوائی" (داماد) کی حیثیت سے سُسرال میں جا کر پڑ جائے یا بھائی ہو کر اپنی بیوہ کے یہاں جا کر رہنے لگے۔ اسی کے لئے یہ کہاوت ہے کہ بہن کے گھر بھائی"کُتا" اور ساس کے گھر"جوائی" کتا۔

سنبھالا لینا

قوموں کے لئے بھی یہ کہا جا تا ہے کہ انہوں نے سنبھالا لیا یعنی زوال کی حالت میں ہوتے ہوئے بھی وہ کچھ سدھر گئیں یعنی ان کے حالات کچھ بہتر ہو گئے بیمار کا سنبھالا لینا وقتی طور پر ہی سہی صحت کا بہتر ہو جانا ہے۔ ذوق کا شعر ہے اور اس محاورے کے مختلف پہلوؤں کو ظاہر کرتا ہے۔

بیمارِ محبت نے لیا تیرے سنبھالا

لیکن وہ سنبھالے سے سنبھل جائے تو اچھا

اس میں سنبھلنا سنبھالنا اور سنبھالا لینا تینوں چاروں آ گئے۔ ۱۹۲۰ء ؁ کے قریب ترکی کو مرد بیمار کہا جا تا تھا سنبھالا لیتا ہے اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہمارے محاورے کس طرح ہماری زندگی ہماری تاریخ اور ہماری سماجی زبان کو پیش کرتے ہیں اور ایک حوالہ کا کام دیتے ہیں۔

سو جان سے عاشق ہونا، سو جان سے صدقے جانا، یا نثار ہونا یا نچھاور ہونا

ہمارے یہاں صدقے قربان ہونا محاورہ ہے صدقہ ایک مذہبی اصطلاح بھی ہے جس کے ساتھ صدقہ دینا آتا ہے یا صدقے کرنا آتا ہے یعنی کسی کی جان کی حفاظت یا مال کی حفاظت کے خیال سے خیرات کرنا۔ ہم اس عمل کو طرح طرح سے دہراتے ہیں مثلاً جب ڈومنیاں گاتی تھیں تو ان کو رواں پھیر کر کے روپے پیسے دیئے جاتے تھے وار پھیر اس شخص کے لئے ہوتی تھی جس کی جان کا صدقہ دینا منظور ہوتا تھا یہی صورت اس وقت ہوتی تھی جب بھنگنیں بدھاوا پیش کرتی تھیں یعنی مبارک باد کے لئے گانا اور ناچنا کسی کے ہاتھ سے فقیر کو پیسے دلوانا بھی صدقہ دینے یا صدقہ کرنے کے مفہوم میں شامل ہوتا تھا۔

قربان کرنا بھی اسی معنی میں آتا تھا دہلی میں اب بھی دستور ہے کہ اگر کوئی بیمار ہوتا ہے تو اس کے نام پر جانور قربان کیا جاتا ہے ہندوؤں میں دُودھ دریاؤں میں بہانہ یا تالابوں اور پوکھروں کے کناروں پر جانور ذبح کرنے کو صدقہ کے مفہوم میں شامل کرتے تھے اب بھی راجستھان میں ایسا ہوتا ہے بنگال میں" بھینا" قربان کیا جاتا ہے اِس کو بَلی چڑھانا کہتے ہیں۔

عربوں میں جس اوٹنی کو ایسے کسی مقصد کے لئے"نحر" کیا جتا تھا خاص طریقے سے کاٹنا تو بلیَّہ کہتے تھے انسان کی اپنی قربانی بھی دی جاتی تھی۔ قدیم قوموں میں اس کا دستور رہا ہے یہاں تک کہ چھوٹے چھوٹے بچے بھی قربان کئے جاتے تھے غلاموں اور باندیوں کے ساتھ تو یہ سلوک عام تھا اور اُن کی بوٹیاں کر کے چیلوں کوؤں کو کھلائی جاتی تھیں۔

ہمارے یہاں جس سے محبت کی جاتی ہے اُس پر اپنے آپ کو صدقہ و قربان کیا جاتا تھا۔ اور محاورے کے استعمال کے وقت سو جان سے صدقہ و قربان ہونے کی بات کی جاتی ہے۔

سُورج کو چراغ دِکھانا

سُورج ہماری دنیا کی سب سے روشن تابناک اور حرکت و حرارت سے بھری ایک قدرتی سچائی ہے نورانی وجود ہے اسی لئے اس کی پوجا کی جاتی ہے اور قدیم قوموں کے زمانے سے اب تک ہوتی رہی ہے چراغ اس کے مقابلے میں انسان کی اپنی ایجاد ہے جس کا سورج سے کوئی مقابلہ نہیں۔

سماجی طور پر جب کسی ادنی بات یا ادنی دلیل کو کسی بڑی بات یا بڑی دلیل کے مقابلہ میں سامنے لا یا جاتا ہے تو اس عمل کو سُورج کو چراغ دکھانا کہا جا تا ہے۔ گلزارِ نسیم میں ایک موقع پر یہی محاورہ آتا ہے۔

اُن کے آگے فروغ پانا

سورج کو چراغ ہے دکھانا

سُولی پر چڑھانا، سولی دینا

موت کی سزاؤں میں ایک سے ایک اذیت ناک سزا موجود ہے اُن میں پھانسی دینا گردن اُڑانا اور اندھے کنویں میں پھینک دینا نیز ہاتھی کے پیروں سے کچلوا دینا اور زندہ دیوار میں چُنوا دینا بھی ہے۔ "سُولی دینا" رومیوں کی طرف سے دی جانے والی سزا ہے حضرت عیسیٰ کو مشرقی رومی سلطنت کی طرف سے سُولی پر چڑھانے کی سزا دی گئی تھی اس سزا میں سولی یا صلیب پر آدمی کو لِٹا کر اس کے ہاتھ پیروں میں کیلیں ٹھوک دی جاتی تھیں اس کے سر سے کانٹے دار زنجیر باندھ دی جاتی تھی۔ اور اس طرح سے وہ آدمی سولی پر لٹکایا جاتا تھا جس کو موت کی سزا دینی ہوتی تھی۔

اردُو میں حضرت عیسیٰ کے اِس المناک انجام کے ساتھ وابستہ خیال ہی سولی دینے کے محاورے کو بامعنی بناتا ہے یعنی اذیت ناک سزا دینا سخت نقصان پہنچانا ہم محاوروں کی تاریخ پر بھی اگر غور کریں تو بہت سے محاورے یہ بتلاتے ہیں کہ وہ کب رائج ہوئے کیوں رائج ہوئے مغربی قوموں کو جو بیشتر عیسائی تھیں ہندوستان آنے کے بعد اس محاورے کے مروج ہونے کا زیادہ امکان ہے اور مروج ہونا رواج پانے کو کہتے ہیں۔

سونے کا نوالہ کھانا، سونے میں لدی پھندی ہونا

سونا ہمارے ہاں کا اور پوری دنیا کا سب سے قیمتی دھات ہے اسی لئے سونے کو بے حد پسند کیا جاتا ہے اور عورتیں سونے کا زیور پہن کر بہت خوش ہوتی ہیں اور اس پر دوسرے رشک کرتے ہیں اسی لئے کہا جاتا ہے کہ وہ"سونے میں لدی پھندی" رہتی ہیں یا یہ محاورہ کہ سونے کا نوالہ کھائی سے دیکھے قہر کی نظر اس موقع پر"سینی"شیر پر کی نظر بھی کہتے ہیں۔

سونے کی چڑیا ہاتھ میں آنا یا ہاتھ لگ جانا، سونے کی ڈلی ہاتھ آنا

سونے کی چڑیا بہت قیمتی شے کو کہا جاتا ہے اور اگر وہ قیمتی شے یا خاندان یا زمین کسی کو مل جائے تو کہتے ہیں کہ سونے کی چڑیا ہاتھ لگ گئی اور اس سے پھر ایک مرتبہ یہ سوچا جا سکتا ہے کہ ہمارے معاشرے میں سونے کی کیا اہمیت ہے دولت کی دیوی یعنی لکشمی کی پوجا توکی جاتی ہے دولت کو بھی پوجا جاتا ہے اور خاص طور پر سونے کو یا روپیہ پیسے کو ایک محاورہ اور بھی ہے اب تک استعمال میں آتا رہا ہے۔

سونے کے سہرے بیاہ (شادی) ہو جس کے معنی ہیں کہ شادی تمہارے لئے خوشیوں کا باعث ہو اور جو دلہن گھر میں آئے وہ سونا جھونا لیکر آئے (یہاں جھونا کوئی دھات نہیں ہے بلکہ سونے کا قافیہ ہے جس کے اپنے الگ سے کوئی معنی نہیں ایسے کسی بھی لفظ کو تابع مُحمل کہتے ہیں۔ )"سونے کی کٹوری لئے بیٹھنا"۔ "سونے کی ڈلی ہاتھ آنا"، سونے کی کٹوری لئے بیٹھنا" جس آدمی کو کوئی ہنر ہاتھ آتا ہے اس کے لئے کہا جاتا ہے کہ وہ تو سونے کی ڈلی ہاتھ میں لئے بیٹھا ہے سونا اُچھالتے جانا بھی ایک محاورہ ہے۔ یعنی وہاں چور چکار اٹھائے گرے یا ڈکیتی کرنے والے بالکل نہیں ہے چاہے کوئی سونا اُچھالتے جائے یعنی کسی کی دولت یا مال کو کوئی خطرہ نہیں وہ پوری طرح حفظ و امان میں ہے۔

سنہرے حرفوں میں لکھنا یا سونے کے حروف میں لکھنا بھی سونے کی اہمیت یا قدر و قیمت کو ظاہر کرنے والا محاورہ ہے جس سے مُراد کوئی ایسا اہم قول ہے بات ہے یا حکیمانہ نکتہ ہے جس کو سونے کے حرفوں میں لکھا جانا چاہیے سونے کا ملمع ہونا یا کیا جانا کم قیمت دھات پر سونے کا ملمع کیا جا تا ہے یعنی اوپر سے وہ بالکل سونے کی چیز معلوم ہوتی ہے جبکہ وہ دراصل سونے کی چیز نہیں ہوتی بلکہ اس پر سونے کا پانی چڑھا ہوتا ہے جب کسی کو خوش حالی کی دعا دینی ہوتی ہے تو کہا جاتا ہے کہ تم سونے کی کٹوری میں پانی پیو سونے کے برتنوں میں کھانا کھاؤ۔

سُہاگ رات

سُہاگ یعنی شوہر کا ساتھ" عورت کے لئے بہت خوش قسمتی کی بات ہے اسی لئے دعا دی جاتی ہے کہ سہاگ رہے" ترا سائیں جیوے" تیرے سر والے کو اللہ رکھے۔ سسُرال میں گزاری جانے والی پہلی رات اس کے لئے سہاگ رات کہلاتی ہے اور اُس پر دولہا دلہن کو اور دونوں طرف کے سمندھانوں کو مبارک باد دی جاتی ہے اور اس میں کوئی شک نہیں کہ ہمارے سماجی رشتوں کا قیام اسی رشتہ سے وابستہ ہوتا ہے جس کی خوبصورت یاد اور نشانی سہاگ رات سے وابستہ ہوتی ہے۔

سُہاگ اترنا اس کے مقابلہ میں بہت بدقسمتی اور نحوست کی بات ہوتی ہے بعض قومیں سرکے بال اتروا دیتے ہیں رنگیں کپڑے چوڑیاں اور زیورات تو عام طور پر سُہاگ سے محروم ہونے کے بعد عورتیں اتار دیتی ہیں ایسے موقعوں پر جو ایک سُہاگن کے لئے جو سہاگ سے محروم ہو گئی ہو بہت ہی المناک بات ہوتی ہے یہی سہاگ اترنا بھی ہے۔

ہمارے یہاں عورتوں کو ایک دعا یہ بھی دی جاتی ہے جو ہمارے سماج کا آئیڈیل ہے کہ تم بوڑھی سہاگن ہو یعنی بڑھاپے تک سہاگ قائم رہے" سُہاگ" سے محروم قدیم قوموں میں اتنی بڑی بات سمجھی جا تی تھی کہ بیوہ ہو جانے والی عورت کو اس کے شوہر کے ساتھ زندہ دفن کر دیا جاتا تھا یا ستی کی رسم کے مطابق زندہ جلا دیا جاتا تھا مصر میں بادشاہوں کی موت کے بعد اس سے وابستہ بیویاں اور باندیاں زہر ملا کر ماردی جاتی تھیں۔

سیپی جیسا منہ نکلنا یا نکل آنا

کمزور ہو جانے کو کہتے ہیں جب آدمی کے چہرے پر ذرا بھی گوشت دکھائی نہ دے صرف کھال اور ہڈیاں رہ جائیں تو اس حالت کو سیپی جیسا منہ نکل آنا کہتے ہیں اس سے ہم اپنے سماج کی شاعرانہ روش کو سمجھ سکتے ہیں شاعر تو تشبیہیں اور استعارے پیدا کرتے ہی ہیں عام آدمی بھی اپنی بات کو سمجھنے اور سمجھانے کے لئے تشبیہات کا سہارا لیتا ہے سیپی سے دبلے پتلے منہ کو تشبیہہ دینا اسی فکری عمل کا نتیجہ ہے جس سے کسی معاشرے تہذیبی مزاج کو سمجھا جا سکتا ہے۔

سیج چڑھنا، شبِ زفاف

دراصل شادی شدہ ہونے کو کہتے ہیں شادی کے معنی ہیں عورت و مرد کے آپسی طور پر جنسی روابط جس کے لئے ایک شادی ہو جانے والے جوڑے کو ایک دوسرے کے ساتھ رہنے اور خلوت میں اظہارِ تعلق کرنے کا موقع مل جاتا ہے اسی لئے ان کی جائے ملاقات کو سیج چڑھنا کہتے ہیں یہ تعلق زندگی کا سب سے اہم رشتہ ہے کہ سارے واسطے اسی ایک تعلق کے مرکزی دائرے کے گرد گھومتے ہیں اگر سیج کا یہ رشتہ درمیان میں نہ ہو تو باقی رشتے بھی جو خون سے تعلق رکھتے ہیں اور نسل سے وابستہ ہیں باقی نہ رہیں اور قائم ہی نہ ہوں" شبِ زفاف" بھی جسے دلی والے" تخت کی رات" کہتے ہیں اسی ضمن میں آتا ہے مزید ملاحظہ ہو سہاگ رات۔

بعض الفاظ محاورے اور لفظی ترکیبیں اہلِ علم سے تعلق رکھتی ہیں بعض اہلِ ادب سے اور بہت سے لفظ طبقہ عوام سے۔

سیدھیاں چڑھنا

اس اعتبار سے ایک اہم محاورہ ہے کہ سیدھ اور سیدھی قدیم ہندو تہذیب کا ایک مقدس مرحلہ ہے یعنی گیان حاصل ہونا جب کہ یہاں بالکل اُس کے خلاف بات کہی گئی ہے اور اس سے سماج کے اُس رجحان کا پتہ چلتا ہے کہ سچائیاں اور اچھائیاں کس طرح اپنے معنی بدل دیتی ہیں اور بات کہیں سے کہیں پہنچ جاتی ہیں۔

"سیدھانا" یا سُدھانا ہماری زبان میں تربیت کرنے کے معنی میں آتا ہے اسی لئے کہتے ہیں کہ وہ سدھایا ہوا آدمی ہے یابندہ۔ ہندو کلچر میں سادھنا"دھیان" گیان کی ایک صورت ہے اسی لئے ایک خاص طبقہ کے لوگ"سادھو" کو کہتے ہیں جو ہندو کلچر میں ایک بہت اہم روحانی تربیت کی طرف اشارہ کرتا ہے مگر سیدھا کرنا ایک ٹیٹرھی میڑھی چیز کو یا بُرے کردار کو درُست کرنے کے لئے آتا ہے اور سدھّی کا مفہوم اُس سے غائب ہوتا ہے۔

سیدھی انگلیوں گھی نکالنا یا سیدھی انگلیوں گھی نہیں نکلتا ہے

محاورے کے ساتھ زندگی کا جو تجربہ شریک رہتا ہے محاورے میں اس کی طرف بھی اشارہ ہوتا ہے لیکن اُس کے ایک مرادی معنی بھی اُس میں لازمی طور پر شریک رہتے ہیں اُس کے بغیر محاورہ بنتا ہی نہیں یہاں بھی وہی صورت ہے کہ یہ ظاہر کرنا مقصود ہوتا ہے کہ وہ کچھ اس طرح کے لوگ ہیں یا ایسی عادتوں والا ایک شخص ہے کہ اس سے سیدھے سادھے طریقے پر کام نہیں لیا جا سکتا کوئی نہ کوئی تگڑم بازی یا مکاری اپنے عمل میں شامل کر کے کام نکالا جا سکتا ہے۔

اس سے ہم سماجی مطالعہ میں مدد لے سکتے ہیں کہ معاشرے کی صورت اور اس کا طریقہ رسائی کیا بنتا ہے؟ کیوں بنتا ہے اور اس کا اظہار کس طریقہ پر ہوتا ہے۔

دودھ نکالنا بغیر انگلیوں کو موڑے ہوئے ممکن نہیں ہوتا اور اگر سیدھی انگلیوں دُودھ نہیں نکل سکتا تو گھی کیسے نکل آئے گا وہ تو ایک پیچیدہ عمل ہے دودھ نکالو پھر گرم کرو اس کے بعد اس کو بلونے کے لئے خاص طرح کے برتن اور رہی کا استعمال کرو پھر کچا گھی نکلے گا اور اس میں سے گرم کر کے چھاچھ الگ کی جائے گی تب گھی نکلے گا تو سیدھی انگلیوں کہاں نکلا۔ دودھ نکالنے سے لیکر گھی نکالنے تک بہت سے مرحلوں سے گزرنا پڑتا ہے اسی لئے کہا جاتا ہے کہ اس کام کو کرنے یا اس مقصد کو حاصل کرنے کی غرض سے کئی مشکل ترکیبیں اختیار کرنی ہوں گی سیدھی انگلیوں گھی نہیں نکلتا۔

سیر کو سوا سیر موجود ہے

آدمی مکاریّ فریب زبردستی سے اپنا کام نکالنا چاہتا ہے اور یہ سمجھتا ہے کہ اس کا کوئی مقابلہ نہیں کر سکتا کہ اس کے پاس طاقت زیادہ ہے فریب کرنے یا فریب کی صلاحیت موجود ہے ایسی صورت میں یہ کہتے ہیں کہ اس ہوش میں نہ رہو سیر کو سوا سیر موجود ہے یعنی اگر تم بُرے ہو تو تم سے زیادہ اور بُرے موجود ہیں۔

بُرائی کو برائی سے ختم کرنے کا عمل بھی سماج کا ایک ایسا عمل ہے جس کے حوالہ سامنے آتے رہتے ہیں اور اس پہلو کو بھی فراموش نہیں کیا جا سکتا۔

سیلا کر کے کھانا

"سیلا" کے معنی ہیں بھیگا ہوا اسی لئے نم خوردہ شے کو" سیلا" کرنا یا ہونا کہتے ہیں غریب معاشرے میں کبھی کبھار ایسا بھی ہوتا ہے کہ سوکھے ٹکڑے پانی میں بھگو کر کھائے جاتے تھے اور نمک کی ڈلی ساتھ رکھی جاتی تھی"سیلے" کر کے کھانا غالباً اسی ضرورت کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ اس کو ٹھنڈا کر کے کھانا بھی کہا جاتا ہے مراد یہ ہے کہ بے صبرے پن کا اظہار نہ کرو گرم گرم کھانے سے منہ جلتا ہے۔ معدے کو نقصان پہنچتا ہے یہ تو ایک طبعی بات ہوئی لیکن تہذیب و شائستگی اور کھانے کے آداب کا لحاظ رکھنا یہ بھی ہے کہ گرم گرم کھانے پر ایک دم سے ہاتھ نہ ڈالا جائے اور ضرورت کے مطابق ٹھنڈا کر کے کھایا جائے سماجی حیثیت سے کسی بھی کام کو سلیقہ سے اور مناسب وقت دیکھ کر انجام دینا زیادہ بہتر بات ہوتی ہے اور جلد بازی کو شیطان کا کام خیال کیا جاتا ہے۔

سینہ ابھار کر چلنا

یہ سماجی رو یہ ہے اور اس کے ذیل میں انسان کی اخلاقی روشیں آتی ہیں سر جھکا کر چلنا شرافت اور تابع داری کی علامت داری اور بڑائی کی شناخت کا خیال کیا جاتا ہے اسی لئے کہتے ہیں کہ وہ بازار میں سر اٹھا کر اور سینہ تان کر چلتا ہے یہی معنی سینہ اُبھار کر چلنے کے بھی ہیں جس سے انسان کی ذِہنی اور نفسیاتی حالت کا پتہ چلتا ہے سینہ کے ابھار صنفی علامتیں ہیں جو" عنفوانِ شباب" میں ظاہر ہوتے ہیں اسی لئے انہیں آثارِ شباب بھی کہا جاتا ہے اس سے ہماری معاشرتی زندگی کے اشارات کو سمجھا جا سکتا ہے کہ کس بات کو ہم کس طرح ظاہر کرتے ہیں اب یہ الگ بات ہے کہ مہذب طبقہ کا سلیقہ اظہار کچھ اور ہوتا ہے۔

درمیانی طبقہ کا کچھ اور اور نچلے طبقے کا کچھ اور اسی کے مطابق الفاظ کا چناؤ عمل میں آتا ہے الفاظ آزاد نہیں ہوتے بلکہ ذہنی حالتوں کے تابع ہوتے ہیں اور ذہنی حالتیں سماجیات کی پابند ہوتی ہیں۔

سینہ بہ سینہ

سینہ سے یہاں مُراد" دل" ہے اور اُردُو شاعری میں جب سینہ کا ذکر کیا جاتا ہے تو اُس سے مُراد" دل" ہی ہوتا ہے اس لئے کہ جذبات و احساسات کا مرکز سینہ نہیں دل ہوتا ہے کسی بات کا اس اعتبار سے ذکر کہ وہ ابھی سینہ بہ سینہ ہے اس معنی میں ہوتا ہے کہ اس کا حال کچھ خاص لوگوں ہی کو معلوم ہے سب کو نہیں۔ ابھی تک ہے یہ راز سینہ بہ سینہ ہے۔

سینہ سپر ہونا

سینہ سپر کے معنی ہیں مقابلہ کے لئے تیار ہونا یا مقابلہ کرنا سپر ڈھال کو کہتے ہیں تیغ یعنی تلوار کے ساتھ ڈھال کا ہونا ضروری تھا کہ تلوار کا وار ڈھال پر ہی روکا جاتا تھا اور جب آدمی غیر معمولی طور پر اپنی بہادری کو ظاہر کرتا تھا تو وہ خود یا اس کے بارے میں کوئی دوسرا شخص یہ کہتا تھا کہ وہ ہمیشہ سینہ سپر رہے ہیں اس سے ایک زمانہ کی تہذیبی فضاء کا اندازہ ہوتا ہے کہ انسانی معاشرتی کا ذہن اور اُس کے ساتھ زبان اظہارِ حقیقت کے کیا معنی رہے ہیں۔

سینہ زوری کرنا

زور زبردستی کرنے کو کہتے ہیں یہ بھی ہمارا ایک سماجی رو یہ ہے کہ ہم خواہ مخواہ اور بیشتر غیر ضروری طور پر اپنی طاقت کا مظاہرہ کرتے ہیں اسی کو سینہ زوری کہا جاتا ہے۔

سینے سے لگانا

اظہارِ محبت کرنا اپنوں کی طرح پیش آنا اور اچھا سلوک کرنا اس لئے کہ انسان ملتا ہے باتیں کرتا ہے معاملہ کرتا ہے مگر ہر ایک کو اپنے سینہ سے نہیں لگاتا دل سے قریب نہیں کرتا سینہ سے لگا نے کے مفہوم میں دل سے قریب کرنا اور دل میں جگہ دینا شامل ہے۔

ردیف "ش"

شاخ در شاخ ہونا

کئی پہلو نکلنا یا نکالنا شاخ دراصل کوئی معاملہ مسئلہ یا مقدمہ بھی ہوتا ہے درخت کی ڈالی یا شاخ تو اپنی جگہ ہوتی ہی ہے اور شاخ کا یہ انداز قدرتی طور پر ہوتا ہے کہ شاخ میں سے شاخ نکلتی رہتی ہے اور ایک پہلو کے مقابلہ میں یا اُس کے علاوہ کوئی دوسرا پہلو سامنے آتا رہتا ہے ہمارے سماجی معاملات ہوں یا گھریلو مسائل کاروبار سے متعلق کوئی بات ہو یا اس کا تعلق انتظامی امور سے ہو شاخ در شاخ ہوتے رہتے ہیں بات میں سے بات اور نکتہ میں سے نکتہ ہماری عام گفتگو میں بھی نکلتا رہتا ہے۔

شاخِ زعفران

زعفران ایک خوشبودار شے ہوتی ہے جس کا اپنا پودا بھی ہوتا ہے اور کشمیر میں اس کی کاشت کی جاتی ہے۔ یہ کہا جاتا ہے کہ زعفران کا کھیت دیکھ کر ہنسی آتی ہے اسی لئے جو آدمی خوش مزاج ہوتا ہے اور ہنسنے ہنسانے کی باتیں کرتا رہتا ہے اُسے شاخِ زعفران کہا جاتا ہے۔

شاخسانہ نکالنا یا نکلنا

کسی بات کے ایسے پہلو یا نتیجے نکلنا جو پہلے سے نظر میں نہ ہوں شاخسانے نکلنا یا نکالنا کہا جاتا ہے اور ہماری معاشرتی زندگی میں ایسی باتیں ہوتی رہتی ہیں اور لوگوں کو اس کا شوق ہوتا ہے کہ وہ نئے نئے نتیجے نکالتے رہتے ہیں اور اُس میں لوگوں کو لطف آتا ہے آخر بات کا بتنگڑ بنانا بھی تو ہمارے معاشرے کا ایک سماجی رو یہ ہوتا ہے اسی طرح شاخسانے نکالنا ہمارے معاشرے کا خاص انداز ہے سورج کا ڈھنگ ہے۔

شادیِ مرگ ہونا

اتنی خوشی ہونا کہ آدمی کی حرکت قلب بند ہو جائے کہ اس پر موت طاری ہو جائے انسان ایک جذباتی جاندار ہے وہ ایک وقت میں اتنا ناراض ہوتا ہے کہ دوسرے کا خون کر جاتا ہے یہاں تک کہ خون کو پی لیتا ہے جگر چبا لیتا ہے آدمی کی بوٹیاں چیل کوَّے کو کھلا دیتا ہے اتنا مہربان ہوتا ہے کہ اپنا سب کچھ قربان کر دیتا ہے عشق کرتا ہے تو جنگل جنگل صحرا صحرا بھٹکتا ہے بقولِ فراق۔

پھرتے تھے دشت دشت دوانے کدھر گئے

وہ عاشقی کے ہائے زمانے کدھر گئے

انسان کی جذباتیت کا ایک پہلو جو محاورہ بن گیا وہ یہ بھی ہے کہ اپنی غیر معمولی حیثیت کے زیر اثر اتنا خوش ہوتا ہے کہ اس لمحہ پر مر مٹتا ہے اس محاورے میں ایک طرح سے انسان کے جذبات اور حسّیات پر روشنی ڈالی گئی ہے جواس کے معاشرتی روشوں پر اثرانداز ہونے والی سچائی ہے۔

شامت آنا، شامت سر پر کھیلنا، یا شامت اعمال ہونا

ہر عمل اپنا نتیجہ رکھتا ہے اگر عمل اچھا ہو گا تو نتیجے بھی اچھے ہوں گے اگر عمل خراب ہو گا تو نتائج بھی برے نکلیں گے یہ ہماری سماجی مذہبی اور تہذیبی سوچ ہے۔ اسی لئے برے عمل کے نتیجے کو شامت آنا کہتے ہیں اور اردو میں شامت کے معنی ہی برے نتیجے کے ہیں کسی مصیبت کے پھنسے کو شامت آنا کہتے ہیں غالب کا شعر ہے۔

گدا سمجھ کے وہ چُپ تھا مری جو شامت آئی

اٹھا اور اُٹھ کے قدم میں نے پاسباں کے لئے

شاہ عبَّاس کا عَلم ٹوٹنا

تعزیہ داری اور مجالسِ محرم کا ایک نہایت اہم مرحلہ"عَلم" نکالنا ہوتا ہے یہ محرم کی سات تاریخ کی رسم ہے اس تاریخ کو محرم کے"عَلم" اٹھائے جاتے ہیں ان میں ایک خاص"عَلم" وہ ہوتا ہے جس میں اوپر کی طرف ایک چھوٹی سی مُشک لٹکی ہوتی ہے یہ حضرت عباس کا" عَلم" ہوتا ہے مشک اس بات کی علامت ہے کہ وہ حضرت عباس کا علم ہے جو سقّہ حَرم کہلاتے تھے اور کربلا میں جب اہلِ بیت پر پانی بند کیا گیا تھا تو وہی دریائے فرات سے پانی مشک بھرکر لائے تھے اور دشمنوں کا مقابلہ کیا تھا۔

حضرت عباس کا"عَلم" خاص طور پر احترام کا مستحق قرار دیا جاتا ہے اور حضرت عباس کی درگاہ واقع لکھنؤ پر"عَلم" چڑھانا شیعوں کے یہاں ایک مذہبی رسم بھی ہے جو منت کے طور پر ادا کی جاتی ہے۔

حضرت عباس حضرت اِمام حسین کے چھوٹے بھائی تھے مگر ان کی ماں دوسری تھیں حضرت عباس حضرت امام حسین کے بڑے وفادار اور اہلِ بیت کے نہایت ہی فداکار تھے حضرت عباسؑ کے" عَلم" کے ساتھ ٹوٹنے کا محاورہ بھی آتا ہے جو ایک بددعا ہے اور بدترین سزا خیال کی جاتی ہے جسے ہم کہتے ہیں جھوٹے پر خدا کی مار پڑے۔

شرع میں رخنہ ڈالنا، شرع پر چلنا

شرع سے مُراد ہے شریعت اسلامی دستور اور قانون اور مذہبی قانون اسی لئے اُس کا احترام بہت کیا جاتا ہے اور ذرا سی بات اِدھر اُدھر ہو جاتی ہے تو اُسے مولویوں کی نظر میں بِدعت کہا جاتا ہے اور مذہب پسند طبقہ اسے شرع میں رخنہ ڈالنا کہتا ہے"رخنے ڈالنا" خود بھی محاورہ ہے اور اس کے معنی ہیں اڑچنیں پیدا کرنا رکاوٹیں کھڑی کرنا اس سے ہمارے معاشرتی طبقہ کے ذہنی رویوں کا پتہ چلتا ہے کہ وہ کن باتوں پر زور دیتے ہیں اور کن رویوں کو کس طرح سمجھتے ہیں اور پھِر کنِ الفاظ میں اس کا ذکر کرتے ہیں الفاظ کا چناؤ ذہنی رویوں کا پتہ دیتا ہے۔

محاورے میں الفاظ کی جو نشست ہوتی ہے اُسے بدلا نہیں جاتا وہ روزمرہ کے دائرے میں آ جاتی ہے جس کا تربیتی ڈھانچہ توڑنے کے اہلِ زبان اجازت نہیں دیتے وہ ہمیشہ جوں کا توں رہتا ہے یہ محاورے کی ادبی اور سماجی اعتبار سے ایک خاص اہمیت ہوتی ہے شرع پر چلنا ایک دوسری صورت ہے یعنی قانونِ شریعت کی پابندی کرنا جس کو ہم اپنے سماجی رویوں میں بڑی اہمیت دیتے ہیں۔

شرم سے پانی پانی ہونا

ہمارے ہاں جن محاوروں کی خاص تہذیبی اہمیت ہے اُن میں اظہارِ ندامت کرنے سے متعلق محاورے بھی ہیں اِس سے معاشرے کے عمل و ردِ عمل کا پتہ چلتا ہے ایک عجیب بات یہ ہے اور اس سے سوسائٹی کے مزاج کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے کہ ہماری زبان میں شکر یہ سے متعلق محاورے کیا ہوتے شکر یہ کا لفظ بھی قصبات اور دیہات کی سطح پر موجود نہیں ہے ہندی میں بیشک ابھاری ہونا کہتے ہیں مگر دیہات و قصبات کی سطح پراس لفظ کی پہنچ بھی نہیں ہے اس کے مقابلہ میں اظہارِ شرمندگی کے لئے ایک بہت پرکشش اور بامعنی محاورہ آتا ہے اور وہ ہے شرم سے پانی پانی ہونا۔

شوشہ اُٹھانا، شوشہ نکالنا

یہ تحریر و نگارش کی ایک اِصطلاح ہے اِس کے معنی ہوتے ہیں حرف کی شکل کو ایک ایسی صورت دینا جو اِملا کے اعتبار سے زیادہ واضح اور زیادہ صحیح ہو اُردُو رسم الخط میں فنِّ کتابت کی بہت سی نزاکتوں کا خیال رکھا گیا ہے اس میں شوشہ لگانا اور شوشہ دینا بھی شامل ہے اس سے اُردُو میں جو محاورہ بنا ہے اس کی سماجی اہمیت بہت ہے لوگوں کی یہ عادت ہوتی ہے کہ وہ بات بات میں اعتراض کرتے ہیں اور نئے پہلو نکالتے ہیں اسی کو شوشہ نکالنا بھی کہا جاتا ہے۔ شوشہ نکالنا بات چیت سے تعلق رکھتا ہے اور شوشہ لگانا تحریر سے مطلب اعتراض کرنا اور کمزوریاں دکھانا ہوتا ہے۔ تحریر یا تقریر کی اصطلاح یا تصحیح پیش نظر نہیں ہوتی جس سے ہمارے معاشرتی رویوں کا اظہار ہوتا ہے۔

شِکار ہونا، شِکار کرنا

شِکار انسان کا قدیم پیشہ ہے اِسی کے سہارے اُس نے ہزارہا برس پہاڑوں اور جنگلوں میں گزارے ہیں وہ جانوروں کا شکار کرتا تھا اور انہی سے اپنا پیٹ پالتا تھا اُن کے پروں سے اپنے بدن کو سجاتا تھا اُن کی ہڈیوں سے اپنے لئے زیور اور ہتھیار تیار کرتا تھا اور اُن کی کھال پہنتا تھا۔

انسان کی قدیم تاریخ اُس کے شکار کی تاریخ ہے اور اُس کے تمدّن میں جانور طرح طرح سے شریک تھے اب سے کچھ دنوں پہلے تک بھی شکار کا شوق بہت تھا۔ شکار پارٹیاں نکلتی تھیں نشانہ باز ساتھ ہوتے تھے اور شکار تقسیم کیا جاتا تھا اور تحفتاً بھیجا جاتا تھا تاریخ میں بادشاہوں کے شکار کا ذکر آتا تھا اور اس میں کیا کچھ اہتمام ہوتا تھا اس کا بھی ہماری سماجی زندگی میں شکار جن جن اعتبارات سے حوالہ بتا رہا ہے اسی کا اثر زبان اور محاورات پربھی مُرتب ہوتا رہا ہے یہاں تک کہ شکار کرنا اور شکار ہو جانا ایک خاص محاورہ بن گیا جس کے معنی ہیں فریب دینا اور فریب میں آ جانا بہرحال یہ بھی ہماری سماجی زندگی ہے کہ ہم طرح طرح سے فریب دیتے ہیں۔ اور فریب میں آ بھی جاتے ہیں۔

شکل بگاڑنا، شکل بنانا، شکل سے بیزار ہونا

شکل یعنی صورت ہماری تہذیبی اور معاشرتی زندگی کا ایک اہم حوالہ ہے اسی لئے کہ آدمی اپنی شکل و صورت سے پہچانا جاتا ہے اور ہم دوسروں سے متعلق اپنے جس عمل ورد عمل کا اظہار کرتے ہیں اس میں صورت شامل رہتی ہے فنِ تصویر اور فنِ شاعری میں صورت کی اہمیت بنیادی ہے اور وہ اِن فنون کی جس میں بُت تراشی بھی شامل ہے ایک اساسی علامت ہے۔

حیدرآباد والے صورت کے ساتھ اُجاڑ کا لفظ لاتے ہیں اُجاڑ صورت کہتے ہیں یہ وہی منحوس صورت ہے جس کے لئے ہم اپنے محاورے میں کہتے ہیں کہ اس کی شکل میں نحوست برستی ہے۔ غالب کا ایک مشہور شعر ہے۔

چاہتے ہیں خوب روُیوں کو اسد

آپ کی صورت تو دیکھا چاہیئے

مُنہ دیکھنا مُنہ دکھانا منہ دکھائی جیسی رسمیں اور محاورے بھی ہمارے ہاں بھی طنز و مزاح کے طور پر بھی صورت شکل کا حوالہ اکثر آتا ہے اور اُس معنی میں شکل سے متعلق محاورے یا محاوراتی اندازِ بیان ہماری زبان اور شاعری کے نہایت اہم حوالوں میں سے ہے۔

شکم پرور، شِکم سیر، شکم پُوری

پیٹ سے متعلق مختلف محاورات میں آنے والے الفاظ ہیں جس میں بنیادی علامت شِکم ہے۔ یعنی پیٹ بھرنا ہر جاندار کا ضروری ہے کہ اسی پر اُس کی زندگی کا مدار ہے۔ پیٹ کا تعلق تخلیق سے بھی ہے اور ہم" حمل" سے لیکر بچے کی پرورش تک بدن کی جن علامتوں کو سامنے رکھتے ہیں ان میں پیٹ بہت اہم ذہنی حوالوں کا درجہ رکھتا ہے پیٹ سے ہونا پیٹ رہنا جیسے محاورے شِکم ناگزیر طور پر شریک رہتا ہے اسی لئے کبھی یہ کہا جاتا ہے کہ شِکم سیر ہو کر کھایا یا شِکم سیر ہوا۔

شِکم"پوری" کا مفہوم اس سے تھوڑا مختلف ہے یعنی صرف پیٹ بھرنا اچھی طرح یا بُری طرح اچھی چیزوں سے یا بُری چیزوں سے کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جو بہت کھاتے ہیں اور خود غرضانہ انداز سے دوسروں سے چھین کریا ان کا حق مار کر کھاتے ہیں ایسے لوگ شکم پرور کہلاتے ہیں۔ اور زندگی بھر شکم پروری کرتے رہتے ہیں اگر ہم اِن محاورات پر غور کریں اور اُن کے معنی اور معنویت کو اپنی سماجی زندگی سے جوڑ کر دیکھیں تو یہ پتہ چلتا ہے کہ یہ معمولی محاورے ہمیں کس طرح سوچنے سمجھنے پر مجبور کرتے ہیں یا اُس کی دعوت دیتے ہیں۔

شگُون کرنا، شگون ہونا

شگُون ہمارے ہندوستانی معاشرے کا ایک اہم سماجی رو یہ ہے ہم ہر بات سے شگُون لینے کے عادی ہیں"کو ا" بولا"بلی" سامنے آ گئی صبح صبح ہی کسی ایسے شخص کی شکل دیکھی جو ہمارے معاشرے میں منحوس سمجھا جاتا ہے اُردُو کا ایک شعر ہے جو شگون لینے کی روایت کی طرف اشارہ کرتا ہے۔

جس جگہ بیٹھے ہیں با دیدۂ غم اٹھّے ہیں

آج کس شخص کا منہ دیکھ کے ہم اٹھّے ہیں

اس طرح سے شگون لینا یا شگون ہونا خوشی غم کسی کام کرنے کے ارادے سے گہرا تعلق رکھتا ہے ہم استخارہ کرتے ہیں فال نکالتے ہیں یہاں تک کہ دیوانِ حافظ سے فَال نکالتے ہیں اس سے پتہ چلتا ہے کہ ہمارا ایشیائی مزاج شگون لینے اور شگون دیکھنے سے کیا رشتہ رکھتا ہے۔

ہندوؤں میں شبھ گھڑی شادی کرنے سے پہلے دیکھی جاتی ہے مغل حکومت کے زمانہ میں بھی اس طرح کا رواج موجود تھا یہاں تک کہ جشنِ نو روز منانے کے سلسلے میں وہ نجومیوں سے پوچھتے تھے اور لباس کا رنگ طے کرتے تھے۔

اڑتی سی ایک خبر ہے زبانی طُیور کی

غالب کا یہ مصرعہ اُردُو کے اسی رجحان کی طرف اشارہ کرتا ہے۔

شگوفہ چھوڑنا، شگوفہ کھِلنا

شگوفہ" کلی" کو کہتے ہیں" کلی" کی پھول کے مقابلہ میں الگ اپنی پرکشش صورت اور ایک دل آویز سیرت ہوتی ہے جس کی اپنی خوبیوں کو اہلِ فن اور اصحاب فکر کی نگاہوں نے سراہا ہے۔

شاعروں نے طرح طرح سے اس کی خاموشی دل کشی اور پُر اسراریت کو اپنے شاعرانہ انداز کے ساتھ پیش کیا ہے سنسکرت اور پراکرتوں میں اس کا ذکر کنول کے ادھ کھلے یا بنِ کھِلے پھولوں کی تصویر کشی کے ساتھ آیا ہے۔

فارسی میں خاص طور پر گلاب کی کلی کے ساتھ اردو میں گلاب کے علاوہ چمبیلی کے مختلف رنگ رکھنے والے پھلوں کی کلیوں اور اُن کے چٹکنے کے ساتھ اس کے حسین عکس پیش کئے گئے ہیں یہ بھی ہماری تہذیب کا ایک علامتی پہلو ہے۔

اُردو میں شگوفہ کے ساتھ ایک دلچسپ محاورہ بھی ہے یعنی شگوفہ چھوڑنا یعنی ایسی دلچسپ بات کہنا کہ جو محفل کو پر مسرت بنا دے اور اس میں کوئی ایسا پہلو بھی ہو جو دلچسپ جھوٹ کا درجہ رکھتا ہو۔ اِس سے ہم اپنی معاشرتی زندگی میں محفل نشینی کے انداز و ادا کو بھی سمجھ سکتے ہیں اور گفتگو کے اس معاشرتی اسلوب کو بھی جس میں شگوفہ چھوڑنا آتا ہے ہم سب دلچسپ گفتگو نہیں کر پاتے لیکن دلچسپ گفتگو سے لطف لیتے ہیں جو ہمارے تہذیبی رویوں میں سے ہے۔

شہد سا میٹھا، شہد لگا کر چاٹو، شہد لگا کے الگ ہو جانا

شہد ہماری مشرقی تہذیب میں ایک عجیب و غریب شے ہے کہ وہ پھولوں کا اپنا ایک ایسا جز ہے جس کو بے حد قیمتی کہا جا سکتا ہے یہ دوا ہے بلکہ ایک سطح پر امرِت ہے یہ زہر کا تریاق ہے اور اصلی شہد میں جس شے کو بھی رکھا جائے گا وہ عام حالت میں صدیوں تک گلنے سڑنے اور خراب ہونے سے محفوظ رہے گی۔

ہماری سماجی زندگی میں شہد" تہذیبی" رویوں میں داخل ہے اس میں مہذب رو یہ آتے ہیں اور بعض ایسے رو یہ بھی جو لائق تحسین نہیں ہوتے مثلاً کسی آدمی کے پاس کوئی شہادت نامہ ہے مگر اس سے فائدہ کوئی نہیں ایسے موقع پر بطورِ طنز و مزاح یہ کہتے ہیں کہ اب اُسے شہد لگاؤ اور چاٹو یعنی اس تلخی کو برداشت کرو کہ تمہارے ساتھ یہ دھوکہ ہوا ہے انگلی کو شہد میں بھگو لینا بھی اسی معنی میں آتا ہے۔

شیخ چلی

مسلمانوں کے اپنے معاشرے کا محاورہ ہے اور اس کے معنی ہیں ایک خاص طرح کا سماجی کردار مُلَّا نصیر الدین کے نام سے بھی اسی طرح کا ایک کردار ترکوں میں موجود ہے اور وہیں سے یہ مسلمان کلچر میں آیا ہے اس طرح کا کردار بُوجھ بجھکڑ کی صورت میں بھی موجود ہے کہ وہ حد درجہ ذہین ہے اور بیوقوف ہے ہماری داستانوں میں بھی اس طرح کے کردار آ گئے ہیں۔ "فسانہ آزاد" میں فوجی کا کردار اسی طرح کا کردار ہے" شیخ چلی" جس کا مثالی نمونہ ہے۔

شیخی بگھارنا، شیخی کِرکری ہونا، شیخی مارنا، شیخی میں آنا

"شیخ"عرب میں سردار قبیلہ کو کہتے تھے یا پھر بہت معزز آدمی کو ہندوستان میں شیخ کا تصور شعبہ کے سربراہ سے متعلق ہے جیسے شیخ الادب، شیخ الامنطق، شیخ الحدیث، شیخ الجامع، کسی کالج یا یونیورسٹی کے صدرِ اعلیٰ کو بھی کہتے ہیں علاوہ بریں شیخ الہند، شیخ السلام، اور شیخ العرب، بھی کہا جاتا ہے یہ بھی خطابات ہیں۔

ہندوستان میں شیخ سید مغل اور پٹھان چار اونچی ذات ہیں جو سماجی زندگی میں بھی اپنے اثرات رکھتی ہیں اور ان سے کچھ سماجی رو یہ وابستہ ہو گئے ہیں مثلاً شیخ کے ساتھ لوگوں نے شیخی بگھارنا شیخی کا اظہار کرنا شیخی مارنا، شیخی میں آنا جیسے محاورے بھی اپنے معاشرتی تجربوں اور خیالوں کی روشنی میں پیدا کر دیئے ہیں اور ہمارے سماجی رو یہ اس کے دائرہ میں آتے ہیں مثلاً وہ اپنے خاندان کے بارے میں بہت شیخی مارتا ہے بڑھ چڑھ کر باتیں کرتا ہے یا اپنے معاملہ میں بہت شیخی بگھارتا ہے بات وہی ہے کہ شیخی جتانا" ہمارا ایک سماجی رو یہ ہے اِس طرح کے فقرہ اُس کے خلاف ایک ردِ عمل ہے۔

شیر بکری ایک گھاٹ پانی پیتے ہیں

شیر پھاڑ کھانے والا جانور ہے جو بہادر بھی ہے اور بے انتہا سفّاک بھی بکری بھیڑ ہرن جیسے جانور اُس کی خوراک ہیں وہ جب بھی اُن کو دیکھتا ہے اُن پر حملہ کر کے اُن کو اٹھا لے جاتا ہے اور ان کا خون پی لیتا ہے جتنا گوشت خود کھانا چاہتا ہے کھا لیتا ہے باقی دوسرے جانوروں کے لئے چھوڑ جاتا ہے ظاہر ہے کہ یہ صورت بھی ممکن نہیں کہ شیر اور بکری ایک ساتھ رہیں اور ایک گھاٹ پانی پئیں یہی خیال کیا جاتا ہے کہ بادشاہ کا رعب و داب اور اُس کے انتظام کی خوبی یہ ہوتی ہے کہ کوئی ظالم کسی کمزور اور مظلوم کونہ ستا سکے۔ یہ آئیڈیل ہے جو صدیوں سے ہمارے ذہنوں میں رچا بسا چلا آ رہا ہے اور اسی سے یہ محاورہ بنا ہے کہ شیر اور بکری ایک گھاٹ پانی پیتے ہیں۔

شیش محل کا کتا

شیش محل اُمراء کے محلات میں ہوتا بھی تھا کہ کسی خاص حصے میں چھوٹے بڑے شیشے لگا کر آراستگی کی جاتی تھی اور یہ بہت پسند کی جانے والی چیز تھی۔ شیش محل میں ایک ہی شے یا شخص ہزار شکلوں میں نظر آتا تھا یہ بھی لوگوں کو بہت اچھا لگتا تھا۔ مگر"کُتَّے" کی مصیبت یہ ہے کہ وہ محلّے میں کسی غیر کتے کو نہیں دیکھ سکتے بے طرح اس کے پیچھے بھاگتے ہیں اور اپنی حدوں سے باہر نکال کر دم لیتے ہیں اب شیش محل میں ایک کتے کو اپنے چاروں طرف کُتے ہی کُتے نظر آتے ہیں۔ وہ اُن کو بھگانا چاہتا ہے تو وہ سارے اُسے بھگاتے ہیں ایک طلِسم بندی میں بند جا تا ہے یہیں سے ایک دلچسپ محاورہ بن گیا شیش محل کا کتا ہونا وہ ایک شاعرانہ محاورہ ہے اور داستانوں کی فضاء کو پیش کرتا ہے۔

شیشے میں اُتارنا

شیشہ آئینہ کو بھی کہتے ہیں اور شراب کے اُس برتن کو بھی جس سے شرابِ جام میں اُنڈیلی جاتی ہے اس کے علاوہ شیشے کا ایک طِلِسمی تصور بھی ہے کہ پریوں کو شیشے میں قید کیا جاتا ہے اسی سے محاورہ پیدا ہوا ہے اگر کسی آدمی سے معاملہ کرنا مشکل ہوتا ہے اور کسی نہ کسی طرح اس مشکل پر قابو پا لیا جاتا ہے تو اسے شیشے میں اتارنا کہتے ہیں داستانوں میں پریوں کے کردار آتے ہیں پریاں کسی کے قابو میں نہیں آتیں مگر کسی نہ کسی ترکیب اور طریقہ سے انہیں بھی قابو میں کیا جاتا ہے تو اسے کہتے ہیں شیشے میں"پری کو اُتار لیا"یعنی اُسے قابو میں کر لیا جو قابو میں نہیں آتا۔ اس سے ہم یہ نتیجہ بھی اخذ کر سکتے ہیں کہ طلِسماتی کہانیوں کا ہمارے ذہن زبان اور ادب میں جو اثر ہے اسے ہم اپنے محاورات میں بھی دیکھ سکتے ہیں۔

زبان کے آگے بڑھنے میں سماج کے ذہنی ارتقاء کا دخل ہوتا ہے ذہن پہلے کچھ باتیں سوچتا ہے اُن پر عمل درآمد ہوتا ہے اور وہیں سے پھر اُس سوچ یا اس عمل کے لئے الفاظ تراشے جاتے ہیں اور وہ محاورات کے سانچے میں کچھ ڈھلتے ہیں اور ایک طرح سے Preserve ہو جاتے ہیں۔

شیطان اُٹھانا، شیطانی لشکر، شیطان سر پر اُٹھانا، شیطان کا کان میں پھُونک دینا، شیطان کی آنت شیطان کی خالہ، شیطان کی ڈور، شیطان کے کان بہرے، شیطان ہونا، شیطان ہو جانا

"شیطان"بُرائی کا ایک علامتی نشان ہے جو قوموں کی نفسیات میں شریک رہا ہے خیر اور شر بھلائی اور بُرائی معاشرہ میں مختلف اعتبارات سے موجود رہی ہے اسی کا ایک نتیجہ شیطان کا تصور بھی ہے کہ وہ بُرائیوں کا مجسمہ ہے اور بد اعمالی کا دیوتا خیر کا خداوند یزدانِ پاک ہے اور بُرائی کا سرچشمہ شیطان کی ذات ہے۔

اب آدمی جو بھی بُرائی کرے گا اُس کی ذمہ داری شیطان پر ڈال دی جائے گی اور کسی نہ کسی رشتے کو شیطان ہی کو سامنے رکھا جائے گا اگر کوئی بے طرح غصہ کرتا ہے تو یہ کہیں گے کہ شیطان اُس کے سرپر سوار ہے اُس کے سر چڑھا ہے اگر کوئی آدمی بُرا ہو گا تو کہیں گے کہ وہ تو شیطان ہیں اگر کسی سے کوئی برائی وجود میں آتی ہے تو کہتے ہیں کہ شیطان موجود ہے اس نے کروائی ہے یہ برائی کروا دی اگر یہ معلوم ہوتا ہے کہ اُس برائی کا ذمہ دار آدمی ہے تو کہتے ہیں کہ آدمی کا شیطان آدمی ہے یعنی برائی کی ہر نسبت شیطان کی طرف جاتی ہے کہ انسان کی یہ ایک فطرت اور مزاج ہے کہ وہ ذمہ دار خود ہوتا ہے لیکن اُسے تسلیم نہیں کرنا چاہتا ہے بلکہ کسی دوسرے کے سر ڈالتا ہے یہ ہمارا سماجی رو یہ آئے دن ہمارے سامنے آتا رہتا ہے اتنی فلسفیانہ طور پر شیطان کے وجود پر جنم دیا اور شیطان سے نسبت کے ساتھ بہت سی بُرائیوں کو پیش کیا جس کی نسبت اُسے اپنے سے کرنی چاہیے تھی وہ دوسروں سے کر دی مذہبوں نے بھی اپنے طور پر اس تصور کو ایسی سوچ اور Approach میں داخل کر لیا۔

شین قاف

اُردُو زبان اپنے لب و لہجہ اور مختلف لفظوں کے تلفظ کے اعتبار سے ایک ایسی زبان ہے جس کو مختلف لوگ بولتے اور الگ الگ بولیوں والے اپنی سماجی ضرورت کے لئے استعمال کرتے ہیں۔ اس میں ایسے حروف موجود ہیں جس کا تلفظ ہمارے عام لوگ کر ہی نہیں سکتے ہیں۔ جیسے ث، ذ، ص، ض، ظ، ع، غ اور ف۔

اس لئے کہ یہ حُروف ہماری دیسی زبانوں میں موجود ہی نہیں اس پر بھی" شین" کو چھوٹے"س" سے بدل دینا اور"قاف" کو چھوٹے"کاف"سے اور مُنشی"کو"منسی" کہنا اور قلم کو"کلم" کہنا بہت بُرا لگتا ہے اسی لئے جب کوئی شخص بولتے وقت شین قاف کی دُرستگی کا خیال رکھتا ہے تو اس کی تعریف کی جاتی ہے۔ اور کہا جاتا ہے کہ اس کا"شین قاف" درست ہے یہ زبان لفظیات اور تلفظ سے متعلق ہمارا ایک تہذیبی معیار ہے مگر اُردُو سوسائٹی کا ہر زبان والے کا نہیں کہ وہ"شین قاف"کی درستگی پر زور دیتے ہیں اور اسی لئے شین قاف دُرست ہونا ایک محاورہ ہے۔