اردو محاورات کا تہذیبی مطالعہ

اردو محاورات کا تہذیبی مطالعہ0%

اردو محاورات کا تہذیبی مطالعہ مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب

اردو محاورات کا تہذیبی مطالعہ

مؤلف: ڈاکٹر عشرت جہاں ہاشمی
زمرہ جات:

مشاہدے: 79963
ڈاؤنلوڈ: 4143

تبصرے:

اردو محاورات کا تہذیبی مطالعہ
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 81 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 79963 / ڈاؤنلوڈ: 4143
سائز سائز سائز
اردو محاورات کا تہذیبی مطالعہ

اردو محاورات کا تہذیبی مطالعہ

مؤلف:
اردو

ردیف "ی"

یاد اللہ

مسلمانوں کا محاورہ ہے اور اُن کے مذہبی جذبات کی ترجمانی کرتا ہے اس کے معنی اللہ کی یاد کے نہیں لیکن محاورے میں اچھے خاصے خوش گوار تعلقات کے لئے یا د اللہ کہا جاتا ہے کہ ہماری اُن سے یاد اللہ ہے اِس کے معنی ہیں کہ ہمارے اچھے تعلقات ہیں۔

یادش بخیر

جب کبھی کسی اپنے کو یاد کیا جاتا ہے اور اُس کا ذکر آ جا تا ہے تو یادش بخیر کہتے ہیں کہ اُس کی یاد بخیر ہو ان کلمات سے پتہ چلتا ہے کہ سماج میں گفتگو کے کچھ آداب ہوتے ہیں یادش بخیر کہنا گفتگو کے آداب کو برتنا ہے۔

یاد گُدا گانا

یعنی بار بار یاد آنا گدگدی کرنا ایک ایسا عمل ہے جس سے ہنسی آتی ہے اسی لئے"گدگدانا" ایک دلچسپ عمل ہے وہ بھی خو ش کرنے والا عمل ہے۔ یعنی ان کی یاد دل کو" گدگدا" رہی ہے۔ اچھی اچھی باتوں کا خیال آ رہا ہے اور دل خوش ہو رہا ہے۔

یاروں کا یار

جو آدمی اپنے دوستوں کے ساتھ اچھا سلوک کرے اُن کا وفادار ہو وہ یاروں کا یار کہلاتا ہے اصل میں یار ہونے کے معنی مددگار ہونے کے ہیں اسی لئے اللہ کا ساتھ بھی یار لگتا ہے اور یہ کہتے ہیں کہ اس کا ا للہ یا رہے۔ جس کا کوئی نہیں ہوتا اُس کا مددگار اللہ ہوتا ہے۔

"یاری" ہونا دوستی ہونے کے معنی میں آتا ہے عورتیں جب عام طریقہ کے خلاف کسی غیر شخص سے دوستی کر لیتی ہیں تو وہ ان کا یار کہلاتا ہے یہ بھی کہا جاتا ہے یا رکی یاری سے کام اُس کے فعلوں سے کیا تعلق یعنی دوستی بڑی چیز ہے باقی باتوں کے چکر میں کیوں پڑا جائے جو کچھ ہے ٹھیک ہے۔

یاری کُٹ کرنا

بچوں کا محاورہ ہے جس کے معنی ہوتے ہیں دوستی ختم کرنا اگریوں دوستی ختم نہیں ہوتی جس طرح بچّے ایک خاص عمل کے ذریعہ دانتوں کو انگوٹھے کے ناخن سے چھُوتے ہیں اور پھر کٹ کرتے ہیں اور اِسے یاری کٹ کرنا کہتے ہیں۔

یافت کی آسامی

یافت فارسی کا لفظ ہے اور یافتن مصدر سے بنا ہے اِس کے معنی ہیں پانا، روپیہ پیسہ کا فائدہ ہونا، آسامی موقع جگہ اور ایسے آدمی کو کہتے ہیں جس سے فائدہ اُٹھایا جا سکے۔ اِس اعتبار سے اِس محاورہ کے معنی ہوئے وہ جگہ یا وہ آدمی جس سے فائدہ اٹھانا ممکن ہویا اس کی توقع ہو۔

یقین کے بندہ ہو گے تو سچ مانو گے

یقین اعتماد کی بنیاد پر ہوتا ہے اور جو آدمی کسی پراعتماد کرتا ہے وہی اُس کی بات پر یقین بھی کرتا ہے اور اس کے وعدہ کو سچ سمجھتا ہے لیکن اگر کسی پر بھروسہ ہی نہیں تو اس کی بات کا یقین بھی نہیں اسی لئے کہا جاتا ہے یقین کے بندہ ہو گے تو سچ مانو گے۔

یک جان دو قالب

بہت ہی قریبی رشتہ کو کہتے ہیں جب انتہائی محبت ہوتی ہے کہ اُن کے بدن ہی الگ الگ ہیں اُن کی روح تو ایک ہے یہ ہمارے سماج کا ایک آئیڈیل ہے کہ الگ الگ وجود ہونے کے باوجود وہ ایک ہی انداز سے سوچتے ہیں ایک ہی زندگی جیتے ہیں اور ایک دوسرے سے کبھی الگ نہیں ہوتے۔

یوم الحساب

قیامت کا دن جس کے لئے تصوّر کیا گیا ہے کہ حشر کا میدان ہو گا تمام لوگ جمع ہوں گے اور سب کے اعمال نامہ ان کے ہاتھ میں ہوں گے اور خُدا اُن کا فیصلہ کرے گا یہی یوم القیامت ہے اسی کو یوم الحساب کہتے ہیں یہ مسلمانوں کا عقیدہ ہے تو اس سے متعلق تصورات بھی انہی کے عقائد اور خیالات کا حصہ ہوں گے اس طرح کے محاورہ خاص کلچر سے تعلق رکھتے ہیں اور ہم کہہ سکتے ہیں کہ محاورہ اگرچہ عام ہوتا ہے مگر بعض محاوروں کا تعلق علاقائی تہذیب طبقاتی ذہن اور مذہبی تصورات سے ہوتا ہے۔

یوں توں کرنا، یوں ہی، یوں ہی سہی

بُرا سلوک کرنا، تلخ کلامی یا ترش روئی سے پیش آنا اسی لئے بے تکلف لہجہ میں کہتے ہیں کہ اس نے تو ہماری"یوں توں" کر دی یوں ہی یا یوں ہی سہی یہ ایک عام فقرہ ہے اور جب دوسرے کی بات کو ہم کاٹنا نہیں چاہتے تو کہتے ہیں چلو یوں ہی سہی اردو کا مشہور مصرعہ ہے۔

تیری مرضی ہے اگریوں ہی تولے یوں ہی سہی

بہادر شاہ ظفر کا بھی شعر ہے۔

جو کہو گے تم کہیں گے ہم بھی ہاں یوں ہی سہی

یوں خوشی ہے آپ کی تو وہاں یوں ہی سہی

یہاں کا یہیں

یعنی دنیا کا دنیا ہی میں رہ جائے گا جو کچھ ہونا ہے وہ یہیں ہو گا اسی لئے ایسے فقرہ استعمال کئے جاتے ہیں کہ یہاں کا جوہو نا ہے وہ یہیں کسی شاعر کا شعر ہے۔

چاہو جتنا گھوٹ لو لوگوں کا تم صاحب گُلا

ہاتھ خالی جاؤ گے یاں کا یہیں رہ جائے گا

یوں تو رشتہ کبھی نہیں توڑا

جو یہاں کا ہے وہ یہیں چھوڑا

اس لیے ہم اندازہ کر سکتے ہیں کہ ہماری زبان کا ہمارے محاورے سے کیا رشتہ ہے اور اِن دونوں کا ہماری زندگی و ذہن سے کیا تعلق ہے۔ ہم اپنی بات سیدھے سادھے انداز میں بھی کرتے ہیں لیکن اکثر جذبہ کے اظہار اور خیال کی تصویر کشی کے لئے اُس میں لسانی اور لفظی سطح پر اپنی بات کو دوسروں تک پہنچانے کی غرض سے نئی نئی پہلوداریاں بھی پیدا کرتے ہیں یہاں کا یہیں رہ جانا عقیدہ کا اظہار بھی ہے اور عبرت دلانے کے لئے ایک اندازِ گفتگو بھی جس کے پس منظر میں ہمارے سماجی ضابطے عقیدہ تصورات سب آ جاتے ہیں۔

اردوشعر و ادب میں محاورہ

گذشتہ سطور میں محاورہ کی ادبی تہذیبی اور معاشرتی اہمیت کی طرف اشارہ کر دیئے گئے ہیں اُن سے یہ اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ محاورہ زبان کی ساخت اور اُس کی ادبی پرداخت میں کیا خاص کردار ادا کرتا ہے اور صدیوں تک ادا کرتا رہا ہے۔

جب زبان آگے بڑھتی اور پھیلتی ہے مختلف دائروں اور تہذیبی حلقوں میں اپنا اثرو نفوذ پیدا کرتی ہے تو اس کی تزئین اور ترسیل میں جو باتیں یا خو بیاں خصوصیت کے ساتھ حصہ لیتی ہیں ان میں تشبیہہ استعارہ تلمیح اور محاورہ خاص طور پر شریک رہتا ہے کہیں شاعر مقر ر افسانہ گو اور داستان نگار تشبیہ سے کام لیتا ہے۔ ایک شے وجود کو دوسری شے یا وجود سے مشابہت دی جاتی ہے تو تشبیہہ کا رشتہ پیدا ہوتا ہے جو مثال کا رشتہ کہلاتا ہے یعنی وہ شے ایسی ہے جیسے فلاں شے ہے۔ اور جب تشبیہہ کے رشتہ کو مستقل طور پر اُس شے سے وابستہ کیا جاتا ہے تو وہ استعارہ یا علامت بن جاتی ہے جیسے سورج چاند پھول شاخ گل شمشیر ستارہ ماہ نو وغیرہ وغیرہ یہ تشبیہیں بھی ہیں استعارے بھی اور جب بہت سی باتیں خیالات تصورات اور تاثرات کسی شے کے گرد جمع ہو جاتے ہیں تو وہ علامت بن جاتی ہے وہ علامت تمثیل کی صورت اختیار کر لیتی ہے اور کہیں تلمیح کی صورت میں سامنے آتی ہے جب ہم استعارہ کی بات کرتے ہیں تو اس کا رشتہ یا ذہنی سلسلہ اِدھر سے اُدھر تک جڑتا چلا جاتا ہے۔ یہ خیال حال تجربہ اور مشاہدہ سے تعلق رکھنے والے امور ہیں انفرادی سطح پر بھی ایک شاعر ایک فنکار ایک داستان گو اپنے فنکارانہ انداز نظر اور اپنے تہذیبی نقطہ نگاہ کے ساتھ تشبیہوں اور استعاروں تلمیحوں کو اپنے انتخاب اور استعمال میں شریک رکھ سکتا ہے۔

محاورہ ایک طرح سے زبان میں استعاراتی عمل ہے جس میں کہیں تشبیہ کا رشتہ قائم ہوتا ہے کہیں تمثیل کا کہیں تلمیح کا اِس سے ایک خاص معنی مراد لئے جاتے ہیں یہ معنی مرادی ہوتے ہیں عام لُغت کے تابع نہیں ہوتے جیسے ہم محاورہ کے طور پر" آگ بگولہ ہونا" کہتے ہیں اور اُس سے غیر معمولی غصہ اور طیش کا اظہار مقصود ہوتا ہے۔

محاورہ ذہنوں میں ایک تصویر یا مجسم شکل اختیار کر لیتا ہے اور اُس سے وہی معنی سمجھے اور سمجھائے جاتے ہیں جو ایک طرح سے اُس محاورہ کے ساتھ روایت یا ٹریڈیشن کی شکل اختیار کر لیتے ہیں زمانہ بہ زمانہ لفظ استعارہ تشبیہ وغیرہ اپنے معنی میں تبدیلیاں پیدا کرتے رہتے ہیں الفاظ بھی شکل بدل دیتے ہیں لیکن محاورہ اپنی جگہ پر قائم رہتا ہے وہ گویا جہانِ لفظ و معنی میں ایک پتھر کی لکیر کی طرح ہوتا ہے جو صدیوں تک بلکہ ایک ایسے زمانہ تک جس کا تعین مشکل ہے اپنے خدوخال اور نقش و نگار کو قائم رکھتا ہے وہ ٹوٹ سکتا ہے چھوڑا جا سکتا ہے اسی طرح سے محاورے ایک زمانہ کی لفظیات اور زبان کے تہذیبی یاتشبیہ و استعاراتی استعمال کی بعض صورتوں کو محفوظ رکھتے ہیں۔ اس معنی میں محاورہ کسی بھی زبان کی صوتیات لفظیات اور لسانیاتی مطالعہ میں مدد دیتا ہے۔ بہت سی لسانیاتی گتُھیاں کھلتی ہیں سماج کے رویے سمجھ میں آتے ہیں زبان کے ارتقائی مراحل پر نظر داری میں یہ محاورے معاون ہوتے ہیں۔

ہمارے ہاں محاورے ہماری زبان ایک ناقابلِ شکست حصّہ رہے ہیں شہری سطح پر ہویا قصباتی سطح پر یا دیہات کی سطح پر ہم اِن کے مطالعہ سے اپنی تہذیبی روشوں شہری رویوں اور اپنے تمدنی مزاج کی تہہ داریوں سے واقف ہو سکتے ہیں۔

ہم اپنی تاریخ کے صفحات سے سے گزرتے ہیں تو عام طور سے سیاسی واقعات اور انتظامی اُمور ہمارے سامنے آتے ہیں یا جنگ و جدل کے حالات ہوتے ہیں مگر اس سے الگ اور آگے جو ہماری تہذیبی تاریخ کے نہایت اہم گوشے ہیں اُن سے صرفِ نظر کر جاتے ہیں ادبیات کا مطالعہ بعض ذہنی زمانی اور زمینی حوالوں سے ہماری تہذیب و تاریخ کے ان گوشوں اور زاویوں کو پیش کرتا ہے جو عام مطالعہ کے دوران اکثر ہماری نگاہوں سے اوجھل رہتے ہیں۔ اِن میں قصے کہانیاں حکایتیں نیز روایتیں بھی ہیں۔ شعر و سخن میں ہماری تہذیب کے مطالعہ کے بہت سے گوشہ محفوظ ہیں مثنویاں قصیدے غزلیات اردو مرثیہ نیز مرثیے اِس دائرہ میں آتے ہیں کہ تہذیبی مطالعہ کے لئے ان کو بطورِ خاص سامنے رکھا جائے ادبی مطالعہ لسانیاتی مطالعہ کی طرف بھی لاتا ہے اور اس طرح کی علمی و ادبی کوششیں برابر ہوتی رہی ہیں۔ اگرچہ تحقیق و تنقید کے مقابلہ میں اُن کا دائرہ نسبتاً مختصراً ہے۔

یہاں ایک محاورہ کی طرف اگر اشارہ کر دیا جائے تو بات سمجھ میں آ جائے گی اور اُس کے فکری زاویہ روش اور واضح ہو جائیں گے مثلاً "ساس لگنا" ایک محاورہ ہے جس کا ہماری معاشرت اور تہذیبی رشتوں سے گہرا تعلق ہے ایک کنواری لڑکی اپنی کسی دوسری ہم پیشہ خاتون کے رو یہ سے خفا تھی اور اُس پر اظہار ناخوشی کرنا چاہتی تھی کہ اُس نے خواہ مخواہ ایک موقع پر بُرے الفاظ میں یاد کیا تھا اور شکوہ شکایت کی بات کو لڑائی جھگڑے کی صورت دیدی تھی اُس پر اس کنواری لڑکی نے اپنی ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اُس نے میرے خلاف اِس طرح کی باتیں کیوں کیں وہ میری "ساس نہیں لگتی تھی"۔

یہ اس لئے کہ معاشرتی طور پر ہمارے خاندانوں میں "ساس" کو بڑا درجہ دیا جاتا تھا اور یہ خیال کیا جاتا تھا کہ وہ جو چاہے کہہ سکتی ہے جب چاہے ناراض ہو سکتی ہے اور اپنی بہو کا فضیحتہ کر سکتی ہے کسی اور کو یہ حق نہیں ہے۔ اگر ہم اس بے تکلف اظہار اور محاورہ کی سماجیاتی اہمیت پر گفتگو کریں تو ہمارے معاشرہ کی ایک خاص روش سامنے آتی ہے اور گھریلو سطح پر جو حقوق کی سماجی تقسیم رہی ہے اور مختلف رشتوں کے جو معنی ہماری زندگی میں رہے ہیں اُس پر ایک عکس ریز روشنی پڑتی ہے۔

سماج متحرک نظر آتا ہے وقت کے ساتھ ساتھ بدلنے کا عمل جاری رہتا ہے اور رہا ہے محاوروں کی زبان انداز بیان زمین زمانہ اور ذہن سے اُن کا رشتہ محاورات کی لفظی ساخت سے بھی ظاہر ہوتا ہے ان کے ایسے سماجی حوالوں سے بھی جو محاورات کے ساتھ وابستہ رہتے ہیں ان کو سمجھنے اور ان پر غور و فکر کرنے کی ضرورت بہرحال باقی رہتی ہے۔

محاورات کو ہم کئی اعتبار سے دیکھ اور پرکھ سکتے ہیں اُن میں سے ایک رشتہ وہ ہے جو لسانیات سے ہے مختلف زمانہ میں ہم اپنی زبان کی جس ساخت اور پرداخت سے زمینی یا زمانی رشتہ رہتا ہے وہ سلسلہ ادبیات لغت اور شعر و شعور کے دائرہ میں پہنچ کے بدل جاتا ہے اور وقت کے ساتھ بہت لفظ ہمارا ساتھ چھوڑ دیتے ہیں متروکات میں داخل ہو جاتے ہیں اور ایک دور کے بعد ہم دوسرے دور میں انہیں استعمال نہیں کرتے زبان و ادب کے رشتہ سے جب ہم اپنی زبان کی لفظیات کو پرکھتے ہیں تو یہ دیکھتے ہیں کہ گزر جانے والے وقت کے ساتھ اس کے سرمایہ الفا ظ میں بھی تبدیلیاں آئی ہیں ترک و اختیار کا سلسلہ ہر زمانہ کے بعد دوسرے زمانے میں واضح یا نیم واضح طور پر سامنے آتا ہے یہ ضروری نہیں کہ جو الفاظ ایک طبقہ کی زبان سے خارج ہو جائیں وہ دوسرے طبقہ کی زبان سے بھی نکل جائیں یا جو ایک شہر کی زبان میں اپنا چلن ختم کر دیں وہ دوسرے شہر کی زبان میں بھی شامل نہ رہیں یہ بھی دیکھنے میں آتا ہے کہ مہذب شہریوں کی زبان اور لفظیات سے جو الفاظ ختم ہو جاتے ہیں وہ قصبوں اور اُن کی مختلف آبادیوں کے حلقوں میں شامل رہتے ہیں۔

میر انشاء اللہ خاں نے خود شہر دہلی کے متعلق یہ کہا ہے کہ فلاں فلاں محلے کی زبان زیادہ صحیح اور فصیح ہے بات ایک شہر سے آگے بڑھ کر دوسرے شہر تک اور شہری حدود سے تجاوز کر کے قصبات اور قصبات سے گاؤں تک پہنچتی ہے تو اس کے دَھنک جیسے حلقے بھی اپنے رنگوں کے ساتھ اس میں شامل ہو جاتے ہیں۔

اعضائے جسمانی سے ہمارا جو نفسیاتی اور عملی رشتہ ہے وہ سماجی حقیقتوں کا ترجمان بن جاتا ہے اور اس سے ہم یہ جان سکتے ہیں کہ ہمارے جذبات و احساسات یا اُس قدرتی ماحول سے جو ہمارا وجود ہے یا ہمارے وجود کا حصہ ہے ہم اپنے خیالات اور حالات کو ظاہر کئے جانے اور اُن پر گفتگو کرنے نیز اُن سے متعلق تبصرہ کرنے میں ہم کیا اور کس طرح مدد لیتے ہیں اور اِس معنی میں ہمارا اپنے وجود اور زمانہ موجود سے کیا رشتہ ہوتا ہے اور زندگی بھر بنا رہتا ہے مثلاً آنکھوں کے علاوہ"دل" سے متعلق ہمارے محاورے اور کہاوتیں ظاہر کرتی ہیں کہ ہماری انسانی اور سماجی نفسیات میں کس نوع کے رشتہ کیا ہیں اور کس طرح کے ہیں اور کس کس سطح کے ہیں۔

اِس کے علاوہ ہمارے آس پاس جو چیزیں ہیں وہ ہمارے کام میں آتی ہیں اور ہمارے اپنے ماحول سے ہمارا تعلق اُن رشتوں سے بھی ظاہر ہوتا ہے جو ان چیزوں میں اور ہم میں ایک دوسرے سے رابطے اور وابستگی کا سبب بنتی ہیں۔ مثلاً" کانٹا" جھاڑی دار پودوں کا حصہ ہوتا ہے نرم کانٹے بھی ہوتے ہیں اور سخت بھی نیز ایسے کانٹے دیکھنے کو ملتے ہیں جن کی نوکیں مڑی ہوتی ہیں اور ایسی بھی جو لوہے کی باریک کیل کی طرح سخت ہوتے ہیں کانٹوں کے درمیان پھول ہوتے اور پھولوں کے درمیان کانٹے کانٹوں پر طرح طرح کے محاورے ہیں مثلاً" دل میں کھٹکنا"کانٹے کی طرح رگ جاں میں اُتر جانا زہر بھرے کانٹے وغیرہ وغیرہ یہاں یہ مصرعہ یاد آتا ہے"زیست کی راہ کا نٹوں سے بھر جائے گی۔" اِس موقع پر غالب کا یہ شعر یاد آ رہا ہے۔

ان آبلوں سے پاؤں کے گھبرا گیا تھا میں

جی خوش ہوا ہے راہ کوپر خار دیکھ کر

یا پھر یہ مصرعہ ہے۔

گلوں سے خار بہتر ہیں جو دامن تھام لیتے ہیں

اسی طرح ٹھیکرا" اینٹ" پتھر اور در و دیوار جادہ و راہ کون سی شے ہے جو ہماری زندگی کو متاثر نہیں کرتی ہمارے ذہنوں پر اثر نہیں ڈالتی اور ذہن جب اثرات قبول کرتا ہے تو زبان الفاظ تشبیہیں استعارہ اور محاورے سب ہی تو اس سے تاثر لیتے ہیں۔ مثلاً آب و رنگ اگرچہ فارسی کے لفظ ہیں لیکن ہماری زندگی ہمارے ذہن اور ہمارے زمانہ کی فکری اور فنی پہلو داریوں سے اُن کا گہرا واسطہ ہے اسی کو جب ہم محاورات میں معنی در معنی پھیلتے اور سمٹتے ہوئے دیکھتے ہیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ لفظ ہمارے کب کب اور کن کن موقعوں پر کام آتے ہیں اور ہمارے مذہب ہماری تہذیب اور ہمارے معاشرہ سے ان کا ذہنی طور پر کیا کیا رشتہ بنتا ہے۔ سچ یہ ہے کہ ہماری تہذیبی فکر اور معاشرتی انداز نظر بہت کچھ ہماری زبان کے طابع ہوتا ہے خیال کو جب تک الفاظ اِشارات و علامتیں نہ ملیں تو وہ حال میں نہیں بدل سکتا حال کا تعلق خیال سے ہے خیال تصور ہوتا ہے اور حال اُس کی تصویر۔

ہم فنونِ لطیفہ کے ذریعہ بھی اپنی بات کہتے ہیں اس میں رقص بھی شامل ہے اور موسیقی بھی اداکاری بھی مصوّری میں رنگ کام آتے ہیں خطوط اور زاویہ ہمارے خیال کو حال میں بدلتے ہیں خیال کے خاکوں میں رنگ بھرے جاتے ہیں اور اظہارِ ابلاغ کو نئی جہتیں میسر آتی ہیں نقاشی بت گری اور عمارت سازی کو بھی انہی فکری اور فنی دائروں میں رکھ کر دیکھا جا سکتا ہے۔

شاعری بھی فنونِ لطیفہ ہی میں سے ہے اور ایک بڑا اور ہمہ گیر تخلیقی فن ہے یہ ایک Creative آرٹ ہے۔ اس میں بھی اظہار یا اظہاریت کو لفظ و معنی کی اشاریت کے ساتھ پیش کیا جاتا ہے۔ اشاریت سے یہاں مراد وہ کیفیت ہے کہ لفظ یا لفظی ترکیب مختصر ہوتی ہے جانی پہچانی ہوتی ہے لیکن انسانی ذہن اور تخلیقی حسّیت کے وسیلے سے اس میں نئی نئی وسعتیں گہرائیاں اور رنگارنگی پیدا ہو جاتی ہے جو ہمارے جذبات و احساسات اور اِدراک کو اپیل کرتی ہے معنی فہمی کی طرف لاتی ہے۔

اسی طرح عوامی سطح پر محاورہ ایک طرح کی شعوری کوشش ہوتی ہے جو پھر لاشعوری یانیم شعوری حالتوں میں بدل جاتی ہے ہمارے ایک وقت کے تجربہ کو ہمہ وقتی صورت دیتی ہے اسی لئے محاورہ وقت کے بعد زمانہ بہ زمانہ اور دور بہ دور اپنی رواجی حالت کو قائم رکھتا ہے اور یہ خصوصیت ہماری اظہاری اسلوبیات میں صرف محاورہ کو حاصل ہے کہ وہ اپنی لفظیات تلفظ اور ساخت کے ساتھ محفوظ رہتا ہے اور ایک بڑے حسّی تجربہ کو اپنے اندر سموئے رکھتا ہے جب کہ شعر و شاعری اپنا اثر کم کر دیتی ہے اِس کے برعکس خاص طور پر محاورے کی دو جہتیں ایسی ہوتی ہیں جو ہمارے ہمیشہ کام آتی ہیں ایک لسانیاتی جہت کہ محاورہ قدیم زبان کے Shades اپنے ساتھ محفوظ رکھتا ہے اور ہم محاورہ پر ایک تجسس بھری نظر ڈال کر قدیم زبان کی پرچھائیوں کو اُس میں دیکھ سکتے ہیں اور علاقائی تغیرات کو بھی۔

ہم اپنی زبان کی تاریخ پر اگر نظر ڈالیں تو ہمیں اس حقیقت کا علم ہوتا ہے کہ ہماری زبان نے جو ایک ملی جُلی عوامی اور عمومی بھاشا ہے۔ پنجاب، راجستھان، سندھ، گجرات، مالوہ، دہلی، لکھنؤ اور دوسرے علاقوں کی زبان سے اُس نے کیا اثرات قبول کئے ہیں اِس سے زبان کی تاریخ کو بھی سمجھنے میں مدد ملتی ہے اور اس کی روشنی میں لسانی ساخت کو سمجھا جا سکتا ہے اور اس کے پس منظر میں زبان کے ارتقاء کو بھی۔

محاورہ زبان و بیان اور فکر و خیال کے مختلف سلسلوں سے وابستہ ہوتا ہے ان میں زبان کے ادواری اور علاقائی رو یہ بھی شامل ہیں محاورہ زبان کے کچھ خاص حصوں کو محفوظ بھی کرتا ہے اور صدیوں تک محاورہ کے ذریعہ زبان کے اس طریقہ استعمال کی حفاظت ہوتی ہے لیکن یہ ضروری نہیں کہ ہر موقع پر محاورہ زبان و بیان میں کوئی حسن پیدا کرے سنجیدہ ادبی زبان کو اب عام محاوروں کے استعمال سے الگ بھی رکھا جا سکتا ہے لیکن طبقاتی زبان میں وہ استعمال ہوتے ہیں۔ اور ہماری تہذیب کے ایک خاص رخ کو پیش کرتے ہیں محاورہ بھی ایک طرح کا استعارہ یا تشبیہہ ہے مگر وہ چونکہ منجمد صورت اختیار کر لیتا ہے اس لئے نئے ذہن اور نئی فکر کی ترجمانی محاورہ سے نہیں ہوتی۔ مگر وقت کا ذہن اور زندگی کا ایک طویل تجربہ بہر صورت محاورہ میں موجود رہتا ہے۔

شہر دیہات اور قصبات کی زبان میں بھی فرق ہوتا ہے اور ایک ہی بڑے شہر کے مختلف طبقوں کی زبان میں بھی محاورے کے استعمال کے لحاظ سے فرق اور فاصلہ ہوتا ہے ہم محض کسی ایک علاقہ کسی ایک طبقہ یا پھر کسی ایک شہر یا بستی کی زبان کو کسی بھی بڑی زبان کے رنگارنگ دائروں کا نمائندہ مشکل ہی سے کہہ سکتے ہیں شہروں میں یہ رجحان آتا ضرور ہے اور پڑھے لکھے طبقہ کے لوگ بھی اس سے ماورا نہیں قرار دیئے جا سکتے جب کہ بات بالکل صاف اور واضح ہے کہ زبان کے الگ الگ رنگ اور ڈھنگ ہوتے ہیں ان میں ہم آہنگی ہو سکتی ہے مگر وہ سب ہم رنگ ہوں یہ ممکن اب سے کچھ زمانہ پہلے تک دہلی کے لوگ اپنی زبان کو سب سے اچھا کہتے تھے اور ایسا ہی سمجھتے بھی تھے یہاں تک کہ اہلِ لکھنؤ کی زبان بھی اُن کے ہاں سند نہیں تھی یہی رجحان فارسی والوں میں موجود تھا کہ وہ یہ کہتے تھے فارسی ہماری مادری زبان ہے ہمیں وہ زیادہ بہتر آتی ہے خود ایران کے شہروں میں بھی شیراز اور اصفہان کی زبان کو زیادہ صحیح اور فصیح سمجھا جاتا تھا۔

دہلی والے بھی اپنے محلے کی زبان کے بارے میں اسی طرح کی دائرہ بندی کے قائل تھے میر انشاء اللہ خاں نے دریائے لطافت میں اس کا اظہار کیا ہے کہ قلعہ جامع مسجد کے آس پاس اور رسید واڑے (محلہ) کی زبان زیادہ صحیح ہے اور اسی کو زیادہ فصیح کہا جا سکتا ہے۔ باڑہ ہندو راؤ اور شہر کی بیرونی بستیوں کی زبان کو وہ محاورہ روزمرہ اور لطفِ ادا کے اعتبار سے بہت اچھا خیال نہ کرتے تھے اور مردم بیرونِ جات کی زبان ان کے نزدیک ٹکسالی زبان نہ تھی۔ یہ ایک وقت کا سماجی رو یہ ہو سکتا ہے اب یہ الگ بات ہے۔ مگر اس طرح کی دائرہ بندی یا معیار پسندی کو ہمیشہ کے لئے زبان کی ترقی و ترویج کے پیشِ نظر صحیح قرار نہیں دیا جا سکتا قوموں اور طبقوں میں یہ رجحان رسم و رواج سے متعلق بھی ہوتا ہے۔ وہ اپنی رسموں اور رواجوں کو چاہتے ہیں پسند کرتے ہیں اور ترک کرنے پر راضی نہیں ہوتے انہیں ہر تبدیلی ایک طرح کی سماجی بدعت معلوم ہوتی ہے مگر تیز رفتار بدلتی پوری زندگی میں سوچ کا یہ انداز اور دائرہ بندی کا یہ اسلوب دیر تک اور دور تک ہمارا ساتھ نہیں دیتا۔ اگرچہ یہ رجحان موجود ہے۔

اور اس سے پیشتر کم و بیش کافی شدت کے ساتھ موجود رہا ہے۔ محاورہ محاورہ بندی با محاورہ زبان اور روز مر ہ کی پابندی کو اسی نقطہ نظر سے دیکھنا چاہیے اس لئے کہ یہ تاریخ و تہذیب یا دوسرے لفظوں میں سماجیات ( Sociology ) کا ایک عمل ہے اور اس عمل کا جب ہم لسانی ادبی اور معاشرتی تجزیہ کرتے ہیں تو بہت سی اہم باتیں اور نکتہ ہماری نظر میں ابھرتے ہیں اور تاریخ کے عمل کو سمجھنے میں معاون ہوتے ہیں مثلاً اُس اُس کرنا (عش عش) کرنا بھی اس ذیل میں آ سکتا ہے کہ تلفظ اور املا کے فرق کو تسلیم کرتے ہوئے ہم محاورہ کا استعمال اور لغت و تحریر میں اس کی نگارش کو سامنے لاتے ہیں اُس اعتبار سے زبان کے سماجی رشتوں اور لسانی رابطوں کی تفہیم میں محاورہ یہ کہیے کہ غیر معمولی طور پر معاون ہوتا ہے۔

ہم اس سلسلے میں آگ سے متعلق محاورہ کو بھی پیشِ نظر رکھ سکتے ہیں۔ آگ پر بہت محاورے ہیں اس لئے بھی کہ آگ انسانی زندگی میں پانی کے بعد سب سے زیادہ داخل ہے۔ آگ سے بڑی ایجاد یا دریافت شاید ابھی تک نہیں ہوئی۔ انسان کو جنگل کی زندگی کی آفتوں سے آگ ہی نے پناہ دی اس کی غذائی ضرورتوں کو ایک خاص انداز سے پورا کرنے میں آگ ہی شریک رہی آگ کو انسان نے اپنا خداوند بھی قرار دیا اور اس کی طرف ہمارے مقدس صحیفوں میں اشارے بھی ملتے ہیں۔

آتش کدے قدیم زمانہ سے ہماری عبادت گاہیں رہے ہیں اور آج بھی ہیں مختلف مواقع پر آگ ہماری مذہبی رسومات میں شامل رہتی ہے اگر دیکھا جائے تو جو چیز ہماری زندگی میں فطری طور پر شریک ہے یا کسی وجہ سے ہماری معاشرت کا حصّہ بن گئی ہے ہم اس کے بارے میں سوچتے ہیں سمجھنے کی کوشش بھی کرتے ہیں اور جب وہ ہماری نفسیات کا جز بن جاتی ہے توہم اس سے متعلق محاورات کی بھی تشکیل کرتے ہیں یا دوسرے لفظوں میں ہماری زبان سے کوئی ایسا فقرہ یا کلمہ ادا ہوتا ہے جس کو ہم معاشرہ میں رواج پاتے ہوئے دیکھتے ہیں وہی محاورہ بن جاتا ہے۔ اور اس میں کچھ ایسی پہلو داری پیدا ہو جاتی ہے کہ وہ سماج کے ذہنی رو یہ کی نمائندگی کرتا ہے کہ اس خاص معاملہ میں اس طرح سوچا اور سمجھا گیا۔ اور پھر وہ رواج عام یا سماجی فکر کا حصّہ بن گیا۔

عجیب بات ہے کہ زیادہ تر محاورہ سماجی رویوں پر تنقید ہیں اور ہم نے کبھی اس رشتہ یا زاویہ سے اُن کو پرکھنے کی کوشش نہیں کی جیسے"الٹی گنگا""پہاڑ کھویا""الٹی گنگا بہا""الٹی مالا پھیرنا" بھی اسی ذیل میں آتے ہیں۔

اصل میں ہم ایسی تنقیدیں کم کرتے ہیں جو شخصی ہوتی ہیں اس کی کئی وجوہات ہیں ایک یہ کہ ہم شخصی طور پر دوسرے سے برا بننا نہیں چاہتے اور اُس کے مخالفانہ رو یہ کو دعوت دینا اس لئے پسند نہیں کرتے کہ اس سے ہماری سماجی الجھنوں میں اضافہ ہوتا ہے اپنے قریب تر افراد کو برا کہنا اسی لئے avoid کرتے ہیں کہ پھر قربت میں دُوریاں پیدا ہوتی ہیں اور اتفاق اختلاف میں بدلتا ہے اسی لئے ہم صرف اپنے دشمنوں کو برا کہتے ہیں اور بات بات میں برا کہتے ہیں کہ ہمارا مخالفانہ جذبات اِس طرح تسکین پاتے رہتے ہیں اور تاہم غیر ضروری طور پر اپنی مخالفت کے دائرہ کو بھی بڑھنے سے روک دیتے ہیں مگر برا حال ہم سب ہی کو کہتے ہیں اور اس کے لئے محاورے کا سہارا لیتے ہیں اس طرح محاورہ ہماری زبان کی تیزی ہمارے لب و لہجہ کی چُبھن اور ہمارے طنز یہ فقرات کی زہر ناکیوں سے بھی بچ جاتا ہے اُس معنی میں محاورہ طنز و تعریض کے موقع پر بہت کام آتا ہے ذکر اور اپنے اظہارِ خو شی ذکر و ملال اور اپنے ذاتی غموں یا دکھوں کے اظہار و ابلاغ میں بھی غیر معمولی مدد دیتا ہے اور وہ کام کرتا ہے جو شاعری کرتی ہے مگر شعر و شاعری سے سب لوگ کام نہیں لے سکتے اور جو کام لیتے ہیں وہ بھی ہر وقت نہیں لے سکتے ایسی صورت میں محاورہ ہمارے جذبات و احساسات اور فکر و خیال کی نمائندگی اور جذبات کی ترجمانی اس طرح کر جاتا ہے کہ بات بھی کہہ دی جاتی ہے اور اس پر پردہ بھی پڑا رہتا ہے۔

شہری زندگی میں زبان کے طرح طرح سے تجربہ کئے جاتے ہیں اور سطح پر اُس کے اثرات اور اِمکانات کو آزمایا جاتا ہے شہری معاشرہ میں ذہن و زندگی میں جو تہہ داریاں پیدا ہوتی ہیں پیچ و خم جنم لیتے ہیں اور طرح طرح کے لوگوں سے واسطہ پڑتا ہے اور معاملہ کرنا ہوتا ہے اس کی وجہ سے شہری زبان میں نئے نئے پرت پیدا ہوتے اور نئے نئے پہلو اُبھرتے رہتے ہیں۔

شہر ایک بڑی آبادی کے طور پر برابر حرکت میں رہتا ہے۔ اسی کی طرف اشارہ کرنے والا ایک انگریزی محاورہ ہے اس تحرک سے جس میں تسلسل بھی ہوتا ہے city in the motion A زبان پر جو اثرات مرتب ہوتے ہیں اُسے شہری زبان اس کی لفظیات اس کے محاورے روز مرہ نیز اس کے لب و لہجہ میں دیکھا جا سکتا ہے۔ شہر والے اپنی زندگی میں امتیاز کے جو زاویہ اور پہلو پیدا کرتے رہتے ہیں اُن میں وہ اپنی زبان کو بیشتر اپنی امتیازی روش و کشش کو سامنے رکھتے ہیں۔ یہ ہر دور اور ہر ملک کی شہریت کا اپنا تہذیبی رو یہ ہوتا ہے۔ جو اُس کی معاشرتی فکر کی نمائندگی کرتا ہے۔

ہم دہلی، لکھنؤ، لاہور، حیدرآباد، اور بعض دوسرے شہروں کی نسبت سے اپنی ادبی اور لسانی تاریخ میں اِس کا مطالعہ اور تجربہ کرتے آئے ہیں دہلی اور لاہور میں بیٹھ کر اہل ایران اپنے امتیازات کا اظہار کرتے تھے اور دہلی والے لکھنؤ اور حیدرآباد میں بیٹھ کر جب ہی توہم داغ کو یہ کہتے ہوئے دیکھتے ہیں۔

دلی نہیں دیکھی ہے زبان داں یہ کہاں ہیں

اور داغ کایہ شعر تو اس موقع پر بے اختیار یاد آتا ہے۔

اُردو ہے جس کا نام ہمیں جانتے ہیں داغ

سارے جہاں میں دھُوم ہماری زباں کی ہے

محاورے ہماری ذاتی اور معاشرتی زندگی سے گہرا رشتہ رکھتے ہیں محاوروں میں ہماری نفسیات بھی شریک رہتی ہیں ان کی طرف ہمارا ذہن منتقل نہیں ہوتا کہ یہ ہماری اجتماعی یا افرادی نفسی کیفیتوں کی آئینہ دار اسی طرح ہمارا ذہن منتقل نہیں ہوتا کہ یہ ہماری اجتماعی، انفرادی نفی کیفیتوں کی آئینہ دار ی ہے اسی طرح ہمارے اعضاء ہاتھ پیر ناک کان اور آنکھ بھوں سے ہمارے محاورات کا گہرا رشتہ ہے مثلاً آنکھ آنا آنکھیں دیکھنا آنکھوں میں سمانا اور آنکھوں میں کھٹکنا یہ محاورے مختلف المعنی ہیں اور کہیں کہیں ایک دوسرے سے تضاد کا رشتہ بھی رکھتے ہیں۔

آنکھ سے متعلق کچھ اور محاورے یہاں پیش کئے جاتے ہیں آنکھ اٹھانا، آنکھ اٹھانا آنکھوں کی ٹھنڈک آنکھ پھوڑ ٹڈا۔ آنکھیں ٹیڑھی کرنا آنکھ بدل کر بات کرنا۔ رُخ بدلنا آنکھوں میں رات کاٹنا آنکھوں کا نمک کی ڈلیاں ہونا استعارات انداز بیان ہے جس کا تعلق ہماری شاعری سے بھی ہے اور سماجی شعور سے بھی یہ بے حد اہم اور دلچسپ باتیں ہیں آنکھ بدل کر بات کرنا ناگواری نا خوشی اور غصہ کے موڈ میں بات کرنا ہے جو آدمی اپنا کام نکالنے کے لئے بھی کرتا ہے آنکھیں اگر تکلیف کی وجہ سے تمام رات کڑواتی رہیں اور ان میں برابر شدید تکلیف ہوتی رہی تو اسے آنکھوں کا نمک کی ڈلیاں ہونا کہتے ہیں یعنی تکلیف کی انتہائی شدت کو ظاہر کرنا آنکھیں پتھر انا اس کے مقابلہ میں ایک دوسری صورت ہے یعنی اتنا انتظار کیا کہ آنکھیں پتھر ہو گئیں۔ آنکھوں میں رات کاٹنا بھی انتظار کی شدت اور شام سے صبح تک اسی حالت میں رہنے کی طرف اشارہ کرتا ہے جو گویا رات کے وقت انتظار کرنے والے کی حالت کو ظاہر کرتا ہے آنکھ لگنا سو جانا اور کسی سے محبت ہو جانا جیسے میری آنکھ نہ لگنے کی وجہ سے میرے یار دوستوں نے اس کا چرچہ کیا کہ اِس کا دل کسی پر آ گیا ہے اور کسی سے اُس کی آنکھ لگی ہے اس سے ہم انداز ہ کر سکتے ہیں کہ نہ جانے ہماری کتنی باتوں کو ذہنی حالتوں کو صبح و شام کی وارداتوں کو اور زندگی کے واقعات کو ہم نے مختصراً محاورہ میں سمیٹا ہے اور جب محاورہ شعر میں بندھ گیا تو وہ ہمارے شعور اور ذہنی تجربوں کا ایک حصہ بن گیا۔

محاورہ جن الفاظ پر مشتمل ہوتا ہے وہ مختلف طبقات سے تعلق رکھتے ہیں اس لئے کہ ہمارا ہر طبقہ اپنے اپنے ماحول زندگی اور ذہن کے مطابق الفاظ استعمال کرتا ہے سب کے پاس نہ ایک سے الفاظ ہوتے ہیں نہ ایک سا تجربہ ہوتا ہے نہ ایک سی ذہنی سطح ہوتی ہے۔ اسی لئے محاورہ بھی اُن کی لفظیات بھی ایک دوسرے سے مختلف ہوتی ہے مثلاً ً خوشی کے محاورے الگ ہوتے ہیں غم و الم کے مواقع سے نسبت رکھنے والے محاورے الگ شادی بیاہ سے تعلق والے الگ اور شادی بیاہ کے رسومات سے متعلق محاورے جُدا مثلاً"بیل پڑنا" جب بدّھاوے یا ڈومنیوں کے گانے بجانے سے تعلق سے بات کی جاتی ہے تو اُن کو پیسے دینے کا ذکر خاص طور پر آتا ہے اور یہ طبقہ اسے بیل پڑنا کہتا ہے اس موقع پر خاکروب عورتوں کا ناچ قصبوں میں بدھاوا کہلاتا ہے اب بدھاوے کی رسم بھی ختم ہو گئی ڈومینوں کا ادارہ بھی باقی نہ رہا تو بیل پڑنے کا محاورہ اب زبانوں پر نہیں آتا اس لئے کہ محاورات کا استعمال ہماری رسموں اور رواجوں کے مطابق رہا ہے وہ رسمیں ختم ہوئیں وہ رواج باقی نہ رہے تو وہ محاورے بھی ہماری زبان سے خارج ہو گئے لیکن قدیم ادب میں اور پرانے لوگوں کی زبانوں پر جب یہ آتے ہیں تو ہمارے سماج کی رنگارنگ تاریخ پر اپنے انداز سے روشنی ڈالتے ہیں اور اِس سے اِن کی اِفادیت کا پتہ چلتا ہے مثلاً بعض محاورے ایسے کھیلوں سے متعلق ہیں جن میں چانس( اتفاق) زیادہ اہم کردار ادا کرتا ہے "چوپڑا" ایسے ہی کھیلوں میں سے ہے اور ہم بطور مثال"پانسہ" پھینکنے کو پیش کر سکتے ہیں"پاسا پلٹنا"بھی اسی سلسلے سے وابستہ ایک محاورہ ہے۔ ان محاورات سے جب ہم گزرتے ہیں تو معاشرہ کا وہ ذہنی رو یہ بھی سامنے آتا ہے جو تقدیری امور یا ہماری قسمت پر ستی سے وابستہ ہے۔

ہمارا معاشرہ تقدیر پرست ہے اس لئے ہر بات کو قسمت سے وابستہ کرتا ہے یہاں تک کہ"پانسہ پلٹنا"بھی قسمت ہی سے وابستہ ہے چنانچہ کہتے ہیں کہ جنگ کا پانسہ پلٹ گیا یعنی ہار فتح میں اور فتح شکست میں بدل گئی۔ اِس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ہمارے محاوروں میں کیا کچھ کہا گیا ہے اور کس کس صورت حال کی طرف اِشارہ کیا گیا ہے محاورہ کا رشتہ تہذیب و سماج سے ہوتا ہے صرف لغت سے نہیں ہوتا۔

ہمارے زیادہ تر کام معاملات اور معمولات سماجی زندگی سے متعلق ہوتے ہیں اور ہماری انسانی کمزوریاں بھی انسان کے سماجی وجود سے تعلق رکھتی ہیں اس لئے کہ اگر وہ محض انسانی خو بیاں یا کمزوریاں ہوتیں تو وہ سب میں مشترک ہونی چاہیں تھیں اگر کچھ لوگ مختلف ہیں اور کچھ قومیں مختلف ہیں تو یہ سوچنا پڑتا ہے اُس کی وجہ تاریخ ہے تہذیب ہے پیشے یا پھر عام سماجی رو یہ ہیں ان کو پیدا کرنے اور قبول کرنے میں بھی سماج شریک رہتا ہے اگر ہم کسی کے شکر گزار نہیں ہوتے صرف شکوہ سنج ہوتے ہیں تو دیکھنے اور سوچنے کی بات یہ ہے کہ اس کا تعلق سماج سے ہے یا پھر ایک فرد سے اگر بہت سے لوگ ایک ہی عادت ایک ہی جیسا مزاج اور رو یہ رکھتے ہیں تو پھر اُس کا تعلق فرد سے نہیں ہے معاشرہ سے ہے اسے کسی انسان کے لئے ذاتی یا انفرادی نہیں کہا جا سکتا۔

اعضائے جسمانی میں بہت سے عضو ایسے ہیں جو محاورات میں شامل ہیں اس کے معنی یہ ہیں کہ ہم نے اپنے وجود کو یا انسانی وجود کے مختلف حصوں کو اپنی سوچ میں شامل کر رکھا ہے اور ان کو اپنی سوچ کے مختلف مرحلوں اور تجربوں میں اظہار کا وسیلہ بنایا ہے اس میں گر بھی ہے زبان بھی ہاتھ پیر بھی ہیں اور تن پیٹ بھی ہے۔

یہاں اس امر کی وضاحت کر دی جائے تو نامناسب نہ ہو گا کہ محاورہ سادہ الفاظ میں ضرور ہوتا ہے لیکن اس کے معنی لغت یا قواعد کے تابع نہیں ہوتے وہ ایک طرح کے استعارہ یا کنایہ ہوتا ہے اور بولنے والا اُسے ایک خاص معنی اور مفہوم کے ساتھ استعمال کرتا ہے عام لفظی معنی اُس کے نہیں ہوتے۔

زبان میں محاورے کے کثرتِ استعمال کی وجہ سے اس میں کوئی ندرت یا جدّت نظر نہیں آتی لیکن محاورہ بنتا ہی اُس وقت ہے جب اُس میں استعاراتی یا علامتی اظہار شامل ہو جاتا ہے استعارہ دراصل زبان کا وجہ استعمال ہی نہیں اُسے عام رویوں عمومی لفظیات اور انداز سے قریب تر کرتا ہے اور استعمال ہی کی وجہ سے طبقہ در طبقہ اور شہر بہ شہر اور بعض صورتوں میں محلہ در محلہ کچھ امتیازات کے پہلو اُبھرتے ہیں اور استعمال ہی سے دائرہ بند زبان عوام کے درمیان پہنچتی ہے اور اپنے استعمال میں ایک انفرادیت اور اجتماعیت پیدا کرتی ہے۔

محاورہ کسی ایک کا نہیں ہوتا سب کا ہوتا ہے اور سب کے لئے ہوتا ہے اور سب کی طرف سے ہوتا ہے اور اس کی یہ عمومیت ہی زبان ادب اور لسانیت میں ایک اہم کردار ادار کرتی ہے۔ اور سب سے زیادہ اہمیت رکھنے والا پہلو یہ ہے کہ یہ زبان میں تسلسل کی روایت کو قائم رکھنے میں ایک مسلسل اور خاموش کردار یہ ہے کہ ایک دور کے بعد دوسرے دور میں اور ایک دائرہ فکر و نظر کے بعد دوسرے دائرہ میں محاورہ کام کرتا ہے لغت کا بھی حصہ بنتا ہے ادب و شعر کا بھی اور تہذیب و روایت کا بھی۔

محاورہ کی تہذیبی تاریخی اور معاشرتی اہمیت پر جو گفتگو کی گئی ہے وہ ہر اعتبار سے ضروری نہیں کہ کافی و شافی ہو اس میں اور بہت سے پہلو بھی ہو سکتے ہیں۔ مثلاً لسانی پہلو جس کی طرف راقمہ نے بھی اشارہ کیا ہے یا تاریخی پہلو کہ وہ بھی راقمہ کی نظر میں رہے ہیں لیکن بہ خوفِ طوالت ان پر کوئی تفصیلی گفتگو ممکن نہیں ہوئی اس کے علاوہ محاورات کا طبقاتی مطالعہ بھی ہو سکتا ہے راقمہ نے بھی موقع بہ موقع اِس کی طرف اشارے کئے ہیں۔

زبان و محاورات کی علاقائی تقسیم بھی ایک دائرہ و فکر و خیال بن سکتی ہے کہ کون کون محاورات کس علاقہ سے بطورِ خاص تعلق رکھتے ہیں۔ اور یہ بھی دیکھا جا سکتا ہے کہ شہری، قصباتی اور دیہاتی سطح پر محاورات اپنے اپنے دائرہ میں کیا رنگ اور آہنگ رکھتے ہیں اور ان کی لسانی اور تہذیبی اہمیت کیا ہے۔

محاورات کی ایک عمومی حیثیت ضرور ہے لیکن ہماری زبان ہماری شاعری اور ادب نگاری کی طرح محاورے کے مطالعہ کی بھی ایک سے زیادہ جہتیں ہو سکتی ہیں بات کو ختم کرنے سے پہلے ایک اور جہت کی طرف بھی اشارہ کرنا ضروری معلوم ہوتا ہے وہ یہ کہ ہماری زبان اُس کی لفظیات اُس کے پس منظر میں موجود کلچر کی ایک اساسی حیثیت ہے۔ جس نے زبان کی فکر ی نہج کو بھی متاثر کیا اّس کی لفظیات کو اور ادبیات کو کبھی اِس طرح کے حلقے ہماری زبان اس کی لسانی ساخت تہذیبی پس منظر اور محاوراتی سلیقہ اظہار پر بھی زمانہ بہ زمانہ اور حلقہ در حلقہ دور رس اور دیر پا اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ ان میں پہلا عرب ایرانی حلقہ تہذیب و لسانیات ہے جس کا اثر ہم اپنی زبان پر دیر تک اور دُور تک دیکھتے ہیں۔

سندھ گجرات اور مالا بار کا علاقہ وہ علاقہ ہے جس سے عرب و عجم کا رشتہ بہت قدیم ہے عجم ہم عام طور پر ایران کو کہتے ہیں لیکن اس میں عراق بھی شامل ہے اس علاقہ سے مغربی ہندوستان اور جنوب مغربی ایشیاء کا جو تعلق ہے وہ بہت قدیم ہے جن کا اثر یہاں کی زبان یہاں کے شعر و شعور اور تہذیبی اندازِ نظر پربھی مرتب ہوا ہے اِن علاقوں کی زبانوں میں جو عربی فارسی اور اردو کے الفاظ ملتے ہیں ان میں محاورے بھی شامل ہیں دیکھنا یہ ہے کہ ان محاوروں کا اس لسانیاتی تاریخی اور پس منظر سے کیا رشتہ ہے علاوہ بریں ترکوں منگولین اور ترک و تاتاری علاقہ سے بھی ہمارا ہزاروں برس پرانا رشتہ ہے آر یہ سینٹرل ایشیا ہی سے آئے تھے اور ان کا سلسلہ صدیوں تک جاری رہا قدیم آریاؤں کے بعد اس علاقہ میں بسنے والی قومیں اور قبیلے وسطی عہد میں بھی اپنے اپنے علاقوں سے اِس پر ہندوستان آئے اور یہاں آباد ہو گئے۔

ہم یہ کیسے فراموش کر سکتے ہیں کہ وسطی عہد کے بہت سے حکمران خاندانوں کا نسلی رشتہ مرکزی ایشیاء سے وابستہ رہا ہے اس علاقہ میں ترکوں منگولین یا ترک و تاتاری زبانیں بولی جاتی ہیں یہی بولیاں یا زبانیں آنے والوں کے ساتھ شمال ہندوستان کے علاقوں میں آ کر آباد ہوئیں تو اپنی زبانوں سے ایک لمبے عرصہ تک اِن کا رشتہ باقی رہا اور اس کا اثر ہماری علاقائی بولیوں پر بھی مرتب ہوا۔ ہمارے کچھ محاورے ایسے بھی ہیں جواس علاقہ کی دین ہیں یا پھر اُس کے اثرات سے متاثر ضرور ہیں۔

ہم یہ بھی فراموش نہیں کر سکتے کہ ہماری ایسی بہت سی کہانیاں ہیں جن کا مرکزی ایشیاء سے وابستگی رکھنا ہے اور اِن کہانیوں کے جغرافیائی ماحول میں بھی یہ علاقہ اور ان کے جغرافیائی اور تاریخی آثار شریک ہیں ایسی صورت میں محاورہ کا کم از کم علاقائی محاورہ پران کے اثرات کا مرتب ہونا ایک فطری عمل ہے اس پر مزید کام کرنے اور بات کو آگے بڑھانے کی ضرورت ہے۔

ہماری زبان اور اس سے وابستہ بولیوں کا سرچشمہ اور اس سے پھوٹنے والی مختلف شاخیں یا فروغ پذیر ہونے والی بولیاں علاقائی زبانوں کو متاثر بھی کرتی رہتی ہیں اور ان سے تاثر بھی لیتی رہی ہیں پنجابی یا لاہوری زبان بھی اس میں شامل ہے۔

راجستھانی بھی اِس سے ایک گہرا رشتہ رکھتی ہے میواتی کھڑی بولی اور دہلی میں بولی جانے اور رواج پانے والی بولیوں کو بھی اس سے الگ نہیں کیا جا سکتا اور برج کے علاقہ کی برج بھاشا کی بولی کو بھی یہ تو وہ بولیاں ہیں جن سے شمال مغربی ہندوستان میں اردو بنی اور صدیوں تک متاثر ہوتی رہی۔

اس میں فارسی کو بھی ایک اہم سرکاری درباری انتظامی اور ثقافتی حیثیت سے شامل رکھئے۔

اُردو کی پرورش و پرداخت دکنی زبان کی حیثیت سے صدیوں تک دکن میں بشمولیت گجرات ہوتی رہی یہاں کی اپنی بولیاں دراوڑ نسل کی زبانیں تھیں جن میں ہم مہاراشٹری یا مراٹھی کو بھی صرف نظر نہیں کر سکتے۔ ان بولیوں کا اثر دکنی اُردو نے قبول کیا۔ اور دکنی اُردو کے محاورے اور لفظیات پر جو اثرات دکنی بولیوں کے تھے اس کا اثر شمالی ہند کی بولیوں میں بھی آگیا اس میں تجارت پیشہ لوگوں کے آنے جانے کو بھی دخل تھا۔ اور فوجوں کے بھی تاریخ اپنے طور پر جس طرح کام کر رہی تھی اس کا عمل جو ہماری تہذیبی زندگی کو متاثر کرتا رہا اسی اعتبار سے زبانیں بھی اس کا تاثر قبول کرتی رہیں۔ ادیبوں شاعروں اور صوفیوں کے ہاں ہم اس تاثر کو زیادہ آگے بڑھتا ہوا دیکھتے ہیں۔

خانقاہوں کا اثر غیر معمولی ہے جو شمال و جنوب میں یکساں طور پر دیکھا جا سکتا ہے لیکن جس زمانہ میں دکنی زبان میں قدیم اردو لٹریچر کے نمونے سامنے آ رہے تھے اس دور میں شمالی ہندوستان میں اُردو شاعری کی مثالیں نہیں ملتیں ہم یہ دیکھتے ہیں کہ دہلی کے آس پاس جو زبانیں بولی جا رہی ہیں اُن میں شاعری اچھے خاصے پیمانہ پر ہو رہی ہے۔ ان زبانوں میں پنجابی اور راجستھانی زبان کے علاوہ برج اور اودھی شامل ہے ان زبانوں یا بولیوں کا شعری ادب مسلمان قوموں کا اپنا تخلیقی ادب بھی۔ اور بڑے پیمانے پر ہے۔ اِن کے مطالعہ سے ہم بہت کچھ لے سکتے ہیں اور نتائج اخذ کر سکتے ہیں کہ ان کے وسیلے سے ایک طرح اور ایک سطح پر زبان آگے بڑھتی رہی ہے اور نئی نمود حاصل کر رہی ہے۔

محاورہ اُس دور زندگی کی بہرحال لسانی یادگار ہے اور ان کے ادبی لسانی اور تہذیبی اثرات محاورے میں بھی سمیٹے ہوئے ہیں ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ Preserved صورت میں ہیں ان بولیوں سے تقابلی مطالعہ کا وسیلہ اختیار کر کے ہم اُردو محاورات کا مزید تہذیبی اور لسانی نقطہ نظر سے کام کر سکتے ہیں۔

ضرورت اِس امر کی ہے کہ ہمارے اہلِ نظر اور اصحابِ خیر افراد اس طرف توجہ فرما ہوں جس سے اِس نوع کے مطالعہ کی اہمیت سامنے آئے اور اس کے مختلف گوشے جواب تک نظر داری کی روشنی سے محروم ہیں اُن کی طرف توجہ مبذول ہو۔ توقع کی جا سکتی ہے کہ ہمارے نئے لکھنے والے اور سینئر ادیب اس مسئلہ کی طرف خاطر خواہ توجہ دے کر بات کو آگے بڑھائیں گے اور مطالعہ کی نئی صورتیں سامنے آئیں گی اور آتی رہیں گی۔