اردو محاورات کا تہذیبی مطالعہ

اردو محاورات کا تہذیبی مطالعہ0%

اردو محاورات کا تہذیبی مطالعہ مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب

اردو محاورات کا تہذیبی مطالعہ

مؤلف: ڈاکٹر عشرت جہاں ہاشمی
زمرہ جات:

مشاہدے: 79965
ڈاؤنلوڈ: 4143

تبصرے:

اردو محاورات کا تہذیبی مطالعہ
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 81 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 79965 / ڈاؤنلوڈ: 4143
سائز سائز سائز
اردو محاورات کا تہذیبی مطالعہ

اردو محاورات کا تہذیبی مطالعہ

مؤلف:
اردو

آس

آس اُمّید کو کہتے ہیں اور اُمید کے لیے کہا جاتا ہے کہ اس پر دنیا قائم ہے، یعنی اُمید نہ ہو تو پھر کچھ بھی نہیں ہو سکتا۔ اگر چہ امید کے ساتھ بھی قیامت کا اُتار چڑھاؤ رہتا ہے۔ اُردو کا ایک شعر ہے۔

اُمّیدیں باندھتا ہوں، سوچتا ہوں، توڑ دیتا ہوں

کہیں ایسا نہ ہو جائے، کہیں ویسا نہ ہو جائے

امیدیں ہمارے خواب ہیں، خیال ہیں، توقعات ہیں جو زندگی میں وقتاً فوقتاً، موقع بموقع ایک نہایت اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ عورت کے ہاں حمل کی حالت کو اُمید سے ہونا کہتے ہیں۔ اُردو کا ایک شعر ہے۔

کہتے ہیں، جیتے ہیں اُمّید پہ لوگ

ہم کو جینے کی بھی اُمّید نہیں

"اُمید آس" ہے، جو آشا کی عوامی شکل ہے اور بعض محاورات کا ضروری جزو ہے۔ "آس رکھنا" تو خیر اُمّید رکھنے کے بارے میں ہے۔ "آس اولاد" اس سے آگے کی بات ہے۔ ہم اولاد سے بھی آس رکھتے ہیں۔ اور اولاد ہم سے آس رکھتی ہے۔ یہ سلسلہ باہمی طور پر ذہنی رشتوں کو قائم رکھتا ہے۔ دعاؤں میں آس پوری کرنا بھی کہتے ہیں، پوری ہونا بھی۔ اولاد کی آس تو بہت بڑی آس ہوتی ہے اور جس کے اولاد نہ ہو اس کی تو گویا جڑ بنیاد ہی اکھڑ جاتی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اس کے تو آس اولاد کچھ بھی نہیں ہے۔ بے اولادا ہونا ایک طرح کی نحوست ہے اور عورت تو اولاد نہ ہونے کی صورت میں بہت ہی نا مرادانہ زندگی گزارتی ہے۔ "آس لگانا" اور"آس رکھنا" بھی اسی میں شامل ہے اور"آس ٹوٹنا" یا"آس بندھنا" بھی۔ "آسرا" بھی اسی ذیل میں آتا ہے۔ "آسرا ڈھونڈنا"، "آسرا جوہنا"، "آسرا لگانا"، "آسرا باندھنا" بھی اور"آسرا رکھنا" بھی۔ فراق کا شعر ہے۔

آسرا وہ بھی شامِ فُرقت کا

خواب تو دیکھیے محبت کا

آسامی بنانا

"آسامی" جگہ کو بھی کہتے ہیں۔ اسی لیے یہ کہا جاتا ہے کہ وہاں ایک پٹواری، ایک ٹیچر یا ایک کلرک کی آسامی خالی ہے۔ "آسامی بنانا" ایک محاورہ بھی ہے اور انسان کے فریب، مکر اور دغا کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ آدمی جھوٹ سچ بول کر، پُر فریب باتیں کر کے کسی سے ناجائز فائدہ اٹھا لیتا ہے۔ اسی کا آسامی بنانا کہتے ہیں کہ اُس نے وہاں آسامی بنا رکھی ہے، یا وہ تگڑم باز ہے، آسامی بنا لے گا۔ آسامی بمعنی جگہ اب بہت کم استعمال ہوتا ہے اور درخواستوں میں بھی نہیں آتا۔ اس سے ہم نتیجہ اخذ کر سکتے ہیں کہ بعض الفاظ سماج میں ایک خاص طبقے یا حلقے میں اپنی جگہ بناتے ہیں اور جڑیں پھیلاتے ہیں اور وقت کے ساتھ وہ سمٹ بھی جاتے ہیں اور ان کا استعمال کم یا ختم ہو جاتا ہے۔

آستین کا سانپ ہونا

یہ بھی سماج میں موجود افراد کی برائیوں کی طرف ایک اشارہ ہے۔ سانپ خود بھی بطورِ محاورہ اور علامت استعمال کیا جاتا ہے اور یہ کہا جاتا ہے کہ وہ آدمی نہیں بلکہ سانپ ہے۔ اس معنی میں سانپ گویا بدترین دشمن ہوتا ہے اور آستین کا سانپ وہ ہوتا ہے جو بظاہر ہمارے ساتھ ہو، ہمارا ہم درد ہو اور مخلص نظر آتا ہو لیکن در پردہ ہمارا دشمن ہو۔ سماج میں اس طرح کے کردار بہر حال موجود ہوتے ہیں۔

آستینوں میں بُت چھُپائے رکھنا

یہ محاورہ ایسے موقعوں پر بولا جاتا ہے جب انسان عقیدہ و خیال کو چھُپائے رکھنا چاہتا ہے۔ حقیقت کچھ اور ہوتی ہے اور ظاہر کچھ اور کہا جاتا ہے۔ یہ روایت ہے کہ عرب کے کچھ لوگ جو دراصل بُت پرست تھے، جب نماز پڑھنے مسجد میں آتے تو اپنی آستینوں میں بت چھپائے رکھتے اور اس طرح ایک منافقانہ کردار ادا کرتے۔ اسی بات کو ذہن میں رکھتے ہوئے اقبال نے یہ شعر کہا ہے۔

اگر چہ بُت ہیں جماعت کی آستینوں میں

مجھے ہے حکمِ اذاں، لا الٰہ الا اللّہ

اِس کان سننا، اُس کان اڑا دینا

معاشرے کا لا پروائی والا رویّہ اُس کے پس منظر میں موجود ہے کہ وہ کسی کی اچھی سچی بات اور فریاد بھی سننا نہیں چاہتا۔ ویسے داستانیں، قصّے، کہانیاں گھڑی بھی جاتی ہیں، سنی بھی جاتی ہیں اور سنائی بھی جاتی ہیں۔ لیکن معاملے کی باتیں نہ کوئی سننا چاہتا ہے، نہ سمجھنا چاہتا ہے۔ اسی لیے یہ رویّہ دیکھنے کو ملتا ہے۔ اور روزمرہ کے تجربے کا حصہ ہے کہ آدمی دوسرے کی بات کو سُنی ان سنی کر دیتا ہے۔ اسی کی طرف اس محاورے میں اشارہ کیا جاتا ہے کہ وہ اس کان سے سنتے ہیں اور اس کان سے اڑا دیتے ہیں۔

آسمان پر اُڑنا۔ آکاس پھل

یہ ایسا محاورہ ہے جو ہماری زبان اور ہماری روایتی فکر کی سماجی بنیادوں کی طرف اشارہ کرتا ہے یعنی بہت اونچی اونچی باتیں کرنا، بڑھ چڑھ کر باتیں بنانا، جس کو زمین آسمان کے قُلابے مِلانا بھی کہتے ہیں۔ آسمان ہماری ایک اہم تہذیبی علامت ہے۔ ہم اپنے مذاہب کو بھی آسمانی مذہبوں سے تعبیر کرتے ہیں۔ آسمانی کتابیں کہتے ہیں، آسمانی صحیفہ قرار دیتے ہیں۔ سنسکرت میں اسے"آکاش وانی" کہا جاتا ہے۔ مسلم اقوام میں آسمان کا ایک اور کردار بھی ہے کہ وہ فریب کار ہے، دغا باز ہے، فتنے بر پا کرتا ہے، دِلوں میں فرق ڈالتا ہے اور عاشقوں کا دشمن ہے، رقیبوں کا دوست ہے، وغیرہ وغیرہ۔ اسی لیے فارسی اور اردو شعراء کے ہاں آسمان کی شکایتیں ملتی ہیں اور اس طرح کی تمنائیں بھی کی جاتی ہیں۔

شبِ وِصال بہت کم ہے، آسماں سے کہو

کہ جوڑ دے کوئی ٹکڑا شبِ جُدائی کا

اسی لیے ایک نیا زاویۂ فکر پیدا ہوا۔ وہ یہ کہ آدمی اگر زیادہ مکّاریاں کرتا ہے تو وہ گویا آسمان سے بھی آگے بڑھ جاتا ہے۔ ایسے بہت سے محاورے آئے ہیں جن سے ان ذہنی رویّوں کا پتہ چلتا ہے جو آسمان سے متعلق ہیں، جیسے آسمان کے تارے توڑنا، آسمان سے باتیں کرنا، آسمان میں پیوند لگانا، آسمان پر دماغ ہونا، آسمان پر چڑھنا، آسمان کو ہلا دینا، آسمان جھانکنا یا تاکنا۔ اِس سب میں زیادہ چالاکی دکھانے، جھوٹ بولنے اور فریب دینے کا مفہوم شامل رہتا ہے۔ اِس کے کچھ دوسرے پہلو بھی ہیں جو انسانی مشکلات سے تعلق رکھتے ہیں اور انسانی زندگی پر جو آفتیں ٹوٹتی ہیں، اُن کی طرف اُن میں اشارہ مقصود ہوتا ہے، جیسے آسمان پھٹ پڑنا، آسمان ٹوٹ پڑنا، آسمان سے بلاؤں کا اُترنا۔ فارسی کا ایک شعر ہے۔

ہر بلائے کز آسمان آید

خانۂ انوری تلاش کُند

یعنی جو بلا آسمان سے نازل ہوتی ہے، وہ انوری کا گھر تلاش کر لیتی ہے۔ یہ ہر وہ آدمی کہہ سکتا ہے۔ جس کے گھر پر زیادہ آفتیں آتی ہیں۔

آسمان سے متعلق اور بھی محاورات ہیں، جیسے آسمان سے گِرا، کھجور میں اٹکا، یعنی ایک جگہ سے کوئی مسئلہ حل بھی ہوا تو دوسری جگہ جا کر اٹک گیا۔ ایسا ہمارے انتظامی معاملات، گھریلو مسائل اور دفتری سطح کی باتوں میں اکثر ہوتا رہتا ہے۔ اس اعتبار سے یہ محاورہ ہمارے معاشرے کی صورتِ حال کو سمجھنے اور محاورے کے ذریعے معاشرتی امور پر تبصرہ کرنے کے لیے ایک کلیدی حیثیت رکھتا ہے۔ اوپر از غیبی گولے کا ذکر آیا ہے۔ "آسمانی گولا"، "آسمانی تھپیڑا" بھی اسی کو کہتے ہیں۔ آسمان کے متعلق اور بھی کچھ محاورے ہماری زبان کا حصہ ہیں۔ اُن میں"آسمان تلے آنا" بھی ہے۔

آسن

بیٹھنے کے انداز کو کہتے ہیں۔ جوگی دھیان، گیان کے وقت ایک خاص انداز سے بیٹھتے ہیں۔ اس کو"آسن لگانا" کہتے ہیں۔ اگر وہ اپنی جگہ پر نہ رہے تو اسے"آسن ڈگنا" کہتے ہیں۔ "آسن مارنا" یا"آسن مارکر بیٹھنا" آسن لگانے ہی کے معنی میں آتا ہے۔ جنسیات میں ایک خاص طریقے سے ایک دوسرے کے قریب آنے کو بھی آسن لگانا کہا جاتا ہے۔ "آسن تلے آ جانا" بھی اسی کی طرف اشارہ کرتا ہے۔

اَش اَش کرنا (عش عش کرنا)

یہ محاورہ"ع" سے عش عش کرنے کی صورت بھی آتا ہے، جس کے معنی یہ ہیں کہ کسی ایسی زبان سے ماخوذ ہے جس میں"ع" کا استعمال ہوتا ہو۔ اسی لیے لغت میں اس کے ساتھ چھوٹی"ہ"، "ف" اور"ع" کی علامتیں لکھی ہوئی ہیں، یعنی یہ ہندی، فارسی اور عربی تینوں میں استعمال ہوتا ہے۔ اس سے ہم اپنی زبان کے لِسانی رشتوں کا پتہ چلا سکتے ہیں۔ محاورہ زبان کی قدامت کو بھی ظاہر کرتا ہے۔ اِس اعتبار سے زبان کے سماجی رشتوں اور لسانی رابطوں کی تفہیم میں محاورہ یہ کہیے کہ غیر معمولی طور پر معاون ہوتا ہے۔

اِشتعال دینا یا اِشتعالک پیدا کرنا

غصّہ دلانے کو کہا جاتا ہے۔ لیکن لفظِ اشتعال عربی ہے اور اسی طرف اشارہ کرتا ہے کہ یہ محاورہ ہم نے عربی سے اخذ کیا ہے۔ ہمارے سماجی عمل میں بھی یہ استعارہ شریک ہے۔ جان جان کر بھی ہم دوسروں کو Tease کرتے ہیں اور ان کو غصہ دلاتے ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ محاورہ صرف لغت کی شے ہی نہیں ہے۔ اس کا رشتہ سماجی لسانیات سے ہے اور زبان کو ایک خاص سطح پر پیش کرنے اور سامنے لانے میں محاورہ جگہ جگہ اور معنی بہ معنی ایک خاص کردار ادا کرتا نظر آتا ہے۔ ۔ اس سے کسی بھی معاشرے کے داخلی عمل، فکری رویّے اور معاملاتی اندازِ نظر کو ہم زیادہ بہتر طور پر سمجھ سکتے ہیں۔ مثلاً"اشنان دھیان" ہندو معاشرے کا ایک خاص اندازِ عبادت ہے کہ وہ اشنان کرتے ہیں تو گویا سورج کو جل چڑھاتے ہیں۔ آفتاب پرستی قوموں کا بہت قدیم مذہب ہے اور اِس آفتاب پرستی کا پانی سے گہرا رشتہ ہے۔ اسی لیے اشنان کے وقت بھی سورج کا جل چڑھایا جاتا ہے۔

آفت توڑنا

آفت کے معنی مصیبت، سانحہ اور شدید پریشانی کے ہیں۔ آدمی کی زندگی میں اس طرح کے تکلیف دہ موقعے آتے رہتے ہیں کہ وہ اچانک کسی پریشانی میں مبتلا ہو جاتا ہے یا کسی دکھ کا سامنا کرنے پر مجبور ہوتا ہے۔ یہ دکھ زیادہ تر جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ وقت کی دین ہوتے ہیں مگر اس میں انسان ہمارے عزیز رشتے دار، پڑوسی، ساتھ کام کرنے والے شریک رہتے ہیں۔ انہیں کی وجہ سے یہ ہوتا بھی ہے۔ اب وہ اپنے ہوں یا غیر، وہی مصیبت کا باعث ہوتے ہیں۔ کچھ لوگ"آفت ڈھاتے ہیں"، کچھ لوگ"آفت اُٹھاتے ہیں"، کچھ لوگ"آفت توڑتے ہیں"۔ کچھ لوگ اس کی وجہ سے یا کسی اچانک حادثے کے باعث"آفت رسیدہ" ہوتے ہیں، جنھیں"آفت زدہ" یا"آفت کا مارا" کہتے ہیں۔

ہمارے ہاں شاعر اپنے آپ کو سب سے زیادہ آفت زدہ یا آفت رسیدہ خیال کرتا ہے۔ اس میں غم جانا بھی شامل رہتا ہے غم جان اور بھی۔ جہان آفت خود ایسا لفظ ہے جو تہذیبی رشتوں پر روشنی ڈالتا ہے۔ اصل میں یہ لفظ"آپتی" ہے جو سنسکرت لفظ ہے۔ وہاں سے ہندوی بھاشاؤں میں آیا ہے اور فارسی میں"پ" کے بجائے"ف" آ گئی اور تشدید غائب ہو گیا اُردو نے بھی اسے فارسی انداز کے ساتھ قبول کیا جس کے ذریعے ہم زبانوں کے باہمی رشتوں کو بھی سمجھ سکتے ہیں۔ ذہنوں اور زمانوں کے آپسی لین دین کو بھی۔

آفت کا پرکالہ (لپکتا ہوا شعلہ)

غیر معمولی طور سے ذہین اور شرارت پسند آدمی کو آفت کا" پرکالہ" کہتے ہیں۔ آفت کا ٹکڑا بھی اسی ذیل میں آتا ہے۔ ایک اور محاورہ آفت کی چھٹی ہے۔ چھٹی خط کو کہتے ہیں۔ اب سے کچھ زمانہ پہلے تک ڈاکیہ کو چھٹی رساں کہتے تھے۔ یعنی خط پہنچانے والا۔ چھٹی رساں کا لفظ بھی ایک ایسی ترکیب پر مشتمل تھا جس میں ایک لفظ ہندی اور دوسرا فارسی تھا۔ آفت کی چھٹی بھی اسی طرح کاترکیبی لفظ ہے جس سے ہماری زبان کی ساخت اور پرداخت کا علم ہوتا ہے۔ خط آنے پر ہمارے قصبوں اور خاص طور پر دیہات کے لوگوں میں ایک طرح کی کھلبلی سی مچ جاتی تھی۔ کہاں سے آیا ہے؟ کس نے لکھا ہے؟ کیا لکھا ہے؟ اور پھر یہ کہ اسے کون پڑھ کر سنائے؟ چٹھی میں کوئی بہت خوشی یا غم کی بات ہوتی تھی تو اسے آفت کی چٹھی سمجھا جاتا ہے۔ اب یہ رو یہ اگر محفوظ ہیں تو ہمارے اِن محاورات میں جو معاشرتی مطالعے کی کنجیاں کہہ جا سکتے ہیں۔

افرا تفری

یہ عربی لفظ ہے، اَفراط اور تفریط، یعنی بہت زیادہ اور بہت کم۔ ظاہر ہے کہ اس صورت میں توازن بگڑتا ہے اور چاہے وہ معاملات ہوں، مسائل ہوں، مشغولیتیں ہوں یا مصروفیات ہوں، تناسب اور توازن کے بغیر اُن کا حُسن اور اُن سے وابستہ بھلائی اور عظمت قائم نہیں رہتی اور ایک بے تکا پن پیدا ہو جاتا ہے۔ اُردو والوں نے اسی کو ایک نئے محاورے میں بدل دیا۔ اس کے تلفظ اور املا کو بھی نئی صورت دی اور اس کے معنی میں نئی جہت پیدا کی۔ اب افراتفری کے معنی ہیں گڑبڑ بھگدڑ چھینا جھپٹی اور بے ہنگم پن۔ یہی بات سماج میں خرابی کا باعث ہوتی ہے اور اُس کی قوت کو کمزوری اور خوبی کو خرابی میں بدلتی ہے۔ اس معنی میں اس مفہوم کا رشتہ انفرادی عمل سے بھی قائم ہوتا ہے اور اجتماعی اعمال سے بھی جو ہماری معاشرتی کارکردگی کی دائرے میں آتا ہے۔

افلاطون ہونا، افلاطون بننا

اَفلاطون قدیم یونان کا ایک بہت بڑا فلسفی، طبیب اور دانشور تھا۔ ارسطو اسی کا شاگرد تھا۔ افلاطونی نظریات یونانی فلسفے پر بہت اثرانداز ہوئے ہیں اور ارسطو نے اپنی تنقیدوں سے اُن کو نئی قوت اور وسعت بخشی ہے۔ اب یہ عجیب اتفاق ہے کہ ہماری زبان کے محاورے میں اَفلاطون کی عظمت کا تصور بدل گیا ہے اور ایسے لوگوں کے لیے یہ محاورہ استعمال ہونے لگا ہے جو خواہ مخواہ اپنے اوپر مغرور ہوں اور اپنی معاشرتی زندگی میں اس کا موقع بہ موقع اظہار کرتے رہتے ہوں۔ اسی لئے اَفلاطون کا سالہ اور افلاطون کا ناتی بھی محاورے میں شامل ہوئے۔ اُس سے اندازہ ہوتا ہے کہ ہم نے کس طرح دوسرے ملکوں کے کرداروں کو اپنے یہاں جگہ دی اور اُن کی شخصیت کو اپنی طرف سے نئے معنی پہنائے۔

افواہ پھیلانا، افواہ اُڑانا

افواہ جھوٹی سچی باتوں کو کہتے ہیں۔ عام آدمی کو کسی بات میں اِس رشتے سے دلچسپی نہیں ہوتی کہ وہ بات سچی ہے یا جھوٹی غلط ہے یا صحیح مناسب ہے یا غیر مناسب وہ تو باتوں کو پھیلاتا اور ان سے اپنی دلچسپیوں کا اظہار کرتا ہے۔ غالب نے تو دہلی کے لوگوں کی ایسی باتوں کا ذکر کرتے ہوئے یہ بھی کہا تھا کہ دہلی کے خبر تراشوں کا جیسا کہ دستور ہے انہوں نے اپنی طرف سے خبر اُڑا دی۔ اسی خبر اڑانے کو افواہ اڑانا کہتے ہیں۔ اس سے ہمارے معاشرے کے مزاج اور خواہ مخواہ کی باتوں سے دلچسپی کا پتہ چلتا ہے۔ مصرعہ ہے۔ اسی انداز کی ایک بات ہے۔

اڑتی سی اک خبر ہے زبانی طیور کی

آکھ کی بڑھیا

"آکھی" ایک خاص طرح کا پودا ہوتا ہے جسے آک بھی کہتے ہیں۔ یہ پودا گرمی کی شدید اداؤں میں پروان چڑھتا ہے اور اُس کے پتے اور پھُول بہت تر و تازہ ہوتے ہیں۔ اس کے بیج کچھ اس طرح ہوتے ہیں کہ وہ ایک ہرے خول میں بند رہتے ہیں۔ جب وہ خول کھُلتا ہے تو چھوٹے چھوٹے بیج بالوں جیسے بہت سارے ریشوں کے درمیان ہوتا ہے جو ہوا میں اڑتے پھرتے ہیں۔ انہیں بچے پکڑتے ہیں اور پھر اپنی پھونک سے اڑا دیتے ہیں۔ ان بالوں کو اور بیج کو آک کی بڑھیا کہتے ہیں یعنی سفید بالوں والی بُڑھیا جو اڑتی پھرتی ہے۔ ایسی ہی ایک مشین بھی ہے جس میں شکر سے سفید سفید بالوں جیسا ایک گچھا پیدا ہوتا ہے۔ اسے سمیٹ لیتے ہیں۔ وہ بھی بڑھیا کے بال کہلاتے ہیں۔ یہ محاورہ جو مشینی دور تک آگیا اس بات کی علامت ہے کہ ہمارے معاشرے میں بوڑھی عورت اپنے سفید بالوں کے ساتھ بچوں اور بڑوں کو کسی نہ کسی خاص معنی میں متاثر کرتی ہے۔ کہانیوں میں بھی اکثر بوڑھی عورتوں کا ذکر آتا ہے مگر شفقت و محبت کے ساتھ نہیں ایک طرح مکاری کے ساتھ۔

اُکھاڑ پچھاڑ

اکھاڑنا بھی بیشتر اچھے معنی میں نہیں آتا، جیسے اُس کو اکھاڑ دیا گیا، وہ اکھڑ گیا، اس کی جڑ اکھڑ گئی، جڑ بنیاد اکھاڑ کر پھینک دی گئی۔ یہ سب ایک طرح کے سماجی عمل ہیں اور اُن میں فرد یا جماعت کا ایسا عمل شامل ہے جو ذاتی طور پر یا جماعتی طور پر نقصان دینے والا ہو۔ یہی صورت پچھاڑ کی ہے۔ پچھڑ جانا، پچھاڑ کھانا، پچھاڑ دینا شکست دینے کے معنی میں آتا ہے یا پھر اس میں بے چینی اور ناکامی کا مفہوم شامل رہتا ہے۔

یہاں اکھاڑ پچھاڑ انہیں مطالب کا جامعہ ہے اور اس کے ساتھ کہا جاتا ہے کہ بہت اکھاڑ پچھاڑ کی یا اکھاڑ پچھاڑ کھائی۔ اکھاڑ پچھاڑ مچانا بھی اسی دائرہ میں شامل ہے۔ پہلے زمانہ میں جب جھڑپیں ہوتی تھیں، لوٹ مار ہوتی تھی۔ اسی کو اکھاڑ پچھاڑ بھی کہتے تھے۔ اکھاڑ پچھاڑ مچانا اسی طرح کا عمل ہے۔ فتنہ فساد برپا کرنے والوں کو بھی اکھاڑ پچھاڑ مچانے والا کہتے تھے۔ خاندانی جھگڑے جب بڑھ جاتے تھے تو وہ بھی ایک طرح کی اکھاڑ پچھاڑ تھی جس کے ذمہ دار خاندان ہی کے لوگ ہوتے تھے۔

یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ یہ محاورہ بھی ایسے محاورات میں سے ہے جو سماج کی فطرت انسانی ذہنی روش اور سماجی، معاشرتی اور خاندانی تنظیم کو بگاڑ دینے کا عمل اس میں شامل ہے۔

اُکھڑی اُکھڑی باتیں کرنا

جما، جما کر باتیں کرنا ایک طرح کا سماجی عمل بھی ہے اور شخصی عادت بھی۔ اس کے مقابلے میں اکھڑی اکھڑی باتیں کرنا آتا ہے، یعنی باتوں کو بے دلی سے کرنا۔ کٹے پھٹے جملے اور بے ربط فقرے استعمال کرنا یہ ذہنی رو یہ سماجی نفسیات کا حصّہ ہوتا ہے۔ آدمی جب بیزار ہوتا ہے، بات نہیں کرنا چاہتا تو خواہ مخواہ کی بے تکی باتیں کرتا ہے، بے ربط اور بے موقع سوال و جواب کرتا ہے۔ وہی تو اکھڑی اکھڑی باتیں ہیں۔ ہمارے یہاں اس طرح کا عمل طرح طرح سے سامنے آتا ہے۔ ہم کسی بات پر توجہ دینا نہیں چاہتے، سننا نہیں چاہتے، بات کو ڈھنگ سے کہنا نہیں پسند کرتے، ٹلا دینا چاہتے ہیں، تو یہ رو یہ اختیار کرتے ہیں۔

آگا تا گا لینا

یہ ہمارے معاشرتی رویوں کا ایک نمائندہ محاورہ ہے۔ ہمارے یہاں درمیانی طبقہ اور اس میں بھی نچلا درمیانی طبقہ ذمہ داریوں سے گھبراتا ہے اور چاہتا یہ یہ کہ دوسرے ہمت کر کے آگے بڑھیں اور جو قریب تر لوگ ہیں اُن کے لئے کچھ کریں۔ مثلاً اگر ضرورت پڑے تو شرافت کے ساتھ اُن سے اچھا سلوک کریں خاطر تواضع مناسب سطح پر لین دین اور ضرورت وقت امداد و تعاون سے بھی گریز نہ کریں۔

حکومت کی طرف سے کوئی ایسا انتظام نہیں ہے یا سوسائٹی نے کوئی ایسا ادارہ قائم نہیں کیا جس میں دوسروں کی بھلائی یا وقتِ ضرورت ان کی مدد کا کوئی provision ہو اس میں زیادہ تر رشتہ دار عزیز دوست اور ہمدردی ہی کام آتے ہیں اور وہی آگا تاگا لیتے ہیں اور یہی سماجی عمل کی خوبصورتی ہے۔

آگا پیچھا دیکھنا

نفع نقصان اور اچھائی برائی پر نظر رکھنا بہت سے آدمی غیر ذمہ دار ہوتے ہیں کوئی فیصلہ کر کے یا اس پر عمل کرتے وقت انجام کو ذہن میں نہیں رکھتے جو چاہے کہہ دیتے ہیں جو چاہے کر دیتے ہیں وہ یہ کبھی غور نہیں کرتے اپنے آپ کو اس کا عادی نہیں بناتے کہ بات کا آگا پیچھا سوچ لیں احتیاط برتیں اور کسی بھی فعل کے معاملہ میں اپنی ذمہ داری کے احساس کو فراموش نہ کریں۔

آگا روکنا

آگا روکنا بھی ایک طرح کا وہ عمل ہے جو ہماری سماجی نفسیات سے گہرا رشتہ رکھتے ہیں کسی بھی معاملہ میں جو مشکلات ابتداءً پیش آتی ہیں ان کو روکنا یا روکنے میں معاون ہونا آگا ہونا روکنا کہا جاتا ہے دشمن کے حملہ کے وقت اس کے پہلے حملے کو روکنا آگا روکنا کہلاتا ہے۔

شادی میں دلہن کو لے جاتے وقت آگا روکنے کی ایک اور صورت سامنے آتی ہے وہ یہ کہ رعایا پر آیا ہے کے لوگ آ کر برات کا راستہ روکتے ہیں اس کو باڑ رکائی کہا جاتا ہے لیکن ہے وہ بھی آگا روکنا کہا جاتا ہے اور جیسا کہ اس سے پیشتر اشارہ کیا جا چکا ہے۔ بہت سے محاورہ ہماری سماجی فکر و معاشرتی عمل اور سماجی رویوں کو ظاہر کرتے ہیں۔

آگ بگولہ ہونا

ایسے ملکوں کا محاورہ ہے یا ان کی زبان یا طرز بیان میں داخل ہو سکتا ہے جہاں شدت سے گرمی پڑتی ہے سخت گرم لونہیں چلتی ہوں وہیں تو بگولے آگ کا درجہ رکھتے ہوں وہیں تو بگولے آگ بگولہ کہلاتا ہے جہاں آدمی ذرا سی بات پر بھڑک رکھتا ہے اور اپنے شدید غم و غصہ پر بھڑک اٹھتا ہے اور اپنے شدید غم و غصّہ کا اظہار کرتا ہے ایک اپنے معاشرے میں جہاں تحمل اور بُرد بازی کم ہوتی ہے وہیں اس طرح کی جذباتی روشیں زیادہ سامنے آتی ہیں خواہ وہ غصّہ کے عالم میں ہوں یا غم وا لم کے جذبات سے متعلق ہوں یہاں شدتِ احساس کا غلبہ مشرقی قوموں میں زیادہ دیکھنے کو ملتا ہے۔

آگ سے متعلق ایک ہم محاورہ آگ کھائے گا انگار ے اُگلے گا یہاں آگ کوئی نہیں کھاتا لیکن مداری شعلہ اگلتے اور آگ نگلتے نظر آتے ہیں۔ یہ ایک طرح کا نظر بندی کا عمل بھی ہے۔ اور یہاں کی جادوگری کا ایک حصّہ ہے مگر اسی کے ساتھ اس کا ایک اور سماجی مفہوم ہے وہ یہ کہ آدمی جس طرح کے اعمال اختیار کرتا ہے وہی اس کے سنسکار میں جاتے ہیں جواس کے دل میں ہوتا ہے وہی زبان میں ہوتا ہے آخر ہونٹوں تک کوئی بات دل سے گزر کریا دماغ سے اُتر کر ہی آتی ہے ایسی صورت میں جس طرح کے کردار کا کوئی انسان ہو گا وہی اس کی رفتار و گفتار میں بھی سامنے آئے گا۔

آگ لگانا، آگ بجھانا، یا لگانی بجھائی کرنا

یہ سماجی عمل ہے لوگ جھوٹ بولتے ہیں فتنہ پردازیاں کرتے ہیں یہ سیاسی مقصد سے بھی ہوتا ہے سماجی مقاصد اس میں شریک رہتے ہیں۔ لوگوں کی اپنی کمینہ فطرت بھی ایسی صورت میں چاہیے افراد میں تعلقات بگاڑے جاتیں یا خاندانوں میں بہرحال وہ ایک سماجی سطح پر یہ کردار ہے۔

بعض جس کا اظہار آگ سے متعلق محاورات سے ہوتا ہے جیسے آگ بھڑکانا، یا آگ پانی کا بیر ہونا، آگ پھونکنا، آگ اگلنا، آگ لگا کر تماشہ دیکھنا، آگ دینا، آگ ہوئی تو دھواں ہو گا، وغیرہ۔

بعض محاورے عجیب و غریب ہیں جیسے آگ جوڑنا آگ روشن کرنے کی کوشش کو کہتے ہیں۔ آگ دھونا اس سے بھی زیادہ عجیب و غریب محاورہ ہے۔ چلم پر رکھنے کے لئے جب انگاروں کو جھاڑا جاتا ہے اور راکھ الگ کی جاتی ہے تو اسے آگ دھونا کہتے ہیں۔

آگے آگے چلنا، یا ہونا، آگو آگو کرنا

آگے آگے چلنا ہمارے یہاں ایک تہذیبی قدر ہے ہراول دستہ ہمیشہ آگے آگے چلتا تھا شاہی سواری کے ساتھ خیمہ بردار اور دوسرے خادم ہمیشہ آگے رہتے تھے ان کو پہلے سے خیمے چھولداریاں اور ڈیر ے لگا نے ہوتے تھے احتراما ً بزرگوں کے آگے آگے چلتے تھے۔ اور مقصد یہ ہوتا تھا کہ کسی بھی رکاوٹ دشواری اور خطرہ سے ان کو بچایا جائے۔

جہاں محاورے کے ساتھ آگوہ آگو بھی دیا گیا ہے اور آگاڑی آگاڑی کے ساتھ آگا ڑ وآگاڑ وآگاڑ بھی لکھا گیا ہے۔ یہ تلفظ راجستھانی اثرات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ وہ لوگ"آگا" تلفظ ہویا ی کا دونوں کو و کے تلفظ میں بدل دیتے تھے اور گاڑھا کو گاڑہو کہتے ہیں اور"مارا" کو مارو کہتے ہیں۔ محاورے ہماری زبان کی قدیم شکل کو محفوظ رکھتے ہیں اس میں تلفظ املا بھی شریک ہے۔

آگے خدا کا نام

یہاں تک آ گئے آگے خُدا کا نام ہے ساقی

خدا ہمارے یہاں ایک فکری آئیڈیل ہے ہم جو عقیدتوں خیالوں" اور خوابوں میں بھی شریک رہتا ہے۔ یہاں یہ ظاہر کیا گیا ہے کہ ہم جس انتہا تک آ گئے ہیں اِس کے بعد میں خدا کا نام ہے اور کچھ نہیں۔

معلوم ہوا کہ فکر و خیال اور سعی و عمل کی وہ حد جسے ہم نقطہ آخر کہہ سکتے ہیں وہ مقام آ چُکا ہے اور اُس کے بعد خدا کا نام ہے۔ ایک محاورہ ہے کہ ہمارے پاس کچھ نہیں سوائے خدا کے نام اور محمد صلی اللہ علیہ و سلم کے کلمہ کے بات پھر وہیں آئی کہ صورت جو بھی ہو انتہا کو پہنچ کر ہم خدا کے نام کو سامنے رکھتے ہیں اس لئے کہ ہمارا عقیدہ ہے کہ وہی اوّل ہے وہی آخر ہے نہ اس سے پہلے کچھ تھا اور نہ اس کے بعد کچھ ہے۔

آگے سے ہوتی آئی ہے

ہمارا معاشرہ بنیادی طور پر روایت پرست ہے اور انسان نے اپنی راہ ارتقاء کے مختلف مرحلوں میں سوچا ہے، سمجھا ہے، نئے فیصلے کئے ہیں، مگر معاشرہ بنیادی طور سے روایت پسند رہا ہے یہ کہنا کہ آگے سے ہوتی آئی ہے اس حقیقت کا اظہار ہے کہ ہم جو کچھ سوچ رہے ہیں کر رہے ہیں وہ پہلے سے چلی آتی ہوئی ایک روایت ہے۔

ہوتی آئی ہے کہ اچھوں کو برا کہتے ہیں

یعنی اپنی سوچ کا عمل یہاں بھی موجود نہیں ہے صدیوں کا سفر آنکھ بند کر کے روایت کی لکیر پر ہوتا رہا ہے آخر اچھوں کو کیوں برا کہا جاتا رہا ہے یہ کتنا بڑا سوالیہ نشان ہے مگر ہر آدمی نے روایت کا سہار لیا خود سوچا نہیں اور یہی انسانی معاشرے کی بہت بڑی کمزوری نارسائی اور ناکامی ہے کہ اُس نے ایک بار کسی بات کو مان کر پھر اُس پر کبھی نہیں سوچا۔ اور Tradition Bound روایت پرستی پر ہمیشہ فخر کیا۔

آگے کا اُٹھا کر کھانے والا، یا آگے کا اُٹھا کے کھانا

آگے کا اُٹھاکھا کرنا یہی محاورہ دوسرے الفاظ میں بھی ملتا ہے"اوپر کا پڑا کھانا" اور ہمارے معاشرے کی شدید کمزوریوں کی طرف اِشارہ کرتا ہے یعنی بغیر محنت کے یا بغیر حق کے کھانا جو مل گیا جسے مل گیا جہاں سے مل گیا اُس سے پیٹ کی آگ بجھا لی یا اپنی کوئی بھی معاشرتی ضرورت پوری کرنا ہے معاشرے کی یا سوسائٹی کی اِس مجموعی عادت کو اِس محاورے میں پیش کیا گیا ہے جس میں ایک گہرا طنز موجود ہے۔

آگے ڈالنا

اِس کے معنی سامنے رکھنا بھی ہے اور بیوہ کی مدد کرنا بھی ہے۔ ہندوؤں میں دستور ہے کہ کسی بیوہ عورت کے گزارے کے خیال سے اُس کے عزیز رشتہ دار اُٹھاونی یا تیرہویں کے دن حسبِ مقدور کچھ روپیہ دیتے ہیں۔

اِس کے یہ معنی ہیں کہ ہماری رسمیں زندگی اور دُنیاوی معاملات سے بھی رشتہ رکھتی ہیں ضرورت اِس امر کی ہے کہ اُن کے معنی اور مقصد پر نظر رکھی جائے۔

آگے کو کان ہونا

یہاں کانوں کے آگے یا پیچھے ہونے سے مُراد نہیں ہے بلکہ آئندہ کے لئے ذہن کے ہوشیاری ہونے سے مراد ہے کہ اب جو کچھ ہم نے سنا ہے دیکھا ہے اس سے ہم نتیجہ اخذ کریں ہمارے معاشرے کی سب سے بڑی کمزوری یہ ہے کہ ہم لوگ آئندہ کے لئے احتیاط اور اخذ نتائج کے عمل سے اکثر محروم رہتے ہیں۔

آگے ہاتھ پیچھے پات

پات پیڑ کے پتہ کو کہتے ہیں ایسا غریب آدمی جس کے پاس تن ڈھانکنے کے لئے بھی کچھ نہ ہو یہ محاورہ اُس کے لئے ہوتا ہے ہندوستان میں سادھو سنت اور خاص طور پر پر جین مت کو ماننے والے منی ننگے رہتے ہیں۔ جو غربت کے باعث نہیں ہوتا یونان میں بعض دیوتاؤں یا قدیم انسانوں کے پرائیوٹ حصّہ جسم کو انجیر کے پتے سے ڈھکتے تھے۔ وہ ایک فنکارانہ رو یہ تھا غربت وہاں بھی شریک نہیں تھی مگر ہمارے معاشرے میں غُربت و اِفلاس کو بھی اس پس منظر میں خصوصیت سے شامل کیا گیا ہے۔

غُربت پر ہمارے یہاں بہت محاورے ہیں اُن میں ایک محاورہ یہ بھی ہے کہ اُس کے گھڑے پر پیالہ بھی نہیں ہے یا ننگی کیا نہائے کیا نچوڑے بھوکا ننگا فقیر جیسے محاورے ہمارے معاشرے کی غربت کو ظاہر کرتی ہے۔

اُلٹا توا ہونا، بے حد کالا ہونا

ہندوستان میں سانولا رنگ تو ہوتا ہی تھا اُس کی تعریف بھی کی جاتی تھی۔ لیکن زیادہ کالے رنگ کو ناپسند بھی کیا جاتا رہا ہے اسی لئے اُلٹا توا ہونا بہ حیثیت محاورے کے ہمارے ہاں رائج ہوا کہ وہ آدمی کیا ہے اُلٹا توا ہے۔ اس سے ہم یہ بھی اندازہ کر سکتے ہیں کہ یہ اُن لوگوں نے بطور محاورہ رائج کیا جو جو نسبتاً اچھے رنگ والے ہوتے تھے۔

اُلٹے لفظ اور مفہوم کے ساتھ بہت محاورے بنے ہیں اور ہمارے معاشرے کی ذہنی سطح کے مختلف رنگ اُس کے ذریعہ سامنے آتے ہیں مثلاً اُلٹی گنگا بہانا، بات کو الٹ پلٹ کر دیکھنا، یا دینا۔ اُلٹی سیفی پڑھنا یعنی بددعا دینا۔ اُلٹے پاؤں پھر آنا، فوری طور پر واپس لوٹ آنا، الٹے ملک کا ہونا، بے حد بیوقوف ہونا ملک کا لفظ ہماری عام زبان میں بہ طورِ علاقہ استعمال ہوتا تھا ملک اس معنی میں نہیں آتا تھا جس معنی میں اب آتا ہے۔

قوم کا لفظ بھی اپنے معنی اور مفہوم کے اعتبار سے بہت سی تبدیلیوں سے گزرا ہے ایک وقت میں وہ قبیلے خاندان اور گروہ کے معنی میں آتا تھا اب اُس کے معنی ایک خاص سیاسی اور قانونی اسٹیٹ میں رہنے والے کے ہیں۔ جسے آج ہم ہندوستانی قوم کہتے ہیں اور Nation نیشن کے معنی مراد لیتے ہیں۔

اُلٹی سانسیں آنا یا اُلٹے سانس آنا

اِس سے مراد ہے جان کنی کا عالم جب سانس اُکھڑ جاتی ہے دہلی میں اُسے" گھنگرو بجنا" کہتے ہیں کہ وہ خود ایک محاورہ ہے۔

الش کرنا

بادشاہوں یا امیروں کے لئے الگ سے جو اُن کا پسندیدہ کھانا ہوتا تھا وہ خاصہ کہلاتا تھا۔ اُس میں سب شریک نہیں ہوتے تھے امیر یا بادشاہ اُس میں سے جب بطورِ تحفہ کسی کو کچھ دیا جاتا تھا تو وہ" الش" کہلاتا تھا یہ ترکی لفظ ہے اور غالباً مغل بادشاہوں کے ساتھ آیا ہے۔

الف

حروفِ تہجی میں پہلا حرف ہے اور اِس اعتبار سے خاص معنی رکھتا ہے۔ ابتداء کو ظاہر کرتا ہے خدا کے نام یعنی"اللہ کا پہلا حرف ہے" الف اللہ" کا محاورہ ہے اور اس کے معنی سب سے الگ اور جدا۔ الِف کھینچنا گَداگری کرنے کو کہتے ہیں۔ "الف" کے ساتھ عریاں ہونے کا تصور بھی آتا ہے اسی لئے کہتے ہیں کہ وہ ننگا الف تھا۔

"پُرش" ہندو فلسفہ میں خدا کو بھی کہتے ہیں"الکھ پرش" خُدا کی ذات بھی ہے اور ایسے فقیر کو بھی کہتے ہیں جو دوسروں سے آزاد اور الگ تھلگ رہتا ہو۔ ہندو کلچر میں" الکھ" کا لفظ بہت اہم اور مقدّس ہے۔ اسی لئے ایک مقدس ندی کا نام" الکھ نندا ہے"" الکھ داس" نام رکھا جاتا ہے"الکھ جگانا" یعنی جوش عقیدت پیدا کرنا۔ "آرتی اتارنا" بھجن پیش کرنا وغیرہ وغیرہ۔ اِس کے علاوہ کچھ مانگنے کو بھی درویشوں کی جگہ پر" الکھ جگانا" کہتے ہیں۔

الگ پڑنا، الگ تھلک ہو جانا یا الگ تھلگ کر دیا جانا

بہت سادہ سا محاورہ ہے جواب بھی استعمال ہوتا ہے کہ میں الگ پڑ گیا۔ یہ بھی ممکن ہے اور ہوتا رہا ہے کہ کوئی گروپ یا گروہ کسی ایک آدمی کے چلنے نہ دے اور یہ بھی ہمارا ایک سماجی رو یہ ہے کہ آدمی اپنی جان بچانے کے لئے یہ کہے کہ میں اکیلا پڑ گیا تاکہ وہ الزام سے بچ جائے۔

اللہ اللہ کرنا

مسلمانوں میں ایک معاشرتی رو یہ یہ ہے کہ وہ اپنی ہر بات کو خُدا سے نسبت دیتے ہیں ایسا صوفیانہ طرزِ فکر کے تحت بھی ہوتا ہے تہذیبی رسوم و آداب کے تحت بھی اور اس میں معاشرے کی یہ ذہنی روش بھی شامل رہتی ہے کہ اس طرح وہ اپنی انفرادی یا اجتماعی بُرائی چھُپانے کے لئے معاملہ کو مذہب کی چھتر چھایا میں لے آنا چاہتے ہیں مثلاً یہ کہتے نظر آتے ہیں کہ اللہ کی مرضی کا چاہا ہوتا ہے بندے کا چاہا نہیں ہوتا یہ کہنے والا اِس بات کو بھول جاتا ہے کہ اُس کی ناکامی میں اُس کی غلطی کو بھی دخل ہو سکتا ہے اور دوسروں کی مکاریوں کو بھی ہم ہر بات کو سمجھنے اور سمجھانے کے لئے اسی طرح کی باتوں کا سہارا لیتے ہیں چونکہ مذہب ہماری نفسیات میں داخل ہو گیا ہے اسی وجہ سے اِس بات کا رُخ بات بات میں مذہب کی طرف پھر جاتا ہے۔

اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ تہذیبی اظہار میں یہ رو یہ کہیں کہیں بہت خوبصورتی پیدا کرتا ہے۔ مثلاً اللہ نگہبان، اللہ حافظ، اللہ اللہ کرنا یا ہونا اس کی اللہ اللہ ہو رہی ہے یعنی آخری وقت ہے اور خُدا یاد آ رہا ہے۔

دمِ واپس اب سرِ راہ ہے

عزیزو اب اللہ ہی اللہ ہے

اظہارِ تعجب کے لئے بھی اللہ اللہ کہا جاتا ہے جیسے اللہ اللہ یہ نوبت آ گئی۔ یا تم کوکسی بات سے کیا واسطہ تم تو اللہ اللہ کرو۔

اللہ آمین سے بچہ پالنا، یا اللہ آمین کا بچہ ہونا

جو بچے بہت لاڈلے ہوتے ہیں اور جن کے ساتھ خاندان یا ماں باپ کی بہت تمنائیں وابستہ ہوتی ہیں ان کے لئے کہا جاتا ہے۔

اللہ ماری یا اللہ مارا یا خُدا ماری

یہ محاورہ اُس موقع پر بولتے ہیں جہاں عورتیں نگوڑا اور موا وغیرہ بولتی ہیں یہاں یہ بات بھی ذہن میں رکھنے کی ہے کہ کچھ محاورے ہمارے یہاں صرف عورتوں سے متعلق ہیں مرد اِس کو استعمال نہیں کرتے۔

اللہ والا، خُدا رسیدہ، بہت نیک

یہ محاورہ دہلی میں فقیر کے لئے استعمال ہوتا ہے چاہے اِسے عورت کے ساتھ وابستہ کیا جائے یا مرد کے لئے اللہ نور نام بھی ہوتا ہے لیکن جب اللہ کانور کہتے ہیں تو اس سے مراد نورانی صورت ہوتی ہے ڈاڑھی کو بھی اللہ کانور کہا جاتا ہے۔

اللہ کے گھر سے پھرنا، شدید بیماری سے واپس آنا

جس کا یہ مطلب بھی ہے کہ موت خدا سے قُربت کا ذریعہ ہے اِسی لئے یہ محاورہ بھی بولا جاتا ہے کہ وہ اللہ کو پیارا ہو گیا۔

الٰہی مہر ہونا

جس طرح سے کوئی مُہری دستاویز مصدِقہ ہوتی ہے اسی لئے جب یہ کہا جائے وہ الٰہی مہر ہے تو اِس کے معنی یہ ہیں کہ وہ رقم وہ بات وہ وعدہ نامہ ہر طرح مصدِقہ ہے۔ تصدیق شدہ ہے اور اُس سے انکار نہیں ہو سکتا۔

اللہ کا جی (جیو۔ جان) ہونا

جو آدمی بالکل سُوجھ بُوجھ سے بالکل محروم ہوتا ہے بس ایک معصوم جانور جیسا اُس کا ذہن اور اُسی کے مطابق اس کی زندگی ہوتی ہے۔ اس کو اللہ کی جی کہتے ہیں یہاں اللہ کا جیو کہنا ایک خاص تہذیبی معنی بھی رکھتا ہے وہ یہ کہ اللہ تو ہر انسان کو معصوم اور بھولا بھالا پیدا کرتا ہے یہ تو آدمی کو اُس کا ماحول اور اُس کی اپنائی ہوئی زندگی کی قدریں ہوتی ہیں جو اسے مکاری پر آماد ہ کرتی ہیں اِس لئے کہ جانداروں یا جانوروں میں تجربہ تو ان کے ذہن کو بدلتا ہے ورنہ بیشتر وہ معصوم ہوتے ہیں اور اپنی فطرت پر قائم ہوتے ہیں ہمیں یہ بھی نہیں بھولنا چاہئے کہ ہمارے معاشرے میں ہر بات کو کسی نہ کسی پہلو سے خدائی ہی سے نسبت دی جاتی ہے۔

اِلَّلذی نہ اُلَّلذِی، نہ اِدھر کا نہ اُدھر، الی اللذین ولا الی اللذین

دین کا نہ دنیا کا عربی زبان کے فقرہ کو اپنے محاورے میں ڈھال لینا اور اُس میں اُردو پن پیدا کر دینا ہمارے زبان دانوں کا بڑا کارنامہ ہے اور اِس سے پتہ چلتا ہے کہ اگر ہم نے دوسری زبانوں اور ادبیات کے نمونوں سے کچھ حاصل کیا ہے تو اُسے اپنے طور پر اور اپنے ذہن کے سانچوں میں ڈھالا ہے۔

یہ اعتراض کہ اُردو میں تو بہت کچھ عربی فارسی یا پھر تُرکی یا تاتاری زبانوں سے آیا ہے غلط ہے ہم نے ان کے ذریعہ اپنی زبان کو زیادہ Enrich کیا ہے مختلف اعتبارات سے ترقی دی ہے اِس کو دیا نتداری اور ایک ارتقاء پذیر زبان کے تاریخی سفر سے وابستہ کرنا چاہیے محض کسی سیاسی حکمتِ عملی سے نہیں جو علمی دیانتداری کے خلاف ہے۔

آپ سے خُوب خُدا کا نام

یعنی اپنے سے اچھا تو صرف خدا کا نام ہوتا ہے۔ اس سے سماج کی اِس نفسیات کا پتہ چلتا ہے کہ ہر آدمی خود مرکزیت کا شکار ہوتا ہے کہ صرف میں سب کچھ ہوں اور مجھ سے بہتر کوئی نہیں بس خدا کا نام ہے اگر اس اعتبار سے محاوروں پر غور کیا جائے تو سماج کہ ذہن و زندگی سے کتنے پردے اٹھتے ہیں جن کے اندر ہم جھانک نہیں پاتے۔

آیا دیکھنا

معنی اپنے اوپر نظر کرنا۔ یہ اِس اعتبار سے بڑی معنی خیز بات ہے کہ انسان دوسروں کے ایک ایک عیب کو ڈھونڈتا ہے اور اپنی طرف نظر نہیں کرتا کہ وہ کیا کر رہا ہے کیوں کر رہا ہے اور خود اُس کی اپنی ذات کی اچھائیاں بُرائیاں کیا ہیں یہی محاورہ اس شکل میں بھی ہے آیا ہی آیا نظر آنا یعنی اسے اپنا وجود ہی نظر آتا ہے اور اس سے باہر کچھ نظر نہیں آتا یہاں بھی مراد خود غرضی ہے خود شناسی نہیں۔ خود شناسی میں تو اپنے آپ کو اِمکانی طور پر صحیح پیمانوں سے دیکھنا اور پرکھنا شامل ہے۔ صرف خود غرضی یا آپ اپنی پرستش کرنے کے جذبہ سے خود کچھ دیکھنا نہیں آدمی جب دوسرے کی نظر سے خود کو دیکھتا ہے تو اس نتیجہ پر بھی پہنچتا ہے اور یہ بھی محاورہ ہے" آیا ہے برا ہے" یعنی ہم ہی بُرے ہیں اور تو سب اچھے ہیں۔

اپنا خون بہانا

اِس سے مراد ہے اپنے سے قریب تر رشتہ داری ( Blood Relation Ship ) ہونا۔ پہلے زمانہ میں اِس کی بڑی اہمیت تھی اور اپنائیت کے ساتھ بہت سارے رشتہ جڑے ہوئے ہیں اور محاورے کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں خون کا رشتہ صرف محبت کا رشتہ نہیں ہوتا مگر محاورہ میں اسے ہمیشہ کے لئے جوڑ دیا اور اس کے خلاف ہماری زندگی میں جو ہزار در ہزار واقعات اور ثبوت موجود ہیں۔ اور تلخ تجربات اس کی شہادت دے رہے ہیں لیکن ابھی تک وہ بات زبان پر آئی ہے کہ خون کا رشتہ اپنائیت کا رشتہ اسی کے ساتھ یہ محاورات ذہن میں رکھے جا سکتے ہیں کہ" اپنا مارے گا تو چھاؤں میں ڈالے گا" معلوم ہوا کہ اپنوں سے نیکیوں کی توقع رکھی جاتی ہے اسی کے ساتھ یہ محاورہ بھی ہے کہ" شکایت اپنوں ہی سے ہوتی ہے" یہ اپنے طور پر کوئی غلط بات نہیں ہے لیکن اسی کے ساتھ جب ہم یہ محاورہ دیکھتے ہیں کہ اپنوں کا کیا شکر یہ سوال یہ ہے کہ اگر اپنوں کا شکر یہ ادا نہیں کیا جاتا تو اُن سے شکایت کیوں کی جاتی ہے یہ سماج کے غلط رویوں کی طرف اشارہ ہے یہ الگ بات ہے کہ ہم نے محاوروں کو اپنے معاشرتی مطالعہ کے لئے اور اُن سے اخذ نتائج کی غرض سے کبھی اعتناء نہیں کیا۔ توجہ نہیں دی۔ اور ان سے نتیجہ اخذ نہیں کئے۔

آپادھاپی پڑنا

یعنی وہ صورت پیدا ہو جانا کہ چھینا جھپٹی ایک عام رو یہ بن جائے آپا سنبھالنا بھی ایک محاورہ ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ اپنے آپ کو ٹھیک ٹھاک رکھو۔ اس کے بغیر دوسرے تمہیں یا کسی کو تحسین کی نظر سے نہیں دیکھیں گے

آپے سے باہر ہونا

یہ بے حد اہم محاورہ ہے۔ اِس کے معنی ہیں اپنی حدود اور موقع کی نزاکت کونہ سمجھنا اور غصہ و غم پر قابو نہ پانا اور بے محابا اظہار کر دینا اِس میں بُرا بھلا کہنا بھی شامل ہے اور دوسرے بُرے سلوک بھی ہیں نقصان پہنچانا توڑ پھوڑ کرنا مار پیٹ کرنا عذابوں میں شامل کرنا سب ہی شامل ہے۔

اس اعتبار سے یہ نہایت اہم محاورہ ہے اور اخذ نتائج کی طرف ذہن کو مائل کرتا ہے۔ اُردو میں آپ سے متعلق بہت سے دلچسپ شعر بھی ہیں جیسے

آپ ہیں آپ، آپ سب کچھ ہیں

اور ہیں اور، اور کچھ بھی نہیں

اپنی اپنی ڈفلی اپنا اپنا راگ

ڈفلی چھوٹے سے ڈف کو کہتے ہیں اس کو بجایا جاتا ہے اور دوسرے سازوں کے ساتھ اس کی لے ملائی جاتی ہے۔ اِس میں کبھی کسی راگ کو بھی دخل ہو سکتا ہے بہرحال کسی بھی موسیقی سے نسبت رکھنے والی پیش کش کے لئے یہ ضروری ہے کہ جو لوگ اُس میں شامل ہوں وہ ایک دوسرے سے آواز میں آواز ملائیں جب سماج میں افراتفری پھیل جاتی ہے اور کوئی کسی کا ساتھ دینا نہیں چاہتا اپنی اپنی کہتا ہے اور اپنی سوچ کے آگے کسی کو اہمیت نہیں دیتا تو سماج بکھر جاتا ہے اور اُس کی مجموعی کوشش جو اچھے نتیجے پیدا کر سکتی ہے ان سے محروم رہ جاتا ہے اسی وقت یہ کہا جاتا ہے کہ وہاں اپنی اپنی ڈفلی اور اپنا اپنا راگ ہے۔ کسی کو کسی دوسرے کی کوئی پرواہ نہیں ہر شخص اپنی مرضی کا مالک ہے اور اپنی رائے کے آگے کسی کی بات کو کوئی اہمیت نہیں دیتا۔ یہ سماج کا کتنا بڑا مسئلہ ہے جس سے ہم گزرتے رہے ہیں اور گزر رہے ہیں۔

اُلٹی پٹی پڑھانا

ایک قدیم محاورہ ہے جس کا اندازہ پٹی پڑھانے سے ہوتا ہے پٹی پیمانہ جیسی ایک لکڑی ہوتی ہے جس پر پہلے زمانہ میں تحریر لکھی جاتی تھی اِس طرح کی پٹیاں جنوبی ہندوستان کے مندروں میں محفوظ تھیں اور اب میوزیم اور آرکائیوز میں رکھی ہوئی ہیں پہلے یہ کتابوں اور رسالوں کی طرح پڑھانے کے کام آتی ہوں گی اسی سے یہ محاورہ بنا کہ اُس نے یہ پٹی پڑھا دی اُس کے ذریعہ سکھایا اور اُس کا اپنا مطلب سمجھایا اب ایک ناواقف آدمی کو غلط سلط بھی سمجھایا بجھایا جا سکتا ہے۔ اِسی کو الٹی پٹی پڑھانا کہتے ہیں جو غلط ارادے رکھنے والے لوگ کیا کرتے ہیں۔

"الٹی سیدھی باتیں کرنا" ایک الگ محاورہ ہے جس میں یہ پہلو چھپا ہے کہ وہ بات بیشک کرتے ہیں مگر سیدھی سچی نہیں الٹی سلٹی جو بات اُن کی سمجھ میں آتی ہے وہ کرتے ہیں نہ اُن کی عقل و تجربہ سے اِن باتوں کا کوئی تعلق ہوتا ہے یہ گویا باتیں کرنے والوں کے رو یہ پر تبصرہ ہے۔

اُلٹی گنگا پہاڑ کو، یا اُلٹی گنگا بہانا

بے تکی غلط اور اُلٹی بات کے لئے کہا جاتا ہے۔ "گنگا" پہاڑ ہی سے اُتر کر آتی ہے اور میدانوں میں رہتی ہوئی آگے بڑھتی ہے اسے پیچھے نہیں ہٹایا جا سکتا ہے ایسے موقعوں پر جب کچھ لوگ انہونی بات کرتے ہیں تو یہ محاورہ بولا جاتا ہے کہ یہ تو گنگا کے بہاؤ کو اُلٹ کر پھر پہاڑ کی طرف کر دینا چاہتے ہیں جو ممکن نہیں یہ بھی سماج کا رو یہ ہے کہ وہ جھوٹ کو سچ اور سچ کو جھُوٹ ثابت کرنا چاہتا ہے اور اس میں جو بے تکاپن ہے کہے یا کرنے والوں کو اس کا خیال بھی نہیں رہتا یہ ہماری روزمرہ کی زندگی ذہنی حالت اور زمانہ کی روش پر ایک گہرا طنز ہے۔

اللہ اکبر، اللہ اکبر کرنا یا اللہ اللہ کرو یعنی اللہ کا نام لو

مسلمان سوسائٹی ہو یا ہندو سوسائٹی یا پھر سکھ سوسائٹی اُن پر مذہب کا روایتی اثر زیادہ ہے۔ یہ بات بات میں مذہب کو سامنے رکھتے ہیں اور جو بات کرتے ہیں وہ مذہب کے نام پر کرتے ہیں اِس کا ان کے عقیدے سے بھی رشتہ ہے اور تہذیبی روایت سے بھی وہ لوگ جو مذہب کو زیادہ مانتے بھی نہیں وہ بھی یہ الفاظ یہ کلمات اپنے اظہار ی سلیقے کے مطابق زیادہ مانتے ہیں مذہب کا روایتی اثر یہاں تک ہے کہ وہ یہ کہتے ہیں کہ خدا کے حکم کے بغیر پتہ بھی نہیں ہلتا یہ بات اپنی جگہ صحیح ہے مگر ایسی صورت میں بد اعمالیاں کیسے ہو رہی ہیں اور اس کی ذمہ داری کس پر ہے۔

اِس سے بہرحال یہ اندازہ ہوتا ہے کہ معاشرہ پر مذہب کا جو روایتی اثر ہے۔ اُس کا اظہار اس کی گفتگو، جملوں کی ساخت اور خاص طرح کے مذہبی کلمات سے بھی ہوتا ہے۔

اللہ آمین کا بچہ یا اللہ توکلی، اللہ کانور، اللہ کی جان

اللہ مارا، اللہ ہی اللہ ہے۔ اللہ کے گھر سے پھر ا ہے، خدا کے گھر سے پھرا ہے، اللہ کے لوگ، الہی مہر، الہی رات یہ تمام کلمات جو محاورے ہیں اِس طرف بھی اشارہ کرتے ہیں کہ اس میں مذہب کا وہ روایتی Traditional اثر ہے جو ہماری زندگی و ذہن پر مل سکتا ہے اور جس کا اظہار بات بات میں ہوتا رہتا ہے۔

اِس کے علاوہ اللہ آمین کا بچہ ہو جانا ظاہر کرتا ہے کہ بعض بچے بڑے لاڈ پیار اور دعا درود کے سایہ میں پلتے ہیں خاص طور پر ایسے خاندانوں کے لڑکے جہاں بچے بہت کم ہوتے تھے۔ یہ صورت بڑی حد تک اب بھی ہے۔

اللہ توکلی کے معنی یہ ہیں کہ آدمی کو بھروسہ کوئی نہیں ہے کہ اُس کے پاس وسیلہ بھی کوئی نہیں بس جو کچھ ہے وہ اللہ پر بھروسہ ہے کہ غیب سے جو کچھ ہو جائے تو ہو جائے گا۔ اللہ کسی کے دل میں ڈال دے گا تو کام بن جائے گا یہ بھی ہمارے معاشرے کی حالتِ مجبوری اور معذوری کے ساتھ ایک فیصلے پر پہنچنا ہے۔

اللہ اللہ کرو یعنی یہ بات ہونے والی نہیں خواہ مخواہ کی اُمید لگائے بیٹھے ہو۔ اللہ کا نور داڑھی کو بھی کہتے ہیں اور ایسے بچے کو بھی جو کم صورت ہوتا ہے کہ وہ تو اللہ کا نور ہے اُس کی قدرت کا اظہار ہے ویسے اللہ کا نور ہونا بڑی خوبیوں کی طرف اشارہ بھی ہے کہ وہ تو اللہ کے نور میں سے ایک نور ہے۔ اللہ ہی اللہ ہے جب کسی مریض کے اچھا ہونے کی کوئی اُمید نہیں ہوتی ہے تبھی یہ بات زبان پر آتی ہے کہ اُس کی اللہ اللہ ہو رہی ہے۔

اللہ مارا یا خدا مارا ہمارے محاورات میں سے ہے اس کے معنی یہ ہیں کہ جو کچھ تم کر رہے ہو، وہ خدا کی مار ہے مگر عام طور پر یہ کلمہ محبت میں کہا جاتا ہے۔ اِس کو اللہ سنوارے کے روپ میں بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ اگر کوئی مریض بہت بری حالت سے واپس ہوتا ہے تو اُس کو اللہ کے گھر سے پھرنا کہتے ہیں جس کے یہ معنی ہیں کہ مر جانا اللہ کے گھر جانا ہے اللہ کو پیارا ہونا ہے۔

اللہ والے یا اللہ کے لوگ دہلی میں فقیروں کو کہتے ہیں۔ اس کے قریبی معنی رکھنے والا محاورہ اللہ کے لوگ ہیں یعنی وہ تو درویش خدا مست ہیں مل گیا تو بھی ٹھیک ہے نہ ملا تب بھی ٹھیک ہے اس معنی میں یہ تمام محاورے ہمارے معاشرے اور اس کے ایک خاص طرز فکر کے آئینہ دار ہیں۔ الہی مہر یا الہی رات بھی اسی طرز فکر کے نمائندہ محاورے ہیں۔ الٰہی رات کسی مقدس اور متبرک رات کو کہتے ہیں جیسے شبِ معراج اگرچہ الٰہی رات کا استعمال اردو میں بہت کم ہے الٰہی مہر تصدیق کرنے کے لئے مہر لگائی جاتی ہے جس کے بعد وہ تحریر یا رقم مصدقہ ہو جاتی ہے اور جب اُس پر خدا کی مہر لگ جائے گی تو اسے کوئی چیلنج نہیں کر سکتا۔

آنچل میں بات باندھنا

آنچل پہ بہت محاورے ہیں ان میں گرہ باندھنے کا محاورہ اِس معنی میں اہم محاورہ ہے کہ وہ آپس کے پیار کو مضبوطی بخشنے کے معنی میں آتا ہے بات کو نبھا دینے کے معنی میں اُردو کا گیت ہے اُس کے مکھڑے کے بول اُسی کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔

آنچل سے کیوں باندھ لیا ایک پردیسی کا پیار

آنسوں نکل پڑنا، آنسوں پونچھنا، آنسوں پینا، آنسوں ڈالنا، آنسوؤں سے منہ دھونا، آنسوؤں کا تار باندھنا۔ آنکھوں میں آنسوں آنا، آنکھوں کا ڈبڈبانا، آنکھوں کا تر ہونا

آنسوؤں ہی سے متعلق ہے۔ اور آنسوؤں سے منہ دھونا بھی اس سے ہم یہ اندازہ کر سکتے ہیں کہ رونے اور آنسوں بہانے کا تصور یا تاثر ہمارے ذہنوں پر کس حد تک رہا ہے اور ہمارے معاشرے نے آنسو بہانے کے ذکر میں کن کن وادروں اور نفسیاتی حالتوں کا تذکرہ کیا ہے۔

آنکھ اٹکنا، آنکھ اٹھا کر نہ دیکھنا، آنکھ اٹھا کر دیکھنا، آنکھ اُٹھانا، آنکھ آنا، آنکھ اونچی نہ کرنا، آنکھ بچانا، آنکھ بدلنا، آنکھ بند ہونا، آنکھ بھرکر دیکھنا، آنکھ بھوں ٹیڑھی کرنا، آنکھ پڑنا، نظر ادھر گئی، آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر دیکھنا، آنکھیں پھیر لینا، آنکھوں کی ٹھنڈک، آنکھوں کا سرمہ۔ آنکھیں ٹھنڈی کرنا، آنکھیں ٹیڑھی کرنا، آنکھیں چُرانا، آنکھیں چھپانا، آنکھ سے آنکھ ملانا، آنکھیں لڑانا، ( یا آنکھ لڑنا) آنکھیں مٹکانا وغیرہ آنکھوں میں رات کاٹنا، آنکھیں پتھرانا

اِن محاورات سے اندازہ ہوتا ہے کہ انسان کے مختلف رویوں کو جو سماجی اخلاقیات سے گہرا واسطہ رکھتے ہیں ہماری سوچ سے کیا تعلق رہا ہے۔ اور اُس پر ہمارا تبصرہ کرنا کیا کیا انداز اختیار کرتا ہے مثلاً آنکھیں پھیر لینا مطلب نکل جانے کے بعد بے مروتی اختیار کرنا۔ آنکھ بدلنا رو یہ میں تبدیلی کرنا۔ آنکھ بھر کر دیکھنا بھی ایک عام رو یہ کی طرف اشارہ ہے کہ کسی کی یہ مجال نہیں ہے کہ تمہاری طرف اس طرح دیکھے کہ اس میں احترام کا پہلو باقی نہ رہے آنکھیں چار ہونا ایک دوسرے کے دیکھنے کو کہتے ہیں مگر چار آنکھیں ہونا غیر ضروری خواہشات نہ مناسب تمناؤں اور توقعات کو دل سے لگانے اور اپنی سماجی زندگی میں داخل کرنے والی عورتوں کے لئے اکثر کہا جاتا ہے کہ اس کی چار آنکھیں ہو گئیں۔

آنکھ سے آنکھ ملانا برابری کے رشتہ کے ساتھ ایک دوسرے کو دیکھنا ہے اور آنکھ نہ ملا سکنا فرق و امتیاز یا نفسیاتی طور پر شرمندہ ہونا کہ اُس کے بعد سامنے جرأت کی ہمت نہیں ہوتی بشرطیکہ وہ غیرت شخص ہو۔

آنکھیں چرانا بھی سماجی عمل ہے اور وہی کہ نفسیاتی طور پر آدمی کسی سے آنکھ ملا کر گفتگو نہ کر سکے اور بات کو اِدھر اُدھر ٹالنا چاہے آنکھ لڑنا یا آنکھیں لڑانا عجیب و غریب انداز سے ہماری نفسیات پر روشنی ڈالتا ہے، لڑنا یا لڑانا کوئی اچھی ذہنی کیفیت نہیں ہے۔ لیکن قوم کشتی سے لیکر ہاتھیوں کی لڑائی مرغیوں کی پالی اور تیتر بٹیر کی باہمی جنگ دیکھ کر جو لوگ لطف لیتے ہوں اُن کے ہاں آنکھیں لڑانا بھی محبت کا اشارہ ہو جائے گا۔

آنکھ پھڑکنا سماج کی توہم پرستانہ فکر فرمائی کی ایک نشانی ہے کہ آنکھ پھڑک رہی ہے تو کوئی آفت آنے والی ہے اس طرح کی باتیں ہمارے معاشرے میں بہت رائج رہی ہیں۔ مثلاً بلی نے راستہ کاٹ دیا، تواب سفر منحوس ہو گیا۔ سفر میں خطرات تو تھے ہی اسی لئے سفر پر جانے والے کے بازو پر امام ضامن باندھا جاتا تھا آئینہ کے منہ پر پانی ڈالا جاتا تھا۔ اس سے اُس دور کی توہم پرستی کا کچھ نہ کچھ اندازہ ضرور ہوتا ہے۔

آنکھ پھوڑ ٹڈا ہونا دہلی کا خاص محاورہ ہے دوسری جگہوں پر استعمال نہیں ہوتا اور اچانک جو شخص تکلیف پہنچنے یا پہنچانے کا باعث بن جاتا ہے اس کے لئے استعمال ہوتا ہے۔

اپنی آنکھ کا شہتیر نظر نہ آنا اور دوسرے کی آنکھ کا تنکا دیکھنا بھی ہمارے سماجی رو یہ کا ایک پہلو ہے جو افسوس ناک حد تک سماجی ذہنیت کی برائی کی طرف اشارہ کرتا ہے۔

آنکھیں ٹھنڈی کرنا بھی بہت دلچسپ اور معنی خیز محاورہ ہے جب کسی بات کو دیکھ کر ہمارا جی خوش ہوتا ہے اور ہماری تسکین کا باعث بنتا ہے اسی کو آنکھیں ٹھنڈا ہونا کہتے ہیں۔ اس کے اریب قریب کا محاورہ کلیجہ ٹھنڈا ہونا ہے۔ میری آنکھیں ٹھنڈی اور دل خوش کہا جاتا ہے اور اس کے مقابلہ میں جو باتیں تکلیف کا باعث ہوتی ہیں ان کے لئے کہا جاتا ہے کہ وہ آنکھوں میں کانٹے کی طرح کھٹکتی ہیں۔

"آنکھوں کی سوئیاں نکالنا" بھی کسی محنت طلب اور دقت والے کام کا انجام پا جانا ہے اسی طرح آنکھوں میں سلائی پھیرنا یا سلائی پھرنا اندھا کئے جانے کے عمل کو کہتے ہیں کہ مغلوں میں اِس کا دستور تھا کہ وہ اپنے قریبی رشتہ داروں کو جنہیں اپاہج بنا دینا مقصود ہوتا تھا ان کی آنکھوں میں سلائی پھروا دیتے تھے مغلوں کے دور میں ایسے واقعات بہت ہوئے ہیں میر کا یہ شعر اسی کی طرف اشارہ کرتا ہے۔

شہاں کہ کُحل جواہر تھی خاکِ پا جن کی

اُنہی کی آنکھوں میں پھرتی سلائیاں دیکھیں

ہم میر کے زمانہ سے پہلے اور میر کے زمانہ میں اس طرح کے واقعات کو تاریخ کا حصہ بنتے دیکھتے ہیں اسی کی طرف یہ محاورہ اور میر کا شعر اشارہ کر رہا ہے یہاں ہم کہہ سکتے ہیں کہ بعض محاورے تاریخی واقعات سے بھی رشتہ رکھتے ہیں مثلاً"احسان لیجئے جہاں کا مگر احسان نہ لیجئے شاہجہاں کا۔ "

یہ کہاوت ہے اور کسی وجہ سے شاہ جہاں کے زمانہ میں رائج ہوئی ہے اسی طرح"نادر گردی مرہٹہ گردی" اور جاٹ گردی بھی محاورہ کے معنی میں آتی ہے بری صورت حال کو کہتے ہیں مگر ان کا تعلق تاریخ سے ہے جب انتظام باقی نہ رہے مگر بہرحال اس صورتِ کا تعلق تاریخ کے حقائق سے توہے۔

انگاروں پر لوٹنا، انگارے بچھانا، انگار بھرنا، انگار ے مارنا

انگارہ آگ ہی کی ایک صورت ہے اور تکلیف دہ صورت ہے وہ ہاتھوں پہ انگارے رکھنا ہویا انگاروں پر چلنا شدید عذاب کی ایک صورت ہے موت کے بعد قبر کے انگاروں سے بھرنے کے معنی بھی یہی ہیں کوئی اپنی قبر کو بھرے یا دوسرے کی بات ایک ہی ہے مسلمانوں میں یہ عقیدہ پایا جاتا ہے کہ جو عذاب آدمی کو دیا جاتا ہے وہ قبر میں دفن کرنے کے بعد ہی شروع ہو جاتا ہے اور چونکہ مسلمانوں میں عذاب کا تعلق آگ سے ہے دوزخ سے ہے اس لئے قبر میں بھی انگاروں کا ہونا شدید عذاب سے گزارنا ہے انگاروں پر لوٹنے کے معنی بھی سخت بے آرامی اور ذہنی کوفت کے ساتھ وقت گزارنا ہے۔

سماج کا رو یہ بھی کبھی کبھی ایک حساس یا مجبور آدمی کے حق میں اتنا بُرا ہوتا ہے کہ آدمی کچھ کر نہیں پاتا اور بے انتہا ذہنی کوفت اور جسمانی اذیتوں کے ساتھ وقت گزارتا ہے۔

اُوپری پرائے، بھوت پریت

یہ محاورہ بھی اس معنی میں اہم ہے کہ سماجی تو اہم پرستی اور ان دیکھی باتوں سے خوف کی طرف اشارہ کرتا ہے ہم یہ کہتے ہیں ہوئے دیکھتے ہیں کہ وہ اوپری پرائے کے بہت قائل ہیں اوپری پرائے کا ڈر رہتا ہے۔

اوکھلی میں سر دینا

اوکھلی لکڑی کے اس حصّہ کو کہتے تھے جس میں کسی شئے کو ڈال کر مُسل سے کوٹا جاتا ہے اوکھلی ایک کونڈی کی طرح ہوتی ہے اب سے کچھ دنوں پہلے تک گاؤں اور قصبوں کے گھروں میں اوکھلی بنی ہوتی تھی اور مُسل رکھے رہتے تھے اور دھان اس میں کوٹے جاتے تھے جس میں چاول الگ ہو جاتے تھے۔ بھُوسی الگ ہو جاتی تھی اب ایسی کسی جگہ کے لئے یہ محاورہ استعمال ہونے لگایا یہ کہاوت کام آنے لگی جہاں تکلیف کی باتیں ہوں اور آدمی اپنے سماجی رشتوں اور ضرورتوں کے پیشِ نظر اُن کو برداشت کر لیتا ہے اور یہ کہتا نظر آتا ہے کہ جب اوکھلی میں سر دیا ہے تو مسلوں سے کیا ڈرنا۔

اونچی ناک کرنا یا ہونا، نیچی ناک کرنا یا ہونا

یہ محاورہ سماجی امتیاز اور بے امتیاز ی کے تصوّر کے گرد گھومتا ہے ناک عزت و آبرو کی علامت ہے اسی لئے ناک کٹنا بے عزت ہونے کے معنی میں آتا ہے آدمی سر اونچا کر کے چلتا ہے تو اس کی ناک بھی اونچی ہوتی ہے اگر سر نیچا کر کے چلتا ہے تو ناک بھی نیچی ہوتی ہے اس سے مراد فخر و ناز کا اظہار کرنا ہے یا عاجزی اور انکسار کو پیش کرنا ہے سر اور ناک کے محاورے انسان کی یا ہماری زبان کی سماجی نفسیات کو پیش کرتے ہیں اور اُس میں یہ اونچ نیچ ایک اعتبار ی یا اختیاری صورت ہے۔

اہلے گہلے پھرنا، خوش خوش ہونا

دہلی کا محاورہ ہے اور جب انسان کسی کامیابی یا خوشی کے موقع پر خوش خوش نظر آتا ہے تو اہلے گہلے پھرنا کہتے ہیں یہ اس کی شخصی خوشی کا اظہار ہے۔

ایرے غیرے

سماجی نفسیات کی طرف اشارہ کرنے والا ہے محاورہ غیر ناآشنا یا دُور پرے کے آدمیوں کو کہتے ہیں انسانی نفسیات میں اپنے بیگانے یا قریب اور دور کے لوگوں کی تقسیم بہت واضح رہی ہے اور آج بھی ہے اسی لئے وہ ناآشنا لوگوں کو اپنے قریب پسند نہیں کرتا۔ سیاست یا تجارت کے رشتوں کی بات دوسری ہے ورنہ" ایرے غیرے" کہہ کروہ ناآشنا اجنبیوں کا ہی تو ذکر کرتا ہے۔

ایسی تیسی میں جائے یا جاؤ

آدمی اپنی ذہنی حالتوں اور نفسیاتی کیفیتوں کا اظہار ان الفاظ یا آوازوں میں کرتا ہے۔ سیٹی بجاتا ہے یا دوسری طرح کی آوازوں سے اپنی مختلف ذہنی کیفیتوں کی طرف اشارہ کرتا ہے۔ ایسی تیسی ہونا اول فول بکنا اسی طرح کے حملوں یا آوازوں کا حصّہ ہے۔

ایک منہ، یا ایک زبان ہونا۔ ہزار منہ اور ہزار زبانیں ہونا

ایک منہ اور ایک زبان ہونے ہی کا ایک دوسرا رخ ہے جتنے منہ اتنی زبانیں یہ بھی اسی سلسلے کا محاورہ ہے۔ اصل میں ایک زبان کے ہونا کے یہ معنی بھی ہیں کہ سب ایک سی بات کہیں مگر سماجی معاملات میں ایسا ہوتا نہیں ہر آدمی اپنی بات الگ سوچتا اور الگ کہتا ہے منہ سے مراد چہرہ نہیں ہے بلکہ لب و زبان ہے اب جتنے آدمی ہوں گے اتنے ہی ان کے منہ ہوں گے ان کی زبانیں ہوں گی اور ان کی الگ الگ باتیں ہونگی اسی سے سماج میں الجھنیں پیدا ہوتی ہیں کہ کوئی کچھ کہتا ہے تو کوئی کچھ کہتا ہے اور یہی ذہنی خلفشار اور گفتگو میں مقصدیت کے لحاظ سے انتشار کا باعث ہوتا ہے۔

اینڈا اینڈا پھرا نا، ڈولنا

اہلا گیلا پھرنے ہی کو کہتے ہیں اور اس میں شخصی نفسیات کو زیادہ دخل ہوتا ہے اور جماعت کو کم لیکن اینڈی بینڈی باتیں کرنا دوسری بات ہے یہ وہی صورت ہے جس کو ہم اوٹ پٹانگ بات کرنا کہتے ہیں یا غلط سلط باتیں کرنے کا رو یہ جو سماجی طور پر بہت لوگوں میں ہوتا ہے۔ اینڈی بینڈی چال بھی اسی مفہوم میں آتا ہے اس لئے کہ آدمی کی چال بلکہ خود جانور کی چال اس کی ذہنی حالتوں کو ظاہر کرتی ہے۔ تیز چلنا ایک الگ مفہوم رکھتا ہے آہستہ خرامی کا مطلب الگ ہے اور اینڈی بینڈی چال دوسرے ہی معنی رکھتی ہے۔