اردو محاورات کا تہذیبی مطالعہ

اردو محاورات کا تہذیبی مطالعہ0%

اردو محاورات کا تہذیبی مطالعہ مؤلف:
زمرہ جات: متفرق کتب

اردو محاورات کا تہذیبی مطالعہ

مؤلف: ڈاکٹر عشرت جہاں ہاشمی
زمرہ جات:

مشاہدے: 79986
ڈاؤنلوڈ: 4143

تبصرے:

اردو محاورات کا تہذیبی مطالعہ
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 81 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 79986 / ڈاؤنلوڈ: 4143
سائز سائز سائز
اردو محاورات کا تہذیبی مطالعہ

اردو محاورات کا تہذیبی مطالعہ

مؤلف:
اردو

ردیف "ت"

تاک لگانا، تاک میں رہنا

تاک کے معنی ہیں دیکھنا تکنا ہم بولتے ہی ہیں کہ وہ دیر تک تکتا رہا تاک جھانک اسی سے بنا ہے میر تقی میر کا مصرعہ ہے۔

تاکنا جھانکنا کبھو نہ گیا

یعنی جب موقع ملا دیکھ لیا نظر ڈال لی چوری چھپے دیکھنے کی کوشش کرتے رہے۔ اس سے سماجی رو یہ سمجھ میں آتا ہے کہ کس طرح بعض سوالات خیالات اور تمنائیں ہمارے دل سے الجھی رہتی ہیں اور ہم ان کے نظر بچا کر یا چوری چھُپے کچھ نہ کچھ کرتے رہتے ہیں اُردو شاعری میں حسن و عشق کے معاملات کے لئے اس طرح کی باتیں اکثر گفتگو میں آتی رہتی ہیں۔

تالی ایک ہاتھ سے نہیں بجتی

یہ ایک قدرتی عمل بھی ہے لیکن ہم نے اس کو ایک سماجی عمل کے طور پر دیکھنے اور پرکھنے کی کوشش کی اور بظاہر کیا کہ کسی بات کی ذمہ داری بشرطیکہ اس میں خرابی کا کوئی پہلو ہو کسی ایک آدمی پر نہیں ہوتی وہ عمل دو طرفہ ہوتا ہے اور دوسرا کوئی شخص یا فریق بھی اس میں شریک رہتا ہے شرکت کا پیمانہ جو بھی ہو جتنا بھی ہو۔

تجاہلِ عارفانہ

جان بوجھ کر انجان بننا۔ تجاہل کے معنی ہیں لاعلمی ظاہر کرنا اور جانتے بوجھتے ہوئے ظاہر نہ کرنا جو ایک مکار رد عمل ہوتا ہے اور سماج میں اس کی بہت مثالیں دیکھنے کو ملتی ہیں کہ لوگ جانتے ہیں کچھ ہیں لیکن یہ ظاہر کرتے ہیں کہ وہ نا واقف ہیں۔

تعزیہ ٹھنڈا ہو جانا

تعزیہ دراصل اظہار ملال ہے بعض طبقوں میں تعزیہ اندھے کنوؤں میں پھینک دیئے جاتے ہیں بعض دریا میں بہا دیئے جاتے ہیں ایسا بھی ہوتا انہیں سفید چادروں میں لپیٹ کر کسی تنہا جگہ میں رکھ دیا جاتا ہے۔ بہرحال جب تغیر یہ دلالی کی رسمیں ختم ہو جاتی ہیں تو محاورتاً اُسے تعزیہ ٹھنڈا کرنا کہتے ہیں۔

تقدیر پھرنا، تقدیر کا لکھا یوں تھا، تقدیر کا بناؤ، تقدیر کا پلٹا کھانا، تقدیر کا دامن، تقدیر کا کھیل

ہمارا معاشرہ تدبیر منصوبہ بندی اور کاوش میں اتنا یقین نہیں رکھتا جتنا تقدیر کو اسے بھروسہ ہوتا ہے یہ مشرقی قوموں کا ایک عام رویہ ہے۔ اور ہندو مسلمانوں میں نسبتاً زیادہ ہے۔ کہ وہ ہر بات کو تقدیر سے منسوب کرتے ہیں چنانچہ تقدیر سے متعلق بہت محاورات ہیں جو ہماری زبان پر آتے رہتے ہیں۔ اور اس لئے آتے رہتے ہیں کہ ہم غیبی فیصلوں کو مانتے ہیں اور اُن سے باہر آ کر سوچنا سمجھنا نہیں چاہتے اوپر دیئے ہوئے محاورات کا مطالعہ اسی نقطہ نظر سے کرنا چاہیے تقدیر کا لفظ بدل کر کبھی قِسمت کا لفظ بھی استعمال ہوتا ہے قِسمت کا لکھا قِسمت کا کھیل قِسمت کا بننا اور بگڑنا کہا جاتا ہے۔

تلوار کو میان میں رکھنا، تلوار کی آنچ، تلوار گر جانا، تلوار میان سے نکلی پڑتی ہے۔ تلواروں کی چھاؤں میں۔

تلوار جسے تیغ بھی کہا جاتا ہے وسطی عہد کا ایک بہت معروف اور ممتاز ہتھیار رہا ہے قدیم زمانہ کی تلوار ایک خاص طرح کی ہوتی تھی جسے کھانڈا کہتے تھے جہاں"ل" کو"ڑ" سے بدلا جاتا ہے وہاں تلوار کا تلفظ"ترواڑ" ہو جاتا ہے۔ جو لوگ سپاہی پیشہ خاندانوں کے افراد ہوتے ہیں ان کے لئے کہا جاتا ہے کہ وہ تلواروں کی چھاؤں میں پلے بڑھے ہیں اقبال کا مصرعہ ہے

تیغوں کی چھاؤں میں ہم پل کر جواں ہوئے ہیں

تلوار چلنا، تلوار کا کسنا یعنی اس کی لچک دیکھنا تلوار کا پانی، اس کی دھار، اس کی آب و تاب اور دھار، تلوار کا میان سے نکلنا یا میان میں رکھا جانا یہ سب تلوار کے استعمال سے متعلق باتیں ہیں تو اُس زمانہ کی زندگی میں عام تھیں ان میں تلوار کے گھاٹ اتار دینا بھی تھا۔ ہمارے ہاں اردو میں محبوب کی بھوں کو تلوار سے تشبیہ دی جاتی ہے اس سے بھی تلوار سے ذہنی اور سماجی رشتوں کا پتہ چلتا ہے۔

تمہارے منہ میں کبھی شکر یا گھی کھانڈ

شکر ہویا پھر شکر وہ مٹھاس سے تعلق رکھنے کی وجہ سے پسند یدہ اشیاء ہیں گڑ کھانڈ اور راب بھی اسی ذیل میں آتے ہیں اسی لئے اس طرح کے محاورے بھی ہیں گڑ نہ دبے گڑ جیسی بات کہہ دیئے گڑ اور گھی کا ایک ساتھ استعمال دیہات کی سطح پر بہت پسند کیا جاتا ہے شکرانہ میں خاص طور پر گھی اور کھانڈ یا گھی اور شکر استعمال ہوتے تھے دیہات میں لال شکر اور شہروں میں گھی اور پورا خاص طور پر استعمال میں آتا تھا اور اس کے نیچے چاول ہوتے تھے۔

بہرحال جب ہم ان امور پر غور کرتے ہیں تو گھی اور شکر کی سماجی حیثیت اور معنویت سامنے آتی ہے اور یہ کہاوت ہے تمہارے منہ میں گھی شکر اُسی کی طرف اشارہ کرتی ہے اور اس سے مراد ہوتی ہے کہ تمہارا کہنا پورا ہوا اور مراد بر آئے اب بھی ایسے موقع پر ایسی کہاوت اور بولی جاتی ہے اور میٹھا ئی کھلانے یا کھانے کا وعدہ کیا کہا جاتا ہے۔ مقصد اظہارِ خوشی ہے۔

تنکے کا احسان ماننا، تنکے کا سہارا، تنکے کو پہاڑ کر دکھانا، تِنکا تِنکا کر دینا

تنکا لکڑی کا چھوٹے سے چھوٹا اور کم سے کم درجہ کا حصہ ہوتا ہے اس سے جانور اپنا گھونسلا بناتے ہیں اور جب گھانس پھونس کے جھونپڑے، ٹٹیاں اور چھپر بنتے ہیں تب بھی گویا تنکے ہی کام آتے ہیں دیہات میں اس طرح کے مکانات چھپرا اور چھپریاں اب بھی دیکھنے کو مل جاتی ہیں سرکٹیاں بھی اسی کی مثالیں پیش کرتی ہیں اور سرکنڈے بھی تنکے کے سے وابستہ کہاوتیں اور محاورے کمزوری بے ثباتی اور کم سے کم درجہ کی طرف اشارہ کرتے ہیں سوکھ کر تنکا ہونا انتہائی کمزور ہو جانا ہے تنکا تنکا بکھر جانا گھاس پھونس کی چھپری یا چھپروں کا ہوا میں اڑ جانا ہے یا باقی نہ رہنا ہے۔

اب اس کے مقابلہ میں تنکے کا احسان ماننا ہماری سماجی زندگی کا ایک دوسرا رخ ہے عام طور پر لوگ دوسرے کی ہمدردی محبت اور خلوص کا بدلہ تو دیتے ہی نہیں بلکہ احسان بھی نہیں مانتے جب کہ احسان تو چھوٹے سے چھوٹا بینک عمل میں جس کا دوسروں کو شکر گزار ہونا چاہیے ذوق کا مصرعہ ہے۔

ارے احسان مانوں سر سے میں تنکا اتارے کا

تنکے کا پہاڑ کر دکھانا ایک تیسری صورت ہے کہ اس کا بھی ہماری سماجی زندگی سے ایک گہرا رشتہ ہے۔ کہ بات کو کچھ اس طرح بڑھا چڑھا کر پیش کیا جاتا ہے کہ تنکے کا پہاڑ بنا دیا جاتا ہے۔ بات کا بتنگڑ بتانا اور بات کو بہت آگے بڑھا دینا ایک دوسری صورت ہے داڑھی میں تنکا ہونا ایک اور صورت حال کی طرف اشارہ ہے کہ جو دراصل کسی غلطی یا نقصان پہنچانے کا مرتکب ہوتا ہے اسے احساس تو رہتا ہے کہ میں نے جرم کیا ہے میں قصور وار ہوں اس کا کوئی ایکشن یا ری ایکشن اس کی طرف اشارہ بھی کر دیتا ہے اسی کو چور کی داڑھی میں تنکا کہتے ہیں۔

ایک اور محاورہ بھی اسی سلسلے کا ہے دوسروں کی آنکھ میں تنکا دیکھتے ہیں اور اپنی آنکھوں کا شہتیر بھی نظر نہیں آتا جس کے معنی ہیں کہ اپنی عیب داریاں کوئی نہیں دیکھتا اور دوسروں کی بات پر اعتراض کرتے ہیں اور عیب لگاتے ہیں اس طرح تنکے سے ہم رشتہ بہت سے محاورے ہماری سماجی فکر کا مختلف پہلوؤں سے اظہار کرتے ہیں اور ہماری سوچ پر روشنی ڈالتے ہیں۔

تن من وارنا

تن من کے معنی ہیں جسم و جان ( Body and Soul ) جب کسی سے اپنی مکمل وفاداری اور ایثار و قربانی کی بات کی جاتی ہے تو کہا جاتا ہے ہم تن من سے تمہارے ساتھ ہیں کبھی کبھی تن من دھن بھی کہتے ہیں من ہندی لفظ ہے اس کے معنی رُوح کے ہیں اس لئے اس کا کسی عمل میں ساتھ ہونا بڑی بات ہوتی ہے جب یہ کوئی کہتا ہے کہ میں تم پرتن من وار کرتا ہوں تو گیتوں یا سب کچھ قربان کر دینا چاہتا ہے تو گویا سب کچھ قربان کر دینا چاہتا ہے گیتوں میں تن من وارنا آتا بھی ہے۔

تن من میں پھُولے پھُولے نہ سمانا

تن من میں پھُولا نہ سمانا بھی محاورہ ہے لیکن زیادہ تر اپنے من میں پھولا نہ سمانا بولا جاتا ہے۔ اپنے تن من کی کچھ خبر نہ رہی یعنی میں بالکل غافل ہو گیا یہ بھی ہماری زبانوں پر اکثر آتا ہے صرف تن کے ساتھ بھی بہت سے لفظ اور لفظی ترکیبیں بطورِ محاورہ آتے ہیں جیسے تن پوشی تن پرستی تن دہی تن ڈھانپنا اگر غور کیا جائے تو یہ لفظی ترکیبیں محاورے کے ذیل میں آتی ہیں اور ان سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ محاورے کیوں اور کیسے بنتے ہیں اور لغوی معنی سے مجازی معنی تک کیسے آتے ہیں تن پرستی اپنے وجود کو یا اپنے آپ کو زیادہ سے زیادہ اہمیت دینا ہے اور تن دہی محنت و مشقت برداشت کر کے اگر کوئی کام کیا جاتا ہے تو اسے تن دہی کہتے ہیں۔

تنگ حال ہونا، تنگ وقت ہونا، تنگ ہاتھ ہونا

یہ محاورات دراصل ہماری سماجی زندگی کا منظر نامہ پیش کرتے ہیں خاص طور پر اُس طبقہ کی جو کم آمدنی اور اخلاص کے ساتھ اپنے زندگی کے دن گزارتا ہے اسی کو تنگی ترشی کہتے ہیں۔ یا ہاتھ کا تنگ ہونا بھی اسی کی طرف اشارہ ہے اور اس کا ذکر اکثر ہوتا ہے کہ اس کا ہاتھ تنگ رہتا ہے یاوہ تنگ حالی میں اپنا وقت گزارتا ہے تنگ وقت ہونا محاورے کی ایک دوسری صورت ہے یہاں پیسہ مراد نہیں ہوتا بلکہ وقت کا کم رہ جانا مراد ہوتا ہے جیسے نماز کا وقت کم ہو رہا ہے۔ تنگ ہونا تکلیف کی حالت میں ہونا ہے اور تنگ کرنا دوسروں کو پریشان کرنے کے معنی میں آتا ہے اور یہ ہماری سماجی روش ہے کہ جب ہم دوسروں سے کوئی ناچاقی یا اختلاف یا خود غرضانہ اختلاف رکھتے ہیں تو ان کو طرح طرح سے ستاتے اور پریشان کرتے ہیں اسی کو تنگ کرنا کہا جاتا ہے کہ اس نے مجھے تنگ کر رکھا ہے۔

تازہ کرنا

نئے سرے سے کسی خیال کو زندہ کرنا ہے جیسے غم تازہ کرنا کہ جس غم کو آدمی بھول گیا تھا اسے پھر یاد دلایا ویسے ہم"تازہ" بہت چیزوں کے لئے بولتے ہیں جیسے تازہ کھانا" تازہ روٹی""تازہ گوئی" اور تازہ روئی (تازہ خیالی، تازہ دم ہونا (نئی بات کہنا) تازہ کاری (نیا کام کرنا) وغیرہ۔

تیوری بدلنا یا چڑھانا تیوری میں بل ڈالنا تیوری کا بل کھلنا۔

تیوری انسان کی پیشانی اور دونوں آنکھوں کے درمیان کے حصّے کو کہتے ہیں کہ وہ سب سے زیادہ ہمارے جذبات و احساسات کا آئینہ ہوتا ہے ہم گفتگو کرتے وقت آنکھ بھون چڑھاتے ہیں نا خوشی اور ناپسندیدگی کا اظہار کرتے ہیں اسی کو تیوری چڑھانا کہتے ہیں اُردو کا ایک مصرعہ ہے جس سے سماجی رو یہ کی نقش گری ہوتی ہے۔

تیوری چڑھائی تم نے کہ یہاں دم نکل گیا

تیوری کو تیور بھی کہتے ہیں اور اس کے معنی Expiration میں شامل رہتے ہیں جیسے آج کل ان کے تیور بدلے ہوئے ہیں جس کا یہ مطلب ہے کہ نظریں بدل گئیں ہیں اگر ناگواری ختم ہو گئی تو اسے تیوری کا بل کھلنا کہتے ہیں یہ تیوری کے ہر بل پڑنے کے مقابلہ میں ہوتا ہے۔

ردیف "ٹ"

ٹاپا توڑ نکل جانا

مُرغیاں خریدنے والے ایک خاص طرح کا گھیرے دار جال رکھتے تھے وہ ٹاپا کہلاتا تھا وہ لوگ ٹاپے والے کہہ کر یاد کئے جاتے تھے۔ مُرغیاں گھر کے ماحول سے نکل کر اُس ٹاپے میں پھنس جاتی تھیں تو پریشان ہوتی تھیں اور اس سے نکلنا چاہتی تھیں اسی مشاہدہ سے یہ محاورہ بنا ہے۔ یعنی مصیبت میں پھنسنا اور پھر نکلنے کی کوشش کرنا۔

ٹالم ٹول (ٹال مٹول) کرنا

اس معنی میں ایک اہم محاورہ ہے کہ ہماری یہ ایک عام سماجی روش اور معاشرتی طرزِ فکر ہے کہ ہم بات کو سلجھاتے وقت ہر قدم اُٹھانے اور تدبیر کرنے کے بجائے ٹال مٹول کرتے رہتے ہیں اپنے معاملہ میں بھی اور دوسروں کے معاملہ میں بھی یہ ایک طرح کا سماجی عیب ہے کہ معاملات کو نمٹاؤ نہیں ٹالتے رہو اور کوئی نہ کوئی غلط سلط بہانہ بناتے رہو ہم آج کے معاشرے میں بھی شہری وہ معاشرہ ہویا قصباتی معاشرہ یہی ٹال مٹول کی صورت دیکھتے ہیں خود بھی اس سے گزرتے ہیں اور دوسروں کے لئے بھی پریشانیوں کا سبب بنتے ہیں۔

ٹانکا ٹوٹ جانا، ٹانکے کا کچّا ہونا، ٹانکے کھُل جانا

ٹانکا ہماری معاشرتی سماجی اور گھریلو زندگی کا ایک اہم حوالہ ہے یہاں تک کہ بہت اہم سطح پر ہم ٹانکا ٹھپا کہتے ہیں پھٹے پُرانے کپڑے میں ٹانکا لگانا اور اسے جوڑنا ہماری ایک تمام سماجی ضرورت ہے اسی لئے یہ کام گھریلو طور پر کیا جاتا ہے کپڑوں کے علاوہ چادر، بستر، لحاف میں ٹانکا لگانے کی ضرورت پیش آتی ہے۔ جُوتی میں ٹانکا موچی لگاتا ہے اب کچّا ٹانکا ہوتا ہے تو جلدی ٹوٹ جاتا ہے کہ وہ بھی ہمارے محاورے کا حصّہ ہے اور پکّا ٹانکا لگانا بھی اور موتی ٹانکنا بھی باریک ٹکائی بھی اس طرح سے یہ محاورے ہماری گھریلو زندگی کے اپنے انداز اور ماحول کو پیش کرتے ہیں۔

ٹسر ٹسر رونا، ٹسوے بہانا

اصل میں رونے کے لئے ایک طنزیہ محاورہ ہے جو سماجی رد عمل کو ظاہر کرتا ہے کہ پہلے سوچا نہیں سمجھا نہیں اب ٹسر ٹسر رو رہی ہے اور ٹسوے بہا رہی ہے دہلی میں"ٹ"کے نیچے کسرا لگاتے ہیں اور ٹسوے کہتے ہیں۔

ٹُکر ٹُکر دیکھنا

جب آدمی احساسِ محرومی اور تصورِ نامرادی کے ساتھ کسی دوسرے کی طرف دیکھتا ہے تو اُسے گھر یلو سطح کی ٹکر ٹکر دیکھنا کہتے ہیں اس کے یہ معنی ہیں کہ ہم دوسروں کی نظروں کو پہچانتے ہیں اُن کے جذبات و احساسات کی تصویر اُن کی آنکھوں میں اس کا خاص انداز سے ذکر کرتے ہیں یہ الگ بات ہے کہ کوئی کسی سے ہمدردی کرتا ہے یا نہیں کرتا یہ الگ بات ہے۔

ٹُکّر ٹُکُر لگنا، ٹُکر کھانا

دیہاتی زبان میں روٹی کو کہتے ہیں اور طنز کے طور پر ٹکر لگنا یا ٹکڑ کھانا بھی بولتے ہیں ٹکٹر لگنے میں یہ طنز چھپا ہوا ہے کہ پہلے بھوکے مرتے تھے کھانے کو نصیب نہیں ہوتا تھا اب کھانے کو ملنے لگا تو یہ انداز آ گئے یعنی نخرے کرنے لگے برائی کا اظہار کرنے لگے اسی کو قصباتی زبان میں روٹیاں لگنا کہتے ہیں۔

ٹکڑے ٹکڑے کر دینا کسی چیز کو بُری طرح توڑ دینا پھاڑ دینا اور ضائع کر دینے کا عمل ہے سزا کے طور پر بھی پہلے زمانہ میں ٹکڑے ٹکڑ کر دینے کا رواج تھا۔ جس کو اور آگے بڑھا کر بوٹی بوٹی کر دینا یا قیمہ کر دینا بھی کہا جاتا ہے اور قدیم زمانہ کی سزاؤں کی طرف اس سے اِشارہ کرنا مقصود چاہے نہ ہو کہ جب لوگ اسے جانتے بھی نہیں مگر قدیم زمانہ کی روایت کسی نہ کسی سطح پر اس میں موجو دہے اور تاریخ پر روشنی ڈالتی ہے۔

ٹکسالی بولی، زبان، ٹکسالی بول چال، ٹکسالی محاورہ، ٹکسالی باہر

ٹکسال اصل میں بادشاہ کی طرف سے سکّے رائج کئے جاتے ہیں اور کھرے سکّے مانے جاتے ہیں ان کی دارالعرب سکے ڈھالنے کی جگہ کو کہتے ہیں اور جو سکّہ سرکاری ٹکسال کا نہیں ہوتا ہے اسے کھوٹا سکّہ یا ٹکسال قرار دیا جاتا ہے۔

شہری کی بولی جو بات چیت یا محاورہ مستند ہوتا ہے اس کو ٹکسالی کہا جاتا ہے اور جس سے اِدھر اُدھر کی بولی کا اثر ظاہر ہوتا ہے اور اُس کو پسند نہیں کیا جاتا۔ اُسے ٹکسال باہر کیا جاتا ہے۔ دہلی والے جامع مسجد کی سیڑھیوں اور اس کے آس پاس کی زبان ہی کو سند مانتے تھے چنانچہ میر تقی میر نے ایک موقع پر کہا تھا کہ میری زبان ان کے لئے یا محاورہ اہلِ دہلی ہے یا جامع مسجد کی سیڑھیاں اس کے معنی یہ تھے کہ مردم بیرون جات یعنی دہلی شہر سے باہر کے لوگوں کی زبان اُن کے نزدیک پسند نہیں تھی ٹکسالی زبان یا ٹکسالی محاورہ وہی کہلاتا تھا جو جامع مسجد کی سیڑھیوں کے آس پاس سنا جاتا تھا۔

ٹوپی اُتارنا، ٹوپی پیروں میں ڈالنا، ٹوپی اُچھالنا، ٹوپی بدلنا

یہ محاورات نسبتاً نئے ہیں ٹوپی سر کو ڈھکنے کے لئے کُلاہ کی صورت میں ایک زمانہ سے ایران، افغانستان اور مرکزی ایشیاء میں موجود رہی ہے مگر عام طور پر تنہا نہیں اُس کے ساتھ پگڑی بھی ہوتی تھی ہندوستان میں جہاں تک قدیم کلچر کا سوال ہے صرف کبھی ٹوپی کبھی چیز سے ڈھکتے تھے دیہات میں پگڑی رائج رہی ہے بدن پر چاہے لباس کم سے کم رہا ہو مگر سرپر پگڑی رہی۔ اُس کی وجہ سرکو دھوپ کی شدت سے بچانا بھی تھا۔ مدراس میں ہم دیکھتے یہی ہیں۔

پگڑی کے طرح طرح کے انداز مرہٹوں میں راجپوتوں میں اور جنوبی ہندوستان کے مختلف قبائل میں رہا ہے جس کا اندازہ ان تصویروں سے ہوتا ہے جو مختلف زمانوں اور خاص طور پر وسطی عہد میں رائج رہی ہیں قدیم تر ہندوستانی تہذیب میں سادھو سنت"بال" رکھتے تھے اور اونچا طبقہ مکٹ پہنتا تھا (تاج کی طرح کی کوئی چیز) سر عزت کی چیز ہے اسی لئے سر پر رکھنا سر جھکانا ہمارے ہاں خاص معنی رکھنے والے محاورات میں سر اٹھانا سرکشی اختیار کرنا ہے اور سر سے ٹیک دینا دوسری طرح کے محاورے ہیں جو آگے بڑھ کر سرگوشی تک آ جاتے ہیں۔ سر کو ڈھکنا مرد سے زیادہ عورت کے لئے ضروری تھا جیسے آج بھی دیکھا جا سکتا ہے ٹوپی اسی کی ایک علامت ہے۔ اوپر دیئے ہوئے محاورے ہوں یا دوسرے محاورے جو سر سے متعلق ہوں جیسے سر سے چادر اُتر گئی۔

انہی محاوروں میں سر جھکانا، سر پیروں پر رکھنا، سرپر خاک ڈالنا، بھی اور ہم اپنی عزت کے نشان کے طور پر شخصی خاندانی قومی اور قبائلی وقار کے طور پر پگڑی یا دوپٹہ کو یا چادر اور آنچل کو سر سے گرنے نہیں دیتے تھے اور جب اُسے دوسرے کے قدموں پر رکھتے تھے تو اپنی انتہائی وفاداری کا اظہار کرتے تھے جسے ہم مکمل بھی کہہ سکتے ہیں دیہات قصبات اور شہروں میں جب دوسرے کی عزت کو بڑا دکھانا چاہتے ہیں اور اپنی شخصیت کو کمتر ظاہر کرنا چاہتے ہیں تو اس کے پیروں میں کوئی دوپٹہ پگڑی رکھتے ہیں اور اس کو اپنی طرف اظہارِ عاجزی کی سب سے بہتر صورت خیال کرتے ہیں۔ اِس معنی میں یہ محاورے ہمارے سماج کے رویوں کی نشاندہی کرتے ہیں۔

ردیف "ث"

ثابت قدم رہنا یا ثابت قدمی دکھانا

ثبات کے معنی ہیں ٹکنا، قائم رہنا لیکن قدموں کے ساتھ اس کا تصور انسانی کردار سے وابستہ ہو جاتا ہے خاص طور پر اِن افراد یا ان قوموں کے کردار سے جو جنگ کرتی تھی اور مشکل مرحلوں سے گزرتی تھی جنگ میں پیر اُکھڑنا اور قدم اُکھڑنا بہرحال ایک محاورے کے طور پر وہاں آتا تھا جہاں ڈٹے رہنا ضروری ہوتا تھا۔ قدم جمائے رکھنا لازمی تھا اسی لئے قدم اُکھڑ جانے یا پیر اُکھڑ جانے کے معنی بزدلی دکھانا اور بھاگ کھڑا ہونا تھا جو بری بات تھی اور کردار کی اِستقامت کے لحاظ سے ناپسند یدہ بات تھی اسی لئے ثابت قدم رہنا ایک سپاہی ایک عالی حوصلہ اور مستقل مزاج انسان کے لئے ایک بہت اچھی صفت تھی جس کی تعریف کی جاتی تھی اور اس کو موقع بہ موقع سراہا جاتا تھا۔ مثنویوں اور قصیدوں میں اس طرح کے بہت سے شعر مل جائیں گے جن میں ثابت قدمی کی تعریف کی گئی اور اس معنی میں وہ انسانی کردار کی خوبی اور سماجی تقاضوں کی ایک علامت کے طور پر محاورے میں سامنے آتی ہے۔

ثواب کمانا

ہمارا بنیادی طریقہ فکر مذہبی اور اخلاقی ہے ہم ہر بات کو تعبیر اور تشریح مذہبی طرزِ فکر کے طور پر پیش کرتے ہیں اور نیک عمل کا اَجرا بھی ہم قدرت یا خُدا کی طرف منسوب کرتے ہیں اور اسی کو ثواب کہتے ہیں کہ یہ کام کرو گے تو ثواب ہو گا یا ملے گا اگر ایسا کیا گیا تو تم ثواب کماؤ گے اس اعتبار سے ثواب کمانا نیکی کرنے اور اُس کے بدلہ یا انجام کو خُدا سے وابستہ کرنے کا ایک نفسیاتی عمل جس کو ہم ثواب کمانے سے تعبیر کرتے ہیں۔

اگر دیکھا جائے تو ثواب کمانا ایک طرح سے مذہبی رو یہ کے ذیل میں بھی آتا ہے اور اس سچائی کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ اچھے برے عمل کا نتیجہ ثواب یا عذاب سے ہے۔