عصرِ غَیبتِ امامؑ میں ہماری ذمہ داریاں

عصرِ  غَیبتِ امامؑ میں  ہماری    ذمہ  داریاں33%

عصرِ  غَیبتِ امامؑ میں  ہماری    ذمہ  داریاں مؤلف:
: عامرحسین شہانی
زمرہ جات: امام مہدی(عجّل اللّہ فرجہ الشریف)
صفحے: 161

عصرِ غَیبتِ امامؑ میں ہماری ذمہ داریاں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 161 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 51944 / ڈاؤنلوڈ: 2747
سائز سائز سائز
عصرِ  غَیبتِ امامؑ میں  ہماری    ذمہ  داریاں

عصرِ غَیبتِ امامؑ میں ہماری ذمہ داریاں

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

"اے علی ؑ! اگر خدا تیرے ذریعے کسی ایک آدمی کی ہدایت کر دے تو یہ تیرے لئے ہر اس چیز سے بہتر ہے کہ جس پر سورج کی روشنی پڑ تی ہے۔"(۱)

۲۷ ۔ ستائیسواں عمل:

ہر شخص کو چاہیے کہ اپنی استطاعت کے مطابق امام عصر ؑ کے حقوق ادا کرے اور اس میں کسی قسم کی کوتاہی نہ کرے۔

بحار الانوار میں مروی ہے کہ امام جعفر صادق ؑ سے پوچھا گیا:

"کیا قائم کی ولادت ہوچکی ہے؟"

فرمایا:

نہیں ، اگر میں انہیں پاتا توساری زندگی ان کی خدمت کرتا رہتا۔"(۲)

مصنف :اے مومنو ! زرا سوچیے!امام صادق ؑ کتنی زیادہ ان کی قدر و منزلت بیان فرما رہے ہیں۔پس اگر آپ امام ؑ کے خادم نہیں بن سکتے تو کم از کم اپنے گناہوں کے ذریعے دن رات انہیں غمگین تو نہ کیجئے۔اگر آپ شہد نہیں دےسکتے تو زہر بھی تو نہ دیں ۔

____________________

۱:- البحار ۸

۲:- بحارالانوار ۵۱/۱۴۸ ح۲۲

۱۰۱

۲۸ ۔ اٹھائیسواں عمل:۔

دعا کرنے والے کو چاہیے کہ اپنے لیے دعا کرنے سے پہلے اللہ سے امام ؑ کے ظہور میں تعجیل کے لیے دعا کرے اور پھر اپنے لیے دعا کرے۔ایک تو امامؑ کی محبت اور ان کے حقوق کی ادائیگی بھی اس چیز کا تقاضہ کرتی ہے اور اس کے علاوہ صحیفہ سجادیہ میں موجود دعاء عرفہ میں بھی یہ چیز واضح ہے۔ اسی طرح بعض دیگر احادیث سے بھی اس امر کی جانب رہنمائی ملتی ہے۔اس کے ساتھ ساتھ امام ؑ کے ظہور میں تعجیل کے لیے دعا کرنے سے اسی (۸۰) سے زائد دنیوی و اخروی فوائد حاصل ہوتے ہیں۔

یہ تمام فوائد اپنے مصادر و ادلۃ سمیت میں نے اپنی کتاب "ابواب الجنات " اور " مکیال المکارم"(۱) میں ذکر کیے ہیں۔اوربعض اس کتاب میں بھی گزر چکے ہیں۔

یہ بات طبیعی اور فکری ہے کہ ایک عقل مند شخص یہ فوائداس دعا پر بھی حاصل کرنا چاہتا ہے کہ جس کے قبول ہونے یا نہ ہونے کا علم بھی نہیں۔ جبکہ امام ؑ کی خاطر دعا کرنا اس کی اپنی دعا کی قبولیت کا سبب بنے گا ۔ ان شاء اللہ تعالیٰ۔

____________________

۱:- مکیال المکارم ج۱ ص ۳۷۷ باب۵

۱۰۲

جیسا کہ آداب دعا میں دعا سے پہلے محمد وآل محمد ؑ پر صلوات بھیجنے کی فضیلت بیان کی گئی ہے کہ یہ اپنے بعد والی دعا کی قبولیت کا سبب بنتا ہے۔(۱)

____________________

۱:- الکافی /۲۴۹۱ باب صلوات ح۱۔(امام صادقؑ:دعا اس وقت تک پردے میں چھپی رہتی ہے جب تک محمد و آل محمد پر صلوات نہ پڑھی جائے۔

۱۰۳

۲۹ ۔ انتیسواں عمل:۔

امامؑ کے لیے محبت و دوستی کا اظہار کرنا۔

غایۃ المرام میں مروی ہے کہ رسول خدا ؐ حدیث معراج میں فرماتے ہیں کہ اللہ نے آپؑ سے فرمایا:

"اے محمد ؐ ! کیا آپ انہیں دیکھنا چاہتے ہیں۔پھر فرمایا آگے بڑھیئے۔پس میں آگے بڑھا تو اچانک علی ؑ ابن بی طالبؑ ،اور حسنؑ ،حسین ؑ،محمد بن علی ؑ ،جعفر بن محمدؑ ،موسی بن جعفرؑ ،علی ابن موسیؑ،محمد بن علیؑ، علی بن محمدؑ،حسن بن علی ؑ اور حجت قائمؑ کو دیکھا کہ ان کے درمیان کوکب دری کی طرح چمک رہے تھے۔

میں نے پوچھا اے پروردگار یہ کون ہیں؟

فرمایا:

یہ آئمہ حق ہیں اور یہ قائم ؑ ہیں کہ جو میرے حلال کو حلال اور میرے حرام کو حرام کرنے والے ہیں۔(۱) اور میرے دشمنوں سےانتقام لیں گے۔

اے محمدؐ ان سے محبت کیجئے ۔بے شک میں بھی ان سے محبت کرتا ہوں اور جو ان سے محبت کرے اس سے بھی محبت کرتا ہوں۔"(۲)

____________________

۱:- یعنی تمام احکام کو ظاہر کریں گے حتی کہ تقیہ کے بغیر عمل کریں گے۔

۲:- غایۃ المرام :۱۸۹ ح۱۰۵ اور ص۲۵۶ ح۲۴

۱۰۴

مصنف : امام ؑ کی محبت کابطور خاص حکم دینے سے(جبکہ تمام آئمہ ؑ سے محبت واجب ہے) یہ پتا چلتاہے کہ ان کی محبت میں اللہ کے اس حکم کے پیچھے کوئی خاص اور معین خصوصیت ہے۔اور ان کے وجود مبارک میں ایسی صفات ہیں جو اس تخصیص کا تقاضا کرتی ہیں۔

۳۰ ۔ تیسواں عمل: ۔

امام ؑ کے انصار اور ان کےخادموں کے لیےدعا کرنا۔

جیسا کہ یونس بن عبد الرحمٰن کی دعا میں آیا ہے کہ جو پہلے گزر چکی ہے۔(۱)

۳۱ ۔ اکتیسواں عمل:

امام ؑ کے دشمنوں پر لعنت کرے۔

جیسا کہ بہت سی روایات سے یہی ظاہر ہوتا ہے۔اور امام ؑ سے وارد ہونے والی دعا میں بھی یہی ظاہر ہوتا ہے۔(۲)

۳۲ ۔ بتیسواں عمل:۔

اللہ سے توسل کرنا ۔

____________________

۱:- جمال الاسبوع ص۳۱۳

۲:- الاحتجاج : ۲/۳۱۶

۱۰۵

تاکہ وہ ہمیں امام ؑ کے انصار میں سے قرار دے۔جیسا کہ دعا عہد وغیرہ میں وارد ہوا ہے۔

۳۳ ۔ تینتیسواں عمل:۔

امام ؑ کے لیے دعا کرتے وقت آواز بلندکرنا:

امام ؑ کے لیے دعا کرتے وقت آواز بلند کرے بالخصوص عام محافل و مجالس میں ۔ اس میں ایک تو شعائر اللہ کی تعظیم ہے اور اس کے ساتھ امام صادقؑ سے مروی دعا ندبہ کے بعض فقرات سے اس کا مستحب ہونا ظاہر ہوتا ہے۔(۱)

۳۴ ۔ چونتیسواں عمل:۔

آپؑ کے اعوان وانصار پر صلوات بھیجنا۔

یہ بھی ان کے لیے دعا ہی کی ایک صورت ہے۔صحیفہ سجادیہ کی دعا عرفہ اور بعض دیگر مقامات میں یہی و ارد ہوا ہے۔

۳۵ ۔ پینتیسواں عمل :۔

امام ؑ کی نیابت میں خانہ کعبہ کا طواف بجا لانا۔

____________________

۱:- عبارت یہ ہے: دعا و استغاثہ کے وقت آواز بلند کرو۔

۱۰۶

کتاب مکیال المکارم میں اس کی دلیل بیان کی ہے۔(۱) یہاں اختصار کو مد نظر رکھتے ہوئے ذکر نہیں کر رہا۔

۳۶ ۔ چھتیسواں عمل:۔

امام ؑ کی نیابت میں حج بجا لانا۔

۳۷ ۔ سینتیسواں عمل:۔

امام ؑ کی نیابت میں حج کرنے کے لیے نائب بھیجے۔

اس کی دلیل وہی ہے جو پہلے خرائج(۲) میں حدیث مروی ہے۔اسے میں نے مکیال المکارم(۳) میں ذکر کیا ہے اور یہ النجم الثاقب(۴) میں بھی موجود ہے۔

۳۸ ۔ اڑھتیسواں عمل:۔

روزانہ کی بنیاد پر یا ہر ممکن وقت میں امام ؑ سے تجدید عہد و تجدید بیعت کرنا۔

جان لیجئے کہ اہل لغت کے ہاں بیعت کا معنی یہ ہے: کسی کام پر عہد اور اتفاق کرنا۔

____________________

۱:- مکیال المکارم ۲/۲۱۶

۲:- الخرائج والجرائح : ۷۳

۳:- مکیال المکارم : ۲/۲۱۵

۴:- النجم الثاقب: ص۷۷۴ (فارسی)

۱۰۷

امام ؑ کے ساتھ عہد اور بیعت کا معنی یہ ہے کہ :

مومن اپنی زبان سے اقرار کرے اور دل سے پختہ عزم کرے کہ وہ امام ؑ کی مکمل اطاعت کرے گاار وہ جب بھی ظہور فرمائیں گے ان کی نصرت و مدد کرے گا۔

دعا عہد صغیر جو پیچھے گزر چکی ہے اور دعا عہد کبیر جو آگے آئے گی ان دونوں میں بیعت کا یہی معنی ظاہر ہوتا ہے۔جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ کسی شخص کے ہاتھ پر ہاتھ رکھنا اس عنوان سے کہ یہ امامؑ کی بیعت ہے تو یہ ایک گمراہ کن بدعت ہے کیونکہ یہ طریقہ قرآن و روایات معصومین ؑ میں سے کسی میں بھی بیان نہیں ہوا ہے۔ ہاں اہل عرب میں یہ بات مشہور تھی کہ ایک شخص اپنا ہاتھ دوسرے کہ ہاتھ پر رکھ کر اس کے ساتھ واضح صورت میں عہد و بیعت کا اظہار کرتا تھا۔

بعض احادیث میں وارد ہوا ہے کہ رسول خدا ؐ نے بیعت کے مقام پر مصافہ کیا۔ پھر اپنامبارک ہاتھ پانی کے ایک برتن میں ڈال کرنکال لیا اور پھر مسلمان عورتوں کو حکم دیا کہ وہ اس برتن میں اپنا ہاتھ ڈالیں ۔ لیکن یہ کام اس بات کی دلیل نہیں بن سکتا کہ بیعت کی یہ شکل و صوارت ہر زمانے حتی امام ؑ کی غیبت کے زمانےمیں بھی جائز ہے۔بلکہ بعض احادیث سے ظاہر ہوتاہے کہ جہاں امام یا نبی سے بیعت کرنا ممکن نہ ہو وہاں زبانی اقرار اور دل سے عزم کرنے

۱۰۸

پر اکتفاء کرنا واجب ہے۔اس مسئلہ میں ایک مفصل حدیث موجود ہے جسے علماء نے اپنی کتابوں میں ذکر کیا ہے۔

انہی میں سے ایک تفسیر البرہان میں امام محمد باقرؑ سے مروی ہے کہ رسول خداؐ نے امیرالمومنینؑ کو اپنا خلیفہ بنانے کے بعد ان کے بہت سے فضائل بیان کیے اور پھر فرمایا:

"اے لوگو! تم اس سے زیادہ ہو کہ میرے ہاتھ پہ ہاتھ رکھ سکو(بیعت کر سکو) اور اللہ نے مجھے حکم دیا ہے کہ میں تمہاری زبانوں سے علیؑ کے امیرالمومنین ہونے کا اور ان کے بعد آنے والے آئمہ کا اقرار لوں کہ جو مجھ سے ہیں اور ان(علیؑ) سے ہیں۔جیسا کہ میں نے تمہیں بتا دیا کہ میری زریت علی ؑ کی صلب سے ہے۔پس تم سب یوں کہو: آپؐ نے امیرالمومنین علیؑ اور ان کی اولاد سے آنے والے آئمہؑ کے بارے میں ہمارے اور آپؐ کے رب کا جو حکم پہنچا دیا ہے ہم نے اسے سنا،اطاعت کی اور اس پر راضی ہیں اور سر تسلیم کرتے ہیں۔۔۔الخ

پس اگر امام کی بیعت کے عنوان سے کسی غیر امام کے ہاتھ پر ہاتھ رکھنا جائز ہوتا تو پھر رسولؐ لوگوں کو حکم دیتے کہ ہر گروہ اکابرین صحابہ میں سے کسی ایک کہ ہاتھ پہ ہاتھ رکھے ۔ جیسے سلمان ،ابوزر وغیرہ۔پس جب ایسا نہیں ہوا تو یہ عمل خود نبی و امام کے زمانہ ظہور کےعلاوہ صحیح نہیں۔جہاد کی طرح کہ جو امام ؑ کے زمانہ ظہور کے ساتھ مختص ہے۔

۱۰۹

اس کے علاوہ یہ بھی مد نظر رہے کہ کسی کتاب کی کسی روایت میں یہ بات وارد نہیں ہوئی کہ آئمہؑ کے زمانہ میں کچھ مسلمانوں نے آئمہ ؑ کے بڑے صحابہ میں سے کسی کے ہاتھ بیعت کی ہواس عنوان سے کہ خود آئمہ ؑ نے ان کے بارے یہ حکم دیا ہےاور ہم اس معاملے میں ان سے مدد لے رہے ہیں۔

۳۹ ۔ انتالیسواں عمل:۔

بعض فقہاء مثلا محدث شیخ حر عاملی نے وسائل الشیعہ میں لکھا ہے کہ :

امام مہدیؑ کی نیابت میں آئمہ معصومین کی قبورکی زیارت کرنا مستحب ہے۔(۱)

۴۰ ۔ چالیسواں عمل:۔

اصول کافی میں مفضل سے روایت ہے کہ وہ کہتے ہیں کہ میں نے امام صادق سے سنا کہ وہ فرما رہے تھے:

"اس صاحب امر کی دوٖغیبتیں ہیں۔ان میں سے ایک اپنے اہل کی طرف پلٹ جائے گی۔اور دوسری کے بارے میں کہا جائے گا کہ وہ ہلاک ہوگئے یا کس وادی میں چلے گئے۔میں نے عرض کیا: جب ایسا ہو تو ہم کیا کریں؟ فرمایا:

____________________

۱:- وسائل الشیعہ ج۱۰ ص۴۶۴ ح۱

۱۱۰

جب کوئی مدعی اس بات کا دعوی کرےتو اس سے ایسے سوال کرو کہ جس کا جواب ان جیسی شخصیت دے سکتی ہو۔"(۱)

مصنف:یعنی ہم اس سے ایسے امور کے بارے سوال کریں کہ جن پر لوگوں کا علم نہیں پہنچ سکتا۔مثلا ماں کے رحم میں جنین کے بارے کہ مذکر ہے یا مؤنث ہے؟ اور کس وقت ولادت ہوگی؟ اور ان چیزوں کے بارے میں کہ جنہیں آپ اپنے دلوں میں چھپائے رکھتے ہیں کہ جنہیں صرف اللہ جانتا ہے۔اور حیوانات و جمادات کے ساتھ کلام کرنا۔اور ان کا گواہی دینا کہ یہ سچا ہےاور اس امر میں برحق ہے۔جیسا کہ ایسی چیزیں آئمہ سے کئی بار صادر ہوئی ہیں۔اور کتابوں میں تفصیل سے مذکور ہیں۔

۴۱ ۔ اکتالیسواں عمل:۔

غیبت کبری کےدوران جو شخص امام کی نیابت خاصہ کا دعوی کرے اسے جھٹلانا۔

یہی بات کمال الدین اور احتجاج میں امامؑ کی توقیع شریف میں مذکور ہے۔

۴۲ ۔ بیالیسواں عمل:۔

امام کے ظہور کا وقت معین نہ کرنا۔

____________________

۱:- الکافی ج۱ ص۳۴۰

۱۱۱

جو شخص ایسا کرے اسے جھٹلانا اور اسے کذاب (جھوٹا) کا نام دینا۔امام صادق ؑ کی صحیح حدیث میں ہے کہ آپ نے محمد بن مسلم سے فرمایا:

"لوگوں میں سے جوشخص تمہارے سامنے کسی چیز کا وقت معین کرے تو اس کوجھٹلانے سے مت گھبراؤ کیونکہ ہم کسی کے لیے وقت معین نہیں کرتے۔"(۱)

ایک اور حدیث میں فضیل سے رویت ہے کہ انھوں نے فرمایا:

میں نے امام باقر سے عر ض کیا : کیا اس امر (ظہور مہدیؑ ) کا کوئی وقت معین ہے؟

تو امام نے فرمایا:

وقت معین کرنے والے جھوٹے ہیں۔ وقت معین کرنے والے جھوٹے ہیں۔ وقت معین کرنے والے جھوٹے ہیں۔(۲)

اور کمال الدین میں امام رضا ؑ سے مروی ہے کہ فرمایا: مجھے میرے باپ نے ،انہوں نے اپنےباپ سے، انہو ں نے اپنے آباء سے حدیث بیان کی ہے کہ رسول خدا ؐ سے پوچھا گیا کہ اے رسول خداؐ۔ آپ کی زریت میں سے قائم کب ظہور فرمائیں گے؟ تو فرمایا: ان کی مثال اس گھڑی کی سی ہے جس کے بارے اللہ نے فرمایا:

____________________

۱:- الغیبۃ الطوسی ۲۶۲ اورانہوں نے بحارالانوار ۵۲/۱۰۴ ح۸ سے

۲:- الغیبۃ الطوسی ۲۶۲

۱۱۲

لا يُجَلِّيها لِوَقْتِها إِلاَّ هُوَ ثَقُلَتْ فِي السَّماواتِ وَالأْرْضِ لا تَأْتِيكُمْ إِلاَّ بَغْتَة

"وہی اس کو بروقت ظاہر کردے گا یہ قیامت زمین و آسمان دونوں کے لیے گراں ہے اور تمہارے پاس اچانک آنے والی ہے"۔(۱)

۴۳ ۔ تینتالیسواں عمل:۔

دشمنوں سے تقیہ کرنا:

واجب تقیہ یہ ہے کہ جب بندہ مومن کو عقلا اپنی جان یا اپنے مال یا اپنی عزت پر کسی ضرر اور نقصان کا خوف ہو تو وہ حق کو ظاہر کرنے سے خود کو روک لے۔ بلکہ اگر اپنی جان،مال یا عزت کی حفاظت کے لیے اپنی زبان سے مخالفوں کی موافقت بھی کرنی پڑے تو یہ بھی کر دینی چاہیے۔لیکن ضروری ہے کہ اس کا دل اس کی اس زبانی بات کے مخالف ہو۔

کمال الدین میں امام رضا ؑ سےمروی ہے کہ فرمایا:

"جس کے پاس پرہیزگاری نہیں اس کا دین نہیں اور جس کے پاس تقیہ نہیں اس کا ایمان نہیں ۔تم میں سے اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ صاحب عزت وہ ہے جو سب سے زیادہ تقیہ پر عمل پیرا ہو"۔

پوچھاگیا : اے فرزند رسولؐ : کس وقت تک تقیہ کریں؟

فرمایا:

____________________

۱:- کمال الدین ۲/۳۷۳ اور آیۃ سورۃ اعراف ۱۸۷

۱۱۳

"وقت معلوم کے دن تک۔اور یہ وہ دن ہے کہ جس میں ہم اہل بیتؑ کے قائم ظہور فرمائیں گے۔پس جس نے ظہور قائمؑ سے پہلے تقیہ ترک کر دیا تو وہ ہم میں سے نہیں ہے۔"(۱)

تقیہ کے وجوب پربہت سی روایات موجود ہیں۔ اور جو میں نے تقیہ کا معنی پیش کیا یہ وہی معنی ہے جو کتاب الاحتجاج کے اسی باب میں امیرالمومنینؑ کی حدیث میں مذکور ہے۔ امام ؑ نے اس حدیث میں تقیہ پر تاکید کرتے ہوئے فرمایا کہ تقیہ ترک کرنے میں تمہاری ذلت ہے اور تمہارے اور مومنین کے خون بہے جانے کا سبب ہے۔۔۔۔الخ(۲)

خصال میں شیخ صدوق نے سند صحیح کے ذریعے امام باقر ؑ سے روایت کی ہے کہ امیر المومنینؑ نے فرمایا:

"دنیا کی مضبوطی چار چیزوں سے ہے:(۳)

۱۔اس عالم سے جو بولنے والا اور اپنے علم پر عمل کرنے والا ہو۔

____________________

۱:- کمال الدین ۲/۳۷۱

۲:- امیر المومنین کی ایک طویل حدیث ہے کہ جس سے ہم نے اپنی ضرورت کا مطلب لیا ہے۔ فرمایا: بچو اس وقت سے کہ تم تقیہ ترک کر دو کہ جس کا میں نےتمہیں حکم دیا تھا کہ اس سے تمہارا اور تمہارے بھائیوں کا خون بہے گا۔۔۔الاحتجاج طبرسی۱/۳۵۵

[۳:- یعنی دین اسلام کا قیام ان چار چیزوں پر موقوف ہے۔

۱۱۴

۲۔اس غنی سے جو دینداروں پر فضل کرنے میں کنجوسی نہیں کرتا۔

۳۔ اس فقیر سے کہ جو اپنی دنیا کے بدلے اپنی آخرت نہیں بیچتا۔

۴۔اس جاہل سے جو علم حاصل کرنے میں تکبر نہیں کرتا۔

پس جب عالم اپنا علم چھپانے لگے،غنی اپنے مال میں کنجوسی کرنے لگے ،فقیر اپنی آخرت کو دنیا کے بدلے بیچ ڈالے،اور جاہل طلب علم سے تکبر کرنے لگے تو دنیا پیچھے کی جانب پلٹ جائے گی۔پھر تمہیں مال کی کثرت اور قوم کا مختلف ٹکڑوں میں بکھرا ہونا تعجب میں نہ ڈالے۔

پوچھا گیا:

اے میرالمومنین ؑ اس زمانے میں زندگی کیسے گزاریں ؟

فرمایا:

ظاہر میں ان کے ساتھ مل کر رہو لیکن باطن میں ان کے مخالف رہو۔ آدمی جو کچھ کماتا ہے اسے وہی ملتا ہے اور جس کے ساتھ محبت کرتا ہے وہ اسی کے ساتھ محشور ہوگا۔اس کے ساتھ اللہ کی طرف سے فرج(کشائش) کا انتطار کرو۔(۱)

____________________

۱:- الخصال ص۱۹۷ ح۵

۱۱۵

اس باب میں بہت سی روایات ہیں جن میں سے کچھ میں نے اپنی کتاب مکیال المکارم(۱) میں ذکر کی ہیں۔

۴۴ ۔ چوالیسواں عمل:۔

گناہوں سے حقیقی توبہ کرنا:

اگرچہ درست ہے کہ حرام اعمال سے توبہ کرنا ہر زمانے میں واجب ہے لیکن اس زمانے (زمانہ غیبت) میں اس کی اہمیت اس لیے زیادہ ہے کیونکہ حضرت صاحب الامر ؑ کی غیبت اور اس کے طولانی ہونے کے اسباب میں سے ایک سبب ہمارے بہت بڑے اور کثیر گناہ ہیں۔پس یہ گناہ ظہور میں رکاوٹ کا باعث ہیں۔ جیسا کہ بحارالانوار میں امیر المومنین ؑ سے روایت ہے اور اسی طرح امام ؑ کی ایک توقیع مبارک کہ جواحتجاج میں مروی ہے کہ فرمایا:

"ہمیں ان سے کوئی چیز روکے ہوئے نہیں ہے سوائے ہم تک پہنچنے والے (وہ اعمال) کہ جنہیں ہم ناپسند کرتے ہیں اور ان سے ان اعمال کا سر زدہونا پسند نہیں کرتے ۔"(۲)

____________________

۱:- مکیال المکارم ۲/۲۸۴

۲:- الاحتجاج ۲/۳۲۵ اور انہوں نے بحارالانوار ۵۳/۱۷۷ سے

۱۱۶

تو بہ یہ ہے کہ اپنے گزشتہ گناہوں پر پشیمان ہو کر مستقبل میں انہیں ترک کرنے کا عزم کرنا۔ اس کی علامت یہ ہے کہ جو واجبات چھوڑے ہیں (انہیں ادا کرکے)ان سے اپنا ذمہ بری کرانا،اور اپنے ذمے لوگوں کے جو حقوق باقی ہوں انہیں ادا کرنا اور گناہوں کی وجہ سے اپنے بدن پر بڑھے ہوئے گوشت کو ختم کرنا اور عبادت کی اس قدر مشقت برداشت کرنا کہ گناہوں کی لذت بھول جائے۔اور یہ چھ کام انجام دینے سے توبہ کامل ہوجاتی ہےاور ویسی توبہ بن جاتی ہے کہ جیسی امیرالمومنینؑ سے متعدد کتابوں میں بیان ہوئی ہے۔

پس اپنے نفس کو خبر دار کرو اوریہ نہ کہو کہ بالفرض اگر میں توبہ کر بھی لوں پھر بھی بہت سے لوگ توبہ نہیں کر یں گے پس امام ؑ کی غیبت جوں کی توں باقی رہے گی۔ پس تمام لوگوں کے گناہ امام ؑکی غیبت کو بڑھاتے ہیں اور ظہور میں تاخیر کا سبب ہیں۔

تو میں جواب میں کہتا ہوں کہ : اگر ساری مخلوق امامؑ کے ظہور میں تاخیر کا سبب ہے تو آپ اپنے نفس کی طرف دیکھیں کہ وہ ان لوگوں کے ساتھ تونہیں ہے مجھے خوف ہے کہ کہیں آپ بھی ویسے ہی شمار نہ ہونے لگیں جیسے ہارون رشید نے امام موسی کاظم ؑ ،مامون نے امام رضاؑ کو اور متوکل نے امام علی نقی ؑ کو سامرء میں قید کیے رکھا۔

۱۱۷

۴۵ ۔ پینتالیسواں عمل:۔

روضۃ الکافی میں امام صادقؑ سے مروی ہے کہ فرمایا: "جب تم میں سے کوئی قائم ؑ کی تمنا کرے تو اسے چاہیے کہ عافیت میں تمنا کرے کیونکہ اللہ تعالی نے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو رحمت بنا کر بھیجا تھا اور قائم ؑ کو انتقام لینے والا بنا کر بھیجے گا۔"(۱)

مصنف:یعنی ہم اللہ سے دعا کریں کہ ہم امامؑ سے اس حال میں ملاقات کریں کہ ہم مومن ہوں اور آخری زمانے کی گمراہیوں سے عافیت میں ہوں تاکہ ہم امام ؑ کے انتقام کا نشانہ نہ بن جائیں۔

۴۶ ۔ چھیالیسواں عمل:۔

لوگوں کو امام ؑ سے محبت کی دعوت دینا۔

مومن کو چاہیے کہ لوگوں کو امام ؑ سے محبت کی دعوت دے۔ ان کے سامنے امام ؑ کے لوگوں پر احسان ، ان کی برکات ،ان کے وجود کے فائدے ،اور ان کی لوگوں سے محبت جیسی باتیں بیان کرکے انہیں امامؑ سے محبت کی طرف

____________________

۱:- الکافی ۸/۲۳۳ ح۳۰۶

۱۱۸

بلائے اور انہیں ان اعمال کی تشویق دلائے کہ جن سے امامؑ کی محبت حاصل کی جاتی ہے۔

۴۷ ۔ سینتالیسواں عمل:۔

امام ؑ کا زمانہ غیبت طویل ہونے کی وجہ سے دل سخت نہ کریں بلکہ مولا کی یاد سے دلوں کو نرم و تروتازہ رکھیں۔اللہ رب العالمین نے قرآن کی سورہ حدید میں فرمایا ہے:

أَلَمْ يَأْنِ لِلَّذِينَ آمَنُوا أَنْ تَخْشَعَ قُلُوبُهُمْ لِذِكْرِ اللَّهِ وَما نَزَلَ مِنَ الْحَقِّ وَلا يَكُونُوا كَالَّذِينَ أُوتُوا الْكِتابَ مِنْ قَبْلُ فَطالَ عَلَيْهِمُ الأْمَدُ فَقَسَتْ قُلُوبُهُمْ وَكَثِيرٌ مِنْهُمْ فاسِقُون

"کیا مومنین کے لیے ابھی وقت نہیں آیا کہ ان کے دل ذکر خدا سے اور نازل ہونے والے حق سے نرم ہو جائیں اور وہ ان لوگوں کی طرح نہ ہو جائیں جنہیں پہلے کتاب دی گئی پھر ایک طویل مدت ان پر گزر گئی تو ان کے دل سخت ہوگئےاور ان میں سے بہت سے لوگ فاسق ہیں۔"(۱)

اور برہان میں امام صادق علیہ السلام سے روایت ہے(۲) کہ آپ نے فرمایا: یہ آیۃ

____________________

۱:- سورۃ حدید :۱۶

۲:- البرہان ۴/۲۹۱ ،ج۱

۱۱۹

وَلا يَكُونُوا كَالَّذِينَ أُوتُوا الْكِتابَ مِنْ قَبْلُ فَطالَ عَلَيْهِمُ الأْمَدُ فَقَسَتْ قُلُوبُهُمْ وَكَثِيرٌ مِنْهُمْ فاسِقُون

(ان لوگوں کی طرح نہ ہونا کہ جنہیں اس سے پہلے کتاب دی گئی پھر ان پر مدت طویل ہوگئی تو ان کے دل سخت ہوگئے اوران میں سے اکثر فاسق ہیں )

زمانہ غیبت کے لوگوں کے لیے نازل ہوئی ہے۔

پھر فرمایا:

اعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ يُحْيِ الأْرْضَ بَعْدَ مَوْتِها

جان لو کہ اللہ زمین کو مردہ ہونے کے بعد پھر زندہ کرے گا۔

امام محمد باقر ؑ نے "زمین کے مردہ ہونے " کا معنی بیان کرتے ہوئے فرمایا: اس سے مراد اہل زمین کا کفرہے اور کافر مردہ ہوتاہے۔اللہ اسے قائم کے ذریعے زندہ کرے گا۔پس وہ زمین میں عدل قائم فرمائیں گے پس زمین زندہ ہو جائےگی اور اہل زمین بھی مردہ ہونے کے بعد زندہ ہو جائیں گے۔(۱)

اور کمال الدین میں امیرالمومنین ؑ سے صحیح سند کے ساتھ روایت ہے کہ فرمایا:

"ہمارے قائم کے لیے ایسی غیبت ہے کہ جس کی مدت طویل ہے گویا میں دیکھ رہا ہوں شیعہ ان کی غیبت میں ریوڑ کی طرح سرگرداں ہیں ۔وہ چراگاہ کی

____________________

۱:- البرہان ۴/۲۹۱ ،ج۴

۱۲۰

ہوئے لکھتے ہیں جکہ انھوں نے حضرت عثمان اور حضرت علی(ع) سے روایتیں کیں۔ حضرت علی(ع) کی معیت میں جنگِ صفین میں شریک ہوئے۔ بڑے فصیح و بلیغ خطیب تھے معاویہ کے ساتھ ان کے بڑے معرکے ہوئے ہیں۔ شعبی ان کے متعلق کہا کرتے کہ میں نے ان سے خطب کی تعلیم حاصل کی۔

علائی نے حالات زیاد میں ذکر کیا ہے کہ مغیرہ نے بحکم معاویہ انھیں کوفہ سے جلا وطن کر کے جزیرہ یا بحرین کی طرف بھیج دیا۔ بعض کہتے ہیں جزیرہ ابن کافان میں بھیجے گئے اور وہیں انتقال کیا۔ جس طرح جناب ابوذر نے زبذہ میں جلا وطن ہو کر انتقال کیاہ۔

علامہ ذہبی نے میزان الاعتدال میں انھیں ثقہ ، معروف ، مشہور و معروف موثق لکھا ہے نیز ان کے ثقہ ہونے کے متعلق علامہ ابن سعد اور نسائی کے اقوال ذکر کیے ہیں۔ ان کی حدیثیں سنن نسائی میں موجود ہیں۔

ظ :

 ظالم بن عمرو بن سفیان ابو الاسود  دؤلی

ان کا شیعہ و مخلص اہلِ بیت(ع) ہونا دنیا جانتی ہے ملاحظہ ہو اصابہ جلد 2 صفحہ 242۔ جملہ اربابِ صحاح ستہ نے ان کی حدیثیں سر آنکھوں پر لی ہیں۔ صحیح بخاری و صحیح مسلم سبھی میں موجود  ہیں۔ پچانوے(95) برس کی عمر میں سنہ99ھ میں شہر بصرہ میں انتقال کیا۔ یہ وہی ابوالاسود دؤلی ہیں جنھوں نے امیرالمومنین(ع) سے تعلیم حاصل کر کے علم نحو کی بنیاد رکھی اور دنیائے عربیت میں موجدِ علم نحو کے نام سے یاد کیے جاتے ہیں۔

۱۲۱

ع :

 ابو الطفیل عامر بن وائلہ بن عبداﷲ بن عمرو اللیثی

غزوہ احد کے سال پیدا ہوئے۔ علامہ ابن قتیبہ نے معارف میں انھیں اول درجہ کے غالی شیعوں میں شمار کیا ہے نیز ذکر کیا ہے کہ مختار کے علمدار لشکر اور مختار کے آخری وقت تک رفیق تھے۔

علامہ ابن عبدالبر ، استیعاب میں ان کے متعلق لکھتے ہیں کہ یہ کوفہ میں وارد ہوئے اور حضرت علی(ع) کے ساتھ ہر معرکہ میں شریک رہے۔ جب حضرت علی(ع) شہید ہوگئے تو یہ مکہ چلے گئے۔ بڑے عالم و فاضل زیرک و دانا فصیح و بلیغ حاضر جواب تھے۔ حضرت علی(ع) کے پیرو خاص تھے۔ بعد موت امیرالمومنین(ع) یہ ابو طفیل ایک مرتبہ معاویہ کے پاس پہنچے، معاویہ نے پوچھا تم اپنے دوست ابوالحسن (علی(ع)) کی وفات پر کتنے رنجیدہ ہو؟ انھوں نے کہا ( اتنا ہی جتنا مادر موسی(ع) ، موسی(ع) کے انتقال پر رنجیدہ تھیں خداوندا میری اس کوتاہی کو معاف کرنا ( یعنی امیرالمومنین(ع) سزاوار تھے کہ ان کا غم اس سے بھی زیادہ کیا جائے)

معاویہ نے ان سے پوچھا۔ عثمان کا محاصرہ کرنے والوں میں تم بھی تھے؟ انھوں نے کہا۔ محاصرہ کرنے والوں میں نہیں تھا البتہ میں ان کے قریب ضرور موجود تھا۔ معاویہ نے پوچھا ۔ تم نے ان کی مدد کیوں نہ کی؟ ابوطفیل نے پوچھا اور تم؟ تم نے کیوں مدد سے جان چرائی؟ تم تو شام میں تھے اور شام والے سب کے سب تمھارے تابع تھے۔

۱۲۲

معاویہ نے کہا : میرا خونِ عثمان کا انتقام لینا کیا ان کی مدد نہ تھی؟ ابو طفیل نے کہا: تمھاری مثال تو ایسی ہے جیسا کہ شاعر نے کہا ہے :

             “ میری موت کے بعد مجھ پر ٹسوے بہاتے ہو اور میری زندگی میں تم نے ذرہ برابر میری مدد نہ کی۔”

صحیح مسلم میں ان کی حدیثیں موجود ہیں۔

عباد بن یعقوب الاسدی

دار قطنی نے شیعہ اور صدوق لکھا ہے۔ ابن حبان نے کہا ہے کہ یہ رفض کے مبلغ تھے۔ ابن خزیمہ ان کے متعلق کہا کرتے کہ ہم سے حدیث بیان کی عباد بن یعقوب نے جو روایت میں ثقہ اور مذہب میں متہم ( یعنی شیعہ ) تھے۔

انھیں عباد نے روایت کی ہے کہ ابن مسعود مشہور صحابی پیغمبر(ص) آیت “و کفی اﷲ المومنين القتال ” کو یوں پڑھا کرتے تھے “و کفی اﷲ المومنين القتال بعلی ” نیز یہ حدیث بھی کہ ”اذا رائيتم معاوي ه علی منبری فاقتلو ه ” “جب معاویہ کو میرے منبر پر دیکھنا تو قتل کر ڈالنا۔”

یہ عباد کہا کرتے تھے کہ جو شخص نماز میں دشمنان آل محمد(ص) پر تبرا نہ بھیجا کرے گا وہ انھیں کے ساتھ محشور ہوگا۔ یہ بھی انھیں کا قول ہے کہ خداوند عالم اس سے کہیں زیادہ اںصاف کرنے والا ہے کہ وہ طلحہ و زبیر  کو جنت میں داخل کرے جنھوں نے علی(ع) کی بیعت کرنے  کے بعد پھر ان سے جنگ کی۔

۱۲۳

صالح جزرة کا بیان ہے کہ عباد ، عثمان کو سب و شتم کیا کرتے تھے ان سب باتوں کے باوجود بخاری، ترمذی ، ابن ماجہ وغیرہ میں ان کی حدیثیں موجود ہیں۔ سنہ250ھ میں انتقال کیا۔

ابو عبدالرحمن بن داؤد ہمدانی کوفی

علامہ ابن قتیبہ نے انھیں مشاہیر شیعہ میں لکھا ہے ۔ صحیح بخاری میں ان کی حدیثیں موجود ہیں۔

 عبداﷲ بن شداد

ابن سعد اپنی طبقات جلد6 صفحہ 86 پر ان کے متعلق لکھتے ہیں ۔ بڑے ثقہ، فقیہہ، کثیر الحدیث اور شیعہ تھے۔ ان کی حدیثیں کل صحاح ستہ میں موجود ہیں۔

عبداﷲ بن عمر مشہور بہ مشکدانہ

امام مسلم و ابوداؤد بغوی وغیرہ کے استاد ہیں۔ ابن حاتم نے انھیں صدوق اور شیعہ لکھا ہے۔ صالح بن محمد بن جزرہ نے ان کے متعلق کہا کہ بڑے غالی شیعہ تھے۔ ان کی حدیثیں صحیح مسلم، سنن ابی داؤد میں موجود ہیں۔

عبداﷲ بن لہیعہ قاضی و عالمِ مصر

ابن قتیبہ نے انھیں شیعہ لکھا ہے۔ ابن عدی نے ان کے متعلق لکھا ہے کہ تشیع میں حد سے بڑھے ہوئے تھے۔ ابو یعلی نے عبداﷲ بن لہیعہ سے روایت

۱۲۴

کی ہے اور انھوں نے  بسلسلہ اسناد عبداﷲ بن عمر سے کہ رسالت ماب(ص) نے مرض موت میں فرمایا : میرے بھائی کو بلا دو۔ لوگوں نے ابوبکر کو بلادیا۔ آںحضرت(ص) نے منہ پھیر لیا۔ پھر فرمایا کہ میرے بھائی کو بلاؤ۔ لوگوں نے اب کی عثمان کو بلا دیا اس مرتبہ بھی آپ(ص) نے منہ پھیر لیا۔ پھر علی(ع) بلائے گئے۔ آپ نے انھیں اپنی چادر میں لے لیا اور ان پر جھک گئے۔ جب علی(ع) چادر سے باہر آئے تو لوگوں نے پوچھا ۔ رسول(ص) سے کیا باتیں کیں۔ علی(ع) نے بتایا کہ آںحضرت(ص) نے مجھے ایک ہزار باب علم کے تعلیم کیے کہ ہر باب سے ایک ہزار باب منکشف ہوتےہیں۔

ان کی حدیثیں جامع ترمذی ، سنن ابی داؤد وغیرہ میں موجود ہیں۔ سنہ 174ھ میں انتقال کیا۔

عبداﷲ بن میمون قداح صحابی امام جعفر صادق(ع)

ترمذی نے ان کی حدیثوں سے اپنے مسلک پر استدلال کیاہے ۔ جامع ترمذی میں ان کی حدیثیں موجود ہیں۔

ابو محمد عبدالرحمن بن صالح ازدی

ابن عدی نے ان کے متعلق لکھا ہے کہ “ احترق بالتشیع” شیعیت میں بھن گئے تھے۔ صالح جزرہ نے کہا کہ یہ عثمان کو برا کہتے تھے۔ امام ابو داؤد نے ذکر کیا ہے کہ عبدالرحمن نے صحابہ کی مذمت میں ایک کتاب لکھی تھی۔ بڑے برے آدمی تھے۔ ان سب کے باوجود عباس دوری امام بغوی و نسائی نے ان سے حدیثیں روایت کیں ، سنن نسائی میں ان کی

۱۲۵

حدیثیں موجود ہیں۔ علامہ ذہبی نے ابن معین کےمتعلق لکھا ہے کہ وہ انھیں ثقہ کہا کرتے تھے۔

عبدالرزاق بن ہمام بن نافع حمیری

یہ اکابر و عمائد شیعہ اور سلف صالحین سے تھے ۔ ابنی قتیبہ نے معارف میں انھیں مشاہیر شیعہ میں لکھا ہے مورخ ابن اثیر نے تاریخ کامل جلد6 صفحہ130 میں سنہ211ھ کے حوادث کے سلسلہ میں ان کی وفات کا ذکر کیا ہے۔ چنانچہ لکھتے ہیں:

             “ اسی سنہ211ھ کے آخر میں عبدالرزاق بن ہمام نے وفات پائی یہ امام احمد کے ساتذہ میں سے تھے اور شیعہ تھے۔”

ملا متقی صاحب کنزالعمال نے حدیث 5994 کے سلسلہ میں ان کا ذکر کیا اور ان کی شیعیت کی صراحت کی ہے۔ ( کنزالعمال جلد6 صفحہ391)

علامہ ذہبی میزان میں ان کے متعلق لکھتے ہیں:

             “ عبدالرزاق بن نافع یکے از علمائے اعلام و ثقات تھے بہت سی کتابیں لکھیں۔  جامع کبیر تصنیف کی۔ یہ خزانہ علوم تھے۔ علم کی تحصیل کے لیے لوگ دور دراز سے سفر کر کے ان کے پاس آتے مثلا امام احمد و اسحاق ، یحی ، ذھلی ، رمادی وغیرہ جملہ حفاظِ حدیث و ائمہ علم نے ان کی حدیثوں سے اپنے مسلک پر استدلال کیا ہے۔ طیالسی سے منقول ہے ۔ وہ کہتے ہیں کہ ابن معین بیان کرتے تھے کہ میں نے عبدالرزاق کی زبان سے ایسی باتیں سنن جن سے مجھے ان کے شیعہ ہونے کا

۱۲۶

 یقین ہوگیا۔ میں نے عبدالرزاق سے پوچھا کہ تمھارے اساتذہ جن سے تم نے پڑھا ہے وہ تو سب کے سب سنی تھے معمر، مالک، ابن جریح، سفیان، اوزاعی وغیرہ، پھر تم شیعہ کیسے ہوگئے؟ انھوں نے جواب دیا کہ جعفر بن سلیمان ہمارے یہاں آئے تھے ہم نے انھیں عالم و فاضل اور بڑا نیک سیرت پایا ، انھیں سے متاثر ہوکر میں نے یہ مذہب اختیار کیا۔”

عبدالرزاق کی اس گفتگو سے نکلتا ہے کہ وہ جعفر ضبعی کی وجہ سے شیعہ ہوئے مگر لطف یہ ہے کہ محمد بن ابی بکر مقدمی کا خیال یہ ہے کہ خود جعفر ضبعی عبدالرزاق کی وجہ سے شیعہ ہوئے۔ محمد بن ابی بکر ، عبدالرزاق پر بد دعا کرتے تھے کہ جعفر ضبعی ایسے لوگوں کو اس نے شیعہ کردیا۔

ابن معین جن کا قول ہم نے اوپر ذکر کیا  باوجودیکہ عبدالرزاق کی شیعیت سے بخوبی آگاہ تھے لیکن انھوں نے بہت زیادہ ان کی حدیثوں سے استفادہ کیا۔

احمد بن خیثمہ بیان کرتے تھے کہ ابن معین سے کسی نے کہا کہ امام احمد تو کہتے ہیں کہ عبیداﷲ بن موسی عبدالرزاق کی حدیثوں کو ان کی شیعیت کی وجہ سے مردود سمجھتے تھے تو ابن معین نے کہا ، خدا کی قسم عبدالرزاق ، عبیداﷲ بن موسی سے سور درجہ اونچے ہیں اور میں نے عبیدااﷲ بن موسی کی حدیثوں سے کئی گنا زیادہ حدیثیں عبدالرزاق سے سنی ہیں۔ ( میزان الاعتدال)

ابو صالح محمد بن اسماعیل ضراری کا بیان ہے کہ ہم لوگ شہر صنعا میں عبدالرزاق کے پاس تحصیل علم حدیث میں منہمک تھے ہمیں خبر ملی کہ امام احمد اور ابن معین نے عبدالرزاق کی حدیثوں کو شیعہ ہونے کی وجہ سے متروک قرار دے دیا ہے ہمیں اس خبر سے بڑا صدمہ ہوا کہ ساری محنت اکارت گئی

۱۲۷

 پھر ہم حاجیوں کے ہمراہ مکہ آئے وہاں ابن معین سے ملاقات ہوئی ہم نے ان سے دریافت کیا۔ انھوں نے کہا اگر عبدالرزاق مرتد بھی ہوجائیں تو ( وہ اتنے ثقہ ہیں کہ ) ہم ان کی حدیثوں کو متروک نہیں قرار دے سکتے۔( میزان الاعتدال تذکرہ عبدالرزاق)

ابن عدی ، عبدالرزاق کے متعلق لکھتے ہیں کہ انھوں نے فضائل ( اہلبیت(ع)) میں ایسی حدیثیں بیان کی ہیں جس کی تائید کسی دوسرے(1) نے نہیں کی۔ اور

--------------

1 ـ  ابن عدی کا یہ کہنا سوا ان کے تعصب کے اور کیا سمجھا جائے عبدالرزاق نے فضائل اہلبیت(ع) کی جو حدیثیں روایت کی ہیں انصاف پسند علماء اہل سنت نے اس کی تائید بھی کی ہے اور اسے صحیح حدیثوں میں شمار کیا ہے ۔ ہاں خارجی و ناصبی دشمنان اہلبیت(ع) نے البتہ مخالفت کی ہے ۔ منجملہ ان حدیثوں کے ایک وہ حدہث ہے جو احمد بن ازہر جو باتفاق حجت ہیں نے روایت کی ہے کہ مجھ سے عبدالرزاق نے بیان کیا ان سے معمر نے ان سے زہری نے ان سے عبیداﷲ نے ان سے ابن عباس نے کہ پیغمبر(ص) نے حضرت علی(ع) کی طرف نگاہ اٹھا کر کہا تم دنیا میں بھی سردار ہو اور آخرت میں بھی جس نے تمھیں دوست رکھا اس نے مجھے دوست رکھا اور جس نے تم سے دشمنی کی اس نے مجھ دشمنی کی۔ تمھیں دوست رکھنے والا خدا کو دوست رکھنے والا اور تمھیں دشمن رکھنے والا دشمن  رکھنے والا اور عذاب جہنم ہے تمہارے دشمن کے لیے۔ امام حاکم مستدرک جلد3 صفحہ 128 پر اس کی درج کر کے لکھتے ہیں کہ یہ حدیث بخاری و مسلم کے معیار پر بھی صحیح ہے مگر ان دونوں نے اپنی صحیحین میں درج نہیں کیا دوسری حدیث ہے جو عبدالرزاق نے بسلسلہ اسناد ابن عباس سے روایت کی ہے کہ جناب سیدہ نے رسالت ماب(ص) سے عرض کی بابا جان آپ(ص) نے مجھے غریب و نادار شخص سے بیاہا آںحضرت(ص) نے فرمایا کیا تم اس سے خوش نہیں ہو کہ خداوند کریم نے باشندگان زمین کی طرف نظر کی ان میں سے صرف دو شخصوں  کو منتخب کیا ایک کو تمھارا باپ بنایا دوسرے کو تمھارا شوہر۔ اس حدیث کو امام حاکم نے بسلسلہ اسناد ابوہریرہ سے بھی روایت کیا ہے۔ ( ملاحظہ ہو مستدرک جلد3 صفحہ129۔

۱۲۸

 اہل بیت(ع) کے دشمنوں کے معائب(1) میں منکر حدیثیں بیان کی ہیں۔ لوگوں نے انھیں شیعہ لکھا ہے۔

مختصر یہ کہ باوجود عبدالرزاق کے کھلم کھلا شیعہ ہونے کے علماء اہل سنت نے انتہائی جلیل القدر عالم محدث اور بے حد ثقہ و معتبر سمجھا ہے، امام احمد سے کسی نے پوچھا عبدالرزاق سے بڑھ کر بھی آپ کو بہتر حدیث والا ملا؟ انھوں نے جواب دیا۔ نہیں ان سے بہتر کوئی نہیں۔

علامہ قیسرانی اپنی کتاب جمع بین رجال الصحین میں بسلسلہ حالات عبدالرزاق امام احمد کا قول نقل کرتے ہیں کہ جب لوگ پیغمبر(ص) کی کسی حدیث میں اختلاف کریں تو عبدالرزاق جو کہیں وہ صحیح ہے۔ ان کی جلالت قدر کا اسی سے اندازہ ہوسکتا ہے کہ علامہ ابن خلسکان عبدالرزاق کے پاس ( ملاحظہ ہو وفیات الاعیان ) ان سے اپنے زمانہ کے ائمہ اسلام نے حدیثیں روایت کیں جیسے سفیان بن عینیہ ، احمد بن حنبل، یحی بن معین وغیرہ ان کی حدیثیں جملہ صحاح ستہ میں موجود ہیں سنہ126ے میں پیدا ہوئے اور سنہ211ھ میں انتقال کیا۔ امام جعفر صادق(ع) سے امام محمد تقی (ع) تک کا زمانہ پایا۔

--------------

1 ـ دشمناں اہل بیت(ع) کے متعلق عبدالرزاق کی بیاں کردہ حدیثیں معاویہ اور ان کے پیروؤں ہی نزدیک منکر ہوسکتی ہیں مثلا یہ حدیث جو عبدالرزاق نے بسلسلہ اسناد مرفوعا روایت کی کہ“اذا رائيتم معاويه علی منبری فاقتلوه” جب معاویہ کو میرے منبر پر دیکھنا قتل کردینا۔

۱۲۹

عبدالملک بن اعین

یہ زرارہ ، جمران و بکیر و عبدالرحمن و غیرہ کے بھائی ہیں۔ یہ سب کے سب بزرگان شیعہ سے ہیں اور انھوں نے خدمت شریعت کر کے بڑے درجے حاصل کیے۔ ان بھائیوں نے اولاد بھی بڑی  صالح و مبارک پائی۔ باپ کی طرح بیٹوں نے بھی مذہب حقہ کی ترویج و اشاعت میں بڑا حصہ لیا عبدالملک کے متعلق علامہ ذہبی میزان الاعتدال میں لکھتے ہیں۔ ابو وائل وغیرہ کا بیان ہے کہ ابو حاتم نے انھیں صالح الحدیث کہا ہے دوسروں نے صدوق او رافضی کہا۔

ابن قیسرانی، کتاب جمع بین الرجال الصحیحین میں ان کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ عبدالملک بن اعین حمران کوفی کے بھائی ہیں اور شیعہ تھے۔

بخاری و مسلم میں ان کی حدیثیں موجود ہیں۔

عصر امام جعفر صادق(ع) میں انتقال کیا۔ امام نے ان  کے لیے دعا کی اور یہ بھی روایت میں ملتا ہے کہ امام نے اپنے اصحاب کے ساتھ ان کی قبر کی زیارت کی۔

عبداﷲ بن عیسی کوفی

امام بخاری کے شیوخ میں سے ہیں۔ ابن قتیبہ نے اپنی کتاب معارف صفحہ177 میں اصحاب حدیث میں ان کا ذکر اور ان کی شیعیت کی تصریح کی ہے پھر مشاہیر شیعہ کے ضمن میں بھی ان کا ذکر کیا ہے۔ ( ملاحظہ ہو معارف صفحہ279)

علامہ ابن سعد نے طبقات جلد6 صفحہ139 پر ان کے حالات لکھے ہیں

۱۳۰

 اور ان کے شیعہ ہونے کی صراحت کی ہے۔ ابن اثیر نے تاریخ کامل میں بسلسلہ واقعات سنہ213ھ ان کی وفات کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ عبیداﷲ بن موسی عبسی فقیہ۔ یہ شیعہ تھے اور امام بخاری کے شیخ ہیں۔ ان کی صحیح میں علامہ ذہبی نے میزان الاعتدال میں ان کے متعلق لکھا ہے۔ عبیداﷲ بن موسی بخاری کے شیخ ہیں اور فی نفسہ ثقہ ہیں لیکن یہ شیعہ اور مذہب اہلسنت سے منحرف تھے۔ ابوحاتم و ابن معین نے انھیں ثقہ قرار دیا ہے۔ احمد بن عبداﷲ عجلی ان کے متعلق کہتے ہیں کہ عبیداﷲ بن موسی بڑے عالم قرآن و صاحب معرفت تھے میں نے انھیں کبھی سر بلند کیے ہوئے یا ہنستے ہوئے نہیں دیکھا۔

انھیں علامہ ذہبی نے مطر بن میمون کے حالات کے ضمن میں بھی عبیداﷲ کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ یہ ثقہ اور شیعہ تھے۔ ابن معین عبیداﷲ بن موسی اور عبدالرزاق سے حدیث کا استفادہ کرتے، یہ جانتے ہوئے کہ یہ دونوں شیعہ مسلک کے ہیں ان کی حدیثیں بخاری و مسلم اور سبھی صحاح میں موجود ہیں۔

ابوالیقطان عثمان بن عمیر ثقفی کوفی بجلی

سنن ابی داؤد اور جامع ترمذی میں ان کی حدیثیں موجود ہیں۔

عدی بن ثابت کوفی

ابن معین نے انھیں غالی شیعہ لکھا ہے۔ دار قطنی ان کے متعلق لکھتے ہیں کہ غالی رافضی ہیں اور ثقہ ہیں۔

علامہ ذہبی ان کے حالات میں لکھتے ہیں کہ یہ شیعوں کے عالم صادق ان کے قاضی اور ان کی مسجد کے امام ہیں۔ اگر انھیں جیسے دوسرے شیعہ بھی ہوا کریں

۱۳۱

 تو شیعوں کی برائیاں بہت کم ہوجائیں۔ دار قطنی، احمد بن حنبل ، احمد عجلی ، احمد نسائی، سبھی انھیں ثقہ جانتے تھے۔ ان کی حمد حدیثیں صحیح مسلم و بخاری میں موجود ہیں۔

عطیہ بن سعد بن جنادہ عوفی

بڑی مشہور شخصیت کے بزرگ ہیں۔ علامہ ذہبی سالم مرادی سے نقل کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ عطیہ شیعہ تھے۔

ابن قتیبہ نےعطیہ سعد کے پوتے حسین بن حسن ابن عطیہ کے حالات کے ضمن میں لکھا ہے کہ یہ عطیہ حجاج کے زمانہ میں فقیہ  تھے اور شیعہ تھے۔ پھر بسلسلہ تذکرہ مشاہیر شیعہ بھی ان کا تذکرہ کیا ہے۔

علامہ ابن سعد نے ان کے جو حالات لکھے ہیں اسی سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ شیعیت میں کتنے راسخ و ثابت قدم بزرگ تھے۔ ان کے باپ سعد بن جنادہ امیرالمومنین (ع) کے اصحاب میں سے تھے۔ امیرالمومنین(ع) کوفہ میں تھے۔ سعد حضرت کی خدمت میں آئے۔ عرض کیا : امیرالمومنین(ع) ! میرے یہاں فرزند پیدا ہوا ہے اس کا نام رکھ دیجیے۔

آپ نے فرمایا: یہ عطیہ خداوندی ہے۔ چنانچہ عطیہ نام رکھ دیا گیا۔ ابن سعد یہ بھی لکھتے ہیں کہ :

             “ عطیہ نے ابن اشعث کی ہمراہی میں حجاج پر خروج کیا جب ابن اشعث کو شکست ہوئی تو عطیہ فارس بھاگ گئے۔ حجاج نے فارس کے حاکم محمد بن قاسم ثقفی کو لکھا کہ عطیہ کو بلا کر کہو کہ علی(ع) پر تبرا کریں ورنہ تم انھیں چار سو کوڑے مارو۔ سر اور ڈاڑھی مونڈ ڈالو۔ محمد بن قاسم نے بلاکر حجاج کا یہ خط سنایا

۱۳۲

انھوں  نے انکار کیا تو اس نے انھیں چار سو کوڑے مارے اور سر اور ڈاڑھی مونڈ ڈالی۔ جب قتیبہ والی خراسان ہوا تو عطیہ اس کے پاس پہنچے اور برابر خراسان ہی میں رہے۔ پھر جب عمر بن ہیبرہ عراق کا گورنر ہوا تو انھوں نے عمر کو خط لکھا اور عراق آنے کی اجازت مانگی۔ اس کی اجازت پر یہ کوفہ آئے اور برابر کوفہ میں رہے۔ یہاں تک کہ سنہ111ھ میں وہیں انتقال کیا۔ یہ بڑے ثقہ بزرگ ہیں اور ان کی حدیثیں بڑی پاکیزہ ہیں۔ ( طبقات ابن سعد جلد 6 صفحہ212 )”

عطیہ نے بڑی پاکیزہ نسل پائی۔ ان کی اولاد سب کے سب شیعہ تھے اور بڑے عالم و فاضل صاحب عزو شرف اور ممتاز شخصیتوں کے مالک جیسے حسین بن حسن بن عطیہ و محمد بن سعد بن محمد بن حسن بن عطیہ وغیرہ۔ عطیہ کی حدیثیں سنن ابی داؤد و ترمذی میں موجود ہیں۔

علاء بن صالح تیمی کوفی

میزان الاعتدال میں بسلسلہ حالات علماء ابو حاتم کو یہ قول مذکور ہے کہ یہ خالص شیعوں میں سے تھے۔ امام ابوداؤد و ترمذی نے ان کی حدیثوں سے اپنے مسلک پر استدالال کیا ہے۔ ابن معین نے ثقہ کہا ہے ابو حاتم و ابو زرعہ نے ان میں کوئی خرابی نہیں سمجھی۔

ان کی حدیثیں سنن ابی دادؤد و جامع ترمذی میں موجود ہیں۔ یہ شاعر بھی تھے۔ امیرالمومنین(ع) کی مدح میں بڑے معرکہ کے قصیدے اور حضرت سید الشہداء کے مرثیے لکھے ہیں۔

۱۳۳

علقمہ بن قیس بن عبداﷲ نخعی

یہ مخصوص محبان اہل بیت(ع) سے تھے۔ علامہ شہرستانی نے ملل و نحل میں انھیں مشاہیر شیعہ کے زمرہ میں لکھا ہے۔ یہ علقمہ کبار محدثین میں سے تھے۔ یہ اور ان کے بھائی ابی امیرالمومنین(ع) کے صحابی ہیں۔ جنگ صفین میں حضرت کے ہمرکاب تھے۔ ابی جنھیں کثرت عبادت کی وجہ سے “ ابی الصلاة” نماز والے ابی کہا جاتا تھا۔ جنگ صفین میں شہید ہوئے۔  علمقمہ نے بھی بڑے کار ہائے نمایاں انجام دیے۔ دشمنوں کو خوب تہ تیغ کیا۔ ان کی ٹانگ زخمی ہوگئی۔ یہ مدت العمر معاویہ کے سرگرم مخالف رہے۔

علقمہ کی عدالت و جلالت قدر حضرات اہل سنت کے نزدیک باوجود ان کی شیعیت کے مسلم الثبوت حیثیت رکھتی ہے۔ ارباب صحاح ستہ نے ان کی حدیثوں سے احتجاج کیا ہے۔ صحیح بخاری جو صحیح مسلم میں ان کی حدیثیں موجود ہیں۔ سنہ62ھ میں کوفہ میں انتقال کیا۔

علی بن بدیمہ

علامہ ذہبی میزان الاعتدال میں ان کے متعلق لکھا ہے۔ احمد بن حنبل انھیں صالح الحدیث اور جلیل القدر شیعہ بیان کرتے تھے۔ ابنِ معین نے انھیں ثقہ قرار دیا ہے۔ اصحاب سنن نے ان سے روایت کی ہے۔

ابو الحسن علی بن جوہری بغدادی

امام بخاری کے شیوخ میں سے ہیں۔ ابی قتیبہ نےمعارف میں انھیں

۱۳۴

مشاہیر شیعہ میں لکھا ہے۔ میزان الاعتدال میں ان کے حالات میں ہے کہ ساٹھ برس تک ان کا وطیرہ یہ رہا ہے کہ ایک دن روزہ سے رہتے دوسرے دن بحالتِ افطار۔ قیسرانی نے کتاب جمع بین رجال الصحیحین میں ان کا ذکر کیا ہے بخاری نے اپنی صحیح میں ان سے بارہ حدیثیں روایت کی ہیں۔ 96 برس کی عمر میں سنہ230ھ میں انتقال کیا۔

علی بن زید بن عبداﷲ تیمی بصری

احمد عجلی نے انھیں شیعہ اور رافضی لکھا ہے مگر باوجود ان کے شیعہ رافضی ہونے کے علماء تابعین نے ان سے استفادہ کیا۔ یہ بصرہ کے فقہا میں سے تھے اور ایسے جلیل القدر و علم و فضل میں ممتاز کہ جب حسن بصری کا انتقال ہوا تو بصرہ والوں نے ان سے کہا کہ آپ حسن بصری کی جگہ پر تشریف فرما ہوں۔ اس زمانہ میں بصرہ کے اندر کوئی کوئی شیعہ ہوا کرتا۔

قیسرانی نے اپنی کتاب جمع بین رجال الصحیحین میں ان کا ذکر کیا ہے۔ سنہ 131ھ میں انتقال کیا۔

علی بن صالح

حسن بن صالح  کے بھائی ہیں۔ حسن کے حالات میں ہم قدرے ان کا ذکر کر چکے ہیں۔ صحیح مسلم میں ان کی حدیثیں موجود ہیں۔ سنہ51ھ میں انتقال کیا۔

ابویحیٰ علی بن غراب فزاری کوفی

ابن حبان نے انھیں شیعہ لکھا ہے۔ ابن معین و دار قطنی نے انھیں ثقہ

۱۳۵

 قرار دیا ہے ۔ ابوحاتم نے ان کی حدیثوں میں کوئی مضائقہ نہٰیں سمجھا ۔ ابو زرعہ نے کہا ہے کہ میرے نزدیک صدوق ہیں۔

امام احمد کا ارشاد ہے کہ میں تو انھیں صدیق ہی سمجھتا ہوں۔ اصحاب سنن نے ان کی حدیثیں درج کی ہیں۔ ہارون رشید کے زمانہ میں سنہ184ھ میں انتقال کیا۔

ابوالحسن علی بن قادم خزاعی کوفی

یہ بہت سے محدثین کے شیخ ہیں۔ ابن سعد نے طبقات جلد6 صفحہ273 پر ان کا تذکرہ کیا اور لکھا ہے کہ بڑے شیعہ تھے۔ سنن ابی داؤد و جامع ترمذی میں ان کی حدیثیں موجود ہیں۔

علی بن منذر طرائفی   

ترمذی و نسائی اور دیگر محدثین کے شیخ ہیں۔ علامہ ذہبی نے عالم نسائی کا قول نقل کیا ہے کہ علی ابن منذر خالص شیعہ اور ثقہ ہیں۔ ابن حاتم نے انھیں صدوق و ثقہ لکھا ہے۔ امام نسائی گواہی دیتے ہیں کہ علی بن منذر خالص شیعہ تھے۔ پھر ان کی حدیثوں کی روایت قابل اعتنا نہیں اور شیعہ راویوں سے محدثین اہل سنت نے روایت لی ہے کس حد تک لائق ماتم ذہنیت ہے۔ سنہ 256ھ میں انتقال کیا۔

ابوالحسن علی بن ہاشم بن برید کوفی

امام احمد کے اساتذہ میں ہے ہیں۔ امام ابوداؤد نے انھیں ٹھوس

۱۳۶

 شیعہ لکھا ہے۔ ابن حبان کا قول ہے کہ علی بن ہاشم غالی شیعہ تھے ۔ جعفر ابن ابان کہتے ہیں کہ میں نے ابن نمیر کو کہتے سنا۔ علی بن ہاشم شیعیت میں حد سے بڑھے ہوئے تھے۔

بخاری فرماتے ہیں کہ علی بن ہاشم اور ان کے باپ دونوں اپنے مذہب میں بڑے غالی تھے۔ اسی وجہ سے بخاری نے ان کی حدیثیں صحیح میں درج نہیں کیں لیکن باقی پانچ ارباب صحاح نے ان کی حدیثیں اپنی صحاح میں درج کی ہیں اور ان کی حدیثوں سے اپنے مسلک پر احتجاج کیا ہے۔

ابن معین وغیرہ نے انھیں ثقہ قرار دیا ہے۔ ابو داؤد نے اثبات میں شمار کیا۔ ابورزعہ نے صدوق کہا۔ امام نسائی نے ان میں کوئی مضائقہ نہیں سمجھا۔ سنہ181ھ میں انتقال کیا۔

عمار بن زریق کوفی

سلیمان نے انھیں رافضی شمار کیا ہے اور باوجود ان کے رافضی ہونے کے صحٰیح مسلم و سنن ابی داؤد  وسنن نسائی میں ان کی حدیثیں موجود ہیں۔

عمار بن معاویہ

ان کی کنیت ابو معاویہ تھی۔ یہ جلیل القدر شیعہ تھے۔ محبت اہلبیت(ع) کے جرم میں انھیں بڑی اذیتیں دی گئیں۔ بشیر بن مروان نے شیعیت کے جرم میں ان کے دونوں پیر کاٹ ڈالے۔ بہت سے محدثین کے استاد ہیں جنھوں نے ان سے حدیث کا استفادہ کیا اور ان کی حدیثوں سے اپنے مسلک پر استدلال کیا۔ امام احمد ، ابن معین، ابو حاتم، اور بہت سے لوگوں نے انھیں ثقہ قرار دیا ہے

۱۳۷

 بخاری کو چھوڑ کر باقی سبھی ارباب صحاح نے ان کی حدیثیں اپنے صحاح میں درج کی ہیں۔ علامہ ذہبی نے میزان الاعتدال میں ان کے متعلق تمام مذکورہ باتیں نقل کی ہیں اور ان کے شیعہ اور ثقہ ہونے کی صراحت کی ہے نیز یہ کہ ان کے متعلق کسی نے بھی لب کشائی نہیں کی اور نہ ان کے ثقہ ہونے میں کلام کیا سوا عقیلی کے۔ سنہ133ھ میں انتقال کیا۔

ابواسحٰق عمرو بن عبداﷲ ہمدانی کوفی

ابن قتیبہ نے معارف میں، علامہ شہرستانی نے ملل و نحل میں، ان کی شخصیت کے تصریح کی ہے۔ یہ بزرگ کوفہ کے انھیں جلیل القدر محدثین مین سے ہیں جن کے مسلک کو دشمنان اہل بیت نا پسندیدگی کی نگاہ سے دیکھتے ہیں کیونکہ انھوں نے جمہور کی روش کو چھوڑ کر اہل بیت(ع) کی اتباع و پیروی کو بہتر سمجھا اور ہر دینی مسئلہ میں۔ اہل بیت(ع) کی طرف رجوع کرنے میں انھوں نے نجات سمجھی۔ اسی وجہ سے تو جوزجانی کا یہ فقرہ ہے:

“ کوفہ کے کچھ ایسے افراد تھے کہ باوجودیکہ لوگ ان کے عقائد و خیالات کو پسند نہیں کرتے تھے مگر فن حدیث میں  وہ مرجع انام اور محدثین کوفہ کے راس و رئیس تھے۔ جیسے ابواسحٰق ، منصور، زبید یامی، اعمش وغیرہ لوگوں نے ان افراد کی سچائی و دیانتداری کی وجہ سے ان کی بیان کردہ حدیثوں کو سر آنکھوں پر رکھا اور جو حدیثیں ان لوگوں نے مرسلا بیان کیں ان میں توقف کیا۔”

ابو اسحٰق کی مرسلا بیان کی ہوئی حدیثوں میں ناصبی ذہنیت والوں نے

۱۳۸

توقف جو کیا انھیں میں سے ایک حدیث یہ ہے:

 “  قال رسول اللّه صلّى اللّه عليه و آله:  مثل عليّ‏ كشجرة أنا أصلها، و عليّ فرعها، و الحسن و الحسين ثمرها، و الشيعة ورقها”

 “ علی(ع) کی مثال درخت جیسی ہے۔ میں اس درخت کی جڑ ہوں ، علی (ع) اس کی شاخ ہیں حسن(ع) و حسین(ع) اس کے پھل ہیں اور شیعہ اس درخت کے پتے ہیں۔”

 ان کی حدیثوں سے جملہ ارباب صحاح نے احتجاج کیا ہے۔ بخاری و مسلم اور دیگر کتب صحاح سبھی میں ان کی حدیثیں موجود ہیں۔

ابو سہل عوف ابن ابی جمیلہ البصری

ابن قتیبہ نے معارف میں انھیں مشاہیر شیعہ میں شمار کیا ہے۔ علامہ ذہبی میزان الاعتدال میں ان کے متعلق لکھتے ہیں کہ :کان يقال ل ه عوف الصدق ” انہیں لوگ سچائی والے عوف کہتے ہیں۔ جعفر بن سلیمان انھیں شیعہ اور بندار انھیں رافضی بیان کرتے ہیں۔ ان کی حدیثیں صحیح بخاری و صحیح مسلم میں بھی ہیں اور دیگر کتب صحاح میں بھی۔

ف :

 فضل بن دکین

کنیت آپ کی ابونعیم تھی یہ بخاری  کے شیوخ میں سے ہیں۔ محققین

۱۳۹

 اہلسنت مثلا ابن قتیبہ وغیرہ نے انھیں شیعہ لکھا ہے۔ علامہ ذہبی میزان الاعتدال میں لکھتے ہیں :

“الفضل بن دکين ابونعيم حافظ حجة الا انه يتشيع”

     “ فضل بن دکین جن کی کنیت ابونعیم تھی یہ حدیث کے حافظ اور حجت ہیں، مگر یہ کہ شیعہ تھے۔”

ان کی شیعیت میں کسی کو تامل کی گنجائش نہیں۔ ان سے جملہ ارباب صحاح احتجاج کرتے ہیں۔ ان کی حدیثیں صحیح بخاری ، صحیح مسلم اور دیگر صحاح سبھی میں موجود ہیں۔ سنہ210ھ زمانہ حکومتِ معتصم میں انتقال کیا۔

علامہ ابن سعد طبقات جلد6 صفحہ 279 پر ان کے متعلق لکھتے ہیں:

             “و کان ثق ه مامونا کثيرالحديث ، حجة

             “ یہ بھروسہ کے لائق ہر طرح قابل اطمینان ، بہت زیادہ حدیثوں کے راوی اور حجت ہیں۔”

ابو عبدالرحمن فضیل بن مرزوق

علامہ ذہبی ان کے متعلق میزان الاعتدال میں لکھتے ہیں کہ یہ مشہور و معروف شیعہ ہیں۔

سفیان بن عینیہ ، ابن معین، ابن عدی وغیرہ جملہ ائمہ حدیث نے انھیں ثقہ قرار دیا ہے۔ ہیثم بن جمیل نے ان کے متعلق کہا ہے کہ فضیل بن مرزوق ، بلحاظ زہد و فضل یکے از ائمہ ہدایت تھے۔ صحیح مسلم میں ان کی حدیثیں موجود ہیں۔

۱۴۰

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161