عصرِ غَیبتِ امامؑ میں ہماری ذمہ داریاں

عصرِ  غَیبتِ امامؑ میں  ہماری    ذمہ  داریاں33%

عصرِ  غَیبتِ امامؑ میں  ہماری    ذمہ  داریاں مؤلف:
: عامرحسین شہانی
زمرہ جات: امام مہدی(عجّل اللّہ فرجہ الشریف)
صفحے: 161

عصرِ غَیبتِ امامؑ میں ہماری ذمہ داریاں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 161 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 51936 / ڈاؤنلوڈ: 2747
سائز سائز سائز
عصرِ  غَیبتِ امامؑ میں  ہماری    ذمہ  داریاں

عصرِ غَیبتِ امامؑ میں ہماری ذمہ داریاں

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

یہی وہ رجال تسبیح ہیں جن کے بارے مین خداوند عالم نے ارشاد فرمایا :

 “يُسَبِّحُ لَهُ فيها بِالْغُدُوِّ (1) وَ الْآصالِ رِجالٌ لا تُلْهيهِمْ تِجارَةٌ وَ لا بَيْعٌ عَنْ ذِكْرِ اللَّهِ وَ إِقامِ الصَّلاةِ وَ إيتاءِ الزَّكاةِ يَخافُونَ يَوْماً تَتَقَلَّبُ فيهِ الْقُلُوبُ وَ الْأَبْصارُ ” ( نور، 36 ۔37)

“ ان گھروں میں خداوند عالم کی تسبیح کیا کرتے ہیں صبح و شام ایسے مرد جنھیں خرید و فروخت خدا کے ذکر اور نماز قائم کرنے ، زکوة ادا

--------------

1 ـ مجاہد و یعقوب بن سفیان نے ابن عباس سے آیت “وَ إِذا رَأَوْا تِجارَةً أَوْ لَهْواً انْفَضُّوا إِلَيْها وَ تَرَكُوكَ قائِماً (جمعہ،11) “ اور جب وہ کسی تجارت یا کھیل تماشے کو دیکھ پاتے ہیں تو اس طرف دوڑ پڑتے ہیں اور تمہیں کھڑا چھوڑ جاتے ہیں” کی تفسیر میں روایت کی ہے کہ وحیہ کلثوم سامان تجارت لے کر جمعہ کے دن پلٹے اور مدینہ سے باہر آکر ٹکے اور طبل بچایا تاکہ لوگوں کو ان کی آمد کی اطلاع ہوجائے طبل کی آواز سن کر سب کے سب دوڑ پڑے اور رسول اﷲ(ص) کو منبر پر خطبہ پڑھتے چھوڑ دیا” صرف حضرت علی(ع) حسن(ع) و حسین(ع) ابوذر و مقداد رہ گئے۔ پیغمبر(ص) نے ارشاد فرمایا خداوند عالم نے  آج کے دن میری اس مسجد کی طرف نگاہ کی اگر یہ چند نفر نہ ہوتے تو پورا مدینہ آگ سے پھونک دیا جاتا اور ان لوگوں پر اسی طرح پتھر برسائے جاتے جیسا کہ قوم لوط پر برسائے گئے اور  جو لوگ پیغمبر(ص) کے پاس مسجد میں باقی رہ گئے ان کے بارے میں خداوند عالم نے یہ آیت نازل فرمائی“يُسَبِّحُ لَهُ فيها بِالْغُدُوِّ وَ الْآصالِ ۔۔الخ”

۸۱

کرنے سے غافل نہیں کرتی وہ لوگ اس دن سے ڈرتے ہیں جس دن میں دل اور آنکھیں الٹ پلٹ ہوجائیں گی۔”

انھیں کا گھر وہ گھر تھا جس کا ذکر خداوند عالم نے ان شاندار الفاظ میں فرمایا :

 “ في‏ بُيُوتٍ أَذِنَ اللَّهُ أَنْ تُرْفَعَ وَ يُذْكَرَ فيهَا اسْمُهُ ”( نور، 36)

“ وہ قندیل ایسے گھروں میں روشن ہے جس کی نسبت خدا نے حکم دیا ہے کہ ان کی تعظیم کی جائے اور ان میں اس کا نام لیا جائے جن میں صبح و شام وہ لوگ اس کی تسبیح کیا کرتے ہیں(1) ۔”

خداوند عالم نے آیتِ نور میں انھیں کے مشکوة(2) کو اپنے نور کی مثال قرار دیا ہے اور اس کے تو زمین و آسمان میں بلند تر نمونے ہیں۔ وہ بڑی قوت و حکمت والا ہے یہی سبقت کرنے والے یہی مقربان بارگاہ(3) یہی صدیقین(4) یہ شہداء و صالحین ہیں۔

--------------

1 ـ ثعلبی نے اس آیت کی تفسیر میں انس بن مالک و بریدہ سے روایت کی ہے کہ پیغمبر(ص) نے آیت فی بیوت الخ کی تلاوت فرمائی تو حضرت ابوبکر نے کھڑے ہو کر علی(ع) و فاطمہ(س) کے گھر کی طرف اشارہ کر کے پوچھا یا رسول اﷲ(ص) یہ گھر بھی ان گھروں میں سے ہے ؟ پیغمبر(ص) نے فرمایا ہاں بلکہ ان سے بہتر گھروں میں ہے۔

2 ـ اشارہ ہے آیت مثل نورہ کمشکوة ۔۔۔۔الخ کی طرف جس کے متعلق حسن بصری اور ابو الحسن مغازلی شافعی سے روایت ہے کہ مشکوة سے مراد حضرت فاطمہ(س) مصباح سے حسنین(ع) اور شجرہ مبارکہ سے حضرت ابراہیم(ع) شرقی و غربی نہ ہونے سے حضرت فاطمہ(س) کا یہودی و نصرانی نہ ہونا یکاد زیتہا سے ان کی کثرت علم اور نور علی(ع) نور سے ایک امام کے بعد دوسرا امام یھدی اﷲ نورہ سے ان کی اولاد کی محبت مراد ہے۔

3 ـ دیلمی نے جناب عائشہ اور طبرانی ابن مردویہ ن جناب ابن عباس سے روایت کی ہے کہ پیغمبر(ص) نے فرمایا سبقت کرنے والے تین ہوئے موسی کی طرف سبقت کرنے والے ۔ یوشع بن نون۔ عیسی کی طرف یاسین اور میری طرف علی بن ابی طالب(ع) ۔ صواعق محرقہ باب9 فصل 2۔

4 ـ ابن نجار نے جناب ابن عباس سے روایت کی ہےکہ پیغمبر(ص) نے ارشاد فرمایا صدیقین تین ہیں۔ حبیب نجار مومن آل یاسین۔دوسرے حزقیل مومن آل فرعون، تیسرے علی بن ابی طالب(ع) اور یہ علی سب سے افضل ہیں۔

۸۲

انھیں کے متعلق اور انھیں کے دوستوں کے بارے میں خداوند عالم نے ارشاد فرمایا:

 “وَ مِمَّنْ خَلَقْنا أُمَّةٌ يَهْدُونَ بِالْحَقِّ وَ بِهِ يَعْدِلُونَ ”( اعراف، 181)

“ اور ہماری مخلوقات میں سے کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو دین حق کی ہدیت کرتے ہیں اور حق ہی حق اںصاف بھی کرتے ہیں(1) ۔”

انھیں کی جماعت اور دشمنوں کی جماعت کے متعلق ارشاد ہوا:

 “لا يَسْتَوي أَصْحابُ النَّارِ وَ أَصْحابُ الْجَنَّةِ أَصْحابُ الْجَنَّةِ هُمُ الْفائِزُونَ ” ( حشر، 20)

“ جہنم والے اور جنت والے دونوں برابر نہیں ہوسکتے۔ جنت والے ہی تو کامیاب ورستگار ہیں(2) ۔”

نیز انھیں حضرات کے دوستوں اور دشمنوں کے متعلق یہ بھی ارشاد ہوا:

--------------

1 ـ زاذان نے حضرت علی(ع) سے روایت کی ہے کہ عنقریب اس امت کے تہتر (73) فرقے ہوں گے ان میں سے بہتر(72) جہنمی اور ایک جنتی۔ یہ وہی لوگ ہیں جن کے بارے میں خداوند عالم نے فرمایا و ممن خلقنا ۔۔ ۔ الخ اور یہ لوگ ہم ہیں اور ہمارے شیعہ ہیں ۔کتاب علامہ ابن مردویہ صفحہ276۔

2 ـ شیخ طوسی نے اپنی آمالی میں نہ اسناد صحیح امیرالمومنین(ع) سے روایت کی ہے کہ پیغمبر(ص) نے اس آیت کی تلاوت فرماکر کہا اصحاب نار وہ ہیں جو علی(ع) کی ولایت کو ناپسند کریں اور عہد توڑیں اور میرے بعد ان سے جنگ  کریں جناب صدوق نے بھی حضرت علی(ع) سے اسی مضمون کی روایت کی ہے او علامہ اہلسنت وموفق بن احمد نے جناب جابر سے روایت کی ہے  کہ پیغمبر(ص) نے ارشاد فرمایا قسم بخدا یہ(علی(ع)) اور ان کے شیعہ ہی قیامت کے دن رستگار ہیں۔

۸۳

 “أَمْ نَجْعَلُ الَّذينَ آمَنُوا وَ عَمِلُوا الصَّالِحاتِ كَالْمُفْسِدينَ فِي الْأَرْضِ أَمْ نَجْعَلُ الْمُتَّقينَ كَالْفُجَّارِ ”( ص، 28)

“ کیا ہم ان لوگوں کو جو ایمان لائے اور عمل صالح کیا ان لوگوں جیسا قرار دین گے جو زمین میں فساد پھیلانے والے ہیں یا ہم نیکوکار و پرہیز گار بندوں کو بدکاروں جیسا قرار دیں گے(1) ۔”

انھیں دونوں جماعتوں کے متعلق ارشاد خداوندِ عالم ہوا :

 “أَمْ حَسِبَ الَّذينَ اجْتَرَحُوا السَّيِّئاتِ أَنْ نَجْعَلَهُمْ كَالَّذينَ آمَنُوا وَ عَمِلُوا الصَّالِحاتِ سَواءً مَحْياهُمْ وَ مَماتُهُمْ ساءَ ما يَحْكُمُونَ ” (جاثیه، 21)

“ جو لوگ برے کام کیا کرتے ہیں کیا وہ سمجھتے ہیں کہ ہم ان کو ان لوگوں کے برابر کردیں گے جو ایمان لائے اور اچھے کام بھی کرتے رہے  اور ان سب کا جینا مرنا ایک سا ہوگا۔ یہ لوگ کیا برے حکم لگاتے ہیں(2) ۔”

انھیں کے  متعلق اور ان کے شیعوں کے متعلق خداوند عالم کا ارشاد ہے:

 “  إِنَّ الَّذينَ آمَنُوا وَ عَمِلُوا الصَّالِحاتِ أُولئِكَ هُمْ

--------------

1 ـ ابن عباس سے روایت ہے کہ یہ آیت جناب علی(ع) اور حمزہ اور عبیدہ بن الحارث کے حق میں نازل ہوئی ہے، پس اس آیت میں وہ لوگ کہ کرتے ہیں برائیاں عتبہ اور شیبہ اور ولید ہیں اور وہ لوگ کہ ایمان لائے ہیں اور اچھے کام کرتے ہیں وہ جناب علی(ع) اور حمزہ اور عبیدہ ہیں۔

2 ـ صواعق محرقہ، باب 9، فصل اول۔

۸۴

خَيْرُ الْبَرِيَّةِ ” (البینہ، 7)

“ بہ تحقیق وہ لوگ جو ایمان لائے اور عمل صالح کیا وہی بہترین خلائق ہیں(1) ۔”

انھیں کے متعلق اور انھیں کے دشمنوں کے متعلق خداوند عالم نے ارشاد فرمایا:

 “هذانِ خَصْمانِ اخْتَصَمُوا في‏ رَبِّهِمْ فَالَّذينَ كَفَرُوا قُطِّعَتْ لَهُمْ ثِيابٌ مِنْ نارٍ يُصَبُّ مِنْ فَوْقِ رُؤُسِهِمُ الْحَميمُ ” ( حج، 19)

“ یہ دونوں مومن وکافر دو فریق ہیں جو آپس میں اپنے پرورگار کے بارے میں لڑتے ہیں پس جو لوگ کہ کافر ہیں ان کے لیے یہ آتشین لباس قطع کیا جائے گا اور ان کے سروں پہ کھولتا ہوا پانی انڈیلا جائے گا۔”

انھیں کے بارے میں اور انھیں کے دشمنوں کے متعلق یہ آیت نازل ہوئی :

 “  أَ فَمَنْ كانَ مُؤْمِناً كَمَنْ كانَ فاسِقاً لا يَسْتَوُونَ

--------------

1 ـ امام بخاری نے اپنی صحیح بخاری پارہ 3 صفحہ16 میں بسلسلہ تفسیر سورہ حج باسناد صحیحہ حضرت علی(ع) سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا میں سب سے پہلے خداوند عالم کے حضور بروز قیامت اپنا جھگڑا پیش کروں گا۔ امام بخاری کہتے ہیں کہ قیس نے کہا یہ آیت ان لوگوں کے حق میں نازل ہوئی جنھیں نے بدر کے روز جنگ کی وہ جناب حمزہ، اور علی(ع) اور عبیدہ بن الحارث اور عتبہ ، شیبہ اور ولید ہیں امام بخاری نے اس پرجناب ابوذر سے روایت کی ہے جناب ابوذر قسم کھا کر کہتے ہیں کہ یہ آیت جناب حمزہ اور علی(ع) اور عبیدہ بن الحارث اور عتبہ و شیبہ اور ولید کے حق نازل ہوئی۔

۸۵

 أَمَّا الَّذينَ آمَنُوا وَ عَمِلُوا الصَّالِحاتِ فَلَهُمْ جَنَّاتُ الْمَأْوى‏ نُزُلاً بِما كانُوا يَعْمَلُونَ وَ أَمَّا الَّذينَ فَسَقُوا فَمَأْواهُمُ النَّارُ كُلَّما أَرادُوا أَنْ يَخْرُجُوا مِنْها أُعيدُوا فيها وَ قيلَ لَهُمْ ذُوقُوا عَذابَ النَّارِ الَّذي كُنْتُمْ بِهِ تُكَذِّبُونَ (1) ” ( سجدہ، 18،19،20)

“ بھلا وہ شخص جو ایمان والا ہو فاسق جیسا ہوسکتا ہے ؟ ( ہرگز نہیں) دونوں برابر نہیں ہوسکتے پس وہ لوگ جوکہ ایمان لائے اور عمل صالح کیا ان کے لیے جنات ماوی ہیں وہاں وہ فروکش ہوں گے یہ صلہ ہے ان کے اعمال خیر کا اور جولوگ  فاسق ہیں ان کا ٹھکانا جہنم ہے جب وہ اس میں سے نکلنا چاہیں گے دوبارہ اسی جہنم میں پلٹا دیے جائیں گے اور ان سے کہا جائے گا کہ اس آتش جہنم کا مزہ چکھو جس کو تم جھٹلایا کرتے تھے۔”

انھیں حضرات کے متعلق اور ان لوگوں کے بارے میں جنھوں نے ان سے حاجیوں

--------------

1 ـ یہ آیت بہ اتفاق مفسرین و محدثین حضرت امیرالمومنین(ع) اور ولید عتبہ بن ابی معیط کے متعلق نازل ہوئی۔ امام واحدی نے کتاب اسباب النزول میں سعید بن جبیر سے انھوں نے جناب ابن عباس سے روایت کی ہے کہ ولید بن عتبہ بن ابی معیط نے حضرت امیرالمومنین(ع) سے کہا میرا نیزہ تمھارے نیزے سے کہیں زیادہ تیز اور میری زبان تمھاری زبان سے کہیں زیادہ چلتی ہوئی اور لشکر میری وجہ سے کہیں زیادہ بھرا معلوم ہوتا ہے بہ نسبت تمھارے۔ اس پر حضرت علی(ع) نے فرمایا خاموش بھی رہ کر تو فاسق کے سوا کچھ بھی نہیں۔ اسی واقعہ پر یہ آیت نازل ہوئی افمن کان مومنا کمن فاسقا ۔ اس آیت میں مومن سے مراد حضرت علی(ع) اور فاسق سے مراد ولید بن عتبہ ہے۔

۸۶

 کو پانی پلانے اور مسجد حرام کی آباد کاری کی بدولت فخر و مباہات کی تھی خداوند عالم نے یہ آیت نازل فرمائی۔

 “أَ جَعَلْتُمْ سِقايَةَ الْحاجِّ وَ عِمارَةَ الْمَسْجِدِ الْحَرامِ كَمَنْ آمَنَ بِاللَّهِ وَ الْيَوْمِ الْآخِرِ وَ جاهَدَ في‏ سَبيلِ اللَّهِ لا يَسْتَوُونَ عِنْدَ اللَّهِ وَ اللَّهُ لا يَهْدِي الْقَوْمَ الظَّالِمينَ (1) ”( توبه، 19)

“ کیا تم لوگوں نے حاجیوں کی سقائی اور  خانہ کعبہ کی آبادی کو اس شخص کے ہمسر بنا دیا ہے جو خدا کے اور روز آخرت پر ایمان لایا اور خدا کی راہ میں جہاد کیا۔ خدا کے نزدیک تو یہ لوگ برابر نہیں اور خداوندِ عالم ظالم لوگوں کی ہدایت نہیں کرتا۔”

انھیں حضرات کے ابتلا و آزمائش میں بہ عمدگی پورے  اترنے اور شدائد و مصائب ہنسی خوشی جھیل جانے پر خداوندِ عالم نے ارشاد فرمایا :

--------------

1 ـ یہ آیت حضرت علی(ع) اور جناب عباس اور طلحہ بن شیبہ کی شان میں نازل ہوئی۔ واقعہ یہ ہوا تھا کہ ان لوگوں نے باہم فخر کیا طلحہ نے کہا تھا خانہ کعبہ کا میں متولی ہوں اس کی کنجیاں میرے پاس رہتی ہیں۔ عباس نے کہا میں زمزم کا متولی ہوں اور سقائی میرے ہاتھوں مین ہے۔ حضرت علی(ع) نے کہا کہ میری سمجھ نہیں آتا کہ تم دونوں کیا کہہ رہے ہو میں نے چھ مہینے لوگوں سے پہلے نماز پڑھی ہے اور میں خدا کے راستہ میں جہاد کرنے والا ہوں اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔ علامہ واحدی نے کتاب اسباب النزول میں یہ روایت حسن بصری شبسی وغیرہ سے نقل کی ہے اور ابن سیرین و مرہ حمدانی سے منقول ہے کہ حضرت علی(ع) نے جناب عباس سے کہا آپ ہجرت نہیں کرتے؟ آپ رسول(ص) کے پاس نہ جائیے گا۔ جناب عباس نے کہا مجھے حاجیوں کی سقائی کا شرف پہلے سے حاصل ہے کیا یہ ہجرت کےشرف سے بڑھا ہوا نہیں اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔

۸۷

 “  وَ مِنَ النَّاسِ مَنْ يَشْري نَفْسَهُ ابْتِغاءَ مَرْضاتِ اللَّهِ وَ اللَّهُ رَؤُفٌ بِالْعِبادِ (1) ” ( بقره، 207)

“ لوگوں میں کچھ ایسے بھی ہیں جو خدا کی خوشنودی کے لیے اپنی جان بیچ ڈالتے ہیں اور خدا اپنے بندوں پر بڑا مہربان ہے۔”

نیز یہ بھی ارشاد فرمایا :

 “  إِنَّ اللَّهَ اشْتَرى‏ مِنَ الْمُؤْمِنينَ أَنْفُسَهُمْ وَ أَمْوالَهُمْ بِأَنَّ لَهُمُ الْجَنَّةَ يُقاتِلُونَ في‏ سَبيلِ اللَّهِ فَيَقْتُلُونَ وَ يُقْتَلُونَ وَعْداً عَلَيْهِ حَقًّا فِي التَّوْراةِ وَ الْإِنْجيلِ وَ الْقُرْآنِ وَ مَنْ أَوْفى‏ بِعَهْدِهِ مِنَ اللَّهِ فَاسْتَبْشِرُوا بِبَيْعِكُمُ

--------------

1 ـ امام حاکم نے مستدرک جلد3 صفحہ4 پر جناب ابن عباس سے روایت کی ہے کہ قال شری علی نفسہ لیس ثوب النبی الحدیث۔ جناب ابن عباس نے کہا حضرت علی(ع) نے اپنا نفس فروخت کیا اور پیغمبر (ص) کی چادر اوڑھی ۔ امام حاکم نے تصریح کی ہے کہ یہ حدیث بخاری و مسلم کے معیار و شرائط پربھی صحیح ہے لیکن ان دونوں نے لکھا نہیں۔ ذہبی ایسے متشدد بزرگ نے بھی تلخیص مستدرک میں اس کی صحت کا اعتراف کیا ہے۔ امام حاکم نے اسی صفحہ پر امام زین العابدین(ع) سے یہ روایت بھی کی ہے کہ پہلے وہ شخص جنھوں نے اپنے نفس کو خوشنودی خدا کے لیے بیچا وہ علی بن ابی طالب(ع) ہیں جب کہ وہ شب ہجرت پیغمبر(ص) کے بستر پر سورہے۔ پھر امام حاکم نے اس موقع پر حضرت علی(ع) نے جو اشعار فرمائے تھے وہ اشعار نقل کیے ہیں جن کا پہلا شعر یہ ہے

                   وقيت بنفسی خير من وطا الحصا              ومن طاف بالبيت العتيق و بالحجر

میں نے جان پر کھیل کر اس بزرگ کی حفاظت کی جو ان تمام لوگوں میں جو سرزمین بطحا پر چلے درجنوں نے خانہ کعبہ اور حجر اسود کا طواف کیا بہتر و افضل ہیں۔”

۸۸

الَّذي بايَعْتُمْ بِهِ وَ ذلِكَ هُوَ الْفَوْزُ الْعَظيمُ التَّائِبُونَ الْعابِدُونَ الْحامِدُونَ السَّائِحُونَ الرَّاكِعُونَ السَّاجِدُونَ الْآمِرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَ النَّاهُونَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَ الْحافِظُونَ لِحُدُودِ اللَّهِ وَ بَشِّرِ الْمُؤْمِنينَ ” (توبہ، 111۔112)

“ اس میں تو شک نہیں کہ خدا نے مومنین سے ان کی جانیں اور ان کے مال اس بات پر خرید لیے ہیں کہ ( ان کی قیمت) ان کے لیے بہشت ہے( اسی وجہ سے) یہ لوگ خدا کی راہ میں لڑتے ہیں تو ( کفار کو) مارتے ہیں اور (خود بھی) مارے جاتے ہیں ( یہ ) پکا وعدہ ہے ( جس کا پورا کرنا ) خدا پر لازم ہے ( اور ایسا پکا ہے کہ) توریت اور انجیل اور قرآن (سب) میں ( لکھا ہوا) ہے اور اپنے عہد کا پورا کرنے والا خدا سے بڑھ کر اور کون  ہے تو تم اپنی ( خرید) فروخت سے جو تم نے خدا سے کی ہے خوشیاں مناؤ یہی تو بڑی کامیابی ہے ( یہ لوگ ) توبہ کرنے والے عبادت گزار ( خدا کی ) حمد و ثنا کرنے والے ( اس کی راہ میں) سفر کرنے والے رکوع کرنے والے سجدہ کرنے والے نیک کام کا حکم کرنے والے اور برے کام سے روکنے والے اور خدا کی ( مقرر کی ہوئی) حدوں کے اوپر نگاہ رکھنے والے ہیں اور ( اے رسول(ص)ان ) مومنین کو ( بہشت کی ) خوشخبری دے دو۔”

نیز ارشاد فرمایا :

 “الَّذينَ يُنْفِقُونَ أَمْوالَهُمْ بِاللَّيْلِ وَ النَّهارِ سِرًّا

۸۹

وَ عَلانِيَةً فَلَهُمْ أَجْرُهُمْ عِنْدَ رَبِّهِمْ وَ لا خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَ لا هُمْ يَحْزَنُونَ (1) ” ( بقرہ، 274)

“ جو لوگ کہ اپنے مالوں کو رات اور دن میں ظاہر بہ ظاہر اور چھپا کر ( راہ خدا میں ) خرچ کرتے ہیں ان کے لیے ان کا صلہ ہے ان کے پروردگار کے نزدیک ان کے لیے نہ کوئی خوف ہے اور نہ وہ اندوہ گین ہوں گے۔”

انھیں نے صدق دل سے پیغمبر(ص) کی سچائی کی تصدیق کی اور خداوندِ عالم نے ان کی اس تصدیق کی ان الفاظ میں گواہی دی :

 “  وَ الَّذي جاءَ بِالصِّدْقِ وَ صَدَّقَ (2) بِهِ أُولئِكَ هُمُ الْمُتَّقُونَ ” (زمر، 33)

“ اور یاد رکھو کہ جو رسول(ص) سچی بات لے کر آئے ہیں اور جس نے

--------------

1 ـ جملہ محدثین و مفسرین نے بسلسلہ اسناد جناب ابن عباس سے روایت کی ہے کہ یہ آیت حضرت علی(ع) کی شان میں نازل ہوئی ہے۔ آپ کے پاس چار درہم تھے آپ نے ایک درہم شب میں ایک دن میں ، ایک چھپا کر، ایک ظاہر بظاہر راہ خدا میں صدقہ کیا تو یہ آیت نازل ہوئی۔ تفسیروحیدی ص16، تفسیر معالم التنزیل ص135، تفسیر بیضاوی،جلد 1، ص125 تفسیر نیشاپوری، ص278 تفسیر کبیر رازی، جلد2، ص528 تفسیر روح المعانی جلد1، صفحہ 495 وغیرہ۔

2 ـالَّذي جاءَ بِالصِّدْقِ سے مراد پیغمبر(ص) صدق بہ سے مراد امیرالمومنین(ع) ہیں۔ جیسا کہ امام محمد باقر(ع) و جعفر صادق(ع) و موسی کاظم(ع) و امام رضا(ع) اور عبداﷲ بن عباس ، ابن حذیفہ ، عبداﷲ بن حسن ، زید شہید و غیر ہم نے تصریح کی ہے۔ خود امیرالمومنین(ع) اس آیت کے ذریعہ احتجاج فرمایا کرتے تھے کہ یہ آیت میرے متعلق نازل ہوئی اور میں مراد ہوں۔ ابن مغازلی نے بھی اپنی مناقب میں مجاہد سے اس مضمون کی روایت کی ہے اور حافظ ابن مردویہ اور حافظ ابو نعیم نے بھی۔

۹۰

ان کی تصدیق کی یہی لوگ تو پرہیز گار ہیں۔”

پس یہی حضرات حضرت رسول خدا(ص) کی مخلص جماعت اور آپ کے قریبی رشتہ دار  ہیں جنھیں خداوند عالم نے اپنی بہترین رعایت اور بلندترین توجہ کے ساتھ مخصوص فرمایا اور ارشاد فرمایا :

 “وَ أَنْذِرْ عَشيرَتَكَ الْأَقْرَبينَ ” ( شعراء، 214)

“ اے پیغمبر(ص) اپنے نزدیکی رشتہ داروں کو خدا کا خوف دلاؤ۔”

یہی پیغمبر(ص) کے اولی الارحام ہیں اور اولی الارحام بعض بعض سے مقدم و اولیٰ ہیں کتاب الہی میں یہ پیغمبر(ص) کے قریبی رشتہ دار اور قریبی رشتہ دار بھلائی کے  زیادہ حق دار ہوتے ہیں۔ یہی بروز قیامت پیغمبر(ص) کے درجے میں ہوں گے اور جنتِ نعیم میں آپ کے ساتھ ساتھ ہوں گے جس پر دلیل خداوند عالم کا یہ قول ہے۔

 “وَ الَّذينَ آمَنُوا وَ اتَّبَعَتْهُمْ ذُرِّيَّتُهُمْ بِإيمانٍ أَلْحَقْنا بِهِمْ ذُرِّيَّتَهُمْ وَ ما أَلَتْناهُمْ مِنْ عَمَلِهِمْ مِنْ شَيْ‏ءٍ (1) ” (طور، 21)

“ جو لوگ کہ ایمان لائے اور ان کی ذریت نے بھی ایمان لا کر اتباع کیا تو ہم ان کی ذریت کو بھی انھٰیں سے ملحق کردیں گے اور ان کے اعمال میں سے رتی برابر کمی نہ کریں گے۔”

یہی وہ حق دار حضرات ہیں جن کے حق کی ادائیگی کا قرآن نے ان الفاظ

--------------

1 ـ امام حاکم نے مستدرک جلد2 صفحہ468 پر بسلسلہ تفسیر سور طور ابن عباس سے اس آیت کے متعلق روایت کی ہےابن عباس نے کہا کہ خداوند کریم مومن کی ذریت کو بھی جنت کے اسی درجے میں رکھے گا جس میں وہ مومن ہوگا اگرچہ بلحاظ اعمال کمتر ہو پھر آپ نے اس آیت کی تلاوت فرمائی اور کہا کہ وما التناہم کا مطلب یہ ہے کہ وما نقصناھم یعنی ہم کوئی کمی نہ کریں گے۔

۹۱

 میں حکم سنایا :

 “  وَ آتِ ذَا الْقُرْبى‏ حَقَّهُ (1) ” ( اسراء، 26)

“ صاحبان قرابت کو ان کا حق دے دو۔”

یہی وہ صاحبان خمس ہیں کہ جب تک ان کو خمس نہ پہنچا دیا جائے انسان بری الذمہ ہو ہی نہیں سکتا۔ ارشاد الہی ہے:

 “ وَ اعْلَمُوا أَنَّما غَنِمْتُمْ مِنْ شَيْ‏ءٍ فَأَنَّ لِلَّهِ خُمُسَهُ وَ لِلرَّسُولِ وَ لِذِي الْقُرْبى‏ (2) ” ( انفال، 41)

“ سمجھ رکھو کہ تم جو کچھ مال غنیمت حاصل کرو تو اس کا پانچواں حصہ خدا کا ہے اور رسول(ص) کا اور رسول(ص) کے قرابت داروں کا۔”

یہی وہ صاحبان فئی ہیں جن کے متعلق خداوند عالم نے ارشاد فرمایا:

“ما أَفاءَ اللَّهُ عَلى‏ رَسُولِهِ مِنْ أَهْلِ الْقُرى‏ فَلِلَّهِ وَ لِلرَّسُولِ وَ لِذِي الْقُرْبى‏ ( حشر، 7)

خداوندِ عالم نے دیہات والوں سے جو مال بطور خالصہ بلا حرب و ضرب رسول(ص) کو دلوایا ہے وہ اﷲ کے لیے ہے اور رسول(ص) کے لیے اور صاحبان قرابت کے لیے اور یہی وہ اہل بیت(ع) ہیں جن سے آیہ “إِنَّما يُريدُ اللَّهُ

--------------

1 ـ مفسرین نے لکھا ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو آںحضرت(ص) نے جبرائیل(ع) سے پوچھا ، قرابت والے کون ہیں اور ان کا حق کیا ہے۔ جواب دیا فاطمہ(س) کو فدک دے دیجیے کہ یہ انھیں کا حق ہے اور جو کچھ فدک میں خدا و رسول(ص) کا حق  ہے وہ بھی انھیں کے حوالے کر دیجیے پس رسول خدا(ص) نے جناب فاطمہ(س) کو بلا کر وثیقہ لکھ کر فدک ان کے حوالے کردیا۔تفسیر در منثور جلد4، صفحہ177، وغیرہ۔

2 ـ تفسیر روح المعانی جلد 3 صفحہ 637، تفسیر نیشاپوری، جلد10، صفحہ15 وغیرہ۔

۹۲

لِيُذْهِبَ عَنْكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَ يُطَهِّرَكُمْ تَطْهيراً ” ( احزاب، 33) خطاب کیا گیا۔

یہی وہ آل یسین ہیں جن پر خداوند عالم سلام بھیجا اور ارشاد ہوا : سلام(1) علیٰ آل یسین۔ یہی وہ آل محمد(ص) ہیں جن پر درود و سلام بھیجنا خداوند عالم نے بندوں پر فرض قرار دیا اور ارشاد ہوا :

 “  إِنَّ اللَّهَ وَ مَلائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ يا أَيُّهَا الَّذينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَ سَلِّمُوا تَسْليماً ” ( احزاب، 56)

“ تحقیق کہ خداوند عالم اور ملائکہ نبی(ص) پر درود بھیجتے ہیں ، اے ایمان والو تم بھی درود و سلام بھیجا کرو۔”

لوگوں نے پیغمبر(ص) سے پوچھا یا رسول اﷲ(ص) ہم آپ پر سلام کیونکر کریں یہ تو ہمیں معلوم ہے لیکن یہ ارشاد ہو کہ درود آپ کی آل پر کیونکر بھیجا جائے تو آپ نے ارشاد

--------------

1 ـ  علامہ ابن حجر نے صواعق محرقہ باب 11 میں بسلسلہ ان آیات کے جو اہل بیت(ع) کی شان میں  نازل ہوئیں تیسری آیت یہ بھی لکھی ہے اور لکھا ہے کہ مفسرین کی ایک جماعت نے جناب ابن عباس سے روایت کی ہے کہ یہاں آیت میں مراد سلام علی آل محمد ( آل محمد پر سلام ہو) علامہ ابن حجر لکھتے ہیں کہ کلبی نے بھی ایسا ہی کہا ہے اور فخرالدین رازی نے لکھا ہے کہ پیغمبر(ص) کےاہل بیت(ع) پانچ چیزوں میں پیغمبر(ص) کے برابر حصہ دار ہیں۔ سلام میں  خداوند عالم نے پیغمبر(ص) سے کہا السلام علیک ایہا النبی اور اہل بیت (ع) کے لیے کہا سلام علی آل یسین دوسرے تشہد مین درود بھیجے جاتے ہیں تیسرے طہارت میں پیغمبر(ص) سے فرمایا طہ اے طیب و طاہر اور اہل بیت(ع) کے لیے آیت تطہیر نازل ہوئی چوتھے صدقہ حرام ہونے میں پانچویں محبت میں رسول کے لیے فرمایا :فاتبعونی يحببکم اﷲ اور اہل بیت(ع) کے لیے ارشاد فرمایا:قُلْ لا أَسْئَلُكُمْ عَلَيْهِ أَجْراً إِلاَّ الْمَوَدَّةَ فِي الْقُرْبى (شوری، 23)

۹۳

فرمایا یوں کیا کرو :

الل ه م صل علی محمد و علی آل محمد”

لہذا اس حدیث سے معلوم ہوا کہ ان حضرات پر درود بھیجنا پیغمبر(ص) پر درود بھجنے کا جزو ہے جب تک آپ کی آل(ع) کو بھی شامل کر کے درود نہ بھیجا جائے تب تک پیغمبر(ص) پر درود پورا نہ ہوگا اسی وجہ سے علماء و محققین نے اس آیت کو بھی ان آیات میں شمار کیا ہے جو اہل بیت(ع) کی شان  میں نازل ہوئیں۔ چنانچہ علامہ ابن حجر مکی نے بھی صواعق محرقہ باب 11 میں اس آیت کو منجملہ  ان آیات کے شمار کیا ہے جو اہل بیت(ع) کی شان میں نازل ہوئیں۔ پس یہی منتخب و برگزیدہ بندگان الہی  ہیں بحکم خدا نیکیوں کی طرف سبقت کرنے والے ہیں۔ یہی وارثان کتاب خدا ہیں جن کے بارے میں خداوندِ عالم نے فرمایا ہے:

 “ثُمَّ أَوْرَثْنَا الْكِتابَ الَّذينَ اصْطَفَيْنا مِنْ عِبادِنا فَمِنْهُمْ ظالِمٌ لِنَفْسِهِ وَ مِنْهُمْ مُقْتَصِدٌ وَ مِنْهُمْ سابِقٌ بِالْخَيْراتِ بِإِذْنِ اللَّهِ ذلِكَ هُوَ الْفَضْلُ الْكَبيرُ (1) ۔” ( فاطر، 32)

--------------

1 ـ ثقتہ الاسلام کلینی علیہ الرحمہ نے بہ سند صحیح سالم سے روایت کی ہے کہ سالم کہتے ہیں کہ میں نے امام محمد باقر(ع) سے اس آیت  ثم اورثنا الکتاب الذین اصطفینا من عبادنا کے متعلق دریافت کیا تو آپ نے فرمایا  آیت میں سابق بالخیرات ( نیکیوں کی طرف سبقت کرنے والا) سے مراد امام اور مقتصد ( میانہ رو) سے مراد امام کی معرفت رکھنے والا اور ظالم لنفسہ ( اپنے نفسوں پر ظلم کرنے والا) سے مقصود وہ ہے جو امام سے بے گانہ و نا آشناہو ۔ اسی مضمون کی روایت کلینی نے امام جعفر صادق(ع) امام موسی کاظم(ع) اور امام رضا علیہ السلام سے بھی کی  ہے۔ علمائے اہلسنت میں حافظ  ابن مردویہ  نے اس حدیث کی روایت امیرالمومنین(ع) سے کی ہے۔

۹۴

“ پھر ہم نے اپنی کتاب کا وارث بنایا ان لوگوں کو جنھیں ہم نے اپنے بندوں میں منتخب کیا ہے، پس لوگوں میں بعض تو ایسے ہیں جو اپنے نفس پر ظلم کرنے والے ہیں ( اور یہ وہ لوگ ہیں جو امام کی معرفت نہیں رکھتے) اور بعض میانہ رو ہیں ( یعنی دوستدارن ائمہ) اور بعض نیکیوں کی طرف بحکم خدا سبقت کرنے والے ہیں( یعنی امام ) اور یہ بہت بڑا فضل ہے۔”

اہل بیت طاہرین(ع) کی شان میں نازل شدہ اتنی ہی آیات بیان کرنے پر ہم اکتفا کرتے ہیں۔

جناب ابن عباس فرمایا کرتے تھے کہ تنہا حضرت عی(ع)  کی شان میں تین سو آیتیں(1) نازل ہوئیں اور ابن عباس کے علاوہ دوسرے لوگوں کا بیان ہے کہ ایک چوتھائی قرآن اہل بیت(ع) کے متعلق نازل ہوا۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ اہلبیت(ع) اور قرآن ایک جڑکی دوشاخین ہیں جو کبھی جدا نہیں ہوسکتیں۔ ہم انہیں چند آیتوں پر بس کرتے ہیں۔ انھیں میں غور فرمائیے آپ پر حقیقت و امر واقع بخوبی واضح ہوجائے گا۔

                                                                                                                                                                             ش

--------------

1 ـ جیسا کہ ابن عساکر نے ابن عباس سے روایت کی ہے ملاحظہ ہو صواعق محرقہ باب 9، فصل 3 صفحہ2۔

۹۵

مکتوب نمبر7

جناب مولانائے محترم ! تسلیم

گرامی نامہ سبب عزت افزائی ہوا۔ سبحان اﷲ آپ کے زور بیان قوتِ تحریر کی داد نہیں دی جاسکتی۔ آپ نے جتنی باتیں تحریر فرمائیں ان میں کسی کا مجال تکلم نہیں جو کچھ آپ نے لکھا صحیح لکھا البتہ ایک کھٹک دل میں رہی جاتی ہے۔ اعتراض کرنے والے کہہ سکتے ہیں کہ وہ لوگ جنھوں نے اہل بیت(ع) کے متعلق ان آیات کے نازل ہونے کی روایت کی ہے وہ شیعہ جماعت سے تعلق رکھتے ہیں اور شیعوں کی روایت کردہ حدیثیں حضرات اہل سنت کے لیے حجت نہیں۔ براہ کرم اس اعتراض کا دفعیہ فرمائیے۔

                                                                     س

۹۶

جواب مکتوب

محترمی تسلیم!

آپ نے جو اعتراض پیش کیا وہ درست نہیں۔ اعتراض کے دونوں ٹکڑے غلط ہیں۔ یہ بھی کہ جنھوں نے ان آیات کے شانِ نزول کےمتعلق روایت کیا ہے وہ شیعہ تھے اور یہ بھی کہ شیعوں کی روایت کردہ حدیثیں حضرات اہل سنت کے لیے حجت نہیں۔ اعتراض کا پہلا حصہ تو یوں درست نہیں کہ ان آیات کے شانِ نزول کے متعلق صرف شیعوں ہی نے روایت نہیں کی بلکہ معتبر و موثق علماء اہل سنت نے بھی روایتیں کی ہیں ۔ ان کی سنن اور مسانید اٹھا کر دیکھیے آپ کو نظر آئے گا کہ انھوں نے ان روایتوں  کو شیعوں سے کہیں زیادہ طریقوں سے ذکر کیا ہے۔ اگر شیعہ علماء نے کسی آیت کے متعلق چار طریقوں سے روایت کی ہے کہ یہ آیت اہل بیت(ع) کی شان میں نازل ہوئی تو حضرات اہل سنت نے دس طریقوں سے روایت کی ہے۔

رہ گیا اعتراض کا دوسرا ٹکڑا کہ شیعوں کی روایت کردہ حدیثیں اہلسنت کے لیے حجت نہیں تو یہ اور بھی غلط ہے جیسا کہ علماء اہلسنت کی کتب حدیث گواہ ہیں حضرات اہل سنت کے طریق و اسناد میں ایک دو نہیں بکثرت شیعہ راوی ملتے ہیں۔ اور شیعہ بھی کوئی معمولی نہیں بلکہ نامی گرامی ، جن کی شیعیت  سے دنیا واقف ہے۔وہ شیعہ جنھیں برا کہا جاتاہے، گمراہ سمجھا جاتا ہے ، رافضی کہہ کر پکارا  جاتا ہے۔ انھیں شیعوں کی روایتیں آپ کے صحاح ستہ میں بھی موجود ہیں اور ان کے علاوہ دیگر حدیث کی کتابوں میں بھی۔ خود امام بخاری کے شیوخ میں بہت سے ایسے شیعوں کے نام ملتے ہیں

۹۷

 جنھیں رافضی مخالف وغیرہ کہا جاتا ہے مگر پھر بھی امام بخاری نے ان سے استفادہ کیا ، ان سے روایتیں لیں۔ امام بخاری نے بھی ان کی روایت کردہ حدیثیں اپنی صحیح میں درج کی ہیں اور دیگر اصحاب نے بھی۔ ان تمام حقائق کے باوجود یہ کہنا کس طرح درست ہوسکتا ہے کہ شیعوں کی روایت حضرات اہلسنت کے لیے حجت نہیں۔

اصل بات یہ ہے کہ اعتراض کرنے والوں کو حقیقت کا علم ہی نہیں۔ اگر معترضین اس حقیقت کو ذہن نشین کر لیں کہ شیعہ اہلبیت(ع) کے پیرو انھیں کے اصولوں کے پابند اور ان کے اوصاف و محاسن کو پرتو ہیں اندازہ ہو کہ وہ کس قدر اعتماد و اعتبار کے لائق ہیں لیکن ناواقف نے ایک اشتباہ کی کیفیت میں مبتلا کر رکھا ہے کس قدر لائق ماتم ہے یہ امر کہ محمد بن یعقوب کلینی ایسے بزرگ جنھیں دنیا ثقتہ الاسلام کے لقب سے یاد کرتی ہے محمد بن علی بن بابویہ القمی جو مسلمانوں کے صدوق کہے جاتے ہیں، محمد بن حسن طوسی جنھیں شیخ الامہ کہا جاتا ہے محض شیعیت کے جرم میں معترضین کے نزدیک اعتبار کے قابل نہ سمجھے جائیں اور ان کی پاکیزہ صفات جو علوم آلِ محمد(ص) کا خزینہ ہیں حقارت کی نظر سے دیکھی جائیں ایسے بزرگوں کے متعلق شک وشبہ سے کام لیا جائے جو جامع علوم و کمالات تھے۔ روئے زمین پر قطب و ابدال کی حیثیت رکھتے تھے جنھوں نے خدا و رسول(ص) کی اطاعت احکامِ الہی کی تبلیغ و اشاعت مسلمانوں  کی خیر خواہی و رہبری میں اپنی عمریں تمام کردیں۔

معمولی سے معمولی شخص واقف ہے کہ یہ مقدس حضرات جھوٹ کو کتنا بڑا گناہ سمجھتے تھے۔ انھوں نے اپنی ہزاروں کتابوں میں جھوٹوں پر لعنت کی ہے اور صراحت کی ہے کہ حدیثِ پیغمبر(ص) میں جھوٹ بولنا ہلاکت و عذاب دائمی کا سبب ہے حدیث میں جھوٹ بولنا تو اتنا بڑا گناہ سمجھا ہے ان لوگوں نے کہ روزہ توڑ دینے

۹۸

 والی چیزوں میں قرار دیا ہے۔ اگر کوئی شخص ماہِ رمضان میں عمدا جھوٹی حدیث بیان کرے تو ان حضرات کا فتوی ہے کہ اس شخص کا روزہ باطل ہوگیا۔ اس پر روزہ کی قضا بھی لازم ہے اور کفارہ بھی دینا ضروری ہے جس طرح دیگر مفطرات کا حکم ہے بعینہ جھوٹی حدیث بیان کرنے کا بھی۔ جب کذب کو وہ ایسا امر عظیم سمجھتے ہیں تو خدا را انصاف سے فرمائیے کہ خود ایسے حضرات کے متعلق جو صالحین و ابرار عابد شب زندہ دار ہوں ایسا وہم و گمان بھی کیا جاسکتا ہے؟

ہائے ہائے ! شیعیانِ آل محمد(ص) اہل بیت(ع) کے پیرو متہم سمجھے جائیں اور ان کی بیان کی ہوئی حدیثوں پر کذب و افترا کا شک وشبہ کیا جائے۔ ان کے اقوال ٹھکرا دینے کے قابل سمجھے جائیں اور خارجی ناصبی خدا کو مجسم ماننے والے افراد کی حدیثیں سر آنکھوں پر رکھی جائیں۔ وہ جو کچھ بیان کریں آمنا و صدقنا کہہ کر تسلیم کر لیا جائے اس میں کسی شک و شبہ کی گنجائش نہ سمجھی جائے۔ یہ تو کھلی ہوئی نا انصافی صریحی جفا پروری ہے۔ خدا محفوظ رکھے۔

                                                                     ش

۹۹

مکتوب نمبر8

حضرت مولانائے محترم ! تسلیم!

آپ کا تازہ مکتوب موصول ہوا۔ آپ کی تحریر اتنی متین، دلائل سے پر اور حقائق سے لبریز تھی کہ میرے لیے چارہ کار ہی نہیں سوا اس کے کہ جو کچھ آپ نے تحریر فرمایا ہے ایک ایک لفظ تسلیم کرلوں۔ البتہ جو آپ نے تحریر فرمایا ہے کہ حضرات اہل سنت نے بکثرت شیعہ راویوں سے روایتیں لی ہیں، اسے آپ نے بہت مجمل رکھا۔ آپ کو ذرا تفصیل سے کام لینا چاہیے تھا۔ مناسب تھا کہ آپ ان شیعہ راویوں کے نام بھی تحریر فرماتے نیز ان کی شیعیت کے متعلق حضرات اہل سنت کا اقرار بھی ذکر کرتے۔ امید ہے کہ آپ میرا مقصد سمجھے گئے ہوں گے۔

                                                                             س

۱۰۰

"اے علی ؑ! اگر خدا تیرے ذریعے کسی ایک آدمی کی ہدایت کر دے تو یہ تیرے لئے ہر اس چیز سے بہتر ہے کہ جس پر سورج کی روشنی پڑ تی ہے۔"(۱)

۲۷ ۔ ستائیسواں عمل:

ہر شخص کو چاہیے کہ اپنی استطاعت کے مطابق امام عصر ؑ کے حقوق ادا کرے اور اس میں کسی قسم کی کوتاہی نہ کرے۔

بحار الانوار میں مروی ہے کہ امام جعفر صادق ؑ سے پوچھا گیا:

"کیا قائم کی ولادت ہوچکی ہے؟"

فرمایا:

نہیں ، اگر میں انہیں پاتا توساری زندگی ان کی خدمت کرتا رہتا۔"(۲)

مصنف :اے مومنو ! زرا سوچیے!امام صادق ؑ کتنی زیادہ ان کی قدر و منزلت بیان فرما رہے ہیں۔پس اگر آپ امام ؑ کے خادم نہیں بن سکتے تو کم از کم اپنے گناہوں کے ذریعے دن رات انہیں غمگین تو نہ کیجئے۔اگر آپ شہد نہیں دےسکتے تو زہر بھی تو نہ دیں ۔

____________________

۱:- البحار ۸

۲:- بحارالانوار ۵۱/۱۴۸ ح۲۲

۱۰۱

۲۸ ۔ اٹھائیسواں عمل:۔

دعا کرنے والے کو چاہیے کہ اپنے لیے دعا کرنے سے پہلے اللہ سے امام ؑ کے ظہور میں تعجیل کے لیے دعا کرے اور پھر اپنے لیے دعا کرے۔ایک تو امامؑ کی محبت اور ان کے حقوق کی ادائیگی بھی اس چیز کا تقاضہ کرتی ہے اور اس کے علاوہ صحیفہ سجادیہ میں موجود دعاء عرفہ میں بھی یہ چیز واضح ہے۔ اسی طرح بعض دیگر احادیث سے بھی اس امر کی جانب رہنمائی ملتی ہے۔اس کے ساتھ ساتھ امام ؑ کے ظہور میں تعجیل کے لیے دعا کرنے سے اسی (۸۰) سے زائد دنیوی و اخروی فوائد حاصل ہوتے ہیں۔

یہ تمام فوائد اپنے مصادر و ادلۃ سمیت میں نے اپنی کتاب "ابواب الجنات " اور " مکیال المکارم"(۱) میں ذکر کیے ہیں۔اوربعض اس کتاب میں بھی گزر چکے ہیں۔

یہ بات طبیعی اور فکری ہے کہ ایک عقل مند شخص یہ فوائداس دعا پر بھی حاصل کرنا چاہتا ہے کہ جس کے قبول ہونے یا نہ ہونے کا علم بھی نہیں۔ جبکہ امام ؑ کی خاطر دعا کرنا اس کی اپنی دعا کی قبولیت کا سبب بنے گا ۔ ان شاء اللہ تعالیٰ۔

____________________

۱:- مکیال المکارم ج۱ ص ۳۷۷ باب۵

۱۰۲

جیسا کہ آداب دعا میں دعا سے پہلے محمد وآل محمد ؑ پر صلوات بھیجنے کی فضیلت بیان کی گئی ہے کہ یہ اپنے بعد والی دعا کی قبولیت کا سبب بنتا ہے۔(۱)

____________________

۱:- الکافی /۲۴۹۱ باب صلوات ح۱۔(امام صادقؑ:دعا اس وقت تک پردے میں چھپی رہتی ہے جب تک محمد و آل محمد پر صلوات نہ پڑھی جائے۔

۱۰۳

۲۹ ۔ انتیسواں عمل:۔

امامؑ کے لیے محبت و دوستی کا اظہار کرنا۔

غایۃ المرام میں مروی ہے کہ رسول خدا ؐ حدیث معراج میں فرماتے ہیں کہ اللہ نے آپؑ سے فرمایا:

"اے محمد ؐ ! کیا آپ انہیں دیکھنا چاہتے ہیں۔پھر فرمایا آگے بڑھیئے۔پس میں آگے بڑھا تو اچانک علی ؑ ابن بی طالبؑ ،اور حسنؑ ،حسین ؑ،محمد بن علی ؑ ،جعفر بن محمدؑ ،موسی بن جعفرؑ ،علی ابن موسیؑ،محمد بن علیؑ، علی بن محمدؑ،حسن بن علی ؑ اور حجت قائمؑ کو دیکھا کہ ان کے درمیان کوکب دری کی طرح چمک رہے تھے۔

میں نے پوچھا اے پروردگار یہ کون ہیں؟

فرمایا:

یہ آئمہ حق ہیں اور یہ قائم ؑ ہیں کہ جو میرے حلال کو حلال اور میرے حرام کو حرام کرنے والے ہیں۔(۱) اور میرے دشمنوں سےانتقام لیں گے۔

اے محمدؐ ان سے محبت کیجئے ۔بے شک میں بھی ان سے محبت کرتا ہوں اور جو ان سے محبت کرے اس سے بھی محبت کرتا ہوں۔"(۲)

____________________

۱:- یعنی تمام احکام کو ظاہر کریں گے حتی کہ تقیہ کے بغیر عمل کریں گے۔

۲:- غایۃ المرام :۱۸۹ ح۱۰۵ اور ص۲۵۶ ح۲۴

۱۰۴

مصنف : امام ؑ کی محبت کابطور خاص حکم دینے سے(جبکہ تمام آئمہ ؑ سے محبت واجب ہے) یہ پتا چلتاہے کہ ان کی محبت میں اللہ کے اس حکم کے پیچھے کوئی خاص اور معین خصوصیت ہے۔اور ان کے وجود مبارک میں ایسی صفات ہیں جو اس تخصیص کا تقاضا کرتی ہیں۔

۳۰ ۔ تیسواں عمل: ۔

امام ؑ کے انصار اور ان کےخادموں کے لیےدعا کرنا۔

جیسا کہ یونس بن عبد الرحمٰن کی دعا میں آیا ہے کہ جو پہلے گزر چکی ہے۔(۱)

۳۱ ۔ اکتیسواں عمل:

امام ؑ کے دشمنوں پر لعنت کرے۔

جیسا کہ بہت سی روایات سے یہی ظاہر ہوتا ہے۔اور امام ؑ سے وارد ہونے والی دعا میں بھی یہی ظاہر ہوتا ہے۔(۲)

۳۲ ۔ بتیسواں عمل:۔

اللہ سے توسل کرنا ۔

____________________

۱:- جمال الاسبوع ص۳۱۳

۲:- الاحتجاج : ۲/۳۱۶

۱۰۵

تاکہ وہ ہمیں امام ؑ کے انصار میں سے قرار دے۔جیسا کہ دعا عہد وغیرہ میں وارد ہوا ہے۔

۳۳ ۔ تینتیسواں عمل:۔

امام ؑ کے لیے دعا کرتے وقت آواز بلندکرنا:

امام ؑ کے لیے دعا کرتے وقت آواز بلند کرے بالخصوص عام محافل و مجالس میں ۔ اس میں ایک تو شعائر اللہ کی تعظیم ہے اور اس کے ساتھ امام صادقؑ سے مروی دعا ندبہ کے بعض فقرات سے اس کا مستحب ہونا ظاہر ہوتا ہے۔(۱)

۳۴ ۔ چونتیسواں عمل:۔

آپؑ کے اعوان وانصار پر صلوات بھیجنا۔

یہ بھی ان کے لیے دعا ہی کی ایک صورت ہے۔صحیفہ سجادیہ کی دعا عرفہ اور بعض دیگر مقامات میں یہی و ارد ہوا ہے۔

۳۵ ۔ پینتیسواں عمل :۔

امام ؑ کی نیابت میں خانہ کعبہ کا طواف بجا لانا۔

____________________

۱:- عبارت یہ ہے: دعا و استغاثہ کے وقت آواز بلند کرو۔

۱۰۶

کتاب مکیال المکارم میں اس کی دلیل بیان کی ہے۔(۱) یہاں اختصار کو مد نظر رکھتے ہوئے ذکر نہیں کر رہا۔

۳۶ ۔ چھتیسواں عمل:۔

امام ؑ کی نیابت میں حج بجا لانا۔

۳۷ ۔ سینتیسواں عمل:۔

امام ؑ کی نیابت میں حج کرنے کے لیے نائب بھیجے۔

اس کی دلیل وہی ہے جو پہلے خرائج(۲) میں حدیث مروی ہے۔اسے میں نے مکیال المکارم(۳) میں ذکر کیا ہے اور یہ النجم الثاقب(۴) میں بھی موجود ہے۔

۳۸ ۔ اڑھتیسواں عمل:۔

روزانہ کی بنیاد پر یا ہر ممکن وقت میں امام ؑ سے تجدید عہد و تجدید بیعت کرنا۔

جان لیجئے کہ اہل لغت کے ہاں بیعت کا معنی یہ ہے: کسی کام پر عہد اور اتفاق کرنا۔

____________________

۱:- مکیال المکارم ۲/۲۱۶

۲:- الخرائج والجرائح : ۷۳

۳:- مکیال المکارم : ۲/۲۱۵

۴:- النجم الثاقب: ص۷۷۴ (فارسی)

۱۰۷

امام ؑ کے ساتھ عہد اور بیعت کا معنی یہ ہے کہ :

مومن اپنی زبان سے اقرار کرے اور دل سے پختہ عزم کرے کہ وہ امام ؑ کی مکمل اطاعت کرے گاار وہ جب بھی ظہور فرمائیں گے ان کی نصرت و مدد کرے گا۔

دعا عہد صغیر جو پیچھے گزر چکی ہے اور دعا عہد کبیر جو آگے آئے گی ان دونوں میں بیعت کا یہی معنی ظاہر ہوتا ہے۔جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ کسی شخص کے ہاتھ پر ہاتھ رکھنا اس عنوان سے کہ یہ امامؑ کی بیعت ہے تو یہ ایک گمراہ کن بدعت ہے کیونکہ یہ طریقہ قرآن و روایات معصومین ؑ میں سے کسی میں بھی بیان نہیں ہوا ہے۔ ہاں اہل عرب میں یہ بات مشہور تھی کہ ایک شخص اپنا ہاتھ دوسرے کہ ہاتھ پر رکھ کر اس کے ساتھ واضح صورت میں عہد و بیعت کا اظہار کرتا تھا۔

بعض احادیث میں وارد ہوا ہے کہ رسول خدا ؐ نے بیعت کے مقام پر مصافہ کیا۔ پھر اپنامبارک ہاتھ پانی کے ایک برتن میں ڈال کرنکال لیا اور پھر مسلمان عورتوں کو حکم دیا کہ وہ اس برتن میں اپنا ہاتھ ڈالیں ۔ لیکن یہ کام اس بات کی دلیل نہیں بن سکتا کہ بیعت کی یہ شکل و صوارت ہر زمانے حتی امام ؑ کی غیبت کے زمانےمیں بھی جائز ہے۔بلکہ بعض احادیث سے ظاہر ہوتاہے کہ جہاں امام یا نبی سے بیعت کرنا ممکن نہ ہو وہاں زبانی اقرار اور دل سے عزم کرنے

۱۰۸

پر اکتفاء کرنا واجب ہے۔اس مسئلہ میں ایک مفصل حدیث موجود ہے جسے علماء نے اپنی کتابوں میں ذکر کیا ہے۔

انہی میں سے ایک تفسیر البرہان میں امام محمد باقرؑ سے مروی ہے کہ رسول خداؐ نے امیرالمومنینؑ کو اپنا خلیفہ بنانے کے بعد ان کے بہت سے فضائل بیان کیے اور پھر فرمایا:

"اے لوگو! تم اس سے زیادہ ہو کہ میرے ہاتھ پہ ہاتھ رکھ سکو(بیعت کر سکو) اور اللہ نے مجھے حکم دیا ہے کہ میں تمہاری زبانوں سے علیؑ کے امیرالمومنین ہونے کا اور ان کے بعد آنے والے آئمہ کا اقرار لوں کہ جو مجھ سے ہیں اور ان(علیؑ) سے ہیں۔جیسا کہ میں نے تمہیں بتا دیا کہ میری زریت علی ؑ کی صلب سے ہے۔پس تم سب یوں کہو: آپؐ نے امیرالمومنین علیؑ اور ان کی اولاد سے آنے والے آئمہؑ کے بارے میں ہمارے اور آپؐ کے رب کا جو حکم پہنچا دیا ہے ہم نے اسے سنا،اطاعت کی اور اس پر راضی ہیں اور سر تسلیم کرتے ہیں۔۔۔الخ

پس اگر امام کی بیعت کے عنوان سے کسی غیر امام کے ہاتھ پر ہاتھ رکھنا جائز ہوتا تو پھر رسولؐ لوگوں کو حکم دیتے کہ ہر گروہ اکابرین صحابہ میں سے کسی ایک کہ ہاتھ پہ ہاتھ رکھے ۔ جیسے سلمان ،ابوزر وغیرہ۔پس جب ایسا نہیں ہوا تو یہ عمل خود نبی و امام کے زمانہ ظہور کےعلاوہ صحیح نہیں۔جہاد کی طرح کہ جو امام ؑ کے زمانہ ظہور کے ساتھ مختص ہے۔

۱۰۹

اس کے علاوہ یہ بھی مد نظر رہے کہ کسی کتاب کی کسی روایت میں یہ بات وارد نہیں ہوئی کہ آئمہؑ کے زمانہ میں کچھ مسلمانوں نے آئمہ ؑ کے بڑے صحابہ میں سے کسی کے ہاتھ بیعت کی ہواس عنوان سے کہ خود آئمہ ؑ نے ان کے بارے یہ حکم دیا ہےاور ہم اس معاملے میں ان سے مدد لے رہے ہیں۔

۳۹ ۔ انتالیسواں عمل:۔

بعض فقہاء مثلا محدث شیخ حر عاملی نے وسائل الشیعہ میں لکھا ہے کہ :

امام مہدیؑ کی نیابت میں آئمہ معصومین کی قبورکی زیارت کرنا مستحب ہے۔(۱)

۴۰ ۔ چالیسواں عمل:۔

اصول کافی میں مفضل سے روایت ہے کہ وہ کہتے ہیں کہ میں نے امام صادق سے سنا کہ وہ فرما رہے تھے:

"اس صاحب امر کی دوٖغیبتیں ہیں۔ان میں سے ایک اپنے اہل کی طرف پلٹ جائے گی۔اور دوسری کے بارے میں کہا جائے گا کہ وہ ہلاک ہوگئے یا کس وادی میں چلے گئے۔میں نے عرض کیا: جب ایسا ہو تو ہم کیا کریں؟ فرمایا:

____________________

۱:- وسائل الشیعہ ج۱۰ ص۴۶۴ ح۱

۱۱۰

جب کوئی مدعی اس بات کا دعوی کرےتو اس سے ایسے سوال کرو کہ جس کا جواب ان جیسی شخصیت دے سکتی ہو۔"(۱)

مصنف:یعنی ہم اس سے ایسے امور کے بارے سوال کریں کہ جن پر لوگوں کا علم نہیں پہنچ سکتا۔مثلا ماں کے رحم میں جنین کے بارے کہ مذکر ہے یا مؤنث ہے؟ اور کس وقت ولادت ہوگی؟ اور ان چیزوں کے بارے میں کہ جنہیں آپ اپنے دلوں میں چھپائے رکھتے ہیں کہ جنہیں صرف اللہ جانتا ہے۔اور حیوانات و جمادات کے ساتھ کلام کرنا۔اور ان کا گواہی دینا کہ یہ سچا ہےاور اس امر میں برحق ہے۔جیسا کہ ایسی چیزیں آئمہ سے کئی بار صادر ہوئی ہیں۔اور کتابوں میں تفصیل سے مذکور ہیں۔

۴۱ ۔ اکتالیسواں عمل:۔

غیبت کبری کےدوران جو شخص امام کی نیابت خاصہ کا دعوی کرے اسے جھٹلانا۔

یہی بات کمال الدین اور احتجاج میں امامؑ کی توقیع شریف میں مذکور ہے۔

۴۲ ۔ بیالیسواں عمل:۔

امام کے ظہور کا وقت معین نہ کرنا۔

____________________

۱:- الکافی ج۱ ص۳۴۰

۱۱۱

جو شخص ایسا کرے اسے جھٹلانا اور اسے کذاب (جھوٹا) کا نام دینا۔امام صادق ؑ کی صحیح حدیث میں ہے کہ آپ نے محمد بن مسلم سے فرمایا:

"لوگوں میں سے جوشخص تمہارے سامنے کسی چیز کا وقت معین کرے تو اس کوجھٹلانے سے مت گھبراؤ کیونکہ ہم کسی کے لیے وقت معین نہیں کرتے۔"(۱)

ایک اور حدیث میں فضیل سے رویت ہے کہ انھوں نے فرمایا:

میں نے امام باقر سے عر ض کیا : کیا اس امر (ظہور مہدیؑ ) کا کوئی وقت معین ہے؟

تو امام نے فرمایا:

وقت معین کرنے والے جھوٹے ہیں۔ وقت معین کرنے والے جھوٹے ہیں۔ وقت معین کرنے والے جھوٹے ہیں۔(۲)

اور کمال الدین میں امام رضا ؑ سے مروی ہے کہ فرمایا: مجھے میرے باپ نے ،انہوں نے اپنےباپ سے، انہو ں نے اپنے آباء سے حدیث بیان کی ہے کہ رسول خدا ؐ سے پوچھا گیا کہ اے رسول خداؐ۔ آپ کی زریت میں سے قائم کب ظہور فرمائیں گے؟ تو فرمایا: ان کی مثال اس گھڑی کی سی ہے جس کے بارے اللہ نے فرمایا:

____________________

۱:- الغیبۃ الطوسی ۲۶۲ اورانہوں نے بحارالانوار ۵۲/۱۰۴ ح۸ سے

۲:- الغیبۃ الطوسی ۲۶۲

۱۱۲

لا يُجَلِّيها لِوَقْتِها إِلاَّ هُوَ ثَقُلَتْ فِي السَّماواتِ وَالأْرْضِ لا تَأْتِيكُمْ إِلاَّ بَغْتَة

"وہی اس کو بروقت ظاہر کردے گا یہ قیامت زمین و آسمان دونوں کے لیے گراں ہے اور تمہارے پاس اچانک آنے والی ہے"۔(۱)

۴۳ ۔ تینتالیسواں عمل:۔

دشمنوں سے تقیہ کرنا:

واجب تقیہ یہ ہے کہ جب بندہ مومن کو عقلا اپنی جان یا اپنے مال یا اپنی عزت پر کسی ضرر اور نقصان کا خوف ہو تو وہ حق کو ظاہر کرنے سے خود کو روک لے۔ بلکہ اگر اپنی جان،مال یا عزت کی حفاظت کے لیے اپنی زبان سے مخالفوں کی موافقت بھی کرنی پڑے تو یہ بھی کر دینی چاہیے۔لیکن ضروری ہے کہ اس کا دل اس کی اس زبانی بات کے مخالف ہو۔

کمال الدین میں امام رضا ؑ سےمروی ہے کہ فرمایا:

"جس کے پاس پرہیزگاری نہیں اس کا دین نہیں اور جس کے پاس تقیہ نہیں اس کا ایمان نہیں ۔تم میں سے اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ صاحب عزت وہ ہے جو سب سے زیادہ تقیہ پر عمل پیرا ہو"۔

پوچھاگیا : اے فرزند رسولؐ : کس وقت تک تقیہ کریں؟

فرمایا:

____________________

۱:- کمال الدین ۲/۳۷۳ اور آیۃ سورۃ اعراف ۱۸۷

۱۱۳

"وقت معلوم کے دن تک۔اور یہ وہ دن ہے کہ جس میں ہم اہل بیتؑ کے قائم ظہور فرمائیں گے۔پس جس نے ظہور قائمؑ سے پہلے تقیہ ترک کر دیا تو وہ ہم میں سے نہیں ہے۔"(۱)

تقیہ کے وجوب پربہت سی روایات موجود ہیں۔ اور جو میں نے تقیہ کا معنی پیش کیا یہ وہی معنی ہے جو کتاب الاحتجاج کے اسی باب میں امیرالمومنینؑ کی حدیث میں مذکور ہے۔ امام ؑ نے اس حدیث میں تقیہ پر تاکید کرتے ہوئے فرمایا کہ تقیہ ترک کرنے میں تمہاری ذلت ہے اور تمہارے اور مومنین کے خون بہے جانے کا سبب ہے۔۔۔۔الخ(۲)

خصال میں شیخ صدوق نے سند صحیح کے ذریعے امام باقر ؑ سے روایت کی ہے کہ امیر المومنینؑ نے فرمایا:

"دنیا کی مضبوطی چار چیزوں سے ہے:(۳)

۱۔اس عالم سے جو بولنے والا اور اپنے علم پر عمل کرنے والا ہو۔

____________________

۱:- کمال الدین ۲/۳۷۱

۲:- امیر المومنین کی ایک طویل حدیث ہے کہ جس سے ہم نے اپنی ضرورت کا مطلب لیا ہے۔ فرمایا: بچو اس وقت سے کہ تم تقیہ ترک کر دو کہ جس کا میں نےتمہیں حکم دیا تھا کہ اس سے تمہارا اور تمہارے بھائیوں کا خون بہے گا۔۔۔الاحتجاج طبرسی۱/۳۵۵

[۳:- یعنی دین اسلام کا قیام ان چار چیزوں پر موقوف ہے۔

۱۱۴

۲۔اس غنی سے جو دینداروں پر فضل کرنے میں کنجوسی نہیں کرتا۔

۳۔ اس فقیر سے کہ جو اپنی دنیا کے بدلے اپنی آخرت نہیں بیچتا۔

۴۔اس جاہل سے جو علم حاصل کرنے میں تکبر نہیں کرتا۔

پس جب عالم اپنا علم چھپانے لگے،غنی اپنے مال میں کنجوسی کرنے لگے ،فقیر اپنی آخرت کو دنیا کے بدلے بیچ ڈالے،اور جاہل طلب علم سے تکبر کرنے لگے تو دنیا پیچھے کی جانب پلٹ جائے گی۔پھر تمہیں مال کی کثرت اور قوم کا مختلف ٹکڑوں میں بکھرا ہونا تعجب میں نہ ڈالے۔

پوچھا گیا:

اے میرالمومنین ؑ اس زمانے میں زندگی کیسے گزاریں ؟

فرمایا:

ظاہر میں ان کے ساتھ مل کر رہو لیکن باطن میں ان کے مخالف رہو۔ آدمی جو کچھ کماتا ہے اسے وہی ملتا ہے اور جس کے ساتھ محبت کرتا ہے وہ اسی کے ساتھ محشور ہوگا۔اس کے ساتھ اللہ کی طرف سے فرج(کشائش) کا انتطار کرو۔(۱)

____________________

۱:- الخصال ص۱۹۷ ح۵

۱۱۵

اس باب میں بہت سی روایات ہیں جن میں سے کچھ میں نے اپنی کتاب مکیال المکارم(۱) میں ذکر کی ہیں۔

۴۴ ۔ چوالیسواں عمل:۔

گناہوں سے حقیقی توبہ کرنا:

اگرچہ درست ہے کہ حرام اعمال سے توبہ کرنا ہر زمانے میں واجب ہے لیکن اس زمانے (زمانہ غیبت) میں اس کی اہمیت اس لیے زیادہ ہے کیونکہ حضرت صاحب الامر ؑ کی غیبت اور اس کے طولانی ہونے کے اسباب میں سے ایک سبب ہمارے بہت بڑے اور کثیر گناہ ہیں۔پس یہ گناہ ظہور میں رکاوٹ کا باعث ہیں۔ جیسا کہ بحارالانوار میں امیر المومنین ؑ سے روایت ہے اور اسی طرح امام ؑ کی ایک توقیع مبارک کہ جواحتجاج میں مروی ہے کہ فرمایا:

"ہمیں ان سے کوئی چیز روکے ہوئے نہیں ہے سوائے ہم تک پہنچنے والے (وہ اعمال) کہ جنہیں ہم ناپسند کرتے ہیں اور ان سے ان اعمال کا سر زدہونا پسند نہیں کرتے ۔"(۲)

____________________

۱:- مکیال المکارم ۲/۲۸۴

۲:- الاحتجاج ۲/۳۲۵ اور انہوں نے بحارالانوار ۵۳/۱۷۷ سے

۱۱۶

تو بہ یہ ہے کہ اپنے گزشتہ گناہوں پر پشیمان ہو کر مستقبل میں انہیں ترک کرنے کا عزم کرنا۔ اس کی علامت یہ ہے کہ جو واجبات چھوڑے ہیں (انہیں ادا کرکے)ان سے اپنا ذمہ بری کرانا،اور اپنے ذمے لوگوں کے جو حقوق باقی ہوں انہیں ادا کرنا اور گناہوں کی وجہ سے اپنے بدن پر بڑھے ہوئے گوشت کو ختم کرنا اور عبادت کی اس قدر مشقت برداشت کرنا کہ گناہوں کی لذت بھول جائے۔اور یہ چھ کام انجام دینے سے توبہ کامل ہوجاتی ہےاور ویسی توبہ بن جاتی ہے کہ جیسی امیرالمومنینؑ سے متعدد کتابوں میں بیان ہوئی ہے۔

پس اپنے نفس کو خبر دار کرو اوریہ نہ کہو کہ بالفرض اگر میں توبہ کر بھی لوں پھر بھی بہت سے لوگ توبہ نہیں کر یں گے پس امام ؑ کی غیبت جوں کی توں باقی رہے گی۔ پس تمام لوگوں کے گناہ امام ؑکی غیبت کو بڑھاتے ہیں اور ظہور میں تاخیر کا سبب ہیں۔

تو میں جواب میں کہتا ہوں کہ : اگر ساری مخلوق امامؑ کے ظہور میں تاخیر کا سبب ہے تو آپ اپنے نفس کی طرف دیکھیں کہ وہ ان لوگوں کے ساتھ تونہیں ہے مجھے خوف ہے کہ کہیں آپ بھی ویسے ہی شمار نہ ہونے لگیں جیسے ہارون رشید نے امام موسی کاظم ؑ ،مامون نے امام رضاؑ کو اور متوکل نے امام علی نقی ؑ کو سامرء میں قید کیے رکھا۔

۱۱۷

۴۵ ۔ پینتالیسواں عمل:۔

روضۃ الکافی میں امام صادقؑ سے مروی ہے کہ فرمایا: "جب تم میں سے کوئی قائم ؑ کی تمنا کرے تو اسے چاہیے کہ عافیت میں تمنا کرے کیونکہ اللہ تعالی نے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو رحمت بنا کر بھیجا تھا اور قائم ؑ کو انتقام لینے والا بنا کر بھیجے گا۔"(۱)

مصنف:یعنی ہم اللہ سے دعا کریں کہ ہم امامؑ سے اس حال میں ملاقات کریں کہ ہم مومن ہوں اور آخری زمانے کی گمراہیوں سے عافیت میں ہوں تاکہ ہم امام ؑ کے انتقام کا نشانہ نہ بن جائیں۔

۴۶ ۔ چھیالیسواں عمل:۔

لوگوں کو امام ؑ سے محبت کی دعوت دینا۔

مومن کو چاہیے کہ لوگوں کو امام ؑ سے محبت کی دعوت دے۔ ان کے سامنے امام ؑ کے لوگوں پر احسان ، ان کی برکات ،ان کے وجود کے فائدے ،اور ان کی لوگوں سے محبت جیسی باتیں بیان کرکے انہیں امامؑ سے محبت کی طرف

____________________

۱:- الکافی ۸/۲۳۳ ح۳۰۶

۱۱۸

بلائے اور انہیں ان اعمال کی تشویق دلائے کہ جن سے امامؑ کی محبت حاصل کی جاتی ہے۔

۴۷ ۔ سینتالیسواں عمل:۔

امام ؑ کا زمانہ غیبت طویل ہونے کی وجہ سے دل سخت نہ کریں بلکہ مولا کی یاد سے دلوں کو نرم و تروتازہ رکھیں۔اللہ رب العالمین نے قرآن کی سورہ حدید میں فرمایا ہے:

أَلَمْ يَأْنِ لِلَّذِينَ آمَنُوا أَنْ تَخْشَعَ قُلُوبُهُمْ لِذِكْرِ اللَّهِ وَما نَزَلَ مِنَ الْحَقِّ وَلا يَكُونُوا كَالَّذِينَ أُوتُوا الْكِتابَ مِنْ قَبْلُ فَطالَ عَلَيْهِمُ الأْمَدُ فَقَسَتْ قُلُوبُهُمْ وَكَثِيرٌ مِنْهُمْ فاسِقُون

"کیا مومنین کے لیے ابھی وقت نہیں آیا کہ ان کے دل ذکر خدا سے اور نازل ہونے والے حق سے نرم ہو جائیں اور وہ ان لوگوں کی طرح نہ ہو جائیں جنہیں پہلے کتاب دی گئی پھر ایک طویل مدت ان پر گزر گئی تو ان کے دل سخت ہوگئےاور ان میں سے بہت سے لوگ فاسق ہیں۔"(۱)

اور برہان میں امام صادق علیہ السلام سے روایت ہے(۲) کہ آپ نے فرمایا: یہ آیۃ

____________________

۱:- سورۃ حدید :۱۶

۲:- البرہان ۴/۲۹۱ ،ج۱

۱۱۹

وَلا يَكُونُوا كَالَّذِينَ أُوتُوا الْكِتابَ مِنْ قَبْلُ فَطالَ عَلَيْهِمُ الأْمَدُ فَقَسَتْ قُلُوبُهُمْ وَكَثِيرٌ مِنْهُمْ فاسِقُون

(ان لوگوں کی طرح نہ ہونا کہ جنہیں اس سے پہلے کتاب دی گئی پھر ان پر مدت طویل ہوگئی تو ان کے دل سخت ہوگئے اوران میں سے اکثر فاسق ہیں )

زمانہ غیبت کے لوگوں کے لیے نازل ہوئی ہے۔

پھر فرمایا:

اعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ يُحْيِ الأْرْضَ بَعْدَ مَوْتِها

جان لو کہ اللہ زمین کو مردہ ہونے کے بعد پھر زندہ کرے گا۔

امام محمد باقر ؑ نے "زمین کے مردہ ہونے " کا معنی بیان کرتے ہوئے فرمایا: اس سے مراد اہل زمین کا کفرہے اور کافر مردہ ہوتاہے۔اللہ اسے قائم کے ذریعے زندہ کرے گا۔پس وہ زمین میں عدل قائم فرمائیں گے پس زمین زندہ ہو جائےگی اور اہل زمین بھی مردہ ہونے کے بعد زندہ ہو جائیں گے۔(۱)

اور کمال الدین میں امیرالمومنین ؑ سے صحیح سند کے ساتھ روایت ہے کہ فرمایا:

"ہمارے قائم کے لیے ایسی غیبت ہے کہ جس کی مدت طویل ہے گویا میں دیکھ رہا ہوں شیعہ ان کی غیبت میں ریوڑ کی طرح سرگرداں ہیں ۔وہ چراگاہ کی

____________________

۱:- البرہان ۴/۲۹۱ ،ج۴

۱۲۰

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161