عصرِ غَیبتِ امامؑ میں ہماری ذمہ داریاں

عصرِ  غَیبتِ امامؑ میں  ہماری    ذمہ  داریاں22%

عصرِ  غَیبتِ امامؑ میں  ہماری    ذمہ  داریاں مؤلف:
: عامرحسین شہانی
زمرہ جات: امام مہدی(عجّل اللّہ فرجہ الشریف)
صفحے: 161

عصرِ غَیبتِ امامؑ میں ہماری ذمہ داریاں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 161 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 53523 / ڈاؤنلوڈ: 3029
سائز سائز سائز
عصرِ  غَیبتِ امامؑ میں  ہماری    ذمہ  داریاں

عصرِ غَیبتِ امامؑ میں ہماری ذمہ داریاں

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

"اے علی ؑ! اگر خدا تیرے ذریعے کسی ایک آدمی کی ہدایت کر دے تو یہ تیرے لئے ہر اس چیز سے بہتر ہے کہ جس پر سورج کی روشنی پڑ تی ہے۔"(۱)

۲۷ ۔ ستائیسواں عمل:

ہر شخص کو چاہیے کہ اپنی استطاعت کے مطابق امام عصر ؑ کے حقوق ادا کرے اور اس میں کسی قسم کی کوتاہی نہ کرے۔

بحار الانوار میں مروی ہے کہ امام جعفر صادق ؑ سے پوچھا گیا:

"کیا قائم کی ولادت ہوچکی ہے؟"

فرمایا:

نہیں ، اگر میں انہیں پاتا توساری زندگی ان کی خدمت کرتا رہتا۔"(۲)

مصنف :اے مومنو ! زرا سوچیے!امام صادق ؑ کتنی زیادہ ان کی قدر و منزلت بیان فرما رہے ہیں۔پس اگر آپ امام ؑ کے خادم نہیں بن سکتے تو کم از کم اپنے گناہوں کے ذریعے دن رات انہیں غمگین تو نہ کیجئے۔اگر آپ شہد نہیں دےسکتے تو زہر بھی تو نہ دیں ۔

____________________

۱:- البحار ۸

۲:- بحارالانوار ۵۱/۱۴۸ ح۲۲

۱۰۱

۲۸ ۔ اٹھائیسواں عمل:۔

دعا کرنے والے کو چاہیے کہ اپنے لیے دعا کرنے سے پہلے اللہ سے امام ؑ کے ظہور میں تعجیل کے لیے دعا کرے اور پھر اپنے لیے دعا کرے۔ایک تو امامؑ کی محبت اور ان کے حقوق کی ادائیگی بھی اس چیز کا تقاضہ کرتی ہے اور اس کے علاوہ صحیفہ سجادیہ میں موجود دعاء عرفہ میں بھی یہ چیز واضح ہے۔ اسی طرح بعض دیگر احادیث سے بھی اس امر کی جانب رہنمائی ملتی ہے۔اس کے ساتھ ساتھ امام ؑ کے ظہور میں تعجیل کے لیے دعا کرنے سے اسی (۸۰) سے زائد دنیوی و اخروی فوائد حاصل ہوتے ہیں۔

یہ تمام فوائد اپنے مصادر و ادلۃ سمیت میں نے اپنی کتاب "ابواب الجنات " اور " مکیال المکارم"(۱) میں ذکر کیے ہیں۔اوربعض اس کتاب میں بھی گزر چکے ہیں۔

یہ بات طبیعی اور فکری ہے کہ ایک عقل مند شخص یہ فوائداس دعا پر بھی حاصل کرنا چاہتا ہے کہ جس کے قبول ہونے یا نہ ہونے کا علم بھی نہیں۔ جبکہ امام ؑ کی خاطر دعا کرنا اس کی اپنی دعا کی قبولیت کا سبب بنے گا ۔ ان شاء اللہ تعالیٰ۔

____________________

۱:- مکیال المکارم ج۱ ص ۳۷۷ باب۵

۱۰۲

جیسا کہ آداب دعا میں دعا سے پہلے محمد وآل محمد ؑ پر صلوات بھیجنے کی فضیلت بیان کی گئی ہے کہ یہ اپنے بعد والی دعا کی قبولیت کا سبب بنتا ہے۔(۱)

____________________

۱:- الکافی /۲۴۹۱ باب صلوات ح۱۔(امام صادقؑ:دعا اس وقت تک پردے میں چھپی رہتی ہے جب تک محمد و آل محمد پر صلوات نہ پڑھی جائے۔

۱۰۳

۲۹ ۔ انتیسواں عمل:۔

امامؑ کے لیے محبت و دوستی کا اظہار کرنا۔

غایۃ المرام میں مروی ہے کہ رسول خدا ؐ حدیث معراج میں فرماتے ہیں کہ اللہ نے آپؑ سے فرمایا:

"اے محمد ؐ ! کیا آپ انہیں دیکھنا چاہتے ہیں۔پھر فرمایا آگے بڑھیئے۔پس میں آگے بڑھا تو اچانک علی ؑ ابن بی طالبؑ ،اور حسنؑ ،حسین ؑ،محمد بن علی ؑ ،جعفر بن محمدؑ ،موسی بن جعفرؑ ،علی ابن موسیؑ،محمد بن علیؑ، علی بن محمدؑ،حسن بن علی ؑ اور حجت قائمؑ کو دیکھا کہ ان کے درمیان کوکب دری کی طرح چمک رہے تھے۔

میں نے پوچھا اے پروردگار یہ کون ہیں؟

فرمایا:

یہ آئمہ حق ہیں اور یہ قائم ؑ ہیں کہ جو میرے حلال کو حلال اور میرے حرام کو حرام کرنے والے ہیں۔(۱) اور میرے دشمنوں سےانتقام لیں گے۔

اے محمدؐ ان سے محبت کیجئے ۔بے شک میں بھی ان سے محبت کرتا ہوں اور جو ان سے محبت کرے اس سے بھی محبت کرتا ہوں۔"(۲)

____________________

۱:- یعنی تمام احکام کو ظاہر کریں گے حتی کہ تقیہ کے بغیر عمل کریں گے۔

۲:- غایۃ المرام :۱۸۹ ح۱۰۵ اور ص۲۵۶ ح۲۴

۱۰۴

مصنف : امام ؑ کی محبت کابطور خاص حکم دینے سے(جبکہ تمام آئمہ ؑ سے محبت واجب ہے) یہ پتا چلتاہے کہ ان کی محبت میں اللہ کے اس حکم کے پیچھے کوئی خاص اور معین خصوصیت ہے۔اور ان کے وجود مبارک میں ایسی صفات ہیں جو اس تخصیص کا تقاضا کرتی ہیں۔

۳۰ ۔ تیسواں عمل: ۔

امام ؑ کے انصار اور ان کےخادموں کے لیےدعا کرنا۔

جیسا کہ یونس بن عبد الرحمٰن کی دعا میں آیا ہے کہ جو پہلے گزر چکی ہے۔(۱)

۳۱ ۔ اکتیسواں عمل:

امام ؑ کے دشمنوں پر لعنت کرے۔

جیسا کہ بہت سی روایات سے یہی ظاہر ہوتا ہے۔اور امام ؑ سے وارد ہونے والی دعا میں بھی یہی ظاہر ہوتا ہے۔(۲)

۳۲ ۔ بتیسواں عمل:۔

اللہ سے توسل کرنا ۔

____________________

۱:- جمال الاسبوع ص۳۱۳

۲:- الاحتجاج : ۲/۳۱۶

۱۰۵

تاکہ وہ ہمیں امام ؑ کے انصار میں سے قرار دے۔جیسا کہ دعا عہد وغیرہ میں وارد ہوا ہے۔

۳۳ ۔ تینتیسواں عمل:۔

امام ؑ کے لیے دعا کرتے وقت آواز بلندکرنا:

امام ؑ کے لیے دعا کرتے وقت آواز بلند کرے بالخصوص عام محافل و مجالس میں ۔ اس میں ایک تو شعائر اللہ کی تعظیم ہے اور اس کے ساتھ امام صادقؑ سے مروی دعا ندبہ کے بعض فقرات سے اس کا مستحب ہونا ظاہر ہوتا ہے۔(۱)

۳۴ ۔ چونتیسواں عمل:۔

آپؑ کے اعوان وانصار پر صلوات بھیجنا۔

یہ بھی ان کے لیے دعا ہی کی ایک صورت ہے۔صحیفہ سجادیہ کی دعا عرفہ اور بعض دیگر مقامات میں یہی و ارد ہوا ہے۔

۳۵ ۔ پینتیسواں عمل :۔

امام ؑ کی نیابت میں خانہ کعبہ کا طواف بجا لانا۔

____________________

۱:- عبارت یہ ہے: دعا و استغاثہ کے وقت آواز بلند کرو۔

۱۰۶

کتاب مکیال المکارم میں اس کی دلیل بیان کی ہے۔(۱) یہاں اختصار کو مد نظر رکھتے ہوئے ذکر نہیں کر رہا۔

۳۶ ۔ چھتیسواں عمل:۔

امام ؑ کی نیابت میں حج بجا لانا۔

۳۷ ۔ سینتیسواں عمل:۔

امام ؑ کی نیابت میں حج کرنے کے لیے نائب بھیجے۔

اس کی دلیل وہی ہے جو پہلے خرائج(۲) میں حدیث مروی ہے۔اسے میں نے مکیال المکارم(۳) میں ذکر کیا ہے اور یہ النجم الثاقب(۴) میں بھی موجود ہے۔

۳۸ ۔ اڑھتیسواں عمل:۔

روزانہ کی بنیاد پر یا ہر ممکن وقت میں امام ؑ سے تجدید عہد و تجدید بیعت کرنا۔

جان لیجئے کہ اہل لغت کے ہاں بیعت کا معنی یہ ہے: کسی کام پر عہد اور اتفاق کرنا۔

____________________

۱:- مکیال المکارم ۲/۲۱۶

۲:- الخرائج والجرائح : ۷۳

۳:- مکیال المکارم : ۲/۲۱۵

۴:- النجم الثاقب: ص۷۷۴ (فارسی)

۱۰۷

امام ؑ کے ساتھ عہد اور بیعت کا معنی یہ ہے کہ :

مومن اپنی زبان سے اقرار کرے اور دل سے پختہ عزم کرے کہ وہ امام ؑ کی مکمل اطاعت کرے گاار وہ جب بھی ظہور فرمائیں گے ان کی نصرت و مدد کرے گا۔

دعا عہد صغیر جو پیچھے گزر چکی ہے اور دعا عہد کبیر جو آگے آئے گی ان دونوں میں بیعت کا یہی معنی ظاہر ہوتا ہے۔جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ کسی شخص کے ہاتھ پر ہاتھ رکھنا اس عنوان سے کہ یہ امامؑ کی بیعت ہے تو یہ ایک گمراہ کن بدعت ہے کیونکہ یہ طریقہ قرآن و روایات معصومین ؑ میں سے کسی میں بھی بیان نہیں ہوا ہے۔ ہاں اہل عرب میں یہ بات مشہور تھی کہ ایک شخص اپنا ہاتھ دوسرے کہ ہاتھ پر رکھ کر اس کے ساتھ واضح صورت میں عہد و بیعت کا اظہار کرتا تھا۔

بعض احادیث میں وارد ہوا ہے کہ رسول خدا ؐ نے بیعت کے مقام پر مصافہ کیا۔ پھر اپنامبارک ہاتھ پانی کے ایک برتن میں ڈال کرنکال لیا اور پھر مسلمان عورتوں کو حکم دیا کہ وہ اس برتن میں اپنا ہاتھ ڈالیں ۔ لیکن یہ کام اس بات کی دلیل نہیں بن سکتا کہ بیعت کی یہ شکل و صوارت ہر زمانے حتی امام ؑ کی غیبت کے زمانےمیں بھی جائز ہے۔بلکہ بعض احادیث سے ظاہر ہوتاہے کہ جہاں امام یا نبی سے بیعت کرنا ممکن نہ ہو وہاں زبانی اقرار اور دل سے عزم کرنے

۱۰۸

پر اکتفاء کرنا واجب ہے۔اس مسئلہ میں ایک مفصل حدیث موجود ہے جسے علماء نے اپنی کتابوں میں ذکر کیا ہے۔

انہی میں سے ایک تفسیر البرہان میں امام محمد باقرؑ سے مروی ہے کہ رسول خداؐ نے امیرالمومنینؑ کو اپنا خلیفہ بنانے کے بعد ان کے بہت سے فضائل بیان کیے اور پھر فرمایا:

"اے لوگو! تم اس سے زیادہ ہو کہ میرے ہاتھ پہ ہاتھ رکھ سکو(بیعت کر سکو) اور اللہ نے مجھے حکم دیا ہے کہ میں تمہاری زبانوں سے علیؑ کے امیرالمومنین ہونے کا اور ان کے بعد آنے والے آئمہ کا اقرار لوں کہ جو مجھ سے ہیں اور ان(علیؑ) سے ہیں۔جیسا کہ میں نے تمہیں بتا دیا کہ میری زریت علی ؑ کی صلب سے ہے۔پس تم سب یوں کہو: آپؐ نے امیرالمومنین علیؑ اور ان کی اولاد سے آنے والے آئمہؑ کے بارے میں ہمارے اور آپؐ کے رب کا جو حکم پہنچا دیا ہے ہم نے اسے سنا،اطاعت کی اور اس پر راضی ہیں اور سر تسلیم کرتے ہیں۔۔۔الخ

پس اگر امام کی بیعت کے عنوان سے کسی غیر امام کے ہاتھ پر ہاتھ رکھنا جائز ہوتا تو پھر رسولؐ لوگوں کو حکم دیتے کہ ہر گروہ اکابرین صحابہ میں سے کسی ایک کہ ہاتھ پہ ہاتھ رکھے ۔ جیسے سلمان ،ابوزر وغیرہ۔پس جب ایسا نہیں ہوا تو یہ عمل خود نبی و امام کے زمانہ ظہور کےعلاوہ صحیح نہیں۔جہاد کی طرح کہ جو امام ؑ کے زمانہ ظہور کے ساتھ مختص ہے۔

۱۰۹

اس کے علاوہ یہ بھی مد نظر رہے کہ کسی کتاب کی کسی روایت میں یہ بات وارد نہیں ہوئی کہ آئمہؑ کے زمانہ میں کچھ مسلمانوں نے آئمہ ؑ کے بڑے صحابہ میں سے کسی کے ہاتھ بیعت کی ہواس عنوان سے کہ خود آئمہ ؑ نے ان کے بارے یہ حکم دیا ہےاور ہم اس معاملے میں ان سے مدد لے رہے ہیں۔

۳۹ ۔ انتالیسواں عمل:۔

بعض فقہاء مثلا محدث شیخ حر عاملی نے وسائل الشیعہ میں لکھا ہے کہ :

امام مہدیؑ کی نیابت میں آئمہ معصومین کی قبورکی زیارت کرنا مستحب ہے۔(۱)

۴۰ ۔ چالیسواں عمل:۔

اصول کافی میں مفضل سے روایت ہے کہ وہ کہتے ہیں کہ میں نے امام صادق سے سنا کہ وہ فرما رہے تھے:

"اس صاحب امر کی دوٖغیبتیں ہیں۔ان میں سے ایک اپنے اہل کی طرف پلٹ جائے گی۔اور دوسری کے بارے میں کہا جائے گا کہ وہ ہلاک ہوگئے یا کس وادی میں چلے گئے۔میں نے عرض کیا: جب ایسا ہو تو ہم کیا کریں؟ فرمایا:

____________________

۱:- وسائل الشیعہ ج۱۰ ص۴۶۴ ح۱

۱۱۰

جب کوئی مدعی اس بات کا دعوی کرےتو اس سے ایسے سوال کرو کہ جس کا جواب ان جیسی شخصیت دے سکتی ہو۔"(۱)

مصنف:یعنی ہم اس سے ایسے امور کے بارے سوال کریں کہ جن پر لوگوں کا علم نہیں پہنچ سکتا۔مثلا ماں کے رحم میں جنین کے بارے کہ مذکر ہے یا مؤنث ہے؟ اور کس وقت ولادت ہوگی؟ اور ان چیزوں کے بارے میں کہ جنہیں آپ اپنے دلوں میں چھپائے رکھتے ہیں کہ جنہیں صرف اللہ جانتا ہے۔اور حیوانات و جمادات کے ساتھ کلام کرنا۔اور ان کا گواہی دینا کہ یہ سچا ہےاور اس امر میں برحق ہے۔جیسا کہ ایسی چیزیں آئمہ سے کئی بار صادر ہوئی ہیں۔اور کتابوں میں تفصیل سے مذکور ہیں۔

۴۱ ۔ اکتالیسواں عمل:۔

غیبت کبری کےدوران جو شخص امام کی نیابت خاصہ کا دعوی کرے اسے جھٹلانا۔

یہی بات کمال الدین اور احتجاج میں امامؑ کی توقیع شریف میں مذکور ہے۔

۴۲ ۔ بیالیسواں عمل:۔

امام کے ظہور کا وقت معین نہ کرنا۔

____________________

۱:- الکافی ج۱ ص۳۴۰

۱۱۱

جو شخص ایسا کرے اسے جھٹلانا اور اسے کذاب (جھوٹا) کا نام دینا۔امام صادق ؑ کی صحیح حدیث میں ہے کہ آپ نے محمد بن مسلم سے فرمایا:

"لوگوں میں سے جوشخص تمہارے سامنے کسی چیز کا وقت معین کرے تو اس کوجھٹلانے سے مت گھبراؤ کیونکہ ہم کسی کے لیے وقت معین نہیں کرتے۔"(۱)

ایک اور حدیث میں فضیل سے رویت ہے کہ انھوں نے فرمایا:

میں نے امام باقر سے عر ض کیا : کیا اس امر (ظہور مہدیؑ ) کا کوئی وقت معین ہے؟

تو امام نے فرمایا:

وقت معین کرنے والے جھوٹے ہیں۔ وقت معین کرنے والے جھوٹے ہیں۔ وقت معین کرنے والے جھوٹے ہیں۔(۲)

اور کمال الدین میں امام رضا ؑ سے مروی ہے کہ فرمایا: مجھے میرے باپ نے ،انہوں نے اپنےباپ سے، انہو ں نے اپنے آباء سے حدیث بیان کی ہے کہ رسول خدا ؐ سے پوچھا گیا کہ اے رسول خداؐ۔ آپ کی زریت میں سے قائم کب ظہور فرمائیں گے؟ تو فرمایا: ان کی مثال اس گھڑی کی سی ہے جس کے بارے اللہ نے فرمایا:

____________________

۱:- الغیبۃ الطوسی ۲۶۲ اورانہوں نے بحارالانوار ۵۲/۱۰۴ ح۸ سے

۲:- الغیبۃ الطوسی ۲۶۲

۱۱۲

لا يُجَلِّيها لِوَقْتِها إِلاَّ هُوَ ثَقُلَتْ فِي السَّماواتِ وَالأْرْضِ لا تَأْتِيكُمْ إِلاَّ بَغْتَة

"وہی اس کو بروقت ظاہر کردے گا یہ قیامت زمین و آسمان دونوں کے لیے گراں ہے اور تمہارے پاس اچانک آنے والی ہے"۔(۱)

۴۳ ۔ تینتالیسواں عمل:۔

دشمنوں سے تقیہ کرنا:

واجب تقیہ یہ ہے کہ جب بندہ مومن کو عقلا اپنی جان یا اپنے مال یا اپنی عزت پر کسی ضرر اور نقصان کا خوف ہو تو وہ حق کو ظاہر کرنے سے خود کو روک لے۔ بلکہ اگر اپنی جان،مال یا عزت کی حفاظت کے لیے اپنی زبان سے مخالفوں کی موافقت بھی کرنی پڑے تو یہ بھی کر دینی چاہیے۔لیکن ضروری ہے کہ اس کا دل اس کی اس زبانی بات کے مخالف ہو۔

کمال الدین میں امام رضا ؑ سےمروی ہے کہ فرمایا:

"جس کے پاس پرہیزگاری نہیں اس کا دین نہیں اور جس کے پاس تقیہ نہیں اس کا ایمان نہیں ۔تم میں سے اللہ کے نزدیک سب سے زیادہ صاحب عزت وہ ہے جو سب سے زیادہ تقیہ پر عمل پیرا ہو"۔

پوچھاگیا : اے فرزند رسولؐ : کس وقت تک تقیہ کریں؟

فرمایا:

____________________

۱:- کمال الدین ۲/۳۷۳ اور آیۃ سورۃ اعراف ۱۸۷

۱۱۳

"وقت معلوم کے دن تک۔اور یہ وہ دن ہے کہ جس میں ہم اہل بیتؑ کے قائم ظہور فرمائیں گے۔پس جس نے ظہور قائمؑ سے پہلے تقیہ ترک کر دیا تو وہ ہم میں سے نہیں ہے۔"(۱)

تقیہ کے وجوب پربہت سی روایات موجود ہیں۔ اور جو میں نے تقیہ کا معنی پیش کیا یہ وہی معنی ہے جو کتاب الاحتجاج کے اسی باب میں امیرالمومنینؑ کی حدیث میں مذکور ہے۔ امام ؑ نے اس حدیث میں تقیہ پر تاکید کرتے ہوئے فرمایا کہ تقیہ ترک کرنے میں تمہاری ذلت ہے اور تمہارے اور مومنین کے خون بہے جانے کا سبب ہے۔۔۔۔الخ(۲)

خصال میں شیخ صدوق نے سند صحیح کے ذریعے امام باقر ؑ سے روایت کی ہے کہ امیر المومنینؑ نے فرمایا:

"دنیا کی مضبوطی چار چیزوں سے ہے:(۳)

۱۔اس عالم سے جو بولنے والا اور اپنے علم پر عمل کرنے والا ہو۔

____________________

۱:- کمال الدین ۲/۳۷۱

۲:- امیر المومنین کی ایک طویل حدیث ہے کہ جس سے ہم نے اپنی ضرورت کا مطلب لیا ہے۔ فرمایا: بچو اس وقت سے کہ تم تقیہ ترک کر دو کہ جس کا میں نےتمہیں حکم دیا تھا کہ اس سے تمہارا اور تمہارے بھائیوں کا خون بہے گا۔۔۔الاحتجاج طبرسی۱/۳۵۵

[۳:- یعنی دین اسلام کا قیام ان چار چیزوں پر موقوف ہے۔

۱۱۴

۲۔اس غنی سے جو دینداروں پر فضل کرنے میں کنجوسی نہیں کرتا۔

۳۔ اس فقیر سے کہ جو اپنی دنیا کے بدلے اپنی آخرت نہیں بیچتا۔

۴۔اس جاہل سے جو علم حاصل کرنے میں تکبر نہیں کرتا۔

پس جب عالم اپنا علم چھپانے لگے،غنی اپنے مال میں کنجوسی کرنے لگے ،فقیر اپنی آخرت کو دنیا کے بدلے بیچ ڈالے،اور جاہل طلب علم سے تکبر کرنے لگے تو دنیا پیچھے کی جانب پلٹ جائے گی۔پھر تمہیں مال کی کثرت اور قوم کا مختلف ٹکڑوں میں بکھرا ہونا تعجب میں نہ ڈالے۔

پوچھا گیا:

اے میرالمومنین ؑ اس زمانے میں زندگی کیسے گزاریں ؟

فرمایا:

ظاہر میں ان کے ساتھ مل کر رہو لیکن باطن میں ان کے مخالف رہو۔ آدمی جو کچھ کماتا ہے اسے وہی ملتا ہے اور جس کے ساتھ محبت کرتا ہے وہ اسی کے ساتھ محشور ہوگا۔اس کے ساتھ اللہ کی طرف سے فرج(کشائش) کا انتطار کرو۔(۱)

____________________

۱:- الخصال ص۱۹۷ ح۵

۱۱۵

اس باب میں بہت سی روایات ہیں جن میں سے کچھ میں نے اپنی کتاب مکیال المکارم(۱) میں ذکر کی ہیں۔

۴۴ ۔ چوالیسواں عمل:۔

گناہوں سے حقیقی توبہ کرنا:

اگرچہ درست ہے کہ حرام اعمال سے توبہ کرنا ہر زمانے میں واجب ہے لیکن اس زمانے (زمانہ غیبت) میں اس کی اہمیت اس لیے زیادہ ہے کیونکہ حضرت صاحب الامر ؑ کی غیبت اور اس کے طولانی ہونے کے اسباب میں سے ایک سبب ہمارے بہت بڑے اور کثیر گناہ ہیں۔پس یہ گناہ ظہور میں رکاوٹ کا باعث ہیں۔ جیسا کہ بحارالانوار میں امیر المومنین ؑ سے روایت ہے اور اسی طرح امام ؑ کی ایک توقیع مبارک کہ جواحتجاج میں مروی ہے کہ فرمایا:

"ہمیں ان سے کوئی چیز روکے ہوئے نہیں ہے سوائے ہم تک پہنچنے والے (وہ اعمال) کہ جنہیں ہم ناپسند کرتے ہیں اور ان سے ان اعمال کا سر زدہونا پسند نہیں کرتے ۔"(۲)

____________________

۱:- مکیال المکارم ۲/۲۸۴

۲:- الاحتجاج ۲/۳۲۵ اور انہوں نے بحارالانوار ۵۳/۱۷۷ سے

۱۱۶

تو بہ یہ ہے کہ اپنے گزشتہ گناہوں پر پشیمان ہو کر مستقبل میں انہیں ترک کرنے کا عزم کرنا۔ اس کی علامت یہ ہے کہ جو واجبات چھوڑے ہیں (انہیں ادا کرکے)ان سے اپنا ذمہ بری کرانا،اور اپنے ذمے لوگوں کے جو حقوق باقی ہوں انہیں ادا کرنا اور گناہوں کی وجہ سے اپنے بدن پر بڑھے ہوئے گوشت کو ختم کرنا اور عبادت کی اس قدر مشقت برداشت کرنا کہ گناہوں کی لذت بھول جائے۔اور یہ چھ کام انجام دینے سے توبہ کامل ہوجاتی ہےاور ویسی توبہ بن جاتی ہے کہ جیسی امیرالمومنینؑ سے متعدد کتابوں میں بیان ہوئی ہے۔

پس اپنے نفس کو خبر دار کرو اوریہ نہ کہو کہ بالفرض اگر میں توبہ کر بھی لوں پھر بھی بہت سے لوگ توبہ نہیں کر یں گے پس امام ؑ کی غیبت جوں کی توں باقی رہے گی۔ پس تمام لوگوں کے گناہ امام ؑکی غیبت کو بڑھاتے ہیں اور ظہور میں تاخیر کا سبب ہیں۔

تو میں جواب میں کہتا ہوں کہ : اگر ساری مخلوق امامؑ کے ظہور میں تاخیر کا سبب ہے تو آپ اپنے نفس کی طرف دیکھیں کہ وہ ان لوگوں کے ساتھ تونہیں ہے مجھے خوف ہے کہ کہیں آپ بھی ویسے ہی شمار نہ ہونے لگیں جیسے ہارون رشید نے امام موسی کاظم ؑ ،مامون نے امام رضاؑ کو اور متوکل نے امام علی نقی ؑ کو سامرء میں قید کیے رکھا۔

۱۱۷

۴۵ ۔ پینتالیسواں عمل:۔

روضۃ الکافی میں امام صادقؑ سے مروی ہے کہ فرمایا: "جب تم میں سے کوئی قائم ؑ کی تمنا کرے تو اسے چاہیے کہ عافیت میں تمنا کرے کیونکہ اللہ تعالی نے محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو رحمت بنا کر بھیجا تھا اور قائم ؑ کو انتقام لینے والا بنا کر بھیجے گا۔"(۱)

مصنف:یعنی ہم اللہ سے دعا کریں کہ ہم امامؑ سے اس حال میں ملاقات کریں کہ ہم مومن ہوں اور آخری زمانے کی گمراہیوں سے عافیت میں ہوں تاکہ ہم امام ؑ کے انتقام کا نشانہ نہ بن جائیں۔

۴۶ ۔ چھیالیسواں عمل:۔

لوگوں کو امام ؑ سے محبت کی دعوت دینا۔

مومن کو چاہیے کہ لوگوں کو امام ؑ سے محبت کی دعوت دے۔ ان کے سامنے امام ؑ کے لوگوں پر احسان ، ان کی برکات ،ان کے وجود کے فائدے ،اور ان کی لوگوں سے محبت جیسی باتیں بیان کرکے انہیں امامؑ سے محبت کی طرف

____________________

۱:- الکافی ۸/۲۳۳ ح۳۰۶

۱۱۸

بلائے اور انہیں ان اعمال کی تشویق دلائے کہ جن سے امامؑ کی محبت حاصل کی جاتی ہے۔

۴۷ ۔ سینتالیسواں عمل:۔

امام ؑ کا زمانہ غیبت طویل ہونے کی وجہ سے دل سخت نہ کریں بلکہ مولا کی یاد سے دلوں کو نرم و تروتازہ رکھیں۔اللہ رب العالمین نے قرآن کی سورہ حدید میں فرمایا ہے:

أَلَمْ يَأْنِ لِلَّذِينَ آمَنُوا أَنْ تَخْشَعَ قُلُوبُهُمْ لِذِكْرِ اللَّهِ وَما نَزَلَ مِنَ الْحَقِّ وَلا يَكُونُوا كَالَّذِينَ أُوتُوا الْكِتابَ مِنْ قَبْلُ فَطالَ عَلَيْهِمُ الأْمَدُ فَقَسَتْ قُلُوبُهُمْ وَكَثِيرٌ مِنْهُمْ فاسِقُون

"کیا مومنین کے لیے ابھی وقت نہیں آیا کہ ان کے دل ذکر خدا سے اور نازل ہونے والے حق سے نرم ہو جائیں اور وہ ان لوگوں کی طرح نہ ہو جائیں جنہیں پہلے کتاب دی گئی پھر ایک طویل مدت ان پر گزر گئی تو ان کے دل سخت ہوگئےاور ان میں سے بہت سے لوگ فاسق ہیں۔"(۱)

اور برہان میں امام صادق علیہ السلام سے روایت ہے(۲) کہ آپ نے فرمایا: یہ آیۃ

____________________

۱:- سورۃ حدید :۱۶

۲:- البرہان ۴/۲۹۱ ،ج۱

۱۱۹

وَلا يَكُونُوا كَالَّذِينَ أُوتُوا الْكِتابَ مِنْ قَبْلُ فَطالَ عَلَيْهِمُ الأْمَدُ فَقَسَتْ قُلُوبُهُمْ وَكَثِيرٌ مِنْهُمْ فاسِقُون

(ان لوگوں کی طرح نہ ہونا کہ جنہیں اس سے پہلے کتاب دی گئی پھر ان پر مدت طویل ہوگئی تو ان کے دل سخت ہوگئے اوران میں سے اکثر فاسق ہیں )

زمانہ غیبت کے لوگوں کے لیے نازل ہوئی ہے۔

پھر فرمایا:

اعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ يُحْيِ الأْرْضَ بَعْدَ مَوْتِها

جان لو کہ اللہ زمین کو مردہ ہونے کے بعد پھر زندہ کرے گا۔

امام محمد باقر ؑ نے "زمین کے مردہ ہونے " کا معنی بیان کرتے ہوئے فرمایا: اس سے مراد اہل زمین کا کفرہے اور کافر مردہ ہوتاہے۔اللہ اسے قائم کے ذریعے زندہ کرے گا۔پس وہ زمین میں عدل قائم فرمائیں گے پس زمین زندہ ہو جائےگی اور اہل زمین بھی مردہ ہونے کے بعد زندہ ہو جائیں گے۔(۱)

اور کمال الدین میں امیرالمومنین ؑ سے صحیح سند کے ساتھ روایت ہے کہ فرمایا:

"ہمارے قائم کے لیے ایسی غیبت ہے کہ جس کی مدت طویل ہے گویا میں دیکھ رہا ہوں شیعہ ان کی غیبت میں ریوڑ کی طرح سرگرداں ہیں ۔وہ چراگاہ کی

____________________

۱:- البرہان ۴/۲۹۱ ،ج۴

۱۲۰

تلاش میں ہیں مگر وہ اسےنہیں پاتے مگر جو اپنے دین پر ثابت قدم رہ جائیں اور امام ؑ کی غیبت سے تنگ دل نہ ہوں تو ایسے لوگ قیامت کے دن میرے ساتھ میرےہم درجہ ہوں گے۔"(۱)

مصنف: اے صاحب الزمان ؑ کے منتظر مومنین ! ا س عظیم بشارت پر تمہارے دل مسرور اور تمہاری آنکھیں ٹھنڈی ہونی چاہیں کیونکہ یہ تمام بشارتوں میں سب سے عظیم بشارت ہے۔ اور کوشش کرو کہ تمہارے دل نرم رہیں اور امامؑ زمانہ کی غیبت کے زمانہ میں تنگ دل نہ ہوں ۔

اگر آپ یہ اعتراض کریں کہ دل کی نرمی وسختی تو ہمارے اختیار میں نہیں۔تو میں بھی یہ بات تسلیم کرتا ہوں لیکن اس کے مقدمات اور اسباب تو آپ کے اختیار میں ہیں۔ یعنی آپ ایسے اعمال بجا لاسکتے ہیں کہ جن سے آپ کے دل صاف ہو جائیں اور ایسے اعمال بھی کر سکتے ہیں جن سے آپ کے دل سخت ہو جائیں ۔پس اگر آپ دل کی سختی سے ڈرتے ہیں تو وہ اعمال ترک کر دیں جو قساوت قلبی کا باعث بنتے ہیں اور وہ اعمال پابندی سے انجام دیں جو دلوں کو صاف اورنرم کریں ۔ جیساکہ صاحب مجمع البیان نے مذکورہ آیۃ کی تفسیر میں فرمایا : پس ان کے دل سخت ہوگئے اور ان کا خشوع زائل ہوگیا اور وہ گناہوں کے عادی بن گئے۔(۲)

____________________

۱:- کمال الدین ۱/۳۰۳ ،ج۱۴

۲:- مجمع البیان ۹/۲۳۸

۱۲۱

امام محمد باقر علیہ السلام سے مروی ہے کہ فرمایا: اللہ تعالی گناہ پر اتنا عذاب نہیں دے گا جتنی سزا قساوت قلبی پر دے گا۔(۱)

یہاں پر میں اپنی اور اپنے بھائیوں کی نصیحت کے لیے چند امور ذکر کروں گا کہ جنہیں میں نے کتب حدیث میں دیکھا ہے اور اللہ ہی سے توفیق کا طالب ہوں۔

وہ امور کہ جن سے دل نرم اور رقیق بن جاتا ہے:

۱ حضرت بقیۃ اللہ عجل اللہ فرجہ الشریف کے ذکر اور ان کی صفات ،ان کے فضائل و خصائل پر مشتمل مجالس میں حاضر ہونا اور اہل بیت ؑ کے وعظ و نصیحت پر مشتمل مجالس میں شرکت ،اور قرآن کی مجالس میں شرکت کرنا بشرطیکہ آیات قرآنی کے معانی میں غور کیا جائے۔

۲ زیارت قبور

۳ موت کو کثرت سے یاد کرنا

۴ یتیموں کے سر پر ہاتھ رکھنا ،ان سے محبت کرنا اور ان پر احسان کرنا۔

وہ امور جو قساوت قلبی کا باعث ہیں:

۱ ذکر خدا کو ترک کرنا۔

____________________

۱:- تحف العقول :۲۹۶ (وما ضرب عبد بعقوبة اعظم من قساوت القلب )

۱۲۲

۲ حرام طعام کھانا۔

۳ اہل دنیا کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا اور ان سے کثرت سے ملاقات کرنا۔

۴ پیٹ بھر کر کھانا۔

۵ بہت زیادہ ہنسنا

۶ کھانے پینے کے بارے میں بہت سوچنا۔

۷ ان چیزوں کے بارے بہت زیادہ گفتگو کرنا کہ جو آخرت میں کوئی فائدہ نہیں رکھتیں۔

۸ لمبی امیدیں رکھنا ۔

۹ اول وقت میں نماز ادا نہ کرنا۔

۱۰ فاسقوں اور معصیت کاروں کے ساتھ بیٹھنا اور میل جول رکھنا ۔

۱۱ ایسی باتیں غور سے سننا کہ جو آخرت میں کسی کام کی نہیں۔

۱۲ لہو و لعب کی خاطر شکار پہ جانا۔

۱۳ دنیوی امور میں ریاست کی زمہ داری لینا،سر پرستی کرنا۔

۱۴ بے حیائی کے مقامات پر جانا۔

۱۵ عورتوں کے ساتھ میل جول رکھنا۔

۱۶ دنیوی اموال کی کثرت ۔

۱۷ توبہ ترک کرنا۔

۱۸ موسیقی سننا۔

۱۲۳

۱۹ نشہ آور چیزیں اور حرام مشروب کا پینا شراب وغیرہ۔

۲۰ اہل علم کی محفلوں کو ترک کرنا۔یعنی ایسی مجالس میں حاضر نہ ہونا کہ جو دلوں کو پاک صاف اور نرم کرتی ہیں۔ جن میں احکام دین بیان کیے جاتے ہوں اور آئمہ طاہرین کی احادیث اور ان کے مواعظ حسنہ بیان کیے جاتے ہوں۔اسی طرح حضرت صاحب الزمان ؑ کے خصائل بیان کیے جاتے ہوں۔ قرآنی آیات پڑھی جاتی ہوں۔خصوصا ایسی محفل کہ جس میں احادیث بیان کرنے والا خود ان پر عمل پیرا بھی ہوں۔کیونکہ اس کے قول سے سننے والے کے دل پر ایک خاص اثر ہوتا ہے۔ جیسا کہ

امام رضا ؑ سے روایت ہے کہ فرمایا:

"جو شخص ایسی مجلس میں بیٹھے کہ جس میں ہمارے امر کو زندہ کیاجاتا ہو تو اس کا دل اس دن مردہ نہیں ہوگا جس دن لوگوں کے دل مردہ ہوجائیں گے۔"(۱)

____________________

۱:- امالی الصدوق ۶۸/المجلس ۱۷ ح۴، بحارالانوار ۴۴/۲۷۸ ح۱

۱۲۴

خلاصہ:

اپنی قساوت قلبی ختم کرکے اپنے دلوں کو نرم کریں ۔کہیں معاملہ یہاں تک نہ پہنچ جائے کہ آپ کے دل پر کوئی وعظ و نصیحت اثر ہی نہ کرے اور پھر رحمت خدا سے محروم رہ جائیں۔

۴۸ ۔ اڑتالیسواں عمل:۔

حضرت صاحب الزمان ؑ کی نصرت پر اتفاق اور اجتماع کرنا۔

یعنی مومنین کے دل آپس میں امام ؑ کی نصرت پر متفق ہوں اور ان کی نصرت پر ایک دوسرے سے عہد و پیمان باندھیں اور اس عہد کو پورا کرنے کا تہیہ کریں ۔

جیسا کہ شیخ مفید کو امام ؑ کی لکھی گئی ایک توقیع مبارکہ میں بیان ہوا ہے۔یہ وہ آخری توقیع ہے جسے شیخ الجلیل احمد بن ابی طالب الطبرسی نے کتاب الاحتجاج میں ذکر کیا ہے۔ اس میں مذکور ہے کہ :

اگر ہمارے شیعوں کو اللہ اطاعت کی توفیق دے اور ان کے دل ہمارے ساتھ اپنے عہد کو پورا کرنے کے لیے جمع ہو جائیں تو ہماری ملاقات میں کوئی تاخیر نہ ہوتی اور وہ جلد ہماری زیارت کی سعادت حاصل کرتے۔(۱)

____________________

۱:- الاحتجاج ۲/۳۲۵

۱۲۵

۴۹ ۔ انچاسواں عمل:۔

اپنے واجب مالی حقوق زکوٰۃ ،خمس اور سھم امام ؑ کی ادائیگی کا اہتمام کریں ۔

اگرچہ یہ کام ہر زمانے میں واجب ہے لیکن غیبت امام ؑ کے زمانہ میں اس کا ایک خاص اثر ہے اور اس بارے میں خصوصی حکم فرمایا گیا ہے۔

مذکورہ توقیع میں ہی امام ؑ فرماتے ہیں :

"اور ہم آپ سے عہد کرتے ہیں ۔۔۔کہ آپ کے دینی بھائیوں میں سے جو بھی تقوی اختیار کرے گا اور اپنے زمے واجب حقوق کو ان کے مستحقین تک پہنچائے گا تو وہ فتنہ باطلہ اور گمراہی کی تاریکیوں سے امان میں رہے گا ااور جو شخص اللہ کی دی ہوئی نعمتوں میں سے مستحقین کو ان کا حق پہنچانے سے بخل کرے گا تو وہ دنیا و آخرت میں خسارے میں رہے گا۔(۱)

نوٹ:۔

کسی شخص پر عائد ہونے والے مالی حقوق میں سے ایک یہ بھی ہے کہ وہ ہر سال رقم کی ایک خاص مقدارامام زمانہؑ کے لیے ہدیہ کرے۔ اور یہ واجب سھم امام ؑ سے ہٹ کر ہے۔کیونکہ سھم امام تو کچھ خاص اشیاء پر خاص صورتوں میں واجب ہوتا ہے کہ جن کی ذکرفقہی کتابوں میں موجود ہے۔لیکن اپنے مال میں

____________________

۱:- البحار ۹۶/۲۱۶، البرہان ۱/۲۹۷

۱۲۶

سے ایک خاص رقم امام کے لیے سالانہ ہدیہ کرنے کی کوئی خاص شرط نہیں ہے بلکہ یہ ہر کسی کے لیے ہے چاہے فقیر ہو یا امیر ، ہر حا ل میں واجب ہے کہ سالانہ امام ؑ کی خدمت میں کچھ ہدیہ کرے۔

بحارالانوار اور البرہان میں مفضل سے روایت ہے کہ انہوں نے فرمایا:

میں ایک دن امام صادق ؑ کی خدمت میں حاضر ہوا اور میرےپاس کوئی چیز تھی جسے امام ؑ کے سامنے رکھ دیا ۔ تو انہوں نے پوچھا : یہ کیا ہے؟ میں نے عرض کیا: یہ آپ کے چاہنے والوں کی طرف سے ہدیہ ہے۔ تو آپ نے فرمایا: اے مفضل ! میں اسے قبول کرتا ہوں لیکن اس لیے نہیں کہ مجھے اسکی ضرورت ہے بلکہ فقط اس لیے کہ اس سے ان کا تزکیہ ہوگا۔ پھر فرمایا: میں نے اپنے پدر گرامی سے سنا کہ فرمایا: جس شخص پر سال گزر جائے اور اس کے مال میں سے کم یا زیادہ کچھ بھی ہم تک نہ پہنچے تو اللہ بروز قیامت اس کی طرف نظر (رحمت )نہیں فرمائے گا مگر یہ کہ اللہ اسے معاف کر دے۔ پھر فرمایا: اے مفضل! یہ وہ فریضہ ہے جسے اللہ نے اپنی کتاب میں ہمارے شیعوں پر فرض کیا ہے۔

ارشاد ہوا:

لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتَّـٰى تُنْفِقُوْا مِمَّا تُحِبُّوْنَ ۚ

۱۲۷

"تم ہرگز نیکی کو نہیں پا سکتے یہاں تک کہ اپنی پسندیدہ چیزوں میں سے خرچ نہ کرو۔"(۱)

ایک اور حدیث میں آیۃ شریفہ "وَالَّـذِيْنَ يَصِلُوْنَ مَآ اَمَرَ اللّـٰهُ بِهٓ اَنْ يُّوْصَلَ " کی تفسیر میں فرمایا: "یہ امام ؑ کا صلہ (ہدیہ)ہے کہ جو ہر سال دینا ہوتا ہے چاہے کم ہو یا زیادہ۔ پھر فرمایا: اوراس سے ہم کچھ نہیں چاہتے سوائے یہ کہ تمہارا تزکیہ ہو۔"(۲)

ایک اور حدیث میں فرمایا:

"اپنے اموال میں سے آل محمد علیہم السلام کے لیے صلہ(ہدیہ ) کو ترک نہ کرو۔جو ٖغنی ہو وہ اپنی حیثیت کے مطابق اور جو نادار ہو وہ اپنی حیثیت کے مطابق دے۔اور جو چاہتاہے کہ اللہ اس کی حاجات پوری کرے تو وہ اپنی سب سے ضروری چیزوں میں سے آل محمد اور ان کے شیعوں کو ہدیہ کرے۔"(۳)

اور فقیہ میں امام جعفر صادق ؑسے روایت ہے کہ :

____________________

۱:- بحارالانوار ۹۶/۲۱۶ البرہان ۱/۲۹۷ اور آیۃ سورہ آل عمران:۹۲

۲:- بحارالانوار ۹۶/۲۱۶ ح۵ البرہان ۲/۲۸۹ اورآیہ سورہ رعد:۲۱

۳:- بحارالانوار ۹۶/۲۱۶ ح۶

۱۲۸

"ایک درھم جو امام تک پہنچایا جائے وہ ان دس لاکھ درہموں سے بہتر ہے کہ جو راہ خدا میں کسی اور کو دیئے جائیں۔"(۱)

مصنف:اور یہ سچے خوابوں میں سے ایک ہے کہ میں نے ایک رات عالم خواب میں ایک جلیل القدر شخصیت کو دیکھا جس نے کہا: بندہ مومن اپنے مال میں سے جوچیز زمانہ غیبت میں امام کے لیے خرچ کرتا ہے اس کا ثواب زمان حضور میں بھیجی گئی چیز کے مقابل ایک ہزار ایک مرتبہ زیادہ ہوتا ہے۔

اکیاونویں عمل میں بھی اسی کی تائید میں حدیث آئے گی۔

یاد رہے کہ اس زمانے میں جبکہ امام ؑ پردہ غیبت میں ہیں ،ضروری ہے کہ مومن امام کے لیے جو ہدیہ پیش کرتا ہے اسے ان امور میں صرف کرے جو امام ؑ کے پسندید ہ ہوں۔مثلا امام سے متعلقہ لکھی گئی کتابوں کی طباعت میں صرف کرے۔یا ان مجالس میں صرف کرے جہاں امام ؑ کے فضائل و اخلاق بیان کیے جاتے ہوں یاامام ؑ کے چاہنے والوں کو امام کی طرف سے بطور ہدیہ پیش کرے۔ اسی طرح اہم کو غیر اہم پر ترجیح دے۔واللہ العالم۔

اسی طرح یہ بھی حقوق مالیہ میں سے ہے کہ بندہ صلہ رحمی کرے ،اپنے پڑوسیوں کی مدد کرے حتی کہ انہیں گھر کی ضروری چیزیں عاریۃ دے مثلا برتن

____________________

۱:- من لا یحضرہ الفقیہ ۲/۷۲

۱۲۹

اور چراغ وغیرہ اور اگر وہ کم قیمت چیزوں کی ضرورت محسوس کریں جیسے نمک وغیرہ تو ایسی چیزیں بھی انہیں ہدیہ کر دے۔

۱۳۰

۵۰ ۔ پچاسواں عمل:۔

المرابطہ

مرابطہ کی دو قسمیں ہیں:

پہلی قسم:

یہ قسم فقہاء نے کتاب الجہاد میں ذکر کی ہے۔اس سے مراد یہ ہے کہ سرحد کے قریب کسی وادی میں ٹھہرے اور کفار کے شہروں کے قریب اپنی سواری باندھے تاکہ اگر کفار مسلمانوں پر حملہ کرنے نکلیں تو اس کی مسلمانوں کو اطلاع دے۔یا اگر کفار مسلمانوں پر تجاوز و زیادتی کریں تو وہ مسلمانوں کا دفاع کرے۔یہ عمل مستحب مؤکد ہے چاہے زمانہ حضور ہو یا زمانہ غیبت ہو۔جیسا کہ علامہ نے ارشاد میں اور شہید نے الروضہ میں ذکر کیا ہے۔ اور رسول خدا ؐ سے روایت ہے کہ فرمایا: "

ہر مرنے والے کا عمل رک جاتا ہے سوائے راہ خدا میں مرابطہ کرنے والے کے۔کیونکہ اس کا عمل قیامت تک نمو پاتا ہے۔اور وہ قبر کی آزمائش (عذاب) سے محفوظ رہتا ہے۔"(۱)

____________________

۱:- المنتہیٰ ۲/۹۰۲

۱۳۱

ایک اور روایت میں جو جواہر اور منتہیٰ میں وارد ہوئی ہے ،حضور فرماتے ہیں:

"ایک رات راہ خدا میں گھوڑا لے کر (مرابطہ کرنا) ایک مہینے کے روزوں اور نمازوں سے بہتر ہے۔"(۱)

مرابطہ کی اس قسم کی دو شرائط ہیں:

۱ کسی ایسے علاقہ یا مقام پر وقوف کیا جائے (سرحدی علاقہ) کہ جہاں سے اسلامی شہروں کی حفاظت کی جائے۔ رسول خداؐ نے یہ کام (ملک کے) اطراف سے شروع کیا (جہاں سے دشمن کے حملہ کا خطرہ ہوتا ہے)۔اسی لیے فقہاء نے کہا: اگر بندہ اس جگہ ٹھہرنے پر قادر نہیں تو اسے چاہیے کہ کسی اور شخص کو اپنی نیابت میں وہاں ٹھہرائے۔

۲ مرابطہ کی کم از کم مدت تین دن ہے۔ جیسا کہ ارشاد وغیرہ میں مذکور ہے اور زیادہ سے زیادہ مدت چالیس دن ہے۔ لیکن اگر کوئی چالیس دن سے زیادہ ٹھہرے تو وہ مجاہدین میں سے شمار ہوگااور راہ خدا میں جہاد کرنے والے کا ثواب ملے گا۔

____________________

۱:- جواہر الکلام: مجلد الحج والجہاد ص۵۵۵، المنتہیٰ: ۲/۹۰۲

۱۳۲

دوسری قسم:۔

مرابطہ یعنی اپنا گھوڑا (سواری) اور تلوار (اسلحہ) تیا ررکھے تاکہ ظہور امام ؑ کی صورت میں ان کی نصرت کر نے کی قوت و استعداد حاصل کرے۔ مرابطہ کی اس قسم کا کوئی وقت اور مقام معین نہیں ہے۔ روضۃ الکافی میں ابو عبداللہ الجعفی سے مروی ہے کہ : مجھ سے ابو جعفر بن علیؑ نے فرمایا: تمہارے پاس کتنے گھوڑے ہیں؟ میں نے کہا چالیس۔ فرمایا لیکن ہمارا مرابطہ پورے زمانے کا ہے۔ پس جو شخص ہماری خاطر ایک گھوڑا تیار رکھے تو اسے اس کے وزن اور جو کچھ اس کے پاس ہوگا اس کے وزن کےبرابر (اجر ملے گا) اور جو ہمارے لیے اسلحہ تیار رکھے (نصرت کے لیے) تو اسے اس کے وزن کے برابر اجر ملے گا۔ پس ایک مرتبہ سے دو سری مرتبہ ،تیسری مرتبہ اور چوتھی مرتبہ (جنگی تیاری) سے مت گھبراؤ اور بے صبری مت کرو۔ کیونکہ ہماری اور تمہاری مثال اس نبی کی سی ہے جو بنی اسرائیل کے پاس موجود ہو۔ پس اللہ نے ان کی طرف وحی فرمائی کہ اپنی قوم کو جنگ کے لیے تیار کرو میں تمہاری نصرت کروں گا ۔ پس انہوں نے قوم کو پہاڑوں کی چوٹیوں اور دیگر مقامات سے اکٹھا کیا۔ پھر ان کی طرف رخ کیا پھر (جنگ ہوئی) اور انہوں نے تلواروں اور نیزوں سے لڑائی کی حتی کہ شکست کھا گئے۔ پھر اللہ نے ان کی طرف وحی کی کہ اپنی قوم کو جنگ کی طرف بلاؤ۔ پھر انہوں نے بلایا تو قوم نے کہا: آپ نے نصرت کا وعدہ کیا تھا مگر نصرت کیوں نہ

۱۳۳

کی؟تو اللہ نے وحی فرمائی کہ : یا تو یہ جنگ کا راستہ اختیار کریں یاپھر جہنم کا۔ تو نبی نے کہا : اے رب مجھے جہنم کی نسبت جنگ پسند ہے۔پس پھر قوم کو بلایا تو اس میں سے اہل بدر کی تعداد کے برابر ۳۱۳ نے جواب دیااور حامی بھرلی۔پس پھر نبی ان کے ساتھ ہوئے اور تلواروں اور نیزوں سے لڑائی ہوئی اور اللہ نے انہیں فتح عطا فرمائی۔(۱)

علامہ مجلسی نے اس کی تشریح میں فرمایا کہ: رِبَاطُنَا رِبَاطُ اَلدَّهْرِ ۔ ہمارا مرابطہ پورے زمانے کامرابطہ ہے۔ اس سے مراد یہ ہے کہ ہمارے شیعوں کو چاہیے کہ وہ خود کو امام حق کی اطاعت کے لیے آمادہ رکھیں اور ان کے ظہور کے منتظر رہیں اور ان کی نصرت کے لیے مستعد رہیں۔

اسی طرح امام ؑکے قول۔۔۔۔۔کہ اسے اس کے وزن جتنا ثواب ملے گا۔۔۔الخ کی تشریح میں فرمایا:کہ اس شخص کو اس سواری کے وزن کے دوگنا برابر ہر روز سونا اور چاندی صدقہ کرنے کا ثواب ملے گا۔(۲) والله العالم

اسی مورد میں اور بھی روایات موجود ہیں جنہیں میں نے اپنی کتاب مکیال المکارم کے جزء ثانی میں درج کیاہے۔

____________________

۱:- روضۃ الکافی :ص۳۸۱

۲:-مکیال المکارم: ۲/۳۹۷

۱۳۴

۵۱ ۔ اکیاونواں عمل:۔

اپنے اندر صفات حمیدہ اور اخلاق کریمہ پیدا کریں ۔

شرعی واجبات و عبادات بجا لائیں ۔ خود کو گناہوں سے محفوظ رکھیں کہ شریعت نے گناہوں سے روکا ہے۔یہ اس لیے کہ کیونکہ ان امور کی زمانہ غیبت میں رعایت کرنا زمانہ حضور سے زیادہ مشکل ہے۔کیونکہ اس زمانے میں فتنے زیادہ ہیں ، ملحدوں ،شک ڈالنے والوں اور مومنین کو گمراہ کرنے والوں کی کثرت ہے۔ اسی لیے حدیث نبوی ؐ میں ہے کہ نبیﷺ نے امام علی علیہ السلام سے فرمایا:

"اے علی علیہ السلام !لوگوں میں سب سے باعظمت ایمان رکھنے والے اورسب سے زیادہ یقین رکھنے والے لوگ وہ ہیں جو آخری زمانے میں ہوں گے کہ وہ ابھی نبی ؐ سے ملحق نہیں ہوئے تھےکہ نبی ؐ ان کے درمیان سے اٹھا لیے گئے تو وہ سفیدی پر سیاہی کے ساتھ ایما ن لائے۔(۱) ۔(سفیدی پر سیاہی اشارہ ہے کاغذوغیرہ پر لکھی ہوئی تحریروں کی طرف۔یعنی ان لوگوں نے آنکھوں سے نبی ﷺ کو نہیں دیکھا بلکہ ان کے بارے میں جو کچھ لکھا ہوا پڑھا اس پر ایمان لے آئے۔)

اسی طرح بحارالانوار میں امام جعفر صادق علیہ السلام سے مروی ہے کہ فرمایا:

"جو شخص چاہتا ہے کہ وہ حضرت قائم عجل اللہ فرجہ الشریف کے اصحاب میں سے قرار پائے تو اسے چاہیے کہ انتظار کرے اور حالت انتظار میں

____________________

۱:- کمال الدین ۱/۲۸۸ ح۸

۱۳۵

تقوی اور حسن اخلاق کا دامن تھامے رکھے ۔پس اگر قائم ؑ کے قیام کے وقت وہ زندہ نہ ہوا تو اسے وہی اجر ملے گا جو قائمؑ کے ساتھی کو ملے گا۔(۱)

اور کافی میں امام صادق علیہ السلام سے مروی ہے کہ فرمایا:

"تم میں سے جو شخص دشمن سے چھپ کر فریضہ نماز کو اپنےوقت پر ادا کرے گا اور مکمل کرلے تو اللہ تعالی اس کے پچیس فریضہ نمازوں کا ثواب لکھے گا۔اوراگر کوئی مومن نافلہ نمازکو اپنے وقت پر اداکرے تو اللہ اس کے لیے دس نافلہ نمازوں کاثواب لکھے گا۔اور تم میں سے جو کوئی ایک نیکی بجالائے تو اللہ اس کے لیے دس نیکیوں کا ثواب لکھے گا۔اور اگر کوئی مومن اپنے اعمال اچھے طریقے سے انجام دے تو اللہ اس کی نیکیوں میں کئی گنا اضافہ کر دیتا ہے۔اسی طرح جو شخص تقیہ کے ذریعے اپنے دین ،اپنے امام ،اور اپنی جان کی حفاظت کرے تو اسے کئی گنا زیادہ اجر عطا کرتا ہے ۔بے شک اللہ عزوجل کریم ہے۔"(۲)

اگر آپ کہیں کہ اس زمانہ میں جبکہ ہمارے امام غائب ہیں تو ہم کس طرح تقیہ کے ذریعے ان کی حفاظت کر سکتے ہیں ؟ تو جوابا عرض ہے کہ بہت سے ایسے مواقع پیش آتے ہیں کہ جن میں تقیہ واجب ہوتا ہے۔ کیا آپ نہیں دیکھتے کہ دشمن لوگ امام ؑکی بے ادبی کرتے ہیں اور ان کے لیے پست الفاظ استعمال

____________________

۱:- بحارالانوار ۵۲/۱۳۰

۲:- الکافی :۱/۳۳۳

۱۳۶

کرتے ہیں اور ایسی باتیں کہتے ہیں جو انہیں نہیں کہنی چاہیں ۔ایسے مواقع پہ تقیہ کی مخالفت کرنے والے(تقیہ چھوڑنے والے) در اصل اما مؑ کی اس توہین کا سبب بن رہے ہوتے ہیں ۔

جیسا کہ اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا:

وَلَا تَسُبُّوا الَّـذِيْنَ يَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّـٰهِ فَـيَسُبُّوا اللّـٰهَ عَدْوًا بِغَيْـرِ عِلْمٍ "

جو غیر اللہ کو پکارتے ہیں انہیں گالیاں نہ دو ورنہ وہ جواباً اللہ کو لاعلمی اور دشمنی کی بنا پر گالیاں دیں گے۔"(۱)

اس باب میں بہت سی روایات موجود ہیں ۔

۵۲ ۔ باون واں عمل:۔

جمعہ کے دن امام عجل اللہ فرجہ الشریف سے متعلقہ دعا ء ندبہ پڑھنا۔

اسی طرح یہی دعا عید غدیر ،عید الفطر اور عید الاضحیٰ کے موقع پر خشوع وخضوع سے پڑھی جائے۔جیسا کہ زاد المعاد میں روایت موجود ہے۔(۲)

۵۳ ۔ ترپن واں عمل:۔

یوم جمعہ میں خود کو امامؑ کا مہمان قرار دیتے ہوئے وہ زیار ت پڑھنا کہ سید ابن طاوس نے کتاب جمال الاسبوع میں ذکر کیا ہے۔

____________________

۱:- سورۃ انعام:۱۰۸

۲:- زادالمعاد:۴۳۸

۱۳۷

السَّلاَمُ عَلَيْكَ يَا حُجَّةَ اللَّهِ فِي أَرْضِهِ،

السَّلاَمُ عَلَيْكَ يَا عَيْنَ اللَّهِ فِي خَلْقِهِ،

‏السَّلاَمُ عَلَيْكَ يَا نُورَ اللَّهِ الَّذِي يَهْتَدِي بِهِ الْمُهْتَدُونَ وَيُفَرَّجُ بِهِ عَنِ الْمُؤْمِنِينَ‏،

السَّلاَمُ عَلَيْكَ أَيُّهَا الْمُهَذَّبُ الْخَائِفُ السَّلاَمُ عَلَيْكَ أَيُّهَا الْوَلِيُّ النَّاصِحُ،

‏السَّلاَمُ عَلَيْكَ يَا سَفِينَةَ النَّجَاةِ السَّلاَمُ عَلَيْكَ يَا عَيْنَ الْحَيَاةِ.

السَّلاَمُ عَلَيْكَ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْكَ وَعَلَى آلِ بَيْتِكَ الطَّيِّبِينَ الطَّاهِرِينَ.

السَّلاَمُ عَلَيْكَ عَجَّلَ اللَّهُ لَكَ مَا وَعَدَكَ مِنَ النَّصْرِ وَظُهُورِ الْأَمْرِ.

السَّلاَمُ عَلَيْكَ يَا مَوْلاَيَ أَنَا مَوْلاَكَ عَارِفٌ بِأُولاَكَ وَأُخْرَاكَ.أَتَقَرَّبُ إِلَى اللَّهِ تَعَالَى بِكَ وَبِآلِ بَيْتِكَ وَأَنْتَظِرُ ظُهُورَكَ وَظُهُورَ الْحَقِّ عَلَى يَدَيْكَ، ‏وَأَسْأَلُ اللَّهَ أَنْ يُصَلِّيَ عَلَى مُحَمَّدٍ وَآلِ مُحَمَّدٍ وَأَنْ يَجْعَلَنِي مِنَ الْمُنْتَظِرِينَ لَكَ وَالتَّابِعِينَ وَالنَّاصِرِينَ لَكَ عَلَى أَعْدَائِكَ وَالْمُسْتَشْهَدِينَ بَيْنَ يَدَيْكَ فِي جُمْلَةِ أَوْلِيَائِكَ‏.

يَا مَوْلاَيَ يَا صَاحِبَ الزَّمَانِ صَلَوَاتُ اللَّهِ عَلَيْكَ وَعَلَى آلِ بَيْتِكَ‏ هَذَا يَوْمُ الْجُمُعَةِ وَهُوَ يَوْمُكَ الْمُتَوَقَّعُ فِيهِ ظُهُورُكَ وَالْفَرَجُ فِيهِ لِلْمُؤْمِنِينَ عَلَى يَدَيْكَ وَقَتْلُ الْكَافِرِينَ بِسَيْفِكَ ‏وَأَنَا يَا مَوْلاَيَ فِيهِ ضَيْفُكَ وَجَارُكَ وَأَنْتَ يَا

۱۳۸

مَوْلاَيَ كَرِيمٌ مِنْ أَوْلاَدِ الْكِرَامِ وَمَأْمُورٌ بِالضِّيَافَةِ وَالْإِجَارَةِ فَأَضِفْنِي وَأَجِرْنِي صَلَوَاتُ اللَّهِ عَلَيْكَ وَعَلَى أَهْلِ بَيْتِكَ الطَّاهِرِينَ(۱)

۵۴ ۔ چون واں عمل:۔

کمال الدین اور جمال الاسبوع میں صحیح و معتبر روایت میں ہے کہ شیخ عثمان بن سعید العمری نے یہ دعا تلاوت کرنے کا حکم دیا ہے اور فرمایا: شیعوں پر واجب ہے کہ امام ؑ کی غیبت کے زمانہ میں اس دعا کی تلاوت کریں ۔

مصنف:یہ وہ جلیل القدر شخصیت ہیں جو غیبت صغریٰ میں امام ؑ کے نواب اربعہ میں سے پہلے نائب ہیں۔پس وہ جو کچھ فرماتے ہیں وہ سب امام ؑ زمان ؑ سے بیان ہواہوتا ہے۔میری روح ان پر فدا ہو۔پس بنا ء پر ایں آپ جب بھی اپنے اندر حسن توجہ حاصل کریں تو یہ دعا تلاوت کریں اور اس میں کوتاہی نہ کریں۔خصوصا سید ابن طاوس جمال الاسبوع میں فرماتے ہیں:

"کہ جو کچھ ہم نے ذکر کیا کہ نماز عصر کے بعد یہ دعا پڑھو تو اگر آپ کے لیے اس وقت پڑھنا مشکل ہو تو پھر بھی اس دعا کو ترک کرنے سے بچو۔یہ چیز ہم نے اللہ کے اس خاص فضل سے جانی ہے جس کے ساتھ اس نے ہمیں خاص کیا۔پس آپ اس پر اعتماد رکھیں۔"

____________________

۱:- جمال الاسبوع:۳۷

۱۳۹

اس عبارت سے پتا چلتا ہے کہ اس طرح کا امر حضرت صاحب العصر ؑ کی جانب سے سید رحمہ اللہ کی طرف صادر ہوا ہے۔ا ور یہ بات سید کے مقام سے بعید بھی نہیں۔

اور وہ دعا یہ ہے:

اللَّهُمَّ عَرِّفْنِي نَفْسَكَ فَإِنَّكَ إِنْ لَمْ تُعَرِّفْنِي نَفْسَكَ لَمْ أَعْرِفْ رَسُولَكَ‏.اللَّهُمَّ عَرِّفْنِي رَسُولَكَ فَإِنَّكَ إِنْ لَمْ تُعَرِّفْنِي رَسُولَكَ لَمْ أَعْرِفْ حُجَّتَكَ.اللَّهُمَّ عَرِّفْنِي حُجَّتَكَ فَإِنَّكَ إِنْ لَمْ تُعَرِّفْنِي حُجَّتَكَ ضَلَلْتُ عَنْ دِينِي.اللَّهُمَّ لاَ تُمِتْنِي مِيتَةً جَاهِلِيَّةً وَلاَ تُزِغْ قَلْبِي بَعْدَ إِذْ هَدَيْتَنِي.اللَّهُمَّ فَكَمَا هَدَيْتَنِي لِوِلاَيَةِ مَنْ فَرَضْتَ عَلَيَّ طَاعَتَهُ مِنْ وِلاَيَةِ وُلاَةِ أَمْرِكَ بَعْدَ رَسُولِكَ صَلَوَاتُكَ عَلَيْهِ وَآلِهِ ‏حَتَّى وَالَيْتُ وُلاَةَ أَمْرِكَ أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ عَلِيَّ بْنَ أَبِي طَالِبٍ وَالْحَسَنَ وَالْحُسَيْنَ وَعَلِيّاً وَمُحَمَّداً وَجَعْفَراً وَمُوسَى وَعَلِيّاً وَمُحَمَّداً وَعَلِيّاً وَالْحَسَنَ وَالْحُجَّةَ الْقَائِمَ الْمَهْدِيَّ صَلَوَاتُكَ عَلَيْهِمْ أَجْمَعِينَ.اللَّهُمَّ فَثَبِّتْنِي عَلَى دِينِكَ وَاسْتَعْمِلْنِي بِطَاعَتِكَ وَلَيِّنْ قَلْبِي لِوَلِيِّ أَمْرِكَ وَعَافِنِي مِمَّا امْتَحَنْتَ بِهِ خَلْقَكَ ‏وَثَبِّتْنِي عَلَى طَاعَةِ وَلِيِّ أَمْرِكَ الَّذِي سَتَرْتَهُ عَنْ خَلْقِكَ وَبِإِذْنِكَ غَابَ عَنْ بَرِيَّتِكَ وَأَمْرَكَ يَنْتَظِرُ وَأَنْتَ الْعَالِمُ غَيْرُ الْمُعَلَّمِ بِالْوَقْتِ الَّذِي فِيهِ صَلاَحُ أَمْرِ وَلِيِّكَ فِي الْإِذْنِ لَهُ بِإِظْهَارِ أَمْرِهِ وَكَشْفِ سِتْرِهِ‏ فَصَبِّرْنِي عَلَى ذَلِكَ حَتَّى لاَ أُحِبَّ تَعْجِيلَ مَا أَخَّرْتَ وَلاَ تَأْخِيرَ مَا عَجَّلْتَ وَلاَ كَشْفَ مَا سَتَرْتَ وَلاَ

۱۴۰

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161