عصرِ غَیبتِ امامؑ میں ہماری ذمہ داریاں

عصرِ  غَیبتِ امامؑ میں  ہماری    ذمہ  داریاں33%

عصرِ  غَیبتِ امامؑ میں  ہماری    ذمہ  داریاں مؤلف:
: عامرحسین شہانی
زمرہ جات: امام مہدی(عجّل اللّہ فرجہ الشریف)
صفحے: 161

عصرِ غَیبتِ امامؑ میں ہماری ذمہ داریاں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 161 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 51893 / ڈاؤنلوڈ: 2746
سائز سائز سائز
عصرِ  غَیبتِ امامؑ میں  ہماری    ذمہ  داریاں

عصرِ غَیبتِ امامؑ میں ہماری ذمہ داریاں

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

تلاش میں ہیں مگر وہ اسےنہیں پاتے مگر جو اپنے دین پر ثابت قدم رہ جائیں اور امام ؑ کی غیبت سے تنگ دل نہ ہوں تو ایسے لوگ قیامت کے دن میرے ساتھ میرےہم درجہ ہوں گے۔"(۱)

مصنف: اے صاحب الزمان ؑ کے منتظر مومنین ! ا س عظیم بشارت پر تمہارے دل مسرور اور تمہاری آنکھیں ٹھنڈی ہونی چاہیں کیونکہ یہ تمام بشارتوں میں سب سے عظیم بشارت ہے۔ اور کوشش کرو کہ تمہارے دل نرم رہیں اور امامؑ زمانہ کی غیبت کے زمانہ میں تنگ دل نہ ہوں ۔

اگر آپ یہ اعتراض کریں کہ دل کی نرمی وسختی تو ہمارے اختیار میں نہیں۔تو میں بھی یہ بات تسلیم کرتا ہوں لیکن اس کے مقدمات اور اسباب تو آپ کے اختیار میں ہیں۔ یعنی آپ ایسے اعمال بجا لاسکتے ہیں کہ جن سے آپ کے دل صاف ہو جائیں اور ایسے اعمال بھی کر سکتے ہیں جن سے آپ کے دل سخت ہو جائیں ۔پس اگر آپ دل کی سختی سے ڈرتے ہیں تو وہ اعمال ترک کر دیں جو قساوت قلبی کا باعث بنتے ہیں اور وہ اعمال پابندی سے انجام دیں جو دلوں کو صاف اورنرم کریں ۔ جیساکہ صاحب مجمع البیان نے مذکورہ آیۃ کی تفسیر میں فرمایا : پس ان کے دل سخت ہوگئے اور ان کا خشوع زائل ہوگیا اور وہ گناہوں کے عادی بن گئے۔(۲)

____________________

۱:- کمال الدین ۱/۳۰۳ ،ج۱۴

۲:- مجمع البیان ۹/۲۳۸

۱۲۱

امام محمد باقر علیہ السلام سے مروی ہے کہ فرمایا: اللہ تعالی گناہ پر اتنا عذاب نہیں دے گا جتنی سزا قساوت قلبی پر دے گا۔(۱)

یہاں پر میں اپنی اور اپنے بھائیوں کی نصیحت کے لیے چند امور ذکر کروں گا کہ جنہیں میں نے کتب حدیث میں دیکھا ہے اور اللہ ہی سے توفیق کا طالب ہوں۔

وہ امور کہ جن سے دل نرم اور رقیق بن جاتا ہے:

۱ حضرت بقیۃ اللہ عجل اللہ فرجہ الشریف کے ذکر اور ان کی صفات ،ان کے فضائل و خصائل پر مشتمل مجالس میں حاضر ہونا اور اہل بیت ؑ کے وعظ و نصیحت پر مشتمل مجالس میں شرکت ،اور قرآن کی مجالس میں شرکت کرنا بشرطیکہ آیات قرآنی کے معانی میں غور کیا جائے۔

۲ زیارت قبور

۳ موت کو کثرت سے یاد کرنا

۴ یتیموں کے سر پر ہاتھ رکھنا ،ان سے محبت کرنا اور ان پر احسان کرنا۔

وہ امور جو قساوت قلبی کا باعث ہیں:

۱ ذکر خدا کو ترک کرنا۔

____________________

۱:- تحف العقول :۲۹۶ (وما ضرب عبد بعقوبة اعظم من قساوت القلب )

۱۲۲

۲ حرام طعام کھانا۔

۳ اہل دنیا کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا اور ان سے کثرت سے ملاقات کرنا۔

۴ پیٹ بھر کر کھانا۔

۵ بہت زیادہ ہنسنا

۶ کھانے پینے کے بارے میں بہت سوچنا۔

۷ ان چیزوں کے بارے بہت زیادہ گفتگو کرنا کہ جو آخرت میں کوئی فائدہ نہیں رکھتیں۔

۸ لمبی امیدیں رکھنا ۔

۹ اول وقت میں نماز ادا نہ کرنا۔

۱۰ فاسقوں اور معصیت کاروں کے ساتھ بیٹھنا اور میل جول رکھنا ۔

۱۱ ایسی باتیں غور سے سننا کہ جو آخرت میں کسی کام کی نہیں۔

۱۲ لہو و لعب کی خاطر شکار پہ جانا۔

۱۳ دنیوی امور میں ریاست کی زمہ داری لینا،سر پرستی کرنا۔

۱۴ بے حیائی کے مقامات پر جانا۔

۱۵ عورتوں کے ساتھ میل جول رکھنا۔

۱۶ دنیوی اموال کی کثرت ۔

۱۷ توبہ ترک کرنا۔

۱۸ موسیقی سننا۔

۱۲۳

۱۹ نشہ آور چیزیں اور حرام مشروب کا پینا شراب وغیرہ۔

۲۰ اہل علم کی محفلوں کو ترک کرنا۔یعنی ایسی مجالس میں حاضر نہ ہونا کہ جو دلوں کو پاک صاف اور نرم کرتی ہیں۔ جن میں احکام دین بیان کیے جاتے ہوں اور آئمہ طاہرین کی احادیث اور ان کے مواعظ حسنہ بیان کیے جاتے ہوں۔اسی طرح حضرت صاحب الزمان ؑ کے خصائل بیان کیے جاتے ہوں۔ قرآنی آیات پڑھی جاتی ہوں۔خصوصا ایسی محفل کہ جس میں احادیث بیان کرنے والا خود ان پر عمل پیرا بھی ہوں۔کیونکہ اس کے قول سے سننے والے کے دل پر ایک خاص اثر ہوتا ہے۔ جیسا کہ

امام رضا ؑ سے روایت ہے کہ فرمایا:

"جو شخص ایسی مجلس میں بیٹھے کہ جس میں ہمارے امر کو زندہ کیاجاتا ہو تو اس کا دل اس دن مردہ نہیں ہوگا جس دن لوگوں کے دل مردہ ہوجائیں گے۔"(۱)

____________________

۱:- امالی الصدوق ۶۸/المجلس ۱۷ ح۴، بحارالانوار ۴۴/۲۷۸ ح۱

۱۲۴

خلاصہ:

اپنی قساوت قلبی ختم کرکے اپنے دلوں کو نرم کریں ۔کہیں معاملہ یہاں تک نہ پہنچ جائے کہ آپ کے دل پر کوئی وعظ و نصیحت اثر ہی نہ کرے اور پھر رحمت خدا سے محروم رہ جائیں۔

۴۸ ۔ اڑتالیسواں عمل:۔

حضرت صاحب الزمان ؑ کی نصرت پر اتفاق اور اجتماع کرنا۔

یعنی مومنین کے دل آپس میں امام ؑ کی نصرت پر متفق ہوں اور ان کی نصرت پر ایک دوسرے سے عہد و پیمان باندھیں اور اس عہد کو پورا کرنے کا تہیہ کریں ۔

جیسا کہ شیخ مفید کو امام ؑ کی لکھی گئی ایک توقیع مبارکہ میں بیان ہوا ہے۔یہ وہ آخری توقیع ہے جسے شیخ الجلیل احمد بن ابی طالب الطبرسی نے کتاب الاحتجاج میں ذکر کیا ہے۔ اس میں مذکور ہے کہ :

اگر ہمارے شیعوں کو اللہ اطاعت کی توفیق دے اور ان کے دل ہمارے ساتھ اپنے عہد کو پورا کرنے کے لیے جمع ہو جائیں تو ہماری ملاقات میں کوئی تاخیر نہ ہوتی اور وہ جلد ہماری زیارت کی سعادت حاصل کرتے۔(۱)

____________________

۱:- الاحتجاج ۲/۳۲۵

۱۲۵

۴۹ ۔ انچاسواں عمل:۔

اپنے واجب مالی حقوق زکوٰۃ ،خمس اور سھم امام ؑ کی ادائیگی کا اہتمام کریں ۔

اگرچہ یہ کام ہر زمانے میں واجب ہے لیکن غیبت امام ؑ کے زمانہ میں اس کا ایک خاص اثر ہے اور اس بارے میں خصوصی حکم فرمایا گیا ہے۔

مذکورہ توقیع میں ہی امام ؑ فرماتے ہیں :

"اور ہم آپ سے عہد کرتے ہیں ۔۔۔کہ آپ کے دینی بھائیوں میں سے جو بھی تقوی اختیار کرے گا اور اپنے زمے واجب حقوق کو ان کے مستحقین تک پہنچائے گا تو وہ فتنہ باطلہ اور گمراہی کی تاریکیوں سے امان میں رہے گا ااور جو شخص اللہ کی دی ہوئی نعمتوں میں سے مستحقین کو ان کا حق پہنچانے سے بخل کرے گا تو وہ دنیا و آخرت میں خسارے میں رہے گا۔(۱)

نوٹ:۔

کسی شخص پر عائد ہونے والے مالی حقوق میں سے ایک یہ بھی ہے کہ وہ ہر سال رقم کی ایک خاص مقدارامام زمانہؑ کے لیے ہدیہ کرے۔ اور یہ واجب سھم امام ؑ سے ہٹ کر ہے۔کیونکہ سھم امام تو کچھ خاص اشیاء پر خاص صورتوں میں واجب ہوتا ہے کہ جن کی ذکرفقہی کتابوں میں موجود ہے۔لیکن اپنے مال میں

____________________

۱:- البحار ۹۶/۲۱۶، البرہان ۱/۲۹۷

۱۲۶

سے ایک خاص رقم امام کے لیے سالانہ ہدیہ کرنے کی کوئی خاص شرط نہیں ہے بلکہ یہ ہر کسی کے لیے ہے چاہے فقیر ہو یا امیر ، ہر حا ل میں واجب ہے کہ سالانہ امام ؑ کی خدمت میں کچھ ہدیہ کرے۔

بحارالانوار اور البرہان میں مفضل سے روایت ہے کہ انہوں نے فرمایا:

میں ایک دن امام صادق ؑ کی خدمت میں حاضر ہوا اور میرےپاس کوئی چیز تھی جسے امام ؑ کے سامنے رکھ دیا ۔ تو انہوں نے پوچھا : یہ کیا ہے؟ میں نے عرض کیا: یہ آپ کے چاہنے والوں کی طرف سے ہدیہ ہے۔ تو آپ نے فرمایا: اے مفضل ! میں اسے قبول کرتا ہوں لیکن اس لیے نہیں کہ مجھے اسکی ضرورت ہے بلکہ فقط اس لیے کہ اس سے ان کا تزکیہ ہوگا۔ پھر فرمایا: میں نے اپنے پدر گرامی سے سنا کہ فرمایا: جس شخص پر سال گزر جائے اور اس کے مال میں سے کم یا زیادہ کچھ بھی ہم تک نہ پہنچے تو اللہ بروز قیامت اس کی طرف نظر (رحمت )نہیں فرمائے گا مگر یہ کہ اللہ اسے معاف کر دے۔ پھر فرمایا: اے مفضل! یہ وہ فریضہ ہے جسے اللہ نے اپنی کتاب میں ہمارے شیعوں پر فرض کیا ہے۔

ارشاد ہوا:

لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتَّـٰى تُنْفِقُوْا مِمَّا تُحِبُّوْنَ ۚ

۱۲۷

"تم ہرگز نیکی کو نہیں پا سکتے یہاں تک کہ اپنی پسندیدہ چیزوں میں سے خرچ نہ کرو۔"(۱)

ایک اور حدیث میں آیۃ شریفہ "وَالَّـذِيْنَ يَصِلُوْنَ مَآ اَمَرَ اللّـٰهُ بِهٓ اَنْ يُّوْصَلَ " کی تفسیر میں فرمایا: "یہ امام ؑ کا صلہ (ہدیہ)ہے کہ جو ہر سال دینا ہوتا ہے چاہے کم ہو یا زیادہ۔ پھر فرمایا: اوراس سے ہم کچھ نہیں چاہتے سوائے یہ کہ تمہارا تزکیہ ہو۔"(۲)

ایک اور حدیث میں فرمایا:

"اپنے اموال میں سے آل محمد علیہم السلام کے لیے صلہ(ہدیہ ) کو ترک نہ کرو۔جو ٖغنی ہو وہ اپنی حیثیت کے مطابق اور جو نادار ہو وہ اپنی حیثیت کے مطابق دے۔اور جو چاہتاہے کہ اللہ اس کی حاجات پوری کرے تو وہ اپنی سب سے ضروری چیزوں میں سے آل محمد اور ان کے شیعوں کو ہدیہ کرے۔"(۳)

اور فقیہ میں امام جعفر صادق ؑسے روایت ہے کہ :

____________________

۱:- بحارالانوار ۹۶/۲۱۶ البرہان ۱/۲۹۷ اور آیۃ سورہ آل عمران:۹۲

۲:- بحارالانوار ۹۶/۲۱۶ ح۵ البرہان ۲/۲۸۹ اورآیہ سورہ رعد:۲۱

۳:- بحارالانوار ۹۶/۲۱۶ ح۶

۱۲۸

"ایک درھم جو امام تک پہنچایا جائے وہ ان دس لاکھ درہموں سے بہتر ہے کہ جو راہ خدا میں کسی اور کو دیئے جائیں۔"(۱)

مصنف:اور یہ سچے خوابوں میں سے ایک ہے کہ میں نے ایک رات عالم خواب میں ایک جلیل القدر شخصیت کو دیکھا جس نے کہا: بندہ مومن اپنے مال میں سے جوچیز زمانہ غیبت میں امام کے لیے خرچ کرتا ہے اس کا ثواب زمان حضور میں بھیجی گئی چیز کے مقابل ایک ہزار ایک مرتبہ زیادہ ہوتا ہے۔

اکیاونویں عمل میں بھی اسی کی تائید میں حدیث آئے گی۔

یاد رہے کہ اس زمانے میں جبکہ امام ؑ پردہ غیبت میں ہیں ،ضروری ہے کہ مومن امام کے لیے جو ہدیہ پیش کرتا ہے اسے ان امور میں صرف کرے جو امام ؑ کے پسندید ہ ہوں۔مثلا امام سے متعلقہ لکھی گئی کتابوں کی طباعت میں صرف کرے۔یا ان مجالس میں صرف کرے جہاں امام ؑ کے فضائل و اخلاق بیان کیے جاتے ہوں یاامام ؑ کے چاہنے والوں کو امام کی طرف سے بطور ہدیہ پیش کرے۔ اسی طرح اہم کو غیر اہم پر ترجیح دے۔واللہ العالم۔

اسی طرح یہ بھی حقوق مالیہ میں سے ہے کہ بندہ صلہ رحمی کرے ،اپنے پڑوسیوں کی مدد کرے حتی کہ انہیں گھر کی ضروری چیزیں عاریۃ دے مثلا برتن

____________________

۱:- من لا یحضرہ الفقیہ ۲/۷۲

۱۲۹

اور چراغ وغیرہ اور اگر وہ کم قیمت چیزوں کی ضرورت محسوس کریں جیسے نمک وغیرہ تو ایسی چیزیں بھی انہیں ہدیہ کر دے۔

۱۳۰

۵۰ ۔ پچاسواں عمل:۔

المرابطہ

مرابطہ کی دو قسمیں ہیں:

پہلی قسم:

یہ قسم فقہاء نے کتاب الجہاد میں ذکر کی ہے۔اس سے مراد یہ ہے کہ سرحد کے قریب کسی وادی میں ٹھہرے اور کفار کے شہروں کے قریب اپنی سواری باندھے تاکہ اگر کفار مسلمانوں پر حملہ کرنے نکلیں تو اس کی مسلمانوں کو اطلاع دے۔یا اگر کفار مسلمانوں پر تجاوز و زیادتی کریں تو وہ مسلمانوں کا دفاع کرے۔یہ عمل مستحب مؤکد ہے چاہے زمانہ حضور ہو یا زمانہ غیبت ہو۔جیسا کہ علامہ نے ارشاد میں اور شہید نے الروضہ میں ذکر کیا ہے۔ اور رسول خدا ؐ سے روایت ہے کہ فرمایا: "

ہر مرنے والے کا عمل رک جاتا ہے سوائے راہ خدا میں مرابطہ کرنے والے کے۔کیونکہ اس کا عمل قیامت تک نمو پاتا ہے۔اور وہ قبر کی آزمائش (عذاب) سے محفوظ رہتا ہے۔"(۱)

____________________

۱:- المنتہیٰ ۲/۹۰۲

۱۳۱

ایک اور روایت میں جو جواہر اور منتہیٰ میں وارد ہوئی ہے ،حضور فرماتے ہیں:

"ایک رات راہ خدا میں گھوڑا لے کر (مرابطہ کرنا) ایک مہینے کے روزوں اور نمازوں سے بہتر ہے۔"(۱)

مرابطہ کی اس قسم کی دو شرائط ہیں:

۱ کسی ایسے علاقہ یا مقام پر وقوف کیا جائے (سرحدی علاقہ) کہ جہاں سے اسلامی شہروں کی حفاظت کی جائے۔ رسول خداؐ نے یہ کام (ملک کے) اطراف سے شروع کیا (جہاں سے دشمن کے حملہ کا خطرہ ہوتا ہے)۔اسی لیے فقہاء نے کہا: اگر بندہ اس جگہ ٹھہرنے پر قادر نہیں تو اسے چاہیے کہ کسی اور شخص کو اپنی نیابت میں وہاں ٹھہرائے۔

۲ مرابطہ کی کم از کم مدت تین دن ہے۔ جیسا کہ ارشاد وغیرہ میں مذکور ہے اور زیادہ سے زیادہ مدت چالیس دن ہے۔ لیکن اگر کوئی چالیس دن سے زیادہ ٹھہرے تو وہ مجاہدین میں سے شمار ہوگااور راہ خدا میں جہاد کرنے والے کا ثواب ملے گا۔

____________________

۱:- جواہر الکلام: مجلد الحج والجہاد ص۵۵۵، المنتہیٰ: ۲/۹۰۲

۱۳۲

دوسری قسم:۔

مرابطہ یعنی اپنا گھوڑا (سواری) اور تلوار (اسلحہ) تیا ررکھے تاکہ ظہور امام ؑ کی صورت میں ان کی نصرت کر نے کی قوت و استعداد حاصل کرے۔ مرابطہ کی اس قسم کا کوئی وقت اور مقام معین نہیں ہے۔ روضۃ الکافی میں ابو عبداللہ الجعفی سے مروی ہے کہ : مجھ سے ابو جعفر بن علیؑ نے فرمایا: تمہارے پاس کتنے گھوڑے ہیں؟ میں نے کہا چالیس۔ فرمایا لیکن ہمارا مرابطہ پورے زمانے کا ہے۔ پس جو شخص ہماری خاطر ایک گھوڑا تیار رکھے تو اسے اس کے وزن اور جو کچھ اس کے پاس ہوگا اس کے وزن کےبرابر (اجر ملے گا) اور جو ہمارے لیے اسلحہ تیار رکھے (نصرت کے لیے) تو اسے اس کے وزن کے برابر اجر ملے گا۔ پس ایک مرتبہ سے دو سری مرتبہ ،تیسری مرتبہ اور چوتھی مرتبہ (جنگی تیاری) سے مت گھبراؤ اور بے صبری مت کرو۔ کیونکہ ہماری اور تمہاری مثال اس نبی کی سی ہے جو بنی اسرائیل کے پاس موجود ہو۔ پس اللہ نے ان کی طرف وحی فرمائی کہ اپنی قوم کو جنگ کے لیے تیار کرو میں تمہاری نصرت کروں گا ۔ پس انہوں نے قوم کو پہاڑوں کی چوٹیوں اور دیگر مقامات سے اکٹھا کیا۔ پھر ان کی طرف رخ کیا پھر (جنگ ہوئی) اور انہوں نے تلواروں اور نیزوں سے لڑائی کی حتی کہ شکست کھا گئے۔ پھر اللہ نے ان کی طرف وحی کی کہ اپنی قوم کو جنگ کی طرف بلاؤ۔ پھر انہوں نے بلایا تو قوم نے کہا: آپ نے نصرت کا وعدہ کیا تھا مگر نصرت کیوں نہ

۱۳۳

کی؟تو اللہ نے وحی فرمائی کہ : یا تو یہ جنگ کا راستہ اختیار کریں یاپھر جہنم کا۔ تو نبی نے کہا : اے رب مجھے جہنم کی نسبت جنگ پسند ہے۔پس پھر قوم کو بلایا تو اس میں سے اہل بدر کی تعداد کے برابر ۳۱۳ نے جواب دیااور حامی بھرلی۔پس پھر نبی ان کے ساتھ ہوئے اور تلواروں اور نیزوں سے لڑائی ہوئی اور اللہ نے انہیں فتح عطا فرمائی۔(۱)

علامہ مجلسی نے اس کی تشریح میں فرمایا کہ: رِبَاطُنَا رِبَاطُ اَلدَّهْرِ ۔ ہمارا مرابطہ پورے زمانے کامرابطہ ہے۔ اس سے مراد یہ ہے کہ ہمارے شیعوں کو چاہیے کہ وہ خود کو امام حق کی اطاعت کے لیے آمادہ رکھیں اور ان کے ظہور کے منتظر رہیں اور ان کی نصرت کے لیے مستعد رہیں۔

اسی طرح امام ؑکے قول۔۔۔۔۔کہ اسے اس کے وزن جتنا ثواب ملے گا۔۔۔الخ کی تشریح میں فرمایا:کہ اس شخص کو اس سواری کے وزن کے دوگنا برابر ہر روز سونا اور چاندی صدقہ کرنے کا ثواب ملے گا۔(۲) والله العالم

اسی مورد میں اور بھی روایات موجود ہیں جنہیں میں نے اپنی کتاب مکیال المکارم کے جزء ثانی میں درج کیاہے۔

____________________

۱:- روضۃ الکافی :ص۳۸۱

۲:-مکیال المکارم: ۲/۳۹۷

۱۳۴

۵۱ ۔ اکیاونواں عمل:۔

اپنے اندر صفات حمیدہ اور اخلاق کریمہ پیدا کریں ۔

شرعی واجبات و عبادات بجا لائیں ۔ خود کو گناہوں سے محفوظ رکھیں کہ شریعت نے گناہوں سے روکا ہے۔یہ اس لیے کہ کیونکہ ان امور کی زمانہ غیبت میں رعایت کرنا زمانہ حضور سے زیادہ مشکل ہے۔کیونکہ اس زمانے میں فتنے زیادہ ہیں ، ملحدوں ،شک ڈالنے والوں اور مومنین کو گمراہ کرنے والوں کی کثرت ہے۔ اسی لیے حدیث نبوی ؐ میں ہے کہ نبیﷺ نے امام علی علیہ السلام سے فرمایا:

"اے علی علیہ السلام !لوگوں میں سب سے باعظمت ایمان رکھنے والے اورسب سے زیادہ یقین رکھنے والے لوگ وہ ہیں جو آخری زمانے میں ہوں گے کہ وہ ابھی نبی ؐ سے ملحق نہیں ہوئے تھےکہ نبی ؐ ان کے درمیان سے اٹھا لیے گئے تو وہ سفیدی پر سیاہی کے ساتھ ایما ن لائے۔(۱) ۔(سفیدی پر سیاہی اشارہ ہے کاغذوغیرہ پر لکھی ہوئی تحریروں کی طرف۔یعنی ان لوگوں نے آنکھوں سے نبی ﷺ کو نہیں دیکھا بلکہ ان کے بارے میں جو کچھ لکھا ہوا پڑھا اس پر ایمان لے آئے۔)

اسی طرح بحارالانوار میں امام جعفر صادق علیہ السلام سے مروی ہے کہ فرمایا:

"جو شخص چاہتا ہے کہ وہ حضرت قائم عجل اللہ فرجہ الشریف کے اصحاب میں سے قرار پائے تو اسے چاہیے کہ انتظار کرے اور حالت انتظار میں

____________________

۱:- کمال الدین ۱/۲۸۸ ح۸

۱۳۵

تقوی اور حسن اخلاق کا دامن تھامے رکھے ۔پس اگر قائم ؑ کے قیام کے وقت وہ زندہ نہ ہوا تو اسے وہی اجر ملے گا جو قائمؑ کے ساتھی کو ملے گا۔(۱)

اور کافی میں امام صادق علیہ السلام سے مروی ہے کہ فرمایا:

"تم میں سے جو شخص دشمن سے چھپ کر فریضہ نماز کو اپنےوقت پر ادا کرے گا اور مکمل کرلے تو اللہ تعالی اس کے پچیس فریضہ نمازوں کا ثواب لکھے گا۔اوراگر کوئی مومن نافلہ نمازکو اپنے وقت پر اداکرے تو اللہ اس کے لیے دس نافلہ نمازوں کاثواب لکھے گا۔اور تم میں سے جو کوئی ایک نیکی بجالائے تو اللہ اس کے لیے دس نیکیوں کا ثواب لکھے گا۔اور اگر کوئی مومن اپنے اعمال اچھے طریقے سے انجام دے تو اللہ اس کی نیکیوں میں کئی گنا اضافہ کر دیتا ہے۔اسی طرح جو شخص تقیہ کے ذریعے اپنے دین ،اپنے امام ،اور اپنی جان کی حفاظت کرے تو اسے کئی گنا زیادہ اجر عطا کرتا ہے ۔بے شک اللہ عزوجل کریم ہے۔"(۲)

اگر آپ کہیں کہ اس زمانہ میں جبکہ ہمارے امام غائب ہیں تو ہم کس طرح تقیہ کے ذریعے ان کی حفاظت کر سکتے ہیں ؟ تو جوابا عرض ہے کہ بہت سے ایسے مواقع پیش آتے ہیں کہ جن میں تقیہ واجب ہوتا ہے۔ کیا آپ نہیں دیکھتے کہ دشمن لوگ امام ؑکی بے ادبی کرتے ہیں اور ان کے لیے پست الفاظ استعمال

____________________

۱:- بحارالانوار ۵۲/۱۳۰

۲:- الکافی :۱/۳۳۳

۱۳۶

کرتے ہیں اور ایسی باتیں کہتے ہیں جو انہیں نہیں کہنی چاہیں ۔ایسے مواقع پہ تقیہ کی مخالفت کرنے والے(تقیہ چھوڑنے والے) در اصل اما مؑ کی اس توہین کا سبب بن رہے ہوتے ہیں ۔

جیسا کہ اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا:

وَلَا تَسُبُّوا الَّـذِيْنَ يَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّـٰهِ فَـيَسُبُّوا اللّـٰهَ عَدْوًا بِغَيْـرِ عِلْمٍ "

جو غیر اللہ کو پکارتے ہیں انہیں گالیاں نہ دو ورنہ وہ جواباً اللہ کو لاعلمی اور دشمنی کی بنا پر گالیاں دیں گے۔"(۱)

اس باب میں بہت سی روایات موجود ہیں ۔

۵۲ ۔ باون واں عمل:۔

جمعہ کے دن امام عجل اللہ فرجہ الشریف سے متعلقہ دعا ء ندبہ پڑھنا۔

اسی طرح یہی دعا عید غدیر ،عید الفطر اور عید الاضحیٰ کے موقع پر خشوع وخضوع سے پڑھی جائے۔جیسا کہ زاد المعاد میں روایت موجود ہے۔(۲)

۵۳ ۔ ترپن واں عمل:۔

یوم جمعہ میں خود کو امامؑ کا مہمان قرار دیتے ہوئے وہ زیار ت پڑھنا کہ سید ابن طاوس نے کتاب جمال الاسبوع میں ذکر کیا ہے۔

____________________

۱:- سورۃ انعام:۱۰۸

۲:- زادالمعاد:۴۳۸

۱۳۷

السَّلاَمُ عَلَيْكَ يَا حُجَّةَ اللَّهِ فِي أَرْضِهِ،

السَّلاَمُ عَلَيْكَ يَا عَيْنَ اللَّهِ فِي خَلْقِهِ،

‏السَّلاَمُ عَلَيْكَ يَا نُورَ اللَّهِ الَّذِي يَهْتَدِي بِهِ الْمُهْتَدُونَ وَيُفَرَّجُ بِهِ عَنِ الْمُؤْمِنِينَ‏،

السَّلاَمُ عَلَيْكَ أَيُّهَا الْمُهَذَّبُ الْخَائِفُ السَّلاَمُ عَلَيْكَ أَيُّهَا الْوَلِيُّ النَّاصِحُ،

‏السَّلاَمُ عَلَيْكَ يَا سَفِينَةَ النَّجَاةِ السَّلاَمُ عَلَيْكَ يَا عَيْنَ الْحَيَاةِ.

السَّلاَمُ عَلَيْكَ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْكَ وَعَلَى آلِ بَيْتِكَ الطَّيِّبِينَ الطَّاهِرِينَ.

السَّلاَمُ عَلَيْكَ عَجَّلَ اللَّهُ لَكَ مَا وَعَدَكَ مِنَ النَّصْرِ وَظُهُورِ الْأَمْرِ.

السَّلاَمُ عَلَيْكَ يَا مَوْلاَيَ أَنَا مَوْلاَكَ عَارِفٌ بِأُولاَكَ وَأُخْرَاكَ.أَتَقَرَّبُ إِلَى اللَّهِ تَعَالَى بِكَ وَبِآلِ بَيْتِكَ وَأَنْتَظِرُ ظُهُورَكَ وَظُهُورَ الْحَقِّ عَلَى يَدَيْكَ، ‏وَأَسْأَلُ اللَّهَ أَنْ يُصَلِّيَ عَلَى مُحَمَّدٍ وَآلِ مُحَمَّدٍ وَأَنْ يَجْعَلَنِي مِنَ الْمُنْتَظِرِينَ لَكَ وَالتَّابِعِينَ وَالنَّاصِرِينَ لَكَ عَلَى أَعْدَائِكَ وَالْمُسْتَشْهَدِينَ بَيْنَ يَدَيْكَ فِي جُمْلَةِ أَوْلِيَائِكَ‏.

يَا مَوْلاَيَ يَا صَاحِبَ الزَّمَانِ صَلَوَاتُ اللَّهِ عَلَيْكَ وَعَلَى آلِ بَيْتِكَ‏ هَذَا يَوْمُ الْجُمُعَةِ وَهُوَ يَوْمُكَ الْمُتَوَقَّعُ فِيهِ ظُهُورُكَ وَالْفَرَجُ فِيهِ لِلْمُؤْمِنِينَ عَلَى يَدَيْكَ وَقَتْلُ الْكَافِرِينَ بِسَيْفِكَ ‏وَأَنَا يَا مَوْلاَيَ فِيهِ ضَيْفُكَ وَجَارُكَ وَأَنْتَ يَا

۱۳۸

مَوْلاَيَ كَرِيمٌ مِنْ أَوْلاَدِ الْكِرَامِ وَمَأْمُورٌ بِالضِّيَافَةِ وَالْإِجَارَةِ فَأَضِفْنِي وَأَجِرْنِي صَلَوَاتُ اللَّهِ عَلَيْكَ وَعَلَى أَهْلِ بَيْتِكَ الطَّاهِرِينَ(۱)

۵۴ ۔ چون واں عمل:۔

کمال الدین اور جمال الاسبوع میں صحیح و معتبر روایت میں ہے کہ شیخ عثمان بن سعید العمری نے یہ دعا تلاوت کرنے کا حکم دیا ہے اور فرمایا: شیعوں پر واجب ہے کہ امام ؑ کی غیبت کے زمانہ میں اس دعا کی تلاوت کریں ۔

مصنف:یہ وہ جلیل القدر شخصیت ہیں جو غیبت صغریٰ میں امام ؑ کے نواب اربعہ میں سے پہلے نائب ہیں۔پس وہ جو کچھ فرماتے ہیں وہ سب امام ؑ زمان ؑ سے بیان ہواہوتا ہے۔میری روح ان پر فدا ہو۔پس بنا ء پر ایں آپ جب بھی اپنے اندر حسن توجہ حاصل کریں تو یہ دعا تلاوت کریں اور اس میں کوتاہی نہ کریں۔خصوصا سید ابن طاوس جمال الاسبوع میں فرماتے ہیں:

"کہ جو کچھ ہم نے ذکر کیا کہ نماز عصر کے بعد یہ دعا پڑھو تو اگر آپ کے لیے اس وقت پڑھنا مشکل ہو تو پھر بھی اس دعا کو ترک کرنے سے بچو۔یہ چیز ہم نے اللہ کے اس خاص فضل سے جانی ہے جس کے ساتھ اس نے ہمیں خاص کیا۔پس آپ اس پر اعتماد رکھیں۔"

____________________

۱:- جمال الاسبوع:۳۷

۱۳۹

اس عبارت سے پتا چلتا ہے کہ اس طرح کا امر حضرت صاحب العصر ؑ کی جانب سے سید رحمہ اللہ کی طرف صادر ہوا ہے۔ا ور یہ بات سید کے مقام سے بعید بھی نہیں۔

اور وہ دعا یہ ہے:

اللَّهُمَّ عَرِّفْنِي نَفْسَكَ فَإِنَّكَ إِنْ لَمْ تُعَرِّفْنِي نَفْسَكَ لَمْ أَعْرِفْ رَسُولَكَ‏.اللَّهُمَّ عَرِّفْنِي رَسُولَكَ فَإِنَّكَ إِنْ لَمْ تُعَرِّفْنِي رَسُولَكَ لَمْ أَعْرِفْ حُجَّتَكَ.اللَّهُمَّ عَرِّفْنِي حُجَّتَكَ فَإِنَّكَ إِنْ لَمْ تُعَرِّفْنِي حُجَّتَكَ ضَلَلْتُ عَنْ دِينِي.اللَّهُمَّ لاَ تُمِتْنِي مِيتَةً جَاهِلِيَّةً وَلاَ تُزِغْ قَلْبِي بَعْدَ إِذْ هَدَيْتَنِي.اللَّهُمَّ فَكَمَا هَدَيْتَنِي لِوِلاَيَةِ مَنْ فَرَضْتَ عَلَيَّ طَاعَتَهُ مِنْ وِلاَيَةِ وُلاَةِ أَمْرِكَ بَعْدَ رَسُولِكَ صَلَوَاتُكَ عَلَيْهِ وَآلِهِ ‏حَتَّى وَالَيْتُ وُلاَةَ أَمْرِكَ أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ عَلِيَّ بْنَ أَبِي طَالِبٍ وَالْحَسَنَ وَالْحُسَيْنَ وَعَلِيّاً وَمُحَمَّداً وَجَعْفَراً وَمُوسَى وَعَلِيّاً وَمُحَمَّداً وَعَلِيّاً وَالْحَسَنَ وَالْحُجَّةَ الْقَائِمَ الْمَهْدِيَّ صَلَوَاتُكَ عَلَيْهِمْ أَجْمَعِينَ.اللَّهُمَّ فَثَبِّتْنِي عَلَى دِينِكَ وَاسْتَعْمِلْنِي بِطَاعَتِكَ وَلَيِّنْ قَلْبِي لِوَلِيِّ أَمْرِكَ وَعَافِنِي مِمَّا امْتَحَنْتَ بِهِ خَلْقَكَ ‏وَثَبِّتْنِي عَلَى طَاعَةِ وَلِيِّ أَمْرِكَ الَّذِي سَتَرْتَهُ عَنْ خَلْقِكَ وَبِإِذْنِكَ غَابَ عَنْ بَرِيَّتِكَ وَأَمْرَكَ يَنْتَظِرُ وَأَنْتَ الْعَالِمُ غَيْرُ الْمُعَلَّمِ بِالْوَقْتِ الَّذِي فِيهِ صَلاَحُ أَمْرِ وَلِيِّكَ فِي الْإِذْنِ لَهُ بِإِظْهَارِ أَمْرِهِ وَكَشْفِ سِتْرِهِ‏ فَصَبِّرْنِي عَلَى ذَلِكَ حَتَّى لاَ أُحِبَّ تَعْجِيلَ مَا أَخَّرْتَ وَلاَ تَأْخِيرَ مَا عَجَّلْتَ وَلاَ كَشْفَ مَا سَتَرْتَ وَلاَ

۱۴۰

۱۰ _ انبيا كے معجزوں كامؤمنين كے مفاد كيلئے استعمال ہونا _فاضرب لهم

دريا ميں خشك راستے كا كھل جانا منكرين كيلئے حضرت موسى كى رسالت كو ثابت كرنے كيلئے انجام نہيں پايا بلكہ اس سے مقصود بنى اسرائيل كو نجات دينا اور فرعونيوں كو ہلاك كرنا تھا _

۱۱ _ سب بنى اسرائيل كو ايك ہى راستے سے دريا عبور كرديا گيا _*فاضرب لهم طريقاً فى البحر

اگر ''طريقاً'' سے مراد جنس نہ ہو تو يہ وحدت پر دلالت كريگا _

۱۲ _ حضرت موسى (ع) مصر سے ہجرت كے دوران راستے ميں فرعون كى فوج كا سامنا كرنے اور ديگر مشكلات پيش آنے كى وجہ سے پريشان تھے _ا سر بعبادي لا تخف دركاً و لا تخشى

''درك''كا معنى ہے ملحق ہونا، پہنچ جانا نيز يہ رد عمل كے معنى ميں بھى آيا ہے (قاموس) ہر قسم كا پيچھا كرنے اور رد عمل كى نفى نيز ہجرت كے راستے كے امن ہونے كے سلسلے ميں حضرت موسى كو اطمينان بخشنا اس بات كى علامت ہے كہ پيچھا كرنے نير زاستے كى ديگر پريشانيوں كيلئے حالات سازگار تھے _

۱۳ _ خداتعالى نے حضرت موسى كو اطمينان دلايا كہ مصر سے ہجرت كے سفر ميں نہ تو دشمن كى فوج كا سامنا ہوگا اور نہ ہى ان كيلئے كوئي دوسرى بڑى مشكل كھڑى ہوگي_أسر بعبادي لاتخف دركاً و لا تخشى

''لاتخشي'' كے متعلق كا حذف ہونا ہر ايسى چيز كے منتفى ہونے كو بيان كررہا ہے كہ جو ڈر اور خوف كا سبب بنے جيسے دريا ميں غرق ہونے كا احتمال يا ديگر ايسى مشكلات جنكى پيشين گوئي نہيں ہوسكتي

بنى اسرائيل:انكى آمادگى ۷; انكى تاريخ ۱، ۲، ۵، ۷، ۸، ۱۱; ان كا شكنجہ ۵; انكا دريا سے عبور كرنا۱ ۱; انكا بحيرہ احمر سے عبور كرنا ۸; انكا دريائے نيل سے عبور كرنا ۸; ان پر لطف و كرم ۵; انكى ہجرت كا راستہ ۳، ۸، ۱۱; انكى ہجرت كى خصوصيات ۲; انكى ہجرت ۷، ۱۳; انكى رات كے وقت ہجرت ۱

خداتعالى :اسكے ارادے كى حكمرانى ۹; اسكے اوامر كو اجرا كرنے والے ۹

قدرتى وسائل:انكا مطيع ہونا ۹

فرعون:اسكے شكنجوں سے نجات ۷فرعوني:انكاخطرہ ۱۲

خدا كا لطف و كرم:

۱۴۱

يہ جنكے شامل حال ہے ۵، ۶

مؤمنين:انكے مفادات ۱۰

مظلومين:انكا حامى ۶

معجزہ:اس كا كردار ۱۰

موسى :انكا اطمينان ۱۳; انكى رسالت ۱، ۸; انكا قصہ ۱، ۸، ۱۲، ۱۳;انكى پريشانى ۱۳; انكى طرف وحى ۳، ۴; انكى ہدايت ۴

وحى :اس كا كردار ۲

آیت ۷۸

( فَأَتْبَعَهُمْ فِرْعَوْنُ بِجُنُودِهِ فَغَشِيَهُم مِّنَ الْيَمِّ مَا غَشِيَهُمْ )

تب فرعون نے اپنے لشكر سميت ان لوگوں كا پيچھا كيا اور دريا كى موجوں نے انھيں باقاعدہ ڈھانك ليا (۷۸)

۱ _ حضرت موسى (ع) ،خدا كے حكم كے مطابق رات كے وقت بنى اسرائيل كو مصر سے لے كر چلے اور انہيں دريا سے گزارا _أسر بعبادى فا تبعهم

''فا تبعہم'' كى ''فا'' فصيحہ ہے يعنى اپنے سے قبل چند محذوف جملوں سے حكايت كرر ہى ہے ان جملوں كا خلاصہ يہ ہے كہ موسى ،(ع) بنى اسرائيل كو مصر سے لے كرچلے اور فرعونيوں كو بھى انكى روانكى كى اطلاع ہوگئي_

۲ _ بنى اسرائيل كى مصر سے روانگى كے بعد،فرعون اور اسكے لشكر نے ان كا پيچھا كيا _فا تبعهم فرعون وجنوده

۳ _ بنى اسرائيل كا پيچھا كرنے ميں خود فرعون اپنى فوج كى كمان كررہا تھا _فا تبعهم فرعون بجنوده

۴ _ بنى اسرائيل كا مصر ميں رہنا اور ان كا دوسروں سے جدا نہ ہونا فرعون اور فرعونيوں كى زندگى كا مسئلہ تھا _

أسر بعبادي فا تبعهم فرعون بجنوده

بنى اسرائيل كا پيچھا كرنا اور انہيں ہجرت سے روكنے كى كوشش كرنا اس نكتے كو بيان كر رہا ہے كہ بنى اسرائيل كامصر كے معاشرے سے جدا ہونا ان كيلئے سنگين نتائج اور نقصان كا سبب تھا _

۱۴۲

۵ _ بنى اسرائيل كا پيچھا كرنے ميں فرعونى دريا كے خشك راستے ميں داخل ہوئے _طريقاً فى البحر يبساً فا تبعهم فرعون بجنوده

۶ _ سمندر كى بڑى اور خطرناك لہروں نے فرعون اور اس كے لشكر كو گھير كہ نہيں نگل ليا _فغشيهم من اليم ما غشيهم

''يمّ'' كا معنى ہے سمندر نيز اس كا اطلاق اس بڑے دريا پر بھى ہوتا ہے جس كا پانى ميٹھا ہو ( لسان العرب) ''غشاوہ'' ( غشى كا مصدر) ڈھانپنے اور گھير لينے كے معنى ميں ہے ''ما غشيہم'' كا ابہام، ان لہروں كے عظيم ہونے كو بيان كررہا ہے كہ جو فرعونيوں كے غرق ہونے كا سبب بنيں _

۷ _ قدرتى وسائل،خداتعالى كے ارادے كے سامنے مجبور ہيں اوروہ اسكے حكم كو اجرا كرنے والے ہيں _

طريقاً فى البحر يبساً فغشيهم من اليم ما غشيهم

حضرت موسى (ع) كے عبور كرنے كيلئے دريا كا كھل جانا اور فرعونيوں كے داخل ہونے كے بعد اس كا مل جانا دونوں اعجاز كى صورت ميں اور خداتعالى كے حكم سے تھے _

بنى اسرائيل:انكى تاريخ ۱، ۲، ۳، ۴،۵; انكا پيچھا كرنا ۲، ۳، ۵; انكا دريا سے عبور كرنا ۱; انكى ہجرت كا راستہ ۱; مصر ميں انكى رہائش كا كردار ۴; انكى رات كے وقت ہجرت ۱

خداتعالى :اسكے ارادے كى حكمرانى ۷; اسكے اوامر كو اجرا كرنے والے ۷

قدرتى وسائل:انكا كردار ۷

فرعون:اسكى حكومت كى بقا كے عوامل ۴; اس كا غرق ہونا ۶; يہ اور بنى اسرائيل ۲; اسكے لشكر كا كمانڈر ۳; اسكى كمان ۳

فرعونى :ان كا غرق ہونا ۶; يہ دريا ميں ۵; يہ اور بنى اسرائيل ۲; انكى حركت كا راستہ ۵

موسى :ان كا شرعى ذمہ دارى پر عمل كرنا ۱; انكا قصہ ۱، ۶

۱۴۳

آیت ۷۹

( وَأَضَلَّ فِرْعَوْنُ قَوْمَهُ وَمَا هَدَى )

اور فرعون نے در حقيقت اپنى قوم كو گمراہ ہى كيا ہے ہدايت نہيں دى ہے (۷۹)

۱ _ اپنى عوام كى گمراہى ميں فرعون كا بنيادى اور مركزى كردار تھا _و ا ضل فرعون قومه

۲ _ لوگوں كے گمراہى يا ہدايت ميں معاشروں كے حكمرانوں اور رہنماؤں كا بہت مؤثر كردار ہے_

و ا ضل فرعون قومه

۳ _ لوگوں كو ہدايت كرنا،حكمرانوں اور پيشواؤں كى ذمہ داريوں ميں سے ہے _و ا ضل فرعون قومه و ما هدى

''ا ضل'' اور ''ماہدى '' كا معنى ايك ہے اور يہ ايك ہى معنى كا دوسرے لفظ كے ساتھ تكرار ہے شايد ''ماہدى '' كا جملہ اس لئے آيا ہے كہ حكمرانوں اور رہنماؤں سے جس چيز كى توقع ہے وہ لوگوں كو ہدايت كرنا ہے_

۴ _ فرعونيوں كى نابودى اور ان كے نظام حكومت كا ختم ہوجانا انكے فرعون كى پيروى كے نتائج ميں سے تھا_

فغشيهم و ا ضل فرعون قومه و ما هدى

رہبر:انكى ذمہ دارى ۳; انكا نقش و كردار ۲ راھبر; ان كا گمراہ كرنا ۲; انكا ہدايت كرنا ۲

فرعون:اسكى پيروى كے اثرات۴; اس كا گمراہ كرنا ۱

فرعوني:انكى گمراہى كے عوامل ۱_انكى ہلاكت كے عوامل۴

گمراہي:اسكے عوامل ۲

لوگ:انكى ہدايت كى اہميت ۳

ہدايت :اسكے عوامل ۲

۱۴۴

آیت ۸۰

( يَا بَنِي إِسْرَائِيلَ قَدْ أَنجَيْنَاكُم مِّنْ عَدُوِّكُمْ وَوَاعَدْنَاكُمْ جَانِبَ الطُّورِ الْأَيْمَنَ وَنَزَّلْنَا عَلَيْكُمُ الْمَنَّ وَالسَّلْوَى )

بنى اسرائيل ۱ ہم نے تم كو تمھارے دشمن سے نجات دلائي ہے اور طور كى داہنى طرف سے توريت دينے كا وعدہ كيا ہے اور من و سلوى بھى نازل كيا ہے (۸۰)

۱ _ فرعون بنى اسرائيل كادشمن تھااوروہ انہيں تباہ كرنے كے در پے تھا _فأتبعهم فرعون يا بنى إسرائيل قد ا نجيناكم من عدوكم

۲ _ خداتعالى نے بنى اسرائيل كو فرعون كے خطرے سے نجات دلائي اور انہيں اسكى اسارت سے رہائي عطا كى _

فأتبعهم فرعون ى بنى إسرائيل قد ا نجيناكم من عدوكم

۳ _ بنى اسرائيل كے دريا سے عبور كرنے كے بعد خداتعالى نے انكے ساتھ گفتگو كا فيصلہ كيا اور انہيں قريبى رابطے كا وعدہ ديا_و وعدناكم جانب الطور الا يمن

(بعد والى آيات كے جملے) ''و ما ا عجلك عن قومك ياموسى '' قرينہ ہے كہ ''واعدناكم'' كامتعلق حضرت موسى (ع) كے ساتھ گفتگو اور سرگوشى كرنے كا وعدہ تھا يہ وعدہ اگر چہ سب بنى اسرائيل كے ساتھ نہيں تھا ليكن چونكہ اسكے فوائد (جيسے تورات كا نزول) سب كيلئے تھے لہذا اسے سب بنى اسرائيل پر ايك نعمت كے عنوان سے ياد كيا گيا_

۴ _ كوہ طور كى دائيں جانب،بنى اسرائيل كے خداتعالى كى دعوت كا جواب دينے كيلئے شرفياب ہونے كى وعدہ گاہ _

و وعدناكم جانب الطور الا يمن

''ا يمن'' كا معنى ہے ''يمين'' يعنى دائيں طرف اور ''طوركے دائيں جانب'' سے مراد اسكى دائيں جانب كى فضا يا دامن ہے_

۵ _ كوہ طور ايك مبارك اور خداتعالى كى مورد عنايت جگہ_و وعدنكم جانب الطور الا يمن

مذكورہ بالا مطلب ميں ''ا يمن'' كو ''يمن'' كے مادہ سے ليا گيا ہے اور يہ مبارك كے معنى ميں ہے يہ كلمہ اگر چہ ''جانب'' كى صفت ہے ليكن كسى چيز كے جز كى صفت خود اس كل چيز (كل) كى بھى صفت شمار ہوئي ہے وعدہ گاہ كے طور پر كوہ طور كا انتخاب اسكے خاص امتياز كى علامت ہے_

۱۴۵

۶ _ خداتعالى نے حضرت موسى (ع) كے زمانے كے بنى اسرائيل پر كھانے كى چيزيں ''من و سلوى '' نازل كيں _

ونزلنا عليكم المن و السلوى

''منّ'' وہ قطرات ہيں جو آسمان سے درختوں اور پتھروں كے اوپر نازل ہوكر شہد كى صورت اختيار كر جاے ہيں انكا ذائقہ ميٹھا ہوتا ہے اور درخت كے شيرے كى طرح خشك ہوجاتے ہيں (قاموس) بعض مفسرين نے اس كا معنى ترنگبين كيا ہے_

''سلوى '' كبوتر جيسا ايك پرندہ ہے كہ جس كى ٹانگيں اور گردن لمبى ہوتى ہيں اسكى رفتار تيز او راس كا رنگ بٹير كے رنگ جيسا ہوتا ہے (مصباح) بعض نے اسے وہى بٹير قرار ديا ہے _

۷ _ بنى اسرائيل پر من و سلوى كا نزول انكے فرعون كے چنگل سے نجات حاصل كرنے اور بيابان ميں ٹھہرنے كے بعد تھا_قد ا نجيناكم وعدناكم و نزلنا عليكم المن و السلوى

''من و سلوى '' كا نزول اس علاقے كے كھانے پينے كى عام چيزوں سے خالى ہونے اور انكے ٹھہرنے كى جگہ كے بيابان ہونے كى علامت ہے_

۸ _ ''من و سلوى '' كا نزول ان معجزات ميں سے تھا جو حضرت موسى كى قوم كو دكھائے گئے _و نزلنا

كھانے پينے كى چيزوں ميں سے ''من و سلوى '' كا مخصوص ہونا اور ان كے بنى اسرائيل پر نزول كى ياد ہانى كرانا ان كے نزول كے غير معمولى ہونے كى علامت ہے_

۹ _ بنى اسرائيل كو فرعونيوں سے نجات دينا،انہيں گفتگو كيلئے كوہ طور پر آنے كى دعوت دينا اور ان پر من و سلوى نازل كرنا حضرت موسى (ع) كے زمانے كے بنى اسرائيل پر خداتعالى كى نعمتيں _يابنى اسرائيل قد ا نجيناكم و نزلنا عليكم المن ا لسلوى

۱۰ _ حضرت موسى (ع) كے زمانے كے بنى اسرائيل،تاريخ كے برجستہ اور بہت ہى قابل تامل ابواب ركھنے والے ہيں _ا نجيناكم وعدنكم و نزّلنا

۱۱ _ تاريخ كے ان حساس لمحوں اور اہم واقعات كو ياد كرنا ضرورى ہے كہ جن ميں خداتعالى كا لطف و كرم نازل ہوا _

ا نجيناكم وعدناكم و نزّلنا

۱۲ _ ستمگر دشمن كے چنگل سے نجات دينا، اس دشمن كو

۱۴۶

نابود كرنا، مكتب اور زندگى كا لائحہ عمل دينا اور رزق عطا كرنا خداتعالى كى عظيم ترين نعمتوں ميں سے ہيں _

ا نجيناكم وعدناكم نزلنا عليكم المن و السلوى

تين قسم كى نعمتوں كى صورت ميں بنى اسرائيل پر احسان كو بيان كيا گيا ہے نجات، طور كے مقام پر ضابطہ حياط كا عطا كرنا(تورات) اور انہيں رزق عطا كرنا اس سے معلوم ہوتا ہے كہ يہ تين چيزيں خداتعالى كى عظيم نعمتوں ميں سے ہيں _

مقدس مقامات :۵

بنى اسرائيل:يہ بيابان ميں ۷; يہ ميقات ميں ۴; انكى تاريخ ۲، ۶، ۷، ۱۰; ان كے دشمن ۱; انكى دعوت ۹; انكى نجات ۲، ۷، ۹; ان پر بٹير كا نزول ۶; ان پر ترنگبين كا نزول ۶; ان پر سلوى كا نزول ۶، ۷، ۸; ان پر منّ كا نزول ۶، ۷، ۸; انكى نعمتيں ۷، ۹; ان كے ساتھ وعدہ ۳

خداتعالى :اسكى بنى اسرائيل كے ساتھ گفتگو ۳، ۴; اس كا نجات بخشنا ۲; اسكى نعمتيں ۹، ۱۲; اسكے وعدے ۳

كھانے كى چيزيں :سلوى ۶; من ۶

ذكر :تاريخ كے ذكر كى اہميت ۱۱

فرعون:اسكى دشمنى ۱; اس سے نجات ۲، ۷

فرعوني:ان سے نجات ۹

كوہ طور:اس كا تقدس ۵; اسكى طرف دعوت ۹; اسكى دائيں طرف ۴; اس ميں مناجات ۹

موسى (ع) :انكا معجزہ ۸

نعمت:اسكے درجے ۱۲; سلوى والى نعمت كا نزول ۹; من والى نعمت كا نزول ۹; دين والى نعمت ۱۲; روزى والى نعمت ۱۲; ظالموں سے نجات والى نعمت ۱۲; دشمنوں كى ہلاكت والى نعمت ۱۲

۱۴۷

آیت ۸۱

( كُلُوا مِن طَيِّبَاتِ مَا رَزَقْنَاكُمْ وَلَا تَطْغَوْا فِيهِ فَيَحِلَّ عَلَيْكُمْ غَضَبِي وَمَن يَحْلِلْ عَلَيْهِ غَضَبِي فَقَدْ هَوَى )

تم ہمارے پاكيزہ رزق كو كھاؤ اور اس ميں سركشى اور زيادتى نہ كرو كہ تم پر ميرا غضب نازل ہوجائے كہ جس پر ميرا غضب نازل ہوگيا وہ يقينا برباد ہوگيا (۸۱)

۱ _ من و سلوى ،خداتعالى كى طرف سے بنى اسرائيل كيلئے عطيہ اور پاكيزہ و خوش ذائقہ قسم كى روزى تھى _

و نزلنا عليكم المن والسلوى كلوا من طيبت ما رزقناكم

''طيب'' اس چيز كو كہتے ہيں كہ جس سے انسان كے نفس اور حواس كو لذت حاصل ہو (مفردات راغب) ''طاب'' يعنى لذيذ اور پاكيزہ ہوگيا (قاموس) البتہ ''طيب'' كا ايك معنى حلال بھى ہے ليكن چونكہ ہر رزق الہى حلال ہے لہذا وہ معنى كہ جس كا مطلب رزق كى حلال و حرام كى طرف تقسيم ہو مناسب معنى نہيں ہے_

۲ _پاكيزہ اور خوش ذائقہ رزق سے بہرہ مند ہونا،خداتعالى كى طرف سے بنى اسرائيل كو نصيحت_كلوا من طيبت ما رزقناكم

۳ _ دين موسى (ع) ميں صحيح و سالم غذا اور اصول صحت پر توجہ _كلوا من طيبت ما رزقناكم

۴ _ كھانے كى چيزيں ،خداتعالى كا رزق اور اس كا عطيہ ہيں _كلوا من طيبت ما رزقناكم

۵ _ خداتعالى ،انسان كو روزى دينے والا ہے_رزقناكم

۶ _ خداتعالى كى روزى انسان كيلئے پاكيزہ اور خوشگوار عطيہ ہے _طيبت ما رزقناكم

''طيبات'' كى ''ما رزقناكم'' كى طرف اضافت ممكن ہے بيانيہ ہو اور اس نكتے كو بيان كرنے كيلئے ہو كہ جو كچھ ہم نے تمہيں روزى دى ہے وہ طيب اور پاك و پاكيزہ ہے _

۷ _ خداتعالى كے عطيات اور نعمتوں كو اپنے اوپر حرام كرناايك ناروا عمل اور بے جا پرہيز ہے_كلوا من طيبت ما رزقناكم

طيبات سے استفادہ كرنے كى نصيحت اس كام كے افراط پر مبنى رياضتوں كے مقابلے ميں برتر ہونے كى علامت ہے_

۸ _ روزى اور وسائل سے بہرہ مندى كا جواز اسكے مزاج كے موافق ہونے كا مرہون منت ہے _

كلوا من طيبت ما رزقناكم

۹ _ خداتعالى كى نعمتوں سے استفادہ كرنا اور انہيں بے كار نہ ركھنا انكے عطا كرنے كا اصلى ہدف ہے_

۱۴۸

'' مارزقناكم'' ايسا عنوان ہے كہ جو ''كلوا'' كى علت كے مقام ميں اور مخاطب كو نعمت سے استفادہ كرنے كے لازمى ہونے كى طرف متوجہ كر رہا ہے اور اس بات سے حكايت كرتا ہے كہ ہم نے يہ رزق تمہيں ديا ہے تا كہ يہ تمہارى غذا ہو پس اسكے استعمال سے دريغ نہ كرو_

۱۰ _ كھانے پينے كى چيزوں ميں اصل اور قاعدہ اوليہ حليت ہے_كلوا من طيبت ما رزقناكم

۱۱ _ دريا كو عبور كرنے كے بعد،بنى اسرائيل كے ٹھكانے ميں سالم غذا كے وسائل نہيں تھے اور اس ميں خراب اور انسانى مزاج كے منافى غذائي چيزيں تھيں _كلوا من طيبت ما رزقناكم و لا تطغوا فيه

۱۲ _ نعمتوں سے استفاہ كرنے ميں قوانين الہى اور اعتدلال كى حد سے تجاوز نہ كرنا،خداتعالى كى بنى اسرائيل كو نصيحت _

كلوا من طيبت و لاتطغوا فيه

۱۳ _ نعمات الہى سے استفادہ كرنے ميں حدود اور اعتدال كى حفاظت كرنا اور اس ميں اسراف و تبذير اور ناشكرى سے پرہيز كرنا ضرورى ہے _كلوا من طيبت ما زرقناكم و لا تطغوا فيه

نعمتوں كے بارے ميں سركشى كاواضح مصداق كفران، ناشكري، اسراف اور تبذير ہے _

۱۴ _ الله تعالى كى نعمتوں اور رزق سے استفادہ كرنے كيلئے خاص احكام اور قواعد و ضوابط ہيں _كلوا من طيبت و لا تطغوا فيه ''طغيان'' كا معنى ہے حد سے تجاوز كرنا_ بنى اسرائيل كو طيبات سے استفادہ كرنے ميں طغيان سے نہى اس بات سے حكايت كرتى ہے كہ طيبات سے استفادہ كرنے كے قواعد و ضوابط اور حدود ہيں كہ جن سے خروج طغيان شمار ہوتا ہے_

۱۵ _ كھانے كى چيزوں ميں طغيان كرنے كے خطرناك اسباب موجود ہيں _كلوا ولا تطغوا فيه

''فيہ'' كى ضمير كا مرجع ممكن ہے ''كلوا'' كا مصدر (يعنى ''اكل'') ہو اور ممكن ہے اس كا مرجع ''ما رزقناكم'' كا ''ما '' ہو اس لحاظ سے كہ اس كا ''كلوا'' فعل كے ساتھ ارتباط ہے ہر صورت ميں مذكورہ بالا مطلب حاصل كيا جاسكتا ہے_

۱۶ _ خداتعالى كى نعمتوں كے سلسلے ميں حد سے تجاوز كرنا ستم گروں كى حكمرانى سے آزادى حاصل كرنے والے معاشروں كيلئے ايك خطرہ _ا نجيناكم من عدوكم كلوا لاتطغوا فيه

بنى اسرائيل كو طغيان سے نہى ان كے دريا سے عبور

۱۴۹

كرنے اور فرعونيوں كے ظلم و ستم سے نجات حاصل كرنے كے بعد ذكر ہوئي ہے اس موقع پر اس مسئلے كو چھيڑنا ايسے حالات ميں طغيان كى طرف لے جانے والے اسباب كے وجود كو بيان كرتا ہے_

۱۷ _ نعمتوں سے استفادہ كرنے ميں حد سے تجاوز كرنا (ناشكري، اسراف ...) غضب الہى كے نزول اور اسكے انسان پر مسلط ہونے كے اسباب فراہم كرتا ہے_كلوا و لاتطغوا فيه فيحل عليكم غضبي

''يحلّ'' يعنى ''ينزل'' غضب كا نزول اسكے مكمل طور پرمستقر ہونے سے كنايہ ہے_

۱۸ _سقوط اور ہلاكت ان معاشروں اور افراد كا حتمى مقدر ہے كہ جن پر خدا تعالى كا غضب ہو_

و من يحلل عليه غضبى فقد هوى

۱۹ _ خداتعالى كى نعمتوں كے سلسلے ميں طغيان كرنا اور حد اعتدال سے خارج ہونا بہت بڑا گنا ہ ہے_

و لاتطغوا و من يحلل عليه غضبى فقد هوى

نعمتوں كے سلسلے ميں طغيان كرنے والوں پر غضب الہى ان كے گناہ كے بڑا ہونے كى علامت ہے _

۲۰ _راوى كہتا ہے ميں امام باقر(ع) كے حضور ميں تھا كہ عمر و بن عبيد داخل ہوا اور امام(ع) سے كہنے لگا آپ (ع) پر قربان ہوجاؤں الله تبارك و تعالى كے فرمان'' و من يحلل عليه غضبى فقد هوي'' ميں غضب سے كيا مراد ہے؟ فرمايا يہ عذاب ہے اے عمر و بيشك جو شخص يہ گمان كرے كہ خداتعالى ايك حال سے دوسرے حال ميں منتقل ہوتا ہے تو اس نے مخلوق كى صفت كے ساتھ اسے متصف كيا ہے اور خداتعالى كو كوئي چيز حركت نہيں ديتى تا كہ اس ميں تبديلى آئے(۱)

اسراف:اسكے اثرات ۱۷; اس سے اجتناب كى اہميت ۱۳; اس كا گناہ ۱۹

انسان:اس كا مزاج ۸//بنى اسرائيل:انكى تاريخ ۱۱; انكو نصيحت ۲، ۱۲; انكى روزي۱، ۲; ان كے طيبات ۱; انكى رہائش گاہ ۱۱; انكى نعمتيں ۱//تجاوز:اس سے اجتناب كرنا ۱۲

غذا:اس ميں حفظان صحت كى اہميت ۲//معاشرہ:اسكى آسيب شناسى ۱۶

خداتعالى :اسكى نصيحتيں ۲، ۱۲; اس كا رازق ہونا ۴، ۵; اسكے غضب كا پيش خيمہ ۱۷; اسكى نعمتوں كا فلسفہ ۹; اسكے غضب سے مراد ۲۰; اسكى نعمتيں ۱، ۶

____________________

۱ ) كافى ج۱ ص ۱۱۰ ح ۵ نورالثقلين ج ۳ ص ۳۸۶ ح ۸۹_

۱۵۰

كھانے كى چيزيں :انكا كردار ۱۵

روايت ۲۰//روزي:اس سے استفادہ كے شرائط ۸; اس كا سرچشمہ ۵

زہد:اس ميں افراط كا ناپسنديدہ ہونا ۷

طغيان:اسكے اثرات ۱۷; اس كا پيش خيمہ ۱۵، ۱۶; اس كا گناہ ۱۹

طيبات:ان سے استفادہ كرنا ۴

عمل:ناپسنديدہ عمل ۷//قواعد فقہيہ: ۱۰//قاعدہ حليت ۱۰

كفران:كفران نعمت كے اثرات ۱۷; كفران نعمت سے اجتناب كرنا ۱۳; كفران نعمت كا گناہ ۱۹

گناہان كبيرہ: ۱۹

جن پر خدا كا غضب ہے:انكا انجام ۱۸; انكى ہلاكت ۱۸

نعمت:اسكے احكام ۴; اس سے استفادہ كرنا ۹; اس سے استفادہ كرنے ميں اعتدال ۱۲، ۱۳; اس سے استفادہ كرنے كے شرائط ۱۴; اسكے حرام كرنے كا ناپسند ہونا ۷; كھانے كى چيزوں كى نعمت ۴; روزى والى نعمت ۶; سلوى والى نعمت ۱; طيبات والى نعمت ۶; منّ والى نعمت ۱

يہوديت:اس ميں حفظان صحت ۳; اس ميں غذا ۳

آیت ۸۲

( وَإِنِّي لَغَفَّارٌ لِّمَن تَابَ وَآمَنَ وَعَمِلَ صَالِحاً ثُمَّ اهْتَدَى )

اور ميں بہت زيادہ بخشنے والا ہوں اس شخص كے لئے جو توبہ كرلے اور ايمان لے آئے اور نيك عمل كرے اور پھر راہ ہدايت پر ثابت قدم رہے (۸۲)

۱ _خداوند متعال،بہت بجشنے والا ہے_و إنى لغفار

۲ _ شرك، كفر اور عصيان سے توبہ كرنے والے با ايمان لوگ كہ جو عمل صالح انجام ديتے ہيں اور ہدايت كے پيچھے جاتے ہيں قطعا مغفرت الہى كے مستحق قرار پائيں گے _وإنى لغفار لمن تاب و امن ثم اهتدي گذشتہ آيت قرينہ ہے كہ توبہ سے مراد كھانے كى چيزوں كے سلسلے ميں حد سے تجاوز كرنے والے گناہ سے توبہ ہے اور چونكہ

۱۵۱

''تاب'' كے بعد ايمان كى بات كى گئي ہے اس لئے يہ شرك و كفر كے گناہ سے توبہ كو بھى شامل ہے_

۳ _ توبہ، ايمان، عمل صالح اور ہدايت كے پيچھے جانا مغفرت الہى كے حصول كے ذرائع ہيں _و إنى لغفار ثم اهتدي

اس چيز كو مد نظر ركھتے ہوئے كہ توبہ، ايمان اور عمل صالح خود ہدايت يافتہ ہونے سے حكايت كرتے ہيں ''ثم اہتدي'' ہدايت پر باقى رہنے اور مسلسل اس كے پيچھے رہنے كو بيان كر رہا ہے_

۴ _ رہبانيت كو اپنا نے والے اور فضول خرچى كرنے والے اگر توبہ كر ليں تو مغفرت الہى ان كے شامل حال ہو جائيگي

كلوا و لا تطغوا و إنى لغفار لمن تاب

۵ _ گناہ گاروں اور مغضوبين كيل ے خدا تعالى كى طرف سے توبہ اور واپس پلٹنے كاراستہ كھلا ہے_يحلل غضبى و إنى لغفار لمن تاب حد سے تجاوز كرنے والوں كو دھمكى دينے كے بعد خدا تعالى كى مغفرت واسعہ پر تأكيد گناہ گاروں كو بخشش الہى كا اميدوار كرنے اور راہ توبہ كے كھلا ہونے كو بيان كرنے كيلئے ہے_

۶ _ گناہ سے توبہ كا ضرورى ہونا اديان آسمانى كى مشتركہ تعليمات ميں سے ہے _و إنى لغفار لمن تاب

۷ _ عمل صالح كے انجام كا ضرورى ہونا،سب اديان الہى كے احكام ميں سے ہے_و إنى لغفار لمن تاب و ء امن و عمل صالح

۸ _ توبہ كرنے والے اور نيك كردار مؤمنين كيلئے خدا تعالى كى مغفرت وسيع اور عام ہے_و إنى لغفار لمن تاب

''غفار'' مبالغہ كا صيغہ ہے اور مؤمنين اور نيك كردار توبہ كرنے والوں كے سلسلے ميں بخشش الہى كے وسيع ہونے پر دلالت كر رہا ہے

۹ _ آسمانى اديان كى تربيت كى روش ميں بشارت اور انذار ايك دوسرے كو مكمل كرنے والے ہيںو لا تطغوا فيه فيحلل عليكم غضبي و إنى لغفار

۱۰ _ حد سے تجاوز كرنا ايمان كو تباہ كرنے والا ہے_و لا تطغوا فيه و إنى لغفار لمن تاب و امن طغيان كے بعد نئے ايمان كى بات ممكن ہے اس نكتے كو بيان كرنے كيلئے ہو كہ طغيان ايمان كو ختم كر ديتا ہے اور يا اسے بہت نقصان پہنچاتا ہے_

۱۱ _ بڑھتى ہوئي اور تكامل كا راستہ طے كر تى ہوئي ہدايت، توبہ، ايمان اور عمل صالح كا نتيجہ _لمن تاب و امن و عمل صالحاً ثم اهتدي ممكن ہے '' ثم اہتدي'' ہدايت كے اعلى مراتب اور بلند درجات كى طرف ناظر ہو كہ جو

۱۵۲

توبہ، ايمان اور عمل صالح كے نتيجے ميں حاصل ہوتے ہيں يہ نكتہ باب افتعال كہ جو مطاوعہ كيلئے آتا ہے كے معنى كو مد نظر ركھتے ہوئے زيادہ واضح ہوتا ہے_

۱۲ _ ہدايت ايسى چيز ہے كہ جس ميں رشد و تكامل ہو سكتا ہے_تاب و ء امن و عمل صالحاً ثم اهتدي

۱۳ _ توبہ كى قبوليت اور گناہوں كى بخشش انہيں ہميشہ ترك كرنے اور نئے گناہ سے پرہيز كے ساتھ مشروط ہے_

و إنى لغفار لمن تاب ثم اهتدي ''ثم اہتدي'' كہ جو توبہ كے بعد والے مرحلے كى طرف ناظر ہے اس نكتہ كو بيان كر رہا ہے كہ اگر راہ ہدايت كو چھوڑ ديا جائے اور جس گناہ سے توبہ كى تھى اسے دوبارہ انجام ديا جائے تو مغفرت الہى انسان كے شامل حال نہيں ہو گي_

بخشش:اس كا پيش خيمہ۳_ اسكى شرائط۱۳ _ يہ جنكے شامل حال ہے ۲

اديان آسماني:انكى تعليمات ۶، ۷، ۹_ انكى ہم آہنگي۶

اسما و صفات:غفار //ايمان:اسكے اثرات۲، ۳، ۱۱_ اسكے زوال كے عوامل۱۰

تائبين:انكى بخشش ۲، ۸//تربيت:اس ميں انذار۹_ اس ميں بشارت۹_ اسكى روش ۹

توبہ:اسكے اثرات ۱۱_ يہ اديان آسمانى ميں ۶; اسكى قبوليت كے شرائط۱۳

خدا تعالي:اسكى بخشش ۱_ اسكى بخشش كا پيش خيمہ ۳، ۴; اسكى بخشش كى وسعت ۸

شرك:اسكى بخشش كے شرائط۲، ۳

صالحين:انكى بخشش۸

طغيان:اسكے اثرات۱۰

عصيان:اسكى بخشش كے شرائط ۲

عمل صالح:اسكے اثرات ۲، ۳، ۱۱;اسكى اہميت ۷

كفر:اسكى بخشش كے شرائط۲

گناہ:اس سے اجتناب ۱۳

۱۵۳

گناہ گار لوگ;انكى توبہ۵

مؤمنين:انكى بخشش۸

اسراف كرنے والے:انكى توبہ كے اثرات ۴_ انكى بخشش كے شرائط۴

خدا كے مغضوب لوگ:انكى توبہ۵

ہدايت:اسے قبول كرنے كے اثرات ۳_ اس كا زيادہ ہونا ۱۲_ اسكے زيادہ ہونے كا پيش خيمہ ۱۱_ اسكے مراتب۱۲

آیت ۸۳

( وَمَا أَعْجَلَكَ عَن قَوْمِكَ يَا مُوسَى )

اور اے موسى تمھيں قوم كو چھوڑ كر جلدى آنے پر كس شے نے آمادہ كيا ہے (۸۳)

۱ _ خدا تعالى نے حضرت موسي(ع) اور ان كى قوم كے ساتھ كوہ طور كے قريب گفتگو كرنا طے فرمايا تھا _

وعدناكم جانب الطور الا يمن و ما ا عجلك عن قومك

اس سورت كى آيت ۸۰ ميں (كوہ طور ميں ) بنى اسرائيل كے ساتھ خدا تعالى كے وعدے كى بات ہوئي تھى ظاہرا ''ماا عجلك'' _ كہ جو حضرت موسي(ع) كے وعدہ گاہ ميں آنے كے سلسلے ميں عجلت كرنے سے حاكى ہے _ اسى وعدے كے ساتھ مربوط ہے_

۲ _ وعدہ گاہ ميں پہنچنے كيلئے حضرت موسي(ع) اپنى قوم كے ہمراہ آنے پر مأمور _و ا عجلك عن قومك يا موسى

حضرت موسى (ع) سے خدا تعالى كا سوال _ بعد والى آيت ميں ان كے جواب كے قرينے سے _ توبيخى اور ملامت كے مقام ميں ہے اس سرزنش سے معلوم ہوتا ہے كہ حضرت موسي(ع) نے اپنى قوم كو چھوڑ كر اور ان سے جدا ہو كر ترك اولى كا ارتكاب كيا تھا اور انہيں چاہے تھا كہ اپنى قوم كے ہمراہ چلتے اور ان پر سبقت نہ كرتے_

۳ _ وعدہ گاہ ميں پہنچنے كيلئے حضرت موسي(ع) نے جلد سے كام ليا اور اپنى قوم پر سبقت كى _و ماا عجلك عن قومك يا موسى

۴ _ وعدہ گاہ پر پہنچنے ميں حضرت موسي(ع) كے قوم پر سبقت كرنے كى وجہ سے خدا تعالى نے ان سے بازپرس كي_

و ما ا عجلك عن قومك يا موسى

۵ _ كوہ طور پر آنے ميں عجلت سے كام لينے كے بارے ميں خدا تعالى كا حضرت موسي(ع) سے سوال كرنا خدا تعالى كى ان

۱۵۴

كے ساتھ پہلى گفتگو نہيں تھي_و ما ا عجلك ''و ما ا عجلك'' ميں ''واو''محذوف پر عطف كيلئے ہے يعنى حضرت موسي(ع) (ع) كے كوہ طور پر حاضر ہونے كے بعد بات يا باتيں ہوئيں اس وقت يہ سوال اٹھا يا گيا_

۶ _ انبياء الہى تمام مراحل اور پروگراموں ميں اپنى امت اور قوم كے ہمراہ رہنے پر مأمور ہيں _و ما ا عجلك عن قومك يا موسي(ع) وعدہ گاہ پر پہنچنے كيلئے حضرت موسي(ع) كے اپنى قوم سے جدا ہونے كى وجہ سے ان كا مؤاخذہ ہونا بتاتا ہے كہ يہ چيز ضرورى ہے كہ كسى بھى حالات ميں انبياء اپنى قوم سے جدا نہ ہوں _

۷ _ ضرورى ہے كہ انبيائ، خدا تعالى كے حكم كى بغير اپنى قوم سے جدا نہ ہوں _و ما ا عجلك عن قومك يا موسي(ع)

۸ _ ضرورى ہے كہ دينى راہنما تمام ميدانوں ميں لوگوں كے ساتھ ساتھ رہيں _و ما اعجلك عن قومك يا موسي(ع)

انبيائ(ع) :انكى ذمہ داري۶، ۷

بنى اسرائيل:وعدہ گاہ ميں ان كے نمائندے۱، ۲

خداتعالي:اسكى طرف سے سرزنش۴، ۵;اسكى موسي(ع) كے ساتھ گفتگو۵

دينى راہنما:انكى ذمہ داري۸

لوگ:ان كے ہمرا ہ رہنے كى اہميت ۶، ۷، ۸

موسي(ع) :انكى عجلت كے اثرات ۴; انكا عجلت سے كام لينا ۳، ۵;انكا قصہ ۱، ۲، ۳;انكا مؤاخذہ ۴، ۵; انكى ذمہ دارى ۲; يہ وعدہ گاہ ميں ۳، ۴

آیت ۸۴

( قَالَ هُمْ أُولَاء عَلَى أَثَرِي وَعَجِلْتُ إِلَيْكَ رَبِّ لِتَرْضَى )

موسى نے عرض كى كہ وہ سب ميرے پيچھے آرہے ہيں اور ميں نے راہ خير ميں اس لئے عجلت كى ہے كو تو خوش ہوجائے (۸۴)

۱ _حضرت موسي(ع) نے وعدہ گاہ پر آنے كے سلسلے ميں اپني قوم پر سبقت كرنے كى وجہ يہ قرار دى كہ انہيں اپنى قوم كے بارے ميں اطمينان تھا كہ وہ انكى پيروى كرے گى اور وعدہ گاہ تك كى مسافت طے كرے گي_قال هم ا ولا، على أثري ''أولا'' اسم اشارہ بعيد كيلئے ہے اور ''اثر'' كا معنى ہے ہر چيز كا باقى ماندہ علامت اس لئے پاؤں كے نشان كو بھى اثر

۱۵۵

كتے ہيں _ ''اثر''پيچھے چلنے اور اتباع كرنے كے معنى ميں بھى آتا ہے (مقابيس اللغة)چنانچہ آيت كريمہ كامعنى يہ بنے گا كہ يہ وہى جماعت ہے جو ميرے پاؤں كے نشان پر چلتے ہوئے وعدہ گاہ كى طرف رواں رواں ہے يا يہ كہ وہ ميرے پيچھے وعدہ گاہ كى طرف آر ہے ہيں _

۲ _ وعدہ گاہ ميں حضرت موسي(ع) اپنى قوم سے تھوڑا سا پہلے پہنچے_و ماا عجلك قال هم ا ولاء على أثري

حضرت موسي(ع) كى طرف سے ان كے ہمراہيوں كا مورد اشارہ قرار پانابتا تاہے كہ وہ حضرت موسي(ع) كى نظروں ميں تھے اور وعدہ گاہ ميں پہنچنے كيلئے انہيں زيادہ وقت نہيں چاہے تھا_ بنابراين وعدہ گاہ ميں حضرت موسي(ع) كے وارد ہونے اور انكى قوم كے وارد ہونے كے درميان زيادہ فاصلہ نہيں تھا_

۳ _ موسي(ع) كى قوم تھوڑے وقت كے بعد،حضرت موسي(ع) كے اور انكے پاؤں كے نشانات پر وعدہ گاہ كى طرف روا نہ ہوئي_و ما ائعجلك قال هم ا ولاء على ا ثري

۴ _ حضرت موسي(ع) طے شدہ وقت اور اپنى قوم سے پہلے وعدہ گاہ ميں پہنچنے كو خدا تعالى كى رضا حاصل كرنے كا سبب سمجھتے تھے_و ما ا عجلك و عجلت إليك رب لترضي

۵ _ حضرت موسي(ع) كو اپنے پروردگار كى ملاقات، اسكے ساتھ گفتگو اور اسكى رضا كو حاصل كرنے كا شوق انكے وعدہ گاہ كى طرف آنے ميں عجلت كرنے كا سبب بنا_و عجلت إليك رب لترضي

۶ _ كار خير ميں جلدى كرنے اور وعدے كى وفا ميں عجلت سے كام لينا خدا تعالى كى رضا كے حاصل كرنے كا سبب ہے_

و ما ا عجلك وعجلت إليك رب لترضي اگر چہ اپنى قوم سے جدا ہونے كى وجہ سے خدا تعالى نے حضرت موسي(ع) سے بازپرس كى ليكن اس جلدى سے ان كے ہدف پر تنقيد نہيں كى گئي اس كا مطلب يہ ے كہ وعدے كى و فا ميں جلدى كرنا اور وعدہ گاہ ميں حاضر ہوجانا بذات مطلوب كام تھا_

۷ _ عبادت،خدا تعالى كى رضا كو حاصل كرنے كا ذريعہ ہے_عجلت إليك رب لترضي

۸ _ ہر كام كى خوبى اسكے نيت خير كے ساتھ انجام پانے كے علاوہ خدا تعالى كے ديگر احكام اور خواہشات كے ساتھ ہم آہنگ ہونے ميں مخفى ہے _و ما ا عجلك و عجلت إليك رب لترضي با وجود اس كے كہ حضرت موسي(ع) جلدى كرنے ميں نيت خير ركھتے تھے ليكن ان سے بازپرس ہونا اس بات پر دلالت كرتا ہے كہ عمل كى بلندى كيلئے

۱۵۶

صرف نيت خير ركھنا كافى نہيں ہے بلكہ ضرورى ہے كہ اس عمل كا ديگر دليلوں كے ساتھ موازنہ كيا جائے اگر ان كے كا منافى نہ ہو تو اس كا احترام كيا جائے_

۹ _ انبياء (ع) خدا تعالى كى رضا كے موارد كى تشخيص كيلئے خدا تعالى كى ہدايت اوررہنمائي كے محتاج ہيں _و ما ا عجلك عجلت إليك رب لترضي

۱۰ _ خداتعالى كى ربوبيت كا تقاضا ہے نيت خير ركھنے والوں اور كار خير ميں سبقت كرنے والوں كو جزا دى جائے_

و عجلت إليك رب لترضي

۱۱ _ سفر كے دوران ہم سفروں كے ہمراہ رہنا اور راستے ميں ان سے جدا نہ ہوناسفر كے آداب ميں سے ہے_

و ما ا عجلك قال هم ا ولاء على أثري

انبياء(ع) :انكى معنوى ضروريات۹; انكى ہدايت۹

بنى اسرائيل:وعدہ گاہ ميں ان كے نمائندے ۱، ۲، ۳

شرعى فريضہ:اس پر عمل ۸

خداتعالي:اسكى ربوبيت كے اثرات ۱۱; اسكى رضا كى تشخيص كا پيش خيمہ ۹; اسكى رضا كا پيش خيمہ۴، ۶، ۷; اسكى موسي(ع) كے ساتھ گفتگو۵

عبادت:اسكے اثرات۷

عمل:عمل خير ميں پيش قدمى كے اثرات ۶_ عمل خير ميں پيش قدمى كرنے والوں كى جزا ۱۱;عمل خير كى جزا كا پيش خيمہ ۱۱; عمل خير كى شرائط۸; عمل خير ميں نيت۸

سفر:اسكے آداب۱۲

موسي(ع) :انكى سوچ۴; انكى پيروي۱; انكى عجلت ۱، ۲، ۴; انكے تمايلات ۵; انكى عجلت كے عوامل ۵; انكا قصہ، ۲، ۳، ۵; انكى خدا كے ساتھ ملاقات ۵; آپ وعدہ گاہ ميں ۱، ۲، ۳، ۴، ۵

ضروريات:خداتعالى كى ہدايت كى ضرورت۹

نيت:اسكے اثرات۸//وعدہ:اسكى وفا ميں جلدى كرنے كے اثرات ۶

ہم سفر:انكے ہمراہ رہنا ۱۲

۱۵۷

آیت ۸۵

( قَالَ فَإِنَّا قَدْ فَتَنَّا قَوْمَكَ مِن بَعْدِكَ وَأَضَلَّهُمُ السَّامِرِيُّ )

ارشاد ہوا كہ ہم نے تمھارے بعد تمھارى قوم كا امتحان ليا اور سامرى نے انھيں گمراہ كرديا ہے (۸۵)

۱ _ حضرت موسي(ع) كى عدم موجودگى ميں بنى اسرائيل كو آزمائش الہى كا سامنا _فإنا قد فتنا قومك من بعدك

''من بعدك'' يعنى (اے موسي(ع) ) بعد اسكے كہ تو اپنى قوم سے جدا ہوا اور ان كى نظروں سے غائب ہوا _ قابل ذكر ہے كہ ''فتنہ'' در اصل اس سونے اور چاندى كے بارے ميں استعمال ہوتا ہے جسے آگ كے ساتھ پگھلا كر اچھے اور برے كو جدا كر ليا گيا ہو_ (مصباح) اور آيت كريمہ ميں اس سے مراد آزمائش ہے كہ جو اچھے اور برے انسانوں كى تشخيص كا ذريعہ ہے_

۲ _ حضرت موسي(ع) ،وعدہ گاہ ميں اور وحى كے ذريعے اپنى عدم موجود گى ميں بنى اسرائيل كى آزمائش اور ان كے گمراہ ہونے سے آگاہ ہوئے_و عجلت إليك فإنا قد فتنا قومك من بعدك

۳ _ حقائق كے بارے ميں حضرت موسي(ع) كے علم كا محدود ہونا_فإنا قد فتنا قومك

۴ _ سامرى حضرت موسي(ع) كى عدم موجودگى ميں بنى اسرائيل كى گمراہى كا سبب بنا_و ا ضلهم السامري

''سامري'' ايك شخص كا نام ہے جو بنى اسرائيل سے تھا اور انكى گمراہى كا سبب بنا _

۵ _ معاشرے ميں الہى پيشوا كا وجود، انحراف سے بچانے كيلئے بنيادى كردار كا حامل ہوتاہے_فانا قد فتنا قومك من بعدك واضلهم السامري

''من بعدك'' بتاتاہے كہ حضرت موسي(ع) كے اپنى قوم كے درميان نہ ہونے سے اس گمراہى كے مقدمات كا آغاز ہوا_

۶ _ ہر معاشرے كے برجستہ افراد اور شخصيات اس كى تاريخ اور اجتماعى وقائع ميں مؤثر كردار كے حامل ہوتے ہيں _

من بعدك

۱۵۸

۷ _ انبياء كى امتيں اپنے رہبروں كى عدم موجودگى كى صورت ميں آزمائش الہى سے دوچار _فإنا قد فتنا قومك من بعدك

حضرت موسي(ع) كى عدم موجودگى ميں بنى اسرائيل كے آزمائے جانے كى خبر كے ذريعے تمام امتوں كو خبردار كيا جا رہا ہے كہ اپنے پيشواؤں كے كى عدم موجودگي(انكى موت يا عدم موجودگي)كے زمانے ميں كافى حد تك ہوشيار رہيں تا كہ آزمائشوں سے سربلندى كے ساتھ نكل سكيں _

۸ _ خاص اوقات ميں امتوں كيلئے امداد الہى كا مطلب يہ نہيں ہے كہ وہ بعد والے مراحل ميں آزمائشوں سے معاف ہيں _

قد ا نجيناكم فإنا قد فتنا قومك من بعدك

۹ _ حضرت موسي(ع) كے عوام سے جدا ہونے اور ان سے سبقت لينے كے سلسلے ميں خدا تعالى كا ان پر اعتراض آپ كى عدم موجودگى ميں ان كے درميان انحراف پيدا ہونے كى وجہ سے تھا_و ما ا عجلك فإنا قد فتنا قومك من بعدك

۱۰ _ گمراہى كے عوامل، خداتعالى كى طرف سے لوگوں كى آزمائش كے ذرائع اور اسكى قدرت كے سامنے مجبور رہيں _

فتنا و ا ضلهم السامري با وجود اس كے كہ سامرى كا گمراہ كرنا خود اسكى طرف منسوب ہے ليكن اسے آزمائش الہى كا مصداق قرار ديا گيا ہے اس كا مطلب يہ ہے كہ خدا تعالى اسكے كام پر تسلط ركھتا تھا ليكن اس نے اسے اپنى مرضى سے آزاد چھوڑا_

۱۱ _ بنى اسرائيل كا مرتد ہونا اور ان كے درميان بچھڑا پرستى كا وجود ميں آنا ان كے دريا سے عبور كرنے كے بعد تھا_

يا بنى إسرائيل قد ا نجيناكم من عدوّكم فتنا قومك من بعدك

آزمائش:اس كا ذريعہ۱۰

امتيں :انكى آزمائش۸ _انكى امداد۸_ انكى آزمائش كا پيش خيمہ۷_ انكى گمراہى كا پيش خيمہ۷_ انكى گمراہي۸

معاشرتى انحرافات:انكے موانع۵

بنى اسرائيل:اس كا مرتد ہونا۱۱; اسكى آزمائش۱، ۲;يہ موسي(ع) كى غيبت ميں ۱، ۲، ۴، ۹; اسكى تاريخ ۱، ۲، ۴، ۱۱;اس كى گمراہى كا پيش خيمہ۹;سكى گمراہى كے عوامل۴; اسكى گمراہى ۲;اسكى بچھڑا پرستي۱۱

تاريخ:اسكے تحولات ميں مؤثر عوامل۶

معاشرتى تحولات:اس ميں مؤثر عوامل ۶

خداتعالي:اسكى آزمائش۱، ۱۰; اسكى امداد ۸;اسكى طرف سے سرزنش ۹;اسكى قدرت۱۰

۱۵۹

رہبر:انكا نقش و كردار۶

دينى راہنما:انكا معاشرتى كردار۵;انكانقش و كردار۷

سامري:اس كا گمراہ كرنا ۴

گمراہي:اس كے عوامل كا كردار۱۰

موسي(ع) :انكى عجلت۹;ان كے مؤاخذے كا فلسفہ۹; انكا قصہ ۲، ۴، ۹; ان كے علم كا ائرہ ۳; انكى طرف وحى ۲

وحي:اس كا كردار۲

آیت ۸۶

( فَرَجَعَ مُوسَى إِلَى قَوْمِهِ غَضْبَانَ أَسِفاً قَالَ يَا قَوْمِ أَلَمْ يَعِدْكُمْ رَبُّكُمْ وَعْداً حَسَناً أَفَطَالَ عَلَيْكُمُ الْعَهْدُ أَمْ أَرَدتُّمْ أَن يَحِلَّ عَلَيْكُمْ غَضَبٌ مِّن رَّبِّكُمْ فَأَخْلَفْتُم مَّوْعِدِي )

يہ سن كر موسى اپنى قوم كى طرف محزون اور غصہ ميں بھرے ہوئے پلٹے اور كہا كہ اے قوم كيا تمھارے رب نے تم سے بہترين وعدہ نہيں كيا تھا اور كيا اس عہد ميں كچھ زيادہ طول ہوگيا ہے ياتم نے يہى چاہا كہ تم پر پروردگار كا غضب وارد ہوجائے اس لئے تم نے ميرے وعدہ كى مخالفت كى (۸۶)

۱ _ حضرت موسي(ع) بنى اسرائيل كى گمراہى سے آگاہ ہونے كے بعد، شديد غم و غصے كے ساتھ ان كى طرف واپس پلٹے_

و ا ضلهم السامرى فرجع موسى إلى قومه غضبانا ا سف

اس سلسلے ميں قران كى ديگر آيات نيزخود ان آيات ميں موجود قرائن كو مد نظر ركھتے ہوئے ايسے لگتا ہے كہ بنى اسرائيل كا سامرى كے ذريعے گمراہ ہونا حضرت موسي(ع) كے چاليس دن كے ميقات كے دوران ہوا اور حضرت موسي(ع) كا اپنى قوم كى طرف لوٹنا بھى اس ميقات كے مكمل ہونے كے بعد تھا بعض اہل لغت كے بقول''غضبان'' اس شخص كو كہا جاتا ہے جو شديد غضب ميں ہو اور ''ا سف''اس غصے والے شخص كو كہا جاتا ہے جس كو كسى چيز پر افسوس ہو (لسان العرب)

۱۶۰

161