عصرِ غَیبتِ امامؑ میں ہماری ذمہ داریاں

عصرِ  غَیبتِ امامؑ میں  ہماری    ذمہ  داریاں22%

عصرِ  غَیبتِ امامؑ میں  ہماری    ذمہ  داریاں مؤلف:
: عامرحسین شہانی
زمرہ جات: امام مہدی(عجّل اللّہ فرجہ الشریف)
صفحے: 161

عصرِ غَیبتِ امامؑ میں ہماری ذمہ داریاں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 161 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 51931 / ڈاؤنلوڈ: 2747
سائز سائز سائز
عصرِ  غَیبتِ امامؑ میں  ہماری    ذمہ  داریاں

عصرِ غَیبتِ امامؑ میں ہماری ذمہ داریاں

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

 اور فرقہ واریت سے نجات کی راہ نکلے اور ہم لوگوں کے متحد ہوجانے ی سبیل پیدا ہو۔

                                                             س

جواب مکتوب

شرعی دلیلیں مجبور کرتی ہیں کہ مذہب اہلبیت(ع) کو اختیار کیا جائے

مکرمی تسلیم !

گرامی نامہ ملا۔ عرض یہ ہےکہ ہم جو اصولِ دین میں اشاعرہ کے ہم خیال نہیں اور فروع دین میں اربعہ میں سے کسی ایک کی تقلید نہیں کرتے تو یہ کسی تعصب یا فرقہ پرستی کی وجہ سے نہیں بلکہ اس کی وجہ صرف یہ ہے کہ شرعی دلیلیں ہمیں مجبور کرتی ہیں کہ ہم مذہب اہلبیت(ع) ہی کو اختیار کریں۔ یہی وجہ ہے جو ہم جمہور سے الگ ہو کر اصول و فروع دین میں بس ارشاداتِ ائمہ طاہرین(ع) ہی کے پابند ہیں۔ کیونکہ ادلہِ و براہین کا یہی فیصلہ ہے اور سنتِ نبوی کی پابندی بھی بس اسی صورت سے ہوسکتی ہے اگر دلیلیں ہمیں ذرا بھی مخالفت اہل بیت(ع) کی اجازت دیں یا ان کے مذہب کو چھوڑ کر دوسرے مذہب کی پابندی میں تقربِ الہی ممکن ہوتا تو ہم ضرور جہمور ہی کی روش پر چلتے تاکہ باہمی رشتہء اخوت اچھی طرح استوار رہے لیکن مجبوری یہ ہے کہ قطعی اور محکم دلیلیں سنگِ راہ بنی ہوئی ہیں اور کسی طرح مذہب اہلبیت(ع) چھوڑ کر کسی دوسرے مذہب کو اختیار کرنے کی اجازت نہیں دیتیں۔

۲۱

جمہور اہلسنت کا مسلک اختیار کرنے کی کوئی دلیل نہیں ملتی

اس کے علاوہ چاروں مذاہب کو کسی قسم کی ترجیح بھی تو نہیں۔ ان مذاہب کی پابندی کا واجب ولازم ہونا تو اور چیز ہے، ان کے بہتر اور قابل ترجیح ہونے پر جمہور کوئی دلیل بھی پیش نہیں کرسکتے۔ ہم نے تو جمہور مسلمین کے ادلا کو پوری تحقیق سے دیکھا۔ ہمیں تو ایک دلیل بھی ایسی نہ ملی جو ان ائمہ اربعہ کی تقلید و پیروی کو واجب بتاتی ہو۔ بس لے دے کے یہی ایک چیز ملی ہے جسے آپ نے بھی ذکر کیا ہے یعنی یہ کہ وہ مجتہد و عادل اور بڑے جلیل القدر علماء تھے لیکن یہ سوچنے کی بات ہے کہ اجتہاد ، امانت، عدالت، جلالتِ علمی، یہ ان ہی چاروں پزرگوں کے ساتھ مختص تو نہیں، انھیں میں منحصر تو نہیں لہذا معین طور پر فقط ان ہی کی پیروی اور ان ہی کے مذاہب میں سے کسی نہ کسی ایک کا پابند ہو رہنا واجب ہوجائے گا؟ اور میرا یہ دعوی ہے کہ مسلمانوں میں کوئی ایک شخص بھی ایسا نہ نکلے گا جو یہ کہہ سکے یہ چاروں ائمہ اہلسنت ائمہ علیہم السلام سے علم یا عمل کسی ایک چیز میں بڑھ کر تھے۔ ہمارے ائمہ تو اہل بیت طاہرین(ع) ہیں۔ جو سفینہ نجات ہیں۔ امتِ اسلام کے لیے بابِ حطہ ہیں۔ ستارہ ہدایت ہیں اور ثقل پیغمبر(ص) ہیں۔ امت میں رسول(ص) کی چھوڑی ہوئی نشانی ہیں۔ جن کے متعلق رسول(ص) کا یہ ارشاد ہے کہ

                     “ دیکھو ان سے آگے نہ بڑھنا ورنہ ہلاک ہوجاؤگے اور نہ انھیں پیچھے کردینا

 ورنہ تب بھی ہلاک ہوجاؤ گے اور انھیں سکھانا

۲۲

 پڑھانا نہیں ، یہ تم سے زیادہ جانتے ہیں۔”

لیکن کیا کہا جائے کہ رسول (ص) کے مرنے کے بعد سیاست نےکیا کیا کرشمے دکھائے اور کیا سلوک کیا گیا اہلبیت(ع) کے ساتھ؟

آپ کے اس جملہ نے کہ سلفِ صالحین بھی اسی مسلک پرگامزن رہے اور انھوں نے اسیی کو معتدل و معتبر مذہب سمجھا، مجھے حیرت میں ڈال دیا۔ شاید آپ نہیں جانتے کہ مسلمانوں میں تقریبا آدھی تعداد شیعوں کی ہے اور شیعیان آل محمد(ص) کے سلف و خلف اس زمانے کے شیعہ ہوں یا اس زمانے کے پہلی صدی ہجری سے لے کر اس چودھویں صدی تک مذہب اہلبیت(ع) کے پابند ہیں۔ شیعہ مسلک اہلبیت(ع) کی اتباع عہدِ امیرالمومنین(ع) اور جناب سیدہ(س) سے کررہے ہیں جب کہ نہ اشعری کا وجود تھا اور نہ ائمہ اربعہ میں سے کوئی عالم وجود میں آیا تھا۔

پہلے زمانہ کے لوگ جہمور کے مذہب کو جانتے ہی نہ تھے

اس کے علاوہ زمانہ پیغمبر(ص) سے قریب زمانہ کے مسلمان خواہ شیعہ ہوں یا  سنی انھوں نے ان مذاہب اربعہ میں سے کسی ایک کو اختیار ہی نہیں کیا۔ ان میں سے کسی ایک کے پابند ہی نہیں ہوئے اور ان مذاہب کو وہ اختیار بھی کرتے تو کیسے جب کہ ان مذاہب کا اس زمانے میں وجود بھی نہ تھا۔ اشعری( اصول دین میں آپ لوگ جن کے پیرو ہیں) سنہ270ھ میں پیدا ہوئے اور سنہ320ھ میں انتقال کیا۔ ظاہر ہے کہ سنہ270ھ کے قبل کے مسلمان عقائد میں اشعری کیسے کہے جاسکتے ہیں۔ احمد بن حنبل سنہ164ھ

۲۳

میں پیدا ہوئے اور سنہ241ھ میں انتقال کیا۔ شافعی سنہ150ھ میں پیدا ہوئے اور سنہ204ھ میں انتقال کیا۔ امام مالک سنہ95ھ میں پیدا ہوئے اور سنہ 169ھ میں انتقال کیا۔ امام ابو حنیفہ سنہ 80 ھ میں پیدا ہوئے اور سنہ150ھ میں انتقال کیا۔

خدا کے لیے انصاف تو فرمائیے کہ  جب اصول دین میں آپ کے پیشوا اشعری سنہ270ھ میں پیدا ہوں اور فروع دین میں آپ کے ائمہ اربعہ ابتداء زمانہ اسلام سے اتنے زمانہ کے بعد عالمِ وجود میں آئیں ، پھر اس سے پہلے کے مسلمانوں کے متعلق ، یہ کہنا کیونکر روا ہے کہ وہ بھی ان ہی مذاہب اربعہ کے پابند تھے اور ان کا مذہب بھی وہی تھا جو آج کل جمہور مسلمین کا ہے۔

ہم شیعیان اہلبیت(ع) تو ائمہ اہلبیت(ع) کے پیرو ہیں اور آپ لوگ یعنی جمہور مسلمین ، اہلبیت(ع) کو چھوڑ کر صحابہ اور تابعین صحابہ کے پیرو ہیں۔ تو دورِ اول کے بعد کے تمام مسلمانوں پر ان مذاہب میں سے کسی نہ کسی ایک کو اختیار کرلینا۔ کسی نہ کسی ایک کا پابند ہو رہنا واجب کیونکر ہوگیا اور ان چاروں مذاہب سے پیشتر جو مذاہب رائج تھے ان میں کیا خامی تھی کہ ان سے کنارہ کشی کر لی گئی اور آپ کے ان مذاہب میں جو بہت بعد میں عالمِ وجود میں آئے ایسی کیا خوبی تھی کہ اہلبیت(ع) سے روگردانی کی گئی جو ہم پایہ کتابِ الہی کشتی نجات اور معدن رسالت ہیں۔

اجتہاد کا  دروازہ اب بھی کھلا ہوا ہے

یہ بھی غور طلب امر ہے کہ اجتہاد کا دروازہ اب کیوں بند ہوگیا جب کہ ابتدائے زمانہء اسلام میں پاٹوں پاٹ کھلا ہوا تھا۔ ہاں اب اگر اپنے کو

۲۴

 بالکل عاجز قرار دے لیا جائے یہ طے کر لیا جائے کہ ہم اجتہاد کرنا بھی چاہیں تو اب ہم سے نہیں ہوسکتا۔ ہم اس شرف سے محروم ہی رہیں گے تو یہ دوسری بات ہے ورنہ کون شخص اس کا قائل ہونا پسند کرسکتا ہے کہ خداواند عالم نے حضرت خاتم المرسلین(ص) کو بہترین شریعت کے ساتھ مبعوث فرمایا اور تمام کتب سماویہ سے افضل و اشرف کتاب قرآن مجید نازل کی۔ دین کو مکمل اور اپنی نعمتوں کو تمام کیا اور آںحضرت(ص) کو آئیند و گزشتہ باتیں بتا کر بھیجا تو وہ صرف اس لیے کہ یہی ائمہ اربعہ شریعت کے مالک و مختار ہو رہیں۔ انھیں سے پوچھے ، انھیں سے معلوم کرے ، ان کو چھوڑ کر دوسرے ذریعے سے حاصل کرنا چاہے خود جدوجہد کرکے معلوم کرنا چاہے تو نہ معلوم کرسکے۔ مختصر یہ کہ پوری شریعتِ اسلامیہ قرآنِ مجید، سنتِ رسول(ص) تمام دلائل و بینات سمیت ان کی جاگیر ہوجائے، ملکیتِ خاص بن جائے، ان کے حکم و رائے کو چھوڑ کر کسی دوسرے کی رائے پر عمل کرنے کی کسی کو اجازت ہی نہ ہو۔

کیا یہی ائمہ اربعہ وارثِ نبوت تھے یا انھیں پر خداوند عالم نے ائمہ و اوصیاء کا سلسلہ ختم کیا، کیا انھیں کو آیندہ و گزشتہ کے علوم ودیعت کیے اور کیا بس انھیں کو وہ صلاحیتیں ملیں جو دینا بھر میں کسی اور کو نہیں ملیں، میرے خیال میں کوئی مسلمان بھی اس کا قائل نہ ملے گا۔

اتحاد کی آسان صورت یہ ہے کہ مذہب اہلبیت(ع) کو معتبر سمجھا جائے

 آپ نے جس اہم امر کی طرف ہمیں متوجہ کیا ہے یعنی یہ کہ فرقہ واریت ختم کی جائے اور تمام مسلمان شیعہ سنی ایک ہوجائیں تو بسم اﷲ یہ بہت مستحسن

۲۵

 اقدام ہے لیکن میرا خیال یہ ہے کہ مسلمانوں میں اتحاد و اتفاق کا ہونا بس اسی پر موقوف و منحصر نہیں کہ شیعہ اپنا مذہب چھوڑ دیں یا اہلسنت اپنے مذہب سے الگ ہوجائیں اور خاص کر شیعوں سے یہ کہنا کہ وہ اپنا مذہب چھوڑ دیں ترجیح بلا مرجح ہے بلکہ در حقیقت مرجح کو ترجیح دینا ہے۔ ہاں یہ پراگندگی تب ہی دور ہوسکتی ہے اور اتحاد و اتفاق جب ہی پیدا ہوسکتا ہے جب آپ مذہب اہلبیت(ع) کو بھی مذہب سمجھیں اور اس کو بھی ان چاروں مذہبوں میں سے کسی ایک جیسا قرار دیں تاکہ حنفی، شافعی، مالکی، حنبلی، شیعہ کو بھی ان ہی نظروں سے دیکھیں جن نظروں سے آپس میں ایک دوسرے کو دیکھتے ہیں۔اگر آپ جائزہ لیں تو خود مذاہب اہلسنت میں جتنے اختلاف موجود ہیں وہ شیعہ سنی اختلافات سے  کم نہیں ۔ لہذا صرف غریب شیعوں پر عتاب کیوں کیا جاتا ہے کہ وہ اہلسنت کے برخلاف ہیں۔ حضرات اہلسنت کو بھ شیعوں کی مخالفت پر سرزنش کیوں نہیں کی جاتی۔ بلکہ خود اہلسنت میں جو ایک دوسرے کے مخالف ہیں کوئی حنفی ہے کوئی شافعی، کوئی مالکی ہے کوئی حنبلی تو انھیں اختلاف سے منع کیوں نہیں کیا جاتا لہذا جب ملتِ اسلامیہ میں چار مذہب ہوسکتے ہیں۔ چار مذہب ہونے پر کوئی لب کشائی نہیں کرتا تو پانچ ہونے میں کیا قیامت ہے؟ کس عقل میں یہ بات آسکتی ہے کہ چار مذاہب تک ہونے  میں کوئی خرابی نہیں، چار مذہبوں میں بٹ کر مسلمان متحد رہ سکتے ہیں اتحاد و اتفاق باقی رہ سکتا ہے لیکن اگر چار سے برھ کر پانچ ہوجائیں تو اتحاد رخصت ہوجائے گا۔ جمعیت اسلام پراگندہ و منتشر ہوجائے گی۔

آپ نے ہم شیعوں کو مذہبی وحدت کی طرف جو دعوت دی ہے کاش کہ آپ یہی دعوت مذاہب اربعہ کے دیتے یہ دعوت آپ کے لیے بھی آسان تھی اور ان کے لیے بھی یہ ہمیں کو مخصوص کر کے دعوت کیوں دی گئی ؟

۲۶

کیا آپ بھی یہ سمجھتے ہیں کہ اہلبیت(ع) کی اتباع و پیروی میں اتحاد رخصت ، رشتہء اخوت منقطع ، اہلبیت(ع) کی پیروی کرنے والوں کا دیگر مسلمانوں سے کوئی واسطہ نہیں، کوئی رابطہ نہیں اور اہلبیت(ع) کو چھوڑ کر جس کی بھی پیروی کی جائے جسے بھی امام بنا لیا جائے دل ملے رہیں گے۔ عزائم ایک رہیں گے چاہے مذاہب مختلف ہی کیوں نہ ہوں۔ رائیں ایک دوسرے کے برخلاف ہی کیوں نہ ہوں، خواہشیں ایک دوسرے سے متضاد ہی کیوں نہ ہوں۔ میں تو یہ سمجھتا ہوں کہ آپ کا بھی یہ خیال نہ ہوگا اور نہ آپ کو رسول(ص) کے اہلبیت(ع) سے اتنی پرخاش ہوگی آپ تو دوستدار قرابت داران پیغمبر(ص) ہیں۔

                                                     ش

۲۷

مکتوب نمبر 3

مولانائے محترم تسلیم !

آپ کا مفصل گرامی نامہ ملا۔ اس میں شک نہیں کہ آپ نے وصول و فروعِ دین دونوں میں جمہور کے مذہب کی پیروی واجب نہ ہونے کو بہت تفصیل سے بیان کیا۔ اجتہاد کا دروازہ ہنوز کھلے رہنے کو بھی تشفی بخش طور پر ثابت کیا۔ آپ نے گرامی نامہ میں ان دونوں مسئلوں پر ایسے ناقابل رد دلائل و براہین اکھٹا کردیئے ہیں کہ انکار یا تامل کی گنجائش باقی نہیں رہتی۔ اب تو میں بھی آپ کا ہم خیال ہوں کہ یقینا جہمور کے مسالک کا اتباع کوئی ضروری نہیں نیز یہ کہ اجتہاد کا دروازہ اب بھی کھلا ہوا ہے۔

میں نے آپ سے پوچھا تھا کہ لوگ بھی وہی مذہب کیوں اختیار نہیں کر لیتے جو جمہور مسلمین کا مسلک ہے۔ تو آپ نے یہ فرمایا کہ اس کے سبب ادلہ

۲۸

شرعیہ ہیں۔ آپ کو چاہیے تھا کہ اس چیز کو ذرا تفصیل سے بیان کرتے بڑی مہربانی ہوگی اگر آپ کلام مجید یا احادیث نبوی(ص) سے ایسی قطعی دلیلیں پیش کریں جن سے یہ معلوم ہو کہ ائمہ اہل بیت(ع) ہی کی پیروی واجب و لازم ہے نہ کہ ان کے غیر کی۔

                                                             س

جواب مکتوب

مکرمی تسلیم !

آپ بحمدہ زیرک و دانا ہیں اسی لیے میں نے بجائے شرح و بسط کے اشارتا کچھ باتیں ذکر کر دی تھیں۔ توضیح کی ایسی کوئی ضرورت نہیں معلوم ہوتی تھی میرا خیال ہے کہ آپ کو ائمہ اہل بیت(ع) کے متعلق کسی قسم کا تردد نہ ہوگا۔ نہ ان کو ان کے غیروں پر ترجیح دینے میں کسی قسم کا پس و پیش ہونا چاہیے ۔ اہلبیت(ع) کی ذوات مقدسہ گمنام ہستیاں نہیں۔ ان کی عظمت و جلالت اظہر من الشمس ہے۔

اتباعِ اہلبیت(ع) کے وجوب پر ایک ہلکی سی روشنی

ان کا کوئی ہمسر ہوا نہ نظیر، انھوں نے پیغمبر(ص) سے تمام علوم سیکھے، اور دین و دنیا دونوں کے احکام حاصل کیے، اسی وجہ سے پیغمبر(ص) نے انھیں قرآن کا مثل ، صاحبانِ عقل و بصیرت کے لیے ہادی و پیشوا اور نفاق کے کی بخشش یقینی ہوگئی۔ عروہ وثقی ( مضبوط رسی) فرمایا جو کبھی ٹوٹے گی نہیں۔

۲۹

امیرالمومنین(ع) کا دعوت دینا مذہب اہلبیت(ع) کی طرف

اور حضرت امیرالمومنین(ع) فرماتے ہیں۔

     “ تم کہاں جارہے ہو؟ کدھر بھٹک رہے ہو ؟ حالانکہ علم ہدایت نصب ہیں، نشانیاں واضح ہیں، منارے کھڑے ہیں۔ تمہاری یہ سرگردانی کہاں پہنچائے گی تمہیں، بلکہ میں یہ پوچھ رہا ہوں کہ تم بھٹک کیسے رہے ہو حالانکہ تمہارے درمیان اہلِ بیت(ع) پیغمبر(ص) موجود ہیں جو حق کی زمام ہیں، دین کے جھنڈے ہیں، سچائی کی زبان ہیں لہذا انھیں بھی قرآن کی طرح اچھی منزل پر رکھو اور تحصیل علم کے لیے ان کی خدمت میں پہنچو، جس طرح پیاسے اور تھکے ہارے چوپائے نہر کے کنارے پہنچتے ہیں، اے لوگو ! یہ یاد رکھو یہ ارشادِ پیغمبر(ص) ہے کہ ہم میں(1) سے کسی شخص کو اگر موت آجائے تو ظاہری حیثیت سے وہ مرجائے گا لیکن در حقیقت زندہ ہوگا اور یوں اس کا جسم خاک میں مل جائے گا لیکن واقعا خاک میں نہ ملے گا لہذا تم جو باتیں جانتے نہیں ہو اس کے متعلق لب کشائی نہ کرو کیونکہ زیادہ تر وہی باتین حق ہیں جن کا تم انکار کرتے ہو۔ معانی مانگو اس سے جس پر تم غلبہ نہیں پاسکتے اور وہ میں ہوں ۔ کیا میں نے تمھارے درمیان

--------------

1:-کیونکہ ان کی روح عالم ظہور میں کارفرما ہے۔ دنیا کو منور بنائے ہوئے ہے جیسا کہ شیخ محمد عبدہ مفتی دیار مصر وغیرہ نے کہا ہے۔

۳۰

 ثقل اکبر( یعنی قرآن) پر عمل نہیں کیا ؟ اور تم میں ثقلِ اصغر ( یعنی اپنے دونوں جگر گوشے حسن(ع) و حسین(ع) ) چھوڑنے والا نہیں ہوں؟ کیا میں نے تمہارے درمیان ایمان کا جھنڈا نہیں گاڑا؟”

نیز حضرت امیرالمومنین(ع) فرماتے ہیں :

“ اپنے نبی(ص) کے اہل بیت(ع)(1) پر نظر رکھو، ان کی پہچان کا پورا دھیان رہے، ان کے نقشِ قدم پر چلتے رہو، یہ تمہیں راہِ راست سے الگ نہ کریں گے اور نہ ہلاکت میں دالیں گے، اگر وہ ٹھہریں تو تم بھی ٹھہر جاؤ اور اگر چل کھڑے ہوں تو تم بھی چل پڑو۔ ان سے آگے نہ  بڑھ جانا کہ گمراہ ہوجاؤ اور نہ پیچھے رہ جانا کہ ہلاکت میں پڑ جاؤ۔”

ایک مرتبہ آپ(ع) نے اہلبیت(ع) کا ذکر فرماتے ہوئے کہا:

“ وہ علم کی زندگی ہیں(2) ( ان کے دم سے علم زندہ ہے) جہالت کے لیے (پیام) موت ہیں۔ ان کے عمل کو دیکھ کر تم ان کے علم کا اندازہ کر سکو گے ، ان کے ظاہر کو دیکھ کر ان کے باطن کا اندازہ تمہاری سمجھ میں آجائے گا۔ ان کے سکوت سے تم سمجھو گے کہ ان کا کلام کس قدر جچاتلا ہوگا۔ نہ تو وہ حق کی مخالفت کرتے ہیں اور نہ ان کے مابین حق میں اختلاف ہوتا ہے۔ وہ اسلام

--------------

1:-نہج البلاغہ، جلد اول، صفحہ 179 خطبہ93

2:-نہج البلاغہ، جلد2، صفحہ259، خطبہ234

۳۱

کے ستون ہیں، مضبوط سہارا ہیں۔ ان ہی کے ذریعے حق اپنی منزل پر ہنچا۔ باطل کو زوال ہوا اور باطل کی زبان جڑ سے کٹ گئی انھوں نے دین کو حاصل کیا۔ اس پر عمل کرنے اور ذہن نشین کرنے کے لیے صرف سننے سنانے کے لیے نہیں کیونکہ علم کے راوی تو بہت ہیں لیکن علم پر عمل کرنے والے، علم کا حق ادا کرنے والے بہت کم ہیں۔”

ایک دوسرے خطبہ میں آپ(ع) فرماتے ہیں :

“ پیغمبر(ص) کی عترت(1) عترتوں میں بہترین عترت ہے۔ آپ کا گھرانا تمام گھرانوں سے بہتر گھرانا ہے، آپ کا شجرہ بہترین شجرہ ہے۔ حرم کی چار دیواری میں وہ روئیدہ ہوا۔ اوج بزرگی تک بلند ہوا۔ اس درخت کی شاخین دراز اور پھل اس کے ناممکن الحصول ہیں۔”

نیز حضرت امیرالمومنین(ع) فرماتے ہیں:

“ ہم(2) ہی پیغمبر(ص) کی نشانیاں ہیں، ہم ہی اصحاب ہیں، ہم ہی خزینہ دار ہیں، ہم ہی دروازے ہیں، گھروں میں دروازے ہی سے آیا جاتا ہے۔جو شخص دروازے سے نہ آئے اسے چور کہا جاتا ہے۔ ”

آگے چل کر آپ اہل بیت(ع) کی توصیف فرماتے ہیں :

“ انھیں کی شان میں کلامِ مجید  کی بہترین آیتیں نازل ہوئیں یہی

--------------

1:-نہج البلاغہ، جلد اول، صفحہ 175، خطبہ 190

2:-نہج البلاغہ، جلد 1، صفحہ 58، خطبہ 150

۳۲

 اہل بیت(ع) خدا کے خزانے ہیں۔ اگر بولیں گے تو سچ بولیں گے، اور اگر خاموش رہیں گے تو ان پر سبقت نہ کی جا سکے گی۔”

ایک اور خطبہ میں آپ فرماتے ہیں :

“ سمجھ(1) رکھو تم ہدایت کو اس وقت تک جان نہیں سکتے جب تک تم یہ نہ جان لو کہ کون راہِ ہدایت سے منحرف ہے۔ کتابِ خدا کے عہد و پیمان پر عمل نہیں کرسکتے جب تک تم یہ نہ معلوم کر لو کہ کس کس نے عہد شکنی کی۔ قرآن سے اس وقت تک متسک نہیں ہوسکتے جب تک قرآن چھوڑ دینے والوں کو پہچان نہ لو۔ لہذا اس کو قرآن والوں سے پوچھو ، اہل بیت(ع) سے دریافت کرو وہ علم کی زندگی ہیں جہالت کے لیے موت ہیں۔ اہل بیت(ع) ہی ایسے ہیں کہ ان کے حکم سے تمہیں پتہ چلے گا کہ کتنا علم رکھتے ہیں۔ ان کی خاموشی سے تمہیں معلوم ہوگا کہ وہ کس قدر متین اور جچی تلی گفتگو کرنے والے ہیں۔ ان کے ظاہر کو دیکھ کر تمہیں ان کے باطن کا اندازہ ہوگا۔ نہ تو وہ دین کی مخالفت کرتے ہیں اور نہ دین میں ان کے مابین کوئی اختلاف ہوتا ہے۔ پس گویا دین ان کے درمیان شاہد بھی ہے، صادق بھی، خاموش بھی ہے گویا بھی۔”

اس موضوع پر بکثرت ارشادات آپ کے موجود ہیں چنانچہ ایک اور موقع پر آپ نے ارشاد فرمایا :

      “ ہم ہی سے تم نے تاریکیوں میں ہدایت پائی۔ ہمارے ہی ذریعہ

--------------

1:-نہج البلاغہ، جلد2، صفحہ73، خطبہ 14

۳۳

 بلندیوں پر فائز ہوئے۔ ہماری ہی وجہ سے تاریکیوں سے نکلے بہرے ہوجائیں وہ کان جو سنیں اور سن کر یاد نہ رکھیں(1) ۔” 

ایک اور موقع پر آپ نے ارشاد فرمایا :

             “ اے(2) لوگو! روشنی حاصل کرو اس شخص کے چراغ کی لو سے جو تمہیں نصیحت کرنے والا بھی ہے اور خود بھی مطابق نصیحت عمل کرنے والا ہے اور پانی بھر لو اس پاک و صاف چشمہ سے جس کا پانی نتھرا ہوا ہے۔”

ایک اور موقع پر آپ نے ارشاد فرمایا :

             “ ہم شجرہ نبوت(3) (ص) ہیں۔ ہم منزل رسالت ہیں، ہم ملائکہ کی جائے آمدو رفت ہیں، علم کے خازن ہیں، حکمتوں کے سرچشمہ ہیں، ہمارے مددگار اور دوست منتظرِ رحمت اور ہمارے دشمن ہم سے کینہ رکھنے والے خدا کے قہر و غضب کے منتظر ہیں۔”

ایک موقع پر آپ نے ارشاد فرمایا :

                     “ کہاں(4) گئے وہ جو ہم سے سرکشی کر کے ہم پر کذب و افترا کر کے ہمارے

--------------

1 ـ  نہج البلاغہ، جلد 1، صفحہ33، خطبہ3

2 ـ  نہج البلاغہ، جلداول، خطبہ301

3 ـ  نہج البلاغہ، جلد اول، صفحہ214 خطبہ 105 ابن عباس کا قول ہے کہ ہم اہل بیت(ع) شجرہ نبوت ہیں، ملائکہ کی جائے آمدو رفت ہیں۔ رسالت کے گھرانے والے ہیں، رحمت کے گھر والے ہیں، علم کے معدن ہیں، ان کے اس فقرہ کو محققین علماء اہلسنت نے نقل کیا ہے۔ چنانچہ صواعق محرقہ صفحہ 143 پر بھی منقول ہے۔

4 ـ  نہج البلاغہ، جلد 2، صفحہ36

۳۴

 مقابلے میں اپنے کو راسخون فی العلم بتاتے تھے آئیں اور دیکھیں کہ ہم کو خدا نے رفعت بخشی انھیں پست کیا، ہمیں مالا مال کردیا انھیں محروم رکھا، ہمیں اپنی رحمت میں رکھا انھیں نکال باہر کیا ہم سے ہدایت چاہی جاتی ہے، ہم سے آنکھوں میں نور لیا جاتا ہے ، یقینا ائمہ قریش ہی سے جو ہاشم کی نسل سے ہوں گے امامت بنی ہاشم کے سوا کسی کے لیے لائق و سزاوار ہی نہیں اور نہ بنی ہاشم کے علاوہ کسی کو  حکومت زیب دے سکتی ہے ۔۔۔۔”

اسی سلسلہ میں آپ نے اپنے مخالفین سے فرمایا :

     “ ۔۔۔۔ انھوں نے دنیا کو اختیار کیا اور آخرت کو پیچھے کردیا۔ پاک و صاف چشمے کو چھوڑ کر گدلے پانی سے سیراب ہوئے۔ ”اسی طرح آخرِ خطبہ تک عنوان کلام ہے۔

آپ ہی کا یہ قول بھی ہے کہ :

“ تم میں(1) سے جو شخص اپنے بستر پر مرے اور وہ اپنے پروردگار اپنے رسول(ص) اور اہلبیت(ع) رسول(ص) کے حقوق کو پہچانتا ہوا مرے تو شہید مرے گا۔ اس کا اجر خدا کے ذمہ ہوگا اور جس نیک کام( جہاد فی سبیل اﷲ) کی نیت رکھتا تھا اس کی بھی جزا پائے گا۔ اور اس کی نیت اس کی تلوار کشی کی قائم مقام ہوجائے گی۔”

ایک اور موقع پر آپ نے ارشاد فرمایا:

             “ ہم(2) ہی شرفاء ہیں ہمارے بزرگ بزرگانِ انبیاء ہیں ہماری

--------------

1 ـ  نہج البلاغہ، جلد2، صفحہ156، خطبہ85

2 ـ  صواعق محرقہ، صفحہ142

۳۵

 جماعت خدا کی جماعت ہے اور باغی گروہ شیطان کی جماعت ہے۔ جو شخص ہمیں اور ہمارے دشمن کو برابر رکھے وہ ہم سے نہیں۔”

امام حسن(ع) نے ایک موقع پر خطبہ ارشاد فرماتے ہوئے کہا :

             “ ہمارے بارے میں خدا سے ڈرو کیونکہ ہم تمھارے امیر و حاکم ہیں(1) ۔”

امام زین العابدین(ع) کا ارشادِ گرامی

امام زین العابدین علیہ السلام جب اس آیت کی تلاوت فرماتے :

             “ اے لوگو ! خدا سے ڈرو اور صادقین کے ساتھ ہوجاؤ۔”

تو آپ دیر تک خدا سے دعا فرماتے جس میں صادقین کے درجے سے ملحق ہونے اور اندراج عالیہ کی خواستگاری فرماتے، مصائب و شدائد کا ذکر کرتے اور ائمہ دین خانوادہ رسالت(ص) کو چھوڑ دینے والے بدعتی لوگوں نے جن چیزوں کی دین کی طرف نسبت دے رکھی ہے اس کا تذکرہ کرتے پھر فرماتے :

             “  اور کچھ لوگ ہمیں ہمارے درجے سے گھٹانے پر اتر آئے۔ کلام مجید کی متشابہ آیتوں سے کام نکالنے لگے۔ انھوں نے ان آیتوں کی من مانی تاویلیں کیں اور ہمارے متعلق جو کچھ ارشاداتِ پیغمبر(ص) ہیں ان کو متہم قرار دے دیا۔”

اسی سلسلہ میں آپ فرماتے :   “ اے پالنے والے ! اس امت کی نافرمانی کی کس سے فریاد کی جائے حالت یہ ہے کہ اس ملت کی نشانیاں خاک  میں مل گئیں اور امت

--------------

1 ـ  صواعق محرقہ، صفحہ134

۳۶

نے فرقہ پرستی اور اختلاف کو اپنا دین بنالیا۔ایک دوسرے کو کافر بتانے لگے۔ حالانکہ خداوند عالم کا ارشاد ہے کہ تم ان لوگوں کی طرح نہ ہو جاؤ جو فرقہ فرقہ ہوگئے اور اختلافات میں پڑگئے۔ بعد اس کے کہ ان کے پاس روشن نشانیاں آچکی تھیں لہذا حجت پہنچانے اور حکم کی تاویل میں  سوا ان کے جو ہم پلہ کتاب الہی ہیں ابنائے ائمہ ہدایت ہیں، تاریکیوں کے روشن چراغ ہیں، جن کے ذریعہ خدا نے بندوں پر اپنی حجت قائم کی اور اپنی مخلوق کو بغیر اپنی حجت  کے نہیں چھوڑا کون بھروسہ کے قابل ہوسکتا ہے۔ تم انھیں پہچاننا اور پانا چاہو تو شجرہ مبارکہ کی شاخ اور ان پاک و پاکیزہ ذوات کے بقیہ افراد پاؤ گے جن سے خدا نے ہر گندگی کو دور رکھا اور ان کی طہارت کی تکمیل کی۔ انھیں تمام آفتوں سے بری رکھا اور کلام مجید میں ان کی محبت واجب کی۔(1)

یہ امام(ع) کی اصل عبارت کا ترجمہ ہے ۔ غور سے ملاحظہ فرمائیے ۔ یہ عبارت اور امیرالمومنین(ع) کے جتنے فقرے ہم نے ذکر کیے یہ نمایاں طور پر مذہب شیعہ کو پیش کرتے ہیں۔ ایسے ہی متواتر اقوال دیگر ائمہ کرام کے ہمارے صحاح میں موجود ہیں۔

                                                             ش

--------------

1 ـ  صواعق محرقہ، تفسیر آیتواعتصموا ----الخ فصل اول، باب 11، صفحہ90

۳۷

مکتوب نمبر4

کلام مجید یا احادیثِ پیغمبر(ص) سے دلیل کی خواہش

مولانا ئے محترم !

کلام مجید یا حدیثِ نبوی(ص) سے کوئی ایسی دلیل پیش کیجیے جسے سے معلوم ہو کہ ائمہ اہل بیت(ع) ہی کی پیروی واجب ہے۔ قرآن و حدیث کے ماسوا چیزوں کو رہنے دیجیے۔ کیونکہ آپ کے ائمہ کا کلام مخالفین کے لیے حجت نہیں ہوسکتا۔ کیونکہ ان کے کلام سے استدالال اس مسئلہ پر دور کا مستلزم ہے۔ آپ ثابت یہ کرنا چاہتے ہیں کہ ائمہ اہلبیت(ع) ہی کی پیروی واجب ہے اور آپ دلیل میں انھیں ائمہ اہلبیت(ع) کا قول پیش کرتے ہیں جن کی پیروی سی محل بحث ہے۔

                                                             س

۳۸

جواب مکتوب

ہماری تحریر پر غور نہیں کیا گیا

آپ نے غور نہیں کیا ۔ ہم نے حدیث سے ابتدا ہی میں ثبوت پیش کردیا تھا۔ اپنے مکتوب میں یہ لکھتے ہوئے کہ بس ائمہ اہلبیت(ع) ہی کی پیروی ہم پر واجب ہے نہ کسی غیر کی۔ ہم نے حدیث اشارتا ذکر کردی تھی۔ ہم نے یہ لکھا تھا کہ پیغمبر(ص) نے انھیں کتاب خدا کے مقارن صاحبانِ عقل کے لیے مقتدی، نجات کا سفینہ، امت کے لیے امان قرار دیا ہے، باب حطہ فرمایا۔ تو میری یہ عبارت انھیں مضامین کی احادیث کی طرف اشارہ تھی جو کہ اکثر و بیشتر کتبِ احادیث میں موجود ہیں۔ ہم نے یہ بھی لکھ دیا تھا کہ آپ ماشاء اﷲ ان لوگوں میں ہیں جن کے لیے اشارہ ہی کافی ہے، تصریح کی ضرورت نہیں۔ لہذا جب ہمارے ائمہ کی اطاعت و پیروی کے متعلق اتنی کثرت سے احادیث موجود ہیں تو اب ان کے اقوال مخالفین کے مقابلہ میں بطور استدالال پیش کیے جاسکتے ہیں اور کسی طرح دور لازم نہیں آتا ۔ ہم نے اقوال پیغمبر(ص) کی طرف ابتداء میں اشارہ جو کیا تھا ان کی تفصیل بھی کیے دیتے ہیں۔ پیغمبر(ص) نے صاف الفاظ میں ارشاد فرمایا :

حدیثِ ثقلین

ببانگ دہل اعلان فرمایا :

“يا ايها الناس انی تارک --------الخ ”

۳۹

             “ اے لوگو! میں تم  میں ایسی چیزیں چھوڑے جاتا ہوں کہ اگر تم انھیں اختیار کیے رہو تو کبھی گمراہ نہ ہوگے۔ ایک کتابِ خدا دوسرے میرے اہل بیت(ع)(1) ۔”

یہ بھی ارشاد فرمایا :

             “ میں نے تم میں ایسی چیزیں چھوڑیں کہ اگر تم ان سے محبت کرو تو کبھی گمراہ نہ ہو۔ ایک کتابِ خدا جو ایک رسی ہے آسمان سے زمین تک کھینچی ہوئی، دوسرے میرے عترت و اہلبیت(ع)۔ یہ دونوں کبھی جدا نہ ہوں گے یہاں تک کہ میرے پاس حوضِ کوثر پر پہنچیں۔ دیکھنا میرے بعد تم ان سے کیونکر پیش آتے ہو(2) ۔”

یہ بھی آپ(ص) نے فرمایا کہ:

             “ میں تم میں اپنے دو جانشین چھوڑے جاتا ہوں، ایک کتابِ خدا جو ایک دراز رسی ہے آسمان سے لے کر زمین تک۔ دوسرے میری عترت و اہل بیت(ع)۔ یہ دونوں کبھی جدا نہ ہوں گے یہاں تک کہ حوضِ کوثر پر میرے پاس پہنچیں(3) ۔”

--------------

1 ـ  ترمذی و نسائی نے جناب جابر سے روایت کی ہے اور ان دونوں سے ملا متقی نے کنزالعمال جلد اول صفحہ44۔ باب اعتصام الکتاب والسنہ کے شروع میں نقل کیا ہے۔

2 ـ  ترمذی نے زید ابن ارقم سے روایت کی ہے کنزالعمال جلد اول صفحہ 44 پر بھی موجود ہے۔

3 ـ  امام احمد نے زید ابن ثابت سے دو صحیح طریقوں سے اس کی روایت کی ہے پہلے مسند صفحہ 183۔184 جلد 5، کے بالکل آخر میں طبرانی نے بھی معجم کبیر میں زید بن ثابت سے روایت کیا ہے کنزالعمال جلد اول صفحہ 44 پر بھی موجود ہے۔

۴۰

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

الْبَحْثَ عَمَّا كَتَمْتَ ‏وَلاَ أُنَازِعَكَ فِي تَدْبِيرِكَ وَلاَ أَقُولَ لِمَ وَكَيْفَ وَمَا بَالُ وَلِيِّ الْأَمْرِ لاَ يَظْهَرُ وَقَدِ امْتَلَأَتِ الْأَرْضُ مِنَ الْجَوْرِ وَأُفَوِّضُ أُمُورِي كُلَّهَا إِلَيْكَ‏.اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ أَنْ تُرِيَنِي وَلِيَّ أَمْرِكَ ظَاهِراً نَافِذَ الْأَمْرِ مَعَ عِلْمِي بِأَنَّ لَكَ السُّلْطَانَ وَالْقُدْرَةَ وَالْبُرْهَانَ وَالْحُجَّةَ وَالْمَشِيَّةَ وَالْحَوْلَ وَالْقُوَّةَ فَافْعَلْ ذَلِكَ بِي وَبِجَمِيعِ الْمُؤْمِنِينَ‏ حَتَّى نَنْظُرَ إِلَى وَلِيِّ أَمْرِكَ صَلَوَاتُكَ عَلَيْهِ ظَاهِرَ الْمَقَالَةِ وَاضِحَ الدَّلاَلَةِ هَادِياً مِنَ الضَّلاَلَةِ شَافِياً مِنَ الْجَهَالَةِ أَبْرِزْ يَا رَبِّ مُشَاهَدَتَهُ وَثَبِّتْ قَوَاعِدَهُ‏ وَاجْعَلْنَا مِمَّنْ تَقَرُّ عَيْنُهُ بِرُؤْيَتِهِ وَأَقِمْنَا بِخِدْمَتِهِ وَتَوَفَّنَا عَلَى مِلَّتِهِ وَاحْشُرْنَا فِي زُمْرَتِهِ.اللَّهُمَّ أَعِذْهُ مِنْ شَرِّ جَمِيعِ مَا خَلَقْتَ وَذَرَأْتَ وَبَرَأْتَ وَأَنْشَأْتَ وَصَوَّرْتَ‏ وَاحْفَظْهُ مِنْ بَيْنِ يَدَيْهِ وَمِنْ خَلْفِهِ وَعَنْ يَمِينِهِ وَعَنْ شِمَالِهِ (وَمِنْ فَوْقِهِ وَمِنْ تَحْتِهِ) بِحِفْظِكَ الَّذِي لاَ يَضِيعُ مَنْ حَفِظْتَهُ بِهِ وَاحْفَظْ فِيهِ رَسُولَكَ وَوَصِيَّ رَسُولِكَ عَلَيْهِ وَآلِهِ السَّلاَمُ.اللَّهُمَّ وَمُدَّ فِي عُمْرِهِ وَزِدْ فِي أَجَلِهِ وَأَعِنْهُ عَلَى مَا وَلَّيْتَهُ وَاسْتَرْعَيْتَهُ وَزِدْ فِي كَرَامَتِكَ لَهُ ‏فَإِنَّهُ الْهَادِي الْمَهْدِيُّ وَالْقَائِمُ الْمُهْتَدِي وَالطَّاهِرُ التَّقِيُّ الزَّكِيُّ النَّقِيُّ الرَّضِيُّ الْمَرْضِيُّ الصَّابِرُ الشَّكُورُ الْمُجْتَهِدُ.اللَّهُمَّ وَلاَ تَسْلُبْنَا الْيَقِينَ لِطُولِ الْأَمَدِ فِي غَيْبَتِهِ وَانْقِطَاعِ خَبَرِهِ عَنَّا وَلاَ تُنْسِنَا ذِكْرَهُ وَانْتِظَارَهُ وَالْإِيمَانَ بِهِ وَقُوَّةَ الْيَقِينِ فِي ظُهُورِهِ وَالدُّعَاءَ لَهُ وَالصَّلاَةَ عَلَيْهِ‏ حَتَّى لاَ يُقَنِّطَنَا طُولُ غَيْبَتِهِ مِنْ قِيَامِهِ ‏وَيَكُونَ يَقِينُنَا فِي ذَلِكَ كَيَقِينِنَا فِي قِيَامِ رَسُولِكَ صَلَوَاتُكَ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَمَا جَاءَ بِهِ مِنْ وَحْيِكَ وَتَنْزِيلِكَ‏ فَقَوِّ قُلُوبَنَا

۱۴۱

عَلَى الْإِيمَانِ بِهِ حَتَّى تَسْلُكَ بِنَا عَلَى يَدَيْهِ مِنْهَاجَ الْهُدَى وَالْمَحَجَّةَ الْعُظْمَى وَالطَّرِيقَةَ الْوُسْطَى‏ وَقَوِّنَا عَلَى طَاعَتِهِ وَثَبِّتْنَا عَلَى مُتَابَعَتِهِ (مُشَايَعَتِهِ) وَاجْعَلْنَا فِي حِزْبِهِ وَأَعْوَانِهِ وَأَنْصَارِهِ وَالرَّاضِينَ بِفِعْلِهِ‏ وَلاَ تَسْلُبْنَا ذَلِكَ فِي حَيَاتِنَا وَلاَ عِنْدَ وَفَاتِنَا حَتَّى تَتَوَفَّانَا وَنَحْنُ عَلَى ذَلِكَ لاَ شَاكِّينَ وَلاَ نَاكِثِينَ وَلاَ مُرْتَابِينَ وَلاَ مُكَذِّبِينَ.اللَّهُمَّ عَجِّلْ فَرَجَهُ وَأَيِّدْهُ بِالنَّصْرِ وَانْصُرْ نَاصِرِيهِ وَاخْذُلْ خَاذِلِيهِ وَدَمْدِمْ عَلَى مَنْ نَصَبَ لَهُ وَكَذَّبَ بِهِ ‏وَأَظْهِرْ بِهِ الْحَقَّ وَأَمِتْ بِهِ الْجَوْرَ وَاسْتَنْقِذْ بِهِ عِبَادَكَ الْمُؤْمِنِينَ مِنَ الذُّلِ‏ وَانْعَشْ بِهِ الْبِلاَدَ وَاقْتُلْ بِهِ جَبَابِرَةَ الْكُفْرِ وَاقْصِمْ بِهِ رُؤُوسَ الضَّلاَلَةِ وَذَلِّلْ بِهِ الْجَبَّارِينَ وَالْكَافِرِينَ وَأَبِرْ بِهِ الْمُنَافِقِينَ وَالنَّاكِثِينَ‏ وَجَمِيعَ الْمُخَالِفِينَ وَالْمُلْحِدِينَ فِي مَشَارِقِ الْأَرْضِ وَمَغَارِبِهَاوَبَرِّهَا وَبَحْرِهَا وَسَهْلِهَا وَجَبَلِهَا حَتَّى لاَ تَدَعَ مِنْهُمْ دَيَّاراً وَلاَ تُبْقِيَ لَهُمْ آثَاراً طَهِّرْ مِنْهُمْ بِلاَدَكَ وَاشْفِ مِنْهُمْ صُدُورَ عِبَادِكَ وَجَدِّدْ بِهِ مَا امْتَحَى مِنْ دِينِكَ وَأَصْلِحْ بِهِ مَا بُدِّلَ مِنْ حُكْمِكَ وَغُيِّرَ مِنْ سُنَّتِكَ‏حَتَّى يَعُودَ دِينُكَ بِهِ وَعَلَى يَدَيْهِ غَضّاً جَدِيداً صَحِيحاً لاَ عِوَجَ فِيهِ‏ وَلاَ بِدْعَةَ مَعَهُ حَتَّى تُطْفِئَ بِعَدْلِهِ نِيرَانَ الْكَافِرِينَ فَإِنَّهُ عَبْدُكَ الَّذِي اسْتَخْلَصْتَهُ لِنَفْسِكَ وَارْتَضَيْتَهُ لِنَصْرِ دِينِكَ ‏وَاصْطَفَيْتَهُ بِعِلْمِكَ وَعَصَمْتَهُ مِنَ الذُّنُوبِ وَبَرَّأْتَهُ مِنَ الْعُيُوبِ‏ وَأَطْلَعْتَهُ عَلَى الْغُيُوبِ وَأَنْعَمْتَ عَلَيْهِ وَطَهَّرْتَهُ مِنَ الرِّجْسِ وَنَقَّيْتَهُ مِنَ الدَّنَسِ‏.اللَّهُمَّ فَصَلِّ عَلَيْهِ

۱۴۲

وَعَلَى آبَائِهِ الْأَئِمَّةِ الطَّاهِرِينَ وَعَلَى شِيعَتِهِ الْمُنْتَجَبِينَ وَبَلِّغْهُمْ مِنْ آمَالِهِمْ مَا يَأْمُلُونَ‏ وَاجْعَلْ ذَلِكَ مِنَّا خَالِصاً مِنْ كُلِّ شَكٍّ وَشُبْهَةٍ وَرِيَاءٍ وَسُمْعَةٍ حَتَّى لاَ نُرِيدَ بِهِ غَيْرَكَ وَلاَ نَطْلُبَ بِهِ إِلاَّ وَجْهَكَ.اللَّهُمَّ إِنَّا نَشْكُو إِلَيْكَ فَقْدَ نَبِيِّنَا وَغَيْبَةَ إِمَامِنَا (وَلِيِّنَا) وَشِدَّةَ الزَّمَانِ عَلَيْنَا وَوُقُوعَ الْفِتَنِ بِنَا وَتَظَاهُرَ الْأَعْدَاءِ عَلَيْنَا وَكَثْرَةَ عَدُوِّنَا وَقِلَّةَ عَدَدِنَا.

اللَّهُمَّ ففرج (فَافْرُجْ) ذَلِكَ عَنَّا بِفَتْحٍ مِنْكَ تُعَجِّلُهُ وَنَصْرٍ مِنْكَ تُعِزُّهُ وَإِمَامِ عَدْلٍ تُظْهِرُهُ إِلَهَ الْحَقِّ آمِينَ.اللَّهُمَّ إِنَّا نَسْأَلُكَ أَنْ تَأْذَنَ لِوَلِيِّكَ فِي إِظْهَارِ عَدْلِكَ فِي عِبَادِكَ وَقَتْلِ أَعْدَائِكَ فِي بِلاَدِكَ ‏حَتَّى لاَ تَدَعَ لِلْجَوْرِ يَا رَبِّ دِعَامَةً إِلاَّ قَصَمْتَهَا وَلاَ بَقِيَّةً إِلاَّ أَفْنَيْتَهَا وَلاَ قُوَّةً إِلاَّ أَوْهَنْتَهَا وَلاَ رُكْناً إِلاَّ هَدَمْتَهُ وَلاَ حَدّاً إِلاَّ فَلَلْتَهُ وَلاَ سِلاَحاً إِلاَّ أَكْلَلْتَهُ ‏وَلاَ رَايَةً إِلاَّ نَكَّسْتَهَا وَلاَ شُجَاعاً إِلاَّ قَتَلْتَهُ وَلاَ جَيْشاً إِلاَّ خَذَلْتَهُ ‏وَارْمِهِمْ يَا رَبِّ بِحَجَرِكَ الدَّامِغِ وَاضْرِبْهُمْ بِسَيْفِكَ الْقَاطِعِ وَبَأْسِكَ الَّذِي لاَ تَرُدُّهُ عَنِ الْقَوْمِ الْمُجْرِمِينَ ‏وَعَذِّبْ أَعْدَاءَكَ وَأَعْدَاءَ وَلِيِّكَ وَأَعْدَاءَ رَسُولِكَ صَلَوَاتُكَ عَلَيْهِ وَآلِهِ بِيَدِ وَلِيِّكَ وَأَيْدِي عِبَادِكَ الْمُؤْمِنِينَ‏.اللَّهُمَّ اكْفِ وَلِيَّكَ وَحُجَّتَكَ فِي أَرْضِكَ هَوْلَ عَدُوِّهِ وَكَيْدَ مَنْ أَرَادَهُ (كَادَهُ) وَامْكُرْ بِمَنْ مَكَرَ بِهِ ‏وَاجْعَلْ دَائِرَةَ السَّوْءِ عَلَى مَنْ أَرَادَ بِهِ سُوءاً وَاقْطَعْ عَنْهُ مَادَّتَهُمْ وَأَرْعِبْ لَهُ قُلُوبَهُمْ‏ وَزَلْزِلْ أَقْدَامَهُمْ وَخُذْهُمْ جَهْرَةً وَبَغْتَةً وَشَدِّدْ عَلَيْهِمْ عَذَابَكَ وَأَخْزِهِمْ فِي عِبَادِكَ ‏وَالْعَنْهُمْ فِي بِلاَدِكَ وَأَسْكِنْهُمْ أَسْفَلَ نَارِكَ وَأَحِطْ بِهِمْ أَشَدَّ

۱۴۳

عَذَابِكَ وَأَصْلِهِمْ نَاراً وَاحْشُ قُبُورَ مَوْتَاهُمْ نَاراً وَأَصْلِهِمْ حَرَّ نَارِكَ فَإِنَّهُمْ أَضَاعُوا الصَّلاَةَ وَاتَّبَعُوا الشَّهَوَاتِ وَأَضَلُّوا عِبَادَكَ وَأَخْرَبُوا بِلاَدَكَ.اللَّهُمَّ وَأَحْيِ بِوَلِيِّكَ الْقُرْآنَ وَأَرِنَا نُورَهُ سَرْمَداً لاَ لَيْلَ فِيهِ وَأَحْيِ بِهِ الْقُلُوبَ الْمَيِّتَةَ وَاشْفِ بِهِ الصُّدُورَ الْوَغِرَةَ (١) وَاجْمَعْ بِهِ الْأَهْوَاءَ الْمُخْتَلِفَةَ عَلَى الْحَقِ‏ وَأَقِمْ بِهِ الْحُدُودَ الْمُعَطَّلَةَ وَالْأَحْكَامَ الْمُهْمَلَةَ حَتَّى لاَ يَبْقَى حَقٌّ إِلاَّ ظَهَرَ وَلاَ عَدْلٌ إِلاَّ زَهَرَ وَاجْعَلْنَا يَا رَبِّ مِنْ أَعْوَانِهِ وَمُقَوِّيَةِ سُلْطَانِهِ‏ وَالْمُؤْتَمِرِينَ لِأَمْرِهِ وَالرَّاضِينَ بِفِعْلِهِ وَالْمُسَلِّمِينَ لِأَحْكَامِهِ وَمِمَّنْ لاَ حَاجَةَ بِهِ إِلَى التَّقِيَّةِ مِنْ خَلْقِكَ‏.وَأَنْتَ يَا رَبِّ الَّذِي تَكْشِفُ الضُّرَّ وَتُجِيبُ الْمُضْطَرَّ إِذَا دَعَاكَ‏ وَتُنْجِي مِنَ الْكَرْبِ الْعَظِيمِ فَاكْشِفِ الضُّرَّ عَنْ وَلِيِّكَ وَاجْعَلْهُ خَلِيفَةً فِي أَرْضِكَ كَمَا ضَمِنْتَ لَهُ‏.اللَّهُمَّ لاَ تَجْعَلْنِي مِنْ خُصَمَاءِ آلِ مُحَمَّدٍ عَلَيْهِمُ السَّلاَمُ وَلاَ تَجْعَلْنِي مِنْ أَعْدَاءِ آلِ مُحَمَّدٍ عَلَيْهِمُ السَّلاَمُ‏ وَلاَ تَجْعَلْنِي مِنْ أَهْلِ الْحَنَقِ وَالْغَيْظِ عَلَى آلِ مُحَمَّدٍ عَلَيْهِمُ السَّلاَمُ ‏فَإِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنْ ذَلِكَ فَأَعِذْنِي وَأَسْتَجِيرُ بِكَ فَأَجِرْنِي.اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَآلِ مُحَمَّدٍ وَاجْعَلْنِي بِهِمْ فَائِزاً عِنْدَكَ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ وَمِنَ الْمُقَرَّبِينَ آمِينَ رَبَّ الْعَالَمِينَ ‏.(۱)

____________________

۱:- جمال الاسبوع ؛۵۲۲، کمال الدین :۵۱۲، ح۴۳

۱۴۴

فصل چہارم

حضرت صاحب العصرعجل اللہ فرجہ الشریف کی صفات و خصوصیات کی معرفت

اس زمانے میں حضرت صاحب الامر ؑ کی صفات و خصوصیات کی معرفت حاصل کرنا عقلی و نقلی دلائل کی رو سے واجب ہے۔ہم اس مختصر کتاب میں تفصیل سے ذکر نہیں کر سکتے۔ہم یہاں اختصار کے ساتھ فقط بیس خصوصیات ذکر کرنے کی سعادت حاصل کرتے ہیں۔ انہیں ہم نے معتبر کتابوں سے حاصل کیا ہے مثلا الکافی،کمال الدین،المحجہ ،بحار الانوار اور النجم الثاقب۔ تاکہ ہر ایک کے لیے صاحب الزما نؑ کی شخصیت واضح ہو جائے۔

وہ صفات یہ ہیں:

پہلی خصوصیت:

حضرت صاحب الامرؑ کا ظہور اور جہاد کے لیے قیام مکہ معظمہ سے شروع ہوگا اور یہ اعلانیہ ظہور ہوگا تاکہ ہر کوئی اس سے مطلع ہو جائے۔(۱)

____________________

۱:- بحار الانوار ۵۲/۲۳۳

۱۴۵

دوسری خصوصیت:

حضرت حجتؑ کے ظہور کے وقت آسمان سے ایک منادی ندا دے گا وہ آپ کے نام مبارک، آپ کے والد محترم اور اجداد میں سے سید الشہداء تک کے اسمائے مبارکہ ذکر کرے گا اور اس انداز سے ندا دے گا کہ ہر شخص اسے اپنی زبان میں سنے گا اور اس کی قوت و ہیبت سے ہر سویا ہوا شخص جاگ جائے گا اور کھڑا ہوا شخص بیٹھ جائے گااور ہر بیٹھا ہوا شخص کھڑا ہو جائے گا اور یہ جبرائیل ؑ کی ندا ہوگی۔(۱)

تیسری خصوصیت:

حضرت حجت ؑ جہاں کہیں بھی جائیں گے ایک سفید بادل آپ ؑ پر سایہ کرے گا۔اور اس سے ایک آواز آئے نکلے گی جس میں وہ کہے گا:

"یہی وہ مہدی ؑ ہیں جو خلیفہ الٰہی ہیں پس ان کی پیروی کرو۔"

اور یہ روایت علماء اہل سنت نے بھی نقل کی ہے۔(۲)

____________________

۱:- غیبت نعمانی :۲۵۳، باب ۱۴، ح۱۳

۲:- بیان الشافعی:۵۱۱ باب ۱۵

۱۴۶

چوتھی خصوصیت:

آپ ؑ کا نور جمال عالم کو منور کردے گا اور اسکی برکت سے لوگ سورج اور چاند کے نور سے بے نیاز ہو جائیں گے۔(۱)

پانچویں خصوصیت:

آپ ؑ کے ساتھ وہ پتھر بھی برآمد ہوگا کہ جو حضرت موسی ؑ کے ساتھ تھا جب کسی پتھر پر انہوں نے اپنا عصا مارا تھا اور اس سے بارہ چشمے پھوٹ پڑے تھے۔ پس جب آپ ؑ مکہ سے اپنے اصحاب کے ساتھ حرکت کرنے لگیں گے تو آپ ؑ کا منادی یوں ندا دے گا:

"آگاہ ہو جاؤ کہ تم میں سے کوئی شخص اپنے ساتھ کھاناپانی اور چارہ نہ لائے پھر وہ پتھر کو ایک اونٹ پر رکھے گا اور جس منزل پر بھی رکیں گے تو وہاں اس پتھر کو نصب کر دیں گے تو اس سے چشمے جاری ہوں گے۔پس جو بھوکا ہوگا وہ سیر ہوجائے گا اور پیاسے سیراب ہو جائیں گے اور اپنی سواریوں کو بھی کھلائیں گے اور سیراب کریں گے۔"(۲)

____________________

۱:- دلائل الامامۃ :۲۴۱

۲:- الکافی ؛ ۱/۲۳۱ ح۳

۱۴۷

چھٹی خصوصیت :

آپ ؑ کے پاس حضرت موسی ؑ کا عصا ہوگا جس سے آپ ؑ دشمنوں کو ڈرائیں گے اور وہ ان کے گھوڑوں (سواریوں ) کو نگل لے گا اور حضرت موسی اس عصا سے جو کام لیتے تھے وہی حضرت حجتؑ بھی لیں گے۔(۱)

ساتویں خصوصیت:

جس رات آپؑ مکہ میں ظہور فرمائیں گے اس کی صبح مومنین زمین میں جہاں کہیں بھی ہوں گے جب جاگیں گے تو اپنے سر(تکیہ) کے نیچے ایک ورق پائیں گے جس پر لکھا ہوگا "طاعة معروفة "(۲)

آٹھویں خصوصیت:

امام ؑ اپنی جگہ پر ہوں گے اور پھر بھی دور دراز علاقوں میں رہنے والے لوگ انہیں ایسے دیکھ سکیں گے جیسے امام ؑ ان کے پاس ہوں۔(۳)

____________________

۱:- الکافی: ۱/۲۳۱ ح۱ کمال الدین ۲/۶۵۴،ب۵۷،ح۲۲

۲:- کمال الدین ۲/۶۵۴،ب۵۷،ح۲۲

۳:- الکافی ؛۴/۵۷ ح۳۲۹

۱۴۸

نویں خصوصیت:

ظہور امامؑ کےزمانہ کے مومنین و مومنات سے ہر قسم کے امراض ختم ہو جائیں گے۔ پس پورے جہاں میں ان میں سے کوئی بھی مریض نہیں رہے گا۔(۱)

دسویں خصوصیت :

اس زمانے کے تما م فقیر مومنین، غنی ہو جائیں گے۔ پس زمین کے کسی خطے میں کوئی فقیر نہیں رہے گا۔ اور تما م شیعوں کے قرض ادا کر دیئے جائیں گے۔(۲)

گیارہویں خصوصیت:

تمام مومنین ومومنات تما م احکام دینیہ کے عالم بن جائیں گے اوراس معاملے میں کوئی کسی کا محتاج نہ رہے گا۔(۳)

____________________

۱:- الخرائج والجرائح : ۲/۸۳۹ ح۵۴

۲:- مسند احمد:۳/۳۷

۳:- غیبت نعمانی :۲۳۸ ، ب۱۳، ح۳۰

۱۴۹

بارہویں خصوصیت:

اس وقت عمریں اس قدر بڑھ جائیں گی کہ بندہ اپنی اولاد میں سے ہزار فرزند دیکھ سکے گا۔

ایک اور روایت میں ہے کہ وہ لوگ جس قدر بڑے ہوتے جائیں گے ساتھ ان کے لباس بھی بڑے ہوتے جائیں گے اور وہ جیسا چاہیں گے لباس اسی رنگ کے ہو جائیں گے۔(۱)

تیرہویں خصوصیت:

تمام شہروں اور راستوں میں امن پھیل جائے گا۔(۲)

چودہویں خصوصیت:

شیعہ و سنی روایت میں متفقہ طور پر یہ ملتا ہے کہ اس زمانے میں پور ی زمین پر امن پھیل جائے گا ۔پس کوئی کسی پر ظلم نہیں کرے گا۔(۳)

____________________

۱:- دلائل الامامۃ :۲۴۱

۲:- کتاب الفتن ابن حماد؛۲۸۶

۳:- کمال الدین ؛۲/۵۲۵، ب۴۷،ح۱

۱۵۰

پندرہویں خصوصیت:

امام زمانہؑ علم باطنی کے ذریعے فیصلہ کریں گے اورتمام کافروں اور منافقوں کو قتل کریں گے۔حتیٰ کہ اگر وہ خود کو آپ ؑ کا صحابی بھی ظاہر کیوں نہ کریں ۔(پھر بھی قتل کر دیئے جائیں گے) اور دین اسلام کو پوری زمین پر پھیلا دیں گے اوراس کے بعد جزیہ قبول نہیں کیا جائے گا۔اور آپؑ زکوٰ ۃ نہ دینےوالوں کو بھی قتل کر دیں گے۔(۱)

سولہویں خصوصیت:

آپ ؑ تمام بادشاہوں پر فتح حاصل کریں گے اور آپؑ کی حکومت وسیع ہوتی ہوئی پوری زمین پر پھیل جائے گی۔(۲)

سترہویں خصوصیت :

حیوانات میں بھی الفت و محبت پیدا ہوجائے گی حتی وحشی جانور بھی مل جل کر رہنے لگیں گے۔(۳)

____________________

۱:- تفسیر العیاشی :۲/۵۶ ح۴۹ غیبۃ النعمانی:۳۱۹،ب۲۱،ح۸

۲:- غیبۃ النعمانی:۳۱۹،ب۲۱،ح۸

۳:- مختصر بصائر الدرجات:۲۰۱، الاحتجاج:۲/۲۹۰

۱۵۱

اٹھارویں خصوصیت:

اگر کوئی کافر یامشرک کسی چٹان کے اندر بھی چھپا ہوگا تو وہ چٹان خود کہے گی : "اے مومن میرے اندر کافر یا مشرک ہے اسے قتل کردو۔پس وہ اسے قتل کر دے گا۔"(۱)

انیسویں خصوصیت:

بعض روایات کے مطابق سفیانی کے لشکر کی تعداد تین لاکھ افراد تک پہنچ جائے گی جنہیں وہ ظہور امام ؑ کے ابتدائی ایام میں امام ؑ کو قتل کرنے کے لیے مدینہ بھیجے گا ۔ پس جب وہ مکہ اور مدینہ کے درمیان موجود صحراء میں پہنچیں گے تو جبرائیل ندا دیں گے کہ اے زمین انہیں دھنسا دے۔ پس زمین ان تمام سمیت دھنس جائے گی اور ان میں سے کوئی بھی نہیں بچے گا سوائے دو یا تین افراد کے۔(۲)

____________________

۱:- تفسیر فرات:۴۸۱ ح۶۲۷

۲:- جامع البیانن ،طبری:۱۵/۱۷

۱۵۲

بیسویں خصوصیت:

آپ ؑ کےاعجاز سے مخالفوں میں سے بہت سے افراد زندہ ہو جائیں گے تاکہ آپ ؑ ان سے انتقام لیں۔(۱)

ان امور سے متعلقہ روایات میں نے اپنی کتاب مکیال المکارم میں ذکر کی ہیں۔

____________________

۱:- اثباۃ الھداۃ :۳/۵۶۹، ب۳۲، ح۶۸۱

۱۵۳

۱۵۴

فصل پنجم

دعاء عہد (مشہور)

کتاب زاد المعاد اور دیگر کتب میں بیان ہوا ہے کہ امام صادق ؑ نے فرمایا:

"جو شخص چالیس دن صبح کے وقت دعاء عہد پڑھے گا تو وہ حضرت قائم ؑ کے انصار میں شامل ہوگا اور اگر ظہور سے پہلے مر جائے تو اللہ تعالیٰ اسے قبر سے نکالے گا تاکہ وہ امام ؑ کی نصرت کر سکے اور اللہ اسے ہر لفظ کے بدلے ایک ہزار نیکی عطا فرمائے گا اور ایک ہزار گناہ معاف فرمائے گا

اور وہ دعا یہ ہے:

اللَّهُمَّ رَبَّ النُّورِ الْعَظِيمِ وَرَبَّ الْكُرْسِيِّ الرَّفِيعِ وَرَبَّ الْبَحْرِ الْمَسْجُورِ وَمُنْزِلَ التَّوْرَاةِ وَالْإِنْجِيلِ وَالزَّبُورِ وَرَبَّ الظِّلِّ وَالْحَرُورِ وَمُنْزِلَ الْقُرْآنِ (الْفُرْقَانِ) الْعَظِيمِ وَرَبَّ الْمَلاَئِكَةِ الْمُقَرَّبِينَ وَالْأَنْبِيَاءِ (وَ) الْمُرْسَلِينَ‏.اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ بِوَجْهِكَ (بِاسْمِكَ) الْكَرِيمِ وَبِنُورِ وَجْهِكَ الْمُنِيرِ وَمُلْكِكَ الْقَدِيمِ يَا حَيُّ يَا قَيُّومُ ‏أَسْأَلُكَ بِاسْمِكَ الَّذِي أَشْرَقَتْ بِهِ السَّمَاوَاتُ وَالْأَرَضُونَ وَبِاسْمِكَ الَّذِي يَصْلَحُ بِهِ الْأَوَّلُونَ وَالْآخِرُونَ ‏يَا حَيّاً قَبْلَ كُلِّ حَيٍّ وَيَا حَيّاً بَعْدَ كُلِّ حَيٍّ وَيَا حَيّاً حِينَ لاَ حَيَ ‏يَا مُحْيِيَ الْمَوْتَى وَمُمِيتَ الْأَحْيَاءِ يَا حَيُّ لاَ إِلَهَ إِلاَّ أَنْتَ.اللَّهُمَّ بَلِّغْ مَوْلاَنَا الْإِمَامَ الْهَادِيَ الْمَهْدِيَّ الْقَائِمَ بِأَمْرِكَ صَلَوَاتُ اللَّهِ عَلَيْهِ وَعَلَى آبَائِهِ الطَّاهِرِينَ ‏عَنْ جَمِيعِ الْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَاتِ فِي

۱۵۵

مَشَارِقِ الْأَرْضِ وَمَغَارِبِهَا سَهْلِهَا وَجَبَلِهَا وَبَرِّهَا وَبَحْرِهَا وَعَنِّي وَعَنْ وَالِدَيَّ مِنَ الصَّلَوَاتِ زِنَةَ عَرْشِ اللَّهِ وَمِدَادَ كَلِمَاتِهِ‏ وَمَا أَحْصَاهُ عِلْمُهُ (كِتَابُهُ) وَأَحَاطَ بِهِ كِتَابُهُ (عِلْمُهُ).اللَّهُمَّ إِنِّي أُجَدِّدُ لَهُ فِي صَبِيحَةِ يَوْمِي هَذَا وَمَا عِشْتُ مِنْ أَيَّامِي عَهْداً وَعَقْداً وَبَيْعَةً لَهُ فِي عُنُقِي‏لاَ أَحُولُ عَنْهَا وَلاَ أَزُولُ أَبَداً.اللَّهُمَّ اجْعَلْنِي مِنْ أَنْصَارِهِ وَأَعْوَانِهِ وَالذَّابِّينَ عَنْهُ وَالْمُسَارِعِينَ إِلَيْهِ فِي قَضَاءِ حَوَائِجِهِ (وَالْمُمْتَثِلِينَ لِأَوَامِرِهِ) وَالْمُحَامِينَ عَنْهُ وَالسَّابِقِينَ إِلَى إِرَادَتِهِ وَالْمُسْتَشْهَدِينَ بَيْنَ يَدَيْهِ‏.اللَّهُمَّ إِنْ حَالَ بَيْنِي وَبَيْنَهُ الْمَوْتُ الَّذِي جَعَلْتَهُ عَلَى عِبَادِكَ حَتْماً مَقْضِيّاً فَأَخْرِجْنِي مِنْ قَبْرِي مُؤْتَزِراً كَفَنِي شَاهِراً سَيْفِي مُجَرِّداً قَنَاتِي مُلَبِّياً دَعْوَةَ الدَّاعِي فِي الْحَاضِرِ وَالْبَادِي ‏اللَّهُمَّ أَرِنِي الطَّلْعَةَ الرَّشِيدَةَ وَالْغُرَّةَ الْحَمِيدَةَ وَاكْحُلْ نَاظِرِي بِنَظْرَةٍ مِنِّي إِلَيْهِ ‏وَعَجِّلْ فَرَجَهُ وَسَهِّلْ مَخْرَجَهُ وَأَوْسِعْ مَنْهَجَهُ وَاسْلُكْ بِي مَحَجَّتَهُ وَأَنْفِذْ أَمْرَهُ وَاشْدُدْ أَزْرَهُ‏ وَاعْمُرِ اللَّهُمَّ بِهِ بِلاَدَكَ وَأَحْيِ بِهِ عِبَادَكَ فَإِنَّكَ قُلْتَ وَقَوْلُكَ الْحَقُ ‏ظَهَرَ الْفَسَادُ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ بِمَا كَسَبَتْ أَيْدِي النَّاسِ.فَأَظْهِرِ اللَّهُمَّ لَنَا وَلِيَّكَ وَابْنَ بِنْتِ نَبِيِّكَ الْمُسَمَّى بِاسْمِ رَسُولِكَ ‏حَتَّى لاَ يَظْفَرَ بِشَيْ‏ءٍ مِنَ الْبَاطِلِ إِلاَّ مَزَّقَهُ وَيُحِقَّ الْحَقَّ وَيُحَقِّقَهُ.وَاجْعَلْهُ اللَّهُمَّ مَفْزَعاً لِمَظْلُومِ عِبَادِكَ وَنَاصِراً لِمَنْ لاَ يَجِدُ لَهُ نَاصِراً غَيْرَكَ‏ وَمُجَدِّداً لِمَا عُطِّلَ مِنْ أَحْكَامِ كِتَابِكَ وَمُشَيِّداً لِمَا وَرَدَ مِنْ أَعْلاَمِ دِينِكَ وَسُنَنِ نَبِيِّكَ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَاجْعَلْهُ اللَّهُمَّ

۱۵۶

مِمَّنْ حَصَّنْتَهُ مِنْ بَأْسِ الْمُعْتَدِينَ.اللَّهُمَّ وَسُرَّ نَبِيَّكَ مُحَمَّداً صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ بِرُؤْيَتِهِ وَمَنْ تَبِعَهُ عَلَى دَعْوَتِهِ وَارْحَمِ اسْتِكَانَتَنَا بَعْدَهُ‏.اللَّهُمَّ اكْشِفْ هَذِهِ الْغُمَّةَ عَنْ هَذِهِ الْأُمَّةِ بِحُضُورِهِ وَعَجِّلْ لَنَا ظُهُورَهُ ‏إِنَّهُمْ يَرَوْنَهُ بَعِيداً وَنَرَاهُ قَرِيباً بِرَحْمَتِكَ يَا أَرْحَمَ الرَّاحِمِينَ‏.

اس کے بعد تین مرتبہ اپنا ہاتھ دائیں ران پر مارے اور ہر بار یوں پکارے:

الْعَجَلَ الْعَجَلَ يَا مَوْلاَيَ يَا صَاحِبَ الزَّمَانِ(۱)

____________________

۱:- زاد المعاد: ص۲۲۳

۱۵۷

شیعوں کے نام امام زمانہ کا کھلا خط

(آخرماہ صفر ۴۱۰ھ میں شیخ مفید علیہ الرحمۃ کی طرف امام مھدی عجل اللہ فرجہ الشریف کی لکھی گئی ایک توقیع مبارک سے اقتباس)

۔۔۔اور تمہیں آگاہ کرتے ہیں کہ ہمیں اجازت دی گئی ہے کہ تمہیں خط و کتابت کی شرافت اور افتخار سے مفتخر کریں اور پابندی کریں کہ جو کچھ تمہیں لکھ رہے ہیں ہماریے ان دوستوں تک جو تمہاریے نزدیک ہیں، پہنچا دیں۔وہ دوست کہ جنہیں خداوندعالم اپنی اطاعت کے ساتھ عزیز رکھے اور اپنی عنایت و محا فظت کے ساتھ ان کے امور کی کفایت کرے اور ان کی مشکلوں کو برطرف کرے۔

پس تو ان چیزوں کی طرف متوجہ اور آگاہ ہو جن کی ہم یادآوری کریں گے اور ان شاءاللہ جو ہم لکھیں گے انہیں اپنے آس پاس لوگوں تک پہنچانے کی ذمہ داری اداکریں. . اور ان کی جماعت کو ان پر عمل کرنے کی وصیت کریں۔

ہم اگرچہ اس وقت ستمگروں کی پہنچ سے دور ہیں کہ خداوند نے ہماری اور باایمان شیعوں کی اصلاح اس زمانے تک کہ جب تک دنیاکی حکومت فاسقوں کے ہاتھوں میں ہے، اسی میں رکھی ہے اس کے باوجود ہم تمہارے احوال واخبار سے آگاہ ہیں اور تمہارے افعال وکردار میں سے کوئی چیز بھی ہم سے پوشیدہ نہیں ہے۔۔۔

۱۵۸

ہم نے تمہاری دیکھ بھال اور سرپرستی میں کوتاہی سے کام نہیں لیا اور تمہارا ذکر فراموش نہیں کیا ہے اور اگر ایسا نہ ہوتا تو دشواریاں اور مصیبتیں تم پر ٹوٹ پڑتیں اور دشمن تمہیں ریشہ کن کردیتے۔۔۔

پس اپنے اندر تقوائے الہی کی عادت ڈالو اور ہماری مدد کرو تاکہ تمہیں اس فتنہ سے جو تمہاری طرف بڑھ رہا ہے نجات عطا کریں، ایسا فتنہ وآشوب کہ جس کی اجل آچکی ہو وہ ہلاک ہو جائے گا اور جو کوئی اپنی آرزو تک پہنچ گیا اس سے دور رہے گا۔۔۔

تم میں سے ہر ایک ایسا کام کرے کہ جو اسے ہماری محبت اور دوستی سے نزدیک کرے اور ایسے کام سے اجتناب کرے کہ جو اسے ہماری ناپسندیدگی اور غضب سے قریب کرے اس لئے کہ ہمارا امر بالکل اچانک آن پہنچے گا کہ جس وقت توبہ و بازگشت کا فائدہ نہ ہوگا اور گناہ سے پشیمانی ہمارے عقاب سے نجات نہیں بخشے گی۔

خدا وند تمہیں رشدوہدایت کا راستہ دکھائے اور اپنی رحمت و توفیق کے وسائل آسانی کے ساتھ فراہم کرے۔(۱)

____________________

۱:- احتجاج طبرسی ج۲ ص۴۹۸ ، موعود قرآن ص۱۰۰

۱۵۹

اپنے امام کے اس مبارک پیغام کو زیادہ سے زیادہ پھیلائیں اور کم از کم کسی ایک مومن تک پہنچا کر خوشنودئ امام حاصل کریں۔

آخر میں اپنے معزز قارئین سے دعا کی درخواست ہے اور خد اسے امیدوار ہوں کہ وہ مجھے اور میرے دینی بھائیوں کو صاحب الزمان عجل اللہ فرجہ الشریف کے انصار میں سے قرار دے۔

یہ کتاب مولف حقیر محمد تقی بن عبد الرزاق الموسوی الاصفہانی عفی اللہ عنھما کے ہاتھوں مکمل ہوئی۔ ربیع الثانی سنۃ ۱۳۳۲

الحمد لله رب العالمین

بندہ حقیر کو آج اس کتاب کے ترجمہ کی تکمیل کا شرف حاصل ہوا۔

۲۱ جنوری ۲۰۱۷ء بمطابق ۲۲ ربیع الثانی ۱۴۳۸ھ بوقت ۴:۲۲

عامر حسین شہانی

جامعۃ الکوثر اسلام آباد

Email: hussainiaamir۵۱۲@gmail.com

اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وآلِ مُحَمَّدٍ وعَجِّلْ فَرَجَهُمْ

اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وآلِ مُحَمَّدٍ وعَجِّلْ فَرَجَهُمْ

اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وآلِ مُحَمَّدٍ وعَجِّلْ فَرَجَهُمْ

۱۶۰

161