عصرِ غَیبتِ امامؑ میں ہماری ذمہ داریاں

عصرِ  غَیبتِ امامؑ میں  ہماری    ذمہ  داریاں33%

عصرِ  غَیبتِ امامؑ میں  ہماری    ذمہ  داریاں مؤلف:
: عامرحسین شہانی
زمرہ جات: امام مہدی(عجّل اللّہ فرجہ الشریف)
صفحے: 161

عصرِ غَیبتِ امامؑ میں ہماری ذمہ داریاں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 161 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 51902 / ڈاؤنلوڈ: 2746
سائز سائز سائز
عصرِ  غَیبتِ امامؑ میں  ہماری    ذمہ  داریاں

عصرِ غَیبتِ امامؑ میں ہماری ذمہ داریاں

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

کیا ہے۔چاہے مشرکین کو ناگوار ہی کیوں نہ گزرے۔؟ اور اللہ نے جو وعدہ کیا ہے کہ وہ مستضعفین (کمزور کر دیئے گئے) مومنین کو زمین پر خلافت دے گا اور انھیں اپنے اس پسندیدہ دین پر ثابت قدم رکھے گا اورانھیں خوف کے بعدامن سے نوازے گاتاکہ وہ اللہ کی عبادت کریں اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائیں۔تو پھر بھلا یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ خدا کا یہ وعدہ پورا نہ ہو۔؟

تمام مسلمانوں کا اجماع ہے کہ امام مھدی ، اہل بیت میں سے ہیں اور اولاد فاطمہ میں سے ہیں اورامامیہ اور بہت سے اہل سنت علماء کا اس بات پر بھی اجماع ہے کہ وہ امام حسین ؑکی اولاد میں سے ہونگے۔اسی طرح اس بات پر بھی امامیہ اور کچھ اہل سنت علماء کا اجماع ہے کہ وہ امام حسن عسکریؑ کی اولاد میں سے ہونگے۔اسی طرح انہوں نے امامؑ کے اسم مبارک اور ان کی صفات اور کامل شخصیت کو بھی ثابت کیا ہے۔

تمام اہل علم جانتے ہیں کہ امامیہ اور بعض اہل سنت علماء کا عقیدہ ہے کہ امام مھدیؑ پیدا ہوچکے ہیں اور اس وقت زندہ ہیں اور رزق پاتے ہیں لیکن نظروں سے غائب ہیں اور یہ امت اس بات سے کیسے انکار کرتی ہے کہ اللہ تعالی کچھ وقت کے لیے اپنی حجت کو چھپا لے؟ اور امت اس بات سے کیسےانکاری ہو سکتی ہے کہ اللہ اپنی حجت کو وہی شان دے جو اس نے حضرت یوسف کو دی کہ وہ ان کے بازاروں میں چلتے بھی ہوں ،ان کے درمیان رہتے بھی ہوں لیکن لوگ انہیں

۲۱

پہچانتے بھی نہ ہوں یہاں تک کہ اللہ تعالی اپنے اذن سے انہیں امام کی پہچان اسی طرح کرادے جس طرح اس نے یوسفؑ کے لیے اذن دیا تھا۔

قَالُوْا ءَ اِنَّكَ لَاَنْتَ يُوْسُفُ قَالَ اَنَا يُوْسُفُ وَهذَا اَخِيْ (۱)

ترجمہ: وہ کہنے لگے : کیا واقعی آپ یوسف ہیں ؟ کہا: میں یوسف ہوں اور یہ میرا بھائی ہے،

کیا رسولﷺ اپنی امت میں دو گراں قدر چیزیں کتاب خدا اوراپنی عترت چھوڑ کر نہیں گئے؟

کیا نبی ﷺنے یہ نہیں فرمایا کہ یہ دونوں کبھی جدا نہ ہونگے یہاں تک کہ حوض کوثر پر میرے پاس پہنچ جائیں ؟

کیا رسول ﷺ نے یہ نہیں بتایا تھا کہ میرے بعد بارہ خلیفہ ہوں گے جو سب کے سب قریش سے ہوں گے؟

کیا یہ نہیں بتایا کہ ان کے خلفاء کی تعداد حضرت موسی ؑ کے نقیبوں کی تعداد کے برابر ہوگی؟ اور جب اللہ تعالی نے انسانی اعضاء کو بھی یونہی خالی نہیں چھوڑا اور قلب کو ان کا امام مقرر کیا تاکہ وہ جن امور میں شک کریں انھیں اس

____________________

۱:- سورۃ یوسف :۰۹ اور استدلال یہاں سے لیا:الکافی ج۱ ص۳۳۷

۲۲

قلب کی طرف پلٹا کر یقین حاصل کریں اور شک کو باطل کریں۔تو پھریہ کیسے ہوسکتا ہے کہ وہ اللہ تعالی اس پوری مخلوق کو حیرت وسرگردانی اور شکوک و شبہات و اختلافات کی حالت میں تنہا چھوڑ دے اور ان کے لیے کوئی ایسا امام مقرر نہ کرے کہ جس کی طرف اپنے شکوک کو پلٹا کر دور کر سکیں ؟(۱)

اور اس کا یہ قول حق ہے کہ:

فَإِنَّهَا لَا تَعْمَى الْأَبْصَارُ وَلَٰكِن تَعْمَى الْقُلُوبُ الَّتِي فِي الصُّدُورِ

” حقیقتاً آنکھیں اندھی نہیں ہوتیں بلکہ وہ دل اندھے ہو جاتے ہیں جو سینوں میں ہوتے ہیں۔ “(۲)

اور اس بات میں کوئی شک نہیں کہ امام مہدی عجل اللہ فرجہ الشریف کے بارے میں شیعہ عقیدہ جوکہ مضبوط عقلی و نقلی دلائل پر قائم ہے، اس عقیدے کو ان لوگوں کے عقیدے پر بہت بڑی ترجیح حاصل ہے جو کہتےہیں کہ امام مہدیؑ ابھی تک پیدا ہی نہیں ہوئے۔

____________________

۱:- مومن طاق کا عمرو بن عبید کے ساتھ مناظرہ۔ کمال الدین ج۱ ص۲۰۷ ح۲۳

۲:- سورۃالحج:۴۶

۲۳

ہر صاحب عقل اس کا اقرار کر ے گا جبکہ صادق و مصدق نبیؐ کا یہ قول بھی گواہ ہے :

مَنْ ماتَ وَ لَمْ يَعْرِفْ إمامَ زَمانِهِ مَاتَ مِيتَةً جَاهِلِيَّة

"جو بھی اپنے زمانے کے امام کی معرفت کے بغیر مر گیا وہ جاہلیت کی موت مرا ہے۔"(۱)

اس بات کی طرف خصوصی توجہ رہے کہ ایک زندہ امام کی موجودگی کااحساس عقیدہ مذہب کو ایسی بے نیازی اور حیات جاوداں عطا کرتا ہے کہ جو صاحبان عقل و بصیرت سے مخفی نہیں ہے۔(۲)

____________________

۱:- ایک مشہور حدیث ہے کہ جسے طرفین کے علماء نے اپنی احادیث کی بڑی کتابوں میں مختلف تعبیرات کے ساتھ نقل کیا ہےکہ جن کا مضمون ایک ہی ہے۔بطور مثال:مسند احمدج۳ ص۴۴۷ و ج۴ ص۹۶، المعجم الکبیر للطبرانی ج۱۲ ص۳۳۷ اور ج۱۹ ص۳۳۵ اور ج۲۰ ص۸۶، طبقات ابن سعد ج۵ ص۱۴۴، مصنف ابن ابی شیبہ ج۸ ص۵۹۸ ح۴۲۔اسی طرح تفاسیرمیں آیۃ یوم ندعوا کل اناس بامامھم کی تفسیر دیکھیے۔فردوس دیلمی ج۵ ص۵۲۸ ح۸۹۸۲

۲:- دیکھیے مستشرق فرانسی فیلسوف ھنری کاربون کے علامہ طباطبائی کے ساتھ مباحث کتاب الشمس الساطعہ میں

۲۴

اس بات میں کوئی شک نہیں کہ ایک مومن کو جب یہ احساس ہو کہ اس کا امام اس کے ساتھ ہے اور جس طرح میں دیکھتا ہوں وہ بھی دیکھ رہے ہیں اور جس طرح میں ان کے جلدی ظہور کا انتظارکر رہا ہوں وہ بھی کر رہے ہیں تویہ احساس اسے ثبات قدم اور دوگنی طاقت عطا کرتا ہے۔ اور وہ اس کے ذریعے بہت زیادہ کوشش اور سخت مشقت سے کام لیتے ہوئے اپنا تزکیہ نفس کرتا ہےاور اپنے نفس کو صبر سے کام لینے اور امام سے گہرا تعلق قائم کرنے پر آمادہ کرتاہے تاکہ اس کاشمار بھی ظہور مھدیؑ کے حقیقی منتظرین میں سے قرار پائے اور وہ یہ بھی جانتا ہے کہ اگر امامؑ کے شیعوں کے دل اپنے امامؑ سے کئے گئے عہد کو پورا کرنے کے لیے جمع ہوجائیں تو ملاقات ِامامؑ کی برکت سے محروم نہیں رہیں گے اور وہ یہ بھی جانتا ہے کہ امامؑ سے ہماری ملاقات میں رکاوٹ ہمارے اپنے وہ اعمال ہیں کہ جو امامؑ کو ناپسند ہیں۔(۱)

کوئی اس بات میں شک نہ کرے کہ امامؑ غائب (جوکہ صرف نام کی حد تک غائب ہیں ورنہ حقیقت میں تو حاضر ہیں) کی طرف سےاپنے شیعوں کے لیے ثبات قدم اور ان کے مذہب کی حفاظت کی ذمہ داری ادا کی جارہی ہے۔جیسا کہ کوئی اس بات میں شک نہیں کرتا کہ سورج اگر بادلوں کی اوٹ میں بھی چلا جائے تب بھی اس کی ضرورت و اہمیت باقی رہتی ہےاور اس کا فائدہ پہنچتا رہتا ہے ایسا

____________________

۱:- دیکھیے احتجاج طبرسی ج۲ ص۳۲۵، بحارالانوار ج۵۳ ص۱۷۷

۲۵

کیسے نہ ہو اس لیے کہ اگر امام ؑ کی خصوصی توجہ اور دعا نہ ہوتی تو دشمن ان کے شیعوں کو ختم کرچکے ہوتے۔ لہذا شیعوں میں سے کوئی اس بات میں شک نہیں کرتا کہ ان کا امامؑ اہل زمین کے لیے امان ہیں ایسے ہی جیسے ستارے آسمان والوں کے لیے امان ہیں۔(۱)

آئمہ معصومینؑ سے مروی کثیر روایات میں شیعوں کا اپنے امامؑ سے ربط و تعلق بیان کیا گیا ہے۔بعض روایات کے مطابق آپؑ ایام حج میں تشریف لاتے ہیں اور لوگوں کو دیکھتے اور پہچانتے ہیں جبکہ لوگ بھی آپؑ کو دیکھتے تو ہیں لیکن پہچانتے نہیں۔(۲)

امام ؑکی بابت یہ بھی مروی ہے کہ امامؑ مومنین کی محفلوں وغیرہ میں جاتے ہیں اور ان کے درمیان چلتےپھرتے ہیں۔(۳)

اسی طرح بہت سی روایات انتظارکی فضیلت اور ظہور فرج کے لیے کثرت دعا کی فضیلت میں وارد ہوئی ہیں بے شک اسی میں شیعوں کے لیے کشائش ہے۔

____________________

۱:- نبیؐ نے فرمایا:ستارے آسمان والوں کے لیے امان ہیں اور میرے اہل بیتؑ زمین والوں کے لیے امان ہیں۔ علل الشرئع ج۱ ص۱۲۳، کمال الدین ج۱ ص۲۰۵ ح۱۷-۱۹

۲:- وسائل الشیعہ ج۱۱ ص۱۳۵،بحارالانوار ج۵۲ ص۱۵۲

۳:- الکافی للکلینی ج۱ ص۳۳۷ ح۴

۲۶

مرکزالدراسات التخصصۃ فی امام المہدیؑ نے امامؑ سے مربوط مختلف پروگرامز پہ کام کرنے کا مشن اٹھا رکھا ہے۔چاہے وہ طباعت و نشر کتب سے متعلق ہوں یا امامؑ کے بارے میں علمی مجالس و محافل کا انعقاد کرنا اور انھیں کتابی صورت میں شائع کرنا اور نیٹ پہ پھیلانا وغیرہ۔یہ مرکز امام مہدیؑ کےبارے میں مختلف کتابیں نشر کرتا رہتا ہے تاکہ عقیدہ مہدویت کو پروان چڑھائیں اور مکتب تشیع کی سر بلندی کا باعث بنیں۔ خدا سے دعا ہے کہ وہ ہمیں قوت دے اورہماری کوششوں میں برکت ڈالے اور اس کے لیے اپنا عمل خالص کرنے کی توفیق دے۔الحمد للہ رب العالمین۔

یہ کتاب الحاج محمد تقی موسوی الاصفہانی کی تالیف ہے۔اس کتاب کی تحقیق و ترتیب میں ہم نے سید البطحاء کے مدرسہ امام مہدیؑ پر اعتماد کیا اور بعض جگہوں پر ضرورت کے مطابق اضافات بھی شامل کیے ہیں۔اور اللہ ہی سے توفیق کے طالب ہیں۔

السید محمد القبانجی

مرکزالدراسات التخصصۃ

فی امام مھدی

نجف اشرف

۲۷

پہلا حصہ

۲۸

مقدمہ مصنف

الحمد لله رب العالمين، والصلاة والسلام على خاتم المرسلين وآله المعصومين، ولاسيما إمام زماننا خاتم الوصيّين، ولعنة الله على أعدائهم أجمعين أبد الآبدين.

أما بعد، فيقول غريق الآمال والأماني (محمد تقي بن عبد الرزاق الموسوي الاصفهاني) _ عفى الله عنهما _ لإخوانه في الإيمان:

لقد جمعت في هذا الكتاب المختصر جملة من الأعمال بعنوانها وظيفة المؤمنين في زمان غيبة صاحب الزمان صلوات الله عليه أي حضرة الحجة ابن الحسن بن علي بن محمد بن علي بن موسى بن جعفر بن محمد بن علي بن الحسين بن علي بن أبي طالب عليهم السلام.

وهي أربع وخمسون أمراً يليق بالمؤمنين المواظبة عليها والعمل بها.وسمّيته بـوظيفة الأنام في زمن غيبة الإمام

ومن الله التوفيق.

امیدوں اور آرزؤں میں ڈوبا ہوا (محمد تقی بن عبد الرزاق بن محمد بن موسی الاصفہانیٰ) اپنے مومن بھائیوں سے کہتا ہے:

۲۹

"میں نے صاحب الزمان حضرت حجۃ ابن الحسن بن علی بن محمد بن علی بن موسی بن جعفر بن محمد بن علی بن حسین بن علی ابن ابی طالب علیھم السلام کے زمانہ غیبت میں مومنین کی ذمہ داریوں کے عنوان سے اس مختصر کتاب میں کچھ اعمال جمع کئے ہیں۔ یہ کل چون (۵۴)اعمال پر مشتمل ہیں۔مومنین کو چاہیے کہ انہیں پابندی سے انجام دیتے رہیں۔

میں نے اس کتاب کا نا م "وظیفۃ الانام فی عصر غیبۃ الامام" (عصرِ غیبتِ امامؑ میں ہماری ذمہ داریاں ) رکھا ہے اور میں اللہ ہی سے توفیق طلب کرتا ہوں۔

۳۰

عصرِ غَیبتِ امامؑ میں ہماری ذمہ داریاں

۳۱
۳۲

۱۔ پہلا عمل:۔

امام کی جدائی اور مظلومیت پر غمگین ہونا:۔

جیسا کہ الکافی میں امام جعفر صادق علیہ السلام سے مروی ہے:

نَفَسُ اَلْمَهْمُومِ لَنَا اَلْمُغْتَمِّ لِظُلْمِنَا تَسْبِيحٌ

"ہماری مظلومیت پر غمگین شخص کا سانس لینا تسبیح شمار ہوتا ہے۔"(۱)

۲ ۔ دوسرا عمل:۔

انتظار ظہور:۔

کتاب کمال الدین میں حضرت امام محمد تقی علیہ السلام سے مروی ہے:

إِنَّ اَلْقَائِمَ مِنَّا هُوَ اَلْمَهْدِيُّ اَلَّذِي يَجِبُ أَنْ يُنْتَظَرَ فِي غَيْبَتِهِ وَ يُطَاعَ فِي ظُهُورِهِ وَ هُوَ اَلثَّالِثُ مِنْ وُلْدِي ۔۔۔

"بے شک قائم ہم میں سے ہیں اور وہ مہدیؑ ہیں کہ جن کی غیبت کے دوران ان کا انتظارکرنا اور ظہور کے بعد ان کی اطاعت کرنا واجب ہے اور وہ میری اولاد میں سے تیسرے ہیں۔۔۔"(۲)

____________________

۱:- الکافی ج۲ ص۲۲۶ ح۱۶

۲:- کمال الدین ج۲ ص۳۳۷ ح۱ بحوالہ بحارالانوار ج۵۱ ص۱۵۷ ح۱

۳۳

اسی طرح امیرالمومنین امام علی علیہ السلام سے مروی ہے:

أَفْضَلُ اَلْعِبَادِةِ اَلصَّبْرُ وَ اِنْتِظَارُ اَلْفَرَجِ

"صبر کرنا اور ظہور کا انتظار کرنا افضل عبادت ہے۔"(۱)

ایک اور حدیث میں حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے مروی ہے:

مَنْ مَاتَ مِنْكُمْ وَ هُوَ مُنْتَظِرٌ لِهَذَا اَلْأَمْرِ كَمَنْ هُوَ مَعَ اَلْقَائِمِ فِي فُسْطَاطِهِ

"تم میں سے جو شخص اس حال میں مرے کہ وہ ظہور مہدی ؑ کا منتظر ہو تو وہ ایسے ہی ہے جیسے قائم کے ساتھ ان کے خیمہ میں ہو۔"(۲)

میں نے اس موضوع کو تفصیل کےساتھ کتاب مکیال المکارم میں ذکر کیا ہے۔(۳)

۳۔ تیسراعمل:۔

امام ؑ کی جدائی اور مصیبت میں گریہ کرنا:

کتاب کمال الدین میں حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے مروی ہے:

____________________

۱:- تحف العقول ص۲۰۱

۲:- بحار الانوار ج۵۲ ص۱۲۷ ح۱۸

۳:- مکیال المکارم ج۲ ص۱۴۱

۳۴

وَ اَللَّهِ لَيَغِيبَنَّ إِمَامُكُمْ سِنِيناً مِنْ دَهْرِكُمْ وَ لَتُمَحَّصُنَّ حَتَّى يُقَالَ مَاتَ قُتِلَ او هَلَكَ بِأَيِّ وَادٍ سَلَكَ وَ لَتَدْمَعَنَّ عَلَيْهِ عُيُونُ اَلْمُؤْمِنِينَ

"خدا کی قسم تمہارا امام کئی سال تک غائب رہے گا۔یہاں تک کہ کہا جائے گا کہ کیا وہ مر گیا یا ہلاک ہوگیا ؟ یا پھر کس وادی میں چلاگیا ہے۔ اور یقینا مومنین کی آنکھیں ان پر آنسو بہائیں گی۔"(۱)

اور حضرت امام علی رضا علیہ السلام سے مروی ہے کہ فرمایا:

مَنْ تَذَكَّرَ مُصَابَنَاوَ بَكَى لِمَااُرْتُكِبَ مِنَّا كَانَ مَعَنَا فِي دَرَجَتِنَا يَوْمَ اَلْقِيَامَةِ

"جو ہمارے مصائب یاد کرے اورہم پر ہونے والے مظالم یاد کرکے گریہ کرے تو بروز قیامت ہمارے ساتھ بلند درجہ پر ہوگا۔"(۲)

۴ ۔ چوتھا عمل:۔

سر تسلیم خم کرنا اور ظہورکی باتوں میں عجلت سے پرہیز کرنا:

یعنی ظہور امام مہدی عجل اللہ فرجہ الشریف کے معاملے میں اس طرح کی باتیں نہ کرنا کہ (ظہور کیوں نہیں ہورہا؟ آخرکس لیے؟) بلکہ جوکچھ ان کی

____________________

۱:- کمال الدین ج۲ ص۳۴۷ ح۳۵

۲:- امالی الصدوق المجلس ۱۸ ح۴ بحوالہ بحارالانوار ج۴۴ ص۲۷۸ ح۱

۳۵

طرف سے پہنچا ہے اس پر سر تسلیم خم کرے اور اسے حکمت کے عین مطابق سمجھے۔

کتاب کمال الدین میں حضرت امام محمد تقی علیہ السلام سے مروی ہے :

"میرے بعد میرا بیٹا علیؑ (نقی)امام ہے۔ان کا حکم میرا حکم اور ان کا قول میرا قول ہے۔اوران کی اطاعت میری اطاعت ہے اور ان کے بعد ان کا بیٹا حسن ؑ(عسکری) امام ہے۔ان کا حکم ان کے باپ کا حکم اور ان کا قول ان کے باپ کا قول ہےاور ان کی اطاعت ان کے باپ کی اطاعت ہے۔"

پھر امام خاموش ہوگئے ۔

راوی کہتا ہے میں نے پوچھا :"اے فرزند رسولؐ پھر حسنؑ (عسکری)کے بعد کون امام ؑ ہونگے؟ "تو امام ؑ نے شدید گریہ کرنے کے بعد فرمایا:

"بےشک حسنؑ (عسکری) کے بعدان کا بیٹا جوکہ حق کوقائم کرنے والا ہے ، ان کا انتظار کیا جائے گا۔ میں نے پوچھا انھیں قائم کیوں کہتے ہیں؟ تو فرمایا کیونکہ وہ اس وقت قیام کریں گے جب ان کا ذکر مٹ چکا ہوگا اور ان کی امامت کا اقرار کرنے والوں میں سے اکثر مرتد ہوجائیں گے۔اور پھر میں نے پوچھا انہیں منتظر کیوں کہتے ہیں ؟ فرمایا: کیونکہ ان کے لیے ایسی غیبت ہوگی کہ جس کے دن کثیر اور مدت طویل ہوگی۔پس مخلص لوگ ان کے ظہور کا انتظار کریں گے اور شک میں پڑنے والے انکار کریں گےاور منکرین ان کے ذکر کا مذاق اڑائیں گے اور وقت معین کرنے والے ان کی غیبت کو جھٹلائیں گے۔اور ظہور میں عجلت کے

۳۶

طلبگار اس غیبت میں ہلاک ہوجائیں گے اور سرتسلیم خم کرنے والے زمانہ غیبت میں نجات پائیں گے۔"(۱)

۵ ۔ پانچواں عمل:۔

امامؑ کی طرف اپنے اموال ہدیہ کرنا:

جیسا کہ کتاب الکافی میں حضرت امام جعفر صادق ؑ سے مروی ہے کہ فرمایا:

"کوئی چیز اللہ کو اس درہم سے زیادہ پسند نہیں جو امام کی طرف بھیجا جائے اوراللہ اس کے لیے جنت میں احد کی پہاڑی کے برابر وہ درہم قرار دے گا۔پھر فرمایا اللہ اپنی کتاب میں فرماتا ہے :

مَنْ ذَا الَّذِي يُقْرِضُ اللَّهَ قَرْضًا حَسَنًا فَيُضَاعِفَهُ لَهُ أَضْعَافًا كَثِيرَةً (۲)

کوئی ہے جو اللہ کو قرض حسنہ دے تاکہ اللہ اسے کئی گنا زیادہ دے؟

قَالَ هُوَ وَ اَللَّهِ فِي صِلَةِ اَلْإِمَامِ خَاصَّةً

____________________

۱:- کمال الدین ج۲ ص۳۷۸، کفایۃ الاثر ص۲۷۹، بحارالانوار ج۵۱ ص ۱۵۷ ح۵۲

۲:- سورۃ البقرۃ :۲۴۵

۳۷

فرمایا: خداکی قسم یہ اجر امام کی طرف بھیجے گئے مال کے ساتھ خاص ہے۔"(۱)

بہر کیف اب جبکہ ہمارےامام ؑ غائب ہیں تو مومن کو چاہیے کہ وہ جو مال امام کو ہدیہ کرنا چاہتا ہے اسے ان کاموں میں استعمال کرے جن میں امام ؑ کی رضا ہو۔جیسے وہ امام ؑ کے سچے محبت کرنے والے صالح لوگوں پر خرچ کرے۔

جیساکہ بحارالانوار میں کامل الزیارات کے حوالے سے مروی ہے کہ حضرت امام موسی کاظم علیہ السلام نے فرمایا:

مَنْ لَمْ يَقْدِرْ أَنْ يَزُورَنَا فَلْيَزُرْ صَالِحِي [مَوَالِينَا، يُكْتَبْ لَهُ ثَوَابُ زِيَارَتِنَا، وَ مَنْ لَمْ يَقْدِرْ عَلَى صِلَتِنَا فَلْيَصِلْ صَالِحِي] مَوَالِينَا ، يُكْتَبْ لَهُ ثَوَابُ صِلَتِنَا

فرمایا :

" جو ہماری زیارت پر قادر نہیں وہ ہمارے صالح محبین کی زیارت کرے تو اس کے لیے ہماری زیارت کا ثواب لکھا جائے گا اور جو ہمیں ہدیہ دینے پرقادر نہیں و ہ ہمارےصالح محبین کو ہدیہ عطا کرے تو اس کے لیے ہمیں ہدیہ پہنچانے کا ثواب لکھا جائے گا۔"(۲)

____________________

۱:- الکافی ج۱ ص۴۵۱ ح۲

۲:- بحارالانوار ج۱۰۲ ص۲۹۰ ح۱، کامل الزیارات ص۳۱۹

۳۸

۶ ۔ چھٹا عمل:۔

سلامتی امام ؑ کے لیے صدقہ دینا:

اس حوالے سے کتاب النجم الثاقب میں تفصیل سے ذکر کیا گیا ہے۔(۱)

۷ ۔ ساتواں عمل:۔

صفات امام ؑکی معرفت حاصل کرنا :

ہر حال میں ان کی نصرت کا پختہ ارادہ رکھنا اور ان کی جدائی میں گریہ کناں اور غمگین رہنا۔ یہ بھی کتاب النجم الثاقب میں تفصیل سے مذکور ہے۔(۲)

۸ ۔ آٹھواں عمل:۔

اللہ تعالی سے معرفت امام ؑ طلب کرنا:

معرفت امام کے حصول کے لیے الکافی اور کتاب کمال الدین میں حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے مروی یہ دعا پڑھی جائے:

اَللَّهُمَّ عَرِّفْنِي نَفْسَكَ فَإِنَّكَ إِنْ لَمْ تُعَرِّفْنِي نَفْسَكَ لَمْ أَعْرِفْ نَبِيَّكَ اَللَّهُمَّ عَرِّفْنِي رَسُولَكَ فَإِنَّكَ إِنْ لَمْ تُعَرِّفْنِي رَسُولَكَ لَمْ

____________________

۱:- النجم الثاقب ص۴۴۲

۲:- النجم الثاقب ص۴۲۴

۳۹

أَعْرِفْ حُجَّتَكَ اَللَّهُمَّ عَرِّفْنِي حُجَّتَكَ فَإِنَّكَ إِنْ لَمْ تُعَرِّفْنِي حُجَّتَكَ ضَلَلْتُ عَنْ دِينِي (۱)

ترجمہ:

"اے اللہ مجھے اپنی معرفت عطا فرما بے شک اگر تو نے مجھے اپنی معرفت عطا نہ فرمائی تو میں تیرے نبی کی معرفت حاصل نہیں کر پاؤں گااوراے ا للہ مجھے اپنے نبی کی معرفت عطا فرما بے شک اگر تو نے مجھے اپنے نبی کی معرفت عطا نہ فرمائی تو میں تیری حجت کی معرفت سے محروم رہوں گا۔ اور اے اللہ مجھے اپنی حجت کی معرفت عطا فرما بے شک اگر تو نے مجھے اپنی حجت کی معرفت عطا نہ فرمائی تو میں اپنے دین سے گمراہ ہو جاؤں گا۔"

۹ ۔ نواں عمل:۔

حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے مروی ہے اس دعا کو باقائدہ پڑھا جائے۔

جیسا کہ کتاب کمال الدین میں بھی موجود ہے۔وہ دعا یہ ہے:

"يَا اَللَّهُ يَا رَحْمَنُ يَا رَحِيمُ يَا مُقَلِّبَ اَلْقُلُوبِ ثَبِّتْ قَلْبِي عَلَى دِينِكَ " (۲)

____________________

۱:- الکافی ۱/۲۷۲ ح۵،کمال الدین ۲/۴۴۲ ح۲۴،بحارالانوار۵۲/۱۴۶ ح۷۰

۲:- کمال الدین ۲/۳۵۲ ح۴۹

۴۰

۱۰ ۔ دسواں عمل:۔

اپنی استظاعت کے مطابق امام ؑ کی نیابت میں اپنے قریبی رشتہ داروں کو کچھ عطاء کرنا۔

اس حوالے سے بھی النجم الثاقب میں تفصیل مذکور ہے۔(۱)

۱۱ ۔ گیارہوں عمل:۔

ان کا نام مبارک نہ لیا جائے۔

اور یہ وہی نام ہے جو رسول خدا ﷺکا نام ہےلہذا امام ؑ کو ان القاب سے پکارا جائے مثلا القائم ، المنتظر،الحجۃ ،المھدی ،الامام ، الغائب وغیرہ

۱۲ ۔ بارہوں عمل:۔

ان کا نام سن کر احتراما کھڑے ہوجانا خصوصا جب لقب القائم ذکر کیا جائے تو کھڑے ہوجانا۔(۲)

۱۳ ۔ تیرہواں عمل:۔

امام ؑکے ساتھ جہاد میں شامل ہونے کے لیے سامان تیار رکھنا۔

____________________

۱:- النجم الثاقب ص۴۴۴

۲:- النجم الثاقب ۴۴۴

۴۱

جیسا کہ بحارالانوار میں غیبت نعمانی سے نقل کیا گیا ہے کہ امام جعفرصادق علیہ السلام نے فرمایا:

لِيُعِدَّنَّ أَحَدُكُمْ لِخُرُوجِ اَلْقَائِمِ وَ لَوْ سَهْماً فَإِنَّ اَللَّهَ إِذَا عَلِمَ ذَلِكَ مِنْ نِيَّتِهِ رَجَوْتُ لِأَنْ يُنْسِئَ فِي عُمُرِهِ حَتَّى يُدْرِكَهُ (۱)

"اگر تم میں سے کوئی ظہور قائم کے لیے کچھ (سامان ) تیار کر رکھے چاہے ایک تیر ہی کیوں نہ ہو تو جب اللہ اس کی یہ نیت دیکھے گا تو مجھے امید ہے کہ اسے اتنی زندگی دے دے حتی کہ وہ امام ؑ کو پا لے۔"

۱۴ ۔ چودہواں عمل:۔

اپنی مشکلات میں امام ؑ سے توسل کرنا

توسل کرنا اور استغاثہ کے خطوط و عریضے امام ؑ کے حضور بھیجنا۔جیسا کہ بحارالانوار میں وارد ہوا ہے۔

۱۵ ۔ پندرہواں عمل:۔

امام کو اپنی دعاؤں میں اپنا شفیع قرار دینا:

____________________

۱:- بحارالانوار ۵۲/۳۶۶ ح۱۴۷، غیبۃ النعمانی ص۳۲۰ ح۱۰

۴۲

اپنی دعاؤں میں اللہ تعالی کو امام ؑ کی قسم اور ان کا واسطہ دینا اور اپنی حاجات کی برآوری کے لیے انھیں اللہ کی بارگاہ میں اپنا شفیع قرار دینا۔جیساکہ کمال الدین میں مذکور ہے۔(۱)

۱۶ ۔ سولہواں عمل:۔

اپنے دین پر ثابت قدم رہنا اور دیگر ادیان کی پیروی سے اجتناب کرنا۔

یہ اس لیے کیونکہ امام ؑ کا ظہور اس وقت تک نہیں ہوگا جب تک سفیانی کا خروج اور آسمانی چیخ بلند نہ ہو اور یہ بہت سی روایات میں وارد ہوا ہے کہ:

اُسْكُنُوا مَا سَكَنَتِ اَلسَّمَاءُ مِنَ اَلنِّدَاءِ وَ اَلْأَرْضُ مِنَ اَلْخَسْفِ بِالْجَيْشِ (۲)

"اس وقت تک انتظار کرو جب تک آسمان سے ندا بلند نہ ہو اور خسف بیداء کا واقعہ رونما نہ ہو جائے۔"

اوربحارالانوار میں غیبۃ الطوسی سے نقل کیا گیا ہے کہ امام رضا علیہ السلام نے فرمایا:

يُنَادُونَ فِي رَجَبٍ ثَلاَثَةَ أَصْوَاتٍ مِنَ اَلسَّمَاءِ صَوْتاً مِنْهَا أَلاٰ لَعْنَةُ اَللّٰهِ عَلَى اَلظّٰالِمِينَ وَ اَلصَّوْتُ اَلثَّانِي أَزِفَتِ اَلْآزِفَةُ يَا مَعْشَرَ اَلْمُؤْمِنِينَ وَ اَلصَّوْتُ

____________________

۱:- کمال الدین ص۴۹۳ ح۱۸

۲:- امالی الطوسی و معانی الاخبار ۲۶۶،بحوالہ بحارالانوار ۵۲/۱۸۹ ح۱۶,۱۷

۴۳

اَلثَّالِثُ يَرَوْنَ بَدَناً بَارِزاً نَحْوَ عَيْنِ اَلشَّمْسِ هَذَا أَمِيرُ اَلْمُؤْمِنِينَ قَدْ كَرَّ فِي هَلاَكِ اَلظَّالِمِينَ (۱)

ماہ رجب میں آسمان سے تین آوازیں آئیں گی جن میں سے

پہلی آواز یوں آئے گی:

"آگاہ رہو کہ ظالموں پر اللہ کی لعنت ہے۔"

اور دوسری آواز آئے گی:

"آنے والی گھڑی قریب آہی گئی ہے اے گروہ مومنین"

اور تیسری آواز یوں آئے گی:

")جب لوگ سورج کی طرح چمکتا ایک نورانی جسم دیکھیں گے تب آواز آئے گی کہ) یہ امیرالمومنین ہیں اور ظالموں کو ہلاک کرنے کے لیے لوٹ آئے ہیں۔"

ایک اور حدیث میں ہے کہ:

ان جبرائیل ینادی فی لیلة الثالث والعشرین من شهررمضان نداء یسمعه جمیع الخلائق :

ان الحق مع علی وشیعته ۔(۲)

____________________

۱:- غیبۃ الطوسی ۲۶۸ اور ان سے بحارالانوار ۵۲/۲۸۹ ح۲۸

۲:- الارشاد ۲/ ۳۷۱

۴۴

"تیئیس رمضان کی شب جبرائیل ایک ایسی ندا دے گا جسے تمام مخلوقات سنیں گی کہ "بے شک حق علیؑ اور ان کے شیعوں کے ساتھ ہے "۔

ایک اور حدیث میں ہے کہ آسمانی منادی ندا دے گا جسے تمام مخلوقات سنیں گی کہ :

"الا ان حجة الله قد ظهر عند بیت الله فاتبعوه" (۱)

"آگاہ ہوجاؤ کہ حجت خدا کا خانہ کعبہ میں ظہور ہوگیا ہے پس ان کی اتباع کرو۔"

اور کتاب کمال الدین میں حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے مروی ہے کہ :

"أَوَّلُ مَنْ يُبَايِعُ اَلْقَائِمَ عَلَيْهِ السَّلاَمُ جَبْرَئِيلُ يَنْزِلُ فِي صُورَةِ طَيْرٍ أَبْيَضَ فَيُبَايِعُهُ ثُمَّ يَضَعُ رِجْلاً عَلَى بَيْتِ اَللَّهِ اَلْحَرَامِ وَ رِجْلاً عَلَى بَيْتِ اَلْمَقْدِسِ ثُمَّ يُنَادِي بِصَوْتٍ طَلِقٍ تَسْمَعُهُ اَلْخَلاَئِقُ أَتىٰ أَمْرُ اَللّٰهِ فَلاٰ تَسْتَعْجِلُوهُ " (۲)

" سب سے پہلے جو قائم کی بیعت کریں گے وہ جبرائیل ہوں گے جو ایک سفید پرندے کی شکل میں نازل ہوں گے اور امام کی بیعت کریں گے پھر اپنا ایک قدم بیت اللہ اور دوسرا بیت المقدس پر رکھ کر ایسی واضح اور بلند آواز سے ندا

____________________

۱:- کمال الدین ۳۷۲ ح۵

۲:- کمال الدین ۲/۶۷۱ ح۱۹

۴۵

دینگے کہ جسے تمام مخلوقات سنیں گی کہ: خدا کا امرآگیا ہے پس اب جلدی نہ کرو۔"

اور ایک اور حدیث میں ہے کہ:

"فَيَبْعَثُ اَللَّهُ تَبَارَكَ وَ تَعَالَى رِيحاً فَتُنَادِي بِكُلِّ وَادٍ هَذَا اَلْمَهْدِيُّ يَقْضِي بِقَضَاءِ دَاوُدَ وَ سُلَيْمَانَ عَلَيْهِمَا اَلسَّلاَمُ وَ لاَ يُرِيدُ عَلَيْهِ بَيِّنَةً" (۱)

پس اللہ تعالی ایک ایسی ہوا بھیجے گا کہ جو ہروادی میں یوں نداء دے گی:

"یہ مہدی ؑ ہیں ،یہ داؤد اور سلیمان کی طرح فیصلے کریں گے کہ انہیں گواہوں کی ضرورت نہیں پڑے گی۔"

۱۷ ۔ سترہواں عمل:۔

کتاب کمال الدین میں حضرت امام محمد باقر علیہ السلام سے مروی ہے کہ آپؑ نے فرمایا:

يَأْتِي عَلَى اَلنَّاسِ زَمَانٌ يَغِيبُ عَنْهُمْ إِمَامُهُمْ فَيَا طُوبَى لِلثَّابِتِينَ عَلَى أَمْرِنَا فِي ذَلِكَ اَلزَّمَانِ إِنَّ أَدْنَى مَا يَكُونُ لَهُمْ مِنَ اَلثَّوَابِ أَنْ يُنَادِيَهُمُ اَلْبَارِئُ جَلَّ جَلاَلُهُ فَيَقُولَ عِبَادِي وَ إِمَائِي آمَنْتُمْ بِسِرِّي وَ صَدَّقْتُمْ بِغَيْبِي فَأَبْشِرُوا بِحُسْنِ اَلثَّوَابِ مِنِّي فَأَنْتُمْ عِبَادِي وَ إِمَائِي حَقّاً مِنْكُمْ أَتَقَبَّلُ وَ

____________________

۱:- کمال الدین ۲/۶۷۱ ح۱۹

۴۶

عَنْكُمْ أَعْفُو وَ لَكُمْ أَغْفِرُ وَ بِكُمْ أَسْقِي عِبَادِيَ اَلْغَيْثَ وَ أَدْفَعُ عَنْهُمُ اَلْبَلاَءَ وَ لَوْلاَكُمْ لَأَنْزَلْتُ عَلَيْهِمْ عَذَابِي قَالَ جَابِرٌ فَقُلْتُ يَا اِبْنَ رَسُولِ اَللَّهِ فَمَا أَفْضَلُ مَا يَسْتَعْمِلُهُ اَلْمُؤْمِنُ فِي ذَلِكَ اَلزَّمَانِ قَالَ حِفْظُ اَللِّسَانِ وَ لُزُومُ اَلْبَيْتِ (۱)

"لوگوں پر ایک ایسا زمانہ آئے گا جس میں ان کا امامؑ ان سے غائب ہو گا۔پس پاکیزگی ہے ان لوگوں کے لیے جو اس زمانے میں ہمارے امر پر ثابت قدم رہیں۔ان کے لیے کم ازکم اجر یہ ہے کہ اللہ جل شانہ انہیں فرمائے گا کہ اے میرے بندو! تم میرے راز پر ایمان لائے اور میرے غیب کی تصدیق کی پس میری طرف سے بہترین ثواب پہ خوش ہوجاؤ۔تم میرے حقیقی بندے ہو۔میں تمہارے اعمال قبول کرتا ہوں ، تم سے عفو درگزر کرتا ہوں اور تمہیں بخش دیتا ہوں اورتمہاری وجہ سے اپنے بندوں کو بارش سے سیراب کرتا ہوں اور ان سے بلاؤں کو دور کرتا ہوں اور اگر تم نہ ہوتے تومیں ان پر عذاب نازل کرتا۔"

جابر کہتے ہیں میں نے پوچھا:

اے فرزند رسول ؐ! اس زمانے میں مومن کے لیے بہترین عمل کیاہے؟

____________________

۱:- کمال الدین ۱/۳۳۰ ح۱۵

۴۷

فرمایا:

"اپنی زبان کی حفاظت کرنا اور گھر میں رہنا۔"

یعنی سوائے ضرورت کے عام معاشرے سے دور رہے کیونکہ معاشرے کی ضروریات اسے امام ؑ کی یاد سے غافل کر دیں گی۔

۱۸ ۔ اٹھارواں عمل:۔

امام ؑ کی ذات مبارک پہ صلوات بھیجنا۔

آگے چل کر ہم امام ؑ کی ذات پر ہدیہ کے لیے صلوات کے کچھ مروی طریقے ذکر کریں گے۔انشاء اللہ تعالی

۱۹ ۔ انیسواں عمل:۔

اما م علیہ السلام کے فضائل و مناقب بیان کرنا۔

یہ عمل اس لیے انجام دینا ہے کیونکہ امام علیہ السلام ہم تک پہنچنے والی اللہ تعالی کی نعمتوں کا سبب ہیں ۔جیسا کہ مصنف نے اپنی کتاب مکیال المکارم میں اس امر کی وضاحت کی ہے۔پس وہ ذات جو خدائی نعمتوں کے وصول کا ذریعہ ہے اس لائق ہے کہ اس کے فضائل و کمالات کا ذکر کیا جائے۔

جیسا کہ کتاب مکارم الاخلاق میں امام زین العابدین علیہ السلام سے منقول رسالۃ الحقوق میں صاحب معروف کا حق بیان کیا گیا ہے۔

۴۸

۲۰ ۔ بیسواں عمل:۔

امام ؑ کے جمال مبارک کو حقیقت میں دیکھنے کا اشتیاق رکھنا:

جیسا کہ امیرالمومنین ؑ کے بارے میں ہے کہ آپ نے اپنے سینے کی طرف اشارہ کرکے اور ان سے ملاقات کے اشتیاق کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا:

"وهو لَمْ يُولَدْ بَعْدُ "

"وہ ابھی تک پیدا نہیں ہوئے۔"(۱)

۲۱ ۔ اکیسواں عمل:۔

لوگوں کو امامؑ اور ان کے آباء طاہرین کی معرفت اورخدمت کی دعوت دینا۔

الکافی میں سلمان بن خالد سے مروی ہے کہ میں نے امامؑ سے عرض کیا کہ میرے گھر والے میری بات مانتے ہیں کیا میں انہیں اس امر کی دعوت دوں ؟

فرمایا: ہاں بے شک اللہ اپنی کتاب میں فرماتا ہے:

"يَاأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا قُوا أَنْفُسَكُمْ وَأَهْلِيكُمْ نَارًا وَقُودُهَا النَّاسُ وَالْحِجَارَةُ" (۲)

____________________

۱:- غیبۃ النعمانی ۲۱۴، بحارالانوار۵۱/۱۱۵ ح۱۴

۲:- سورۃ تحریم ۶،الکافی ۲/۲۱۱ ح۱

۴۹

"اے ایمان والو! خود کو اور اپنے گھر والوں کو اس آگ سے بچاؤ جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہیں۔"

۲۲ ۔ بائیسواں عمل:۔

اذیت پر صبر کرنا:

سختیوں،امام ؑ کے دشمن کی جانب سے جھٹلائے جانے ، اذیت پہنچائے جانے اور ان کی طرف سے ملامت پر صبر کرنا۔

کتاب کمال الدین میں سیدالشہداء سے مروی ہے کہ فرمایا:

"آگاہ ہو جاؤ کہ زمانہ غیبت میں اذیتوں اور جھٹلائے جانے پر صبر کرنے والا رسول خدا ﷺکے ساتھ مل کر تلوار سے جہاد کرنے والے کے برابر ہے۔"(۱)

۲۳ ۔ تیئیسواں عمل:۔

اعمال صالحہ کا ہدیہ:

امام علیہ السلام کی خدمت میں اعمال صالحہ کا ثواب ہدیہ کرنا جیسے تلاوت قرآن وغیرہ۔

____________________

۱:- کمال الدین ۱/۳۱۷ ح۳

۵۰

۲۴ ۔ چوبیسواں عمل:۔

امامؑ کی زیارت بجا لانا:

یہ آخری دو عمل فقط امام زمانہ ؑ کے ساتھ ہی مختص نہیں بلکہ یہ تمام آئمہؑ کی شان میں وارد ہوئے ہیں۔

۲۵ ۔ پچیسواں عمل:۔

امام ؑ کے جلد از جلد ظہور کی دعا کرنا اور امام ؑ کے لیے اللہ سے فتح و نصرت طلب کرنا۔

اس عمل کے بہت زیادہ فوائد ہیں۔یہ سب اعمال میں نے آئمہ کی روایات سے اپنی فارسی کتاب "ابواب الجنات آداب الجمعات" میں جمع کیے ہیں اور عربی کتاب مکیال المکارم کے باب فوائد الدعاء للقائم میں ذکرکیے ہیں۔

الاحتجاج میں حضرت امام مہدی عجل اللہ فرجہ الشریف سے مروی ایک توقیع مبارک میں نقل ہے کہ فرمایا:

وَ أَكْثِرُوا اَلدُّعَاءَ بِتَعْجِيلِ اَلْفَرَجِ فَإِنَّ ذَلِكَ فَرَجُكُمْ (۱)

“ظہور میں تعجیل کے لیے کثرت سے دعا کیا کرو کیونکہ اس میں تمہارے لیے کشائش ہے۔”

____________________

۱:- الاحتجاج ۲/۲۸۴

۵۱

اور حضرت امام حسن عسکری علیہ السلام سے مروی ہے کہ فرمایا:

وَ اَللَّهِ لَيَغِيبَنَّ غَيْبَةً لاَ يَنْجُو فِيهَا مِنَ اَلْهَلَكَةِ إِلاَّ مَنْ ثَبَّتَهُ اَللَّهُ عَزَّ وَ جَلَّ عَلَى اَلْقَوْلِ بِإِمَامَتِهِ وَ وَفَّقَهُ فِيهَا لِلدُّعَاءِ بِتَعْجِيلِ فَرَجِهِ (۱)

"خدا کی قسم وہ اتنا عرصہ غائب رہیں گے کہ جس میں ہلاکت سے صرف وہی بچے گا جسے اللہ تعالی ان کی امامت پر ثابت قدم رکھے گا۔اور اسے تعجیل فرج کی دعا کی توفیق عطا فرمائے گا۔"

____________________

۱:- کمال الدین ۲/۳۴۸ ضمن حدیث ۱

۵۲

فصل اول

بعض دعائیں اور زیارات

آئمہ معصومین ؑ سے امام مہدی ؑ سے مختص بہت سی دعائیں واردہوئی ہیں ۔اس مختصر کتاب میں ان میں سے پانچ دعائیں ذکر کرنےکی سعادت حاصل کرتے ہیں۔

پہلی دعا:۔

الفقیہ میں امام محمد تقی علیہ السلام سے روایت ہے کہ فرمایا:

فرض نماز سے فارغ ہونے کے بعد یوں کہو:

"رَضَيْتُ باللهَ رَبّاً وَبالإسلام دِيناً وَبِالقُرآنِ كِتاباً وَبعَليّ عَلَيه السلام وَليّاً والحَسَنِ وَالحُسينِ وعَليّ بن الحُسين وَمُحمّدِ بنِ عليّ وَجَعفَرِ بنِ مُحمّدٍ وَمُوسى بنِ جعفر وعَليّ بنِ موسى وَمُحمّدِ بن عَليّ، وَعليّ بنِ مُحمّدٍ وَالحَسنِ بن عليّ وَالحُجّةِ بنِ الحَسَنِ بنِ عَلِيّ عَلَيهِم السلامُ أئمَةً. اَللهمّ وَليَّكَ الحُجّةَ فاحفَظهُ مِنْ بَينِ يَديهِ وَمِن خَلفِهِ وَعَن يَمينِه وَعَنْ شِمالِهِ وَمِن فَوقهِ وَمِن تَحتِهِ وامدُد لهُ في عُمره وَاجْعَلهُ القائِمَ بِاَمرِكَ المُنْتصِرَ لِدينِكَ وأرِه ما يُحِبُّ وَتقِرُّ بهِ عَيْنُهُ في نَفْسِهِ وَذُرّيتِهِ وَفي أهلِهِ وَمالِه وَفي شيعَتِه

۵۳

وَفي عَدوِه وَأرِهم منهُ ما يَحذَرونَ وأَرهِ فيهِم ما يُحِبَ وَتقرُّ بهِ عينُهُ واشفِ بِهِ صُدورَنا وَصدُورَ قَومٍ مُؤمنين " (۱)

دوسری دعا:۔

مکارم الاخلاق میں امام جعفر صادق علیہ السلام سے مروی ہے کہ یہ دعا ہر فریضہ نماز کے بعد پڑھی جائے:

اللّهمَّ صَلّ عَلَى مُحمّدٍ وآلِ مُحَمّدٍ، اللّهُمّ إنَّ رَسولَكَ الصادِقَ المُصدَّقَ الأمينَ صَلَواتُكَ عَليهِ وَآلِه قالَ: إنَّك قُلتَ تَباركْتَ وَتَعالَيْتَ ما تَردّدَتُ في شَيءٍ أنا فاعِلُه كتَردّدي في قَبضِ روحِ عَبديَ المُؤمِن يكرهُ المَوتَ واَنا أكْرهُ مَساءَتَهُ.

اللّهمّ فَصَلِّ على مُحمّدٍ وَآلِ مُحمّدٍ وَعَجّل لِوَليِّكَ الفَرجَ وَالراحَةَ وَالنصرَ والكَرامةَ والعافيةَ ولا تَسُؤني في نَفْسي وَلا في أَحدٍ مِن أَحِبَّتي(۲)

تیسری دعا:۔

جمال الاسبوع میں امام رضا علیہ السلام سے منقول ہے کہ آپ حضر ت حجت عجل اللہ فرجہ الشریف کے لیے یہ دعا فرماتے تھے۔ اور اس دعا کا کوئی وقت

____________________

۱:- من لا یحضرہ الفقیہ :۱؛/۳۸۱

۲:- مکارم الاخلاق: ۲۸۴

۵۴

مقرر نہیں ہے بلکہ کسی بھی وقت پڑھی جا سکتی ہے۔اور میں امید کرتا ہوں کہ آپ یہ دعا پڑھتے وقت مجھے فراموش نہیں کریں گے۔

اَللّهمَّ صَلِ عَلى مُحمّدٍ وَآل مُحمّد وادفَع عَنْ وَليِّكَ وَخَليفَتِكَ وَحُجَّتِكَ على خَلْقِكَ وَلِسانِكَ المُعَبِّرِ عَنْكَ بإذْنِكَ الناطِقِ بِحكمَتِكَ وَعَينِكَ الناظِرةِ في بَريّتِكَ وَشاهِدكَ على عبادك الجَحجاح المجاهد المُجتَهد عَبْدِكَ العائِذِ بِكَ.

اللّهمّ وَاَعِذْهُ مِنُ شَرِّ ما خَلَقْتَ وَذَرأت وَبرأتَ وَأنشأتَ وَصَوَّرتَ، وَاحفظهُ مِنْ بَينِ يَديهِ وَمِن خَلفِهِ وَعَن يَمينِهِ وَعَنْ شِمالِهِ وَمِنْ فَوْقِهِ وَمِنْ تَحتِهِ بِحِفْظِكَ الّذي لا يضيع مَنْ حَفِظْتَهُ بِهِ وَاحفَظْ فِيهِ رِسولَكَ وَوَصيّ رَسولَكَ وَآباءَه ائِمّتَكَ وَدَعائِمَ دِينِكَ صَلَواتُكَ عَلَيْهِم اَجْمَعِينَ، وَاجْعَلْهُ في وَديعَتكَ الَّتي لا تَضيعُ وَفي جِوارِكَ الّذي لا يُخْفَرُ وفي مَنْعِكَ وَعِزِّكَ الّذي لا يُقْهَرُ.

اللّهمَّ وَآمِنْهُ بِأِمانِكَ الوَثيقِ الَّذي لا يُخْذَلُ مَن اَمِنْتَهُ بِهِ وَاجْعَلْهُ في كَنَفِكَ الّذي لا يُضامُ مَن كانَ فيهِ، وَانْصُرهُ بِنَصرِكَ العَزيزِ وَاَيِّدْهُ بِجُنْدِكَ الغالِبِ وَقَوِّهِ بِقُوَّتِكَ وَأَرْدِفْهُ بِمَلائِكَتِكَ.

اللّهُمَّ والِ مَنْ والاهُ وَعادِ مَنْ عاداهُ وألْبِسْهُ دِرعَكَ الحَصِينَةَ وحُفَّهُ بِالمَلائكَةِ حَفّاً.

۵۵

اللّهُمَّ وبَلِغْهُ اَفْضَلَ ما بَلَّغْتَ القائِمينَ بِقِسْطِكَ مِنْ أتباعِ النَّبيِيّنَ.

اللّهُمَّ اشْعَبْ بِهِ الصَّدْعَ وَارْتُقْ بِهِ الفَتْقَ وَأَمِتْ بِهِ الجَوْرَ وَأَظهِرْ بِهِ العَدْلَ وَزَيِّنْ بِطُولِ بَقائِهِ الأرْضَ، وَاَيِّدْهُ بِالنصْرِ وَانصُرْهُ بِالرُعْبِ وَافْتَحْ لَهُ فَتَحاً يَسيْراً، وَاجْعَلْ لَهُ مِن لَدُنْكَ عَلى عَدُوِّكَ وَعَدُوِّهِ سُلطاناً نَصِيُراً.

اللّهمَّ اجْعَلْهُ القائِمَ المنتظر وَالإِمامَ الَّذي بِهِ تُنْتَصَرُ وَأيِّدْهُ بِنَصرٍ عَزيزٍ وَفتحٍ قَريبٍ وَوَرِّثْهُ مَشارِقَ الأرْضِ وَمغارِبَها اللآتِي بارَكْتَ فيها وَأحْيِ بِهِ سُنَّةَ نَبيِّكَ صَلَواتُكَ عَلَيهِ وَآلِهِ حَتّى لا يَسْتَخْفِيَ بِشَيءٍ مِنَ الحَقِّ مَخافَةَ أحدٍ مِنَ الخَلْق، وَقَوِّ ناصَرَهُ وَاخْذُلْ خاذِلَهُ وَدَمْدِمْ عَلى مَن نَصَبَ لَهُ وَدَمِّرْ على مَنْ غَشَّهُ.

اللّهُمَّ وَاقْتُل بِهِ جَبابِرَةَ الكُفْرِ وَعُمَدَهُ وَدَعائِمَهُ وَالقُوّامَ بِهِ وَاقصِمْ بِهِ رُؤُوسَ الضَّلالَةِ وَشارِعَةَ البِدْعَةِ وَمُمِيتَةَ السُّنَّةِ وَمُقوِّيةَ الباطل وَأذلِلْ بِهِ الجَبّارِينَ وَأَبِرْ بِه الكافِرينَ وَالمُنافِقينَ وَجَمِيعَ المُلحِدِينَ حَيْثُ كانُوا وَأينَ كانوا مِنْ مَشارِقِ الأرْضِ وَمَغارِبِها وَبرِّها وَبَحْرِها وَسَهْلِها وَجَبلِها حَتّى لا تَدَعَ مِنْهُمْ دَيّاراً أوَلا تُبقيَ لَهُمْ آثاراً.

اَللّهُمَّ وَطَهِّرْ مِنْهُمْ بِلَادَكَ وَاشْفِ مِنهُمْ عِبادَكَ وَاَعِزَّ بِهِ المُؤمنينَ وَاَحْي بِهِ سُنَنَ المُرسَلينَ وَدارِسَ حِكَمِ النَّبِيّن وَجَدِّد بِهِ ما مُحِيَ

۵۶

مِن دِينِكَ وَبُدِّلَ مِن حُكْمِكَ حَتَى تُعِيدَ دِينَكَ بِهِ وَعَلى يَدَيهِ غَضّاً جَديداً صَحِيحاً مَحْضاً لا عِوَجَ فيهِ وَلا بِدْعَةَ مَعَهُ حَتّى تُنِيرَ بعَدْلِهِ ظُلَمَ الجَورِ وَتُطفيءَ بِهِ نِيرانَ الكُفرِ وَتُظهِرَ بِهِ مَعاقِدَ الحَقِ وَمجَهُولَ العَدْلِ وَتوضِحَ بِهِ مُشكِلاتِ الحُكْمِ.

اَللّهمَّ وَإِنّهُ عَبدُكَ الّذِي اسْتَخلَصْتَهُ لِنَفسِكَ وَاصْطفَيتَهُ مِنْ خَلْقِكَ واصْطَفَيتَهُ على عِبادِك وَائْتَمَنْتَهُ عَلَى غيبِكَ وَعَصَمتَهُ مِنَ الذّنوبِ وبرّأْتَهُ مِنَ العُيُوبِ وَطَهَّرتَهُ مِنَ الرِّجْسِ وَصَرَفتَهُ عَنِ الدّنَس وَسَلَّمْتَهُ مِنَ الرّيْبِ.

اَللّهُمَ فَاِنّا نَشْهَدُ لَهُ يَوْمَ القِيامَةِ وَيَومَ حُلُولِ الطَّامّةِ اَنَّهُ لَمْ يُذْنِبْ ذَنْباً وَلَمْ يَأتِ حُوباً وَلَمْ يَرتَكِبْ لَكَ مَعصِيةً وَلَمْ يُضيِّعْ لَكَ طاعَةً وَلَم يَهْتِكْ لَكَ حُرْمَةً وَلَمْ يُبدِّلْ لَكَ فَرِيضَةً ولَمْ يُغيَرْ لَكَ شَرِيعةً وَإنّهُ الإمامُ التَقِيُ الهادِيُ المَهْديُ الطاهِرُ التَّقي الوَفِيُ الرَضِيُ الزكِيُ.

اللَّهمَ فَصَلِّ عَلَيْهِ وَعَلى آبائِهِ وَاَعطِهِ فِي نَفسِهِ وَوَلدِهِ وَاَهْلِهِ وَذُرِّيَّتِهِ وَاُمَّتِهِ وَجَميعِ رَعِيَّتِه ما تُقِرُّ بِهِ عَينَهُ وَتُسِرُّ بِهِ نَفسَهُ وَتُجْمِعُ لَهُ مُلْكَ المَمْلَكاتِ كُلِّها قَرِيبها وَبَعِيدهَا وَعَزِيزِها وَذَلِيلِها حَتّى يَجْرِيَ حُكْمُهُ عَلى كُلِّ حُكْمٍ وَيَغْلِبَ بِحَقِّهِ عَلَى كُلِّ باطِلِ.

۵۷

اللّهُمَ وَاسْلُكْ بِنا عَلى يَدَيْهِ مِنْهاجَ الْهدَى وَالْمَحَجَّةَ العُظْمى وَالطَريقَةَ الوُسْطى الَّتي يَرجِعُ اِلَيها الغالِي وَيَلحَقُ بها التّالِي.

اللّهُمّ وَقَوِّنا عَلَى طاعَتِهِ وَثَبِّتْنا عَلَى مُشايَعَتِهِ وَامْنُنْ عَلَينا بِمُتابَعَتِهِ وَاجْعَلْنا فِي حِزْبِهِ القَوّامِينَ بأَمرِه الصَّابِرِينَ مَعَهُ الطَّالِبِينَ رِضَاكَ بِمُناصَحَتِهِ حَتّى تَحْشُرَنا يَوْمَ القِيامَةِ فِي اَنْصَارِه وَاَعْوانِهِ وَمُقَوِّيّة سُلْطَانِهِ.

اللّهُمَّ صَلِّ عَلى مُحِمّدٍ وَآلِ مُحَمّد وَاجْعَلْ ذلِكَ كُلَّهُ مِنَّا لَكَ خالِصاً مِنْ كُلِ شَكٍ وَشُبْهَةٍ وَرِياءٍ وَسُمْعَةٍ حَتّى لانعْتَمِدَ بِهِ غَيْرَكَ وَلا نَطْلُبَ بِهِ اِلاّ وَجْهَكَ وَحتّى تُحِلَّناَ مَحِلَّهُ وَتَجْعَلنا فِي الجَنّةِ مَعَهُ وَلَا تَبْتَلِنا فِي أمْرِه بِالسَّأمَةِ وَالكَسَلِ وَالفَتَرةِ وَالفَشَلِ، وَاجْعَلْنا ممَّن تَنْتَصِرُ بِهِ لِدينكَ وَتُعِزُّ بِهِ نَصرَ وَليِّكَ وَلا تَسْتَبْدِلْ بِنا غيْرَنا فَإنَّ اسْتِبْدالَكَ بنا غَيْرَنا عَلَيْكَ يَسير وَهُوَ عَلَيْنا كَبِيرْ اِنَّكَ عَلى كُلِّ شَيء قَدِيرٌ.

اللّهُمَّ وَصَلِّ على وُلاةِ عُهودهِ وبَلِّغْهُم آمالَهُمْ وَزِدْ في آجالِهِمْ وَانْصُرْهُمْ وَتَمِّمْ لَهُ ما اَسْنَدْتَ اِلَيهِمْ مِنْ اَمْرِ دينِكَ وَاجعَلْنا لَهُم اَعْواناً وَعَلى دِينِكَ أنصاراً وَصلِّ عَلى آبائِهِ الطّاهِرِينَ الأئِمَّةِ الرَّاشدِيْنَ.

اللّهُمَّ فَاِنَّهُمْ مَعادِنُ كَلِماتِكَ وَخزّانُ عِلْمِكَ وَوُلاةُ اَمْرِكَ وَخالِصَتُكَ مِنْ عِبادِكَ وَخِيَرتِكَ مِنْ خَلْقِكَ واَوْلِيائِكَ وَسَلائِلِ أوْليائِكَ وَصَفوَتِكَ وَاَولاَدِ اصْفِيَائِكَ صَلَواتُكَ وَرَحمتُكَ وبَركاتُكَ عَلَيْهِمْ اَجْمَعينَ.

۵۸

اللّهُمّ وَشُركاؤُهُ في أَمْرِهِ وَمُعاوِنُوهُ عَلى طاعتِكَ الذينَ جَعَلتَهُمْ حِصْنَهُ وسِلاحَهُ وَمفزَعَهُ واُنسَهُ الذّينَ سَلَوْا عَنِ الأَهْلِ وَالاَوْلاد وتَجافَوا الوَطنَ وَعَطَّلُوا الوَثيرَ مِنَ الْمِهادِ قَدْ رَفَضُوا تِجاراتِهِم وَاَضَرُّوا بِمعايِشِهِمْ وفُقِدُوا في اَندِيَتِهِمْ بغيْرِ غَيبةٍ عَن مِصرِهم وحالَفُوا البَعيدَ مِمَّنْ عاضَدَهُم عَلى اَمْرِهِمْ وَخالَفُوا القَريبَ مِمَنْ صَدَّ عَن وِجْهَتِهِمْ وَائتَلَفْوا بَعْدَ التَّدابُر وَالتقاطُعِ في دَهْرِهِمْ وَقطَعُوا الأسبابَ المُتَّصِلَةِ بِعاجِلِ حُطامٍ مِنَ الدّنيا، فَاجعَلْهُم اللَهُمَّ في حِرْزِكَ وَفي ظِلّ كَنَفِكَ وَرُدَّ عَنْهُمْ بَأسَ مَن قَصَدَ اِلَيْهِمْ بِالْعَداوَةِ مِنْ خَلْفِكَ وَاَجْزِلْ لَهُمْ مِنْ دَعْوَتِكَ مِن كِفايَتِكَ وَمعُونَتِكَ لَهُمْ وَتُايِيدِكَ وَنَصْرِك ايّاهُمْ ما تُعينُهُمْ بِهِ عَلى طاعَتِكَ وَاَزْهِقْ بِحَقّهِمْ باطِلَ مَن أرادَ اِطْفاءَ نوُرِكَ وصلِّ عَلى مُحَمَّدٍ وَآلِهِ وَاملَأْ بِهِمْ كُلَّ أفُقٍ مِنَ الآفاقِ وَقُطرٍ منَ الأقْطارِ قِسْطاً وَعَدْلاً وَرَحْمَةً وَفَضْلاً وَاشْكُرْ لَهُمْ على حَسَبِ كَرَمِكَ وَجُودِكَ وما مَنَنْتَ بِهِ على القائِمينَ بالْقِسْطِ مِنْ عِبادِكَ وادَّخِرْ

لَهُمْ مِنْ ثَوابِكَ ماتَرفَعُ لَهُمْ بِهِ الدَّرَجاتِ اِنَّكَ تَفْعَلُ ما تَشاءُ وتَحْكُمُ ما تُرِيدْ آمِينَ رَبَّ العالَمِين(۱)

____________________

۱:- جمال الاسبوع: ص۵۱۳

۵۹

چوتھی دعا:۔

وہ صلوات پڑھنا کہ جو جمال الاسبوع میں اور بحار الانوار میں وارد ہوئی ہے

اور یہ دعا اور صلوات دونوں پر مشتمل ہے:

اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ سَيِّدِ الْمُرْسَلِينَ وَخَاتَمِ النَّبِيِّينَ وَحُجَّةِ رَبِّ الْعَالَمِينَ ‏الْمُنْتَجَبِ فِي الْمِيثَاقِ الْمُصْطَفَى فِي الظِّلاَلِ الْمُطَهَّرِ مِنْ كُلِّ آفَةٍ الْبَرِي‏ءِ مِنْ كُلِّ عَيْبٍ‏ الْمُؤَمَّلِ لِلنَّجَاةِ الْمُرْتَجَى لِلشَّفَاعَةِ الْمُفَوَّضِ إِلَيْهِ دِينُ اللَّهِ.

‏اللَّهُمَّ شَرِّفْ بُنْيَانَهُ وَعَظِّمْ بُرْهَانَهُ وَأَفْلِجْ حُجَّتَهُ وَارْفَعْ دَرَجَتَهُ‏ وَأَضِئْ نُورَهُ وَبَيِّضْ وَجْهَهُ وَأَعْطِهِ الْفَضْلَ وَالْفَضِيلَةَ وَالْمَنْزِلَةَ وَالْوَسِيلَةَ وَالدَّرَجَةَ الرَّفِيعَةَ وَابْعَثْهُ مَقَاماً مَحْمُوداً يَغْبِطُهُ بِهِ الْأَوَّلُونَ وَالْآخِرُونَ‏.

وَصَلِّ عَلَى أَمِيرِ الْمُؤْمِنِينَ وَوَارِثِ الْمُرْسَلِينَ وَقَائِدِ الْغُرِّ الْمُحَجَّلِينَ وَسَيِّدِ الْوَصِيِّينَ وَحُجَّةِ رَبِّ الْعَالَمِينَ‏.

وَصَلِّ عَلَى الْحَسَنِ بْنِ عَلِيٍّ إِمَامِ الْمُؤْمِنِينَ وَوَارِثِ الْمُرْسَلِينَ وَحُجَّةِ رَبِّ الْعَالَمِينَ.

‏وَصَلِّ عَلَى الْحُسَيْنِ بْنِ عَلِيٍّ إِمَامِ الْمُؤْمِنِينَ وَوَارِثِ الْمُرْسَلِينَ وَحُجَّةِ رَبِّ الْعَالَمِينَ‏.

۶۰

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161