عصرِ غَیبتِ امامؑ میں ہماری ذمہ داریاں

عصرِ  غَیبتِ امامؑ میں  ہماری    ذمہ  داریاں0%

عصرِ  غَیبتِ امامؑ میں  ہماری    ذمہ  داریاں مؤلف:
: عامرحسین شہانی
زمرہ جات: امام مہدی(عجّل اللّہ فرجہ الشریف)
صفحے: 161

عصرِ  غَیبتِ امامؑ میں  ہماری    ذمہ  داریاں

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: الحاج محمد تقی الموسوی الاصفہانی
: عامرحسین شہانی
زمرہ جات: صفحے: 161
مشاہدے: 47638
ڈاؤنلوڈ: 2346

تبصرے:

عصرِ غَیبتِ امامؑ میں ہماری ذمہ داریاں
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 161 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 47638 / ڈاؤنلوڈ: 2346
سائز سائز سائز
عصرِ  غَیبتِ امامؑ میں  ہماری    ذمہ  داریاں

عصرِ غَیبتِ امامؑ میں ہماری ذمہ داریاں

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

کیا ہے۔چاہے مشرکین کو ناگوار ہی کیوں نہ گزرے۔؟ اور اللہ نے جو وعدہ کیا ہے کہ وہ مستضعفین (کمزور کر دیئے گئے) مومنین کو زمین پر خلافت دے گا اور انھیں اپنے اس پسندیدہ دین پر ثابت قدم رکھے گا اورانھیں خوف کے بعدامن سے نوازے گاتاکہ وہ اللہ کی عبادت کریں اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائیں۔تو پھر بھلا یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ خدا کا یہ وعدہ پورا نہ ہو۔؟

تمام مسلمانوں کا اجماع ہے کہ امام مھدی ، اہل بیت میں سے ہیں اور اولاد فاطمہ میں سے ہیں اورامامیہ اور بہت سے اہل سنت علماء کا اس بات پر بھی اجماع ہے کہ وہ امام حسین ؑکی اولاد میں سے ہونگے۔اسی طرح اس بات پر بھی امامیہ اور کچھ اہل سنت علماء کا اجماع ہے کہ وہ امام حسن عسکریؑ کی اولاد میں سے ہونگے۔اسی طرح انہوں نے امامؑ کے اسم مبارک اور ان کی صفات اور کامل شخصیت کو بھی ثابت کیا ہے۔

تمام اہل علم جانتے ہیں کہ امامیہ اور بعض اہل سنت علماء کا عقیدہ ہے کہ امام مھدیؑ پیدا ہوچکے ہیں اور اس وقت زندہ ہیں اور رزق پاتے ہیں لیکن نظروں سے غائب ہیں اور یہ امت اس بات سے کیسے انکار کرتی ہے کہ اللہ تعالی کچھ وقت کے لیے اپنی حجت کو چھپا لے؟ اور امت اس بات سے کیسےانکاری ہو سکتی ہے کہ اللہ اپنی حجت کو وہی شان دے جو اس نے حضرت یوسف کو دی کہ وہ ان کے بازاروں میں چلتے بھی ہوں ،ان کے درمیان رہتے بھی ہوں لیکن لوگ انہیں

۲۱

پہچانتے بھی نہ ہوں یہاں تک کہ اللہ تعالی اپنے اذن سے انہیں امام کی پہچان اسی طرح کرادے جس طرح اس نے یوسفؑ کے لیے اذن دیا تھا۔

قَالُوْا ءَ اِنَّكَ لَاَنْتَ يُوْسُفُ قَالَ اَنَا يُوْسُفُ وَهذَا اَخِيْ (۱)

ترجمہ: وہ کہنے لگے : کیا واقعی آپ یوسف ہیں ؟ کہا: میں یوسف ہوں اور یہ میرا بھائی ہے،

کیا رسولﷺ اپنی امت میں دو گراں قدر چیزیں کتاب خدا اوراپنی عترت چھوڑ کر نہیں گئے؟

کیا نبی ﷺنے یہ نہیں فرمایا کہ یہ دونوں کبھی جدا نہ ہونگے یہاں تک کہ حوض کوثر پر میرے پاس پہنچ جائیں ؟

کیا رسول ﷺ نے یہ نہیں بتایا تھا کہ میرے بعد بارہ خلیفہ ہوں گے جو سب کے سب قریش سے ہوں گے؟

کیا یہ نہیں بتایا کہ ان کے خلفاء کی تعداد حضرت موسی ؑ کے نقیبوں کی تعداد کے برابر ہوگی؟ اور جب اللہ تعالی نے انسانی اعضاء کو بھی یونہی خالی نہیں چھوڑا اور قلب کو ان کا امام مقرر کیا تاکہ وہ جن امور میں شک کریں انھیں اس

____________________

۱:- سورۃ یوسف :۰۹ اور استدلال یہاں سے لیا:الکافی ج۱ ص۳۳۷

۲۲

قلب کی طرف پلٹا کر یقین حاصل کریں اور شک کو باطل کریں۔تو پھریہ کیسے ہوسکتا ہے کہ وہ اللہ تعالی اس پوری مخلوق کو حیرت وسرگردانی اور شکوک و شبہات و اختلافات کی حالت میں تنہا چھوڑ دے اور ان کے لیے کوئی ایسا امام مقرر نہ کرے کہ جس کی طرف اپنے شکوک کو پلٹا کر دور کر سکیں ؟(۱)

اور اس کا یہ قول حق ہے کہ:

فَإِنَّهَا لَا تَعْمَى الْأَبْصَارُ وَلَٰكِن تَعْمَى الْقُلُوبُ الَّتِي فِي الصُّدُورِ

” حقیقتاً آنکھیں اندھی نہیں ہوتیں بلکہ وہ دل اندھے ہو جاتے ہیں جو سینوں میں ہوتے ہیں۔ “(۲)

اور اس بات میں کوئی شک نہیں کہ امام مہدی عجل اللہ فرجہ الشریف کے بارے میں شیعہ عقیدہ جوکہ مضبوط عقلی و نقلی دلائل پر قائم ہے، اس عقیدے کو ان لوگوں کے عقیدے پر بہت بڑی ترجیح حاصل ہے جو کہتےہیں کہ امام مہدیؑ ابھی تک پیدا ہی نہیں ہوئے۔

____________________

۱:- مومن طاق کا عمرو بن عبید کے ساتھ مناظرہ۔ کمال الدین ج۱ ص۲۰۷ ح۲۳

۲:- سورۃالحج:۴۶

۲۳

ہر صاحب عقل اس کا اقرار کر ے گا جبکہ صادق و مصدق نبیؐ کا یہ قول بھی گواہ ہے :

مَنْ ماتَ وَ لَمْ يَعْرِفْ إمامَ زَمانِهِ مَاتَ مِيتَةً جَاهِلِيَّة

"جو بھی اپنے زمانے کے امام کی معرفت کے بغیر مر گیا وہ جاہلیت کی موت مرا ہے۔"(۱)

اس بات کی طرف خصوصی توجہ رہے کہ ایک زندہ امام کی موجودگی کااحساس عقیدہ مذہب کو ایسی بے نیازی اور حیات جاوداں عطا کرتا ہے کہ جو صاحبان عقل و بصیرت سے مخفی نہیں ہے۔(۲)

____________________

۱:- ایک مشہور حدیث ہے کہ جسے طرفین کے علماء نے اپنی احادیث کی بڑی کتابوں میں مختلف تعبیرات کے ساتھ نقل کیا ہےکہ جن کا مضمون ایک ہی ہے۔بطور مثال:مسند احمدج۳ ص۴۴۷ و ج۴ ص۹۶، المعجم الکبیر للطبرانی ج۱۲ ص۳۳۷ اور ج۱۹ ص۳۳۵ اور ج۲۰ ص۸۶، طبقات ابن سعد ج۵ ص۱۴۴، مصنف ابن ابی شیبہ ج۸ ص۵۹۸ ح۴۲۔اسی طرح تفاسیرمیں آیۃ یوم ندعوا کل اناس بامامھم کی تفسیر دیکھیے۔فردوس دیلمی ج۵ ص۵۲۸ ح۸۹۸۲

۲:- دیکھیے مستشرق فرانسی فیلسوف ھنری کاربون کے علامہ طباطبائی کے ساتھ مباحث کتاب الشمس الساطعہ میں

۲۴

اس بات میں کوئی شک نہیں کہ ایک مومن کو جب یہ احساس ہو کہ اس کا امام اس کے ساتھ ہے اور جس طرح میں دیکھتا ہوں وہ بھی دیکھ رہے ہیں اور جس طرح میں ان کے جلدی ظہور کا انتظارکر رہا ہوں وہ بھی کر رہے ہیں تویہ احساس اسے ثبات قدم اور دوگنی طاقت عطا کرتا ہے۔ اور وہ اس کے ذریعے بہت زیادہ کوشش اور سخت مشقت سے کام لیتے ہوئے اپنا تزکیہ نفس کرتا ہےاور اپنے نفس کو صبر سے کام لینے اور امام سے گہرا تعلق قائم کرنے پر آمادہ کرتاہے تاکہ اس کاشمار بھی ظہور مھدیؑ کے حقیقی منتظرین میں سے قرار پائے اور وہ یہ بھی جانتا ہے کہ اگر امامؑ کے شیعوں کے دل اپنے امامؑ سے کئے گئے عہد کو پورا کرنے کے لیے جمع ہوجائیں تو ملاقات ِامامؑ کی برکت سے محروم نہیں رہیں گے اور وہ یہ بھی جانتا ہے کہ امامؑ سے ہماری ملاقات میں رکاوٹ ہمارے اپنے وہ اعمال ہیں کہ جو امامؑ کو ناپسند ہیں۔(۱)

کوئی اس بات میں شک نہ کرے کہ امامؑ غائب (جوکہ صرف نام کی حد تک غائب ہیں ورنہ حقیقت میں تو حاضر ہیں) کی طرف سےاپنے شیعوں کے لیے ثبات قدم اور ان کے مذہب کی حفاظت کی ذمہ داری ادا کی جارہی ہے۔جیسا کہ کوئی اس بات میں شک نہیں کرتا کہ سورج اگر بادلوں کی اوٹ میں بھی چلا جائے تب بھی اس کی ضرورت و اہمیت باقی رہتی ہےاور اس کا فائدہ پہنچتا رہتا ہے ایسا

____________________

۱:- دیکھیے احتجاج طبرسی ج۲ ص۳۲۵، بحارالانوار ج۵۳ ص۱۷۷

۲۵

کیسے نہ ہو اس لیے کہ اگر امام ؑ کی خصوصی توجہ اور دعا نہ ہوتی تو دشمن ان کے شیعوں کو ختم کرچکے ہوتے۔ لہذا شیعوں میں سے کوئی اس بات میں شک نہیں کرتا کہ ان کا امامؑ اہل زمین کے لیے امان ہیں ایسے ہی جیسے ستارے آسمان والوں کے لیے امان ہیں۔(۱)

آئمہ معصومینؑ سے مروی کثیر روایات میں شیعوں کا اپنے امامؑ سے ربط و تعلق بیان کیا گیا ہے۔بعض روایات کے مطابق آپؑ ایام حج میں تشریف لاتے ہیں اور لوگوں کو دیکھتے اور پہچانتے ہیں جبکہ لوگ بھی آپؑ کو دیکھتے تو ہیں لیکن پہچانتے نہیں۔(۲)

امام ؑکی بابت یہ بھی مروی ہے کہ امامؑ مومنین کی محفلوں وغیرہ میں جاتے ہیں اور ان کے درمیان چلتےپھرتے ہیں۔(۳)

اسی طرح بہت سی روایات انتظارکی فضیلت اور ظہور فرج کے لیے کثرت دعا کی فضیلت میں وارد ہوئی ہیں بے شک اسی میں شیعوں کے لیے کشائش ہے۔

____________________

۱:- نبیؐ نے فرمایا:ستارے آسمان والوں کے لیے امان ہیں اور میرے اہل بیتؑ زمین والوں کے لیے امان ہیں۔ علل الشرئع ج۱ ص۱۲۳، کمال الدین ج۱ ص۲۰۵ ح۱۷-۱۹

۲:- وسائل الشیعہ ج۱۱ ص۱۳۵،بحارالانوار ج۵۲ ص۱۵۲

۳:- الکافی للکلینی ج۱ ص۳۳۷ ح۴

۲۶

مرکزالدراسات التخصصۃ فی امام المہدیؑ نے امامؑ سے مربوط مختلف پروگرامز پہ کام کرنے کا مشن اٹھا رکھا ہے۔چاہے وہ طباعت و نشر کتب سے متعلق ہوں یا امامؑ کے بارے میں علمی مجالس و محافل کا انعقاد کرنا اور انھیں کتابی صورت میں شائع کرنا اور نیٹ پہ پھیلانا وغیرہ۔یہ مرکز امام مہدیؑ کےبارے میں مختلف کتابیں نشر کرتا رہتا ہے تاکہ عقیدہ مہدویت کو پروان چڑھائیں اور مکتب تشیع کی سر بلندی کا باعث بنیں۔ خدا سے دعا ہے کہ وہ ہمیں قوت دے اورہماری کوششوں میں برکت ڈالے اور اس کے لیے اپنا عمل خالص کرنے کی توفیق دے۔الحمد للہ رب العالمین۔

یہ کتاب الحاج محمد تقی موسوی الاصفہانی کی تالیف ہے۔اس کتاب کی تحقیق و ترتیب میں ہم نے سید البطحاء کے مدرسہ امام مہدیؑ پر اعتماد کیا اور بعض جگہوں پر ضرورت کے مطابق اضافات بھی شامل کیے ہیں۔اور اللہ ہی سے توفیق کے طالب ہیں۔

السید محمد القبانجی

مرکزالدراسات التخصصۃ

فی امام مھدی

نجف اشرف

۲۷

پہلا حصہ

۲۸

مقدمہ مصنف

الحمد لله رب العالمين، والصلاة والسلام على خاتم المرسلين وآله المعصومين، ولاسيما إمام زماننا خاتم الوصيّين، ولعنة الله على أعدائهم أجمعين أبد الآبدين.

أما بعد، فيقول غريق الآمال والأماني (محمد تقي بن عبد الرزاق الموسوي الاصفهاني) _ عفى الله عنهما _ لإخوانه في الإيمان:

لقد جمعت في هذا الكتاب المختصر جملة من الأعمال بعنوانها وظيفة المؤمنين في زمان غيبة صاحب الزمان صلوات الله عليه أي حضرة الحجة ابن الحسن بن علي بن محمد بن علي بن موسى بن جعفر بن محمد بن علي بن الحسين بن علي بن أبي طالب عليهم السلام.

وهي أربع وخمسون أمراً يليق بالمؤمنين المواظبة عليها والعمل بها.وسمّيته بـوظيفة الأنام في زمن غيبة الإمام

ومن الله التوفيق.

امیدوں اور آرزؤں میں ڈوبا ہوا (محمد تقی بن عبد الرزاق بن محمد بن موسی الاصفہانیٰ) اپنے مومن بھائیوں سے کہتا ہے:

۲۹

"میں نے صاحب الزمان حضرت حجۃ ابن الحسن بن علی بن محمد بن علی بن موسی بن جعفر بن محمد بن علی بن حسین بن علی ابن ابی طالب علیھم السلام کے زمانہ غیبت میں مومنین کی ذمہ داریوں کے عنوان سے اس مختصر کتاب میں کچھ اعمال جمع کئے ہیں۔ یہ کل چون (۵۴)اعمال پر مشتمل ہیں۔مومنین کو چاہیے کہ انہیں پابندی سے انجام دیتے رہیں۔

میں نے اس کتاب کا نا م "وظیفۃ الانام فی عصر غیبۃ الامام" (عصرِ غیبتِ امامؑ میں ہماری ذمہ داریاں ) رکھا ہے اور میں اللہ ہی سے توفیق طلب کرتا ہوں۔

۳۰

عصرِ غَیبتِ امامؑ میں ہماری ذمہ داریاں

۳۱
۳۲

۱۔ پہلا عمل:۔

امام کی جدائی اور مظلومیت پر غمگین ہونا:۔

جیسا کہ الکافی میں امام جعفر صادق علیہ السلام سے مروی ہے:

نَفَسُ اَلْمَهْمُومِ لَنَا اَلْمُغْتَمِّ لِظُلْمِنَا تَسْبِيحٌ

"ہماری مظلومیت پر غمگین شخص کا سانس لینا تسبیح شمار ہوتا ہے۔"(۱)

۲ ۔ دوسرا عمل:۔

انتظار ظہور:۔

کتاب کمال الدین میں حضرت امام محمد تقی علیہ السلام سے مروی ہے:

إِنَّ اَلْقَائِمَ مِنَّا هُوَ اَلْمَهْدِيُّ اَلَّذِي يَجِبُ أَنْ يُنْتَظَرَ فِي غَيْبَتِهِ وَ يُطَاعَ فِي ظُهُورِهِ وَ هُوَ اَلثَّالِثُ مِنْ وُلْدِي ۔۔۔

"بے شک قائم ہم میں سے ہیں اور وہ مہدیؑ ہیں کہ جن کی غیبت کے دوران ان کا انتظارکرنا اور ظہور کے بعد ان کی اطاعت کرنا واجب ہے اور وہ میری اولاد میں سے تیسرے ہیں۔۔۔"(۲)

____________________

۱:- الکافی ج۲ ص۲۲۶ ح۱۶

۲:- کمال الدین ج۲ ص۳۳۷ ح۱ بحوالہ بحارالانوار ج۵۱ ص۱۵۷ ح۱

۳۳

اسی طرح امیرالمومنین امام علی علیہ السلام سے مروی ہے:

أَفْضَلُ اَلْعِبَادِةِ اَلصَّبْرُ وَ اِنْتِظَارُ اَلْفَرَجِ

"صبر کرنا اور ظہور کا انتظار کرنا افضل عبادت ہے۔"(۱)

ایک اور حدیث میں حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے مروی ہے:

مَنْ مَاتَ مِنْكُمْ وَ هُوَ مُنْتَظِرٌ لِهَذَا اَلْأَمْرِ كَمَنْ هُوَ مَعَ اَلْقَائِمِ فِي فُسْطَاطِهِ

"تم میں سے جو شخص اس حال میں مرے کہ وہ ظہور مہدی ؑ کا منتظر ہو تو وہ ایسے ہی ہے جیسے قائم کے ساتھ ان کے خیمہ میں ہو۔"(۲)

میں نے اس موضوع کو تفصیل کےساتھ کتاب مکیال المکارم میں ذکر کیا ہے۔(۳)

۳۔ تیسراعمل:۔

امام ؑ کی جدائی اور مصیبت میں گریہ کرنا:

کتاب کمال الدین میں حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے مروی ہے:

____________________

۱:- تحف العقول ص۲۰۱

۲:- بحار الانوار ج۵۲ ص۱۲۷ ح۱۸

۳:- مکیال المکارم ج۲ ص۱۴۱

۳۴

وَ اَللَّهِ لَيَغِيبَنَّ إِمَامُكُمْ سِنِيناً مِنْ دَهْرِكُمْ وَ لَتُمَحَّصُنَّ حَتَّى يُقَالَ مَاتَ قُتِلَ او هَلَكَ بِأَيِّ وَادٍ سَلَكَ وَ لَتَدْمَعَنَّ عَلَيْهِ عُيُونُ اَلْمُؤْمِنِينَ

"خدا کی قسم تمہارا امام کئی سال تک غائب رہے گا۔یہاں تک کہ کہا جائے گا کہ کیا وہ مر گیا یا ہلاک ہوگیا ؟ یا پھر کس وادی میں چلاگیا ہے۔ اور یقینا مومنین کی آنکھیں ان پر آنسو بہائیں گی۔"(۱)

اور حضرت امام علی رضا علیہ السلام سے مروی ہے کہ فرمایا:

مَنْ تَذَكَّرَ مُصَابَنَاوَ بَكَى لِمَااُرْتُكِبَ مِنَّا كَانَ مَعَنَا فِي دَرَجَتِنَا يَوْمَ اَلْقِيَامَةِ

"جو ہمارے مصائب یاد کرے اورہم پر ہونے والے مظالم یاد کرکے گریہ کرے تو بروز قیامت ہمارے ساتھ بلند درجہ پر ہوگا۔"(۲)

۴ ۔ چوتھا عمل:۔

سر تسلیم خم کرنا اور ظہورکی باتوں میں عجلت سے پرہیز کرنا:

یعنی ظہور امام مہدی عجل اللہ فرجہ الشریف کے معاملے میں اس طرح کی باتیں نہ کرنا کہ (ظہور کیوں نہیں ہورہا؟ آخرکس لیے؟) بلکہ جوکچھ ان کی

____________________

۱:- کمال الدین ج۲ ص۳۴۷ ح۳۵

۲:- امالی الصدوق المجلس ۱۸ ح۴ بحوالہ بحارالانوار ج۴۴ ص۲۷۸ ح۱

۳۵

طرف سے پہنچا ہے اس پر سر تسلیم خم کرے اور اسے حکمت کے عین مطابق سمجھے۔

کتاب کمال الدین میں حضرت امام محمد تقی علیہ السلام سے مروی ہے :

"میرے بعد میرا بیٹا علیؑ (نقی)امام ہے۔ان کا حکم میرا حکم اور ان کا قول میرا قول ہے۔اوران کی اطاعت میری اطاعت ہے اور ان کے بعد ان کا بیٹا حسن ؑ(عسکری) امام ہے۔ان کا حکم ان کے باپ کا حکم اور ان کا قول ان کے باپ کا قول ہےاور ان کی اطاعت ان کے باپ کی اطاعت ہے۔"

پھر امام خاموش ہوگئے ۔

راوی کہتا ہے میں نے پوچھا :"اے فرزند رسولؐ پھر حسنؑ (عسکری)کے بعد کون امام ؑ ہونگے؟ "تو امام ؑ نے شدید گریہ کرنے کے بعد فرمایا:

"بےشک حسنؑ (عسکری) کے بعدان کا بیٹا جوکہ حق کوقائم کرنے والا ہے ، ان کا انتظار کیا جائے گا۔ میں نے پوچھا انھیں قائم کیوں کہتے ہیں؟ تو فرمایا کیونکہ وہ اس وقت قیام کریں گے جب ان کا ذکر مٹ چکا ہوگا اور ان کی امامت کا اقرار کرنے والوں میں سے اکثر مرتد ہوجائیں گے۔اور پھر میں نے پوچھا انہیں منتظر کیوں کہتے ہیں ؟ فرمایا: کیونکہ ان کے لیے ایسی غیبت ہوگی کہ جس کے دن کثیر اور مدت طویل ہوگی۔پس مخلص لوگ ان کے ظہور کا انتظار کریں گے اور شک میں پڑنے والے انکار کریں گےاور منکرین ان کے ذکر کا مذاق اڑائیں گے اور وقت معین کرنے والے ان کی غیبت کو جھٹلائیں گے۔اور ظہور میں عجلت کے

۳۶

طلبگار اس غیبت میں ہلاک ہوجائیں گے اور سرتسلیم خم کرنے والے زمانہ غیبت میں نجات پائیں گے۔"(۱)

۵ ۔ پانچواں عمل:۔

امامؑ کی طرف اپنے اموال ہدیہ کرنا:

جیسا کہ کتاب الکافی میں حضرت امام جعفر صادق ؑ سے مروی ہے کہ فرمایا:

"کوئی چیز اللہ کو اس درہم سے زیادہ پسند نہیں جو امام کی طرف بھیجا جائے اوراللہ اس کے لیے جنت میں احد کی پہاڑی کے برابر وہ درہم قرار دے گا۔پھر فرمایا اللہ اپنی کتاب میں فرماتا ہے :

مَنْ ذَا الَّذِي يُقْرِضُ اللَّهَ قَرْضًا حَسَنًا فَيُضَاعِفَهُ لَهُ أَضْعَافًا كَثِيرَةً (۲)

کوئی ہے جو اللہ کو قرض حسنہ دے تاکہ اللہ اسے کئی گنا زیادہ دے؟

قَالَ هُوَ وَ اَللَّهِ فِي صِلَةِ اَلْإِمَامِ خَاصَّةً

____________________

۱:- کمال الدین ج۲ ص۳۷۸، کفایۃ الاثر ص۲۷۹، بحارالانوار ج۵۱ ص ۱۵۷ ح۵۲

۲:- سورۃ البقرۃ :۲۴۵

۳۷

فرمایا: خداکی قسم یہ اجر امام کی طرف بھیجے گئے مال کے ساتھ خاص ہے۔"(۱)

بہر کیف اب جبکہ ہمارےامام ؑ غائب ہیں تو مومن کو چاہیے کہ وہ جو مال امام کو ہدیہ کرنا چاہتا ہے اسے ان کاموں میں استعمال کرے جن میں امام ؑ کی رضا ہو۔جیسے وہ امام ؑ کے سچے محبت کرنے والے صالح لوگوں پر خرچ کرے۔

جیساکہ بحارالانوار میں کامل الزیارات کے حوالے سے مروی ہے کہ حضرت امام موسی کاظم علیہ السلام نے فرمایا:

مَنْ لَمْ يَقْدِرْ أَنْ يَزُورَنَا فَلْيَزُرْ صَالِحِي [مَوَالِينَا، يُكْتَبْ لَهُ ثَوَابُ زِيَارَتِنَا، وَ مَنْ لَمْ يَقْدِرْ عَلَى صِلَتِنَا فَلْيَصِلْ صَالِحِي] مَوَالِينَا ، يُكْتَبْ لَهُ ثَوَابُ صِلَتِنَا

فرمایا :

" جو ہماری زیارت پر قادر نہیں وہ ہمارے صالح محبین کی زیارت کرے تو اس کے لیے ہماری زیارت کا ثواب لکھا جائے گا اور جو ہمیں ہدیہ دینے پرقادر نہیں و ہ ہمارےصالح محبین کو ہدیہ عطا کرے تو اس کے لیے ہمیں ہدیہ پہنچانے کا ثواب لکھا جائے گا۔"(۲)

____________________

۱:- الکافی ج۱ ص۴۵۱ ح۲

۲:- بحارالانوار ج۱۰۲ ص۲۹۰ ح۱، کامل الزیارات ص۳۱۹

۳۸

۶ ۔ چھٹا عمل:۔

سلامتی امام ؑ کے لیے صدقہ دینا:

اس حوالے سے کتاب النجم الثاقب میں تفصیل سے ذکر کیا گیا ہے۔(۱)

۷ ۔ ساتواں عمل:۔

صفات امام ؑکی معرفت حاصل کرنا :

ہر حال میں ان کی نصرت کا پختہ ارادہ رکھنا اور ان کی جدائی میں گریہ کناں اور غمگین رہنا۔ یہ بھی کتاب النجم الثاقب میں تفصیل سے مذکور ہے۔(۲)

۸ ۔ آٹھواں عمل:۔

اللہ تعالی سے معرفت امام ؑ طلب کرنا:

معرفت امام کے حصول کے لیے الکافی اور کتاب کمال الدین میں حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے مروی یہ دعا پڑھی جائے:

اَللَّهُمَّ عَرِّفْنِي نَفْسَكَ فَإِنَّكَ إِنْ لَمْ تُعَرِّفْنِي نَفْسَكَ لَمْ أَعْرِفْ نَبِيَّكَ اَللَّهُمَّ عَرِّفْنِي رَسُولَكَ فَإِنَّكَ إِنْ لَمْ تُعَرِّفْنِي رَسُولَكَ لَمْ

____________________

۱:- النجم الثاقب ص۴۴۲

۲:- النجم الثاقب ص۴۲۴

۳۹

أَعْرِفْ حُجَّتَكَ اَللَّهُمَّ عَرِّفْنِي حُجَّتَكَ فَإِنَّكَ إِنْ لَمْ تُعَرِّفْنِي حُجَّتَكَ ضَلَلْتُ عَنْ دِينِي (۱)

ترجمہ:

"اے اللہ مجھے اپنی معرفت عطا فرما بے شک اگر تو نے مجھے اپنی معرفت عطا نہ فرمائی تو میں تیرے نبی کی معرفت حاصل نہیں کر پاؤں گااوراے ا للہ مجھے اپنے نبی کی معرفت عطا فرما بے شک اگر تو نے مجھے اپنے نبی کی معرفت عطا نہ فرمائی تو میں تیری حجت کی معرفت سے محروم رہوں گا۔ اور اے اللہ مجھے اپنی حجت کی معرفت عطا فرما بے شک اگر تو نے مجھے اپنی حجت کی معرفت عطا نہ فرمائی تو میں اپنے دین سے گمراہ ہو جاؤں گا۔"

۹ ۔ نواں عمل:۔

حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام سے مروی ہے اس دعا کو باقائدہ پڑھا جائے۔

جیسا کہ کتاب کمال الدین میں بھی موجود ہے۔وہ دعا یہ ہے:

"يَا اَللَّهُ يَا رَحْمَنُ يَا رَحِيمُ يَا مُقَلِّبَ اَلْقُلُوبِ ثَبِّتْ قَلْبِي عَلَى دِينِكَ " (۲)

____________________

۱:- الکافی ۱/۲۷۲ ح۵،کمال الدین ۲/۴۴۲ ح۲۴،بحارالانوار۵۲/۱۴۶ ح۷۰

۲:- کمال الدین ۲/۳۵۲ ح۴۹

۴۰