عصرِ غَیبتِ امامؑ میں ہماری ذمہ داریاں

عصرِ  غَیبتِ امامؑ میں  ہماری    ذمہ  داریاں44%

عصرِ  غَیبتِ امامؑ میں  ہماری    ذمہ  داریاں مؤلف:
: عامرحسین شہانی
زمرہ جات: امام مہدی(عجّل اللّہ فرجہ الشریف)
صفحے: 161

عصرِ غَیبتِ امامؑ میں ہماری ذمہ داریاں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 161 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 51885 / ڈاؤنلوڈ: 2746
سائز سائز سائز
عصرِ  غَیبتِ امامؑ میں  ہماری    ذمہ  داریاں

عصرِ غَیبتِ امامؑ میں ہماری ذمہ داریاں

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے


1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

فقال لا هله إمكثوا ...لعلى ء اتيكم منها بقبس

۸ _ آگ كا ظاہر ہونا اور حضرت موسى (ع) كو رسالت عطا كرنے كيلئے خلوت كا فراہم ہونا ايك اہم اور پيغمبر اكرم(ص) كيلئے قابل توجہ واقعہ تھا _هل ا تى ك حديث موسى إذ رء ا نارا

''إذ'' ظرف ہے ''حديث'' كيلئے جو سابقہ آيت ميں تھا اور اس آيت كريمہ ميں استفہام پيغمبر اكرم(ص) كو اس ماجرا كى طرف توجہ كى ترغيب دلانے كيلئے ہے_

۹ _ فطرى اور قدرتى امور انبياء كو رسالت عطا كرنے كے بارے ميں خداتعالى كے ارادے كے عملى ہونے كيلئے تجلى گاہ ہيں _

قدرتى مقدمات ( راستہ گم كردينا ، آگ كى ضرورت كا احساس اور ...) فراہم كركے حضرت موسى كو كوہ طور پر كھينچ لانا _ جيسا كہ بعد والى آيات سے معلوم ہوتاہے مذكورہ نكتے كو بيان كررہاہے)إذ رء اناراً لعلى ء اتيكم منها بقبس

انبياء:انكى نبوت كا سرچشمہ ۹

گھرانہ:اسكى ضروريات پورى كرنا ۷

خداتعالى :اسكے ارادے كى تجلى گاہ ۹

عمل:پسنديدہ عمل ۷

قدرتى عوامل:انكا كردار ۹

كوہ طور:اسكى آگ ۳، ۴، ۵، ۶_اسكى آگ كى اہميت ۸

محمد(ص) :آپ(ص) اور حضرت موسى كا قصہ ۸

موسى (ع) :انكے قصے كى اہميت ۸; انكى بشارتيں ۳; انكے گھر والے ۴، ۶; انكے گھروالوں كى سرگردانى ۱; انكى سرگردانى ۱ ، ۳; انكا قصہ ۱، ۲، ۳، ۴، ۵; انكے گھروالوں كا رات كا سفر ۱; ۱نكا رات كا سفر۱; آپ وادى طوى ميں ۳، ۴; آپ كوہ طور ميں ۵; آپكے ہم سفر ۳،۴

۲۱

آیت ۱۱

( فَلَمَّا أَتَاهَا نُودِي يَا مُوسَى )

پھر جب موسى اس آگ كے قريب آئے تو آواز دى گئي كہ اے موسى (۱۱)

۱ _ حضرت موسى (ع) نے آگ ديكھنے كے بعد اپنے گھر والوں سے جدا ہوكر آگ كى طرف حركت كى _

رء ا نار اً فلما ا تيه

۲ _ جس آگ كا حضرت موسى نے مشاہدہ كيا تھا وہ واقعى چيز تھى اور حضرت موسى نے اپنے آپ كو اس تك پنہچايا _

فلما ا تيه

۳ _ حضرت موسى (ع) جب آگ كے قريب پہنچے تو آپ نے ايك آواز سنى كہ جس ميں حضرت موسى (ع) كو نام كے ساتھ پكارا جارہا تھا_فلما اتيها نودى يا موسى

۴ _ ''يا موسى ''كى صدا اچانك تھى اور جو نہى حضرت موسى (ع) وہاں پہنچے فوراً انہيں اسكے ساتھ مخاطب كيا گيا_

فلما ا تيها نودى يا موسى

۵ _ حضرت موسى (ع) نے ''يا موسى '' كى آواز دينے والے كو نہ پہچانا _نودى يا موسى

''نودي''كا مجہول آنا اور بعد والى آيت ميں جملہ ''فإنى ا نا ربك'' بتاتا ہے كہ حضرت موسى نے آواز سننے كے بعد پہلے مرحلے ميں اس آواز دينے والے كو نہ پہچانا _

كوہ طور:اسكى آگ ۱; اسكى آگ كى حقيقت ۲

موسى (ع) :انكا قصہ ۱، ۲، ۳، ۴، ۵; انكو ندادينے والا ۵; آپ كوہ طور ميں ۲، ۳، ۴; آپ كو ندا ۳، ۴

۲۲

آیت ۱۲

( إِنِّي أَنَا رَبُّكَ فَاخْلَعْ نَعْلَيْكَ إِنَّكَ بِالْوَادِ الْمُقَدَّسِ طُوًى )

ميں تمھارا پروردگار ہوں لہذا اپنى جوتيوں كو اتار دو كہ تم طوى نام كى ايك مقدس اور پاكيزہ وادى ميں ہو (۱۲)

۱ _ صحرائے سينا ميں واقع وادى طوى ميں خداتعالى نے حضرت موسى (ع) كے ساتھ بات كى _

ى موسى إنى ا نا ربك إنك بالواد المقدس طويً

''واد'' وادى كا مخفف ہے يعنى پہاڑوں كے درميان كى وہ جگہ كہ جہاں سے سيلاب گزرتا ہے ( مصباح) ''طوي'' ممكن ہے كوہ طور كے نيچے والے درے كا نام ہو ( لسان العرب) اس صورت ميں يہ ( الواد المقدس) كيلئے عطف بيان يا بدل ہوگا اور ممكن ہے يہ گھڑى اور لخطے كے معنى ميں ہو(لسان العرب) تو اس صورت ميں يہ ظرف ہوگا '' المقدس'' كيلئے يعنى وہ درّہ كہ جو كچھ وقت (اشارہ ہے خداتعالى كے حضرت موسى كے ساتھ ہم كلام ہونے كے لحظے كى طرف)كيلئے مقدس ہوگيا ہے _

۲ _ خداتعالى نے موسى كے ساتھ مخاطب ہوتے ہوئے انہيں اپنا تعارف كرايا او رسمجھايا كہ تو اپنے پروردگار كے حضور ميں ہے اوراسكى كلام سن رہا ہے _ياموسى إنى ا ناربك

۳ _ وادى طوى ميں خداتعالى كا موسى (ع) كے ساتھ ہم كلام ہونا خداتعالى كى حضرت موسى (ع) كى نسبت ربوبيت كا ايك جلوہ تھا _ياموسى إنى ا نا ربك

۴ _ خداتعالى نے موسى (ع) كو حكم ديا كہ اپنے پروردگار كے حضور كے احترام ميں اپنے جوتے اتاركر مقدس وادى ميں ننگے پاؤں قدم ركھے _فاخلع نعليك انك بالواد المقدس طويً

۵ _ پروردگار كے حضور ميں اور اسكے كلام كو سنتے وقت ادب و احترام كا خيال ركھنا ضرورى ہے _

إنى ا نا ربك فاخلع نعليك

''فاخلع'' كى ''إنى ا ناربك'' پر تفريع بتاتى ہے كہ خداتعالى كے ساتھ بات كرتے وقت مكمل طور پر ادب كا خيال ركھنا ضرورى ہے_ اور چونكہ جب بھى خداتعالى انسان كے ساتھ بات كرتا ہے اس ميں كوئي نہ كوئي واسطہ ہوتا ہے اسلئے كہا جاسكتا ہے كہ قرآن اور ديگر كلمات الہى كى تلاوت كے وقت بھى ادب كى مكمل طور پر رعايت كرنا ضرورى ہے_مقدس مقامات كى حرمت كى حفاظت اور ان كا احترام كرنا ضرورى ہے،جملہ''انك بالواد ...'' ''فاخلع''كى علت بيان كرنے كيلئے ہے اور جس حكم كى علت واضح ہو اسے اس جيسے ديگر موارد ميں بھى اجرا كرنا ضرورى ہوتا ہے_

۲۳

۶ _مقدس مقامات كى حفاظت اور ان كا احترام كرنا ضرورى ہے_فاخلع نعليك إنك بالواد المقدس طويً

جملہ''إنك بالواد ...''،''فاخلع''كے لئے علت ہے اور پروہ حكم كہ جس كى علت ظاہر ہو دوسرے مشابہ مقامات پربھى لگايا جاتا ہے_

۷ _ جوتے اتاركر پابرہنہ ہوجانا مقدس مقامات كے احترام كاسب سے زيادہ واضح نمونہ ہے _فاخلع نعليكإنك بالواد المقدس طويً

۸ _ كوہ طور كے پاس واقع وادى طوى پاك و پاكيزہ اور لائق احترام سرزمين ہے _إنك بالواد المقدس طويً سرزمين مقدس يعنى وہ سرزمين جو طہارت معنوى ركھتى ہو (مفردات راغب)

۹ _ (كوہ طور سے نيچے ) سرزمين طوى ميں جوتوں كے ساتھ داخل ہونا، جائز نہيں ہے _فاخلع نعليكإنك بالواد المقدس طويً ''اخلع'' كے حكم كى''إنك بالواد المقدس'' كے ذريعے علت بيان كرنا بتاتا ہے كہ يہ حكم سب زمانوں ميں سب انسانوں كيلئے ہے_

۱۰ _ جن مقامات ميں خداتعالى اپنے انبياء اور اپنے بندوں كے ساتھ ہم كلام ہوتا ہے وہ پاك و پاكيزہ مقدس اور لائق احترام جگہيں ہيں _ياموسى إنيّ ا ناربك إنك بالواد المقدس طويً اگر چہ آيت كريمہ ميں وادى طوى كے تقدس كى دليل نہيں آئي ليكن مجموعى طور پر آيت كريمہ خداتعالى كے تكلم اور اس سرزمين كے تقدس كے ارتباط كو بيان كررہى ہے _ چا ہے پہلے سے اس كا مقدس ہونا بات كرنے كيلئے اس كے انتخاب كا سبب بنا ہو يا خداتعالى كا بات كرنا اسكے مقدس ہونے كا سبب بنا ہو _

۱۱ _''عن ا بى عبدالله (ع) قال: قال الله عزوجل لموسى (ع) '' فاخلع نعليك'' لا نّها كانت من جلد حمار ميت ; امام صادق(ع) سے روايت ہے كہ خداتعالى نے موسى (ع) كو فرمايا ''فاخلع نعليك'' كيونكہ انكے جوتے گدھے كے مردار كى كھال كے بنے ہوئے تھے_(۱)

____________________

۱ ) علل الشرائع ص ۶۶ ب ۵۵ ح ۱، بحارالانوار ج ۱۳ ص ۶۴ ح ۱ _

۲۴

۱۲ _'' عن الصادق جعفر بن محمد (ع) إنّه قال: فى قول الله عزوجل لموسي(ع) ''فاخلع نعليك'' قال: يعنى إدفع خوفيك، يعنى خوفه من ضياع ا هله و قد خلفها تمخض،و خوفه من فرعون'' خداتعالى نے حضرت موسى كو جو فرمايا تھا ''فاخلع نعليك'' اسكے بارے ميں امام صادق(ع) سے روايت ہے كہ آپ نے فرمايا يعنى اپنے آپ سے دو خوف دور كردے اپنى بيوى كے فوت ہوجانے كا خوف كہ جسے بچہ پيدا كرنے كى حالت ميں چھوڑ كر آئے تھے اور فرعون كا خوف _(۱)

مقدس مقامات:انكا احترام ۶، ۷; ان ميں جوتے اتارنا ۷

خداتعالى :اس كا كلام سننے ميں ادب ۵; اسكے اوامر ۴; اسكے انبياء كے ساتھ ہم كلام ہونے كى جگہ كا پاكيزہ ہونا ۱۰; اسكے انبياء كے ساتھ ہم كلام ہونے كى جگہ كا تقدس ۱۰; اسكى موسى كے ساتھ گفتگو ۲، ۳; اسكى موسى كے ساتھ گفتگو كى جگہ ۱; اسكى ربوبيت كى نشانياں ۳

وادى طوي:اس كا احترام ۸، ۹; اسكى پاكيزگى ۸; اس كا تقدس ۸; اسكى فضيلت ۱; اس ميں جوتے اتارنا ۹; اسكى جغرافيائي موقعيت ۸

روايت : ۱۱، ۱۲

موسى (ع) :انكو حكم ۴; انكا خوف ۱۲; انكى شرعى ذمہ دارى ۴; انكے جوتوں كى نوعيت ۱۱; ان كا قصہ ۱، ۲، ۴; انكا تربيت كرنے والا ۳; آپ وادى طوى ميں ۳; آپ خدا كے حضور ميں ۲، ۴; آپ كے جوتے ۴

آیت ۱۳

( وَأَنَا اخْتَرْتُكَ فَاسْتَمِعْ لِمَا يُوحَى )

اور ہم نے كو منتخب كرليا ہے لہذا جو وحى كى جارہى ہے اسے غور سے سنو (۱۳)

۱ _ خداتعالى نے موسى (ع) كو اپنے پيغمبر كے طور پر چن ليا اور وادى طوى ميں انہيں رسالت كيلئے منتخب ہونے

____________________

۱ ) علل الشرائع ص۶۶ ب ۵۵ ح ۲_ بحارالانوار ج ۱۳ ص ۶۴ ح ۲ _

۲۵

سے مطلع فرمايا _و ا نا ا خترتك فاستمع لما يوحى ''لما يوحى '' كے قرينے سے موسى (ع) كے منتخب ہونے سے مراد انكا پيغمبرى اور وحى الہى كا بوجھ اٹھانے كيلئے منتخب ہونا ہے _

۲ _ موسى (ع) خداتعالى كے برگزيدہ اور اپنے زمانے ميں وحى كے حاصل كرنے اور پيغام الہى كے پہچانے كيلئے بہترين شخص تھے _و ا نا ا خترتك ''اختيار'' مادہ ''خير'' سے ہے اور اس كا معنى ''اصطفائ'' ( ہر چيز ميں سے خالص كو اٹھالينا) ہے ( لسان العرب)

۳ _ انبياخداتعالى كى برگزيدہ ہستياں ہيں _و ا نا ا خترتك فاستمع لما يوحى

۴ _ خداتعالى نے موسى (ع) كو رسالت كيلئے انتخاب كرنے كے بعد انہيں وحى كو دريافت كرنے اور اسے غور سے سننے كا حكم ديا _و ا نا ا خترتك فاستمع لما يوحى

۵ _ ( كوہ طور كے نيچے ) وادى طوى ميں خداتعالى كا حضرت موسى (ع) كے ساتھ بات كرنا،وحى كى صورت ميں تھا _

فاستمع لما يوحى

بعد والى آيت كريمہ ميں جملہ''إننى ا نا الله ''، ''ما يوحي'' كيلئے بدل ہے پس كوہ طور كے نيچے جو كچھ حضرت موسى سے كہا گيا تھا وہ وحى تھى _

۶ _ كلام الہى كو سنتے وقت اس پر كان لگانا ضرورى ہے _فاستمع لما يوحى

اگر چہ مخاطب حضرت موسى (ع) ہيں ليكن خداتعالى نے انہيں وحى كا سامنا كرتے وقت جو آداب سكھائے انہيں قرآن ميں بيان فرمايا ہے تا كہ سب كيلئے مفيد ہوں _

انبياء:انكا برگزيدہ ہونا ۳

خدا كے برگزيدہ بندے: ۳خداتعالى :اسكے اوامر ۴; اسكى حضرت موسى كے ساتھ گفتگو ۵_

موسى (ع) :انكا برگزيدہ ہونا ۱، ۲، ۴; انكى شرعى ذمہ دارى ۴; انكى معاشرتى شخصيت ۲; انكا مقام ۱، ۲، ۴; آپ وادى طوى ميں ۱، ۵; آپكى نبوت ۱، ۴، ۵; آپ كى طرف وحى ۵

وحى :اسے كان لگا سننا ۴; اسے كان لگا كر سننے كى اہميت۶

۲۶

آیت ۱۴

( إِنَّنِي أَنَا اللَّهُ لَا إِلَهَ إِلَّا أَنَا فَاعْبُدْنِي وَأَقِمِ الصَّلَاةَ لِذِكْرِي )

ميں اللہ ہوں ميرے علاوہ كوئي خدا نہيں ہے ميرى عبادت كرو اور ميرى ياد كے لئے نماز قائم كرو (۱۴)

۱ _ خداتعالى كا يكتا ہونا اور اسكے علاوہ كسى معبود كا حقيقت نہ ركھنا وادى طوى ميں خدا كى طرف سے موسى (ع) كو وحى كا مركزى عنوان _إننى ا نا الله لا إله إلا ا نا

۲ _ ( كوہ طور كے نيچے ) وادى طوى ميں خداتعالى نے موسى (ع) كو سمجھايا كہ اسے الله تعالى مخاطب كررہا ہے اور وہ خدا كا كلام سن رہا ہے_إنّنى ا نا الله

۳ _ گفتگو كے آغاز ميں مخاطب كو اپنا تعارف كرانا دوسروں كے ساتھ ہم كلام ہونے اور بات كرنے كے آداب ميں سے ہے _ياموسى ...إنّنى ا نا الله

خداتعالى نے ''يا موسى ''(ع) كى آواز كے ساتھ انہيں سمجھايا كہ مجھے تيرے نام كا علم ہے پھر موسى (ع) كے ساتھ سخن كے آغاز ميں اسے اپنا تعارف كرايا تاكہ طرفين كى شناخت كے ساتھ گفتگو كا سلسلہ آگے بڑھے _

۴ _ خدا كے علاوہ كسى معبود كى كوئي حقيقت نہيں اور نہ كوئي لائق عبادت ہے _إننى ا نا الله لا إله إلا ا نا

''إلہ'' كا معنى ہے معبود اور آيت كريمہ ميں اس سے مراد ''معبود حق'' ہے كيونكہ باطل معبودوں كا وجود قابل انكار نہيں ہے _

۵ _ موسى (ع) اپنى نبوت اور وحى حاصل كرنے سے پہلے بھى خداتعالى كى معرفت ركھتے تھے اور اسكى ربوبيت كو مانتے تھے _إنى ا نا ربك إنّنى ا نا الله لا إله إلا ا نا

يہ دو جملے '' إنى ا نا ربك'' اور ''إنّنى ا نا الله '' بتارہے ہيں كہ موسى (ع) پہلے سے ہى ان ناموں

۲۷

كو پہچانتے تھے اور ان كا اعتقاد ركھتے تھے اور كوہ طور ميں انہوں نے ''ربّ'' اور ''الله '' كو صاحب آواز پر منطبق كيا _

۶ _ خداتعالى كى عبادت كے ضرورى ہونے اور غير خدا كى پرستش سے پرہيز كى تاكيد، حضرت موسى (ع) كى نبوت كے آغاز ميں خدا كى طرف سے انہيں پہلى نصيحت_لا إله إلا ا نا فاعبدني

۷ _ لوگوں كو خداتعالى اور اسكى وحدانيت سے آشنا كرانا انہيں خدا كى عبادت كى دعوت دينے كا پيش خيمہ ہے _

إننى ا نا الله لا إله إلا ا نا فاعبدني ''فاعبدني'' ميں ''فائ'' سابقہ جملہ پر تفريع كيلئے ہے كہ جس ميں خداتعالى اور اسكى وحدانيت كا تعارف كرايا گيا ہے _

۸ _ مخلصانہ عبادت خداتعالى كے حضور ميں سب سے بڑا فريضہ ہے حتى كہ انبياء كيلئے بھى _إننى ا نا الله لا إله إلاا نا فاعبدني

۹ _ خداتعالى كا يكتا ہونا ( توحيد ذاتي) اسكے لئے مخلصانہ عبادت كو مختص كرنے( توحيد عبادي) كے ضرورى ہونے كى دليل ہے _إننى ا نا الله لا إله إلا ا نا فاعبدني

۱۰ _ نماز كى پابندى اور اسے قائم كرنے كا حكم وادى طوى ميں حضرت موسى (ع) كو ديئے گئے پہلے عملى پروگراموں ميں سے تھا _ا قم الصلوة ''اقامہ نماز'' ( نماز قائم كرنا ) اسكى پابندى كے ساتھ ہے_

۱۱ _ نماز قائم كرنا خداتعالى كے حضور ميں عبوديت كا سب سے واضح جلوہ ہے _فاعبدنى و ا قم الصلوة

۱۲ _ نماز ديگر سب عبادتوں سے زيادہ اہم ہے _فاعبدنى و ا قم الصلوة

سب عبادات ميں سے صرف نماز كا ذكر كرنا ديگر عبادات كے مقابلے ميں اس عمل كے خاص مرتبے اور برتر ہونے كو بيان كرتا ہے _

۱۳ _ دين موسى (ع) ميں نماز تشريع ہوچكى تھى _و ا قم الصلوة

۱۴ _ خداتعالى كى طرف توجہ اور اسكى ياد ميں ہونا نماز كے اہداف اور ثمرات ميں سے ہے _و ا قم الصلوة لذكري

۱۵ _ نماز ميں ذكر خدا كا ہونا خداتعالى كى طرف سے اسے قائم كرنے كى نصيحت اورشوق دلانے كا سبب ہے _

ا قم الصلوة لذكري ''لذكري'' ممكن ہے نماز كے نتيجے كو بيان كررہا ہو كہ نماز دلوں ميں يادخدا كو زندہ كرتى ہے اور ممكن

۲۸

ہے اس سے مراد نماز كا اذكار الہى پر مشتمل ہونا ہو يعنى نماز قائم كرنا اسلئے واجب ہے كہ اس ميں ذكر خدا ہے _

۱۶ _ ضرورى ہے كہ نماز اور ديگر عبادتيں مخلصانہ اور صرف ياد خدا كيلئے ہوں _فاعبدنى و ا قم الصلوة لذكري

''لذكري'' ميں ''ذكر'' كا ياء متكلم كے ساتھ مختص ہونا مذكورہ نكتے كو بيان كررہا ہے يعنى ''لذكرى لا لذكر غيري'' _

۱۷ _ خداتعالى كى ياد اور اسكى طرف توجہ تمام عبادات كا مشتركہ فلسفہ ہے _فاعبدنى و ا قم الصلوة لذكري

جس طرح ''لذكري'' ''ا قم الصلوة'' كى علت كو بيان كررہا ہے ہوسكتا ہے ''فاعبدنى '' كى علت كا بيان بھى ہو _

۱۸ _ ضرورى ہے كہ ہميشہ خدا كى ياد ميں رہيں اور اسكے ذكر سے غافل نہ ہوں _لذكري

۱۹ _''عن ا بى جعفر(ع) قال: إذا فاتتك صلاة فذكرتها فى وقت ا خرى فإن كنت تعلم ا نّك إذا صليت التى فاتتك كنت من الا خرى فى وقت فابدا بالتى فاتتك فإن الله عزوجل يقول: ا قم الصلاة لذكري'' ; امام باقر(ع) سے روايت ہے كہ آپ (ع) نے فرمايا: جب بھى تجھ سے كوئي نماز چھوٹ جائے اور دوسرى نماز كے وقت ميں ياد آئے تو اگر تجھے معلوم ہو كہ نماز قضا كے انجام دينے كے بعد واجب نماز كو اس كے وقت ميں بجالانے كى فرصت بچ جائيگى تو پہلے قضا نماز كو انجام دے كيونكہ خداتعالى نے فرماياہے'' ا قم الصلوة لذكري'' ( اس فقہى نكتے كا استفادہ اس چيز كے پيش نظر ہے كہ '' لذكري'' كا لام ''توقيت'' كيلئے ہو كہ جس كے نتيجے ميں آيت كا معنى يہ ہوگا '' ا قم الصلوة وقت تذكيرى إيّاك'') ( يعنى نماز قائم كر جس وقت تجھے اسكى ياد دلا دوں مترجم) _

انبياء :انكى شرعى ذمہ دارى ۸

شرعى ذمہ داري:سب سے اہم شرعى ذمہ دارى ۸

توحيد:توحيد ذاتى كے اثرات ۹; توحيد كى اہميت ۱; توحيد عبادى كى اہميت ۶، ۱۶; توحيد كى طرف دعوت كى اہميت ۷; توحيد عبادى ۴; توحيد عبادى كى علل ۹

نظريہ كائنات:توحيدى نظريہ كائنات ۴

خداتعالى :

۲۹

اسكے اوامر ۶; خداشناسى كى دعوت كى اہميت ۷; اسكى نصيحت ۱۵; اسكى موسى كے ساتھ گفتگو ۲

ياد :ياد خدا كى اہميت ۱۴، ۱۷، ۱۸; نماز ميں ياد خدا ۱۵

روايت :۹۱

سخن:اسكے آداب ۳

شرك:اس سے اجتناب كى اہميت ۶

عبادت:اس ميں خلوص ۱۶; اس ميں خلوص كى اہميت ۸; عبادت خدا كا پيش خيمہ ۷; عبادات كا فلسفہ ۱۷

عبوديت:اسكى نشانياں ۱۱

معاشرت:اسكے آداب ۳

موسى (ع) :انكى شرعى ذمہ دارى ۶; انكى خداشناسى ۵; آپ وادى طوى ميں ۱، ۲; آپ نبوت سے پہلے ۵; انكى طرف وحى ۱، ۱۰

نماز:اسكے احكام ۱۹; اس ميں خلوص ۱۶; اسے قائم كرنے كى اہميت ۱۰، ۱۱ ; اسكى اہميت ۱۲; اسكى نصيحت ۱۵; اس كا فلسفہ ۱۴، ۱۵; يہ آسمانى اديان ميں ۱; يہ يہوديت ميں ۱۳; نماز قضا كا وقت ۱۹

وحى :اسكى تعليمات ۱

آیت ۱۵

( إِنَّ السَّاعَةَ ءاَتِيَةٌ أَكَادُ أُخْفِيهَا لِتُجْزَى كُلُّ نَفْسٍ بِمَا تَسْعَى )

يقينا وہ قيامت آنے والى ہے اور ميں اسے چھپائے رہوں گا تا كہ ہر نس كو اس كى كوشش كا بدلہ ديا جاسكے (۱۵)

۱ _ قيامت كا آنا حتمى ہے _إن السّاعة ء اتية

۳۰

۲ _ ''ساعة '' قيامت كا ايك نام ہے _إن السّاعة ء اتية

''ساعة'' يعنى وقت كا ايك حصہ بہت سارى آيات ميں قيامت كو ''ساعة '' سے تعبير كيا گيا ہے اور يہ قيامت كے مشہور ناموں ميں سے ايك نام بن گيا ہے _

قيامت كو يہ نام يا تو اسلئے ديا گيا ہے كہ سارى مخلوقات ايك وقت ميں محشور ہوں گى اور يا اسلئے كہ اسكے برپا ہونے كا وقت ايك مختصر لحظہ ہے _( لسان العرب سے اقتباس)

۳ _ قيامت پر ايمان دين موسى كے اہم ترين اعتقادى اركان ميں سے ہے _نودى يا موسى إن السّاعة ء اتية

۴ _ قيامت اور اسكى خصوصيات سے مطلع ہونے كا ذريعہ صرف خداتعالى كى طرف سے آئي ہوئي معلومات ہيں _

ا كاد ا خفيه ''ا خفيہا'' كا خداتعالى كى طرف اسناد بتاتا ہے كہ اگر اس نے قيامت كے بارے ميں بات نہ كى ہوتى تو ہمارے لئے اس سے مطلع ہونے كا كوئي راستہ نہ تھا_

۵ _ خداتعالى نے اپنے ارادہ سے قيامت كے برپا ہونے كے وقت كو انسان سے مخفى ركھا ہے _ا كاد ا خفيه

قاموس ميں آيا ہے كہ اس آيت ميں ''ا كاد'' ''ا ريد'' كے معنى ميں ہے اور ''ا كاد ا خفيہا'' يعنى ميرا ارادہ ہے كہ اسے مخفى ركھوں پس قيامت كو مخفى ركھنے سے مراد اسكے وقوع پذير ہونے كے وقت كو مخفى ركھنا ہوگا نہ خود اسكے وقوع كو مخفى ركھنا _

۶ _ قيامت كا واقع ہونا اچانك ہے _ا كاد ا خفيه

۷ _ ايك ايك انسان كو بدلہ دينا قيامت كے برپا ہونے كا فلسفہ _ء اتية لتجزى كل نفس

''لتجزى '' يا تو ''آتية'' كى علت كا بيان ہے اور '' ا كاد ا خفيہا'' جملہ معترضہ ہے اور يا يہ آيت كريمہ ميں مذكور دونوں چيزوں يعنى قيامت كا آنا اور خداتعالى كى طرف سے اسكى خبردينے كا مخفى ركھنا كى علت كا بيان ہے اور يا يہ صرف ''ا خفيہا'' كى علت كو بيان كررہا ہے ، مذكورہ مطلب پہلے دو احتمالوں كى بناپر ہے _

۸ _ انسان كا قيامت كے برپا ہونے كے وقت سے آگاہ نہ ہونا اسكے اپنے كاموں كى پابندى كرنے اور پھر جزا و سزا كا مستحق بننے كا پيش خيمہ ہے _ا كاد ا خفيها لتجزى كل نفس بما تسعى

مذكورہ بالا نكتے ميں''لتجزى '' كے لام كو''ا كاد ا خفيها'' كى تعليل كيلئے ليا گيا ہے پس جملہ كى تركيب در حقيقت يوں ہوگى''لتسعى كل نفس فتجزى بما تسعى '' خلاصہ اس سے مراد يہ ہوگا كہ ميں نے ارادہ كيا ہے كہ

۳۱

قيامت كو مخفى ركھوں تا كہ سب لوگ اپنى كوشش جارى ركھيں اور اپنے كردار كے نتائج كو ديكھ ليں _ يہ ايك نفسيانى چيز ہے كہ اگر انہيں اپنى موت اور جہان ہستى كى نابودى كا وقت معلوم ہوجائے تو انسان اپنى بہت سى كوششوں كو ترك كرديگا _

۹ _ انسان اپنى دائمى اور مستمر كوششوں اور كردار كے مقابلے ميں ذمہ دار ہے _لتجزى كل نفس بما تسعى

''عمل'' كى جگہ پر مادہ ''سعى '' كا استعمال ممكن اسلئے ہو كہ وہ برائياں جن پر اصرار نہيں كيا جاتا ان سے چشم پوشى كى جائيگى اور يہ نيك اعمال كى نسبت مداومت كى نصيحت ہے _

۱۰ _ دنيا، كوشش كى جگہ اور آخرت جزا و سزا اور اپنى كوشش كا نتيجہ لينے كى جگہ ہے _إنّ السّاعة ء اتية لتجزى كل نفس بما تسعى

۱۱ _ دنيا ميں انسانوں كے اعمال كا بدلہ دينے كيلئے ضرورى وسائل اور گنجاش نہيں ہے _الساعة ء اتية لتجزى كل نفس بما تسعى

بدلہ دينے كيلئے قيامت كے برپا ہونے كا ضرورى ہونا اس چيز كى طرف اشارہ ہے كہ دنيا انسان كى اچھى اور برى كوششو ں كا بدلہ دينے كى گنجائش نہيں ركھتى لہذا ايك اور دن اور حالات فراہم كرنے كى ضرورت ہے تا كہ بدلہ ديا جاسكے _

۱۲ _ انسان كا جزا و سزا پانا خود اسكى كوشش و كردار كا نتيجہ ہے _لتجزى كل نفس بما تسعى

۱۳ _ميدان قيامت ميں حاضر ہونا اور اپنے دنياوى اعمال كے بدلے كا سامنا كرنا سب انسانوں كا انجام ہے _

إنّ السّاعة لتجزى كل نفس بما تسعى

۱۴ _ انسان كا عبادت اور نماز ميں سعى و كوشش كرنا قيامت ميں حتمى جزا ركھتا ہے _فاعبدنى و ا قم الصلوة لتجزى كل نفس بما تسعى

آخرت:اس كا كردار ۱۰

انسان:اسكى اخروى پاداش ۱۰، ۱۳; اس كا محشور ہونا ۱۳; اس كا انجام ۱۳; اسكى ذمہ دارى ۹

ايمان :قيامت پر ايمان كى اہميت ۳

پاداش:اس كا پيش خيمہ ۸; اسكے عوامل ۱۲; اخروى پاداش كے عوامل ۱۴; دنياوى پاداش كا محدود ہونا ۱۱; اسكى جگہ ۱۰

۳۲

كوشش:اس كا پيش خيمہ ۸

خداتعالى :اسكے ارادے كے اثرات ۵; اسكى تعليمات كى اہميت ۴

دنيا :اس كا كردار ۱۰

الساعة: ۲

عبادت:اسكے لئے كوشش كے اثرات ۱۴

عمل:اسكے اثرات ۱۲; اسكى فرصت ۱۰; اس كا ذمہ دار ۹

قيامت :اس ميں پاداش ۷; اس كا حتمى ہونا ۱; اسكے مخفى ہونے كا فلسفہ ۸; اسكے برپا ہونے كا فلسفہ ۷; اس ميں سزا ۷; اسكے مخفى ہونے كا سرچشمہ ۵; اسكے علم كا سرچشمہ ۴; اس كا اچانك ہونا ۶; اس كے نام ۲; اس كا وقت ۵

سزا :اس كا پيش خيمہ ۸; اسكے عوامل ۱۲; دنياوى سزا كا محدود ہونا ۱۱; اسكى جگہ ۱۰

نماز:اسكے لئے كوشش كے اثرات ۱۴

يہوديت:اسكے اركان ۳

آیت ۱۶

( فَلاَ يَصُدَّنَّكَ عَنْهَا مَنْ لاَ يُؤْمِنُ بِهَا وَاتَّبَعَ هَوَاهُ فَتَرْدَى )

اور خبردار تمھيں قيامت كے خيال سے وہ شخص روك نہ دے جس كا ايمان قيامت پر نہيں ہے اور جس نے اپنے خواہشات كى پيروى كى ہے كہ اس طرح تم ہلاك ہو جاؤگے (۱۶)

۱ _ خداتعالى نے وادى طوى ميں حضرت موسى (ع) كو منكرين قيامت كى طرف سے انہيں قيامت كى طرف متوجہ ہونے سے روكنے كے خطرے سے آگاہ كيا اور انہيں انكے مكر و فريب سے ڈرايا _

فاعبدني فلا يصّدنّك عنها من لا يؤمن بها ''عنها'' ، ''بها'' كى ضميروں كا مرجع ''الساعة'' ہے جو گذشتہ آيت ميں تھا _

۲ _ كفار كو لوگوں كے ايمان ميں طمع ركھنے سے مايوس كرنا اور ان كے مؤمنين كو فريب دينے كاميابى كے ذرائع كو ختم كرنا ضرورى ہے _فلا يصّدنّك عنها من لايؤمن به

۳۳

مفسرين نے كہا ہے كہ ''لايصّدنّك'' كى نہى اگر چہ ظاہرى طور پر كفار كو ہے ليكن در حقيقت يہ سبب كو وجود ميں لانے سے نہى ہے يعنى اے موسى تو اور ديگر مؤمنين اس طرح عمل نہ كريں كہ كفار تمہيں ايمان سے باز ركھ سكيں _

۳ _ كفار كے شكوك و شبہات پيدا كرنے اور ان كے دباؤ كے مقابلے ميں دين الہى كى حفاظت كرنا ضرورى ہے _

فلايصّدنّك عنها من لا يؤمن به

۴ _ انبياء كى كفار كے فريب اور وسوسوں سے رہائي خداتعالى كى راہنمائي اور نصيحتوں كے سائے ميں ہے _

فلا يصّدنّك عنها من لا يؤمن به

۵ _ دين الہى اور خدائي پروگراموں كے منكر لوگوں كو دين اور اس پر عمل كى طرف مائل ہونے سے روكنے كے درپے ہيں _*''عنہا'' اور ''بہا'' كى ضميروں كا مرجع ممكن ہے وہ تمام تعليمات اور ہدايات ( توحيد عبادت اور نماز كا لازمى ہونا، معاد اور جزا و سزا ) ہوں جنكى حضرت موسى (ع) كو وادى طوى ميں تعليم دى گئي تھي_

۶ _ ہوا و ہوس نفسانى كى پيروى كا نتيجہ قيامت كا انكار اور اس پرايمان كا نہ ہوناہے _من لا يؤمن بها و اتبع هوى ه

''اتبع'' ماضى ہے اور اس كا ''لايؤمن'' جو مضارع ہے پر عطف كيا گيا ہے تا كہ اسكى علت كو بيان كرے اور دلالت كرے كہ ہوس كى پيروى جو ماضى ميں انجام پائي مستقبل ميں آخرت كے ساتھ عدم ايمان كا سبب ہے _

۷ _ خواہشات نفسانى معاد اور آخرت ميں سزا و جزا كے اعتقاد كے بارے ميں اشكال كرنے كى بنياد ہے _

فلا يصّدنّك عنها من اتبع هوى ه

۸ _ دينى اعتقادات ميں قيامت اور اعمال كى جزا و سزا پر ايمان خاص اہميت كا حامل ہے _الساعة ء اتية فلا يصّدنّك عنه

۹ _ تباہى اور ہلاكت، آخرت كى طرف عدم توجہ اور اعمال كى جزا و سزا سے بے اعتنائي كا انجام ہے _

فلا يصّدنّك عنها فتردى

''تردى '' ''ردي'' بمعنى ہلاكت سے مشتق ہے اوريہ منكرين معاد كے شكوك و شبہات پيدا كرنے كے انجام كو بيان كر رہا ہے _

۱۰ _ خواہشات نفسانى كى پيروى تباہى و ہلاكت كا سبب

۳۴

ہے _فلايصّدنّك عنها من اتبع هوى ه فتردى

آيت كريمہ فريب كھائے ہوئے ہوا پرست لوگوں كو ہلاك شدہ سمجھتى ہے پس حتمى طور پر خود ہوا پرست لوگوں كا يہى انجام ہوگا _

انبياء:انكى نجات كا سرچشمہ ۴

ايمان:قيامت پر ايمان كى اہميت ۸

خداتعالى :اس كا ڈرانا ۱; اسكى نصيحتوں كى اہميت ۴

دين:دينى آسيب شناسى ۵،۶; اصول دين ۸; اسكى حفاظت ۳

غفلت:قيامت سے غفلت كا خطرہ ۱; آخرت سے غفلت كا انجام ۹; عمل كى پاداش سے غفلت كا انجام ۹; عمل كى سزا سے غفلت كا انجام ۹

قيامت :اسے جھٹلانے والوں كا مكر، ۱

كفار:انكى مايوسى كى اہميت ۲; انكى دشمنى ۵; انكى دين دشمني۵; انكا شكوك و شبہات پيدا كرنا ۳; انكے مكر سے ممانعت ۲; انكے مكر سے نجات ۴

كفر:قيامت كے كفر كا پيش خيمہ ۶

تمايلات :دين كى طرف تمايل سے ممانعت ۵

معاد:اسكے بارے ميں شكوك و شبہات كا سرچشمہ ۷

موسى (ع) :انكا قصہ ۱; انكى طرف وحى ۱; انہيں خبردار كرنا ۱

ہلاكت:اسكے عوامل ۹ ، ۱۰

ہواپرستي:اسكے اثرات ۶، ۷، ۱۰

۳۵

آیت ۱۷

( وَمَا تِلْكَ بِيَمِينِكَ يَا مُوسَى )

اور اے موسى يہ تمھارے داہنے ہاتھ ميں كيا ہے (۱۷)

۱ _ حضرت موسى (ع) جب آگ لانے كيلئے اپنے گھروالوں سے جدا ہوئے تو انكا ڈنڈا بھى انكے ہمراہ تھا_

و ما تلك بيمينك يا موسى

''تلك'' مونث كى طرف اشارہ كرنے كيلئے ہے اور دلالت كر رہا ہے كہ جو كچھ حضرت موسى كے ہاتھ ميں تھا اس پر ''خشبہ '' يا ''عودہ'' ( ڈنڈا) كا اطلاق مسلم ہے پس حضرت موسى (ع) سے طلب كيا گيا تھا كہ وہ جواب ميں اس ڈنڈے كى خصوصيات بيان كريں تا كہ وہ متوجہ رہيں كہ كيا چيز سانپ ميں تبديل ہوگى _قابل ذكر ہے كہ بعد والى آيت كے جملے ''ا ہش بہا على غنمي'' سے استفادہ ہوتا ہے كہ موسى (ع) كے كوہ طور پر آنے سے پہلے وہ ڈنڈا انكے ہمراہ تھا _

۲ _ خداتعالى نے وادى طوى ميں حضرت موسى (ع) سے چاہا كہ وہ اپنے ڈنڈے كى خصوصيات بيان كريں _

و ما تلك بيمينك يا موسى

۳ _ خداتعالى ، موسى (ع) كيلئے خاص لطف و كرم ركھتا تھا _و ما تلك بيمينك يا موسى

واضح ہے كہ خداتعالى كا موسى (ع) سے سوال مطلع ہونے كيلئے نہيں تھا بلكہ يہ سوال باب گفتگو كا آغاز ہوسكتا ہے اور موسى (ع) كو انكے ڈنڈے كے معمولى نہ ہونے كى طرف متوجہ كرنا اضطراب اور خوف كو بھى دور كرتا ہے اس سوال كو پيش كرنا اور دوبارہ ''ى موسى '' كے ساتھ مخاطب كرنا موسى (ع) كيلئے الله تعالى كے لطف و كرم كے اظہار كى علامت ہے_

خداتعالى :اسكى نصيحتيں ۲

كوہ طور :اسكى آگ ۱

لطف خدا:

۳۶

يہ جنكے شامل حال ہے ۳

موسى (ع) :انكو نصيحت ۲; انكا ڈنڈا ۱; انكے فضائل ۳; انكاقصہ ۱، ۲; انكے ڈنڈے كى خصوصيات ۲

آیت ۱۸

( قَالَ هِيَ عَصَايَ أَتَوَكَّأُ عَلَيْهَا وَأَهُشُّ بِهَا عَلَى غَنَمِي وَلِيَ فِيهَا مَآرِبُ أُخْرَى )

انھوں نے كہا كہ يہ ميرا عصا ہے جس پر ميں تكيہ كرتا ہوں اور اس ے اپنى بكريوں كے لئے درختوں كى پتياں جھاڑتا ہوں اور اس ميں ميرے اور بہت سے مقاصد ہيں (۱۸)

۱ _ حضرت موسى (ع) نے خداتعالى كے اس سوال كہ آپ كے ہاتھ ميں كيا ہے كے جواب ميں عرض كيا يہ ميرا ڈنڈا ہے _و ما تلك بيمينك يا موسى ...قال هى عصاي

۲ _ موسى (ع) نے ڈنڈے پر سہارا لينا اور اپنى بكريوں كيلئے درختوں كے كمزور پتوں كو گرانا ڈنڈے كے فوائد شمار كئے _

''ہش'' كا معنى ہے پتے گرانے كيلئے خشك درخت كو ڈنڈا مارنا ( لسان العرب) يہ كلمہ ان چيزوں كے بارے ميں استعمال ہوتا ہے جو ملائم ہوں اور سخت نہ ہوں (مفردات راغب) ''على غنمي'' ميں ''علي'' كا استعمال بكريوں كے پتوں سے استفادہ كرنے كيلئے درخت كے نيچے موجود ہونے كى طرف اشارہ ہے _

۳ _ حضرت موسى (ع) نے سہارا لينے اور درختوں كے پتے گرانے كے علاوہ اپنے ڈنڈے كو متعدد ضروريات پورى كرنے كيلئے كارساز قرارديا _ولى فيها مارب ا خرى

''مارب'' كے مفرد ''ماربہ'' كا معنى ہے حاجت اور نياز ( مصباح )

۴ _ہاتھ ميں ڈنڈا پكڑنا اور چلنے اور كھڑا ہونے ميں اس كا سہارا لينا ايك مطلوب اور مفيد كام ہے _

۳۷

و ما تلك بيمينك هى عصاى ا توكؤا عليه

موسي(ع) سے منقول سخن ميں سہارا لينے كو ديگر فوائد پر مقدم كرنا اس فائدے كے ديگر فوائد سے اہم ہونے كى علامت ہے_ اور يہ اہميت حضرت موسى (ع) كى جسمانى صحت بلكہ آپكى جسمانى توانمندى كے پيش نظر زيادہ واضح ہوجاتى ہے _

۵ _ مدين سے مصر جاتے ہوئے حضرت موسى (ع) كے ہمراہ بكرياں تھيں كہ جنہيں آپ خود چراتے تھے_ا هش بها على غنمي ''غنم'' يعنى بكرياں اور يہ كلمہ خود اپنے لفظ سے مفرد نہيں ركھتا اورايك بكرى كو كہا جاتا ہے ''شاة'' (مصباح)_

۶ _ جس سرزمين ميں حضرت موسى (ع) نے جانور ركھے ہوئے تھے اور انہيں چراتے تھے اس ميں ايسے درخت تھے كہ جنكے پتے جانوروں كى غذا كيلئے مناسب تھے _و ا هش بها على غنمى

۷ _ حضرت موسى (ع) نے خداتعالى كے ساتھ ہم كلام ہونے كى فرصت كو غنيمت شمار كيا اور اس سے لذت اٹھا رہے تھے _ما تلك قال هى عصاى ا توكؤا عليها و ا هش ولى فيها ما رب ا خرى

خدا تعالى كے سوال كے جواب ميں جملہ ''ہى عصاى '' كافى تھا لذا ديگر جملوں كا اضافہ كرنا حضرت موسى (ع) كے خدا كے ساتھ ہم كلام ہونے كے اشتياق كو بيان كررہاہے_

۸ _ خداتعالى كى خواہش پر عمل كرنے ميں تمام احتمالات كو انجام دينا ضرورى ہے _

ما تلك هى عصاى ا توكؤا ولى فيها م َارب ا خرى

حضرت موسى (ع) كے ''ہى عصاي'' پر اكتفا نہ كرنے كے بارے ميں كہا گيا ہے كہ اس جواب كے واضح ہونے نے حضرت موسى (ع) كو اس فكر ميں ڈال ديا كہ شايد مقصود ڈنڈے كے فوائد ہوں اور اسى احتمال كى بناپر انہوں نے بعد والے جواب اپنى زبان پر جارى كئے_

اصول عمليہ:اصالة الاحتياط ۸

شرعى ذمہ داري:اس پر عمل كرنے كى كيفيت ۸

خداتعالى :اسكى موسى (ع) كے ساتھ گفتگو ۷; اسكے ساتھ گفتگو كى لذت ۷

ڈنڈا:اسكے فوائد ۴/عمل:پسنديدہ عمل ۴

موسى (ع) :انكى بكريوں كى غذا ۶; انكا ريوڑچرانا ۵; انكا ڈنڈا ۱; انكے ڈنڈے كے فوائد ۲، ۳; انكا قصہ ۱، ۵، ۶; انكى بكرياں ۵; انكى معنوى لذات ۷; انكے جانور چرانے كى جگہ ۶

۳۸

آیت ۱۹

( قَالَ أَلْقِهَا يَا مُوسَى )

ارشاد ہوا تو موسى اسے زمين پر ڈال دو (۱۹)

۱ _ خداتعالى نے وادى طوى ميں حضرت موسى (ع) كو حكم ديا كہ اپنا ڈنڈا زمين پر پھينكيں _قال ا لقها يا موسى

۲ _ خداتعالى كى حضرت موسى (ع) كے ساتھ گفتگو انكے ساتھ لطف و كرم اور را فت كے اظہار كے ہمراہ تھى _

ى موسى قال ا لقها يا موسى

نام كا تكرار مخاطب كے ساتھ كامل محبت كے اظہار كى علامت ہے_ ان آيات كريمہ ميں آيات كے محبت آميز لہجے كے علاوہ خطاب الہى ميں چند مرتبہ حضرت موسي(ع) كے نام كا تكرار ہوا ہے كہ جو خداتعالى كى انكے ساتھ خاص عنايت اور لطف كى علامت ہے _ -

خداتعالى :اسكے اوامر ۱; اسكى موسى (ع) كے ساتھ گفتگو ۲

خداتعالى كا لطف:يہ جنكے شامل حال ہے ۲

موسى (ع) :انكا ڈنڈے كو پھينكنا ۱; انكے فضائل ۲; انكا قصہ ۱

آیت ۲۰

( فَأَلْقَاهَا فَإِذَا هِيَ حَيَّةٌ تَسْعَى )

اب جو موسى نے ڈال ديا تو كيا ديكھا كہ وہ سانپ بن كر دوڑ رہا ہے (۲۰)

۱ _ حضرت موسى (ع) نے حكم خداوندى سے اپنا ڈنڈا زمين پر پھينكا _

۳۹

فا لقى ها

۲ _ پھينكے جانے كے بعد حضرت موسى (ع) كا ڈنڈا متحرك سانپ ميں تبديل ہوگيا _فا لقى ها فإذا هى حية تسعى

۳ _ حضرت موسى (ع) كے ڈنڈے كا پھينكاجانا اور اس كا سانپ ميں تبديل ہونا ايك ہى وقت ميں تھا _

فإذا هى حية ''إذا'' مفاجات كيلئے ہے اور پہلے اور بعد والے جملوں كے وقت كے ايك ہونے پر دلالت كرتا ہے _

۴ _ خداتعالى كا ڈنڈے كے بارے ميں حضرت موسى (ع) سے سوال آپ كو معجزہ اور آيت دكھانے كيلئے آپكى ذہنى آمادگى اور ضرورى ما حول بنانے كى خاطر تھا _و ما تلك بيمينك فا لقيها فإذا هى حية

خداتعالى كے جواب ميں حضرت موسى (ع) كا ڈنڈے كے قدرتى خواص كى وضاحت كرنا انكے ذہن ميں مناسب آمادگى پيدا كررہا ہے تا كہ ڈنڈے كى دو حالتوں كا موازنہ كرنے كے بعد اسكى نئي حالت كے معجزہ ہونے كے بارے ميں انہيں كوئي شك نہ ہو _

۵ _ حضرت موسى (ع) كاڈنڈا سانپ ميں تبديل ہونے كے بعد جان ركھتا تھا اور اپنى مرضى سے اچھل كود كررہا تھا _

حية تسعى خداتعالى نے بعد والى آيات ميں حضرت موسى (ع) اور جادوگروں كے مقابلہ كى داستان ميں جادوگروں كے بارے ميں فرمايا ہے_''يخيّل إليه من سحرهم ا نها تسعى '' اس كا ''تسعى '' ( جو اس آيت ميں ہے) كے ساتھ مقابلہ كرنے سے حضرت موسى (ع) ڈنڈے كى حركت كے حقيقى ہونے كاپتا چلتا ہے_

خداتعالى :اسكے سوال كا فلسفہ ۴

ڈنڈا:اس كا سانپ ميں تبديل ہونا ۲، ۳، ۵

موسى (ع) :انكا ڈنڈے كو پھينكنا ۱; ان ميں آمادگى پيدا كرنا ۴; ان سے سوال ۴; انكے ڈنڈے كا تبديل ہونا ۲; انكا شرعى ذمہ دارى پر عمل ۱; انكا قصہ ۱، ۲; انكا معجزہ ۴; انكے ڈنڈے كى خصوصيات ۲، ۳، ۵

۴۰

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

وَصَلِّ عَلَى عَلِيِّ بْنِ الْحُسَيْنِ إِمَامِ الْمُؤْمِنِينَ وَوَارِثِ الْمُرْسَلِينَ وَحُجَّةِ رَبِّ الْعَالَمِينَ‏.

وَصَلِّ عَلَى مُحَمَّدِ بْنِ عَلِيٍّ إِمَامِ الْمُؤْمِنِينَ وَوَارِثِ الْمُرْسَلِينَ وَحُجَّةِ رَبِّ الْعَالَمِينَ.

‏وَصَلِّ عَلَى جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ إِمَامِ الْمُؤْمِنِينَ وَوَارِثِ الْمُرْسَلِينَ وَحُجَّةِ رَبِّ الْعَالَمِينَ.

‏ وَصَلِّ عَلَى مُوسَى بْنِ جَعْفَرٍ إِمَامِ الْمُؤْمِنِينَ وَوَارِثِ الْمُرْسَلِينَ وَحُجَّةِ رَبِّ الْعَالَمِينَ‏.

وَصَلِّ عَلَى عَلِيِّ بْنِ مُوسَى إِمَامِ الْمُؤْمِنِينَ وَوَارِثِ الْمُرْسَلِينَ وَحُجَّةِ رَبِّ الْعَالَمِينَ.

‏وَصَلِّ عَلَى مُحَمَّدِ بْنِ عَلِيٍّ إِمَامِ الْمُؤْمِنِينَ وَوَارِثِ الْمُرْسَلِينَ وَحُجَّةِ رَبِّ الْعَالَمِينَ‏.

وَصَلِّ عَلَى عَلِيِّ بْنِ مُحَمَّدٍ إِمَامِ الْمُؤْمِنِينَ وَوَارِثِ الْمُرْسَلِينَ وَحُجَّةِ رَبِّ الْعَالَمِينَ‏.

وَصَلِّ عَلَى الْحَسَنِ بْنِ عَلِيٍّ إِمَامِ الْمُؤْمِنِينَ وَوَارِثِ الْمُرْسَلِينَ وَحُجَّةِ رَبِّ الْعَالَمِينَ‏.

۶۱

وَصَلِّ عَلَى الْخَلَفِ الْهَادِي الْمَهْدِيِّ إِمَامِ الْمُؤْمِنِينَ وَوَارِثِ الْمُرْسَلِينَ وَحُجَّةِ رَبِّ الْعَالَمِينَ‏.

اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَأَهْلِ بَيْتِهِ الْأَئِمَّةِ الْهَادِينَ الْعُلَمَاءِ الصَّادِقِينَ الْأَبْرَارِ الْمُتَّقِينَ دَعَائِمِ دِينِكَ ‏وَأَرْكَانِ تَوْحِيدِكَ وَتَرَاجِمَةِ وَحْيِكَ وَحُجَجِكَ عَلَى خَلْقِكَ وَخُلَفَائِكَ فِي أَرْضِكَ ‏الَّذِينَ اخْتَرْتَهُمْ لِنَفْسِكَ وَاصْطَفَيْتَهُمْ عَلَى عِبَادِكَ وَارْتَضَيْتَهُمْ لِدِينِكَ ‏وَخَصَصْتَهُمْ بِمَعْرِفَتِكَ وَجَلَّلْتَهُمْ بِكَرَامَتِكَ وَغَشَّيْتَهُمْ بِرَحْمَتِكَ‏ وَرَبَّيْتَهُمْ بِنِعْمَتِكَ وَغَذَّيْتَهُمْ بِحِكْمَتِكَ وَأَلْبَسْتَهُمْ نُورَكَ ‏وَرَفَعْتَهُمْ فِي مَلَكُوتِكَ وَحَفَفْتَهُمْ بِمَلاَئِكَتِكَ وَشَرَّفْتَهُمْ بِنَبِيِّكَ صَلَوَاتُكَ عَلَيْهِ وَآلِهِ‏.

اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَعَلَيْهِمْ صَلاَةً زَاكِيَةً نَامِيَةً كَثِيرَةً دَائِمَةً طَيِّبَةً لاَ يُحِيطُ بِهَا إِلاَّ أَنْتَ وَلاَ يَسَعُهَا إِلاَّ عِلْمُكَ وَلاَ يُحْصِيهَا أَحَدٌ غَيْرُكَ.

‏ اللَّهُمَّ وَصَلِّ عَلَى وَلِيِّكَ الْمُحْيِي سُنَّتَكَ الْقَائِمِ بِأَمْرِكَ الدَّاعِي إِلَيْكَ الدَّلِيلِ عَلَيْكَ‏، حُجَّتِكَ عَلَى خَلْقِكَ وَخَلِيفَتِكَ فِي أَرْضِكَ وَشَاهِدِكَ عَلَى عِبَادِكَ.

‏ اللَّهُمَّ أَعِزَّ نَصْرَهُ وَمُدَّ فِي عُمْرِهِ وَزَيِّنِ الْأَرْضَ بِطُولِ بَقَائِهِ.

‏ اللَّهُمَّ اكْفِهِ بَغْيَ الْحَاسِدِينَ وَأَعِذْهُ مِنْ شَرِّ الْكَائِدِينَ وَازْجُرْ عَنْهُ إِرَادَةَ الظَّالِمِينَ وَخَلِّصْهُ مِنْ أَيْدِي الْجَبَّارِينَ‏.

۶۲

اللَّهُمَّ أَعْطِهِ فِي نَفْسِهِ وَذُرِّيَّتِهِ وَشِيعَتِهِ وَرَعِيَّتِهِ وَخَاصَّتِهِ وَعَامَّتِهِ وَعَدُوِّهِ‏ وَجَمِيعِ أَهْلِ الدُّنْيَا مَا تُقِرُّ بِهِ عَيْنَهُ وَتَسُرُّ بِهِ نَفْسَهُ ‏وَبَلِّغْهُ أَفْضَلَ مَا أَمَّلَهُ فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ إِنَّكَ عَلَى كُلِّ شَيْ‏ءٍ قَدِيرٌ.

اللَّهُمَّ جَدِّدْ بِهِ مَا امْتَحَى (مُحِيَ) مِنْ دِينِكَ وَأَحْيِ بِهِ مَا بُدِّلَ مِنْ كِتَابِكَ‏ وَأَظْهِرْ بِهِ مَا غُيِّرَ مِنْ حُكْمِكَ حَتَّى يَعُودَ دِينُكَ بِهِ وَعَلَى يَدَيْهِ غَضّاً جَدِيداً خَالِصاً مُخْلَصاً لاَ شَكَّ فِيهِ وَلاَ شُبْهَةَ مَعَهُ وَلاَ بَاطِلَ عِنْدَهُ وَلاَ بِدْعَةَ لَدَيْهِ‏.

اللَّهُمَّ نَوِّرْ بِنُورِهِ كُلَّ ظُلْمَةٍ وَهُدَّ بِرُكْنِهِ كُلَّ بِدْعَةٍ وَاهْدِمْ بِعِزِّهِ كُلَّ ضَلاَلَةٍ وَاقْصِمْ بِهِ كُلَّ جَبَّارٍ وَأَخْمِدْ بِسَيْفِهِ كُلَّ نَارٍ وَأَهْلِكْ بِعَدْلِهِ جَوْرَ كُلِّ جَائِرٍ وَأَجْرِ حُكْمَهُ عَلَى كُلِّ حُكْمٍ وَأَذِلَّ بِسُلْطَانِهِ كُلَّ سُلْطَانٍ.

‏اللَّهُمَّ أَذِلَّ كُلَّ مَنْ نَاوَاهُ وَأَهْلِكْ كُلَّ مَنْ عَادَاهُ وَامْكُرْ بِمَنْ كَادَهُ ‏وَاسْتَأْصِلْ مَنْ جَحَدَهُ حَقَّهُ وَاسْتَهَانَ بِأَمْرِهِ وَسَعَى فِي إِطْفَاءِ نُورِهِ وَأَرَادَ إِخْمَادَ ذِكْرِهِ.

‏اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ الْمُصْطَفَى وَعَلِيٍّ الْمُرْتَضَى‏ وَفَاطِمَةَ الزَّهْرَاءِ وَالْحَسَنِ الرِّضَا وَالْحُسَيْنِ الْمُصَفَّى ‏وَجَمِيعِ الْأَوْصِيَاءِ مَصَابِيحِ الدُّجَى وَأَعْلاَمِ الْهُدَى‏ وَمَنَارِ التُّقَى وَالْعُرْوَةِ الْوُثْقَى وَالْحَبْلِ الْمَتِينِ وَالصِّرَاطِ الْمُسْتَقِيمِ.

۶۳

وَصَلِّ عَلَى وَلِيِّكَ وَوُلاَةِ عَهْدِكَ وَالْأَئِمَّةِ مِنْ وُلْدِهِ وَمُدَّ فِي أَعْمَارِهِمْ ‏وَزِدْ فِي آجَالِهِمْ وَبَلِّغْهُمْ أَقْصَى آمَالِهِمْ دِيناً وَدُنْيَا وَآخِرَةً إِنَّكَ عَلَى كُلِّ شَيْ‏ءٍ قَدِير (۱)

پانچویں دعا:۔

وہ دعا کہ جسے النجم الثاقب میں ہر وقت خصوصا ماہ رمضان مبارک اور باالخصوص تئیسویں کی شب میں پڑھنے کے لیےذکر کیا گیا ہے:

اللّهُمّ كُنْ لِوَلِيِّكَ القائِمِ بِأمرِكَ الحُجَّةِ بْنِ الحَسَنِ المهْدِيّ عَلَيه وَعَلَى آبائِهِ أفضَلُ الصَّلَواةِ والسَّلامِ فِي هذِهِ السَّاعَةِ وَفِي كُلِّ سَاعَةٍ وَلِيّاً وَحافِظاً وَقَائِداً وَنَاصِراً وَدَلِيلاً وَمُؤَيِّداً حَتّى تُسْكِنَهُ أرْضَكَ طَوْعاً وَتُمَتِّعَهُ فِيها طَولاً وَعَرْضاً وَتَجْعَلَهُ وَذُرِّيَتَهُ مِنَ الأئِمَّةِ الوارِثينَ.

اللَّهُمَّ انْصُرْهُ وَانْتَصِرْ بِهِ وَاجْعَلِ النَصْرَ مِنْكَ لَهُ وَعَلَى يَدِهِ وَاجْعَلِ النَّصْرَ لَهُ وَالفَتحَ عَلى وَجْهِهِ وَلاَ تُوَجِّهِ الأمرَ إلَى غَيْرِهِ.

اللَّهُمَّ اَظْهِرْ بِهِ دِينَكَ وَسُنَّةَ نَبِيّكَ حَتَّى لاَيَسْتَخْفِيَ بِشَيءٍ مِنَ الحَقِّ مَخافَةَ أَحَدٍ مِنَ الخَلْقِ.

____________________

۱:- جمال الاسبوع: ۵۰۰، بحارالانوار: ۹۴/۲۰۸۱، النجم الثاقب:۴۳۴

۶۴

اللَّهُمَّ إنّي أرْغَبُ إِلَيكَ فِي دَولَةٍ كَرِيمةٍ تُعِزُّ بِهَا الإسلاَمَ وأهلَهُ وَتُذِلّ بها النِّفاقَ وَأهلَهُ وَتَجْعَلُنا فِيها مِنَ الدُعَاةِ إلى طَاعَتِكَ وَالقَادَةِ إلَى سَبِيلِكَ وَآتِنا فِي الدُّنيا حَسَنة وَفِي الآخِرَةِ حَسَنةً وَقِنا عَذَابَ النَّارِ واجْمَعْ لَنَا خَيرَ الدَّارَيْنِ واقْضِ عَنّا جَمِيعَ مَا تُحِبُّ فِيهِما وَاجْعَلْ لَنَا فِي ذلِكَ الخِيَرَةَ بِرَحمَتِكَ وَمَنِّكَ فِي عَافِيةٍ آمين رَبَّ العَالَمِينَ وَزِدْنا مِن فَضْلِكَ وَيَدِكَ الملْأى فَإنَّ كُلّ مُعْطٍ يَنقُصُ مِنْ مُلْكِهِ وَعَطَاؤُكِ يَزِيدُ فِي مُلْكِكَ ۔

زیارت:

احتجاج میں وارد ہوا ہے کہ حضرت صاحب الامر ؑ نے اپنی ایک توقیع میں محمد بن عبد اللہ بن جعفر الحمیری سے فرمایا:

"جب تم ہمارے ذریعے خدا اور ہماری طرف متوجہ ہونا چاہو تو اسی طرح کہو جس طرح اللہ تعالی نے فرمایا ہے:

سَلاَمٌ عَلَى آلِ يس السَّلاَمُ عَلَيْكَ يَا دَاعِيَ اللَّهِ وَرَبَّانِيَّ آيَاتِهِ

السَّلاَمُ عَلَيْكَ يَا بَابَ اللَّهِ وَدَيَّانَ دِينِهِ‏

السَّلاَمُ عَلَيْكَ يَا خَلِيفَةَ اللَّهِ وَنَاصِرَ حَقِّهِ

السَّلاَمُ عَلَيْكَ يَا حُجَّةَ اللَّهِ وَدَلِيلَ إِرَادَتِهِ‏

السَّلاَمُ عَلَيْكَ يَا تَالِيَ كِتَابِ اللَّهِ وَتَرْجُمَانَهُ

۶۵

السَّلاَمُ عَلَيْكَ فِي آنَاءِ لَيْلِكَ وَأَطْرَافِ نَهَارِكَ

‏السَّلاَمُ عَلَيْكَ يَا بَقِيَّةَ اللَّهِ فِي أَرْضِهِ

السَّلاَمُ عَلَيْكَ يَا مِيثَاقَ اللَّهِ الَّذِي أَخَذَهُ وَوَكَّدَهُ

‏السَّلاَمُ عَلَيْكَ يَا وَعْدَ اللَّهِ الَّذِي ضَمِنَهُ‏

السَّلاَمُ عَلَيْكَ أَيُّهَا الْعَلَمُ الْمَنْصُوبُ وَالْعِلْمُ الْمَصْبُوبُ وَالْغَوْثُ وَالرَّحْمَةُ الْوَاسِعَةُ وَعْداً غَيْرَ مَكْذُوبٍ‏

السَّلاَمُ عَلَيْكَ حِينَ تَقُومُ

السَّلاَمُ عَلَيْكَ حِينَ تَقْعُدُ

السَّلاَمُ عَلَيْكَ حِينَ تَقْرَأُ وَتُبَيِّنُ‏

السَّلاَمُ عَلَيْكَ حِينَ تُصَلِّي وَتَقْنُتُ

السَّلاَمُ عَلَيْكَ حِينَ تَرْكَعُ وَتَسْجُدُ

السَّلاَمُ عَلَيْكَ حِينَ تُهَلِّلُ وَتُكَبِّرُ

السَّلاَمُ عَلَيْكَ حِينَ تَحْمَدُ وَتَسْتَغْفِرُ

السَّلاَمُ عَلَيْكَ حِينَ تُصْبِحُ وَتُمْسِي

السَّلاَمُ عَلَيْكَ فِي اللَّيْلِ إِذَا يَغْشَى وَالنَّهَارِ إِذَا تَجَلَّى

‏السَّلاَمُ عَلَيْكَ أَيُّهَا الْإِمَامُ الْمَأْمُونُ

السَّلاَمُ عَلَيْكَ أَيُّهَا الْمُقَدَّمُ الْمَأْمُولُ

السَّلاَمُ عَلَيْكَ بِجَوَامِعِ السَّلاَمِ‏

۶۶

أُشْهِدُكَ يَا مَوْلاَيَ أَنِّي أَشْهَدُ أَنْ لاَ إِلَهَ إِلاَّ اللَّهُ وَحْدَهُ لاَ شَرِيكَ لَهُ‏ وَأَنَّ مُحَمَّداً عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ لاَ حَبِيبَ إِلاَّ هُوَ وَأَهْلُهُ.

وَأُشْهِدُكَ يَا مَوْلاَيَ أَنَّ عَلِيّاً أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ حُجَّتُهُ، ‏وَالْحَسَنَ حُجَّتُهُ، وَالْحُسَيْنَ حُجَّتُهُ، وَعَلِيَّ بْنَ الْحُسَيْنِ حُجَّتُهُ، ‏وَمُحَمَّدَ بْنَ عَلِيٍّ حُجَّتُهُ، وَجَعْفَرَ بْنَ مُحَمَّدٍ حُجَّتُهُ، وَمُوسَى بْنَ جَعْفَرٍ حُجَّتُهُ، وَعَلِيَّ بْنَ مُوسَى حُجَّتُهُ، ‏وَمُحَمَّدَ بْنَ عَلِيٍّ حُجَّتُهُ، وَعَلِيَّ بْنَ مُحَمَّدٍ حُجَّتُهُ، وَالْحَسَنَ بْنَ عَلِيٍّ حُجَّتُهُ.

‏وَأَشْهَدُ أَنَّكَ حُجَّةُ اللَّهِ، أَنْتُمْ الْأَوَّلُ وَالْآخِرُ وَأَنَّ رَجْعَتَكُمْ حَقٌّ لاَ رَيْبَ فِيهَا يَوْمَ لاَ يَنْفَعُ نَفْساً إِيمَانُهَا لَمْ تَكُنْ آمَنَتْ مِنْ قَبْلُ أَوْ كَسَبَتْ فِي إِيمَانِهَا خَيْراً وَأَنَّ الْمَوْتَ حَقٌّ وَأَنَّ نَاكِراً وَنَكِيراً حَقٌّ.

وَأَشْهَدُ أَنَّ النَّشْرَ حَقٌّ وَالْبَعْثَ حَقٌ‏ وَأَنَّ الصِّرَاطَ حَقٌّ وَالْمِرْصَادَ حَقٌّ وَالْمِيزَانَ حَقٌّ وَالْحَشْرَ حَقٌ ‏وَالْحِسَابَ حَقٌّ وَالْجَنَّةَ وَالنَّارَ حَقٌّ وَالْوَعْدَ وَالْوَعِيدَ بِهِمَا حَقٌ.

‏يَا مَوْلاَيَ، شَقِيَ مَنْ خَالَفَكُمْ وَسَعِدَ مَنْ أَطَاعَكُمْ فَاشْهَدْ عَلَى مَا أَشْهَدْتُكَ عَلَيْهِ ‏وَأَنَا وَلِيٌّ لَكَ بَرِي‏ءٌ مِنْ عَدُوِّكَ فَالْحَقُّ مَا رَضِيتُمُوهُ وَالْبَاطِلُ مَا أَسْخَطْتُمُوهُ‏ وَالْمَعْرُوفُ مَا أَمَرْتُمْ بِهِ وَالْمُنْكَرُ مَا نَهَيْتُمْ عَنْهُ فَنَفْسِي مُؤْمِنَةٌ بِاللَّهِ وَحْدَهُ لاَ شَرِيكَ لَهُ وَبِرَسُولِهِ‏ وَبِأَمِيرِ الْمُؤْمِنِينَ وَبِكُمْ يَا مَوْلاَيَ أَوَّلِكُمْ وَآخِرِكُمْ وَنُصْرَتِي مُعَدَّةٌ لَكُمْ وَمَوَدَّتِي خَالِصَةٌ لَكُمْ آمِينَ آمِينَ

۶۷

اور پھر زیارت کے بعد یہ دعا پڑھے:

اَللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ أَنْ تُصَلِّيَ عَلَى مُحَمَّدٍ نَبِيِّ رَحْمَتِكَ وَكَلِمَةِ نُورِكَ‏ وَأَنْ تَمْلَأَ قَلْبِي نُورَ الْيَقِينِ وَصَدْرِي نُورَ الْإِيمَانِ وَفِكْرِي نُورَ النِّيَّاتِ وَعَزْمِي نُورَ الْعِلْمِ‏ وَقُوَّتِي نُورَ الْعَمَلِ وَلِسَانِي نُورَ الصِّدْقِ وَدِينِي نُورَ الْبَصَائِرِ مِنْ عِنْدِكَ ‏وَبَصَرِي نُورَ الضِّيَاءِ وَسَمْعِي نُورَ الْحِكْمَةِ وَمَوَدَّتِي نُورَ الْمُوَالاَةِ لِمُحَمَّدٍ وَآلِهِ عَلَيْهِمُ السَّلاَمُ حَتَّى أَلْقَاكَ وَقَدْ وَفَيْتُ بِعَهْدِكَ وَمِيثَاقِكَ فيسعني رَحْمَتُكَ يَا وَلِيُّ يَا حَمِيدُ.

اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ حُجَّتِكَ فِي أَرْضِكَ وَخَلِيفَتِكَ فِي بِلاَدِكَ وَالدَّاعِي إِلَى سَبِيلِكَ ‏وَالْقَائِمِ بِقِسْطِكَ وَالثَّائِرِ بِأَمْرِكَ وَلِيِّ الْمُؤْمِنِينَ وَبَوَارِ الْكَافِرِينَ وَمُجَلِّي الظُّلْمَةِ وَمُنِيرِ الْحَقِّ وَالنَّاطِقِ بِالْحِكْمَةِ وَالصِّدْقِ وَكَلِمَتِكَ التَّامَّةِ فِي أَرْضِكَ الْمُرْتَقِبِ الْخَائِفِ وَالْوَلِيِّ النَّاصِحِ ‏سَفِينَةِ النَّجَاةِ وَعَلَمِ الْهُدَى وَنُورِ أَبْصَارِ الْوَرَى وَخَيْرِ مَنْ تَقَمَّصَ وَارْتَدَى‏ وَمُجَلِّي الْعَمَى (الْغَمَّاءِ) الَّذِي يَمْلَأُ الْأَرْضَ عَدْلاً وَقِسْطاً كَمَا مُلِئَتْ ظُلْماً وَجَوْراً إِنَّكَ عَلَى كُلِّ شَيْ‏ءٍ قَدِيرٌ.

اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى وَلِيِّكَ وَابْنِ أَوْلِيَائِكَ الَّذِينَ فَرَضْتَ طَاعَتَهُمْ وَأَوْجَبْتَ حَقَّهُمْ وَأَذْهَبْتَ عَنْهُمُ الرِّجْسَ وَطَهَّرْتَهُمْ تَطْهِيرا.

۶۸

اًاللَّهُمَّ انْصُرْهُ وَانْتَصِرْ بِهِ لِدِينِكَ وَانْصُرْ بِهِ أَوْلِيَاءَكَ وَأَوْلِيَاءَهُ وَشِيعَتَهُ وَأَنْصَارَهُ وَاجْعَلْنَا مِنْهُمُ.

‏اللَّهُمَّ أَعِذْهُ مِنْ شَرِّ كُلِّ بَاغٍ وَطَاغٍ وَمِنْ شَرِّ جَمِيعِ خَلْقِكَ ‏وَاحْفَظْهُ مِنْ بَيْنِ يَدَيْهِ وَمِنْ خَلْفِهِ وَعَنْ يَمِينِهِ وَعَنْ شِمَالِهِ وَاحْرُسْهُ وَامْنَعْهُ مِنْ أَنْ يُوصَلَ إِلَيْهِ بِسُوءٍ وَاحْفَظْ فِيهِ رَسُولَكَ وَآلَ رَسُولِكَ وَأَظْهِرْ بِهِ الْعَدْلَ وَأَيِّدْهُ بِالنَّصْرِ وَانْصُرْ نَاصِرِيهِ وَاخْذُلْ خَاذِلِيهِ وَاقْصِمْ قَاصِمِيهِ وَاقْصِمْ بِهِ جَبَابِرَةَ الْكُفْرِ وَاقْتُلْ بِهِ الْكُفَّارَ وَالْمُنَافِقِينَ وَجَمِيعَ الْمُلْحِدِينَ حَيْثُ كَانُوا مِنْ مَشَارِقِ الْأَرْضِ وَمَغَارِبِهَا بَرِّهَا وَبَحْرِهَا وَامْلَأْ بِهِ الْأَرْضَ عَدْلاً وَأَظْهِرْ بِهِ دِينَ نَبِيِّكَ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَاجْعَلْنِي اللَّهُمَّ مِنْ أَنْصَارِهِ وَأَعْوَانِهِ وَأَتْبَاعِهِ وَشِيعَتِهِ ‏وَأَرِنِي فِي آلِ مُحَمَّدٍ عَلَيْهِمُ السَّلاَمُ مَا يَأْمُلُونَ وَفِي عَدُوِّهِمْ مَا يَحْذَرُونَ ‏إِلَهَ الْحَقِّ آمِينَ يَا ذَا الْجَلاَلِ وَالْإِكْرَامِ يَا أَرْحَمَ الرَّاحِمِينَ "

۶۹

دعا عہد صغیر:

یہ دعا روزانہ نماز صبح کے بعد اما م عجل اللہ فرجہ الشریف کی زیارت کے اعتبار سے پڑھنی چاہیے جوکہ بحار اور زادالمعاد میں یوں وارد ہوئی ہے:

اَللَّهُمَّ بَلِّغْ مَوْلاَيَ صَاحِبَ الزَّمَانِ صَلَوَاتُ اللَّهِ عَلَيْهِ عَنْ جَمِيعِ الْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَاتِ ‏فِي مَشَارِقِ الْأَرْضِ وَمَغَارِبِهَا وَبَرِّهَا وَبَحْرِهَا وَسَهْلِهَا وَجَبَلِهَا حَيِّهِمْ وَمَيِّتِهِمْ‏ وَعَنْ وَالِدَيَّ وَوُلْدِي وَعَنِّي مِنَ الصَّلَوَاتِ وَالتَّحِيَّاتِ زِنَةَ عَرْشِ اللَّهِ وَمِدَادَ كَلِمَاتِهِ ‏وَمُنْتَهَى رِضَاهُ وَعَدَدَ مَا أَحْصَاهُ كِتَابُهُ وَأَحَاطَ بِهِ عِلْمُهُ.

‏ اللَّهُمَّ (إِنِّي) أُجَدِّدُ لَهُ فِي هَذَا الْيَوْمِ وَفِي كُلِّ يَوْمٍ عَهْداً وَعَقْداً وَبَيْعَةً فِي رَقَبَتِي.

‏ اللَّهُمَّ كَمَا شَرَّفْتَنِي بِهَذَا التَّشْرِيفِ وَفَضَّلْتَنِي بِهَذِهِ الْفَضِيلَةِ وَخَصَصْتَنِي بِهَذِهِ النِّعْمَةِ فَصَلِّ عَلَى مَوْلاَيَ وَسَيِّدِي صَاحِبِ الزَّمَانِ وَاجْعَلْنِي مِنْ أَنْصَارِهِ وَأَشْيَاعِهِ وَالذَّابِّينَ عَنْهُ‏ وَاجْعَلْنِي مِنَ الْمُسْتَشْهَدِينَ بَيْنَ يَدَيْهِ طَائِعاً غَيْرَ مُكْرَهٍ فِي الصَّفِّ الَّذِي نَعَتَّ أَهْلَهُ فِي كِتَابِكَ‏ فَقُلْتَ صَفّاً كَأَنَّهُمْ بُنْيَانٌ مَرْصُوصٌ عَلَى طَاعَتِكَ وَطَاعَةِ رَسُولِكَ وَآلِهِ عَلَيْهِمُ السَّلاَمُ.اللَّهُمَّ هَذِهِ بَيْعَةٌ لَهُ فِي عُنُقِي إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ(۱)

____________________

۱:- زاد المعاد: ص۳۲۲

۷۰

نماز صاحب الزمان عجل اللہ فرجہ الشریف:

کتاب جمال الاسبوع وغیر ہ میں وارد ہوا ہے کہ بارگاہ خداوندی میں یہ دو رکعت نماز ہے جس کی ہر رکعت میں سورہ الحمد اور اخلاص کی تلاوت کرنی ہے اورالحمدمیں إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ

کا(۱۰۰)سو مرتبہ تکرار کرنا ہے۔

ایک اور روایت میں ہے کہ اس نماز کے بعد نبیﷺ پر صلوات پڑھے۔

اور سید ابن طاؤس کی روایت کے مطابق اس کے بعد یہ دعا(۱) پڑھے:

اللَّهُمَّ عَظُمَ الْبَلاَءُ وَبَرِحَ الْخَفَاءُ وَانْكَشَفَ الْغِطَاءُ وَضَاقَتِ الْأَرْضُ ومُنعت السَّمَاءُ وَإِلَيْكَ يَا رَبِّ الْمُشْتَكَى وَعَلَيْكَ الْمُعَوَّلُ فِي الشِّدَّةِ وَالرَّخَاءِ.

اللَّهُمَّ صَلِّ عَلَى مُحَمَّدٍ وَآلِ مُحَمَّدٍ الَّذِينَ أَمَرْتَنَا بِطَاعَتِهِمْ وَعَجِّلِ اللَّهُمَّ فَرَجَهُمْ بِقَائِمِهِمْ وَأَظْهِرْ إِعْزَازَهُ ‏يَا مُحَمَّدُ يَا عَلِيُّ يَا عَلِيُّ يَا مُحَمَّدُ اكْفِيَانِي فَإِنَّكُمَا كَافِيَايَ، ‏يَا مُحَمَّدُ يَا عَلِيُّ يَا عَلِيُّ يَا مُحَمَّدُ انْصُرَانِي فَإِنَّكُمَا نَاصِرَايَ‏، يَا مُحَمَّدُ يَا عَلِيُّ يَا عَلِيُّ يَا مُحَمَّدُ احْفَظَانِي فَإِنَّكُمَا حَافِظَايَ، ‏يَا مَوْلاَيَ يَا صَاحِبَ الزَّمَانِ

____________________

۱:- ایک روایۃ میں ہے کہ حضرت صاحب الامرؑ نے یہ دعا کسی کو تعلیم فرمائی تو اس کی برکت سے وہ قتل ہونے سے بچ گیا۔(مؤلف)

۷۱

يَا مَوْلاَيَ يَا صَاحِبَ الزَّمَانِ يَا مَوْلاَيَ يَا صَاحِبَ الزَّمَانِ‏ الْغَوْثَ الْغَوْثَ الْغَوْثَ أَدْرِكْنِي أَدْرِكْنِي أَدْرِكْنِي الْأَمَانَ الْأَمَانَ الْأَمَانَ(۱)

____________________

۱:- جمال الاسبوع:۲۸۰، بحارالانوار:۹۱/۱۹۰

۷۲

فصل دوم

دعا برائے تعجیل ظہور امام مہدی (عجل اللہ فرجہ الشریف) کے فوائد

یہاں ہم حضرت صاحب الزمان ؑ کے ظہور میں تعجیل کے لیے دعا کرنے کے فوائد ذکر کرتے ہیں۔

یہ فوائد مختلف آیات و روایات سے جمع کیے گئے ہیں جوکہ بہت زیادہ ہیں لیکن ہم یہاں صرف چودہ فوائد ذکر کرنے کی سعادت حاصل کرتے ہیں۔

پہلا فائدہ:

اس سے عمر طولانی ہوتی ہے۔ جیساکہ اس کتاب میں مذکور دوسری دعا میں وارد ہوا ہے جو کہ امام صادق ؑ سے مروی ہے کہ یہ دعا ہر فریضہ نماز کے بعد پڑھی جانی چاہیے۔(۱)

____________________

۱:- مکارم الاخلاق ۲۸۹۔۔۔۔اسی کتاب میں گزر چکی ہے۔

۷۳

دوسرا فائدہ:

امام عجل اللہ فرجہ الشریف کا حق ادا کرنے کے طریقوں میں سے ایک یہ ہے کہ ان کے ظہور میں تعجیل کے لیے دعا کی جائے۔ جیسا کہ حضرت امیرالمومنین علیہ السلام سے منقول ہے کہ:

وَ قَضَاءُ حُقُوقِ اَلْإِخْوَانِ أَشْرَفُ أَعْمَالِ اَلْمُتَّقِينَ (۱)

"اپنے بھائیوں کے حقوق ادا کرنا متقین کے بہترین اعمال میں سے ہے۔"

بے شک اما م عجل اللہ فرجہ الشریف سردار ہیں اور تمام مومنین سے افضل ہیں۔پس ان کا حق ادا کرنا اعمال خیرمیں سے اہم ترین اور افضل ترین عمل ہے۔

____________________

۱:- بحارالانوار ۷۴/۲۲۹ ضمن حدیث ۲۵

۷۴

تیسرا فائدہ:

دعا رسول خدا کی شفاعت کے حصول کا سبب ہے جیسا کہ آپﷺ سے روایت کیا گیا ہے۔(۱) اور بعض روایات میں یہ بھی ہے کہ یہ حضرت حجت ؑکی شفاعت کے حصول کا سبب ہے۔

چوتھا فائدہ:

امام ؑ کے لیے دعا کرنے والے کو اللہ امام ؑ کا مددگار قرار دیتا ہے۔کیونکہ مدد و نصرت کی اقسام میں سے ایک قسم دعا کرنا ہے۔اور ان کی نصرت اللہ تعالی کی نصرت ہے۔اللہ تعالی کا ارشاد ہے کہ :

" وَلَيَنْصُرَنَّ اللّـٰهُ مَنْ يَّنْصُرُه " (۲)

"اوراللہ اس کی ضرور مدد فرمائے گا جو ان کی مدد کرے گا۔"

پانچواں فائدہ:

اس سے امام عجل اللہ فرجہ الشریف مسرور ہوتے ہیں۔

____________________

۱:- الخصال ۱۹۶ ج۱ فرمایا: میں چار لوگوں کی بروز قیامت شفاعت کروں گا چاہے وہ تمام اہل زمین کے گناہ لے کے آئیں۔میرے اہلبیتؑ کی مدد کرنے والا،وقت ضرورت ان کی حاجات پوری کرنے والا،اپنےدل و زبان سے ان سے محبت کرنے والا اور اپنے ہاتھ سے ان کا دفاع کرنے والا۔

۲:- سورۃ حج ۴۰

۷۵

الکافی میں امام محمد باقر علیہ السلام سے مروی ہے:

"وَ مَا عُبِدَ اَللَّهُ بِشَيْءٍ أَحَبَّ إِلَى اَللَّهِ مِنْ إِدْخَالِ اَلسُّرُورِ عَلَى اَلْمُؤْمِنِ " (۱)

"اللہ تعالی کو کوئی عبادت اتنی زیادہ پسند نہیں جتنا مومن کو مسرور کرنا پسند ہے۔"

چھٹا فائدہ:

اس دعا کی بدولت حضرت حجت عجل اللہ فرجہ الشریف بھی اس دعا کرنے والے کے لیے دعا فرماتے ہیں۔ یہ بات بہت سی روایات میں موجود ہے۔(۲)

ساتواں فائدہ:

حضرت حجت عجل اللہ فرجہ الشریف کے لیے دعا کرنے سے تمام مومنین کے لیے دعا کرنے کا ثواب حاصل ہوتا ہے۔کیونکہ ان کے ظہور کا فائدہ ناصرف تمام مومنین کو ہوگا بلکہ آسمانوں اور زمینوں میں موجود تمام مخلوقات کوبھی اس کا فائدہ پہنچے گا۔جیسا کہ میں نے اپنی کتاب مکیال المکارم(۳) میں بہت سی

____________________

۱:- الکافی ۲/۱۸۸ ج ۲

۲:- مھیج الدعوات ص۳۶۰:(اور جو میری اتباع کریں انہیں اپنے دین کی نصرت کے لیے مؤید قرار دے اور انہیں اپنی راہ میں مجاہد قرار دے اور جو مجھ پر اور ان پربرائی کا ارادہ کرے اس کے خلاف ان کی مدد فرما۔۔

۳:- مکیال المکارم ۱/۳۷۷ الباب الخامس

۷۶

روایات ذکر کرکے واضح کیا ہے لہذا اگر آپ اس نیت کے ساتھ ان کے لیے دعا کریں گے توآپ نے گویا تمام مخلوقات کے لیے دعا کی ہے۔

آٹھواں فائدہ:

یہ امام عجل اللہ فرجہ الشریف کے لیے اظہار محبت کا ایک ذریعہ ہے کیونکہ آپ اولاد رسول ؐ ہیں اور ان کے قربیٰ میں سے ہیں پس ان کے لیے دعا کرنا اور محبت کا اظہار کرنا دراصل اجر رسالت ادا کرنا ہے۔

ارشاد باری تعالی ہے:

"قُلْ لَّآ اَسْاَلُكُمْ عَلَيْهِ اَجْرًا اِلَّا الْمَوَدَّةَ فِى الْقُرْبٰى " (۱)

"کہہ دیجیے کہ میں تم سے اس تبلیغ رسالت پر کوئی اجر نہیں مانگتا سوائے اس کے کہ میرےاقرباءسے محبت کرو۔"

نواں فائدہ:

دعا کرنے والے سے زمانہ غیبت میں بلائیں دور ہوتی ہیں۔(۲)

____________________

۱:- سورۃ شوری:۲۳

۲:- الکافی ۲/۵۰۷ ح۲،(آدمی کا اپنے بھائی کے لیے دعا کرنا غیب کو ظاہر کرتا ہے رزق کو کھینچ لاتا ہے اور بلائیں دور کرتا ہے۔)

۷۷

دسواں فائدہ:

ظہور امامؑ میں تعجیل کی دعا کرنا اللہ و رسول ﷺاور کتاب خدا کی تعظیم کرنا ہےکہ وہ ظہور کے بعد اسی پر عمل پیرا ہونگے اور یہ دین خدا کی تعظیم ہے اس لیے کہ وہ ظہور کے بعد اس دین کو تمام ادیان پر غالب کریں گے اور اس میں تمام مسلمانوں کی تعظیم ہے کہ وہ انہیں کفار سے نجات دلائیں گے اور یہ سب جنت میں داخل ہونے کا سبب ہے جیسا کہ رسول خدا ؐ سے کتاب خصال میں مروی ہے۔(۱)

گیارہواں فائدہ:

تعجیل فرج کے لیے دعا کرنے سے مظلوم کی مدد کرنے کا ثواب حاصل ہوتا ہے۔اور یہ عمل بروز قیامت پل صراط کو آسانی سے عبور کرنے کا سبب ہے۔جیسا کہ حضرت امام زین العابدین علیہ السلام سے مروی ہے۔(۲)

____________________

۱:- الخصال ص۲۸ ح۱۰۰، (حاملین قرآن اہل جنت کے جانے پہچانے ہیں۔

۲:- اس کی تفصیل مکیال المکارم ۱/۴۳۹ میں موجود ہے۔الصحیفۃ السجادیہ ص۳۲۳ دعا۱۴۷

۷۸

بارہواں فائدہ:

تعجیل فرج کی دعا کرنے والے کو حضرت رسول خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور حضرت امیرالمومنین علیہ السلام کے ساتھ مل کر جہاد کرنے کا ثواب عطاء ہوتا ہے۔(۱)

تیرہواں فائدہ:

اس سے وہ اجر حاصل ہوتاہے کہ جسے اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا اور وہ سیدالشہداء کے خون کا انتقام لینے میں کامیابی کا ثواب ہے۔کیونکہ حضرت حجت ؑسیدالشہداءؑ کے خون کا انتقام لیں گے۔پس جتنا آپ تعجیل ظہور کی دعا کریں گے اتنا آپ ان کے اس عمل میں شریک ہوں گے۔

چودہواں فائدہ:

ایک روایت جوکہ کتاب کمال الدین میں احمد بن اسحاق سے وارد ہوئی ہے کہ :

____________________

۱:- مجمع البیان ۹/۲۳۸۔حارث بن مغیرہ کہتا ہے ہم ابو جعفر ؑ کے پاس تھے فرمایا:جو کوئی تم میں سے اس امر کی معرفت رکھتا ہے اور اس کا منتظر ہے وہ قائم کے ساتھ جہاد کرنے والوں میں شمار ہوگا۔پھر فرمایا:بلکہ رسول خداؐ کے ساتھ جہاد شمارہوگا۔پھر تیسری بار فرمایا: بلکہ اللہ کی قسم وہ ایسے ہی ہے جیسے اس نے رسولؐ کے خیمے میں شہادت پائی ہو۔

۷۹

میں ابو محمد الحسن بن علی ؑ کی خدمت میں شرفیاب ہوا اور جاننا چاہتا تھاکہ ان کے بعد امام کون ہوں گےتو انہوں نے خود ہی ابتداءکرتے ہوئے فرمایا:

"اے احمدبن اسحاق اللہ نے جب سے آدم کو خلق فرمایا تب سے زمین کو خالی نہیں چھوڑا۔ اور وہ مخلوق پر اپنی حجت کے قیام تک زمین کو خالی نہیں چھوڑے گا۔وہ ان کے ذریعے زمین والوں سے بلائیں دور کرتا ہے۔اور ان کی برکت سے بارشیں نازل ہوتی ہیں۔اور ان کی وجہ سے زمین کی برکات ظاہر ہوں گی۔راوی کہتا ہے میں نے کہا: اے فرزند رسول ؐ!تو پھر آپ کے بعد امام اور خلیفہ کون ہیں ؟ تو امامؑ جلدی سے اٹھے اور گھر کے اندر تشریف لے گئے اور جب باہر تشریف لائے تو ان کے ہاتھ میں ایک تین سالہ بچہ تھا کہ جس کا چہرہ چودہویں کے چاند کی طرح چمک رہا تھا۔ پھر امامؑ نے فرمایا: اےاحمد بن اسحاق! اگر اللہ اور اس کی حجتوں کے سامنے تیری فضیلت نہ ہوتی تو تجھے اپنے اس بچے کی زیارت نہ کراتا ۔اس کا نام اور کنیت رسول خداؐ والی ہے۔اور یہ زمین کو عدل و انصاف سے ایسے بھر دے گا جس طرح وہ ظلم و جور سے بھری پڑی ہوگی ۔

اےاحمد بن اسحاق ان کی مثال اس امت میں خضر ؑ اور ذوالقرنین کے جیسی ہے۔خدا کی قسم یہ اتنا عرصہ غائب رہیں گےکہ اس میں کوئی نجات نہیں پائے گا سوائے اس کے کہ جس کو اللہ ان کی امامت پر ثابت قدم فرمائے گااور ان کے ظہور میں تعجیل کے لیے دعا کرنے کی توفیق عطا فرمائے گا۔ "

۸۰

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161