خورشیدفقاہت

خورشیدفقاہت0%

خورشیدفقاہت مؤلف:
زمرہ جات: اسلامی شخصیتیں

خورشیدفقاہت

مؤلف: آیت اللہ سید عادل علوی
زمرہ جات:

مشاہدے: 9297
ڈاؤنلوڈ: 2205

تبصرے:

خورشیدفقاہت
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 24 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 9297 / ڈاؤنلوڈ: 2205
سائز سائز سائز
خورشیدفقاہت

خورشیدفقاہت

مؤلف:
اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں تنظیم ہوئی ہے

خورشیدفقاہت

مصنف : آیت اللہ سید عادل علوی

مترجم : اصغراعجازقائمی۔ بی۔ اے۔ فاضل مشرقیات

اھداء

میں استادعلام حضرت آیۃ اللہ العظمیٰ سیدشہاب الدین مرعشی نجفی کےدرخشاں حالات زندگی پرمشتمل اس حقیرپیش کش کوخون حسین علیہ السلام کے حقیقی منتقم حضرت بقیۃ اللہ الاعظم اروحنالہ الفداء کی بارگاہ میں نیز امت اسلامیہ اورحوزات علمیہ کےنام اھداء کرتاہوں۔

شفاعت کاخواہاں

دعاکاطالب

عادل علوی

تقریظ

حجۃ الاسلام والمسلمن عالی جناب مولانا محمدمجتبیٰ علی خان صاحب ادیب الہندی

ہمارے ہندوستان کے قادرالکلام مایہ نازشاعرمحترم معجزجلالپوری صاحب کےفرزندارجمنداصغراعجازقائمی صاحب جلالپوری بے پناہ صلاحیتوں کے مالک ہیں درس وتدریس میں تواپناسکہ بہت پہلےجماچکے تھےجامعہ ناظمیہ ہندوستان میں تعلیمی مراحل امتیازی حیثیت سےگزارنےکےبعدتکمیل علم کیلئے حوزہ علمیہ قم پہونچے رفتہ رفتہ معلوم ہوسا کہ موصوف علمی ترقیوں کے ساتھ ساتھ شعروشاعری کےدرجات بھی طے کررہے ہین اورشاعرانہ مزاج علمی امتزاج سے نیارنگ پیداکرتاہے ۔

یہ ساری خوبیان ایک طرف علم کی وادی میں اترنے کے بعداندازمیں نکھارپیداہواتوتصنیف وتالیف کاسلسلہ بھی شروع ہوگیا۔

الحمدللہ آپ کی پہلی کتاب حضرت آیۃ اللہ العظمیٰ سیدشہاب الدین مرعشی نجفی طاب ثراہ کی سوانح حیات"قبسات"کااردوترجمہ خورشیدفقاہت، کےنام سے منظرعام پرآرہی ہے ۔

وہ علماء جوپوری زندگی دین حق کی خدمت اوراس کی نشرواشاعت کیلئے زبان وقلم سے جہاد کرتے رہے ہیں ان میں ایک اہم نام حضرت آیۃ اللہ العظمیٰ سیدشہاب الدین مرعشی نجفی طاب ثراہ کاہے۔آپ نےپوری عمرعلم کی خدمت میں گزاری ولایت آپ کاخاص موضوع تھااخلاق الحق پرآپ کاحاشیہ اس بات کازندہ ثبوت ہے اس کے علاوہ فقہ وحدیث ،علم کلام تفسیرقرآن ،حساب ہندسہ ، علم افلاک ،علم طب ،ہرموضوع پراپنے وقت کے اہم اساتذہ سے رجوع کیااوراسی کانتیجہ تھاکہ شہر علم واجتہاد قم میں آپ کی شخصیت ایک بے مثل شخصیت تھی علم انساب میں آپ کوید طولیٰ حاصل تھااوراس علم میں آپ کاکوئی نظیرنہیں جس مردحق آگاہ نے پوری زندگی حق وصداقت کادرس دیااب اس برگزیدہ شخصیت کی سوانح بھی وہی عظمت رکھتی ہے اورپڑھنے والےکوتیزی سے حق کی طرف قدم بڑھانے کی دعوت دیتی نظرآرہی ہے۔

قابل مبارکبادہیں محترم اصغراعجاز قائمی صاحب کہ انھوں نے اس اہم کتاب کواردوکاقالب عطاکیاتاکہ اردو داں حضرات بھی علماء کی زندگی اورخدمات سےواقف ہوسکیں۔

میں دست بہ دعاہوں کہ خداوندعالم توفیقات نیک عطافرمائے اورحضرت معصومہ قم کاکرم شامل حال رہے تاکہ موصوف ہندوستان کے مسلمانوں اوربالخصوص شیعیان آل محمدکےلئے بہترسے بہترموضوعات پرکتاب لکھیں۔

والسلام

ادیب الہندی

۴شعبان المعظم ۱۴۱۵ہجری

روزولادت حضرت ابوالفضل العباس

طہران۔۔۔ ایران

عرض مترجم

آیۃ اللہ العظمیٰ سیدشہاب الدین مرعشی حسینی نجفی کی ذات باصفات ایک آفتاب عالم تاب کی حیثیت رکھتی تھی جس کی روشن کرنیں فقط ایران ہی میں نہیں بلکہ دوسرے ممالک کوبھی درخشان کئے ہوئے تھیں۔

زہد وتقوی ،رفتارو کردار ، ایمان وعرفان اورخلوص وللہیت جیسے اخلاق وصفات حمیدہ اورکمالات جلیلہ میں اپنی مثال آپ تھےشایداسی عرفان وایمان کانتیجہ تھاکہ آپ کئی مرتبہ حضرت امام (عج)کی زیارت سے مشرف ہوئے۔ اورکئی مرتبہ عالم مکاشفہ میں حضرت فاطمہ معصومہ قم کادیدارکیالہذاضروری تھاکہ ایسی باکمال شخصیت سے اردو داں حضرات بھی آگاہ ہوں۔

اسی خیال کے پیش نظرجب میں حضرت امام رضاعلیہ السلام کی زیارت کیلئے عازم سفرتھااستادحجۃ الاسلام والمسلمین سیدعادل علوی صاحب قبلہ میں نے ان کی کتاب قبسات کے ترجمہ کی درخواست کی انھوں نے قبول فرمایااورمجھے کتاب ترجمہ کرنے کیلئے مرحمت فرمائی ۔میں کتاب لیکرمشہدمقدس روانہ ہوگیااوروہاں کی متبرک اورمعنوی فضامیں حضرت امام رضاعلیہ السلام سے توسل کرتے ہوئے ضریح اقدس کےقریب اس کتاب کےترجمے میں مشغول ہوا۔ الحمدللہ امام کی برکتوں سے یہ کام جومجھے بہت دشوارمعلوم ہورہاہے تھاآسان ہوگیا۔

ظاہرہے مطلب کوایک زبان سے دوسری زبان میں منتقل کرناآسان نہین ہوتالہذامیں نے تحت اللفظی ترجمہ کومعیار نہین بنایابلکہ مولف کے اصل مفہوم کوترجمے کےساتھ اپنے الفاظ میں بیان کیاہے۔

ارباب قلم سے بصدخلوص گزارش ہے کہ اگر الفاظ وعبارات کی ترکیب وتوجیہ اوران کے معانی ومفاہیم کی ادائیگی میں کوئی غلطی نظرآئے تواس کی راہنمائی فرمائیں تاکہ آئندہ ایڈیشن میں اسکی تصحیح ہوجائے ۔

آخرمیں استادحجۃ الاسلام والمسلمین مجتبیٰ علی خان قبلہ ادیب الہندی کاشکریہ اداکرنااپنافریضہ سمجھتاہوں اس لئے کہ انھوں نے اپنے ایران کےمختصرقیام کے دوران اس کتاب پر تقریظ ثبت فرمائی ساتھ هی ساتھ حجۃ الاسلام والمسلمین سید احتشام عباس صاحب زیدی کابھی نهایت هی ممنون و مشکور هوں که انهوں نے اپنی علمی اورادبی مصروفیات کےباوجود ابتداء سے انتہاتک اس ترجمہ کی تصحیح وترتیب میں کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کیا۔خداان حضرات کوجزائے خیردے۔

والسلام

اصغراعجازقائمی۔ بی۔ اے۔ فاضل مشرقیات

(مدرسہ حجتیہ )حوزہ علمیہ قم۔۔۔۔ ایران

مقدمہ مولف

الحمد لله الذی خلق الانسان و علمه البیان والصلاة والسلام علیٰ النبی الاعظم والوصی الاکرم محمدخاتم الانبیاء وعلیٰ سیدالوصیاء وعلیٰ آل رسول الله الهداة المیامین الطیبین الطاهرین، فی الارضین خاتم الوصیین مولاناصاحب الزمان القائم المنتظرعجل الله فرجه وسهل مخرجه امابعد :

"خداوند عالم کی حمدوثنااورمحمدوآل محمد پردرودوسلام کےبعد"

ہرشخص اس بات پرگواہ کہ بے علماء اسلام کی زندگی بذات خودایک درس اور مشعل حیات ہے جوراستوں کوروشن ومنورکرتی ہے، انسانیت کوگمراہی اورپستی کی طرف سبقت کرنے سے نجات دیتی ہے۔

ان کی زندگیاں روشن چراغ کی ہیں جوانسانی معاشرے کوروشنی بخشنے کیلئے پیہم جلتی رہتی ہیں ان کی حیات کےماہ وسال وہ باثمردرخت ہیں جوآنے والی نسلوں کونیک زندگی کےثمرات اوراس کابہترین ذائقہ عطاکرتی ہیں ۔ان کی حیات کےایام وہ گلاب اورپھول ہیں جن سے زندگی میں خوشبوبکھرتی ہے۔

نیک اورصالح علماء ہی گمراہی اورپستی سے شریعت کی حفاظت کرتے ہیں یہی لوگ فسق وفجوراورغرورتکبرسےانسانیت کوبچاتے ہیں ان کی بصیرت ،دوربینی،ایمان راسخ اورعلم کامل کانتیجہ ہے کہ دین شیاطین کی کارستانیوں سے محفوظ رہتاہے۔

دین کےنیک افرادہی رسول کے امین ،امتوں کےرہبر،قبائل کےرہنما،انسانی معاشرے کاچراغ ،اللہ کےسفیراورانبیاء واوصیاء کےوارث ہیں۔

اگرنیک اورروشن فکرعلماء کاوجودنہ ہوتاتومعاشرے کےتاروپودبکھرجاتےماضی کےآثار مٹ جاتے ۔تہذیب کےپھول مرجھاجاتے ،انسانی عزت وآبروخاک میں مل جاتی دین کےآثاردھندلے ہوجاتے ،گمراہوں کی حکومت ہوتی،جہالت وبدبختی کےناخن درآتے۔

علماء اعلام کادنیاسے اٹھ جانازمین پرایک نقص اورزندگی کیلئے ایک ستم ہے خداوندعالم فرماتاہے "( أَوَلَمْ یَرَوْاْ أَنَّا نَأْتِی الأَرْضَ نَنقُصُهَا مِنْ أَطْرَافِهَا ) "(۱)

(کیاوہ لوگ نہیں دیکھتے کہ ہم زمین کواس کےاطراف سےگھٹاتے چلے آئے ہیں)

اسی آیت کےذیل میں حضرت امام محمدباقرعلیہ السلام نےاپنی ایک حدیث میں فرمایاہے۔"انمانقص الارض بموت العالم۔"بےشک باعمل عالم کےاٹھ جانے سے روئے زمین پرنقص پیداہوجاتاہے ۔

"واذا مات العالم الفقیة ثلم فی الاسلام ثلمة لایسدهاشی ء الابقیه آخر

(اورجب کوئی فقیہ عالم دنیاسےاٹھتاہےتواسلام میں ایک رخنہ پڑجاتاہے جسے دوسرے فقیہ کےعلاوہ کوئی چیزپرنہیں کرسکتی)

حضرت رسول اکرم خاتم النبیین ؐ نے ہمارے درمیان لوگوں کی ہدایت وسعادت کیلئے دوگرانقدرچیزیں چھوڑی ہیں قرآن کریم اوراہلبیت علیہم السلام کتاب خداایک ایسی رسی ہے جس کاسلسلہ آسمان سے زمین تک ہے اوراہل بیت اطہارعلیہم السلام وہ قرآن ناطق ہیں جوہمارے درمیان قرآن صامت کے ترجمان ہیں اہل بیت اطہارعلیہم السلام کے پاس جوبھی علم وعرفان کی دولت ہےوہ سب قرآنی سرمایہ ہے اس لئے یہ دونوں چیزیں ہرگزجدانہیں ہوسکتیں جب تک نبی اکرمؐ کےنزدیک حوض کوثرپرواردنہ ہوں۔ہم نے ان دونوں بیش بہاچیزوں سے قول وعمل اورکرداروعقیدے کی بنیاد ہی تمسک اختیارکیاہے لہذاہم نبی اکرمؐ کی وفات کےبعد سےروزجزاتک ہرگزصراط مستقیم سے جدانہ ہوں گے۔ائمہ کرام شریعت کے محافظ ہیں اورغنیمت کبریٰ کے زمانے میں ائمہ کی طرح ہی فقہاء عظام اس کے پاسبان ہیں جولوگوں کوخیروصلاح کی تعلیم دیتے ہیں۔

"اما من کان من الفقهاء صائنالنفسه حافظالدینه مخالفالهواه مطیعالامرمولاه فعلیٰ العوام ان یقلدوه " جوفقیہ اپنے نفس کی نگہداشت اوراپنے دین کی حفاظت کرنے والاہوخواہشات نفسانی کامخالف اورامرمولاکامطیع وفرمانبردارہوعوام پراس کی تقلیدکرناواجب ہے۔

اسلامی علوم سے آگاہ اورالٰہی معارف کے سالک کامل فقہاء عظام اورمرجع کرام کےدرمیان استادعلام کی ذات باکمال بھی نمایاں تھی۔

آپ بزم فقہاء میں ایک بے مثل متقی فقیہ اورمستحکم عقل وفیصلے کے مالک تھے۔

مصنفین کی محفل میں عظیم الشان مولف اوربلندوبلامویدتھے۔

اخلاق فاضلہ میں سچےاستاداورشریف امین تھے۔

سیاست میں تیروسنان اورسیف ہندی کےمانندتھے۔

علم نسب میں ماہرفن اورتجربہ کارتھے ۔

مختلف علوم وفنون میں قادراستادصاحب نظراورمشہورمحقق تھے۔

اپنے زمانے میں شیخ الاجازہ اورسیدالکرامہ تھے ۔

آپ کی آنکھیں پرکشش ،ہونٹ متبسم، اورچہرہ ایساتھاجس سے صالحین کی صباحت متقین کی ہیبت اورمومنین کاوقارجھلکتاتھا۔ آپ کاچہرہ ہشاش وبشاش اوردل غمگین رہاکرتاتھاآپ کی باتیں صحیح ودرست ،لباس سادہ،پاکیزہ اوررفتارمتواضع تھے۔آپ خالق کون ومکان کواپنے دل میں عظیم اوراس کےماسواء کواپنی نظرمیں ہیچ سمجھتے تھے۔آپکی فکرجوالہ،ذکرجوہرخیز،بحث وگفتگوجمیل اورملاقات کریمانہ ہواکرتی تھی،آپ کاسراپاوجودغافلوں کوبیدارکرنے والااورجاہلوں کوآگاہ کرنے والاتھاجوتکلیف نہیں دیتےتھےمحرمات سے بری اورشبہات سے پرہیزکرنے والے تھے آپ بہت زیادہ بخشش کرنے والے اوردوسرے سے بہت کم خدمت لینے خدمت والے تھے آپ کادیدارشریں اورعبادت طولانی ہواکرتی تھی جوآپ سے جہالت کرتاتھااس کےمقابلے میں حلیم وبردبارتھے اورجوگستاخی کرتاتھااس پرصبرکرنے والے تھے بزرگوں کااحترام اورچھوٹوں پررحم کرتے تھے آپ کاطرزعمل ادب کی تصویرکلام حیرت انگیزدل متقی اورعلم زکی تھاآپ خداکی رضاپرراضی اورشکرگزارعفیف شریف نیک محفوظ وفاداراور کریم تھے جوآپ سے کچھ روکتاتھااسی کوعطاکرتےاورجوقطع تعلق اختیارکرتااسی سے صلہ رحم کرتے تھے آپ خوش مزاج کم خوراک ظریف وفطین محبت میں خالص عہدوپیمان میں کھرے دقیق النظر اوربہت خاشع تھے آپ کی نگاہ عبرت سکوت فکراورکلام حکمت تھاآپ نفسانی خواہشات کے مخالف امرمولاکے مطیع وفرمانبردار تھے آپ بہت کم آرام کرتے اورہمیشہ چاق وچوبندتھے آپ میں لجاجت ہٹ دھرمی کذب وعنادحسدونمیمہ اورکبرونخوت نام کوبھی نہیں تھامومنین آپ کواپنے اموراوراموال میں امین بناتے تھے آپ سے خیروصلاح کی امیدیں کی جاتی تھے برائیاں آپ سے کوسوں دورتھیں اورفقروفاقہ آپ کے نزدیک تونگری سے زیادہ محبوب تھاآپ نے اپنے اندرمتقین کے صفات اورانبیاء اوصیاء کے کمالات جمع کررکھیں تھے۔

میں نے ان صفات اورملکات فاضلہ کواستادعلام کی ذات میں بارہالمس اورمحسوس کیاہے اگرکوئی ایک مرتبہ بھی آپ کی ہم نشینی اختیارکرلیتاتووہ آپ کےنیک اخلاق کشادہ روئی وسعت علمی اورکامل معرفت کاکلمہ پڑھنے لگتاتھا۔آپ اپنی محفل میں مختلف داستانیں بیان کرتے تاکہ ہم نشینوں پرگراں نہ گزرےآپ کی بزم سے جوبھی اٹھ کرجاتاتھاوہ اپنے علم میں اضافہ ،آخرت کی طرف رغبت ،اورخداکے ذکرسے لگاومحسوس کرتاتھا۔اس کےتمام رنج وغم دورہوجاتے تھےاوراسے ایسالگتاتھاجومصیبت اس کے اوپرپڑی ہے اسے آ پ کی زبان سے رہاہے اسی وجہ سے آپ کی بزم اہل دردسے خالی نہیں رہتی تھی۔

اورجہاں تک آپ کےزہدتقویٰ کی بات ہے تویہ آپ کےمشہورترین اوصاف میں سےتھے جن کاہرخاص وعام گرویدہ تھا۔

مجھے استادعلام کےبلندوبالامقام کےشایان شان حالات زندگی تحریرکرنے کی تاب نہیں ہےمیں آپ کی پاکیزہ زندگی سےشرمندہ ہوکراپنی تنگ دامانی کااعتراف کرتاہوں۔

میں اپنے پورے عزت وافتخارکےساتھ استادعلام کےحالات زندگی پرمشتمل یہ کتاب پیش کرنے کی سعادت حاصل کرتاہوں اورمیری امیدیں ایسے صاحب فن تذکرہ نویسوں سے وابستہ ہیں جواستادعلام کی زندگی پرتسلط رکھتے ہیں۔

ممکن ہے استاد علام کی زندگی کے بارے میں یہ مختصرسی کتاب اہل فن اورصاحبان علم کیلئے مفیدثابت ہوساتھ ہی اپنی اس حقیرپیش کش کوروزقیامت کیلئے ذخیرہ اورانبیاء واوصیاء نیزان کے جانشین علماء کی شفاعت کاوسیلہ سمجھتاہوں ،جس نے کسی مومن کی تاریخ بیان کی اس زندگی بحشی اورآیت کی روشنی میں "جس نے ایک نفس کوزندہ کیااس نے تمام لوگوں کوزندگی عطاکی"

میں تمام ان لوگوں کاشکرگزارہوں ہوں جنہوں نے اس کتاب کی تالیف کے سلسلے میں کسی نہ کسی شکل میں میری مددکی اورخداکی بارگاہ میں ان کی مزیدتوفیقات کیلئے دست بی دعاہوں وہی بہترین ناصرومعین اوسمیع ومجیب ہے۔

____________________

(۱) ۔ سورہ رعد آیہ/ ۴۱