حیات استادچندسطروں میں
آپ ۲۰ صفرالمظفر سنہ ۱۳۱۵ہجری قمری کونجف اشرف میں پیداہوئے آپ کانسب شریف ۳۳ واسطوں سے حضرت امام زین العابدین علیؑ ابن حسین ؑبن علی ابن ابی طالب تک پہونچتاہے ۔
آپ کےوالدسیدمحمودشمس الدین مرعشی نجف اشرف کےجیدعلماء میں سے تھے اورآپ کے داداسیدالحکماء تھے۔
نجف اشرف میں آپ نے منارہ علم وفضل حضرت آیۃ اللہ العظمیٰ ضیاءالدین عراقی سے اورطہران وقم میں موسس حوزہ قم حضرت آیۃ اللہ العظمیٰ شیخ عبدالکریم حائری سے اپنی علمی تشنگی کوسراب کیا۔
حوزہ علمیہ قم میں آپ کاشمارعظیم ترین مدرسین میں تھا۔
آپ کاپہلارسالہ عملیہ ذخیرۃ المعاد کے نام سے ۱۳۷۰ہجری میں شائع ہوا۔
آپ جودوسخااورزہدوتقویٰ میں اتنامشہورہوئے کہ ضرب المثل قرارپائے۔
آپ نے مختلف علوم وفنون میں ایک سوسے زائدکتابیں اوررسالے تالیف کئے ہیں جن میں سب سے اہم احقاق الحق پرآپ کی تعلیقات ہیں جو۲۴ جلدوں میں شائع ہوئی ہے۔
آپ اسلامی ،سماجی اورثقافتی امورمیں بھی بڑھ چڑھ کرحصہ لیتے تھے اوران پراپناکثیرسرمایہ خرچ کرتے تے انہیں میں سے قم مقدسہ میں آپ کازبردست عمومی کتاب خانہ بھی ہے۔
آپ نے ۷صفرالمظفرسنہ ۱۴۱۱ہجری قمری میں شب پنجشنبہ ۹۶ سال کی عمرمیں وفات پائی اوراپنےکتابخانہ ہی میں دفن ہوئے۔
آپ کی نیکی کےساتھ زندگی بسرکی اورنیکی کےساتھ موت کوگلے لگایاہمارا سلام ہو اس دن پرجب آپ پیداہوئے اس دن پر جب آپ کی موت آئی اوراس دن پرجب آپ زندہ مبعوث کئے جائیں گے۔
کچھ آپ کے پاکیزہ نسب کے بارے میں
خداوندکریم قرآن مجیدمیں ارشاد فرماتاہے۔"(
قل لااسئلک علیه اجراً الا المودة فی القربی
)
ٰ"اے رسول کہہ دو میں تم سے اپنی آل کی محبت کےعلاوہ اجررسالت نہیں چاہتا۔
نیزقرآن کاارشادہے۔"(
ذریة بعضهامن بعض والله سمیع علیم
)
"بعض کی اولاد کوبعض سے برگزیدہ کیااورخداسب کی سنتااورسب کچھ جانتاہے۔
استاد علام اصلاب طاھرہ اور ارحام مطھرہ سے نسلابعدنسل نہایت ہی باعظمت گھراورایسے ذکی خاندان میں پیداہوئے جوابتداء ہی سے علم وسیادت وشرافت کامرکزرہاہے آپ کانسب ۳۳واسطوں سے امام زین العابدین سیدالساجدین حضرت علیؑ ابن حسین ؑ بن ابی طالب ؑ تک پہونچتاہے۔
آپ اپنے نسب کی بلندی کےبارے میں فرماتے ہیں ہم خاندان علویہ میں حسب ونسب کے اعتبار سے اصیل اورفضائل ،تقوی عبادت عفاف وکفاف اورطہارت ضمیر میں سابق ترین ہیں ہماراگھردلوں کی جائے پناہ اوربزرگی وشرافت کومحورہے اسی وجہ سے دشمنوں کے دلوں میں آتش حسدبھڑک رہی ہے ہم یہاں اس پاکیزہ سلسلے کاذکراختصارسےکرتے ہیں۔
۱۔ آیۃ اللہ العظمیٰ السیدشہاب الدین المرعشی النجفی۔
۲۔ ابن علامہ زاھدونساب حضرت آیۃ اللہ العظمیٰ شمس الدین محمودالمرعشی جن کی وفات سنہ ۱۳۳۸ ہجری قمری میں ہوئی اورنجف اشرف کےقبرستان وادی السلام میں دفن ہوئے ۔
آپ کےکچھ استاتذہ اورمشائخ روایت کےنام یہ ہے۔
محقق مرحوم فاضل شریبانی۔ محقق خراسانی صاحب کفایۃ الاصول۔ سیدمحمدکاظم یزدی صاحب عروۃ الوثقیٰ ۔شیخ محمدحسن مامقانی۔ شیخ عباس کاشف الغطاء۔ شیخ ہادی طہرانی ۔شیخ آقارضاہمدانی۔ شیخ الشریعہ الاصفہانی ۔یہ وہ حضرات ہیں جوفرقہ امامیہ کی عظیم شخصیتوں میں شمارہوتے ہیں۔
آپ نے اپنے والد،فاضل شریبانی۔ شیخ محمدحسن مامقانی۔صاحب جوہر،مرحوم نوری صاحب مستدرک الوسائل ،مرحوم حاج ملاعلی خلیلی، سیداسماعیل صدر،سیدمعزالدین قزوینی حلی،مرزاصالح قزوینی ،مرزاجعفرطباطبائی ،مرزامحمدہمدانی ،امام حرمین مولالطف اللہ لاریجانی مازندرانی، صاحب عروۃ الوثقیٰ،اورسیدمرتضیٰ کشمیری سے روایت کی ہے۔
علم نسب آپ نے مرحوم حاج محمدنجف کرمانی اوران کے والد سید جعفر اعرجی کاظمی صاحب کتاب مناھل الضرب فی انساب العرب سے حاصل کئے۔
علوم الہیہ میں آپ کے اساتذہ مرحوم سیدحیدر حلی ،سیدجعفر حلی اورسیدابراہیم طباطبائی آل بحرالعلوم ہیں۔
علوم ریاضیہ میں آپ کےاساتذہ ملااسماعیل قرۃ باغی ، غلام حسین دربندی اورمرزامحمدعلی رشتی جیسے قابل ذکرہیں۔
علم کلام میں آپ کےاستاذ سیداسماعیل عقیلی صاحب کتاب کفایۃ الموحدین تھے علم رجال میں مرحوم شیخ ملاعلی خاقانی نجفی کے اسماء لئے جاتے ہیں ۔
علم اخلاق وسیروسلوک میں مرحوم آخوندملاحسین قلی ہمدانی اورسید مرتضیٰ کشمیری جیسے بزرگوار آپ کےاساتذہ تھے۔
آپ نے اہم تالیفات چھوڑی ہیں جن میں مشجرات العلوین ،ھادم اللذات ۔
رسالہ درحالات آل ابن طاووس جومجمع الدعوات کےضمیمہ کے ساتھ شائع ہوا،حاشیہ کفایہ،حاشیہ لمعہ وقوانین، ریاض المسائل اورقانون لابن سینافی علم الطب قابل ہیں۔
۳۔ ابن علامہ محقق جامع منقول ومعقول آیۃ اللہ العظمیٰ السیدشرف الدین المعروف بہ سیدالحکماء۔
آپ سنہ ۱۲۰۲ ہجری کربلائے معلی میں پیداہوئے اور۱۳۱۶ ہجری ۱۱۴ سال کی عمرمیں وفات پائی۔
آپ کی اہم تالیفات میں درجہ ذیل کتابیں ہیں۔
۱۔قانون العلاج ۔۔۔۔۔ جوتبریز سے شائع ہوئی۔
۲۔ زاد المسافرین ۔جامع العلل اوررسالۃ الجدری جوتہران سے شائع ہوا۔
۳۔ حاشیہ قانون ابن سینا۔
۴۔ شرح نفیسی۔
۵۔ شرح اسباب۔
۶۔ شرح زیارۃ جامعہ۔
۷۔ حاشیہ جواہر۔
۸۔ حاشیہ فرائد ازشیخ انصاری۔
۹۔ رسالۃ فی السیر والسلوک
۱۰۔ سفرنامہ۔
آپ ہی نے سب سے پہلے ایران میں مصنوعی دانتوں کوایجاد کیا۔
آپ کے انتقال کے بعدآپ کا جسمبارک شہرتبریز سے نجف اشرف منتقل کیاگیا۔
آپ کے اساتذہ میں شیخ اعظم انصاری ،صاحب جواہر،شیخ حسن،صاحب فصول اورصاحب ضوابط قابل ذکر ہیں۔
آپ نے صاحب ضوابط ،صاحب فصول۔صاحب جواہر،مرزافتاح بن یوسف طباطبائی اورشیخ انصاری سے روایت کی ہے اس کے علاوہ علمائے اہل سنت سے بھی روایت کی ہے جس میں شیخ محمدمصری کانام قابل ذکرتحریرہے۔
آپ نے دین اسلام کی ترویج کیلئے مختلف اسلامی ممالک مثلاً ایران ،ہنداورمصرکےسفربھی کیے ہیں آپ شیخ محمدعبدہ کے رفقاء میں سے تھے جب خدانے آپ کوایک بیماری سے شفابخشی توشیخ محمدعبدہ نے ایک بہترین قصیدہ کہاتھاجس کامطلع یہ ہے۔
صحت بصحتک الدنیامن العلل یابن الوصی امیرالمومنین
اے امیرالمومنین علی ؑ کےفرزنددنیاآپ کی صحت کی بدولت بیماری سے صحتیاب ہوگئی آپ کے ساتھ بیٹے تھے۔
مرحوم آیۃ اللہ مرزاجعفرافتخارالحکماء متوفی۔۔۔۔ ۱۳۱۸ھ
آپ کی تالیفات میں تقویم الشریعہ ،رسالہ فی امراض الحصبہ ،رسالہ فی الجدری ،الاطباء الاسلامیون اوررسالہ فی حرقۃ البول شامل ہیں۔
مرحوم مرزاالسیدمحمدالمرعشی الملقب بمعظم السادات ۔
مرحوم آیۃ اللہ مرزااسماعیل شریف الاسلام جوتہران کے علماء میں سے تھے۔
مرحوم آیۃ اللہ السید شمس الدین محمودالمرعشی والدعلام۔
مرحوم مرزاابراہیم المرعشی۔
مرحوم مرزاعبدالغفارالمرعشی۔
اس کےعلاوہ سیدکے حالات زندگی ریحانۃ الادب ج ۳ص۱۱۶۔۔۔پر بھی تحریرہیں۔
استاذ علام نے اپنے دادا کے حالات زندگی کےبارے میں فرمایاہے یہ جلیل القدرشخصیت فقہ واصول، حدیث وتاریخ ،رجال وانساب ،جفرورمل اورمثلثات واوفاق میں نابغہ روزگار اورعجوبہ کائنات تھی۔
علوم شمسیہ ۔زحلیہ اورقمریہ میں بھی انھیں مہارت تامہ حاصل تھی۔
۴۔ ابن علامہ نساب فقیہ ومتقی السیدمحمدنجم الدین الحائری آپ کی وفات ۱۲۶۴ہجری میں ہوئی اورنجف اشرف کےقبرستان وادی السلام میں دفن ہوئے ۔
آپ صاحب قوانین مرزاقمی اورکاشف الغطاء کےشاگردوں میں تھے اورآپ کوان دونوں سے نیزشیخ حسن نجف اورصاحب مفتاح الکرامہ سے اجازہ روایت بھی حاصل تھا۔
آپ کی اہم تالیفات اورمفیدحواشی میں حسب ذیل کتابیں ہیں۔
حاشیہ برکتاب عمدۃ الطالب،حاشیہ فقیہ ،نقدمشیحۃ الفقیہ ،رسالہ دراسطرلاب ،رسالہ درنجوم رسالہ دردوائرہندیہ۔
۵۔ ابن علامہ فقیہ متکلم شاعر نساب الحاج السیدمحمدابراہیم الحائری آپ کی وفات ۱۲۴۰ ہجری میں ہوئی آپ نقیب الاشراف کےنام سے مشہورہوئے ،فقہی اوراصولی کتابوں پرآپ کی تعلیقات موجودہیں نیزشجرہ سادات سے متعلق ایک کتاب مشجرات السادات بھی موجودہے۔
۶۔ ابن علامہ نساب نقیب السیدشمس الدین آپ کی وفات ۱۲۰۰ ہجری میں ہوئی اوراصفہان میں دفن ہوئے۔
۷۔ ابن علامہ صاحب کرامات مجدالمعانی قوام الدین نساب مولف کتاب نفی الریب عن نشاۃ الغیب دراثبات معادآپ کی والدہ سلطان حسین صفوی کی بیٹی تھیں جو۱۱۴ہجری میں افغانیوں کے فتنہ کےدوران قتل ہوئے ۔
۸۔ابن علامہ نساب نقیب نصیرالدین جوسفرحج میں امام زمانہ کی ملاقات سے مشرف ہوئے عربی اورفارسی زبان میں آپ کےقصائد ومراثی کادیوان موجودہے۔
۹۔ ابن علامہ محدث شاعرادیب نساب السیدجمال الدین آپ کی وفات ۱۸۰۱عیسوی میں ہوئی۔
۱۰۔ابن علامہ اصولی متکلم نساب حکیم علاوالدین نقیب الاشراف آپ کی تالیفات میں کفایۃ الحکیم درفلسفہ ،کتاب المصباح درفقہ اورکتاب النبراس فی المیزان ہیں۔
۱۱۔ ابن علامہ وزیرنقیب السیدمحمدخان آپ کی وفات ۱۰۳۴ہجری میں ہوئی علم تفسیر وتجویدمیں آپ کی تالیفات موجود ہیں۔
۱۲۔ ابن علامہ نقیب السیدابومجدمحمدالنقی جوشافعی کردوں کےہاتھوں اپنے عقیدے اورمحبت اہل بیت ؑ کی بناپرسنہ ۱۰۲۰ ہجری میں شہید ہوئے۔
۱۳۔ ابن وزیرمیرسیدخان المرعشی۔
۱۴۔ ابن میرسیدعبدالکریم خان ثانی سلطان طبرستان واطراف آن ۔
۱۵۔ابن سلطان میرسیدعبداللہ خان المرعشی۔
۱۶۔ ابن سلطان میرسیدالکریم خان الاول۔
۱۷۔ ابن سلطان میرسید محمدخان المرعشی۔
۱۸۔ ابن سلطان میرسید مرتضیٰ خان المرعشی۔
۱۹۔ ابن سلطان میرسید علی خان۔
۲۰۔ ابن سلطان میرسید کمال الدین الصادق ۔آپ نے تیمورمغولی سے جنگ کی آپ کی شجاعت اورجنگ کے واقعات تاریخ حبیب السیر میں مرقوم ہیں۔
۲۱۔ابن سلطان جامع منقول ومعقول متکلم فقیہ السید قوام الدین جومیرکبیرالمرعشی سلطان طبرستان کےنام سے مشہورہوئے آپ کی وفات ۸۰ ہجری میں ہوئی آپ کامزارشہرآمل کےسبزہ کے علاقہ میں ہے جوخراسان کے راستے میں واقع ہے آپ کے معرکے کتاب حبیب السیر اورروضۃ الصفامیں درج ہیں۔
۲۲۔ابن السیدکمال الدین الصادق نقیب ری۔
۲۳۔ابن زاہدابوعبداللہ نقیب بعض انساب کی کتابوں میں آپ کانام نامی علی مرتضیٰ بھی ہے۔
۲۴۔ ابن شاعرادیب فقیہ ابومحمدہاشم نساب شہرطبرستان میں آپ کامزارہے جوآج ایک زیارتگاہ ہے۔
۲۵۔ابن فقیہ ابوالحسن نقیب ری وطبرستان۔
۲۶۔ ابن شریف ابوعبداللہ الحسین۔
۲۷۔ابن محدث متقی ابومحمدحسن نساب۔
۲۸۔ابن زاہدصاحب کرامات ابوالحسن سیدعلی المرعشی وہ ذات گرامی ہے جن کی طرف تمام سادات مرعشیہ کانسب منتہی ہوتاہے خواہ وہ ایران میں ہوں یادوسرے ممالک میں۔
۲۹۔ابن ابومحمد عبداللہ عالم نساب محدث جوامیرالعافین یاامیرالعافین یامیرالمومنین کےلقب سے مشہورہیں۔
۳۰۔ابن شاعرمحدث ابومحمدالاکبرجوابوالکرم کے لقب سے معروف ہیں۔
۳۱۔ ابن فقیہ محدث نساب ابومحمدحسن الدکۃ جوحکیم راوی مدنی کے نام سے مشہورہیں آپ نے روم وترکیہ کے حوالی میں وفات پائی۔
۳۲۔ ابن ابوعبداللہ حسین الاصغرآپ کی وفات ۱۵۷ہجری میں ہوئی مدینہ منورہ کے قبرستان جنت البقیع میں دفن ہوئے آپ اپنے والدماجداوراپنے برادرحضرت امام محمدباقرؑ سے روایت کرتےہیں۔
۳۳۔ابن مولاناوامامناابوالحسن زین العابدین علی بن سیدالشہداابی عبداللہ الحسین ؑجورسول خداؐ کے نواسے اورامیرالمومنین امام المتقین قائدالغرالمیامین اسداللہ الغالب علی بن ابی طالب کےفرزندہیں تاصبح قیامت جب تک یہ گردش لیل ونہار قائم رہے ان پردرود وسلام ہو۔ اگرکوئی ان بزرگترین سادات ،عترت رسول ؐ اورخاندان آل مرعشی کی زندگانی کے متعلق مزید معلومات کاخواہشمندہے تواسے درج کتابوں کامطالعہ کرناچاہیے۔
۱۔ روضۃ الصفا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ازمیرآخوند
۲۔ حبیب السیر۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ازمیرآخوند
۳۔ عالم آرای عباسی ۔۔۔ ۔۔۔ ازاسکندربیگ ترکمان کاتب شاہ عباس اول۔
۴۔مجالس المومنین۔۔۔۔۔۔۔ ازشہیدثالث
۵۔ تاریخ طبرستان۔۔۔۔۔۔۔ ازسیدظہیرالدین مرعشی۔
۶۔ریاض العلماء ۔۔۔۔۔۔۔۔ ازعبداللہ آفندی اصفہانی۔
۷۔ الانساب۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ازابوسعیدعبدالکریم بن محمدبن منثورالسمعانی۔
۸۔ریحانۃ الادب۔۔۔۔۔۔۔ ازمرزامحمدعلی مدرس۔
۹۔اعیان المرعثین ۔۔۔۔۔۔۔ ازآیۃ اللہ مرعشی(محظوط)
۱۰۔ التدوین فی جبال شروین ۔۔۔۔ ازاعتمادالسلطنہ۔
۱۱۔ آثارالشیعہ الامامیہ ۔۔۔۔۔ ازعبدالعزیزصاحب جواہر۔
۱۲۔ تاریخ سادات مرعشی۔۔۔۔۔۔ ازڈاکٹرستودہ۔
۱۳۔ مجمع التوریخ ۔۔۔۔ ازسید محمدخلیل المرعشی۔
۱۴۔ دائرۃ المعارف تشیع۔۔۔۔ ج۱ ص۲۱۹۔
نیزاس کے علاوہ دوسری بعض انساب ،تراجم اورتاریخ ورجال کی کتابوں کی طرف بھی رجوع کیاجاسکتاہے۔
یہ خاندان علم وادب ،دین وسیاست اورسلطنت وثقافت میں ایک بلندوبالامقام پرفائزاورہمیشہ حق وحقیقت کی راہ پرگامزن رہاہے باالخصوص یہ خاندان اپنے اس فرزنداستاد علام حضرت آیۃ اللہ العظمیٰ سیدشہاب الدین المرعشی النجفی کےاوپربجاطورپرنازکرتاہے جنہوں نے معقول ومنقول کوایک جگہ جمع کردیا آپ تمام صفات حمیدہ اورکمالات نفسیہ کی بہترین مثال تھے آپ نے اپنے بعدآنے والوں کیلئے لوگوں کےدرمیان صدق ذکرطیب اورحب خالص کےآثار چھوڑے۔
نسب کان علیه من شمش الضحیٰ نوراً ومن فلق الصباح عموداً
وہ ایسے حسب ونسب کےمالک ہیں جوخورشیدکی نوربارانیوں کی وجہ سے بہت ہی روشن ومنور ہے اوریہ ایسانور ہےجوسپیدہ سحرکےنمودار ہونے سے عمودکی شکل میں چمکتاہے۔
فهؤلاء آبائی فجئنی بمثلهم اذاجمعتنایاجریرالمجامع
یہی لوگ میرے آباء واجداد ہیں لہذااے جیریرجب مجامع ہمیں فخرومباہات کیلئے جمع کریں توتم ہمارے لئے ان کامثل لےآو۔
ولادت اورابتدائی تربیت
خداوند عالم قرآن مجیدمیں ارشادفرماتاہے۔"وسلام علیہ یوم ولد"اوران پرسلام ہوجس دن پیداہوئے۔
استادعلام ۲۰ صفرسنہ ۱۳۱۵ہجری صبح پنجشنبہ نجف اشرف میں پیداہوئے آپ کانام محمدحسین لقب شہاب الدین اورکنیت ابوالمعالی ہے۔
آپ نے ایسے والدین کی آغوش میں آنکھ کھولی جورفعت وشرف میں کریم اورفضل وادب میں کامل تھے لہذاآپ نے فضیلت وتقویٰ کی دولت اپنے متقی اورپرہیزگاروالدین سے ورثہ میں پائی ۔
آپ نے علم وعمل صالح اورپاکیزہ اخلاق وکردار کومحسوس کرتاہے اوراسے اپنے وجودمیں جذب کرتاہے جسے علم حسی سے تعبیرکیاگیاہے یہ بچہ اپنے ایام طفولیت ہی سے ہمیشہ خیروصلاح کی جانب پیش قدم رہا۔دین حنیف کواپنی شدیدتوجہ کامرکزبنائے رہا۔رسولؐ اوران کے اہل بیت اطہارؑ کی محبت میں شرشار رہااوراعمال صالحہ کے پرچم کےسائے میں قدم بڑھاتارہا۔
کسی نے سچ کہاہے بچے کی پہلی درسگاہ اس کاگھراورپہلامدرس اس کی ماں ہے اگرچہ اساس کے اخلاق وکردارکی اساس وبنیاد باپ کےذریعہ ہوتی ہے پس بچہ پہلی مرتبہ اپنے گھراوراپنے ماحول میں جوکچھ دیکھتااورلمس کرتاہے وہ اس کے ذہن پرنقش ہوجاتاہے اس کے آثار اس کے وجودمیں ہمیشہ درخشاں ہوتے ہیں ۔مثل ہے بچپنے کاعلم پتھرکی لکیرہوجاتاہے کیونکہ طفل اپنے والدین کےگھراورپہلی درسگاہ میں اپنے اساتذہ اورمربی سے جواخلاق وآداب اخذکرتاہے اس سے شاذ ونادرہی منحرف ہوتاہے۔
اس روش اوربلندمفہوم کی روشنی میں ہم اسلام کوایساپاتے ہیں جومسلمانوں اورمومنوں کوصحیح اوربہترین تربیت اولادکی طرف مائل کرتاہے۔اورانعقاد نطفہ سے پہلے ہی بچے کی نشوونمااورصحیح تربیت کی طرف توجہ دیتاہے بہترین افعال ،پسندیدہ اخلاق اوراچھے عادات واطوارکی طرف اسے راغب کرتاہے انحطاط خلقی اورناپسندیدہ امورسے اسے دورکرتاہے۔
استاذعلام ایسے ہی خاندان علم وشرف وسیادت میں پیداہوئے جولوگوں کی نگاہوں کامرکزتھا۔
آپ نے مجھ سے ایک دن بیان فرمایاکہ ان کے والدانھیں محقق آخوندکےدرس میں لےگئے جب کہ ابھی وہ حدبلوغ
تک بھی نہ پہنچے تھے۔اورجب بھی آپ کی والدہ گرامی یہ کہتی تھی کہ اپنے والدکوبیدارکرو کوشاق گزارتاتھاکہ اپنے والدکوآواز دیکربیدارکریں لہذاآپ اپناچہرہ اوررخساران کےتلوؤں پررگڑتےتھے جس سے وہ ہلکی سی گدگدی کےبعد بیدارہوجاتے اوراپنے نیک فرزندکی یہ تواضع وانکساری دیکھ کران کی آنکھیں آنسوؤں سےلبریز ہوجاتیں اورآسمان کی طرف اپنے ہاتھوں کوبلندکرکے اپنے اس فرزندکی مزیدتوفیق کی دعاکرتے تھے۔
استاد علام اکثر فرمایاکرتے تھےیہ بلندوبالامقام اوردین کےامورمیں خداکی توفیقات میرے والدین کی دعاؤں ہی کانتیجہ ہے۔
ایسی دسیوں حکایتیں استادعلام کی حیات ایام طفولیت اورعنفوان شباب کی سنی جاتی ہیں جواس بات کی طرف نشاندہی کرتی ہیں کہ دین اوراس کےاوامرنیز الٰہی احکام پرعمل کرناان کے وجودمیں ابتدائے حیات ہی سے رچ بس گیاتھاآپ اپنی پوری زندگی شریعت اسلامیہ کےمطابق بسرکرنے میں خاص اہتمام برتتے تھے۔
آپ نے مجھ سے ایک دن بیان کیاجب وہ نجف اشرف میں تھے ۲۵ مرتبہ پاپیادہ ابوعبداللہ الحسین ؑ سیدالشہداء کی زیارت سے مشرف ہوئے وہ طلبہ کی ایک جماعت کیساتھ زیارت کیلئے جایاکرتے تھےجودس افراد پرمشتمل ہوتی تھی جن میں سیدحکیم، سیدشاہرودی، اورسیدخوئی جیسےحضرات شامل رہاکرتے تھےانھوں نے فرمایاہم مراجع تقلید ،فقہاء اورمجتہدین کے ساتھ ہمیشہ سفرکرتے اوراس میں پیش آنے والے کام اپنے درمیان تقسیم کرلیاکرتے تھے میراکام یہ تھاکہ میں ہرمنزل پرلوگوں کیلئے پانی کاانتظام کرتاتھاکوئی کھاناپکاتاکوئی چائے درست کرتاتھاسوائے سیدشاہرودی کے وہ کہتے تھے میرافریضہ یہ ہے کہ میں سفرمیں آپ لوگوں کوخوش رکھوں اورراستے کی صعوبتوں اورمشکلوں کوآسان کروں یقیناًوہ بہت ہی پرمذاق اورزندہ دل آدمی تھے وہ کبھی ہمیں شعروسرود سے مسرور کرتے اورکبھی لطیف وبذلہ سنج حکایتوں سے خوشحال کرتے تھے اس طرح ہمیں سفرکی صعوبتوں اوردشواریوں کااحساس تک بھی نہ ہوتاتھا۔
ایسے خاندان اورعلمی وروحانی ماحول میں پلنے والی ہمارے استاد کی شخصیت بلندوبرترمقام اورمرجعیت کی منزل پرکیوں نہ فائزہوتی۔
آپ نے اپنی ضعیفی کے دوران مجھ سے ایک دن فرمایاہے وہ ابتداء بلوغ ہی سے ایسے کام انجام نہیں دیتے تھے جس کی طرف نفس رغبت دلاتاتھابلکہ آپ نفسانی خواہشات کےمخالف اورحکم خداکے اطاعت گزار تھے۔
آپ فرماتے تھےیہ مرجعت جوتم دیکھ رہے ہو میں نے اس کی طرف ایک قدم بھی نہیں بڑھائے بلکہ یہ صرف پروردگار عالم کےلطف پیغمبراوران کےاہل بیت کی عنایتوں کانتیجہ ہے۔
سچ ہے رب کعبہ کی قسم جوخداکاہوجاتاخدااس کا ہوجاتاہےاورجواللہ کاہوجاتاہے اسے برکتیں نصیب ہوتی ہیں استادعلام کی حیات اس مفہوم کی بہترین مصداق تھی۔
____________________