خورشیدفقاہت

خورشیدفقاہت0%

خورشیدفقاہت مؤلف:
زمرہ جات: اسلامی شخصیتیں

خورشیدفقاہت

مؤلف: آیت اللہ سید عادل علوی
زمرہ جات:

مشاہدے: 9326
ڈاؤنلوڈ: 2211

تبصرے:

خورشیدفقاہت
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 24 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 9326 / ڈاؤنلوڈ: 2211
سائز سائز سائز
خورشیدفقاہت

خورشیدفقاہت

مؤلف:
اردو

دوسرامرحلہ:

جسے مرحلہ سطح یامرحلہ سطوح بھی کہتے ہیں اس مرحلے میں فقہ واصول نیزاس فن کی اکثرمتدوال کتابیں مثلاً۔۔۔۔ معالم الدین ،قوانین الاصول، اصول مرحوم مظفریاحلقات شہیدصدر،شرح لمعہ ،رسائل ومکاسب ازشیخ انصاری،کفایہ الاصول ازمحقق خراسانی علم کلام میں شرح باب حادی عشرشرح تجریداورعلم فلسفہ میں منظومہ محقق سبزواری اوراسفارازملاصدرا۔۔شیرازی کےدورس دیئے جاتے ہیں یہ مرحلہ پہلے مرحلے سے اپنی عمیق فکرونظر کے ذریعہ ممتاز ہے اس مرحلے میں حواشی وتعلیقات اوراس فن کی دوسری کتابوں کے ذریعے عملی مسائل کوروشن کرنے کیلئے استدلال کیاجاتاہے اورطالب علم پر واجب ہے کہ وہ استاد کےبتائے ہوئے ہرموضوع میں نظریات وتعلیقات کوقلم بندکرے۔

تیسرامرحلہ۔

یہ دینی مدارس اورحوزات علمیہ میں درس کاآخری مرحلہ ہے اسے مرحلہ خارج بھی کہاجاتاہے اس مرحلے میں طالب علم مجتہدوفقیہ ہوجاتاہے اوراس میں احکام شرعیہ فرعیہ کواس تفصیلی دلائل کتاب وسنت اجماع اوعقل کےذریعہ استنباط کرنے کاملکہ پیداہوجاتاہے۔اس مرحلے میں درس کی کیفیت اس طرح ہے کہ استادپہلے شاگرد کےسامنے ایک مسئلہ بیان کرتاہے اس کےبعد اس مسئلہ کے موافق دلائل وبراہین پیش کرتا ہےاورجس سے متفق نہیں ہوتاہے اس کورد کرکے اپنی خاص علمی رائے بیان کرتاہے اورپھراس مسئلہ میں جوصحیح رائے ہوتی ہے اسے بیان کرتاہے اوراس پردلیلیں لاتاہے کبھی کبھی تواستادایک مسئلہ میں کئی کئی روز تک بحث کرتاہے یہاں تک کہ اس کاآخری نظریہ روشن ہوجاتااس مرحلے میں بحث وتدریس کسی خاص کتاب میں منحصر نہیں بلکہ استاد فقہ واصول کےباب کےمتعلق بالترتیب بحث کرتاہے لیکن دورحاضرمیں اکثردرس خارج اصول فقہ میں کفایہ الاصول ،فقہ میں العروۃ الوثقیٰ ازسیدیزدی یاشرائع الاسلام ازمحقق حلی پرمشتمل ہے یہی وجہ ہے کہ ان کتابوں پرشرحیں اورحاشیے زیادہ پائے جاتے ہیں خاص طورسے ہمارے زمانے میں ۔

حوزات علمیہ میں درس عامہ کی بہ نسبت امتیازی شان رکھتے ہیں اس مرحلے میں خصوصاشاگرد استادسے اس کے بیان کئے ہوئے موضوعات پربحث کرتاہے حوزے میں علم فقیہ کوخاص مرتبہ حاصل ہے کیونکہ دینی مدرسوں اور یونیورسٹیوں میں فقہ کی تعلیم ہی کادرس اصل ہدف ہے حوزے میں فقط فقہاء ومجتہدین ہی نہیں ہوتے بلکہ متکلمین ،فلاسفہ ،ریاضی دان، مناطقہ ،مفسرین ،ادباء ،شعراء ،مولفین ،خطباءاوراس کے علاوہ دوسرے صاحبان علم وفضل وغیرھم بھی پائے جاتے ہیں اب یہاں درس وتدریس اورمدارس کااصل ہدف دین کی نصیحت خداوندعالم کی طرف رہنمائی کرناہے ۔حوزہ علمیہ سے فارغ ہونے والے افراد خداکےاس قول ۔"فلولانفرمن کل فرقۃ طائفہ" کامصداق بن کراطراف واکناف میں دینی تدریس وتربیت اوراسلامی تبلیغ وارشادمیں مشغول ہوتے ہیں نیزمختلف علوم وفنون میں تصنیف وتالیف کافریضہ بھی اداجسکی اسلامی معاشروں کی ضرورت ہوتی ہے ۔اقتباس ازکتاب امام شاہرودی۔

روایت میں آپ کےمشائخ۔

شاید ہمارے زمانے میں علماء عامہ اورخاصہ کی طرف سے اجازہ روایت حاصل کرنے میں استاد علام کاکوئی مثل نہ ہوآپ اس بلندوبرترمقام اورعظیم ترین مرتبے میں یکتاء روزگار اورسب سے آگے تھے۔

اپ کواحادیث امامیہ اورنبویہ ؐ کے نقل کے سلسلے میں تقریباً ۲۰۰ اسلامی شخصیتوں کی طرف سے اجازے حاصل تھے آپ کے فرزندڈاکٹرسیدمحمودمرعشی نے تمام اجازوں کوایک مجموعہ کی شکل میں کیاہے جوانشاء اللہ ۔۔زیورطبع سے آراستہ ہوگااجازہ دینے والوں کی مختصرحالات زندگی بھی اجازے کےساتھ دوجلدوں میں شائع ہوگی پہلی جلدتین فصل اوردوسری جلد صاحبان اجازات کے حالات زندگی پرمشتمل ہے۔

علامہ سیداحمدحسینی جوکثیر تالیفات کے مالک ہیں نے مجھ سے فرمایاہے میں نے صاحبان اجازات کے حالات زندگی مرتب کرلئے ہیں ان میں سے بعض بزرگوں سے میں نے ملاقات بھی کی ہے خداسے دعاہے وہ انھیں اس عظیم کام انجام دینے کی توفیق دے تاکہ صاحبان علم وفضل اورواقف کاران حدیث وراویت اس اہم تالیفات سے بہرہ مندہوسکیں۔

استادعلام نے اپنی کتاب الطرق والاسانید میں اپنے تمام مشائخ کوبطورتفصیل یادکیاہے ہم یہاں القاب وآداب کے بغیرمختصر طورپران آیات عظام اورحجج کرام کے اسماء گرامی فہرست وارتحریرکرتے ہیں۔

۱۔سیدحسن الصدر۔

۲۔الحاج مزاحسین علوی سبزواری۔

۳۔الحاج مرزاعبدالباقی موسوی صفوی شیرازی۔

۴۔ سیدعلی حسینی کوہ کمری تبریزی۔

۵۔ سیدمحمدمھدی موسوی بحرانی غریفی۔

۶۔سیدمحمدحسین ساروی۔

۷۔ الحاج سیدمحسن امین عاملی شامی

۸۔ سیدھبۃ الدین شہرستانی۔

۹۔سیدابوالحسن نقوی جوسیددلدارعلی ہندی کےپوتے تھے۔

۱۰۔سیدعلی نقی نقوی فرزندابوالحسن مذکورمعروف بہ نقن صاحب۔

۱۱۔الحاج سیدابوالحسن دہگردی اصفہانی۔

۱۲۔سیدمحمدرضاحسینی کاشانی ۔

۱۳۔سیدمحمدحسین تہرانی معروف بہ عصار۔

۱۴۔الحاج سید محمدموسوی زنجانی۔

۱۵۔سیدجعفرسیدبحرالعلوم نجفی کےپوتے تھے۔

۱۶۔الحاج سیدعلی شوستری جوسید جزائری کےپوتے تھے۔

۱۷۔سیدصادق رشتی ۔

۱۸۔سیدمحمدصادق آل بحرالعلوم نجفی۔

۱۹۔سیدمحمدفرزندحسین موسوی نجف آبادی اصفہانی۔

۲۰۔ سیدمحمدعلی حسینی تفرشی نجفی۔

۲۱۔سیدمحمدموسوی خلخالی نجفی۔

۲۲۔ سیداحمدمعروف بہ سیدآقاشوستری نجفی۔

۲۳۔ سیداحمدحسینی صفائی خوانساری۔

۲۴۔الحاج سیدناصرحسین ہندی فرزندصاحب عبقات۔

۲۵۔ سیدعبدالحسین شرف الدین موسوی عاملی۔

۲۶۔سیدمحمدموسوی تبریزی معروف بہ مولانا۔

۲۷۔الحاج سیدعلم بصیرالنقوی کابلی۔

۲۸۔سیدآقاحسین اشکوری۔

۲۹۔سیدمحمدحجت کوہ کمری۔

۳۰۔سیدمحمدعلی موسوی شوستری۔

۳۱۔سیدمحمدحسین شاہ عبدالعظیمی رازی۔

۳۲۔ سیدمحمدسعیدحبوبی تحفی ۔

۳۳۔ سیدمحمدعندالرزاق حلوالنجفی۔

۳۴۔سیدعبداللہ سبزواری معروف بہ برہان المحققین۔

۳۵۔سیدعبداللہ بلادی بلادی بحرانی۔

۳۶۔الحاج سیدابوالحسن اصفہانی موسوی۔

۳۷۔سیدمحمدابراہیم شیرازی۔

۳۸۔الحاج سیدآقاحسین طباطبائی قمی۔

۳۹۔ الحاج سیدآقاطباطبائی بروجردی۔

۴۰۔سیدعبدالحسین نبطی۔

۴۱۔سیدۃ خانم امینہ علویہ اصفہانی ۔

۴۲۔سیدنجم الحسن ہندی۔

۴۳۔ الحاج سیدکاظم عصار۔

۴۴۔الحاج سیدعلی نجف آبادی اصفہانی ۔

۴۵۔سیدمحمداصفہانی کاظمینی ۔

۴۶۔الحاج سیدفخرالدین۔

۴۷۔ سیداسماعیل شریف الاسلام مرعشی۔

۴۸۔الحاج سیدحسین قمی معروف بہ کوچہ حرمی۔

۴۹۔سیدمحمدباقرقزوینی ۔

۵۰۔سیدمحمدزنجانی۔

۵۱۔الحاج شیخ عبدالحسین بغدادی۔

۵۲۔ الحاج شیخ محمدرضادزفولی۔

۵۳۔ آخوندمولیٰ محمدحسین فشارکی اصفہانی۔

۵۴۔ شیخ فیاض الدین زنجانی۔

۵۵۔شیخ علی دامغانی۔

۵۶۔ شیخ علی اکبرنہاوندی۔

۵۷۔ شیخ آقابزرگ تہرانی۔

۵۸۔شیخ محمدرضااصفہانی مسجدشاہی۔

۵۹۔شیخ محمدباقرقاینی بیرجندی۔

۶۰۔الحاج مرزاابوالھدی کرباسی۔

۶۱۔الحاج مزامحمدشیرازی نجفی۔

۶۲۔مزاابوالحسن جیلانی معروف بہ شریعت مدار۔

۶۳۔ شیخ محمدصالح نوری طبرسی۔

۶۴۔مرزاابوالحسن مشکینی اردبیلی۔

۶۵۔ شیخ فضل اللہ نوری طبرسی حائری ۔

۶۶۔ شیخ فداحسین قرشی ہندی۔

۶۷۔ الحاج شیخ ابوالقاسم قمی۔

۶۸۔ الحاج شیخ فاضل مشہدی خراسانی۔

۶۹۔الحاج عبداللہ مامقانی۔

۷۰۔ شیخ محمدفراہانی۔

۷۱۔ شیخ ملامھدی بنائی حائری۔

۷۲۔الحاج مرزامحمدتہرانی۔

۷۳۔شیخ علی فرزندجعفرکاشف الغطاء نجفی ۔

۷۴۔ شیخ محمدحرزالدین نجفی۔

۷۵۔الحاج مرزاہادی خراسانی حائری۔

۷۶۔الحاج شیخ علی فرزندابراہیم قمی معروف بہ زاہد۔

۷۷۔ مرزامحمدفرزندمحمدحسن ہمدانی معروف بہ جولانی۔

۷۸۔الحاج مرزایحیی خوئی معروف بہ امام ۔

۷۹۔الحاج شیخ محمدعراقی معروف بہ سلطانی۔

۸۰۔ الحاج شیخ عبدالحسین شیرازی حائری۔

۸۱۔ شیخ باقرقمی۔

۸۲۔شیخ مرتضیٰ طالقانی نجفی۔

۸۳۔ شیخ مرزامحمدعلی جہاردہی رشتی۔

۸۴۔ الحاج مرزاابوالحسن آقامعروف بہ انکجی۔

۸۵۔ شیخ اسماعیل معزالدین اصفہانی۔

۸۶۔ شیخ محمدشریف اردوبادی نجفی۔

۸۷۔شیخ محمدجوادرازی۔

۸۸۔ مرزاحیدرقلی خان سردارکابلی ۔

۸۹۔الحاج مرزاھدایۃ اللہ قزوینی۔

۹۰۔شیخ عبداللہ زنجانی۔

۹۱۔شیخ ضیاءالدین عراقی نجفی۔

۹۲۔شیخ محمدحسین نائینی۔

۹۳۔شیخ محمدجوادفرزندعباس گلپائیگانی ۔

۹۴۔الحاج شیخ مہدی اصفہانی۔

۹۵۔شیخ عیسیٰ فرزندشکراللہ لواسانی تہرانی۔

۹۶۔مرزاحسن حائری شیرازی۔

۹۷۔مرزافخرالدین شیخ الاسلام حسینی قمی جوصاحب قوانین کے نواسے تھے۔

۹۸۔الحاج شیخ عباس قمی۔

۹۹۔شیخ خلف آل عصفور بحرانی۔

۱۰۰۔الحاج مرزاحسن فرزندالحاج ملاعلی علیاری تبریزی۔

۱۰۱۔ مرزامحمدعلی اردوبادی نجفی۔

۱۰۲۔ مرزافضل اللہ زنجانی معروف بہ شیخ الاسلام۔

۱۰۳۔شیخ عبدالغنی عاملی جوشیخ حرعاملی کی نسل سے ہیں۔

۱۰۴۔الحاج مرزاصادق آقاتبریزی۔

۱۰۵۔الحاج شیخ عبدالکریم حائری یزدی۔

۱۰۶۔ شیخ عبدالمحسن خاقانی خرم شہری۔

۱۰۷۔شیخ حسن علی اصفہانی۔

۱۰۸۔مرزامحمدعلی شاہ آبادی۔

۱۰۹۔الحاج مرزامحمدرضاکرمانی۔

۱۱۰۔الحاج شیخ حبیب حبیب اللہ ترشیزی۔

۱۱۱۔آقامرزاآقااصطہباناتی شیرازی نجفی۔

۱۱۲۔الحاج شیخ جوادبلاغی ۔

۱۱۳۔الحاج شیخ مہدی اصفہانی مسجدشاہی۔

۱۱۴۔ شیخ اسماعیل اصفہانی معروف بہ بشمی۔

۱۱۵۔شیخ مہدی قمی حکمی۔

۱۱۶۔الحاج مرزارضاکرمانی۔

۱۱۷۔ الحاج مرزاعلی شہرستانی مرعشی حائری ۔

۱۱۸۔شیخ مرتضیٰ جہرۃ قانی تبریزی۔

۱۱۹۔الحاج امام جمعہ خوئی۔

۱۲۰۔ شیخ سراج الدین فداحسین قرشی۔

۱۲۱۔سیدمحمودمرعشی والداستاد۔ اسکے علاوہ دوسرے علمائے امامیہ نے بھی آپ کواجازہ روایت دیاہے۔

علمائے اسماعیلیہ نے بھی آپ کواجازہ روایت دیاہے جس میں درج ذیل قابل ذکرہیں۔

۱۲۲۔ سیدمحمدہندی مقیم گجرات۔

۱۲۳۔ سیدسیف الدین طاہرجواسماعیلیہ کے امام تھے۔

علمائے زیدیہ سے بھی آپ روایت کرتے تھے۔

۱۲۴۔ سیدقاسم فرزندابراہیم احمدعلوی حسنی زیدی یمانی۔

۱۲۵۔سیدمحمدبن محمدبن اسماعیل منصورمماتی۔

۱۲۶۔شیخ یحیی بن حسین ابن بن ابراہیم سہیل زیدی۔

۱۲۷۔ سیداحمدمحمدزبارۃ الزیدی نقی جمہوریہ عربیہ یمنیہ ۔

۱۲۸۔ سیدیحیی ابن منصورباللہ محمدبن حمیدالدین صنعانی۔

۱۲۹۔ شیخ عبداللہ بن عبدالکریم بن محمدجرافی زیدی۔

۱۳۰۔ شیخ محمدبن محسن سراجی صفائی یمانی۔

۱۳۱۔قاضی احمدبن احمدبن محمدسیاغی زیدی یمانی۔

۱۳۲۔ سیداسماعیل بن احمدبن عبداللہ مختفی زیدی۔

۱۳۳۔ شیخ عبدالرزاق بن عبدالرزاق رقمی زیدی یمانی۔

۱۳۴۔شیخ عبداللہ بن احمدبن رقمی زیدی ۔

۱۳۵۔شیخ محسن بن احمدبن جلال زیدی۔

۱۳۶۔شیخ یحیی بن صالح بن حسین سراج یمانی زیدی۔

علمائے عامہ سے بھی آپ نے روایت کی ہے۔

۱۳۷۔شیخ محمدبہجۃ البیطارحنفی دمشقی مفتی دمشقی۔

۱۳۸۔شیخ احمدبن شیخ امین گفتار مفتی جمہوریہ سوریہ۔

۱۳۹۔سیدحسن الاسعدی شافعی کروی۔

۱۴۰۔شیخ یوسف الدجوی مصری مالکی ۔

۱۴۱۔سیدعلی بن محمدعلوی شافعی یمانی۔

۱۴۲۔ شیخ محمدنجیب المطیعی حنفی مصری۔

۱۴۳۔شیخ ابراہیم حبابی مصری جوسابق میں شیخ ازہرتھے۔

۱۴۴۔شیخ احمدبن محمدمقبول اھدل شافعی یمانی۔

۱۴۵۔شیخ محمداللہ حافظ جی حضورامیرشریعتی بنگلادیشی حنفی

۱۴۶۔شیخ محمد حسن مساط مالکی۔

۱۴۷۔شیخ محمدبن صدیق بطاح اھدل شافعی۔

۱۴۸۔شیخ علوی بن طاہربن عبداللہ الحدادشافعی حضرمی۔

۱۴۹۔شیخ محمدطاہربن عاشورامالکی مغربی۔

۱۵۰۔شیخ عبدالواسع بن یحیی واسعی شافعی یمانی۔

۱۵۱۔سیدابراہیم راوی رفاعی شافعی بغدادی۔

۱۵۲۔شیخ عبدالحفیظ بن محمدطاہرفہری مالکی مغربی ۔

۱۵۳۔شیخ حسین مجدی مدرس شافعی کردستانی۔

۱۵۴۔شیخ داود بن عبداللہ مرزوقی زبیدی شافعی یمانی۔

آپ کی تصنیفات وتالیفات۔

خداوندعالم قرآن مجیدمیں ارشادفرماتاہے۔"ن والقلم ومایسطرون" قسم ہے نون اورقلم اوراس چیزکی جولکھتے ہیں۔

یہ بات پوشیدہ نہین ہے کہ جس کے پاس قلب سلیم اورپاکیزہ سماعت ہے وہ اس بات کی گواہی دے گاکہ سیدشہداء ابوعبداللہ الحسین علیہ السلام عالم مکاشفہ میں روحانی قلم(۱) کے ذریعہ جس پرلطف ومہربانی کریں پھروہ تصنیف وتالیف میں کثیرتعدادکاکیونکرمالک نہ اوراس کے تحریرکردہ رسالے اورکتابوں کی تعدادسوسے کیوں نہ بڑھ جائے اگرچہ مراجع کرام کی تصنیف وتالیف کازمانہ بہت ہی کم ہواکرتاہےجوعلم کی عالی حدسے مرجعیت تک کے درمیان محدودرہتاہے لیکن استادعلام اس کےباوجودبھی مفیدتصنیف وتالیف میں سرگرم رہے جس سے عام وخاص اورمطالعہ ومباحثہ کرنے والے افرادبے نیازنہیں ہیں۔

ایک دن استادنے مجھ سے فرمایامیرے پاس مخطوطات کابوریوں سرمایہ ہے لیکن میری غربت کی وجہ سے میرے پاس کوئی ایساشخص نہیں ہے جواسے سلیقہ سے مدون کرے۔

ایک دن اورایک دلچسپ حدیث کے بارے میں فرمایاعلماء گرمی کے موسم میں شدت حرارت کی وجہ سے حوزہ علمیہ میں تعطیل کرکے قم سے دورایسے سرسبزوشاداب مقامات پرچلے جاتے ہیں جوگرمی کاموسم بسرکرنے کیلئے بہترین علاقہ شمارکیاجاتاہے لیکن میں اسی شہرمیں تحقیق وتالیف کی وجہ سے گرمی کی شدت برداشت کرتارہاکبھی اس دیوارکے سائے میں پناہ لیتاتھاکبھی اس دیوارکے سائے میں اس طرح سالہاسال گزرگئے اورمیں تصنیف وتالیف میں مصروف رہا۔

اس جیسے عظیم اورصابرانسان کی زندگی کیونکر کتابوں اوررسالوں سے ثمربارنہ ہوتی اورکتاب احقاق الحق پران کی تعلیقات ان کی زندگی کابہترین ثمرہ اورہمیشہ باقی رہنے والاعلمی اثرکیوں نہ قرارپاتیں۔

میں نے سالہاسال انھیں نمازصبح سے پہلے محراب عبادت میں کسی نہ کسی کتاب کامطالعہ کرتے ہوئے دیکھاہے جس دے وہ احقاق الحق کے تعلیقات کیلئے موادفراہم کرتے تھے آپ نے مختلف علوم وفنون میں نایاب کتابیں اورمفیدرسالے بھی تحریرکئے ہیں آپ کے بعض رسالے اورکتابیں ایسی بھی ہیں جوچندصفحات پرمشتمل ہیں۔

استادعلام اپنی پہلی وصیت میں اپنے فرزندسے اپنی تصانیف کے متعلق فرماتے ہیں میں اسے اپنی کتاب (مشجرات آل الرسول الاکرم)عمدۃ الطالب پرتعلیقات اوراپنے تمام آثار اورقلمی رشحات کے تکمیل کی وصیت کرتاہوں جنہیں میں نے سیکڑوں بلکہ ہزاروں کتابوں سے راتوں کی بیداری اوردنوں کی تھکن کوخاطر میں لاتے ہوئے حاصل کیاہے یہ دونوں مذکورہ بالاکتابیں زمانے کے حسنات میں سے ہیں ان میں بہت سے فوائدونوادربھی پوشیدہ ہیں جودوسری کتابوں میں نہیں پائے جاتے خداوندعالم مجھے ان دونوں کتابوں کےذریعے بہترین جزادے۔

وصیت نامے میں ایک جگہ اورفرماتے ہیں میں اسے اپنی تمام ناقص تصنیف وتالیف کی تکمیل اوراس کےنشرواشاعت کی وصیت کرتاہوں جوفقہ ،اصول،انساب،رجال ،درایہ ،تفسیر،حدیث ،تاریخ ،تراجم ،مجامع،علوم غریبہ اورسیروسلوک جیسے علوم پرمشتمل ہے اس کے علاوہ میں اپنے حالات کشفیات ،مجاہدات اورمتاعبات پرمشتمل کتابوں کی بھی وصیت کرتاہوں۔

ایک اورمقام پرفرماتے ہیں میں اسے اپنی تمام تصانیف وتالیف کے نشرکی وصیت کرتاہوں خصوصیت سے ان کتابوں کی جومیں نے عالم شباب میں مختلف علوم ،غرائب عجائب اورانساب کےمتعلق تحریرکی ہے۔

ایک اورمقام پرفرماتے ہیں میں اسے اپنے ان منظومات کی جومختلف حالات میں میرے طبع موزوں سے وجودمیں آئیں کی جمع وتدوین کی وصیت کرتاہوں۔

اب ہم ان تصنیفات وتالیفات کاذکرکرتے ہیں جوان کےسحرالبیان قلم سے وجودمیں آئی ہیں پروردگار سے دعاہے وہ اولاد کواپنے آباء واجداد کےآثارزندہ کرنے اوران کے علوم کے چشمے سے لوگوں کوسیراب کرنے کی توفیق دے۔

____________________

(۱) ۔ چوتھی کرامت کی طرف مراجع کیجیئے ص۔۱۲۲