آپ کے کچھ سفراورسیاحتوں کاذکر
خداوندعالم قرآن مجید میں ارشادفرماتاہے ۔"(
قل سیروافی الارض
)
"
(اے رسول ؐ " تم لوگوں سے کہہ دوروئے زمین پرسیر کریں)
سروسیاحت انسانی حیات میں ایک جزکی تشکیل کرتے ہیں ہرمسافرکے اغراض ومقاصداور اس کی آرذوئیں اس کےسفرسے وابستہ رہتی ہیں خداوندعالم نے انسان کوطبیعتوں ،ہمتوں اوراعمال کے اختلاف کے اعتبارسے مختلف طریقوں پرخلق کیاہے۔
لیکن دیوان امیرالمومنینؑ میں ایسے اشعاربھی ہیں جن میں سفرکے فوائدکا ذکرکیاگیاہے۔
تغرب عن الاوطان فی طلب العلی وسافرففی الاسفار خمس فوائد
تفرج هم واکتساب معیشة وعلم وآداب وصحبة ماجد
بلندیاں حاصل کرنے کیلئے سفرکروکیونکہ سفرمیں پانچ فائدے ہیں ،غموں سے دوری حاصل کرناکسب معاش ، طلب علم وآداب اورشریف لوگوں کی رفاقت اختیارکرنااس کےفائدے ہیں انسان سفرکی مشقتیں اورصعوبتیں غربت کے رنج وغم ،فرقت کی وحشت اوروطن سے دوری کاغم کہ جس کی محبت جزوایمان ہے برداشت کرتے ہوئے ایک شہر سے دوسرے شہر سفرکرتاہے کیونکہ سفر میں بہت سے فائدے ہیں جن فائدوں کاذکرحضرت امیرالمومنین ؑ کے اس شعر میں کیاگیاہے۔
۱۔ سیاحت۔ (تفرج غم)یعنی غموں سے دوری حاصل کرنا۔
۲۔ سفر تجارت(اکتساب معیشہ)یعنی کسب معاش کرنا۔
۳۔سفرعلم (وعلم)کسب علم
۴۔اجتماعی اورثقافتی سفر(آداب)یعنی مختلف قوموں کے عادات واطوار اوررنگارنگ تہذیبوں کامشاہدہ کرنا۔
۵۔ اخلاقی سفر(وصحبتہ ماجد)یعنی شریف لوگوں کی رفاقت اختیار کرنا۔
انسان اپنے وطن اورمامن سے بلندی وارتقاء کےمدارج طے کرنے کیلئے سفراختیارکرتاہے۔علماء وطالبان علم اپنی علمی حایت کی ابتداہی سے فقروغربت ریسمان میں جخرے ہوئے سفرکی صعوبتوں کوبرداشت کرتے ہیں کیونکہ حدیث میں آیاہے۔
لایاتی الاباالفقروالغربة
۔۔۔ علم فقروغربت ہی سے حاصل ہوتاہے۔
تم انہیں دیکھ رہے ہوکہ انہوں نے جدوجہدکی راہ اختیارکرلی ہے اورسفرکی صعوبتوں کوجھیلناکھلے دل سے قبول کرلیاہے تاکہ خاص طورسے عالم شباب میں بلندمقامات ، نفسانی کمالات، اسلامی آداب ،نیک اورعظیم شخصیتوں کی رفاقت حاصل کریں اورہرجوان کی اپنی آرذوئیں اورتمنائیں ہوتی ہیں۔
انہیں لوگوں میں سے جنھوں نے بلندیاں حاصل کرنےکیلئے وطن سے غربت اختیارکی استادعلام بھی تھے میں نے عالم شباب ہی میں سفرکوآپ کی حیات کاجزپایاآپ نے پہلے عراق کاسفرکیااس کے بعدعلوم وفنون وآداب کوکسب کرنے علماء وافاضل سے فیض حاصل کرنے اپنے درس وتحقیق کی تکمیل نیز ارباب کمالات سے استفادہ کرنے کیلئے ایران کاسفرکیا۔ایران میں آپ کے بہت سے اساتذہ ہیں ۔
استاد علام نے اپنے تمام سفرکی داستانوں کوقلمبندکرلیاہے تاکہ بعدمیں آنے والوں کیلئے ان کاذکرباقی رہے آپ نے اپنے بعض طلبہ کوداستان سفرتحریر کرنے کی وصیت کی ہے استادعلام نے عتبات مقدسہ کی زیارت کیلئے عراق میں کربلائے معلی، کاظمین اورسامرہ کاسفرکیااسی طرح آپ نے بصرہ ،عمارہ ،بغداد، کویت ،کرکوک ،موصل اورسماوہ کے سفرکئے۔
ایران مین آپ نے مشہدمقدس ،خراسان ،آذربائیجان ،اصفہان،شیراز، قزوین، کازون ، سمنان ، دامغان ،شاہرود،کاشان،اراک، اردبیل اورہمدان کے سفرکئے آپ کے بعض قیمتی مولفات ہمدان کے سفرمیں چوری ہوگئے تھے جس کاذکرآپ نے اپنے بڑھاپ میں مجھ سے کیاتھاجب بھی مجھے یہ واقعہ یادآجاتاہے میرادل سلگنے لگتاہے۔
انقلاب کی ابتداء میں اپنی آنکھ کاعلاج کرانے کیلئے آپ نے برطانیہ اوراسپین کا سفربھی اختیارکیایہ تکلیف آپ کوانقلاب کے دوران قم میں جان دینے والے پہلے شہیدکے جسدکودیکھنے بعدہوئی تھی جوقم کے انقلابیوں کے مجمع میں تھاان انقلابیوں نے آپ کے گھرمیں تحصین اختیارکررکھاتھاکہ پہلوی حکومت کی پولیس آتشی اسلحوں سے لیس یہاں حملہ آورہوئی ۔
ایمان راسخ اورمضبوط عزم وحوصلہ ہی پہلوی شاہ کے نظام کے خاتمے اوراسلامی حکومت کے قیام کاسبب تھا۔
استادعلام نے اپنے سفرمیں بھی اورقم میں علمی شخصیتوں سے بھی ملاقات کی جومختلف مذاہب وادیان میں اپنی ایک حیثیت رکھتے تھے آپ کے علمی بحث ومباحثے ان کے ساتھ جاری تھےجوحق وحقیقت کی دعوت دیتے تھے انھیں شخصیات میں علامہ سیدمحمودشکری آلوسی بغدادی ،علامہ سیدعلی خطیب،سیدیاسین متقی،استادانستانس کرمانی بغدادی ،شیخ عبدالسلام شافعی، سیدناصرحسین ہندی، فیلسوف ٹیگورہندی،مرزااحمدتبریزی،برفیسورکرین فرنسی ،زین العابدین خان ابراہیمی، سیدمحمدبن زبارۃ الیمنی، امام یحیی یمنی،سیدجمال الدین کوکبانی،میسوکدارفرنسی، ڈاکٹرفوادسزکین،سیدابراہیم رفاعی راوی بغدادی ،رشیدبیضون لبنانی، سیدمحمدرشیدصاحب تفسیرالمنار،عارف الدین مدیرمجلہ عرفان درلبنان ،شیخ عبدالسلام کردستانی شافعی،قاضی بہجت الآفندی صاحب کتاب تاریخ آل محمد،برفسورولترانگریزی اس کے علاوہ سیکڑوں بزرگان علم وفضل سے ملاقات کی۔
۱۳۴۲ہجری میں آپ نے حضرت امام علی رضاؑ کی زیارت سے مشرف ہونے کیلئے نجف اشرف سے ایران کاسفراختیارکیااس دوران طہران میں بعض علمائے اعلام سے ملاقات کی اوروہاں ایک سال تک قیام بھی کررہاتاکہ وہاں موجودٹھاٹھیں مارتے ہوئے سمندرسے اپنی علمی تشنگی کوسیراب کریں جن میں آیۃ اللہ حاج شیخ عبدالنبی نوری آیۃ اللہ آقاحسین نجم آبادی اورآیۃ اللہ آشتیانی قابل ذکرہیں۔
اس کے بعدحضرت معصومہ سلام اللہ کی زیارت سے مشرف ہوئے اورآیۃ اللہ العظمیٰ عبدالکریم حائری کے حکم کی اطاعت میں قم میں مقیم ہوگئے خداآپکو حادثات سے محفوظ رکھے تاکہ طلاب علوم دینیہ آپ کے دروس وعطایاسے بہرہ مندہوسکیں۔
آپ نے حوزہ علمیہ قم ۱۳۴۳ہجری سے اپنی زندگی کے آخری لمحے ۱۴۱۱ہجری تک تدریس کے فرائض انجام دیئے آپ نے اپنے علوم اورنیک اخلاق وکردارکے چشموں سے اکثرعلماء ،فضلاء کوسیراب کیاجوصرف ایران ہی سے نہیں بلکہ دوسرے ممالک سے بھی تعلق رکھتے تھے۔
____________________
۲۰