آپ کے خیرات وبرکات
قرآن میں آیاہے۔"(
وَقُلِ اعْمَلُوا فَسَيَرَى اللَّهُ عَمَلَكُمْ وَرَسُولُهُ وَالْمُؤْمِنُونَ
)
"(اوراے رسول " تم کہہ دو کہ تم لوگ اپنے اپنے کام کئے جاؤ ابھی توخدااس کا رسول اورمومنین تمہارے کاموں کودیکھیں گے)
"(
قال انی عبدالله اتانی الکتاب و جعلنی نبیا، و جعلنی مبارکا این ما کنت
)
" (جناب عیسیٰؑ نے کہابے شک میں خداکابندہ ہوں مجھ کواس نے کتاب (انجیل)دی ہے اورمجھ کونبی بنایااورمیں چاہےکہیں رہوں مجھ کومبارک بنایاہے۔)
برکت
برک سے مشتق ہے جس کے لغوی معنی اثبات شئی کے ہیں اس کے بعد اس معنی سے بہت سی فرعیں پیداہوئیں جوایک دوسرے سے مفہوم کے اعتبارسے بہت ہی قریب ہیں برک کے معنی ۔۔کلکل بعیر۔ یعنی اونٹ کے سینے کاوہ حصہ جوزمین سے ملاہوکے ہیں۔
برکت کے دوسرے معنی
اضافہ اورنموکے ہیں اس بناپرتبارک اللہ کے معنی پروردگارکی تمجیدوتجلیل کے ہیں۔کسی شئی میں خیرالٰہی کاثابت ہونابھی برکت کہلاتاہے ((
لفتحناعلیهم برکات من السماء والارض
)
)ہم نے ان پرآسمان وزمین کی برکتوں کے دروازے کھول دئے ہیں۔اوراسے برکت اس لئے کہاگیاہے کہ اس میں اسی طرح ثابت رہتاہے جس طرح گڑھے یاتالاب میں پانی موجودرہتاہے اورمبارک اسے کہتے ہیں جس میں یہ خیرموجودہو ۔ فھذاذکرمبارک انزلناہ۔ سے خیرات وفیضان الٰہی کی طرف اشارہ ہے۔
موارداستعمال سے معلوم ہوتاہے لغت کے اس مادے میں اصل واحدوہی فضل وفیض خیروزیادتی اورمادی معنوی نمووثبات ہیں اس بناپرمبارک اسے کہتے ہیں جس میں خیراورفضل وفیض پایاجائے ۔ وبارک اللہ فیہ۔ برکت کے امتداد واستمرارپردلالت کرتاہے۔
وتبارک۔
امتدادبرکت کے تحقق پردال ہے لہذا۔ بارکناحولہ۔ کے معنی ہم نے اس میں فضل وفیضان زیادہ زمانے تک قائم رکھاہے۔"وبارکناعلیہ وعلیٰ اسحاق"اورہم نے ابراہیم اوراسحاق پربرکتیں نازل کی ہیں۔)
ورحمة الله وبرکاته علیکم اهل البیت
، کے معنی اللہ کامادی اورمعنوی فیضان ہے واللہ مبارک کے معنی یہ ہیں کہ خداہی مبدء فضل ہے اسی میں کل فضل ہے اوراسی طرف فضل وبرکات کی انتہاہے۔
والبرکات:
کے معنی دائمی سعادت کے ہیں ۔ وبارک علیٰ محمدوآل محمدکے معنی یہ کہ اے خداشرف ومجدوعظمت میں سے جوکچھ بھی تونے اہل بیت ؑ کوعطاکیاہے اسے ان کےلئے ثابت ودائم رکھ۔
وبرکۃ اللہ:
کے معنی اس کی برتری ہرشئی پرہے اورتبارک اللہ کے معنی وہ مقدس پاک بلندعظیم اوررفیع ہے۔
ابن عباس نے برکت کے معنی یوں بیان کئے ہیں۔(الکثرة فی کل خیروالمبارک مایاتی من قبطه الخیر
)۔ یعنی ہرخیرکی کثرت کوبرکت کہتے ہیں اورجس کی طرف سے خیرکافیضان ہوااسے مبارک کہتے ہیں۔
پس برکتیں تمہارے رب کی طرف سے نازل ہوتی ہیں۔"(
وَانَزَّلْنَا مِنَ السَّمَاءِ مَاۗء مُّبٰرَكًا فَاَنْۢبَتْنَا بِه جَنّٰتٍ وَّحَبَّ الْحَصِيْدِ
)
" اور ہم نے آسمان سے بابرکت پانی نازل کیا ہے پھر اس سے باغ (کےدرخت) اور کھیتی کا غلہ اُگایا ہے۔
"(
تبارک الذی له ملک السمٰوات والارض ومابینهما
)
" اوروہی بہت بابرکت ہے جس کیلئے سارے آسمان وزمین اوران دونوں کے درمیان کی حکومت ہے۔
"(
اَلَا لَهُ الْخَلْقُ وَالْاَمْرُ تَبٰرَكَ اللهُ رَبُّ الْعٰلَمِيْنَ
)
" دیکھوحکومت اورپیداکرناخاص اسی کے لئے ہے اور امر بھی وہ نہایت ہی صاحب برکت اللہ ہے جو عالمین کا پالنے والا ہے۔
"(
تبارک الذی نزل الفرقان علیٰ عبده لیکون للعالمین نذیرا
)
" خدابابرکت ہے جس نے اپنے بندے محمدؐ پرقرآن نازل کیا تاکہ یہ سارے جہان کیلئے خداسے ڈرانے والاہو۔
"(
ثُمَّ اَنْشَاْنٰهُ خَلْقًا اٰخَرَفَتَبٰرَكَ اللهُ اَحْسَنُ الْخٰلِقِيْنَ
)
" پھر ہم نے اسے ایک دوسری مخلوق بنادیا ہے تو کس قدر بابرکت ہے وہ خدا جو سب سے بہتر خلق کرنے والا ہے۔
"(
تَبٰرَكَ الَّذِيْٓ اِنْ شَاۗءَ جَعَلَ لَكَ خَيْرًا مِّنْ ذٰلِكَ
)
" بابرکت ہے وہ ذات جو اگر چاہے تو تمہارے لئے اس سے بہتر سامان فراہم کردے۔
"(
تبارک الذی جعل فی السماء بروجاوجعل فیهاسراجاوقمرامنیرا
)
" بہت بابرکت ہے وہ خداجس نے آسمان میں برج بنائے اوران برجوں میں آفتاب کاچراغ اورجگمگاتاچاندبنایا۔
مخلوق میں اللہ کی برکت کامفہوم یہ ہے کہ وہ نورالانوار ہے اسی سے تمام انوار کاانعکاس ہوتاہے اورنورآسمان وزمین کی برکت ہے جوچمکدارستاروں اور روشن ماہتاب میں جلوہ گرہے۔
"(
تبارک اسم ربک ذی الجلال والاکرام
)
" اے رسول تمہاراپروردگارجوصاحب جلال وکرامت ہے اس کانام بڑابابرکت ہے۔
خداکے تمام اسماء حسنی مبارک ہیں ہروہ اسم جوعنایت ربانی اورتربیت الٰہی کی طرف دلالت کرتے ہیں مبارک مبارک ہیں خداجلیل وکریم ہے اسی کے کرم اوراسی کی جلالت کی وجہ سے اس لطیف وبدیع کائنات کاوجودہے جواس کے اسماء اوراس کی برکتوں پردلالت کرتی ہے ہرشی میں اسکی نشانی موجودہے جواس بات کی طرف نشاندہی فرماتی ہے۔
"(
تبارک الذی بیده الملک وهوعلیٰ کل شیء قدیر
)
" (الملک/۱)جس خداکے قبضے میں سارے جہان کی بادشاہت ہے وہ بڑی برکت والاہے اورہرشئی پرقادرہے۔
جولوگ اپنے پروردگارسے طلب مغفرت کرتے ہین اللہ نے ان سے آسمانوں اورزمینوں کی برکتوں کاوعدہ کیاہے۔
اس کاوعدہ سچاہے جیساکہ قرآن فرماتاہے۔
"(
لفتحناعلیهم برکات من السماء والارض
)
"(الاعراف/۹۶) ہم نے ان آسمان وزمین کی برکتوں کے دروازے کھول دئے ہیں۔
خداکی زمین مبارک ہے۔
"(
وجعل فیهارواسی من فوقهاوبارک فیها
)
"(فصلت/۱۰)اوراسی نے زمین میں اس کے اوپرپہاڑ پیداکئے اوراسی نے اس میں برکت عطاکی۔
"(
وَأَوْرَثْنَا الْقَوْمَ الَّذِينَ كَانُوا يُسْتَضْعَفُونَ مَشَارِقَ الأَرْضِ وَمَغَارِبَهَا الَّتِي بَارَكْنَا فِيهَا
)
"اورجن بیچاروں کویہ لوگ کمزورسمجھتے تھے انھیں کو(ملک شام کی)زمین کاجس میں ہم نے (زرخیزہونے کی)برکت دی تھی جس کے مشرق اورمغرب میں (سب کا)وارث (ومالک )بنادیا۔
روئے زمین پربہت سے مخصوص مکانات اوربقعےپائے جاتے ہیں جوبرکت کے ذریعےامتیازی شان رکھتے ہیں۔
"(
الٰی الْمَسْجِدِالْاَقْصٰی الَّذِیْ بَارَکْنَا حَوْلَه لِنُرِیْهَ مِنْ اٰیَاتِنَا
)
" ہم نے راتوں رات اپنے بندے کومسجدحرام سے مسجداقصیٰ تک کی سیراکرائی جس کے گرد ہم نے ہرقسم کی برکت مہیاکررکھی ہے تاکہ اسے اپنی قدرت کی نشانیاں دکھائیں۔
"(
ونجیناه ولوطا الی الأرض التی بارکنافیها
)
"اورہم نے ابراہیم ولوط کوسرکشوں سے صحیح وسالم نکال کراس سرزمین بیت المقدس میں جاپہنچایاجس میں سارے جہان کئلئے برکت عطاکی تھی۔
انبیاء علیہم السلام مبارک ہیں۔
"(
وبارکناعلیه وعلیٰ اسحاق
)
"(الصافات/۱۱۳) ہم نے ابراہیم اوراسحاق پربرکت نازل ۔
"(
فلماجاءهانودی ان بورک من فی النارومن حولها
)
"(النمل/۸)غرض جب موسیٰ آگ کے قریب آئے توان کوآوازآئی کہ مبارک ہے وہ جوآگ میں تجلی دکھاتاہےاوراس کے گردہے۔
خداوندعالم اپنے نبی کریم ﷺ اوران امتوں پرجوانبیاء کے ہمراہ تھیں برکتیں نازل کرتے ہوئے۔ نبیؐ سے خطاب فرماتاہے۔ "(
اهبط بسلام مناوبرکات علیک وعلیٰ امم ممن معک
)
"(ھود/۴۸) اے نوح ہماری طرف سےسلامتی اوران برکتوں کے ساتھ اتروجوتم پراوران لوگوں جوتمہارے ساتھ ہیں۔
"(
ورحمة الله وبرکاته علیٰ اهل البیت انه حمیدمجید
)
"(ھود/۷۳)اوراے اہل بیت (ع)تم پرخداکی رحمت اوراس کی برکتیں نازل ہوں بے شک وہ قابل حمدوثنااوربزرگ ہے۔
نبی ؐ بھی مبارک ہے اورآسمانی کتابیں بھی مبارک ہیں ۔
"(
وهذاکتاب انزلناه مبارک مصدق الذی بین یده
)
"(الانعام/۹۲)اوریہ قرآن وہ کتاب ہے جسے ہم نے بابرکت نازل کیاہے اس کتاب کی تصدیق کرتی ہے جواس سے پہلے موجودہے۔
"(
وهذاذکرمبارک انزلناه افانتم له منکرون
)
"(الانبیاء/۵۰)اوریہ قرآن ایک بابرکت تذکرہ ہے جسے ہم نے نازل کیاہے توکیا تم لوگ اسے نہیں مانتے ۔
ہم سب پرقرآن کی آیتوں پرایمان لانااوراس میں تدبرکرنالازم ہے۔
"(
کتاب انزلناه الیک مبارک لیدبرواآیاته
)
"(ص/۲۹)اے رسول کتاب قرآن جسے ہم نے تم پرنازل کیاہے بڑی برکت والی ہے تاکہ لوگ اس کی آیتوں میں غورکریں۔
ہماراخدااسکی کتاب اس کانبی اوراس کاگھرمبارک ہے۔
"(
إِنَّ أَوَّلَ بَيْتٍ وُضِعَ لِلنَّاسِ لَلَّذِي بِبَكَّةَ مُبَارَكًا وَهُدًى لِّلْعَالَمِينَ
)
"(آل عمران/۹۶)لوگوں کی عبادت کیلئے جوگھرسب سے پہلے بنایاگیاوہ مکہ ہے وہ بڑٰ ی خیروبرکت والااورسارے جہان کے لوگوں کاراہنماہے۔
لہذامعلوم ہواکہ اللہ کی طرف سے برکتیں نازل ہوتی ہیں وہی دائمی برکت اورفضل وفیض کواپنے بندوں اورانبیاء کے درمیان قراردیتاہے جس کی طرف جناب عیسیٰ نے اشارہ کیاہے۔
"(
اناانزلناه فی لیلة القدر
)
"(القدر/۱)ہم نے قرآن شب قدرمیں نازل کیاہے ۔
اوران ربانی برکتوں کی طرف بھی رہنمائی فرماتاہے۔
"(
فَسَلِّمُواْ عَلىَ أَنفُسِکُمْ تحَیَّةً مِّنْ عِندِ اللَّهِ مُبَرَکَةً طَیِّبَةً
)
"(النور/۶۱) تم اپنے نفسوں کوسلام کرلیاکروجوخداکی طرف سے ایک مبارک پاک وپاکیزہ تحفہ ہے ۔
ان تمام باتوں کے پیش نظرعمل کرنے والوں کوعمل اورجستجوکرنے والوں کوجستجوکرناچاہیے کیونکہ صاحب تقدیرہی اس کی خاص رحمتوں اورمخصوص فیض وکرم سے بہرہ ورہوسکتاہے ۔علماء اورفقہاء وانبیاء ؑ کی برکتوں کے وارث ہیں یہ حضرات جہاں بھی ہوں گے مبارکین کی فہرست میں شامل رہیں گے۔
انھیں بابرکت علماء میں سے ایک استادعلام بھی تھے آپ اپنی پوری زندگی میں مبارک تھے۔ خیروبرکت ،فیض قدسی ،اورفضل ملکوتی آپ میں جلوہ گرتھاآپ فیوضات ربانی اورتوجہات الٰہی کے مرکزتھے قدعاش سعیدا ومات سعیدا۔
(آپ نے سعادت اورخوش بختی کے ساتھ زندگی بسرکی اوراسی عالم میں موت سے ہم آغوش ہوئے)
خداوندعالم آپ کے امورخیریہ اورصدقات جاریہ کومکرم ودائم رکھے تاکہ آپ کے رحلت کے بعد بھی برکتیں جاری ہیں جوشرف وبلندی اورکثرت خیرخدانے آپ کوعطاکئے وہ ثابت رہیں۔(آمین)
جیسے جیسے زمانہ گزرتاجاتاہے باعمل علماء کی عظمتیں ان کی شان اوران کی قدربڑھتی جاتی ہیں جبکہ لوگ ان کےعلم و فضل کی بناپران سے حسدکرتے تھے اوروہ اپنے دشمنوں کے مقابل نبردآزماتھے۔ فان الناس اعداء ماجھلوا۔ لوگ جسے نہیں جانتے اس کے دشمن ہوتے ۔
"(
وجعلنی مبارکااینماکنت واوصانی بالصلاة والزکاة"
(
)
مریم /۳۱)اورمیں کہیں بھی رہوں مجھ کومبارک بنایاہے اورمجھے نمازوزکٰوۃ کی تاکیدکی گئی ہے۔
پس اپنے پرودگار سے برکتوں کاسوال کرو۔
"(
وقل رب انزلنی منزلامبارکاوانت خیرالمنزلین
)
"اوراے رسول تم کہہ دو اے میرے پروردگار تومجھے بابرکت جگہ میں اتاردے اورتوتوسب اتارنے والوں سے بہترہے۔
آپ کارب حمیدآسمان وزمین کانورہے۔
"(
ومثل نوره مشکاة فیها مصباح ،المصباح فی زجاجة،الزجاجة،کانهاکوکب دری من شجرة مبارکة زیتونة لاشرقیة ولاغربیة
)
"اوراس کے نورکی مثال ایک طاق(سینہ)ہے جس میں ایک روشن چراغ(علم شریعت)ہے اورچراغ ایک شیشے کی قندیل (دل) میں ہواورقندیل (اپنی تڑپ میں)گویاایک چمکتاہواروشن ستارا(وہ چراغ )زیتون کے ایسے مبارک (تیل سے)روشن کیاجائے جونہ مشرق کی طرف ہواورنہ مغرب کی طرف۔
اورجب تم عین اللہ ہوجاتے ہوتوبرکتیں تم کوعزت بخشتی ہیں تمہاراحصارکرلیتی ہیں جیساکہ جناب موسیٰ علیہ السلام کیلئے ہواتھا۔
"(
فلماآتاه نودی من شاطیء الوادالایمن فی البقعة المبارکة من الشجرة
)
" (القصص/ ۳۰)
غرض جب موسیٰؑ آگ کے پاس آئے تومیدان کے داہنے کنارے سے اس مبارک جگہ میں درخت سے انھیں آوازآئی اے موسیٰؑ بے شک میں ہی اللہ اورسارے جہان کاپالنے والاہوں۔
اورتم پرشب قدرکی مبارک ساعتوں میں اللہ رحمت وبرکت نازل کرتاہے۔یہ علماء اپنے دوستوں اوراحباء کی طرف سے مہجورومحزون تھے نہ کوئی ان کی قدرجانتاتھااورنہ کوئی شایان شان ان کی تعظیم ہی کرتاتھا۔
ان باعمل علماء کی رحلت کے بعدان کے وجودکی نیکیاں اورعظیم برکتیں ظاہرہوتی ہیں اسی لئے لوگ ان کےحقوق کی پامالی اوران کے فراق پرکف افسوس ملتے ہیں کہ ہم نے ان کے فیضان علوم اوران کے وجودکی برکتوں سے کیوں فائدہ نہیں اٹھایااوراب حسرتوں اورندامتوں کاکوئی فائدہ نہیں۔
عمومی کتاب خانہ
یہ بات مخفی نہ رہےکہ انسانی نعاشرہ میں کتب خانہ کی بڑی اہمیت ہے اوریہ ایسی چیزہے جسے معاشرہ میں کم قدروقیمت سے نہیں دیکھاجاسکتا۔
کتب خانے علماء ،عطیم شخصیتوں، انسانئ تاریخ اوراس کی ترقی کے اسباب وعلل نیزان افراد کے آراءوافکار کے مرکزہوتے ہیں جومعرفت کے خواہاں ،ثقافت وتہذیب کی ترقی کے طالب نیزسماج کے تمام طبقوں میں علمی وثقافتی تشنگی کودورکرنے والے ہیں اوروہ اپنے وجودمیں چھپے ہوئے اسراروفنون کوتصنیف وتالیف کی شکل میں لانے اوراسے اجالے میں نمایاں کرنے نیزاس کی نشرواشاعت میں مشقتیں برداشت کرتے ہیں۔
ایسے لوگ ابتدائے حیات ہی سے دنیاکے حقائق اورنئی نئی علمی گتھیوں کےسلجھانے میں مشغول رہاکرتے ہیں۔
ایسے لوگوں نگاہوں میں دوسرے مقدس اہداف ومقاصدبھی ہواکرتے ہیں جیسے قوموں کی شگفتگی لانا، اچھے انسانی افکارواخلاق کوعام کرنا،نفسوں کوآسودگی عطاکرنا، علمی میراث کی حفاظت کرنا،لوگوں کوزندگی اورتاریخ کواستمراربخشنا،علمی اورثقافتی راہ کوہمیشہ جاری رکھنا،سماج کی عمارت کی بنیادکومستحکم کرناایسے مقاصدہیں جومعاشرے میں کتب خانوں کی ضرورت کومحسوس کراتے ہیں اوراپنی قدروقیمت کاپتہ دیتے ہیں۔
انھیں اسباب وعلل اورضرورتوں کااحساس تھاجس نے علماء اعلام کوابتداء سے ہی عمومی اورخصوصی کتابخانوں کی تاسیس کیلئے آمادہ کیا۔انھیں حیرت انگیزعلماء میں استادعلام بھی تھے جنھوں نے عظیم عمومی کتاب خانے کی تاسیس کی جس کی نظیرعالم اسلام میں بہت کم ہے آپ نے کتابوں کی جمع آوری میں ایسی صعوبتیں اورمشقتیں برداشت کیں جواس سے پہلے کبھی نہیں سنی گئی۔
حقیقت حال اوردعوے کی سچائی کیلئے ہم قارئین کے سامنے بعض ایسے نمونے بیان کرتے ہیں جس سے شعورواحساسات دنگ رہ جاتے ہیں اورایک عظیم شخصیت ابھرکرآپ کے سامنے آتی ہے اوردل میں کہتی ہے یہ سخت محنتیں کیونکرباثمر نہ ہوتیں ایساعظیم کتب خانہ کیوں نہ تعمیرہوتاجس کے دروازے ۱۳۹۴ہجری سے آنے جانے والوں کیلئے کھول دئیے گئے ہیں۔
مجھے بعض ایسی کتابوں کے بارے میں علم ہے جسے استادعلام نے نجف اشرف میں اپنے عالم شباب میں خریداتھاجس کی بہترین مثال بعض کتابوں پرآپ کی مندرجہ ذیل تحریرہیں۔مثلاً
بسمہ تعالیٰ۔
میں نے اسے ۴سال کی نمازاجارہ پرخریداتھااورمرحوم الحاج حسین تاجردہخوارقانی کی طرف سے استادعلام آیۃ اللہ شیخ عبداللہ مامقانی نے مجھےاجیربنایاتھا۔
یہ جملہ عبدذلیل شہاب الدین الحسینی النجفی نے شعبان ۱۳۴۱ہجری میں تحریرکیاہے۔
ایک اورکتاب پرتحریرفرماتے ہیں۔
میں نے اسے ایک سال تک حضرت امیرالمومنینؑ کی روزانہ زیارت کی اجرت پرخریداہے۔ عبدذلیل شہاب الدین الحسینی النجفی
ایک اورکتاب پرتحریرفرماتے ہیں۔
علامہ شیخ عبدالرحیم بن احمدہندی بہاری نجفی نے اپنے فرزندعلامہ شیخ شہاب الدین کی گزارش پر۱۰۶۰ میں کشف اللغات والاصطلاحات نامی ایک کتاب تحریرکی ہے اورکتاب مکمل کرنے کے تھوڑے ہی عرصے بعدانتقال فرماگئے۔
میں نے اس کتاب کومرحوم مرزامحمدطہرانی کی نیابت میں نمازکی دوسال کی اجرت مبلغ ۲۰ برطانوی روپیہ میں خریدا۔خدامجھے اس عمل کے پوراکرنے کی توفیق دے اور۱۲ذیقعدۃ الحرام ۱۳۴۲ہجری کونجف اشرف میں ظہرسے میں نے نمازبھی شروع کردی بھوک کے عالم میں ان حروف کے لکھنے والے کو۲۰ گھنٹے سے کوئی غذانصیب نہ ہوئی۔
شہاب الدین الحسینی المرعشی مدرسہ قوام ۱۳۴۲ہجری۔
کیااچھاہوتااگرمیں اپنے والدعلام کی کتاب سے ایک حیرت انگیزواقعہ یہاں نقل کرتاجواستادعلام کی زندگی میں کتاب۔الرافدج۔ص۔۱۰۹ پر"کتاب کی قدر"کے عنوان سے شائع کیاگیاہے۔
کتاب کی قدر
میں ۲۱ربیع الاول ۱۳۹۶ہجری دوشنبہ کے دن استادعلام کی خدمت میں موجودتھاآپ دلچسپ باتیں بیان کررہے تھے جن میں کچھ باتیں کتاب کی قدروقیمت اوراس کے حاصل کرنے کے طریقوں پرمشتمل تھی آپ نے فرمایاایک دن میں محلہ مشراق میں واقع اپنے مدرسے سے اس بازار کی طرف گیاجو باب صحن علوی سے متصل ہے وہاں ایک عورت مرغی کے انڈے بیچ رہی تھی میں اس کے پاس زنڈے خریدنے گیاتواس کے پا س ایک کتاب نظرآئی میں نے اس سے اس کتاب کے بارے میں پوچھااس نے کہامیں اس کتاب کوفروخت کرناچاہتی ہوں میں نے اس کتاب لی جومرزاعبداللہ آفندی کی تصنیف ریاض العلماء تھی اوربالکل ہی نایاب نایاب تھی میں نے اس سے کتاب کی قیمت پوچھی اس نے کہاپانچ روپئے سومیں نے اس سے کہامیں اسے سوروپیئے میں خریدسکتاہوں اوراس سے زیادہ نہیں دے سکتاوہ اضی ہوگئی۔
اسی دوران کتابوں کادلال جس کانام کاظم دجیلی تھاآگیاجولندن کے عمومی کتاب خانے کیلئے پرانی کتابوں کوخریدتااوراسے نجف اشرف میں موجودبرطانوی حاکم کے سپردکردیاکرتاتھا۔یہی پہلاانگریز حاکم ہے جس نے نجف اشرف پر حکومت کی ہے ۔اس نے اس نے میرے ہاتھ سے قوت کیساتھ کتاب لے لی اوراس عورت سے کہامیں اس کتاب کو اس سے زیادہ قیمت پرخریدوں گااس طرح اس کتاب کے اوپربولی بڑھنے لگی۔
میں نے اپناچہرہ حرم کی طرف کرکے امیرالمومنین علیہ السلام سے خطاب کرتے ہوئے کہااے میرے آقاکیاآپ اس پر راضی ہیں کہ یہ کتاب میرے ہاتھ سے چلی جائے جبکہ میں اس کتاب کے ذریعہ آپ کی خدمت کروں گا کہ اچانک اس عورت نے کاظم دلال سے کہامیں میں تیرے ہاتھ یہ کتاب نہیں بیچوں گی کیونکہ یہ سیدکی ہےمیں نے کہامیرے ساتھ چلوتاکہ میں تمھیں اس کے پیسے دے دوں ۔وہ میرے ساتھ مدرسہ تک آئی اس وقت میرے پاس کچھ نئے پرانے لباس اورگھڑی تھی میں اسے بازارمیں کپڑوں کے دلال حاج حسین شیش کے پاس بیچنے کیلئے گیااس نے اسے بیچ دیاوہ عورت جومیرے ساتھ کہتی تھی اے سیدتم نے مجھے معطل کررکھاہے وہ شخص مجھے نقدپیسے دے رہاتھاکبھی میں اسے جواب نہ دیتاتھااورکبھی کہتاتھاابھی ٹھہروابھی ٹھہرو۔ رقم کپڑوں اورگھڑی کے بیچنے کے بعدبھی پوری نہ ہوئی میں اسے لیکرمدرسہ آیااوراپنے ساتھیوں سے پانچ پانچ دس دس روپیئے قرض کے طورپراکٹھاکئے یہاں تک ۱۱۰ یا۱۲۰ روپیئے ہوگئے میں اس عورت کے پاس آیااوراسے پیسے دیدئیےاور اس گرانقدرکتاب کے خریدنے پرمیں نہایت ہی خوش ومسرورتھا۔
ابھی تھوڑٰ ی ہی دیرہوئی تھی کہ کاظم دلال نے پولیس کے ساتھ مدرسہ پر دھاوابول دیااورمجھے گرفتارکرکے انگریزحاکم کے پاس لےگیاوہ مجھ پرکتاب کی چوری کی تہمت لگارہااورمیراخیال ہے کہ وہ اپنی زبان میں گالیاں دے رہاتھااورمجھے برابھلاکہہ رہاتھااس کے بعد اس نے مجھے قیدکرنے کاحکم دے دیامیں رات قیدخانے میں تھااوراپنے پروردگار سے اس کتاب کے محفوظ رہنے کی دعاکررہاتھاجسے میں نے چھپادیاتھادوسرے دن شیخ الشریعہ حاج مرزافتح اللہ نمازی اورصاحب کفایہ کے فرزندمرزامہدی انگریزحاکم کےپاس ایک جماعت کے ساتھ میری رہائی کیلئے آئے ۔اورقیدسے میرے چھوٹنے کی گفتگواس شرط پرتمام ہوئی کہ میں حاکم کوایک مہینہ کے اندرکتاب دیدوں ۔
میں مدرسہ آیااورطلبہ کوجمع کرکے کہایہ اسلام کی عظیم خدمت ہے کہ تم لوگ اس عظیم کتاب کونقل کرڈالویہ کتاب بڑی سائزمیں دوسری اورتیسری جلدوں پرمشتمل ہے جس میں دس جزء ہیں اورجس کی ابتداء حاء مہملہ لفظ حسن سے ہوتی ہے۔
طلبہ اس کتاب کونقل کرنے میں مصروف ہوگئے اورمعینہ مدت سے پہلے ہی پوری کتاب نقل ہوگئی جب بھی میں اس کتاب کوحاکم انگریز کے حوالے کرنے کیلئے سوچتاتھامجھے قدرت نہ ہوتی تھی اس خیال سے میں شیخ الشریعہ کی خدمت میں گیااوران سے کہاآپ عصرحاضرکے مرجع ہیں یہ ایسی کتاب ہے جس کامثل پورے عالم اسلام میں نہیں اوراسے انگریز حاکم لے لیناچاہتاہے جب انھوں اس کتاب کودیکھاایک مرتبہ کھڑے ہوئے پھربیٹھ گئے دوبارہ اٹھے اورپھربیٹھ گئے اورکہایہی وہ کتاب ہے میں نے کہاہاں۔ انھوں نے تکبیروتحلیل کہکرمجھ سے کتاب لے لی جومعینہ مدت کے ختم ہونے تک انھیں کے پاس رہی وقت کے تمام ہونے سے پہلے ہی انگریزحاکم کاقتل ہوگیااوریہ کتاب شیخ ہی کے پاس موجودرہی ان کے بعد ان کے ورثاء کی طرف منتقل ہوئی لیکن آج وہ کتاب کہاں ہے مجھے اس کاعلم نہیں ہے۔
البتہ کتاب کا جو نسخہ میرے پاس تھا اس سے میں نے ۱۲ نسخے تیارکیے ایک نسخہ آیۃ اللہ سیدحسن الصدراورایک نسخہ آیۃ اللہ عبدالحسین شرف الدین کے پاس بھیج دیا۔میرانسخہ آج بھی میرے عمومی کتب خانے میں موجودہے مجھے قم اسی کتاب کاایک جزء اورمل گیاوہ بھی میرے کتب خانے میں موجودہے۔
اس واقعہ کی تاریخ ۱۳۴۰ ہجری سے ۱۳۴۱ہجری کی ہے اسی طرح ہمیں کتابوں کے حاصل کرنے میں عجیب وغریب واقعات پیش آتے ہیں۔
استادعلام نجف اشرف میں اپنی گرانقدرکتابوں کی حفاطت کے بارے میں سوچاکرتے تھے ۔آپ نے مخطوطات کی جمع آوری میں بھی سعی بلیغ کی اوراسے خیابان ارم
پرواقع اپنے مدرسے میں مخصوس کتاب خانے پر وقف کردیاتاکہ طلاب اس سے استفادہ کریں۔
اس عمومی کتاب خانہ کاافتتاح ۱۵ شعبان ۱۳۸۵ہجری حضرت امام عصر(عج) کی ولادت باسعادت کےدن ایک مدرسہ میں ہوا۔
مطالعہ کرنے والؤن کی کثرت اورجگہ کی تنگی کی وجہ سے استادعلام نے اپنے مدرسے کے روبرو۱۵شعبان ۱۳۹۴ہجری کوہزارمربع میٹرزمین اور۴ طبقوں پر مشتمل ایک نئے کتاب خانے کاافتتاح بکیا ۔اس کی توسیع کی گئی اور۵۰۰ مربع میٹرزمین مزیداس سے ملحق کردی گئی۔
کتاب خانے میں مطبوعہ کتابوں کی تعداد رفتہ رفتہ ۲لاکھ ۵۰ ہزاراورمخطوطات کی تعداد ۲۵ ہزار تک پہنچ گئی ہے حجۃ الاسلام محقق سیداحمدحسینی نےاس کی فہرست ترتیب دی جو ہمارے زمانے ۱۴۱۱ہجری تک ۱۹ جلدوں تک پہنچ گئی ہرجلدمیں ۴۰۰ مخطوطہ کتابوں کی فہرست ہے۔
مخطوطات میں تیسری صدی ہجری کی بے مثل اورمنفرد کتابیں ہین اس کےعلاوہ شیخ طوسی، محقق اول، اورعلامہ حلی،فخرالمحققین ، شہیدثانی ،علامہ مجلسی، شیخ حرعاملی،میرداماد،شیخ بہائی، صدرالمتالھین، فیض کاشانی، شیخ انصاری، اوربہت سے اساطین علم وادب کی مختلف مذاہب وادیان پرمخطوطہ کتابیں موجودہیں۔
میں نے اس کتب خانے میں علی ابن ہلال جوابن بواب کاتب بغدادی کے نام سے مشہورہین کے ہاتھوں کے لکھے قرآن مجیدکاایک نسخہ تقدیم کیاہے جس کواس نے ۱۳۹۲ہجری میں تحریرکیاتھا۔
اس کتب خانے میں تقریبادوہزار افراد روزانہ مطالعہ کرتے ہیں ۔اوریہ مرکزخطی نسخوں کی فوٹو کاپیوں اورمائیکروفلم وغیرہ کے تبادلے کے سلسلے میں دنیابھرکے ۳۵۰ مراکزسے جڑاہواہے۔
یہ کتب خانہ طویل عریض اورتمام تصویری وسائل سے آراستہ ہے جس میں مطالعے کے بڑے بڑے ہال ہیں محققین ومولفین اورفہرست نگاروں کےلئے کچھ کمرے بھی بنائے گئے ہین اوراب حال ہی میں حضرت امام خمینی ؒ کی عنایت اوراسلامی حکومت کے لطف سے کتب خانے کےبغل میں ۲۴۰۰ مربع میٹرزمین بھی خریدی جاچکی ہے۔ جس کاسنگ بنیاد استادعلام نے اپنی آخری عمرمیں روز جمعہ ۲۰ ذی الحجہ ۱۴۱۰ ہجری کوبزرگ اورعظیم شخصیتوں کے مجمع میں رکھا۔
نئی عمارت سات مستحکم طبقوں پرمشتمل ہے تین طبقے زمین کے پیچھے بنائے گئے ہیں تاکہ یہ مخطوطات کامخزن رہے اورہر قسم کے خطرات خاص طورسے زلزلوں سے محفوظ رہے ساتھ ہی یہ عمارت بجلی کے تمام جدیدترین وسائل سے آراستہ ہے۔
ہم دین کے خدمتگزاروں اوراسکی عظیم میراث کے محافظوں کیلئے خاص طورسے استادعلام کی روح کے درجات کی بلندی کیلئے خداوندعالم کی بارگاہ میں دست بہ دعاہیں۔
دینی مدرسے
مراجع کرام سالہاسال دینی علوم کی تحصیل اورفقہ اہل بیت ؑ کی تعلیم کیلئے تنہائی کی سختی غربت ومسافرت کی وحشت فقروتنگدستی کاغم اورطلبگی کی سختیاں برداشت کرتے رہے ہین اسی لئے جب ہم کسی مرجع کی تاریخ کامطالعہ کرتے ہیں تواسے سماج کے رنج وغم سے آگاہ پاتے ہیں لہذاوہ سب سے پہلے طلاب علوم دینیہ کی مشکلوں کوکم کرنے یاانھیں دورکرنے کی کوشش کرتاہے خاص طورسے جب وہ حوزہ علمیہ پر قیادت کے شباب کوپہنچتاہے تواسے طلبہ کے قیام کیلئے مدرسہ بنانے کی فکرمیں ہوتی ہے۔
انھیں بنیادوں پر استادعلام نے بھی قم میں طلباء کے قیام کیلئے مدرسوں کی تعمیر کرائی جسے ہم بطوراختصاربیان کرتے ہیں ۔
مدرسہ مرعشیہ۔
یہ مدرسہ آپ کے عمومی کتب خانہ کے مقابل خیان ارم
پرواقع ہے جس کی زمین الحاج عباس فنائیان نے وقف کی تھی اسکی تاسیس ۱۳۸۳ ہجری مین ہوئی اس کی مساحت ۴۲۰ مربع میٹر اورزیربنا۶۶۰ میٹرہے یہ تین طبقوں پرمشتمل ہے مدرسہ میں ۱۶۰ میٹر صحن بھی ہے جس میں ۳۷ کمرے ہیں ہرسال عشرہ محرم میں یہاں عزاداری بھی ہوتی ہے اس مدرسہ کانام استادعلام کے لقب کے اعتبارسے مدرسہ مرعشیہ رکھاگیا۔
مدرسہ مھدیہ۔
یہ مدرسہ خیابان باجک پرواقع ہے اسکی تاسیس ۱۳۷۴ہجری میں ہوئی مساحت کے اعتبارسے یہ ۴۵۰ مربع میٹرزمین پرمشتمل ہے جس میں ۳۰۰ زیربناہے اس مدرسہ میں ۳۵ کمرے اورایک دارالمطالعہ بھی ہے جس میں دوہزارکتابیں موجودہیں امام عصر(عج)کے نام سے برکت حاصل کرنے کیلئے اس کانام مدرسہ مھدیہ رکھاگیا۔
اس اعتبارسے بھی اسے مھدیہ کہاجاتاہے کہ یہ مدرسہ الحاج مھدی ایرانی کی طرف سے تعمیرکیاگیاجنھوں نے اس کے اموراستادعلام کوتفویض کردئیے تھے۔
مدرسہ مؤمنیہ ۔
یہ بہت ہی بڑااورجدیدالتاسیس مدرسہ ہے اس کی تاسیس ۱۳۸۹ہجری میں خیابان چہارمردان چہارراہ سجادیہ پرہوئی یہ دوطبقوں پر مشتمل ہے جس میں ۷۶ کمرے ہیں مساحت کے اعتبارسے ۲۰۱۶ مربع میٹرزمین پرواقع ہےجس میں ۱۱۷۶میٹر کایک صحن بھی ہے جس میں بڑےبڑے درخت لگائےگئے ہیں یہاں ایک دارالمطالعہ بھی ہے جس میں کتابیں موجودہیں اس مدرسہ کانام مومنیہ اس اعتبارسے رکھاگیاکہ یہ پہلے ایک دینی مدرسہ تھاجسے مرحوم مرزامومن خان نے بنوایاتھامرورزمانہ کے ساتھ اس کی عمارت منہدم ہوگئی جسے دوبارہ استادعلام نے تعمیرکرایا۔
مدرسہ شہابیہ۔
یہ مدرسہ خیابان امام خمینیؒ پرواقع ہے جوشاہ رضاپہلوی کے زمانے میں قم مقدسہ کاایک تنہاسینماگھر تھایہ بات انقلابی علماء اورمومنین کےدلوں پرشاق تھی کہ قم جیسے شہرمیں جوانوں کوگمراہ کرنے کی غرض سے ایک طاغوتی سینماگھربنایاگیاتھاجس میں فحش فلمیں دکھائی جاتی تھیں جواسلامی انقلاب کے دوران شہرفقہ فقاہت اورمدینہ علم واجتہادقم کیلئے عیب تھیں لہذا کچھ شجاع اوربہادرمومن جوانوں نے ایک رات اسے بموں سے اڑادیاپھراستاد علام نے اسے خریدلیااوراس کےملبہ پرایک دینی مدرسہ کی بنیادرکھی جس کے کئی حصے ہیں ایک طلباء کے رہنے کاحصہ ہے دوسرادارالمطالعہ تیسرامدرس اورہال چوتھاچاپخانہ اوردارالنشر سے مخصوص ہے۔
مجھے یادہے سینماگھرکےاڑانے جانے کےچندماہ قبل میں استادعلام کےساتھ ٹیکسی میں سفرکررہاتھاجب سینماگھرکی طرف سے گزرے تواستاداستادعلام نے اپنے ہاتھ آسمان کی طرف بلندکئے اورخداسے رازونیازمیں مصروف ہوگئے۔
میں نے دعاتونہیں سنی لیکن سینماگھرکےاڑائے جانے کےبعدیہ احساس ہواکہ یہ اسی بزرگ کےانفاس قدسیہ کی برکتیں تھیں۔
چونکہ آپ کانام شہاب الدین تھااس لئے اس مدرسہ کانام شہابیہ رکھاگیا۔
طلبہ کے لئے گھر
استادعلام کے آثار میں یہ بھی ہے انھوں نے اپنی نگرانی میں اہل علم کیلئے بہت سے مکانات تعمیرکرائے جن میں تمام ضروری سہولتیں موجودہیں۔یہ مکانات خیابان آذرکے کے آخری حصے پرواقع ہے جسے کوچہ آیۃ اللہ العظمیٰ مرعشی نجفی کے نام سے جاناجاتاہے یہ ایک لمبی گلی ہے جس کے دونوں طرف ان طلبہ کے مکانات ہیں جوجوق درجوق قم مقدس میں آتے ہیں اوران کے پاس کوئی گھراورجائے پناہ نہیں ہوتی۔
ہاسپٹل
آپ نے اپنی نگرانی میں غریبوں محروموں اورتنگدست افرادکیلئے خیابان آذرپرنیکوئی ہاسپٹل میں درمانگاہ جداکےنام سے ایک ہاسپٹل کی تعمیرکی۔
امام باڑے اورمساجد
استادعلام نے اپنی نگرانی میں مختلف شہروں میں بہت سی مسجدیں اورامام باڑے بنوائے لیکن جس امامباڑے کی تعمیرآپ نے مرحوم الحاج غلام حسین شاکری کے حصہ ثلث سے کرائی وہ آپ کے گھرسے ملاہواہے جوعاشقان سیدالشہداءؑ کامہبط اورمامن ہے خاص طور سے محرم وصفرکےمہینوں میں مجالس عزااوراہل بیت ؑکی ولادت وشہادت پرمجالس ومحافل برپاہوتی ہیں اس طرح یہ امام باڑہ اسلامی علوم کی تدریس کامرکزبھی رہاہے جس کی طرف استاد علام نے اپنی پہلی وصیت میں اشارہ کیاہے آپ نے مختلف شہروں ،قصبوں اوردیہاتوں میں دسیوں مسجدیں مدرسے کنویں ،امام باڑے اورسڑکیں تعمیرکرائیں۔
طلبہ کی روٹی
۱۳۸۰ ہجری میں آیۃ اللہ العظمیٰ سیدبروجردی کی وفات کے بعدطلبہ کی روٹی آپ نےاپنے ذمہ لی لہذاآپ اپنے وکیلوں کےذریعہ طلبہ کوان کےمراتب کےاعتبارسے روٹیوں کےکوپن تقسیم کرتے تھے جس کی آخری برسوں میں ہرماہ ۲۰ لاکھ کےقریب پہنچ گئی تھی۔
یہ دیگرمراجع کرام کے دفاترسے ملنے والے شہریوں کےساتھ طلبہ کوملنے والی بہترین امدادتھی۔
____________________