مغز متفکر اسلام(سپرمین ان اسلام ) امام جعفر صادق “

مغز متفکر اسلام(سپرمین ان اسلام ) امام جعفر صادق “ 0%

مغز متفکر اسلام(سپرمین ان اسلام ) امام جعفر صادق “ مؤلف:
زمرہ جات: امام جعفر صادق(علیہ السلام)

مغز متفکر اسلام(سپرمین ان اسلام ) امام جعفر صادق “

مؤلف: فرانسوی دانشوروں کی ایک جماعت
زمرہ جات:

مشاہدے: 45467
ڈاؤنلوڈ: 5325

مغز متفکر اسلام(سپرمین ان اسلام ) امام جعفر صادق “
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 24 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 45467 / ڈاؤنلوڈ: 5325
سائز سائز سائز
مغز متفکر اسلام(سپرمین ان اسلام ) امام جعفر صادق “

مغز متفکر اسلام(سپرمین ان اسلام ) امام جعفر صادق “

مؤلف:
اردو

نوٹ: اسلامی ثقافتی ادارہ " امامین الحسنین(ع) نیٹ ورک " نے اس کتاب کو برقی شکل میں، قارئین کرام کےلئےشائع کیا ہے۔

اورادارہ کی گِروہ علمی کی زیر نگرانی حُرُوفِ چِینی، فنی تنظیم وتصحیح اور ممکنہ غلطیوں کو درست کرنے کی حدالامکان کوشش کی گئی ہے۔

مفت PDF ڈاؤنلوڈ لنک http://alhassanain.org/urdu/?com=book&id=۲۰۵&view=download&format=pdf

نیز اپنے مفید مشورے، پیشنہادات، اعتراضات اور ہر قسم کے سوالات کو ادارہ کے ایمیل (ihcf.preach@gmail.com) پر سینڈ کرسکتے ہیں

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مغز متفکر اسلام

(سپرمین ان اسلام )

امام جعفر صادق

تالیف:

متعدد پروفیسرز

مترجم:

سید کفایت حسین

عرض ناشر

عصر حاضر میں تہذیب کے مسئلہ کی اہمیت نے عالم اسلام کو ایک نازک بلکہ دشوار منزل پر لاکھڑا کیا ہے اور یہ صورت مفکرین اسلام کیلئے ایک بڑا چیلنج بن گئی ۔

ہے بلاشبہ اس سے گریز فطرت انسانی کے منافی ہو گا ۔لہذا دنیا کا کوئی ملک اس چیلنج کو نظر انداز نہیں کر سکتا کیونکہ ترقی اور خوش حال کیلئے ہر دل میں ایک سہانی امید مچلتی ہے تازہ جذبہ ابھرتا ہے اور حوصلہ مندی جنم لیتی ہے ۔

مشاہدہ ہے کہ مغربی تہذیب کی وسعت پزیری نے مشرقی ممالک کو روحانی اعتبار سے کمزور بنا دیا ہے مگر اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں ہے کہ اس یلغار سے اسلام یا اسلامی آثار میں کوئی تبدیلی آگئی ہے ۔

کیونکہ اسلام آج بھی اپنی عالمگیر تعلیمات کا علم بردار ہے ۔ کہ قرآن اور عترت اہل بیت سے تمسک رکھ کر اسلامی آدب کے مطابق معاشرے میں عادلانہ نظام قائم ہو ۔ انسانیت کی خوشحالی کے لیے اقدامات کئے جائیں ۔ مخیر طبقہ میں جذبہ خیر و ایثار پیدا ہو اور باہمی اخوات و رواداری کو فروغ حاصل ہو ۔ اسلامی تعلیمات کو جدید زمانے کے تناظر میں مروجہ و متداول علوم و فنون اور وسائل و ذرائع سے ہم آہنگ کیا جائے ۔

اسی طرح ہماری نئی نسل میں جہاں ایمانی قوت متحرک ہو گی اور خود اعتماد کے ساتھ دین حقہ پر استقامت کا عزم بلند ہو گا وہاں ایجاد و اختراع فکری استقلال اور اولوالعزمی جیسی طاقتیں مجتمع ہو کر پوری ذہانت و مہارت اور جرات و حوصہ کے ساتھ ہمیں مغرب کا مقابلہ کرنے پر آمادہ کریں گی ۔

آج کا دور ہمارے ارباب فکر و دانش اور اہل قلم پر بھاری ذمہ داری عائد کرتا ہے کہ یہ طبقہ عوام میں ایمانی قوت ‘اسلامی شعور اور اخلاقی حسن کو نکھارنے میں اپنی بھر پور صلاحتیوں کو اعتماد میں لائے تاکہ ہمارے حالات میں بہتری پیدا ہو ہمارے کردار میں متعدد بہ تبدیلی رو نما ہو ۔ مغربی تہذیب سے ہماری طلب کا دائرہ فقط اپنی ثقافت کیلئے مفید طلب اور ہمارے نظریات سے ہم آہنگی کے حصول تک محدود رہے کیونکہ اسی طرح ہم اللہ کی رسی کو مضبوط کے ساتھ تھام کر دین و دنیا کی فلاح سے متمتع ہو سکتے ہیں ۔

اللہ تعالی کے فضل و کرم سے قیام پبلی کیشنز لاہور نے ملت اسلامیہ میں یک جہتی اور یگانت کے فروغ اور تمام عصبیتوں کے خاتمہ کیلئے ایک معقول لائحہ عمل مرتب کیا ہے اور عوام الناس کو ایسا لٹریچر مہیا کرنے کا بیڑہ اٹھایا ہے جس کی برکت سے وہ دنیا کے ہر چیلنج کا مردانہ وار

مقابلہ کرنے کی صلاحتیوں سے مالا مال ہو سکتے ہیں ۔

زیر نظر کتاب ہمارے جدوجہد کی اہم ایک کڑی ہے یہ کتاب اپنے موضوع کے اعتبار سے ممتاز و منفرد ہے کہ اس سے قبل اردو زبان میں ایسی کاوش منظر عام پر نہیں آ سکی ہے ۔

اس کتاب کا اصل مسودہ فرانسیسی زبان میں ہے ۔ اسے پچیس دانشوروں کی ایک جماعت نے مرتب کیا ہے مرتبین کی غالب تعداد مسلمان نہیں ہے لہزا کئی مقامات پر اختلاف کی گنجائش پائی جاتی ہے چونکہ یہ تحریر مذہبی پس منظر نہیں رکھتی ہے اور اسے سائنسی تناظر میں لکھا گیا ہے لہذا اگر کسی جگہ مذہبی جذبات کو ٹھیس محسوس ہو تو اسے رواداری کے جذبے سے نظر انداز کر دینے کا خصوصی التماس ہے اس کا اردو ترجمہ فارسی متن سے کیا گیا ہے مترجم نے صحافتی دیانت کے پیش نظر یہ مناسب خیال نہیں کیا کہ مولف جماعت کے نظریت پر اپنی مبصرانہ رائے مسلط کرے البتہ پیشکار نے جہان ضروری سمجھا ہے معمولی حاشیہ آرائی کر دی ہے واضح ہو کہ ادارہ کا صاحب کتاب جماعت کے تمام نظریات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے ۔

ہم معترف ہیں کہ اس معرکتہ آلارا کتاب مستطاب کو شائع کرکے ہم نے چھوٹے منہ سے بڑی بات کی ہے لہذا اغلب امکان ہے کہ کچھ مقامات پر اغلاط سرزد ہو گئی ہوں اور اس کا واضح سبب ہماری علمی بے بضاعتی ہو گا ایسی صورت میں ہم اپنے معزز قارئین سے بصد معذرت ملجتی ہیں کہ وہ تصحیح سے مطلع فرما کر ہدیہ تشکر کا موقع عنایت کریں ۔ ہم نے کوشش کی ہے کہ کتاب کو اس کے شایان شان شائع کرنے میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھیں اور قاری پر اس کا مالی بوجھ بھی زیادہ نہ ہو تاہم اس کے حسن و قبح کا فیصلہ ذوق ناظرین پر منحصر ہے ہمیں یقین واثق ہے کہ ہمارے کرم فرما ہمیں اپنے قیمتی مشورہ اور اصلاحی آراء سے ضرور آگاہ کریں گے تاکہ ان کی روشنی میں ہم ان کی بہترین سے بہترین خدمت انجام دے سکیں ۔ دعا ہے کہ رب الکریم اہل اسلام کو اس کتاب کے فیوض سے بہرہ مند فرمائے ۔ ماتوفیقی الاباللہ

آپ کے نیاز مند

قیام پبلی کیشنز لاہور

******

مقدمہ فارسی مترجم

اسلامی مسائل سترہویں صدیق عیسوی سے یورپی دانشوروں کی توجہ کا مرکز بنے ہوئے تھے اور امریکہ کی یونیورسٹی میں توسیع کے بعد امریکی اکابرین نے بھی اسلامی تعلیمات پر تحقیق کرنے میں دلچسپی لینا شروع کیا یہ بات سب کو معلوم ہے کہ اسلامی مسائل اور ہر طبقہ کے مسلم دانشوروں کے متعلق یورپی و امریکی محقیقین نے سترہویں صدی عیسوی کے بعد بہت سی کتب تحریر کی ہیں اور یہ سلسلہ ابھی تک جاری ہے ان تحقیقات کا گزشتہ پچاس ساٹھ سال کے دوران فارسی میں ترجمہ ہوا ۔ ان میں سے کچھ کے ترجمہ کی سعادت حقیر نے حاصل کی ہے ۔ لیکن اہل یورپ و امریکہ اس صدی کے آغاز خصوصا جنگ عظیم کے شروع میں مسلک شیعہ اثناء عشری اور ان کے اکابرین پر تحقیق کرنے کی جانب مائل ہوئے ۔

یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ مطالعاتی مرکز جو اسٹرابرگ فرانس میں واقع ہے نہ صرف اسلامی مسائل پر تحقیق کرتا ہے بلکہ دنیا کے دیگر مذاہب پر بھی ریسرچ کرتا ہے

جو لوگ اس تحقیقاتی مرکز میں خدمات سر انجام دیتے ہیں وہ اسٹراسبرگ کے رہائشی نہیں بلکہ اسٹرابرگ یونیورسٹی کے اساتذہ کے علاوہ ان میں وہ دانشور بھی شامل ہیں جو دوسرے ملکوں میں مذہبیات نے یہ بات اسٹراسبرگ کے ایک استاد سے سنی ہے اور کبھی کبھار یہ محقق دو سال میں ایک مرتبہ اسٹراسبرگ میں جمع ہو کر باہمی تبادلہ خیالات کرتے ہیں ۔

ان محقق کی تحقیقات میں سے ایک تحقیقی پیش خدمت کتاب کی صورت میں شائع ہوئی ہے اس میں ایسے مطالب درج ہیں جو ابھی تک کسی بھی اسلامی ملک میں دوسری کتابوں کی زینت نہیں بنے ۔حالانکہ مجھے یہ کہنے دیجئے کہ امام جعفر صادق علیہ اسلام کا انسانی اور عملی مرتبہ فی الحقیقت اس کتاب کی رسائی سے بہت زیادہ بلند ہے مگر یہ کتاب اس بات کا موجب بن سکتی ہے کہ اہل علم امام جعفر صادق علیہ السلام کے بارے میں اس سے زیادہ جامع اور ضحینم مواد تصنیف و تالیف کریں ۔

جن اسکالرز نے مرکز مطالعات اسلامی اسٹرسبرگ کے اس تحقیقی پروگرام میں حصہ لیا ان کے اسماء کرام مندرجہ ذیل ہیں ۔

مسٹر آرمان بل پروفیسر یونیورسٹی برسلز اینڈگان بلجیئم

مسٹر جان اوبن پروفیسر یونیورسٹی آ گان بلجیئم

مسٹر برونستویک پروفیسر یونیورسٹی آف پیرس فرانس

مسٹر کلائیڈ کاہن پروفیسر یونیورسٹی اف پیرس فرانس

مسٹرانریکو جرالی پروفیسر یونیورسٹی آف اٹلی اٹلی

مسٹر ہنری کوربن پروفیسر یونیورسٹی اینڈ ڈائریکٹر آف

۹; ۹; تھیالوجی اسٹڈیز فرانس

مسٹر توفیق مخل پروفیسر یونیورسٹی آف اسٹراسبرگ فرانس

مسٹر فرانسیکو جبرائیلی پروفیسر یونیورسٹی آف روم اٹلی

مسٹر ریچارڈ گراھم پروفیسر یونیورسٹی جرمنی جرمنی

مس این لمیٹن پروفیسر یونیورسٹی آف لندن برطانیہ

مسٹر جرا رلوکنٹ پروفیسر آف اورینٹل لینگویجز یونیورسٹی آف پیرس فرانس

مسٹر ایون لینن ڈویل قونڈ ڈائریکٹر انسٹی ٹیوٹ آف نالج ریسرچ پیرس فرانس

مسٹر ویلفریڈ مڈلونگ پروفیسر یونیورسٹی آف شکاگو امریکہ

مسٹر ہنری ماسے پروفسیر یونیورسٹی آف پیرس فرانس

مسٹر حسین نصر وائس چانسلر یونیورسٹی اف ٹیکنالوجی تہران ایران

مسٹر شارل پلا پروفیسر یونیورسٹی آفس پیرس فرانس

مسٹر موسی صدر ڈائریکٹر اسلامک اسٹڈیز نالج صدر لبنان لبنان

مسٹر جارج ویزڈا پروفیسر یونیورسٹی آف لیون فرانس

مسٹر آرنلڈ پروفیسر یونیورسٹی آف لیون فرانس

مسٹرالیاش پروفیسر یونیورسٹی اف کیلی فورنیا لاس اینجلس امریکہ

مسز دوران بینچ کلیف پروفیسر یونیورسٹی اف لندن برطانیہ

مسٹر فرتیز میئر پروفیسر یونیورسٹی آف بال پیرس فرانس

مسٹر جوزف مانوز پروفیسر یونیورسٹی اف فری برگ جرمنی

مسٹر ہینس مولر پروفیسر یونیورسٹی آف برگ جرمنی

مسٹر ہینس رومر پروفیسر یونیورسٹی آف برگ جرمنی

میں ایک شیعہ اثناء عشری مسلمان ہوں آج تک نہیں جانتا تھا کہ شیعہ مسلک کو جعفری کیوں کہا جاتا ہے ؟ مجھے امام جعفر صادق علیہ السلام (اپنے چھٹے امام )کے بارے میں اس سے زیادہ معلوم نہ تھا کہ آپ امام محمد باقر علیہ السلام کے فرنزد ارجمند اور امام موسی کاظم علیہ السلام کے والد گرامی قدر ہیں ۔

میں آپ کی سوانح حیات سے مکمل بے بہرہ تھا اور زیادہ سے زیادہ یہی جانتا تھا کہ آپ کی ولادت و شہادت کہاں واقع ہوئیں ۔ مجھے قطعا معلوم نہ تھا کہ امام جعفر صادق نے زندگی کے بارے میں کیا فرمایا اور کیسے کارنامے انجام دیئے ۔ حتی کہ اس بات سے بھی نا بلد تھا کہ شیعہ مسلک کو جعفری کیوں کہا جاتا ہے ؟ کیا ہمارے پہلے امام علی ابن ابی طالب علیہ السلام نہیں ہیں ؟ پھر شیعہ مسلک کو جعفری کہنے کا کیا سبب ہے ؟ کیا امام حسین علیہ السلام کی قربانی اور ایثار کو مد نظر رکھتے ہوئے مناسب نہیں کہ شیعہ مسلک کو حسینی کا لقب دیا جائے ؟

ان تمام سوالوں کا جواب مجھے اس وقت ملا جب اسلامک اسٹڈیز سنٹر اسٹراسبرگ (فرانس)کا ایک میگزین دربارہ امام جعفر صادق میرے ہاتھ لگا اس رسالے کو پڑھ کر میرے علم میں یہ بات آئی کہ امام جعفرصادق علیہ السلام دیگر آئمہ میں اس قدر ممتاز کیوں ہیں کہ شیعہ مسلک کو ان کے نام نامی سے موسوم کیا گیا ہے ۔

کہا جا سکتا ہے کہ امام جعفر صادق کے متعلق معلومات کا فقدان خود میری اپنی سستی اور کاہلی کی باعث ہوا کیونکہ اگر بحار االانوار تالیف

علامہ مجلسی و فیات الاعیان تالیف ابن خلکان وافی تالیف ملا محسن فیض اور کافی تالیف علامہ کلینی یا ناسخ التواریخ تالیف لسان الملک سپہر جیسی کتابوں کا مطالعہ کر لیتا تو اپنے چھٹے امام کو بخوبی پہچان لیتا ۔

تو میں عرض کروں گا کہ میں نے بعض کتب کو جو امام جعفر صادق کے متعلق لکھی گئی ہیں مطالعہ کیا ہے اور اس بات کا بھی مشاہدہ کیا ہے کہ ان کتابوں میں امام صادق کے معجزات اور مناقب تو کثرت سے ذکر کئے گئے ہیں لیکن اس کا جواب کہیں دستایاب نہیں ہے کہ شیعہ مسلک کو جعفری کس بنا پر کہا جاتا ہے ؟ مگر اس رسالے نے جو اسلامک اسٹڈیز نے چھاپا ہے مجھ پر یہ حقیقت عیان کر دی اور میری نابینا آنکھوں کو بصیرت دے دی چنانچہ میں نے نئی نوجوان نسل کو چھٹے امام کی تاریخی حوالہ جات کی روشنی میں شناخت کروانے کا بیڑہ اٹھایا کیونکہ میرے خیال کے مطابق ماضی کے مذہبی علماء میں عمومی طور پر سے شاید ہی کس نے اس موضوع کا اداراک کیا ہو کہ امام جعفر صادق نے مذہب شیعہ کو زوال سے بچانے کیلئے کیا تدابیر اختیار فرمائیں ۔ اور اگر وہ ایسا نہ کرتے تو لازمی نتیجہ یہ ہوتا کہ آج مسلک شیعہ موجود نہ ہوتا ۔

اس عظیم شخصیت اور نا بغہ دانشور کے حق کو پہچاننے کا تقاضا ہے کہ آپ کا تعارف و شناخت تاریخی علمی اور نظریاتی حوالوں کے ساتھ ان سب لوگوں کو کرایا جائے جو آپ کی ذات بالاصفات کی معرفت نہیں رکھتے ۔

ذبیح اللہ منصوری

*****

پیش لفظ اردو مترجم

بسم الله الرحمن الرحیم

الحمد لله رب العالمین واصلواة و السلام علی محمد و الله الطیبین الطاهرین

پیش نظر کتاب"مغز متفکر اسلام"(سپرمین ان اسلام ) "امام جعفر صادق " کا مسودہ فرانس کے ساحلی شہر اسٹراسبرگ کے اسلامک اسٹڈیز سنٹر نے تیار کیا ۔ اور پھر یہ کتاب جان ذبیح اللہ منصوری مدظلہ نے فارسی کے قالب میں ڈھالی ۔ وہاں سے اسے اسلام کے ادنی خادم نے اردو کا لبادہ اوڑھایا ۔

درد ملت رکھنے والے مسلمان اس بات سے بخوبی آگاہ ہیں کہ اس جیسی کتابوں کو ترجمہ کرکے انہیں ہر زبان کے قاری تک پہنچانا کتنا ضروری ہے ؟

اگر ہم اپنے مذہب کی شاندار ثقافت ‘ روایات اور کم از کم اپنے آباؤ اجداد کے بارے میں کی جانے والی تحقیقات کو بھی محفوظ نہ کریں تو ہمارے لئے نہایت افسوس کا مقام ہے یہ اور بات ہے کہ ہمیں غیروں کے تحقیقاتی مراکز ہمارے اسلاف کے چھپے ہوئے کارناموں کے پتہ دیتے ہیں ۔ کیونکہ اقبال نے کہا ۔

وہ علم کے موتی کتابیں اپنے آباء کی جو دیکھیں ان کو یورپ میں تو دل ہوتا ہے سیپارہ

وہ مسلمان جس نے ایک ہاتھ میں تلوار اور دوسری میں قرآن لے کر انسان کو عدل و انصاف ‘ صلح و امن اور برابری کا درس دیا ‘ آج غیروں کی چوکھٹ پر جھکا ہوا ہے اس کی کیا وجہ ہے ؟

کیا اس کی وجہ یہ نہیں کہ آج کا مسلم اپنے مذہب و ثقافت سے ناآشنا ہے اسے مغربی تہذیب نے خیرہ کر دیا ہے کیونکہ اس کی آنکھ میں یثرب اور نجف کا سرمہ نہیں ہے اسے جو چیز مغرب سے ملتی ہے آنکھیں بند کرکے لے لیتا ہے ۔

موجودہ دور کا مسلم اپنی ثقافت کے بارے میں احساس کمتری کا شکار ہے کیونکہ اس کے پاس کتابوں کا وہ ذخائر موجود ہی نہیں جن میں اس کی ہدیات و رہنمائی کا سامنا تھا وہ ذخائر یورپ کے کتاب خانوں کی زینت ہیں ۔ المختصر آج کے دور کا تقاصا یہ ہے کہ اپنی موجودہ اور آئندہ نسلوں کو اسلام کے کارناموں سے زیادہ سے زیادہ روشناس کرایا جائے ۔

لہذا اسی ضرورت کے پیش نظر احباب نے مجھ سے اصرار کیا کہ میں اس کتاب کے ترجمہ کی سعادت حاصل کروں ۔ میں سمجھتا ہوں اس جیسی عظیم کتاب کا ترجمہ میرے لئے بڑے ہی فخر کی بات ہے۔

یہ کتاب تمام مسلمانوں کیلئے نادر تحفے کا درجہ رکھتی ہے کتاب کی اہمیت کے پیش نظر حقیر نے اپنی پوری سعی کی ہے کہ ترجمے کا حق سو فیصد ادا کر سکوں لیکن بہر حال انسان خطا کا پتلا ہے اگر کوئی کوتاہی نظرسے گزرے تونقاد بھائیوں اوربہنوں سے استدعا ہے نشاندہی فرمائیں البتہ کتاب کے متن کو من و عن ترجمہ کرنے کی کوشش کی ہے لہذا اگر کوئی تاریخی غلطی نظر سے گزرے تو اس کیلئے معافی کا خواستگار ہوں ۔ لیکن امید ہے کہ انشاء اللہ تعالی موضوع کے اعتبار سے یہ کتاب پاکستان میں اپنی نوعیت کی بہترین کتابوں میں شمار ہو گی ۔ اور قارئین کرام اس کے مطالعے میں دلچسپی دکھائیں گے ۔

خصوصا ریسرچ کرنے والے لوگوں کیلئے یہ کتاب جس قدر اہمیت رکھتی ہے اس موضوع پر بہت کم کتب اتنی اہمیت کی حامل ہوں گی ۔

جہاں میں نے کوشش کی ہے کہ کتاب کا متن من و عن قارئین کی خدمت میں پیش کیا جائے وہاں اس بات کی طرف بھی دھیان دیا ہے کہ کتاب کا ترجمہ سلیس ترین زبان میں پیش کیا جائے ۔ لیکن چونکہ اردو کا دامن اتنا وسیع نہیں ہے کہ مطالب کے خزانوں کو آسانی سے سمیٹ سکے لہذا ممکن ہے گاہے بگاہے دوسری زبانوں کے الفاظ کی جھلک ملے ۔

علاوہ ازین کتاب میں اکثر و بیشتر ناموں کو اصلی حالت پر رکھا گیا ہے جو شاید قارئین کے مزاج پر گراں گزرے ۔ بہر حال کتاب اپنی موضوعات کے اعتبار سے اس قدر دلچسپی و شیریں ہے کہ ایک غیر جانبدار قاری بھی اس کو پڑھ کر محظوط ہو سکتا ہے ۔

کتاب میں کئی ایک ایسے مسائل ہیں جن کا ہماری روز مرہ زندگی سے گہرا تعلق ہے اور ہم ان سے بے خبر ہیں ۔ لہذا اس اعتبار سے بھی کتاب کی اہمیت کو چار چاند لگے ہیں ۔

آخر میں رقم الحروف جناب ذبیح اللہ منصوری کی تمہید کی تائید کرتے ہوئے یہ کہے گا کہ انہوں نے حقیقی معنوں میں کتاب کی ضرورت اور افادیت کا درک دیا ہے خدا ہمیں توفیق دے کہ اس جیسے موضوعات پر سینکڑوں کتابیں منظر عام پر لا سکیں تاکہ ہمارے موجودہ اور آئندہ نسل اسلاف سے حقیقی معنوں میں آشنا ہو سکیں ۔

اور آخر میں اللہ تعالی سے دعا ہے کہ ہمیں مزید توفیق دے تاکہ اس کام کو مزید آگے بڑھایا جا سکے ۔

والسلام علی من التبع الھدی

اسلام کا ادنی خادم

مترجم(سید کفایت حسین)

*****