دخل در معقولات
مخلوقات کی ہدایت کا ذمہ خود خالق نے اٹھا رکھا ہے ۔ پوری کائنات میں فطری ہدایت کا مربوط نظام رائج ہے اور ہر شے اپنے مالک کی اطاعت میں مصروف ہے انسان کو خود اس کے رب نے ایک حد تک مختار بنا کر اسے آزمائش میں مبتلا کیا ہے اور دیگر انواع کے برعکس اس کی ہدایت کا مخصوص بندوبست فرمایا ہے آدم علیہ السلام تا خاتم النبین صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا ایک منظم سلسلہ جاری کیا اور وحی و الہام کے زریعہ انسانیت کو معتدل آئین حیات عطا کیا تاکہ اس کی ارتقاء و نشو ونما اور فلاح و رفاہ انسانی کے جملہ تقاضے پورے ہو جائیں ۔ فطرہ اللہ جو دراصل دین حقیقی ہے کے ضوابط کے تحفے اور اس کے قوانین کے نفاذ کیلئے تکمیل دین کے بعد بارہ ہادی منصوص فرمائے اور انہیں آئین انسانیت قرآن مجید کا وارث و محافظ قرار دیا قرآن میں ہر خشک و تر کا علم نازل فرما کر اس کی تعلیم کیلئے اپنے ان منصوص بندوں کو علم وحی سے نوازا ۔ ہدایت کے ان بارہ کامل نمونوں میں سے گیارہ نے اپنے فرائض منصبی عمدہ حسن کارکردگی کے ساتھ ادا کئے اور بارہویں کے قیام کی زمین کو ہموار کیا تاکہ اظہار دین کی عملی تعبیر ظاہر ہو جائے ۔ قدرت کے یہ شاہکار نمونے دراصل ہدایت کے ایسے آبدار آئینے ہیں جو دیکھنے میں چھوٹے بڑے نظر آتے ہیں لیکن ہر ایک میں دین خدا "اسلام "کی تصویر مکمل نظر آتی ہے ۔
کائنات کے شیش محل میں سجے ہوئے چھٹے آئینہ کی چکا چوند چمک اور دلکشی نے دنیا کو خصوصی طور پر اپنی جانب متوجہ کیا ہے ایک بالغ نظر عربی شاعر نے یہ مفہوم انشا کیا ہے کہ
"جعفر صادق عرش کا ایسا ستارہ تھا جو زمین کی تاریکیاں دور کرنے کیلئے آ گیا تھا "
زیر مطالعہ کتاب میں امام جعفر صادق کی علمی مرکزیت اور آپ کے عظیم کارہائے نمایاں سے متعلقہ عمیق تحقیقی کو ہدیہ ناظرین کرنے کی سعادت حاصل کی گئی ہے یہ ریسرچ ۲۵ مختلف النسل اکابرین کے وسیع مطالعہ کا نچوڑ ہے اس کا اصلی متن فرانسیسی زبان میں ہے جسے جناب ذبیح اللہ منصوری مد ظلہ نے فارسی کا جامہ پہنایا ۔ اور اللہ نے ہمیں توفیق فرمائی کہ اس کے ا ردو متن کو پیش خدمت کر رہے ہیں ۔
امام جعفر صادق علیہ السلام کی ولادت با سعادت اس سیاسی دور میں ہوئی جب حق و دیانت کے چراغ گل کئے جا رہے تھے اور جزیرہ نما عرب میں طوائف الملوکی کا دور دورہ تھا ۔ جگہ جگہ فتنہ انگیز ‘عناد و فساد اور بے چینی و بد امنی پھیل ہوئی تھی لوگ علم حق اور صداقت کی تلاش کے بجائے جاہ و منصب سیم و زر اور تاج و تخت کی تلاش میں سر گرداں تھے ہر طرف مفاد پرسی کا سکہ چل رہا تھا اور ملوکیت و اقتدار کی قربان گاہ پر دیانت و امانت کو قربان کیا جا رہا تھا ۔ ایسے عہد ظلمت میں نور امامت کا چھٹا ماہتاب اپنی پوری آب و تاب سے چمکا ۔ آپ امام محمد باقر علیہ السلام کے فرزند ارجمند سید الساجدین امام زین العابدین علیہ السلام کے پوتے اور سید الشہداء سیدنا امام حسین علیہ السلام کے پڑپوتے ہیں ۔ آپ اسلام کے نامور عظیم ترین اور سرمایہ فخر و ناز اکابرین میں ممتاز و منفرد مقام و مرتبے کے حامل ہیں آپ نے اپنی ساری زندگی انسانی فلاح و اصلاح کیلئے وقف کر دی آپ کی سیرت اسلامی کردار کی کامل اور بے نظیر تصویر ہے آپ نے ہمیشہ وہی کہا اور وہی کیا جو دین فطرت اسلام کا حقیقی منشاو مقصد تھا اپنی پوری زندگی میں آپ نے ایک لمحہ کیلئے بھی ان ذمہ داریوں اور تقاضوں سے غفلت نہ برتی جو انفرادی اجتماعی خانگی اور عوامی شعبہ ہائے حیات کی طرف سے آپ پر عائد ہو سکتے تھے آپ نے اپنے خطبوں مقالات ارشادات افعال اعمال کردار اور گفتار سے اسلام کی اس مقدس روح کو اجاگر کردیا جو پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی حیات طیبہ کا سب سے بڑا مقصد تھا اپنے اس طرز مخصوص کے سبب آپ انسانی شعور و ادارک میں ایک عظیم ترین تعمیری انقلاب کا سبب بن گئے ۔ آپ نے فکر انسانی کا رخ حقیقت پسندی اور تلاش
حق کی جانب موڑ دیا علمی تحقیقات کیلئے جدید راہیں پیدا کر دیں ۔ اس طرح آپ کی سیرت پاک کی قدریں جدید و قدیم ہر دور کے تقاضوں کو پورا کرتی ہیں ۔
امام جعفر صادق کا تبحر علمی پاکیزہ اسلامی کردار عبادت و تقوی صبرو ا ستقلال اور حسن اخلاقی انسانیت کیلئے ہدایت کا مینار بن گئے ان نظیروں نے انسانی طرز فکر اور بشری تخیل کے لئے ایک خوشگوار ماحول پیدا کر دیا اور لوگ ستاروں پر کمندیں ڈالنے میں مشغول ہو گئے علم دوستی بڑھ گئی ۔
آپ نے نوع انسان کو ایسی ثقافت سے روشناس کرایا جس میں ہر فرد معاشرہ کے ضمیر میں خوف خدا اس طرح پیدا ہو جاتا ہے کہ اسے کسی بیرونی نگرانی کی حاجت باقی نہیں رہتی اور اس کے احساس فرض میں از خود اتنی قوت آ جاتی ہے جس کے بل بوتے پر وہ ہوس پرستیوں اور خود غرضانہ حماقتوں کی طاقتوں کو کچل دینے پر قادر ہو جاتا ہے ۔
امام جعفرصادق نے ہمیشہ یہ سعی مشکور فرمائی کہ بغیر کسی دنیوی لالچ مادی حرس سیاسی دباؤ اور چاپلوسی کے ہر شخص قانون خدا وند ی کے احترام کا عادی ہو جائے اور اس میں فرض شناسی حق گوئی اور صداقت پسندی کے وہ جذبات پیدا ہو جائیں جو کسی بھی استحصالی طاقت سے سرد نہ ہو سکیں اسلام جس اخوت و یگانگت اور اخلاقی برتری کا پیغام لے کر آیا تھا امام جعفر صادق علیہ السلام نے عملا اپنے طرز عمل اور سیرت سے اس کو بڑی عمدگی کے ساتھ واضح اور روشن کر دیا اور اپنے خصائل و شمائل سے ثابت کر دیا کہ حقیقی سر بلندی صرف اس انسان کا مقدر ہے جو متقی اور مطیع پروردگا رہے چاہے اس کا تعلق کسی بھی نسل قوم اور قبیلے سے ہو ۔ حسب و نسب مال و زر جاہ و منصب کثرت و قلت یا کوئی اور معیار انسانیت نہیں ہے ۔
آپ دنیوی معیار کے اتنے بڑے آدمی ہو کر بھی ایک عام آدمی کی زندگی بسرکرنے پر قناعت فرماتے تھے جھلسا دینے والی گرمی دھوپ کی شدت اور سورج کی تمازت میں پسینے میں شرابور معاشرہ کے عام فرد کا سب کی مانند اپنا آزوقہ حاصل کرنے کو شرف انسانی سمجھتے تھے آپ کی صحبت میں ہر قوم نسل اور طبقہ کے لوگ جمع رہتے تھے جو اس علم کے دریا سے فیض یاب ہوتے تھے اور اپنے روحانی رہنما کے حکیمانہ ارشادات سے سبق حاصل کرتے تھے آپ کا نصب العین اور مقصد حیات اسلامی کردار سازی تھا آپ مسلم معاشرے کی تعمیر و تشکیل میں شب و روز مشغول رہتے تھے لہذا آپ کو کبھی اس بات کی پرواہ نہ ہوئی کہ آپ کے حلقہ ارادت میں ہمنواؤں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے یا کمی آپ کی کوشش یہ تھی کہ مسلمان نام کا مسلمان نہ ہو بلکہ کام کا مسلم ہو یعنی ایسا مسلم جو ہر خامی نقص اور کجی سے مبرا ہو آپ نے چاہا کہ لوگ فلسفے اور اسلامی نظریات کو صحیح سطح پر سمجھنے کی اہلیت پیدا کریں آپ کے نزدیک چند سچے اور پکے مسلمان جو اللہ اور اس کے دین کی صحیح معرفت رکھتے ہیں اور اس کے دین کی صحیح معرفت رکھتے ہیں ان لا تعداد افراد سے ہر طرح برتر و افضل ہیں جن کی زندگی اسلام کی تعلیم اسلامی شعائر اور اسلامی قدروں سے محروم ہو ۔
جب آپ کی ولادت ہوئی اس وقت اموی حکمران عبدالملک بن مروان کا دور حکومت تھا اس کے بعد دوسرے حاکم آتے رہے حتی کہ ۱۳۲ ہجر میں اموی دور ختم ہو گیا پھر بنو عباس کا دور شروع ہو یہی وہ انتقال و تحویل اقتدار ملوکیت کا محدود اور مختصر سا وقفہ تھا جس میں اس عظیم مصلح اور اسلامی کے جلیل القدر فرزند کو اس بات کا زیادہ موقع مل سکا کہ آپ نے اسلامی علوم اور معارف دین کی ترویج و اشاعت کا
اہم کام سر انجام دیا ۔ آپ نے اس فضائے خوشگوار میں ہر دقیقہ سے فائدہ اٹھانے کی بھر پور کوشش فرمائی ۔ جس میں ان کو خاطر خواہ کامیابی حاصل ہوئی ۔
آپ کے سیرت پاک کے دو رخ خصوصی اہمیت کے حامل ہیں اور زمانے کے ہر دور میں ان پر خاصی توجہ کی ضرورت ہے ۔ ایک آپ کی سماجی طرز بود و باش جس میں اسلامی زندگی کی اکملیت نظر آتی ہے اور انسانیت اپنے معراج پر فائز دکھائی دیتی ہے اور دوسرا امام جعفر صادق کی علمی کاوشیں ‘ آپ کی ۶۵ سالہ زندگی میں یہ محدود اور مختصر زمانہ جس میں اموی حکومتوں کا چراغ شمع سحری کی طرح ٹمٹما رہا تھا اور عباسی حکومتی کا زمانہ شروع ہو گیا تھا ابو العباس سفاح کے بعد منصور کا عہد سلطنت گزر رہا تھا علمی خدمات بجا لانے کیلئے سنہری وقت ثابت ہوا تھا ۔
آپ کی عوامی زندگی کا اندازہ اس طرح کیا جا سکتا ہے کہ ابو عمر شیبانی کہتے ہیں کہ میں نے امام جعفر صادق کو ایک باغ میں یوں دیکھا کہ آپ ہاتھ میں بیلچہ لئے ہوئے پسینے میں شرابور بہ نفس نفیس ایک دیوار کو درست فرما رہے تھے میں اتنی شدید گرمی میں امام کو اس حالت میں مشقت میں دیکھ کر برداشت نہ کر سکا میں نے عرض کیا کہ سرکار یہ بیلچہ مجھے دے دیجئے اس کام کو خادم انجام دے گا لیکن امام نے میری درخواست کو قبول نہ کرتے ہوئے فرمایا کہ مجھے یہ بات اچھی لگتی ہے کہ انسان تلاش معاش میں دھوپ کی تیزی کا مزا چکھے ۔
حسام بن سالم سے مروی ہے کہ امام جعفری صادق علیہ السلام کی عادت تھی کہ رات کے وقت وہ سامان خوراک اور درہموں کا بوجھ اپنے کاندھوں پر اٹھا کر اپنے آپ کو ظاہر کئے بغیر غرباء و حاجت مندوں میں یہ اشیاء تقسیم کیا کرتے تھے ان ضرورت مندوں کو اپنے محسن عظیم کے بارے میں علم اس وقت ہوا جب آپ اس دنیا سے رخصت ہو گئے بے شک انسان کا صحیح رہنما صرف وہی شخص ہو سکتا ہے جو اپنے عمل سے زندگی کی دشواریوں اور مسائل کا تسلی بخش حل پیش کر سکتا ہو صرف زبانی کلامی ڈینگ نہ مارتا ہو لہذا جناب امام جعفر صادق علیہ السلام محض زبانی رہنمائے انسانیت نہیں بلکہ اسلامی سیرت اور الہی پیغام کا عملی نمونہ ہیں ۔
امام جعفر صادق نے علوم اسلامیہ کے نشرو اشاعت میں جو حصہ لیا اور جس طرح اسلام کی ثقافت کیلئے گرانقدر خدمات انجام دیں اس کی مثال ملنا محال نہ سہی مگر مشکل ضرور ہے اور ان کے طاہر گھرانے کے سوا ان کی نظیر تلاش کرنا ممکن نہیں ہے آپ کا عہد حیات و ہ دور تھا جب فتوحات اور بیرونی دنیا کے اتصال خاص کریونانی اور رومی لٹریچر کی نشرو اشاعت کے باعث عربستان میں مختلف علوم و فنون طرح طرح کے نظریات اور نئے نئے فکر رجحانات داخل ہو رہے تھے اور اندریں صورت اسلام کے خلاف بیرونی محاذوں سے علمی اور ثقافتی یلغار کا سلسلہ زور و شور سے جاری تھا یہ ایک ایسی سرد جنگ نہ تھا کیونکہ عقل و فکر کا مقابلہ علم و دانش ہی سے کیا جا سکتا ہے نسلی تعصب سے فکر و نظریاتی طوفانوں پر بند نہیں باندھے جا سکتے چنانچہ امام جعفر صادق علیہ السلام نے اس محاذ پر جو کارنامے انجام دیئے ہیں وہ تاریخ اسلام میں حروف زہیہ سے مرقوم ہیں ۔
مسجد نبوی اور مدینہ میں آپ کا گھر حقیقی معنوں میں مدینتہ العلم بن گئے تھے۔ جو وقت کے عالی شان علمی تحقیقاتی مرکز کی حیثیت رکھتے تھے ۔ آپ کا مدرسہ اپنے دور کی بڑی یونیورسٹی کا درجہ رکھتا تھا ۔ جس کا حلقہ تعلیم و تدریس اور تحقیق خاصا وسیع تھا ۔ اس میں بیک وقت کم سے کم چار ہزار دانش جو مختلف علاقوں کے زیر تعلیم ہوا کرتے تھے اس عظیم الشان اسلامی ریسرچ سنٹر اور مسلم دانشگاہ سے بڑے بڑے علماء جید فقہاء اور نامور مفکر فارغ التحصیل ہوئے ۔ اور ان طالب علم نے یہاں سے جو کچھ سیکھا اس علم کی روشنی دنیا کے چپہ چپہ میں پھیلائی ۔
یحیی بن سعید انصاری ‘ سفیان ثوری ‘ سفیان بن عینیہ ‘ امام مالک ‘ امام ابو حنیفہ جیسے اکابرین نے امام جعفر صادق علیہ السلام کے مرکز تعلیم سے فیض حاصل کیا ۔ لیکن یہ بات بہر حال تاریخی شواہد کے پیش نظر کبھی ضروری نہ رہی کہ استاد اور اس کے شاگردوں کے مسلک اور نظریاتی میں بھی ہم آہنگی رہی ہو جس کی وجوہ سیاسی ‘ نسلی ‘ ماحول کے تاثرات ‘ گردو پیش کے حالات کا دباؤ ‘ ذاتی خواہشات ‘ مخصوص مصلاح ‘ نام و نمود کے مقاصد اور اسی طرح کی دوسری باتیں بھی ہو سکتی ہیں ۔
علامہ ذہبی لکھتے ہیں کہ امام ابو حنیفہ کہا کرتے تھے کہ
"میں نے امام جعفر صادق علیہ السلام سے بڑھ کر علم دین کا عالم کسی دوسرے کو نہیں پایا "
امام مالک کا قول ہے کہ
" میری آنکھوں نے علم و فضل اور تقوی میں امام جعفر صادق علیہ السلام سے بہتر کسی کو نہیں دیکھا "‘
آپ کے مشہور شاگردوں میں امام الکیمیا جابر بن حیان کوفی بھی تھے ۔ جو عالمی شہرت کے حامل ہیں ۔ جابر بن حیان نے ایک ایسی مفصل کتاب لکھی تھی جس میں امام عالی مقام کے کیمیاء پر پانچ سو رسالوں کو جمع کیا تھا آپ کے شاگردوں کی تصانیف کے علاوہ خود آپ کی تصانیف بھی بہت زیادہ ہیں ۔ کیمیاء ‘ فلسفہ ‘ طبیعات ‘ ہیئت ‘ منطق ‘ طب ‘ تشریح الاجسام ‘ افعال اعضاء اور ما بعد الطیعات و غیرہ وغیرہ پر آپ نے بہت کچھ لکھا ہے ۔
آپ نے ہر شعبہ علم پر قرآن و حدیت کی رو سے ایسی روشنی ڈالی ہے کہ اہل علم حیران رہ گئے ہیں ۔ آپ کے ظاہری و باطنی کمالات و فضائل کے دوست دشمن سب قائل ہیں ۔ امام شافعی تحریر کرتے ہیں کہ
" امام جعفر صادق علیہ السلام سادات و بزرگان اہل بیت میں سے تھے ۔ ہر طرح کے جملہ عبادات مسلسل اور اد اور وظائف اور نمایاں زہد کی حامل تھے ۔ کثرت سے تلاوت فرماتے تھے اور ساتھ ہی آیات قرآں کی تفسیر فرماتے تھے ۔ اور قرآن کے بحر بے کراں سے جواہر نکال کر پیش کرتے اور عجیب و غریب نتائج اخذ فرماتے تھے ۔ آپ کی زیرات آخرت کی یاد دلانے والی ‘ آپ کا کلام سننا اس دنیا میں زہد ‘ اور آپ کی ہدایات پر عمل کرنا حصول جنت کا باعث تھا ۔ آپ کی نورانی شکل گواہی دیتی تھی کہ آپ خاندان نبوت میں سے ہیں اور آپ کی پاکیزگی بتاتی ہے کہ آپ نسل رسول سے ہیں آپ سے امام اور علماء اعلام کی ایک جماعت نے حدیثیں نقل کی ہیں اور علوم حاصل کئے ہیں ۔ جیسے یحیی بن سعید انصاری ‘ ابن صریح ‘ مالک بن انسا ‘ سفیان ثوری ‘ ابن عینیہ ‘ شعبی ابو حنیفہ ‘ ایوب سختیانی وغیر ہم ۔ اور یہ لوگ اس شرف استفادہ اور نسبت فصیلت پر فخر کرتے تھے "
امام جعفر صادق کے خوان علم سے نہ صرف علم کی اشتہا رکھنے والوں کی سیری ہوئی بلکہ جب آپ نے علم الابدان پر درس دیا تو اس تبحر علمی سے دنیا آپ تک محو حیرت ہے کتاب الا ہلیح اور کتاب المفضل اس پر آج تک گواہ ہیں ۔
یہ امام جعفر صادق کے فیوض کا ہی تصدق ہے کہ پروفیسر ہٹی جیسا شخص جابر بن حیان کو ایشیا اور یورپ میں فادر آف کیمسٹری کہہ کر پکارتا ہے ۔
ابن تیمیہ نے خیرہ چشمی اور گستاخی سے کام لیتے ہوئے امام ابو حنیفہ کے امام جعفر صادق کے شاگر ہونے پر اعتراض کیا ہے اور اس
کی وجہ ان دونوں بزرگوں کا ہم عصر ہونا قرار دیا ہے ۔ چنانچہ شمس العلماء مولانا شبلی نے سیرت نعمان میں ابن تیمیہ کا تعاقب کرتے ہوئے وضاحت کی ہے کہ
" امام ابو حنیفہ لاکھ مجتہد اور فقیہ ہوں لیکن فضل و کمال میں ان کو حضرت امام جعفر صادق سے کیا نسبت ؟ حدیث و فقہ بلکہ تمام علوم اہل بیت کے گھر سے نکلے ہیں "
شاہ عبدالعیز محدث دہلوی اپنی کتاب تحفہ اثنا عشریہ میں لکھتے ہیں کہ
" امام ابو حنیفہ ہمیشہ حضرت صادق کی محبت و خدمت پر افتخار کرتے تھے اور کہتے تھے کہ لو لا السنتان لھلک النعمان یعنی اگر یہ دو برس نہ ہوتے (جو خدمت امام جعفر صادق علیہ السلام میں گزارے )تو نعمان ضرور ہلاک ہو جاتا "
(یہاں ہلاکت سے مراد مسائل کے جواب میں غلطیاں کرنا ہے )
امام جعفر صادق علیہ السلام اور دیگر آئمہ اہل بیت سے حضرت ابو حنیفہ کی عقیدت کا یہ عالم تھا کہ مشہور روایت ہے کہ جب کبھی ابو حنیفہ امام جعفر صادق علیہ السلام سے کلام کرتے تو کہتے جعلت فداک یعنی میں آپ پر قربان ہوں ۔ اور اسی حقیقت سے منصور دو انیقی بھی خوب واقف تھا اور جناب ابو حنیفہ کو منصور کا رعب و دبدبہ بھی اس عقیدت مندی سے باز نہ رکھ سکا چنانچہ شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی لکھتے ہیں کہ جب محمد نفس ذکیہ نے خروج کیا تو ان دنوں میں منصور عباسی نے حضرت امام ابو حنیفہ سے پوچھا
اے نعمان ! تمہارے علم کے ماخذ کون کون لو گ ہیں ؟
ابو حنیفہ نے جواب دیا کہ
" میں نے علم علی کے اصحاب اور علی سے اور عبداللہ بن عباس کے صحابیوں اور ابن عباس سے لیا ہے "
یہ کس طرح خوبصورتی کے ساتھ امام ابو حنیفہ نے حق گوئی کا اظہار کیا ہے کہ ان کا ماخذ علم صرف بابا مدینتہ العلم علی المرتضی علیہ السلام ہیں ۔ کیونکہ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ تو مسلمہ طور پر جناب امیر علیہ السلام کے شاگرد تھے ۔
اب ذہن میں ایک سوال کھٹکتا ہے کہ جب امام ابو حنیفہ جناب جعفر صادق کے شاگر تھے اور ان کے عقیدت مند بھی تھے نیز ان کے علم کا ماخذ امیر المومنین علی علیہ السلام اور ان کے شاگرد تھے تو پھر فقہ حنفی اور فقہ جعفری آپس میں مختلف کیوں ہیں ؟
یہ وقت کا اہم ترین مسئلہ ہے اور اتحاد بین المسلمین کیلئے اس سوال کا جواب دینا اشد ضروری ہے ۔
علامہ مناظر احسن گیلانی نے لکھا ہے کہ حجاز سے واپسی کے بعد امام ابو حنیفہ کو تدوین فقہ کا خیال پیدا ہوا غالبا یہ ان دو سالوں کے بعد کا ذکر ہے جو امام صاحب نے جناب جعفر صادق علیہ السلام کی درس گاہ میں گزارے ۔ مولانا شبلی نعمانی تحریر کرتے ہیں کہ
اس کام کیلئے انہوں نے ایک مجلس وضع قوانین مرتب کی جس میں ان کے ( ۴۰) شاگرد شامل تھے ۔ ان میں نمایاں لوگ قاضی ابو یوسف ‘ زفر ‘ داؤد الطلائی اور محمد بن حسن شیبانی تھے ۔ ہر مسئلہ بحث و مباحثہ کے بعد طے کیا جاتا تھا ۔ قلائد و عقود و العقیان کے مصنف نے لکھا ہے کہ امام ابو حنیفہ نے جس قدر مسائل مدون کئے ان کی تعداد بارہ لاکھ نوے ہزار ( ۰۰۰‘۹۰‘۱۲) سے کچھ زیادہ ہے شمس العلماء کردوی نے لکھا ہے کہ یہ مسائل چھ لاکھ تھے ۔ یہ خاص تعداد شاید صحیح نہ ہو ۔ لیکن کچھ شبہ نہیں کہ ان کی تعداد لاکھوں سے کم نہ تھی ۔ امام محمد کی جو
کتابیں آج موجود ہیں ان سے اس کی تصدیق ہو سکتی ہے اگرچہ اس میں شک نہیں کہ امام ابو حنیفہ کی زندگی ہی میں فقہ کے تمام ابواب مرتب ہو گئے تھے رجال و تواریخ کی کتابوں میں اس کا ثبوت ملتا ہے جس کا انکار گویا تواتر کا انکار ہے لیکن افسوس ہے کہ وہ مجموعہ ایک مدت سے ضائع ہو گیا ہے اور دنیا کے کسی کتب خانہ میں اس کا پتہ نہیں چلتا ۔ امام رازی مناقب شافعی میں لکھتے ہیں کہ امام ابو حنیفہ کی کوئی تصنیف باقی نہیں رہی ۔ لیکن قاضی ابو یوسف اور امام محمد نے انہیں مسائل کو اس توضیح و تفصیل سے لکھا اور ہر مسئلہ پر استدلال اور برہان کے ایسے حاشئے اضافہ کئے کہ ان کو رواج ہو گیا اور اصل ماخذ سے لوگ بے بہرہ ہو گئے (سیرت ا لنعمان علامہ شبلی )
اب غور طلب امر یہ ہے کہ اس اصلی مجموعہ مسائل کو جو خود امام حنیفہ نے مرتب کیا تھا کیا بنا ؟
اس مواد کے جل جانے چوری ہو جانے کسی قدرتی آفت کی نذر ہو جانے یا تاتاریوں کے ہاتھوں تباہ ہونے کا تذکرہ کسی بھی تاریخ کی کتاب میں نہیں ملتا ۔ لہزا اس علمی سرمایہ کا سراغ لگانے کیلئے ہمیں تاریخوں کو زیادہ گہری نظر سے دیکھنا پڑے گا ۔
تاریخ سے اس کی گواہی ملتی ہے کہ ابو جعفر منصور عباسی نے بنو حسن خصوصا محمد نفس زکیہ اور ابراہیم نفس رضیہ کا خاتمہ کرنے کے بعد ان کے حامیوں اور طرفداروں سے انتقام لینے کا آغاز کیا ۔ اس سلسلہ میں منصور کی نظر میں امام ابو حنیفہ کی شخصیت بڑی بااثر اور سیاسی اعتبار سے قد آور تھی ۔ ان پر ہاتھ ڈالنا بھڑوں کے چھتہ پر ہاتھ ڈالنا تھا کیونکہ ایسے اقدام سے سر زمین عراق پر فتنہ بغادت آنا فانا پھیل سکتا تھا جو تخت عباسی کا تختہ کر سکتا تھا ۔ لہزا استحکام حکومت کیلئے ضروری تھا کہ ایسا راستہ اختیار کیا جائے کہ سانپ بھی مر جائے اور لاٹھی بھی سلامت رہے منصور اس بات سے بخوبی آگاہ تھا کہ ابو حنیفہ کا اس حدیث رسول پر پورا یقین ہے کہ
" اہل بیت کو علم نہ سکھانا کیونکہ وہ تم (سب ) سے زیادہ صاحبان علم ہیں "
صواعق محرقہ
چنانچہ منصور نے سب سے پہلے دہن دوزی کا طریقہ اختیار کیا حضرت امام ابو حنیفہ کو سرکاری قاضی بنانا چاہا مگر انہوں نے اس عہدہ کو قبول نہ کیا پھر انہیں مفتی بنانے کی کوشش کی گئی مگر انہوں نے انکار کر دیا اس کے بعد امام صاحب کو قاضی القصاة کے اعلی منصب کی پیش کش ہوئی مگر انہوں نے معذوری کا اظہار کر دیا کیونکہ وہ بالغ نظر تھے اور ان کو معلوم تھا کہ یہ سب کچھ ایک خاص سیاسی مقصد کیلئے کیا جا رہا ہے دراصل حکومت ان کو فریب دے کر اپنے جال میں پھنسانا چاہتی ہے
تاکہ ان کا علم حکومت کی نوک تلوار کا ہم نوا ہو ۔ اور حکام کو اپنے مفاد میں مفید فتوے حاصل کرنے میں کوئی مشکل پیش نہ آئے ۔
جب منصور کی یہ تدبیریں الٹ ہو گئیں اور ابو حنیفہ رام نہ ہوئے تو اس کی آتش انتقام بھڑک اٹھی اس نے امام صاحب کو قید کر دیا ۔
شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی نے اپنی شیعہ کش کتاب تحفتہ اثناء عشری میں کید ۸۲ کے ذیل میں اپنی تحقیق کے مطابق تحریر کیا ہے کہ
" اس منصور نے امام ابو حنیفہ کو قید کر دیا اور قید خانہ میں زہر دے دیا کیونکہ ان کو اہل بیت رسول سے محبت و اعتقاد بہت تھا "
الغرض ۱۵۰ ہجری میں ابو حنیفہ کی وفات کے بعد ان کے شاگرد امام زفر کو عہدہ قضاپیش کیا گیا مگر انہوں نے انکار کر دیا اور خود روپوش ہو گئے ان کو مجبور کرنے کی غرض سے ان کا گھر مسمار کر دیا گیا لیکن وہ کسی دباؤ تلے نہ آئے ۔ البتہ مالی مشکلات اور دیگر وجودہ کی بنا پر امام ابو حنیفہ کے ایک اور شاگرد قاضی ابو یوسف نے مہدی عباسی کے زمانے میں قاضی اور ہارون کے عہد میں قاضی القضاة بننا قبول کر لیا ۔
مشہور مورخ ابو النصر مصری کا بیان ہے کہ
" عمر ابن عبدالعزیز نے تمام بلاد و امصاری میں نبیذ (قسم شراب )کے حرام ہونے کا حکم بھیج دیا تھا چنانچہ عہد بنی عباس میں فقہ جعفری ‘ فقہ مالکی ‘ فقہ شافعی اور فقہ حنبلی میں تمام نشہ آور نبیذیں حرام قرار دی گئیں لیکن فقہ حنیف میں " خمر " کے لفظ کو لغوی معنی میں لیتے ہوئے اس کا اطلاق صرف انگور کے پکے ہوئے شیرہ پر کیا گیا اور شراب کی بعض قسموں مثلا کھجور جو اور کشمش کی نبیذ کو جائز قرار دیا گیا بشرطیہ اسے بہت ہلکی آگ پر تھوڑی دیر تک پکایا گیا ہو ہارون بھی نبیذ کثرت سے پیا کرتا تھا فقہ حنیف کی اس نرم روی سے لوگوں میں جرات پیدا ہو گئی اور وہ ایسی شراب بھی پینے لگے جس سے نشہ ہو جاتا تھا "
(اردو ترجمہ الہارون )
ظاہر ہے فقہ حنفی میں یہ لچک عہد ہارون میں پیدا کی گئی جب امام ابو یوسف قاضی القضاة تھے اور انہوں نے امام محمد بن حسن ایشبانی کی مدد سے حنفی فقہ کی از سر نو تدوین کی کیونکہ وہ مجموعہ فقہ جو امام ابو حنیفہ نے مدون کیا تھا نا پید ہو چکا تھا حالانکہ وہ باب وار مرتب ہوا تھا لیکن اس میں بادشاہوں کے عیش و لذت کی کوئی راہ ہموار نہ تھی کیونکہ ابو حنیفہ جیسے دور اندیش بزرگ معاشرے کو ایسی رعایتوں کا خوگر بنانے کے برے نتائج پر نظر رکھتے تھے اور وہ اس قومی نقصان سے بے نیاز نہیں ہو سکتے تھے ۔
امام محمد شیبانی کا حکومت سے مسلسل تعلق رہا عہد ہارون میں جب محمد رقہ میں قاضی تھے تو ویلم کی سر زمین سے محمد نفس زکیہ کے بھائی یحیی بن عبداللہ نے خروج کیا ۔ ہارون نے ان کی سر کوبی کیلئے فضل بن یحیی برمکی کو پچاس ہزار فوج دے کر روانہ کیا ۔ فضل کی حکمت عملی سے یحیی ہارون سے ملنے پر آمادہ ہو گئے بشرطیکہ وہ ایک امان نامہ لکھ کر بھجوا دیا ۔ یہیی فضل کے ہمراہ ہارون کے پاس آ گئے کچھ دن ہارون نے ان کو بڑی عزت کے ساتھ رکھا اور اس امان نامہ کے باطل ہونے پر امام محمد قاضی رقہ سے فتوی مانگا ۔
انہوں نے فتوی دینے سے معذوری ظاہر کی ۔ ہارون نے طیش میں آ کر ان کے سر پر دوات کھینچ ماری جس سے ان کا سر پھٹ گیا ۔ ان کو اس وجہ سے اپنے عہدہ قضا سے بر طرف کر دیا گیا اور اسی محفل میں قاضی القضا ة ابو البختری وہب ابن وہب سے امان نامہ کے بے اثر ہونے اور یحیی کے قتل کے جواز کا فتوی لے لیا ۔
کتاب "امام ابو حنیفہ کی سیاسی زندگی " میں منقول واقعات سے ثابت ہے کہ امام ابو حنیفہ نے جو سخت مصائب برداشت کرنے کے باوجود حکومت سے کوئی عہدہ قبول کرنا پسند نہیں کیا اس کا اصلی سبب یہ تھا کہ حکمران فقہ حنفی کو اپنی خواہش کے مطابق مرتب کرانا چاہتا تھا ۔ اور اس میں کسی ایسی چیز کا دخل گوارا کرنے کو تیار نہ تھا جس سے طالین یعنی بنی فاطمہ کی ہمت افزائی ہو یا ان کے فضائل و مناقب پر روشنی پڑے ہم اس بات کی تائید میں دو واقعے بطور مثال نقل کرتے ہیں ۔
ہارون رشید کے متعلق طاش کبری زادہ نے مفتاح السعادة میں یہ روایت نقل کی ہے کہ امام مالک کو بغداد لانے سے مایوس ہونے کے بعد وہ واپسی میں مکہ پہنچا اور اس زمانہ میں مکہ کی علمی امامت و ریاست جس کے ہاتھ میں تھی یعنی سفیان بن عینیہ ان سے ملا ملنے کے بعد حکم دیا کہ جو کتابیں انہوں نے لکھی ہیں وہ میرے ساتھ کر دیں ۔ لیکن سفیان کا علم ہارون اور اس کی حکومت کے کام کا نہ تھا " (امام ابو حنیفہ کی سیاسی زندگی )
" ابن ابی العوام نے پوری سند کے ساتھ سماعہ سے روایت کی ہے کہ یحیی طالبی کے واقعہ کے بعد خلیفہ ہارون رشید نے حکم
دیا کہ امام محمد کی پوری کتابوں کی چھان بین کی جائے اسے یہ خوف تھا کہ کہیں امام صاحب کی کتابوں میں ایسا مواد تو نہیں جو طالبین (یعنی اولاد علی) کی فضیلت پر مشتمل ہو یا ان کو بغاوت پر امادہ کر دے (اردو ترجمہ آثار امام محمد و امام ابو یوسف مولانا زاہد کوثری )
اس طرح امام ابو یوسف اور امام محمد کے منصب پر فائز ہونے کے زمانے میں وہ مجموعہ فقہ جو امام ابو حنیفہ کے زمانے میں مرتب ہوا تھا مفقود ہو گیا اور ان کتابوں کا نام فقہ ابو حنیفہ پڑ گیا جو امام محمد نے مدون کیں اور جن کی چھان بین ہارون نے کروائی ۔ ان سب کتابوں کے نام فہرست ابن ندیم میں درج ہیں ۔
علامہ شبلی نعمانی نے اسی لئے امام محمد کے تذکرے میں لکھا ہے "آج فقہ حنفی کا دار و مدار ان ہی کتب پر ہے "
مرحوم سید حشمت حسین جعفری ایڈووکیٹ اپنے ایک مقالہ میں کہتے ہیں کہ
" میں یقین کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ اگر فقہ حنفیہ تلف نہ ہو جاتا جو امام ابو حنیفہ کے زمانے میں ان کی زیر نگرانی باب وار مرتب ہو چکا تھا تو دنیا دیکھتی کہ فقہ حنفی اور فقہ جعفری میں کوئی فرق نہیں ہے ۔
چونکہ عباسیوں نے محض اہل بیت کے نام سے پراپیگنڈا کرکے حکومت حاصل کی تھی اس لئے وہی ان کے خیال میں ان کے سب سے بڑے دشمن تھے امام ابو حنیفہ کے چونکہ خاندان اہل بیت سے موروثی عقیدت مندانہ تعلقات تھے اس لئے انہوں نے اپنی فقہ میں بہت کچھ مسائل ان سے لئے تھے یہ چیزیں ہارون کو گوارانہ تھیں ۔ اس لئے ان کا تیار کردہ مواد تلف کرا دیا گیا اور ان کے شاگردوں سے حسب منشاء فقہ مرتب کراکہ اس کا نام فقہ حنفی رکھ دیا گیا جس میں اہل بیت سے شاذ و نادر ہی کوئی مسئلہ لیا گیا اور اسی کو حکومت کی سر پرستی میں رواج دیا گیا "
ایک مسلمان ہونے کی حیثیت سے ہمارا صرف یہی فریضہ نہیں ہے کہ ہم خود احکام اسلامی کی پابندی کریں بلکہ اللہ کی اس امانت کو نئی نسل اور غیر مسلم اقوام تک پہنچانا بھی ہماری ذمہ داری ہے ۔ عصری تقاضوں کے پیش نظر حالات کی مناسبت سے ہمیں پوری دیانت اور فہم و فراست سے کام لے کر اپنے اس فرض کو انجام دینا چاہیے اور اس اہم ترین فریضہ کی ادائیگی اس وقت تک آسان نہیں جب تک ہم خود اپنا شعور پختہ نہ کر لیں ۔
ویسے تو انسانی معاشرے اکثر خلفشار کاشکار ہوتے رہے ہیں مگر آج کا نام نہاد مہذب اور ترقی یافتہ دور بڑا کربناک ہے سائنسی ترقی ‘ عروج فنون ‘ اور علوم جدیدہ جو دنیا کی خوشحالی کا ویسلہ سمجھے جاتے ہیں انسان کی نظریاتی آویزشوں کی بدولت ساری دنیا کو جہنم بنا دینے کیلئے کام میں لائے جا رہے ہیں اور اس عظیم خطرے سے بچاؤ کی صرف ایک صورت نظر آتی ہے وہ ہے " پر امن بقائے باہمی "
یہی وہ نظریہ ہے جو متعصب لوگوں کو اسلام سکھاتا ہے کہ لا اکراء فی الدین دین میں کوئی زبردستی نہیں لکم دینکم ولی دین تمہارا دین تمہیں مبارک ہمارا دین ہمیں یہ دین اسلام ہی ہے جو ہر مسلم کو حکم دیتا ہے کہ دشمن کے ساتھ بھی عدل و انصاف سے کام لو اسلام ہر کلمہ گو سے پر زور مطالبہ کرتا ہے کہ وہ روا داری اور اخوت اسلامی کے سبق کو نہ بھولے ۔خود بھی آزادی سے زندگی بسر کرے اور اپنے دوسرے بھائیوں کو بھی ان کے جائز حقوق زندگی سے محروم نہ کرے ۔ ہمارے پیغمبر تعلیم کتاب و حکمت کیلئے مبعوث ہوئے اور حضور نے عام عبادات سے پہلے ہمیں اخلاقی حسنہ کی تعلیم دی اگر ہم بردباری سے کام لیں اور ایک دوسرے کے احساسات کو ملحوظ رکھتے ہوئے محض جذبات کی رو میں بہہ کر برافروختہ نہ ہوں اور علم و حکمت ‘عمل و عبادات اور اچھے اخلاق کے میدانوں میں ایک دوسرے پر سبقت لینے کی کوشش کریں تو اتحاد بین المسلمین کا وہ مقصد حاصل ہو سکتا ہے جس کا ہم نعرہ تو اونچا بلند کرتے ہیں مگر ہمارا عمل اس کے خلاف بلکہ سطح انسانیت سے بھی نیچا ہوتا ہے ۔
جیسا کہ اختلافی مسائل پر گفتگو بہت نازک ہوتی ہے اور امام جعفر صادق علیہ السلام اور دیگر مکاتب فقہ اسلامی کے موضوع پر خامہ فرسائی کرنا اور اس بیان میں منفی انداز سے پرہیز کرکے مثبت طریقہ اختیار کرنا کوئی آسان کام نہیں ہے ۔ جعفریوں نے ایسی صورت میں جس طرح زندگی گزاری وہ درد ناک داستان تاریخ میں موجود ہے ۔ علامہ اقبال کے بقول اس سازش کا سبب " ملوکیت اور ملائیت کا گٹھ جوڑ" ہے ۔
ہم اس کی وضاحت کرنا ضروری سمجھتے ہیں کہ ہم جعفری کیوں کہلواتے ہیں حالانکہ متفقہ و مسلمہ عقیدہ یہ ہے کہ ہماری فقہ فقہ محمدی ہے راقم کے دوست سید ضیاء الحسن موسوی نے یوں دیا ہے
" بات یہ ہے کہ مکتب جعفری کا مسلک یہ ہے کہ وہ بنظر احتیاط تفسیر قران مجید اور تفصیل سنت نبوی جن پر اسلام کی بنیاد ہے وہ اس کیلئے فقط ائمہ اثناء عشر علیہم السلام کا ویسلہ اختیار کرتے ہیں ۔ جن کو وہ معصوم سمجھتے ہیں اکثر مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ آنحضرت نے فرمایا ہے کہ میرے اصحاب ستاروں کی طرح ہیں ان میں سے تم جس کی پیروی کرو گے ہدایت پاؤ گے تو اگر انہوں نے ان صحابہ میں سے ایک ایسے سابق الاسلام کا وسیلہ اختیار کیا جو اہل بیت رسول میں بھی شامل ہے جو باب مدینہ علم رسول بھی ہے ۔ جس کو انحضرت نے اپنے بعد ہر مومن کا ولی قرار دیا اور اس علاوہ جس طرح حضرت ابو بکر و حضرت عمر نے بھی قضا اور احکام شریعت میں مقدم قرار دیا اور جس کی حیثیت عہد حضرت عمرمیں سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کی سی تھی اور جس کے فیصلوں کی وجہ سے حضرت عمر اپنے فیصلے بدل دیتے تھے تو اس میں اعتراض کی کیا بات ہے پھر ان کی اس اولاد سے جو بلندی علم و کردار کے باعث سب مسلمانوں کے نزدیک قابل احترام ہے قران اور سنت کا علم حاصل کیا تو اس اختصاص کو احتیاط کے سوا کیا کہا جا سکتا ہے آخر حنفی مسلمان امام ابو حنیفہ کے اتباع سے مخصوص ہیں ۔ اور امام مالک ‘ امام شافعی اور امام حنبل کا اتباع نہیں کرتے تو کیا وہ باقی ائمہ فقہ کی توہین کرتے ہیں ؟ پیروان مسلک جعفری کے نزدیک عقل و نقل سے ثابت ہے کہ آخری نبی پر نبوت ختم ہو گئی اس کے بعد حفاظت و تعلیم شرع و دین کیلئے خلفائے رسول کا سلسلہ شروع ہوا یہ خلفاء امام یا اولوالا مر خدا اور رسول کے منتخب کردہ ہیں وہ ذریت رسول سے ضرور ہیں اگر ان کی امامت موروثی ہوتی تو امام حسن علیہ السلام کے بعد ان کی اولاد کے بجائے ان کے چھوٹے بھائی امام نہ ہوتے حضرت علی علیہ السلام کے بعد پانچویں امام تک تو بنی امیہ نے آزادنہ نشر علوم کا موقعہ نہ دیا اور ان سے وابستگان کو ہر طرح تباہ و برباد کرنے کی کوشش کی گئی مگر نشر دین الہی کا سلسلہ جاری رہا ۔
امام جعفر صادق علیہ السلام کو تاریخ میں وہ دور ملا جب بنی امیہ کی سلطنت کمزور ہو چکی تھی اور نبی عباس نے الرضا من آل محمد کے نام سے جو عوامی تحریک شروع کی تھی اور جس کے موئیدین میں امام ابو حنیفہ بھی تھے اس کی قیادت ہاتھوں میں لے لی اور خود اپنی سلطنت قائم کر لی ۔ جس کا ابتدائی زمانہ بنی امیہ اور اس کے موئیدین سے انتقام میں گزارا تانکہ پہلے خلیفہ بنی عباس کا نام تاریخ نے سفاح یعنی بکثرت خونریزی کرنے والا لکھا اور پھر دوسرا خلیفہ منصور ہوا جس نے اقدار کو مستحکم کرتے ہی مسلمانوں میں فرقہ سازی کے کھیل کا آغاز کیا ۔ یہ وہ درمیانی وقفہ جس میں کچھ حریت اور آزادی کی سانس لینے کا موقع ملا اور امام جعفر صادق علیہ السلام نے فقہ محمد ی کے ترجمان کی حیثیت سے اس کو منظم اور آزادانہ طریقہ سے پیش کیا اور ساتھ ہی ساتھ فلسفہ یونان و روم و ایران و ہند کے اثرات سے جو لا دینی نظریات مسلمانوں کے ذہنوں کو منتشر کر رہے تھے اس کا علم و عقل کی سطح پر مقابلہ کیا اور علم کلام کی منظم تشکیل فرمائی ۔ چونکہ اس کے بعد رفتہ رفتہ مسلمانوں میں تقریبا ۵۵ فقہی مکاتب قائم ہوئے اس لئے امام جعفر صادق علیہ السلام کے مسلک کا اتباع کرنے والے جعفری کہلائے اور آپ کی بلا آمیزش فقہ کا نام فقہ جعفری مشہور ہوا ۔
علی ہذا القیاس ہم دخل در معقولات کی جسارت سے ہاتھ کھینچتے ہوئے اپنی معروضات کا اختتام مولف کتاب " جعفر ابن محمد " جناب عبدالعزیز سید الاہل کے ان الفاظ پر کرکے التماس دعا کرتے ہیں ۔
" جعفر بن محمد (علیما السلام) مسلمانوں کے وہ قابل فخر امام ہیں جو اب بھی زندہ ہیں اور ہر آنے والے دور میں ان کی ایک نئی آواز گونجتی ہے جس سے اہل زہد و تقوی پرہیز گاری کا اور اہل علم و فضل علم و کمال کا درس لیتے ہیں آپ کی آواز پریشان حال کو سکون کی راہ دکھلاتی ہے مجاہد کو جو ش دلاتی ہے ۔
تاریکیوں میں نورانیت پھیلاتی ہے عدالت کے قصر کی بنیادیں قائم کرتی ہے اور مسلمانوں کو یہ پیام دیتی ہے کہ اب بھی ایک نقطہ پر جمع ہو جاؤ ۔ دیکھوں خدا بھی ایک ہے اور نبی بھی ایک ہے ۔
وما علینا الا البلاغ
عبدالکریم مشتاق
*****