مغز متفکر اسلام(سپرمین ان اسلام ) امام جعفر صادق “

مغز متفکر اسلام(سپرمین ان اسلام ) امام جعفر صادق “ 18%

مغز متفکر اسلام(سپرمین ان اسلام ) امام جعفر صادق “ مؤلف:
زمرہ جات: امام جعفر صادق(علیہ السلام)

مغز متفکر اسلام(سپرمین ان اسلام ) امام جعفر صادق “
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 24 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 47836 / ڈاؤنلوڈ: 6214
سائز سائز سائز
مغز متفکر اسلام(سپرمین ان اسلام ) امام جعفر صادق “

مغز متفکر اسلام(سپرمین ان اسلام ) امام جعفر صادق “

مؤلف:
اردو

نوٹ: اسلامی ثقافتی ادارہ " امامین الحسنین(ع) نیٹ ورک " نے اس کتاب کو برقی شکل میں، قارئین کرام کےلئےشائع کیا ہے۔

اورادارہ کی گِروہ علمی کی زیر نگرانی حُرُوفِ چِینی، فنی تنظیم وتصحیح اور ممکنہ غلطیوں کو درست کرنے کی حدالامکان کوشش کی گئی ہے۔

مفت PDF ڈاؤنلوڈ لنک http://alhassanain.org/urdu/?com=book&id=۲۰۵&view=download&format=pdf

نیز اپنے مفید مشورے، پیشنہادات، اعتراضات اور ہر قسم کے سوالات کو ادارہ کے ایمیل (ihcf.preach@gmail.com) پر سینڈ کرسکتے ہیں

دخل در معقولات

مخلوقات کی ہدایت کا ذمہ خود خالق نے اٹھا رکھا ہے ۔ پوری کائنات میں فطری ہدایت کا مربوط نظام رائج ہے اور ہر شے اپنے مالک کی اطاعت میں مصروف ہے انسان کو خود اس کے رب نے ایک حد تک مختار بنا کر اسے آزمائش میں مبتلا کیا ہے اور دیگر انواع کے برعکس اس کی ہدایت کا مخصوص بندوبست فرمایا ہے آدم علیہ السلام تا خاتم النبین صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کا ایک منظم سلسلہ جاری کیا اور وحی و الہام کے زریعہ انسانیت کو معتدل آئین حیات عطا کیا تاکہ اس کی ارتقاء و نشو ونما اور فلاح و رفاہ انسانی کے جملہ تقاضے پورے ہو جائیں ۔ فطرہ اللہ جو دراصل دین حقیقی ہے کے ضوابط کے تحفے اور اس کے قوانین کے نفاذ کیلئے تکمیل دین کے بعد بارہ ہادی منصوص فرمائے اور انہیں آئین انسانیت قرآن مجید کا وارث و محافظ قرار دیا قرآن میں ہر خشک و تر کا علم نازل فرما کر اس کی تعلیم کیلئے اپنے ان منصوص بندوں کو علم وحی سے نوازا ۔ ہدایت کے ان بارہ کامل نمونوں میں سے گیارہ نے اپنے فرائض منصبی عمدہ حسن کارکردگی کے ساتھ ادا کئے اور بارہویں کے قیام کی زمین کو ہموار کیا تاکہ اظہار دین کی عملی تعبیر ظاہر ہو جائے ۔ قدرت کے یہ شاہکار نمونے دراصل ہدایت کے ایسے آبدار آئینے ہیں جو دیکھنے میں چھوٹے بڑے نظر آتے ہیں لیکن ہر ایک میں دین خدا "اسلام "کی تصویر مکمل نظر آتی ہے ۔

کائنات کے شیش محل میں سجے ہوئے چھٹے آئینہ کی چکا چوند چمک اور دلکشی نے دنیا کو خصوصی طور پر اپنی جانب متوجہ کیا ہے ایک بالغ نظر عربی شاعر نے یہ مفہوم انشا کیا ہے کہ

"جعفر صادق عرش کا ایسا ستارہ تھا جو زمین کی تاریکیاں دور کرنے کیلئے آ گیا تھا "

زیر مطالعہ کتاب میں امام جعفر صادق کی علمی مرکزیت اور آپ کے عظیم کارہائے نمایاں سے متعلقہ عمیق تحقیقی کو ہدیہ ناظرین کرنے کی سعادت حاصل کی گئی ہے یہ ریسرچ ۲۵ مختلف النسل اکابرین کے وسیع مطالعہ کا نچوڑ ہے اس کا اصلی متن فرانسیسی زبان میں ہے جسے جناب ذبیح اللہ منصوری مد ظلہ نے فارسی کا جامہ پہنایا ۔ اور اللہ نے ہمیں توفیق فرمائی کہ اس کے ا ردو متن کو پیش خدمت کر رہے ہیں ۔

امام جعفر صادق علیہ السلام کی ولادت با سعادت اس سیاسی دور میں ہوئی جب حق و دیانت کے چراغ گل کئے جا رہے تھے اور جزیرہ نما عرب میں طوائف الملوکی کا دور دورہ تھا ۔ جگہ جگہ فتنہ انگیز ‘عناد و فساد اور بے چینی و بد امنی پھیل ہوئی تھی لوگ علم حق اور صداقت کی تلاش کے بجائے جاہ و منصب سیم و زر اور تاج و تخت کی تلاش میں سر گرداں تھے ہر طرف مفاد پرسی کا سکہ چل رہا تھا اور ملوکیت و اقتدار کی قربان گاہ پر دیانت و امانت کو قربان کیا جا رہا تھا ۔ ایسے عہد ظلمت میں نور امامت کا چھٹا ماہتاب اپنی پوری آب و تاب سے چمکا ۔ آپ امام محمد باقر علیہ السلام کے فرزند ارجمند سید الساجدین امام زین العابدین علیہ السلام کے پوتے اور سید الشہداء سیدنا امام حسین علیہ السلام کے پڑپوتے ہیں ۔ آپ اسلام کے نامور عظیم ترین اور سرمایہ فخر و ناز اکابرین میں ممتاز و منفرد مقام و مرتبے کے حامل ہیں آپ نے اپنی ساری زندگی انسانی فلاح و اصلاح کیلئے وقف کر دی آپ کی سیرت اسلامی کردار کی کامل اور بے نظیر تصویر ہے آپ نے ہمیشہ وہی کہا اور وہی کیا جو دین فطرت اسلام کا حقیقی منشاو مقصد تھا اپنی پوری زندگی میں آپ نے ایک لمحہ کیلئے بھی ان ذمہ داریوں اور تقاضوں سے غفلت نہ برتی جو انفرادی اجتماعی خانگی اور عوامی شعبہ ہائے حیات کی طرف سے آپ پر عائد ہو سکتے تھے آپ نے اپنے خطبوں مقالات ارشادات افعال اعمال کردار اور گفتار سے اسلام کی اس مقدس روح کو اجاگر کردیا جو پیغمبر اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی حیات طیبہ کا سب سے بڑا مقصد تھا اپنے اس طرز مخصوص کے سبب آپ انسانی شعور و ادارک میں ایک عظیم ترین تعمیری انقلاب کا سبب بن گئے ۔ آپ نے فکر انسانی کا رخ حقیقت پسندی اور تلاش

حق کی جانب موڑ دیا علمی تحقیقات کیلئے جدید راہیں پیدا کر دیں ۔ اس طرح آپ کی سیرت پاک کی قدریں جدید و قدیم ہر دور کے تقاضوں کو پورا کرتی ہیں ۔

امام جعفر صادق کا تبحر علمی پاکیزہ اسلامی کردار عبادت و تقوی صبرو ا ستقلال اور حسن اخلاقی انسانیت کیلئے ہدایت کا مینار بن گئے ان نظیروں نے انسانی طرز فکر اور بشری تخیل کے لئے ایک خوشگوار ماحول پیدا کر دیا اور لوگ ستاروں پر کمندیں ڈالنے میں مشغول ہو گئے علم دوستی بڑھ گئی ۔

آپ نے نوع انسان کو ایسی ثقافت سے روشناس کرایا جس میں ہر فرد معاشرہ کے ضمیر میں خوف خدا اس طرح پیدا ہو جاتا ہے کہ اسے کسی بیرونی نگرانی کی حاجت باقی نہیں رہتی اور اس کے احساس فرض میں از خود اتنی قوت آ جاتی ہے جس کے بل بوتے پر وہ ہوس پرستیوں اور خود غرضانہ حماقتوں کی طاقتوں کو کچل دینے پر قادر ہو جاتا ہے ۔

امام جعفرصادق نے ہمیشہ یہ سعی مشکور فرمائی کہ بغیر کسی دنیوی لالچ مادی حرس سیاسی دباؤ اور چاپلوسی کے ہر شخص قانون خدا وند ی کے احترام کا عادی ہو جائے اور اس میں فرض شناسی حق گوئی اور صداقت پسندی کے وہ جذبات پیدا ہو جائیں جو کسی بھی استحصالی طاقت سے سرد نہ ہو سکیں اسلام جس اخوت و یگانگت اور اخلاقی برتری کا پیغام لے کر آیا تھا امام جعفر صادق علیہ السلام نے عملا اپنے طرز عمل اور سیرت سے اس کو بڑی عمدگی کے ساتھ واضح اور روشن کر دیا اور اپنے خصائل و شمائل سے ثابت کر دیا کہ حقیقی سر بلندی صرف اس انسان کا مقدر ہے جو متقی اور مطیع پروردگا رہے چاہے اس کا تعلق کسی بھی نسل قوم اور قبیلے سے ہو ۔ حسب و نسب مال و زر جاہ و منصب کثرت و قلت یا کوئی اور معیار انسانیت نہیں ہے ۔

آپ دنیوی معیار کے اتنے بڑے آدمی ہو کر بھی ایک عام آدمی کی زندگی بسرکرنے پر قناعت فرماتے تھے جھلسا دینے والی گرمی دھوپ کی شدت اور سورج کی تمازت میں پسینے میں شرابور معاشرہ کے عام فرد کا سب کی مانند اپنا آزوقہ حاصل کرنے کو شرف انسانی سمجھتے تھے آپ کی صحبت میں ہر قوم نسل اور طبقہ کے لوگ جمع رہتے تھے جو اس علم کے دریا سے فیض یاب ہوتے تھے اور اپنے روحانی رہنما کے حکیمانہ ارشادات سے سبق حاصل کرتے تھے آپ کا نصب العین اور مقصد حیات اسلامی کردار سازی تھا آپ مسلم معاشرے کی تعمیر و تشکیل میں شب و روز مشغول رہتے تھے لہذا آپ کو کبھی اس بات کی پرواہ نہ ہوئی کہ آپ کے حلقہ ارادت میں ہمنواؤں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے یا کمی آپ کی کوشش یہ تھی کہ مسلمان نام کا مسلمان نہ ہو بلکہ کام کا مسلم ہو یعنی ایسا مسلم جو ہر خامی نقص اور کجی سے مبرا ہو آپ نے چاہا کہ لوگ فلسفے اور اسلامی نظریات کو صحیح سطح پر سمجھنے کی اہلیت پیدا کریں آپ کے نزدیک چند سچے اور پکے مسلمان جو اللہ اور اس کے دین کی صحیح معرفت رکھتے ہیں اور اس کے دین کی صحیح معرفت رکھتے ہیں ان لا تعداد افراد سے ہر طرح برتر و افضل ہیں جن کی زندگی اسلام کی تعلیم اسلامی شعائر اور اسلامی قدروں سے محروم ہو ۔

جب آپ کی ولادت ہوئی اس وقت اموی حکمران عبدالملک بن مروان کا دور حکومت تھا اس کے بعد دوسرے حاکم آتے رہے حتی کہ ۱۳۲ ہجر میں اموی دور ختم ہو گیا پھر بنو عباس کا دور شروع ہو یہی وہ انتقال و تحویل اقتدار ملوکیت کا محدود اور مختصر سا وقفہ تھا جس میں اس عظیم مصلح اور اسلامی کے جلیل القدر فرزند کو اس بات کا زیادہ موقع مل سکا کہ آپ نے اسلامی علوم اور معارف دین کی ترویج و اشاعت کا

اہم کام سر انجام دیا ۔ آپ نے اس فضائے خوشگوار میں ہر دقیقہ سے فائدہ اٹھانے کی بھر پور کوشش فرمائی ۔ جس میں ان کو خاطر خواہ کامیابی حاصل ہوئی ۔

آپ کے سیرت پاک کے دو رخ خصوصی اہمیت کے حامل ہیں اور زمانے کے ہر دور میں ان پر خاصی توجہ کی ضرورت ہے ۔ ایک آپ کی سماجی طرز بود و باش جس میں اسلامی زندگی کی اکملیت نظر آتی ہے اور انسانیت اپنے معراج پر فائز دکھائی دیتی ہے اور دوسرا امام جعفر صادق کی علمی کاوشیں ‘ آپ کی ۶۵ سالہ زندگی میں یہ محدود اور مختصر زمانہ جس میں اموی حکومتوں کا چراغ شمع سحری کی طرح ٹمٹما رہا تھا اور عباسی حکومتی کا زمانہ شروع ہو گیا تھا ابو العباس سفاح کے بعد منصور کا عہد سلطنت گزر رہا تھا علمی خدمات بجا لانے کیلئے سنہری وقت ثابت ہوا تھا ۔

آپ کی عوامی زندگی کا اندازہ اس طرح کیا جا سکتا ہے کہ ابو عمر شیبانی کہتے ہیں کہ میں نے امام جعفر صادق کو ایک باغ میں یوں دیکھا کہ آپ ہاتھ میں بیلچہ لئے ہوئے پسینے میں شرابور بہ نفس نفیس ایک دیوار کو درست فرما رہے تھے میں اتنی شدید گرمی میں امام کو اس حالت میں مشقت میں دیکھ کر برداشت نہ کر سکا میں نے عرض کیا کہ سرکار یہ بیلچہ مجھے دے دیجئے اس کام کو خادم انجام دے گا لیکن امام نے میری درخواست کو قبول نہ کرتے ہوئے فرمایا کہ مجھے یہ بات اچھی لگتی ہے کہ انسان تلاش معاش میں دھوپ کی تیزی کا مزا چکھے ۔

حسام بن سالم سے مروی ہے کہ امام جعفری صادق علیہ السلام کی عادت تھی کہ رات کے وقت وہ سامان خوراک اور درہموں کا بوجھ اپنے کاندھوں پر اٹھا کر اپنے آپ کو ظاہر کئے بغیر غرباء و حاجت مندوں میں یہ اشیاء تقسیم کیا کرتے تھے ان ضرورت مندوں کو اپنے محسن عظیم کے بارے میں علم اس وقت ہوا جب آپ اس دنیا سے رخصت ہو گئے بے شک انسان کا صحیح رہنما صرف وہی شخص ہو سکتا ہے جو اپنے عمل سے زندگی کی دشواریوں اور مسائل کا تسلی بخش حل پیش کر سکتا ہو صرف زبانی کلامی ڈینگ نہ مارتا ہو لہذا جناب امام جعفر صادق علیہ السلام محض زبانی رہنمائے انسانیت نہیں بلکہ اسلامی سیرت اور الہی پیغام کا عملی نمونہ ہیں ۔

امام جعفر صادق نے علوم اسلامیہ کے نشرو اشاعت میں جو حصہ لیا اور جس طرح اسلام کی ثقافت کیلئے گرانقدر خدمات انجام دیں اس کی مثال ملنا محال نہ سہی مگر مشکل ضرور ہے اور ان کے طاہر گھرانے کے سوا ان کی نظیر تلاش کرنا ممکن نہیں ہے آپ کا عہد حیات و ہ دور تھا جب فتوحات اور بیرونی دنیا کے اتصال خاص کریونانی اور رومی لٹریچر کی نشرو اشاعت کے باعث عربستان میں مختلف علوم و فنون طرح طرح کے نظریات اور نئے نئے فکر رجحانات داخل ہو رہے تھے اور اندریں صورت اسلام کے خلاف بیرونی محاذوں سے علمی اور ثقافتی یلغار کا سلسلہ زور و شور سے جاری تھا یہ ایک ایسی سرد جنگ نہ تھا کیونکہ عقل و فکر کا مقابلہ علم و دانش ہی سے کیا جا سکتا ہے نسلی تعصب سے فکر و نظریاتی طوفانوں پر بند نہیں باندھے جا سکتے چنانچہ امام جعفر صادق علیہ السلام نے اس محاذ پر جو کارنامے انجام دیئے ہیں وہ تاریخ اسلام میں حروف زہیہ سے مرقوم ہیں ۔

مسجد نبوی اور مدینہ میں آپ کا گھر حقیقی معنوں میں مدینتہ العلم بن گئے تھے۔ جو وقت کے عالی شان علمی تحقیقاتی مرکز کی حیثیت رکھتے تھے ۔ آپ کا مدرسہ اپنے دور کی بڑی یونیورسٹی کا درجہ رکھتا تھا ۔ جس کا حلقہ تعلیم و تدریس اور تحقیق خاصا وسیع تھا ۔ اس میں بیک وقت کم سے کم چار ہزار دانش جو مختلف علاقوں کے زیر تعلیم ہوا کرتے تھے اس عظیم الشان اسلامی ریسرچ سنٹر اور مسلم دانشگاہ سے بڑے بڑے علماء جید فقہاء اور نامور مفکر فارغ التحصیل ہوئے ۔ اور ان طالب علم نے یہاں سے جو کچھ سیکھا اس علم کی روشنی دنیا کے چپہ چپہ میں پھیلائی ۔

یحیی بن سعید انصاری ‘ سفیان ثوری ‘ سفیان بن عینیہ ‘ امام مالک ‘ امام ابو حنیفہ جیسے اکابرین نے امام جعفر صادق علیہ السلام کے مرکز تعلیم سے فیض حاصل کیا ۔ لیکن یہ بات بہر حال تاریخی شواہد کے پیش نظر کبھی ضروری نہ رہی کہ استاد اور اس کے شاگردوں کے مسلک اور نظریاتی میں بھی ہم آہنگی رہی ہو جس کی وجوہ سیاسی ‘ نسلی ‘ ماحول کے تاثرات ‘ گردو پیش کے حالات کا دباؤ ‘ ذاتی خواہشات ‘ مخصوص مصلاح ‘ نام و نمود کے مقاصد اور اسی طرح کی دوسری باتیں بھی ہو سکتی ہیں ۔

علامہ ذہبی لکھتے ہیں کہ امام ابو حنیفہ کہا کرتے تھے کہ

"میں نے امام جعفر صادق علیہ السلام سے بڑھ کر علم دین کا عالم کسی دوسرے کو نہیں پایا "

امام مالک کا قول ہے کہ

" میری آنکھوں نے علم و فضل اور تقوی میں امام جعفر صادق علیہ السلام سے بہتر کسی کو نہیں دیکھا "‘

آپ کے مشہور شاگردوں میں امام الکیمیا جابر بن حیان کوفی بھی تھے ۔ جو عالمی شہرت کے حامل ہیں ۔ جابر بن حیان نے ایک ایسی مفصل کتاب لکھی تھی جس میں امام عالی مقام کے کیمیاء پر پانچ سو رسالوں کو جمع کیا تھا آپ کے شاگردوں کی تصانیف کے علاوہ خود آپ کی تصانیف بھی بہت زیادہ ہیں ۔ کیمیاء ‘ فلسفہ ‘ طبیعات ‘ ہیئت ‘ منطق ‘ طب ‘ تشریح الاجسام ‘ افعال اعضاء اور ما بعد الطیعات و غیرہ وغیرہ پر آپ نے بہت کچھ لکھا ہے ۔

آپ نے ہر شعبہ علم پر قرآن و حدیت کی رو سے ایسی روشنی ڈالی ہے کہ اہل علم حیران رہ گئے ہیں ۔ آپ کے ظاہری و باطنی کمالات و فضائل کے دوست دشمن سب قائل ہیں ۔ امام شافعی تحریر کرتے ہیں کہ

" امام جعفر صادق علیہ السلام سادات و بزرگان اہل بیت میں سے تھے ۔ ہر طرح کے جملہ عبادات مسلسل اور اد اور وظائف اور نمایاں زہد کی حامل تھے ۔ کثرت سے تلاوت فرماتے تھے اور ساتھ ہی آیات قرآں کی تفسیر فرماتے تھے ۔ اور قرآن کے بحر بے کراں سے جواہر نکال کر پیش کرتے اور عجیب و غریب نتائج اخذ فرماتے تھے ۔ آپ کی زیرات آخرت کی یاد دلانے والی ‘ آپ کا کلام سننا اس دنیا میں زہد ‘ اور آپ کی ہدایات پر عمل کرنا حصول جنت کا باعث تھا ۔ آپ کی نورانی شکل گواہی دیتی تھی کہ آپ خاندان نبوت میں سے ہیں اور آپ کی پاکیزگی بتاتی ہے کہ آپ نسل رسول سے ہیں آپ سے امام اور علماء اعلام کی ایک جماعت نے حدیثیں نقل کی ہیں اور علوم حاصل کئے ہیں ۔ جیسے یحیی بن سعید انصاری ‘ ابن صریح ‘ مالک بن انسا ‘ سفیان ثوری ‘ ابن عینیہ ‘ شعبی ابو حنیفہ ‘ ایوب سختیانی وغیر ہم ۔ اور یہ لوگ اس شرف استفادہ اور نسبت فصیلت پر فخر کرتے تھے "

امام جعفر صادق کے خوان علم سے نہ صرف علم کی اشتہا رکھنے والوں کی سیری ہوئی بلکہ جب آپ نے علم الابدان پر درس دیا تو اس تبحر علمی سے دنیا آپ تک محو حیرت ہے کتاب الا ہلیح اور کتاب المفضل اس پر آج تک گواہ ہیں ۔

یہ امام جعفر صادق کے فیوض کا ہی تصدق ہے کہ پروفیسر ہٹی جیسا شخص جابر بن حیان کو ایشیا اور یورپ میں فادر آف کیمسٹری کہہ کر پکارتا ہے ۔

ابن تیمیہ نے خیرہ چشمی اور گستاخی سے کام لیتے ہوئے امام ابو حنیفہ کے امام جعفر صادق کے شاگر ہونے پر اعتراض کیا ہے اور اس

کی وجہ ان دونوں بزرگوں کا ہم عصر ہونا قرار دیا ہے ۔ چنانچہ شمس العلماء مولانا شبلی نے سیرت نعمان میں ابن تیمیہ کا تعاقب کرتے ہوئے وضاحت کی ہے کہ

" امام ابو حنیفہ لاکھ مجتہد اور فقیہ ہوں لیکن فضل و کمال میں ان کو حضرت امام جعفر صادق سے کیا نسبت ؟ حدیث و فقہ بلکہ تمام علوم اہل بیت کے گھر سے نکلے ہیں "

شاہ عبدالعیز محدث دہلوی اپنی کتاب تحفہ اثنا عشریہ میں لکھتے ہیں کہ

" امام ابو حنیفہ ہمیشہ حضرت صادق کی محبت و خدمت پر افتخار کرتے تھے اور کہتے تھے کہ لو لا السنتان لھلک النعمان یعنی اگر یہ دو برس نہ ہوتے (جو خدمت امام جعفر صادق علیہ السلام میں گزارے )تو نعمان ضرور ہلاک ہو جاتا "

(یہاں ہلاکت سے مراد مسائل کے جواب میں غلطیاں کرنا ہے )

امام جعفر صادق علیہ السلام اور دیگر آئمہ اہل بیت سے حضرت ابو حنیفہ کی عقیدت کا یہ عالم تھا کہ مشہور روایت ہے کہ جب کبھی ابو حنیفہ امام جعفر صادق علیہ السلام سے کلام کرتے تو کہتے جعلت فداک یعنی میں آپ پر قربان ہوں ۔ اور اسی حقیقت سے منصور دو انیقی بھی خوب واقف تھا اور جناب ابو حنیفہ کو منصور کا رعب و دبدبہ بھی اس عقیدت مندی سے باز نہ رکھ سکا چنانچہ شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی لکھتے ہیں کہ جب محمد نفس ذکیہ نے خروج کیا تو ان دنوں میں منصور عباسی نے حضرت امام ابو حنیفہ سے پوچھا

اے نعمان ! تمہارے علم کے ماخذ کون کون لو گ ہیں ؟

ابو حنیفہ نے جواب دیا کہ

" میں نے علم علی کے اصحاب اور علی سے اور عبداللہ بن عباس کے صحابیوں اور ابن عباس سے لیا ہے "

یہ کس طرح خوبصورتی کے ساتھ امام ابو حنیفہ نے حق گوئی کا اظہار کیا ہے کہ ان کا ماخذ علم صرف بابا مدینتہ العلم علی المرتضی علیہ السلام ہیں ۔ کیونکہ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ تو مسلمہ طور پر جناب امیر علیہ السلام کے شاگرد تھے ۔

اب ذہن میں ایک سوال کھٹکتا ہے کہ جب امام ابو حنیفہ جناب جعفر صادق کے شاگر تھے اور ان کے عقیدت مند بھی تھے نیز ان کے علم کا ماخذ امیر المومنین علی علیہ السلام اور ان کے شاگرد تھے تو پھر فقہ حنفی اور فقہ جعفری آپس میں مختلف کیوں ہیں ؟

یہ وقت کا اہم ترین مسئلہ ہے اور اتحاد بین المسلمین کیلئے اس سوال کا جواب دینا اشد ضروری ہے ۔

علامہ مناظر احسن گیلانی نے لکھا ہے کہ حجاز سے واپسی کے بعد امام ابو حنیفہ کو تدوین فقہ کا خیال پیدا ہوا غالبا یہ ان دو سالوں کے بعد کا ذکر ہے جو امام صاحب نے جناب جعفر صادق علیہ السلام کی درس گاہ میں گزارے ۔ مولانا شبلی نعمانی تحریر کرتے ہیں کہ

اس کام کیلئے انہوں نے ایک مجلس وضع قوانین مرتب کی جس میں ان کے ( ۴۰) شاگرد شامل تھے ۔ ان میں نمایاں لوگ قاضی ابو یوسف ‘ زفر ‘ داؤد الطلائی اور محمد بن حسن شیبانی تھے ۔ ہر مسئلہ بحث و مباحثہ کے بعد طے کیا جاتا تھا ۔ قلائد و عقود و العقیان کے مصنف نے لکھا ہے کہ امام ابو حنیفہ نے جس قدر مسائل مدون کئے ان کی تعداد بارہ لاکھ نوے ہزار ( ۰۰۰‘۹۰‘۱۲) سے کچھ زیادہ ہے شمس العلماء کردوی نے لکھا ہے کہ یہ مسائل چھ لاکھ تھے ۔ یہ خاص تعداد شاید صحیح نہ ہو ۔ لیکن کچھ شبہ نہیں کہ ان کی تعداد لاکھوں سے کم نہ تھی ۔ امام محمد کی جو

کتابیں آج موجود ہیں ان سے اس کی تصدیق ہو سکتی ہے اگرچہ اس میں شک نہیں کہ امام ابو حنیفہ کی زندگی ہی میں فقہ کے تمام ابواب مرتب ہو گئے تھے رجال و تواریخ کی کتابوں میں اس کا ثبوت ملتا ہے جس کا انکار گویا تواتر کا انکار ہے لیکن افسوس ہے کہ وہ مجموعہ ایک مدت سے ضائع ہو گیا ہے اور دنیا کے کسی کتب خانہ میں اس کا پتہ نہیں چلتا ۔ امام رازی مناقب شافعی میں لکھتے ہیں کہ امام ابو حنیفہ کی کوئی تصنیف باقی نہیں رہی ۔ لیکن قاضی ابو یوسف اور امام محمد نے انہیں مسائل کو اس توضیح و تفصیل سے لکھا اور ہر مسئلہ پر استدلال اور برہان کے ایسے حاشئے اضافہ کئے کہ ان کو رواج ہو گیا اور اصل ماخذ سے لوگ بے بہرہ ہو گئے (سیرت ا لنعمان علامہ شبلی )

اب غور طلب امر یہ ہے کہ اس اصلی مجموعہ مسائل کو جو خود امام حنیفہ نے مرتب کیا تھا کیا بنا ؟

اس مواد کے جل جانے چوری ہو جانے کسی قدرتی آفت کی نذر ہو جانے یا تاتاریوں کے ہاتھوں تباہ ہونے کا تذکرہ کسی بھی تاریخ کی کتاب میں نہیں ملتا ۔ لہزا اس علمی سرمایہ کا سراغ لگانے کیلئے ہمیں تاریخوں کو زیادہ گہری نظر سے دیکھنا پڑے گا ۔

تاریخ سے اس کی گواہی ملتی ہے کہ ابو جعفر منصور عباسی نے بنو حسن خصوصا محمد نفس زکیہ اور ابراہیم نفس رضیہ کا خاتمہ کرنے کے بعد ان کے حامیوں اور طرفداروں سے انتقام لینے کا آغاز کیا ۔ اس سلسلہ میں منصور کی نظر میں امام ابو حنیفہ کی شخصیت بڑی بااثر اور سیاسی اعتبار سے قد آور تھی ۔ ان پر ہاتھ ڈالنا بھڑوں کے چھتہ پر ہاتھ ڈالنا تھا کیونکہ ایسے اقدام سے سر زمین عراق پر فتنہ بغادت آنا فانا پھیل سکتا تھا جو تخت عباسی کا تختہ کر سکتا تھا ۔ لہزا استحکام حکومت کیلئے ضروری تھا کہ ایسا راستہ اختیار کیا جائے کہ سانپ بھی مر جائے اور لاٹھی بھی سلامت رہے منصور اس بات سے بخوبی آگاہ تھا کہ ابو حنیفہ کا اس حدیث رسول پر پورا یقین ہے کہ

" اہل بیت کو علم نہ سکھانا کیونکہ وہ تم (سب ) سے زیادہ صاحبان علم ہیں "

صواعق محرقہ

چنانچہ منصور نے سب سے پہلے دہن دوزی کا طریقہ اختیار کیا حضرت امام ابو حنیفہ کو سرکاری قاضی بنانا چاہا مگر انہوں نے اس عہدہ کو قبول نہ کیا پھر انہیں مفتی بنانے کی کوشش کی گئی مگر انہوں نے انکار کر دیا اس کے بعد امام صاحب کو قاضی القصاة کے اعلی منصب کی پیش کش ہوئی مگر انہوں نے معذوری کا اظہار کر دیا کیونکہ وہ بالغ نظر تھے اور ان کو معلوم تھا کہ یہ سب کچھ ایک خاص سیاسی مقصد کیلئے کیا جا رہا ہے دراصل حکومت ان کو فریب دے کر اپنے جال میں پھنسانا چاہتی ہے

تاکہ ان کا علم حکومت کی نوک تلوار کا ہم نوا ہو ۔ اور حکام کو اپنے مفاد میں مفید فتوے حاصل کرنے میں کوئی مشکل پیش نہ آئے ۔

جب منصور کی یہ تدبیریں الٹ ہو گئیں اور ابو حنیفہ رام نہ ہوئے تو اس کی آتش انتقام بھڑک اٹھی اس نے امام صاحب کو قید کر دیا ۔

شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی نے اپنی شیعہ کش کتاب تحفتہ اثناء عشری میں کید ۸۲ کے ذیل میں اپنی تحقیق کے مطابق تحریر کیا ہے کہ

" اس منصور نے امام ابو حنیفہ کو قید کر دیا اور قید خانہ میں زہر دے دیا کیونکہ ان کو اہل بیت رسول سے محبت و اعتقاد بہت تھا "

الغرض ۱۵۰ ہجری میں ابو حنیفہ کی وفات کے بعد ان کے شاگرد امام زفر کو عہدہ قضاپیش کیا گیا مگر انہوں نے انکار کر دیا اور خود روپوش ہو گئے ان کو مجبور کرنے کی غرض سے ان کا گھر مسمار کر دیا گیا لیکن وہ کسی دباؤ تلے نہ آئے ۔ البتہ مالی مشکلات اور دیگر وجودہ کی بنا پر امام ابو حنیفہ کے ایک اور شاگرد قاضی ابو یوسف نے مہدی عباسی کے زمانے میں قاضی اور ہارون کے عہد میں قاضی القضاة بننا قبول کر لیا ۔

مشہور مورخ ابو النصر مصری کا بیان ہے کہ

" عمر ابن عبدالعزیز نے تمام بلاد و امصاری میں نبیذ (قسم شراب )کے حرام ہونے کا حکم بھیج دیا تھا چنانچہ عہد بنی عباس میں فقہ جعفری ‘ فقہ مالکی ‘ فقہ شافعی اور فقہ حنبلی میں تمام نشہ آور نبیذیں حرام قرار دی گئیں لیکن فقہ حنیف میں " خمر " کے لفظ کو لغوی معنی میں لیتے ہوئے اس کا اطلاق صرف انگور کے پکے ہوئے شیرہ پر کیا گیا اور شراب کی بعض قسموں مثلا کھجور جو اور کشمش کی نبیذ کو جائز قرار دیا گیا بشرطیہ اسے بہت ہلکی آگ پر تھوڑی دیر تک پکایا گیا ہو ہارون بھی نبیذ کثرت سے پیا کرتا تھا فقہ حنیف کی اس نرم روی سے لوگوں میں جرات پیدا ہو گئی اور وہ ایسی شراب بھی پینے لگے جس سے نشہ ہو جاتا تھا "

(اردو ترجمہ الہارون )

ظاہر ہے فقہ حنفی میں یہ لچک عہد ہارون میں پیدا کی گئی جب امام ابو یوسف قاضی القضاة تھے اور انہوں نے امام محمد بن حسن ایشبانی کی مدد سے حنفی فقہ کی از سر نو تدوین کی کیونکہ وہ مجموعہ فقہ جو امام ابو حنیفہ نے مدون کیا تھا نا پید ہو چکا تھا حالانکہ وہ باب وار مرتب ہوا تھا لیکن اس میں بادشاہوں کے عیش و لذت کی کوئی راہ ہموار نہ تھی کیونکہ ابو حنیفہ جیسے دور اندیش بزرگ معاشرے کو ایسی رعایتوں کا خوگر بنانے کے برے نتائج پر نظر رکھتے تھے اور وہ اس قومی نقصان سے بے نیاز نہیں ہو سکتے تھے ۔

امام محمد شیبانی کا حکومت سے مسلسل تعلق رہا عہد ہارون میں جب محمد رقہ میں قاضی تھے تو ویلم کی سر زمین سے محمد نفس زکیہ کے بھائی یحیی بن عبداللہ نے خروج کیا ۔ ہارون نے ان کی سر کوبی کیلئے فضل بن یحیی برمکی کو پچاس ہزار فوج دے کر روانہ کیا ۔ فضل کی حکمت عملی سے یحیی ہارون سے ملنے پر آمادہ ہو گئے بشرطیکہ وہ ایک امان نامہ لکھ کر بھجوا دیا ۔ یہیی فضل کے ہمراہ ہارون کے پاس آ گئے کچھ دن ہارون نے ان کو بڑی عزت کے ساتھ رکھا اور اس امان نامہ کے باطل ہونے پر امام محمد قاضی رقہ سے فتوی مانگا ۔

انہوں نے فتوی دینے سے معذوری ظاہر کی ۔ ہارون نے طیش میں آ کر ان کے سر پر دوات کھینچ ماری جس سے ان کا سر پھٹ گیا ۔ ان کو اس وجہ سے اپنے عہدہ قضا سے بر طرف کر دیا گیا اور اسی محفل میں قاضی القضا ة ابو البختری وہب ابن وہب سے امان نامہ کے بے اثر ہونے اور یحیی کے قتل کے جواز کا فتوی لے لیا ۔

کتاب "امام ابو حنیفہ کی سیاسی زندگی " میں منقول واقعات سے ثابت ہے کہ امام ابو حنیفہ نے جو سخت مصائب برداشت کرنے کے باوجود حکومت سے کوئی عہدہ قبول کرنا پسند نہیں کیا اس کا اصلی سبب یہ تھا کہ حکمران فقہ حنفی کو اپنی خواہش کے مطابق مرتب کرانا چاہتا تھا ۔ اور اس میں کسی ایسی چیز کا دخل گوارا کرنے کو تیار نہ تھا جس سے طالین یعنی بنی فاطمہ کی ہمت افزائی ہو یا ان کے فضائل و مناقب پر روشنی پڑے ہم اس بات کی تائید میں دو واقعے بطور مثال نقل کرتے ہیں ۔

ہارون رشید کے متعلق طاش کبری زادہ نے مفتاح السعادة میں یہ روایت نقل کی ہے کہ امام مالک کو بغداد لانے سے مایوس ہونے کے بعد وہ واپسی میں مکہ پہنچا اور اس زمانہ میں مکہ کی علمی امامت و ریاست جس کے ہاتھ میں تھی یعنی سفیان بن عینیہ ان سے ملا ملنے کے بعد حکم دیا کہ جو کتابیں انہوں نے لکھی ہیں وہ میرے ساتھ کر دیں ۔ لیکن سفیان کا علم ہارون اور اس کی حکومت کے کام کا نہ تھا " (امام ابو حنیفہ کی سیاسی زندگی )

" ابن ابی العوام نے پوری سند کے ساتھ سماعہ سے روایت کی ہے کہ یحیی طالبی کے واقعہ کے بعد خلیفہ ہارون رشید نے حکم

دیا کہ امام محمد کی پوری کتابوں کی چھان بین کی جائے اسے یہ خوف تھا کہ کہیں امام صاحب کی کتابوں میں ایسا مواد تو نہیں جو طالبین (یعنی اولاد علی) کی فضیلت پر مشتمل ہو یا ان کو بغاوت پر امادہ کر دے (اردو ترجمہ آثار امام محمد و امام ابو یوسف مولانا زاہد کوثری )

اس طرح امام ابو یوسف اور امام محمد کے منصب پر فائز ہونے کے زمانے میں وہ مجموعہ فقہ جو امام ابو حنیفہ کے زمانے میں مرتب ہوا تھا مفقود ہو گیا اور ان کتابوں کا نام فقہ ابو حنیفہ پڑ گیا جو امام محمد نے مدون کیں اور جن کی چھان بین ہارون نے کروائی ۔ ان سب کتابوں کے نام فہرست ابن ندیم میں درج ہیں ۔

علامہ شبلی نعمانی نے اسی لئے امام محمد کے تذکرے میں لکھا ہے "آج فقہ حنفی کا دار و مدار ان ہی کتب پر ہے "

مرحوم سید حشمت حسین جعفری ایڈووکیٹ اپنے ایک مقالہ میں کہتے ہیں کہ

" میں یقین کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ اگر فقہ حنفیہ تلف نہ ہو جاتا جو امام ابو حنیفہ کے زمانے میں ان کی زیر نگرانی باب وار مرتب ہو چکا تھا تو دنیا دیکھتی کہ فقہ حنفی اور فقہ جعفری میں کوئی فرق نہیں ہے ۔

چونکہ عباسیوں نے محض اہل بیت کے نام سے پراپیگنڈا کرکے حکومت حاصل کی تھی اس لئے وہی ان کے خیال میں ان کے سب سے بڑے دشمن تھے امام ابو حنیفہ کے چونکہ خاندان اہل بیت سے موروثی عقیدت مندانہ تعلقات تھے اس لئے انہوں نے اپنی فقہ میں بہت کچھ مسائل ان سے لئے تھے یہ چیزیں ہارون کو گوارانہ تھیں ۔ اس لئے ان کا تیار کردہ مواد تلف کرا دیا گیا اور ان کے شاگردوں سے حسب منشاء فقہ مرتب کراکہ اس کا نام فقہ حنفی رکھ دیا گیا جس میں اہل بیت سے شاذ و نادر ہی کوئی مسئلہ لیا گیا اور اسی کو حکومت کی سر پرستی میں رواج دیا گیا "

ایک مسلمان ہونے کی حیثیت سے ہمارا صرف یہی فریضہ نہیں ہے کہ ہم خود احکام اسلامی کی پابندی کریں بلکہ اللہ کی اس امانت کو نئی نسل اور غیر مسلم اقوام تک پہنچانا بھی ہماری ذمہ داری ہے ۔ عصری تقاضوں کے پیش نظر حالات کی مناسبت سے ہمیں پوری دیانت اور فہم و فراست سے کام لے کر اپنے اس فرض کو انجام دینا چاہیے اور اس اہم ترین فریضہ کی ادائیگی اس وقت تک آسان نہیں جب تک ہم خود اپنا شعور پختہ نہ کر لیں ۔

ویسے تو انسانی معاشرے اکثر خلفشار کاشکار ہوتے رہے ہیں مگر آج کا نام نہاد مہذب اور ترقی یافتہ دور بڑا کربناک ہے سائنسی ترقی ‘ عروج فنون ‘ اور علوم جدیدہ جو دنیا کی خوشحالی کا ویسلہ سمجھے جاتے ہیں انسان کی نظریاتی آویزشوں کی بدولت ساری دنیا کو جہنم بنا دینے کیلئے کام میں لائے جا رہے ہیں اور اس عظیم خطرے سے بچاؤ کی صرف ایک صورت نظر آتی ہے وہ ہے " پر امن بقائے باہمی "

یہی وہ نظریہ ہے جو متعصب لوگوں کو اسلام سکھاتا ہے کہ لا اکراء فی الدین دین میں کوئی زبردستی نہیں لکم دینکم ولی دین تمہارا دین تمہیں مبارک ہمارا دین ہمیں یہ دین اسلام ہی ہے جو ہر مسلم کو حکم دیتا ہے کہ دشمن کے ساتھ بھی عدل و انصاف سے کام لو اسلام ہر کلمہ گو سے پر زور مطالبہ کرتا ہے کہ وہ روا داری اور اخوت اسلامی کے سبق کو نہ بھولے ۔خود بھی آزادی سے زندگی بسر کرے اور اپنے دوسرے بھائیوں کو بھی ان کے جائز حقوق زندگی سے محروم نہ کرے ۔ ہمارے پیغمبر تعلیم کتاب و حکمت کیلئے مبعوث ہوئے اور حضور نے عام عبادات سے پہلے ہمیں اخلاقی حسنہ کی تعلیم دی اگر ہم بردباری سے کام لیں اور ایک دوسرے کے احساسات کو ملحوظ رکھتے ہوئے محض جذبات کی رو میں بہہ کر برافروختہ نہ ہوں اور علم و حکمت ‘عمل و عبادات اور اچھے اخلاق کے میدانوں میں ایک دوسرے پر سبقت لینے کی کوشش کریں تو اتحاد بین المسلمین کا وہ مقصد حاصل ہو سکتا ہے جس کا ہم نعرہ تو اونچا بلند کرتے ہیں مگر ہمارا عمل اس کے خلاف بلکہ سطح انسانیت سے بھی نیچا ہوتا ہے ۔

جیسا کہ اختلافی مسائل پر گفتگو بہت نازک ہوتی ہے اور امام جعفر صادق علیہ السلام اور دیگر مکاتب فقہ اسلامی کے موضوع پر خامہ فرسائی کرنا اور اس بیان میں منفی انداز سے پرہیز کرکے مثبت طریقہ اختیار کرنا کوئی آسان کام نہیں ہے ۔ جعفریوں نے ایسی صورت میں جس طرح زندگی گزاری وہ درد ناک داستان تاریخ میں موجود ہے ۔ علامہ اقبال کے بقول اس سازش کا سبب " ملوکیت اور ملائیت کا گٹھ جوڑ" ہے ۔

ہم اس کی وضاحت کرنا ضروری سمجھتے ہیں کہ ہم جعفری کیوں کہلواتے ہیں حالانکہ متفقہ و مسلمہ عقیدہ یہ ہے کہ ہماری فقہ فقہ محمدی ہے راقم کے دوست سید ضیاء الحسن موسوی نے یوں دیا ہے

" بات یہ ہے کہ مکتب جعفری کا مسلک یہ ہے کہ وہ بنظر احتیاط تفسیر قران مجید اور تفصیل سنت نبوی جن پر اسلام کی بنیاد ہے وہ اس کیلئے فقط ائمہ اثناء عشر علیہم السلام کا ویسلہ اختیار کرتے ہیں ۔ جن کو وہ معصوم سمجھتے ہیں اکثر مسلمانوں کا عقیدہ ہے کہ آنحضرت نے فرمایا ہے کہ میرے اصحاب ستاروں کی طرح ہیں ان میں سے تم جس کی پیروی کرو گے ہدایت پاؤ گے تو اگر انہوں نے ان صحابہ میں سے ایک ایسے سابق الاسلام کا وسیلہ اختیار کیا جو اہل بیت رسول میں بھی شامل ہے جو باب مدینہ علم رسول بھی ہے ۔ جس کو انحضرت نے اپنے بعد ہر مومن کا ولی قرار دیا اور اس علاوہ جس طرح حضرت ابو بکر و حضرت عمر نے بھی قضا اور احکام شریعت میں مقدم قرار دیا اور جس کی حیثیت عہد حضرت عمرمیں سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کی سی تھی اور جس کے فیصلوں کی وجہ سے حضرت عمر اپنے فیصلے بدل دیتے تھے تو اس میں اعتراض کی کیا بات ہے پھر ان کی اس اولاد سے جو بلندی علم و کردار کے باعث سب مسلمانوں کے نزدیک قابل احترام ہے قران اور سنت کا علم حاصل کیا تو اس اختصاص کو احتیاط کے سوا کیا کہا جا سکتا ہے آخر حنفی مسلمان امام ابو حنیفہ کے اتباع سے مخصوص ہیں ۔ اور امام مالک ‘ امام شافعی اور امام حنبل کا اتباع نہیں کرتے تو کیا وہ باقی ائمہ فقہ کی توہین کرتے ہیں ؟ پیروان مسلک جعفری کے نزدیک عقل و نقل سے ثابت ہے کہ آخری نبی پر نبوت ختم ہو گئی اس کے بعد حفاظت و تعلیم شرع و دین کیلئے خلفائے رسول کا سلسلہ شروع ہوا یہ خلفاء امام یا اولوالا مر خدا اور رسول کے منتخب کردہ ہیں وہ ذریت رسول سے ضرور ہیں اگر ان کی امامت موروثی ہوتی تو امام حسن علیہ السلام کے بعد ان کی اولاد کے بجائے ان کے چھوٹے بھائی امام نہ ہوتے حضرت علی علیہ السلام کے بعد پانچویں امام تک تو بنی امیہ نے آزادنہ نشر علوم کا موقعہ نہ دیا اور ان سے وابستگان کو ہر طرح تباہ و برباد کرنے کی کوشش کی گئی مگر نشر دین الہی کا سلسلہ جاری رہا ۔

امام جعفر صادق علیہ السلام کو تاریخ میں وہ دور ملا جب بنی امیہ کی سلطنت کمزور ہو چکی تھی اور نبی عباس نے الرضا من آل محمد کے نام سے جو عوامی تحریک شروع کی تھی اور جس کے موئیدین میں امام ابو حنیفہ بھی تھے اس کی قیادت ہاتھوں میں لے لی اور خود اپنی سلطنت قائم کر لی ۔ جس کا ابتدائی زمانہ بنی امیہ اور اس کے موئیدین سے انتقام میں گزارا تانکہ پہلے خلیفہ بنی عباس کا نام تاریخ نے سفاح یعنی بکثرت خونریزی کرنے والا لکھا اور پھر دوسرا خلیفہ منصور ہوا جس نے اقدار کو مستحکم کرتے ہی مسلمانوں میں فرقہ سازی کے کھیل کا آغاز کیا ۔ یہ وہ درمیانی وقفہ جس میں کچھ حریت اور آزادی کی سانس لینے کا موقع ملا اور امام جعفر صادق علیہ السلام نے فقہ محمد ی کے ترجمان کی حیثیت سے اس کو منظم اور آزادانہ طریقہ سے پیش کیا اور ساتھ ہی ساتھ فلسفہ یونان و روم و ایران و ہند کے اثرات سے جو لا دینی نظریات مسلمانوں کے ذہنوں کو منتشر کر رہے تھے اس کا علم و عقل کی سطح پر مقابلہ کیا اور علم کلام کی منظم تشکیل فرمائی ۔ چونکہ اس کے بعد رفتہ رفتہ مسلمانوں میں تقریبا ۵۵ فقہی مکاتب قائم ہوئے اس لئے امام جعفر صادق علیہ السلام کے مسلک کا اتباع کرنے والے جعفری کہلائے اور آپ کی بلا آمیزش فقہ کا نام فقہ جعفری مشہور ہوا ۔

علی ہذا القیاس ہم دخل در معقولات کی جسارت سے ہاتھ کھینچتے ہوئے اپنی معروضات کا اختتام مولف کتاب " جعفر ابن محمد " جناب عبدالعزیز سید الاہل کے ان الفاظ پر کرکے التماس دعا کرتے ہیں ۔

" جعفر بن محمد (علیما السلام) مسلمانوں کے وہ قابل فخر امام ہیں جو اب بھی زندہ ہیں اور ہر آنے والے دور میں ان کی ایک نئی آواز گونجتی ہے جس سے اہل زہد و تقوی پرہیز گاری کا اور اہل علم و فضل علم و کمال کا درس لیتے ہیں آپ کی آواز پریشان حال کو سکون کی راہ دکھلاتی ہے مجاہد کو جو ش دلاتی ہے ۔

تاریکیوں میں نورانیت پھیلاتی ہے عدالت کے قصر کی بنیادیں قائم کرتی ہے اور مسلمانوں کو یہ پیام دیتی ہے کہ اب بھی ایک نقطہ پر جمع ہو جاؤ ۔ دیکھوں خدا بھی ایک ہے اور نبی بھی ایک ہے ۔

وما علینا الا البلاغ

عبدالکریم مشتاق

*****

مرحوم حاج شیخ رجب علی خیاط کی نصیحت

آپ آخری حجت کی مظلومیت سے آگاہ ہوتے ہوئے یہ بھی ذہن میں رکھیں کہ امام زمانہ کے ظہور کے لئے دعا سے مراد حالات اور مقامات تک پہنچنا مقصود نہ ہو بلکہ قرب الٰہی اور امام کی رضا کو اپنے عمل کا مرکز قرار دے اب مہم واقعہ کی طرف توجہ دیں مرحوم آقائی اشرفی امام عصر کے ظہور کے منتظرین میں سے تھے نقل کرتے ہیں کہ ایک زمانہ میں تبلیغ کے لئے مشہد مقدس کے شہروں میں سے ایک شہر میں گیا تھا ماہ رمضان میں مسافرت کے دوران ہم تہران کے دوستوں میں سے ایک دوست کے ساتھ مرہوم شیخ رجب علی خیاط کی خدمت میں مشرف ہوئے اور ان سے اپنی راہنمائی کا مطالبہ کیا اس بزرگوار نے ختم آیہ شریفہ (ومن یتق اللہ) کا طریقہ بتادیا اور فرمایا اول صدقہ دیں اور چالیس روز روزہ رکھیں اور اس ختم کو چالیس روز میں انجام دیں مرحوم شیخ رجب علی خیاط نے اس مقام پر جو مہم نکتہ فرمایا یہ ہے کہ اس ختم سے مقصود یہ ہو کہ حضرت امام رضا سے اس بزرگوار کا قرب حاصل کرو اور مادی حاجتیں اپنی نظر میں نہ رکھیں۔

مرحوم آقائی شرفی نے فرمایا میں نے ختم کو شروع کیا لیکن اس ختم کو جاری نہیں رکھ سکا لیکن میرے ساتھی کو یہ توفیق حاصل ہوئی اور اس کو اختتام تک پہنچایا پس جب ہم مشہد مقدس لوٹے جب وہ حضرت امام رضا کے حرم میں تھا تو آپکی زیارت سے مشرف ہوا تب متوجہ ہوئے کہ آن حضرت کو نور کی صورت میں دیکھتاہے آہستہ آہستہ یہ حالت قوی ہوئی یہاں تک حضرت کو دیکھنے اور گفتگو کرنے کی صلاحیت پیدا ہوئی۔ اس واقعہ کو بیان کرنے کا اصل مقصد یہ ہے وہ جو دعاؤں اور توسلات میں پائی جاتی ہیں اور وہ یہ ہے کہ انسان نماز ادا کرنے کے علاوہ دعاؤں اور توسل میں خلوص کی رعایت کرے اس کو انجام دینا صرف قرب الٰہی حاسل کرنے کے لئے ہو تا کہ اھل بیت کے نزدیک ہوجائے یعنی یہ بندگی کے لئے انجام دے نہ کہ حالات اور مقامات تک پہنچنے کے لئے نہ لوگوں کو اپنی طرف مائل کرنے کے لئے مرحوم حاج شیخ علی حسن علی اصفہانی سے منقول ہے کہ انہوں نے فرمایا میں ایسا کام کرسکتاہوں کہ لوگ میرے دروازے کو دق الباب کریں۔ تا کہ ان کی مشکلات حل ہوجائے مجھ سے کہے بغیر لیکن لوگوں کا عقیدہ حضرت امام رضا کے بارے میں سست ہوجاتاہے اس لئے میں اس کو انجام نہیں دیتاہوں۔

شیخ حسن علی کااصفہانی کا مہم تجربہ

اب جب شیخ حسن علی اصفہانی کا ذکر ہوا تو یہاں ایک واقعہ اسی مناسبت سے نقل کرتاہوں یہ بچپن سے عبادات ریاضیات میں مشغول ہوجاتے تھے اور بلند اھداف تک پہنچنے کے لئے بہت زیادہ زحمت اٹھائی تھی جو اس بزرگوار نے نمازیں اور قرآنی کی آیتوں کو بچپن سے لیکر آخری عمر تک انجام دیا تھا اس کو لکھا اس میں بہت زیادہ اسرار اور نکات موجود تھے چونکہ اس کتاب میں رموز اور اسرار تھے مناسب نہیں سمجھا یہ دوسروں کے ہاتھ میں دیدے اس لئے اس کو مخفی رکھا لوگوں کو نہیں دیا مرحوم والد اس کتاب کے ساتھ ارتباط کے بارے میں فرماتے تھے مرحوم شیخ حسن علی اصفہانی نے اپنی آخری زندگی میں اس کتاب کو مرحوم آیة اللہ حاج سید علی رضوی کو دے دیا اس واقعہ کو نقل کرنے کا مقصد یہ ہے جو شیخ حسن علی اصفہانی نے اس کتاب کے آخر میں لکھا ہے جو کچھ اس کتاب کے آخر میں لکھا ہے اس میں یہ نکتہ ہے کاش میں ان اذکار اور ززحمات کو امام زمانہ کے ساتھ قرب حاسل کرنے کے لئے انجام دیت

جو بھی تعجیل ظہور کے لئے دعا مانگے امام زمانہ کی دعا انہیں بھی شامل ہوتی ہے

امام زمانہ کی دعا ہے کہ جو مھج الدعوات میں نقل ہوئی ہے دعا کے بعد تعجیل فرج کے لئے خدا سے چاہتاہے واجعل من یبتعنی النصرة دینک مویدین، و فی سبیلک مجاھدین و علی من ارادنی و ارادھم بسوءٍ منصورین۔۔ جس زمانے میں میرے ظہور کی اجازت دیں گے کسی کو کہ جو میری پیروی کرے اپنے دین کی مدد کے لئے موید قرار دے اور اس کو راہ خدا میں مجاہدین میں سے قرار دے اور جو بھی میری اور ان کی نسبت برا قصد رکھتے ہیں ان پر کامیاب فرما اس مطلب پر دوسری دلیل یہ ہے کہ علی بن ابراھیم قمی آیہ شریفہ کی تفسیر میںواذاحییتُم بتحیة فحیوا باحسن منها او رُدوها جب تم پر کوئی سلام کرے تو اس کے جواب میں اچھا سلام دیں یا ویسا ہی سلام کا جواب دیں سلام کرنا نیک کاموں میں سے ہے۔

ہمارے گفتار پر گواہ اور تائید وہ روایت ہے کہ جو مرحوم راوندی اپنی کتاب الخراج میں نقل کرتے ہیں کہتاہے کہ اصفہانی کی ایک جماعت جن میں ابوعباس احمد بن نصر ابو جعفر محمد بن علویہ شامل ہیں نے نقل کیا ہے اور کہتے ہیں اصفہان میں ایک شیعہ مرد تھا جس کا نام عبدالرحمان تھا ان سے پوچھا گیا تم نے علی نقی کی امامت کو قبول کیا اس کی کیا وجہ ہے کسی اور کو قبول نہیں کیا حضرت سے ایک واقعہ دیکھا جس کی وجہ سے میں ان کی امامت کا قائل ہوا میں ایک فقیر مرد تھا لیکن زبان تیز اور جرأت رکھتا تھا یہی وجہ ہے ایک سال اھل اصفہان نے مجھے انتخاب کیا تا کہ میں ایک جماعت کے ساتھ عدالت کے لئے متوکل کے دربار میں چلا جاؤں ہم چلے یہاں تک کہ بغداد پہنچے جب ہم دربار کے باہر تھے تو ہمیں اطلاع پہنچی کہ حکم دیا گیا ہے کہ امام علی بن محمد بن الرجا کو حاضر کریں اس کے بعد حضرت کو لے آئے میں نے حاضرین میں سے ایک سے کہا جس کو ان لوگوں نے حاضر کیا ہے وہ کون ہے کہا وہ ایک مرد ہے جو علوی ہے اور رافضیوں کا امام ہے اس کے بعد کہا میرا خیال ہے کہ متوکل اس کو قتل کرنا چاہتاہے میں نے کہا میں اپنی جگہ سے حرکت نہیں کروں گا جب تک اس مرد کو نہ دیکھوں کہ وہ کس قسم کا شخص ہے اس نے کہا حضرت گھوڑے پر سوار ہو کر تشریف لائے لوگ دونوں طرف سے صف باندھ کر اس کو دیکھتے تھے جب میری نظر ان کے جمال پر پڑی میرے دل میں ان کی محبت پیدا ہوئی میں نے دل میں ان کے لئے دعا مانگنا شروع کی کہ اللہ تعالیٰ کے ان کو متوکل کے شر سے محفوظ رکھے حضرت لوگوں کے درمیان حرکت کرتے تھے نہ دائیں طرف دیکھتے تھے نہ بائیں طرف میں بھی حضرت کے لئے دل میں دعا مانگتا تھا جب میرے سامنے آئے تو حضرت میری طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا:استجاب الله دعاک و طوّل عمرک و کثر مالک و ولدک خدا نے تمہاری دعا قبول کی اللہ تمہاری عمر کو طویل کرے اللہ تجھ کو مال اور اولاد زیادہ دے ان کی ھیبت اور وقار کی وجہ سے میرا بدن لرزنے لگا۔

دوستوں کے درمیان زمین پر گرا انہوں نے پوچھا کہ کیا ہوا میں نے کہا خیریت ہے اور واقعہ کسی سے بیان نہیں کیا اس کے بعد اصفہان لوٹا خدا نے حضرت کی دعا کی وجہ سے مال اور ثروت کے دروازے کھل گئے اگر آج ہی اپنے گھر کے دروازے کو بند کردوں تو بھی اس میں جو مال رکھتا ہوں کئی ہزار درہم کے برابر ہے یہ اس مال کے علاوہ ہے جو گھر کے باہر مال رکھتاہوں خدا نے حضرت کی دعا کی برکت سے مجھے فرزند عطا کیا ہے اس وقت میری عمر ستر سال سے زیادہ ہے میں ان کی امامت کا دل میں قائل تھا اس کے بارے میں مجھے خبردی تو خدا نے ان کی دعاء کو میرے حق میں قبول کیا میں اعتقاد رکھتا ہوں ۔

دیکھیں کہ کس طرح ہمارے مولیٰ کی دعا نے اس شخص کو اس کی نیکی کی وجہ سے جبران کیا ان کے لئے دعا کی حالانکہ وہ مومن نہیں تھا کیا گمان کرتے ہو اگر ہم مولیٰ کے حق میں دعا کریں تو وہ تمہارے لئے دعائیں کرے گا حالانکہ تم مومنین میں سے ہو نہیں ہرگز ایسا نہیں ہے اس خدا کی قسم کہ جس نے جن اور انس کو پیدا کیا حضرت ان مومنین کے لئے بھی دعا کرتے ہیں کہ جو اس امر سے غافل ہیں چونکہ وہ صاحب احسان ہے۔

اب اس مطلب کی تائید کے لئے بیان کرتاہوں اور وہ خواب ہے کہ بعض برادران نے مجھے بیان کیا ہے عالم خواب میں حضرت کی زیارت ہوتی ہے حضرت نے فرمایاانّی ادعولکل موٴمن یدعولی بعدذکر مصائب سید الشهداء فی مجالس العزاء میں ہر مومن کے لئے کہ جو مصائب سید الشہداء کے ذکر کے بعد میرے لئے دعا مانگتاہے میں اس کے لئے دعا مانگتاہوں خداوند تعالیٰ سے اس امر کے لئے توفیق کی درخواست کرتاہوں چونکہ وہ دعا کو سننے والا ہے۔

تعجیل فرج کے لئے مجلس دعا تشکیل دینا

جس طرح ممکن ہے کہ تنہا انسان تعجیل ظہور امام زمانہ کے لئے دعا کرے اسی طرح ممکن ہے اکٹھے مل کر دعا مانگیں اور مجالس دعا تشکیل دیں تا کہ آخری حجت کی یاد تازہ ہوجائے اس اجتماع میں نیک کاموں پر دعا کے علاوہ اور فوائد بھی ہوتے ہیں اس سے ائمہ معصومین کے امر زندہ رکھا جاتاہے اور اھل بیت کی احادیث کو یاد کرتے ہیں۔ صاحب مکیال المکارم

ان مجالس کی تشکیل کو امام کے غیبت کے زمانے میں لوگوں کے وضائف میں شمار کیا ہے اس میں صاحب الزمان کی یاد صفائی جاتی ہے فضائل بیان کئے جاتے ہیں اس کے علاوہ بہترین دلیل وہ کلام ہے کہ جس کو امام جعفر صادق سے وسائل الشیعہ میں روایت کیا گیا ہے کہ جہاں فرمایا ہے ایک دوسرے کی زیارت کرو اس طرح کی زیارتیں تمہارے دلوں کو زندہ کرنے کا باعث اور ہماری احادیث کو یاد کرنے کا موجب ہے ہمارے احادیث ذکر کرنا تمہیں ایکدوسرے کے لئے مہربان قرار دیتاہے اگر ہماری احادیث کو سنوگے اور عمل کروں گے تو ہدایت پاؤگے اور ہلاکتوں سے نجات پاؤگے اور اگر ان کو فراموش کروگے تو گمراہ ہوکر ہلاک ہوجاؤگے پس تم ان پر عمل کرو میں ان سے رہائی کا ضامن ہوں۔ کس طرح یہ روایت ہمارے مطلب پر دلالت کرتی ہے حضرت نے اپنے اس کلام میں ایکدوسرے کی زیارت کو علل اور اسباب قرار دیا ہے چونکہ ایکدوسرے کی زیارت کرنا ان کے امر کو زندہ رکھنے کاموجب ہے اس بناء پر ائمہ کے نزدیک اس میں شک نہیں ہے کہ امام کو یاد کرنا اور مجالس کو ترتیب دینا مستحب ہے ہمارے اس مطلب پر دلیل ہے کہ حضرت امیرالمومین نے ایک کلام کے ضمن میں تفصیل کے ساتھ فرمایا:ان الله تبارک و تعالیٰ اطّلع الی الارض فاختارنا و اختارلنا شیعة ینصروننا، و یفرحون لفرحنا، و یحزنون لحزننا، و یبذلون اموالهم و انفسهم فینا، اُولئک منّا و الینا، الخبر ۔ خدائے متعال نے کرہ زمین پر نگاہ کی اور ہمیں چنا اور ہمارے لئے شیعوں کو چنا کہ جو ہماری مدد کرتے ہیں ہماری خوشی میں خوشی کرتے ہیں اور ہمارے غم میں غم کرتے ہیں اپنی جان اور مال کو ہماری راہ میں کرچ کرتے ہیں وہ ہم میں سے ہیں وہ ہماری طرف لوٹیں گے۔

بعض اوقات اس قسم کی مجالس کا انعقاد واجب اور ضروری ہے اس وقت کہ جب لوگ گمراہ ہورہے ہیں اس قسم کی مجالس کا انعقاد تباہی اور فساد سے روکنے کا سبب اور ان کی ہدایت کا سبب ہے اھل بدعت اور گمراہ لوگوں کو برائی سے روکنا واجب ہے۔

امام زمانہ کے مخصوص مقامات (صلوات اللہ علیہ)

محدث نوری لکھتے ہیں یہ چیز مخفی نہیں ہے بعض ایسے مقامات ہیں کہ جو آخری حجت کے ساتھ مخصوص ہیں کہ جو ان کے نام سے مشہور ہیں جیسے وادی اسلام نجف اشرف میں اور مسجد سھلہ شہر کوفہ میں حلہ میں ایک معروف مقام ہے مسجد جمکران قم میں میری نظر یہ وہ مقامات ہیں کہ جہاں عاشقان حجت نے ان مقامات پر حضرت کو دیکھا ہے اور زیارت کی ہے یا یہ کہ ان مقامات پر حضرت کی طرف سے معجزہ ظاہر ہوا ہے اس لئے ان مقامات کو اماکن شریف میں سے شمار کیا گیا ہے یہ وہ مقام ہیں کہ جو ملائکہ کے اترنے کی جگہ ہے اور ان مقامات پر شیطان کا آنا بہت کم ہے یہی وجہ ہے کہ یہاں پر دعا قبول ہوتی ہے بعض روایات میں پڑھتے ہیں اللہ تعالیٰ مقدم اماکن کو دوست رکھتاہے جیسے مساجد اماموں کے حرم ائمہ کے حرموں کی زیارت گاہ نیک لوگوں کی قبریں کہ جو قریب اور دور موجود ہیں۔

ہاں یہ خود اللہ کا لطف ہے کہ اپنے بندوں پر لطف کیا ہے۔

اللہ کے بندے کہ جو محتاج ہیں جنھوں نے راہ کو گم کردیا ہے اور معرفت کی تلاش میں ہیں وہ لوگ کہ جو اپنے لئے کوئی چارہ کار نہیں دیکھتے ہیں مجبور ہیں وہ لوگ کہ جو بیماری میں مبتلا ہیں کچھ مقروض ہیں کچھ لوگ ظالم دشمنوں سے خائف ہیں وہ سب محتاج ہیں غم نے ان کے وجود کو گھیر لیا ہے جو پریشانہیں ان کے حواس پراگندہ ہیں یہ سب کے سب ان مقدس مقامات میں پناہ حاصل کرتے ہیں اپنی مشکلات کو دور کرنے کے لئے ان مقامات میں درخواست کرتے ہیں۔ طبیعی ہے جتنا اس مقام کا قابل احترام کرتے ہیں اس مقدار میں نیکی پاتے ہیں ۔

مسجد کوفہ کی فضیلت

اب بعض ان مقامات کو بیان کروں گا کہ جو آخری حجت سے منسوب ہیں۔ مسجد کوفہ ان چار مسجدوں میں سے ایک ہے کہ جن کی طرف سفر کرنے کا حکم دیا گیا ہے وہ مساجد یہ ہیں ۱ ۔ مسجد الحرام مکہ مکرّمہ میں ۲ ۔مسجد النبی مدینہ منورہ میں ۳ ۔ مسجد الاقصی بیت المقدس میں ۴ ۔مسجد کوفہ اسی طرح مسجد کوفہ ان چار مسجدوں میں سے ایک ہے کہ جس میں انسان کو اختیار ہے کہ وہاں نماز قصر پڑھنا چاہے یا تمام پڑھنا چاہے وہ جگہیں یہ ہیں۔ ۱ ۔ مسجد الحرام ۲ ۔مسجد النبی ۳ ۔امام حسین کا حرم ۴ ۔مسجد کوفہ مسجد کوفہ وہ ہے کہ جس میں انبیاء اور اوصیاء نے نماز پڑھی ہیں۔ ایک روایت میں ہے اس مسجد میں ہزار پیغمبر اور ہزار اوصیاء نے نماز پڑھی ہیں مسجد کوفہ کے اعمال بہت زیادہ ہیں یہاں بیان نہیں کئے جاسکتے جو تفصیل سے دیکھنا چاہیں انہیں چاہیئے کہ سید علی بن طاوؤس کی کتاب مصباح الزائر میں دیکھیں۔

۲ ۔ مسجد سھلہ کی فضیلت

حضرت صاحب الزمان کا مقام بھی وہیں پر ہے شہر کوفہ میں مسجد کوفہ کے بعد سب سے بہترین مسجد مسجد سہلہ ہے وہاں حضرت ادریس اور ابراہیم کا مقام ہے وہاں حضرت خضر کے رہنے کی جگہ ہے ایک روایت میں ہے کہ وہاں پر پیغمبران اور نیک لوگوں کا مقام ہے اس مسجد کی فضیلت میں بہت زیادہ روایات موجود ہیں۔

امام صادق علیہ السلام نے ابوبصیر سے فرمایا گویا میں دیکھ رہاہوں کہ صاحب العصر اپنے اھل و عیال کے ساتھ مسجد سہلہ میں داخل ہوئے ہیں اور وہاں پر ساکن ہیں خداوند نے کسی پیغمبر کو نہیں بھیجا مگر یہ کہ وہاں پر نماز پڑی ہے جو بھی اس مکان میں نماز پڑھے ایسا ہے جیسے خیمہ رسول خدا میں پڑھی ہے کوئی مومن مرد اور عورت نہیں ہے مگر یہ کہ مسجد سہلہ میں جانے کا آرزو رکھتاہے اس مسجد میں ایک پتھر ہے کہ اس میں تمام پیغمبروں کی تصویر ہے۔

جو شخص بھی خلوص نیت سے اس مسجد میں نماز پڑھے اور دعا پڑھے خداوند تعالیٰ اس کی حاجت کو قبول کرتاہے اس مسجد کے اور بھی فضائل ہیں ۔ حضرت صادق سے روایت کی گئی ہے کہ فرمایا: من صلّٰی رکعتین فی مسجد السہلہة زاد اللہ فی عمرہ عامین۔ جو بھی مسجد سہلہ میں دو رکعت نماز پڑھے خداوند تعالیٰ اس کی عمر میں دو سال اضافہ کرتاہے ایک اور روایت میں آیا ہےانّ منه یکون النفخ فی الصور و یحشر من حوله سبعون الفایدخلون الجنة بغیر حساب صور اس جگہ سے پھونکا جائے گا اور ستر ہزار آدمی اس کے اطراف میں محشور ہوں گے اور حساب کے بغیر بہشت میں داخل ہونگے۔

ابن قولویہ کتاب کامل الزیارات میں معتبر سند کے ساتھ حضرمی سے امام محمد باقر یا امام صادق سے روایت کی گئی ہے کہ کہا کہ میں نے امام سے عرض کیا سب سے بہتر مقام حرم خدا اور حرم رسول خدا کے بعد کیا ہے حضرت نے فرمایا:الکوفة یا ابابکر، هی الزکیّة الطاهرة، فیها قبور النبیّین المرسلین وغیر المرسلین و الاوصیاء الصادقین، و فیها مسجد سهیل الّذی لم یبعث اللّٰه نبیاً الّا وقد صلّی فیه ومنها یظهر عدل اللّٰه، و فیها یکون قائمه و القوّام من بعده، و هی منازل النبیّین والأوصیاء و الصالحین ۔ وہ مکان پاک و پاکیزہ ہے اس میں مرسل انبیاء اور غیر مرسل اور اوصیاء صادقین کی قبریں ہیں اور اس میں مسجد سہلہ ہے اللہ نے کسی نبی کو نہیں بھیجا مگر یہ کہ اس میں نماز پڑھی ہے اس شہر سے خدا کا عدل ظاہر ہوگا اسی میں قائم آل محمد ہے اور دین کو قائم کرے گا۔ یہی شہر انبیاء اوصیاء اور نیک لوگوں کی جگہ ہے۔

۳ ۔ جمکران کی مقدس مسجد

جمکران کی مسجد امام کے حکم سے بنائی گئی ہے پرہیزگار حسن بن مثلہ نے امام کے حکم سے کس طرح مسجد بنائی گئی ہے کہتے ہیں یہ واقعہ منگل کی رات سترہ ماہ رمضان مبارک میں ۳۹۳ ھجری قمری میں پیش آیا کہتے ہیں کہ میں اپنے گھر میں سویا ہوا تھا رات کا کچھ حصہ گزرا تھا اچانک کچھ لوگوں نے ہمارے گھر کے دروازے کو دق الباب کیا اور مجھے بیدار کیا اور کہنے لگے اٹھیں امام آپ کو پکارتے ہیں حسن بن مثلہ کہتاہے میں جلدی سے اٹھا اور لباس کو تلاش کرتارہا تا کہ تیار ہوجاؤں میں نے کہ اکہ اجازت دیں تا کہ میں اپنی قمیض پہن لوں آواز آئی یہ تمہاری قمیض نہیں ہے اس کو نہ پہنو میں نے اس کو پھینک دیا اور اپنی قمیض کو دیکھا اور پہن لیا چاہا کہ شلوار پہن لوں آواز آئی یہ تمہاری شلوار نہیں ہے اپنی شلوار پہن لو اس کو چھوڑ کر اپنی شلوار پہن لی اس کے بعد دروازے کی چابی تلاش کرنے لگا تا کہ دروازہ کھول دوں اتنے میں آواز آئی اس کے لئے چابی کی ضرورت نہیں دروازہ کھلا ہوا ہے گھر کے دروازے پر آیا تو کچھ بزرگوں کو کہ جو میرا انتظار کر رہے تھے سلام کر کے عرض آداب کیا انہوں نے جواب دیا اور کوش آمدید کہا مجھے وہان پر لے گئے کہ جہاں اب مسجد جمکران موجود ہے غور سے دیکھا دیکھا کہ ایک نورانی تخت ہے جس پر عمدہ فرش ہے ایک خوبصورت جوان اس تخت پت بیٹھا ہوا ہے کہ جس کی عمر تقریباً تیس سال تھی تکیہ کا سہارا لیکر بیٹھا تھا ان کے سامنے ایک عمر رسیدہ شخص بٹھا ہوا تھا ایک کتاب اس کے ہاتھ میں تھی جو انھیں پڑھ کے سناتا تھا وہاں پر ساٹھ آدمی سفید اور سبز لباس میں ان کے اطراف میں نماز پڑھتے تھے

وہ سن رسیدہ مرد حضرت خضر تھے اس بوڑھے مرد نے مجھے بیٹھنے کا حکم دیا میں وہاں پر بیٹھ گیا حضرت امام زمان میری طرف متوجہ ہوئے میرا نام لیکر پکارا اور فرمایا جا کر حسن مسلم سے کہو کہ تو نے کئی سال سے اس زمین کو غصب کر کے آباد کیا ہے اور زراعت کرتے ہو ہم اس کو خراب کریں گے پانچواں سال ہے کہ اس زمین میں غاصبانہ طور پر کاشت کی گئی ہے اس سال دوبارہ آباد کرنا چاہتے ہیں اب تمہیں حق نہیں ہے کہ اس زمین میں کاشت کرو اس زمین سے جو فائدہ بھی اٹھایا اس کو واپس کردو تا کہ اس جگہ مسجد بنالیں اور حسن مسلم سے کہو یہ زمین مبارک زمین ہے اور خداوند تعالیٰ نے اس زمین کو باقی زمینوں پر فضیلت دی ہے تو اس زمین کا مالک بن بیٹھا ہے اور اپنی زمین قرار دی ہے خدا نے تجھے تنبیہ کرنے کے لئے اور سزا دینے کے لئے تمہارے دو جوان بیٹوں کو لے لیا ہے لیکن تم اب بھی باز نہیں آتے ہو اگر اس کے بعد بھی باز نہ آیا تمہیں ایسی سزا ملے گی جو تمہیں معلوم نہیں ہوگا۔ میں نے کہا اے میرے مولیٰ اور آقا اس پیغام کو پہنچانے کے لئے کوئی علامت چاہتاہوں چونکہ لوگ پیغام کو نشانی اور علامت کے بغیر نہیں سنتے ہیں ۔ میری بات کو قبول نہیں کریں گے فرمایا ہم یہاں پر ایک علامت رکھ دیتے ہیں تا کہ تمہاری بات کو قبول کریں تم چلے جاؤ اور میرے پیغام کو پہنچادو اور سید ابوالحسن کے پاس چلے جاؤ اور ان سے کہو کہ اٹھیں اور زراعت کرنے والے کو حاضر کریں کئی سال سے جو فائدہ اٹھایا ہے وہ اس سے لیکر لوگوں کو دیدیں تا کہ مسجد بنالیں اگر خرچہ کم ہوا تو باقی کو فلاں جگہ سے لے آئیں وہ ہماری ملکیت ہے وہاں سے لاکر مسجد کو مکمل کرلیں ہم نے نصف مُلک کو اس مسجد کے لئے وقف کیا ہے اس کی آمدنی لا کر اس مسجد پر خرچ کریں اور لوگوں سے کہیں کہ لوگ شوق سے اس مسجد میں آئیں اور اس کو اہمیت دیں وہاں پر چار رکعت نماز پڑھیں جناب حسن بن مثلہ کہتاہے جب میں نے یہ باتیں سنیں تو اپنے آپ سے کہا گویا یہ وہی مقام ہے کہ جس کے بارے میں فرماتے ہیں اور میں نے اشارہ کیا اس جوان کی طرف کہ جو تکیہ کا سہارا لیا ہوا تھا۔

مسجد جمکران بہت زیادہ اہمیت کی حاصل ہے ان میں سے بعض کو بیان کرتاہوں

۱ ۔آخری حجت نے حسن بن مثلہ کے توسط سے حکم دیا ہے کہ مسجد مقدس کی بنیاد رکھ لے یہ واقعہ بیداری کی حالت میں فرمایا نہ کہ عالم خواب میں۔

۲ ۔ آخری حجت کے حکم سے کئی سال پہلے حضرت امیرالمومنین نے اس کے بارے میں خبر دی ہے۔

۳ ۔ مسجد جمکران آخری حجت کے ظہور کے زمانے میں کوفہ کے بعد سب سے بڑا پایہ تخت ہوگا امام کے ظہور کے وقت امام کے لشکر کا علم کوہ خضر پر لہراتاہوا دکھائی دے گا۔

۴ ۔ ایک مہم نکتہ ہے وہ یہ ہے کہ نہ صرف امام عصر(علیہ السلام ) کے ظوہر کے وقت مسجد جمکران مرکز ہوگا بلکہ زمانہ غیبت میں بھی ایسا ہوگا امام زمانہ کا یہ فرمانا کہ جو بھی اس جگہ پر نماز پڑھے گا گویا اس نے خانہ کعبہ کے اندر نماز پڑھی ہے اس سے استفادہ ہوتاہے کہ خانہ خدا نہ صرف مرکز زمین ہے اس میں ہونا انسانی میں روحانی جسمانی اعتبار سے بہت زیادہ اثر رکھتاہے اسی طرح مسجد جمکران بھی ہے۔

امام عصر کا یہ کہنا کہ اس مکان میں نماز کا پڑھنا خانہ خدا میں نماز پڑھنے کا ثواب رکھتاہے اس مسجد جمکران میں کچھ اسرار ہیں جو ہر کسی کو معلوم نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت امیرالمومنین نے فرمایا ہےمامن سرّ الّاوانا افتحه و مامن سرّ الّا والقائم یختمه کوئی راز نہیں مگر یہ کہ میں اس کو کھول دوں گا اور کوئی راز نہیں مگر یہ کہ قائم اس کو بیان کرے گا۔

۵ ۔ جو لوگ اس مقدس مکان میں جاتے ہیں وہ جانیں یہ بہت بڑا مقام ہے امام عصر کی توجہ ان کی طرف ہے گویا حضرت کے مکان میں داخل ہوئے ہیں ان کے سامنے موجود ہیں۔

کئی سو سال حضرت کی غیبت سے گزرے ہیں لیکن ہم امام زمانہ سے استفادہ نہیں کرتے ہیں ہم بارش کی فکر کرتے ہیں لیکن بارش حضرت کے وجود اور برکت سے حاصل ہوتی ہے جیسا کہ زیارت جامعہ میں پڑھتے ہیں وبکم ینزل الغیث تمہاری وجہ سے بارش ہوتی ہے۔ یہ بھی معلوم ہونا چاہیئے کہ آخری حجت کی طرف توجہ حقیقت میں خدا کی طرف توجہ ہے جس طرح باقی ائمہ کی طرف توجہ کرنا خدا کی طرف توجہ کرنا ہے پس آئمہ کی زیارت اور توسل حقیقت میں خدا سے توسل ہے یہی وجہ ہے کہ جو بھی خدا سے قرب حاصل کرنے کا قصد رکھتاہے اس کو چاہئے کہ ائمہ طاہرین کی طرف توجہ دے چنانچہ زیارت جامعہ میں ہم پڑھتے ہیں ومن قصدہ توجہ بکم جو بھی خدا کا قرب حاصل کرنا چاہے اس کو چاہئے کہ وہ ائمہ کی طرف توجہ دے چونکہ آئمہ کی طرف توجہ کرنا نہ صرف خدا کی طرف متوجہ ہونا ہے بلکہ وہ گناہ اور وہ چیزیں کہ جو بلند مقام حاصل کرنے کے لئے مانع ہیں وہ بھی دور ہوتی ہیں چونکہ امام زمانہ اور ائمہ طاہرین کی طرف توجہ کرنے کی وجہ سے انسان کی طرف رحمت اور مغفرت الٰہی کے دروازے کھل جاتے ہیں۔

حضرت باقر العلوم نے حضرت امیرالمومنین کے اس کلام میں کہ جہاں فرمایا انا باب اللہ اس کے بارے میں فرماتے ہیں یعنی من توجہ بی الی اللہ غفرلہ جو بھی میرے وسیلہ سے خدا کی طرف توجہ دے اس کے گناہ بخشے جاتے ہیں اگر چہ چودہ معصومین کی طرف ہر زمانہ میں توجہ ہونا چاہئے لیکن انسان جس زمانے میں زندگی گزارتاہے اس کو اپنے زمانے کے امام(علیہ السلام ) کی طرف زیادہ توجہ ہونی چاہئے آپ اس روایت کی طرف توجہ دیںعن عبدالله بن قلامه الترمذی عن ابی الحسن علیه اسلام قال: من شکّ فی اربعة فقد کفر بجمیع ما انزل الله عزوجل: احدها معرفة الامام فی کل زمان و اوان بشخصه و نعته ۔ حضرت نے فرمایا: کہ جو بھی چار چیزوں کے بارے میں شک کرے گویا اس نے تمام ان چیزوں کا انکار کیا ہے جو نازل کی گئی ہے ان میں سے ایک ہر زمانے میں امام کا پہچاننا کہ امام کی ذات اور صفات کے ساتھ پہچانیں پس ہر زمانے کے امام کی معرفت واجب ہے کس طرح ممکن ہے کہ جو اپنے زمانے کی امام کی معرفت رکھتا ہو اور ان کی عظمت سے آگاہ ہو لیکن اس کی طرف توجہ نہ دیتا ہو اس بناء پر امام زمانے کی معرفت سے غفلت صحیح نہیں ہے پس ہمارا وظیفہ اس زمانے میں یہ ہے آخری حجت کی امامت کے زمانے میں آپ(علیہ السلام ) کی طرف زیادہ توجہ دیں وہ دعا کہ جو ملا قاسم رشتی کو تعلیم دی ہے اور فرمایا ہے اسے دوسروں کو تعلیم دیں اگر کوئی مومن کسی بلاء میں مبتلا ہوا ہو تو اس دعا کو پڑھے وہ مجرب ہے اس دعا کے پڑھنے میں بہت زیادہ تاثیر ہے وہ دعا یہ ہےیا محمد یا علی یا فاطمه یا صاحب الزمان ادرکنی ولا تهلکنی ۔

انتظار

آخری حجت کا انتظار کرنا بہت زیادہ فضیلت رکھتاہے جو بھی امام عصر کے ظہور کا انتظار کرے ایسی صورت میں ان کی غیبت بمنزلہ مشاہدہ شمار ہوگی۔

حضرت امام سجاد علیہ السلام نے ابو خالد کابلی سے فرمایا کہ غیبت کا مسئلہ رسول خدا کے بارھویں امام میں طولانی ہوگا اے ابا کالد اھل زمان اپنے زمانے کے امام غیبت کے معتقد ہیں اور ان کے ظہور کے معتقد ہیں ہر زمانے میں سب سے زیادہ افضل ہیں خدا ان کو اس قدر عقل معرفت عطا کرتاہے کہ مسئلہ غیبت ان کے لئے بمنزلہ مشاہدہ قرار دیتاہے خداوند متعال ان کو اتنا ثواب اور اجر عطا کرتاہے کہ جو رسول کدا کے ساتھ تلوار کے ساتھ جنگ کرے حقیقت میں مخلص اور سچے شیعہ ہیں جو کہ دین خدا کی طرف دعوت دینے والے ہیں حضرت سجاد نے فرمایا کہ ظہور کا انتظار کرنا تعجیل ظہور کا بہترین راستہ ہے امام سجاد نے اس روایت میں ان لوگوں کو کہ جو امام کی غیبت میں زندگی گزارتے ہیں لیکن غیبت سے غافل نہیں ہیں اور وہ آخری حجت کے ظہور کے انتظار میں زندگی گزارتے ہیں ان کو ہر زمانے میں سب سے بہترین لوگوں میں سے قرار دیا ہے ایسے لوگوں کو ایسی عقل اور معرفت عطا کی ہے کہ ایسے لوگوں کے لئے مسئلہ غیبت بمنزلہ مشاہدہ ہوگا اس لئے پیغمبر اسلام نے فرمایا افضل جہاد امتی انتظار الفرج میری امت کے سب سے افضل جہاد فرج کا انتظار ہے۔ حضرت امام جعفر صادق نے فرمایا ہے کہ بندوں کی عبادت قبول ہونے کی شرائط میں ایک شرط آخری حجت کی حکومت کا انتظار کرنا ہے اس کے بعد امام فرماتے ہیں ہمارے لئے ایک حکومت ہے خدا جب چاہے لے آتاہے اس کے بعد فرمایا فرماتے ہیں جو بھی چاہتاہے کہ آخری حجت کے اصحاب سے ہوجائے اس کو چاہیے کہ امام کے ظہور کا انتظار کرے پرہیزگاری اور نیک اخلاق کے ساتھ زندگی گزارے اور امام کے ظہور کا انتظار کرے اس دوران اگر اس کو موت آجائے اور حضرت قائم اس کے بعد قیام کرے تو اس کو اتنا ثواب ملے گا جتنا امام کے ساتھ قیام کرنے والے کو ثواب ملتاہے پس کوشش کریں اور انتظار میں رہیں اور گوارا ہو تم پر اے جماعت کہ جن پر خدا کی رحمت نازل ہوتی ہے امام صادق نے ایک دوسری روایت میں امام کی غیبت کے زمانے کے بارے میں یہ بتاتے ہیں کہ ان کا کیا وظیفہ ہے فرماتے ہیںوانتظر الفرج صباحاً و مساءً صبح اور شام ظہور اور فرج کے انتظار میں رہو حضرت امیرالمومنین انتظار کرنے کو اھل بیت کے دوستداروں کی صفات میں سے جانتے ہیں اور اھل بیت کے ساتھ محبت کرنے والوں کی علامت یہ ہے صبح و شام امام کے ظہور کے انتظار میں ہوں گے آن حضرت نے فرمایا ان مجینا ینتظر الروح والفرج کل یوم ولیلة ہمارے دوست شب و روز دشمنوں سے آسائش کے انتظار میں ہوتے ہیں امام ھادی کے دوستاروں میں سے ایک نے پوچھا امام کی غیبت میں شیعوں کی کیا ذمہ داری ہے سوال کیاکیف تصنع شیعتک قال علیه السلام علیکم بالدعاء و انتظار الفرج غیبت کے زمانے میں آپکے شیعہ کیا وظیفہ انجام دیں امام ھادی نے فرمایا تمہارے لئے لازم ہے دعا کرنا اور ظہور کا انتظار کرنا۔

جیسا کہ روایت میں ہے کہ ظہور کا انتظار کرنا جو جہاں کی اصلاح کرے اعمال کے قبول ہونے کے شرائط میں سے ایک شرط ہے پس جو خود صالح ہو اس کو چاہئے کہ مصلح کا انتظار کرے۔

حضرت جواد الائمہ نے امام عصر کے انتظار کے بارے میں فرمایا حضرت عبدالعظیم حسنی فرماتے ہیںدخلت علی سیدی محمد بن علی و انا اریدان اساله عن القائماهوالمهدی او غیره فبلانی فقال علیه السلام یا اباالقاسم انّ القائم منا هو المهدی الذی یجب ان ینتظر فی غیبته و یطاع فی ظهوره و هو الثالث من ولدی، والذی بعث محمداً بالنبوة و خصنا بالامامة انه لو لم یبق من الدّنیا الّا یوم واهد لطول اللّیه ذالک الیوم حتی یخرج فیملا الارض قسطاً وعدلاً کما ملئت جوراً و ظلماً و ان الله تبارک و تعالیٰ یصلح امره فی لیلة کما اصلح امر کلیمه موسی علیه السلام لیقتبس لاهله ناراً فرجع و هو رسول نبیّ ثمّ قال علیه اسلام افضل اعمال شیعتنا انتظار الفرج

میں حضرت امام جواد کی خدمت میں حاضر ہوا اور میں نے مصمم ارادہ کرلیا کہ حضرت سے قائم آل محمد کے بارے میں سوائل کروں آیا وہ مھدی ہے یا کوئی اور ہے میرے کہنے سے پہلے حضرت نے فرمایا اے ابالقاسم قائم آل محمد وہی مھدی ہے کہ غیبت کے زمانے میں اس کا انتظار کرنا واجب ہے اور ظہور کے زمانے میں ان کی اطاعت کرنا واجب ہے وہ میری نسل سے تیسرا فرد ہوگا اس خدا کی قسم کہ جس نے محمد کو نبی بنا کر بھیجا ہے امامت کے مقائم کو ہمارے ساتھ مخصوص کردیا ہے اگر دنیا باقی بھی نہ رہے مگر ایک دن تو خداوند تعالیٰ کے اس کو اتنا طویل کرے گا یہاں تک امام قائم خروج کرے گا اور زمین کو عدل و انصاف سے پر کرے گا جیسا کہ ظلم و جور سے پر ہوچکا ہوگا خداوند تعالیٰ اس کے امر کی ایک رات میں اصلاح کرے گا جس طرح حضرت موسیٰ کلیم اللہ کے کام کی اصلاح کی وہ اپنے خاندان کے لئے آگ لانے کے لئے چلے گئے لیکن اس حالت میں لوٹے کہ جو نبوت اور رسالت کے مقام پر فائز تھے اس وقت حضرت جواد نے فرمایا شیعوں کے سب سے افضل اعمال فرج کا انتظار کرنا ہے۔

انتظار کا طریقہ

ان امور میں سے جو درس انتظار ہمیں سکھاتے ہیں انسان کو ہمیشہ معرفت خدا اور جانشین خدا کی معرفت ہو اور ان کی عظمت ان کے پیش نظر ہو اگر کوئی واقعا اللہ اور ائمہ اطہار کی معرفت میں قدم اٹھادے تو اس کا دل معارف الھیہ سے روشن ہوگا اور متوجہ ہوگا کہ امام سے غفلت کرنا ناپسند یدہ عمل ہے۔ یہ نورانیت ہے امام کے نور کے اثر سے ہر امام کے زمانے میں ان کے دوستوں کے دل روشن ہونگے اب اس روایت کی طرف توجہ دیںعن ابی خالد الکابلی قال: سالت ابا جعفر عن قول الله عزوجل فامنو بالله و رسوله و النور الذی انزلنا فقال یا ابا خالد النور واللّٰه الائمة من آل محمد الی یوم القیامة و هم و اللّٰه نور اللّٰه اندی انزل و هم واللّٰه نور اللّٰه فی السمٰوات و فی الارض واللّٰه یا ابا خالد لنور الامام فی قلوب الموٴمنین انور من الشمس المضیئة بالنّهار و هم واللّٰه ینوّرون قلوب الموٴمنین و ویجیب اللّٰه نور هم عمن یشاء فتظلم قلوبهم واللّٰه یا ابا خالد لا یحبّنا عبد و یتولّانا حتّی یُطهر اللّٰه قلبه، ولا یُطهر اللّٰه قلب عبد حتی یُسلم لنا، و یکون سلماً لنا، فاذاکان سلماً لنا سلّمه اللّٰه من شدید الحساب، وآمنه من فزع یوم القیامة الأکبر ۔

ابوخالد کابلی کہتاہے امام محمد باقر سے آیہ شریفہ کے بارے میں کہ جو اللہ فرماتاہے پس ایمان لے آؤ خدا پیغمبر اور اس نور پر کہ جس کو ہم نے نازل کیا ہے۔ اس آیہ کے بارے میں پوچھا حضرت نے فرمایا اے ابوخالد خدا کی قسم اس نور سے مراد آل محمد کے پیشوا ہیں کہ جو قیامت تک ہوں گے خدا کی قسم یہ اللہ کے نور ہیں کہ جس کو نازل کیا ہے خدا کی قسم یہ اللہ کے نور ہیں آسمانوں اور زمینوں میں خدا کی قسم اے ابا خالد امام کا نور جو مومنین کے دلوں میں روشنی دینے والا سورج سے زیادہ نورانی ہے خدا کی قسم یہ امام مومنین کے دلوں کو نورانی کریں گے خدا ان کے نور کو جس سے چاہے مخفی رکھتاہے پس ان کے دل تاریک ہوں گے خدا کی قسم اے ابوخالد کوئی بندہ بھی ہم سے محبت نہیں کرے گا مگر یہ کہ خدا اس کے دل کو پاک کرے گا اور خدا کسی بندہ کے دل کو پاک نہیں کرے گا یہاں تک وہ ہمارا فرمان بردار ہوگا خدا ایسے شخص کو قیامت کے حساب سے محفوظ رکھے گا اور اس کو قیامت کے خوف محفوظ رکھے گا کیا ممکن ہے کہ جس کا دل امام زمانہ کے نور سے نورانی ہو لیکن امام زمانہ سے غافل ہو

حضور کا احساس یا معرفت کی نشانی

غیبت کے زمانے میں ذمہ داریاں میں دو حصوں میں تقسیم ہوتی ہیں۔

۱۔ ایک وہ ذمہ داری کہ جو زمانن غیبت کے ساتھ مخصوص ہے

۲۔ دوسرا وہ کہ غیبت اور حضور کے زمانے میں جو ہماری ذمہ داریاں ہیں اس کی رعایت کی جائے۔

اگر انسان کا یہ عقیدہ ہو کہ سب کے سب خدا اور جانشین کے حضور میں ہیں تو زمان اور مکان ہمارے لئے محدودیت نہیں لاتاہے چونکہ نورانی مقام کو زمان یا مکان کے ساتھ مقید نہیں کیا جاسکتاہے اسلئے زمان اور مکان مادہ کے قیود اور خصوصیات سے ہے اھل بیت کی نورانیت کی حضرت امیرالمومنین نے اس حدیث نورانیت میں تشریح کی ہے کہ یہ مادہ سے بالا ہے بلکہ مادہ کو بھی احاطہ کرتاہے اس بناء پر زمان اور مکان نورانیت کے مقام کی محدودیت ایجاد نہیں کرتاہے۔

اس مطلب کی وضاحت کے لئے حضرت امیرالمومنین کی حدیث نورانیت کی طرف رجوع کرسکتے ہیں کہ جو جناب سلمان اور ابوذر کے لئے فرمایا ہے حدیث لمبی ہونے کی وجہ سے یہاں بیان نہیں کرتاہوں ایک مہم روایت کہ جس کو امام محمد باقر نے فرمایا ہے اختصار کے ساتھ بحث کی مناسبت سے نقل کرتاہوں۔ ابوبصیر کہ جو حضرت امام محمد باقر کے اصحاب میں سے تھے فرمایا:

دخلت المسجد مع ابی جعفر علیه السلام والناس یدخلون و یخرجون فقال لی: سل الناس هل یروننی؟ فکلّ من لقیته قلت له: أرایت أباجعفر علیه السلام فیقول: لا و هو واقف حتی دخل ابوهارون المکفوف، قال: سل هذا؟ فقلت: هل رایت أباجعفر؟ فقال: ألیس هوا قائمأ، قال: و ما علمک؟ قال: و کیف لا أعلم و هو نور ساطع؟ قال: وسمعته یقول الرجل من أهل الافریقیة: ما حال راشدٍ؟ قال: خلّقته حیّاً صالحاً یقروٴک السلام قال: رحمه اللّٰه قال: مات؟ قال: نعم، قال: متی؟ قال: بعد خروجک بیومین قال: واللّٰه ما مرض و لا کان به علّة، قال: و انّما یموت مَن یموت من مرض أوعلّة قلت: من الرجل؟ قال: رجل لنا موالٍ ولنامحبّ ثمّ قال: أترون أنّه لیس لنا معکم أعینٌ ناظرة، أوسماع سامعة، لبئس مارأیتم، واللّٰه لا یخفی علینا شيء من أعمالکم فاحضرونا جمعیاً وعوّدو أنفسکم الخیر، وکونوا من أهله تعرفوا فانّي بهذا آمرو لدي وشیعتي ۔

ابوبصیر کہتاہے امام باقر کے ساتھ مسجد میں داخل ہوا لوگ آتے جاتے تھے امام لوگوں کی نظروں سے غائب رہا اور مجھ سے فرمایا لوگوں سے پوچھ لو کیا وہ مجھے دیکھتے ہیں میں نے جس سے ملاقات کی اس سے پوچھا کیا مام باقر کو دیکھا اس نے کہا نہیں یہاں تک کہ نابینا ابوھارون داخل ہوا امام نے فرمایا اس مرد سے سوال کرو میں نے اس سے پوچھا کیا تم نے امام باقر کو دیکھا ہے ابوھارون نے جواب میں کہا مگر یہ یہاں ہمارے پاس کھڑا نہیں ہے؟

ابوبصیر نے کہا میں نے اس سے پوچھا تجھے کیسے پتہ چلا کہ امام یہاں پر موجود ہے ابوھارون نے کہا کس طرح مجھے معلوم نہ ہو حالانکہ امام ایک واضح نور ہے اس وقت ابوبصیر کہتاہے کہ میں نے سنا کہ امام محمد باقر افریقہ کے ایک شخص سے فرماتے تھے کہ راشد کا کیا حال ہے اس نے کہا جب میں افریقہ سے نکلا تھا تو وہ زندہ اور صحیح سالم تھا آپ کو سلام پہنچاتا تھا۔ امام باقر نے فرمایا خداوند تعالیٰ اس پر رحمت کرے وہ اس دنیا سے چلا گیا ہے افریقائی مرد کہنے لگا کیا وہ مرگیا ہے امام نے فرمایا ہاں اس نے پوچھا کہ کس زمانے میں فوت ہوئے ہیں امام نے فرمایا آپ کے نکلنے کے دو دن بعد فوت ہوا ہے افریقائی نے کہا خدا کی قسم راشد نہ بیمار تھا نہ ان کو کسی قسم کی تکلیف تھی امام نے اس سے فرمایا مگر جو بھی مرجاتاہے کسی بیماری یا درد کی وجہ سے مرجاتاہے ابو بصیر نے کہا میں نے امام سے پوچھا یہ افریقائی مرد کون ہے امام نے فرمایا یہ ہمیں اور ہمارے خاندان کو دوست رکھتاہے اس وقت امام نے فرمایا کیا تم عقیدہ رکھتے ہو ہمارے بارے میں کہ ہم تمہیں دیکھنے والی آنکھیں اور سننے والے کان نہیں رکھتے کس قدر تم برا عقیدہ رکھتے ہو خدا کی قسم ہمارے لئے تمہارے اعمال میں سے کوئی بھی پوشیدہ نہیں ہے پس ہم سب کو اپنے پاس حاضر جانو اور اپنے نفسوں کو نیک کام کرنے کی عادت ڈال دو تا کہ نیک کام کرنے والوں میں سے ہوجاؤ میں اپنے فرزندوں اور شیعوں کو جو کہاہے اس کا امر کرتاہوں۔

اس روایت میں بہت سے مطالب موجود ہیں ان مطالب کو دردک کرنے کے لئے مکمل طور پر غور کی ضرورت ہے۔ مہم نکات کہ جو اس روایت سے استفادہ کرتے ہیں کہ خاندان وحی کے حضور کا اعتقاد ہونا چاہئے اور اس واقعیت کا درک کرنا اس صورت میں ممکن ہے کہ جن شرائط کو امام باقر نے درک کرنے کے بارے میں فرمایا ہے اس کی رعایت کی جائے۔

مہم نکتہ کہ جس کے بارے میں آخر میں فرمایا ہے یہ ہے کہ آں حضرت نے تمام شیعوں اور اپنے فرزندوں کو وصیت کی اور حکم دیا ہے یہ اس پر دلیل ہے کہ تمام واقعیت کے شناخت کے لئے کوشش کریں اس روایت کی بناء پر ہر ایک بزرگوار عین اللہ ہیں کہ ہمارے اعمال اور رفتار کو دیکھتے ہیں اور اذن اللہ ہیں کہ ہمارے گفتار کو سنتے ہیں اس وقت جو بھی ان حقائق کو قبول نہیں کرتے ہیں اس کی خدمت کی گئی ہے اور فرماتے ہیں واقعاً برا اعتقاد رکھتے ہو خدا کی قسم کھائی کہ تمہارے اعمال میں سے کوئی چیز ہم سے پوشیدہ نہیں ہے۔

حضرت امام محمد باقر ان نکات کو بیان کرنے کے بعد چند نکات کی تصریح کرتے ہیں۔

ہم سب کو اپنے نزدیک حاضر جانیں

یہ کلام اھل بیت کی نورانیت کی طرف اشارہ ہے کہ نورانیت کی وجہ سے ہر زمانے پر محیط ہے ان میں سے کسی میں کوئی فرق نہیں ہے ہر شیعہ ہر زمانے میں ہر بزرگوار کو قریب جانے جس طرح انسان اپنے آپ کو خداوند کے حضور دیکھتاہے اس کو یہ بھی احساس ہو کہ اھل بیت کے سامنے حاضر ہے۔

واضح ہے کہ جو بھی اس حقیقت کا احساس کرے اور اس کو عملی قرار دے بہت بڑی تبدیلی اس میں پیدا ہوتی ہے۔

۲ ۔ اپنے نفسوں کو نیک کاموں کی عادت ڈالے اور نیک لوگوں میں سے ہوجائے اس بناء پر انسان نہ صرف برے کاموں اور ناپسندیدہ کی عادت نہ ڈالیں بلکہ اچھے کام انجام دینے کی عادت ڈالے۔ تھذیب نفس اور خود سازی کی کوشش کرے نہ اچھے سے اچھا کام انجام دینے سے متنفر نہ ہو بلکہ اچھا کام انجام دینے کی عادت ڈالے

اس مطلب کی توضیح کے لئے کہتا ہوں کہ نیک کاموں کی عادت ڈالنے کی دو صورتیں ممکن ہیں۔

۱ ۔ پہلی صورت اپنے نفس کی مخالفت کرتے ہوئے نفس کو اپنے کام بجالانے کے لئے فرمان بردار بنانا اگر اس قسم کی عادت ڈالے تو ایسی عادت انسان کی ترقی کا موجب ہے۔

۲ ۔ دوسری صورت یہ ہے ممکن ہے کہ نیک کام کرنے کی عادت ڈالی ہو بلکہ ایسے ماحول میں زمدگی گزارتاہے جس کی وجہ سے اچھے کام انجام دیتاہے اور عادت بن گئی مثال کے طور پر ایسے خاندان میں زندگی گزارتاہے کہ جو اول وقت میں نماز یا جماعت کے ساتھ نماز پڑھنے کے پابند ہیں اس نے بھی ایسی عادت کی ہے اگر اس کے زندگی کے ماحول میں تبدیلی آجائے چونکہ ذاتاً اس نے عادت نہیں بنائی ہے زمانہ کے گزرنے کے ساتھ وہ شخص بھی تبدیل ہوجاتاہے چونکہ یہ عادت اپنے اپنے نفس اور اپنی ذات کی وجہ سے نہیں ہے بلکہ ماحول کی وجہ سے ہوئی ہے اس لئے اس کی کوئی اہمیت نہیں ہے اس لئے حضرت امام محمد باقر فرماتے ہیں علاوہ اس کے کہ نیک کاموں کی عادت ڈالنے کے ساتھ خود بھی نیک لوگوں میں سے ہوجائے نہ کہ ماحول کی وجہ سے مجبور ہوجائے۔ سب کو حاجر جانیں اس سے مراد حضور علمی ہے یا حضور عینی ہے مرحوم علامہ مجلسی اس نے روایت کے بارے میں فرمایا ہے اگر فاحضروا کو باب افعال سے قرار دیں تو اس کا معنی یہ ہوگا کہ جان لو ہم سب تمہارے پاس حاضر ہیں علم کی وجہ سے اس سے مراد علامہ مجلسی کی حضور علمی ہے ایک روایت میں حضرت امام رضا علیہ السلام حضرت خضر کے بارے میں فرماتے ہیںانّه لیحضر حیث ما ذکر فمن ذکره منکم فلیسلّم علیه اس کو جس زمانے میں بھی پکارا جائے وہ حاضر ہوتے ہیں آپ میں سے جو بھی اس کا نام لے اس پر سلام کرے مرحوم آیة اللہ مستنبط اس کے بارے میں لکھتے ہیں حضرت خضر(علیہ السلام ) کا مقام امام زمانہ کا تابع اور غیبت میں ہیں پس حضرت حجت کا مقام کتنا بلند ہے حضور کا مسئلہ اھلبیت کے معارف میں اہم ترین مسائل میں سے ہے اور اس کے لئے تفصیل کی ضرورت ہے اس لئے حضرت امیرالمومنین کے کلام کے ساتھ کلام کااختیار کرتے ہیں فرمایا احضروا اذ ان قلوبکم تفھموا اس فرمائش کی بناء پر اگر حقائق کو درک کرنا چاہتے ہو تو دل کے کان کو کھول دو تا کہ تم سجھ سکو۔

اھلبیت کی نظر میں امام زمانہ کی عظمت

۱ ۔ پیغمبر اسلامفرماتے ہیں میرے ماں باپ فدا ہو اس پر کہ جو میرا ہم نام ہے اور میرا شبیہہ ہے پیغمبر اسلام نے حضرت امیر سے امام عصر کی گفتگو کے بعد فرمایا میرے بعد ایک بہت زیادہ سخت فتنہ ہوگا اس میں ایک برگزیدہ اور راز دار شخص سقوط کرے گا یہ وہ وقت ہے کہ تیرے شیعے پانچویں آدمی کو یعنی ساتویں کی اولاد امام سے گم کردیں گے اس کے غائب ہونے کی وجہ سے زمین اور آسمان والے غمگین ہوں گے کتنے زیادہ مرد اور عورتیں ان کی غیبت کے موقع پر غمگین اور افسوس کریں گے اس کے بعد حجرت اپنے سر کو جھکا دیا اس کے بعد سر بلند کر کے فرمایا میرے ماں باپ اس پر قربان ہو وہ میرا ہم نام میری شبیہہ اور موسیٰ بن عمران کی شبیہہ ہوگا اس کے اوپر نور کی چادر ہے جو شعاع قدس سے روشن ہوتی ہے اس کلام کی علامہ مجلسی نے حضرت امیرالمومنین کی طرف نسبت دی ہے ۔

۳ ۔ حضرت امیرالمومنین نے فرمایا ہے میرے ماں باپ فدا ہوں اس بہترین فرزند پر اس روایت کو جناب جابر جعفی نے امام جعفرصادق اور امام محمد باقر کے اصحاب سے نقل کیا ہے اب اس روایت کی طرف توجہ دیں جناب جابر جعفی فرماتے ہیں کہ میں نے امام محمد باقر سے سنا کہ فرماتے تھے:سایر عمر بن الخطاب امیرالموٴمنین فقال: اخبرنی عن المهدی ما اسمه فقال امّا اسمه فان حبیبی عهد الیّ ان لا احدّث باسمه حتّٰی یبعثه اللّٰه قال: فاخبرنی عن صفته قال هو شابّ مربوع حسن الوجه حسن الشعر یسیل شعره علی منکبیه ونور وجهه یعلو سواد لحیته و راسه بابی ابن خیرة الاماء عمر بن خطاب حضرت امیرالمومنین کے ساتھ جارہے تھے کہا مجھے مھدی کے نام کے بارے میں بتادیں حضرت نے فرمایا حضرت مھدی کے نام کے بارے میں یہ ہے کہ میرے حبیب نے مجھے سے عہد و پیمان لیا ہے کہ میں ان کا نام کسی کو نہ بتاؤں یہاں تک کہ اللہ اس کو مبعوث کرے عرض کیا کہ ان کے صفات کے بارے میں بتادیں حضرت نے فرمایا وہ جوان ہے اور اسکا چہرہ اور بال خوبصورت ہیں اس کے بال شانے پر گرے ہوئے ہیں اس کے چہرے کا نور سر اور چہرے سے برتر ہے میرے باپ قربان ہوں۔ اس بہترین فرزند پر

۴ ۔ حضرت امیرالمومنین نے فرمایا میرے ماں باپ قربان بہترین کنیز کے بیٹے پر اس کلام کو حضرت امیرالمومونین نے بار بار فرمایا حارث ھمدانی نے اس کو حضرت امیرالمومنین سے نقل کیا ہے آپ(علیہ السلام ) بزرگوار نے فرمایا ظالم کے ظلم کا خاتمہ بقیة اللہ کی تلوار سے ہوگا اور فرمایا ہے کہ پیالہ کے ساتھ تلخ زھر سب ظالموں کے منہ میں ڈالا جائے گا میرا باپ قربان اس بہترین کنیز کے بیٹے پر حضرت قائم کہ جو حضرت کے فرزندوں میں سے ہے ذلت اور خواری پر ان ظالموں کیلئے ہوگی ایک برتن صِبر سے (تلخ بوٹی) ان ظالموں کو پلایا جائے گا اور ان کو کوئی چیز نہیں دی جائے گی مگر تلوار اور فتنہ۔

۵ ۔ حضرت امیرالمومنین نے انے خطبوں میں کئی مرتبہ فرمایا کہ پیغمبر کے اھل بیت کو دیکھو اگر وہ آرام کرلیں تو تم بھی آرام کرنا اگر تم کو مدد کے لئے طلب کریں تو ان کی مدد کرنا خداوند تعالیٰ ایک مرد کو ظالموں کے خاتمہ کے لئے بھیجے گا میرے باپ قربان ہوں بہترین ہستی پر ظالموں کو نہیں دیں گے مگر تلوار کس قدر آشوب ہوگا آٹھ مہینے تک تلوار کو اپنے شانہ پر رکھے گا۔

اس خطبہ میں حضرت امیرالمومنین زمانے کو بدترین لوگوں سے پاک کرنے کی خوشخبری دے رہے ہیں کہ آٹھ مہینے تک ظالموں کے ساتھ جنگ جاری رکھے گا اس وقت عدل و انصاف سے جہاں پُر ہوگا ۔

۶ ۔ حضرت امیرالمومنین نے فرمایا میں اس کو دیکھنے کا کس قدر مشتاق ہوں اس کلام میں حضرت امیرالمومنین فتنہ کے بعد امام کی خصلتوں کو بیان کرتے ہیں حضرت نے اپنے سینے کی طرف اشارہ کیا اور فرمایا کہ میں کس قدر اس کو دیکھنے کا مشتاق ہوں۔

۷ ۔ امام باقر نے فرمایا اگر میں اس زمانے میں موجود ہوں تو اپنی جان کو اس صاحب امر کے لئے محفوظ رکھوں گا فرمایا: اما انّی لو ادرکت ذالک لا سبقیت نفسی لصاحب ھذا الامر آگاہ ہوجاؤ اگر میں اس زمان کو درک کرلوں تو اپنے آپ کو صاحب امر کے لئے محفوظ رکھوں گا۔

۸ ۔ میرے ماں باپ فدا ہوں ہوں اس پر کہ جو تمام دنیا کو عدل و انصاف سے بھردے گا اس روایت کو ابو حمزہ ثمالی نے نقل کیا ہے وہ کہتاہے کہ میں ایک دن امام محمد باقر کی خدمت میں حاضر تھا اس وقت کچھ لوگ حضرت سے رخصت کر کے چلے گئے تو اس وقت مجھ سے فرمایا یاابا حمزه من المحتوم الذی حمة الله قیام قائمنا فمن شک فیما اقول لقی اللّٰه وهو به کافر ثم قال بابی امی المتمیٰ باسمی والمکنّی بکنیتی السابع من ولدی بابی من یملا الارض قسطاً و عدداً کما ملئت ظلما و جوراً یا ابا حمزه من ادرکه فسلّم له ما سلّم لمحمد و علی فقد وجبت له الجنة و من لم یسلّم فقد حرم اللّٰه علیه الجنة و ماواه النار و بئس مثوی الظالمین اے ابا حمزہ ان چیزوں میں سے کہ جن کو خدا نے حتمی قرار دیا ہے ہمارے قائم کا قیام ہے جو کچھ میں کہتاہوں اگر کوئی اس میں شک کرے تو اس کی ملاقات خدا کے ساتھ اس حالات میں ہوگی وہ کافر ہوگا میرے ماں باپ قربان ہو اس پر جو میرا ہمنام ہے میری کنیت پر جس کی کنیت رکھی گئی ہے اور وہ میری نسل میں ساتواں فرد ہوگا۔

میرا باپ اس پر فدا ہو کہ جو پوری دنیا کو عدل و انصاف سے بھردے گا جس طرح ظلم وجور سے پر ہوچکا ہوگا اے ابا حمزہ جو بھی اس کے زمانے میں ہو اور اس کو تسلیم کرے جو جیسا کہ محمد اور علی کو تسلیم کیا ہے بہشت اس پر واجب ہے اور جو اس کو تسلیم نہ کرے تو اللہ تعالیٰ کے بہشت کو اس پر حرام قرار دیتاہے اور اس کا ٹھکانہ جھنم میں ہے یہ ظالموں کے لئے بری جگہ ہے۔ اگر میں اس زمانے میں موجود ہوں تو جب تک زندہ ہوں اسکی خدمت کرتا رہوں گا۔ اس کلام کو امام صادق نے اس وقت فرمایا جب آخری حجت کے بارے میں امام سے سوال کیا گیاهل ولدا القائم قال: لا ولوادرکته لخدمته ایام حیاتی کیا حضرت قائم متولد ہوئے ہیں حضرت نے فرمایا نہیں اگر میں اس کے زمانے کو درک کرلوں تو تمام زندگی اس کی خدمت کروں گا۔

۱۰ ۔ عباد بن محمد مداینی کہتے ہیں کہ امام صادق نے نماز ظہر کے بعد اپنے ہاتھوں کو بلند کیا اور دعا کی میں نے کہا میری جان قربان آپ نے اپنے لئے دعا کی ہے فرمایا:دعوت لنور آل محمد وسائقهم والمنتقم بامراللّٰه من اعلائهم میں نے آل محمد اور آل محمد(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کے دشمنوں سے خدا کے حکم سے انتقام لینے والوں کے لئے دعا کی اگر چہ تمام وحی سے خاندان کے تمام افراد نور ہیں اور ان کو نورانی جاننا حقیقت میں خدا کی معرفت ہے۔

۱۱ ۔ حضرت امام رضا نے فرمایا میرے ماں باپ فدا ہوں اس پر جس کا نام میرے جد کا ہمنام ہے وہ میری اور موسیٰ بن عمران کی شبیہہ ہیں۔

مرحوم حاج شیخ رجب علی خیاط کی نصیحت

آپ آخری حجت کی مظلومیت سے آگاہ ہوتے ہوئے یہ بھی ذہن میں رکھیں کہ امام زمانہ کے ظہور کے لئے دعا سے مراد حالات اور مقامات تک پہنچنا مقصود نہ ہو بلکہ قرب الٰہی اور امام کی رضا کو اپنے عمل کا مرکز قرار دے اب مہم واقعہ کی طرف توجہ دیں مرحوم آقائی اشرفی امام عصر کے ظہور کے منتظرین میں سے تھے نقل کرتے ہیں کہ ایک زمانہ میں تبلیغ کے لئے مشہد مقدس کے شہروں میں سے ایک شہر میں گیا تھا ماہ رمضان میں مسافرت کے دوران ہم تہران کے دوستوں میں سے ایک دوست کے ساتھ مرہوم شیخ رجب علی خیاط کی خدمت میں مشرف ہوئے اور ان سے اپنی راہنمائی کا مطالبہ کیا اس بزرگوار نے ختم آیہ شریفہ (ومن یتق اللہ) کا طریقہ بتادیا اور فرمایا اول صدقہ دیں اور چالیس روز روزہ رکھیں اور اس ختم کو چالیس روز میں انجام دیں مرحوم شیخ رجب علی خیاط نے اس مقام پر جو مہم نکتہ فرمایا یہ ہے کہ اس ختم سے مقصود یہ ہو کہ حضرت امام رضا سے اس بزرگوار کا قرب حاصل کرو اور مادی حاجتیں اپنی نظر میں نہ رکھیں۔

مرحوم آقائی شرفی نے فرمایا میں نے ختم کو شروع کیا لیکن اس ختم کو جاری نہیں رکھ سکا لیکن میرے ساتھی کو یہ توفیق حاصل ہوئی اور اس کو اختتام تک پہنچایا پس جب ہم مشہد مقدس لوٹے جب وہ حضرت امام رضا کے حرم میں تھا تو آپکی زیارت سے مشرف ہوا تب متوجہ ہوئے کہ آن حضرت کو نور کی صورت میں دیکھتاہے آہستہ آہستہ یہ حالت قوی ہوئی یہاں تک حضرت کو دیکھنے اور گفتگو کرنے کی صلاحیت پیدا ہوئی۔ اس واقعہ کو بیان کرنے کا اصل مقصد یہ ہے وہ جو دعاؤں اور توسلات میں پائی جاتی ہیں اور وہ یہ ہے کہ انسان نماز ادا کرنے کے علاوہ دعاؤں اور توسل میں خلوص کی رعایت کرے اس کو انجام دینا صرف قرب الٰہی حاسل کرنے کے لئے ہو تا کہ اھل بیت کے نزدیک ہوجائے یعنی یہ بندگی کے لئے انجام دے نہ کہ حالات اور مقامات تک پہنچنے کے لئے نہ لوگوں کو اپنی طرف مائل کرنے کے لئے مرحوم حاج شیخ علی حسن علی اصفہانی سے منقول ہے کہ انہوں نے فرمایا میں ایسا کام کرسکتاہوں کہ لوگ میرے دروازے کو دق الباب کریں۔ تا کہ ان کی مشکلات حل ہوجائے مجھ سے کہے بغیر لیکن لوگوں کا عقیدہ حضرت امام رضا کے بارے میں سست ہوجاتاہے اس لئے میں اس کو انجام نہیں دیتاہوں۔

شیخ حسن علی کااصفہانی کا مہم تجربہ

اب جب شیخ حسن علی اصفہانی کا ذکر ہوا تو یہاں ایک واقعہ اسی مناسبت سے نقل کرتاہوں یہ بچپن سے عبادات ریاضیات میں مشغول ہوجاتے تھے اور بلند اھداف تک پہنچنے کے لئے بہت زیادہ زحمت اٹھائی تھی جو اس بزرگوار نے نمازیں اور قرآنی کی آیتوں کو بچپن سے لیکر آخری عمر تک انجام دیا تھا اس کو لکھا اس میں بہت زیادہ اسرار اور نکات موجود تھے چونکہ اس کتاب میں رموز اور اسرار تھے مناسب نہیں سمجھا یہ دوسروں کے ہاتھ میں دیدے اس لئے اس کو مخفی رکھا لوگوں کو نہیں دیا مرحوم والد اس کتاب کے ساتھ ارتباط کے بارے میں فرماتے تھے مرحوم شیخ حسن علی اصفہانی نے اپنی آخری زندگی میں اس کتاب کو مرحوم آیة اللہ حاج سید علی رضوی کو دے دیا اس واقعہ کو نقل کرنے کا مقصد یہ ہے جو شیخ حسن علی اصفہانی نے اس کتاب کے آخر میں لکھا ہے جو کچھ اس کتاب کے آخر میں لکھا ہے اس میں یہ نکتہ ہے کاش میں ان اذکار اور ززحمات کو امام زمانہ کے ساتھ قرب حاسل کرنے کے لئے انجام دیت

جو بھی تعجیل ظہور کے لئے دعا مانگے امام زمانہ کی دعا انہیں بھی شامل ہوتی ہے

امام زمانہ کی دعا ہے کہ جو مھج الدعوات میں نقل ہوئی ہے دعا کے بعد تعجیل فرج کے لئے خدا سے چاہتاہے واجعل من یبتعنی النصرة دینک مویدین، و فی سبیلک مجاھدین و علی من ارادنی و ارادھم بسوءٍ منصورین۔۔ جس زمانے میں میرے ظہور کی اجازت دیں گے کسی کو کہ جو میری پیروی کرے اپنے دین کی مدد کے لئے موید قرار دے اور اس کو راہ خدا میں مجاہدین میں سے قرار دے اور جو بھی میری اور ان کی نسبت برا قصد رکھتے ہیں ان پر کامیاب فرما اس مطلب پر دوسری دلیل یہ ہے کہ علی بن ابراھیم قمی آیہ شریفہ کی تفسیر میںواذاحییتُم بتحیة فحیوا باحسن منها او رُدوها جب تم پر کوئی سلام کرے تو اس کے جواب میں اچھا سلام دیں یا ویسا ہی سلام کا جواب دیں سلام کرنا نیک کاموں میں سے ہے۔

ہمارے گفتار پر گواہ اور تائید وہ روایت ہے کہ جو مرحوم راوندی اپنی کتاب الخراج میں نقل کرتے ہیں کہتاہے کہ اصفہانی کی ایک جماعت جن میں ابوعباس احمد بن نصر ابو جعفر محمد بن علویہ شامل ہیں نے نقل کیا ہے اور کہتے ہیں اصفہان میں ایک شیعہ مرد تھا جس کا نام عبدالرحمان تھا ان سے پوچھا گیا تم نے علی نقی کی امامت کو قبول کیا اس کی کیا وجہ ہے کسی اور کو قبول نہیں کیا حضرت سے ایک واقعہ دیکھا جس کی وجہ سے میں ان کی امامت کا قائل ہوا میں ایک فقیر مرد تھا لیکن زبان تیز اور جرأت رکھتا تھا یہی وجہ ہے ایک سال اھل اصفہان نے مجھے انتخاب کیا تا کہ میں ایک جماعت کے ساتھ عدالت کے لئے متوکل کے دربار میں چلا جاؤں ہم چلے یہاں تک کہ بغداد پہنچے جب ہم دربار کے باہر تھے تو ہمیں اطلاع پہنچی کہ حکم دیا گیا ہے کہ امام علی بن محمد بن الرجا کو حاضر کریں اس کے بعد حضرت کو لے آئے میں نے حاضرین میں سے ایک سے کہا جس کو ان لوگوں نے حاضر کیا ہے وہ کون ہے کہا وہ ایک مرد ہے جو علوی ہے اور رافضیوں کا امام ہے اس کے بعد کہا میرا خیال ہے کہ متوکل اس کو قتل کرنا چاہتاہے میں نے کہا میں اپنی جگہ سے حرکت نہیں کروں گا جب تک اس مرد کو نہ دیکھوں کہ وہ کس قسم کا شخص ہے اس نے کہا حضرت گھوڑے پر سوار ہو کر تشریف لائے لوگ دونوں طرف سے صف باندھ کر اس کو دیکھتے تھے جب میری نظر ان کے جمال پر پڑی میرے دل میں ان کی محبت پیدا ہوئی میں نے دل میں ان کے لئے دعا مانگنا شروع کی کہ اللہ تعالیٰ کے ان کو متوکل کے شر سے محفوظ رکھے حضرت لوگوں کے درمیان حرکت کرتے تھے نہ دائیں طرف دیکھتے تھے نہ بائیں طرف میں بھی حضرت کے لئے دل میں دعا مانگتا تھا جب میرے سامنے آئے تو حضرت میری طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا:استجاب الله دعاک و طوّل عمرک و کثر مالک و ولدک خدا نے تمہاری دعا قبول کی اللہ تمہاری عمر کو طویل کرے اللہ تجھ کو مال اور اولاد زیادہ دے ان کی ھیبت اور وقار کی وجہ سے میرا بدن لرزنے لگا۔

دوستوں کے درمیان زمین پر گرا انہوں نے پوچھا کہ کیا ہوا میں نے کہا خیریت ہے اور واقعہ کسی سے بیان نہیں کیا اس کے بعد اصفہان لوٹا خدا نے حضرت کی دعا کی وجہ سے مال اور ثروت کے دروازے کھل گئے اگر آج ہی اپنے گھر کے دروازے کو بند کردوں تو بھی اس میں جو مال رکھتا ہوں کئی ہزار درہم کے برابر ہے یہ اس مال کے علاوہ ہے جو گھر کے باہر مال رکھتاہوں خدا نے حضرت کی دعا کی برکت سے مجھے فرزند عطا کیا ہے اس وقت میری عمر ستر سال سے زیادہ ہے میں ان کی امامت کا دل میں قائل تھا اس کے بارے میں مجھے خبردی تو خدا نے ان کی دعاء کو میرے حق میں قبول کیا میں اعتقاد رکھتا ہوں ۔

دیکھیں کہ کس طرح ہمارے مولیٰ کی دعا نے اس شخص کو اس کی نیکی کی وجہ سے جبران کیا ان کے لئے دعا کی حالانکہ وہ مومن نہیں تھا کیا گمان کرتے ہو اگر ہم مولیٰ کے حق میں دعا کریں تو وہ تمہارے لئے دعائیں کرے گا حالانکہ تم مومنین میں سے ہو نہیں ہرگز ایسا نہیں ہے اس خدا کی قسم کہ جس نے جن اور انس کو پیدا کیا حضرت ان مومنین کے لئے بھی دعا کرتے ہیں کہ جو اس امر سے غافل ہیں چونکہ وہ صاحب احسان ہے۔

اب اس مطلب کی تائید کے لئے بیان کرتاہوں اور وہ خواب ہے کہ بعض برادران نے مجھے بیان کیا ہے عالم خواب میں حضرت کی زیارت ہوتی ہے حضرت نے فرمایاانّی ادعولکل موٴمن یدعولی بعدذکر مصائب سید الشهداء فی مجالس العزاء میں ہر مومن کے لئے کہ جو مصائب سید الشہداء کے ذکر کے بعد میرے لئے دعا مانگتاہے میں اس کے لئے دعا مانگتاہوں خداوند تعالیٰ سے اس امر کے لئے توفیق کی درخواست کرتاہوں چونکہ وہ دعا کو سننے والا ہے۔

تعجیل فرج کے لئے مجلس دعا تشکیل دینا

جس طرح ممکن ہے کہ تنہا انسان تعجیل ظہور امام زمانہ کے لئے دعا کرے اسی طرح ممکن ہے اکٹھے مل کر دعا مانگیں اور مجالس دعا تشکیل دیں تا کہ آخری حجت کی یاد تازہ ہوجائے اس اجتماع میں نیک کاموں پر دعا کے علاوہ اور فوائد بھی ہوتے ہیں اس سے ائمہ معصومین کے امر زندہ رکھا جاتاہے اور اھل بیت کی احادیث کو یاد کرتے ہیں۔ صاحب مکیال المکارم

ان مجالس کی تشکیل کو امام کے غیبت کے زمانے میں لوگوں کے وضائف میں شمار کیا ہے اس میں صاحب الزمان کی یاد صفائی جاتی ہے فضائل بیان کئے جاتے ہیں اس کے علاوہ بہترین دلیل وہ کلام ہے کہ جس کو امام جعفر صادق سے وسائل الشیعہ میں روایت کیا گیا ہے کہ جہاں فرمایا ہے ایک دوسرے کی زیارت کرو اس طرح کی زیارتیں تمہارے دلوں کو زندہ کرنے کا باعث اور ہماری احادیث کو یاد کرنے کا موجب ہے ہمارے احادیث ذکر کرنا تمہیں ایکدوسرے کے لئے مہربان قرار دیتاہے اگر ہماری احادیث کو سنوگے اور عمل کروں گے تو ہدایت پاؤگے اور ہلاکتوں سے نجات پاؤگے اور اگر ان کو فراموش کروگے تو گمراہ ہوکر ہلاک ہوجاؤگے پس تم ان پر عمل کرو میں ان سے رہائی کا ضامن ہوں۔ کس طرح یہ روایت ہمارے مطلب پر دلالت کرتی ہے حضرت نے اپنے اس کلام میں ایکدوسرے کی زیارت کو علل اور اسباب قرار دیا ہے چونکہ ایکدوسرے کی زیارت کرنا ان کے امر کو زندہ رکھنے کاموجب ہے اس بناء پر ائمہ کے نزدیک اس میں شک نہیں ہے کہ امام کو یاد کرنا اور مجالس کو ترتیب دینا مستحب ہے ہمارے اس مطلب پر دلیل ہے کہ حضرت امیرالمومین نے ایک کلام کے ضمن میں تفصیل کے ساتھ فرمایا:ان الله تبارک و تعالیٰ اطّلع الی الارض فاختارنا و اختارلنا شیعة ینصروننا، و یفرحون لفرحنا، و یحزنون لحزننا، و یبذلون اموالهم و انفسهم فینا، اُولئک منّا و الینا، الخبر ۔ خدائے متعال نے کرہ زمین پر نگاہ کی اور ہمیں چنا اور ہمارے لئے شیعوں کو چنا کہ جو ہماری مدد کرتے ہیں ہماری خوشی میں خوشی کرتے ہیں اور ہمارے غم میں غم کرتے ہیں اپنی جان اور مال کو ہماری راہ میں کرچ کرتے ہیں وہ ہم میں سے ہیں وہ ہماری طرف لوٹیں گے۔

بعض اوقات اس قسم کی مجالس کا انعقاد واجب اور ضروری ہے اس وقت کہ جب لوگ گمراہ ہورہے ہیں اس قسم کی مجالس کا انعقاد تباہی اور فساد سے روکنے کا سبب اور ان کی ہدایت کا سبب ہے اھل بدعت اور گمراہ لوگوں کو برائی سے روکنا واجب ہے۔

امام زمانہ کے مخصوص مقامات (صلوات اللہ علیہ)

محدث نوری لکھتے ہیں یہ چیز مخفی نہیں ہے بعض ایسے مقامات ہیں کہ جو آخری حجت کے ساتھ مخصوص ہیں کہ جو ان کے نام سے مشہور ہیں جیسے وادی اسلام نجف اشرف میں اور مسجد سھلہ شہر کوفہ میں حلہ میں ایک معروف مقام ہے مسجد جمکران قم میں میری نظر یہ وہ مقامات ہیں کہ جہاں عاشقان حجت نے ان مقامات پر حضرت کو دیکھا ہے اور زیارت کی ہے یا یہ کہ ان مقامات پر حضرت کی طرف سے معجزہ ظاہر ہوا ہے اس لئے ان مقامات کو اماکن شریف میں سے شمار کیا گیا ہے یہ وہ مقام ہیں کہ جو ملائکہ کے اترنے کی جگہ ہے اور ان مقامات پر شیطان کا آنا بہت کم ہے یہی وجہ ہے کہ یہاں پر دعا قبول ہوتی ہے بعض روایات میں پڑھتے ہیں اللہ تعالیٰ مقدم اماکن کو دوست رکھتاہے جیسے مساجد اماموں کے حرم ائمہ کے حرموں کی زیارت گاہ نیک لوگوں کی قبریں کہ جو قریب اور دور موجود ہیں۔

ہاں یہ خود اللہ کا لطف ہے کہ اپنے بندوں پر لطف کیا ہے۔

اللہ کے بندے کہ جو محتاج ہیں جنھوں نے راہ کو گم کردیا ہے اور معرفت کی تلاش میں ہیں وہ لوگ کہ جو اپنے لئے کوئی چارہ کار نہیں دیکھتے ہیں مجبور ہیں وہ لوگ کہ جو بیماری میں مبتلا ہیں کچھ مقروض ہیں کچھ لوگ ظالم دشمنوں سے خائف ہیں وہ سب محتاج ہیں غم نے ان کے وجود کو گھیر لیا ہے جو پریشانہیں ان کے حواس پراگندہ ہیں یہ سب کے سب ان مقدس مقامات میں پناہ حاصل کرتے ہیں اپنی مشکلات کو دور کرنے کے لئے ان مقامات میں درخواست کرتے ہیں۔ طبیعی ہے جتنا اس مقام کا قابل احترام کرتے ہیں اس مقدار میں نیکی پاتے ہیں ۔

مسجد کوفہ کی فضیلت

اب بعض ان مقامات کو بیان کروں گا کہ جو آخری حجت سے منسوب ہیں۔ مسجد کوفہ ان چار مسجدوں میں سے ایک ہے کہ جن کی طرف سفر کرنے کا حکم دیا گیا ہے وہ مساجد یہ ہیں ۱ ۔ مسجد الحرام مکہ مکرّمہ میں ۲ ۔مسجد النبی مدینہ منورہ میں ۳ ۔ مسجد الاقصی بیت المقدس میں ۴ ۔مسجد کوفہ اسی طرح مسجد کوفہ ان چار مسجدوں میں سے ایک ہے کہ جس میں انسان کو اختیار ہے کہ وہاں نماز قصر پڑھنا چاہے یا تمام پڑھنا چاہے وہ جگہیں یہ ہیں۔ ۱ ۔ مسجد الحرام ۲ ۔مسجد النبی ۳ ۔امام حسین کا حرم ۴ ۔مسجد کوفہ مسجد کوفہ وہ ہے کہ جس میں انبیاء اور اوصیاء نے نماز پڑھی ہیں۔ ایک روایت میں ہے اس مسجد میں ہزار پیغمبر اور ہزار اوصیاء نے نماز پڑھی ہیں مسجد کوفہ کے اعمال بہت زیادہ ہیں یہاں بیان نہیں کئے جاسکتے جو تفصیل سے دیکھنا چاہیں انہیں چاہیئے کہ سید علی بن طاوؤس کی کتاب مصباح الزائر میں دیکھیں۔

۲ ۔ مسجد سھلہ کی فضیلت

حضرت صاحب الزمان کا مقام بھی وہیں پر ہے شہر کوفہ میں مسجد کوفہ کے بعد سب سے بہترین مسجد مسجد سہلہ ہے وہاں حضرت ادریس اور ابراہیم کا مقام ہے وہاں حضرت خضر کے رہنے کی جگہ ہے ایک روایت میں ہے کہ وہاں پر پیغمبران اور نیک لوگوں کا مقام ہے اس مسجد کی فضیلت میں بہت زیادہ روایات موجود ہیں۔

امام صادق علیہ السلام نے ابوبصیر سے فرمایا گویا میں دیکھ رہاہوں کہ صاحب العصر اپنے اھل و عیال کے ساتھ مسجد سہلہ میں داخل ہوئے ہیں اور وہاں پر ساکن ہیں خداوند نے کسی پیغمبر کو نہیں بھیجا مگر یہ کہ وہاں پر نماز پڑی ہے جو بھی اس مکان میں نماز پڑھے ایسا ہے جیسے خیمہ رسول خدا میں پڑھی ہے کوئی مومن مرد اور عورت نہیں ہے مگر یہ کہ مسجد سہلہ میں جانے کا آرزو رکھتاہے اس مسجد میں ایک پتھر ہے کہ اس میں تمام پیغمبروں کی تصویر ہے۔

جو شخص بھی خلوص نیت سے اس مسجد میں نماز پڑھے اور دعا پڑھے خداوند تعالیٰ اس کی حاجت کو قبول کرتاہے اس مسجد کے اور بھی فضائل ہیں ۔ حضرت صادق سے روایت کی گئی ہے کہ فرمایا: من صلّٰی رکعتین فی مسجد السہلہة زاد اللہ فی عمرہ عامین۔ جو بھی مسجد سہلہ میں دو رکعت نماز پڑھے خداوند تعالیٰ اس کی عمر میں دو سال اضافہ کرتاہے ایک اور روایت میں آیا ہےانّ منه یکون النفخ فی الصور و یحشر من حوله سبعون الفایدخلون الجنة بغیر حساب صور اس جگہ سے پھونکا جائے گا اور ستر ہزار آدمی اس کے اطراف میں محشور ہوں گے اور حساب کے بغیر بہشت میں داخل ہونگے۔

ابن قولویہ کتاب کامل الزیارات میں معتبر سند کے ساتھ حضرمی سے امام محمد باقر یا امام صادق سے روایت کی گئی ہے کہ کہا کہ میں نے امام سے عرض کیا سب سے بہتر مقام حرم خدا اور حرم رسول خدا کے بعد کیا ہے حضرت نے فرمایا:الکوفة یا ابابکر، هی الزکیّة الطاهرة، فیها قبور النبیّین المرسلین وغیر المرسلین و الاوصیاء الصادقین، و فیها مسجد سهیل الّذی لم یبعث اللّٰه نبیاً الّا وقد صلّی فیه ومنها یظهر عدل اللّٰه، و فیها یکون قائمه و القوّام من بعده، و هی منازل النبیّین والأوصیاء و الصالحین ۔ وہ مکان پاک و پاکیزہ ہے اس میں مرسل انبیاء اور غیر مرسل اور اوصیاء صادقین کی قبریں ہیں اور اس میں مسجد سہلہ ہے اللہ نے کسی نبی کو نہیں بھیجا مگر یہ کہ اس میں نماز پڑھی ہے اس شہر سے خدا کا عدل ظاہر ہوگا اسی میں قائم آل محمد ہے اور دین کو قائم کرے گا۔ یہی شہر انبیاء اوصیاء اور نیک لوگوں کی جگہ ہے۔

۳ ۔ جمکران کی مقدس مسجد

جمکران کی مسجد امام کے حکم سے بنائی گئی ہے پرہیزگار حسن بن مثلہ نے امام کے حکم سے کس طرح مسجد بنائی گئی ہے کہتے ہیں یہ واقعہ منگل کی رات سترہ ماہ رمضان مبارک میں ۳۹۳ ھجری قمری میں پیش آیا کہتے ہیں کہ میں اپنے گھر میں سویا ہوا تھا رات کا کچھ حصہ گزرا تھا اچانک کچھ لوگوں نے ہمارے گھر کے دروازے کو دق الباب کیا اور مجھے بیدار کیا اور کہنے لگے اٹھیں امام آپ کو پکارتے ہیں حسن بن مثلہ کہتاہے میں جلدی سے اٹھا اور لباس کو تلاش کرتارہا تا کہ تیار ہوجاؤں میں نے کہ اکہ اجازت دیں تا کہ میں اپنی قمیض پہن لوں آواز آئی یہ تمہاری قمیض نہیں ہے اس کو نہ پہنو میں نے اس کو پھینک دیا اور اپنی قمیض کو دیکھا اور پہن لیا چاہا کہ شلوار پہن لوں آواز آئی یہ تمہاری شلوار نہیں ہے اپنی شلوار پہن لو اس کو چھوڑ کر اپنی شلوار پہن لی اس کے بعد دروازے کی چابی تلاش کرنے لگا تا کہ دروازہ کھول دوں اتنے میں آواز آئی اس کے لئے چابی کی ضرورت نہیں دروازہ کھلا ہوا ہے گھر کے دروازے پر آیا تو کچھ بزرگوں کو کہ جو میرا انتظار کر رہے تھے سلام کر کے عرض آداب کیا انہوں نے جواب دیا اور کوش آمدید کہا مجھے وہان پر لے گئے کہ جہاں اب مسجد جمکران موجود ہے غور سے دیکھا دیکھا کہ ایک نورانی تخت ہے جس پر عمدہ فرش ہے ایک خوبصورت جوان اس تخت پت بیٹھا ہوا ہے کہ جس کی عمر تقریباً تیس سال تھی تکیہ کا سہارا لیکر بیٹھا تھا ان کے سامنے ایک عمر رسیدہ شخص بٹھا ہوا تھا ایک کتاب اس کے ہاتھ میں تھی جو انھیں پڑھ کے سناتا تھا وہاں پر ساٹھ آدمی سفید اور سبز لباس میں ان کے اطراف میں نماز پڑھتے تھے

وہ سن رسیدہ مرد حضرت خضر تھے اس بوڑھے مرد نے مجھے بیٹھنے کا حکم دیا میں وہاں پر بیٹھ گیا حضرت امام زمان میری طرف متوجہ ہوئے میرا نام لیکر پکارا اور فرمایا جا کر حسن مسلم سے کہو کہ تو نے کئی سال سے اس زمین کو غصب کر کے آباد کیا ہے اور زراعت کرتے ہو ہم اس کو خراب کریں گے پانچواں سال ہے کہ اس زمین میں غاصبانہ طور پر کاشت کی گئی ہے اس سال دوبارہ آباد کرنا چاہتے ہیں اب تمہیں حق نہیں ہے کہ اس زمین میں کاشت کرو اس زمین سے جو فائدہ بھی اٹھایا اس کو واپس کردو تا کہ اس جگہ مسجد بنالیں اور حسن مسلم سے کہو یہ زمین مبارک زمین ہے اور خداوند تعالیٰ نے اس زمین کو باقی زمینوں پر فضیلت دی ہے تو اس زمین کا مالک بن بیٹھا ہے اور اپنی زمین قرار دی ہے خدا نے تجھے تنبیہ کرنے کے لئے اور سزا دینے کے لئے تمہارے دو جوان بیٹوں کو لے لیا ہے لیکن تم اب بھی باز نہیں آتے ہو اگر اس کے بعد بھی باز نہ آیا تمہیں ایسی سزا ملے گی جو تمہیں معلوم نہیں ہوگا۔ میں نے کہا اے میرے مولیٰ اور آقا اس پیغام کو پہنچانے کے لئے کوئی علامت چاہتاہوں چونکہ لوگ پیغام کو نشانی اور علامت کے بغیر نہیں سنتے ہیں ۔ میری بات کو قبول نہیں کریں گے فرمایا ہم یہاں پر ایک علامت رکھ دیتے ہیں تا کہ تمہاری بات کو قبول کریں تم چلے جاؤ اور میرے پیغام کو پہنچادو اور سید ابوالحسن کے پاس چلے جاؤ اور ان سے کہو کہ اٹھیں اور زراعت کرنے والے کو حاضر کریں کئی سال سے جو فائدہ اٹھایا ہے وہ اس سے لیکر لوگوں کو دیدیں تا کہ مسجد بنالیں اگر خرچہ کم ہوا تو باقی کو فلاں جگہ سے لے آئیں وہ ہماری ملکیت ہے وہاں سے لاکر مسجد کو مکمل کرلیں ہم نے نصف مُلک کو اس مسجد کے لئے وقف کیا ہے اس کی آمدنی لا کر اس مسجد پر خرچ کریں اور لوگوں سے کہیں کہ لوگ شوق سے اس مسجد میں آئیں اور اس کو اہمیت دیں وہاں پر چار رکعت نماز پڑھیں جناب حسن بن مثلہ کہتاہے جب میں نے یہ باتیں سنیں تو اپنے آپ سے کہا گویا یہ وہی مقام ہے کہ جس کے بارے میں فرماتے ہیں اور میں نے اشارہ کیا اس جوان کی طرف کہ جو تکیہ کا سہارا لیا ہوا تھا۔

مسجد جمکران بہت زیادہ اہمیت کی حاصل ہے ان میں سے بعض کو بیان کرتاہوں

۱ ۔آخری حجت نے حسن بن مثلہ کے توسط سے حکم دیا ہے کہ مسجد مقدس کی بنیاد رکھ لے یہ واقعہ بیداری کی حالت میں فرمایا نہ کہ عالم خواب میں۔

۲ ۔ آخری حجت کے حکم سے کئی سال پہلے حضرت امیرالمومنین نے اس کے بارے میں خبر دی ہے۔

۳ ۔ مسجد جمکران آخری حجت کے ظہور کے زمانے میں کوفہ کے بعد سب سے بڑا پایہ تخت ہوگا امام کے ظہور کے وقت امام کے لشکر کا علم کوہ خضر پر لہراتاہوا دکھائی دے گا۔

۴ ۔ ایک مہم نکتہ ہے وہ یہ ہے کہ نہ صرف امام عصر(علیہ السلام ) کے ظوہر کے وقت مسجد جمکران مرکز ہوگا بلکہ زمانہ غیبت میں بھی ایسا ہوگا امام زمانہ کا یہ فرمانا کہ جو بھی اس جگہ پر نماز پڑھے گا گویا اس نے خانہ کعبہ کے اندر نماز پڑھی ہے اس سے استفادہ ہوتاہے کہ خانہ خدا نہ صرف مرکز زمین ہے اس میں ہونا انسانی میں روحانی جسمانی اعتبار سے بہت زیادہ اثر رکھتاہے اسی طرح مسجد جمکران بھی ہے۔

امام عصر کا یہ کہنا کہ اس مکان میں نماز کا پڑھنا خانہ خدا میں نماز پڑھنے کا ثواب رکھتاہے اس مسجد جمکران میں کچھ اسرار ہیں جو ہر کسی کو معلوم نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حضرت امیرالمومنین نے فرمایا ہےمامن سرّ الّاوانا افتحه و مامن سرّ الّا والقائم یختمه کوئی راز نہیں مگر یہ کہ میں اس کو کھول دوں گا اور کوئی راز نہیں مگر یہ کہ قائم اس کو بیان کرے گا۔

۵ ۔ جو لوگ اس مقدس مکان میں جاتے ہیں وہ جانیں یہ بہت بڑا مقام ہے امام عصر کی توجہ ان کی طرف ہے گویا حضرت کے مکان میں داخل ہوئے ہیں ان کے سامنے موجود ہیں۔

کئی سو سال حضرت کی غیبت سے گزرے ہیں لیکن ہم امام زمانہ سے استفادہ نہیں کرتے ہیں ہم بارش کی فکر کرتے ہیں لیکن بارش حضرت کے وجود اور برکت سے حاصل ہوتی ہے جیسا کہ زیارت جامعہ میں پڑھتے ہیں وبکم ینزل الغیث تمہاری وجہ سے بارش ہوتی ہے۔ یہ بھی معلوم ہونا چاہیئے کہ آخری حجت کی طرف توجہ حقیقت میں خدا کی طرف توجہ ہے جس طرح باقی ائمہ کی طرف توجہ کرنا خدا کی طرف توجہ کرنا ہے پس آئمہ کی زیارت اور توسل حقیقت میں خدا سے توسل ہے یہی وجہ ہے کہ جو بھی خدا سے قرب حاصل کرنے کا قصد رکھتاہے اس کو چاہئے کہ ائمہ طاہرین کی طرف توجہ دے چنانچہ زیارت جامعہ میں ہم پڑھتے ہیں ومن قصدہ توجہ بکم جو بھی خدا کا قرب حاصل کرنا چاہے اس کو چاہئے کہ وہ ائمہ کی طرف توجہ دے چونکہ آئمہ کی طرف توجہ کرنا نہ صرف خدا کی طرف متوجہ ہونا ہے بلکہ وہ گناہ اور وہ چیزیں کہ جو بلند مقام حاصل کرنے کے لئے مانع ہیں وہ بھی دور ہوتی ہیں چونکہ امام زمانہ اور ائمہ طاہرین کی طرف توجہ کرنے کی وجہ سے انسان کی طرف رحمت اور مغفرت الٰہی کے دروازے کھل جاتے ہیں۔

حضرت باقر العلوم نے حضرت امیرالمومنین کے اس کلام میں کہ جہاں فرمایا انا باب اللہ اس کے بارے میں فرماتے ہیں یعنی من توجہ بی الی اللہ غفرلہ جو بھی میرے وسیلہ سے خدا کی طرف توجہ دے اس کے گناہ بخشے جاتے ہیں اگر چہ چودہ معصومین کی طرف ہر زمانہ میں توجہ ہونا چاہئے لیکن انسان جس زمانے میں زندگی گزارتاہے اس کو اپنے زمانے کے امام(علیہ السلام ) کی طرف زیادہ توجہ ہونی چاہئے آپ اس روایت کی طرف توجہ دیںعن عبدالله بن قلامه الترمذی عن ابی الحسن علیه اسلام قال: من شکّ فی اربعة فقد کفر بجمیع ما انزل الله عزوجل: احدها معرفة الامام فی کل زمان و اوان بشخصه و نعته ۔ حضرت نے فرمایا: کہ جو بھی چار چیزوں کے بارے میں شک کرے گویا اس نے تمام ان چیزوں کا انکار کیا ہے جو نازل کی گئی ہے ان میں سے ایک ہر زمانے میں امام کا پہچاننا کہ امام کی ذات اور صفات کے ساتھ پہچانیں پس ہر زمانے کے امام کی معرفت واجب ہے کس طرح ممکن ہے کہ جو اپنے زمانے کی امام کی معرفت رکھتا ہو اور ان کی عظمت سے آگاہ ہو لیکن اس کی طرف توجہ نہ دیتا ہو اس بناء پر امام زمانے کی معرفت سے غفلت صحیح نہیں ہے پس ہمارا وظیفہ اس زمانے میں یہ ہے آخری حجت کی امامت کے زمانے میں آپ(علیہ السلام ) کی طرف زیادہ توجہ دیں وہ دعا کہ جو ملا قاسم رشتی کو تعلیم دی ہے اور فرمایا ہے اسے دوسروں کو تعلیم دیں اگر کوئی مومن کسی بلاء میں مبتلا ہوا ہو تو اس دعا کو پڑھے وہ مجرب ہے اس دعا کے پڑھنے میں بہت زیادہ تاثیر ہے وہ دعا یہ ہےیا محمد یا علی یا فاطمه یا صاحب الزمان ادرکنی ولا تهلکنی ۔

انتظار

آخری حجت کا انتظار کرنا بہت زیادہ فضیلت رکھتاہے جو بھی امام عصر کے ظہور کا انتظار کرے ایسی صورت میں ان کی غیبت بمنزلہ مشاہدہ شمار ہوگی۔

حضرت امام سجاد علیہ السلام نے ابو خالد کابلی سے فرمایا کہ غیبت کا مسئلہ رسول خدا کے بارھویں امام میں طولانی ہوگا اے ابا کالد اھل زمان اپنے زمانے کے امام غیبت کے معتقد ہیں اور ان کے ظہور کے معتقد ہیں ہر زمانے میں سب سے زیادہ افضل ہیں خدا ان کو اس قدر عقل معرفت عطا کرتاہے کہ مسئلہ غیبت ان کے لئے بمنزلہ مشاہدہ قرار دیتاہے خداوند متعال ان کو اتنا ثواب اور اجر عطا کرتاہے کہ جو رسول کدا کے ساتھ تلوار کے ساتھ جنگ کرے حقیقت میں مخلص اور سچے شیعہ ہیں جو کہ دین خدا کی طرف دعوت دینے والے ہیں حضرت سجاد نے فرمایا کہ ظہور کا انتظار کرنا تعجیل ظہور کا بہترین راستہ ہے امام سجاد نے اس روایت میں ان لوگوں کو کہ جو امام کی غیبت میں زندگی گزارتے ہیں لیکن غیبت سے غافل نہیں ہیں اور وہ آخری حجت کے ظہور کے انتظار میں زندگی گزارتے ہیں ان کو ہر زمانے میں سب سے بہترین لوگوں میں سے قرار دیا ہے ایسے لوگوں کو ایسی عقل اور معرفت عطا کی ہے کہ ایسے لوگوں کے لئے مسئلہ غیبت بمنزلہ مشاہدہ ہوگا اس لئے پیغمبر اسلام نے فرمایا افضل جہاد امتی انتظار الفرج میری امت کے سب سے افضل جہاد فرج کا انتظار ہے۔ حضرت امام جعفر صادق نے فرمایا ہے کہ بندوں کی عبادت قبول ہونے کی شرائط میں ایک شرط آخری حجت کی حکومت کا انتظار کرنا ہے اس کے بعد امام فرماتے ہیں ہمارے لئے ایک حکومت ہے خدا جب چاہے لے آتاہے اس کے بعد فرمایا فرماتے ہیں جو بھی چاہتاہے کہ آخری حجت کے اصحاب سے ہوجائے اس کو چاہیے کہ امام کے ظہور کا انتظار کرے پرہیزگاری اور نیک اخلاق کے ساتھ زندگی گزارے اور امام کے ظہور کا انتظار کرے اس دوران اگر اس کو موت آجائے اور حضرت قائم اس کے بعد قیام کرے تو اس کو اتنا ثواب ملے گا جتنا امام کے ساتھ قیام کرنے والے کو ثواب ملتاہے پس کوشش کریں اور انتظار میں رہیں اور گوارا ہو تم پر اے جماعت کہ جن پر خدا کی رحمت نازل ہوتی ہے امام صادق نے ایک دوسری روایت میں امام کی غیبت کے زمانے کے بارے میں یہ بتاتے ہیں کہ ان کا کیا وظیفہ ہے فرماتے ہیںوانتظر الفرج صباحاً و مساءً صبح اور شام ظہور اور فرج کے انتظار میں رہو حضرت امیرالمومنین انتظار کرنے کو اھل بیت کے دوستداروں کی صفات میں سے جانتے ہیں اور اھل بیت کے ساتھ محبت کرنے والوں کی علامت یہ ہے صبح و شام امام کے ظہور کے انتظار میں ہوں گے آن حضرت نے فرمایا ان مجینا ینتظر الروح والفرج کل یوم ولیلة ہمارے دوست شب و روز دشمنوں سے آسائش کے انتظار میں ہوتے ہیں امام ھادی کے دوستاروں میں سے ایک نے پوچھا امام کی غیبت میں شیعوں کی کیا ذمہ داری ہے سوال کیاکیف تصنع شیعتک قال علیه السلام علیکم بالدعاء و انتظار الفرج غیبت کے زمانے میں آپکے شیعہ کیا وظیفہ انجام دیں امام ھادی نے فرمایا تمہارے لئے لازم ہے دعا کرنا اور ظہور کا انتظار کرنا۔

جیسا کہ روایت میں ہے کہ ظہور کا انتظار کرنا جو جہاں کی اصلاح کرے اعمال کے قبول ہونے کے شرائط میں سے ایک شرط ہے پس جو خود صالح ہو اس کو چاہئے کہ مصلح کا انتظار کرے۔

حضرت جواد الائمہ نے امام عصر کے انتظار کے بارے میں فرمایا حضرت عبدالعظیم حسنی فرماتے ہیںدخلت علی سیدی محمد بن علی و انا اریدان اساله عن القائماهوالمهدی او غیره فبلانی فقال علیه السلام یا اباالقاسم انّ القائم منا هو المهدی الذی یجب ان ینتظر فی غیبته و یطاع فی ظهوره و هو الثالث من ولدی، والذی بعث محمداً بالنبوة و خصنا بالامامة انه لو لم یبق من الدّنیا الّا یوم واهد لطول اللّیه ذالک الیوم حتی یخرج فیملا الارض قسطاً وعدلاً کما ملئت جوراً و ظلماً و ان الله تبارک و تعالیٰ یصلح امره فی لیلة کما اصلح امر کلیمه موسی علیه السلام لیقتبس لاهله ناراً فرجع و هو رسول نبیّ ثمّ قال علیه اسلام افضل اعمال شیعتنا انتظار الفرج

میں حضرت امام جواد کی خدمت میں حاضر ہوا اور میں نے مصمم ارادہ کرلیا کہ حضرت سے قائم آل محمد کے بارے میں سوائل کروں آیا وہ مھدی ہے یا کوئی اور ہے میرے کہنے سے پہلے حضرت نے فرمایا اے ابالقاسم قائم آل محمد وہی مھدی ہے کہ غیبت کے زمانے میں اس کا انتظار کرنا واجب ہے اور ظہور کے زمانے میں ان کی اطاعت کرنا واجب ہے وہ میری نسل سے تیسرا فرد ہوگا اس خدا کی قسم کہ جس نے محمد کو نبی بنا کر بھیجا ہے امامت کے مقائم کو ہمارے ساتھ مخصوص کردیا ہے اگر دنیا باقی بھی نہ رہے مگر ایک دن تو خداوند تعالیٰ کے اس کو اتنا طویل کرے گا یہاں تک امام قائم خروج کرے گا اور زمین کو عدل و انصاف سے پر کرے گا جیسا کہ ظلم و جور سے پر ہوچکا ہوگا خداوند تعالیٰ اس کے امر کی ایک رات میں اصلاح کرے گا جس طرح حضرت موسیٰ کلیم اللہ کے کام کی اصلاح کی وہ اپنے خاندان کے لئے آگ لانے کے لئے چلے گئے لیکن اس حالت میں لوٹے کہ جو نبوت اور رسالت کے مقام پر فائز تھے اس وقت حضرت جواد نے فرمایا شیعوں کے سب سے افضل اعمال فرج کا انتظار کرنا ہے۔

انتظار کا طریقہ

ان امور میں سے جو درس انتظار ہمیں سکھاتے ہیں انسان کو ہمیشہ معرفت خدا اور جانشین خدا کی معرفت ہو اور ان کی عظمت ان کے پیش نظر ہو اگر کوئی واقعا اللہ اور ائمہ اطہار کی معرفت میں قدم اٹھادے تو اس کا دل معارف الھیہ سے روشن ہوگا اور متوجہ ہوگا کہ امام سے غفلت کرنا ناپسند یدہ عمل ہے۔ یہ نورانیت ہے امام کے نور کے اثر سے ہر امام کے زمانے میں ان کے دوستوں کے دل روشن ہونگے اب اس روایت کی طرف توجہ دیںعن ابی خالد الکابلی قال: سالت ابا جعفر عن قول الله عزوجل فامنو بالله و رسوله و النور الذی انزلنا فقال یا ابا خالد النور واللّٰه الائمة من آل محمد الی یوم القیامة و هم و اللّٰه نور اللّٰه اندی انزل و هم واللّٰه نور اللّٰه فی السمٰوات و فی الارض واللّٰه یا ابا خالد لنور الامام فی قلوب الموٴمنین انور من الشمس المضیئة بالنّهار و هم واللّٰه ینوّرون قلوب الموٴمنین و ویجیب اللّٰه نور هم عمن یشاء فتظلم قلوبهم واللّٰه یا ابا خالد لا یحبّنا عبد و یتولّانا حتّی یُطهر اللّٰه قلبه، ولا یُطهر اللّٰه قلب عبد حتی یُسلم لنا، و یکون سلماً لنا، فاذاکان سلماً لنا سلّمه اللّٰه من شدید الحساب، وآمنه من فزع یوم القیامة الأکبر ۔

ابوخالد کابلی کہتاہے امام محمد باقر سے آیہ شریفہ کے بارے میں کہ جو اللہ فرماتاہے پس ایمان لے آؤ خدا پیغمبر اور اس نور پر کہ جس کو ہم نے نازل کیا ہے۔ اس آیہ کے بارے میں پوچھا حضرت نے فرمایا اے ابوخالد خدا کی قسم اس نور سے مراد آل محمد کے پیشوا ہیں کہ جو قیامت تک ہوں گے خدا کی قسم یہ اللہ کے نور ہیں کہ جس کو نازل کیا ہے خدا کی قسم یہ اللہ کے نور ہیں آسمانوں اور زمینوں میں خدا کی قسم اے ابا خالد امام کا نور جو مومنین کے دلوں میں روشنی دینے والا سورج سے زیادہ نورانی ہے خدا کی قسم یہ امام مومنین کے دلوں کو نورانی کریں گے خدا ان کے نور کو جس سے چاہے مخفی رکھتاہے پس ان کے دل تاریک ہوں گے خدا کی قسم اے ابوخالد کوئی بندہ بھی ہم سے محبت نہیں کرے گا مگر یہ کہ خدا اس کے دل کو پاک کرے گا اور خدا کسی بندہ کے دل کو پاک نہیں کرے گا یہاں تک وہ ہمارا فرمان بردار ہوگا خدا ایسے شخص کو قیامت کے حساب سے محفوظ رکھے گا اور اس کو قیامت کے خوف محفوظ رکھے گا کیا ممکن ہے کہ جس کا دل امام زمانہ کے نور سے نورانی ہو لیکن امام زمانہ سے غافل ہو

حضور کا احساس یا معرفت کی نشانی

غیبت کے زمانے میں ذمہ داریاں میں دو حصوں میں تقسیم ہوتی ہیں۔

۱۔ ایک وہ ذمہ داری کہ جو زمانن غیبت کے ساتھ مخصوص ہے

۲۔ دوسرا وہ کہ غیبت اور حضور کے زمانے میں جو ہماری ذمہ داریاں ہیں اس کی رعایت کی جائے۔

اگر انسان کا یہ عقیدہ ہو کہ سب کے سب خدا اور جانشین کے حضور میں ہیں تو زمان اور مکان ہمارے لئے محدودیت نہیں لاتاہے چونکہ نورانی مقام کو زمان یا مکان کے ساتھ مقید نہیں کیا جاسکتاہے اسلئے زمان اور مکان مادہ کے قیود اور خصوصیات سے ہے اھل بیت کی نورانیت کی حضرت امیرالمومنین نے اس حدیث نورانیت میں تشریح کی ہے کہ یہ مادہ سے بالا ہے بلکہ مادہ کو بھی احاطہ کرتاہے اس بناء پر زمان اور مکان نورانیت کے مقام کی محدودیت ایجاد نہیں کرتاہے۔

اس مطلب کی وضاحت کے لئے حضرت امیرالمومنین کی حدیث نورانیت کی طرف رجوع کرسکتے ہیں کہ جو جناب سلمان اور ابوذر کے لئے فرمایا ہے حدیث لمبی ہونے کی وجہ سے یہاں بیان نہیں کرتاہوں ایک مہم روایت کہ جس کو امام محمد باقر نے فرمایا ہے اختصار کے ساتھ بحث کی مناسبت سے نقل کرتاہوں۔ ابوبصیر کہ جو حضرت امام محمد باقر کے اصحاب میں سے تھے فرمایا:

دخلت المسجد مع ابی جعفر علیه السلام والناس یدخلون و یخرجون فقال لی: سل الناس هل یروننی؟ فکلّ من لقیته قلت له: أرایت أباجعفر علیه السلام فیقول: لا و هو واقف حتی دخل ابوهارون المکفوف، قال: سل هذا؟ فقلت: هل رایت أباجعفر؟ فقال: ألیس هوا قائمأ، قال: و ما علمک؟ قال: و کیف لا أعلم و هو نور ساطع؟ قال: وسمعته یقول الرجل من أهل الافریقیة: ما حال راشدٍ؟ قال: خلّقته حیّاً صالحاً یقروٴک السلام قال: رحمه اللّٰه قال: مات؟ قال: نعم، قال: متی؟ قال: بعد خروجک بیومین قال: واللّٰه ما مرض و لا کان به علّة، قال: و انّما یموت مَن یموت من مرض أوعلّة قلت: من الرجل؟ قال: رجل لنا موالٍ ولنامحبّ ثمّ قال: أترون أنّه لیس لنا معکم أعینٌ ناظرة، أوسماع سامعة، لبئس مارأیتم، واللّٰه لا یخفی علینا شيء من أعمالکم فاحضرونا جمعیاً وعوّدو أنفسکم الخیر، وکونوا من أهله تعرفوا فانّي بهذا آمرو لدي وشیعتي ۔

ابوبصیر کہتاہے امام باقر کے ساتھ مسجد میں داخل ہوا لوگ آتے جاتے تھے امام لوگوں کی نظروں سے غائب رہا اور مجھ سے فرمایا لوگوں سے پوچھ لو کیا وہ مجھے دیکھتے ہیں میں نے جس سے ملاقات کی اس سے پوچھا کیا مام باقر کو دیکھا اس نے کہا نہیں یہاں تک کہ نابینا ابوھارون داخل ہوا امام نے فرمایا اس مرد سے سوال کرو میں نے اس سے پوچھا کیا تم نے امام باقر کو دیکھا ہے ابوھارون نے جواب میں کہا مگر یہ یہاں ہمارے پاس کھڑا نہیں ہے؟

ابوبصیر نے کہا میں نے اس سے پوچھا تجھے کیسے پتہ چلا کہ امام یہاں پر موجود ہے ابوھارون نے کہا کس طرح مجھے معلوم نہ ہو حالانکہ امام ایک واضح نور ہے اس وقت ابوبصیر کہتاہے کہ میں نے سنا کہ امام محمد باقر افریقہ کے ایک شخص سے فرماتے تھے کہ راشد کا کیا حال ہے اس نے کہا جب میں افریقہ سے نکلا تھا تو وہ زندہ اور صحیح سالم تھا آپ کو سلام پہنچاتا تھا۔ امام باقر نے فرمایا خداوند تعالیٰ اس پر رحمت کرے وہ اس دنیا سے چلا گیا ہے افریقائی مرد کہنے لگا کیا وہ مرگیا ہے امام نے فرمایا ہاں اس نے پوچھا کہ کس زمانے میں فوت ہوئے ہیں امام نے فرمایا آپ کے نکلنے کے دو دن بعد فوت ہوا ہے افریقائی نے کہا خدا کی قسم راشد نہ بیمار تھا نہ ان کو کسی قسم کی تکلیف تھی امام نے اس سے فرمایا مگر جو بھی مرجاتاہے کسی بیماری یا درد کی وجہ سے مرجاتاہے ابو بصیر نے کہا میں نے امام سے پوچھا یہ افریقائی مرد کون ہے امام نے فرمایا یہ ہمیں اور ہمارے خاندان کو دوست رکھتاہے اس وقت امام نے فرمایا کیا تم عقیدہ رکھتے ہو ہمارے بارے میں کہ ہم تمہیں دیکھنے والی آنکھیں اور سننے والے کان نہیں رکھتے کس قدر تم برا عقیدہ رکھتے ہو خدا کی قسم ہمارے لئے تمہارے اعمال میں سے کوئی بھی پوشیدہ نہیں ہے پس ہم سب کو اپنے پاس حاضر جانو اور اپنے نفسوں کو نیک کام کرنے کی عادت ڈال دو تا کہ نیک کام کرنے والوں میں سے ہوجاؤ میں اپنے فرزندوں اور شیعوں کو جو کہاہے اس کا امر کرتاہوں۔

اس روایت میں بہت سے مطالب موجود ہیں ان مطالب کو دردک کرنے کے لئے مکمل طور پر غور کی ضرورت ہے۔ مہم نکات کہ جو اس روایت سے استفادہ کرتے ہیں کہ خاندان وحی کے حضور کا اعتقاد ہونا چاہئے اور اس واقعیت کا درک کرنا اس صورت میں ممکن ہے کہ جن شرائط کو امام باقر نے درک کرنے کے بارے میں فرمایا ہے اس کی رعایت کی جائے۔

مہم نکتہ کہ جس کے بارے میں آخر میں فرمایا ہے یہ ہے کہ آں حضرت نے تمام شیعوں اور اپنے فرزندوں کو وصیت کی اور حکم دیا ہے یہ اس پر دلیل ہے کہ تمام واقعیت کے شناخت کے لئے کوشش کریں اس روایت کی بناء پر ہر ایک بزرگوار عین اللہ ہیں کہ ہمارے اعمال اور رفتار کو دیکھتے ہیں اور اذن اللہ ہیں کہ ہمارے گفتار کو سنتے ہیں اس وقت جو بھی ان حقائق کو قبول نہیں کرتے ہیں اس کی خدمت کی گئی ہے اور فرماتے ہیں واقعاً برا اعتقاد رکھتے ہو خدا کی قسم کھائی کہ تمہارے اعمال میں سے کوئی چیز ہم سے پوشیدہ نہیں ہے۔

حضرت امام محمد باقر ان نکات کو بیان کرنے کے بعد چند نکات کی تصریح کرتے ہیں۔

ہم سب کو اپنے نزدیک حاضر جانیں

یہ کلام اھل بیت کی نورانیت کی طرف اشارہ ہے کہ نورانیت کی وجہ سے ہر زمانے پر محیط ہے ان میں سے کسی میں کوئی فرق نہیں ہے ہر شیعہ ہر زمانے میں ہر بزرگوار کو قریب جانے جس طرح انسان اپنے آپ کو خداوند کے حضور دیکھتاہے اس کو یہ بھی احساس ہو کہ اھل بیت کے سامنے حاضر ہے۔

واضح ہے کہ جو بھی اس حقیقت کا احساس کرے اور اس کو عملی قرار دے بہت بڑی تبدیلی اس میں پیدا ہوتی ہے۔

۲ ۔ اپنے نفسوں کو نیک کاموں کی عادت ڈالے اور نیک لوگوں میں سے ہوجائے اس بناء پر انسان نہ صرف برے کاموں اور ناپسندیدہ کی عادت نہ ڈالیں بلکہ اچھے کام انجام دینے کی عادت ڈالے۔ تھذیب نفس اور خود سازی کی کوشش کرے نہ اچھے سے اچھا کام انجام دینے سے متنفر نہ ہو بلکہ اچھا کام انجام دینے کی عادت ڈالے

اس مطلب کی توضیح کے لئے کہتا ہوں کہ نیک کاموں کی عادت ڈالنے کی دو صورتیں ممکن ہیں۔

۱ ۔ پہلی صورت اپنے نفس کی مخالفت کرتے ہوئے نفس کو اپنے کام بجالانے کے لئے فرمان بردار بنانا اگر اس قسم کی عادت ڈالے تو ایسی عادت انسان کی ترقی کا موجب ہے۔

۲ ۔ دوسری صورت یہ ہے ممکن ہے کہ نیک کام کرنے کی عادت ڈالی ہو بلکہ ایسے ماحول میں زمدگی گزارتاہے جس کی وجہ سے اچھے کام انجام دیتاہے اور عادت بن گئی مثال کے طور پر ایسے خاندان میں زندگی گزارتاہے کہ جو اول وقت میں نماز یا جماعت کے ساتھ نماز پڑھنے کے پابند ہیں اس نے بھی ایسی عادت کی ہے اگر اس کے زندگی کے ماحول میں تبدیلی آجائے چونکہ ذاتاً اس نے عادت نہیں بنائی ہے زمانہ کے گزرنے کے ساتھ وہ شخص بھی تبدیل ہوجاتاہے چونکہ یہ عادت اپنے اپنے نفس اور اپنی ذات کی وجہ سے نہیں ہے بلکہ ماحول کی وجہ سے ہوئی ہے اس لئے اس کی کوئی اہمیت نہیں ہے اس لئے حضرت امام محمد باقر فرماتے ہیں علاوہ اس کے کہ نیک کاموں کی عادت ڈالنے کے ساتھ خود بھی نیک لوگوں میں سے ہوجائے نہ کہ ماحول کی وجہ سے مجبور ہوجائے۔ سب کو حاجر جانیں اس سے مراد حضور علمی ہے یا حضور عینی ہے مرحوم علامہ مجلسی اس نے روایت کے بارے میں فرمایا ہے اگر فاحضروا کو باب افعال سے قرار دیں تو اس کا معنی یہ ہوگا کہ جان لو ہم سب تمہارے پاس حاضر ہیں علم کی وجہ سے اس سے مراد علامہ مجلسی کی حضور علمی ہے ایک روایت میں حضرت امام رضا علیہ السلام حضرت خضر کے بارے میں فرماتے ہیںانّه لیحضر حیث ما ذکر فمن ذکره منکم فلیسلّم علیه اس کو جس زمانے میں بھی پکارا جائے وہ حاضر ہوتے ہیں آپ میں سے جو بھی اس کا نام لے اس پر سلام کرے مرحوم آیة اللہ مستنبط اس کے بارے میں لکھتے ہیں حضرت خضر(علیہ السلام ) کا مقام امام زمانہ کا تابع اور غیبت میں ہیں پس حضرت حجت کا مقام کتنا بلند ہے حضور کا مسئلہ اھلبیت کے معارف میں اہم ترین مسائل میں سے ہے اور اس کے لئے تفصیل کی ضرورت ہے اس لئے حضرت امیرالمومنین کے کلام کے ساتھ کلام کااختیار کرتے ہیں فرمایا احضروا اذ ان قلوبکم تفھموا اس فرمائش کی بناء پر اگر حقائق کو درک کرنا چاہتے ہو تو دل کے کان کو کھول دو تا کہ تم سجھ سکو۔

اھلبیت کی نظر میں امام زمانہ کی عظمت

۱ ۔ پیغمبر اسلامفرماتے ہیں میرے ماں باپ فدا ہو اس پر کہ جو میرا ہم نام ہے اور میرا شبیہہ ہے پیغمبر اسلام نے حضرت امیر سے امام عصر کی گفتگو کے بعد فرمایا میرے بعد ایک بہت زیادہ سخت فتنہ ہوگا اس میں ایک برگزیدہ اور راز دار شخص سقوط کرے گا یہ وہ وقت ہے کہ تیرے شیعے پانچویں آدمی کو یعنی ساتویں کی اولاد امام سے گم کردیں گے اس کے غائب ہونے کی وجہ سے زمین اور آسمان والے غمگین ہوں گے کتنے زیادہ مرد اور عورتیں ان کی غیبت کے موقع پر غمگین اور افسوس کریں گے اس کے بعد حجرت اپنے سر کو جھکا دیا اس کے بعد سر بلند کر کے فرمایا میرے ماں باپ اس پر قربان ہو وہ میرا ہم نام میری شبیہہ اور موسیٰ بن عمران کی شبیہہ ہوگا اس کے اوپر نور کی چادر ہے جو شعاع قدس سے روشن ہوتی ہے اس کلام کی علامہ مجلسی نے حضرت امیرالمومنین کی طرف نسبت دی ہے ۔

۳ ۔ حضرت امیرالمومنین نے فرمایا ہے میرے ماں باپ فدا ہوں اس بہترین فرزند پر اس روایت کو جناب جابر جعفی نے امام جعفرصادق اور امام محمد باقر کے اصحاب سے نقل کیا ہے اب اس روایت کی طرف توجہ دیں جناب جابر جعفی فرماتے ہیں کہ میں نے امام محمد باقر سے سنا کہ فرماتے تھے:سایر عمر بن الخطاب امیرالموٴمنین فقال: اخبرنی عن المهدی ما اسمه فقال امّا اسمه فان حبیبی عهد الیّ ان لا احدّث باسمه حتّٰی یبعثه اللّٰه قال: فاخبرنی عن صفته قال هو شابّ مربوع حسن الوجه حسن الشعر یسیل شعره علی منکبیه ونور وجهه یعلو سواد لحیته و راسه بابی ابن خیرة الاماء عمر بن خطاب حضرت امیرالمومنین کے ساتھ جارہے تھے کہا مجھے مھدی کے نام کے بارے میں بتادیں حضرت نے فرمایا حضرت مھدی کے نام کے بارے میں یہ ہے کہ میرے حبیب نے مجھے سے عہد و پیمان لیا ہے کہ میں ان کا نام کسی کو نہ بتاؤں یہاں تک کہ اللہ اس کو مبعوث کرے عرض کیا کہ ان کے صفات کے بارے میں بتادیں حضرت نے فرمایا وہ جوان ہے اور اسکا چہرہ اور بال خوبصورت ہیں اس کے بال شانے پر گرے ہوئے ہیں اس کے چہرے کا نور سر اور چہرے سے برتر ہے میرے باپ قربان ہوں۔ اس بہترین فرزند پر

۴ ۔ حضرت امیرالمومنین نے فرمایا میرے ماں باپ قربان بہترین کنیز کے بیٹے پر اس کلام کو حضرت امیرالمومونین نے بار بار فرمایا حارث ھمدانی نے اس کو حضرت امیرالمومنین سے نقل کیا ہے آپ(علیہ السلام ) بزرگوار نے فرمایا ظالم کے ظلم کا خاتمہ بقیة اللہ کی تلوار سے ہوگا اور فرمایا ہے کہ پیالہ کے ساتھ تلخ زھر سب ظالموں کے منہ میں ڈالا جائے گا میرا باپ قربان اس بہترین کنیز کے بیٹے پر حضرت قائم کہ جو حضرت کے فرزندوں میں سے ہے ذلت اور خواری پر ان ظالموں کیلئے ہوگی ایک برتن صِبر سے (تلخ بوٹی) ان ظالموں کو پلایا جائے گا اور ان کو کوئی چیز نہیں دی جائے گی مگر تلوار اور فتنہ۔

۵ ۔ حضرت امیرالمومنین نے انے خطبوں میں کئی مرتبہ فرمایا کہ پیغمبر کے اھل بیت کو دیکھو اگر وہ آرام کرلیں تو تم بھی آرام کرنا اگر تم کو مدد کے لئے طلب کریں تو ان کی مدد کرنا خداوند تعالیٰ ایک مرد کو ظالموں کے خاتمہ کے لئے بھیجے گا میرے باپ قربان ہوں بہترین ہستی پر ظالموں کو نہیں دیں گے مگر تلوار کس قدر آشوب ہوگا آٹھ مہینے تک تلوار کو اپنے شانہ پر رکھے گا۔

اس خطبہ میں حضرت امیرالمومنین زمانے کو بدترین لوگوں سے پاک کرنے کی خوشخبری دے رہے ہیں کہ آٹھ مہینے تک ظالموں کے ساتھ جنگ جاری رکھے گا اس وقت عدل و انصاف سے جہاں پُر ہوگا ۔

۶ ۔ حضرت امیرالمومنین نے فرمایا میں اس کو دیکھنے کا کس قدر مشتاق ہوں اس کلام میں حضرت امیرالمومنین فتنہ کے بعد امام کی خصلتوں کو بیان کرتے ہیں حضرت نے اپنے سینے کی طرف اشارہ کیا اور فرمایا کہ میں کس قدر اس کو دیکھنے کا مشتاق ہوں۔

۷ ۔ امام باقر نے فرمایا اگر میں اس زمانے میں موجود ہوں تو اپنی جان کو اس صاحب امر کے لئے محفوظ رکھوں گا فرمایا: اما انّی لو ادرکت ذالک لا سبقیت نفسی لصاحب ھذا الامر آگاہ ہوجاؤ اگر میں اس زمان کو درک کرلوں تو اپنے آپ کو صاحب امر کے لئے محفوظ رکھوں گا۔

۸ ۔ میرے ماں باپ فدا ہوں ہوں اس پر کہ جو تمام دنیا کو عدل و انصاف سے بھردے گا اس روایت کو ابو حمزہ ثمالی نے نقل کیا ہے وہ کہتاہے کہ میں ایک دن امام محمد باقر کی خدمت میں حاضر تھا اس وقت کچھ لوگ حضرت سے رخصت کر کے چلے گئے تو اس وقت مجھ سے فرمایا یاابا حمزه من المحتوم الذی حمة الله قیام قائمنا فمن شک فیما اقول لقی اللّٰه وهو به کافر ثم قال بابی امی المتمیٰ باسمی والمکنّی بکنیتی السابع من ولدی بابی من یملا الارض قسطاً و عدداً کما ملئت ظلما و جوراً یا ابا حمزه من ادرکه فسلّم له ما سلّم لمحمد و علی فقد وجبت له الجنة و من لم یسلّم فقد حرم اللّٰه علیه الجنة و ماواه النار و بئس مثوی الظالمین اے ابا حمزہ ان چیزوں میں سے کہ جن کو خدا نے حتمی قرار دیا ہے ہمارے قائم کا قیام ہے جو کچھ میں کہتاہوں اگر کوئی اس میں شک کرے تو اس کی ملاقات خدا کے ساتھ اس حالات میں ہوگی وہ کافر ہوگا میرے ماں باپ قربان ہو اس پر جو میرا ہمنام ہے میری کنیت پر جس کی کنیت رکھی گئی ہے اور وہ میری نسل میں ساتواں فرد ہوگا۔

میرا باپ اس پر فدا ہو کہ جو پوری دنیا کو عدل و انصاف سے بھردے گا جس طرح ظلم وجور سے پر ہوچکا ہوگا اے ابا حمزہ جو بھی اس کے زمانے میں ہو اور اس کو تسلیم کرے جو جیسا کہ محمد اور علی کو تسلیم کیا ہے بہشت اس پر واجب ہے اور جو اس کو تسلیم نہ کرے تو اللہ تعالیٰ کے بہشت کو اس پر حرام قرار دیتاہے اور اس کا ٹھکانہ جھنم میں ہے یہ ظالموں کے لئے بری جگہ ہے۔ اگر میں اس زمانے میں موجود ہوں تو جب تک زندہ ہوں اسکی خدمت کرتا رہوں گا۔ اس کلام کو امام صادق نے اس وقت فرمایا جب آخری حجت کے بارے میں امام سے سوال کیا گیاهل ولدا القائم قال: لا ولوادرکته لخدمته ایام حیاتی کیا حضرت قائم متولد ہوئے ہیں حضرت نے فرمایا نہیں اگر میں اس کے زمانے کو درک کرلوں تو تمام زندگی اس کی خدمت کروں گا۔

۱۰ ۔ عباد بن محمد مداینی کہتے ہیں کہ امام صادق نے نماز ظہر کے بعد اپنے ہاتھوں کو بلند کیا اور دعا کی میں نے کہا میری جان قربان آپ نے اپنے لئے دعا کی ہے فرمایا:دعوت لنور آل محمد وسائقهم والمنتقم بامراللّٰه من اعلائهم میں نے آل محمد اور آل محمد(صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کے دشمنوں سے خدا کے حکم سے انتقام لینے والوں کے لئے دعا کی اگر چہ تمام وحی سے خاندان کے تمام افراد نور ہیں اور ان کو نورانی جاننا حقیقت میں خدا کی معرفت ہے۔

۱۱ ۔ حضرت امام رضا نے فرمایا میرے ماں باپ فدا ہوں اس پر جس کا نام میرے جد کا ہمنام ہے وہ میری اور موسیٰ بن عمران کی شبیہہ ہیں۔


4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16