درس باقریہ میں حاضری
بطلیموس اول نے علم کو مذہبی مباحث میں نہیں پڑنے دیا اور جہاں کہیں علم کا مذہبی مباحث کے ساتھ ٹکراؤ ہوتا تھا ہوں رک جانے کا حکم دیتا تھا اور اسی وجہ سے اقلیدس میں اتنی جرات پیدا نہ ہوئی کہ اس نظریہ " زؤس ہر صبح ایک چراغ یا آگ کے بگولے کو آسمان کی طرف بھیجتا ہے " کو غلط قرار دیتا اور صحیح نظریہ بیان کرتا کہ سورج زمین کے گرد چکر لگاتا ہے تاہم اقلیدس نے اس نظریئے کا اظہار کیا اور اس کی موت کے بعد اس کی تحریروں میں یہ نظریہ ملا مگر باور کیا جاتا ہے کہ بطلیموس جغرافیہ دان سلسلہ بطالیہ کے بطلیموس مصری بادشاہوں میں سے تھا ۔
لہذا یہ غلط فہمی پیدا نہیں ہونی چاہیے کہ جو اقلیدس ایک صدی بعد آیا وہ مصری تھا اور علمی کتاب خانہ کے دستر خواں سے فیض یاب ہوتا رہا اس بناء پر ہم یہ قیاس آرائی کر سکتے ہیں کہ اس نے اس نظریئے کو کہ " سورج زمین کے گرد گھومتا ہے " اقلیدس سے لیا ہو گا ۔
پیرون جو یونان میں یونانی خداؤں کو ایک افسانہ سمجھتا تھا اس نے رات و دن کے وجود میں آنے کے سبب کے بارے میں کچھ نہیں کہا البتہ یونان کی علمی تاریخ میں وہ پہلا آدمی ہے جو شکی مشہور ہوا جس نے تمام نظریات کو کھوکھلا کیا اور خود کوئی نظریہ پیش نہیں کیا ۔
پیرون ہر قسم کے عقیدے اور مذہب کیخلاف تھا وہ کہا کرتا تھا " کوئی بھی ایسا نشان یا حتمی ماخذ نہیں ہے جو حقیقت کی پہچان میں ہماری مدد کر سکے ۔ اور اگر ہم ایک موضوع کے متعلق ایک نظریہ پیش کرتے ہیں تو اسی کا مخالف نظریہ بھی پیش کیا جا سکتا ہے " لیکن یاد رہے کہ یہاں پیرون کی مراد فلسفی نظریات ہیں نہ کہ ریاضی کے نظریات کیونکہ ریاضی کے نظریات کی نفی عقلی نقطہ نگاہ سے نا ممکن ہے ۔
ہر سال لاکھوں لوگ پکے ہوئے سیبوں کو زمین پر گرتا دیکھتے ہیں لیکن تاریخ کے آغاز سے ساتویں صدی عیسوی تک صرف ایک آدمی نے اس پر غور کیا کہ سیب زمین پر کیوں گرتا ہے جبکہ چاند و ستارے زمین پر نہیں گرتے اور اس شخص نے اس غورو فکر کے نتیجے میں قوت کشش کا قانون دریافت کیا ۔
ہزاروں سائنس دانوں نے دنیا کے مشرق اور مغرب میں آٹھویں صدی کے آغاز تک بطلیموس کے آفتاب کی زمین کے ارد گرد حرکت کا مطالعہ کیا لیکن کسی نے بھی اپنے آپ سے یہ نہ پوچھا کہ سورج جو بروج کے احاطہ میں واقع ہے اور وہاں سے زمین کے ارد گرد چکر لگاتا ہے آخر وہ کس طرح ہر رات دن میں ایک بار اس احاطے کو چھوڑ کر زمین کے اطراف میں گردش کرنا شروع کر دیتا ہے جس کے نتیجے میں رات دن وجود میں آتے ہیں ۔
اسکندریہ جو مصر میں واقع ہے جب وہاں سلسلہ بطالسیہ کے پہلے بادشاہ نے کتابخانہ بنوایا ۔ اس زمانے سے لیکر کتابخانے کے عربوں کے ہاتھوں جلائے جانے اور ویران کرنے تک یعنی تقریبا نو سو سال تک دنیا کا علمی مرکز تھا ۔ اور جن سائنس دانوں نے اسکندریہ کے علمی مکتب سے کسب فیض کیا بہت مشہور ہو گزرے ہیں اور اس مکتب میں چند فلسفیانہ نظیرئے بھی وجود میں آئے جو کافی شہرت کے حامل ہیں ۔
مگر حیرانگی اس بات پر ہے کہ وہ سائنس دان اور مفکرین جو اسکندریہ کے علمی مکتب سے فیض یاب ہوئے انہیں بھی یہ خیال نہ آیا کہ کس طرح سورج جو بارہ برجوں میں زمین کے اطرفاف میں گردش کرتا ہے کیسے دن رات میں ایک بار وہ جگہ چھوڑ کر زمین کا چکر لگانا شروع کر دیتا ہے ؟ اور ایک چھوٹے سے عرب لڑکے نے ایک چھوٹے سے شہر مدینہ میں آٹھویں صدی عیسوی کے شروع میں جبکہ یہ شہر دارالخلافہ تھا نہ اسے مرکزیت حاصل تھی اس مسئلے پر غور کیا ۔
اس گیارہ سالہ بچے کی عقل کو اس علمی مسئلہ کی مناسبت سے مکتب اسکندریہ کے تمام سائنس دانوں اور ساری دنیا کے علماء کی عقل پر برتری حاصل تھی ۔
جعفر صادق اس وقت کمسنی کے باعث اجتماعی سوچ نہیں رکھتے ہوں گے اور ان پر اقتصادی بوجھ بھی نہ ہو گا کیوں کہ وہ کفالت کی ذمہ داری سے مبرا تھے ۔
لیکن علمی و عقلی لحاظ سے خاصے سمجھدار تھے اور علوم یا علم ہیئت سے ایسے نکات بھی سمجھ سکتے تھے جن کو سمجھنے سے عام انسان قاصر تھا دوسرے لوگوں کی علمی سوچ جعفر صادق کی فکر سے اس قدر پست تھی کہ جب آپ نے کہا کہ زمین کے گرد سوج کی گردش قابل قبول نہیں ہے تو انہوں نے اس پر غور نہ کیا ۔
تمام دانشمند لوگوں کے ساتھ اس طرح ہوتا ہے جس طرح جعفر صادق کے ساتھ ہوا ۔ معاشرے کے دوسرے افراد ان کے عمیق نظریات اور عقلی قوت کو نہ سمجھ سکے ۔
عام لوگ ‘ بلند خیالات اور گہری نظر رکھنے والوں کی مانند اپنے ماحول کا جائزہ نہیں لے سکتے ۔ اور وہ عقل کو صرف ضروریات زندگی کے حصول میں صرف کرتے ہیں اور اسی لئے عقل مند لوگوں کے نظریات انہیں بے وقعت معلوم ہوتے ہیں اور بعض اوقات تو عاقل انسانوں کو دیوانہ خیال کیا جاتا ہے آج نظام شمسی کی جانب انسان کی ساری پروازیں نیوٹن کے کشش ثقل کے قانون کی بنیاد پر ہیں اور تمام وہ انسان جنہوں نے چاند پر قدم رکھا وہ نیوٹن کے احسان مند ہیں جس نے کشش ثقل کا قانون دریافت کیا ۔
لیکن نیوٹن کے دور میں کشش ثقل کے قانون کے دریافت جو بے شک کائنات کے بارے میں بنی نوع انسان کے وضع کئے گئے قوانین میں اب تک سب سے بڑا قانون ہے جبکہ عام آدمی کی نظر میں اس کی ذرہ بھر وقعت نہ تھی ۔
(ڈیلی نیوز لندن ) جو پہلے پہلے انگلستان میں چھپنے والا سب سے پہلا ہفت روزہ تھا نہ صرف یہ کہ اس ہفت روزہ نے قوت تجاذب کے قانون کی خبر نہ چھا پی بلکہ اس کے چند سال بعد تک یہ عظیم علمی ایجاد کسی انگریز اخبار میں نہ چھپی ۔ اور اخبارات کے ایڈیٹر صاحبان کی نظر میں ڈاکہ زنی یا قتل کی خبر اس خبر سے زیادہ اہمیت کی حامل ہوتی تھی کیوں کہ ڈاکہ زنی یا قتل کی خبر کا تعلق لوگوں کی اور خود ایڈیٹر صاحبان کی روز مرہ زندگی سے ہوتا تھا ۔
صرف چند سائنس دانوں کو علم تھا کہ نیوٹن نے یہ قانون ایجاد کر لیا ہے اور حسد کی وجہ سے انہوں نے نہ چاہا کہ اس قانون کی دریافت کی خبر لوگوں تک پہنچے یہاں تک کہ وقت کے گزرنے کے ساتھ ساتھ ان کے حسد میں کمی آئی اور انہوں نے نیوٹن کی قدردانی کے طور پر اسے "سر " کا خطاب دیا ۔
ممکن ہے کوئی یہ کہے کہ اگر ساتویں صدی عیسوی میں لوگوں نے نیوٹن جیسے عظیم انسان کی ایجاد کی طرف توجہ نہیں دی ۔ تو اس پر ہمیں حیران نہیں ہونا چاہیے کہ آٹھویں صدی عیسوی کے آغاز میں جعفر صادق کے علمی مطالب کی جانب کیوں توجہ نہیں دی گئی لیکن انگلستان کے کوچہ و بازار کے عام لوگوں اور امام محمد باقر کے حلقہ درس میں حاضر ہونیوالوں میں فرق موجود تھا لندن کے عام لوگوں اور انگلستان کے عام شہریوں کیلئے علمی مسائل بے وقعت تھے وہ لوگ جو محمد باقر کے حلقہ درس میں حاضر ہوتے تھے ۔ ان کا شمار اہل علم حضرات میں ہوتا تھا انہیں جعفر صادق کے مطالب کے بارے میں بے اعتنائی نہیں برتنی چاہیے تھی ۔
اگر اس وقت تک خود انہیں یہ سمجھ نہیں آیا تھا کہ زمین کے اطراف میں سورج کی گردش اس ترتیب سے ناممکن ہے تو جب امام جعفر صادق نے ان کو آگاہ کر دیا تھا کہ اس موجودہ ترتیب کے ساتھ سورج کی زمین کے اطراف میں گردش قابل قبول نہیں ہے تو انہیں امام جعفر صادق کی وضاحت کو قبول کرکے اس نظریہ کو رد کر دینا چاہیے تھا اور دن رات کی تبدیلی کیلئے کوئی اور وجہ تلاش کرنا چاہیے تھی لیکن ان کی علمی سوچ اس قدر محدود تھی کہ انہوں نے ایک گھنٹہ تک بھی امام جعفر صادق کے ساتھ اس مسئلے پر تبادلہ خیال نہ کیا ۔
امام محمد باقر کے تمام شاگردوں میں جعفر صادق کی علمی استعداد بلند ہونے کے باوجود محض کمسن ہونے کے باعث کسی نے ان کی طرف توجہ نہ دی ۔ محمد باقر کے شاگردوں نے اس گیارہ سالہ لڑکے کی گفتگو کو پچپن کی گفتگو کا ایک حصہ سمجھا ۔
جیسا کہ ہم جانتے ہیں بچے جب بچپن کے ابتدائی سال گزار کر ساتویں یا آٹھویں سال میں ہوتے ہیں تو ان کی قوت حس میں غیر معمولی اضافہ ہو جاتا ہے جس کی وجہ سے وہ ہر چیز کے بارے میں جاننا چاہتے ہیں اور والدین سے ہمیشہ چیزوں کے اسباب اور حالات کے متعلق خصوصی سوالات کرتے رہتے ہیں اور بعض بچے تو اس طرح لگاتار سوال کرتے ہیں کہ ان کے والدین تنگ آ جاتے ہیں عمر کے اس مرحلے میں بچہ چاہتا ہے کہ وہ بالغ لوگوں سے زیادہ ہر چیز کے بارے میں جان لے اور تمام چیزوں اور حالات کے اسباب معلوم کرے اگر والدین نے اس بچے کو مطمئن کر لیا تو وہ خاموش ہو جاتا ہے ا ور مزید سوالات نہیں کرتا ۔
جعفر صادق کے منطقی بیانات ان کے والد گرامی کے شاگردوں کی نظر میں بچگانہ سوالات ہوتے تھے جو وسوسوں کی پیدوار ہیں اور اس کے بعد ہر مرتبہ جعفر صادق جب سورج کی زمین کے گرد عدم گردش کا مسئلہ پیش کرتے تھے تو وہ اپنے والد کے شاگردوں کی عدم توجہی کا شکار ہو جاتے تھے ۔
آپ کہتے اس کرہ آسمانی میں بتایا گیا ہے کہ سورج زمین کے اطراف میں ایک دائرہ میں جس میں بارہ برج ہیں گردش کر رہا ہے اور اگر اس بات کو مان لیں کہ سورج زمین کے ارد گرد دن و رات میں ایک دفعہ چکر لگاتا ہے تو لازمی ہے کہ ایک سال وہ زمین کے اطراف میں بروج کے احاطہ میں گردش نہ کرے اور میں یہ کہتا ہوں کہ ان دو میں سے ایک حرکت عقلی لحاظ سے قابل قبول نہیں ہے ۔
سورج اگر سال میں ایک بار بروج کے احاطہ میں زمین کے ارد گر د چکر لگاتا ہے تو صاف ظاہر ہے کہ دن و رات میں ایک دفعہ زمین کے ارد گرد چکر نہیں لگا سکتا اور جب کبھی دن و رات میں ایک دفعہ زمین کے اطراف میں چکر لگائے تو لازمی بات ہے کہ ہر سال میں ایک بار بروج کے احاطے میں زمین کے اطراف میں چکر نہیں لگا سکتا ۔
یہ منطقی نظریہ جسے آج ہر خاص و عام قبول کرتے ہیں محمد باقر کے حلقہ درس میں حاضر ہونے والے شاگردوں کیلئے قابل قبول نہ تھا ۔ اور اسے وہ طفلانہ خیال سمجھتے تھے ۔ لیکن اگر کوئی بالغ اور کامل انسان بھی اس نظریہ کو پیش کرتا تو پھر بھی یہ محال تھا کہ وہ اسے قبول کر لیتے ۔ کیونکہ کو پر نیک پولینڈی نے جب سہولویں صدی میں جعفر صادق کے یہی الفاظ دہرائے تو کسی نے اس کے قول کو قبول نہ کیا ۔
اگر کوپر نیک فرانس یا جرمنی یا اسپانیا میں سے ایک ملک میں ہوتا تو ضرور عقیدہ کے بارے میں تفتیش کرنے والی تنظیم کے ہاتھوں گرفتار ہو جاتا اس تنظیم کا سربارہ ایک بے رحم اورمتعصب شخص تھا ۔ جس کا نام نور کماوا تھا ۔ وہ معمولی باتوں پر بھی عیسائیوں کو جیل بھیج دیتا تھا اور انہیں شکنجہ دیتا تھا تاکہ وہ ارتکاب جرم کریں اور اس کے بعد انہیں سزا دیتا تھا ۔
لیکن پولیند کا ملک اس تنظیم کی دسترس سے باہر تھا اسی لئے جب کو پرنیک نے کہا کہ زمین اور دوسرے سیارے سورج کے گرد گردش کرتے ہیں تو اسے کسی نے کچھ نہ کہا ۔
یہ وہی تنظیم ہے جس نے گیلیلیو کو توبہ و استغفار پر مجبور کیا تھا جس نے کہا تھا کہ زمین سورج کے گرد گھومتی ہے بہت سے لوگوں کا خیال تھا کہ گیلیلیو وہ پہلا انسان ہے جس نے کہا زمین سورج کے اردگرد گھومتی ہے حالانکہ ایسا نہیں ہے بلکہ یہ کوپرنیک ہے ۔ گیلیلیو نے اپنی ایجاد کرنے کے ساتھ یہ کہا تھا کہ میں کوپر نیک کی تائید کرتا ہوں اور کہا میرے نجومی مشاہدات اور میری ٹیلی سکوپ نے مجھ پر ثابت کر دیا ہے کہ کوپر نیک کا نظریہ درست ہے اور زمین و سیارات سورج کے گرد گھومتے ہیں ۔
لیکن وہ یہ بات بھول گیا تھا کہ وہ ایک ایسے ملک میں رہ رہا ہے جہاں عقیدہ کی تفتیشی تنظیم کا اقتدار ہے اور اگر چند سیاسی لوگ اپنا اثر و رسوخ استعمال کرکے اس کی سفارش نہ کرتے تو وہ زندگی آگ میں ڈال دیا جاتا اس کے باوجود کہ سیاسی وڈیروں نے اس کی سفارش بھی کر دی تھی پھر بھی اسے کہا گیا کہ زمین کی گردش کے بارے میں اپنے الفاظ واپس لے ۔
اور گیلیلو کا توبہ نامہ بھی ثابت کرتا ہے کہ اس نے خود یہ نظریہ اختراع نہیں کیا تھا بلکہ کوپر نیک کی نقل کی تھی ۔
امام باقر اور ولید کی ملاقات
اس میں تردید کی کوئی گنجائش نہیں کہ ۹۱ ہجری میں (جب پہلا آسمانی کرہ مصر سے مدینہ لا کر محمد باقر کی خدمت میں پیش کیا گیا تھا ) اس کیفیت سے زیادہ آزاد علمی حالت قرون وسطی میں یورپی یونیورسٹیوں میں تھی بلکہ قرون اول اور دوم علمی احیاء کے ادوار تھے چونکہ امام جعفر صادق نے اس سال سورج کی زمین کے گرد گردش پر تنقید کی اور کہا جاتا ہے کہ یورپی یونیورسٹیوں کے طلباء علمی احیاء کی پہلی اور دوسری صدی میں سورج کی زمین کے گرد گردش کے نظریئے پر تنقید نہ کر سکے ۔ صحیح نہیں ہے مجموعی طور پر اسلام میں علمی نظریات کے بارے میں یورپ کی نسبت اظہار خیال کی زیادہ آزادی ہے اگر چہ یہ علمی نظریات مذہب سے بھی مربوط ہوتے تھے اور حتی کہ نظریاتی نقطہ نگاہ سے عباسیوں کا دور حکومت ظالم ترین دور شمار ہوتا ہے پھر بھی اس دور میں ایک اسلامی دانشمند یورپ کی نسبت زیادہ آزادی سے اظہار خیال کر سکتا تھا ۔
بعض نظریاتی مباحث کے بارے میں عباسی خلفاء کی سختی مثلا قرآن کے مسئلہ قدمت اور حدوث کے بارے میں اظہار خیال پر ان کی پابندی اس لئے تھی کہ انہیں اپنی حکومت کے کھو جانے کا ڈر ہوتا تھا ۔ مگر ہر اس علمی بحث پر پابندی نہ تھی جس سے وہ نہیں ڈرتے تھے ۔ اور انہیں اندیشہ نہ ہوتا تھا کہ وہ علمی بحث انہیں نقصان پہنچائے گی ۔
اسکے بارے میں انہوں نے علماء کو اظہار خیال کی آزادی دی ہوئی تھی جو کچھ جعفر صادق نے زمین اور سورج کے بارے میں فرمایا تھا (اور علانیہ زبان پر لائے تھے ) اگر یورپ میں زبان پر لاتے تو اس کا فوری نتیجہ یہ ہوتا کہ آپ کو کافر قرار دیکر آپ کا بائیکاٹ کر دیا جاتا اگر کوئی تیرھیوں صدی کے آغاز کے بعد ایسا اظہار خیال کرتا تو کافر قرار دینے کے علاوہ اسے آگ میں بھی ڈالتے تھے اور اگر تیرھیوں صدی سے پہلے اس نظریہ کو یورپ میں پیش کرتا تو مذہبی علماء کی کمٹی ورون کے وضع کردہ قانون کے مطابق جو ۱۱۸۳ ء میں بنایا گیا تھا اس کا سر تن سے جدا کر دیا جاتا تھا ۔عیسائی پوپ جرجیس نہم جس نے ۱۲۳۳ ء میں عقیدے کی چھان بین کی کمیٹی تشکیل دی تھی اور اس کے بعد مرید مصنفین کو جلانے کا کام شروع ہو گیا تھا ۔ اور یہ تنظیم (ایکریسیوں ) خصوصا یونیورسٹیوں میں پوچھ گچھ کرتی تھی اس استاد کی شامت آ جاتی تھی جو کسی جلسے میں ایسا تنقیدی درس پڑھا دیتا جو رواج کے خلاف ہوتا اور اس طالب علم کی بھی شامت آ جاتی جو درس کے دوران رواج کے خلاف تنقیدی سوال اٹھاتا ۔
اور پھر بغیر کسی حیل و حجت کے اسے گرفتار کر لیتے اور اس تنظیم کی کسی ایک جیل میں بھیج دیتے حتی کہ اس کی باری آنے پر اسے سزا دی جاتی یہ تنظیم ۱۸۰۸ ء میں نپولین اول بادشاہ فرانس نے ختم کیا ور جب نپولین کی حکومت ختم ہوئی تو دوبارہ یہ تنظیم ۱۸۱۴ ء میں سپین میں تشکیل دے دی گئی اور ۱۸۳۴ ء تک قائم رہی ۔ لیکن اسکے بعد اس کی تشکیل نہیں ہوئی ۔
یورپ کی علمی جہالت اور اسی زمانے میں اسلامی ممالک کی علمی ترقی کا اصل سبب یہ تھا کہ یورپ میں اہل علم حضرات کو علمی نظریات کے اظہار کی آزادی نہ تھی جبکہ اسلامی ممالک میں علمی نظریات کے اظہار خیال کی مکمل آزادی تھی اس کے باوجود کہ مشرق سے علم کی روشنی یورپ تک پہنچ رہی تھی مگر اتنی نہ تھی کہ ایک مختصر عرصہ تک یورپ کی تاریکی پر غلبہ پا لیتی ۔
یورپ میں اس قدر علمی تاریکی چھائی ہوئی تھی کہ مشرق کی روشنی صرف اس کے کچھ حصے یعنی صرف علم طب کو منور کر سکی اور یورپ میں طب کا ماہر کوئی بھی ایسا شخص نہ تھا جس نے از جوزہ ابن سینا کا نام لاطینی زبان میں نہ سنا ہو لیکن مشرق کی سر زمین سے ادب و ہیت وارد کرنے کی اجازت نہ تھی کیونکہ مشرق کی سر زمین میں مسلمان شعرا ایسے شعر پڑھتے تھے جنہیں عقیدے کے بارے میں تفتیش کرنے والی تنظیم یورپی ممالک میں چھپنے کی اجازت نہیں دے سکتی تھی کیونکہ اس طرح یورپی شعرا بھی ان کی تقلید کرنے لگتے یہ اشعار یورپی قوموں کو بیدار کرتے تھے مشرقی علماء کا وفد بھی یورپ نہ گیا کیوں کہ عقائد کی تفتیش کرنے والی تنظیم چاہتی تھی کہ یورپی یونیورسٹیاں مشرقی علماء کے وفد سے معلومات حاصل کریں ۔
جیسا کہ ہم نے کہا ۹۱ ھ میں جعفر صادق کو دو نئے واقعات پیش آئے پہلا واقعہ یہ تھا کہ ان کے والد گرامی کیلئے آسمانی کرہ لایا گیا اور پہلی مرتبہ جعفر صادق نے ایک آسمانی کرہ دیکھا اور ہم نے دیکھا کہ اس کا نتیجہ کیا نکلا ؟
دوسرا واقعہ یہ تھا کہ ولید بن عبدالملک اموی خلیفہ دارالحکومت دمشق سے چلا اور چند شہروں کا معائنہ کرنے کے بعد مدینہ پہنچا ۔ وہ یورپی شان و شوکت چھوٹے روم ‘ بینرانس کے بادشاہ کی مانند سفر کرتا تھا اور اس کے ہمراہ خلیفہ کے درباری لوگوں کے بھی چند دستے ہوتے تھے تاکہ خلیفہ کے آرام اور خاطر تواضع میں ذرا بھی فرق نہ آئے ۔ عمر بن عبدالعزیز ‘ حاکم مدینہ تقریبا ایک سو اسی کلو میٹر تک اس کے استقبال سے پہلے خلیفہ کے قیام کیلئے ایک بہترین گھر منتخب کیا اور چونکہ اسے علم تھا کہ ایک وفد بھی خلیفہ کے ہمراہ ہو گا تو ان کی مہمان نوازی کیلئے بھی گھروں کا تعین کیا ۔
خلیفہ مدینہ میں داخل ہوا اور اطلاع عام دی گئی کہ کل عام ملاقات کا دن ہے جو کوئی بھی ولید بن عبدالملک سے ملناچاہے گا ۔ بادشاہ اس سے ملاقات کرے گا ۔
عمر بن عبدالعزیز جانتا تھا کہ امام محمد باقر ولید بن عبدالملک کی ملاقات کیلئے نہیں جائیں گے اور ممکن ہے اس وجہ سے محمد باقر زیر عتاب آ جائیں ۔ لہذا وہ محمد باقر کے پاس گیا اور ان سے کہا کیا آپ ولید سے ملنے جائیں گے ؟ محمد باقر نے نفی میں جواب دیا ۔ عمر بن عبد العزیز نے نہ پوچھا کہ کیوں اسے ملنے نہیں جاتے ۔ ؟ کیوں کہ یہ سوال اتنا ضروری نہ تھا اور حاکم مدینہ جانتا تھا کہ محمد باقر ولید کو خلیفہ نہیں سمجھتے کجا یہ کہ وہ اسے ملنے جاتے ۔ عمر بن عبدالعزیز نے کہا اس شہر کی آپ سے اتنی نسبت ہے کہ اسے آپ کا گھر کہا جا سکتا ہے اور گویا ولید بن عبدالملک آپ کے گھر آیا ہے کچھ بھی ہو آخر وہ ایک مسلمان ہے اور اگر فرض کریں ایک کافر آپ کے گھر بطور مہمان آئے تو کیا آپ اس کا احترام نہیں کریں گے ۔
محمد باقر نے فرمایا ایک مہمان کے میرے گھر آنے اور ولید کے آنے میں فرق ہے ولید نے اپنے آپ کو خلیفہ قرار دیا ہے وہ گھر کے مالک کی مانند اس شہر میں آیا ہے ۔ عمر بن عبدالعزیز نے کہا ۔ مجھے علم ہے آپ کیوں اس سے ملنے نہیں جاتے آپ کا خیال ہے کہ جب آپ ولید سے ملنے جائیں گے تو لوگوں کے ذہن میں یہ بات آئے گی کہ آپ نے ولید کی بیعت کر لی ہے ۔
محمد باقر نے حاکم مدینہ کی تصدیق کی عمر بن عبدالعزیز نے کہا آپ کے اجداد میں سے ایک نے ‘ میں یہ نہیں کہتا کہ اپنی رضا مندی سے بلکہ مسلمانوں کی مصلحت کے پیش نظر ایک اموی خلیفہ سے صلح کی اور کسی نے بھی نہ کہا کہ انہوں نے اس خلیفہ کی بیعت کر لی تھی اور آپ بھی ولید سے ملنے جائیں گے تو کوئی یہ نہیں کہے گا کہ آپ نے اس کی بیعت کر لی ہے ۔ محمد باقر نے فرمایا میں اس سے ملنے کیلئے نہ جانے کو ترجیح دیتا ہوں ۔ عمر بن عبدالعزیز نے کہا اگر آپ اسے دیکھنے نہیں جائیں گے تو پتہ ہے میرے لئے کیا مصیبت کھڑی ہوگی ؟
حاکم مدینہ نے کہا ولید کو یہ علم ہے کہ میں آپ اور آپ کے خاندان کا عقیدت مند ہوں اور آپ سے عرض کر دوں کہ ولید کے پاس اطلاعات حاصل کرنے کیلئے ایک خفیہ مشینری ہے یہ مشینری معاویہ کے زمانے سے چلی آ رہی ہے اور جو کوئی بھی اموی خلیفہ آیا اس نے اس مشینری سے فائدہ اٹھایا اس مشینری کے افسروں نے ضرور خلیفہ کو بتایا ہو گا کہ میں آپ کا عقیدت مند ہوں اور اگر آپ ولید سے ملنے نہیں جائیں گے تو وہ مجھ پر غضب ناک ہو گا اور کہے گا اگر تم اس کی عقیدت مندی کا اظہار نہ کرتے تو ہر گز وہ اتنا مغرور نہ ہو تا کہ آج وہ مجھے ملنے بھی نہیں آیا اور اس طرح وہ مجھے مدینہ کی گورنری سے معزول کر دے گا ۔
محمد باقر نے جواب دیا میں مغرور نہیں ہوں صرف جی نہیں چاہتا کہ میں ولید سے ملاقات کرنے جاؤں لیکن تمہاری ان باتوں کے بعد میں راضی ہوں اور کل اس سے مل لوں گا ۔ عمر بن عبدالعزیز خوش ہوا اور کہا کیا میں خلیفہ کو جا کر بتا سکتا ہوں کہ آپ کل اس سے ملنے جائیں گے ؟
محمد باقر نے جواب دیا ہاں ! دوسرے دن محمد باقر ولید سے ملاقات کرنے چلے گئے جس وقت آپ داخل ہوئے ولید اٹھ کھڑا ہوا ۔ اور اپنے برابر بٹھایا عرب ان لوگوں کا بے حد احترام کرتے تھے جو بلا واسطہ کسی بڑے قبیلے کے سربراہ ہوتے تھے اور اسی طرح محمد باقر نہ صرف یہ کہ اپنے قبیلے کے سربراہ تھے بلکہ ولید کی نظروں میں ایک عظیم عالم بھی تھے ۔ اور اموی خلیفہ ان کے علمی مقام کی وجہ سے بھی ان کا احترام کرتا تھا ۔ بنی امیہ کی نسل کے اکثر خلفاء اگرچہ باطن میں علم سے لگاؤں نہیں رکھتے تھے مگر پھر بھی ظاہری طور پر وہ علماء سے اپنی عقیدت مندی کا اظہار کرتے تھے ۔
اس دن امام محمد باقر اور اموی خلیفہ کے درمیان عام مسائل کے علاوہ کسی خاص مسئلہ پر گفتگو نہ ہوئی اور اگر دو آدمیوں کے گفتگو کرنے کیلئے کوئی خاص موضوع نہ ہو یا وہ کسی مصلحت کے تحت آپس میں گفتگو نہ کرنا چاہتے ہوں تو وہ روز مرہ کے عام مسائل کے بارے میں گفتگو کرتے ہیں اور عموما ان کی گفتگو آب و ہوا اور زرعی پیدوار کے متعلق ہوتی ہے ۔
ولید بن عبدالملک نے چاہا کہ کوئی بات کرے تو اس نے بات کا آغاز مدینہ کی زرعی پیدوار سے کیا چونکہ اس سال بارش بر وقت ہوئی تھی مدینہ کے کسانوں کو علم تھا کہ اچھی پیدوار ہو گی لہذا محمد باقر نے بھی یہی جواب دیا ۔
ولید نے محمد باقر سے ان کی جائیداد کے بارے میں سوال کیا کیونکہ وہ چاہتا تھا کہ معلوم کرے وہ کتنی جائیداد کے مالک ہیں ۔ انہوں نے جوابا فرمایا ‘ ان کی ملکیت ایک قطعہ اراضی ہے جو محض ان کے کنبہ کی کفالت کرتا ہے اس سے اضافی پیدوار نہیں ہوتی جسے فروخت کیا جا سکے ۔
ولید نے کہا اگر آپ چاہتے ہوں تو جس جگہ بھی آپ کہتے ہیں مدینہ میں یا اس کے باہر آپ کو اتنی جائیداد الاٹ کر دیتا ہوں جو آپ کیلئے بھی کافی ہو اور بعد میں آپ کی آئندہ نسل بھی اس سے مستفید ہو ۔
امام محمد باقر نے فرمایا اگر میرے بیٹے زندہ رہے تو وہ کام کریں گے اور اپنی روزی خود پیدا کریں گے اور میرے خاندان کیلئے یہ قطعہ اراضی کافی ہے اگرچہ اس سے کوئی زیادہ پیدوار نہیں ہوتی مگر میرے زیر کفالت افراد بھوکے نہیں رہتے امام محمد باقر نے اس گفت و شنید کے بعد ولید کو خدا حافظ کہا اور اٹھ کر چلے گئے ۔
اموی خلیفہ کا مدینے آنے کا بڑا مقصد یہ تھا کہ وہ یہ دیکھے کہ اس کے مدینے کی مسجد میں توسیع کے حکم پر کس طرح عمل ہوا ہے ؟ اس موقع پر محمد باقر روز مرہ کے مطابق مسجد میں درس پڑھانے میں مشغول تھے (کیونکہ صرف جمعہ کے دن تعطیل ہوتی تھی ) اور جعفر صادق بھی اپنے باپ کے حلقہ درس میں حاضر تھے جب خلیفہ مسجد میں داخل ہوا تو اس نے اس کی توسیع پر اطمینان کا اظہار کیا اور پھر مسجد کے اس حصے کی طرف چلا جس پر چھت پڑی ہوئی تھی اور جہاں اس وقت محمد باقر درس پڑھا رہے تھے ۔ سلسلہ درس ولید کے آنے پر منقطع ہو گیا لیکن اس نے محمد باقر سے عرض کی کہ درس پڑھانا جاری رکھیں اتفاق سے اس دن جغرافیا پڑھایا جا رہا تھا اور ولید کو اس علم کے بارے میں مطلق علم نہ تھا وہ استاد کی باتوں کو غور سے سنتا رہا اور آخر کار اپنی حیرت کو نہ چھپا سکا ۔ اس نے امام محمد باقر سے پوچھا یہ علم جو آپ پڑھا رہے ہیں کونسا علم ہے ؟
امام نے فرمایا یہ جغرافیا اور ہیت ہے ولید نے کہا یہ علم کس بارے میں بحث کرتا ہے ؟ محمد باقر نے فرمایا یہ زمین اور آسمانی ستاروں کے بارے میں بحث کرتا ہے ولید جس نے اس وقت تک جعفر صادق کو نہیں دیکھا تھا جس وقت اس کی نظر ان پر پڑی تو حاکم مدینہ سے پوچھا یہ لڑکا یہاں کیا کرتا ہے ؟
عمر بن عبدالعزیز نے کہا وہ محمد باقر کے فرزند ہیں اور دوسرے طالب علموں کی مانند یہاں درس پڑھتے ہیں ولید نے کہا یہ بچہ کس طرح اس حلقہ درس سے استفادہ کرتا ہے ؟ حاکم مدینہ نے کہا ۔ اس لڑکے کی علم حاصل کرنے کی استعداد ان تمام طالب علموں سے زیادہ ہے جو اس حلقہ درس میں شریک ہوتے ہیں ولید نے جعفر صادق کو اپنے پاس بلایا ‘ جب آپ قریب تشریف لائے تو ولید نے انہیں نہایت غور سے دیکھنے کے بعد کہا یہ تو ابھی لڑکا ہے یہ کسی طرح یہاں پڑھتا ہے ؟ عمر بن عبدالعزیز نے کہا بہتر یہ ہے کہ خلیفہ اس کا امتحان لے تاکہ اس کی سمجھ میں یہ بات آئے کہ یہ لڑکا علماء میں سے ہے خلیفہ نے امام سے پوچھا آپ کا نام کیا ہے ؟ آپ نے جواب دیا میرا نام جعفر ہے خلیفہ نے پوچھا ‘ جعفر کیا تم جانتے ہو کہ صاحب المنطق کون تھا ؟ جعفر صادق نے فورا جواب دیا "ارسطو" اور یہ لقب اس کے شاگردوں نے اس کو دیا تھا خلیفہ نے پوچھا کیا تم بتا سکتے ہو کہ صاحب المعز کون تھا ؟ جعفر صادق نے جواب دیا یہ کسی انسان کا نام نہیں بلکہ ستاروں کے ایک گروہ کا نام ہے جو عسک الاعنہ بھی کہلاتا ہے ۔
خلیفہ جو پہلے ہی حیرت زدہ ہو گیا تھا پوچھا کیا تمہیں معلوم ہے صاحب السواک کون تھا ؟ جعفر صادق نے فرمایا صاحب السواک ‘ عبداللہ بن مسعود کو کہا جاتا ہے جس کا کام میرے جد بزرگوار رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی خدمات کا کچھ حصہ انجام دینا تھا ۔ولید بن عبدالملک نے چند دفعہ مرحبا کہا اور محمد باقر سے مخاطب ہوکر بولا آپ کا یہ لڑکا دنیا کے عظیم ترین دانشمندوں میں سے ایک ہوگا
ولیدبن عبدالملک کا خیال امام جعفر صادق کے بارے میں درست ثابت ہوا اور وہ نہ صرف قابل دانشمند بلکہ اپنے زمانہ کے قابل ترین دانشمند کہلائے اور صاحب بن عباد جو ۳۸۵ ہجری قمر میں " رے " میں فوت ہوا ۔ جسے اصفہان میں دفن کیا گیا ہے نے کہا کہ بعد از رسول اسلام میں جعفر صادق سے بڑا دانشمند کوئی نہیں گزارا اور یہ نظریہ صاحب بن عباد کا ہے جس کے علم و فضل میں کسی کو شک و شبہ نہیں اور یہاں یہ بات اہم ہے کہ ایسا اتفاق کم ہوتا ہے کہ ایک عالم دوسرے عالم کو اپنے آپ سے افضل قرار دے ۔
صاحب بن عباد کے بارے میں دو شبہات پائے جاتے ہیں جن کی درستی ہونی چاہیے پہلی یہ کہ اسے عرب خیال کیا جاتا ہے حالانکہ وہ ایک ایرانی الاصل ہے اور طالقان قزوین میں پیدا ہوا ابتدائی تعلیم وہیں حاصل کی ا ور بعد میں " رے " گیا اور مزید تعلیم جاری رکھی ہمارا مقصد یہاں صاحب بن عبادکی زندگی کے حالات بیان کرنا نہیں ہے کیونکہ وہ ایک مشہور سیاستدان اور دانشمند انسان ہو گزارا ہے بلکہ ہمارا مقصد یہ ہے کہ اس کے بارے میں دو شبہات کی درستی کی جائے ۔ چونکہ صاحب بن عباد نے اپنی کتابیں عربی میں لکھیں ۔ کیونکہ قدیم زمانے میں ایرانی دانشمند اپنی کتابیں عربی میں لکھتے تھے ۔ صاحب بن عباد فارسی کا ماہر تھا کیونکہ وہ آل بو یہ شہنشاہوں کی وزارت سنبھالنے کے علاوہ شعر بھی کہتا تھا جو کوئی بھی اس کے شعر پڑھے وہ بخوبی اس بات کو درک کر سکتا ہے صاحب بن عباد فارسی زبان پر پوری دسترس رکھا تھا ۔
اس کے متعلق دوسری غلط فہمی یہ ہے کہ کہا جاتا ہے وہ سنی العقیدہ مسلمان تھا جبکہ وہ یقینا شیعہ تھا اور اس کے شیعہ ہونے کی دلیل علی ابن ابی طالب کے خاندان اور امام موسی کاظم اور علی بن موسی رضا سے اس کی عقیدت تھاا ور ان سب سے زیادہ وہ جعفر صادق سے عقیدت رکھتا تھا اس دلیل کے علاوہ اسکا شیعہ ہونا قرینے سے بھی ثابت ہے حالانکہ دلائل دینے کے بعد قرینے سے ثابت کرنے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ کسی عنوان کو ثابت کرنے کیلئے دلیل قرینے سے زیادہ طاقتور ہوتی ہے ۔
جیسا کہ ہم کہتے ہیں قرینے سے پتہ چلتا ہے صاحب بن عباد شیعہ تھا وہ قرینہ یہ ہے کہ وہ آل بویہ بادشاہوں کا وزیر تھا اور آل بویہ سلسلہ کے بادشاہ شیعہ المذہب تھے اور کسی حد تک آل بویہ کے دور میں شیعہ مذہب کے پھیلنے کی وجہ سے صاحب بن عباد کا شیعہ ہونا ہے اور وہ ایرانی محقیقین جنہوں نے صاحب بن عباد کو جعفر صادق کے عقیدت مندوں میں شمار کیا ہے اور شیعہ اثناء عشری سمجھا ہے ان میں سے ان لوگوں کے نام لئے جا سکتے ہیں ۔
محمد بن علی بن حسین بن موسی بن بابویہ قمی جو شیخ صدوق کے لقب سے معروف ہوئے اور جو شیعوں کی چار بڑی ‘ کلاسیکل کتابوں میں سے ایک " من لا یحضرہ الفقیہہ " کے مصنف ہیں اور ان کا نظریہ اس لئے بھی زیادہ اہمیت کا حامل ہے کہ وہ موصوف کے ہم عرص تھے انہوں نے موصوف کو بہت قریب سے دیکھا تھا شیخ صدوق مبالغہ گو نہیں تھے اور خصوصا مذہب کے معاملے میں ان جیسا انسان حقیقت کے خلاف نہیں لکھتا ۔
شیخ بھائی عاملی جو صفوی دور کے مایہ ناز عالم تھے انہوں نے واصح طور پر صاحب بن عباد کو شیعہ اثنا عشری کہا ہے ۔
علامہ مجلسی جو صفوی دور کے عالم اور مشہور کتاب بحار الانوار کے مصنف ہیں بھی صاحب بن عباد کے شیعہ ہونے کے قائل ہیں ۔
تینوں اشخاص شیعوں کے نزدیک بہت قابل احترام ہیں اسی لئے ہم نے یہاں ان کا ذکر کیا ہے ورنہ بہت سے مورخین اور محقیقین ایسے ہیں جنہوں نے صاحب بن عباد کو شیعہ گردانا ہے ۔
اور ان اشعار کا ذکر بھی کیا ہے جو اس نے علی بن ابی طالب اور دوسرے ائمہ کی مدح میں کہے ہیں ان اشعار کو پڑھنے والا آسانی سے یہ بات سمجھ لیتا ہے کہ شیعہ کے علاوہ کوئی دوسرا شخص اس قسم کے اشعار نہیں کہہ سکتا ۔
ایسے لوگ بھی ہیں جنہوں نے صاحب بن عباد کو سنی العقیدہ کہا ہے اور جس نے زور دے کر یہ کہا وہ ابو حیان توحیدی ہے جو صاحب بن عباد کا ہم عصر تھا اور عربی زبان میں شعر کہتا تھا ایک عرصے تک صاحب بن عباد کے گھر میں بطور مہمان بھی رہا اس کیلئے کتابت کے فرائض انجام دیتا تھا لیکن آل بویہ بادشاہوں کے سینئر وزیر سے دوسرے شعراء کی مانند کوئی بڑا انعام حاصل نہ کر سکا ابو حیان توحیدی کتاب کے ذریعے بغداد میں روزی کماتا تھا پھر اس نے اس جگہ کو چھوڑا اور (رے) چلا گیا تاکہ صاحب بن عباد کے نعمت کدہ سے فائدہ اٹھائے اس سینئر وزیر نے اسے اپنے گھر میں جگہ دی اور ایک کتاب اس کے حوالے کی تاکہ وہ اس سے ایک دوسری کتاب نقل کے ذریعے تیار کرے ۔
دو ہفتے بعد ابو حیان توحیدی نے صاحب بن عباد کو خط لکھا اور کہا اگر میں کتابت ہی کے ذریعے روزی کمانا چاہتا تو مجھے یہاں " رے " آنے کی کیا ضرورت تھی میں تو بغداد میں یہ کام کر رہا تھا میں اس لئے یہاں آیا ہوں کہ تمہارے نعمت کدے سے استفادہ کروں اور کتابت کے ذریعے کمانے پر مجبور نہ ہو جاؤں ۔
صاحب بن عباد خط پا کر ناراض ہو گیا کیونکہ اس نے ابو حیان توحیدی کے خط کو کفران نعمت سمجھا اور اپنے ملازمین کو حکم دیا اس شاعر کو گھر سے نکال دیں جب کہ اوسطا تقریبا پانسو آدمی صاحب بن عباد کے گھر میں کھانا کھاتے تھے اس کے بعد ابو حیان جب تک زندہ رہا صاحب بن عباد کی زندگی میں بھی اور مرنے کے بعد بھی اس کی برائی بیان کرتا رہا اور اس کی ہجو کہتا رہا لیکن اس شخص کی صاحب بن عباد کے بارے میں یہ ہر زہ سرائی کسی اہمیت کی حامل نہیں البتہ صاحب بن عباد نے جو کچھ جعفر صادق کے بارے میں کہا ہے وہ خاصی اہمیت کا حامل ہے ۔
کیونکہ وہ ایک فاضل ‘ محقق اور اہل مطالعہ انسان تھا " رے " میں اس کی لائبریری ایک لاکھ سے زیادہ کتابوں پر مشتمل تھی جو خاصی اہم تھی جس زمانے میں صاحب بن عباد وزیر تھا آل بویہ سلاطین کے علاوہ عباسی خلفاء فاطمی خلفاء ‘ ساسانی بادشاہوں ‘ غزنوی بادشاہوں کا دور تھا صاحب بن عباد ان میں کچھ کے دربار سے وابستہ رہا لیکن دوسروں کی سیاست سے بھی آگاہ تھا ۔
اگر ہم یہ کہیں کہ صاحب بن عباد اپنی وزارت اور زندگی کے دوران کتنے ہم عصر بادشاہوں اور خلفاء کے ساتھ رہا اور ان میں سے کتنے افراد کے ساتھ رہا تو ہمیں پچاس سے بھی زیادہ بادشاہوں اور خلفاء کا ذکر کرنا پڑے گا لیکن یہاں ہم صرف ان امراء اور سلاطین کا نام لیتے ہیں جو آل بویہ سلسلہ سے تھے اور صاحب بن عباد ان میں سے بعض کا وزیر رہا ان کے نام یہ ہیں شرف الدولہ ‘ بہاالدولہ ‘ صمصام الدولہ ‘ موید الدولہ ‘ عضد الدولہ ‘ عزالدولہ ‘ معزالدولہ ‘ رکن الدولہ اور عماد الدولہ ۔ ایک انسان جو اتنے زیادہ بادشاہوں اور خلفاء کے ہمراہ رہا ہو یا ان سے وابستہ رہا ہو وہ سیاسی میدان میں کتنا ماہر ہو جاتا ہے اور جو شخص ہر وقت دانشوروں اور ادیبوں کے ساتھ رہا ہو وہ کس قدر علم و فضل میں بلند یہ ہو جاتا ہے اسی طرح صاحب بن عباد بھی تھا ایک ایسے شخص نے جعفر صادق کو پیغمبر اسلام کے بعد اس وقت تک کا سب سے بڑا اسلامی دانشمند کہا ہے ۔
محمد باقر کے حلقہ درس میں علم طب کی تدریس کے بارے میں دو مثبت اور منفی روایات ملتی ہیں بعض کہتے ہیں کہ وہاں علم طب کی تدریس ہوتی تھی اور بعض نے وہاں علم طب پڑھائے جانے کا انکار کیا ہے لیکن تردید کی گنجائش نہیں ہے کیونکہ جب امام جعفر صادق نے خود درس پڑھانا شروع کیا تو وہ علم طب پڑھاتے تھے ان کے علمی نظریات نے طب پر کافی اثر ڈالا اور دوسری و تیسری صدی ہجری کے اطباء صاحبان نے ان کے علمی طبی نظریات سے استفادہ کیا جعفر صادق کے طبی نظریات میں سے ایک یہ تھا کہ بعض اوقات ظاہری جسمانی علامتوں سے پتہ چلتا ہے کہ بیمار فوت ہو گیا ہے جب کہ وہ زندہ ہوتا ہے اور اگر ذرا سی خراش اس کے جسم پر لگائی جائے تاکہ تھوڑا خون اس کے جسم سے جاری ہو خصوصا اس کے ہاتھ کی دو انگلیوں کے درمیان خراش لگائی جائی تو شاید وہ زندہ ہو جائے یہ نظریہ دوسری صدی ہجری میں مورخین کے نزدیک سچا ثابت ہوا ہے یہ تجربہ خلیفہ عباسی ہارون الرشید کے چجا زاد بھائی پر کیا گیا تھا ہارون الرشید دو پہر کے کھانے پر بیٹھا تھا اسے ا طلاع دی گئی کہ اس کا طبیب فتیشوع آگیا ہے جبرائیل فتیشوع نے کہا میں اس لئے آیا ہوں تاکہ تمہیں اطلاع دوں کہ تمہارے چچا زاد بھائی براہیم بن صالح کی حالت خراب ہے اور آج رات وہ چل بسے گا اور جس وقت میں تمہارے چچا زاد بھائی کے گھر سے نکل رہا تھا تو ابن بہلہ (ہندوستانی طبیب )داخل ہورہا تھا ہارون رشید نے کہا میں نے دو مرتبہ تمہیں بلوایا لیکن تم نہیں تھے کو چچا زاد بھائی کی عیادت کیلئے بھیج دیا ۔
ابن بہلہ ہندوستانی ایک ڈاکٹر تھا اور فتیشوع کا رقیب تھا اس کی خواہش تھی کہ ہارون الرشید کے ہان وہی مقام حاصل کرے جو فتیشوع کا ہے لیکن اسے کامیابی نہیں ہو رہی تھی جب ہارون الرشید نے فتیشوع کی زبانی سنا کہ اس کا چچا زاد آج رات چل بسے گا تو وہ کھانا کھا رہا تھا اس قدر غمگین ہوا کہ مزید روٹی نہ کھا سکا اور حکم دیا کہ دستر خوان اٹھا لیا جائے ایک گھنٹے کے بعد ابن بہلہ ہندوستانی داخل ہوا اور دیکھا کہ خلیفہ بہت پریشان ہے پوچھا پریشانی کا سبب کیا ہے
؟ خلیفہ نے کہا فتیشوع ابھی یہاں آیا تھا اور مجھے کہا گیا ہے کہ تمہارا چچا زاد بھائی آج رات چل بسے گا ابن بہلہ ہندوستانی نے کہا میں نے تمہارے چچا زاد کا نہایت غور سے معائنہ کیا ہے اور تجھے اطمینان دلاتا ہوں کہ وہ نہیں مرے گا ۔
ہارون الرشید نے کہا ۔ اے ابن بہلہ ! فتیشوع ایک ایسا ڈاکٹر ہے جسے ڈاکٹر ی وراثت میں ملی ہے اور علم طب میں عقل مند اور حاذق طبیب ہے کسی بیمار کے بارے میں اس کی رائے آخری ہوتی ہے ابن بہلہ نے کہا اے امیر المومنین مجھے ڈاکٹر ی وراثت میں نہیں ملی لیکن آپ سے یہ کہتا ہوں آپ کا چچا زاد نہیں مرے گا اس کا علاج معالجہ ہو گا ہارون الرشید نے کہا اگر میرا چچا زاد بھائی آج رات مر جائے تو تیرا کیا حشر کروں ابن بہلہ نے کہا اگر آپ کا چچا زاد بھائی آج رات مر جائے تو آپ کو حق حاصل ہے کہ میرا مال اور غلاموں کو ضبط کر لیں اور میں آپ سے وعدہ کرتا ہوں کہ اپنی تمام بیویوں کو تین طلاق دوں گا کچھ درباری لوگوں نے دیکھا کہ ابن بہلہ کے کہنے نے اچھا اثر کیا اور عباسی خلیفہ جس نے کھانے سے ہاتھ کھینچ لئے تھے دوبارہ حکم دیا اس کیلئے کھانا لائیں چند لقمے کھانے کے بعد شراب منگوائی اور دو جام پئے کیونکہ وہ چچا زاد کے زندہ بچ جانے کی خبر سے خوش تھا ۔
اچانک ایک قاصد خلیفہ کے محل میں داخل ہوا اور خبر دی کہ ابراہیم بن صالح بادشاہ کا چچا زاد بھائی فوت ہو گیا ہے جس وقت فتیشوع نے خلیفہ سے کہا تھا اس کے تھوڑی دیر بعد وہ اس دنیا سے کوچ کر گیا تھا ۔
جب ہارون الرشید نے اپنے چچا زاد بھائی کی موت کی خبر سنی تو گریبان چاک کرکے کہا افسوس میں نے چچا زاد کی موت کے موقع پر شراب پی اور خوشی منائی ہے ۔
درباریوں نے اسے تسلی دی اور اطمینان دلایا چونکہ اس وقت وہ نشے کی حالت میں تھا اسے جلد ہی نیند آ گئی اور صبح تک سوتا رہا ۔اس دن ہارون الرشید نے ماتمی لباس پہنا اور ابراہیم صالح کے گھر گیا اس زمانے کے رواج کے مطابق مردے کو غسل دینے اور اس کے بدن پر کافور ملنے کے بعد اسے کفن پہنا چکے تھے ابن بہلہ مردے کو غسل دینے کے موقع پر وہیں موجود تھا اور مردے کو نہایت غور سے دیکھ رہا تھا اور جب ہارون الرشید وہاں پہنچا وہ اس کے قریب ہو گیا جو نہی خلیفہ کی نظر اس ڈاکٹر پر پڑی اسے جھڑکا ۔ کیا تجھے یاد ہے کل تو نے کیا عہد کیا تھا ؟
ابن بہلہ نے کہا ہاں اے امیر المومنین لیکن آپ مالک ہیں میرے غلاموں کو مجھ سے نہ چھینئے عباسی خلیفہ نے جوابا کہا مجھے جھوٹے سے نفرت ہے اور میں اسے معاف نہیں کرتا ۔
ابن بہلہ نے کہا اے امیر المومنین میں آپ سے بخشش نہیں چاہتا یہ جو میں نے کہا کہ آپ مالک ہیں آپ میرے غلاموں کو مجھ سے نہ چھینئے اس لئے کہ اگر آپ ایسا کریں گے تو جلد بازی کریں گے کیونکہ آپ کا چچا زاد زندہ ہو گا ۔
خلیفہ نے پوچھا کیا مردہ کبھی زندہ ہوا ہے ؟
ابن بہلہ نے جواب دیا مردہ جو مکمل طور پر نہ مرا ہو زندہ ہوتا ہے اور چونکہ آپ کا چچا زاد مکمل طورپر نہیں مرا اس لئے دوبارہ زندہ ہو گا لیکن اگر وہ کفن میں اپنے آپ کو نیم برہنہ دیکھے گا اور کافور کی بو سونگھے گا تو خوف سے مر جائے گا تم حکم دو کہ کفن کو اس سے دور ہٹائیں اسے غسل دیں اور عام لباس پہنا کر بستر پر لٹائیں تاکہ میں اسے زندہ کروں ہارون الرشید نے حکم دیا کہ اسی ترتیب سے عمل کریں اور ابراہیم بن صالح کو بستر پر لٹا دیں اب ابن بہلہ نے ہاتھ میں تیز دھار والا چاقو لیا اور بائیں ہاتھ کی دو انگلیوں کے درمیان زخم لگایا جس سے خون جاری ہو گیا ہارون الرشید نے جو مردے کے بستر کے پاس ہی کھڑا تھا کہ خون جاری ہونے کے بعد مردے نے حرکت کی اور پھر آنکھ کھول کر ہارون الرشید کو پہچان کر دھیمی آواز میں کہا اے میرے چچا زاد خدا آپ کو اجر عنایت فرمائے کہ آپ میری عبادت کے لئے آئے ہیں ۔
الغرض ہم نے کہا ہمیں اس بارے میں کچھ علم نہیں کہ امام محمد باقر نے علم طب پڑھایا یا نہیں ؟
اور ان کے بیٹے نے ان کے حلقہ درس سے اس علم کو حاصل کیا یا نہیں لیکن اس میں تردید کی گنجائش نہیں ہے کہ خود امام جعفر صادق نے علم طب پڑھایا ہے اور اس علم میں ایسی چیزیں لائے ہیں جن سے پہلے مشرقی ڈاکٹر نا واقف تھے اور ہماری مراد مشرق سے عرب نہیں ہے کیونکہ عرب میں طب نہیں تھی بلکہ یہ اسلام کے بعد دوسری جگہوں سے عرب میں آگیا ۔
اگر ہم یہ بات مان لیں کہ جعفر صادق نے علم طب اپنے والد گرامی کے حضور میں پڑھی تھی تو یہ بات ضروری ہے کہ ان کے والد نے ضرور کسی جگہ سے اس علم کو سیکھا ہو گا اور یہ ہمیں معلوم نہیں کہ انہوں نے کہا سے سیکھا ؟ (عقیدہ علم امام وہبی ہوتا ہے )
کیا جس طرح علم جغرافیہ اور ہندسہ قبطیوں کے ذریعے مصر سے مدینہ آیا یا محمد باقر کے حلقہ درس میں شامل ہوا اسی طرح کہا جا سکتا ہے کہ علم طب بھی آپ کے درس میں شامل ہوا یا جعفر صادق نے علم طب کو ایرانیوں سے لیا ۔ اتفاقا طب جعفری میں بعض چیزیں ایسی ہیں جن میں ایرانی رنگ جھلکتا ہے اس بات سے یہ خیال آتا ہے کہ انہوں نے علم طب کو شاید ایرانیوں سے سیکھا ہے یا اس علم کا کچھ حصہ ایرانیوں سے اور کچھ حصہ قبطیوں سے اخذ کیا ہے جیسا کہ ہم جانتے ہیں کہ قدیم علم طب کسی ایک قوم سے مختص نہیں رہا بلکہ مصری‘ یونانی و ایرانی اس علم کی تکمیل میں شریک رہے ہیں اور وہ قوم جو قدیم علم طب کو حاصل کرتی تھی وہ اس علم میں تمام قوموں کی کاوشوں سے بہرہ مند ہوتی تھی قدیم اقوام میں عرب ایک ایسی قوم تھے جنہوں نے علم طب کی توسیع میں کوئی کارنامہ سر انجام نہیں دیا تھا اور عربوں میں طب ایک ایسی قوم تھے جنہوں نے علم طب کی توسیع میں کوئی کارنامہ سر انجام نہیں دیا تھا اور عربوں میں طب عام نہ تھی اور جہاں تک ہمیں علم ہے عرب میں اس علم کو پڑھانے والا کوئی نہ تھا کہ لوگ اس سے فیض یاب ہوتے وہ پہلا انسان جس نے علم طب پڑھانا شروع کیا وہ امام جعفر صادق یا ان کے والد گرامی امام محمد باقر تھے اسلام سے پہلے عرب بیمار ہوتے تو انہیں ان کی حالت پر چھوڑ دیا جاتا تھا یا تو وہ بچ جاتے یا مر جاتے تھے ۔ (گو با قاعدہ طور پر علم طب کا رواج عربوں میں نہ تھا مگر طلوع اسلام کے ساتھ ہی اس علمی شعبہ کی جانب عہد نبوی میں ہی خصوصی توجہ دی جانے لگی تھی )
بدو عرب کم ہی بیمار ہوتے تھے اور چونکہ ان کی غذا اونٹ کا دودھ ہوتی تھی شاید اس لئے بیمار نہ ہوتے تھے کیونکہ اونٹنی کا دودھ جسم کو ضروری غذائی مواد مہیا کرتا ہے اور اس کے ساتھ نا مناسب غذا سے بدن میں رطوبت بھی نہیں پیدا ہوتی جیسا کہ آج ہمیں معلوم ہے بعض دائمی امراض میں سے کچھ ایسی ہیں جن کی وجہ سے موت واقع ہو جاتی ہے غذائی رطوبت جو بدن میں ہوتی ہے یوریا اور یورک ایسڈ اسی رطوبت کا ایک حصہ ہیں ۔
عرب بدو جس کی غذا اونٹ کا دودھ ہوتی تھی اس کے بدن میں رطوبت پیدا نہیں ہوتی تھی اور تمام عمر وہ مصفی ہوا میں سانس لیتا تھا عرب بدو جن بیماریوں سے بچپن میں مرتے تھے وہ جراثیموں سے پھیلنے والی بیماریاں ہوتی تھیں اور عرب میں بچوں کی بیماریاں کافی زیادہ تھیں جس کی وجہ سے شرح اموات اتنی بلند تھی کہ کرنل لارنس نے اپنی کتاب " عقل کے سات ستون " میں لکھا ہے جزیرةالعرب کی اٹھارویں صدی کے اواخر تک کی آبادی اور اسی علاقے کی صدر اسلام کے زمانے کی آبادی میں کوئی خاص فرق نہیں تھا اس دور میں جب اسلام کافی پھیل چکا تھا جزیر ة العرب کے بعض علاقوں میں آبادی کافی کم ہو چکی تھی ۔
بہر صورت اگر عرب بدو بچپن میں امراض سے بچ جاتا اور نہ مرتا تو بیمار نہ ہوتا تھا اس کی عمر کافی لمبی ہوتی تھی البتہ شہری عرب بیمار ہوتے تھے لیکن وہ ڈاکٹر سے رجوع نہیں کرتے تھے اور آج ہمیں معلوم ہے کہ ان کے بیمار ہونے کی وجہ ایک غذا ہوتی تھی جو بدن میں رطوبت پیدا کرتی تھی ۔
آج یہ بات مسلمہ نہیں ہے کہ کوئی بیمار ہو تو اس کے علاج کیلئے کسی ڈاکٹر کو نہ بلائیں یا اسے طبیب کے پاس نہ لے جائیں ۔
لیکن عرب میں ایسا ہی ہوتا تھا کہ نہ تو بیمار ڈاکٹر کے پاس جاتا نہ ہی کوئی اور اسے ڈاکٹر کے پاس لے جاتا اور نہ ڈاکٹر اس کے معائنہ کیلئے آتا ۔
علم طب کے عام قواعد تک ہر آدمی کی رسائی ہوتی تھی اور جو لوگ اسے سیکھنا یا سکھانا چاہتے تو وہ ایسا کر سکتے تھے ۔
لیکن بعض باتیں جو طب جعفری میں ملتی ہیں وہ اس سے پہلے نہیں تھیں ۔ اور اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ جعفر صادق نے وہ قواعد خود اخذ کئے ہیں ۔
جیسا کہ ہمیں معلوم ہے امام جعفر صادق کا پیشہ طب نہیں تھا کہ ان قواعد کو مطب کے دوران اخذ کرتے لہذا خیال کیا جاتا ہے کہ ان قواعد کو کہیں سے سیکھا ہے اور اگر آپ نے ان قواعد کو والد کے حلقہ درس سے سیکھا ہے تو پھر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ان کے والد نے ان قواعد کو کہاں سے سیکھا ہے ۔جیسا کہ ہم نے کہا جعفری طب میں بعض چیزیں ایسی ملتی ہیں جن سے ایرانی رنگ جھلکتا ہے اور اگر ہم اس بات کو تسلیم نہ کریں کہ امام جعفر صادق نے طب کو ایرانیوں سے سیکھا ہے پھر بھی یہ بات ماننا پڑے گی کہ اس کا کچھ حصہ ایرانیوں سے ان تک پہنچا ہے ۔
ساسانیوں کے دور میں علم طب کے لحاظ سے ایرانی تربیت یافتہ قوموں میں شمار ہوتے تھے اس زمانے میں ہر علم طب کا شوق اور استعداد رکھنے والا آدمی یہ علم نہیں سیکھ سکتا تھا اس لئے کہ ساسانیوں کے دور میں لوگوں کے ہرطبقے کی مخصوص ذمہ داریاں ہوتی تھیں اور ایک طبقہ کے لوگ دوسرے طبقہ کے لوگوں کے فرائض میں مداخلت نہیں کر سکتے تھے اور ایک طبقہ سے دوسرے طبقہ میں جانا اس قدر مشکل ہوتا تھا کہ بعض کیلئے یہ نا ممکن بات ہوتی تھی لیکن مذہبی رہنما اور منشی لوگ ڈاکٹر بن سکتے تھے ۔
ساسانیوں کے دور میں مانی کی تحریک کے اٹھنے کی وجوہات میں سے ایک وجہ یہی لوگوں کے طبقاتی تقسیم اور ایک طبقہ کو دوسرے طبقے میں جانے کی ممانعت تھی ۔
مانی کا کہنا تھا کہ تمام لوگوں کو تعلیم حاصل کرنے کی اجازت ہونی چاہیے ۔ اور ساسانی بادشاہوں کا اس طرح لوگوں کو طبقات میں تقسیم کرکے تعلیم سے محروم رکھنا ظلم کے مترادف ہے اور بعض بادشاہ تو اس قدر ظلم کرتے تھے کہ کوئی دیہاتی طبقے کا آدمی اگر اپنے بیٹے کو تعلیم دلوانے پر توجہ دیتا تو اس کے قتل سے بھی دریغ نہ کیا جاتا تھا ۔
مانی قتل ہو گیا اور اس کے پیروکاروں کو بھی قتل کر دیا گیا اور ان میں سے بعض نے ایران سے چین کی طرف ہجرت کی اور تورخان کے علاقے میں جو چین کے شمال مغرب (ترکستان ) میں واقع ہے سکونت اختیار کر لیا ور ایک پرکشش ایرانی تمدن وجود میں لائے اور مانی کی تعلیمات کے مطابق مرد و عورتیں تعلیم حاصل کرنے لگیں اسی طرح علم طب بھی وہاں سکھایا جانے لگا ۔
تور خان کی طرف ہجرت کے بعد ایرانیوں نے ترکستان کے علاقے میں بھی اپنی زبان اور خط کو محفوظ رکھا اور جو کچھ وہ پڑھتے پڑھاتے وہ فارسی زبان اور خط ہی میں ہوتا تھا یعنی پہلوی سا سانی خط ہوتا تھا ۔
مانی کے پیروکار ایرانی تور خان میں علم طب ایران سے لے کر گئے انہوں نے خود اس علم کو ایجاد نہیں کیا تھا ۔
جو علم طب ایران میں سکھایا جاتا تھا اس کی کوئی کتاب اب باقی نہیں ہے لیکن وہ تاریخی دستاویزات جو تو ر خان سے ملی ہیں ان سے معلوم ہو سکتاہے کہ وہ علم طب جو اس ایرانی معاشرے میں جس میں ایرانی خط اور زبان محفوظ تھی کیسا تھا ؟ ان دستاویزات کی بنا پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ علم طب ساسانیوں کے دور میں ایران میں رائج تھا اور ایرانی معاشرہ جو تور خان میں قائم تھا وہ ایرانی علم طب کو سکھاتا اور سیکھتا تھا ۔
مانی کے دور کی زبان اور خط تورخان کے علاقے میں دونوں محفوظ رہے اور ایرانی وہاں پر اصلی پہلوی خط لکھتے تھے جبکہ ایران میں پہلوی خط ہزاوارش میں تبدیل ہو گیا اور ہزاوارش کو آرامی لکھنے والون نے پہلوی زبان میں تبدیل کر دیا اور ہزاوارش اس طرح تھی کہ آرامی مصنفین آرامی میں کوئی کلمہ لکھتے لیکن پہلوی زبان میں پڑھتے تھے مثال کے طور پر آرامی زبان میں " اس " کو "کتل " کہتے تھے ا ور آرامی کاتب پہلوی ساسانی زبان میں "کتل "لکھتے اور " اس " پڑھتے تھے اس تلظ کی بنا پر پہلوی ساسانی زبان کا کچھ حصہ مستقل طور پر اسی ترتیب میں بند ہو گیا ۔ اور بعد کی نسلیں رسم الخط سے ان کلمات کے معنی سمجھیں ۔
لیکن رسم الخط کا یہ بڑا نقص ان ایرانیوں کے خط میں جو تور خان میں رہتے تھے پیدا نہ ہوا اور وہ آرامی کا تبین کی طرز ٹھونسے جانے سے محفوظ رہے ۔
یہ ہم پر ثابت ہو گیا ہے کہ ایک ایرانی معاشرہ جو تورخان میں وطن سے دور آباد تھا اور اس نے اپنی زبان اور خط کو محفوظ کیا ہوا تھا اور اس کے پاس علم طب کی کتاب بھی تھی ہم اس سے اندازہ لگا سکتے ہیں کہ ایران میں بھی طب کی کتابیں ہوں گی ۔
عقل اس بات کو تسلیم نہیں کرتی کہ گندی شاہ پو ر جتنی وسعت کا حامل علاقہ وہاں تو علم طب پڑھایا جاتا ہو لیکن ایران میں علم طب کی کتابیں نہ پائی جاتی ہوں ۔
جیسا کہ ہم نے کہا امام محمد باقر کے حلقہ درس میں شاگرد اپنی تختیوں پر سبق لکھ لیتے اور اس کے بعد اسے کاغذ پرا تار لیتے تھے اسی طرح بعید نہیں ہے کہ گندی شاہ پور میں بھی جہاں ایک میڈیکل کالج اور ہسپتال بھی تھا اسی طرح کی تدریس ہوتی ہو لیکن جب آپریشنز کئے جاتے تھے تو طالب علم لکھنے سے زیادہ دیکھنے پر توجہ دیتے تھے ۔
یہ بات سب کو معلوم ہے کہ یونانی حکماء کی کتابوں کا ایک حصہ ان کے شاگردوں نے لکھا وہ اس طرح کہ حکماء لیکچرز دیتے اور شاگرد ان کے لیکچرز کو تختی پر لکھ لیتاا ور بعد میں اسے کاغذ پر محفوظ کر لیتے تھے ۔
شاید ساسانیوں کے دور میں بھی طبی کتابیں اسی طرح لکھی جاتی ہوں کیونکہ پرانے دانش مندوں میں جن لوگوں نے ایک یا کئی کتابیں لکھی ہیں بہت کم ہیں ۔
شعراء اس لئے کہ ان کے اشعار عام مقبولیت کا درجہ حاصل کر لیتے تھے ان کا ذوق بڑھتا جاتا تھا اور زیادہ سے زیادہ شعر کہتے تھے انکے اشعار سے ایک دیوان تشکیل پا جاتا تھا لیکن دانشمند اور ان کے شاگر جو ان کے حلقہ درس میں شریک ہوتے تھے ان میں کوئی شوق نہیں پیدا ہوتا تھا ان کی اقتصادی حالت بھی اس بات کی اجازت نہیں دیتی تھی کہ وہ اپنی عمر کے ایک حصے کو ایک یا کئی کتابیں لکھنے پر صرف کر دیں ۔
دانشمندوں نے اس وقت اپنی عمر کے کچھ حصے کو کتابیں تصنیف کرنے پر صرف کیا جب ان میں شوق کے دو پہلو پیدا ہوئے ایک علم میں توسیع اور نئے مدارس کا وجود میں آنا جس کی وجہ سے دانشمندوں نے پڑھانے پر توجہ دی ا ور ان کا حقیقی کام تدریس قرار پایا اور اسی تدریس کی وجہ سے کسی ایک دانشمند کو فرصت ملی کہ وہ کتابیں لکھنے کیلئے کچھ زیادہ وقت نکال سکے ۔ دوسرا سلاطین اور امراء نے دانشمندوں میں کتابیں لکھنے کا شوق پیدا کیا جس سے کتابیں لکھی جانے لگیں ۔
بہر حال قدیم دانشمندوں کی کتب کا ایک حصہ ان کے شاگردوں کے وہ رشحات ہیں جو انہوں نے اپنے لئے جمع کئے تھے اور ان کی موت کے بعد دوسرے لوگوں نے ان سے فائدہ اٹھایا ۔
کتابیں لکھنے میں سلاطین اور امراء کی سر پرستی کافی موثر رہی ہے اور اگر ساسانی سلسلہ کا بانی ارد شیر اور اس کا بیٹا شاپور اول نہ ہوتا تو "اوستا" ہر گز ساسانیوں کے زمانے میں تدوین نہ ہوتی ۔ تاریخ کہتی ہے کہ اوستا کو "تشنز " دانشمند اور ایرانی موجود نے جمع کی ہے لیکن اگر ارد شیر انہیں شوق نہ دلاتا اور ان کی مالی امداد نہ کرتا تو یہ کتاب جس کا شیرازہ اشکانیوں کے دور حکومت میں بکھر گیا تھا اور اس کا کچھ حصہ مکمل طور پر ختم ہو گیا تھا ہر گز جمع نہ ہو سکتی ۔
اسی طرح جس طرح ہنی منشی سلسلہ کا بادشاہ روایوش اول اگر اسی اوستا کومغربی زبان سے پہلوی ہنی منشی میں ترجمہ کرنے کا شوق نہ دلاتا تو یہ ہر گز ترجمہ نہ ہو سکتی (اگر یہ روایت صحیح ہے کہ اوستا کا پہلا متن مغربی زبان میں تھا )
جو کچھ ہم نے کہا ہے اس کا لب لباب یہ ہے کہ اگر ایک ایرانی مہاجر معاشرہ " تور خان " جیسے دور افتادہ علاقے میں اپنی زبان اور خط کی حفاظت کر سکتا ہے اور علم طب کی تدریس اسی زبان اور خط میں کر سکتا ہے تو پھر بعید ہے کہ خود ایران میں علم طب کی کتابیں نا پید ہوں ۔ اس زمانے میں ایران میں علم طب کی موجودگی پر شک و شبہ نہیں کیا جا سکتا بلکہ شک اس بارے میں تھا کہ کیا طبی کتابیں ایران میں تھیں یا نہیں ۔ احتمال قوی یہ ہے کہ اس زمانے میں ایران میں طبی کتب موجود تھیں جو اب نا پید ہیں ۔
ساسانی پہلوی دور کے متن جو اس وقت چھپے ہیں ان کی تعداد ایک سو پچاس کے قریب ہے ان میں سے بعض کتابیں اور کچھ کتابچے اور چند عد د صرف قطعات میں البتہ علم طب کے بارے میں کچھ بھی نہیں ہے ۔
علم طب کا کتب کی صورت میں وجود نہ پایا جانا اس بات کی دلیل نہیں ہے کہ ایران میں سرے سے علمی کتابیں ہی نہیں تھیں کہ جعفر صادق ان سے فائدہ اٹھاتے ۔
پروفیسر ایڈورڈ براؤن ہندوستان کے چند پارسی دانشمندوں کے نظریئے کی بناید پر کہتا ہے عربوں کے ایران پر تسلط کے کچھ عرصہ بعد تک ایرانیوں کی علمی کتب میں سے کچھ جن میں علم طب اور علم نباتات کی کتابیں شامل ہیں باقی تھیں اور ان سے استفادہ کیا جاتا تھا ۔
یہ مسلمہ حقیقت ہے کہ ایران علاج معالجہ کے لحاظ سے نباتات کے مراکز میں سے ایک تھا اور طبی جڑی بوٹیوں کا ایک حصہ ایرانیوں نے دنیا کے لوگوں میں متعارف کرایا ۔ اور اور اصولا وہاں ان جڑی بوٹیوں کے بارے میں کتابیں بھی موجود ہوناچاہیں ۔ ہمارا کہنے کا مطلب یہ ہے کہ اگر ہم کہیں کہ امام جعفر صادق نے ایرانی کتابوں سے استفادہ کیا ہو گا تو یہ بات عقل سے بعید نہیں ہے اور نہ ہی اس میں مبالغہ آمیزی ہے ۔
نظریہ عناصر اربعہ پر تنقید جعفریہ
امام محمد باقر کے حلقہ درس میں جو علوم پڑھائے جاتے تھے ان میں ایک فزکس بھی تھا ۔ اگرچہ جعفر صادق کے طبی علوم کے مبانی کے بارے میں ہمیں تصیلا علم نہیں ہے ۔ لیکن اس کے عوض میں ان کے فزکس کے مبانی یعنی فزکس کے مضمون کے بارے میں انکی معلومات سے نسل در نسل تفصیلا مطلع ہیں ۔
محمد باقر کے درس میں ارسطو کی فزکس پڑھائی جاتی تھی اور کسی پر یہ بات پوشیدہ نہیں کہ ارسطو کی فزکس چند علوم پر مشتمل تھی آج کوئی بھی حیوانات ‘نباتات اور جیالوجی کو فزکس کا حصہ شمار نہیں کرتا کیونکہ ان میں ہر ایک علم جداگانہ ہے لیکن ارسطو کی فزکس میں ان علوم پر بحث کی گئی ہے اسی طرح جس طرح میکینکس بھی ارسطو کی فزکس میں داخل ہے اگر ہم فزکس کو علم الاشیاء سمجھیں تو ارسطو کو یہ حق دیا جانا چاہیے کہ اوپر کی بحث اپنی فزکس میں لائے کیونکہ یہ ساری بحث علم الاشیاء میں شامل ہے اس بات کا قوی احتمال ہے کہ ارسطو کی فزکس بھی اسی راستے سے محمد باقر کے حلقہ درس تک پہنچی جس راستے سے جغرافیہ اور ہندسہ کے علوم ان کے درس میں شامل ہوئے یعنی مصری قبطیوں کے ذریعے محمد باقر کے حلقہ درس میں شامل ہوئے ۔
فرید وجدی دائرة المعارف جیسی مشہور عربی کتاب کا حامل لکھتا ہے کہ علم طب اسکندریہ کے مکتب کے ذریعے جعفر صادق تک پہنچا اور یہ بات درست نہیں ہے کیونکہ جس وقت امام جعفر صادق علم کے حصول میں مشغول تھے اسکندریہ کا علمی مدرسہ موجود نہیں تھا کہ علم طب آپ تک وہاں سے پہنچتا ۔
اسکندریہ کا علمی مکتب اس کتا خانے سے مربوط تھا جو عربوں کے مصر پر قبضے کے بعد تباہ ہو گیا تھا شاید وہ لوگ جنہوں نے اسکندریہ کے کتاب خانے کی کتابوں سے اپنے لئے نسخے تیار کئے ہوئے تھے ان کے پاس اس کتاب خانے کی کتابوں کے نسخے باقی تھے لیکن اسکندریہ کا علمی مکتب کتاب خانے کے خاتمے کے ساتھ ہی ختم ہو گیا لیکن وہ لوگ جنہوں نے اسکندریہ کے علمی مکتب میں پرورش پائی تھی انہوں نے اس مکتب کے نظریات کو خصوصا اس تھیوری کو جسے جدید افلاطونوں کا فلسفہ کہا جاتا ہے اسے اپنے شاگردوں یا مریدوں کو سکھایا اور ان کے بعد نسل در نسل ہم تک پہنچی ۔
اس بات کا امکان ہے کہ وہ کتاب یا کتابیں جن کی نقول کتابخانہ (اسکندریہ کی کتابوں ) سے تیار کی گئی تھیں مصر سے امام جعفر صادق تک پہنچیں ۔
شاید فرید وجدی کی اسکندریہ کے مکتب سے مراد وہ مرکزی کتابخانہ اسکندریہ نہ ہو بلکہ اس کے کہنے کا مطلب یہ ہو کہ وہ کتاب یا کتابیں جو اسکندریہ کے مکتب کی یاد گار شمار کی جاتی تھیں امام جعفر صادق تک پہنچیں المختصر امام جعفر صادق اپنے والد گرامی کے حلقہ درس میں فزکس سے واقف ہوئے ۔
اور جس طرح علم جغرافیہ میں سورج کے زمین کے گرد چکر لگانے پر تنقید کی اسی طرح ارسطو کی فزکس کے کچھ حصوں پر بھی تنقید کی جب کہ اس وقت آپ کی عمر بارہ سال بھی نہیں تھی ایک دن جب وہ والد گرامی کے درس میں ارسطو کی فزکس پڑھنے کے دوران فزکس کے اس حصے تک پہنچے کہ دنیا چار عناصر پر مشتمل ہے یعنی خاک ‘ پانی ‘ ہوا اور آگ امام جعفر صادق نے تنقید کرتے ہوئے کہا کہ ارسطو جیسے انسان نے اس پر غور کیوں نہیں کیا کہ خاک ایک عنصر نہیں ہے بلکہ اس خاک میں متعدد عناصر پائے جاتے ہیں اور زمین میں پائی جانے والی ہر دھات ایک علیحدہ عنصر شمار ہوتی ہے ۔
ارسطو کے زمانے سے جعفر صادق کے زمانے تک تقریبا ہزار سال کی مدت گزری ہو گی اور اس طویل مدت میں جیسا کہ ارسطو نے کہا تھا چار عناصر علم الاشیاء شمار ہوتے تھے اور کوئی ایسا شخص نہیں تھا جس کا یہ عقیدہ نہ ہو اور کسی کو فکر نہیں ہوئی کہ اس کی مخالفت کرے ہزار سال کے بعد ایک ایسا لڑکا پیدا ہو اجو ابھی بارہ سال کا نہیں ہوا تھا کہ اس نے کہا یہ خاک ایک عنصر نہیں ہے بلکہ کئی عناصر کا مجموعہ ہے ۔
جعفر صادق نے یورپ کے اٹھارویں صدی عیسوی کے علماء سے ہزار سال پہلے ہی یہ کہہ دیا تھا کہ ہوا ایک عنصر نہیں ہے بلکہ چند عناصر کا مجموعہ ہے یاد رہے کہ اٹھارویں صدی عیسوی کے سائنس دانوں نے ہوا کے اجزاء کو دریافت کرنے کے بعد علیحدہ علیحدہ کیا ۔
اگر کافی غور و خوض کے بعد سائنس دان اس بات کو قبول کر لیتے ہیں کہ خاک ایک عنصر نہیں ہے بلکہ چند عناصر کا مجموعہ ہے پھر بھی ہوا کے ایک عنصر ہونے پر کسی کو اعتراض نہ ہو تا ارسطو کے بعد قابل ترین فزکس دان بھی نہیں جانتے تھے کہ ہوا ایک عنصر نہیں ہے حتی کہ اٹھارویں صدی عیسوی میں جو علمی لحاظ سے تابناک صدیوں میں سے ایک صدی شمار ہوتی ہے لا دوازیہ کے فرانسیسی سائنس دانوں کے زامنے تک چند علماء ہوا کو ایک بڑا عنصر سمجھتے تھے اور انہوں نے یہ فکر نہیں کی کہ ہوا چند عناصر کا مرکب ہے اور جب بعد میں لا دوازیہ نے آکسیجن کو ہوا میں شامل دوسری گیسوں سے علیحدہ کیا اور بتایا کہ آکسیجن سانس لینے اور جلانے میں کتنی موثر ہے ؟
اس بات کو اکثر علما نے قبول کیا کہ ہوا غیر مرکب یا عنصر نہیں ہے بلکہ چند گیسوں پر مشتمل ہے اور ۱۷۹۲ ء عیسوی میں سر لادوازیہ کا سر سا طور گیوٹین کے ہمراہ تن سے جدا کر دیا گیا اور یہ بابائے جدید کیمیا اگر زندہ رہتا تو شاید مزید دریافتیں کرتا لیکن افسوس اسے دوسرے جہاں بھیج دیا گیا ۔
امام جعفر صادق نے ایک ہزار ایک سو سال پہلے یہ جان لیا تھا کہ ہوا ایک عنصر نہیں شیعوں کا اور تمام گیسیں جو ہوا میں بہت کم مقدار میں پائی جاتی ہیں میں سانس لینے میں مفید ہیں مثال کے طور پر اور زون گیس کو لے لیں جس کی کیمیائی خصوصیات آکسیجن کی مانند ہیں اور اس کا ہر مالیکیول آکسیجن کے تین یٹموں سے مل کر بنا ہے بظاہر وہ عمل تنفس میں اتنی اہم نہیں لیکن جب آکسیجن خون سے ملتی ہے تو اسے اس دوران واپس باہر نہیں نکلنے دیتی یہی وجہ ہے کہ جعفر صادق کا نظریہ کہ "ہو ا کے تمام اجزاء عمل تنفس کیلئے ضروری ہیں " انیسویں صدی کے وسط سے لے کر آج تک تائید کیا گیا ہے ۔
ہوا میں موجود گیسوں کے خواص میں سے یہ بھی ہے کہ وہ آکسیجن کو تہہ میں نہیں بیٹھنے دیتیں اگر اس طرح ہوتا تو آکسیجن ‘ سطح زمین سے ایک بلندی کی حد تک چھائی رہتی ۔
اور دوسری گیسیں جو ہوا میں پائی جاتی ہیں آکسیجن سے اوپر ہوتیں جس کے نتیجے میں تمام جانوروں کا نظام تنفس جل جاتا اور جانداروں کی نسل نابود ہو جاتی دوسرا یہ کہ پودے پیدا نہ ہوتے کیونکہا گرچہ پودے کے زندہ رہنے کیلئے دوسرے جانداروں کی مانند آکسیجن ضروری ہوتی ہے لیکن اسے کاربن ڈائی آکسائیڈ کی بھی ضرورت ہوتی ہے اور اگر آکسیجن کچھ بلندی تک زمین کو ڈھک لیتی تو کاربن کی سطح زمین تک رسائی نہ ہو سکتی جس کی وجہ سے حیوانی اور جماداتی زندگی باقی ہے ۔
جعفر صادق وہ پہلے انسان ہیں جنہوں نے عناصر اربعہ کے عقیدے کو جو ایک ہزار سال کی مدت تک نا قابل متزلزل سمجھا جاتا تھا قابل اصلاح قرار دیا وہ بھی اس وقت جب وہ نوجوان تھے بلکہ لڑکے شمار ہوتے تھے لیکن ہوا کے بارے میں نظریئے کو وہ اس وقت زبان پر لائے جب وہ بالغ ہو چکے تھے اور انہوں نے درس پڑھانا شروع کر دیا تھا ۔
آج ہمیں یہ عام سا موضوع لگتا ہے کیونکہ ہمیں معلوم ہے کہ ہماری آج کی دنیا میں ایک سو دو عناصر دریافت ہو چکے ہیں لیکن ساتویں صدی عیسوی اور پہلی صدی ہجری میں یہ ایک برا انقلابی نظریہ تھا اور اس زمانے میں انسانی عقل قبول نہیں کر سکتی تھی کہ ہوا ایک وسیع عنصر نہیں ہے اور ہم ایک بار پھر اور اس زمانے میں انسانی عقل قبول نہیں کر سکتی تھی کہ ہوا ایک وسیع عنصر نہیں ہے اور ہم ایک بار پھر کہتے کہ اس زمانے میں اور اس کے بعد آنے والے زمانوں میں اٹھارھویں صدی عیسوی تک اس علمی انقلابی عقیدے اور ان دوسری باتوں کو جو جعفر صادق نے فرمائی تھیں ۔ اور ان کا ذکر آگے آئے گا یورپ میں برداشت کرنے کی گنجائش نہ تھی ۔
عقیدہ یہ ہے کہ جعفر صادق نے یہ اور دوسرے علمی حقائق ‘ علم لدنی یعنی علم امامت کے ذریعے استنباط کر لئے تھے مورخ کہتا ہے اگر یہ استنباط اور دوسرے علمی استنباط جعفر صادق کے علم امامت کی وجہ سے تھے تو وہ مادے کے توانائی میں تبدیل ہونے کے قانون کو جسے آئن سٹائن نے اس صدی میں دریافت کیا اسے بھی بیان فرماتے کیونکہ ان کے پاس علم امامت ہے وہ ہر چیز کو جانتے ہیں اور کوئی بھی علمی قانون ان سے پوشیدہ نہیں اور چونکہ علمی قوانین کا ایک حضہ اٹھارویں انیسویں اور بیسویں صدی میں دریافت ہوا جعفر صادق نے ان کے متعلق کچھ نہیں کہا یہاں سے معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے علم بشر کے ذریعے یہ معلوم کیا کہ خاک و ہوا کوئی وسیع و عریض عنصر ہے ۔
جعفر صادق نے فرمایا ہوا میں چند اجزاء ہوتے ہیں سانس لینے کیلئے جن کی موجودگی اشد ضروری ہے جب لادوازیہ نے آکسیجن کو ہوا کی دوسری گیسوں سے جدا کیا اور بتایا کہ جو چیز جانداروں کے زندہ رہنے کیلئے ضروری ہے وہ آکسیجن ہے سائنس دانوں نے ہوا کی دوسری گیسوں کو زندگی کیلئے بے فائدہ جانا اور یہ نظریہ صادق کے خلاف ہے جنہوں نے فرمایا ہوا کے تمام اجزاء سانس لینے کیلئے ضروری ہیں ۔
لیکن انیسویں صدی کے نصف میں سائنس دانوں نے سانس لینے کے لحاظ سے آکسیجن کے بارے میں اپنے نظریئے کی تصحیح کی ۔
کیونکہ یہ تسلیم کر لیا گیا کہ اگرچہ آکسیجن جانداروں کی زندگی کیلئے لازمی ہے اور ہوا کی دوسری تمام گیسوں کے درمیان تنہا گیس ہے جو خون کو بدن میں صاف کرتی ہے لیکن جاندار خالص آکسیجن میں زیادہ عرصہ کیلئے سانس نہیں لے سکتے کیونکہ ان کے نظام تنفس کے خلیات کی آکسیڈیشن شروع ہو جاتی ہے یعنی وہ آکسیجن کے ساتھ مل کر مرکب بنا دیتے ہیں اور سادہ لفظوں میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ نظام تنفس کے خللیات جلتے ہیں ۔
آکسیجن خود نہیں جلتی بلکہ جلنے میں مدد دیتی ہے اور ایسے جسم کے ساتھ جو جلنے کے قابل ہوتا ہے جب عمل کرتی ہے تو وہ جسم جلنے لگتا ہے اور جب کبھی انسان یا جانوروں کے بھیپھڑوں کے خلیات ایک مدت تک خالص آکسیجن میں سانس لیتے ہیں ۔
چونکہ گیسوں کا ان کے ساتھ ری ایکشن ہوتا ہے اس لئے پھیپھڑوں کے خلیات جلنے لگتے ہیں اور کوئی انسان یا جانور جس کے پھیپھڑے جل جائیں تو وہ مر جاتا ہے اس لئے چاہیے کہ آخسیجن کے ہمراہ دوسری گیسیں بھی انسان یا جانوروں کے پھیپھڑوں میں داخل ہوں تاکہ جانداروں کے پھیپھڑے خالص آکسیجن میں سانس لینے کی وجہ سے نہ جلیں جب علماء نے آکسیجن کے متعلق سانس لینے کے لحاظ سے اپنے نظریہ کی تصحیح کی تو پتہ چلا کہ جعفر صادق کا نظریہ صحیح ہے ۔
لیکن مشرقی ممالک میں حتی کہ پیغمبر اسلام کے شہر مدینہ میں بھی اس طرح کے علمی نظریات کو زبان پر لایا جا سکتا تھا کیونکہ وہاں اس پر کوئی کفر کا فتوی نہ لگاتا تھا ۔
اگر دین اسلام میں کوئی یہ کہتا کہ ہوا وسیع نہیں ہے تو اسے کافی قرار نہیں دیتے تھے لیکن بعض قدیم ادیان میں ایسا کہنا ‘ کہنے والے کے کفر کی دلیل شمار ہوتی تھی کیونکہ ان ادیان کے پروکار ہوا کی طارت کا عقیدہ رکھتے تھے اور اس طہارت کو ہوا کے وسیع ہونے کی وجہ سے سمجھتے تھے جس طرح پانی کا مطہر ہونا بھی ان مذاہب کے پروکاروں کی نظر میں اس کے وسیع ہونے کی بنا پر تھا ۔
جب ہم کیمیا کی تاریخ کا مطالعہ کرتے ہیں تو یہ لکھا ہوا پاتے ہیں کہ ایک انگریز جوزف پر یسٹلے نے جو ۱۷۳۳ ء میں پیدا ہوا اور ۱۸۰۴ ء میں فوت ہوا آکسیجن گیس دریافت کی لیکن وہ اس کی خصوصیات کو نہ پہچان سکا اور جس نے اس گیس کے خوص کو پہچانا وہ لوازیہ تھا علم کیمای کی تاریخ میں اس طرح بتایا گیا ہے کہ آکسیجن کا نام بھی پریسٹلی نے رکھا تھا جب کہ آکسیجن کا مفہوم پریسٹلی سیپہلے موجود تھا آکسیجن یونانی کلمہ ہے جو دو اجزاء سے مل کر بنایا گیا ہے دوسرے جزو کے معنی پیدوار کرنے والے اور پہلے جزو کے معنی ترشی کے ہیں اس لئے آکسیجن کو ترشی پیدا کرنے والی گیس کہتے ہیں آکسیجن کا نام شاید انگریز پریسٹلی نے رکھا ہو گا (کیونکہ ہمیں یقین نہیں ہے کہ واقعا اس نے یہ نام رکھا ہے ) لیکن " ترشی پیدا کرنے والا " مفہوم پہلے سے موجود ہے ہمیں پریسٹلے کی خدمات سے سر موانحراف نہیں ہے اور ہماری اس سے مراد یہ نہیں کہ پریسٹلے کو حقیر بنا کر پیش کریں اور اس پادر کو جس نے مذہبی لباس کو اتار کر لیبارٹری میں کام کیا اور آکسیجن کو دریافت کیا اس کے باوجود کہ وہ ایک قابل ترین انسان تھا اس نے کبھی اپنی دریافت پر فخر نہیں کیا ۔
اگر وہ سیاست میں حضہ نہ لیتا تو وہ آکسیجن کے بارے میں اپنی تحقیق کو جاری رکھ سکتا تھا پھر اسے سمجھ آتی کہ اس نے کتنی بڑی دریافت کی ہے لیکن سیاست نے اسے لیبارٹری سے دور کر دیا اور وہ انگلستان میں فرانسیسی انقلابیوں کی حمایت میں اٹھ کھڑا ہوا اور لوگ اس سے اس قدر نفرت کرنے لگے کہ اس کا اپنے ملک میں جینا دوبھر ہو گیا مجبور اس نے امریکہ ہجرت کیا ور وہاں قیام کے دوران آکسیجن کے علاوہ کسی دوسرے موضوع پر چند کتابیں لکھیں ۔
وہ انسان جس نے سب سے پہلے ترشی پیدا کرنے والی آکسیجن کو پہچانا وہ جعفر صادق تھے یہ تصور نہیں کرتے کہ انہوں نے والد گرامی کے حلقہ درس میں اس موضوع کو سمجھا ہو گا کیونکہ ہم نے کہا کہ انہوں نے جب پڑھانا شروع کیا تو کہا کہ ہوا ایک وسیع عنصر نہیں ہے اور قوی احتمال ہے کہ اسی موقع پر انہوں نے اخذ کر لیا کہ آکسیجن ترشی پیدا کرنے والی ہے تاکہ اس کی مماثل چیز پیدا نہ ہو ہمارا کہنے کا مقصد یہ ہے کہ ترشی پیدا کرنے والی کا نام جعفر صادق کے منہ سے نہیں نکلا لیکن انہوں نے اپنے حلقہ درس میں فرمایا ہوا چند اجزا پر مشتمل ہے اور ہوا کے اجزا میں سے یہی وہ جزو ہے جو جلنے والی چیزوں کے جلنے میں مدد دیتا ہے یہ نہ ہو تو ہر گز نہ جلیں اور جعفر صادق نے اس موضوع کی مزید وضاحت کیا ور اپنے درس میں فرمایا ہوا کہ وہ جزو جو اجسام کے جلنے میں مدد دیتا ہے اگر ہوا سے جدا ہو جائے اور خالص حالت میں ہاتھ آئے تو وہ اجسام کو جلانے میں اتنا زبردست ہے کہ اس سے لوہا بھی جلایا جا سکتا ہے ۔
اس بنا پر پریسٹلی اور لادوازیہ سے ہزار سال پہلے ہی آکسیجن کی تعریف کر دی تھی اور صرف اس کا نام آکسیجن یا مولد الموضہ (ترشی پیدا کرنے والی ) نہیں رکھا تھا پریسٹلے نے جب آکسیجن دریافت کی تو اس کی سمجھ میں نہ آیا کہ لوہے کو جلایا جائے لادوازیہ جس نے اکسیجن کے کچھ خواص لیبارٹری میں جان لئے تھے نہ سمجھ سکا کہ وہ گیس لوہے کو جلانے والی ہے لیکن جعفر صادق ہزار سال پہلے اس بات سے آگاہ تھے ۔
آج ہم اچھی طرح جانتے ہیں کہ اگر لوہے کے ایک ٹکڑے کو اتنا گرم کیا جائے کہ وہ سرخ ہو جائے اور پھر اسے خالص آکسیجن میں ڈبو دیں تو وہ روشن شعلے کے ساتھ جلنے لگتا ہے جس طرح گھی یا تیل کے چراغوں میں ان کے فتیلے کو گھی یا تیل میں بھگو دیتے تھے اور اس کی روشنی میں ساری رات بسر کرتے تھے ایک ایسا چراغ بھی بنایا جا سکتا ہے جس کا فتیلہ لوہے کا ہو اور وہ مائع آکسیجن میں ڈبو دیا جائے اور اگر فتیلے کو اس طرح جلائیں کہ سرخ ہو جائے تو وہ نہایت چمکدار روشنی کے ساتھ رات کو روشن رکھے گا ۔
روایت ہے کہ ایک دن محمد باقر جعفر صادق کے والد گرامی نے اپنے درس میں کہا پانی جو آگ کو بجھا دیتا ہے علم کے ذریعے اس سے آگ بھی جلائی جا سکتی ہے اگرچہ اس بات سے کوئی شاعرانہ تعبیر نہیں لی گئی مگر یہ بات اس وقت بے معنی نظر آئی تھی اور ایک عرصے تک جن لوگوں نے بھی یہ روایت سنی انہوں نے سمجھا کہ محمد باقر کوئی شاعرانہ تعبیر زبان پر لائے ہیں لیکن اٹھارویں صدی کے بعد یہ ثابت ہو گیا کہ علم کی مدد سے پانیس ے بھی آگ جلائی جا سکتی ہے۔
وہ بھی ایک ایسی آگ کہ جو کوئلے یا لکڑی کی آگ سے زیادہ گرم ہو کیونکہ ہائیڈروجن جس کے دو حصے پانی میں ہوتے ہیں آکسیجن کے ساتھ ۶۶۶۴ ڈگری تک پہنچتی ہے اور آکسیجن کے ذریعے ہائیڈروجن کے جلنے کے عمل کو اکسیڈروجن کہتے ہیں اور یہ صنعتوں میں دھاتوں کو پگھلانے یا دھاتوں کے ٹکڑوں میں سوراخ کرنے کے کام آتی ہے ۔
ہمیں معلوم ہے کہ محمد باقر نے فرمایا علم کی مدد سے پانی سے آگ جلائی جا سکتی ہے لیکن انہوں نے ہائیڈروجن کو دریافت نہیں کیا تھا اور ہمارے پاس اس کا بھی کوئی ثبوت نہیں ہے کہ ان کے بیٹے جعفر صادق نے ہائیڈروجن کو خالصتا دریافت کیا اسی طرح جس طرح ہمارے پاس کوئی دستاویزی ثبوت نہیں جس کی بنا پر ہم کہہ سکیں کہ جعفر صادق نے آکسیجن کو دریافت کیا ۔
لیکن بغیر کسی شک و تردد کے ہم کہہ سکتے ہیں کہ امام جعفر صادق نے آکسیجن کو خالصتا دریافت کیا اور ہمارے پاس اس کی دلیل ان کے کیمیائی کارنامے ہیں ۔
جعفر صادق کے کیمیائی کارناموں کا کچھ حصہ آکسیجن کی مدد سے انجام پایا ہے اور اس عنصر کی مداخلت کے بغیر امام جعفر صادق ان کارناموں کو انجام نہیں دے سکتے تھے لہذا انہوں نے آکسیجن کو دریافت کیا لیکن خالصتا نہیں بلکہ دوسرے عناصر کے ساتھ مرکبات شکل میں ملی ہوئی یہاں پر یہ ذکر کرنا ضروری ہے کہ انہوں نے کوئی تھیوری پیش نہیں کی انہوں نے جو نتائج حاصل کئے ان سے دو فارمولے بنائے پہلے یہ کہ ہوا کا ایک جزو ایسا ہے جو دوسرے اجزا کی نسبت زیادہ اہمیت کا حامل ہے اور یہی جزو زندگی کے لئے نہایت اہم ہے دوسرا یہی وہ جزو ہے جس کی وجہ سے وقت کے گزرنے کے ساتھ ساتھ چیزوں کی شکل میں تبدیلی آتی ہے یا وہ باسی ہو جاتی ہیں اس مفہوم کو زیادہ یاد رکھنا چاہیے کیونکہ اس سے پتہ چلتا ہے کہ امام جعفر صادق نے آکسیجن کو دریافت کرکے کتنی باریک بینی کا ثبوت دیا ۔
جس کے بعد فرانسیسی لاووازیہ نے پریسٹلے انگریز کے بعد آکسیجن کے ابرے میں تحقیق کی اور اس کے تحقیقی کام کا کھوج لگایا ‘ سائنس دان اس بات کے قائل ہو گئے کہ اجسام میں تبدیلی جو وقت کے گزرنے کے ساتھ ساتھ آتی ہے آکسیجن کی وجہ سے آتی ہے حتی کہ ایک فرانسیسی " پاستور " نے خلایہ دریافت کیا اور اس نے کہا کہ بعض چیزوں کا باسی ہو جانا آکسیجن کی وجہ سے نہیں بلکہ چھوٹے چھوٹے جراثیموں کی وجہ سے ہے (مثلا غذا وغیرہ جو وقت کے ساتھ ساتھ باسی ہو جاتی ہے ) اور یہ چھوٹے چھوٹے جراثیم مردہ جانداروں کے جسم اور غذا پر حملہ کرکے اسے باری کر دیتے ہیں لیکن پاستور کو غور کرنا چاہیے تھا کہ جو چیز ان جراثیموں کو زندہ رکھنے کا سبب ہے وہ آکسیجن ہے کیونکہ آکسیجن کے بغیر ان کی زندگی نا ممکن ہے لہذا جیسا کہ جعفر صادق نے فرمایا آکسیجن اشیاء میں تبدیلی لانے کا موثر ذریعہ ہے بلکہ بعض اوقات دھاتوں سے براہ راست مل کر ایک مرکب وجود میں لاتی ہے اور اس عمل کو کیمیا کی اصطلاح میں اوکسیڈیشن کہتے ہیں ۔
اتنا گہرا اظہار نظر امام جعفر صادق کی طرف سے بغیر عملی تجربات کے ناممکن تھا ۔ جعفر صادق کا زمانہ ایسا تھا کہ وہ آکسیجن کی پہچان پر مزید تحقیق نہیں کر سکے لیکن انہوں نے اندازہ لگا لیا تھا کہ ہوا کو وہ جزو جو زندہ رہنے کیلئے اشد ضروری ہے اور چیزوں کی اصلی حالت میں تبدیلی لاتا ہے وہ بھاری بھی ہے اور انسان کو ابھی مزید ایک ہزار سال لاووازیہ کے دنیا میں آنے تک صبر کرنا تھا ۔
جس نے کہا وزن کے لحاظ سے ہر نو کلو گرام پانی میں آٹھ کلو گرام آکسیجن ہوتی ہے لیکن حجم کے لحاظ سے ہائیڈروجن آکسیجن کی نسبت دو گنا زیادہ ہوتی ہے لاووازیہ آکسیجن کو پہچاننے میں اس قدر آگے نکل گیا کہ اس گیس کو مائع میں تبدیل نہ کر سکا وہ اس فکر میں تھا کہ آکسیجن کو مائع میں تبدیل کرے لیکن دو چیزیں اس کے آڑے آئیں ۔
پہلی یہ کہ اس کے دور میں جو اٹھارویں صدی کا آکری دور تھا صنعت اور ٹیکنالوجی نے اس قدر ترقی نہیں کی تھی کہ وہ محقق انسان اپنے مقصد کو حاصل کر سکے ۔ دوسرا یہ کہ اس سے پہلے کہ وہ مزید تحقیق کرتا ۔ اسے مار دیا گیا ۔
اس کے بعد ایک عرصے تک سائنسدان کہتے رہے کہ آکسیجن کو مائع میں تبدیل نہیں کیا جا سکتا حتی کہ ٹیکنالوجی نے اتنی ترقی کر لی کہ وہ چیزوں کو کافی مقدار میں سرد کرنے میں کامیاب ہو گئے لیکن انیسویں صدی عیسوی تک وہ آکسیجن کو صنعتی استعمال کیلئے بڑے پیمانے پر مائع حالت میں تیار نہیں کر سکے ۔
بیسویں صدی عیسوی میں زیادہ سرد درجہ وجود میں لانے کی ٹیکنیک انیسویں صدی کی نسبت زیادہ کامیاب ہوئی اور صفر سے نیچے ۱۸۴ درجہ تک آکسیجن کو (بغیر زیادہ دباؤ کے ‘ نہیات ہی کم دباؤ کے ذریعے )ٹھنڈا کرنے میں کامیاب ہوئے ۔
آج آکسیجن کو صنعتی پیمانے پر تیار کیا اور استعمال میں لایا جاتا ہے اور ۱۸۳ درجہ صفر کی سردی کو کم سرد نہیں سمجھنا چاہیے کیونکہ صرف ۹۰ درجہ کا یہ مطلق صفر درجہ سے کافی فاصلہ ہے اور یہ مطلق صفر درجہ ۱۶ ء ۲۷۲ ۔( منفی دو سو بہتر عشاریہ ایک چھ درجے ) صفر سے نیچے کا درجہ ہے اور اتنے کم درجہ حرارت پر سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ مادے کی اندرونی حرکت ساکن ہو جاتی ہے ۔
جعفر صادق کا زمانہ سائنسی نقطہ نگاہ سے ایسا زمانہ نہ تھا کہ جعفر صادق سائنس کے بارے میں مزید پیشرفت کرتے لیکن جہاں تک آکسیجن کی پہچان کا تعلق ہے وہ اس لحاظ سے سب سائنس دانوں پر سبقت لے گئے ۔
اور اس سے پتہ چلتا ہے کہ فزکس کے اس حصے میں وہ اپنے معاصروں سے ہزار سال آگے تھے ۔
بعض روایات میں ملتا ہے کہ امام جعفر صادق کے شاگردوں نے ان کے بعد کہا کہ ہوا یا آکسیجن کو مائع میں تبدیل کیا جا سکتا ہے لیکن جو کچھ امام جعفر صادق کے شاگردوں نے کہا وہ ایک عام نظریہ ہے قدیم زمانوں سے حتی کہ ارسطو سے بھی پہلے یہ معلوم کر لیا گیا تھا کہ بخارات کو مائع میں تبدیل کیا جا سکتا ہے لیکن وہ گیسوں کو مائع میں تبدیل کرنے کا وسیلہ نہ رکھتے تھے ۔ یہ ڈھکی چھپی بات نہیں ہے کہ قدیم زمانے سیآج کے علوم کا کچھ حصہ تھیوری کی شکل میں پیش کیا جا چکا تھا کمی صرف اس بات کی تھی کہ اس زمانے میں وسائل موجود نہیں تھے جس کی وجہ سے ان تیھوریز کو عملی جامہ پہنانا مشکل تھا ۔ یونانی دھو کریت نے عیسی کی ولادت سے پانچ سو سال پہلے ایٹمی نظریئے کو اسی طرح جسطرح آج ہمارے پاس موجود ہے ۔
پیش کیا اور کہا مادہ ایٹموں سے مل کر بنا ہے اور ہر ایٹم کے اندر تیز حرکات پائی جاتی ہیں اگر ہم الیکٹرون ‘ پروٹون اور نیوٹرون اور ایٹم کے دوسرے تمام حصوے کے ناموں کو درمیان میں نہ لائیں کیونکہ ان کا تعلق انیسویں صدی عیسوی سے ہے تو ہمیں یہ معلوم ہو گا کہ دھو کر یت کی ایٹمی تھیوری اور موجودہ ایٹمی تھیوری میں ذرہ برابر فرق نہیں ہے۔
البتہ بنی نو ع انسان نے اس ایٹمی توانائی سے کافی دیر بعد فائدہ اٹھایا اور اگر دوسری جنگ عظیم پیش نہ آتی اور جرمن سائنسدان ایٹمی توانائی سے فائدہ اٹھانے کے بارے میں غورو فکر نہ کرتے اور امریکہ جرمنی کے ترقی کر جانے کے خوف سے ایٹمی توانائی سے فائدہ نہ اٹھاتا تو شاید اس صدی کے آخر تک بھی ایٹمی توانائی بروئے کار نہ لائی جاتی ۔
اگرچہ جعفر صادق کے شاگردوں نے ہوا یا آکسیجن کو مائع میں تبدیل کرنے کے امکانات کے بارے میں جو کچھ کہا وہ پہلے سے موجود تھا لیکن خود جعفر صادق نے جو کچھ آکسیجن کے متعلق کہا ہے وہ تیھوری کی حدود سے تجاوز کرتا ہے اور اسی سے پتہ چلتا ہے کہ وہ آکسیجن کی پہچان کے بارے میں عملی مرحلہ میں داخل ہو چکے تھے۔