کیا ابن راوندی کیمیا دان تھا ؟
ابن راوندی ‘ جیسا کہ اس سے پہلے ذکر کیا گیا ہے طب میں معقول نظریات رکھتا تھا چونکہ جعفر صادق کی دوسری یا تیسری نسل کے شاگردوں میں سے تھا اس لئے کیمیا سے بھی واقف تھا اور جیسا کہ کہا جاتا ہے کیمیا دان شمار ہوتا تھا ۔
جب قدیم کیمیا دانوں کی بات ہو رہی ہو تو یہ گمان نہیں کرنا چاہیے کہ وہ سونا یا چاندی بنانے کا کامکرتے تھے قدیم کیمیا دان آج کے کیمیا دانوں کی مانند عناصر کی ترکیب اور تجزیہ میں لگے رہتے تھے اور ان میں سے کوئی بھی سونا یا چاندی بنانے کا قصد نہ رکھتا تھا ۔ لیکن ان کے مقلدین اور وہ لوگ جو علم اور معلومات نہ رکھتے تھے جب انہوں نے ایک کیمیان دان کے کاموں کو دیکھا تو انہوں نے گمان کر لیا کہ اس کا کام سونا بنانا ہے اور پھر وہ بھی سونا بنانے کی طرف متوجہ ہو گئے اور ایک مدت گزرنے اور سرمایہ صرف کرنے کے بعد جب وہ کسی نتیجے پر نہ پہنچ سکے تو انہوں نے ایسا کام شروع کر لیا جس سے ان کی گزر اوقات کا سلسلہ ہونے لگا ۔
کیمیا دانوں نے ایسی چیزیں بنائیں جن کی صنعتی لحاظ سے قدرو قیمت سونے سے بھی زیادہ تھی لیکن کوئی بھی کیمیا دان آج تک سونا نہیں بنا سکا ۔ یورپ کے کیمیا دانوں میں سے ایک کیمیا دان جس کا نام نیکولا فلامل ہے نے قرون وسطی میں کیمیا گری کے متعلق ایک کتاب لکھی ہے۔
یہ شخص جو چودھویں صدی عیسوی کے دوسرے پچاس سالوں کے دوران ہو گزرا ہے اس نے ابن راوندی کے مرنے کے ۶۱۰ سال بعد اس کے بقول سونا بنایا ‘ اپنی کتاب میں یوں رقم طراز ہے (میں نے بتاریخ ۱۷ جنوری ۱۳۸۲ عیسوی کو سفید چونے کو شراب کیجو ہر یعنی الکحل کے ساتھ شیسیکے ایک دیگچے میں دھیمی آنچ پر رکھا اور جب کسی حد تک ابلا تو اس کا رنگ پہلے سیاہ اور پھر برف کی مانند سفید (لیکن دھندلا ) ہو گیا اور اس کے بعد سخت ہو گیا اور زرد رنگ کی صورت اختیار کر گیا مین نے اسے ایک ایسے دیگچے میں جس میں پارہ تھا ‘ ڈال دیا اور جب پارہ گرم ہوا تو جو کچھ میں نے اس میں ڈالا تھا پارہ میں حل ہو ا تو ایک غیر شفاف زرد رنگ کا سنہری سیال وجود میں آیا پھر میں نے اس دیگچے کو چولہے سے اتار لیا تاکہ ٹھنڈا ہو جائے اور اس کے ٹھنڈا ہونے کے بعد اسیایک پیالے میں ڈالا جس میں پارا تھا اور جب دوبارہ گرم کیا تو سب کچھ پارے میں حل ہو گیا پھر اسے جب تھنڈا کرکے میں نے دیکھا تو وہ سب کچھ سونا بن چکا تھا اور سونا بھیایسا کہ عام سونے سے زیادہ نرم اور لچکدار تھا یہ جو کچھ میں نے عرض کیا حقیقت ہے ۔
شاید نیکو لا فلامل نے اس ساریطریقہ کار کی تکمیل کے بعد زرد رنگ کی کوئی چیز حاصل کر لی ہو لیکن جو کچھ اس نے دیگچے میں دیکھا تھا وہ سونا نہیں تھا آج بھی اگر کوئی اس تجربے کی حالتوں کو جانچنا چاہے تو وہ اس نتیجے پر پہنچے گا کہ اس طرح سونا نہیں بنتا کیونکہ پارہ ایک مائع دھات ہے اور آگ پر رکھنے سے یہ جلد ہی بخارت بن کر اڑ جاتا ہے۔
کہا جاتا ہے کہ ابن راوندی کیمیا دان تھا وہ سونا بناتا تھا لیکن جس وقت وہ سنار ہو گا بغداد میں داخل ہونے کے بعد مطلب بصری کتابوں کے نسخے قلیل مزدوری پانے کیلئے تیار نہ کرتا ہو گا ۔
ابن راوندی اصفہانی ‘ جو تیسری صدی ہجری کے پہلے پچاس سالوں میں ہو گزرا ہیکو ہالینڈ کے اراسم یا اراسموس کی شبیہ قرار دیا گیا ہے‘ جو سولہویں صدی عیسوی میں ہو گزرا ہے حالانکہ ان دونوں کو ایک دوسرے کی شبیہ قرار دینا بعیداز قیاس ہے ‘ اراسم یا اراسمو س کو ابن راوندی کی شبیہ نہیں قرار دیاجا سکتا اور نہ ہی ابن راوندیکو اراسموس (ہالینڈی ) کی شبیہ قرار دیا جا سکتا ہے۔
اراسم یا اراسموس ‘ جسے لوگ "دیوانگی کی مدح " اور امال جیسی کتابوں کے مصنف کے عنوان کے طور پر جانتے ہیں یہ ایک دیندار آدمی تھا جبکہ ابن راوندی نے خود اپنی کتاب الفرند میں اپنے بے دین ہونے کا اعتراف کیاہے ۔
اگرچہ اراسم کو مرتد ٹھہرایا گیا ہے جبکہ عیسائی علمائنے اس الزام کو اس پر لاگو نہیں جانا ہالینڈی اراسم پر تہمت لگانے کی وجہ یہ تھی کہ اس نے عیسائیوں کی مذہبی کتب کو یونانی متن سے براہ رست ترجمہ کیا اور بغیر کسی تبدیلی کے عیسائی مومنین کی خدمت میں عہد قدیم اور عہد جدید سمیت عیسائی مذہب کی کتب پیش کر دیں۔ اراسم سے پہلے عیسائیوں کی مذہبی کتب جن میں عہد قدیم اور عہد جدید شامل تھیں ‘ دولگات کہلاتی تھیں ۔
وولگات ‘ لاطینی زبان میں تھیں ‘ ان میں غلطیوں کے ساتھ ساتھ اضداد بھی پائی جاتی تھیں اراسم نے قدیم عیسائی مذہبی کتابوں کا متن جو قدیم یونانی زبان میں تھا ‘ حاصل کیا اور اسے ترجمہ کیا اور چونکہ گوٹنبرگ نیچھاپہ خانہ ایجاد کر لیا تھا لہذا اراسم نے عتیق عہد اور عہد جدید کو چھپوایا اور جیسا کہ ہمیں معلوم ہے کہ عہد جدید میں چار اقسام کی انجیل شامل ہے جب اراسم کا ترجمہ کتابی شکل میں عیسائی مومنین کے ہاتھ لگا تو وہ حیران اور مسرور ہوئے ۔ کیونکہ اس میں اضاداد یا
تناقصات نہیں تھے اور بے مقصد و بے معنی نکات سے بھی مبرا تھی ۔ ان چار اقسام کی انجیل کے سابقہ متن میں مصنفین کی شخصیت کا اچھی طرح احساس نہیں ہوتا تھا جبکہ جدید متن جو اراسم ہالینڈینے ترجمہ کیا ہے میں ان چار انجیلوں کے مصنفین کی شخصیت کا بخوبی احساس ہوتا تھا اور قاری یہ سمجھتا تھا کہ ان چار انجیلوں کے مصنفین میں سیکوئی معلم اور وزارت تعلیم میں مبصر رہا ہو گا اور دوسرا کوئی ماہر قانون دان رہا ہو گا وغیرہ وغیرہ ۔
اس کا جواب یہ ہے کہ اگر اراسم بے معنی اور بے مفہوم عیسائی مذہبی کتب کے مطالب کو واضح نہ کرتا اور اصل یونانی متن کے ترجمے کے ساتھ غلطیوں کی تصیح نہ کرتا تو پروٹسٹنٹ مذہب وجود میں نہ آتا ارسم نے پروٹسٹنٹ مذہب کی ایجاد میں ذرا بھی حصہ نہیں لیا ۔ لیکن اس کا ترجمہ پروٹسٹنٹ مذہب کو وجودمیں لانے کا باعث بنا اراسم کے ترجمے کی تقسیم کے بعد ایک گمنام مذہبی شخص (جسے آج سب لوتر کے نام سے جانتے ہیں )ارسم کا ترجمہ پڑھنے سے قبل اس بات کا خیال نہیں آیا تھا کہ عیسائی مذہب میں ایک جدت وجود میں لائے اسے یہ فکر اراسم کا ترجمہ پڑھنے سے پیدا ہوئی ۔
بہر حال لوتر نے اراسم کو جو خط لکھا ہے اس کیمطابق لوتر نیاراسم کی عیسائی مذہب کو اصلاح کی فکر کو جلا بخشی اور اس طرح پروٹسٹنٹ تحریک وجود میں آئی ۔
جب لوتر نے اراسم کے ترجمے کو مد نظر رکھتے ہوئے چار انجیلوں کا جرمن زبان میں ترجمہ کیا اور تہمت لگائی کہ اس نے عیسائی مومنین کے درمیان تفرقہ ڈالنے کیلئے اپنے علم کو عہد عتیق اور عہد جدید کے ترجمے کیلئے استعمال کیاہے ۔
لیکن روشن خیال مذہبی پیشواؤں نے اس تہمت کو در خور اعتنا نہیں سمجھا اور آورین ششم جو کیتھولک مذہب کا پوپ اور سربراہ تھا نے اراسم کو ایک خط لکھا اور کہا ‘ مجھے اس میں کوئی شک و شبہ نہیں ہیکہ تم عہد عتیق اور عہدہ جدید کے ترجمے کے ذریعے عیسائیت کی خدمت کرنا چاہتے تھے لیکن اگر تم چاہتے ہو کہ دوسری بھی تمہاری تہمت پر شبہ نہ کریں تو پروٹسٹنٹ مذہب کے متعلق اپنے نظریات کا علی الاعلان اظہار کر دو ۔
اراسم ‘ لوتر اور جدید مذہب کے دوسرے پیروکاروں سے کشمکش نہیں مول لینا چاہتا تھا لیکن جب اسے پوپ کا خط ملا تو اس نے کتابی صورت میں اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا " میں عیسائیت کے متعلق لوتر اور اس کے مریدوں کے نظریات کو تسلیم نہیں کرا "
لیکن اس کے باوجود کہ اراسم نے اپنی کتاب میں لوتر اورا س کے مریدوں کے نظریات کو تسلیم کرنے سے انکار کیا اس بیسویں صدی عیسوی میں ابھی تک بعض ایسے لوگ موجود ہیں جن کے بقول اراسم نے پروٹسٹنٹ مذہب کا بیج بویا اور اس کے ترجمے نے لوتر کو پروٹسٹنٹ تحریک وجود میں لانے کی طرف متوجہ کیا ۔
اس ساری بحث سے ہمارا مقصد یہ دکھانا تھا کہ ابن راوندی کو اراسم سے تشبیہ دنا درست اور عہد جدید کا قدیم یونانی متن سے ترجمہ کرنے کا مقصد کیتھولک مذہب میں تفرقہ اندازی تھا ‘ پھر بھی ان دونوں کو ایک دوسرے سے تشبیہ نہیں دی جا سکتی۔
ایک دن ابن راوندی کتاب کے رقم شدہ صفحات کو مطلب بصری کے ہاں لیکرپہنچا تاکہ اس سے اپنا معاوضہ حاصل کرے تو اس نے مطلب بصری کے پاس ایک شخص کو موجودپایا جب اس کتاب کے صفحات مطلب بصری کے ہاتھوں پہنچے تو اس شخص نے ان پر ایک نظر ڈالی تو ایک صفحے کے مطالب اسے جانے پہچانے لگے اس نے وراق سے کہا گویا یہ میری کتاب ہے ۔ مطلب بصری نے کہاہاں آپ ہی کی کتاب ہے ‘ میں نے اس کے نسخے تیار کرنے کیلئے ابوالحسن (ابن راوندی ) کو دی تھیاس شخص نے ابن راوندی پر ایک نگاہ ڈالی اور کہا کہاں کے باسی ہو ؟
ابن راوندی نے اپنا وطن بتایا ‘ اس شخص نے ابن راوندی کے خط پر ایک سرسری نظر دوڑاتے ہوئے کہا تم خوش خط نہیں ہو مطلب بصری نے کتاب کے مولف کو باور کرانے کیلئے کہا ابن راوندی ایک عام سا کاتب ہے کہا کہ یہ اس کتاب کی کاپیاں تیار کر رہا ہی جو تم سی خریدی ہے۔
مولف کتاب نے حقارت میز لہجے میں کہا اگر ایسا ہے تو پھر کوئی حرج نہیں ایک خرب خط آدمی بھی میری کاپیاں تیار کر سکتا ہے جب ابن راوندی نے دیکھا کہ اس کو حقارت کی نظر سے دیکھا جا رہا ہے تو چونکہ اس نے مولف کا نام کتاب میں دیکھا تھا ۔ پوچھا کیا صمصام کوفی تم ہی ہو؟اس شخص نے کہا جی
ہاں ‘ ابن راوندی بولا ‘ تمہاری کتاب میں غلط ملطہ مطالب کی بھر مار ہے ۔ صمصام کوفی نے پوچھا ‘ تم کون ہوتے ہو جو میری کتاب کے مطالب کے بارے میں اظہار خیال کرو ؟ ابن راوندی نے کہا میں نے خوشخطی سیکھنیکیلئے علم حاصل کیالہذا میں کتاب کے مطالب کے کچھ حصے کی غلطیوں کی شناخت کر سکتا ہوں ۔
صمصام کوفی نے کاہ ‘ ان میں ایک غلط مطلب مجھے بتاؤ ۔ ابن راوندی نے جواب دیا ان میں سے ایک غلطی وہ ہے جو اس حصے میں موجود ہے جس سے میں نے کل دن اور رات میں نسخہ تیار کیا ہے ‘ پھر اسنے وہ صفحات جو مطلب بصری کو دیئے تھے اس سے واسپ لے کر ایک صفحہ صمصام کافی کے ہاتھ میں تھمایا اور کہا پڑھو ۔
صمصام کافی نے اسے پرھا اور کہا یہ مفہوم تمہیں کیوں غلط لگا ؟ ابن راوندی نے کہا ‘ اس لئے کہ تم نے اس صفحے میں لکھا ہے کہ آدمی اپنے کام میں خود مختار نہیں اور اگر آدمی اپنے کام میں خود مختار نہ ہو تو وہ کیسے جزا یا سزا کا مستوجب ہے ؟
صمصام کوفی نے کہا میں تمہارا مطلب نہیں سمجھا کیا کہنا چاہتے ہو ابن راوندی بولا میرا مطلب یہ ہے کہ اگر میں اپنے کام میں خود مختار نہیں ہوں اور جو کچھ میں انجام دوں وہ کسی دوسرے کے اختیار میں ہو تو اسکی سزا یا جزا مجھے کیوں ملتی ہے ؟
اس دوران ایک دوسرا مولف ایا جو نہی وہ صمصام کوفی اور ابن راونی کی بحث میں مطلع ہوا تو اس بحث میں شامل ہو گیا اس طرح یہ بحث و مباحثہ طول کھینچ گیا اس بحث کاموضوع ایک نہ ختم ہونے والا موضوع ہے کیونکہ جس دن سے حکمت وجود میں آئی ہے اس دن سے لیکر آج تک جو لوگ انسان اور جب تک حکمت باقی ہے جبر اور ختیار کے ان طرفداروں کے درمیان شاید یہ بحث جار ی رہے گی۔
اس بنا پر ہم اس مقام پر اس پرانی بحث کو جو ابن راوندی اور اس کے مخالفین کے درمیان ہوئی نہیں دہراتے کیونکہ سب جانتے ہیں کہ اس بحث کا نتیجہ کچھ بھی نہیں نکلتا ۔
لیکن اس مباحثے سے جان گئے کہ معلومات کے لحاظ سے ابن راوندی کو دوسروں پر برتری حاصل ہے ہو یونانی حکماء کو جانتا ہے اور جبرو اختیار کے بارے میں ان کے نظریات سے بھی بخوبی آگاہ ہے مطلب بصری‘ اگرچہ ایک وارق تھا لیکن چونکہ اس نے عمر کا کافی حصہ کتابوں کے نسخے تیار کرنے میں گزارا تھا اس بات کو سمجھتا تھا ۔ کہ ابن راوندی ان دو مولفین کے مقابلے میں علم و دانش کے لحاظ سے برتر ہے اور ابن راوندی محض کاتب ہونے کے باوجود دوسرے دو افراد سے بہتر سوجھ بوجھ رکھتا ہے اور نہایت قوی دلائل پیش کرتا ہے وہ اس کے دلائل کو رد نہیں کر سکتے ۔
جس دن مطلب بصری نے دیکھا کہ ابن راوندی نے کتاب پر حاشیہ لکھا اس نے ان حواشی کو پڑھا ہی نہیں تھا کہ وہ اس کی قابلیت کا اندازہ کر سکتا وہ محض حواشی کو دیکھتے ہی آگ بگولا ہو گیا جس کی وجہ سے اس نے غصے میں آ کر کہاکہ ابن راوندی کو اپنے آپ سے کوئی چیز نہیں لکھنا چاہیے ورنہ اسے کتابوں کے نسخے تیار کرنے سے محروم کر دیا جائے گا ۔
لیکن اس دن جب اس نے سنا کہ ابن راوندی کیا کہتا ہے تو اس کی علمی برتری اس پر آشکار ہو گئی کیونکہ جولوگ کتابوں کے نسخے تیار کرنے میں عمر صرف کر دیتے تھے وہ کتاب شناس ہونے کے علاوہ علماء کی وقعت سے بھی آگاہ ہو جاتے تھے آج کتابوں کے نسخے نہیں تیار کرتا کتابیں یا تو چھپتی ہیں یا ان کی فوٹو کاپی کی جاتی ہے بہر کیف آج بھی ایسے لوگ موجود ہیں جو کتاب کے ساتھ ایک عمر گزارتے ہیں تو آخر وہ عالم شناس اور کتاب شناس کا درجہ حاصل کر لیتے ہیں چاہے وہ پرانی کتابیں بیچنے والے ہی کیوں نہ ہوں ۔
اس بحث میں صمصام کوفی ‘ ابن راوندیکے سامنے نہ ٹھہر سکا اور کسی کام کا بہانہ کرکیوہاں سے چلتا بنا ۔ اس طرح دوسرے مولف نے بھی صمصام کوفی کے جانے کے بعد فرار ہی میں اپنی عافیت سمجھی۔ ان دونوں کے جانے کے بعد مطلب بصرینے ابن راوندی سے کہا تم اصفہان میں کیا کرتے تھے ؟
ابن راوندینے کہا میں وہاں مدس تھا مطلب بصرینے کہا میں جانتا ہوں تو ایک عالم ہے اور میں شرط کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ جب تیرے حالت سدھر جائی گی تو مجھے فراموش نہیں کرے گا تمہاری مدد کرنے کو تیار ہوں چونکہ میں نے چند ایسے اشخاص کی بغداد میں آنے کے بعد مدد کی جن کا یہاں جاننے والا کوئی نہ تھا لیکن جب وہ اونچے مقامات پر فائز ہوئے تو مجھے بھول گئے جب کبھی میں ان کے ہاں جاتا تھا مجھے درخور اعتنا نہیں گردانتے تھے جب وہ میری کوئی مدد کرنا چاہتے تو صرف مجھے کتاب دے دیتے تاکہ میں اس کی کاپی تیار کروں ابن راوندی نے اپنا اظہار خیال کرتے ہوئے بتایامیں وہ انسان نہیں ہوں کہ کوئی مشکل اوقات میں میری مدد کرے تو جب میرے حالات سدھر جائیں اسے بھول جاؤں ۔
مطلب بصری کہنے لگا سبھی یہ وعدہ کرتیہیں مگر اس پر عمل کم ہی کرتے ہیں اور جونہی تنگدستی فراخ دستی میں جھونپڑی محل اور فقیرانہ لباس شاہانہ لباس میں تبدیل ہوتاہے اس بات کو فراموش کر دیتے ہیں کہ تنگدستی کے وقت ‘ دوسروں کے ساتھ کیا وعدہ کیا تھا ؟ اور اگر سابقہ محسنوں میں سے کوئی اسکے گھر کا رخ کریتو دربان کہتا ہے کہ میرا صاحب تجھے نہیں جانتا اگر وہ گھر کے مالک سے ملنے پر اصرار کرے تو غلام گھر سے باہر آ کر اس کی ایسی مرمت کرتے ہیں کہ اسے چھٹی کا دودھ یاد آ جاتا ہے ۔
ابن راوندی نے کہا اے مطلب بصری اگر کوئی کسی سے نیکی کرنا چاہے تو وہ اس کی اس قدر اتمام حجت نہیں کرتا اسے اطمینان ہو جائے کہ اس کی نیکی کا بدلہ چکا دے گا میں تم سے کوی غیر معمولی مدد نہیں چاہتا اور یہ تمہاری مرضی ہے کہ میری اعانت کر و یا نہ کرو مطلب بصری نے کہا اس کے باوجود کہ مجھے یقین نہیں ہے کہ تم میری نیکی کا صلہ چکا دو گے میں تمہیں ایک عالم سمجھ کر تمہاری مدد کرتا ہوں تم ایک کتاب چاہے وہ چھوٹی ہی کیوں نہ ہو کسی دلچسپی موضوع پر لکھو بہتر یہ ہے کہ وہ حکمت کے متعلق ہو تاکہ میں اپنے سارے وسائل بروئے کارلاتے ہوئے خلیفہ کی خدمت میں پیش کروں اس طرح خلیفہ تمہاری طرف متوجہ ہو گا اور تمہیں انعام و اکرام سے نوازے گا اس کے ساتھ تمہیں ایسے کام پر لگائے گا کہ پھر تمہیں معاش کے بارے میں کوئی فکر نہ رہے گی لیکن جب تک تم کچھ لکھ کر خلیفہ کی خدمت میں پیش نہیں کرو گے دوبار خدمت میں رسائی حاصل نہیں کر سکتے۔
ابن راوندی بولا میرے پاس ایک کتاب لکھی ہوئی تیار ہے تم اسے اپنے وسائل کو بروئے کارلا کر خلیفہ کی خدمت میں پیش کر سکتے ہو مطلب بصری نے پوچھا کیا تمہاری کتاب کا موضوع حکمت ہے ابن راوندی نے اثبات میں جواب دیا اپنا معاوضہ حاصل کرکے جانے لگا تو مطلب بصری کو بات یاد آئی اور اس نے پوچھا کیا تمہاری کتاب کی صرف ایک ہی کاپی ہے؟
ابن راوندی نے کہا ہاں ‘ مطلب بصری کہنے لگا اس سے قبل کہ تمہاری کتاب کو خلیفہ تک پہنچاؤں تم اس سے ایک عدد کاپی تیار کر لو کیونکہ جو کاپی تم خلیفہ کی خدمت میں پیش کرو گے وہ اگر اسے پسند آئی تو اس کی لائبریری میں جمع ہو جائے گیاور وہ تمہیں پھر واپس نہیں ملے گی ۔ ابن راوندی نے کہااس بات کو چھوڑیئے کیونکہ اس کتاب کا متن میرے پاس موجود ہے اگر خلیفہ نے میرے کتاب خرید لی تو میں اسے دوسری کاپی تیار کر لو ں گا ۔
ابن راوندی کی کتاب " الفرند" حکمت کے متعلق تھی لیکن ایسی حکمت کے متعلق کہ کتاب کے بعض ابواب میں تریخ اور جغرافیہ سے بھی مدد لی گئی تھی ۔
آج یہ کتاب موجود نہیں ہے لیکن اس کے کچھ اقتباسات مغرب کے مسلمان علمائکی کتابوں میں ہوتے ہیں جن سے اس بات کی طرف اشارہ ملتا ہے کہ یہ خاصی دلچسپ کتاب شمار کی جاتی تھی ۔
دوسرے دن ابن راوندی نے اپنی کتاب مطلب بصری کو دی اور دوسری کتاب کا وہ حصہ جو مزید نسخے تیار کرنے کیلئے اسے ملا تھا اس نے وہ بھی مطلب بصری کی خدمت میں حاضر کرکے اپنا معاوضہ حاصل کیاجیسا کہ ہم دیکھ چکے ہیں جب ابن راوندی نے اپنی کتاب الفرند عباسصروم کی خدمت میں پیش کی تھی تو اس شخص نے حیرانگی کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس کتاب کی تصنیف اور اس کے دوسرے لوگوں تک پہنچنے کے بعد تم کیسے زندہ ہو ؟ عباس صروم کو اس بات کا حق تھا کہ وہ ابن راوندی کیزندہ رہ جانے پر حیرت کا اظہار کرے ۔ چونکہ امام جعفر صادق نے شیعہ مکتب میں آزادی بحث ایجاد کر دی تھیاس لئے ابن راوندی کو اس بات کا احساس نہ تھا کہ شیعی ثقافت کی بنیاد امام جعفر صادق نے رکھی تھیاور اسے وسعت بخشی تھی اس میں کسی شخص کو روایتی طریقوں کے خلاف بات کرنے کے جرم میں واجب القتل قر ار دیا جا سکتا ہے بے شک اس آزادی بحث سے شیعی ثقافت کی جریں مضبوط ہوئیں ۔
ابن راوندی کا عباس صروم سے رجوع کرنے کا مقصد یہ تھا کہ اسکے ذریعے خلیفہ کے دربار تک رسائی حاصل کرکے خلیفہ سے بہر مند ہوجس وقت عباس صروم نے اسے اپنے ہاں سے نکال دیاتو ابن راوندی نے اسے عباس صروم کے حسد پر معمول کیا ۔ اگر ابن راوندی اس بات کا قائل ہو جاتا کہ واقعی عباس صروم نے اس سے حقیقت بیان کی ہے اور اس کی جان خطرے میں ہے تو وہ اپنی کتاب کو ہر گز خلیفہ تک پہنچانے کیلئے مطلب بصری کے حوالے نہ کرتا ۔
عملی حسد ہر زمانے میں رہا ہے اور بعض ادوار میں اس قدر زیادہ تھا کہ استاد سکھانے میں لیت و لعل سے کام لیتے تھے اور اپنا سار ا علم اپنے شاگروں کو نہیں سکھاتے تھے کہ کہیں ایسا نہ ہوکہ وہ علم میں پیشرفت کرکے استاد کی جگہ لے لیں ۔
خاص طور پر جب کوئی عالم خلیفہ یا کسی اور حاکم کے دربار سے وابستہ ہو جاتا تھا ‘ اس کا علمی حسد بہت بڑھ جاتا تھا اور اگر حاسد میں طاقت ہوتی تو وہ محسود کو سرے سے مٹا دیتا تھا تاکہ خلیفہ کے دربار یا کسی دوسرے دربار میں مقبول نہ ہو جائے گذشتہ ادوار میں کوئی بھی استاد یہ تنقید نہیں کرت تھا کہ کیوں اس نے اپنے علم کا فلاں حصہ اپنے شاگردوں کو نہیں سکھایا ۔
اگر کوئی اس کی بھلائی کیلئے زبان کھولتا اور استاد سے اس بارے میں پوچھتا تو وہ اعتراض کرنے والے کو خاموش کرنے کیلئے دو ٹوک الفاظ میں وضاحت کر دیتا اور کہتا کہ میں نے اس لئے نہیں سکھایا کہ میرے شاگرد نا اہل تھے اور میں نہیں چاہتا تھا کہ میرا علم نا اہل ہاتھوں میں پہنچے اس وضاحت کو سب قبول کر لیتے تھے ۔
ابن راوندی کو اس میں کوئی شک نہ تھا کہ عباس صروم کا خلیفہ سے متعارف کرانے کے ضمن میں اسکی مدد سے پہلو تہی کرنے کی واحد وجہ حسد تھی اور چونکہ اس نے مطلب بصری کو حاس د نہیں پایا تھا لہذا اس نے کتاب اسکے حوالے کی تاکہ خلیفہ کی خدمت میں پیش کرے ۔
ہمیں معلوم نہیں کہ مطلب بصری نے کسی ذریعے سے ابن راوندی کی کتاب خلیفہ کی خدمت میں پہنچائی چونکہ تاریخ اس بارے میں خاموش ہے اس زمانے کے تمام دوسرے کتابوں کی مانند مطلب بصری نے بھی ابن راوندی کی کتاب نہ پڑھی اور اگر وہ اسے پڑھتا اور سمجھتا کہ ابن راوندی نے اپنی کتاب میں کیا لکھا ہے ۔ تو وہ اسے عباسی خلیفہ کے دربار میں پہنچانے سے گریز کرتا کیونکہ اس کتاب نے جس طرح ابن راوندی کو مشکل میں ڈالا تھا ممکن تھا کہ مطلب بصری کو بھی مشکل میں پھنساتی ۔
چونکہ مطلب بصری جیسا شخص جو مصروف کاتب تھا اور چند دوسرے کاتب بھی اسکی وساطت سے بادشاہ کے درباری علماء کی کتابوں کے نسخے تیار کرتے تھے لہذا خلیفہ کے دربارے علماء کے ایک گروہ سے اسکی جان پہچان تھی اور زیادہ احتمال یہی ہے کہ اس نے انہی میں سے کسی کی وساطت سے ابن راوندی کی کتاب خلیفہ کی خدمت میں پیش کی ۔
جس وقت یہ کتاب خلیفہ کے ہاتھوں میں پہنچی اس وقت تک عباس کو فرصت مل چکی تھی کہ وہ خلیفہ سے کہے کہ ابن راوندی مرگی کا مریض ہے المتوکل نے ان لوگوں کی مانند کتاب کو درمیان سے کھولا جو کسی کتاب کو پڑھنا نہیں چاہتے بلکہ صرف چند جملے پڑھ کر یہ اندازہ لگانا چاہتے ہیں کہ کتاب میں کیا لکھا ہے ‘ جب وہ کچھ سطریں پڑ چکا تو کتاب میں اسکی دلچسپی بڑھ گئی جس چیز نے خلیفہ کی توجہ کو مرکوز کیا وہ کاشمر میں ایک درخت کا تذکرہ تھا جسے زرد تشی نہایت محترم شمار کرتے تھے اور اس کے بارے میں معتقد تھے کہ اسے زردشت نے کاشت کیا ہے جب المتوکل نے کاشمر کے اس درخت کا تذکرہ آخر تک پڑھ ا تو غضب میں آ گیا ۔
جیسا کہ ہم نے کہا ہے ابن راوندی نے تاریخی اور جغرافیائی مباحث کو اپنی کتاب میں فلسفیانہ نتائج حاصل کرنے کیلئے رقم کیا اور سرو کے اس درخت کے بارے میں بحث سے اس نے یہ نتیجہ نکالا کہ وہ درخت ذات باری تعالی کی طرف متوجہ کرنے کا سبب بنا اور نہ صرف زردشتی اس کی پوجا کرتے تھے بلکہ مسلمان بھی کاشمر کے اس سرو کی پرستش کرتے تھے ۔
جب متوکل کو کاشمر میں سرو کے اس درخت کے متعلق علم ہوا تو غضبناک ہو گیا اور کہنے لگا مجھے ہر گز اس بات کا علم نہ تھا کہ میری قلمروئے خلافت میں کسی درخت کی پوجا ہوتی ہے ۔
میرازدشتیوں سے کوئی تعلق نہیں وہ جسے چاہیں اسکی پوجا کریں لیکن میں ہر گز برداشت نہیں کر سکتا کہ کاشمر کے مسلمان کسی درخت کو اپنا معبود جانیں اور اسکی پوجا کریں اور اگر یہ درخت اس طرح پایا جاتا ہے جس طرح اس کتب میں اس کا تذکرہ ہو اہے تو اسے اکھاڑ پھینکا جائے اور اگر اس بات کا احتمال ہو کہ اسکی جڑیں ہری ہو جائینگی اور ایک مرتبہ پھر یہ درخت بن جائیگا تو اسکی جڑوں کو بھیاکھاڑی پھینکیں تا کہ دوبارہ ہرا نہ ہو سکے اس لحاظ سے ابن راوندی پہلا شخص تھا جس نے متوکل کو یہ درخت اکھاڑنے کی فکر دلائی متوکل نے طاہر بن عبداللہ بن طاہر والئی خراسان کو اس درخت کے متعلق اطلاع دی طاہر بن عبداللہ بن طاہر متوکل کے مقربین میں سے تھا اور متوکل کی زندگی کے آخری ایام تک اس کا وفا دار رہا ۔
اس حاکم خراسان نے عربوں کے تسلط کے بعد پہلی ایرانی بادشاہت قائم کی جو صفاری خاندان کی تھی حالانکہ یہ خود بھی ا س بات سے آگاہ نہ تھا ۔ چونکہ طاہر بن عبداللہ بن طاہر نے خراسان کی حکومت کا کچھ حصہ یعقوب لیث کے حوالے کر دیا تھا اسی کے نتیجہ میں بادشاہت کیلئے راہ ہموار ہوئی البتہ یہ بحث ہمارے موضوع سے میل نہیں کھاتی ۔
جونہی طاہر بن عبداللہ بن طاہر کو خلیفہ کا خط موصول ہوا اس نے درخت کے بارے میں تحقیق کی تو پتہ چلا کہ وہ درخت کا شمر میں موجود ہے اور زردشتی و مسلمان دونوں اس کا احترام کرتے ہیں اس نے خلیفہ کو لکھ بھیجا کہ ایک ایسا درخت موجود ہے جسے لوگ قابل احترام گردانتے ہیں لیکن کوئی بھی اس کی پوجا نہیں کرا خیال کای جاتا ہے کہ حاکم خراسان کی اس درخت کے بارے میں رپورٹ سے بادشاہ مطمئن ہو گیا اور درخت اکھاڑنے سے باز رہا ۔
کیونکہ اگر قزوینی کی تالیف آثار البلاد کو سند مانا جائے تو جس وقت کاشمر سرو کے اس درخت کے ٹکڑے جب خلیفہ کے دارالحکومت میں بھیجے گئے تو متکول اپنے بیٹے المستنصر کے ہاتھوں قتل ہو چکا تھا ۔ اور ابن راوندی ۲۳۶ ہجری میں بغداد میں وارد ہوا جبکہ متوکل اپنے بیٹے کے ہاتھوں ۲۴۷ ہجری قمری میں قتل ہوا اور ان دو تاریخوں کے درمیان گیارہ سال کا عرصہ ہے ابن راوندی کی کتاب قاعدے کی رو سے ۲۳۶ ھ میں یا اس کے ایک سال بعد خلیفہ کیہاتھوں میں پہنچی ہو گی اور کاشمر کے درخت کو ۲۴۷ ھ میں اس سے ایک سال قبل ۲۴۶ ھ میں اکھاڑا گیا ہو گا ۔
تحقیق کی رو سے ہمیں معلوم نہیں کہ کاشمر کا درخت کس تاریخ کو اکھاڑا گیا لیکن اسلامی تواریخ سے پتہ چلتا ہے کہ جس وقت اس درخت کی لڑی دارالحکومت بغداد میں پہنچی متکول زندہ نہ تھا تو اصولا یہ درخت متوکل کے قتل کے سال یا اس سے ایک سال پہلے اکھاڑا گیا ہو گا مسلمان مورخین کے بقول وہ درخت اس قدر بڑا تھا کہ اسکی شاخیں ایک وسیع رقبے کا حاطہ کئے ہوئے تھیں اسکی شاخیں پانچ سو گز لمبی اور اتنی ہی چوڑی تھیں ۔
مسلمان مورخین کے بقول ہزاروں پرندے پورا سال اس درخت پر گھونسلے بنائے رکھتے تھے چونکہ پرندے مخصوص موسم میں گھونسلے بناتے اور انڈے دیتے ہیں لہذا پرندوں کا سارا سال گھونسلے بنائے رکھنے والی روایت صحت کے اعتبار سے مشکوک ہے اور دوسرا زمین کے نصف خشک حصی میں (جس میں کاشمر بھی شامل ہے ) خسکی کے پرندے صرف موسم بہار میں گھونسلے بناتے اور انڈے دیتے ہیں ۔
اگر مسلمان مورخین کسی شہر کے بارے میں ایسی بات کہتے کہ کاشمر میں اتنا بڑا شہر تھا تو بات بنتی تھی لیکن اتنیبڑے درخت کے وجود کو عقل تسلیم نہیں کرتی جیسا کہ بعض مسلمان مورخین نے یہاں تک مبالغے سے کام لیا ہے کہ ایک فوج اس درخت کے سائے میں استراحت کرتی تھی ۔
نا معلوم راویوں کے حوالے سے اس درخت کیمتعلق اور بھی کئی روایات مشہور ہیں ان میں سے ایک روایت یہ ہے کہ جب متوکل نے والئی خراسان کو اس درخت کے اکھاڑنے کا حکم صادر کیا تو اسکے درباری جادو گر نے اسے منع کرتے ہوئے کہا جس دن یہ درخت اکھاڑا جائیگا تمہاری زندگی ختم ہو جائیگی اور ویسا ہی ہوا ۔ یعنیوہ درخت اکھاڑا گیا متوکل اپنے بیٹے کے ہاتھوں قتل ہو گیا اور اسکی عمر نے وفا نہ کی کہ وہ کاشمر کے سرو کے اس درخت کو جسے بغداد لایا گیا تھا دیکھ سکتا یہ روایت قابل قبول نہیں کیونکہ عباسی خلفاء کے ہاں جادوگر نہیں ہوتے تھے اور نہ ہی وہ جادو گری کے معتقد تھے اور اگر جادوگر ہوتے بھی تو ایسی بات منہ سے نہیں نکال سکتے تھے کیونکہ کسی جادو گر کو جرات نہ ہوتی تھی کہ وہ عباسی خلفاء کو جنکی اکثریت شرابی تھی کہہ سکتے کہ تمہاری زندگی کا چراغ گل ہو جائیگا ۔
متوکل وہ خوش قسمت خلیفہ تھا جسکی عمر شرابی ہونے کے باوجود دوسرے عباسی خلفاء سے زیادہ تھی وہ چالیس سال سے زیادہ عرصے تک زندہ رہا اور اگر قتل نہ ہوتا تو شاید پچاس بہاریں دیکھتا ‘ عباسی خلفاء کی اکثریت شراب خوری میں افراط برتنے کی بنا پر جوانی ہی میں موت کے گھاٹ اتری ۔
جادو گری چوتھی صدی ہجری کے بعد عباسیوں کے دربار خلافت میں داخل ہوئی بہرکیف کوئی بھی خلیفہ جادو گری کا معتقد نہ تھا البتہ کبھی کبھی دل بہلانے کیلئے جادو گر سے رجوع کرتے تھے دوسری روایت یہ ہے کہ جس وقت زرد شتی مذہب کے خراسانی پیشوا الحراق نے سنا کہ متوکل نے کاشمر کے سرو کے درخت کو اکھاڑنے کا حکم دیا ہے تو اس نے کہا یہ شخص قتل ہو جائیگا اور اسکی نسل برباد ہو جائیگی ۔
بعید ہے کہ زردشتی مذہب کے پیشوا کا نام الحراق ہو جو ایک عربی نام ہے اور اگرچہ متوکل قتل ہوا لیکن اسکی نسل برباد نہیں ہوئی اور مزید چار سو سال تک عباسیوں کی خلافت قائم رہی ان میں سے بعض روایات مجہول ہیں اور بعض قابل اعتماد نہیں جو بات قابل قبول ہے وہ یہ ہے کہ اگر ابن راوندی کی کتاب متوکل کے ہاتھوں میں نہ پہنچتی تو کاشمر میں سرو کا درخت نہ کاٹا جاتا اس درخت کے محل و قوع کے بارے میں اختلافی روایات ملتی ہیں ۔