المتوکل اور ابن راوندی
جس دنمتوکل نے ابن راوندی کی کتاب کھول کر اس میں کاشمر میں سرو کے درخت کا تذکرہ پڑھا عباس صروم خلیفہ کے حضور میں حاضر تھا بولا اے امیر المومنین ‘ اس کتاب کا مصنف مرگی کا مریض ہے متوکل نے کہا ‘ میں اس کتاب میں اس کے مرگی کا مریض ہونے کیکوئی علامت نہیں پاتا ہوں اور جو کچھ کتاب میں لکھا ہوا ہے اس سے پتہ چلتا ہے کہ یہ شخص جنرل نالج رکھتا ہے ۔
عباس صروم بولا اگر امیر المومنین کتاب کے دوسرے حصوں کا مطالعہ کریں تو معلوم ہو جائیگا کہ یہ شکص مرگی کا مریض ہے اور اس کے بیانات کو در خور اعتنا نہیں سمجھنا چاہیے لیکن اس دن خلیفہ نے کتا کے کافی حصے کا مطالعہ کر لیا تھا اور وہ مزید اسے پڑھنے کی سکت نہیں رکھتا تھا لہذا اس نے شراب پینے کو ترجیح دی آخر کار عباس صروم نیمتوکل کے ذہن میں یہ بات ڈال دی کہ ابن راوندی مرگی کا مریض ہے تاکہ اگر ابن راوندی (جو بغداد ا چکا تھا ) اس کے دربار سے منسلک ہو جائے تو عباس صروم کو اس سے کوئی خطرہ نہ ہو ۔
جیسا کہ ہمیں معلوم ہے اکثر عباسی خلفاء کی روش ایسی تھی کہ وہ اطرح طرح کے حرام کاموں کا ارتکاب کرتے تھے لیکن اگر کوئی دو سرا ان کاموں کا مرتکب ہوتا تو اسے حد لگاتے یا قتل کر دیتے تھے اور اپنے اعمال سے یہ ظاہر کرتے تھے کہ خلیفہ پر اسلامی تعزیرات لاگو نہیں ہوتیں اور وہ ان تعزیرات سے بے نیاز ہے ۔
عباسی خلفاء نفسانی خواہشات کی پیروی کرنے میں اس قدر بے باک تھے کہ فسق و فجور میں مبتلا ہونے میں کوئی عار محسوس نہ کرتے تھے اور اپنے اپ کو عوام و خواص سے اس قدر برتر جانتے تھے کہ حرام اعمال کا علی الاعلان ارتکاب کرتے تھے لوگ انہیں دیکھتے رہتے لیکن ان پر اعتراض نہیں کر سکتے تھے ۔ کیونکہ ایک طرف تو لوگ ان سے خوف کھاتے اور دورا وہ اعمال کا اتنی مرتبہ تکرار کرتے کہ لوگ اسے ایک معمولی بات شمار کرتے تھے لوگ نہ تو ان کے ان اعمال سے متحیر ہوتے اور نہ ہی متنفر ہوتے تھے کچھ دنوں بعد خلیفہ کو ابن راوندی کی کتاب کھولنے کا خیال آیا اور ایک ایسی چیز پر اس کی نگاہ پڑی کہ اسے پڑھتے ہی وہ طیش میں آ کر بولا کیا اس کتاب کا مصنف اسی شہر میں ہے ؟
جس شخص کی وساطت سے یہ کتاب خلیفہ تک پہنچی تھی اس نے کہا ہاں ۔
متوکل نے کہا کیا تم اسے جانتے ہو اس شخص نے کہا میں اسے نہیں جانتا خلیفہ نے سوال کیا اگر تم اسے نہیں جانتے تو کیسے اس کتاب کو اس سے لے کر میرے لئے لائے ہو اس شخص نے جواب دیا میں نے یہ کتاب اس شخص سے نہیں لی بلکہ کاتب مطلب بصری سے لی ہے اس نے مجھ سے درخواست کی کہ اس کتاب کو خلیفہ کی خدمت میں پہنچا دو کیونکہ اس کتاب کا مصنف جو ایک تنگ دست انسان ہے شاید خلیفہ کی توجہ اس کی طرف مبذول ہو جائے اور خلیفہ اس کی کچھ مدد کرے
خلیفہ نے سوال کیا ‘ کیا تو نے یہ کتاب پڑھی ہے ؟ اس شخص نے کہا نہیں اے امیر المومنین ‘ کیونکہ اس کے مصنف سے میریذاتی تعلقات نہ تھے کہ میں اس کی تحریر کو پڑھتا ۔ اور محض مطلب بصری کی درخواست پر اس کتاب کو آپ کے لئے لایا ہوں خلیفہ نے کہا ‘ مطلب بصری کو حاضر کرو ۔
وہ شخص جس وقت مطلب بصری کو لانے کیلئے آیا تو اسے خیال آیا کہ اسے مطلب بصری کو نہیں بتانا چاہیے کہ خلیفہ اس کی کتاب پڑھنے سے غضب ناک ہوا ہے کیونکہ اس صورت میں وہ شہر چھوڑ کر بھاگ نکلے گا ۔
لہذا اس نے مطلب بصری سے کہا ‘ خلیفہ کو تمہاری کتاب پسند ائی ہے اور اس نے تمہیں یاد کیا ہے مطلب بصری خوشی خوشی چل پڑا کیونکہ جب اس نے سنا کہ خلیفہ نے کتاب پسند کی ہے تو اسے یقین ہو گیا کہ اسے انعام و اکرام سے نوازنا چاہتا ہے کاتب کو یہ خیال نہ آیا کہ خلیفہ نے کتاب کے مصنف کو کیوں نہیں بلایا اور اسے کیوں بلایا ہے ؟ چونکہ خلیفہ کا انعام مصنف کو ملنا چاہیے تھا نہ کہ اسے وہ اس بات سے خوش تھا کہ خلیفہ کا انعام اس کے ذریعے ابن راوندی کو ملے گا ایسی صورت میں یہ فطری امر ہے کہ ابن راوندی انعام کا کچھ حصہ قدر دانی کے طور پر اسے دیدے گا کاتب جب خلیفہ کے حضور میں آیا تو خلیفہ نے سوال کیا تو نے یہ کتاب پڑھی تھی یا نہیں ؟ خلیفہ کے سوالیہ لہجے سے مترشح تھا کہ خیر نہیں ‘ کاتب نے صاف کہہ دیا کہ اس نے کتاب نہیں پڑھی ۔ خلیفہ نے پوچھا ‘ تم نے یہ کتاب پڑھے بغیر کیوں بھیجی ہے ؟ اور اس کے بھیجنے میں تمہارا کیا مقصد تھا ؟ مطلب بصری کہنے لگا ‘ اس کتابکا مصنف ایک اصفہانی ہے جو اس شحر میں حال ہی میں وارد ہوا ہے وہ میرے لیے کتابت کرتا ہے چونکہ وہ تنگ دست ہے لہذا اس نے مجھ سے درخواست کی کہ میں اس کی کتاب کو خلیفہ کی خدمت میں پیش کروں کہ شاید امیر المومنین کے بندہ پرور دستر خون سے اس کی مراد بر ائے متوکل نے کہا چونکہ تم ایک کاتب ہو اور تم نے اس کتاب کا مطالعہ نہیں کیا لہذا میں اس شرط پر تمہیں چھوڑتا ہوں کہ کتاب کے مصنف کو میرے حضور میں حاضر کرو ۔
مطلب بصری جب خلیفہ کے دربار سے باہر نکلنے لگا تو جس شخص کو اس نے کتاب دی تھی اسے کہنے لگا تم نے مجھے کیوں نہیں کہا کہ خلیفہ غضب ناک ہوا ہے تم نے مجھے فریب کیوں دیا ؟
مطلب بصری نے اس شخص کے کہنے سے تجربہ حاصل کیا اور جب وہ ابن راوندی کے مسافر خانے کی طرف جا رہا تھا تو اپنے آپ سے کہنے لگا میں اسے یہ نہیں بتاؤں گا خلیفہ ناراض ہوا ہے بلکہ میں اسے خلیفہ کے انعام و اکرام بتلاؤں گا تاکہ وہ آنے پر مائل ہو سکے اور پس و پیش نہ کرے ۔
یہاں پر اس بات کا ذکر زائد از بحث ہے کہ ابن راوندی مسافر خانے میں بیٹھا کتابت میں مشغول تھا جب اسے اطلاع دی گئی کہ بادشاہ نے اس کی کتاب پسند کی ہے اور اسے دربار میں طلب کیا ہے تاکہ انعام و اکرام سے نوازے تو وہ کس قدر خوش ہوا ۔
لیکن جونہی وہ چلنے کیلئے اٹھا پریشانی کے آثار اس کے ماتھے پر نمایاں تھے ۔اس نے ایک سرد اہ بھری ‘ مطلب بصری نے پوچھا تمہیں کیا ہوا ہے ؟ وہ اصفہانی شخص بولا میں اس پرانے لباس اور پھٹے ہوئے جوتوں کے ساتھ کس طرح خلیفہ کی خدمت میں جاؤں ۔ مطلب بصری نے جواب دیا تم خلیفہ کے دربارے میں جانے سے پہلے اپنے جوتے اتار لینا اور پھر کوئی بھی تمہارے پھٹے پرانے جوتے نہیں دیکھ سکے گا ۔
ابن راوندی نے کہا ‘ میں اپنے پرانے لباس کو تو اپنے جسم سے جدا نہیں کر سکتا ۔ خلیفہ اور اس کے حواری اسے ضرور دیکھ لیں گے مطلب بصری کہنے لگا ‘ تمہارا پرانا لباس تمہارے عالم ہونے کی سند ہے کیونکہ حقیقی علماء تنگ دست ہوتے ہیں اس لئے وہ نیا لباس نہیں خرید سکتے
دوسرا یہ کہ اگر میں خلیفہ سے کہتا کہ اصفہان کا امیر ترین میندار آیا ہے اور ا کے حصور میں حاضر ہونا چاہتا ہے تو کیا تمہیں اس بات کا حق تھا کہ اپنے پرانے لباس کا رونا روتے اور نادم ہوتے ؟
لیکن میں نے خلیفہ سے کہا ہے کہ تم ایک تنگ دست انسان ہو اور اسے علم ہے تم سرائے میں رہتے ہو اور کتابوں کے نسخے تیار کرکے گزر بسر کرتے ہو ۔ خلیفہ کے دربار میں کوئی بھی نہ تو تمہارے پرانے لباس پر اظہار تعجب کریگا اور نہ ہی تمہیں حقارت کی نظر سے دیکھے گا اس حوصلہ افزائی کے بعد ابن راوندی ۔ مطلب بصری کے ہمراہ خلیفہ کے محل کی جانب چل پڑا ۔
جیسا کہ ہم نے کہا ‘ خلیفہ رات کو شراب پیتا تھا ‘ اور دوپہر تک شراب میں مد ہوش رہتا تھا وہ شرابی جو پچاس یا ساٹھ سال تک لگا تار راتوں کو شراب پیتے ہیں اکثر دوپہر تک وہ شراب کے نشے میں مخمور رہتے ہیں البتہ اس کا انحصار گذشتہ رات کی مقدار شراب پر ہے اگر وہ کم پئیں گے تو کم خمار آئے گا زیادہ پینے کی صورت میں زیادہ خمار ہو گا ۔
خلیفہ نے اس رات بہت تھوڑی شراب پی تھی لہذا اس دن شراب کا کم نشہ تھا کیونکہ اگر شراب کا خمار زیادہ ہوتا تو وہ ابن راوندی کی کتاب کو ہر گز نہ کھول سکتا ۔ ابن راوندی خلیفہ کے حضور میں آیا اور سلام کے بعد با ادب کھڑا ہو گیا خلیفہ نے سامنے پڑی ہوئی کتاب کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اس اصفہانی شخص سے پوچھا کیا یہ کتاب تم نے لکھی ہے ابن راوندی بولا ہاں اے امیر المومنین ۔
خلیفہ نے کہا ‘ اگر مجھے یہ نہ بتاتے کہ تم مرگی کے مریض ہو تو میں ابھی جلاد کو بلا کر تمہارا سر تن سے جدا کرا دیتا راوندی کا رنگ اڑ گیا اس کے زانو کانپنے لگے ‘ وہ کچھ کہنا چاہتا تھا مگر خوف کے عالم میں اس کی زبان گنگ ہو گئی ۔
خلیفہ بولا ‘ تمہاری کتاب تمہارے ہاتھوں میں دیتا ہوں تاکہ تم خود پڑھو اور ساری سنیں کہ تم نے اس کتاب میں کیا لکھا ہے ؟ تاکہ تمہارے واجب االقتل ہونے میں کسی کو شک و شبہ نہ ہو ۔ کتاب ابن راوندی کے ہاتھ میں دی گئی تاکہ اس نے جو کچھ اس صحفہ میں لکھا ہے اسے رھے ۔ ابن راوندی نے جو کچھ لکھا تھا پڑھنے لگا تو حاضر مجلس میں بعض فرط و حشت سے کانپنے لگے کیونکہ ایسے الفاظ بھی تک کسی کی زبان سے ادا نہیں ہوئے تھے ۔
اصفہانی شخص خاموش ہوا تو متوکل بولا دوبارہ پڑھو اس طرح ابن راوندی نے دوبارہ پڑھنا شروع کیا جو بحث وہ پڑ ھ رہا تھا اسکا تعلق خداوند تعالی سے تھا جب وہ بحث پڑھ چکا تو خلیفہ بولا لوگو تم نے سنا یہ کہتا ہے کہ انسانی زندگی میں سب سے بڑا افسانہ خداوند تعالی کا اعتقاد ہے اور انسان اس افسانے میں مگن ہو گیا ہے انسان اسے نسل در نسل منتقل کرتا چلا ا رہا ہے اس کے بعد خلیفہ نے سوال کیا کیا تمہاری یہ کتاب کسی نے پرھی ہے ابن راوندی نے اثبات میں جواب دیا خلیفہ نے وہی بات کہی جو عباس صروم نے کہی تھیاور تعجب کرنے لگا کہ اس کتاب کو لوگوں نے پڑھا تھا لیکن ابن راوندی کو قتل نہیں کیا عبا صروم کی مانند المتوکل بھی اس بات سے آگاہ نہ تھا کہ امام جعفر صادق کی ایجاد کردہ ثقافت میں ہر طرح کی بحث کی آزادی ہے کسی کو بھی محض اس وجہ سے آزاد نہیں پہنچاتی تھے کہ وہ مخالف مذہبی بحث پیش کرتا ہے ۔
امام جعفر صادق کے ثقافتی مکتب کے پیروکار ابن راوندی کے بغداد سفر کرنے سے پہلے اسے ان باتوں کا جواب دے چکے تھے اور یہ بات بھی خلیفہ پر مخفی تھی اس کا خیال تھا کہ کسی نے بھی ابن راوندی کو جواب نہیں دیا۔
بعض کا خیال ہے کہ کتاب الفرند ( ابن راوندی کی تصنیف ) خلیفہ کے ہاتھوں میں پہنچنے سے قبل عراق اور ایران کے مرکزی علاقوں میں کسی کے ہاتھوں میں نہیں پہنچی تھی ‘ کیونکہ پرانے وقتوں میں دستور تھا کہ جو کوئی اپنی کتاب خلیفہ کی خدمت میں پیش کرنا چاہتا اسے اس کی تازگی کو محفوظ رکھنے کیلئے کسی دوسرے کے ہاتھوں میں نہیں دیتا تھا شاید ایسا ہی ہوا ہو اور کتاب الفرند کو خلیفہ سے قبل کسی نے نہ دیکھا ہو لیکن جو کچھ ابن راوندی نے اس کتاب میں لکھا اس میں کوئی نئی بات نہیں تھی کیونکہ ان مطالب کو وہ دوسری کتابوں میں لکھ چکا تھا اور جعفر صادق کی مذہبی ثقافت کے پیروکار اسے جواب دے چکے تھے بہر حال اس بارے میں تحقیق نہیں ہوئی کہ خلیفہ کے ہاتھوں میں پہنچنے سے پہلے عوام نے یہ کتاب پڑھی تھی یا نہیں ؟
لیکن جو نظریات ابن راوندی نے کتاب ‘ الفرند ‘ میں درج کیے تھے وہ اس کی دوسری کتابوں میں بھی پائے جاتے تھے اور اسے ان کا جواب مل چکا تھا ۔
خلیفہ نے اس کے بعد اس اصفحانی شخص سے پوچھا ( تم خدا کے وجود کے قطعی منکر ہو اور تم نے لکھا ہے کہ خدا پر ایمانی بنینوعی انسان کا سب سے بڑا افسانہ ہے جو ایک نسل سے دوسری نسل تک پہنچتا ہے تمہارا کائنات کی خلقت کے بارے میں کیا خیال ہے یہ کائنات کیسے وجود میں آئی ہے ؟ یہ بات کیسے ممکن ہے کہ مخلوق ‘ خالق کے بغیر ہی وجود میں آ جائے ؟
ابن راوندی خاموش ہو گیا اور خلیفہ بولا ‘ میرا جواب دو ‘ تم جو خدا کے وجود کا انکار کرتے ہو ‘ کس چیز کا جواب اثبات میں دیتے ہو ؟ اور کیا کوئی انکار کرے تو اسے اثبات نہیں کرنا چاہیے پھر بھی ابن راوندی خاموش رہا خلیفہ بو لا ‘ اگر میرے سوال کا جواب نہیں دیتے تو میں حکم دونا کہ تمہیں کوڑے لگا کر بات کرنے پر مجبور کیاجائے ۔
ابن راوندی نے کہا اے امیر المومنین میں خدا کا منکر نہیں ہوں ۔
خلیفہ بولا ‘ تم نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ انسانی زندگی کا سب سے ۶ را افسانہ مبدا (پروردگار) کے بارے میں ہے تو کیا یہ جملہ جو تمہاری زبان سے ادا ہوا ہے جسے سب نے سنا ہے یہ خدا کا انکار نہیں ؟
ابن راوندی نے کہا ‘ مجھے اس جملے کی اصلاح کرنا چاہیے مجھے لکنا چاہیے کہ نوع بشر کی زندگی کا سب سے برا افسانہ مبدا (باری تعالی کے متعلق تصور ہے ۔
خلیفہ نے پوچھا ‘ تمہارے اس قول کا کیا مطلب ہے ؟ ابن راوندی نے جواب دیا ‘ میرے قول کا مطلب یہ ہے کہ بنینوع انسان نے مبدا (خالق ) کے متعلق جو تصورات قائم کئے ہیں وہ افسانے کی صورت اختیار کر گئے ہیں انسانی زندگی میں یہ سب سے بڑا افسانہ ہے کیونکہ ادمی مبدا (خالق کائنات ) کو پہچان سکتا ہے اور نہ اسکے اوصاف در ک کر سکتا ہے ۔
اس سنے عباس صروم سے مخاطب ہو کر کہا یہ وہ شخص ہے جس کے بارے میں تمہارا کہنا ہے کہ مرگی کا مریض ہے اب مرگی کا مریض اس طرح گفتگو کر سکتا ہے ؟
پھر ابن راوندی سے مخاطب ہو کر کہا میں تمہاری اس بات کو قبول کرتا ہوں ‘ خادم کو حکم دیا کہ قلم اور ساہی لا غرضیکہ قلم اور ساہی لائی گئیاور خلیفہ نے ابن راوندی کو حکم دیا کہ اپنی کتاب کی اصلاح کرے اس شخص نے اپنی تحریر کی اس طرح اصلاح کی انسانی زندگی کا سب سے بڑا افسانہ خالق کائنات سے نسبت کا تصور ہے اور پھر یہ خلیفہ کو دکھایا ۔ خلیفہ بولا ‘ یہ تم اعتراف کرتے ہو کہ خدا پر ایمان ہے اور اسے خالق کائنات اور کائنات کا نظام چلانے والا سمجھتے ہو ۔
ابن راوندی سے کتاب لی اور اس کے دوسرے حصے پر نگا ڈالی جو نبوت کے بارے میں تھا ابن راوندی نے اپنی کتب میں نبوت سے انکار کیا تھا اور جعفری مذہب کے ثقافتی پیروکاروں نے اس حصے کا جواب بھی اسے دے دیا تھا مگر متوکل ان کے جوابات سے آگاہ نہ تھا ۔ عباسی خلیفہ نے نبوت کے متعلق اقتباس بھی مصنف کو پڑھنے کیلئے دیا اس نے اسے اتنی بلند آواز سے پڑھا کہ حاضرین مجلس نے اچھی طرح سن لیا ۔ ابن راوندی نے اپنی بحث سے جو نتیجہ نکالا تھا وہ منفی پہلو کا حامل تھا اس کا کہنا تھا کہ نبوت کا حقیقی اور صحیح معنوں میں کوئی وجود نہیں ہے چونکہ اگر خلاق کائنات خدا ہی ہے جیسا کہ لوگوں کا عقیدہ ہے تو وہ مجبور نہیں ہے کہ لوگوں کی ہدایت کیلئے ایک شخص کا انتخاب کرے اور اسے اپنا رسول بنا کر بھیجے بلکہ جس طرح درخت جانور اور انسان خود بخود ترقی کرتے ہیں اور درخت پھل دیتے ہیں اس طرح انسان بھی خود بخود ہدایت حاصل کرتے ہیں ۔
ابن راوندی نے اپنے لکھے ہوئے مواد کے اثبات کیلئے پودوں اور جانوروں کی مثالیں بھی دی ہوئی تھیں اور لکھا تھا جس طرح گندم کا پودا اور کھجور کا درخت بغیر کسی بنی کے بڑا ہوتا ہے اور پھل دیتا ہے اگر خالق کائنات چاہتا تو انسان کو بھی گندم کے پودے اور کھجور کے درخت کی مانند رشد کرتا اور بغیر کسی بنی کے پھل لاتا ۔
جب وہ سب کچھ پڑ چکا تو متوکل نے کہا ‘ تیری یہ تحریر ثابت کرتیہے کہ تو انبیاء کا منکر ہے کیونکہ تیرا قوال ہے کہ اصلی اور حقیقی معنوں میں انبیاء کا وجود نہیں ہے یعنی خدا کی طرف سے بھیجے ہوئے نہیں بلکہ انہوں نے خود نبوت کا دعوی کیاہے ۔
ابن راوندی خاموش رہاخلیفہ بولا ‘ بول ‘ ورنہ میں حکم دونگا کہ تمہیں زبردستی بولنے پر مجبور کیا جائے اس سے پہلے کہ ابن راوندی اپنی کتاب خلیفہ کی خدمت میں پیش کرتا ‘ جعفری ثقافت کے پیروکاروں کے ایک گروہ نے نبوت کے متعلق بھی اسے جواب دیدیا تھا ۔
انہوں نے لکھا تھا کہ ابن راوندی نے پودوں ‘ جانوروں اور انسان کی تربیت کو ایک جیسا فرض کیا ۔اور جب دیکھتا ہے کہ پودے اور حیوان خود بخود تربیت پاتے اور پھل لاتے ہیں تو اسے خیال آتا ہے کہ آدمی بھی خود بخود پرورش پاتا اور درجہ کمال تک پہنچتا ہے ۔
نباتات اور حیوانات کی دنیا میں بھی ایسے ہیں جو پرورش کے بغیر پھل نہیں لاتے اور ختم ہوجاتے ہیں اور انسانی دنیا میں تو پرورش واجبات ہی سے ہے بلکہ پیدائش کے دن سے لیکر عمر کے آخری دن تک انسان تربیت کا محتاج ہے ۔
انسانی زندگی ‘ پودوں اور جانوروں کے مقابلے میں اپنی مخصوص نوعیت کی حامل ہے ۔ جس کا تقاضا ہے کہ انسان کی اجتماعی تربیتکی جائے اور انبیاء اس اجتماعی تربیت کے ذمہ دار ہیں انسانی معاشروں میں انبیاء کے بغیر کوئی ایسا اجتماعی ڈسپلن ‘ جس سے تمام انسان بہرہ مند ہوں وجود میں آنا محال ہے اور اگر کوئی ڈسپلن وجود میں آ ہی جائے تو وہ استحصالی ڈسپلن ہو گا اس مین جس کی لاٹھی اس کی بھینس کا قانون رائج ہو گا ۔ اس صورت میں انسانی معاشرے کی اصلاح کا بیڑا اٹھانے کیلئے انبیاء کا وجود نا گزیر ہے تاکہ انسان کی اجتماعی زندگی میں عدل و انصاف قائم ہو ۔
ابن راوندی نے جعفری ثقافتی مکتب کے علماء کے نظریات ( جو انہوں نے اس کے نظریہ نبوت کی رو میں پیش کئے تھے ) فراموش نہیں کیا تھا اور جب اس نے اپنے آپ کو خطرے میں گھرا ہوا پایا تو اس نے اپنی جان بچانے کیلے ان اقوال سے فائدہ اٹھاتے ہوئے کہا اے امیر المومنین میں نے جو کچھ نبوت کے متعلق اس کتاب میں درج کیا ہے ‘ وہ تمام موجودات کے متعلق ایک حکم کلی کی حیثیت رکھتا ہے ۔ متوکل نے پوچھا ‘ تمہارا کیا مطلب ہے ؟
ابن راوندی نے جواب دیا ‘ میرا مطلب یہ ہے کہ خالق کائنات انسان کو بھی پودوں اور جاروں کی مانند خلق کر سکتا تھا تاکہ انہیں تربیت کیلئے انبیاء کی حاجت نہ ہوتی ۔
خلیفہ نے کہا ‘ اے شخص ‘ اگر تیرے کہنے سے مراد یہ تھا تو تم نے نبوت کا انکار کیوں کیا ہے ؟ تم اپنی کتاب میں لکھ سکتے تھے کہ پودوں اور جانوروں کو نبی کی ضرورت نہیں ۔
کیونکہ ان دو طبقات کی زندگی خاص اصول و ضوابط کے تحت رواں دواں ہے جبکہ انسان انبیاء کے بغیر کبھی بھی ہدایت نہیں پا سکتا اور کیا تمہیں اس بات کا اعتراف ہے کہ اپنی کتاب میں تم نے نبوت کا انکار کیا ہے ؟
ابن راوندی نے کہا ‘ میں نے ایک کلی حکم صادر کیا ہے اور نبوت کا انکار کیا ہے ؟
خلیفہ بولا ‘ تم نے نبوت کا انکار کیا ہے اس میں شک و شبہ کوئی گنجائش نہیں کہ دیگر تمام حاضر نے سنا ہے کہ تمہارے کہنے سے مراد نبوت کا انکار ہے تمہاری سزا قتل ہے ‘ اگر تم اپنی غلطی کا اعتراف کرتے ہو تو اپنی عبارت سے توبہ کرو تو تمہاری جان بخشی ہو سکتی ہے ورنہ میں ابھی حکم دیتا ہوں کہ تمہارا سر تن سے جدا کر دیا جائے۔
ابن راوندی اپنی جان بچانے کی خاطر توبہ کرنے پر مجبور ہو گیا اس نے اعتراف کیا کہ نبوت پر اس کا ایمان ہے خلیفہ بولا ‘ اسے دوبارہ قلم اور روشنائی دی جائے تاکہ یہ اپنی کتاب کی اصلاح کرے ‘ ابن رواندی نے لکھا ‘ انسان کو اپنی خاص وضع قطع کی بنا پر پودوں اور جانوروں کے برعکس پیغمبر کی احتیاج ہے اور پیغمبر کے بغیر یہ ہدایت اور سیدھی راہ نہیں پا کستا ۔
جعفری ثقافتی مکتب کے علمائنے توحید اور نبوت کے متعلق ابن راوندی کے نظریات رد کئے تھے لیکن وہ اسے اپنی تحریر کی اصلاح پر مجبور نہیں کر سکے تھے کیونکہ ان کا کام زبردستی قائل کرنا نہ تھا ۔
لیکن متوکل چونکہ طاقتور تھا اس لئے اس نے ابن راوندی کو توحید و نوبت کے بارے میں اپنی عبارت کی اصلاح پر مجبور کیا اس طرح اس کی کتاب ایسی شکل میں وجود میں آئی کہ جو اسے پڑھتا ‘ یہ گمان کرتا تھا کہ مصنف توحید و نبوت کا معتقد ہے ۔
ابن راوندی نے جس طرح اپنی کتاب میں توحید و نبوت کا انکار کیا تھا اسی طرح قیامت کابھی قائل نہ تھا اور اسے ایک افسانہ خیال کرتا تھا خلیفہ بولا ‘ جو کوئی توحید و نبوت پر ایمان لائے اسے آخرت پر بھی ایمان لانا چاہیے کیونکہ خداوند تعالی اور پیغمبروں کا فرمان ہے کہ قیامت ہے ‘ پس تمہارے لئے یہ ضروری ہے کہ اگر تم توحید و نبوت پر ایمان لائیہو تو قیامت کو بھی قبول کرو ۔ بصورت دیگر تمہارا سر قلم کر دیا جائیگا ۔
ابن راوندی خلیفہ کے فرمان کے مطابق اپنی کتاب کی اصلاح کر کر چکا تو اس نے یہ کتاب دوبارہ خلیفہ کی خدمت میں پیش کی اب متوکل نے کتاب کے دوسرے حصے پر تنقید کرتے ہوئے کہا ‘ تم نے بنی نوعی انسان کے فطری تباہ کار ہونے کے بارے میں جوکچھ کہا ہے اس میں صحت نہیں ہے ابن راوندی نے اپنی کتاب میں لکھا تھا کہ بنی نوع بشر کا ہر فرد اپنی ذات میں تباہ کار یا تخریب کار ہے کیونکہ کوئی بھی ایسا انسان نہیں ملتا جو اپنے دل میں کم از کم ایک ا نسان کی موت کا خواہشمند نہ ہو ۔ اور بعض انسان تو ہزاروں افراد کی موت کے خواہشمند ہوتے ہیں ۔
ابن راوندی نے اپنی کتاب میں لکھا تھا کہ جس کا کوئی دشمن ہو تو وہ اس دشمن کی موت چاہتا ہے اور جو کوئی کسی دوسرے کے ساتھ حسد کرتا ہے اسی طرح وہ بھی اپنے محسود کی موت کا آرزو مند ہوتا ہے اور ہر ملازم شخص باطن میں دوسرے ملازم کی موت کا آرزو مند ہوتا ہے تاکہ اس کے رقیب کی موت سے اس کیلئے راستہ صاف ہو جائے اور ہر جوان بیٹا اپنے باپ کی موت کا خواہشمند ہوتا ہے تاکہ اس کی میراث پر قبضہ جمائے اور ہر نائب اپنے سینئر کی موت چاہتا ہے تاکہ اس کی موت کے بعد وہ اس کی جگہ لے اور ہر مقروض قرض خواہ کی موت کا طالب ہوتا ہے تاکہ وہ قرض دینے سے بچ جائے اس تباہ کارانہ فطرت کے ساتھ ساتھ انسانوں میں شدید خود پرستی بھی پائی جاتی ہے اور یہی وجہ ہے کہ جو کوئی دوسرے کی موت کی خبر سنتا ہے باطن میں خوش ہوتا ہے کہ دوسرا مر گیا اور وہ زندہ ہے اور کوئی بھی ایسا انسان نہیں جو مرنے کیلئے تیار ہو اس کے باوجود کح وہ معاشرے میں دوستوں اور عزیزوں کو یکے بعد دیگرے مرتے دیکھتا ہے اپنے اپ کو موت سے محفوظ خیال کرتا ہے وہ گمان کرتا ہے کہ وہ مرنے سے مستثنی ہے اور عزرائیل ہر گز اس کے گھر میں داخل نہیں ہو گا ۔
متوکل نے ابن راوندی سے کہا تو اس کتاب میں تمام انسانوں کو بلا امتیاز مساوی طور پر فطرتا تباہی پھیلانے والے قرار دیا ہے میں اس بات کی تصدیق کرتا ہوں کہ بعض لوگ اندرونی طور پر دوسروں کی موت کے خواہاں ہوتے ہیں لیکن سب لوگ ایک جیسے نہیں ہیں ‘ ماں اور باپ کا جی نہیں چاہتا کہ ان کا بیٹا مرے اور اگر اتفاقا ایسا ہو جائے تو وہ ساری عمر بیٹے کی موت سے غمگین رہتے ہیں اور تم کس طرح والدین کو دوسرے لوگوں کی مانند فطرت تباہ کار قرار دے سکتے ہو ابن راوندی نے کہا وہی مان باپ جو اپنے بیٹے کی موت کا صدمہ برداشت نہیں کر سکتے اگر ان کا بیٹا مر جائے تو ساری عمر اس کے غم میں ماتم کرتے ہیں لیکن کسی اور شخص کی موت کے خواہشمند ہوتے ہیں اور میں نہایت جرات سے کہتا ہوں کہ خلیفہ کے حضور بیٹھے ہوئے تمام حاضرین دل کی گہرائیوں میں کم از کم ایک شخص کی موت کے خواہشمند ہیں اور ان میں سے ایک بھی ایسا نہیں جو اس بات سے مبرا ہو ۔
لیکن محال ہے کہ کوئی ایسا شخص پایا جائے جو اپنی زندگی میں کم از کم ایک مرتبہ دوسرے کی موت کا خواہاں نہ ہو ا ہو خلیفہ خاموش ہو گیا اور پھر ابن راوندی کے کتاب کے دوسرے حصے کی طرف متوجہ ہو ا جو دھر کے متعلق تھا ‘ اور کہا کہ تم نے اسی کتاب میں لکھا ہے کہ دہر کا وجود نہیں اور ہم ہیں کہ دھر کو اپنے لئے خود وجود میں لاتے ہیں خلیفہ عباسی اور اصفہانی مصنف کی گفتگو کو درک کرنے کے بعد یہاں پر اس بات کی وضاحت کر دینی ضروری ہے کہ قدیم مشرقی مصنفین کی اصطلاح میں سرشت یا فطرت کو دھر کا نام دیا جاتا تھا۔
جیسا آج ہم کہتے کہ بنی انسان سرشت میں زندگی گزار رہاہے اور قدیم مشرق والے کہتے تھے کہ انسان دھر میں زندگی گزار رہا ہے ۔
آج ہم کہتے ہیں کہ فطرت ہمارا احاطہ کئے ہوئے ہے جبکہ قدیم مشرق والے کہتے تھے کہ دھر نوع انسانی کا احاطہ کئے ہوئے ہے ۔
بعض لوگوں کا تصور غلط ہے کہ دھر امان یا مکان کے معنوں میں مستعمل ہے اور نہ ہی یہ جہاں کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے جبکہ جہان سرشت یا فطرت ایک ہی چیز کا نام ہے متوکل کہنے لگا ‘ تم اپنی کتاب میں دھر کی مانند واضح اور آشکار ا چیزوں کے منکر ہوئے ہو ۔ تمہارا کہنا ہے کہ دھر کا اپنا کوئی وجود نہیں اور یہ ہم ہیں کہ دھر کو وجود میں لاتے ہیں ۔
جیسا کہ تم نے ایک مرتبہ خود بھی سن لیا مجھے کہا گیا تھا کہ تو مرگی کا مریض ہے لیکن جب میں نے تم سے بات چیت کی تو پتہ چلا کہ تم تو بہت عقلمند انسان ہو لیکن اب جبکہ میں تمہاری کتاب کے دھر کے متعلق باب کو دیکھتا ہوں تو مجھے گمان ہوتا ہے کہ کہیں تمہارے متعلق مرگی کا مریض ہونے کی افواہ درست تو نہیں ؟
میرا خیال ہے کہ یہ افواہ بے بنیاد نہیں ہے کیونکہ تم نے لکھا ہے کہ دھر کا وجود نہیں ہے کیونکہ ایک عاقل انسان جو عالم ہونے کا دعوی بھی کرے دھر جیسی چیز جو خداوند تعالی کے بعد سب سے بڑی چیز ہے کا انکار نہیں کر سکتا ابن راوندی بولا اے امیر المومنین دھر کا وجود ہمارے ذہنی تصور کی اختراع ہے نہ حقیقی صورت میں پایا جاتا ہے خلیفہ نے کہا اپنی بات کی وضاحت کرو وہ اصفہانی شخص بولا میرا مطلب یہ ہے کہ ہامرے پاس دھر کو جس صورت میں درک کرتے ہیں اس کی اصلی صورت نہیں جس طرح ایک مادر زاد نابینا مختلف رنگوں میں امتیاز نہیں کر سکتا اس کے سامنے رنگوں کی کتنی ہی تعریف کیوں نہ کی جائے وہ زرد اور بزر رنگ کی شناخت نہیں کر سکے گا اگر ہم آ دم کے بیٹے اس دنیا میں مادر زاد نابینا اتے اور کوئی چیز دیکھ یا سن نہ سکتے تو دھر کے متعلق ہمارا تصور ہمارے موجودہ تصور سے قطعی مختلف ہوتا میں اپنی کتاب میں یہ کہنا چاہتا تھا کہ دھر اپنی ذات میں اس صورت میں نہیں جس میں اسے ہم دیکھتے یا اس کی آوازیں ہوا یا دریا کی موجوں یا آسمانی بجلی کی مانند سنتے ہیں یہ ہماری آں کھیں اور کان ہیں جو دھر کو اس موجودہ صورت میں دیکھتے اور سنتے ہیں ۔
میں نے لکھا ہے اور میرا عقیدہ بھی ہے کہ دھر اس صورت میں نہیں ہے جس میں ہم اس کا تصورت کرتے ہیں یہ صرف ہماری اختراع ہے ہماری آنکھ کا ڈھیلا جو محدب ہے اگر مقعد ہوتا تو دھر کو دوسری صورت میں دیکھتا خلیفہ بولا اگر دھر کو دوسری شکل و صورت میں بھی دیکھتے تو بھی اس کے وجود کا انکار نہیں کر سکتے تھے ‘ پس کسی اور شکل و صورت میں بھی اس کا مشاہدہ ناگزیر تھا اگر ہم مادر زاد اندھے بھی ہوتے تو بھی دھر کا احساس کرتے اور ہمار ا یہ احساس اس بات کا ثبوت ہے کہ دھر کا وجود ہے جبکہ تم نے اپنی کتاب میں اس کے وجود کا انکار کیا ہے ابن راوندی نے کہا اے امیر المومنین اگر کوئی شخص میرے دھر کے بارے میں اقتباس کو غور سے پڑھے تو معلوم ہو گا کہ میں نے دھر کا انکار نہیں کیا بلکہ میں نے کہا ہے کہ بنی نوع انسان میں سے ہر ایک نے دھر کا اپنا اپنا تصور رکھا ہے متوکل نے اظہار خیال کای تو نے ابھی مجھے کہا تھا کہ دھر کا کوئی مستقل اور ذاتی وجود نہیں ہے اور اب تم خود اس بات کا انکار کر رہے ہو ۔
ابن راوندی نے اظہار خیال کیا ‘ میں یہ کہتا ہوں کہ دھر کوئی شے نہیں کہ تمام بنی نوع انسان اسے ایک ہی صورت میں دیکھیں اور اس سے ایک ہی آواز سنیں ۔
متوکل نے کہا ‘ اگر اس صفت کے ساتھ ہر شخص دنیا کے آغاز سے اج تک اور آج سے دنیا کے خاتمے تک دھر کو ایک ہی صورت میں دیکھے البتہ جو آواز وہ سنے وہ دوسری آواز سے مختلف ہو تو پھر بھی کوئی چیز موجود ہے وگرنہ لوگ اسے مختلف شکلوں میں نہ دیکھتے ۔
آخر کار خلیفہ نے اس اصفہانی شخص سے اپنی تحری کی اسطرح اصلاح کروائی کہ دھر مستقلا اور فی الذاتہ موجود ہے لیکن اس بات کا امکان ہے کہ ہر شخص اسے منفرد شکل میں دیکھے اس کے بعد خلیفہ نے راوندی کی کتاب کے ایک دوسرے حصے کے بارے میں بحث کی اور کہا مجھے معلوم ہے کہ تو نے موت کے راوندی کی کتاب کے ایک دوسرے حصے کے بارے میں بحث کی اور کہا مجھے معلوم ہے کہ تو نے موت کے متعلق فیثا غورث کے قول کا تکرار کیا ہے اور کہاہے کہ جب میں ہوں تو موت نہیں اور جب موت آئے میں نہیں لہذا میرا موت سے کوئی تعلق نہیں کہ میں اس کا سبب تلاش کروں اور تحقیق کروں کہ موت کیا ہے ؟
ابن راوندی نے محسوس کیا کہ خلیفہ ایک ایسے مرحلے میں داخل ہو گیا جو اس کیلئے خطرناک ثابت ہو سکتا ہے ۔ ممکن ہے وہ اسے الٹا لٹکا دے ۔ خلیفہ نے اظہار خیال کہ یہ نظریہ جو تم نے بیان کیا ہے ایک مشرک کا نظریہ ہے اور تمہیں کسی مشرک کے نظریہ کو اپنے نظریہ کی بنیاد نہیں قرار دینا چاہیے مجھے معلوم ہے کہ کچھ عرصے سے یونانیوں کے نظریات ہماری کتابوں میں رقم ہو رہے ہیں لیکن وہ نظریات اقوال کی نقل ہیں انہیں کسی نظریہ یا عقیدہ کی بنیاد قرار نہیں دینا چاہیے البتہ فقط اس صورت میں کہ وہ ہمارے مذہب قونین سے مطابقت رکھتے ہوں ۔
ابن راوندی اسی طرح خاموش رہا ‘ خلیفہ بولا ‘ تم ایک مسلمان ہو تم نے تسلیم کیاہے کہ توحید و نبوت اور معاد کے قائل ہو ۔ تم کیسے کہتے ہو کہ تمہارا موت سے کوئی نہیں اور اس کے بارے میں تحقیق نہیں کرنا چاہیے ؟
شاید تو نہیں جانتا کہ ایک مسلمان اگر موت سے بے تعلق ہو اور اسکے بارے میں تحقیق سے گریز کرے ‘ تو اس کا ایمان سالم نہیں رہتا کیونکہ معاد جو اصول دین میں سے ہے اس کا تعلق موت کے بعد زندگی سے ہے ۔
ابن راوندی نے کہا اے امیر المومنین میں نے اپنی کتاب میں مذہب کی رو سے موت کے متعلق اظہار خیال نہیں کیابلکہ جو کچھ میں نے عرض کیا ہے ایک حکیمانہ نظریہ ہے ۔
خلیفہ بولا‘ فیثا غورث چونکہ مشرک تھا اس لئے اس پر کوئی قد غن نہیں کہ اس نے موت سے لا تعلقی کا اظہار کیوں کیا ؟ لیکن تمہیں ہر گز نہیں لکھنا چاہیے کہ تمہیں موت سے کوئی تعلق نہیں بلکہ تمہیں تو اس بارے میں تحقیق کرنا چاہیے ابن راوندی نے جواب دیا موت ایک ایسی چیز ہے جس کے بارے میں تحقیق نہیں ہو سکتی متوکل کہنے لگا ‘ آخر اسکی وجہ کیا ہے ؟ ابن راوندی نے سوال کیا اے امیر المومنین ایسا کونسا طریقہ ہے جس کے ذریعہ موت کے بارے میں تحقیق ممکن ہے ؟
جس دن سے انسان خلق ہوا ہے اس دن سے لیکر آج تک اس نے کوشش کی ہے کہ موت کا راز جانے لیکن ابھی تک اسے کوئی ایسا ذریعہ ہاتھ نہیں لگا جو موت کا راز جاننے کا سبب بنے متوکل نے کہا موت کا راز اس طرح معلوم کیا جا سکتا ہے کہ وہ کون سا توازن ہے جس کی وجہ سے زندگی رواں دواں رہتی ہے اور کون سا عدم توازن ہے جو موت کاباعث بنتا ہے ابن راوندی خلیفہ کی باتوں سے حیران رہ گیا کیونکہ جوکچھ متوکل نے کہا وہ صرف ایک عالم ہی کہہ سکتا تھا اور ابن راوندی کو خلیفہ کی زبان سے ایسی گفتگو کی توقع نہیں تھی ۔ اس کے بعد ابن راوندی نے کہا کہ اے امیر المومنین اس راستے کو ڈھونڈنا ڈاکٹروں کا کام ہے اور انہیں یہ سمجھنا چاہیے کہ جو توازن زندگیکو جاری رکھنے کا ضامن ہے وہ اس قسم کا توازن ہے اور وہ عدم توازن جو موت کا باعث بنتا ہے وہ کون سا عدم توازن ہے متوکل نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہاکہ ہر عالم اس راستے میں تحقیق کر سکتا ہے اورنہ صرف ڈاکٹروں پر موت کا راز افشاء کرنے کا انحصار ہے بلکہ علمائے دین بھی موت کا راز معلوم کر سکتے ہیں ابن راوندی نے پوچھا کس ذریعے سے ؟
خلیفہ نے جواب دیا قرآنی آیات میں گہرے غور و فکر کے ذریعے سے ابن راوندی نے کہا ۔ اے امیر المومنین قرآنی آیات میں صرف چند مواقع پر موت کے بارے میں ذکر ہوا ہے لیکن وہ بھی اس صورت میں نہیں کہ محض آیات قرآن آیات کی تلاوت سے موت کا راز معلوم کیا جا سکتا ہے بلکہ میرے کہنے کا مقصد یہہے کہ انسانی آیات قرآنی کی گہرائی میں جا کر موت کا راز پا سکتا ہے متوکل کے قول سے پتہ چلتا ہے کہ اس زمانے کے مسلمان اس بات کے معتقد تھے ۔
کہ آیات قرآنی ظاہری معنوں کے علاوہ باطنی معنوں کی بھی حامل ہیں ۔ اور ہر کوئی ان معنیتک رسائی حاصل کر سکتا ہے ان معنی کو جاننے کیلئے قرانی علم کا سمجھنا ضروری ہے ۔ ایک روایت کے مطابق یہ نظریہ دوسری صدی ہجری کے شروع میں وجود میں آیا اور تیسری و چوتھی اور اس کے بعد آنے والی صدیوں کے دوران اسلامی ممالک میں فروغ پانے کے ساتھ ساتھ مضبوط تر ہوتا چلا گیا اور مسلمانوں کے روحانی علماء نے یقین کر لیا کہ قرآن ظاہری معنوں کا حامل ہونے کے ساتھ ساتھ باطنی معنی بھی رکھتا ہے ۔
قرانی تفاسیر کا سر چشمہ بھی یہی نظریہ ہے لیکن مفسرین قرآن شازو نادر ہی ان آیات کے باطنی معنوں تک رسائی حاصل کر سکتے ہیں بعض کا خیال تھاکہ اس بات پر ایمان لانا کہ آیات قرآنی باطنی معنی بھی ہوں گے اس عقیدے کیبنیاد پر یہ نظریہ پایا جاتا ہے کہ جو مسلمان قران آیات کے باطنی معنی جانتا ہو وہ علم و روحانی طاقت کے لحاظ سے پیغمبر اسلام کے برابر ہو گا البتہ چونکہ پیغمبر کے بعد کوئی نبی نہیں ائیگا لہذا وہ نبی نہیں ہو سکتا اور شیعہ معتقد ہیں کہ جو کوئی قرآنی آیات کے باطنی معنی جانتا ہو وہ علم و روحانی طاقت کے لحاظ سے آئمہ کی مانند ہو گا ۔
ذیم قراطیس کے زمانے میں ایٹم ایک نا قابل تقسیم ذرہ تھا لیکن آج وہ تقسیم در تقسیم ہو چکا ہے امام جعفر صادق سے پوچھے جانے والے سوالوں میں سے ایک سوال یہ تھا کہ دانائے مطلق کون ہے اور کس وقت آدمی یہ محسوس کرتا ہے کہ وہ سب کچھ سیکھ چکا ہے ؟
جعفر صادق نے فرمایا اس سول کے دو حصے ہیں ایک یہ کہ کون دانائے مطلق ہے " اس کا جواب یہ ہے کہ خداوند تعالی کی ذات کے علاوہ کوئی بھی دانائے مطلق نہیں کسی انسان کیلئیمحال ہے کہ وہ دانائے مطلق ہو ۔ کیونکہ علم اس قدر وسیع ہے کہ کوئی بھی انسان تمام علوم کو نہیں سیکھ سکتا اگرچہ اس کی عمر ہزاروں سال کیوں نہ ہو اور اگر وہ اس تمام عمر کے دوران تحصیل علم میں مشغو ل رہے تو بھی انسان تمام علوم کا عالم نہیں بن سکتا شاید ہزار ہا سال زندگی کو تحصیل علم کیلئے وقف کرنے کے بعد اس دنیا کے علوم سے آگاہی کر لے لیکن اس دنیا کے علاوہ اور بھی جہان ہیں جہاں اس دنیا کے علوم بے وقعت ہیں اگر کوئی شخص اس دنیا کے علوم سیکھنے کے بعد دوسرے جہانوں میں وارد ہو تو وہ جاہل ہے اسے اس دنیا کے علوم سیکھنے کیلئے شروع سے پڑھنا ہو گا ۔
یہی وجہ ہے کہ خداوند تعالی کی ذات کے علاوہ کوئی بھی دانائے مطلق نہیں کیونکہ انسان تمام حقیقتوں سے آگاہی حاصل نہیں کر سکتا ۔ امام جعفر صادق نے سوال کے دوسرے حصے کے جواب میں فرمایا۔ آ نے یہ پوچھا ہے کہ انسان کس وقت علم سے غنیہو جاتا ہے اس کا جواب یہ ہے کہ میں نے پہلے سوال کے جواب میں کہا کہ اگر انسان کی عمر ہزاروں سال ہو اور وہ مسلسل تحصیل علم میں مشغول رہے تو بھی وہ مام علوم پر عبور نہیں حاصل کر سکتا پس اسی بنا پر کوئی شخص یہ احساس نہیں کر سکتا کہ وہ علم سے غنی ہے ہاں البتہ جا ہل یہ احساس کرتے ہیں کہ وہ علم سے غنی ہیں اور اپنے آپ کو علم سے بے نیاز خیال کرتے ہیں جعفر صادق سوچھا گیا کہ دوسری دنیاؤں کے علم سے کیا مراد ہے؟ آپ نے فرمایا یہ جہان جس میں ہم زندگی بسر کرتے ہیں کے علاوہ اور جہان بھی ہیں جن میں سے اکثر ان جہان سے بڑے ہیں اور ان جہانوں میں ایسے علوم ہیں جو اس جہاں کے علوم سے شاید مختلف ہیں جعفر صادق سے پوچھا گیا کہ دوسرے جہاں وں کی تعداد کیا ہے آپ نے جواب دیا خداوند تعالی کے علاوہ کوئی بھی دوسرے جہانوں کی تعداد سے مطلع نہیں ہے آپ سے پوچھا گی کہ دوسرے جہانوں کے علوم اور اس جہانوں کے لعوم میں کیا فرق ہے ؟ کیا وہاں کا علم سیکھا نہیں جا سکتا ؟ اور اگر سیکھا جا سکتا ہے تو کیسے مناسب ہے کہ وہ علوم اس دنیا کے علوم سے مختلف شمارکئے جائیں ؟ جعفر صادق نے فرمایا دوسرے جہانوں میں دو قسم کے علوم ہیں جن میں سے ایک قسم اس دنیاکے علوم کے مشابہ ہے اور اگر کوئی اس جہان سے ان جہانوں میں جائے تو ان علوم کو سیکھ سکتا ہے لیکن شاید یعنی دوسرے جہانوں میں ایسے لعوم پائے جائیں کہ اس دنیا کے لوگ انہیں درک کرنے پر قادر نہ ہوں کیونکہ ان علوم کو اس دنیا کے لوگوں کی عقل نہیں سمجھ سکتی ۔ جعفر صادق کا یہ قول بعد میں آنے والی نسلوں کے علماء کیلئے ایک معمہ بنا رہا بعض نے اسے قابل قبول نہیں سمجھا اور کہا کہ امام جعفر صادق کا یہ کہنا بلاوجہ ہے ان لوگوں میں سے ایک ابن راوندی اصفہانی بھی ہے جس کا ذکر پہلے آ چکا ہے اس سنے کہا انسانی عقل ہر اس چیز کو درک کر سکتی ہے جسے علم کہتے ہیں چاہے اس دنیا کے علوم ہوں یا دوسرے جہانوں کے علوم ہوں لیکن امام جعفر صادق کے شاگردوں نے آپ کے اس قول کو قبول کیا او اس بات کے قائل ہو گئے کہ بعض دوسرے جہانوں میں ایسے علوم ہیں جن کی تحصیل انسانی بس کا روگ نہیں کیونکہ انسانی عقل ان علوم کو درک نہیں کر سکتی لیکن اس صدی میں آئن سٹائن کے نظریہ ‘ نسبتیت نے فزکس میں ایک جدید اور بے مثال باب کا اضافہ کیا اور اسکے بعد یا ضد ماہ کی تھیوری محض تھیوری کی حدود سے تجاوز کرتے ہوئے علم کے مراحل میں داخل ہوئی اور سائنس دان اس حقیقت سے آشنا ہو گئے کہ ضد مادہ موجود ہے جعفر صادق کا یہ قول ہے کہ بعض دوسرے جہانوں میں شاید ایسے علوم پائے جاتے ہیں جن کو سیکھنا انسانی دسترس سے باہر ہے سمجھ میں آتا ہے کیونکہ ضد مادہ کی دنیا میں ہمارے قوانین فزکس کے علاوہ دوسے قوانین فزکس لاگو ہوتے ہیں اور اس سے بھی بڑ کر یہ کہ منطق اور استدلال کے وہ قوانین جنہیں وضع کرنے پر ہماری عقل قادری ہے دوسرے جہان میں یہ قوانین قابل اجراء نہیں ہیں ضد مادہ ایک ایسی دنیا ہے جس میں الیکٹران پر مثبت اور پروٹان پر منفی چارج ہے جبکہ ہماری دنیا میں ایٹم کے الیکٹران پر منفی اور پروٹان پر مثبت چارج ہے ایک ایسی دنیا جہاں الیکٹرانوں پر مثبت اور پروٹانوں میں منفی چار ج ہو نہ معلوم وہاں کون سے طبیعاتی قوانین کی حکم فرمائی ہو گی ہماری منطق اور استدلال میں کل جزو پر برتر ہے لیکن ممکن ہے کہ اس دنیا میں جزو کو کول پر برتری حاصل ہو اور ہماری سوچ اس موضوع کو سمجھنے اور قبول کرنے سے قاضر ہے ہماری دنیا میں جب ہم کسی بھاری جسم کو پانی میں ڈالتے ہیں تو ارشمیدس کے قانون کے مطابق وہ پانی میں ہلکا ہو جاتا ہے لیکن اس دنیا میں ممکن ہے کوئی جسم اگر پانی یا کسی مائع میں ڈبویا جائے تو بھاری ہو جائے اس دنیا میں پاسکل کے قانون کی رو سے اگر کسی برتن میں پڑے ہوئے مائعکے ایک نقطے پر دباؤ ڈالا جائے تو یہ دباؤ مائع کے تمام نقاط پر بڑے گا اسی قانون کی مدد سے آمد ر رفت کے ذرائع اور خاص طور پر بھاری ذرائع کو روکنے کیلئے بریکوں میں تیل استعمال ہوتا ہے کیونکہ جو بھی ڈرایور اپنا پاؤں بریک کے پیڈل پر رکھتا ہے تو وہ بریک آئل پر تھوڑا دباؤ ڈالتا ہے اس کا یہی دباؤ سارے بریک آئل پر پڑتا ہے پھر یہ دباؤ ہزار گنا زیادہ گاڑی کے پہیوں پر پرٹا ہے جس کی وجہ سے وہ ایک لمحے میں رک جاتی ہے ۔
لیکن ممکن ہے فزکس کا یہ قانون صند مادہ دنیا میں موثر نہ ہو اور جو دباؤ مائع کے ایک نقطے پر ڈالا جائے تو اس بات کا امکان ہے کہ وہ اس جہان کے اجنبی طبعیاتی قوانین سے بتدریج سمجھوتہ کر لے جس طرح چاند پر جانے والے خلا بازوں کویہاں بے وزن زندگی گزارنے کی تربیت دی جاتی ہے تاکہ جب وہ چاند پر پہنچیں تو بے وزن رہنا ان کی عادت بن چکی ہو ۔ لیکن ضد مادہ دنیا میں جو چیز انسان کے لیے نا قابل قبول ہے وہ منطق اور استدالال کے قوانین کی مخالفت ہے ۔
اگر انسان دوسری دنیا میں جز کی کل پر برتری دیکھے اور مشاہدہ کرے کہ اس دنیا کے لوگ اعداد کی ضرب و تقسیم و تفریق و جعم کے قوانین کا لحاظ نہیں کرتے اور اگر محسوس کرے کہ اس دنیا میں پانی گرم کرنے سے جمتا ہے ‘ سردی ‘ پانی کو بخارات میں تبدیل کرتی ہے جبکہ وہاں خلا بھی نہیں تو وہ انسان ان نئی باتوں کو سمجھنے سے قاصر ہو گا ۔ یہی وجہ ہے کہ اس زمانے میں جعفر صادق کا اس بات پر مبنی نظریہ کہ بعض ایسے جہان ہیں جن کیعلوم کا حصول انسان کے بس کی بات نہیں قابل قبول دکھائی دیتا ہے ۔
جعفر صادق کے قوال نے یونان میں علم کے متعلق کی گئی قدیم فلسفیانہ بحث کو زندہ کر دیا وہ بحث یہ تھی کہ کیا علم فی نفسہ (یا بذاتہ ) وجود رکھتاہے یا ہم جو کچھ اخذ کرتے ہیں وہی ہے یعنی ایک دوسرے کی پیروی کا نام ہے یونان کے بعض حکیموں کا کہنا ہے کہ اکیلے علم کا وجود نہیں اور علم ایک ایسی چیز ہے جسے ہم اشیاء اور احوال سے درک کرتے اور اس کے قواعد معلوم کرتے ہیں ۔ ان کا کہنا ہے کہ مادر زاد نابینا رنگوں کے بارے میں کچھ نہیں جان سکتا اور مادر زاد بہرہ علم موسیقی کو درک نہیں کر سکتا ان کا کہنا ہے کہ صرف ایک یا دو حواس ظاہری تمام علوم کے حصول میں حائل نہیں ہو سکتے ۔ بلکہ باطنی حواس میں کمی علوم کے ادراک میں رکاوٹ بنتی ہے اور ایک دیوانہ شخص کسی قسم کا علم حاصل نہیں کر سکتای اگرچہ اس کے ظاہری حواس میں کوئی خرابی نہ ہو ۔ اس گروہ کی مخالفت میں کچھ یونانی حکما نے کہا کہ اکیلا علم بھی موجود ہے چاہے انسان اسے درک کرے یا نہ انہوں نے کہا وہ علم جو دنیا میں چار موسم وجود میں لاتا ہے چاہے انسان ان چار موسموں کو درک کرے یا نہ اور ایسا علم جو سورج چاند کو زمین کے ارد گرد گھماتا ہے مووجد ہے خواہ آدمی آں کھیں رکھتے ہوں یعنی سورج اور چاند کو دیکھ سکیں یا مدر زاد اندھیہوں اور سورج اور چاند کا مشاہدہ نہ کر سکیں ۔ زیم قراطیس جس کا کہنا تھا کہ دنیا ایٹم سیبنی ہے اس کا عقیدہ تھا کہ علم کی دو قسمیں ہیں ایک وہ علوم جنہیں سیکھا جا سکتا ہے اور دوسرے ایسے علوم جن کے قواعد اور تفصیلات کو نہیں سمجھا جا سکتا ۔ ان مجہول علوم میں ایک ایٹم کا علم ہے اور دوسرا خداؤں کے بارے میں ہے ۔ زیم قراطیس کے ایک صدی بعد اس پر تنقید کی گئی اور کہا گیا کہ تیرا کہنا کہ ایٹموں کا علم مجہول علم ہے اور تو کہتا ہے کہ آدمی اس کی تفصیلات کو نہیں جان سکتا۔ پھر تم کیسے کہتے ہو کہ دنیا ایٹموں سے بنی ہے یہ تو اسے کہنا چاہیے جو ایٹموں کے علم کے قواعد اور تفصیلات سے آگاہ ہو خود زیم قراطیس تو نہ تھا کہ جواب دیتالیکن اسکے پیروکاروں نے کہا کہ اسکی عقل نے سمجھ لیا تھا کہ دنیا ایٹموں سے بنی ہے لیکن زیم قراطیس کے حواص ایٹموں کو نہیں دیکھ سکے اور اگر ان کی آواز ہے تو اسے نہیں سن سکے یہ ایسی چیزیں ہیں جنہیں آدمی اپنی عقل سے ہی سمجھ سکتا ہے نہ کہ حواس خمسہ کی مدد سے ۔
اپنے استاد کے مخالفوں کو خاموش کرنے کیلئے زیم قراطیس کیمریدوں کے پاس ایک موثر ذریعہ بھی تھی انہوں نے کہا کہ خداؤں کو نہ تو ظاہری حواس کے ذریعے دیکھا جا سکتا ہے اور نہ باطنی حواس کے ذریعے ان کا وجود د معلوم کیا جا سکتا ہے جس طرح ہم باطنی حواس کے ذریعے اپنی بیماری کا پتہ لگاتے ہیں جبکہ ہم اسے دیکھتے ہیں اور نہ ہی اس کی آواز سنتے ہیں ۔ زیم قراطیس بھی اپنی عقل کے ذریعے اس تک پہنچا کہ دنیا ایٹموں سے وجود میں آئی ہے اگر وہ ایٹموں کے علم کے قواعد اور تفصیلات کو نہیں سمجھ سکا تو اس پر تنقید نہیں کی جانی چاہیے ہمارے کہنے سے مراد یہ ہیکہ یونانی حکما میں بھی ایسے لوگ موجود تھے جنہوں نے علم کی دو قسمیں بتائیں ایک وہ علوم جنہیں انسان کی عقل درک کر سکتی ہے اور دوسرے وہ جنہیں درک کرنا انسان کی دسترس سے باہر ہے اس ساری بحث سییہ نتیجہ اخذ ہوتا ہے کہ پہلے جعفر صادق نے فرمایا کہ علم لا محدود ہے ۔ اور دوسرا ان کا عقیدہ تھا کہ وہ علوم جو دوسرے جہانوں میں پائے جاتے ہیں انہیں اس عقل کے ذریعے جس سے وہ اس دنیا کے علوم سے آگاہی حاصل کرتا ہے ۔
ان جہانوں کے علوم کا ادارک نہیں کر سکتا اور اج جب کہ آین سٹائن کے نظریہ نسبت اور ضد مادہ کے نظریئے جس کے بارے میں ہم نے کہا کہ تھیوری سے گزرنے کے بعد عملی مرحلہ میں داخل ہو گیا ان دونوں نظریات کے ذریعے پتہ چلایا جا سکتا ہے کہ ساڑھے بارہ سو سال پہلے جعفر صادق نے کس قدر صحیح نظریہ پیش کیا تھا ۔ عباسی دور کے ایک مشہور مورخ ابن ابی الحدیدہ جس نے جعفر صادق کے بارے میں بحت کچھ رقم کیا اور وہ عباسیوں کی خلافت کے خاتمی کے ایک سال قبل ہلاکو خان کے ہاتھوں ۶۵۵ ہجری قمری میں ستر سال یا اونہتر سال کی عمر میں اس دنیا سے کوچ کر گیا ۔ اس کا نام عزالدین عبدالحمید بن محمد تھا ۔ اس مورخ کا کہنا ہے جعفرصادق کی مت کے بعد ایک عرصے تک یعنی تقریبا ڈیڑھ صدی یا دو صدی بعد تک ربستان بین النہرین ‘ عراق ‘ عجم ‘ خراسان اور فارس میں جتنے استاد بھی پڑھاتے تھے امام جعفر صادق کا حوالہ دیتے ہوئے کہتے تھے کہ جعفر صادق سے اس طرح حکایت کرتے ہیں پھر یہی مورخ کہتا ہے کہ اہل سنت و الجماعت کے فرقوں کے استاد بھی پڑھانے کے دوران جعفر صادق کا قول نقل کرتے اور کہتے تھے کہ ان سے ان اس طرح مروی ہے ایک دن ابن صلقمی نے ابن الحدید سے پوچھا کہ گذشتہ مسلمانوں میں سب سے قابل علم کون تھا اس نے جواب دیا جعفر صادق چونکہ ج ۳ صادق کو سب سے بڑا مسلمان عالم سمجھا جاتا ہے اس لیے محقق کی خواہش ہوتی ہے کہ ان کی معلومات سے آگہی حاصل کرے ۔ شیعہ مورخین کی کتابوں میں جعفر صادق کے علوم کی تعداد ایک سو سے پانچ سو تک درج ہے اور دوسرا یہ کہ بعض شیعہ مورخین نے جعفر صادق کے معجزات کے ابرے میں شیعہ مورخین کا عقیدہ اس بات کا موجب بنا کہ ان مورخین نے جعفر صادق کی سوانح حیات کو آ کے معجزوں تک ہی محدود رکھا یا پھر بعض شیعہ مورخین نے اپنی کتابوں کے بیشتر صفحات میں ان ہی معجزات کی تشریح کیہے ان معجزات کی تعداد اور شیعہ مورخین کی کتابوں کے حوالے اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ کوئی ایسا دن نہیں گذرا کہ جعفر صادق سے ایک معجزہ و قوع پذیر نہ ہوا ہو ۔ جعفر صادق کے معجزات کا ایک حصہ دور صفویہ کے مشہور عالم علامہ مجلسی کی کتاب حار الانوار میں درج ہے لیکن جیسا کہ آ پ کو معلوم ہے کہ علامہ مجلسی نے اپنی تحریر کو دوسرے ذرائع سے اقتباس کیا ہے ایک شیعہ مولف جس نے جعفر صادق کے معجزات کی تشریح کی ہے اور اس نے مشہور کتاب من لا یحضر الفقیہ بھی لکھی ہے اور اس کا شمار بزرگ شیعہ علما میں ہوتا ہے ابو جعفر محمد (بابویہ قمی ) ہے ‘ ابن بویہ چوتھی صدی ہجری میں ہو گزارا ہے یعنی زمانے کے لحاظ سے وہ جعفر صادق کے نزدیک تھا ۔ امام جعفر صادق کے معجزات کی شرح لکھنے کے علاوہ ابن باویہ قمی نے عیون الاخبار الرضا ‘ (امام علی رضاء کے معجزات کی شرح ) کے نام سے بھی ایک کتاب لکھی ہے چونکہ شیعہ مورخین جعفر صادق کی امامت کے قائل تھے لہزا انہوں نے اپ کے علوم کی تعداد پانچ سو لکھی ہے حالانکہ انہوں نے ان علوم کا نام نہیں لیا۔
ایک تاریخی محقق کیلئے یہ بات قابل قبول نہیں کہ جعفر صادق پانچ سو علوم پر دسترس رکھتے اور پڑھاتے تھے ۔
اس بات میں کوئی شک نہیں کہ جعفر صادق کے دور میں علوم کی تعداد آج کے دور سے کہیں کم تھی اور آج کی مانند نہ تو سائنسی ترقی ہوئی تھی اور نہ ہی صنعت و حرفت میں توسیع ہوئی تھی کہ ایک علم سے تھوڑی مدت میں دوسرے علوم جنم لیتے ۔
مثال کے طور پر ایٹم کے بارے میں علم مختصر سی مدت یعنی ۱۹۴۰ ۔ ۱۹۸۰ کے درمیان اس قدر وسیع ہوا ہے کہ آج ایک انسان اپنی ساری عمر بھی صرف کر دے تو ایٹمی مطالعہ میں تھیوری اور پریکٹیکل دونون طرح سے ماہر نہیں ہو سکتا ۔ اگر وہ ایٹمی مطالعے کے نظریاتی پہلو کو لے تو وہ عملی لحاظ سے پیچھے رہ جائیگا اور اگر عملی پہلو لے تو نظریاتی پہلو پر عبور حاصل نہیں کر سکے گا ۔
یہی مثال جنگ کے بارے میں بھی صادر آتی ہے امریکہ میں جنگی ہوائی جہازوں کیبارے میں ایک جدید ٹیکنیک وضع کی گئی ہے جس کے مطابق پائلٹ کے بغیر بھی یہ جہاز اڑ سکیں گے ۔ اس طرح جنگ کی یہ روش فضائی جنگوں کی ٹیکنیک کو تبدیل کر دے گی اور فضائی جنگوں میں ایک نئی ٹیکنیک وجود میں آئے گی لیکن پہلے زمانے میں ایسا ہر گز نہیں ہوتا تھا یعنی علوم و صنعت میں اتنی تیزی سے انقلاب برپا نہ ہوتا تھا آج جب کہ اصولی اور فروعی علوم سمیت علوم کی کل تعداد ایک ہزار سے زیادہ نہیں ہے لیکن ساڑھے بارہ سو سال قبل علوم کی تعداد پانچ سو بھی نہ تھی ۔
مگر شیعہ مورخین نے لکھا ہے کہ جعفر صادق پانچ سو علوم کے ماہر تھے اور یہ سب پڑھاتے تھے بظاہر اس کی دو وجوہات ہیں چونکہ شیعہ مورخین امام جعفر صادق کو اپنا امام سمجھتے ہیں اور شیعہ عقائد کے مطابق انکا ایمان ہے کہ امام اس دنیا میں (نوع انسانی میں ) دانائے مطلق ہے یہاں یہ بات غور طلب ہے کہ دانائے مطلق پیغمبر اور اس کے بعد امام ہے خداوند تعالی کی دانائی کے بارے میں کسی حد کے قائل نہیں اور خدا وند تعالی کو دانائے مطلق سمجھتے ہیں ان کا عقیدہ ہے کہ اس کا علم اس کی ذات کی مانند لا محدود ہے اور علم خداوند تعالی کے علم سمیت تمام صفات کو اس کی ذات کا جزو سمجھتے ہیں اور کہتے ہیں کہ خداوند تعالی ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گا اس کا آغاز و انجام نہیں ہے اسی طرح اس کا علم بھی ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گا اور وہ ہر گز حدود کا پابند نہیں ۔
موت کا مسئلہ ‘ ابن راوندی کی نظر میں
ابن راوندی اپنی کتاب میں موت کا راز فاش نہ کر سکا اور جیسا کہ ہمارے مطالعے میں یہ بات آئی ہے اس نے عباسی خلیفہ المتوکل سے کہا ‘ موت کا راز کسی راستے سے افشا نہیں ہو سکتا ۔ لیکن اپنی کتاب میں موت کے بارے میں ایسے نظریات پیش کئے جو شاید آج کسی کی نظر میں کسی خاص اہمیت کے حامل نہ ہوں لیکن ساڑھے گیارہ سوسال پہلے پر کشش نظریات تھے ان میں اس نے کہا ہے کہ کوئی بھی یہبات نہیں سمجھ سکتا کہ اسکی موت کیسے واقع ہوتی ہے ۔
جب تک وہ موت کو خود نہ آزمائے اسے درک کرنے پر قادر نہیں ہو سکتا ۔ دوسروں کی موت کے مشاہدے سے انسان اپنی موت کیلئے کچھ نہیں سیکھ سکتا ‘ اور جب تک انسان موت کو اپنے اوپر نہ ازمائے اس وقت تک اسکی سمجھ میں یہ بات نہیں آ سکتی کہ موت کیسی ہوتی ہے ؟ ابن راوندی کا موت کے بارے میں دوسرا نظریہ ہے کہ کوئی بھی اپنے آپ کو مردہ نہیں سمجھ سکتا اور انسان جب تک زندہ ہے اس کیلئے محال ہے کہ وہ اپنے آپ کو مردہ گردانے اسلئے کہ اگر اسے علم ہو کہ مردہ ہے تو یہ بات اسکی دلیل ہے کہ وہ زندہ ہے اگر زندہ نہ ہوتا تو اسے مرنے کا علم کہاں سے ہوتا ؟
موت کے متعلق ابن راوندی کا تیسر نظریہ اس عرصہ کے بارے میں ہے جب انسان مردہ ہوتا ہے اور زندہ نہیں ہوتا ابن راوندی کہتا ہے کہ کسی مردے کو اس بات کا علم نہیں ہوتا کہ وہ مردہ ہے اس نظریئے کے متعلق اس نے دیسی ہی دلیل دی ہے جو دوسرے نظریہ کے ضمن میں پیش کی ہے ۔
وہ کہتا ہے اگر مردہ یہ جان لے کہ مردہ ہے تو اس صورت میں وہ مردہ نہیں ہو گا بلکہ زندہ ہو گا ۔ ابن راوندی کہتا ہے مردہ میں اپنے آپ کو پہچاننے کا شعور نہیں ہوتا کیونکہ شعور زندہ لوگوں کی کھلم کھلا صفات میں ہے اور اگر مردہ اپنے آ کو پہچان لے اور اس بات سے اگاہ ہو جائے کہ وہ مردہ ہے تو اس صورت میں وہ زندہ شمار ہو گا نہ کہ مردہ اس وجہ سے عام عقیدہ کے بر خلاف وہ یہ نہیں دیکھ سکتا کہ اس کے رشتہ دار اس کے سرہانے کھڑے رو رہے ہیں کیونکہ اگر انہیں دیکھ لے اور ان کی گریہ و زاری سن لے تو یہ اس بات کی دلیل ہے کہ وہ زندہ ہے اور اگر مردہ ہوتا تو ہر گزنہ جان سکتا کہ مردہ ہے وہ نہ ہی اپنے ارد گرد کھڑے لوگوں کو دیکھ سکتا ہے اور نہ ان کے رونے کی آواز سن سکتا ہے ۔
ابن راوندی نے موت کے متعلق چوتھا نظریہ یہ پیش کیا کہ کوئی بھی مردہ اپنے آپ کو مرنے سے پہلے نہیں پہچان سکتا ۔ اس کے بقول ‘ اگر فرض کریں ابوالحسن مر جائے (ابوالحسن ‘ ابن راوندی کی کنیت تھی ) پھر اسے قبر میں رکھ کر دفن کر دیں تو اسے اس بات کا شعور نہیں ہو گا کہ وہ مرنے سے پہلے ابوالحسن تھا ‘ کیونکہ اگر جان لے کہ مرنے سے پہلے ابوالحسن کے نام سے پکارا جاتا تھا ‘ تو ضرور اس کو اپنی شناخت کا شعور ہو گا ۔ اور جو کوئی باشعور ہے مردہ نہیں کہلا سکتا ۔
موت کے بارے میں ابن راوندی کا پانچواں نظریہ یہ ہے کہ مندرجہ بالا چار نظریات اس بات سے اخذ کئے گئے ہیں کہ آدمی اپنے آپ کو اس بات کا قائل نہیں کر سکتا کہ وہ ایک دن مرے گا اور اس دنیا سے اٹھ جائے گا ۔
انسان گمان کرتا ہے کہ وہ ہر گز نہیں مرے گا اور جب اسے قبر میں ڈالیں گے تو زندہ ہو جائے گا البتہ وہاں اس کی زندگی کی کیفیت اس دنیا سے مختلف ہو گی ۔ نیند ان اسباب میں سے ہے جو اس عقیدت کی تقویت کا باعث بنے ہیں ‘ انسان گمان کرتا ہے کہ جس طرح وہ اس نیند سے بیدار ہو جاتا ہے اسی طرح وہ موت کی نیند کے بعد بھی بیدار ہو جائے گا انسان جو مناظر خواب میں دیکھتا ہے وہ اس کے اس عقیدے کو مزید تقویت پہنچاتے ہیں کہ حقیق موت کا وجود نہیں ‘ کتاب الفرند کے مصنف کے بقول انسان خواب میں اپنے آپ کو مردہ دیکھتا ہے تو وہ عین زندہ ہوتا ہے یا اس کے عزیز و اقارب اپنے آپ کو مردہ دیکھتے ہیں تو وہ عین زندہ ہوتے ہیں انسان گمان کرتا ہے کہ موت کے بعد بھی اس طرح کی کیفیت ہو گی جب وہ مر جائے گا تو اپنے آپ کو زندہ دیکھتا ہے خواب میں ان طرح طرح کے مناظر کو دیکھنا انسانی جسم کے اعضاء کی وجہ سے ممکن ہے اگر یہ جسمانی اعضاء نہ ہوں تو انسان سو ہی نہیں سکتا کہ وہ خواب دیکھے ابن راوندی کو علم تھا کہ قدیم مصر میں میتوں کو مومیائی کر دیتے تھے کیونکہ اس کا کہنا ہے کہ ان کا گمان ہوتا تھا کہ اگر ڈھانچہ باقی رہے تو انسان مرنے کے بعد بھی زندہ رہے گا اور اپنی پہچان کر سکتے گا جس طرح وہ سونے کے دوراب خواب میں اپنی شناخت کر سکتا ہے لیکن ابن راوندی کے بقول مصر والے جس مردے کو مومیائی کرتے تھے وہ دل کے بغیر ہوتا تھا کیونکہ اسے مومیانے سے پہلے بدن کے تمام اندرونی اعضاء باہر نکال کر دور پھینک دیتے تھے پس یہ کیسے قابل قبول ہے کہ جس مردے کا دل نہ ہو ۔ وہ اپنی پہچان کر سکتا ہے کیونکہ ابن راوندی کا خیال تھا انسان جو مناظر خواب میں دیکھتا ہے ان کا تعلق دل سے ہے انسان اپنے آپ کو دل کے احاطے میں دیکھتا اور پہچانتا ہے اور بطور کلی جسطرح یہ قدیم لوگ روحانی احساساتکا سرچشمہ دل کو سمجھتے تھے ۔ ان کا خیال تھا کہ جو مناظر خواب میں نظر اتے ہیں ان کا وجود دل میں ہوتا ہے جیسا کہ ہم نے ملاحظہ کیا موت کے بارے میں ابن راوندی کے نظریات اس کے اپنے زمانے یعنی تیسری صدی کے اوائل میں قابل توجہ تھے ہم نے دیکھا کہ ابن راوندی نے خلیفہ کے حکم سے مجبورہو کر اپنی اس تمام تحریر کی اصلاح کی جس میں اس نے توحید اور نبوت اور قیامت کا انکار کیا تھا گویا اس نے اپنی تحریر واپس لے لی اس کے علاوہ ابن راوندی کی کتاب میں ایک اور عنوان بھی تھا جس کی وجہ سے عباسی خلیفہ کے دارالحکومت میں اس پر کفر کا فتوی لگا عباسی خلیفہ کے دارالحکومت میں کفر کے فتوے کی بات ہم اس لئے کرتے ہیں کہ وہ علاقے جہاں جعفری مذہبی ثقافت رائج تھی کسی نے اس دلیل کی بناء پر اس پر کفر کا فتوی نہیں لگایا بلکہ جن علاقوں میں علماء جعفری مذہبی ثقافت سے روشناس تھے ان کا عقیدہ تھاکہ وہ عنوان دین کی تقویت کا باعث ہے ۔
۹; دین علم سے متصادم نہیں
جو کچھ ابن راوندی نے اپنی کتاب میں لکھا اس کا خلاصہ یہ تھا کہ دین کو بہانہ بنا کر علمی ترقی میں رکاوٹ نہ ڈالی جائے اور یہ موضوع اس بات کی نشان دہی کرتا ہے کہ اس کی تربیت جعفر صادق کے ثقافتی مکتب میں ہوئی تھی امام جعفر صادق علیہ السلام کے حلقہ درس میں اس زمانے کے تمام علوم پڑھائے جاتے تھے ان میں سے بعض کی تدریس پہلی مرتبہ ایک اسلامی مکتب میں شروع ہوئی تھی چونکہ جعفر صادق کا عقیدہ تھا کہ علوم میں جتنی ترقی ہو گی دین کی تقویت کا باعث ہو گا امام جعفر صادق کے حلقہ درس میں فلسفہ پڑھایا جاتا تھا جبکہ بعض مسلمان اساتذہ فلسفہ کی تدریس سے سخت پرہیز کرتے تھے اور معتقد تھے کہ فلسفہ کی تدریس مومنین کے عقیدہ کو بگاڑنے کا باعث بنتی ہے فلسفہ کے علاوہ جعفر صادق کے حلقہ درس میں فزکس ‘ کیمیاء طب ‘ جغرافیہ ‘ ہیئت ‘ حساب اور جیومیٹری بھی دینی علوم کے علاوہ پڑھائی جاتی تھیں ابن راوندی جس نے اس ثقافتی مرکز میں تربیت پائی تھی لکھا کہ دین علمی ترقی کی راہ میں حائل نہیں ہوتا ہے اور اس بنا پر وہ عباسی خلیفہ کے ارالحکومت میں خلیفہ کے غضب کا نشانہ بنا اور جب اس نے خلیفہ کی تنقید کو قبول کرکے اپنی کتاب کی درستی کر لی تو متوکل نے اسے اچھے خاصے انعام سے نوازا لیکن عباسیوں کے دارالحکومت کے علماء نے اس کی کتاب کے سارے حصوں کو تنقیدہ کا نشانہ بناتے ہوئے اسے منکر دین قرار دیا انہوں نے کہا جو توحید و نبوت و قیامت کا منکر ہے کس زبان سے کہتا ہے کہ دین کو علوم کی ترقی کی راہ میں حائل نہیں ہونا چاہیے یہ بات تو اسے زیب دیتی ہے جو دین دار ہو جدید علوم کی تواریخ میں درج ہے کہ رابرٹہوک وہ پہلا شخص ہے جس نے تین سو سال پہلے لندن کے شاہی علمی اجتماع کے بانیوں میں سے ایک بانی فرد کی حیثیت سے پہلے اجلاس میں اس موضوع پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا تھا کہ ہمارے مذہب کو علمی تحقیقات کی راہ میں رکاوٹ نہیں بننا چاہیے لیکن اس موضوع کی بنیاد حضرت جعفر صادق نے دوسری صدی ہجری کے اوائل میں رکھی تھی اور ابن راوندی جو جعفری ثقافتی مکتب کا تربیت یافتہ تھا اس نے تیسری صدی ہجری کے اوائل میں اپنی کتاب میں اسے لکھا جسے عباسیوں کے دارلحکومت میں نا پسند کیا گیا دوسری صدی ہجری کے پہلے پچاس سالوں کے دوران اسلامی ممالک میں یکے بعد دیگرے اسلامی فرقے وجود میں آ رہے تھے جن میں سے اکثر ترک دنیا کی طرف مائل تھی اور اس میں کوئی شک نہیں کہ ایسا عیسائیوں کی خانقاؤں کے زیر اثر ہو رہا تھا جن میں پادری حضرات زندگی بسر کر رہے تھے لیکن امام جعفر صادق جو ترک دنیا کے مخالف تھے اور کہتے تھے کسی مسلمان کو اپنی زندگی گوشہ تنہائی میں الگ تھلک رہ کر فضول ضائع نہیں کرنی چاہیے ابن راوندی نے جعفری ثقافتی مکتب کا تربیت یافتہ ہونے کی وجہ سے اپنی کتاب میں ان اسلامی فرقوں کو جو گوشہ نشینی و ترک دنیا کی طرف مائل تھے سخت تنقید کا نشانہ بنایا اور یہ عنوان عباسیوں کے دارالحکومت میں ان مذہبی فرقوں کی نہ صرف ناراضگی کا باعث بنا بلکہ وہ اس پر غضب ناک بھی ہوئے ۔
ان کے غیض و غضب کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ انہوں نے ابن راوندی کو کافی و مرتد قرار دیا۔ اور کہا اس جیسے شخص کو کوئیحق نہیں پہنچتا کہ ان کیمذہبی روش کے بارے میں اظہار خیال کرے گوشہ نشینی سے منع کرے اسلامی مذہبی فرقوں میں ایک طرح کا اعتکاف قابل تحسین ہے یہ اعتکاف روح کی پاکیزگی اور عالی مراتب تک پہنچنے کیلئے اماہ کرنے کی خاطر انجام دیا جاتا ہے اس طرح کے اعتکاف کی جعفر صادق نے بھی اجازت دی لیکن اس اعتکاف اور گروہی صورت میں گوشہ نشینی میں امتیاز رکھا ہے مسلمانوں کے ایک گروہ کی طرف سے دنیاوی فائض سے بچنے کی خاطر گوشہ نشینی اختیار کرنا جعفر صادق کے نزدیک قابل عزت نہ تھا کیونکہ جب مسلمان دنیا سے ہاتھ کھینچ لیں گے ایک دوسرے کی تقلید میں کام کاج سے اجتناب برتنے لگیں گے اور اپنی معاشی ضروریات دوسروں کی وساطت سے پوری کرنے لگیں گے تو اسلامی معاشرہ ضعیف اور مفلس ہو جائے گا اس طرح وہ دوسری قوتوں کے زیر نگین ہو جائیں گے ۔
جس اعتکاف کو جعفر صادق نے قابل تحسین قرار دیا وہ اعتکاف پیغمبر اسلام کے غار حرا میں اعتکاف کی مانند تھا ‘ کیونکہ یہ اعتکاف پاکیزگی روح اور عالی مدارج کے حصول کیلئے تھا اس کے ساتھ ساتھ پیغمبر اسلام نے اپنا کام کاج بھی نہیں چھوڑا وہ گوشہ تنہائی میں نہیں بیٹھے اور نہ ہی اپنی معاشی ذمہ داریاں دوسروں کے سپرد کیں ۔ آپ کام کرتے اور صرف ان دنوں میں جن میں ہم آج کی مناسبت سے رخصت کے دن کہہ سکتے ہیں غار حرا میں گزارتے تھے وہاں پر وہ اپنے آپ میں گم ہو جاتے اور کوشش کرتے کہ اپنے آ کو روحانی لحاظ سے مزید بہتر بنائیں اور اپنے اندر نئی نئی نیک خصوصیات پیدا کریں لیکن بعض اسلامی فرقوں نے تنہائی اور دنیا سے ہاتھ دھونے کو اپنا پیشہ بنا لیا‘ جب ان سے کہا جاتا کہ گوشہ نشینی کیوں اختیار کر رہے ہو اور زندگی کے جہاد میں ہمارے ہم قدم بن کر کیوں نہیں چلتے ۔ اس کے جواب میں وہ کہتے تھے کہ پیغمبر اسلام نے بھی گوشہ نشینی اختیار کی تھی ۔ اگر اعتکاف انہیں پسند نہ تھا تو خود غار حرا میں کیوں معتکف ہوتے تھے ؟ یہ لوگ اس بات سے غافل تھیکہ پیغمبر اسلام کے غار حرا میں اعتکاف اور ان بعض اسلامی فرقوں کے اعتکاف میں برا فرق تھا ۔
تیسری صدی ہجری کے پہلے پچاس سالوں کے دوران جب ابن راوندی بغداد میں تھا تقریبا نوے اسلامی فرقے پائے جاتے تھے جن کی اکثریت گوشہ نشینی اور ترک دنیا کو بہت بڑی عبادت خیال کرتی تھی ان کا گمان تھا کہ انسان کو تمام عمر دنیا سے ہاتھ دھو کر کونے میں بیٹھ جانا چاہیے صاف ظاہر ہے اس صورت میں ان کی معاشی ضرویات امیر لوگ پوریکرتے تھے چونکہ یہ امیر لوگ ان میں سے ہر ایک کو فراد فراد ا مالی امداد نہیں پہنچا سکتے تھیلہذا ایسے اداروں کا قیام عمل میں آیا جو خانقاہوں سے مشابہ تھے اور ان اداروں میں سے ہر ایک اس ماہانہ رقم سے چلتا تھا جو اس کے زمانے کے حاکم یا امیر لوگ اس ادارے کو دیتے تھے جبکہ بعض عیسائی خانقاہوں کے رہائشی کھیتی باڑی کا کام بھی کرتے ہیں ۔
یہ ادارے جن میں لوگ زندگی بسر کرتے تھے انہیں اس مقام کی مناسبت سے بیت ‘ خانہ ‘ سرایا ‘ کیہ کہا جاتا تھا کبھی بھی یہ دیکھنے میں نہیں آیا کہ ان اداروں کے مکینوں نے کوئی پیدواری کام کیا ہو حتی کہ انہیں انگور کی بیل کاشت کرتے ہوئے بھی نہیں دیکھا گیا ان اداروں کے بعض مکین زاہد تھے وہ چاہتے تھے کہ زندگی کے ہنگاموں سے دور رہ کر عبادت کی جائے لیکن ان میں زیادہ تعداد بد قماش لوگوں کی تھی کیونکہ ان اداروں میں رہائش اختیار کرنے کیلئے اتنا کہنا کافی ہوتا تھا کہ میں نے دنیا سے ہاتھ دھو لئے ہیں اور گوشہ نشینی اختیار کر لی ہے اس طرح ہر کوئی ان اداروں میں رہ کر اپنی معاشی ضروریات یہاں سے پوری کر سکتا تھا ۔ ان اداروں کے اکثر مکین عام خواندہ لو تھے اور یہ بات بعید نہیں کہ انہی کی وساطت سے ان اداروں میں تالیاں ‘گھنٹیاں اور دوسرے آلات موسیقی بجانے کی راہ ہموار ہوئی ہو ان گھروں کے بعض مکین اپنے مذہبی رسومات کے دوران تالیاں گھنٹیاں اور مسچ (تھالی نما آلہ موسیقی ) بجاتے تھے گھنٹایں بجانے کی رسم یقینا انہوں نے مارونی گرجوں سے لی ہے مارونی عیسائی فرقوں میں سے ایک ہے مارونی عیسائیوں کے گرجے ما سوائے لبنان کے کہیں اور موجود نہیں ہیں اس فرقے کے پیروکار پہلے آرتھوڈکس تھے اس کے بعد روم کے کلیسا سے وابستہ ہو کر کیتھولک قرار پائے لیکن رومی کلیسائی لاطینی زبان ان کے درمیان رائج نہیں بلکہ آرامی زبان ان کی مذہبی زبان کہلاتی ہے جو حضرت عیسی کے زمانے میں مشرق قریب کی بین الاقوامی زبان کا درجہ رکھتی تھی ا کے باوجود کہ مارونیوں کی زبان آرامی ہے انہیں اس زبان پر کاملا عبور نہیں اور ان کی تمام مذہبی کتب عربی میں لکھی جاتی ہیں چونکہ ان کا رسم الخط عربی ہے لہذا دائیں سے بائیں طرف پڑھا اور لکھا جاتا ہے یہ لوگ مذہبی رسومات کے دوران گرجے میں تالیاں موسیقی کے الات اور گھنٹیاں بجاتے ہیں مارونی عیسائیوں نے یہ صرف عبی رسم الخط مسلمانوں سے نقل کیا ہے بلکہ وضو کا طریقہ بھی مسلمانوں سے سیکھا ہے اور مارونی عیسائیوں کے پادری حضرات مذہبی رسومات کا آغاز کرنے سے پہلے وضو کرتے ہیں جب کہ کسی بھی عیسائی فرقے میں مذہبی رسومات سے قبل وضو کرنا رائج نہیں ابن راوندی نے جتنے بھی متنازعہ مطالب اپنی کتاب الفرند میں لکھے ہیں مثلا تصوف اختیار کرنے والے فرقوں کی مخالفت وغیرہ ان میں سے کوئی بھی اس کے دشمن پیدا کرنے کا باعث نہیں تھا ۔
یہاں پر اس بات کی وضاحت ضروری ہے کہ تیسری صدی ہجری کے اوائل میں تمام اسلامی فرقے جو گوشہ نشینی کی ترغیب دیتے تھے اہل تصوف نہ تھے ہم نے ان کا یکجا نام لیتے ہوئے انہیں اہل تصوف کہا ہے یہاں پر ہمارا ارادہ نہیں کہ ہم تصوف کی ماہیت پر غور و فکر کریں اور کہیں کہ کیا تصوف کے مقاصد سے ایک گوشہ نشینی اور ترک دینا بھی ہے یا نہیں ؟
اہل تصوف سے وہ لوگ مراد لئے ہیں جنہوں نے ترک دینا اور گوشہ نشینی اختیار کر لی تھی خواہ ان کے افکار صوفیانہ تھے یا نہ تھے ؟
جیسا کہ ہمنے مشاہدہ کیا ابن راوندی کے توحید و نبوت سے انکار نے خلیفہ کو اس کا دشمن بنا دیا تھا اور اس اصفہانی مصنف نے محض قتل ہونے سے بچنے کیلئے مجبورا اپنی کتاب کے کچھ حصوں میں تبدیلی پیدا کی لیکن عام لوگ توحید و نبوت کے انکار کی بنا پر ابن راوندی کے مخالف نہیں ہوئے اگرچہ اسے کافر سمجھتے تھے مگر اس کے ساتھ خصوصی عداوت نہیں رکھتے تھے جب کہ تصوف کے فرقوں کی مخالفت نے ان فرقوں کی اکثریت کو ابن راوندی کا خونی دشمن بنا دیا تھا کیونکہ ابن راوندی ان کے ذریعہ معاش کو ختم کرنا چاہتا تھا اس نے اپنی کتاب میں لکھا تھا کہ ان فرقوں کے پیروکار بیکار اور تن پرور لوگ ہیں جو کسانوں کی مانند کھیتی باڑی کرنے مزدوروں کی طرح صنعتیکام کرنے اور اس طرح کے دوسرے مشقت طلب کام انجام دینے سے گریزاں ہیں یا علماء کی مانند علم حاصل کرنے اور لوگوں کو اس عالم سے فیضیاب کرنے سے گریز کرنے والے اور مفت خورے ہیں ۔
اس نے اپنی کتاب میں لکھا کہ ان تمام گھروں کو جن میں ان فرقوں کے لوگ مقیم ہیں خالی کر دینا چاہیے وہ اثاثہ جو ان گھروں کیلئے مختص ہے بیت المال میں منتقل کرکے اس سے تمام مسلمانوں کوفائدہ اٹھانے کا موقع دینا چاہیے ۔
ابن راوندی نے جو کچھ اپنی کتاب میں تصوف کے ان فرقوں کے بارے میں لکھا اس میں ان فرقوں کے پیروکاروں کی بھوک سے مرنے کی مذمت کی گئی تھی تصوف کے ان گھروں میں رہائش پذیر لوگوں کی اکثریت چونکہ ساری عمر یہاں بسر کر چکی تھی لہذا اگر انہیں یہاں سے نکال دیا جاتا تو زندہ رہنے کیلئے بھیک مانگنے کے علاوہ ان کے پاس کوئی چارہ کار نہ تھا ان گھروں میں ایسے لوگ بھی موجود تھے جو معمر اور متقی ہونے کی بناء پر مسلمانوں میں احترام کی نظر سے دیکھے جاتے تھے فرض کیا ان لوگوں کو ان گھروں سے نکال باہر کیا جاتا اور اس سے منسلک اوقاف کو بیت المال میں منتقل کر دیا جاتا تو بھی لوگ ان افراد کو بے گھر اور بھوکا نہ چھوڑتے ۔
البتہ ان میں سے وہ لوگ جو عالم تھے نہ زاہد لوگ انہیں در خور اعتنا نہیں سمجھتے تھے جبانہوں نے اپنی روزی کو خطرے میں پڑتے دیکھا تو ابن راوندی کو نہ صرف کافر بلکہ مفسد فی الارض کا لقب دیا گیا گویا ابن راوندی پہلا شخص ہے جو مسلمانوں میں اس لقب سے نوازا گیا ۔
تصوف کے ان گھروں میں ایسے پیر بھی تھے جن کے کڑ مرید تھے ان مریدوں نے ابن راوندی کو قتل کرنے کا منصوبہ بنایا جب اس نے اپنی جان خطرے میں دیکھی تو عباس صروم کے ہاں پناہ لے لیجیسا کہ ہم نے ذکر کیا عباس صروم نے جونہی ابن راوندی کی کتاب دیکھی تو ایک کافر سے دوستی کے الزام سے بچنے کی خاطر اسے اپنے گھر سے باہر نکال دیا لیکن جب ابن راوندی اپنی کتاب کی اصلاح کر چکا تو عباس صروم کے اس سے گریز کرنے کا سبب ختم ہو گیا اور چونکہ خلیفہ نے ابن راوندی کو معقول انعام اور معاوضہ عطا کر دیا تھا لہذا عباس صروم کو اسے اپنے گھر میں رکھنے میں کوئی قباحت نہ تھی ابن راوندی عباس صروم کے گھر میں چند دن مقیم رہا جو لوگ اسے قتل کرنا چاہتے تھے جب انہیں پتہ چلا کہ وہ عباس صروم کے گھر میں قیام پذیر ہے تو انہوں نے عباس صروم کو جو اس وقت خلیفہ کے دربار سے واپس گھر آ رہا تھا راستے میں روک کر کہا تم نے ایک کافر ‘ مفسد فی الارض اور واجب القتل شخص کو اپنے گھر میں ٹھہرایا ہوا ہے اور اسے پناہ دی ہے اگر تم اسے گھر سے نہیں نکالو گے تو ہم تمہارے گھر پر دھاوا بول دیں گے عباس صروم بولا ‘ مجھے کل تک کی مہلت دو ۔
جو لوگ ابن راوندی کو قتل کرنا چاہتے تھے کہنے لگے کیوں ابھی اسے گھر سے نہیں نکالتے ؟ عباس صروم نے کہا ‘ اس لئے کہ وہ میرا مہمان ہے اور ابھی دوپہر کے کھانے کا وقت ہے کیا اگر آپ کے کسی مہمان کے سامنے کھانے چنے ہوئیہوں تو اسے دستر خوان سے اٹھا سکتے ہیں ۔
انہوں نے کہا کہ نہیں البتہ یہ شخص کافر ‘ مرتد اور واجب القتل ہے لہذا تم ہر گز اسے مہمان تصور نہ کرو اسے ابھی گھر سے نکالو تاکہ ہم اسے تمہارے گھر کے سامنے ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالیں ۔
جب عباس صروم نے دیکھا کہ وہ سب ابن راوندی کو قتل کرنے پر تلے ہوئے ہیں ان سب کے پاس خنجر اور تلواریں ہیں اس نے ان کا غصہ فرو کرنے کیلئے کہا کہ میرا مہمان ہونے کے علاوہ یہ شخص خلیفہ کا منظور نظر بھی ہے اور اس سے انعام بھی حاصل کر چکا ہے اس کے قتل کے بعد خلیفہ تمہیں سزا دے گا انہوں نے کہا ہم ہر طرح کی سزا کیلئے تیار ہیں ہم نے ارادہ کر لیا ہے کہ اس کافر کو قتل کرکے رہیں گے اگرچہ اس کے بعد خلیفہ ہمارے سر تن سے جدا کر دے ۔
جب عباس صروم نے محسوس کیا کہ وہ خلیفہ کے غضب سے بھی نہیں ڈرتے تو اس نے ان سے کہاکہ براہ مہربانی مجھے کل تک مہلت دیں میں کل اسے اپنے گھر سے نکال دوں گا عباس صروم سے پوچھا گیا کہ کل کس وقت اسے گھر سے نکالے گا ؟ بولا جونہی سورج طلوع ہو گا میں اسے اپنے گھر سے نکل جانے کیلئے کہوں گا انہوں نیپوچھا اگر وہ تمہارے گھر سے نہ نکلنا چاہے تو تم کیا کرو گے ؟
عباس صرومنے کہا میں ملازموں سے کہوں گا کہ اسے زبردستی نکال دیں انہوں نے کہا ہم کل سورج طلوع ہونے کے ساتھ ہی یہاں حاضر ہو جائیں امید ہے تو اپنا وعدہ وفا کرے گا عباس صروم کا ارادہ تھا کہ عصر کے وقت جا کر خلیفہ سے ابن راوندی کی حمایت کیلئے درخواست کرے لیکن عصر کے وقت اسے خلیفہ سے ملنے کا موقع نہ مل سکا جب کہ دوسری صبح اس نے خلیفہ سے دیر سے ملاقات کرنا تھی وہ چاہتا تھا کہ وہ لوگ جو ابھی ابن راوندی کے گھر سے باہر نکلنے کے منتظر ہوں گے تاکہ درندوں کی مانند اپنے شکار پر تلواروں اور خنجروں سے ٹوٹ پڑیں اور اسے ٹکڑے ٹکڑے کر ڈالیں ممکن ہے کہعباس صروم جو خلیفہ کا درباری تھا گھر کی حفاظت کیلئے اپنے گھر کے باہر پہرہ دار مقرر کر سکتا تھا لیکن اس نے ایسا س لئے بھی نہیں کیا کہ وہ جان چکا تھا کہ لوگ ابن راوندی کی موجودگی سے با خبر ہیں لہذا وہ یہ ظاہر نہیں کر نا چاہتا تھا کہ لوگ اسے اس کا کٹر حامی سمجھیں چونکہ عام لوگ ابن راوندی سے سخت متنفر تھے اور اسے مرتد کافر سے بھی برا خیال کرتے تھے کیونکہ وہ تصوف کے فرقہ والوں کو رزق سے محروم کر دینا چاہتا تھا اب اگر عباس صروم واقعی اس کی حمایت کرتا تو نہ صرف اس سے متنفر ہوتے بلکہ قریب تھا اسے قتل بھی کر دیتے عباس صروم کا آبائی شہر بھی دارالحکومت تھا اسے علم تھا کہ اس نے ساری زندگی اسی شہر میں بسر کرنا تھی چونکہ وہ خلیفہ کا درباری تھا لہذا وہ کہیں اور سکونت اختیار کرنے سے معذور تھا ۔
لیکن ابن راوندی ایک اصفہانی شخص تھا جس دن وہ بغداد سے روانہ ہوا تو عباس نے اس لئے سنجیدگی سے اس کی حمایت نہیں کی اگر وہ ایسا کرتا تو شہر کے لوگ اس کی مخالفت پر کمر بستہ ہو جاتے جب عباس صروم نے ابن راوندی کے دشمنوں سے ایک رات کی مہلت مانگی تو اس نے سوچا کہ ابن راوندی کو اس رات ایک خادم کی رہنمائی میں شہر سے باہر ایک باغ میں بھیج دے گا لیکن پھر اس نے یہ ارادہ ترک کر لیا چونکہ جو لوگ ابن راوندی کو قتل کرنا چاہتے تھ آخر کار انہیں پتہ چل ہی جاتا کہ عباس صروم نے ابن راوندی کو اپنے باغ میں پناہ دی تھی اس طرح وہ خود اس کے بھی جانی دشمن بن جاتے اس صورت میں وہ اسے قتل یا زخمی کر دیتے ۔
عربی مہمان نوازی کا یہ خاصہ تھا کہ جب عباس صروم نے ابن راوندی کو پناہ دی تھی تو اس کی حمایت کرے اور اسے دشمنوں کے سپرد نہ کرے لیکن جیسا کہ ہم نے ذکر کیا ہے عباس صروم ہر گز لوگوں سے دشمنی مول لینا نہیں چاہتا تھا اسے علم تھا کہ اگر وہ سنجیدگی سے ابن راوندی کی مدد کرے گا تو لوگوں کی دشمنی کا موجب ہو گا یہی وجہ تھی کہ اس نے ابن راوندی کو راتوں رات گھر سے نکال دینے کا فیصلہ کیا جب رات کا کھانا کھا چکے تو عباس صروم نے ابن راوندی سے کہا اے ابوالحسن جیسا کہ تمہیں معلوم ہے کہ مجھ سے جہاں تک ہو سکا میں نے اپنے گھر میں گمہاری حفاظت کی ہے اس کے بعد میں تمہارے دشمنوں کے خطرے سے تمہیں نہیں بچا سکوں گا ۔
اگر آج رات تمہارے دشمن تمہیں قتل کرنے کیلئے حملہ نہ کریں تو صبح طلوع آفتا ب کے وقت ضرور حملہ کرکے تمہیں قتل کر دیں گے میں اس سلسلے میں تمہاری کوئی مدد نہیں کر سکتا اگر میں نے مزاحمت کی تو مجھے بھی قتل کر ڈالیں گے ۔
اگر میرے قتل سے تمہاری جان بچ سکے تو میں حاضر ہوں تاکہ تم دشمنوں کے چنگل سے نجات پاؤ لیکن مجھے علم ہے کہ میرے قتل پر ان کی پیاس نہیں بجھے گی بلکہ انکی پیاس تمہارے ہی قتل سے بجھے گی اب تمہاری نجات اسی میں ہے کہ تم اس شہر سے بھاگ جاؤ بصور ت دیگر تمہارا قتل یقینی ہے دیکھو ابھی اٹھو اور اپنی راہ لو جب تم شہر کے مشرق میں واقع صیدلہ گاؤں میں پہنچو گے تو وہاں سے ایک کاروان "رے " کی طرف جاتا ہے اس کاروان میں شامل ہو جانا اگر کل وہ کارون عازم سفر نہ ہوا تو پرسوں تک وہیں انتظار کر لینا ۔
اس زمانے میں عباسی خلیفہ کے دارالحکومت میں مشرق کی جانب سفر کرنے والا ہر کاروان رے کے نام سے پکارا جاتا تھا اگرچہ اس کاروان کی آخری منزل خراسان تھی یہ رے سے گزرتا تھا عباس صروم کو پہلے ہی علم تھا کہ ابن راوندی ضرور اسے کہے گاکہ خلیفہ سے مدد کی درخواست کیوں نہیں کرتے بالکل ایسا ہی ہوا کتاب الفرند کے مصنف نے یہی سوال پوچھا جس کے جواب میں عباس صروم نے کہا تمہارے خلاف خلیفہ کے کان بھرے ہوئے ہیں کیونکہ تم نے صوفی فرقوں کی مخالفت کرتے ہوئے کہا ہے کہ ان سے متعلقہ تمام گھروں کو خالی کروانا چاہیے اور اوقاف کا سرمایہ وغیرہ گھروں سے بیت المال میں منتقل کر دینا اور اگر تمہیں علم نہیں تھا تو اب جان لو کہ یہ صوفی فرقے خلیفہ کے منظور نظر ہیں ان میں سے بعض فرقوں کے پیروکاروں کیلئے وہ خود تمہارے قتل کا حکم صادر کریگا ۔
ابن راوندی نے کہاجس وقت خلیفہ نے میری کتاب ملاحظہ کی تھی صوفی فرقوں کے بارے میں میری تحریر پر کوئی قد غن نہیں لگائی تھی اور تمہارے بقول اگر وہ صوفی فرقوں کا طرف دار ہے تو اس نے مجھے اپنی تحریر میں تبدیلی کرنے کیلئے کیوں نہیں کہا ؟
عباس صروم بولا تمہارا کیا خیال ہے کہ خلیفہ نے تمہارے ساری کتاب پڑھی ہے ؟ کیا جب خلیفہ کو کتاب دی جاتیہے تو وہ ساری کتاب پڑھتا ہے وہ ایک ایسا انسان ہے جو مشرقین و مغربین کا نظام چلاتا ہے پس ایسا شخص کیسے ایک کتاب کا ایک ایک صفحہ پڑھ سکتا ہے ؟
عباس صروم نے متوکل کی شرابی نوشی کے بارے میں کچھ نہ کہا ‘ کیوں کہ ایک ایسا شخص جو رات کو شراب پئے وہ کسی طرح صبح شاب کے نشے میں دھت ‘ کتاب پڑھ سکتا ہے اور اس کی ہر ایک بحث پر اظہار خیال کر سکتا ہے متوکل صرف اس وقت کتاب پڑھتا تھا جب وہ کم نشے کی حالت میں ہوتا کیونکہ زیادہ نشہ کتاب پڑھنے میں رکاوٹ بنتا ہے متوکل کی شراب نوشی سے کوئی بھی ایسا با خبر انسان نہ تھا جسے خلیفہ کی شراب خوری کا علم نہ ہوتا لیکن عباس صروم نہیں چاہتا تھا کہ اس موضوع کو ابن راوندی اس کی زبان سے سنے لیکن ایسا نہ ہو کہ وہ ایک دن کہے کہ عباس صروم نے خلیفہ پر شراب نوشی کی تہمت لگائی ہے ۔
اسیلئے اس نے اسلامی ممالک کے امور کے انتظام و انصرام کا مسئلہ پیش کیا اور کہا کہ وہ شخل جو اتنا مصروف ہو کسی کتاب کو صفحہ بہ صفحہ کیسے پڑھ سکتا ہے ؟ اس کے بعد کہنے لگا اگر فرض کیا خلیفہ نے صوفی فرقوں سے متعلق تمہاری کتاب کا اقتباس پڑھ بھی لیا ہے اور اس پر کوئی قد غن نہیں لگائی تو اس کا مطلب ہر گز یہ نہیں کہ خلیفہ تم پر غضب ناک نہیں ہوا کیونکہ جس وقت تم نے کتاب خلیفہ کے سپرد کی تھی یہاں پر کوئی تمہاری کتاب کے مواد سے مطلع نہ تھا لیکن جب لوگوں کو معلوم ہوا کہ تم نے صوفی فرقوں کے بارے میں کیسا مواد لکھا ہے تو لوگ مشتعل ہوگئے جو خود بھی صوفی فرقوں کو پسند کرتا ہے ہر گز ان کے مقابلے میں تمہارے حمایت نہیں کرے گا ۔
ابن راوندی نے پوچھا ایک مرتبہ پہلے بھی تم مجھے اپنے گھر سے نکال باہر کر چکے ہو کیا دوبارہ یہی چاہتے ہو اور اس طرح تم مجھے میرے دشمنوں کے حوالے کرنا چاہتے ہو ؟
عباس صروم نے کہا اگر میں تمہیں تمہارے دشمنوں کے حوالے کرنا چاہتا تو تمہیں کہتا کہ یہیں رہو اور جب صبح تمہارے دشمن آتے تو دروازہ کھول دیتا تاکہ وہ تجھے قتل کر ڈالیں ۔
یا یہ کہ نوکروں سے کہتا کہ تجھے زبردستی گھر سے نکال کر تمہارے دشمنوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیں وہ آج بھی تمہیں قتل کرنے کیلئے حملہ کرنا چاہتے تھے لیکن میں نے ان سے کل تک کی مہلت طلب کی ہے یہ مہلت صرف تمہاری نجات کی خاطر مانگی ہے ۔
تمہاری نجات اس میں ہے کہ تم آج رات اس شہر سے باہر نکل جاؤ کل جب تمہارے دشمن آئیں گے تو میں ان سے یہ نہیں کہوں گا کہ تم فلاں طرف گئے ہو ۔
کل صبح تم صیدلہ پہنچ جاؤں گے جونہی وہں پہنچو رے کے قافلے کے ہمراہ وہاں سے چل پڑنا اور اگر قافلہ اس دن نہ جائے تو ایک دن وہیں ٹھہر کر دوسرے دن عازم سفر ہو جانا دیکھو اگر تم صیدلہ میں ایک دن قیام کرو تو اپنا نام کسی پر آشکارا نہ کرنا بلکہ کوئی دوسرا فرضی نام رکھ لینا غور سے سنو اگر وہاں بھی تم پر شک گزرا تو تمہاری خیر نہیں ۔
عباس صروم نے الفرند کے مصنف کو اس قدر تاکید کی کہ وہ اسی رات شہر سے باہر نکلنے پر آمادہ ہو گیا ابن راوندی کو امید تھی کہ عباس اسے شہر سے نکلنے کیلئے اپنا سواری کا جانور دے دے گا لیکن عباس صروم نے صاف انکار کر تے ہوئے کہا اس کے پاس کوئی جانور نہیں اور نہ وہ رات کو کسی دوسرے سے لے کر دے سکتا ہے البتہ وہ شہر سے نکلنے کے بعد دیہاتیوں کے جانور مل جائیں تو انہیں معمولی سا کرایہ دے کر ان سے فائدہ اٹھا سکتا ہے ۔
ابن راوندی نے اپنے ضروری سامان میں سے جس قدر وہ اٹھا سکتا تھا اٹھایا اور شہر سے باہر نکل گیا اور جب کچھ فاصلہ طے کر چکا تو تھکاوٹ محسوس کرنے لگا حالانکہ اس کا سامان اتنا بھاری نہ تھاکیونکہ دارالحکومت میں زندگی بسر کرنے اور خلیفہ کا انعام یافتہ ہونے کی بنا پر وہ سہل پسند ہو گیا تھا ابن راوندی ان مشرقی علماء سے تھا جو کھیتی باڑی بھی کرتے اور علم بھی حاصل کرتے تھے پھر جب وہ عالم بن جاتے تو دوسروں کو پڑھاتے یہ علماء ء پیدل چلنے سے نہیں گھبراتے تھے اور تمام دن کھیتوں میں کام کرتے لیکن ذرا بھی نہیں تھکتے تھے لیکن جب کچھ عرصے کیلئے سخت کام کو ترک کر دیتے خاص طور پر اس وقت جب ان کی مالی حالت بہتر ہو جاتی تو وہ اچھا کھانا کھانے اور زیادہ تر آرام کرتے اس لئے وہ آرام طلب ہو جاتے تھے ۔
اس طرح ابن راوندی جب کچھ دیر پیدل سفر کر چکا تو اس کیلئے مزید چلنا دوبھر ہو گیا وہ اس امید پر راستے کنارے بیٹھ گیا کہ کوئی گدھا گاڑی آئے اور اس کے ذریعے بقیہ فاصلہ طے کرکے صیدلہ پہنچ جائے ۔
جب وہ شہر سے خارج ہوا تو آدھی رات کا وقت تھا ابھی اس نے تھوڑا سفر طے کیا تھا کہ اس پر غنودگی طاری ہونے لگی اس نے اپنا سامان سر کے نیچے رکھا اور پاؤں پھیلاکر سو گیا تھکاوٹ کی وجہ سے اس پر ایسی نیند غالب آئی کہ وہ ان جانوروں کی گھنٹی کی آواز بھی نہ سن سکا جو پھل اور سبزیاں لے کر اس راستے سے دارالحکومت جاتے تھے بغداد کے مشرق میں واقع دیہاتوں کودجلہ سے نکالی گئی دو نہریں سیراب کرتی ہیں ان دیہاتوں کی سبزی اور پھل کافی حد تک بغداد کی ضرورت پوری کرتے ہیں ۔
سورج کی تمازت نے ابن راوندی کو جگا دیا اسے اپنے آپ پر غصہ آنے لگا کہ اس قدر کیوں سویا ہے اسے تو اس وقت صیدلہ میں ہونا چاہیے تھا آخر اپنے آپ کو کوستا ہوا اٹھا سامنا اپنیکندھے پر لادا اور مشرق کی طرف جہاں اس کے خیال کے مطابق صیدلہ واقع تھا چل پڑا سورج کا فی بلندی پر آ گیا تھا لو چل رہی تھی ابن راوندی جو رات کی تھکاوٹ سے نالاں تھا اب سورج کی تمازت سے شاکی تھا لیکن اب پیدل چلنے کے سوا اور کوئی چارہ نہ تھا وہ پسینے میں شرابور چلتا رہا یہاں تک کہ پیچھے جانوروں کی گھنٹیوں کی آواز سنائی دی جس پر وہ رک گیا اس نے دیکھا کہ کچھ دیہاتی گدھوں پر سوار انہیں ہانکتے چلے آ رہے تھے ان میں سے ہر کوئی ایک گدھے پر سوار تھا جونہی انہوں نے ابن راوندی کو دیکھا حیرانگی سے ایک دوسرے کا منہتکنے لگے اس اصفہانی شخص نیکہا آپ لوگ کہاں جا رہے ہیں ابن راوندی نے سوچا کہ شہر کے مضافاتی بستیوں کے مقیم ہوں گے جو شاید شحر چلے گئے تھے اور اب واپس گاؤں آ رہے ہیں ان میں سے ایک بولا ہم صیدلہ کے باسی ہیں اور وہیں جا رہے ہیں ابن راوندی نے کہا اپنا ایک گدھا مجھے کرایہ پر دو میں اس کے بدلے آپ کو کرایہ کے علاوہ دعائے خیر بھی دوں گا دیہاتیوں نے ایک دوسرے سے نظریں ملائیں پھر وہ جس نے کہا تھا کہ ہم صیدلہ کے رہنے والے ہیں اس کی وضع قطع سے اندازہ ہوتا تھا کہ اسے دوسروں پر برتری حاصل ہے اور دوسرے اس کے تابع ہیں وہ گدھے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بولا سوار ہو جاؤ ایک دوسرے دیہاتی سوار نے سوار ہونے اور گدھے پر سامان لادنے میں ابن راوندی کی مدد کی پھر یہ لو گ چل پڑے ابن راوندی خوش تھا کہ اسے سواری میسر آ گئی ہے اور وہ آسانی سے صیدلہ پہنچ جائے گا ۔
راستے میں کافی نشیب و فرار تھے کبھی اوپر چڑھنا ہوتا تو کبھی نیچے اترنا پڑتا راستے میں جونہی چڑھائی آئی تو دیہاتوں میں سے ایک پیچھے مڑ کر دیکھتے ہوئے بولا کچھ سوار اس طرف آ رہے ہیں دیہاتیوں کا سردار اپنا گدھا ابن راوندی کے نزدیک لایا اور ابن راوندی کی سرخ دستار اتار کر ایک تھیلے میں چھپا دی اور اپنی دیہاتی ٹوپی اس کے سر پر رکھ دی ابن راوندی اس کام سے متحیر ہو کر پوچھنے لگا تم نے میرے سر سے میری ٹوپی اتار کر عربی ٹوپی میرے سر پر کیوں رکھ دی ہے ؟ دیہاتی نے جوابا کہا خاموش رہو اور اگر کسی نے کوئی بات پوچھی تو تم نہ بولنا بلکہ میں اسے جواب دوں گا جب سوار نزدیک آئے تو پتہ چلا کہ فوجی نہیں ہیں وہ دیہاتی جو دوسروں سے بلند مرتبہ نظر آ رہا تھا کہنے لگا تمہاری قسمت تمہارا ساتھ دے رہی ہے ابن راوندی بولا وہ کیسے ؟ دیہاتی نے کہا یہ لوگ خلیفہ کے سپاہی نہیں ہیں لہذا نہ تو تجھے یہاں گرفتار کر سکتے ہیں اور نہ ہی قتل کر سکتے ہیں ۔
اصفہانی بولا آخر مجھے کیوں گرفتار یا قتل کریں ؟ دیہاتی کہنے لگا اپنے آ پ کو فریب نہ دو کیا تم وہی اصفہانی نہیں ہو سارا شہر جس کی تلاش میں سر گرداں ہے وہ لوگ تجھے قتل کرنا چاہتے ہیں جب ہم شہر سے آ رہے تھے تو دیکھا کہ سب تمہارے بارے میں محو گفتگو تھے ۔
اس وقت تک ابن راوندی کو گمان نہ تھا کہ دیہاتیوں نے اسے پہچان لیا ہے دیہاتی نے کہا اگر تم زبان نہیں کھول گے تو تمہارے لئے کوئی خطرہ نہیں سوار نزدیک آتے گئے خوف کے مارے ابن راوندی پر کپکپی طاری تھی ۔
دیہاتی نے محسوس کیا کہ ابن راوندی گھبرا رہا ہے تو اس نے کہا چونکہ یہ خلیفہ کے سپاہی نہیں لہذا گھبرانے کیکوئی ضرورت نہیں یہ تمہارا کچھ نہیں بگاڑ سکتے ۔
ابن راوندی کانپتے ہوئے بولا مجھے یہاں نقصان نہ پہنچ سکنے کی کیا وجہ ہے ؟
دیہاتی بولا ‘ اس لئے کہ یہ خلیفہ کے سپاہی نہیں اور خلیفہ کے سپاہیوں کے علاوہ کوئی شخص کسی کو شاہراہ عام پر نقصان نہیں پہنچا سکتا اور نہ ہی حملہ کر سکتا ہے اگر ایسا کرے گا تو اس کا دایاں ہاتھ اور بایاں پاؤں کاٹ دیا جائے گا اور وہ شاہراہ عام سے باہر لیجا کر بھی ایسا کریگا تو بھی اسے یہی سزا ملے گی ابن راوندی نے کہا میں نے سنا تھا کہ راہزنوں کا دایاں ہاتھ اور بایاں پاؤں کاٹتے ہیں لیکن یہ تو راہزن نہیں ہیں ۔
دیہاتی بولا جو کوئی بھی ہوں چونکہ سرقہ بالجبر کے ملزم ہوں گے لہذا ان پر یہی الزام لگا کر انہیں سزا دی جائے گی اس کی شہادت کیلئے اس کی گواہی کافی ہے جس پر حملہ ہوا ہو بس وہ اتنا کہہ دے کہ یہ لوگ میرے سفر کے مال و متاع کو زبردستی چھیننا چاہتے تھے اگر حملہ آور سو آدمی بھی ہوں تو بھی انہیں دایاں ہاتھ اور بایاں پاؤں کاٹنے کی سزا ضرور ملے گی ۔
سوار مزید نزدیک ا گئے ابن راوندی نے دیکھا کہ وہ پانچ آدمی ہیں جس وقت وہ دیہاتیوں کے قریب پہنچے تو ان میں سے ایک نے پوچھا کہ اتم نے سرخ ٹوپی پہنیکسی سوار یا پیدل شخص کو نہیں دیکھا ابلیس ک کفر جس کے چہرے سے آشکارا ہو دیہاتی ہنستے ہوئے بولا ہم نے سرخ دستار دیکھی نہ کفر ابلیس سوار جو رک گئے تھے اپس میں باتیں کرنے لگے ان میں سے ایک بولا وہ کل رات اس شہر سے باہر نکلا ہو گا اس لئے ضرور اب تک صیدلہ پہنچ گیا ہو گا دوسرا بولا ہمیں صیدلہ جانا چاہیے تاکہ وہاں پہنچ کر اسے جہنم رسید کریں اگر اس کافر کو یہاں پاتے تو بھی اسے قتل نہ کر سکتے تھے ۔
سواروں میں سے ایک بولا اگر وہ صیدلہ سے چلا گیا ہو تو پھر کیا کریں گے ؟
دوسرے نے اپنا خیال ظاہر کرتے ہوے کہا صیدلہ پہنچ جانے کے بعد تفتیش کریں گے آیا وہاں ہے یا نہیں ؟ اور اگر وہاں سے کوچ کر گیا ہو تو اس کا پیچھا کریں گے اور آخر کار اسے کسی نہ کسی جگہ جا لیں گے کیونکہ ضرور ہو کھانے پینے اور سونے کیلئے کسی دیہات میں رکا ہو گا ۔
اس گفتگو کے بعد سوار تیزی سے اگے نکل گئے اور دیہاتی نے ابن راوندی سے مخاطب ہو کر کہاں میں یہ گمان نہیں کرتا کہ خلیفہ سے تمہاری عدوات ہو ؟
اصفہانی بولا‘ میرے کیا مجال ہے کہ میں خلیفہ سے جو مشرقین اور مغربین کا حاکم ہے دشمنی کروں دیہاتی کہنے لگا میں نے اس لئے کہا ہے کہ خلیفہ کے سپاہی تمہاری جستجو میں نہیں لگے ہوئے ہیں ۔
پھر کہنے لگا اے عجمی شخص یہ تم نے کونسا کام کیا ہے کہ تمام شہر تمہارے کون کا پیاسا ہے اور اج شہر میں تمہارے علاوہ کوئی دوسرا موضوع گفتگو بھی نہیں یوں لگتا ہے جیسے تم نے ہر شہری کے ماں باپ اور بچوں کو قتل کیا ہے جس کی وجہ سے یہ سب تمہارے خون کے پیاسے ہیں ابن راوندی نے جواب دیا خدا کی قسم میں نے کسی شہری کو تکلیف نہیں پہنچائی دیہاتی نے اظہار خیال کیا اگر ان لوگوں کو تو نے کوئی تکلیف نہیں پہنچائی تو یہ تیرے دشمن کیسے بن گئے ہیں ہم دیہاتیوں کا مقولہ ہے کہ کوئی دشمنی کسی وجہ کے بغیر نہیں ہوتی ابن راوندی نے کہا یہ قول ایک شخص کی دشمنی کے بارے میں ہے نہ کہ ایک گروہ پارٹی کی دشمنی کے متعلق ہے میرے ساتھ لوگوں کی دشمنی بے سبب ہے یہ محض اشتعال انگیزی ہے ۔
ابن راوندی نے کہا صاف ظاہر ہے کہ تم نہیں جانتے کہ جو سوار آ رہے ہیں وہ مجھے لے جائیں دیہاتی بولا آخر کیوں میں نہیں چاہتا کہ جو سوار آ رہے ہیں وہ تجھے نہ پہچانیں ؟
ابن راوندی نے کہا میں جانتا ہوں کہ تم مجھے قتل ہونے سے بچانا چاہتے ہو دیہاتی نے اپنا اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کیا تمہارا خیال یہ ہے کہ اگر وہ تجھے قتل کرتے تو مجھے کوئی نقصان اٹھانا پڑتا ؟
ابن راوندی نے منفی جواب دیا دیہاتینے کہا میں نے یہ دستار اس لئے تمہارے سر سے نہیں اتاری کہ تم قتل ہونے سے بچ جاؤ گے بلکہ اس لئے اتاری ہے کہ یہ عربی ٹوپی تمہارے سر پر رکھی ہے کہ اس خدمت کے بدلے میں تجھ سے بدلہ یا پاداش حاصل کروں ابن راوندی نے پوچھا تم مجھ سے کیا پاداش لو گے ؟
دیہاتی نے جواب دیا کچھ نقد رقم لینا چاہتا تھا لیکن جب مجھے پتہ چلا کہ تم نے کتاب لکھی ہے اور مجھے علم ہوا کہ تم پڑھے لکھے بھی ہو اور چونکہ ہم پڑھے لکھے لوگوں کا احترام کرتے ہیں لہذا میں نے اپنا معاوضہ حاصل کرنے کا ارادہ ترک کر دیا تھا لیکن جب تم نے بتایا کہ اپنی کتاب میں صوفی فقوں سے معاندانہ رویہ اپنایاہے تو میرا خیال بدل گیا اب میں تم سے معاوضہ لینا چاہتا ہوں ابن راوندی بولا تم نے میری خدمت کی ہے میں تمہیں معاوضے کی ادائیگی کیلئے رضا مند ہوں دیہاتی کہنے لگا اگر تم صوفی فرقوں کے ساتھ معاندانہ رویہ اختیار نہ کرتے تو میں ہر گز تم سے معاوضہ نہ لیتا لیکن چونکہ تم نے ان فرقوں سے اظہار خصومت کیا ہے لہذا تم سے ضرور معاوضہ لوں گا ابن راوندی نے کہا میں اپنی بساط کے مطابق تمہیں معاوضہ دونگا ۔
دیہاتی نے کہا یہ گھڑ سوار گاؤں میں پہنچنے کے بعد تجھے تلاش کریں گے اور دیہاتیوں سے معلوم کرلینگے کہ انہوں نے تمہیں دیکھا ہے یا نہیں ؟
جب تم پہنچو گے تو لوگ تمہیں پہچان جائیں گے پھر اور ضرور تمہیں ان گھڑ سواروں کے حوالے کر دیں گے پھر تمہیں قتل کر دیں گے چونکہ ہمارے دیہات میں سبحانیہ فرقہ قابل احترام سمجھا جاتا ہے ابن راوندی کہنیلگا اگر تم اور تمہارے ساتھی میرا تعارف نہ کروائیں تو کوئی بھی مجھے نہیں پہچان سکے گا اور میں صیدلہ میں بھی قیام نہیں کرونگا بلکہ کارواں کے ہمراہ چل پڑوں گا ۔
دیہاتی شخص بولا ہم تمہاری نشاندہی نہیں کریں گے لیکن چونکہ ہمارے دیہات میں گھڑ سوار تمہاری تلاش میں ہیں لہذا لوگ تمہیں پہچان لیں گے ابن راوندی کہنے لگا کیا تم اپنے گھر میں مجھے پناہ نہیں دے سکتے تاکہ میں کل صبح صیدلہ کے کاروان کے ہمراہ چل پڑوں ۔
دیہاتی شخص بولا جو کاروان اج حرکت کر چکا ہے تم اس تک نہیں پہنچ سکے لہذا تم کل کے جس کی وجہ سے لوگ مشتعل ہو کر میرے پیچھے پڑ گئے ہیں اور مجھ پر حملہ کرنا چاہتے ہیں تاکہ ایک بے گناہ کو قتل کرنے کے بعد ایک دوسرے سے پوچھیں کہ اس کا قصور کیا تھا ؟
دیہاتی شخصجھاندیدہ تھا کہنے لگا لوگوں کی اشتعال انگیزی بھی کسی وجہ سے ہو گی تم نے ضروری کوئی ایسا قدم اٹھایا ہے جس سے شہری مشتعل ہوئے ہیں جب ابن راوندی جان گیا کہ دیہاتی شخص عقلمند ہے تو کہنے لگا میرا قصور یہ ہے کہ میں نے ایک کتاب لکھی ہے ۔
جب اس دیہاتی نے سنا کہ اس عجمی نے کتاب لکھی ہے تو اسے احترام کی نگاہوں سے دیکھنے لگا جب کہ کتاب لکھنا کسی کے پڑھے لکھے ہونے کی علامت ہوتیہے اور بین الغربین کے شمال اور جزیرہ کے لوگ پڑھے لکھے طبقے کا احترام کرتے تھے ۔
دیہاتی شخص بولا تم پڑھے لکھے انسان ہو اور کتاب بھی لکھ چکے ہو تو پھر لوگ تمہارے دشمن کیوں بن گئے ہیں ؟ابن راوندی نے جواب دیا شہر کے تمام لوگ میرے دشمن نہیں بلکہ ان میں سے ایک طبقہ میرا مخالف ہے ۔
دیہاتی شخص نے پوچھا یہ کون لوگ ہیں ؟ ابن راوندی نے جواب دیا صرف تصوف کے فرقوں کے پیروکار میرے دشمن ہوئے دیہاتی کہنے لگا ان میں سے ایک فرقہ ہمارے گاؤں میں بھی ہے وہ لوگ اس قدر مہربان ہیں کہ کسی چیونٹی کو بھی ضرر نہیں پہنچاتے تم نے اپنی کتاب میں کیا لکھا ہے جس کی وجہ سے یہ لوگ تیرے جانی دشمن بن گئے ہیں ؟
ابن راوندی نے اس دیہاتی کے فھم و ادارک کے لحاظ سے اپنی کتابی تحریر کی وضاحت کی دیہاتی بولا اب پتہ چلا کہ شہری لوگ تمہارے دشمن کیوں بن گئے ہیں کیونکہ تمام لوگ تصوف کے کسی فرقے کے پروکار ہیں اور ہم لوگ سبحانیہ فرقے کے پیروکار ہیں یہ ہمارے گاؤں کے علاوہ جزیرہ میں بھی خاصا مقبول ہے اور جب تم اپنی کتاب تصوف کے فرقوں کی نابودی کے بارے میں تحریر کر رہے تھے تو تمہیں پہلے فکر کرنی چاہیے تھی کہ جب یہ فرقے تمہارے دشمن بن جائیں گے تو سارے لوگ تمہارے دشمن بن جائیں گے کیونکہ ہر ایک کسی نہ کسی صوفی فرقے سے وابستہ ہے ابن راوندی نے اعتراف کیا کہ اپنی کتاب لکھنے سے قبل اسے یہ خیال نہیں آیا اور کہنے لگا اس کا خیال یہ نہ تھا کہ زاہد اور متقی اشخاص کو ہدف تنقید بنائے بلکہ اس کی مراد وہ لوگ تھے جو کام کی نسبت اوقاف کے گھروں میں رہنے کو ترجیح دیں حالانکہ وہ زاہد و متقی بھی نہیں ہوتے ۔
دیہاتی شخص کہنے لگا کیا تو جانتا ہے کہ میں نے تمہاری دستار تمہارے سر سے کیوں اتار یہے ؟ اور اپنی عربی تمہارے سر پر کیوں رکھ دی ہے ؟
کاروان کے ہمراہ چلے جانا لیکن میں تمہیں اپنے گھر میں ہر گز نہیں ٹھہرا سکتا کیونکہ اگر میں ایسا کروں گا تو یہ لوگ جو میرے ساتھ ہیں تم سے رقم بٹورنے کے خواہشمندہوں گے اور اگر ان میں سے ہر ایک کو رقم دو گے تو تمہارا خرچ بڑھ جائے گا اور اگر نہیں دو گے تو میں خفا ہو جاؤں گا ۔
اسکے علاوہ چونکہ تم نے صوفی فرقوں سے دشمنی برتی ہے اور میں ایک صوفی فرقے سبحانیہ کا حمائتی ہوں میرا جی نہیں چاہتا کہ تجھے اپنے گھر ٹہراؤں اور یہ خطرہ بھی ہے کہ وہ لوگ تمہاری دشمنی سے باخبر ہو کر تمہیں قتل کر ڈالیں ۔
ابن راوندی نے پوچھا پس میں کیا کرو ؟ اور کیسے رے کے کاروان کے ہمراہ عازم سفر ہو جاؤں ؟ دیہاتی شخص بولا ہمارے دیہاتی میں داخل نہ ہونا اور صیدلہ سے دور نکل کر راستے کے کنارے اج اور کل کادن گزارنا اور کل جونہی رے کا کاروان راستے سے گزرے اس میں شامل ہو جانا ۔
ابن راوندی کہنے لگا چونکہ میرے پاس سامان ہے لہذا میں پیدال سفر نہیں کر سکتا اگر یہ سامان نہ ہوتا تو پیدل چلنے میں کوئی مضائقہ نہ تھا دوسرا یہ کہ راستے میں کوئی کسی کو کرائے پر جانور بھی نہیں دیتا ۔
دیہاتی بولا کیا تم اس گدھے کو خریدنا چاہتے ہو جس پر سوار ہو ۔ ابن راوندی نے کہا اگر مناسب دام لگاؤ تو خرید لوں گا دیہاتی نے سوچا موقعے کو غنیمت سمجھ کر اس سے پورا پورا فائدہ اٹھائے اور اپنے جانور کی زیادہ سے زیادہ قیمت لگائے اس نے اتنی قیمت متعین کی جسے ابن راوندی نے زیادہ گردانا اور کہنے لگا تم نے میری مجبوری سے فائدہ اٹھا کر گدھے کی قیمتی زیادہ لگائی ہے ۔
دیہاتی بولا اچھا ایسا کرتے ہیں صیدلہ پہنچنے سے قبل کسی رھگذر سے اس گدھے کی قیمت متعین کروائیں گے پھر اس نے جتنی کہی تم اس سے دس زیادہ دے دینا ابن راوندی نے اظہار خیال کیا دس زیادہ کیوں ؟ دیہاتی بولا کیونکہ میں نے ایک مرتبہ موت سے نجات دی ہے اور اب دوسری مرتبہ تمہاری جان بچانا چاہتا ہوں اگر تم اس گدھے کو نہیں خریدو گے تو تمہیں راستے میں پڑاؤ ڈالنا پڑے گا یہاں تک کہ رے کا کاروان تمہیں پہنچ آئے لیکن یہ گدھا تمہارے ساتھ ہوا تو کاروان کا انتظار کئے بغیر چل پڑو گے اور رے کا کاروان خود بخود تم سے آ ملے گا۔
ابن راوندی نے کہا ایک رھگذر کسی گدھے کی ظاہر حالت سے قیمت متعین نہیں کر سکتا ۔ اسے گدھے کو ہر لحاظ سے دیکھنا چاہیے اور دوسرا یہ کہ اگر دھے کا خریدار جان لے کہ چوری کا گدھا اس کو بیچا گیا تو وہ تین دن تک سودا منسوخ کر سکتا ہے ؟ دیہاتی کہنے لگا یقین کرو یہ گدھا جس پر تم سوار ہو چوری کا نہیں کیونکہ میں اسے پہلے سے بیچنے کا ارادہ نہیں رکھتا تھا آخر کار ابن راوندی نے مجبور ا گدھا خرید لیا اور جونہی وہ صیدلہ کے نزدیک گیا ان دیہاتیوں سے جدا ہونا چاہتا تھا تو دیہاتی شخص بولا کیا میرا معاوضہ بھول گئے ہو ؟ دے کر جانا ۔
ابن راوندی نے کہا چونکہ میں نے تمہارا گدھا خریدا تھا لہذا میرا خیال تھا کہ تم مزید رقم کا مطالبہ نہیں کرو گے ۔ دیہاتی بولا گدھے کی خریداری کا ارادہ کرنے سے قبل تم نے مجھ سے کہا تھا کہ تمہیں معاوضہ دوں گا تو اب اپنا وعدہ وفا کرو ابن راوندی نے مجبورا کچھ رقم اس دیہاتی کو دی اور پھر دیہاتیوں سے علیحدہ ہو گیا لیکن دیہاتی نے اسے آواز دی اور کہا میں نے عربی ٹوپی تمہیں واپس کی ہے اس کا معاوضہ تو دینا بھول گئے ہو ابن راوندی نے جو اس شخص کی لالچ سے غصبناک ہو رہا تھا مجبورا وہ معاوضہ بھی ادا کیا ابن راوندی کی سوانح حیات کو اس سے زیادہ بیان نہیں کرتے کہ دیہاتی شخص کے گدھے نے اسے موت سے نجات دلائی چونکہ اس کے پاس گدھا تھا لہذا راستے میں قیام کئے بغیر چلتا رہا یہاں تک کہ کاروان آ کر اس سے مل گیا ‘ اور وہ دشمنوں کے چنگل سے بچ نکلا اس سنے سنا تھا کہ سوار ا س کے پیچھے آ رہے ہیں لہذا اس نے دوسرے راستے سفر اختیار کرکے جان بچائی۔