مذکورہ روایات کا تحقیقی جائزہ
یہاں ہم مذکورہ بالا روایات کے متن اور سند کا تنقیدی جائزہ لیں گے تاکہ اذان کی تشریع کے بارے میں حقیقتِ حال کھل کر سامنے آئے ۔اس کے بعد ہم دیگر کتابوں میں مذکور نصوص کا تذکرہ کریں گے ۔مذکورہ بالا روایات کئی جہات سے قابل استدلال نہیں ہیں اور درجہ اعتبار سے ساقط ہیں ۔
پہلی جہت : یہ روایات مقام نبوت کی منافی ہیں
اللہ تعالی نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو جن مقاصد کے لئے مبعوث کیا ان میں سے ایک یہ تھا کہ آپ مختلف اوقات میں مومنین کے ساتھ نماز قائم کریں ۔اس مقصد کا قدرتی تقاضا یہ ہے کہ اللہ تعالی آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اس مقصد کی تکمیل کا طریقہ بھی سکھائے ۔بنابریں اس بات کا کوئی مطلب نہیں بنتا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم طویل ایام تک یا ابو داؤد کی پہلی روایت کے مطابق بیس دنوں تک اپنی ذمہ داری کو عملی جامہ پہنانے کے معاملے میں حیران وسرگردان رہیں چنانچہ آپ کبھی کسی کی طرف اور کبھی کسی کی طرف رجوع کریں تاکہ وہ آپ کو آپ کے مقصد تک رسائی کے اسباب کی شناخت میں رہنمائی فراہم کریں ۔
یہ بات آپ کے مقام نبوت کی منافی ہے کیونکہ اللہ سبحانہ و تعالی آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بارے میں فرماتا ہے :
وکان فضل الله علیک عظیما ً۔
ٓپ پر اللہ کا بڑا فضل و کرم ہے ۔یہاں فضل سے مراد علم ہے کیونکہ اس سے قبل فرمایا گیا : وعلّمک مالم تکن تعلمْ( یعنی اللہ نے آپ کو وہ کچھ سکھایا جسے آپ نہیں جانتے تھے۔ )
یادرہے کہ نماز اور روزہ عبادت ہیں اور یہ جنگ اور قتال کی طرح نہیں ہیں جن کے بارے میں گاہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے اصحاب سے مشورہ فرماتے تھے ۔
جنگ کی کیفیت کے بارے میں لوگوں سے آپ کا مشورہ اس وجہ سے نہ تھا کہ (نعوذ باللہ ) آپ کو بہتر طریقے کا علم نہ تھا بلکہ مشورہ لینے کا مقصد یہ تھا کہ لوگوں کے دل جیتے جائیں جیساکہ ارشاد الہی ہے :
وَلَوْ كُنتَ فَظًّا غَلِيظَ الْقَلْبِ لَانفَضُّوا مِنْ حَوْلِكَ فَاعْفُ عَنْهُمْ وَاسْتَغْفِرْ لَهُمْ وَشَاوِرْهُمْ فِي الْأَمْرِ فَإِذَا عَزَمْتَ فَتَوَكَّلْ عَلَى اللّٰهِ۔
(اگر آپ تند خواور سنگدل ہوتے تو یہ لوگ آپ کے پاس سے منتشر ہوجاتے ۔پس آپ ان سے درگذر کریں ، ان کے لئے مغفرت طلب کریں اور معاملات میں ان سے مشورہ کریں ۔پھر جب آپ عزم کرچکیں تو اللہ پر بھروسہ کریں ۔)
کیا یہ دین کی کمزوری اور توہین نہیں ہے کہ اذان و اقامت جیسے نہایت اہم عبادات کی بنیاد عام لوگوں کے خواب وغیرہ ہوں ؟
بنابریں یہ کہے بغیر چارہ نہیں کہ خواب کو اذان کی تشریع یعنی اسے اسلامی شریعت کا حصہ بنانے کی وجہ قرار دینا جھوٹ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر تہمت ہے ۔
اس بات کا بہت زیادہ احتمال ہے کہ عبد اللہ بن زید کے چچوں نے ہی اس خواب کی ترویج اور نشر و اشاعت کی ہو تاکہ یہ ان کے گھرانوں اور قبیلوں کے لئے فضیلت کاباعث بنے ۔اسی لئے ہم بعض مسانیدمیں دیکھتے ہیں کہ عبد اللہ بن زید کے چچیرے اس حدیث کے راوی ہیں اور جن لوگوں نے ان پر اعتماد کیا ہے انہوں نے ان کے ساتھ حسن ظن کی بناپر ایسا کیا ہے ۔
دوسری جہت : ان روایات میں باہمی تعارض موجود ہے۔
اذان کی ابتداء اور اسے شریعت کا حصہ بنانے کے بارے میں مذکور روایات کے اندر کئی زاویوں سے تعارض پایا جاتا ہے ۔
الف ۔ پہلی روایت ( ابو داؤ د کی روایت ) کے مطابق حضرت عمر بن خطاب نے عبداللہ بن زید سے بیس دن پہلے خواب میں اذان کا مشاہدہ کیا تھا ۔
لیکن چوتھی روایت ( ابن ماجہ کی روایت ) کے مطابق حضرت عمر نے اسی رات یہ خواب دیکھا تھا جس رات عبداللہ بن زید نے خواب دیکھا تھا ۔
ب۔ روایت میں عبداللہ بن زید کے خواب کو اذان کی تشریع کا سرچشمہ قرار دیا گیا ہے اور کہا گیا ہے کہ حضرت عمر بن خطاب نے جب اذان سنی تو وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آئے اور بولے کہ خود انہوں نے بھی وہی خواب دیکھا ہے اور حیاء کی وجہ سے انہوں نے اسے نقل نہیں کیا ۔
ج۔ بعض روایات کے مطابق حضرت عمر بن خطاب کا خواب نہیں بلکہ وہ خود اذان کے بانی ہیں کیونکہ انہوں نے ہی نماز کے لیے آواز دینے کی تجویز دی تھی جو اذان سے عبارت ہے ۔سنن ترمذی میں مذکور ہے : جب مسلمان مدینہ آئے تو بعض مسلمانوں نے کہا : یہودیوں کی بگل کی طرح بگل سے کام لینا
چا ہئے۔ تب عمر بن خطاب نے کہا : کیا آپ لوگ کسی آدمی کو نہیں بھیج سکتے جو بلند آواز سے نماز کا اعلان کرے ؟ پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اے بلال ! اٹھو اور پکار کر نماز کا اعلان کرو یعنی اذان دو ۔
ہاں ابن حجر نے کہا ہے کہ نماز کی ندا سے مراد ’’ الصلاة جامعة ‘‘( ۳) ہے لیکن اس تفسیر کی کوئی دلیل موجود نہیں ہے ۔
د۔ بعض روایات کی رو سے اذان کی تشریع کا سر چشمہ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں۔ بیہقی نے روایت کی ہے : کچھ لوگوں نے کہا کہ ناقوس بجایا جائے یا آگ روشن کی جائے ۔ پس آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بلال کو حکم دیا کہ وہ اذان ( کے جملوں) کوجفت کی صورت میں اور اقامت ( کے جملوں ) کو طاق کی صورت میں پڑھے ۔ بیہقی کہتے ہیں :
اسے بخاری نے محمد بن عبد الوہاب سے جبکہ مسلم نے اسحاق بن عمار سے نقل کیا ہے ۔
روایات کے اندر اس قدر زیادہ اختلافات کی موجودگی میں ان پر کیسے اعتماد کیا جاسکتا ہے ؟
تیسری جہت : خواب دیکھنے والے چودہ تھے
حلبی کی روایت سے ظاہر ہوتا ہے کہ اذان والا خواب صرف عبد اللہ بن زید یا عمر بن خطاب نے نہیں دیکھا تھا بلکہ عبد اللہ بن ابو بکر نے دعویٰ کیا کہ اس نے بھی ان دونوں کی طرح کا خواب دیکھا تھا ۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ سات انصاریوں نے اور بقولے بارہ افراد
نے یہ دعوی کیا ہے کہ انہوں نے بھی خواب میں اذان کا مشاہدہ کیا ہے ۔
یاد رہے کہ شریعت ایسی چیز نہیں جس میں ہر کسی کو دخل اندازی کا حق ہو ۔ اگر شریعت اور احکام دین خوابوں کی بنیاد پر استوار ہوں تو اسلام کا خدا ہی حافظ ہے ۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعلیمات کا سرچشمہ وحی ہے لوگوں کے خواب نہیں ۔
---حوالہ جات: