اذان میں ’’ حی علی خیر العمل ‘‘ کی شرعی حیثیت

اذان میں ’’ حی علی خیر العمل ‘‘ کی شرعی حیثیت0%

اذان میں ’’ حی علی خیر العمل ‘‘ کی شرعی حیثیت مؤلف:
: شیخ محمد علی توحیدی
ناشر: عالمی مجلس اہل بیت علیہم السلام
زمرہ جات: مناظرے

اذان میں ’’ حی علی خیر العمل ‘‘ کی شرعی حیثیت

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

مؤلف: آل البیت محققین
: شیخ محمد علی توحیدی
ناشر: عالمی مجلس اہل بیت علیہم السلام
زمرہ جات: مشاہدے: 76
ڈاؤنلوڈ: 35

اذان میں ’’ حی علی خیر العمل ‘‘ کی شرعی حیثیت
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 20 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 76 / ڈاؤنلوڈ: 35
سائز سائز سائز

بسم الله الرحمن الرحیم

نام : اذان میں ’’حی علی خیر العمل ‘‘ کی شرعی حیثیت

اہل بیت علیہم السلام کی رکاب میں ،عالمی مجلس اہل بیت ( ۱۹)

موضوع : فقہ

مولف :شیخ عبد الامیر سلطانی۔تحقیقی کمیٹی ۔

مترجم : شیخ محمد علی توحیدی

نظرثانی:شیخ سجاد حسین-

کمپوزنگ:شیخ غلام حسن جعفری

اشاعت :اول ۲۰۱۸ –

ناشر: عالمی مجلس اہل بیت علیہم السلام ۔

جملہ حقوق محفوظ ہیں

فہرست

عرضِ مجلس ۲

تمہید ۴

اذان کی تشریع : اہل سنت کے نقطہ نظر سے ۶

مذکورہ روایات کا تحقیقی جائزہ ۱۰

چوتھی جہت : بخاری اور دوسروں کی روایات میں تعارض موجود ہے۔ ۱۴

پہلی روایت کا جائزہ ۱۶

دوسری روایت کا جائزہ ۱۶

تیسری روایت کا جائزہ ۱۸

چوتھی جہت : بخاری اور دوسروں کی روایات میں تعارض موجود ہے۔ ۲۰

پہلی روایت کا جائزہ ۲۱

دوسری روایت کا جائزہ ۲۱

تیسری روایت کا جائزہ ۲۲

چوتھی روایت کا جائزہ ۲۲

پانچویں حدیث کا جائزہ۔ ۲۵

الف۔ مسند امام احمد بن حنبل کی روایات ۲۵

ب۔ مسند دارمی کی روایات ۲۶

ج۔ امام مالک کی الموطا میں مذکور روایات ۲۶

د۔ طبقات ابن سعد کی روایت ۲۷

ھ۔ سنن بیہقی کی روایت ۲۸

و۔ دار قطنی کی روایت ۲۹

اذان کی تشریع اہل بیت(ع) کی نظر میں ۳۲

حیّ علی خیر العمل کی جزئیت کا اثبات ۳۵

پہلی دلیل : اصحاب رسول سے مروی نصوص ۳۵

۱ ۔عبد اللہ بن عمر سے مروی روایات ۳۵

۲ ۔سہل بن حنیف کی روایات ۳۶

۳ ۔ بلال سے منقول روایات ۳۶

۴ ۔ابو مخدورہ سے مروی روایات ۳۷

۵ ۔ابن ابی مخدورہ سے منقول روایت ۳۸

دوسری دلیل : اہل بیت اطہار علیہم السلام سے مروی صحیح روایات ۴۱

حیّ علی خیر العمل کی جزئیت کے بارے میں علماء کے اقوال ۴۵

اذان اور اقامت سے حیّ علی خیر العمل کو حذف کر نے کی وجہ ۴۸

خلاصہ بحث ۵۳

اہل ا لبیت علیہم السلام قرآن کے آئینے میں:

إِنَّمَا يُرِيدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيرًا(سورةٔ احزاب/ ۳۲)

ترجمہ :اے اہل بیت! اللہ کا ارادہ بس یہی ہے کہ وہ آپ سےہر طرح کی ناپاکی کو دور رکھےاور آپ کو ایسے پاک و پاکیزہ رکھے جیسے پاکیزہ رکھنے کا حق ہے۔

اہل بیت رسول علیہم السلام ،سنت نبوی کے آئینے میں:

’’ اِنِّیْ تَارِکٌ فِیْکُمُ الثَّقْلَیْنِ کِتَابَ اللهِ وَعِتْرَتِیْ اَهْلَ بَیْتِیْ مَا اِنْ تَمَسَّکْتُمْ بِهِمَا لَنْ تضلُّوْا بَعْدِیْ ‘‘(صحاح و مسانید)

ترجمہ:میں تمہارے درمیان دوگرانقدر چیزیں چھوڑے جارہاہوں۔ وہ اللہ کی کتاب اور میری عترت یعنی میرےاہل بیت ہیں۔ جب تک تم ان سے تمسک رکھوگے تب تک تم میرے بعد ہرگز گمراہ نہیں ہوگے ۔

عرضِ مجلس

اہل بیت علیہم السلام کا علمی و فکری ورثہ جسے مکتب اہل بیت نے اپنے دامن میں سمیٹا ہے اور اہل بیت کے پیروکاروں نے اسے ضائع ہونے سے بچایا ہے ایک ایسے مکتب فکر کی تصویر پیش کرتا ہے جو معارف ِاسلامیہ کی مختلف جہات کو محیط ہے ۔اس مکتب فکر نے اسلامی معارف کے اس صاف سرچشمے سے سیراب ہونے کے لائق نفوس کی ایک کھیپ کو پروان چڑھایا ہے ۔اس مکتب فکر نے امت مسلمہ کو ایسے عظیم علماء سے نوازا ہے جو اہل بیت علیہم السلام کے نظریاتی نقش قدم پر چلے ہیں ۔اسلامی معاشرے کے اندر اور باہر سے تعلق رکھنے والے مختلف فکری مناہج اور مذاہب کی جانب سے اُٹھنے والے سوالات ،شبہات اور تحفظات پر ان علماء کی مکمل نظر رہی ہے ۔

یہ علماء اور دانشور مسلسل کئی صدیوں تک ان سوالات اور شبہات کے معقول ترین اور محکم ترین جوابات پیش کرتے رہے ہیں ۔ عالمی مجلس اہل بیت نے اپنی سنگین ذمہ داریوں کو محسوس کرتے ہوئے ان اسلامی تعلیمات و حقائق کی حفاظت کی خاطر قدم بڑھایا ہے جن پر مخالف فِرق و مذاہب اور اسلام دشمن مکاتب و مسالک کے اربابِ بست و کشاد نے معاندانہ توجہ مرکوز رکھی ہے ۔

عالمی مجلس اہل بیت نے اس سلسلے میں اہل بیتعلیہم السلام اور مکتب اہلبیت کے ان پیروکاروں کے نقش قدم پر چلنے کی سعی کی ہے جنہوں نے ہر دور کے مسلسل چیلنجوں سے معقول ،مناسب اور مطلوبہ انداز میں نمٹنے کی کوشش کی ہے ۔ اس سلسلے میں مکتب اہل بیت کے علماء کی کتابوں کے اندر محفوظ علمی تحقیقات بے نظیر اور اپنی مثال آپ ہیں کیونکہ یہ تحقیقات بلند علمی سطح کی حامل ہیں ،عقل و برہان کی بنیادوں پر استوار ہیں اور مذموم تعصبات و خواہشات سے پاک ہیں نیز یہ بلند پایہ علماء و مفکرین کو اس انداز میں اپنا مخاطب قرار دیتی ہیں جو عقل سلیم اور فطرت سلیمہ کے ہاں مقبول اور پسندیدہ ہے ۔

عالمی مجلس اہل بیت کی کوشش رہی ہے کہ حقیقت کے متلاشیوں کے سامنے ان پربار حقائق اور معلومات کے حوالے سے گفتگو ،ڈائیلاگ اور شبہات و اعتراضات کے بارے میں بے لاگ سوال و جواب کا ایک جدید اسلوب پیش کیا جائے ۔ اس قسم کے شبہات و عتراضات گذشتہ ادوار میں بھی اٹھائے جاتے رہے ہیں اور آج بھی انہیں ہوا دی جارہی ہے ۔

اسلام اور مسلمانوں سے عداوت رکھنے والے بعض حلقے اس سلسلے میں انٹرنیٹ وغیرہ کے ذریعے بطور خاص جدو جہد کررہے ہیں ۔اس بارے میں مجلس اہل بیت کی یہ پالیسی رہی ہے کہ لوگوں کے جذبات اور تعصبات کو مذموم طریقے سے بھڑکانے سے اجتناب برتا جائے جبکہ عقل و فکر اور طالبِ حق نفوس کو بیدار کیا جائے تاکہ وہ ان حقائق سے آگاہ ہوں جنہیں اہل بیت علیہم السلام کا نظریاتی مکتب پورے عالم کے سامنے پیش کرتا ہے اور وہ بھی اس عصر میں جب انسانی عقول کے تکامل اور نفوس و ارواح کے ارتباط کا سفر منفرد انداز میں تیزی کے ساتھ جاری و ساری ہے ۔

یہاں اس بات کی طرف اشارہ ضروری ہے کہ زیر نظر تحقیقی مباحث ممتاز علماء اور دانشوروں کی ایک خاص کمیٹی کی کاوشوں کا نتیجہ ہیں ۔ہم ان تمام حضرات اور ان ارباب ِعلم و تحقیق کے شاکر اور قدر دان ہیں جن میں سے ہر ایک نے ان علمی مباحث کے مختلف حصوں کا جائزہ لے کر ان کے بارے میں اپنے قیمتی ملاحظات سے نوازا ہے ۔

ہمیں امید ہے کہ ہم نے اپنی ان ذمہ داریوں میں سے بعض کو ادا کرنے میں ممکنہ کوشش سے کام لیا ہے جو ہمارے اس عظیم رب کے پیغام کو پہنچانے کے حوالے سے ہمارے اوپر عائد ہوتی ہیں جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور برحق دین کے ساتھ بھیجا ہے تاکہ وہ اسے تمام ادیان پر غالب کرے اور گواہی کے لیے تو اللہ ہی کافی ہے ۔

عالمی مجلس اہل بیت شعبہ ثقافت" اذان میں ’’حی علی خیر العمل ‘‘کی شرعی حیثیت

تمہید

مسلمانوں کے درمیان اس بارے میں اختلاف واقع ہوا ہے کہ کیا اذان میں ’’حی علی الفلاح‘‘ کے بعد ’’حی علی خیر العمل ‘‘ کہنا اذان کا حصہ ہے یا نہیں ؟ ایک طبقہ فکر کا نظریہ ہے کہ اذان میں ’’حی علی خیر العمل ‘‘ کہنا درست نہیں ہے ۔ برادران اہل سنت کا عام نظریہ یہی ہے ۔ان میں سے بعض نےاس عمل کو لفظ ’’ مکروہ ‘‘سے یاد کیا ہے اور اس کی وجہ یہ بیان کی ہے کہ چونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سنت سے یہ عمل ثابت نہیں ہے اس لئے اذان میں اس کا اضافہ مکروہ ہے ۔(۱)

اس کے بر خلاف مکتب اہل بیت اور اس کے پیروکاروں کا نظریہ ہے کہ یہ جملہ اذان اور اقامت دونوں کا حصہ ہے جس کے بغیر نہ اذان درست ہے نہ اقامت۔ ان کے ہاں اس حکم پر اجماع قائم ہے(۲)

جس کا بطور مطلق کوئی مخالف نہیں ۔ وہ اس پر اجماع کے علاوہ اہل بیت علیہم السلام سے مروی بہت ساری روایات سے بھی استدلال کرتے ہیں ۔ ان روایات میں علی اور محمد بن حنفیہ سے مروی حدیث نبوی نیز ابو ربیع ، زرارہ ، فضیل بن یسار اور محمد بن مہران سے مروی امام ابو جعفر الباقر علیہما السلام کی روایت شامل ہیں ۔

ان کے علاوہ وہ ابن سنان ،معلی بن خنیس ، ابو بکر حضرمی اور کلیب اسدی کی امام ابو عبداللہ صادق علیہ السلام سے مروی روایات نیز ابو بصیر کی امام باقر یا امام صادق علیہما السلام سے مروی روایت اور عکرمہ سے مروی ابن عباس کی روایت سے بھی استدلال کرتے ہیں ۔(۳)

ان اختلافات کے معاملے میں ہمارے سامنے مکتب اہل بیت اور ان کے پیرو کاروں کے موقف کو اپنانے کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ۔ اس سلسلے میں ہم صرف مذکورہ اجماع پر اکتفا نہیں کریں گے بلکہ اہل بیت علیہم السلام سےمروی احادیث سے بھی استد لال کریں گے کیونکہ اہل بیت ثقلین میں سے ایک ہیں جن سے اللہ نے ہر قسم کی پلیدی کو دور کیا ہے ۔

اجماع اور احادیث ائمہ کے علاوہ ہم اہل سنت کے ہاں مذکور متعدد دلائل وشواہد سے بھی استدلال کریں گے ۔

اس موضوع بحث کی تفصیلات میں جانے اور اس بارے میں دلائل و شواہد کا ذکر کرنے سے پہلے ضروری ہے کہ ہم فریقین کے ہاں اذان کی تشریع (قانون سازی)کے بارے میں تحقیقی گفتگو کریں کیونکہ اس بحث کا ’’حی علی خیر العمل ‘‘ کی جزئیت سے گہرا تعلق ہے ۔ اس بحث کے دوران اس موضوع سے مربوط بہت سے حقائق سے بھی پردہ ہٹ جائے گا ۔

---حوالہ جات:

۱ ۔دیکھئے سنن بیہقی ،ج۱،ص ۶۲۵ نیز البحر الرائق ،ج۱،ص ۲۷۵ ، از شرح المہذب ۔

۲ ۔ دیکھئے سید مرتضی کی الانتصار ،ص ۱۳۷ ۔

۳ ۔ دیکھئےشیخ حر عاملی کی وسائل الشیعة اور آغابروجردی کی جامع احادیث الشیعة نیز مجلسی کی بحار الانوار اور حاج میرزا محدث نوری کی مستدرک الوسائل ،ابواب الاذان ۔

اذان کی تشریع : اہل سنت کے نقطہ نظر سے

۱ ۔ ابو داؤد نے عباد بن موسی ختلی اور زیاد بن ایوب سے نقل کیا ہے ( عباد کی روایت کامل تر ہے ) کہ انہوں نے ہشیم سے اور اس نے ابو بشر سے نیز زیاد نے ابو بشر سے ، اس نے ابو عمیر بن انس سے اور اس نے اپنے انصاری چچاؤں سے نقل کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نماز کی طرف لوگوں کو بلانے کے لئے کوئی طریقہ سوچ رہے تھے ۔ پس آپ سے کہا گیا : نماز کے وقت کوئی جھنڈا نصب کیجئے ۔ جب لوگ اسے دیکھیں گے تو ایک دوسرے کو اطلاع دیں گے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ تجویز پسند نہیں آئی ۔ تب کسی نے آپ ؐ کو بگل ( کے استعمال) کی تجویز دی ۔

( زیاد کہتا ہے : اس سے مراد یہودیوں کی بگل ہے)

آپ نے یہ تجویز بھی پسند نہیں کی اور فرمایا: اس کا تعلق یہودیوں سے ہے ۔

پھر آپ کو ’’ ناقوس ‘‘ کے بارے میں کہا گیا تو ا ٓپ نے فرمایا : یہ نصاریٰ کی علامت ہے ۔

عبداللہ بن زید کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے منصوبے کی فکر تھی ۔ اس نے خواب میں اذا ن کا مشاہدہ کیا ۔ صبح اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس جاکر آپ کو اس کی خبر دی اور کہا : یا رسول اللہ! میں نیند اور بیداری کی درمیانی حالت میں تھا کہ کسی نے آ کر مجھے اذان سکھائی ۔

روای کہتا ہے : اس سے قبل عمر بن خطاب نے بھی یہی خواب دیکھا تھا لیکن موصوف نے اسے بیس دنوں تک مخفی رکھا۔ اس کے بعد رسول اللہ کو بتا یا تو آپ نے فرمایا : تو نے مجھے کیوں نہیں بتا یا ؟ بولے : عبداللہ بن زید نے مجھ پر سبقت کی تو مجھے شرم آگئی ۔ پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اے بلال ! اٹھو اور عبداللہ بن زید تمہیں جو حکم دے وہ کرو ۔ پس بلال نے اذان دی ۔ ابو بشر کہتا ہے : ابو عمیر نے مجھے خبر دی کہ انصار کے خیال میں اگر اس دن عبداللہ بن زید بیمار نہ ہو تا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اسے مؤذن بنا دیتے ۔

۲ ۔ابو داؤد نے محمد بن منصور طوسی سے نقل کیا ہے کہ اس نے یعقوب سے ، اس نے اپنے والد سے ، اس نے محمد بن اسحاق سے ، اس نے محمد بن ابراہیم ابن حارث تیمی سے ، اس نے محمد بن عبداللہ بن زید بن عبد ربہ سے اور اس نے ابو عبداللہ بن زید سے نقل کیا ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ناقوس تیار کرنے کا حکم دیا تا کہ اسے بجا کر لوگوں کو نماز کے لئے جمع کیا جا سکے تو میں نے ( خواب میں ) ایک شخص کو دیکھا جس کے ہاتھ میں ناقوس تھا ۔ میں نے کہا : اے بندہ خدا ! کیا اس ناقوس کو بیچو گے ؟ اس نے کہا : تم اس سے کیا کرو گے ؟ میں نے کہا : ہم اس سے لوگوں کو نماز کے لئے بلائیں گے ۔ اس نے کہا : کیا میں تمہیں اس سے بہتر چیز کی نشاندہی نہ کروں ؟ میں نے کہا : کیوں نہیں ۔ اس نے کہا : یوں کہو :

الله اکبر، الله اکبر، الله اکبر،الله اکبر،اشهد ان لا اله الا الله، اشهد ان لا اله الا الله، اشهد ان محمدا رسول الله، اشهد ان محمدا رسول الله ،حی علی الصلاة، حی علی الصلاة ،حی علی الفلاح ، حی علی الفلاح ، الله اکبر،الله اکبر ، لا اله الله الا الله، لا اله الله الا الله ۔

اس کے بعد وہ مجھ سے تھوڑا پیچھے ہٹ گیا پھر کہنے لگا : تم نماز کی اقامت یوں کہو :

الله اکبر، الله اکبر، اشهد ان لا اله الا الله،اشهد ان محمدا رسول الله، حی علی الصلاة، حی علی الفلاح ،قد قامت الصلاة، قد قامت الصلاة ، الله اکبر،الله اکبر، لا اله الله الا الله ۔

پھر جب صبح ہوئی تو میں نے رسول اللہ کے پاس آکر آپ کو اپنا خواب سنایا ۔ آپ نے فرمایا : انشا ءاللہ یہ خواب سچا ہے ۔ پس بلال کے ساتھ جاؤ اور اسے وہ سکھاؤ جو تم نے دیکھا ہے تا کہ وہ اسی کےمطابق اذان دے ۔ اس کی آواز تجھ سے بہتر ہے ۔

پس بلال کے ساتھ چلا ۔ پھر میں اسے سکھا تا گیا اور وہ اذان دیتا گیا ۔ عمر بن خطاب نے اپنے گھر میں اسے سنا چنانچہ وہ اپنی چادر کھینچتے ہوئے نکلے اور کہنے لگے : اے اللہ کے رسول ! قسم ہے اس کی جس نے آپ کو حق کے ساتھ مبعوث کیا ہے ! بہ تحقیق میں نے بھی وہی خواب دیکھا ہے جو اس نے دیکھا ہے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اللہ کا شکر ہے ۔(۱)

ابن ماجہ نے اسے درج ذیل دو سندوں کے ساتھ نقل کیا ہے :

۳ ۔ ہم سے ابو عبید محمد بن میمون مدنی نے بیان کیا کہ اسے محمد بن سلمہ حرا نی نے ، اسے محمد بن اسحاق نے ، اسے محمد بن ابرا ہیم تیمی نے ، اسے محمد بن عبد اللہ بن زید نے اور اسے اس کے والد نے خبر دی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بگل ( کے استعمال ) کا ارادہ کیا پھر آپ کے حکم سے ناقوس تیار کیا گیا ۔ تب عبد اللہ بن زید نے خواب دیکھا....

۴ ۔ ہم سے محمد بن خالد بن عبداللہ واسطی نے نقل کیا کہ اسے اس کے والد نے ، اسے عبد الرحمان بن اسحاق نے ، اسے زہری نے ، اسے سالم نے اور اسے اس کے والد نے خبر دی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے لوگوں سے انہیں نماز کے لئے بلانے کی ترکیب کے بارے میں مشورہ کیا تو لوگوں نے بگل کی تجویز دی لیکن آپ نے یہود سے ( مشابہت ) کی وجہ سے اسے ناپسند کیا ۔ پھر لوگوں نے ناقوس کی تجویز دی لیکن آپ نے نصاری ( سے مشابہت ) کی وجہ سے اسے ناپسند کیا ۔ پھر اسی رات ایک انصاری نےجس کا نام عبد اللہ بن زید تھا اور عمر بن خطاب نے خواب میں اذان کا مشاہدہ کیا ۔

زہری کہتا ہے : بلال نے نماز صبح کی اذان میں الصلاة خیر من النوم کا اضا فہ کیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کی تا ئید کی۔(۲)

اسے تر مذی نے درج ذیل سند کے ساتھ نقل کیا ہے :

۵ ۔ ہم سے سعد بن یحیی بن سعید اُموی نے بیا ن کیا کہ اسے اس کے والد نے ، اسے محمد بن اسحاق نے ، اسے محمد بن ابراہیم بن حارث تیمی نے ، اسے محمد بن عبد اللہ بن زید نے اور اسے اس کے والد نے خبر دی کہ جب صبح ہوئی تو ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آئے اور میں نے آپ کو اس خواب کے بارے میں بتا یا ۔الخ

۶ ۔ تر مذی کہتے ہیں کہ اس حدیث کو ابراہیم بن سعد نے محمد بن اسحاق سے نقل کیا ہے جو اس حدیث سے زیادہ کامل اور زیادہ طویل ہے ۔ اس کے بعد ترمذی کہتے ہیں : عبد اللہ بن زید سے مراد ابن عبد ربہ ہے ۔ ہم نے نہیں دیکھا کہ اس نے اس واحد حدیث جو اذان کے بارے میں ہے کے علاوہ رسول اللہ سے کوئی اور صحیح روایت نقل کی ہو ۔(۳)

یہ وہ روایات ہیں جنہیں سنن کے مو لفین نے نقل کیا ہے ۔ ان سنن کا شمار صحاح ستہ میں ہو تا ہے ۔ چونکہ ان معروف سنن کی اہمیت دیگر کتب مثلا سنن دارمی ، دار قطنی، طبقات ابن سعد اور سنن بیہقی کی روایات سے زیادہ ہے اس لئے ان کی خاص حیثیت کو مد نظر رکھتے ہوئے ہم نے ان معروف سنن کی رویات کو دیگر کتب میں مذکور روایات سے جدا کیا منتخب کیا ہے ۔

---حوالہ جات:

۱ ۔ دیکھئے سنن ابو داؤد ،ج ۱ ،ص ۱۳۴ ۔ ۱۳۵ ،حدیث نمبر ۴۹۸ ۔ ۴۹۹ ۔

۲ ۔ دیکھئے سنن ابن ماجہ ،ج ۱ ،ص ۲۳۳ ، باب بدء الاذان ،نمبر ۷۰۷ ۔

۳ ۔ دیکھئے سنن ترمذی ،ج ۱ ،ص ۳۶۱ ، باب ماجاء فی بدء الاذان ،نمبر ۱۸۹ ۔

مذکورہ روایات کا تحقیقی جائزہ

یہاں ہم مذکورہ بالا روایات کے متن اور سند کا تنقیدی جائزہ لیں گے تاکہ اذان کی تشریع کے بارے میں حقیقتِ حال کھل کر سامنے آئے ۔اس کے بعد ہم دیگر کتابوں میں مذکور نصوص کا تذکرہ کریں گے ۔مذکورہ بالا روایات کئی جہات سے قابل استدلال نہیں ہیں اور درجہ اعتبار سے ساقط ہیں ۔

پہلی جہت : یہ روایات مقام نبوت کی منافی ہیں

اللہ تعالی نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو جن مقاصد کے لئے مبعوث کیا ان میں سے ایک یہ تھا کہ آپ مختلف اوقات میں مومنین کے ساتھ نماز قائم کریں ۔اس مقصد کا قدرتی تقاضا یہ ہے کہ اللہ تعالی آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اس مقصد کی تکمیل کا طریقہ بھی سکھائے ۔بنابریں اس بات کا کوئی مطلب نہیں بنتا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم طویل ایام تک یا ابو داؤد کی پہلی روایت کے مطابق بیس دنوں تک اپنی ذمہ داری کو عملی جامہ پہنانے کے معاملے میں حیران وسرگردان رہیں چنانچہ آپ کبھی کسی کی طرف اور کبھی کسی کی طرف رجوع کریں تاکہ وہ آپ کو آپ کے مقصد تک رسائی کے اسباب کی شناخت میں رہنمائی فراہم کریں ۔

یہ بات آپ کے مقام نبوت کی منافی ہے کیونکہ اللہ سبحانہ و تعالی آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بارے میں فرماتا ہے :

وکان فضل الله علیک عظیما ً۔(۱)

ٓپ پر اللہ کا بڑا فضل و کرم ہے ۔یہاں فضل سے مراد علم ہے کیونکہ اس سے قبل فرمایا گیا : وعلّمک مالم تکن تعلمْ( یعنی اللہ نے آپ کو وہ کچھ سکھایا جسے آپ نہیں جانتے تھے۔ )

یادرہے کہ نماز اور روزہ عبادت ہیں اور یہ جنگ اور قتال کی طرح نہیں ہیں جن کے بارے میں گاہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اپنے اصحاب سے مشورہ فرماتے تھے ۔

جنگ کی کیفیت کے بارے میں لوگوں سے آپ کا مشورہ اس وجہ سے نہ تھا کہ (نعوذ باللہ ) آپ کو بہتر طریقے کا علم نہ تھا بلکہ مشورہ لینے کا مقصد یہ تھا کہ لوگوں کے دل جیتے جائیں جیساکہ ارشاد الہی ہے :

وَلَوْ كُنتَ فَظًّا غَلِيظَ الْقَلْبِ لَانفَضُّوا مِنْ حَوْلِكَ فَاعْفُ عَنْهُمْ وَاسْتَغْفِرْ لَهُمْ وَشَاوِرْهُمْ فِي الْأَمْرِ فَإِذَا عَزَمْتَ فَتَوَكَّلْ عَلَى اللّٰهِ۔(۲)

(اگر آپ تند خواور سنگدل ہوتے تو یہ لوگ آپ کے پاس سے منتشر ہوجاتے ۔پس آپ ان سے درگذر کریں ، ان کے لئے مغفرت طلب کریں اور معاملات میں ان سے مشورہ کریں ۔پھر جب آپ عزم کرچکیں تو اللہ پر بھروسہ کریں ۔)

کیا یہ دین کی کمزوری اور توہین نہیں ہے کہ اذان و اقامت جیسے نہایت اہم عبادات کی بنیاد عام لوگوں کے خواب وغیرہ ہوں ؟

بنابریں یہ کہے بغیر چارہ نہیں کہ خواب کو اذان کی تشریع یعنی اسے اسلامی شریعت کا حصہ بنانے کی وجہ قرار دینا جھوٹ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر تہمت ہے ۔

اس بات کا بہت زیادہ احتمال ہے کہ عبد اللہ بن زید کے چچوں نے ہی اس خواب کی ترویج اور نشر و اشاعت کی ہو تاکہ یہ ان کے گھرانوں اور قبیلوں کے لئے فضیلت کاباعث بنے ۔اسی لئے ہم بعض مسانیدمیں دیکھتے ہیں کہ عبد اللہ بن زید کے چچیرے اس حدیث کے راوی ہیں اور جن لوگوں نے ان پر اعتماد کیا ہے انہوں نے ان کے ساتھ حسن ظن کی بناپر ایسا کیا ہے ۔

دوسری جہت : ان روایات میں باہمی تعارض موجود ہے۔

اذان کی ابتداء اور اسے شریعت کا حصہ بنانے کے بارے میں مذکور روایات کے اندر کئی زاویوں سے تعارض پایا جاتا ہے ۔

الف ۔ پہلی روایت ( ابو داؤ د کی روایت ) کے مطابق حضرت عمر بن خطاب نے عبداللہ بن زید سے بیس دن پہلے خواب میں اذان کا مشاہدہ کیا تھا ۔

لیکن چوتھی روایت ( ابن ماجہ کی روایت ) کے مطابق حضرت عمر نے اسی رات یہ خواب دیکھا تھا جس رات عبداللہ بن زید نے خواب دیکھا تھا ۔

ب۔ روایت میں عبداللہ بن زید کے خواب کو اذان کی تشریع کا سرچشمہ قرار دیا گیا ہے اور کہا گیا ہے کہ حضرت عمر بن خطاب نے جب اذان سنی تو وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آئے اور بولے کہ خود انہوں نے بھی وہی خواب دیکھا ہے اور حیاء کی وجہ سے انہوں نے اسے نقل نہیں کیا ۔

ج۔ بعض روایات کے مطابق حضرت عمر بن خطاب کا خواب نہیں بلکہ وہ خود اذان کے بانی ہیں کیونکہ انہوں نے ہی نماز کے لیے آواز دینے کی تجویز دی تھی جو اذان سے عبارت ہے ۔سنن ترمذی میں مذکور ہے : جب مسلمان مدینہ آئے تو بعض مسلمانوں نے کہا : یہودیوں کی بگل کی طرح بگل سے کام لینا

چا ہئے۔ تب عمر بن خطاب نے کہا : کیا آپ لوگ کسی آدمی کو نہیں بھیج سکتے جو بلند آواز سے نماز کا اعلان کرے ؟ پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اے بلال ! اٹھو اور پکار کر نماز کا اعلان کرو یعنی اذان دو ۔

ہاں ابن حجر نے کہا ہے کہ نماز کی ندا سے مراد ’’ الصلاة جامعة ‘‘( ۳) ہے لیکن اس تفسیر کی کوئی دلیل موجود نہیں ہے ۔

د۔ بعض روایات کی رو سے اذان کی تشریع کا سر چشمہ خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں۔ بیہقی نے روایت کی ہے : کچھ لوگوں نے کہا کہ ناقوس بجایا جائے یا آگ روشن کی جائے ۔ پس آنحضرت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بلال کو حکم دیا کہ وہ اذان ( کے جملوں) کوجفت کی صورت میں اور اقامت ( کے جملوں ) کو طاق کی صورت میں پڑھے ۔ بیہقی کہتے ہیں :

اسے بخاری نے محمد بن عبد الوہاب سے جبکہ مسلم نے اسحاق بن عمار سے نقل کیا ہے ۔(۴)

روایات کے اندر اس قدر زیادہ اختلافات کی موجودگی میں ان پر کیسے اعتماد کیا جاسکتا ہے ؟

تیسری جہت : خواب دیکھنے والے چودہ تھے

حلبی کی روایت سے ظاہر ہوتا ہے کہ اذان والا خواب صرف عبد اللہ بن زید یا عمر بن خطاب نے نہیں دیکھا تھا بلکہ عبد اللہ بن ابو بکر نے دعویٰ کیا کہ اس نے بھی ان دونوں کی طرح کا خواب دیکھا تھا ۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ سات انصاریوں نے اور بقولے بارہ افراد(۵) نے یہ دعوی کیا ہے کہ انہوں نے بھی خواب میں اذان کا مشاہدہ کیا ہے ۔

یاد رہے کہ شریعت ایسی چیز نہیں جس میں ہر کسی کو دخل اندازی کا حق ہو ۔ اگر شریعت اور احکام دین خوابوں کی بنیاد پر استوار ہوں تو اسلام کا خدا ہی حافظ ہے ۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تعلیمات کا سرچشمہ وحی ہے لوگوں کے خواب نہیں ۔

---حوالہ جات:

۱ ۔نساء/۱۱۳۔

۲ ۔ دیکھیے سورہ آلعمران /۱۵۹۔

۳ ۔ دیکھئے ابن حجر کی فتح الباری ،ج۲، ص۸۱،مطبوعہ دار المعرفہ ۔

۴ ۔ دیکھئے سنن بیہقی ،ج۱،ص ۶۰۸۔

۵ ۔دیکھئے حلبی کی السیرة النبویہ ،ج۲،ص ۹۵۔

چوتھی جہت : بخاری اور دوسروں کی روایات میں تعارض موجود ہے۔

صحیح بخاری کی روایت صریحا کہتی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مشورے کی نشست میں بلال کو حکم دیا کہ وہ بلند آواز سے نماز کا اعلان کرے ۔

جب نبی یہ حکم دے رہے تھے تو حضرت عمر وہاں حاضر تھے ۔

چنانچہ بخاری ابن عمر سے نقل کرتےہیں : جب مسلمان مدینہ آئے تو وہ جمع ہوکر نماز کے وقت کا انتظار کرتے تھے اور نماز کے لئے آواز دینے کا کوئی سلسلہ نہیں تھا ۔

ایک دن انہوں نے اس بارے میں گفت وشنید کی ۔ پس ان میں سے بعض نے کہا : آپ بھی نصاریٰ کے ناقوس کی طرح ناقوس سے استفادہ کریں ۔ادھر بعض نے کہا : نہیں بلکہ یہودیوں کی طرح بگل بجانا چاہیے ۔تب عمر نے کہا : کیا آپ لوگ کسی آدمی کو نہیں بھیج سکتے جو پکار کر نماز کا اعلان کرے ؟

پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اے بلال ! اُٹھو اور نماز کا اعلان کرو ۔(۱)

جن احادیث میں خواب کا ذکر ہے وہ صریحا ً بتاتی ہیں کہ مشورے کے (کم از کم ) ایک دن بعد جب عبد اللہ بن زید نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اذان کے بارے میں اپنے خواب کی خبر دی تھی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فجر کے وقت بلال کو اذان دینے کا حکم دیا تھا ۔

اس وقت حضرت عمر حاضر نہیں تھے بلکہ انہوں نے اپنے گھر میں اذان کی آواز سنی تھی اور وہ اپنی چادر گھیسٹتے ہوئے نکلے تھے ۔اس وقت وہ کہہ رہے تھے : اے اللہ کے رسول ! قسم ہے اس کی جس نے آپ کو حق کے ساتھ مبعوث کیا ہے بہ تحقیق میں نے بھی وہی خواب دیکھا ہے جو اس نے دیکھا ہے ۔

یہاں ہمارے لئے اس بات کی گنجائش نہیں کہ ہم بخاری کی روایت کو ’’الصلاة جامعة ً ‘‘ کے اعلان پر حمل کریں اور خواب والی روایات کو اذان کے اعلان پر حمل کریں کیونکہ ایک تو یہ جمع بلا دلیل ہے ، ثانیاً اگر نبی نے بلال کو بلند آواز سے ’’الصلاة جامعة ً‘‘ کہنے کا حکم دیا ہو تو اس سے گتھی سلجھ سکتی ہے اور شک دور ہوسکتا ہے خاص کر اس صورت میں کہ الصلاة جامعة کا تکرار کیا گیا ہو ۔ اس صورت میں شک و تردّد کا موضوع ہی ختم ہوجاتا ہے ۔یہ اس بات کی دلیل ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بلال کو بلند آواز سے شرعی اذان دینے کا حکم دیا تھا ۔(۲)

مذکورہ بالا چار جہات میں ہم نے ان احادیث کے متن اور مضمون کا تحقیقی جائزہ لیا ہے ۔اس جائزے سے بطور کافی یہ ثابت ہوجاتا ہے کہ یہ احادیث قابل وثوق اور معتبر نہیں ہیں ۔

اس کے بعد اب ہم یہاں ان احادیث کی اسناد کا یکے بعد دیگرے جائزہ لیں گے ۔

یہ احادیث یا تو ’’موقوف ‘‘ ہیں جن کی سند رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تک متصل نہیں یا مسند ہیں جن کے راوی مجہول ،مجروح ،ضعیف اور متروک ہیں ۔

یہاں ہم سابقہ ترتیب کے مطابق وضاحت پیش کریں گے ۔

---حوالہ جات:

۱ ۔ دیکھئے صحیح بخاری ،ج۱،ص ۳۰۶ ، باب بدء الاذان ،مطبوعہ دارالقلم ،لبنان ۔

۲ ۔ دیکھئے علامہ سید عبد الحسین شرف الدین عاملی کی النص والاجتہاد ،ص ۲۰۰، مطبوعہ اسوہ ۔

پہلی روایت کا جائزہ

یہ ابو داؤد کی روایت ہے جو ضعیف ہے کیونکہ :

۱ ۔ یہ روایت ایک مجہول راوی یا کئی مجہول راویوں پر منتہی ہوتی ہے کیونکہ سلسلہ سند میں کہا گیا ہے : اس کے انصاری چچوں سے

۲ ۔اسے ابو عمیر بن انس نے اپنے چچوں سے نقل کیا ہے جس کے بارے میں ابن حجر کہتا ہے : اس نے روئت ہلال اور اذان کے بارے میں اپنے انصاری چچوں سے جو رسول کے اصحاب تھے روایت کی ہے ۔

ابن سعد اس کے بارے میں کہتے ہیں : وہ ثقہ تھا لیکن اس کی احادیث کی مقدار کم ہے ۔

ابن عبد البرّ کہتے ہیں : وہ مجہول ہے اور اس (کی روایت) سے استدلال نہیں کیا جاسکتا ۔(۱)

مزی رقمطراز ہیں : اس نے دو چیزوں یعنی رویت ہلال اور اذان کے بارے میں یہی کچھ نقل کیا ہے۔

اس کے علاوہ اس سے کوئی چیز منقول نہیں ہے ۔(۲)

دوسری روایت کا جائزہ

اس حدیث کی سند میں ایسے راوی موجود ہیں جن کی روایت سے استدلال نہیں کیا جاسکتا مثلاً :

۱ ۔ابو عبد اللہ محمد بن ابراہیم بن حارث بن خالد تیمی جس کی وفات ۱۲۰ ھ کے آس پاس واقع ہوئی ۔

ابو جعفر عقیلی نے عبد اللہ بن احمد بن حنبل سے نقل کیا ہے : میں نے اپنے والد ( احمدبن حنبل ) کو (محمد بن ابراہیم تیمی مدنی کا ذکر کرنے کے بعد ) یہ کہتے سنا : اس کی روایت میں گڑ بڑ ہے ۔

وہ منکراحادیث نقل کرتا ہے ۔(۳)

۲ ۔محمد بن اسحاق بن یسار بن خیار ۔اہل سنت اس کی روایات سے استدلال نہیں کرتے اگرچہ سیرت ابن ہشام کا دار و مدار اسی ( ابن اسحاق ) پر ہے ۔

احمدبن ابی خیثمہ کہتے ہیں : جب یحیی بن معین سے ابن اسحاق کے بارے میں پوچھا گیا تو یحیی نے کہا : وہ میری نظر میں ضعیف اور سقیم ہے ۔وہ قوی راوی نہیں ہے ۔ابو الحسن میمونی کا بیان ہے : میں نے یحیی بن معین کو یہ کہتے سنا : محمد بن اسحاق ضعیف ہے ۔ نسائی نے کہا ہے : وہ قوی نہیں ہے ۔(۴)

۳ ۔ عبد اللہ بن زید۔ اس کے بارے میں یہی کافی ہے کہ وہ بہت کم روایت کرتا ہے ۔ ترمذی کہتے ہیں : ہمیں معلوم نہیں ہے کہ حدیثِ اذان کے علاوہ اس نے رسول اللہ سے کوئی صحیح حدیث نقل کی ہو ۔ حاکم کہتے ہیں : درست یہ ہے کہ وہ اُحد میں قتل ہوئے ۔

عبد اللہ کی ساری روایات منقطع (وہ روایات جن کا سلسلۂ سند نبی یا صحابہ تک نہ پہنچے ) ہیں ۔

ابن عدی کہتے ہیں : حدیث اذان کے علاوہ ہمیں اس کی کسی روایت کا علم نہیں جو اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے نقل کی ہو ۔(۵)

زندی نے بخاری سے روایت کی ہے : ہمیں حدیث اذان کے علاوہ اس کی کسی حدیث کا علم نہیں ۔(۶)

حاکم کہتے ہیں : عبد اللہ بن زید وہی ہے جس نے خواب میں اذان کا مشاہدہ کیا اور مسلمان فقہاء نے اسے قبول کیا ۔ صحیحین نے اس روایت کو نقل نہیں کیا ہے کیونکہ نقل کرنے والوں نے اس کی اسانید میں اختلاف کیا ہے ۔(۷)

---حوالہ جات:

۱ ۔دیکھئے ابن حجر کی تہذیب التہذیب ،ج۱۲،ص ۱۸۸، نمبر ۸۶۷ ۔

۲ ۔دیکھئے جمال الدین مزّی کی تہذیب الکمال ،ج۳۴،ص ۱۴۲ ،نمبر۷۵۴۵ ۔

۳ ۔ دیکھئے تہذیب الکمال ،ج۲۴،ص ۳۰۴ ۔

۴ ۔ایضا ،ج۲۴،ص ۴۲۳، نیز دیکھئے تاریخ بغداد ،ج۱،ص ۲۲۱ ۔۲۲۴ ۔

۵ ۔ دیکھئے سنن ترمذی ،ج۱،ص ۳۶۱ نیز ابن حجر کی تہذیب التہذیب ،ج۵،ص ۲۲۴ ۔

۶ ۔ دیکھئے جمال الدین مزّی کی تہذیب الکمال ،ج۱۴،ص ۵۴۱ ، مطبوعہ موسسة الرسالہ ۔

۷ ۔ دیکھئےمستدرک حاکم ،ج۳،ص ۳۳۶ ۔