اذان میں ’’ حی علی خیر العمل ‘‘ کی شرعی حیثیت

اذان میں ’’ حی علی خیر العمل ‘‘ کی شرعی حیثیت33%

اذان میں ’’ حی علی خیر العمل ‘‘ کی شرعی حیثیت مؤلف:
: شیخ محمد علی توحیدی
ناشر: عالمی مجلس اہل بیت علیہم السلام
زمرہ جات: مناظرے

اذان میں ’’ حی علی خیر العمل ‘‘ کی شرعی حیثیت
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 20 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 352 / ڈاؤنلوڈ: 321
سائز سائز سائز

تیسری روایت کا جائزہ

اس کی سند محمد بن اسحاق یسار اور محمد بن ابراہیم تیمی پر مشتمل ہے ۔ ان دونوں کے بارے میں آپ جان چکے ہیں ۔

آپ یہ بھی جان چکے ہیں کہ عبد اللہ بن زید نے بہت کم روایت کی ہے اور اس کی ساری روایات منقطعہ (جن کا سلسلہ نبی یا صحابہ تک نہ پہنچے ) ہیں ۔

چوتھی روایت کا جائزہ

۱ ۔ اس روایت کا ایک راوی عبد الرحمن بن اسحاق بن عبد اللہ مدنی ہے ۔

یحیی بن سعید قطان کہتے ہیں : میں نے مدینہ میں اس کے بارے میں پوچھا اور دیکھا کہ وہاں کے لوگ اس کی تعریف نہیں کرتے ۔ علی بن مدینی بھی کہتے ہیں : علی کا بیان ہے : جب سفیان سے عبد الرحمن کے بارے میں پوچھا گیا تو میں نے سفیان سے سنا : وہ( عبد الرحمن ) قدری تھا ۔

(اس کا تعلق مذہب قدریہ سے تھا ) چنانچہ مدینہ والوں نے اسے شہر بدر کردیا ۔ پس وہ ہمارے پاس یہاں (شام ) آگیا جو ولید کی قتل گاہ ہے ۔لیکن ہم اس کے ساتھ نہیں رہتے۔

ابو طالب کہتے ہیں : میں نے احمد بن حنبل سے اس کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے فرمایا : اس نے ابو زناد سے منکر احادیث نقل کی ہیں ۔

احمد بن عبد اللہ عجلی کہتے ہیں : اس کی روایت لکھی تو جاتی ہے لیکن قوی نہیں ہے ۔

ابو حاتم کہتے ہیں : اس کی حدیث لکھی تو جاتی ہے لیکن اس سے استدلال نہیں کیا جاتا ۔

بخاری کہتے ہیں : اس کے حافظے پر اعتماد نہیں کیا جاسکتا ۔مدینہ میں اس کے کسی شاگرد کا سراغ نہیں ملتا سوائے موسی زمعی کے ۔ موسی نے اس سے کچھ چیزیں نقل کی ہیں جن میں سے بعض میں اضطراب پایا جاتا ہے ۔ ( اضطراب یہ ہے کہ راوی کو متن یا راویوں کی ترتیب یاد نہ ہو۔ مترجم)

دار قطنی کا بیان ہے : وہ ضعیف ہے ۔ اس پر قدری ہونے کا الزام ہے ۔ احمد بن عدی کہتے ہیں : اس کی روایت ناقابل قبول چیزوں پر مشتمل ہے اور اس کی متابعت نہیں کی جاسکتی ۔(۱)

۲ ۔ محمد بن عبد اللہ واسطی ۔ اس کا تعارف جمال الدین مزی یوں پیش کرتے ہیں : ابن معین کاکہنا ہے : اس کی کوئی حیثیت نہیں ہے ۔ابن معین اس کی ان روایات کو ردّ کرتا ہے جو اس نے اپنے باپ سے نقل کی ہیں ۔

ابو حاتم کہتے ہیں : میں نے یحیی بن معین سے پوچھا تو اس نے کہا : وہ ایک برا اور جھوٹا آدمی ہے ۔اس نے منکرات کو نقل کیا ہے ۔ابو عثمان سعید بن عمر بردعی نے کہا ہے : میں نے اس (ابو زرعہ) سے محمد بن خالد کے بارے میں پوچھا تو اس نے کہا : وہ برا آدمی ہے ۔ ابن حبان نے اپنی کتاب الثقات میں اس کا ذکر کیا ہے اور کہا ہے : وہ خطا اور اشتباہ کا مرتکب ہوتا ہے ۔(۲)

شوکانی اس روایت کو نقل کرنے کے بعد کہتے ہیں : اس کی سند سخت ضعیف ہے ۔(۳)

---حوالہ جات:

۱ ۔دیکھئے جمال الدین مزی کی تہذیب الکمال ،ج۱۶،ص ۵۱۵ ،حدیث نمبر ۳۷۵۵۔

۲ ۔ایضا ،ج۲۵،ص ۱۳۸ ،حدیث نمبر ۵۱۷۷۔

۳ ۔دیکھئے شوکانی کی نیل الاوطار ،ج۲،ص ۴۲۔

چوتھی جہت : بخاری اور دوسروں کی روایات میں تعارض موجود ہے۔

صحیح بخاری کی روایت صریحا کہتی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مشورے کی نشست میں بلال کو حکم دیا کہ وہ بلند آواز سے نماز کا اعلان کرے ۔

جب نبی یہ حکم دے رہے تھے تو حضرت عمر وہاں حاضر تھے ۔

چنانچہ بخاری ابن عمر سے نقل کرتےہیں : جب مسلمان مدینہ آئے تو وہ جمع ہوکر نماز کے وقت کا انتظار کرتے تھے اور نماز کے لئے آواز دینے کا کوئی سلسلہ نہیں تھا ۔ایک دن انہوں نے اس بارے میں گفت وشنید کی ۔ پس ان میں سے بعض نے کہا : آپ بھی نصاریٰ کے ناقوس کی طرح ناقوس سے استفادہ کریں ۔ادھر بعض نے کہا : نہیں بلکہ یہودیوں کی طرح بگل بجانا چاہیے ۔تب عمر نے کہا : کیا آپ لوگ کسی آدمی کو نہیں بھیج سکتے جو پکار کر نماز کا اعلان کرے ؟ پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اے بلال ! اُٹھو اور نماز کا اعلان کرو ۔(۱)

جن احادیث میں خواب کا ذکر ہے وہ صریحا ً بتاتی ہیں کہ مشورے کے (کم از کم ) ایک دن بعد جب عبد اللہ بن زید نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اذان کے بارے میں اپنے خواب کی خبر دی تھی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فجر کے وقت بلال کو اذان دینے کا حکم دیا تھا ۔اس وقت حضرت عمر حاضر نہیں تھے بلکہ انہوں نے اپنے گھر میں اذان کی آواز سنی تھی اور وہ اپنی چادر گھیسٹتے ہوئے نکلے تھے ۔اس وقت وہ کہہ رہے تھے : اے اللہ کے رسول ! قسم ہے اس کی جس نے آپ کو حق کے ساتھ مبعوث کیا ہے بہ تحقیق میں نے بھی وہی خواب دیکھا ہے جو اس نے دیکھا ہے ۔

یہاں ہمارے لئے اس بات کی گنجائش نہیں کہ ہم بخاری کی روایت کو ’’الصلاة جامعة ً ‘‘ کے اعلان پر حمل کریں اور خواب والی روایات کو اذان کے اعلان پر حمل کریں کیونکہ ایک تو یہ جمع بلا دلیل ہے ، ثانیاً اگر نبی نے بلال کو بلند آواز سے ’’الصلاة جامعة ً‘‘ کہنے کا حکم دیا ہو تو اس سے گتھی سلجھ سکتی ہے اور شک دور ہوسکتا ہے خاص کر اس صورت میں کہ الصلاة جامعة کا تکرار کیا گیا ہو ۔ اس صورت میں شک و تردّد کا موضوع ہی ختم ہوجاتا ہے ۔یہ اس بات کی دلیل ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بلال کو بلند آواز سے شرعی اذان دینے کا حکم دیا تھا ۔(۲)

مذکورہ بالا چار جہات میں ہم نے ان احادیث کے متن اور مضمون کا تحقیقی جائزہ لیا ہے ۔اس جائزے سے بطور کافی یہ ثابت ہوجاتا ہے کہ یہ احادیث قابل وثوق اور معتبر نہیں ہیں ۔

اس کے بعد اب ہم یہاں ان احادیث کی اسناد کا یکے بعد دیگرے جائزہ لیں گے ۔

یہ احادیث یا تو ’’موقوف ‘‘ ہیں جن کی سند رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تک متصل نہیں یا مسند ہیں جن کے راوی مجہول ،مجروح ،ضعیف اور متروک ہیں ۔

یہاں ہم سابقہ ترتیب کے مطابق وضاحت پیش کریں گے ۔

پہلی روایت کا جائزہ

یہ ابو داؤد کی روایت ہے جو ضعیف ہے کیونکہ :

۱ ۔ یہ روایت ایک مجہول راوی یا کئی مجہول راویوں پر منتہی ہوتی ہے کیونکہ سلسلہ سند میں کہا گیا ہے : اس کے انصاری چچوں سے

۲ ۔اسے ابو عمیر بن انس نے اپنے چچوں سے نقل کیا ہے جس کے بارے میں ابن حجر کہتا ہے : اس نے روئت ہلال اور اذان کے بارے میں اپنے انصاری چچوں سے جو رسول کے اصحاب تھے روایت کی ہے ۔

ابن سعد اس کے بارے میں کہتے ہیں : وہ ثقہ تھا لیکن اس کی احادیث کی مقدار کم ہے ۔

ابن عبد البرّ کہتے ہیں : وہ مجہول ہے اور اس (کی روایت) سے استدلال نہیں کیا جاسکتا ۔(۳)

مزی رقمطراز ہیں : اس نے دو چیزوں یعنی رویت ہلال اور اذان کے بارے میں یہی کچھ نقل کیا ہے۔ اس کے علاوہ اس سے کوئی چیز منقول نہیں ہے۔(۴)

دوسری روایت کا جائزہ

اس حدیث کی سند میں ایسے راوی موجود ہیں جن کی روایت سے استدلال نہیں کیا جاسکتا مثلاً :۔ابو عبد اللہ محمد بن ابراہیم بن حارث بن خالد تیمی جس کی وفات ۱۲۰ ھ کے آس پاس واقع ہوئی ۔

ابو جعفر عقیلی نے عبد اللہ بن احمد بن حنبل سے نقل کیا ہے : میں نے اپنے والد ( احمدبن حنبل ) کو (محمد بن ابراہیم تیمی مدنی کا ذکر کرنے کے بعد ) یہ کہتے سنا : اس کی روایت میں گڑ بڑ ہے ۔ وہ منکراحادیث نقل کرتا ہے ۔(۵)

۲ ۔محمد بن اسحاق بن یسار بن خیار ۔اہل سنت اس کی روایات سے استدلال نہیں کرتے اگرچہ سیرت ابن ہشام کا دار و مدار اسی ( ابن اسحاق ) پر ہے ۔احمدبن ابی خیثمہ کہتے ہیں : جب یحیی بن معین سے ابن اسحاق کے بارے میں پوچھا گیا تو یحیی نے کہا : وہ میری نظر میں ضعیف اور سقیم ہے ۔وہ قوی راوی نہیں ہے ۔ابو الحسن میمونی کا بیان ہے : میں نے یحیی بن معین کو یہ کہتے سنا : محمد بن اسحاق ضعیف ہے ۔ نسائی نے کہا ہے : وہ قوی نہیں ہے ۔(۶)

۳ ۔ عبد اللہ بن زید۔ اس کے بارے میں یہی کافی ہے کہ وہ بہت کم روایت کرتا ہے ۔ ترمذی کہتے ہیں : ہمیں معلوم نہیں ہے کہ حدیثِ اذان کے علاوہ اس نے رسول اللہ سے کوئی صحیح حدیث نقل کی ہو ۔ حاکم کہتے ہیں : درست یہ ہے کہ وہ اُحد میں قتل ہوئے ۔عبد اللہ کی ساری روایات منقطع (وہ روایات جن کا سلسلۂ سند نبی یا صحابہ تک نہ پہنچے ) ہیں ۔

ابن عدی کہتے ہیں : حدیث اذان کے علاوہ ہمیں اس کی کسی روایت کا علم نہیں جو اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے نقل کی ہو ۔(۷)

زندی نے بخاری سے روایت کی ہے : ہمیں حدیث اذان کے علاوہ اس کی کسی حدیث کا علم نہیں ۔(۸)

حاکم کہتے ہیں : عبد اللہ بن زید وہی ہے جس نے خواب میں اذان کا مشاہدہ کیا اور مسلمان فقہاء نے اسے قبول کیا ۔ صحیحین نے اس روایت کو نقل نہیں کیا ہے کیونکہ نقل کرنے والوں نے اس کی اسانید میں اختلاف کیا ہے ۔(۹)

تیسری روایت کا جائزہ

اس کی سند محمد بن اسحاق یسار اور محمد بن ابراہیم تیمی پر مشتمل ہے ۔ ان دونوں کے بارے میں آپ جان چکے ہیں ۔آپ یہ بھی جان چکے ہیں کہ عبد اللہ بن زید نے بہت کم روایت کی ہے اور اس کی ساری روایات منقطعہ (جن کا سلسلہ نبی یا صحابہ تک نہ پہنچے ) ہیں ۔

چوتھی روایت کا جائزہ

۱ ۔ اس روایت کا ایک راوی عبد الرحمن بن اسحاق بن عبد اللہ مدنی ہے ۔

یحیی بن سعید قطان کہتے ہیں : میں نے مدینہ میں اس کے بارے میں پوچھا اور دیکھا کہ وہاں کے لوگ اس کی تعریف نہیں کرتے ۔ علی بن مدینی بھی کہتے ہیں : علی کا بیان ہے : جب سفیان سے عبد الرحمن کے بارے میں پوچھا گیا تو میں نے سفیان سے سنا : وہ( عبد الرحمن ) قدری تھا ۔(اس کا تعلق مذہب قدریہ سے تھا ) چنانچہ مدینہ والوں نے اسے شہر بدر کردیا ۔ پس وہ ہمارے پاس یہاں (شام ) آگیا جو ولید کی قتل گاہ ہے ۔لیکن ہم اس کے ساتھ نہیں رہتے۔

ابو طالب کہتے ہیں : میں نے احمد بن حنبل سے اس کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے فرمایا : اس نے ابو زناد سے منکر احادیث نقل کی ہیں ۔

احمد بن عبد اللہ عجلی کہتے ہیں : اس کی روایت لکھی تو جاتی ہے لیکن قوی نہیں ہے ۔

ابو حاتم کہتے ہیں : اس کی حدیث لکھی تو جاتی ہے لیکن اس سے استدلال نہیں کیا جاتا ۔

بخاری کہتے ہیں : اس کے حافظے پر اعتماد نہیں کیا جاسکتا ۔مدینہ میں اس کے کسی شاگرد کا سراغ نہیں ملتا سوائے موسی زمعی کے ۔ موسی نے اس سے کچھ چیزیں نقل کی ہیں جن میں سے بعض میں اضطراب پایا جاتا ہے ۔ ( اضطراب یہ ہے کہ راوی کو متن یا راویوں کی ترتیب یاد نہ ہو۔ مترجم)

دار قطنی کا بیان ہے : وہ ضعیف ہے ۔ اس پر قدری ہونے کا الزام ہے ۔ احمد بن عدی کہتے ہیں : اس کی روایت ناقابل قبول چیزوں پر مشتمل ہے اور اس کی متابعت نہیں کی جاسکتی ۔(۱۰)

۲ ۔ محمد بن عبد اللہ واسطی ۔ اس کا تعارف جمال الدین مزی یوں پیش کرتے ہیں : ابن معین کاکہنا ہے : اس کی کوئی حیثیت نہیں ہے ۔ابن معین اس کی ان روایات کو ردّ کرتا ہے جو اس نے اپنے باپ سے نقل کی ہیں ۔

ابو حاتم کہتے ہیں : میں نے یحیی بن معین سے پوچھا تو اس نے کہا : وہ ایک برا اور جھوٹا آدمی ہے ۔اس نے منکرات کو نقل کیا ہے ۔ابو عثمان سعید بن عمر بردعی نے کہا ہے : میں نے اس (ابو زرعہ) سے محمد بن خالد کے بارے میں پوچھا تو اس نے کہا : وہ برا آدمی ہے ۔ ابن حبان نے اپنی کتاب الثقات میں اس کا ذکر کیا ہے اور کہا ہے : وہ خطا اور اشتباہ کا مرتکب ہوتا ہے ۔(۱۱)

شوکانی اس روایت کو نقل کرنے کے بعد کہتے ہیں : اس کی سند سخت ضعیف ہے ۔(۱۲)

---حوالہ جات:

۱ ۔ دیکھئے صحیح بخاری ،ج۱،ص ۳۰۶ ، باب بدء الاذان ،مطبوعہ دارالقلم ،لبنان ۔

۲۔ دیکھئے علامہ سید عبد الحسین شرف الدین عاملی کی النص والاجتہاد ،ص ۲۰۰، مطبوعہ اسوہ ۔

۳۔دیکھئے ابن حجر کی تہذیب التہذیب ،ج۱۲،ص ۱۸۸، نمبر ۸۶۷ ۔

۴۔دیکھئے جمال الدین مزّی کی تہذیب الکمال ،ج۳۴،ص ۱۴۲ ،نمبر۷۵۴۵ ۔

۵۔ دیکھئے تہذیب الکمال ،ج۲۴،ص ۳۰۴ ۔

۶ ۔ایضا ،ج۲۴،ص ۴۲۳، نیز دیکھئے تاریخ بغداد ،ج۱،ص ۲۲۱ ۔۲۲۴ ۔

۷۔ دیکھئے سنن ترمذی ،ج۱،ص ۳۶۱ نیز ابن حجر کی تہذیب التہذیب ،ج۵،ص ۲۲۴ ۔

۸۔ دیکھئے جمال الدین مزّی کی تہذیب الکمال ،ج۱۴،ص ۵۴۱ ، مطبوعہ موسسة الرسالہ ۔

۹۔ دیکھئےمستدرک حاکم ،ج۳،ص ۳۳۶ ۔

۱۰۔دیکھئے جمال الدین مزی کی تہذیب الکمال ،ج۱۶،ص ۵۱۵ ،حدیث نمبر ۳۷۵۵۔

۱۱ ۔ایضا ،ج۲۵،ص ۱۳۸ ،حدیث نمبر ۵۱۷۷۔

۱۱ ۔دیکھئے شوکانی کی نیل الاوطار ،ج۲،ص ۴۲۔

۱۲ ۔دیکھئے شوکانی کی نیل الاوطار ،ج۲،ص ۴۲۔

پانچویں حدیث کا جائزہ۔

اس کے تین راوی درج ذیل ہیں :

۱ ۔ محمد بن اسحاق بن یسار

۲ ۔ محمد بن حارث تیمی

۳ ۔ عبد اللہ بن زید

ان میں پہلے دو راویوں کا تنقیدی جائزہ آپ ملاحظہ کرچکے ہیں اور یہ بھی دیکھ چکے ہیں کہ یہ دونوں کسی تیسرے شخص سے جو کچھ نقل کرتے ہیں اس کی سند منقطع ہوتی ہے ۔ اس بیان کی روشنی میں چھٹی حدیث کی صورتحال بھی واضح ہوجاتی ہے ۔اس لئے اس پر تبصرے کی ضرورت نہیں جیساکہ آپ خود ملاحظہ کر سکتے ہیں ۔

یہ وہ احادیث ہیں جو کتب صحاح میں سے بعض کے اندر مذکور ہیں۔ ان کے علاوہ دیگر مآخذ میں جو کچھ مذکور ہے ان میں سے ہم مسند امام احمد ،مسند دارمی ،مسند دار قطنی ،امام مالک کی موطا ،طبقات ابن سعد اور سنن بیہقی کی روایات کا تذکرہ کریں گے ۔

الف۔ مسند امام احمد بن حنبل کی روایات

امام احمد بن حنبل نے اذان کے خواب کو اپنی مسند میں عبد اللہ بن زید سے تین اسناد کے ساتھ نقل کیا ہے ۔(۱)

پہلی سند ۔اس سلسلہ کا ایک راوی زید بن حباب بن ریان تیمی ( متوفی ۲۰۳ ھ) ہے ۔

اس کے بارے میں علمائے رجال وحدیث نے کہا ہے کہ وہ کثرت سے غلطی اور خطا کرتا تھا ۔ وہ سفیان ثوری سے ایسی احادیث نقل کرتا ہے جو سند کے لحاظ سے ’’غریب‘‘ ہیں ۔ابن معین کہتے ہیں : اس نے ثوری سے جو احادیث نقل کی ہیں وہ مقلوب ہیں ۔(۲)

(مقلوب وہ حدیث ہے جس کے راوی نے حدیث کے الفاظ، جملوں اور راویوں کو ادھر اُدھر کردیا ہو ۔مترجم)

اس سلسلہ سند کا ایک راوی عبد اللہ بن محمد بن زید بن عبد ربہ ہے ۔ صحاح اور مسانید میں اس کی بس یہی ایک روایت منقول ہے اور اس میں اس کے اپنے خاندان کی فضیلت مذکور ہے ۔ اسی لئے اس پر اعتماد میں کمی واقع ہوئی ہے ۔

دوسری سند میں محمد بن اسحاق بن یسار شامل ہے جس کا حال آپ جان چکے ہیں ۔

تیسری سند میں محمد بن ابراہیم حارث تیمی اور محمد بن اسحاق شامل ہیں ۔یہ سند عبد اللہ بن زید پر منتہی ہوتی ہے جس کی روایت بہت کم ہے ۔

دوسری روایت میں خواب اور بلال کو اذان سکھانے کے ذکر کے بعد مذکور ہے : بلال رسول اللہ کے پاس آئے ۔انہوں نے دیکھا کہ آپ سورہے ہیں ۔بلال نے بلند آواز سے پکار کر کہا :

الصلاة خیر من النوم

(نماز نیند سے بہتر ہے۔) اس کے بعد یہ جملہ نماز صبح کی اذان کا حصہ قرار پایا ۔

ب۔ مسند دارمی کی روایات

دارمی نے اپنی مسند میں اذان کے خواب کو تین اسناد کے ساتھ نقل کیا ہے۔ یاد رہے کہ یہ تینوں ضعیف ہیں ۔

یہاں ہم صرف اسانید کا ذکر کریں گے ۔

۱ ۔ محمد بن حمید نے سلمہ سےاور اس نے محمدبن اسحاق سے نقل کیا ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم .....الخ

۲ ۔اس سند کی روسےمحمد بن حمید نے سلمہ سے، اس نے محمد بن اسحاق سے ،اس نے محمد بن ابراہیم حارث تیمی سے ،اس نے محمد بن عبد اللہ بن زید بن عبد ربہ سے اور اس نے اپنے باپ سے اس حدیث کو نقل کیا ہے ۔

۳ ۔ اس سند کی روسے محمد بن یحیی نے یعقوب بن ابراہیم بن سعد سے ،اس نے ابن اسحاق سے اور اس نے ان راویوں سے نقل کیا ہے جن کا ذکر دوسری سند میں ہوچکا ہے ۔(۳)

تبصرہ ۔ پہلی سند منقطع ہے جبکہ دوسری اور تیسری سند کا راوی محمد بن ابراہیم حارث تیمی ہے جس کا حال آپ جان چکے ہیں ۔اس کے علاوہ ان دونوں کے دوسرے راوی ابن اسحاق کا ذکر بھی ہوچکا ہے ۔

ج۔ امام مالک کی الموطا میں مذکور روایات

امام مالک نے الموطا میں اذان کے خواب کو یحیی سے نقل کیا ہے ۔ اس سند کی روسے یحیی نے مالک سے اور اس نے یحیی بن سعید سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ ارادہ کیا تھا کہ (نماز کا اعلان کرنے کے لئے ) دو لکڑیاں لی جائیں اور انہیں ایک دوسرے پر مارا جائے....(۴)

تبصرہ : اس روایت کی سند منقطع ہے ۔ یحیی بن سعید سے مراد یحیی بن سعید بن قیس ہے جو سنہ ۷۰ ھ میں پیدا ہوئے اور ۱۴۳ ھ میں ہاشمیہ میں وفات پاگئے۔(۵)

د۔ طبقات ابن سعد کی روایت

محمد بن سعد نے اپنی کتاب الطبقات میں(۶)

اس حدیث کو کئی اسانید کے ساتھ نقل کیا ہے جو موقوفہ ہیں ۔ (موقوفہ وہ سند ہے جو صحابی پر منتہی ہو ۔مترجم ) ان سے استدلال درست نہیں ہے ۔ پہلی سند نافع بن جبیر پر منتہی ہوتی ہے ۔نافع نوے کی دہائی میں اور بقولے ۹۹ ھ میں وفات پاگیا تھا ۔

دوسری سند عروہ بن زبیر پر ختم ہوتی ہے جو ۲۹ ھ میں پیدا ہوا اور ۹۳ ھ میں وفات پاگیا ۔

تیسری سند زید بن اسلم پر منتہی ہوتی ہے ۔زید ۱۳۶ ھ میں وفات پاگیا تھا ۔

چوتھی سند سعید بن مسیب (متوفی ۹۴ ھ ) اور عبد الرحمن بن ابی لیلی (متوفی ۹۲ ھ یا ۹۳ ھ ) پر ختم ہوتی ہے ۔

ذہبی نے عبد اللہ بن زید کے بارے میں لکھا ہے : سعید بن مسیب اور عبد الرحمن بن ابی لیلی نے اس سے نقل کیا ہے جبکہ ان دونوں کی ملاقات نہیں ہوئی تھی ۔(۶)

ابن سعد نے اس حدیث کو درج ذیل سند کے ساتھ بھی نقل کیا ہے ۔

اس سند کی روسے احمد بن محمد بن ولید ازرقی نے مسلم بن خالد سے ، اس نے عبد الرحیم بن عمر سے ، اس نے ابن شہاب سے ، اس نے سالم بن عبد اللہ بن عمر سے اور اس نے عبداللہ بن عمر سے نقل کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے لوگوں کو جمع کرنے کے لئے کوئی چیز بنانے کا ارادہ کیا... یہاں تک کہ ایک انصاری عبد اللہ زید نے خواب دیکھا ۔اسی رات عمر بن خطاب نے بھی یہی خواب دیکھا … (پھر راوی کہتا ہے : پس بلال نے صبح کی اذان میں الصلاة خیرٌ من النّوم کا اضافہ کیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس کی تائید فرمائی ۔

یہ سند درج ذیل راویوں پر مشتمل ہے ۔

۱ ۔ مسلم بن خالد بن مرّہ جسے ابن جرحہ کہا جاتا ہے ۔یحیی بن معین نے اسے ضعیف قرار دیا ہے ۔علی ابن مدینی کہتے ہیں : اس کی کوئی حیثیث نہیں ۔ بخاری فرماتے ہیں : اس کی روایت منکر ہے ۔ نسائی فرماتے ہیں : وہ قوی نہیں ہے ۔ابو حاتم کا بیان ہے : وہ قوی نہیں ہے ، وہ منکر احادیث نقل کرتا ہے ۔ اس کی حدیث لکھی جاتی ہے لیکن اس سے استدلال نہیں کیا جاتا ۔آپ اس کا تعارف کرائیں لیکن اسے قبول نہ کریں ۔(۷)

۲ ۔ محمد بن مسلم بن عبید اللہ بن عبد اللہ بن شہاب زہری مدنی ( ۵۱ ھ۔ ۱۲۳ ھ) ۔انس بن عیاض عبید اللہ بن عمر سے نقل کرتے ہیں کہ اس نے کہا : میں دیکھا کرتا تھا کہ زہری (حدیث کی ) کتاب دیتا تو ہے لیکن نہ اسے پڑھتا ہے اور نہ اسے پڑھ کر سنایا جاتا ہے ۔جب اس سے کہا جاتا ہے : کیا ہم اسے آپ کی طرف سے نقل کریں تو وہ کہتا ہے : ہاں ۔

ابراہیم بن ابو سفیان قیسرانی نے فریانی سے نقل کیا ہے کہ اس نے سفیان ثوری کو یہ کہتے سنا : میں زہری کے پاس آیا تو اس نے خاص توجہ نہیں دی ۔ میں نے اس سے کہا : اگر آپ ہمارے اساتید کے پاس آتے تو کیا وہ آپ کے ساتھ ایسا برتاؤ کرتے ؟ اس نے کہا :اسی طرح بیٹھے رہو ۔

پھر وہ اندر گیا اور میرے لئے ایک کتاب لے کر باہر نکلا اور کہنے لگا : یہ لے لو اور اسے میری طرف سے نقل کرو ‘‘ لیکن میں نے اس سے ایک حرف بھی نقل نہیں کیا ۔(۸)

ھ۔ سنن بیہقی کی روایت

بیہقی نے اذان کے خواب کو مختلف اسانید کے ساتھ نقل کیا ہے ۔ان سب میں کمزوری یا کمزوریاں پائی جاتی ہیں ۔ یہاں ہم ان اسانید کے کمزور راویوں کی طرف اشارہ کرتے چلیں گے ۔

پہلی سند کا راوی ابو عمیر بن انس ہے جس نے اپنے انصاری چچوں سے روایت کی ہے ۔

ابو عمیر ابن انس کے بارے میں آپ جان چکے ہیں ۔ اس کے بارے میں ابن عبد البر رقمطراز ہیں : وہ مجہول الحال ہے ۔ اس کی روایت سے استدلال درست نہیں ۔ وہ اپنے چچوں کے نام سے مجہول الحال راویوں سے روایت کرتا ہے ۔(۱۰)

اس بات کی کوئی دلیل نہیں کہ یہ لوگ صحابہ ہیں اگرچہ ہم ہرصحابی کو عادل سمجھیں ۔اگر یہ فرض بھی کرلیا جائے کہ اس کے چچے صحابہ تھے تب بھی کسی صحابی کی موقوف روایات ( وہ روایات جن کا سلسلہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر منتہی نہ ہوتا ہو ) حجت نہیں ہیں کیونکہ اس بات کی کوئی ضمانت نہیں کہ اس صحابی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کی ہو ۔

دوسری سند درج ذیل راویوں پر مشتمل ہے جن کی روایت حجت نہیں ہے :

۱ ۔ محمد بن اسحاق بن یسار

۲ ۔ محمد بن ابراہیم بن حارث تیمی

۳ ۔ عبداللہ بن زید

ان سب کے بارے میں آپ قبل ازیں بخوبی جان چکے ہیں ۔

تیسری سند کا ایک راوی علی بن شہاب زہری ہے جو سعید بن مسیب متوفی ۹۴ ھ سے اور وہ عبد اللہ بن زید سے نقل کرتا ہے جبکہ آپ جان چکے ہیں کہ اس نے عبد اللہ بن زید کو نہیں پا یا تھا ۔(۱۱)

و۔ دار قطنی کی روایت

دار قطنی نے اذان کے خواب کو کئی اسانید کے ساتھ نقل کیا ہے جو یہ ہیں :

پہلی سند : ہمیں محمد بن یحیی بن مرد اس نے خبر دی کہ اس نے ابو داؤد سے ، اس نے عثمان بن ابی شیسہ سے ، اس نے حماد بن خالد سے ، اس نے محمد بن عمر و سے ، اس نے محمد بن عبد اللہ سے اور اس نے اپنے چچا عبد اللہ بن زید سے نقل کیا ہے کہ

دوسری سند : ہمیں محمد بن یحیی نے خبر دی کہ اس نے ابو داؤد سے ، اس نے عبد اللہ بن عمر سے ، اس نے عبد الرحمن بن مہدی سے اس نے محمد بن عمرو سے اور اس نے عبد اللہ بن محمد سے نقل کیا ہے کہ اس نے کہا : میرے دادا عبدا للہ بن زید نے یہ روایت....(۱۲)

ان دونوں سندوں کا ایک راوی محمد بن عمر وہے ۔ اس سے مراد یا تو محمد بن عمر و انصاری ہے جس سے اس روایت کے سوا صحاح و مسانید میں کوئی اور روایت منقول نہیں ہے۔ چنانچہ ذہبی کہتے ہیں : وہ غیر معروف ہے یا ابو سہیل محمد بن عمرو انصاری ہے جسے یحیی بن قطان ،ابن معین اور ابن عدی نے ضعیف قرار دیا ہے ۔(۱۳)

تیسری سند : ابو محمد بن ساعد نے ہمیں خبر دی کہ اسے حسن بن یونس نے ، اسے اسود بن عامر نے اور اسے ابوبکر بن عیاش نے خبر دی کہ اعمش نے عمر و بن مرة سے ، اس نے عبد الرحمن بن ابی لیلی سے اور اس نے معاذ بن جبل سے نقل کیا ہے کہ ایک انصاری ( یعنی عبد اللہ بن زید ) نبی کے پاس آیا اور کہنے لگا : میں نے خواب دیکھا(۱۴)

تبصرہ : یہ سند منقطع ہے کیونکہ حضرت معاذ بن جبل ۱۸ ھ یا ۲۰ ھ میں وفات پاگئے تھے جبکہ عبد الرحمن بن ابی لیلی ۱۷ ھ میں پیدا ہوئے تھے ۔ علاوہ ازین دارقطنی نے عبد الرحمن کو ضعیف قرار دیتے ہوئے کہا ہے : اس کی حدیث ضعیف ہے اور اس کی یا ددا شت خراب ہے اور یہ بات ثابت نہیں ہے کہ ابن ابی لیلی نے عبد اللہ بن زید سے حدیث سنی ہو ۔(۱۵)

اذان کےخواب سے مربوط روایات کی بحث یہاں مکمل ہوگئی اور یہ بات واضح ہو گئی کہ یہ کہنا درست نہیں کہ اذان کو شریعت کا حصہ بنانے کی وجہ عبد اللہ بن زید یا عمر بن خطاب یا کسی اور کا خواب تھا نیز اس خواب پر مشتمل احادیث کے درمیان تعارض پایا جا تا ہے ، ان کی اسناد درست نہیں ہیں اور ان کے ذریعے کوئی چیز ثابت نہیں ہوسکتی ۔

علاوہ ازیں ہم اس بحث کے آغاز میں کہہ چکے ہیں کہ یہ بات عقل سے بھی منافات رکھتی ہے ۔

---حوالہ جات:

۱- مسند امام احمدبن حنبل ،ج۴،ص ۶۳۲ ،۶۳۳ ،ح۱۶۰۴۱ ،۱۶۰۴۲ ،۱۶۰۴۳ ۔

۲ ۔دیکھئے ذہبی کی میزان الاعتدال ،ج۲،ص ۱۰۰ ، حدیث نمبر ۲۹۹۷۔

۳ ۔دیکھئے سنن دارمی ،ج۱،ص ۲۸۷، باب بدء الاذان ۔

۴۔دیکھئے مالک کی الموطا ،ص ۴۴ ،باب ماجاء فی النداء للصلاة ،نمبر ۱۔

۵ ۔دیکھئے ذہبی کی سیراعلام النبلاء ،ج۵،ص ۴۶۸،احوال نمبر ۲۱۳۔

۶ ۔ دیکھئے ابن سعد کی الطبقات الکبری ،ج۱،ص ۲۴۶۔۲۴۷ ۔

۷ ۔ دیکھئے ذہبی کی اعلام النبلاء ،ج۲،ص ۳۷۵،نمبر ۷۹ ۔اس کی تفصیل آگے آئے گی ۔

۸۔دیکھئے جمال الدین مزی کی تہذیب الکمال ،ج۲۷، ۵۰۸ ، نمبر ۵۹۲۵۔

۹ ۔ایضا ،ج۲۶،ص ۴۳۹ ۔ ۴۴۰۔

۱۰۔دیکھئے ابن حجر کی التہذیب ،ج ۱۲،ص ۱۸۸،نمبر ۸۶۷ ۔

۱۱ ۔ دیکھئے سنن بیہقی ،ج۱،ص ۵۷۵ ،نمبر ۱۸۳۷ ۔

۱۲ ۔ دیکھئے سنن دار قطنی ،ج۱،ص ۲۴۵ ، نمبر ۵۷ ۔

۱۳ ۔ دیکھئے ذہبی کی میزان الاعتدال،۳/۶۷۴،ح۸۱۷،۸۱۸ نیز جمال الدین مزی کی تہذیب الکمال ،ج۲۶،ص ۲۲۰ ، حدیث ۵۵۱۶ نیز ابن حجر کی تہذیب التہذیب ،ج۹،ص ۳۷۸ ، حدیث ۶۲۰ ، مطبوعہ دار صادر ۔

۱۴۔ دیکھئے سنن دار قطنی ،ج۱،ص ۲۴۲ ، حدیث ۳۱ ۔

۱۵ ۔ دیکھئے سنن دار قطنی ،ج۱،ص ۲۴۲ ، حدیث ۳۱ ۔

اذان کی تشریع اہل بیت(ع) کی نظر میں

جب ہم اذان کی تشریع کے سرچشمے کے بارے میں اہل بیت علیہ السلام سے مروی ا حادیث کا مطالعہ کرتے ہیں تو دیکھتے ہیں کہ ان میں مذکورہ قابل اعتراض پہلو یعنی مقام نبوت کے ساتھ منافات کا پہلو نہیں پایا جاتا ۔

ابو عبد اللہ صادق علیہ السلام سے مروی ہے کہ آپ نے فرمایا : جب جبرائیل اذان کا حکم لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ہاں اترے تو اس وقت آنحضرت کا سر مبارک علی کی گود میں تھا ۔پس جبرائیل نے اذان دی اور اقامت کہی ۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اٹھ گئے تو آپ نے فرمایا : اے علی ! کیا آپ نے سن لیا ؟

بولے : ہاں ۔ فرمایا : کیا آپ کو یاد ہو گیا ؟ بولے : جی ہاں ۔ فرمایا : بلال کو بلا کر اسے سکھائیں ۔ پس علی علیہ السلام نے بلال کو بلایا اور انہیں سکھا یا ۔(۱)

ان دو روایتوں میں موجود فرق یہ ہے کہ پہلی روایت کی رو سے جبرائیل کوئی نافلہ انجام دینا چاہتے تھے ۔ اس کے بر خلاف دوسری روایت کی رو سے وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو کسی نافلہ کے بارے میں بتا نا اور اسے آپ کو سکھا نا چاہتے تھے ۔ اسی لئے ہم دیکھتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے علی علیہ السلام سے فرمایا : بلال کو بلا کر اسے یہ چیز سکھائیں ۔

اس نظرئے کی تائید ان روایات سے ہوتی ہے جنہیں عسقلانی نے ذکر کیا ہے ۔عسقلانی ان کی اسانید کا تنقیدی جائزہ لیتے ہوئے کہتے ہیں : بعض احادیث اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ اذان کی شرعی حیثیت ہجرت سے پہلے مکی دور ہی میں طے ہوچکی تھی ۔ان میں سے ایک حدیث کو طبرانی نے سالم بن عبد اللہ بن عمر سے نقل کیا ہے ۔روایت کے مطابق سالم اپنے والد (عبد اللہ بن عمر ) سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے کہا : جب نبی معراج کے سفر پر لے جائے گئے تو اللہ نے آپ پر اذان کی وحی فرمائی ۔پس آپ نے بلال کو اذان سکھائی ۔(روایت کی سند میں طلحہ بن زید واقع ہوا ہے جو متروک ہے ۔ (متروک وہ راوی ہے جس پر جھوٹ بولنے کا الزام ہو ۔مترجم) عسقلانی کی یہ روایات اذان کی تشریع کےبارے میں واضح طور پر اہل بیت علیہم السلام کے موقف پر دلالت کرتی ہیں اور اس بات کی نفی کرتی ہیں کہ اذان کا حکم عبد اللہ بن زید یا حضرت عمر بن خطاب کے خواب پر مبنی ہے ۔چنانچہ امام صادق علیہ السلام سے مروی ہے کہ آپ نے ان لوگوں پر لعنت فرمائی جو یہ گمان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے عبد اللہ بن زید سے اذان سیکھی تھی ۔آپ فرماتے ہیں :

تمہارے نبی پر وحی اترتی ہے لیکن تم یہ خیال کرتے ہو کہ آنحضرت نے عبد اللہ بن زید سے اذان سیکھی ہے ۔(۲)

۱ ۔ عسقلانی نے بزاز سے روایت کی ہے کہ علی علیہ السلام نے فرمایا : جب اللہ نے اپنے رسول کو اذان سکھانے کا ارادہ کیا تو جبرئیل آپ کے پاس براق نامی سواری لے کر آئے اور آنحضرت اس پر سوار ہوئے ۔(۳)

۲ ۔ حدیث معراج میں ابو جعفر (امام باقر) علیہ السلام سے مروی ہے : پھر اللہ نے حکم دیا تو جبرئیل نے دو دو (جملوں) کی صورت میں اذان پڑھی اور اقامت بھی دو دو کر کے پڑھی اور اپنی اذان میںحیّ علی خیر العمل کہا ۔پھر محمد نے آگے بڑھ کر لوگوں کی نماز کی امامت کی ۔(۴)

۳ ۔ ابو عبد اللہ سے مروی ہے کہ آپ نے فرمایا : جب رسول اللہ معراج پر لے جائے گئے تو نماز کا وقت ہوگیا اور جبرئیل نے اذان کہی ۔(۵)

۴ ۔ عبد الرزاق نے معمر سے ،اس نے ابن حماد سے ،اس نے اپنے باپ سے ،اس نے اپنے جدّ سے اور اس نے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ نے حدیث معراج میں فرمایا : پھر جبرئیل نے کھڑے ہوکر اپنے دائیں ہاتھ کی شہادت کی انگلی اپنے کان میں ڈالی اور دو دو (جملوں ) کی صورت میں اذان پڑھی جس کےآخر میںحیّ علی خیر العمل کو دو دو بار پڑھا ۔(۶)

---حوالہ جات:

۱۔ دیکھئے حر عاملی ،محمد بن حسن کی وسائل الشیعہ الی تحصیل مسائل الشریعة ،ج۴،ص ۶۱۲، ابواب الاذان والاقامة ،حدیث ۲۔

۲ ۔ دیکھئے ایضا ،،ج۴،ابواب الاذان والاقامہ ،حدیث ۳۔

۳۔ دیکھئے فتح الباری فی شرح البخاری ،ج۲،ص ۷۸،مطبوعہ دار المعرفہ ،لبنان ۔

۴۔دیکھئے محمد بن حسن حر عاملی کی وسائل الشیعہ ،ابواب الاذان والاقامة ، باب ۱۹،ح ۲۔

۵۔ دیکھئے ایضا ، باب ۱۹،ح۱ ۔

۶۔ دیکھئے سید ابن طاؤس کی سعد السعود،ص ۱۰۰ ، بحار الانوار ،ج۷۱،ص ۱۰۷ ماخو ذ از سعد السعود ،نیز آقاحسین بروجردی کی جامع احادیث الشیعہ ،ج۲،ص ۲۲۱ ۔


2

3