ص۱۴
پس پہلی بنیاد (معیار) کا دار ومدار دین کے بارے میں تحقیقی گفتگو کے نتیجے پر ہے ۔اگر شروع میں دین کے بارے میں بحث و تحقیق نہ ہوتو پہلے معیار کی تطبیق اور اس کے مطابق فیصلہ کرنا کسی منطقی دلیل پر مبنی نہیں ہوگا ۔
رہا دوسرا فرضیہ یا ممکنہ معیار تو وہ دعوے کو دلیل قرار دینے کی واضح ترین مثال ہے ۔پس جو یہ کہتا ہے کہ غلو مقام و مرتبے کے لحاظ سے اصحاب رسول پر دوسروں کو ترجیح دینے سے عبارت ہے وہ در حقیقت دو دعوؤں پر مشتمل قول سے تمسک کرتا ہے جبکہ اس معیار کی بنیاد پر غلو کا الزام لگانے سے پہلے ان دونوں دعوؤں کا اثبات ضروری ہے تاکہ غلو کے معیار کے طور پر اس بنیاد کا سہارا لینا درست ہو ۔
یہ دونوں دعوے درج ذیل ہیں :
۱۔ یہ کہ صحابہ کو وہ بلند مقام حاصل ہے جو دوسروں کو حاصل نہیں ہوسکتا ۔
۲۔ غلو یہ ہے کہ صحابہ کے مقام جیسا یا اس سے بہتر مقام دوسروں سے منسوب کیا جائے ۔
جب تک یہ دونوں دعوے ثابت نہ ہوں تب تک غلو کے خارجی مصادیق کی نشاندہی اور حدبندی کے لئے دوسری بنیاد (یا دوسرے معیار ) کا سہارا لینا درست اور منطقی طریقہ نہیں کہلا سکتا۔ پھر مذکورہ دونوں دعوؤں کا اثبات تب قابل قبول ہوگا جب وہ قرآن و سنت شریفہ کی روشنی میں انجام پائے ۔
اگر کوئی یہ دلیل دے کہ مکتب خلفاء (جو چار مذاہب کی شکل میں جلوہ گر ہے ) کے فہم کے مطابق مذکورہ دونوں دعوے قرآن و سنت کی رو سے ثابت ہیں کیونکہ قرآن فرماتا ہے :
’’وَالسَّابِقُونَ
الْأَوَّلُونَ
مِنَ الْمُهَاجِرِينَ وَالْأَنصَارِ وَالَّذِينَ اتَّبَعُوهُم بِإِحْسَانٍ رَّضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ وَأَعَدَّ لَهُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي تَحْتَهَا الْأَنْهَارُ ‘‘( توبہ،۱۰۰ )
اور مہاجرین و انصار میں سے جن لوگوں نے سب سے پہلے سبقت کی اور جو نیک چال چلن میں ان کے پیروکار ہوئے ان سے اللہ راضی ہوا اور وہ اللہ سے راضی ہوئے اور اللہ نے ان کے لیے( جنت کے) باغات تیار کیے ہیں جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی ۔
ص۱۵
علاوہ ازیں اصحاب کی تعریف میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے مروی ہے :
خیر القرون - خير الناس قرني ثم الذين يلونهم ثم الذين يلونهم
(سب سے اچھی صدی میری صدی اور اس کے بعد والی صدی ہے ۔)
پس یہ وہی تیسرا فرضیہ (یا معیار )ہے ۔
(تیسرا فرضیہ یا معیار یہ تھا کہ قرآن و حدیث کے بارے میں مکتب خلفاء کا فہم ہی غلو کی تشخیص کا معیار ہے ۔مترجم)
اس معیار کے بارے میں منطقی موقف یہ ہے کہ ہم مکتب خلفاء کے ان دلائل کا جائزہ لیں جن کے سہارے وہ دوسروں کو غلو سے متصف کرتے ہیں۔ بالفاظ دیگر اس مسئلے میں استدلال و برہان کی اصل بنیاد خود کتاب و سنت ہیں۔پس غلو کے مسئلے کو حل کرنے کے لئے ان دونوں کی طرف رجوع کرنا چاہیے ۔
چوتھا فرضیہ :
مذکورہ بالا مباحث کی روشنی میں واضح ہوتا ہے کہ چوتھا فرضیہ ( یعنی چوتھا معیار ) ہی درست اور منطقی معیار ہے جس کی رو سے غلو وہ ہے جو خود قرآن و سنت کے برخلاف ہو ۔صرف اسی معیار کے مطابق ہم کسی خاص مکتب ِ فکر کو غلو یا اعتدال سے متصف کرسکتے ہیں ۔ مکتب اہل بیت پر ائمہ طاہرین علیہم السلام کے بارے میں غلو کا جو الزام لگایا جاتا ہے اسے بھی ہم اسی کسوٹی پر پرکھ سکتے ہیں۔ یہی وہ مفہوم ہے جو لغوی اور شرعی اصطلاح کے عین مطابق ہے ۔