حالات زندگی حضرت امام جواد علیہ السلام

مؤلف: گروہ مصنّفین
زمرہ جات: امام محمد تقی(علیہ السلام)
/images/cover.jpg)
مؤلف: گروہ مصنّفین
زمرہ جات: مشاہدے: 172
ڈاؤنلوڈ: 151
تبصرے:
مؤلف: گروہ مصنّفین
زمرہ جات: امام محمد تقی(علیہ السلام)
مؤلف: گروہ مصنّفین
محمد بن علی بن موسی (سنہ ۱۹۵-۲۲۰ھ)، امام محمد تقی ؑ اور امام جوادؑ کے نام سے مشہور شیعہ امامیہ کے نویں امام ہیں۔ آپ کی کنیت ابو جعفر اور لقب جواد اور ابن الرضا ہے۔
آپؑ کو جواد لقب ملنے کہ وجہ آپؑ کی بکثرت بخشش و عطا ہے۔ آپؑ نے دوران خلافت مامون عباسی اور معتصم عباسی ۱۷ سال امامت کے فرائض انجام دیے۔
اکثر منابع تاریخی کے مطابق امام محمد تقیؑ سنہ ۲۲۰ہجری ماہ ذی القعدہ کی آخری تاریخ کو ۲۵ سال کی عمر میں شہید ہوئے۔
شیعہ ائمہؑ میں آپ جوان ترین امام ہیں جنہیں شہید کیے گئے۔ آپؑ کو کاظمین میں اپنے جد امجد امام موسی کاظمؑ کے جوار میں مقبرہ قریش میں دفن کیا گیا۔
بچپن میں امامت ملنے کی وجہ سے امام رضاؑ کے بعض اصحاب آپ کی امامت کے سلسلے میں شک و تردید کا شکار ہوئے۔
امام رضاؑ کے بعض اصحاب عبدالله بن موسی کی امامت کے قائل ہوئے جبکہ بعض دیگر احمد بن موسی شاہچراغ کو امام ماننے لگے۔ بعض نے واقفیہ کا راستہ اختیار کیا۔ البتہ اکثریت نے آپؑ کی امامت کو قبول کیا۔
امام محمد تقیؑ کا وکالتی نظام کے تحت خط و کتابت کے ذریعے لوگوں سے رابطہ رہتا تھا۔ آپؑ کے دور امامت میں اہل حدیث، زیدیہ، واقفیہ اور غلات جیسے فرقے بہت سرگرم تھے اسی وجہ سے آپ اپنے ماننے والوں کو ان مذاہب کے باطل عقائد سے آگاہ کرتے، ان کی اقتداء میں نماز پڑھنے سے منع کرتے اور غالیوں پر لعن کرتے تھے۔
امام جوادؑ کے دوسرے مکاتب فکر کے علماء اور دانشوروں کے ساتھ کلامی مناظرے جیسے شیخین (ابو بکر و عمر) کی خلافت کا مسئلہ، کےعلاوہ فقہی مناظرے ہوئے؛ جیسے چور کا ہاتھ کاٹنا اور احکام حج وغیر۔
امام محمد تقیؑ سے صرف ۲۵۰ احادیث نقل ہوئی ہیں۔
نقل حدیث کی قلت کہ یہ وجہ بتائی گئی ہےکہ :
اولا امام کم عمری میں مرتبہ شہادت پر فائز ہوئے ثانیا آپؑ کو اپنے ہم عصر خلفا نے اپنے تحت نظر رکھا۔ آپؑ سے روایت نقل کرنے والے راویوں اور اصحاب کی تعداد ۱۱۵ سے ۱۹۳ بتائی گئی ہے۔
احمد بن ابینصر بزنطی، صفوان بن یحیی اور عبد العظیم حسنی آپؑ کے اصحاب مہیں شمار ہوتے ہیں۔
شیعہ کتب میں آپؑ سےمنسوب کچھ کرامات کا تذکرہ ملتا ہے جن میں ولادت کے فورا بعد بات کرنا، طی الارض، مریضوں کو شفا دینا اور استجابت دعا شامل ہیں۔ اہل سنت کے علما بھی امام جوادؑ کے علمی اور روحانی مقام و مرتبے کے معترف ہیں لہذا وہ لوگ بھی آپؑ کی تعریف و تمجید اور احترام کرتے ہیں۔
محمد بن علی بن موسی بن جعفر شیعہ امامیہ کے نویں امام ہیں جو جواد الائمہ کے نام سے مشہور ہیں۔
آپ کا سلسلہ نسب ۶ واسطوں سے شیعوں کے پہلے امام، امام علی بن ابی طالب تک پہچتا ہے۔ آپ کے والد امام علی رضاؑ شیعوں کے آٹھویں امام ہیں۔[۱]
آپ کی والدہ ایک کنیز تھیں جن کا نام سبیکہ نوبیہ تھا۔[ ۲ ]
آپؑ کی کنیت ابو جعفر و ابو علی ہے۔[۳] منابع حدیث میں آپؑ کو ابو جعفر ثانی کہا جاتا ہے۔[۴]
تا کہ اسم کےلحاظ سے ابو جعفر اول امام محمد باقرؑ سے مشتبہ نہ ہو۔ [ ۵]
جواد اور ابن الرضا آپؑ کے مشہور القاب میں شمار ہوتے ہیں۔[۶] جبکہ تقی، زکی، قانع، رضی، مختار، متوکل،[۷]
مرتضی اور منتجَب[۸] آپؑ کے دوسرے القاب ہیں۔
آپؑ کی ولادت سنہ ۱۹۵ ہجری کو مدینہ میں ہوئی۔[۱۷]
لیکن آپؑ کی ولادت کے دن اور مہینے کے بارے میں اختلاف پایا جاتا ہے۔[۱۸]
زيادہ تر منابع نے آپ کی ولادت ماہ رمضان المبارک میں قرار دی ہے۔[۱۹]
بعض نے ۱۵ رمضان[۲۰] اور بعض دیگر نے ۱۹ رمضان[۲۱] نقل کی ہے۔[۲۲]
شیخ طوسی نے مصباح المتہجد میں آپ کی تاریخ ولادت ۱۰ رجب ذکر کی ہے۔[ ۲۳ ]
کتاب کافی کی روایت کےمطابق امام محمد تقیؑ کی ولادت سےقبل واقفی مذہب کے بعض افراد امام رضاؑ کے ہاں اولاد نہ ہونے کی وجہ سے آپؑ کی امامت میں شک و تردید کرنے لگے۔[۲۴]
یہی سبب ہے کہ جس وقت امام محمد تقیؑ کی ولادت ہوئی امام رضاؑ نے انہیں شیعوں کے لئے با برکت مولود قرار دیا۔[۲۵] ان کی ولادت کے باجود بھی بعض واقفیہ نے امام رضاؑ سے ان کے انتساب کا انکار کیا۔ وہ کہتے تھے کہ امام محمد تقیؑ شکل و صورت کے اعتبار سے اپنے والد امام رضاؑ سے شباہت نہیں رکھتے۔ یہاں تک کہ قیافہ شناس افراد کو بلایا گیا۔ ان کے کہنے سے آپ کو امام رضاؑ کا فرزند مانا گیا۔[۲۶]
آپ کی زندگی کے بارے میں تاریخی مصادر میں چندان معلومات ذکر نہیں ہوئے ہیں۔[۲۷]
اس کا سبب عباسی حکومت کی طرف سے سیاسی طور پر نظر بندی، تقیہ اور آپ کی کم عمری بتایا گیا ہے۔[۲۸]
آپ مدینہ میں قیام پذیر تھے۔ ابن بیھق کے نقل کے مطابق آپ نے ایک بار اپنے والد سے ملاقات کے لئے خراسان کا سفر کیا[۲۹]
اور امامت کے بعد کئی بار آپ کو عباسی خلفاء کی طرف سے بغداد طلب کیا گیا۔
سنہ ۲۰۲ھ[۳۰] یا ۲۱۵ھ[۳۱] میں امام محمد تقی کی شادی مامون عباسی کی بیٹی ام فضل سے ہوئی۔[۳۲]
بعض مآخذ میں احتمال ظاہر کیا گیا ہے کہ امام محمد تقیؑ کی اپنے پدر امام رضاؑ سے خراسان میں ملاقات کے دوران مامون نے اپنی بیٹی کی شادی امام جوادؑ سے کرادی ہے۔[۳۳]
مخالف( اہل سنت) مورخ ابن کثیر((۷۰۱-۷۷۴ھ)) کے مطابق امام محمد تقیؑ کے ساتھ مامون کی بیٹی کا خطبۂ نکاح حضرت امام رضاؑ کی حیات میں پڑھا گیا لیکن شادی اور رخصتی سنہ ۲۱۵ ہجری میں عراق کے شہر تکریت میں ہوئی۔[ ۳۴ ]
تاریخی منابع کے مطابق یہ شادی مامون کی درخواست پر ہوئی۔[۳۵]
مامون کا مقصد یہ تھا کہ اس شادی کے نتیجے میں وہ پیغمبر اکرم (ص) و امام علی (ع) کی نسل سے پیدا ہونے والے بچے کا نانا قرار پائے گا۔[۳۶] کتاب الارشاد میں شیخ مفید کے نقل کے مطابھ، مامون نے امام محمد تقیؑ کے علم و فضل، دانش و حکمت، ادب و کمال اور امامؑ کی کم سنی کے باوجود بے مثال عقل کو دیکھ کر اپنی بیٹی کا عقد امام سے کیا۔[۳۷]
لیکن بعض محققین جیسے رسول جعفریان (پیدائش: ۱۳۴۳ہجری شمسی) کا ماننا ہے کہ مامون نے سیاسی مقصد کے حصول کے لیے یہ شادی کرادی تھی۔ منجملہ اس کا ایک مقصد یہ تھا کہ وہ چاہتا تھا کہ اس کے ذریعہ امامؑ اور شیعوں سے ان کے رابطے پر نظر رکھنا چاہتا تھا۔[۳۸]
یا خود کو علویوں کا چاہنے والا پیش کرے تاکہ وہ اس کے خلاف قیام نہ کریں۔[۳۹]
شیخ مفید کے نقل کے مطابق مامون کے قریبی بعض عباسیوں نے اس شادی پر اعتراض کیا۔ ان کے اعتراض کی وجہ یہ تھی کہ انہیں ڈر محسوس ہوا کہ کہیں حکومت، عباسیوں کے ہاتھ سے نکل کر علویوں کے ہاتھ میں نہ چلی جائے۔[۴۰]
امامؑ نے اس ام الفضل کا حق مہر حضرت زہراءؑ کے حق مہر یعنی ۵۰۰ درہم رکھا۔[۴۱]
ام الفضل سے امامؑ کی کوئی اولاد نہیں ہوئی۔[۴۲]
امام محمد تقیؑ کی دوسری زوجہ سمانہ مغربیہ تھیں[۴۳] وہ ایک کینز تھیں جنہیں خود امام کے حکم سے خریدی گئی تھی۔[۴۴]
امام کی تمام اولاد اسی زوجہ سے ہوئیں۔[۴۵]
امام محمد تقیؑ
پیغمبر اکرمؐ
حضرت فاطمہؑ امام علیؑ
امام حسینؑ
امام سجادؑ
امام محمد باقرؑ
امام جعفر صادقؑ
امام موسی کاظمؑ
امام رضاؑ
سمانہ مغربیہ امام جوادؑ
امام علی نقی موسی مبرقع حکیمہ زینب فاطمہ خدیجہ
امامہ ام کلثوم ام محمد ابو احمد حسین ابو موسی عمران
شیخ مفید کی روایت کے مطابق امام محمد تقیؑ کی چار اولاد امام علی نقی، موسی مبرقع، فاطمہ اور اَمامہ ہیں۔[۴۶]
البتہ بعض راویوں نے آپؑ کی بیٹیوں کی تعداد تین بتائی ہے جو کہ حکیمہ ، خدیجہ و ام کلثوم تھیں۔[۴۷]
چودہویں صدی ہجری سے مربوط بعض مصادر میں ام محمد، زینب اور میمونہ کو بھی آپ کی بیٹیوں میں شامل کیا گیا ہے۔[۴۸] کتاب منتہی الآمال میں ضامن بن شدقم سے نقل ہوا ہے کہ امام محمد تقیؑ کے ۴ بیٹے تھے جن کے نام ابوالحسن، امام علی نقی(ع)، ابواحمد موسی مُبَرقَع، حسین، عمران اور ۴ بیٹیاں جن کے نام فاطمہ، حکیمہ، خدیجہ اور ام کلثوم بتائے گئے ہیں۔[۴۹]
بعض مورخین کے مطابق امامؑ کے ۳ بیٹے تھے بنام امام علی نقیؑ، موسی مبرقع اور یحیٰ جبکہ ۵ بیٹیاں تھیں بنام فاطمہ، حکیمہ، خدیجہ، بہجت اور بُرَیہہ۔[۵۰]
عباسی حکومت میں آپ کو دو مرتبہ بغداد طلب کیا گیا۔ پہلا سفر مامون کا زمانہ تھا یہ سفر زیادہ طولانی نہیں تھا۔[۵۱]
دوسری مرتبہ ۲۸ محرم سنہ ۲۲۰ھ کو معتصم کے طلب کرنے پر آپؑ بغداد میں داخل ہوئے اور اسی سال ذی القعدہ[۵۲]
یا ذی الحجہ کے مہینے میں آپؑ کی شہادت ہوئی۔[۵۳]
زیادہ تر منابع میں آپ کی شہادت کا دن آخر ذی القعدہ ذکر ہوا ہے؛[۵۴]
البتہ بعض منابع میں امام کی شہادت کی تاریخ ۵ ذی الحجہ[۵۵] یا ۶ ذی الحجہ[۵۶]
ذکر ہوئی ہے۔ آپ کے جسد کو مقبرہ قریش کاظمین میں آپ کے جد امام موسی کاظم (ع) کے پہلو میں دفن کیا گیا۔[۵۷]
شہادت کے وقت آپ کی عمر ۲۵ برس نقل ہوئی ہے۔[۵۸] اس اعتبار سے آپ شہادت کے وقت جوان ترین شیعہ امام تھے۔
آپؑ کی شہادت کے اسباب کے حوالے سے مروی ہے کہ بغداد کے قاضی ابن ابی داؤد نے معتصم عباسی کے پاس چغل خوری کی اور اس سخن چینی کا اصل سبب یہ تھا کہ چور کا ہاتھ کاٹنے کے سلسلے میں امامؑ کی رائے پر عمل ہوا تھا اور یہ بات ابن ابی داؤد اور دیگر درباری فقہاء کی شرمندگی کا باعث ہوئی تھی۔[۵۹]
آپ کو کس طرح شہید کیا گیا؟ اس سلسلہ میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ بعض منابع میں آیا ہے کہ معتصم نے اپنے ایک وزیر کے منشی کے توسط سے زہر دلوا کر امامؑ کو شہید کر دیا۔[۶۰]
البتہ بعض دوسروں کی رائے ہے کہ امامؑ کو ام الفضل بنت مامون نے زہر دیا تھا۔[۶۱]
تیسری صدی ہجری کے مورخ مسعودی (متوفی: ۳۴۶ھ) کا کہنا ہے: معتصم عباسی اور ام الفضل کا بھائی جعفر بن مامون مسلسل امامؑ کو زہر دینے کے منصوبے بنا رہے تھے۔ چونکہ ام الفضل کی کوئی اولاد نہیں تھی اور امام علی نقی امام محمد تقی کی دوسری زوجہ سے تھے۔
جعفر نے اپنی بہن کو اکسایا کہ آپؑ کو زہر دے کر امام کو قتل کرے۔ چنانچہ اس نے زہرآلود انگور امامؑ کو کھلا دیا۔ مسعودی کے بقول ام الفضل امام کو زہر دینے کے بعد پشیمان ہوئی۔ امامؑ نے فرمایا وہ ایک لاعلاج بیماری میں مبتلا ہوجائے گی۔[۶۲]
ام الفضل کے ذریعہ آپ کی شہادت کی کیفیت کے سلسلہ میں دوسرےاقوال بھی نقل ہوئے ہیں۔[۶۳]
ایک دوسری روایت کے مطابھ، جب لوگوں نے معتصم کے ہاتھوں پر بیعت کر لی تو اس نے مدینہ کے گورنر عبد الملک زیات کو خط لکھا اور اسے حکم دیا کہ وہ امام (ع) کو ام الفضل کے ہمراہ بغداد روانہ کرے۔ جب امام بغداد میں وارد ہوئے تو اس نے ظاہری طور پر امام کا احترام کیا اور امام اور ام الفضل کے لئے تحائف بھیجے۔
اس روایت کے مطابق معتصم نے سنگترے کا شربت اپنے اشناش نامی غلام کے ذریعہ امام کے پاس بھیجا۔ اس نے امام سے کہا کہ خلیفہ نے یہ شربت بعض بزرگان منجملہ احمد بن ابی داود و سعید بن خضیب کو پلایا ہے اور حکم دیا ہے کہ آپ بھی یہ شربت پی لیں۔
امام نے فرمایا: میں اسے شب میں نوش کروں گا۔ لیکن اس نے اصرار کیا کہ اسے ٹھنڈی حالت میں پیا جانا چاہیے، امام نے اسے نوش کر لیا اور اسی کی وجہ سے آپ کی شہادت واقع ہوئی۔[۶۴]
شیخ مفید (متوفی: ۴۱۳ھ) امام کے زہر سے شہید ہونے والے قول کو نہیں مانتے،ان کا کہنا ہے کہ یہ چیز میرے لئے ثابت نہیں ہے تا کہ میں اس کی شہادت دے سکوں۔[۶۵]
شیخ مفید نے اپنی کتاب تصحیح اعتقادات الامامیہ میں بھی لکھا ہے کہ بعض اماموں منجملہ امام جوادؑ کی شہادت ثابت نہیں ہے۔[۶۶] البتہ سید محمد صدر (شہادت: ۱۳۷۷ہجری شمسی) نے اپنی کتاب "تاریخ الغیبہ میں اس روایت
«ما مِنّا إلّا مقتولٌ شهیدٌ»
(ہم میں سے کوئی ایسا نہیں ہے کہ جسے قتل یا شہید نہ کیا گیا ہو)[۶۷]
سے استناد کرتے ہوئے امام محمد تقیؑ کی شہادت کے قائل ہوئے ہیں۔[۶۸] معاصر مورخ، رسول جعفریان بھی امام ؑ کی شہادت کے قائل ہیں اور اس سلسلے میں بعض شواہد بھی پیش کرتے ہیں۔[۶۹]
بعض مورخین منجملہ سید جعفر مرتضی عاملی شیخ مفید کے نظریے کی توجیہ کرتے ہیں اور کہتے ہیں چونکہ وہ بغداد میں قیام پذیر تھے اور اس بات کے پیش نظر کہ عباسی حکومت میں مکتب اہل بیت (ع) اور شیعوں کے خلاف جو فضا حاکم تھی، اس میں شیخ صراحت کے ساتھ شیعہ عقاید اور امام محمد تقی (ع) کی شہادت کے بارے میں اظہار نظر نہیں کر سکتے تھے لہذا انہوں نے اس مورد میں تقیہ کیا ہے۔ یہ احتمال بھی ذکر ہوا ہے کہ زیادہ منابع ان کی دسترس میں نہ ہونے اور منابع اصلی تک رسائی حاصل کرنے میں سختی کی وجہ سے یہ مطالب ان تک نہیں پہچ سکے ہیں۔[۷۰]
امام محمد تقی ؑ کی امامت کا دور امام رضا کی شہادت کے سال ۲۰۳ ھ سے شروع ہوتا ہے۔[۷۱]
آپؑ کی امامت کا زمانہ دو عباسی خلفاء کے معاصر ہے تقریبا ۱۵ سال مامون (۱۹۳۔۲۱۸ ھ) کی حکومت کے دور میں اور دو سال معتصم (۲۱۸۔۲۲۷ ھ) کی حکومت کے دور میں گزرے۔[۷۲]
آپ کی مدت امامت ۱۷ سال ہے۔ [۷۳]
سنہ ۲۲۰ ھ میں ان کی شہادت کے بعد منصب امامت ان کے فرزند امام علی نقی (ع) کی طرف منتقل ہوگیا۔[۷۴]
امام رضا (ع) نے متعدد موارد میں امام محمد تقی (ع) کی امامت کا اعلان اپنے اصحاب کے سامنے فرمایا تھا۔ کتاب الکافی،[۷۵] کتاب الارشاد،[۷۶] اعلام الوری[۷۷] و بحار الانوار[۷۸] میں سے تمام کتب میں امام محمد تقی (ع) کی امامت کے سلسلہ میں مستقل باب موجود ہے۔ ان میں بالترتیب ۱۴، ۱۱، ۹، ۲۶ روایات اس سلسلہ میں نقل ہوئی ہیں۔
منجملہ ان روایات میں ایک روایت میں ایک صحابی نے امام رضاؑ سے آپؑ کے جانشین کے بارے میں پوچھا تو آپؑ نے ہاتھ سے اپنے بیٹے [ابو جعفر (امام تقی] کی طرف اشارہ کیا جو آپؑ کے سامنے کھڑے تھے۔[۷۹]
یا ایک روایت میں آپ نے فرمایا: یہ ابو جعفر ہیں جنہیں میں نے اپنا جانشین قرار دیا ہے اور میں نے عہدہ امامت ان کے سپرد کیا ہے۔[۸۰]
شیعوں عقیدہ کے مطابق امام فقط سابق امام کی نص سے تعیین ہوتا ہے۔[۸۱] یعنی ہر امام کو چاہئے کہ وہ واضح الفاط میں اپنے بعد کے امام کو معین کرے۔
امام محمد تقی (ع) تقریبا آٹھ سال کی عمر میں امامت کے منصب پر فائز ہوئے۔[۸۲]
آپ عمر کم ہونے کی وجہ سے امام رضا (ع) کے بعد آپ کی امامت میں اختلاف پیدا ہوگیا؛ بعض امام رضا کے بھائی عبد اللہ بن موسی کی طرف چلے گئے لیکن کچھ ہی مدت کے بعد انہیں احساس ہوگیا کہ ان میں امامت کی صلاحیت نہیں ہے لہذا ان سے روگردان ہوئے۔[۸۳]
بعض امام رضا کے دوسرے بھائی احمد بن موسی کی طرف مائل ہوگئے اور بعض واقفیہ سے ملحق ہوگئے۔[۸۴]
بہرحال امام رضا (ع) کے زیادہ تر اصحاب امام محمد تقی (ع) کی امامت کے معتقد رہے۔[۸۵]
منابع نے اس اختلاف کا سبب امام کی کم عمری ذکر کیا ہے۔ نوبختی کے بقول اس اختلاف کی علت یہ تھی کہ وہ لوگ امام کے لئے بالغ ہونے کو ضروری سمجھتے تھے۔[۸۶]
البتہ یہ مسئلہ امام رضا کی زندگی میں پیش آ چکا تھا۔ امام رضا نے اس کے جواب میں حضرت عیسی کو بچپن میں نبوت ملنے سے استناد کیا اور فرمایا: جب عیسی کو نبوت عطا ہوئی تو ان کی عمر میرے فرزند سے بھی کم تھی۔ [ ۸۷ ]
اسی طرح سے ان لوگوں کے جواب میں جو امام کے بچپن پر اعتراض ذکر کرتے تھے، قرآن کریم کی ان آیات سے جن میں حضرت یحیی کو بچپن میں نبوت ملنے[۸۸]
اور اسی طرح سے حضرت عیسی کے گہوارے میں گفتگو کرنے سے[۸۹] استناد کیا گیا ہے۔[۹۰]
خود امام محمد تقی (ع) نے اپنے اوپر کئے جانے والے اعتراض کے جواب میں حضرت داود کے جانشین حضرت سلیمان کی طرف اشارہ کیا ہے جنہیں بچپن میں نبوت عطا ہوئی اور فرمایا: انہیں اس وقت نبوت عطا ہوئی جب وہ بچے تھے اور گوسفند چرایا کرتے تھے حضرت داود نے انہیں اپنا جانشین قرار دیا حالانکہ علمائے بنی اسرائیل اس بات سے انکار کرتے تھے۔[۹۱]
امام رضا (ع) متعدد مواقع پر امام محمد تقی (ع) کی امامت کی تصریح فرما چکے تھے۔[۹۲]
اس کے باوجود بعض شیعہ مزید اطمینان کی غرض سے آپ سے مختلف سوالات کرتے تھے۔[۹۳]
یہ آزمایش دوسرے ائمہ کے لئے بھی ہو چکی تھی۔[۹۴]
البتہ امام جواد کی عمر کم ہونے کی وجہ سے ان کے سلسلہ میں اس ضرورت کا زیادہ احساس کیا گیا۔[۹۵]
مورخ معاصر رسول جعفریان کے بقول، شیعوں کی طرف سے ایسا ہونے کی دلیل یہ تھی کہ کبھی بعض دلائل کی وجہ سے جیسے تقیہ و حفظ جان امام کے کئی افراد سے اس کی وصیت کی جاتی تھی۔[۹۶]
منابع روایی میں مختلف گزارشات ذکر ہوئی ہیں جن کے مطابق شیعوں نے امام محمد تقی (ع) سے سوالات کئے اور امام کے جوابات ان کی منزلت بڑھانے اور ان کی امامت کے قبول کرنے کا سبب بنے۔[۹۷]
البتہ یہ سوال پوچھنے کی روش امام تقی سے مخصوص نہیں تھی۔ وہ اسی طریقے سے دوسروں کے امتحان بھی لے چکے تھے۔[۹۸] روایات میں ذکر ہوا ہے کہ شیعوں کے مختلف گروہ جو بغداد اور مختلف شہروں سے حج کے لئے آئے تھے وہ امام جواد الائمہ کے دیدار کے لئے مدینہ گئے۔ انہوں نے مدینہ میں عبد بن موسی سے ملاقات کی اور ان سے سوالات پوچھے لیکن انہوں نے ان سوالوں کے غلظ جوابات دیئے۔ وہ لوگ حیران ہوگئے۔ اسی مجلس میں امام تقی (ع) وارد ہوئے تو انہوں نے ان ہی سوالات کو ان دریافت کیا اور امام (ع) کے جواب سے قانع ہوگئے۔[۹۹]
امام جوادؑ دنیائے اسلام کے مختلف علاقوں میں وکیلوں کے توسط سے شیعیان اہل بیتؑ سے رابطے میں تھے۔ بغداد، کوفہ، اہواز، بصرہ، ہمدان، قم، رے، سیستان اور بُست میں آپ کے نمائندے موجود تھے۔[۱۰۰]
آپ کے وکلاء کی تعداد ۱۳ نقل ہوئی ہے۔[۱۰۱]
وہ شیعوں سے موصول ہونے والی شرعی وجوہات کو امام تک پہچاتے تھے۔[۱۰۲]
ہمدان میں ابراہیم بن محمد ہمدانی[۱۰۳]
اور ابو حذاء بصرہ کے اطراف میں[۱۰۴]
آپ کے وکیل تھے۔ صالح بن محمد بن سہل قم میں امام کے موقوفات کی رسیدگی کرتے تھے۔[۱۰۵]
اسی طرح سے زکریا بن آدم قمی،[۱۰۶] عبد العزیز بن مهتدی اشعری قمی،[۱۰۷] صفوان بن یحیی،[۱۰۸] علی بن مهزیار[۱۰۹] و یحیی بن ابی عمران[۱۱۰] آپ کے وکلاء میں سے تھے۔
بعض اہل قلم نے بعض شواہد سے استناد کرتے ہوئے محمد بن فرج رخجی و ابو ہاشم جعفری کو بھی آپ کے وکلاء میں شمار کیا ہے۔[۱۱۱]
البتہ احمد بن محمد سیاری بھی وکالت کا دعوی کرتا تھا لیکن امام نے اس کے دعوی کو رد کرتے ہوئے انہیں شرعی وجوہات نہ دینے کا حکم دیا۔[۱۱۲]
آیت اللہ سید علی خامنہ ای اپنی ایک تحلیل میں کہتے ہیں کہ:
امام جوادؑ نے وکلائی نظام کے ذریعے امام مہدی(عج) کی غیبت کے لیے ماحول فراہم کیا حالانکہ امامؑ کے ہم عصر خلفا اس بات سے سخت خوف میں مبتلا تھے۔[۱۱۳]
نقل ہوا ہے کہ امام دو دلیل کی وجہ سے مستقیم رابطے کے بجائے وکیلوں کے ذریعے سے اپنے شیعوں سے رابطہ برقرار رکھتے تھے :
آپ حکومت وقت کے زیر نگرانی تھے۔
آپؑ لوگوں کو غیبت امام زمانہ (عج) کے لئے تیار کر رہے تھے۔[۱۱۴]
امامؑ حج کے ایام میں بھی شیعوں سے ملاقات اور گفتگو کرتے تھے۔ بعض محققین کا ماننا ہے کہ امام رضا (ع) کا سفر خراسان سبب بنا کہ شیعوں سے ائمہ کے ساتھ ارتباط میں وسعت پیدا ہو۔[۱۱۵]
اسی بناء پر شیعہ خراسان، ری، بست و سجستان سے ایام حج میں امام سے ملاقات کے لئے آتے تھے۔
آپ وکلا کے علاوہ خط و کتابت کے ذریعے بھی اپنے پیروکاروں کے ساتھ رابطے میں تھے۔
شیعہ اپنے سوالات خط و کتابت کے ذریعے بھجواتے تھے اور آپؑ ان کا جواب دیتے تھے جن میں سے اکثر کا تعلق فقہی مسائل سے ہوتا تھا۔[۱۱۶]
موسوعۃ الامام الجواد [۱۱۷] میں امامؑ کے والد اور فرزند کے علاوہ ۶۳ افراد کے نام حدیث و رجال کے مآخذ سے اکٹھے کئے گئے ہیں جن کا خط و کتابت کے ذریعے امامؑ کے ساتھ رابطہ رہتا تھا۔ البتہ امامؑ نے بعض خطوط اپنے پیروکاروں کے گروہوں کے نام تحریر فرمائے ہیں۔[۱۱۸]
شیعہ منابع میں نقل ہونے والے شیعوں کے سوالات اور امام محمد تقی (ع) کے جوابات سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ کے دور امامت میں اہل حدیث، واقفیہ، زیدیہ و غلات جیسے فرقے سرگرم تھے۔ روایات کے مطابق امام کے زمانہ میں محدثین کے درمیان جو بحثیں ہوتی تھیں ان کے اعتبار سے بعض شیعہ خدا کے جسم ہونے کے بارے میں شک میں مبتلا ہو گئے تھے۔ امام نے خدا سے جسم و جسمانیت کی نسبت کو رد کرتے ہوئے ایسے لوگوں کی اقتداء میں نماز پڑھنے سے منع فرمایا جو خدا کے جسم ہونے کا عقیدہ رکھتے تھے بلکہ ایسے لوگوں کو زکات دینے سے بھی منع فرمایا۔
امام نے ابو ہاشم جعفری کے اس آیت کریمہ
لا تُدْرِکهُ الْأَبْصارُ وَ هُوَ یدْرِک الْأَبْصار[۱۱۹]
کی تفسیر میں کئے گئے سوال کے جواب میں فرمایا: خداوند عالم کو ان ظاہری آنکھوں سے دیکھنا (عقیدہ مجسمہ) ممکن نہیں ہے۔ دل کی آنکھوں سے دیکھنا ان آنکھوں سے زیادہ دقیق تر ہے۔
انسان نے جن چیزوں کو نہیں دیکھا ہے وہ ان کا تصور کر سکتا ہے لیکن انہیں دیکھ نہیں سکتا ہے۔ جب اوہام قلوب خدا کو درک نہیں کر سکتے ہیں تو آنکھیں جس طرح سے اسے درک کر پائیں گی؟[۱۲۰]
امام (ع) سے واقفیہ کی مذمت میں روایات نقل ہوئی ہیں۔[۱۲۱]
آپ نے واقفیہ و زیدیہ کو نواصب کی فہرست میں قرار دیا ہے۔[۱۲۲]
آپ فرماتے تھے: آیہ کریمہ:
وُجُوهٌ يَوْمَئِذٍ خَاشِعَةٌ عَامِلَةٌ نَّاصِبَةٌ ۔
ترجمہ: اس دن کچھ چہرے تذلل کا منظر پیش کرنے والے ہوں گے (۲) بہت کام کیے ہوئے بڑی محنت و مشقت اٹھائے ہوئے ہیں (مگر بے سود)۔[۱۲۳] ان کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔[۱۲۴] اسی طرح سے نے آپ نے اپنے اصحاب سے واقفیوں کے پیچھے نماز پڑھنے سے منع فرمایا ہے۔ [ ۱۲۵ ]
امام جواد (ع) غالیوں، ابو الخطاب اور اس کے ماننے والوں پر لعنت کیا کرتے تھے۔ اسی طرح سے آپ ان لوگوں پر بھی لعنت کرتے تھے جو ان پر لعنت میں شک و تردید کرتے تھے۔[۱۲۶]
آپ ابو الغمر، جعفر بن واقد و ہاشم بن ابی ہاشم جیسے افراد کو" ابو الخطاب" کا پیرو شمار کرتے تھے اور فرماتے تھے یہ لوگ ہم (اہل بیت) کے نام سے لوگوں سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔[۱۲۷]
اس روایت کے مطابق جو رجال کشی میں ذکر ہوئی ہے، آپ نے غلات میں سے ابو السَّمہری اور ابن ابی زرقاء نامی دو لوگوں کے قتل کو جائز قرار دیا تھا اور اس کی دلیل آپ نے شیعوں کو گمراہ کرنے میں ان کے کردار کو قرار دیا تھا۔[۱۲۸]
اسی طرح سے آپ نے اس دور کے غالیوں کے عقاید سے مقابلہ بھی کیا اور کوشش کی کہ ان کے عقاید کی تبیین سے شیعوں کو ان کی پیروی سے دور کریں۔[۱۲۹]
اسی طرح سے آپ نے محمد بن سنان کو خطاب کرتے ہوئے مفوضہ کے اس دعوی کو کہ اللہ نے تخلیق و تدبیر سب کچھ محمد و آل محمد کے حوالے کر دیا، رد کیا۔ البتہ احکام کو تفویض کرنے کے عقیدہ کو صحیح عقیدہ کے طور پر پیش کیا اور اسے مشیت االہی سے منسوب کیا اور فرمایا: یہ وہ عقیدہ ہے کہ جو بھی اس سے آگے بڑھے گا وہ اسلام سے خارج ہو جائے گا، جو اس کو قبول نہیں کرے گا وہ (اس کا دین) نابود ہو جائے گا اور جو اسے قبول کرے گا وہ حق سے ملحق ہو جائے گا۔ [ ۱۳۰ ]
امام محمد تقی (ع) سے تقریبا دو سو پچاس احادیث نقل ہوئی ہیں۔[۱۳۱]
یہ روایات فقہی، تفسیری و اعتقادی موضوعات پر مشتمل ہیں۔
دوسرے ائمہ (ع) کی بنسبت آپ سے کم احادیث نقل ہونے کا سبب، آپ کا تحت نظارت ہونا اور شہادت کے وقت آپ کی عمر کم ہونا ذکر ہوا ہے۔
سید بن طاووس نے اپنی کتاب مہج الدعوات میں آپ سے ایک حرز مامون عباسی کی حٖفاظت کے لئے نقل کیا ہے۔[۱۳۲]
اسی طرح سے یہ حرز:
يَا نُورُ يَا بُرْهَانُ يَا مُبِينُ يَا مُنِيرُ يَا رَبِّ اكْفِنِي الشُّرُورَ وَ آفَاتِ الدُّهُورِ
وَ أَسْأَلُكَ النَّجَاةَ يَوْمَ يُنْفَخُ فِي الصُّورِ،
آپ سے منسوب ہے۔[۱۳۳] حرز امام جواد اپنے ہمراہ رکھنا شیعوں کے درمیان متداول ہو چکا ہے۔[۱۳۴]
امام (ع) نے اپنے دور امامت میں متعدد مرتبہ مامون عباسی کے بعض درباری فقہاء کے ساتھ مناظرے کئے ہیں۔
تاریخی گزارشات کے مطابق ان میں سے بعض مناظرے مامون و معتصم کے درباریوں کی درخواست پر اور امام (ع) کو آزمانے کی غرض سے ہوتے ہیں اور اس کے نتائج حاضرین کے استعجاب و تحسین کا باعث بنتے تھے۔[۱۳۵]
مصادر میں امام جواد کے ۹ مناظروں و گفتگو کا تذکرہ ہوا ہے۔ جن میں چار بار یحیی بن اکثم کے ساتھ اور ایک بار قاضی القضاۃ بغداد احمد بن ابی داود کے ساتھ ہونے والا مناظرہ شامل ہے۔
اسی طرح سے عبد الله بن موسی، ابو ہاشم جعفری، عبد العظیم حسنی و معتصم کے ساتھ ہونے والی آپ کی گفتگو بھی نقل ہوئی ہے۔ ان بحثوں کا موضوع فقہی مباحث میں حج، طلاق، چوری کی سزا و دیگر مباحث میں امام زمانہ (ع) کے اصحاب کی خصوصیات، شیخین کے جعلی فضائل اور اسماء و صفات خداوند شامل ہیں۔[۱۳۶]
جب مامون نے امام محمد تقیؑ سے اپنی بیٹی ام فضل کی شادی کا فیصلہ کیا تو بنی عباس کے بزرگوں نے اس فیصلے پر اعتراض کیا جس کے جواب میں مامون نے کہا تم ان (امام جواد) کا امتحان لے لو۔
انہوں نے قبول کیا اور دربار کے سب سے بڑے عالم اور فقیہ یحیی بن اکثم کو امام جوادؑ کے ساتھ مناظرے کے لئے انتخاب کیا۔
مناظرے کا دن آن پہنچا۔ یحیی بن اکثم نے مناظرے کا آغاز کرتے ہوئے امام سے سوال کیا:
اگر کوئی مُحرِم (وه شخص جو حج کے احرام کی حالت میں ہو) کسی حیوان کا شکار کرے تو حکم کیا ہوگا؟[۱۳۷]
امامؑ نے اس مسئلے کی مختلف صورتیں بیان کیں اور ابن اکثم سے کہا: تم کون سی صورت کے بارے میں جاننا چاہتے ہو؟
یحیی جواب نہ دے سکا۔ اس کے بعد امامؑ نے محرم کے شکار کی مختلف صورتوں کے احکام الگ الگ بیان کئے تو تمام اہل دربار اور عباسی علما نے آپؑ کے علم کا اعتراف کیا اور مامون ـ
جس پر اپنے انتخاب کے حوالے سے نشاط و سرور کی کیفیت طاری تھی ـ نے کہا: میں اس نعمت پر خدا کا شکر ادا کرتا ہوں کیونکہ جو میں نے سوچا تھا وہی ہوا۔[۱۳۸]
تاریخی نقل کے مطابق مامون نے امام جوادؑ کے جوابات کو سننے کے بعد کہا کہ اس خاندان کے فضل و علم سب پر عیاں ہے ان کی کم عمری ان کے کمالات اور فضائل کی راہ میں رکاوٹ نہیں۔ اس نے مزید کہا پیغمبرخداؐ نے امام علیؑ کو بلا کر اپنی تبلیغ کا آغاز کیا حالانکہ اس وقت علیؑ کی عمر صرف ۱۰ تھی۔[۱۳۹]
ایک روایتکے مطابق مامون نے اپنے اطرافیوں سے پہلے ہی کہہ رکھا تھا کہ خاندان رسولؐ کا معاملہ دوسروں سے بالکل الگ ہے۔ اسی لیے کہا تھا کہ ان سے سوال کر کے امتحان لے لیں۔[۱۴۰]
امام جوادؑ نے مامون عباسی کی موجودگی میں بعض فقہاء اور درباریوں کے ساتھ مناظرہ کیا اور ابوبکر اور عمر کے فضائل کے بارے میں یحیی بن اکثم کے سوالات کا جواب دیا۔
یحیی نے کہا: جبرائیل نے خدا کی طرف سے رسول اللہ(ص) سے کہا: "میں ابوبکر سے راضی ہوں؛ آپ ان سے پوچھیں کہ کیا وہ مجھ سے راضی ہیں؟!
امامؑ نے فرمایا: میں ابوبکر کے فضائل کا منکر نہیں ہوں لیکن جس نے یہ حدیث نقل کی ہے اسے رسول اللہ(ص) سے منقولہ دوسری حدیثوں کو بھی مد نظر رکھنا چاہئے۔
اور وہ یہ کہ آپ (ص) نے فرمایا: جب میری جانب سے کوئی حدیث تم تک پہنچے تو اس کا کتاب اللہ اور میری سنت کے ساتھ موازنہ کرو اور اگر خدا کی کتاب اور میری سنت کے موافق نہ ہو تو اسے رد کرو؛ اور بے شک یہ حدیث قرآن کریم سے ہم آہنگ نہیں ہے کیونکہ خداوند متعال نے ارشاد فرمایا ہے:
"وَلَقَدْ خَلَقْنَا الْإِنسَانَ وَنَعْلَمُ مَا تُوَسْوِسُ بِهِ نَفْسُهُ وَنَحْنُ أَقْرَبُ إِلَيْهِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِيدِ
(سور ہ ق آیت ۱۶)
ترجمہ: اور ہم نے پیدا کیا ہے آدمی کو اور ہم جانتے ہیں جو اس کے دل میں وسوسے پیدا ہوتے ہیں اور ہم اس سے رگ گردن سے زیادہ قریب ہیں۔ تو کیا خداوند متعال کو علم نہ تھا کہ کیا ابوبکر اس سے راضی ہیں یا نہیں؟
چنانچہ تمہاری بات درست نہیں ہے۔[۱۴۱]
بعد از اں یحیی نے اس روایت کا حوالہ دیا کہ
"أنّ مثل أبي بكر و عمر في الاَرض كمثل جبرئيل و ميكائيل في السماء
ترجمہ: بے شک روئے زمین پر ابوبکر اور عمر کی مثال، آسمان میں جبرائیل اور میکائیل کی مانند ہے۔[۱۴۲]
امامؑ نے جواب دیا: اس روایت کا مضمون درست نہیں کیونکہ جبرائیل و میکائیل ہمیشہ سے خدا کی بندگی میں مصروف رہے ہیں اور ایک لمحے کے لئے خطا اور اشتباہ کے مرتکب نہیں ہوئے جبکہ ابوبکر و عمر قبل از اسلام برسوں تک مشرک تھے۔[۱۴۳]
امام جوادؑ کے قیام بغداد کے دوران بعض واقعات پیش آئے جو لوگوں کے درمیان امامت کی منزلت سے آگہی کا سبب بنے۔
مثال کے طور پر چور کا ہاتھ کاٹنے کے سلسلے میں امامؑ کے فتوے کی طرف اشارہ کیا جا سکتا ہے۔ فقہا کے درمیان اختلاف اس بات پر رونما ہوا کہ کیا چور کا ہاتھ کلائی سے کاٹنا چاہئے یا پھر کہنی سے!!!
بعض فقہاء نے کلائی سے ہاتھ کاٹنے پر رائے دی اور بعض نے کہنی سے کاٹنے کے حکم کو اختیار کیا۔
عباسی خلیفہ معتصم نے اس سلسلے میں امام جوادؑ کی رائے پوچھی۔
امامؑ نے ابتدا میں معذرت کی لیکن معتصم نے اصرار کیا تو آپؑ نے فرمایا:
"چور کے ہاتھ کی چار انگلیاں کاٹی جاتی ہیں۔ آپؑ نے اس فتوی کی دلیل بیان کرتے ہوئے آیت کریمہ کا حوالہ دیا جہاں ارشاد ہوا ہے:
"وَأَنَّ الْمَسَاجِدَ لِلَّهِ فَلَا تَدْعُوا مَعَ اللَّهِ أَحَداً ۔ [۱۴۴]
ترجمہ: اور یہ کہ سجدے کے مقامات اللہ کے لئے مخصوص ہیں لہٰذا اللہ کے ساتھ کسی کو خدا نہ کہو۔ معتصم کو امامؑ کا جواب پسند آیا اور چور کی انگلیاں کاٹ دی گئیں۔[۱۴۵]