تمرينات
س ۱: توثیق کی دو اقسام ہیں: خاص اور عام۔ ان دونوں کے درمیان فرق مثال کے ساتھ واضح کریں۔
س ۲: تفسیر قمّی کے مؤلف کون ہیں؟
س ۳: سید خوئی ؒکی تفسیر قمّی کے راویوں کے بارے میں کیا رائے ہے؟ ساتھ میں اس کی بنیاد بھی بیان کریں۔
س ۴: کس طرح اس امکان کو رد کیا گیا ہے کہ قمّی کا مقصد صرف اُن کے خاص ان مشایخ کی توثیق ہے جن سے انہوں نے براہِ راست روایت کی ہے؟
س ۵: تفسیر قمّی کے تمام راوی ثقہ ہیں اس نظریہ پر آپ کیسے اشکال کریں گے؟
س ۶: " کامل الزيارة " کتاب کے مؤلف کون ہیں؟ اور اس کتاب کو اس نام سے کیوں موسوم کیا گیا؟ اس کتاب کے متعلق کیا رائے ہے؟
س ۷: راویانِ " کامل الزيارة " کی وثاقت کے حکم کی کیا بنیاد ہے؟
س ۸: " کامل الزيارة" کے تمام راوی ثقہ ہیں اس نظریہ پر آپ کیسے اشکال کریں گے؟
س ۹: نجاشی ؒکے مشایخ کے متعلق ایک نطریہ ہے۔ اسے واضح کریں اور اس کی بنیاد بیان کریں۔
س ۱۰: نجاشی ؒکی کوئی روائی کتاب نہیں ہے تو نجاشی ؒکے تمام مشایخ کی وثاقت کا دعویٰ کرنے کا کیا فائدہ ہے؟
س ۱۱: بنو فضّال کون تھے؟
س۱۲: ایک نظریہ ہے کہ اگر بنو فضّال میں سے کوئی شخص کسی روایت کے سند میں موجود ہو تو وہ روایت مقبول ہے۔ اس رائے کی وضاحت کریں اور اس کی بنیاد بیان کریں۔
س۱۳: بنو فضّال سے متعلق پیش کردہ نظریہ پر کس طرح سے اشکال کیا جائےگا؟
س۱۴: " تین اکابرین میں سے ایک کی روایت " کا کیا مطلب ہے؟ اور اس سے متعلق کیا رائے ہے؟
س ۱۵: سید خوئی ؒنے " تین اکابرین " کے متعلق رائے کیوں مسترد کی ہے؟
س ۱۶: رجالی کے قول کی حجیت کے مدارک بیان کریں۔
س ۱۷: رجالی کے قول کی حجیت کے پہلے مدرک پر کیا اعتراض ہے؟
س۱۸: کیا آپ کی نگاہ میں وسائل الشیعہ کے ابوابِ وضو کے باب ۱۲ کی حدیث ۱ کی سند صحیح ہے؟ اس کی وضاحت کریں۔
فصل دوم: حدیث کی اقسام کے متعلق
حدیث کو چار اقسام میں تقسیم [۱۵]
کیا گیا ہے:-
۱۔ صحیح: جس کے تمام راوی عادل اور امامی ہو۔
۲۔ موثق: جس کے تمام یا بعض راوی غیر امامی ہو لیکن ان کی توثیق ہوئی ہو۔
۳۔ حسن: جس کے تمام یا بعض راوی امامی ہو لیکن عادل نہ ہو بلکہ صرف ممدوح ہو۔
۴۔ ضعیف: جو ان تین اقسام میں سے نہ ہو، اس طرح سے کہ اس کے راوی مجہول ہو یا انہیں ضعیف قرار دیا گیا ہو۔
اور اخباریوں نے اس چہار گانہ تقسیم کی مذمت کی ہے اور اس تقسیم کی ایجاد کی جن کی طرف نسبت ہے یعنی علامہ حلی ؒپر اعتراض کیا ہے۔
اور اخباریوں کے اس تقسیم کو رد کرنے کی وجہ یہ ہے کہ ان کی نگاہ میں کتب اربعہ کی تمام روایات صحیح ہیں اور ان پر عمل کرنا واجب ہے۔ اور حر عاملی ؒنے اپنی کتاب وسائل میں اس – یعنی کتب اربعہ میں موجود تمام روایات کے صحیح ہونے – پر قرائن جمع کیے ہے جن کی تعداد ۲۲ ہیں [ [۱۶]
]
۔
ان قدّس سرہ نے کہا: " اور اس سے حدیث کی صحیح، حسن، موثق اور ضعیف کی تقسیم پر مبنی جدید اصطلاح کا ضعف ظاہر ہو جاتا ہے جو اصطلاح علامہ ؒاور ان کے استاد احمد ابن طاووس ؒکے زمانہ میں نئی نئی وجود میں آئی تھی۔
اور اس دعوے پر مختصر طور پر تبصرہ ان شاء اللہ تیسری فصل میں آئےگا۔
روایات کی ان چار اقسام سے مربوط چند ابحاث ہیں جنہیں ہم چند نکات کے ضمن میں بیان کرتے ہیں۔
صحیح حدیث کے خلاف شہرت
۱۔ جب روایت صحیح السند ہو تو اس کی حجّیت معروف ہے، لیکن بحث اس وقت واقع ہوتی ہے جب شہرتِ فتوائیہ اس صحیح روایت کے برخلاف ہو، تو کیا یہ بات اس روایت کی حجّیت کو ساقط کر دےگی یا نہیں؟
مشہور یہ ہے کہ ایسی صورت میں یہ روایت اعتبار سے ساقط ہو جائےگی سوائے سید خوئی ؒکے جنہوں نے ساقط نہ ہونے کے نظریہ کو اپنایا ہے بعد اس کے کہ (پہلے) وہ ساقط ہونے کے مشہور کے نظریہ کے موافق تھے [ [۱۷]
]
۔
ساقط ہونے کے نظریہ کی یہ تشریح کی جا سکتی ہے کہ ہمارے بزرگ علماء کے سابقہ طبقے نے جب اس روایت کو نظر انداز کیا ہے تو اس سے آشکار ہوتا ہے کہ اس روایت میں بعض لحاظ سے خلل موجود تھا ورنہ وہ کیوں اس روایت کو نظر انداز کرتے۔
ہاں، یہ لازم ہے کہ ان کا اس روایت کو نظر انداز کرنا ان کے اپنے نظریہ اور اجتہاد پر عمل کے نتیجہ میں نہ ہو چونکہ ان کا اجتہاد ان پر حجّت ہے نہ کہ ہم پر۔
لیکن اس کے بعد مسئلہ یہ باقی رہتا ہے کہ ہم یہ کیسے ثابت کریں کہ متقدمین نے اس روایت کو نظر انداز کیا تھا جبکہ ان میں سے کثیر کے بیانایت ہمیں دستیاب نہیں ہیں۔
ثقہ یا عادل کی خبر
۲۔ فقہا؍ کے درمیان یہ مشہور ہے کہ حجّت فقط عادل کی خبر نہیں ہے بلکہ ثقہ کی خبر بھی حجّت ہے۔
ثقہ کی خبر کی حجّیت اور عدالت شرط نہ ہونے کی وجہ یہ ہے کہ سیرتِ عقلائیہ ثقہ کی خبر پر عمل کے بارے میں اسی انداز سے قائم ہے جس طرح سے عادل کی خبر پر عمل کے بارے میں قائم ہے۔ اور چونکہ مذکورہ سیرت سے منع نہیں کیا گیا، اس لیے یہ حجت ہے۔
اور اگر کہا جائے کہ آیتِ نبأ ثقہ کی خبر پر عمل کو ممنوع قرار دیتی ہے اگر وہ ثقہ عادل نہ ہو چونکہ آیت کہتی ہے: اگر تمہارے پاس فاسق کوئی خبر لے کر آئے تو تحقیق کرو، اور ثقہ جب عادل نہ ہو تو وہ فاسق ہے تو اس کی خبر کی تحقیق ضروری ہے اور اس کا مطلب ہے کہ حجّیت نہیں ہے۔
ہم جواب دیں گے کہ اس آیتِ کریمہ میں فاسق سے مراد ایسا شخص ہے جو جھوٹ سے پرہیز نہ کرتا ہو، فاسق سے ایسا شخص مراد نہیں ہے جو عادل کے مقابل ہو، چونکہ دو قرینے موجود ہیں:
الف: حکم اور موضوع کی مناسبت چونکہ عدمِ حجّیت کے حکم سے جو بات مناسب ہے وہ ایسے شخص کی خبر ہے جو جھوٹ سے پرہیز نہ کرتا ہو نہ کہ ایسے شخص کی خبر جو جھوٹ سے پرہیز کرتا ہے لیکن کبھی بعض دیگر گناہوں کا مرتکب ہو جاتا ہو۔
ب۔ آیتِ کریمہ کے آخر میں جو ندامت (پشیمانی) کی علت مذکور ہے، اس وقت وجود میں آتی ہے جب جھوٹ سے پرہیز نہ کرنے والے (غیر متحرز عن الکذب) کی خبر پر عمل کیا جائے، اور یہ علت اُس شخص کو شامل نہیں کرتی جو جھوٹ سے پرہیز کرتا ہو۔
ثقہ کی خبر یا قابلِ اعتماد خبر
۳۔ اس بنا پر کہ حجّت ثقہ کی خبر ہے کیا ثقہ کی خبر کا حجّت ہونا مطلق طور پر ہے یا اس بات سے مشروط ہے کہ اس خبر پر اعتماد اور اطمینان حاصل ہو۔
کہا جا سکتا ہے کہ (خبر کے حجت ہونے کے لیے) اعتماد پیدا ہونا شرط ہے، کیونکہ آیتِ نبأ کے آخر میں ذکر کردہ ندامت (پشیمانی) کا خوف، اس وقت تک باقی رہتا ہے جب تک خبر پر اطمینان حاصل نہ ہو۔
لیکن صحیح نظریہ یہ ہے کہ اطمینان شرط نہیں ہے چونکہ عبد العزیز بن مہتدی اور حسن بن علی بن یقطین کی امام رضا علیہ السلام سے یہ روایت موجود ہے کہ " میں نے عرض کی: اپنے جن دینی امور کی مجھے ضرورت پیش آتی ہیں ان میں سے ہر ایک کے لیے آپ (ع) سے سوال کرنے کے لیے آپ (ع) تک پہنچنا میرے لیے مشکل ہوتا ہے تو کیا یونس بن عبد الرحمن ثقہ ہیں کہ میں ان سے اپنے دینی امور میں سے جس چیز کا محتاج ہوں اسے اس سے حاصل کروں تو آپ علیہ السلام نے فرمایا: ہاں " [ [۱۸]
]
۔ چونکہ یہ روایت اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ سوال کرنے والے کے ذہن میں راوی کی وثاقت کا کافی ہونا مرتکز و طے شدہ تھا، اور امام علیہ السلام نے بھی اس بات کی تائید فرمائی ہے " ۔
خبرِ حسن
۴۔ کیا حسن روایت حجّت ہے؟ شیخ نائینی اور سید خوئی قدّس سرھما اس کی حجّیت کے قائل ہیں۔
اور مصباح الأصول میں انہوں نے اس بات پر سیرتِ عقلائیہ سے استدلال کیا ہے، اس دعوے کے ساتھ کہ عقلاء کا طرزِ عمل اس پر قائم ہے کہ اگر مولا (مالک) کا کوئی حکم اس کے بندے تک ایسے امامی راوی کے ذریعے پہنچے جو قابلِ تعریف (ممدوح) ہو، اور جس کا نہ فسق ظاہر ہو اور نہ عدالت، تو بھی اس پر عمل کیا جاتا ہے، اسی طرح جس طرح سے سیرت اس روایت پر عمل کرنے پر قائم ہے جو کسی امامی عادل راوی کے ذریعے پہنچی ہو۔ اور چونکہ اس سیرت سے شریعت نے منع (ردع) نہیں کیا ہے، تو ہم اس سے یہ نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ شارع نے اس پر امضاء کیا ہے [ [۱۹]
]
۔
اس پر بتصرہ ان شاء اللہ تعالی دوسرے حصے میں آئےگا۔
خبرِ ضعیف
۵۔ متأخر علماء کے درمیان معروف بات یہ ہے کہ ضعیف خبر کے لیے حجیت نہیں ہے، لیکن ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا ضعیف خبر اس وقت حجیت کی سطح تک ترقی کر سکتی ہے جب اس کی موافقت میں شہرتِ فتوائیہ موجود ہو؟ یعنی کیا ممکن ہے کہ سند کی کمزوری کا تدارک اس کے موافقت میں موجود شہرتِ فتوائیہ سے ہو جائے ؟
مشہور یہ ہے کہ اس کے ذریعہ اس کے ضعف کا تدارک ہو جاتا ہے کیونکہ شہرت ایک طرح سے اس روایت کے متعلق " تبیّن" (تحقیق) ہے، اور یہ بات خبر کی حجیت کے لیے کافی ہے۔ کیونکہ آیتِ نبأ نے فاسق کی خبر کو مطلقاً ناقابلِ حجت قرار نہیں دیا بلکہ اس میں " تبیّن" یعنی تحقیق کرنے کا حکم دیا ہے، لہٰذا جب تحقیق کے بعد خبر کی صداقت واضح ہو جائے تو اس پر عمل کرنا ضروری ہے، اور فتوے کی شہرت اس صداقت کو واضح کرتی ہے۔
یہ اس بات کے علاوہ ہے کہ مشہور کی جانب سے کسی روایت پر عمل کرنے سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ وہ اس روایت کی توثیق کر رہے ہیں چونکہ اگر ایسا نہ ہوتا تو وہ کیوں اس پر عمل کرتے بلکہ متقدمین میں سے مشہور کا کسی روایت پر عمل اس روایت کے صدور کا اطمینان فراہم کرتا ہے۔
لیکن مسئلہ یہ باقی رہتا ہے کہ اس بات کو ثابت کیسے کریں، چونکہ متقدمین کی استدلالی کتابیں ہمیں دستیاب نہیں ہیں کہ ہم اس بات کو جان سکے کہ انہوں نے اپنے فتووں میں اس روایت کو بنیاد بنایا ہے اور اس روایت پر عمل کیا ہے، چونکہ اس بات کا امکان موجود ہے کہ مشہور کے فتوے کے درمیان اور اس روایت کے درمیان محض اتفاقی موافقت قائم ہو گئی ہو بغیر اس کے کہ مشہور نے اس روایت کو بنیاد بنایا ہوا۔
خبرِ مضمر
۶۔ خبر مضمر ایسی روایت ہے جس میں جس سے سوال کیا گیا ہو اس کا تذکرہ نہ ہو کہ آیا وہ امام علیہ السلام ہیں یا کوئی اور، جسیا کہ یہی صورت حال زرارہ کی اس صحیح روایت میں ہے جسے شیخ طوسی ؒنے " التھذیب" میں اپنی سند کو حسین بن سعید تک اور انہوں نے حماد سے، انہوں نے حریز سے، انہوں نے زرارہ سے، انہوں نے کہاں: قلت لہ (میں نے ان سے کہا) اگر ایک شخص کو وضو کی حالت میں نیند آ جائے تو کیا ایک جھپکی یا دو جھپکیاں اس پر وضو کو واجب کر دےگی تو آپ علیہ السلام نے فرمایا۔۔۔ " [۲۰]
۔
زرارہ نے یہ نہ کہا کہ میں نے بطور مثال امام صادق علیہ السلام سے عرض کیا بلکہ فقط یہ کہا کہ میں نے ان سے عرض کیا، یعنی ایسی ضمیر کا ذکر کیا جس کے امام علیہ السلام کی طرف رجوع کا بھی امکان ہے اور غیر امام کی طرف بھی رجوع کا امکان ہے۔ اور اسی وجہ سے بعض اوقات روایاتِ مضمرہ کی عدمِ حجیت کا حکم دیا جاتا ہے، کیونکہ اس بات کا یقین نہیں ہوتا کہ جس شخص سے سوال کیا گیا وہ امام علیہ السلام ہی ہیں۔
اس کے مقابل میں دو نظریات پائے جاتے ہیں :
ان میں سے ایک: تمام مضمرات حجّیت رکھتی ہیں اس دعوے کے ساتھ کہ اضمٰار (ضمیر کے استعمال) کا سبب اور اس اسلوب کے پیدا ہونے کی وجہ یہ ہے کہ راوی بعض اوقات امام علیہ السلام سے کئی سوالات کرتا تھا، اور جب وہ ان سوالات کو نقل کرنا چاہتا تو شروع میں امام علیہ السلام کے نام کی وضاحت کرتا اور کہتا کہ
" سألت الصادق عليه السّلام عن كذا فاجاب بكذا، و سألته عن كذا فاجاب بكذا، و سألته عن ۔۔۔"
(میں نے امام صادق علیہ السلام سے سوال کیا فلاں چیز کے بارے میں تو آپ علیہ السلام نے یہ جواب دیا اور میں نے ان سے یہ سوال کیا تو انہوں نے یہ جواب دیا اور میں نے یہ سوال کیا۔۔۔)۔
یہ کہ روایت کے آغاز میں امام علیہ السلام کا نام صراحت کے ساتھ ذکر کیا گیا تھا، اور اس کے بعد صرف ضمیر کے ذریعے اُن کی طرف اشارہ کرنے پر اکتفا کیا گیا، اور نام کی دوبارہ صراحت کی ضرورت محسوس نہیں کی گئی۔ پھر بعد میں، جب احادیث کو تقطیع (ٹکڑوں) میں تقسیم کیا گیا تو ہر فقرہ (جزو) کو اس کے مناسب حدیثی باب میں اسی طرح درج کر دیا گیا جیسا وہ تھا، بغیر جن سے سوال کیا گیا ہے اس شخص یا امام علیہ السلام کے نام کی وضاحت کیے۔
یوں اضمار کا رجحان شروع ہوا۔۔
اور جب ہم اضمٰار (ضمیر کے استعمال) کی اس وجہ سے مطلع ہو جائیں گے، تو ہم بلا شک و شبہ تمام " مضمرات " (ضمیر والی روایات) کی حجّیت کا حکم دیں گے، کیونکہ جس شخص سے سوال کیا گیا تھا وہ شروع سے ہی امام علیہ السلام کے سوا کوئی اور نہیں تھا۔
اور یہ رائے قابلِ بحث و اشکال ہے، کیونکہ یہ بات اس فرض پر درست ہو سکتی ہے جب یہ یقینی ہو کہ شروع میں جن سے سوال کیا گیا وہ شخص امام علیہ السلام ہی تھے، لیکن ہم اس بات کا قطعی حکم کیسے لگا سکتے ہیں؟ ہمیں یہ احتمال بھی رہتا ہے کہ شاید جس سے سوال کیا گیا وہ امام علیہ السلام کے بجائے کوئی اور شخص ہو۔
اور دوسرا نظریہ جو بعض فقہاء نے اختیار کیا ہے، وہ یہ ہے کہ فرق کیا جائے : اگر مضمرہ روایت بیان کرنے والا شخص اصحابِ امام علیہ السلام میں سے جلیل القدر اور بزرگوں میں سے ہو، اس طرح کہ اس کے شایانِ شان نہیں کہ وہ امام علیہ السلام کے علاوہ کسی اور سے نقل کرے — جیسا کہ زرارہ کی صورت حال ہے — تو ایسی صورت میں مضمَرہ روایت حجت ہوگی، کیونکہ راوی کا بلند مقام خود ایک قرینہ ہے جو اس بات کا تعیّن کرتا ہے کہ جس شخص سے سوال کیا گیا ہے وہ امام علیہ السلام ہی ہیں، لیکن اگر راوی ایسا نہ ہو (یعنی عام راوی ہو)، تو ایسی روایت حجت نہیں ہوگی کیونکہ مذکورہ قرینہ موجود نہیں ہے۔
اور ہمارے نزدیک صحیح بات یہ ہے کہ تمام مضمرات (ضمیر والی روایات) حجت ہیں، ایک لطیف و باریک نکتہ کی وجہ سے جس کی وضاحت ان شاء اللہ تعالیٰ دوسرے حصے میں آئےگی
خبرِ مرسل
خبر مرسل یعنی ایسی روایت جس میں سند کے بعض راویوں کے نام کا تذکرہ نہ کیا گیا ہو، جیسا کہ یہی صورت حال اس سند میں ہے کہ شیخ صدوق ؒنے اپنے والد سے، انہوں نے سعد بن عبد اللہ سے، انہوں نے ایوب بن نوح سے، انہوں نے محمد بن ابی عمیر سے، انہوں نے ایک سے زائد سے، انہوں نے ابو عبد اللہ علیہ السلام سے۔۔۔ [ [۲۱]
]
۔
اس میں ابن ابی عمیر نے اس راوی کے نام کی وضاحت نہیں کی ہے جس سے انہوں نے روایت کی ہے اور فقط " عن غیر واحد " (ایک سے زائد سے) کے الفاظ استعمال کیے ہے اور اس طرح کی روایت کو مرسلہ شمار کیا جاتا ہے۔
اور فقہاء کے درمیان مرسلہ روایات کی حجّیت کے بارے میں متعدد اقوال پر مبنی اختلاف واقع ہوا ہے جن میں سے ہم بعض کو مندرجہ ذیل میں ذکر کرتے ہیں:-
الف: مطلق طور پر (ہر حال میں) عدمِ حجیت، چونکہ مبہم و غیر واضح واسطہ کی وثاقت ثابت نہیں کی جا سکتی۔
ب: تفریق کی گئی ہے: اگر ارسال کرنے والا راوی ابنِ ابی عمیر، صفوان، یا بَزَنطی [ [۲۲]
]
ہوں تو روایت حجت ہوگی؛ اور اگر ارسال کرنے والا ان کے علاوہ کوئی اور ہو، تو روایت حجت نہیں ہوگی۔
اور اس کی وجہ یہ ہے کہ شیخ طوسی ؒنے اپنی کتاب العدّة [ [۲۳]
]
میں ذکر کیا ہے کہ شیعہ علماء نے ابنِ ابی عمیر، صفوان اور بَزَنطی کی مرسل روایات پر عمل کیا ہے، اس بنیاد پر کہ یہ حضرات صرف ثقہ افراد ہی سے روایت کرتے تھے اور انہی سے ارسال کرتے تھے، لہٰذا اگر ارسال کرنے والا راوی ان میں سے کوئی ہو، تو اس کی روایت حجت ہوگی کیونکہ وہ صرف ثقہ سے ہی مرسلہ روایت بیان کرتا ہے، اور اگر ارسال کرنے والا راوی ان کے علاوہ ہو، تو روایت رد کر دی جائےگی کیونکہ اس میں واسطے کی وثاقت کا احراز و اثبات نہیں ہے۔
ج۔ تفریق فقط شیخ صدوق ؒکی مرسلہ روایات میں اس طرح سے کہ فرق کریں گے جب وہ عبارت بیان کرے کہ: کہا صادق علیہ السلام نے اور اس میں جب وہ عبارت استعمال کرے کہ : مروی ہے صادق علیہ السلام سے۔ پہلی قسم حجّت ہے اور دوسری نہیں ہے، چونکہ " قال " (کہا) کے لفظ کا استعمال اس بات پر دلیل ہے کہ شیخ صدوق ؒکو اس روایت کے امام علیہ السلام سے صادر ہونے اور اس کی سند صحیح ہونے کا یقین ہے جبکہ اگر انہیں روایت کی صحت کا یقین نہ ہوتا تو ان کے لیے پختہ یقین کے ساتھ اس روایت کی امام علیہ السلام کی طرف نسبت دینا ممکن و جائز نہ ہوتا۔ اور یہ اس صورت کے برخلاف ہے جب " روی " (مروی ہے) کا لفظ استعمال کرتے ہیں تو یہ اصطلاح نسبت کے صحیح ہونے کے یقین پر دلالت نہیں کرتی لہذا یہ نقل حجّت نہیں ہے۔
تطبیقات
تطبیق(۴)
حر عاملی ؒنے وسائل الشیعہ وضو کے ابواب میں سے باب ۴۲ کی حدیث ۱ میں بیان کیا ہے، اس کی عبارت اس طرح سے ہے :
" محمد بن الحسن عن المفيد عن أحمد بن محمد عن ابيه عن أحمد بن ادريس و سعد بن عبد اللّه عن أحمد بن محمد عن الحسين بن سعيد عن حماد عن حريز عن زرارة عن أبي جعفر عليه السّلام ..."
(محمد بن حسن، انہوں نے مفید سے، انہوں نے احمد بن محمد سے، انہوں نے اپنے والد سے، انہوں نے احمد بن ادریس اور سعد بن عبد اللہ سے، انہوں نے احمد بن محمد سے، انہوں نے حسین بن سعید سے، انہوں نے حماد سے، انہوں نے حریز سے، انہوں نے زرارہ سے، انہوں نے ابو جعفر علیہ السلام سے ۔۔۔)
پھر انہوں نے اس حدیث کے آخر میں جو بیان کیا اس کی عبارت اس طرح سے ہے:
" و رواه الكليني عن علي بن إبراهيم عن ابيه و عن محمد بن اسماعيل عن الفضل بن شاذان جميعا عن حماد بن عيسى عن حريز"
(اور اسے روایت کیا ہے کلینی نے علی بن ابراہیم سے، انہوں نے اپنے والد سے اور محمد بن اسماعیل سے، انہوں نے فضل بن شاذان سے ان سب نے حماد بن عیسی سے، انہوں نے حریز سے)۔
حر عاملی ؒکی یہ عبارت اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ انہوں نے شیخ طوسی ؒکی دو کتابوں میں سے کسی ایک سے اور شیخ کلینی ؒسے یعنی ان دونوں سے اس روایت کو بیان کیا ہے۔ اور دونوں میں سے ایک کا سلسلہ سند دوسرے سے مختلف ہے۔ اور اس کا لازمہ یہ ہے کہ اس روایت کے صحیح ہونے کے لیے ان دونوں میں سے ایک کی سند کا صحیح ہونا کافی ہے۔ تو اگر فرض کریں کہ کسی لحاظ سے شیخ طوسی ؒکا سلسلہ سند ضعیف ہے تو ہمارے لیے کلینی ؒکے سلسلہ سند کا صحیح ہونا کافی ہے۔
دونوں سلسلہ سند کی حالت کی تحقیق کے لیے ہم کہتے ہیں:
جہاں تک پہلے سلسلہ سند کا تعلق ہے تو اس میں کوئی اشکال نہیں ہے سوائے احمد بن محمد کے لحاظ سے جن سے شیخ مفید ؒنے روایت کو بیان کیا ہے چونکہ یہ احمد بن محمد بن حسن بن ولید ہیں۔ اور یہ راوی شیخ مفید ؒکے شیخ و استاد ہیں۔ اور ہم تک بہت سی حدیث کی بنیادی کتابیں ان کے ذریعہ پہنچی ہیں چونکہ شیخ طوسی ؒنے ان بنیادی کتابوں میں سے کثیر کو اپنے استاد مفید ؒکے توسّط سے بیان کیا ہے اور مفید ؒنے ان کی روایت مذکورہ راوی کے توسّط سے کی ہے۔ اور مقام افسوس یہ ہے کہ ان کے حق میں کوئی توثیق وارد نہیں ہوئی ہے۔ ہاں اگر ہم اس بات کو قبول کرتے ہو کہ " شیخوخۃ الاجازہ " ہونا توثیق پر دلالت کرتا ہے تو اس کے ذریعہ ان کی وثاقت ثابت ہو جائےگی، لیکن اگر ہم اس بات کو رد کرتے ہو تو پہلا سلسلہ سند فقط ان کی وجہ سے ضعیف قرار پائےگا چونکہ محمد بن حسن طوسی ؒاور شیخ مفید ؒتو تعارّف کے محتاج نہیں ہیں۔
جہاں تک احمد کے والد کا تعلق ہے یعنی محمد بن حسن بن ولید قمی تو یہ ثقہ و جلیل (القدر) ہیں یہ شیخ صدوق ؒکے استاد ہیں۔
جہاں تک احمد بن ادریس کا تعلق ہے تو یہ ابو علی اشعری ثقہ اور جلیل (القدر) ہیں اس بنا پر جو نجاشی ؒاور شیخ ؒ [ [۲۴]
]
نے بیان کیا ہے اور یہ کلینی ؒکے استاد ہیں اور انہوں نے ان کے حوالے سے کثیر روایات بیان کی ہے۔
اور جہاں تک سعد بن عبد اللہ قمی کا تعلق ہے تو یہ ثقہ اور جلیل (القدر) ہیں اس بنا پر جو نجاشی ؒاور شیخ ؒنے بیان کیا ہے۔
اور جہاں تک احمد بن محمد کا تعلق ہے تو یہ احمد بن محمد بن عیسی اشعری قمی ہیں جو ثقہ اور جلیل (القدر) ہیں سعد بن عبد اللہ کے قرینہ سے چونکہ انہوں نے ابن عیسی اشعری سے کثرت سے روایات بیان کی ہے [ [۲۵]
]
۔
اور رہی بات حسین بن سعید اور اس سے اوپر (سند میں) امام علیہ السلام تک کے راویوں کی، تو وہ سب کے سب ثقہ اور جلیل القدر ہیں، جیسا کہ ان کی طرف سابقہ تطبیقات میں اشارہ کیا جا چکا ہے۔
اور اس بنا پر پہلا سلسلہ سند احمد بن محمد بن حسن ابن ولید کے لحاظ سے قابل تأمل ہے اس بات پر بنا رکھتے ہوئے کہ وثاقت ثابت ہونے میں " شیخوخۃ الاجازہ" (اجازہ دینے والے شیخ ہونا) ہونا کافی نہیں ہے۔
اور جو بات مشکل کو آسان کر دیتی ہے وہ یہ ہے کہ دوسرا سلسلہ سند صحیح ہے۔
یہ اس لیے چونکہ دوسرا سلسلہ سند در حقیقت دو سلسلہ سند کی طرف پلٹتا ہے، مندرجہ ذیل شکل میں:-
الف: کلینی ؒ، انہوں نے علی بن ابراہیم ؒسے، انہوں نے اپنے والد ابراہیم بن ھاشم سے، انہوں نے حماد سے، انہوں نے حریز سے۔
ب: کلینی ؒ، انہوں نے محمد بن اسماعیل سے، انہوں نے فضل بن شاذان سے، انہوں نے حماد سے، انہوں نے حریز سے۔
اور کلینی ؒکے سلسلہ سند میں وارد ہونے والا " جمیعا" کا معنی یہ ہے کہ ابراہیم اور فضل دونوں نے اس حدیث کو حمّاد سے روایت کیا ہے، لہذا " جمیعا" کے لفظ کا معنی یہ دونوں ہیں۔
پھر " الف " میں بیان شدہ سلسلہ سند صحیح ہے چونکہ اس کے تمام راوی ثقہ ہیں اس لیے کہ علی بن ابراہیم ؒیہ تو مشہور تفسیر کے مؤلف اور جلیل القدر ثقہ افراد میں سے ہیں۔ اور کلینی ؒنے الکافی کی تقریباً ایک تہائی احادیث ان کے حوالے سے بیان کی ہے۔
اور جہاں تک ابراہیم کا تعلق ہیں تو ان کی توثیق ممکن ہے اس سبب سے جس کا بیان ان شاء اللہ اس کتاب کے دوسرے حصے میں آئےگا۔
اور جہاں تک حمّاد اور حریز کا تعلق ہے تو سابقہ تطبیقات میں بیان ہو چکا ہے کہ یہ دونوں ثقہ ہیں۔
اور جب " الف " کا سلسلہ سند صحیح ہیں تو پھر ہمیں " ب " کے سلسلہ سند کو دیکھنے کی ضرورت نہیں ہے اور اس روایت کی صحت ثابت ہو جائےگی۔
تمرینات
س ۱: حدیث کی چار اقسام کیا ہیں؟ انہیں بیان کریں اور ان کے معنی واضح کریں۔
س ۲: اخباری علماء نے حدیث کی چار اقسام میں تقسیم کی مذمّت کیوں کی؟
س ۳: کہا جاتا ہے کہ صحیح خبر حجیت سے ساقط ہو جاتی ہے اگر وہ شہرتِ فتوائیہ کے مخالف ہو۔ اس بات کا مقصود واضح کریں۔
س ۴: مشہور کی مخالفت کی وجہ سے صحیح روایت حجیت ساقط ہو جاتی ہے اس بات کو ہم کیسے واضح کریں گے؟
س ۵: مشہور کی مخالفت کی وجہ سے صحیح روایت کی حجیت سے ساقط ہونے کی بنیاد پر مسئلہ یہ باقی رہ جاتا ہے کہ ہم کیسے احراز و ثابت کریں کہ۔۔۔ جو مناسب ہو، اس کے ذریعہ جملہ مکمل کریں۔
س ۶: خبرِ ثقہ اور خبرِ عادل میں کیا فرق ہے؟ اور ان میں سے کس کی حجیت مشہور ہے؟
س ۷: خبرِ ثقہ کی حجیت اور عدالت کے شرط نہ ہونے پر ہم کیسے استدلال کریں گے؟
س ۸: اگر کہا جائے کہ خبرِ ثقہ پر عمل کے لیے جس سیرتِ عقلائیہ کا دعوی کیا گیا ہے اس کے ذریعہ استدلال ممکن نہیں ہے کیونکہ آیت النبأ نے اسے رد کر دیا ہے، تو ہم اس دعوے کو کیسے رد کریں گے؟
س ۹: سیرتِ عقلائیہ پر عمل کرنے میں ہمیں شارع کی جانب سے منع نہ ہونے کا ثبوت کیوں درکار ہے؟
س ۱۰: ثقہ کی خبر اور قابل اطمینان خبر میں کیا فرق ہے؟
س ۱۱: اگر کہا جائے کہ خبر کی حجّیت کے ثبوت میں اس روایت پر اطمینان ہونا ضروری ہے تو اس پر کیسے دلیل قائم کی جائےگی۔
س ۱۲: حجیتِ خبر میں اطمینان ضروری نہیں ہے (بلکہ صرف راوی کا ثقہ ہونا کافی ہے) اس بات پر ہم کیسے استدلال کریں گے؟
س ۱۳: خبرِ حسن کی حجیت کےکون قائل ہیں؟
س ۱۴: خبرِ حسن کی حجیت پر استدلال کیسے کیا جا سکتا ہے؟
س ۱۵: خبرِ ضعیف کی عدم حجیت معروف ہے۔ اس میں کیا نکتہ ہے؟
س ۱۶: کہا گیا ہے کہ خبرِ ضعیف خاص حالت میں حجیت رکھتی ہے۔ وہ حالت بیان کریں۔
س ۱۷: شہرتِ فتوائیہ سے تدارک یافتہ خبرِ ضعیف کی حجیت پر ہم کیسے استدلال کریں گے؟
س ۱۸: تلافی و تدارک کے اصول کو قبول کرنے کی بنیاد پر مسئلہ یہ باقی رہ جاتا ہے کہ۔۔۔ جو مناسب ہو اسے بیان کرتے ہوئے اس جملے کو مکمل کریں۔
س ۱۹: خبرِ مضمر کیا ہے؟
س ۲۰: خبرِ مضمر کی ایک مثال دیں۔
س ۲۱: بعض اوقات ابتدائی نگاہ میں کہا جاتا ہے کہ مضمرہ روایات حجّت نہیں ہے۔ اس کی کیا وجہ ہے؟
س ۲۲: کہا گیا ہے کہ تمام مضمرہ روایات حجت ہیں۔ اس بات کی وضاحت کریں۔
س ۲۳: مشہور نے مضمرہ روایات کی حجیت میں تفریق قائم کی ہے۔ وہ تفریق اور اس کی تشریح بیان کریں۔
س ۲۴: خبرِ مرسل کیا ہے؟ اس کی ایک مثال دیں۔
س ۲۵: مرسلہ روایات کی حجیت پر تین اقوال پائے جاتے ہیں۔ انہیں بیان کریں۔
س ۲۶: مرسلہ روایات کی حجیت کے متعلق پہلے قول کو ہم کیسے واضح کریں گے؟
س ۲۷: مرسلہ روایات کی حجیت کے متعلق دوسرے قول کو ہم کیسے واضح کریں گے؟
س ۲۸: تیسرے قول کو ہم کیسے واضح کریں گے؟
تیسری فصل
حدیث کی بعض کتابوں کے بارے میں نظریات
اس سے پہلے کہ ہم اپنی حدیثی کتابوں کے بارے میں گفتگو کریں، ہم اس دعوے کی طرف اشارہ کرتے ہیں جو اخباریوں کی طرف منسوب ہے، کہ وہ کہتے ہیں ہے کہ ہماری چاروں کتابوں یعنی الکافی، من لا یحضره الفقیه، تہذیب الاحکام اور الاستبصار میں موجود ہر چیز صحیح ہے۔
ان کے مطابق، ان کتابوں میں جو کچھ بھی موجود ہے وہ سب صحیح ہے اور اس میں سندی دقت و تحقیق کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔
اور اس دعوے کے قائل بعض اوقات ان عبارات پر اعتماد کرتے ہیں جو ان میں سے ہر ایک کتاب کے مقدمه میں وارد ہوئی ہیں۔
اور اس دعوے کی وضاحت ان شاء اللہ تعالیٰ اس وقت بیان کی جائے گی جب ان کتابوں پر گفتگو ہوگی۔
اور کبھی وہ ایسے دلائل پر اعتماد کرتے ہیں جو چاروں کتابوں پر عمومی طور پر لاگو ہوتے ہیں، کسی ایک کے ساتھ خاص نہیں ہوتے۔ ان دلائل کی مثال ان وجوہات سے دی جا سکتی ہے جنہیں صاحبِ وسائل ؒنے اپنی کتاب کے آخر میں درج بعض فوائد میں ذکر کیا ہے، کیونکہ ان قدس سرہ نےاس بات کو ثابت کرنے کے لیے بائیس (۲۲) وجوہات بیان کی ہیں۔
اور شاید ان میں سب سے قوی دلیل پہلی دلیل ہے، جس کا خلاصہ یہ ہے کہ اصحابِ ائمہ علیہم السلام نے احادیث کو محفوظ رکھنے اور ان کی ضبط و تدوین میں بھرپور کوششیں کیں، یہاں تک کہ یہ احادیث محمدونِ ثلاثہ کے زمانے تک پہنچ گئیں۔ پھر محمدونِ ثلاثہ نے اپنی طرف سے ان احادیث کو مدوّن کیا اور انہیں نئی کتابوں کی صورت میں پیش کیا، جن کے نام ہیں: الکافی، من لا یحضره الفقیه، تہذیب الاحکام اور الاستبصار ۔
اور یہ پختہ اہتمام عام طور سے ان کتابوں میں موجود احادیث کے صادر ہونے کے بارے میں یقین پیدا کرتا ہے۔
اور اس مذکورہ اہتمام کو ثابت کرنے کے لیے کئی شواہد موجود ہیں جو ان شاء اللہ تعالیٰ اس کتاب کے دوسرے حصے میں آئیں گے۔
اور ہم کتب اربعہ کی تمام احادیث کے صحیح ہونے کے دعوے کو متعدد وجوہات کی بنا پر شدّت سے رد کرتے ہیں، جن میں سے ہم کچھ کا ذکر کرتے ہیں :
۱۔ اصحاب کی طرف سے اہلِ بیت علیہم السلام کی احادیث پر شدید و خاص توجہ ان تمام احادیث کے صحیح ہونے کا یقین پیدا نہیں کرتا جو انہوں نے نقل کی ہیں، بلکہ یہ زیادہ سے زیادہ اس علم و یقین کا باعث بنتا ہے کہ ان میں موجود تمام باتیں باطل و غلط نہیں ہیں کیونکہ اس طرح کی پختہ و خاص توجہ ان سب کے باطل ہونے کے ساتھ مطابقت نہیں رکھتی۔
۲۔ کتب اربعہ کے مؤلفین کو خود ان میں موجود تمام احادیث کے صحیح ہونے کا قطعاً یقین نہیں تھا، تو ہم سے اس کا یقین رکھنے کی توقع کیسے کی جا سکتی ہے؟
اور اس بات کی دلیل کہ انہیں یقین حاصل نہیں تھا یہ ہے کہ شیخ طوسی قدس سرہ نے اپنی دونوں کتابوں میں درج بعض احادیث کو قابل بحث و اشکال قرار دیا ہے۔ ہم نے اس کتاب کے دوسرے حصے میں کچھ شواہد پیش کیے ہیں۔
۳۔ یہ کہ اگر کتب اربعہ میں موجود تمام چیزوں کو قطعی مان لیا جائے تو شیخ طوسی ؒاور صدوق ؒکے لیے اپنی کتاب کے آخر میں مشیخہ اورجن سے انہوں نے روایت نقل کی ہے ان کے نام درج کرنے اور ان بنیادی کتابوں تک اپنے ان سلسلہ اسناد ذکر کرنے کی کوئی ضرورت نہیں رہتی جن سے انہوں نے احادیث نقل کی ہیں۔ جبکہ ہم دیکھتے ہیں کہ شیخ طوسی ؒ التھذیب کی مشیخہ میں صراحت سے کہتے ہیں کہ میں یہ مشیخہ اس لیے ذکر کر رہا ہوں تاکہ میری کتاب کی احادیث ارسال سے خارج ہو کر اسنادکی طرف منتقل ہو جائیں۔