‏دروس تمهیدیة فی القواعد الرجالیة

‏دروس تمهیدیة فی القواعد الرجالیة0%

‏دروس تمهیدیة فی القواعد الرجالیة زمرہ جات: علم رجال
صفحے: 47

‏دروس تمهیدیة فی القواعد الرجالیة

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

زمرہ جات: صفحے: 47
مشاہدے: 3505
ڈاؤنلوڈ: 110

تبصرے:

‏دروس تمهیدیة فی القواعد الرجالیة
کتاب کے اندر تلاش کریں
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 47 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 3505 / ڈاؤنلوڈ: 110
سائز سائز سائز
‏دروس تمهیدیة فی القواعد الرجالیة

‏دروس تمهیدیة فی القواعد الرجالیة

اردو

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں اس کی فنی طورپرتصحیح اور تنظیم ہوئی ہے

دروس تمهيدية في القواعد الرجالية

(اردو ترجمہ)

مؤلف: آیت اللہ محمد باقر ایروانی

مترجم: دلاور حُسین حجّتی

ناشر: الغدیر ایجوکیشنل نیٹ ورک

۱

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

الحمد لله رب العالمين،

والصلاة والسلام على أشرف الخلق

محمد و اهل بيته الطيبين الطاهرين

فہرست

پیش گفتار ۲۱

مقدمۂ مؤلف ۲۴

جدید اصولی نظریات سےواقفیت ۲۶

عرض مترجم ۳۵

حصۂ اول

تمہید ۴۰

عملی تطبیق ۴۳

تطبیق (۱) ۴۴

غلط فہمی ۴۸

فصل اول ۵۰

راوی کی وثاقت ثابت کرنے کے طریقے ۵۱

۱۔ معصوم علیہ السلام کی گواہی ۵۱

۲۔ بزرگ علماء میں سے کسی ایک کی وثاقت کی گواہی ۵۲

۳۔ وثاقت پر اجماع ۵۴

۴۔ امام علیہ السلام کی طرف سے حاصل وکالت ۵۶

۵۔ ثقہ کی روایت ۵۸

۶۔ شیخوخۃ الاجازہ ۶۰

تطبیقات ۶۳

تطبیق (۲) ۶۳

تمرینات ۷۰

توثیقاتِ عامہ ۷۵

۱۔ تفسیر قمی کے راویوں کی توثیق ۷۵

۲۔ کامل الزیارت کے راوی ۷۸

۳۔ مشایخ نجاشی ۸۰

۴۔ سند میں بنو فضال کا واقع ہونا ۸۲

۵۔ تین اکابرین میں سے ایک کی روایت ۸۳

دیگر توثیقات عامہ ۸۵

رجالی کے قول کی حجّیت کا مدرک ۸۶

تطبیقات ۹۰

تطبیق (۳) ۹۰

تمرينات ۹۳

فصل دوم: حدیث کی اقسام کے متعلق ۹۶

صحیح حدیث کے خلاف شہرت ۹۸

ثقہ یا عادل کی خبر ۹۹

ثقہ کی خبر یاقابلِ اعتماد خبر ۱۰۱

خبرِ حسن ۱۰۲

خبرِ ضعیف ۱۰۳

خبرِ مضمر ۱۰۵

خبرِ مرسل ۱۰۹

تطبیقات ۱۱۲

تطبیق(۴) ۱۱۲

تمرینات ۱۱۸

حدیث کی بعض کتابوں کے بارے میں نظریات ۱۲۲

کتاب الکافی کے بارے میں نظریات ۱۲۶

" کتاب من لا یحضرہ الفقیہ " کے بارے میں نظریات ۱۳۵

تہذیبین (تہذیب و استبصار) کے بارے میں نظریات ۱۳۹

تمرینات ۱۴۳

ہماری بعض رجالی کتابوں کے بارے میں نظریات ۱۴۹

۱۔ رجال کشّی ۱۴۹

۲، ۳۔ رجالِ شیخ اور فھرستِ شیخ ۱۵۱

۴۔ رجالِ نجاشی ۱۵۴

تمرینات ۱۵۶

حصۂ دوم

تمہید ۱۶۱

خبر کی حجیت کے مسئلے میں آراء ۱۶۲

تحقیق: کیا صحیح ہے؟ ۱۶۵

علمِ رجال کی ضرورت ۱۶۵

پھر وہیں سے آغاز ۱۶۸

تمرینات ۱۷۱

ہماری بحث کا اسلوب ۱۷۴

توثیق سے متعلق بحث ۱۷۵

حدیث کو چار اقسام میں تقسیم کیا گیا ہے:- ۱۷۵

راوی کی وثاقت ثابت کرنے کے طریقے ۱۷۷

۱۔ معصومین علیہم السلام میں سے کسی کے حق میں صریح گواہی ۱۷۷

۲۔ بعض متقدمین رجالیوں کی صریح گواہی ۱۸۱

اعتراض اور جواب ۱۸۶

۳۔ متاخرین بزرگ علماء میں سے کسی کی صریح گواہی ۱۹۰

متاخرین کی توثیقات حجّت نہیں ہے اس کا سبب ۱۹۰

متاخرین کی توثیقات قابل قبول ہونے پر دلیل ۱۹۲

علامہ حلی ؒکے اقوال میں " اصالة العدالة" ۲۰۱

تمرینات ۲۰۶

عملی تطبیقات ۲۱۰

دیگر اسانید ۲۳۰

اصل موضوع کی طرف واپسی ۲۵۴

۴۔ تصدیقیا توثیق پر اجماع کا دعویٰ ۲۵۴

۵۔ امام علیہ السلام کی طرف سے وکالت ۲۵۷

۶۔ ثقہ کی روایت ۲۶۱

۷۔ شیخوخۃ الاجازۃ ۲۷۰

۸۔ ایسی سند میں واقع ہونا جس پر صحت کا حکم لگایا گیا ہو ۲۷۹

وثاقت ثابت کرنے کے دیگر طریقے ۲۸۵

تمرینات ۲۸۸

عمومی توثیقات ۲۹۴

۱۔ راویانِ تفسیرِ قمی ۲۹۵

۲۔راویانِ کامل الزیارۃ ۳۰۳

۳۔ نجاشی ؒ کے مشائخ ۳۰۹

۴۔ اصحاب الاجماع کی سند میں واقع ہونا ۳۱۲

۵۔ بنو فضال کا سند میں واقع ہونا ۳۱۵

۶۔ مشائخ ثلاثہ میں سے کسی ایک کی روایت ۳۲۰

مذکورہ بالا کا نتیجہ ۳۲۶

دیگر توثیقاتِ عامہ ۳۲۶

تمرینات ۳۲۷

رجالی کے قول کی حجیت کا مدرک ۳۳۱

توثیقات میں ارسال کا مسئلہ ۳۳۶

تطبیقات ۳۴۲

تمرینات ۳۴۶

حدیث کی اقسام کے بارے میں بحث ۳۴۸

صحیح روایت کےخلاف شہرت کا وجود ۳۵۱

ثقہ کی خبر یا عادل کی خبر ۳۵۴

خبرِ ثقہ یا الموثوق بہ ۳۵۵

خبرِ حسن ۳۵۷

خبرِ ضعیف ۳۵۹

خبرِ مضمر ۳۶۳

ضمیر کےاستعمال کا سبب ۳۶۷

خبرِ مرسل ۳۶۸

تمرینات ۳۷۳

بعض حدیث کی کتابوں کے بارے میں نظریات ۳۷۹

کتب اربعہ میں سب کچھ صحیح نہیں ہے ۳۸۴

خصوصی اشکالات ۳۹۴

مسترد شدہ مستندات ۳۹۴

برعکس دعویٰ ۳۹۷

تمرینات ۴۰۱

کتاب " الکافی" کے بارے میں نظریات ۴۰۴

چار نکات ۴۰۹

کلینی ؒ کا سلسلہ سند ۴۱۰

الکافی کی تمام احادیث کی صحت ۴۱۳

عدۃ من اصحابنا (ہمارے چند اصحاب) ۴۱۸

کلینی کے مشائخ ۴۲۷

تمرینات ۴۳۸

کتاب " من لا یحضرہ الفقیه" کے بارے میں نظریات ۴۴۱

پہلا نکتہ ۴۴۵

دوسرا نکتہ ۴۴۷

تیسرا نکتہ ۴۴۸

چوتھا نکتہ ۴۵۵

تمرینات ۴۵۹

" التھذیبین" کے بارے میں نظریات ۴۶۱

شیخ ؒ کا سلسلہ سند بیان کرنے کا طریقہ ۴۶۴

دونوں کتابوں کی تمام احادیث کی صحت ۴۶۵

ضعیف سلسلہ سند کا تدارک ۴۶۸

شیخ اردبیلی ؒ کا طریقہ ۴۷۰

شیخ مجلسی ؒ کا طریقہ ۴۷۵

تیسرا طریقہ ۴۷۷

میرزا محمد استرآبادی ؒ کا طریقہ ۴۸۱

سید خوئی ؒ کا طریقہ ۴۸۴

سید خوئی ؒ کا ایک اور طریقہ ۴۹۱

عملی تطبیقات ۵۰۰

تمرینات ۵۱۰

وسائل الشیعہ کے بارے میں نظریات ۵۱۳

وسائل الشیعہ پر ملاحظات ۵۱۶

مستدرک الوسائل ۵۲۱

الوافی ۵۲۳

بحار الانوار ۵۲۴

ہماری رجالی کتابوں کے بارے میں نظریات ۵۲۹

رجال کشی کے بارے میں نظریات ۵۳۱

رجال شیخ طوسی ۵۳۵

پہلا نکتہ ۵۳۶

دوسرا نکتہ ۵۴۳

فہرست شیخ طوسی ۵۴۶

" جماعت " کی اصطلاح ۵۴۸

رجال نجاشی ۵۵۰

دوسری تالیف کیوں؟ ۵۵۳

برقی اور ابن غضائری کی رجال ۵۵۵

دیگر رجالی کتب ۵۵۸

تمرینات ۵۶۵

بسمہ تعالی

پیش گفتار

از: حجّۃ الاسلام مولانا محمد رضا داؤدانی دامت برکاتہ

آپ کے پیش نظر جناب آیت اللہ باقر ایروانی مدظلہ کی کتاب " دروس تمهيدية في القواعد الرجالية " کا اردو ترجمہ ہے۔ محترم مؤلف کی یہ خوبی ہر صاحب علم پر عیاں ہے کہ وہ مشکل مباحث کو انتہائی آسان اور سہل انداز میں بیان کر دیتے ہیں۔ ان کی تمام کتب اس حقیقت پر شاہد ہیں۔ یہ کتاب انہوں نے بنیادی طور پر حوزۂ علمیہ اور مدارس کے طلاب کے لیے بطور نصاب تحریر کی ہے۔ یونیورسٹی کے طلبا اور دانشور حضرات بھی مکتب اہلِ بیت علیہم السلام کے راویان حدیث سے آشنائی کے لیے اس کتاب سے استفادہ کر سکتے ہیں۔ اصل کتاب عربی میں ہے جس سے اردو دان طبقے کا براہِ راست فائدہ اٹھانا ناممکن تھا۔ اردو ترجمہ استاد محترم حجۃ الاسلام مولانا دلاور حسین حجّتی مدظلہ کی کوشش ہے۔ ترجمہ اور تالیف کا شعبہ ان کے لیے نیا نہیں ہے۔ وہ اس شعبے میں سالوں کا تجربہ رکھتے ہیں۔ برجستہ خطیب ہونے کے باوجود انہوں نے خود کو حوزوی علوم کے لیے وقف کر رکھا ہے۔ مجھے ان کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کرنے کا شرف حاصل رہا ہے بلکہ حوزوی علوم کی طرف راغب کرنے والی اوّلین شخصیت مولانا حجّتی کی ہی تھی۔ خواہش اور تمنا ہے کہ طلاب اور دانشور اس کتاب سے استفادہ کریں اور مولانا دلاور حجّتی تا دیر مکتب اہلِ بیت علیہم السلام کی خدمت کرتے رہیں۔

محمد رضا داؤدانی

۶ ستمبر ۲۰۲۵ / ۱۲ ربیع الاول سن ۱۴۴۷ ھ

۲

مقدمۂ مؤلف

میں نے اپنی آنکھیں نجفِ اشرف کے محبوب مدرسہ میں فقہ اور اصول کے شعبوں میں کھولیں، اور اس کے ساتھ مجھے علمِ رجال اور اس کے قواعد کا کوئی شعبہ نہ ملا، بلکہ میں تو صرف نامور شخصیات کی سوانح عمریوں میں پڑھا کرتا تھا کہ فلاں نے فلاں سے رجال کا علم پڑھا ہے، مگر عملی سطح پر اس کا کوئی نمونہ یا مشاہدہ مجھے دیکھنے کو نہ ملا۔

میں نے سطوح کا مرحلہ مکمل کیا اور خارج کے مرحلہ میں داخل ہوا، جبکہ رجال کے مسائل سے میرا نہ قریب کا اور نہ ہی بعید کا کوئی تعلق تھا، خاص طور پر جب میں نے فقہ میں " الروضة البهية" (شرح لمعہ) اور " المکاسب" کو پڑھا، تو دونوں ہی اس بات سے مکمل طور پر دور تھیں۔

میں جب درسِ خارج میں شرکت کرتا تھا تو اِس یا اُس علم کے توسّط سے علمِ رجال کے بعض مسائل سنتا تھا، جس سے مجھے ایک واضح خلاء کا احساس ہوا۔

میں نے یہ خلا تین مقامات پر محسوس کیا ہے، جن کا میں ذکر کرتا ہوں، شاید جو لوگ اس کے ناممکن ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں وہ ہمیں اس کا کوئی حل فراہم کر سکیں۔

۱۔ میں نے سطوح کے مرحلہ میں اصول کی جن کتابوں کو پڑھا، ان میں تین اکابرین - نائینی ؒ، عراقی ؒاور اصفہانی ؒ - کے نظریات شامل نہیں تھے۔ اور میں نے صرف اصفهانی ؒکی فصول، قمي ؒکی قوانین، رشتي ؒکی بدائع، شیخ انصاری ؒکی رسائل اور آخوند خراسانی ؒکی کفایہ جیسے پرانے نظریات کا مطالعہ کیا۔

میرا مقصد ان مکاتب ِفکر کے نظریات کو کم تر سمجھنا نہیں ہے۔ خدا کی پناہ کہ میں ایسا تصور بھی کروں، اور میں اپنے ربّ سے معافی مانگتا ہوں اگر میں نے ایسا ارادہ کیا ہو، میرا اصل مطلب یہ ہے کہ کسی بھی مکتب کے افکار مخصوص زمانی مرحلے میں جیتے ہیں اور قانونِ ارتقا ان پر بھی لاگو رہتا ہے۔ قانونِ ارتقا اگر کسی چیز میں استثنا پاتا ہے تو وہ صرف ان نظریات میں ہے جو قرآنِ کریم نے پیش کیے اور وہ افکار جو اہلِ بیت علیہم السلام نے بیان فرمائے ہیں۔

جدید اصولی نظریات سےواقفیت

میں ان تین نمایا ں شخصیتوں کے افکار کا عاشق ہوں جن کے ساتھ میں نے اپنی اصولِ خارج کی تعلیم کے دوران وقت گزارا، اور پھر میں سید شہید ؒکے اصولی حلقات کا بھی عاشق ہوں اور جن کے ذریعے ہم اس فکری خلا پر قابو پانے میں کامیاب ہوئے۔

۲۔میں نے اپنے سطوح کے دروس کے دوران اہلِ بیت علیہم السلام کی احادیث دیات، حدود، اور تعزیرات تو درکنار نہ روزہ کے بارے میں پڑھی، نہ نماز کے بارے میں اور نہ ہی طہارت کے بارے میں پڑھی۔ اسی طرح سے میں نے استدلال کے ان طریقوں کو بھی نہیں پڑھا جن سے استنباط کے مقام پر فقیہ مدد لیتا ہے۔ میں یہ سنتا تھا کہ " الروضة البهية" (شرح لمعہ) ایک استدلالی دورہ ہے جو استدلال کے ذریعے فقہ سکھاتی ہ "میں اسے فقط بطور تعبد قبول کرتا رہا، یہاں تک کہ جب میں نے آنکھیں کھولیں تو میں نے معاملہ اس کے برخلاف پایا۔

" الروضة البهية" ہمیں سکھاتی ہے کہ ہم کیسے پیچیدہ الفاظ کے ساتھ تلفظ کر سکتے ہیں اور رموز و مبہم الفاظ کو کیسے حل کر سکتے ہیں۔

میں کچھ عرصے تک مبہم الفاظ کو حل کرتا رہا، اور جو باتیں ان مبہم الفاظ کے اندر تھیں وہ مجھ سے پوشیدہ رہیں۔ میں یہ سیکھتا رہا کہ یہ اصل کے لیے شرط نہیں ہے اور وہ روایت کی وجہ سے واجب ہے۔ میں نے اس قدر جانا، بس اس سے زیادہ نہیں، اور میں اس مسئلے میں وارد ہونے والی روایات کو نہیں جانتا تھا، کہ جب میں ابھی انہیں سنوں تو میرے لیے اجنبی نہ ہوں۔"

میں نے نہیں سنا کہ یہ کس طرح متعارض ہیں اور ہم تعارض کو کیسے حل کریں گے اور جب تعارض مستحکم ہو جائے تو ہم کس طرف رجوع کریں گے؟ میں نے یہ چیز " الروضہ"(شرح لمعہ) میں نہیں دیکھی۔ ہاں، میں نے اس کا کچھ حصہ المکاسب میں دیکھا، لیکن المکاسب کی حدود تنگ ہیں اور یہ صرف بیع اور خیارات تک محدود ہے، تو نماز کہاں ہے، روزہ کہاں ہے، حج کہاں ہے، خمس کہاں ہے، اور کہاں ہیں اور کہاں ہیں اور کہاں ہیں۔

ہمیں سطوح کی مرحلے میں ایک ایسی فقہی کتاب کی ضرورت ہے جو کم از کم اکثر فقہی ابواب پر مشتمل ہو، تاکہ ہم اہلِ بیت علیہم السلام کی روایات کو سنیں اور جب تعارض ہو تو ہم کیسے عمل کریں اور ہمارے نامور علماء کی طرف سے استعمال ہونے والے جدید استدلال کے طریقے کیا ہیں، ساتھ ہی کچھ رجال کے مسائل کا مختصر ذکر ہو۔

اور اس کے بعد ہمیں طلاسم اور رموز والی عبارات کی ضرورت نہیں ہے۔ کیا ہمارے علمی مطالب اور ہمارے استدلال کے طریقوں میں کوئی کمی ہے کہ ہم اس کی اس کے ذریعہ تکمیل کی ضرورت محسوس کریں؟

میں تجربے کی بنا پر کہتا ہوں: میں نے اہلِ بیت علیہم السلام کی مختلف فقہی ابواب کی روایات کو صرف خارج کی بحث میں شرکت کے دوران ہی جانا، اور اس وقت مجھے دوبارہ ایک نئی اور غیر معمولی کیفیت کا سامنا کرنا پڑا۔

ہمیں ایک ایسی کتاب تالیف کرنے کی شدید ضرورت ہے جو ایک مکمل یا تقریباً مکمل فقہی دورے پر مشتمل ہو اور اس میں اہلِ بیت علیہم السلام کی روایات کی بڑی تعداد اور جدید استدلال کے طریقے شامل ہوں، تاکہ خارج کے مرحلے میں منتقل ہوتے وقت ہمارا افق مکمل ہو۔

اور اس تجویز کو ہم عالمِ امکان سے عالمِ فعلیت میں نہیں لا سکتے، سوائے اس کے کہ ہم اپنی نیت اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے لیے خالص کریں، جیسے شہید ثانی ؒ، شیخِ اعظم ؒاور آخوند خراسانی ؒاور دیگر بزرگوں نے اپنی نیت خالص کی، جن کی کتابیں آج تک پڑھائی جاتی ہیں۔

یقیناً ایسی خالص نیت پہاڑ جیسے مشکل حالات کو دور کر دیتی ہے۔ ہم اللہ تعالیٰ سے دعا کرتے ہیں کہ وہ ہم سب کو ایسا خلوص عطا فرمائے تاکہ ہم اس کے ذریعے ان درسی مشکلات پر قابو پا سکیں جن کا ہم سامنا کر رہے ہیں۔

۳۔ اور تیسرا میدان جس میں مجھے خلا کا سامنا ہوا، وہ رجال اور روایات کی اسناد کا میدان تھا۔ تو وثاقت کے ثابت ہونے کے کیا طریقے ہیں اور ہم کیسے جانیں کہ فلاں شخص ثقہ ہے یا نہیں؟ اور روایت کی حجیت کا کیا ضابطہ ہے؟ اور عمومی توثیقات کیا ہیں؟ یہ سب میں نے مرحلۂ سطوح میں نہیں جانا تھا، بلکہ اساتذہ سے یہ نکتہ اور وہ نکتہ سیکھتا رہا اور باقی چیزوں کو جاننے کے لیے کوشش کرتا رہا۔

اور میں رجال کے نکات کا عاشق تھا اور میں اس استاد یا کتاب کو پسند کرتا تھا جو مجھے واضح طور پر رجال کے نکات کا ایک مجموعہ پیش کرے تاکہ میں اس سے سیراب ہو سکوں۔

اور میرے پاس ان نکات کا ایک مجموعہ جمع ہو گیا اور میں ایک مدت تک ان نکات کو معزز اساتذہ اور علمی مباحثات کے ذریعے سمجھنے میں لگا رہا۔

اور تھوڑی بہت سمجھ آنے کے بعد، میں نے یہ پایا کہ جو کچھ بھی میں نے سمجھا ہے، ہمارے بزرگ علماء نے اپنی کتابوں اور بیانات میں اس کی طرف اشارہ کیا ہے، اور کوتاہی میری جانب سے تھی یا عبارات میں کوئی کمزوری تھی۔

اور میرے لیے یہ واضح ہو گیا کہ ہمیں صرف ایک قلم کی ضرورت ہے جو ان اعلیٰ مطالب کی وضاحت کرے جنہیں ہمارے علماء کے افکار نے شامل کیا ہے۔

میں نے دس سال قبل جب ہجرت کر کے شہر قم مقدس میں قدم رکھا، ایک علمِ رجال کا دوره تحریر کیا جو تقریباً مسئلہ کے ایک حصے کو حل کر دینے کے مترادف ہے، اور میں نے اسے شائع نہ کرنے کا عہد کیا کیونکہ میں نے اس میں کوئی ایسی چیز نہیں دیکھی جو شائع کرنے کے قابل ہو۔

اور دس سال گزرنے کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچا کہ اگر مسئلہ حوزہ علمیہ کی خدمت کا ہے تو ہمارے علماء کی بات کو آسان زبان میں بیان کر دینا کافی ہے اور اس کے لیے یہ شرط نہیں کہ کوئی نئی بات سامنے آئے۔

اور اس کے بعد میں نے عزم کیا کہ جو کچھ میں نے لکھا ہے اسے دو حصوں میں تقسیم کروں: ایک حصہ جس کی طرف طالب علم اپنے ابتدائی ایام میں رجوع کرےگا اور دوسرا حصہ پہلے سے مختلف نہیں ہوگا مگر کچھ وسعت کے ساتھ ہوگا۔ اور میں نے دونوں حصوں پر " دروس تمھیدیۃ فی القواعد الرجالیہ" کا عنوان دیا تاکہ وہ شخص جو مجھ سے زیادہ وسیع فکر اور علم رکھتا ہو، میرے لکھے ہوئے سے زیادہ وسیع افق کے ساتھ ایک دوسری کتاب لکھنے کی جانب متوجہ ہو سکے۔

اور میرا خیال ہے— اگر میں غلط نہیں ہوں — کہ جو شخص میرے لکھے ہوئے کی طرف رجوع کرےگا، وہ خارج کی مرحلے میں خلا کا سامنا نہیں کرے گا یا سامنا کرےگا بھی تو جزوی طور پر۔

اور میرا یہ بھی گمان ہے کہ جو کچھ میں نے لکھا ہے، اگرچہ میں نے اسے آسان الفاظ میں بیان کرنے کی کوشش کی ہے لیکن پھر بھی بعض مقامات میں خاص استاد کی ضرورت ہے تاکہ پھل کی مکمل طور پر بارآوری ہو سکے۔

اور میرا اعتقاد یہ بھی ہے کہ اگر اس کتاب کو اس کی اس عملی تطبیق کے بغیر پڑھا جائے جو ہم نے کتاب کے مختلف مقامات پر بیان کرنے کی کوشش کی ہے، تو یہ درخت اپنے پھل نہیں دے گا۔

نظریہ کو علمی تطبیق سے جدا رکھنا علم نحو میں بُرے نتائج کا باعث بنتا ہے، لہذا جو شخص عربی قواعد کو بغیر تطبیق کے پڑھتا ہے، وہ کسی قسم کا فائدہ حاصل نہیں کرتا ہے۔ اور فقہ میں، جو شخص اصول کو بغیر ذاتی عملی استنباط کی تمرین کیے پڑھتا ہے، وہ کسی قسم کا فائدہ حاصل نہیں کرتا ہے اور ہماری اس کتاب کے حوالے سے، جو اس کو بغیر تطبیق کے پڑھےگا، وہ کسی قسم کا فائدہ حاصل نہیں کرےگا۔

اور آخر میں، میں نے جو کچھ لکھا اس کا مقصد صرف ہمارے حوزات کے طلباء اور اہلِ بیت علیہم السلام کے مدرسے کی خدمت ہے، اگر میں کامیاب ہوا تو یہی میری حقیقی خواہش ہے، ورنہ میرے فخر کے لیے اتنا کافی ہے کہ جو غلطیاں مجھ سے سرزد ہوئی ہے اس میں، میں جاہلِ بسیط ہوں جاہل ِمرکب نہیں ہوں۔

اور میں اللہ تعالیٰ سے ہمارے ولی اور ہمارے زمانے کے امام – کہ ان پر میری روح اور تمام عالمین کے ارواح فدا ہو - کے حق کے واسطے سوال کرتا ہوں کہ وہ مجھے امام علیہ السلام کی مبارک دعا کے ذریعہ قوت عطا فرمائے کہ جس کے ذریعے ہر مشکل حل ہوتی ہے اور ہر کمزور کو کامیابی ملتی ہے، اور میری توفیق تو اللہ ہی کی طرف سے ہے، اور میں اس سے مغفرت چاہتا ہوں اور اسی کی طرف توبہ و رجوع کرتا ہوں۔

باقر ایروانی

۲۵/ رجب المرجب/ ۱۴۱۶ھ

۳
۴

عرض مترجم

تمام تعریفیں عالمین کے پروردگار اللہ کے لیے ہے، اور درود و سلام انبیاء و مرسلین کے سردار حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلّم اور آپ ؐ کی طیب و طاہر آل علیہم السلام پر اور دائمی لعنت ان کے تمام دشمنوں پر۔

علم و دانش کی وادیوں میں بعض علوم وہ ہیں جو صرف عقل کو جِلا بخشتے ہیں، مگر بعض ایسے بھی ہیں جو نہ صرف فکر کو روشن کرتے ہیں بلکہ عمل اور ایمان کی بنیاد کو بھی استحکام عطا کرتے ہیں۔ اہلِ معرفت پر روشن ہے کہ علومِ اسلامی کے دامن میں بے شمار گوہر پنہاں ہیں، اور ان میں علمِ رجال ایک ایسا گوہر ہے جو فقہ و حدیث کے خزانوں کی کنجی کی حیثیت رکھتا ہے۔ جب تک ایک روایت کی سند و راوی معتبر نہ ہو، اس پر فقہی و اعتقادی عمارت کھڑی کرنا مشکل ہو جاتا ہے۔ علمِ رجال احکامِ شریعت کے فہم اور احادیثِ معصومین علیہم السلام کے اعتماد و اعتبار کا سنگِ بنیاد ہے۔ یہی وجہ ہے کہ صدیوں سے حوزہ ہائے علمیہ میں یہ علم اہمیت کا حامل رہا ہے۔

تاریخِ حوزہ پر نظر ڈالی جائے تو قدیم ادوار سے ہی مختلف درسی اور مطالعاتی کتابوں نے علمی سفر کے لیے اساس فراہم کی؛ یہ کتب متون کی گہرائی اور دقت اپنی مثال آپ ہیں، مگر اس کے ساتھ ساتھ ان کا اسلوب اور طرزِ بیان ایک خاص عہد کے علمی ماحول سے وابستہ تھا۔ یہی وجہ ہے کہ بعد کے زمانوں میں طلبہ کو براہِ راست ان کتابوں سے استفادہ کرنے میں دشواریاں لاحق ہوئیں؛ وقت گزرنے کے ساتھ یہ احساس بڑھتا گیا کہ ایک نئے طرز کی درسی کتب سامنے آئیں، جو علمی گہرائی کو برقرار رکھتے ہوئے سادہ، منظم اور عصرِ حاضر کے طلبہ کے ذوق کے مطابق ہوں۔

اسی ضرورت کو محسوس کرتے ہوئے ہمارے عہد کے برجستہ عالم و محقق، آیت اللہ محمد باقر ایروانی دامت برکاتہ نے قدم بڑھایا۔ آپ نجفِ اشرف کے حوزہ علمیہ میں بلند مرتبہ استاد اور دقیق النظر محقق کی حیثیت سے جانے جاتے ہیں۔ فقہ و اصول کے میدان میں آپ کی تحریریں پہلے ہی ایک نئی روشنی کا درجہ حاصل کر چکی ہیں، اور علمِ رجال میں بھی آپ کی کاوشیں حوزات کے لیے تازگی اور سہولت کا سامان فراہم کر رہی ہیں۔

زیرِ نظر کتاب " “دروس تمهيدية في القواعد الرجالية”" دراصل اسی سلسلے کی ایک تابناک کڑی ہے؛ اس میں مؤلف نے علمِ رجال کے بنیادی قواعد کو نہایت تدریجی اور شفاف انداز میں بیان کیا ہے۔ کتاب کی امتیازی خصوصیت یہ ہے کہ اس میں قدیم مآخذ کا علمی سرمایہ بھی اپنی اصل صورت میں جلوہ گر ہے، اور ساتھ ساتھ جدید اسلوب کی وضاحت بھی قاری کو سہولت بخشتی ہے۔ یوں یہ کتاب ایک ایسا پل ہے جو قدیم اور جدید کے درمیان فکری ربط و ہم آہنگی قائم کرتا ہے۔

عرصہ دراز سے یہ خواہش تھی کہ درسی کتب اور خاص طور سے جدید انداز سے تحریر شدہ درسی کتب کا اردو ترجمہ سامنے آئے تاکہ حوزہات علمیہ کے طلاب کو اپنے درس کو پختہ کرنے میں اور اسی طرح سے بعض مقامات میں اساتذہ کو مشکل عبارات کو حل کرنے کے موقع پر مددگار ثابت ہو، یہ بات تو واضح ہے کہ یہ ترجمہ ہے اصل کتاب نہیں اور کوئی بھی ترجمہ کبھی بھی اصل کتاب کی جگہ نہیں لے سکتا، حقیقی محور تو اصل متن ہی رہے گا اور رہنا چاہیے۔

ان کتب کا اردو ترجمہ ہونا چاہیے یا نہیں اس کے متعلق متعدد اہل علم سے مشورہ کرتا رہا، مگر جن کی تائید اور مشورہ نے اس ارادے کو عملی جامہ پہنانے میں کلیدی کردار ادا کیا وہ برادر محترم حجّۃ الاسلام مولانا محمد رضا داؤدانی دامت برکاتہ ہیں کہ نہ فقط انہوں نے اس بات کی تائید کی کہ ان کتابوں کا ترجمہ ہونا چاہیے بلکہ اس کو امرِ لابدّ قرار دیا۔

یہ اردو ترجمہ اسی آرزو کے تحت پیش کیا جا رہا ہے کہ برصغیر کے مدارس اور علمی حلقوں کے اہلِ علم و دانش بھی براہِ راست اس قیمتی علمی گنجینے سے بہرہ مند ہوں۔ امید ہے کہ یہ ترجمہ طلبہ کے لیے حصولِ فہم میں آسانی کا باعث ہوگا اور اہلِ تحقیق کے لیے رجالی مباحث میں ایک معتبر رہنما کی حیثیت اختیار کرے گا۔ ترجمہ کرتے ہوئے اس بات کا خیال رکھا ہے کہ عربی عبارت کی روانی اور علمی گہرائی کو اردو زبان کے قالب میں منتقل کیا جا سکے اور قارئین کو اس علم سے متعلق بنیادی مفاہیم کو سمجھنے میں آسانی ہو۔ اس ترجمہ میں اگر کوئی سقم یا کوتاہی نظر آئے تو اہلِ علم سے التماس ہے کہ وہ رہنمائی فرمائیں۔

آخر میں دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ اس کاوش کو بارگاہِ امامِ عصر عجل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف میں مقبول فرمائے، اور اس علمی خدمت کو دینِ مبین کے فروغ کا ذریعہ قرار دے۔

والسلام علیکم ورحمة اللہ وبرکاته

دلاور حسین حجتی

۹ربیع الاول ۱۴۴۷ ھ۔

۵

حصۂ اول

تمہید

جب فقیہ کے سامنے کوئی روایت آئے اور وہ اس روایت سے کسی معین حکم کو استنباط کرنا چاہے تو اس پر مندرجہ ذیل امور کو انجام دینا لازم ہے:

الف: اس بات کو ثابت کرنا کہ اس معین حکم پر روایت دلالت کرتی ہے اور اس کا طریقہ استظہار ہے اور جب وہ اس روایت سے اس حکم پر دلالت کا استظہار کرےگا تو مذکورہ لحاظ سے مقصد تکمیل پا جائےگا۔

اور استظهار کا عمل ایک وجدانی عمل ہے جو عموماً کسی معین ضابطے کے تحت نہیں آسکتا۔

فقیہ عموماً استظهار کا دعویٰ کرنے اور اسے ثابت کرنے کا عمل فقہ میں اس وقت انجام دیتا ہے جب وہ حکم کے استنباط میں مصروف ہوتا ہے۔

ب۔دلالت کی حجّیت یا جسے اصطلاح میں حجّیتِ ظہور کہا جاتا ہے اسے ثابت کرنا۔

اور یہ وہ کام ہے جس کا اہتمام اصولی علمِ اصول کے مبحثِ حجج میں کرتا ہے۔

ج۔ خبرِ ثقہ کی حجّیت کو ثابت کرنا، ورنہ اس فرض کے بعد کہ روایت کا صادر ہونا یقینی نہیں ہے روایت کے صادر ہونے پر بنا رکھنا ممکن نہیں ہے۔

اور یہ وہ کام ہے جس کا اہتمام اصولی حجّیت خبر کی بحث میں انجام دیتا ہے۔

د۔ اس بات کو ثابت کرنا کہ یہ خبر ثقہ کی خبر ہے تاکہ خبرِ ثقہ کی حجّیت کے قاعدے کے مطابق اس کی حجّیت کا حکم جاری کرنا ممکن ہو۔

اس بات کو ثابت کرنے کے لیے سند کے راویوں کا مطالعہ ضروری ہے تاکہ معلوم ہو سکے کہ یہ اور وہ ثقہ ہے یا نہیں۔

در حقیقت ضروری ہے کہ پہلے تو اس بارے میں بحث کی جائے کہ حجّت فقط ثقہ کی خبر ہے یا اس کا دائرہ اس سے بڑھ کر ہے اور حسن یا ایسی ضعیف خبر بھی شامل ہے جس کے ضعف کا عملِ مشہور ذریعہ تدارک ہوا ہو یا۔۔۔

اور اگر حجت صرف خبرِ ثِقہ ہے تو راوی کی وثاقت ثابت کرنے کا طریقہ کیا ہے؟ کیا یہ طریقہ صرف شیخ طوسی ؒاور نجاشی ؒکی شہادت تک محدود ہے یا دیگر طریقے بھی ہیں، جیسے راوی کا سندِ کامل الزیارات یا تفسیرِ قمی میں آنا، یا اجلاء و اکابرین کا اس سے روایت کرنا، یا اس کا ایسی روایت کی سند میں ہونا جس میں بنی فضال کے بعض افراد شامل ہوں، یا ۔۔۔

اور اگر خبر کی سند ضعیف ہو تو کیا اسے درست کرنے کے لیے نظریۂ تعویض (تلافی و تدارک کا نظریہ) سے مدد لی جا سکتی ہے؟

یہ سوالات اور ان جیسے دیگر سوالات کے کچھ جوابات دینے کی ہم اس کتاب میں کوشش کریں گے تاکہ طالبِ علم جب استنباط کے مرحلے تک پہنچے اور اس میدان میں داخل ہونے کی کوشش کرے تو اس پہلو سے رکاوٹوں کو عبور کر سکے۔

اور طالبِ علم پر لازم ہے کہ جب وہ ان مباحث کا مطالعہ کرے، جن میں سے کچھ کا ہم یہاں جائزہ لیں گے، تو وہ خود غور و فکر کرے، اجتہاد کرے اور ان کی صحت و ضعف پر تدبّر کرے، اسے ہمارے یا کسی اور کے اس دعویٰ پر کہ یہ بات درست ہے، بھروسہ نہیں کرنا چاہیے، کیونکہ یہ میدان تقلید کا نہیں بلکہ اجتہاد کا ہے۔ تقلید کا میدان فقہ اور احکامِ فقہیہ ہے، نہ کہ رجالی مباحث۔

عملی تطبیق

اور ہم نے محسوس کیا ہے کہ رجالی مباحث کا محض بیان کرنا، بغیر ان میں عملی تطبیقات کے ساتھ شامل کیے، ایک ناکام معاملہ ہے، کیونکہ اس صورت میں طالبِ علم محض خالص نظری مباحث ہی میں الجھا رہتا ہے، جو اس کے لیے بیزاری اور اُکتاہٹ کا باعث بنتا ہے۔

اور ان میں سے اہم ترین مسئلہ جو اسے پیش آتا ہے وہ یہ ہے کہ وسائل الشیعہ سے احادیث کو کیسے نکالے اور سند کی صحت کو کیسے معلوم کرے۔

لہٰذا ہم وقتاً فوقتاً وسائل الشیعہ سے بعض احادیث نقل کریں گے اور ان کی سند کے مطالعے کا عملی طور پر اہتمام کریں گے۔

تطبیق (۱)

اور بطورِ مثال ہم درج ذیل مثال پیش کرتے ہیں تاکہ طالبِ علم کو یہ باور کرائیں کہ رجالی مباحث کو سمجھنا اور ان سے عملی طور پر استفادہ کرنا کس قدر ضروری ہے اور ان سے عملی طور پر کیسے فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے۔

وسائل الشیعہ، مقدمہ عبادات کے ابواب میں سے باب ۱۶ ح۱ میں جو کہا اس کی عبارت یہ ہے: " محمد بن يعقوب، انہوں نے محمد بن يحيى سے، انہوں نے أحمد بن محمد بن عيسى سے، انہوں نے علي ابن نعمان سے، انہوں نے أبو اسامہ سے، انہوں نے أبو عبد اللّه عليه السّلام سے کہ آپ علیہ السلام نے فرمایا ایک حدیث میں: تم لوگ اپنے نفسوں کی جانب سے تبلیغ کرنے والے بنو بغیر اپنی زبانوں کے، (بلکہ اپنے عمل و کردار کے ذریعے) اور زینت کا باعث بنو، بدنامی و شرمندگی کا باعث مت بنو " ۔

مذکورہ حدیث کو حر عاملی ؒنے شیخ کلینی ؒکی الکافی سے نقل کیا ہے سند کے شروع میں موجود قرینہ کی وجہ سے چونکہ انہوں نے اپنی سند کی ابتداء میں "محمد بن یعقوب" کہا ہے اور یہ کلینی ؒہیں۔

اور مذکورہ سند کی حالت جاننے کے لیے ہم اس کا اس طرح مطالعہ کریں گے۔

جہاں تک محمد بن یعقوب ؒکا تعلق ہے تو ان کے تعارف کی ضروری نہیں ہے، اور ہم اس کی وثاقت میں کوئی شک نہیں رکھتے، کیونکہ وہ ہمارے بڑے بزرگ علما میں سے ایک ہیں جنہیں مکتب جعفریہ فخر اور عزت کی نگاہ سے دیکھتا ہے۔ نجاشی ؒان کے بارے میں کہتے ہیں: "وہ اپنے زمانے میں ری (شہر) کے ہمارے علماء کے شیخ و بزرگ اور رہنما تھے، اور حدیث کے معاملہ میں لوگوں میں سب سے زیادہ معتبر اور مضبوط الثبت تھے " [ [۱] ] ۔

اور صرف نجاشی ؒیا شیخ طوسی ؒکی توثیق کافی ہے جیسا کہ پہلے بیان ہوا تھا اور دونوں کی توثیق کا یکجا ہونا ضروری نہیں ہے۔

اور جہاں تک محمد بن یحیی کا تعلق ہے تو یہ کلینی ؒکے شیخ و استاد ہیں اور انہوں نے ان کے حوالے سے کثرت سے روایات الکافی میں بیان کی ہے اور بہت بڑے ثقہ افراد میں سے تھے۔ ان کے بارے میں نجاشی ؒکہتے ہیں: "اپنے زمانے کے ہمارے علماء کے شیخ ثقہ، عین (انتہائی معتبر) کثرت سے حدیث بیان کرنے والے" [[۲] ] ۔

اور جہاں تک احمد بن محمد بن عیسی کا تعلق ہے تو اشعری قمی ہیں جو اپنے بلند مقام و مرتبے کی وجہ سے معروف ہیں۔

ان کے بارے میں نجاشی ؒنے کہا: "ابو جعفر رحمہ اللہ اہل قم کے شیخ اور ان کے نمایاں فرد اور ان کے بلا تردید فقیہ تھے۔ اور یہ قائد بھی تھے جو سلطان سے ملاقات کرتے تھے۔ اور ان کی امام رضا علیہ السلام سے ملاقات ہوئی تھی " [ [۳] ] ۔

اور جہاں تک علی بن نعمان کا تعلق ہے تو وہ جیسا کہ نجاشی ؒنے کہا ہے : " علی ایک ثقہ، نمایاں شخصیت کے حامل، ثابت، صحیح اور واضح طریق کے حامل تھے " [ [۴] ] ۔

اور جہاں تک ابو اسامہ کا تعلق ہے تو یہ زید الشحام ہیں – اور ہم نے یہ بات (کہ ابو اسامہ سے مراد زید الشحام ہے) اپنے رجالی مطالعے اور تحقیق کے ذریعے جانی ہے – اور جن کے پاس کافی مہارت یا تجربہ نہیں ہے، وہ اس معاملے کے لیے کنیت کے بیان سے مخصوص معجم رجال الحدیث کی طرف رجوع کریں تاکہ وہ اس کی اطلاع حاصل کر سکیں، کہ حصہ ۲۱ ص ۱۳ میں انہوں نے بیان کیا ہے کہ ابو اسامہ یہ وہی ابو اسامہ الشحام اور وہی زید الشحام ہے۔

اور جب ہم زید الشحام کے حالات کی طرف رجوع کرتے ہیں تو ہم دیکھتے ہیں کہ نجاشی ؒنے ان کی توثیق نہیں کی ہے اور فقط شیخ طوسی ؒنے ان کی توثیق یہ کہتے ہوئے کی ہے کہ : " زید الشحام جس کی کنیت ابو اسامہ تھی ثقہ ہے " [ [۵] ] ، اور یہ کافی ہے۔

اور اس سے یہ واضح ہو گیا کہ یہ روایت صحیح السند ہے چونکہ اس کے سند کے تمام راوی ثقہ ہیں۔

غلط فہمی

کچھ لوگ سابقہ تطبیق سے اس غلط فہمی میں مبتلا ہو سکتے ہیں کہ روایات کے اسناد کی صحت یا ناسازگاری کا جاننا ایک آسان مسئلہ ہے اور اس کے لیے کسی تحقیق یا مطالعہ کی ضرورت نہیں ہے، اور ایک ہی جملہ میں یہ کہنا ممکن ہے کہ: روایت اس وقت صحیح السند ہوتی ہے جب سند کے تمام راویوں کی وثاقت کی شیخ طوسی ؒیا نجاشی ؒنے گواہی دی ہو اور اگر ایسا نہ ہو تو وہ سند ضعیف ہے۔

لیکن یہ غلط فہمی ہے چونکہ وثاقت کا راستہ فقط شیخ ؒیا نجاشی ؒکی گواہی پر منحصر نہیں ہے بلکہ دیگر بہت سارے طریقے ہیں جن طریقوں کی صحت کی مقدار کا جائزہ لینا ضروری ہے، جس طرح سے اس مقام میں دیگر ایسی ابحاث بھی ہیں جن سے طالب علم بےنیاز نہیں ہو سکتا جیسا کہ یہ بات عنقریب واضح ہوگی۔

اور ایک نگاہ ابحاث کے اس طریقہ کار پر جنہیں ہم ان شاء اللہ تشکیل دیں گے، اور اس کتاب کی معلومات کی فہرست اس بات پر دلالت کرتی ہے جو ہم کہہ رہے ہیں۔

۶

فصل اول

اور فصل اول میں ہماری گفتگو تین نکات میں واقع ہوگی:

" پہلا نکتہ: راوی کی وثاقت ثابت کرنے کے طریقوں کے متعلق بحث۔

" دوسرا نکتہ: توثیقات عامہ کے متعلق بحث۔

" تیسرا نکتہ: رجالی کے قول کی حجّیت کے مدرک کے متعلق بحث۔

ہماری ابحاث کا اسلوب

ہم اپنے رجالی ابحاث کے بیان کے طریقے کو مندرجہ ذیل فصلوں میں ترتیب دیں گے:

" فصل اول: توثیق سے مربوط امور کے بارے میں بحث۔

" فصل دوم: حدیث کی اقسام کے بارے میں بحث۔

" فصل سوم: حدیث کی بعض کتابوں کے سلسلہ میں نظریات۔

" فصل چہارم: ہماری بعض رجالی کتابوں کے سلسلہ میں نظریات۔

پہلا نکتہ

راوی کی وثاقت ثابت کرنے کے طریقے

راوی کی وثاقت ثابت کرنےکے متعدد طریقے ہیں ہم ان میں سے بعض کا تذکرہ کرتے ہیں:

۱۔ معصوم علیہ السلام کی گواہی

جب معصوم علیہ السلام کسی شخص کی وثاقت کی گواہی دے تو اس طریقے سے اس شخص کی وثاقت ثابت ہو جاتی ہے اس میں کوئی اشکال نہیں ہے، جیسے جو بات زرارہ کے بارے میں وارد ہوئی ہے اس صحیح سلسلہ سند سے جس کا اختتام جمیل بن دراج پر ہوتا ہے کہ انہوں نے امام صادق علیہ السلام کے حوالے سے بیان کیا ہے کہ: متواضع و فروتن لوگوں کو جنت کی خوشخبری دو: برید بن معاویہ عجلی، ابو بصیر لیث بن بختری مرادی، محمد بن مسلم اور زرارہ یہ چار صاحبانِ فضل ہیں جو اللہ کے امانتدار ہیں اس کے حلال اور حرام پر۔ اگر یہ لوگ نہ ہوتے تو آثار نبوت ختم ہو جاتے اور نابود ہو جاتے [ [۶] ] ۔

ہاں یہ ضروری ہے کہ امام علیہ السلام کی طرف سے توثیق بیان کرنے والا راوی بذات خود وہی شخص نہ ہو جس کی امام علیہ السلام کی گواہی کے ذریعہ وثاقت ثابت کرنا مقصود ہو، ورنہ یہ دور سے زیادہ مشابہ ہو جائےگا۔

۲۔ بزرگ علماء میں سے کسی ایک کی وثاقت کی گواہی

نجاشی کے نام سے معروف شیخ ابو العباس احمد بن علی بن عباس ؒ– جو شیخ طوسی ؒکے ہم عصر تھے اور بعض دروس میں ان کے ساتھی تھے – نے اپنی مشہور کتاب " فہرست مصنفی الشیعۃ" تالیف کی اور اس میں ان افراد کو جمع کیا جنہوں نے کتاب تالیف کی ہے اور ساتھ ہی اکثر جگہوں پر اس صاحب کتاب کے ثقہ یا ضعیف ہونے کی طرف بھی اشارہ کیا ہے۔

اسی طرح سے شیخ طوسی ؒنے دو کتابیں تالیف کی جن میں سے ایک کا نام " الفہرست " ہے اور دوسرے کا نام " رجال الشیخ الطوسی" ہے۔ اور انہوں نے ان دونوں کتابوں میں بعض اوقات بعض راویوں کی توثیق یا تضعیف کا ذکر کیا ہے۔

اور اسی طرح سے کشی ؒکے نام سے معروف شیخ ابو عمرو محمد بن عمر بن عبد العزیر – انہیں شیخ کلینی ؒکے طبقہ میں شمار کیا جاتا ہے – نے اپنی مشہور کتاب "رجال الکشی" تالیف کی۔ اور انہوں نے اس میں بعض راویوں کے بارے میں وارد شدہ روایات کو جمع کرنے کا اہتمام کیا ہے، البتہ انہوں نے اکثر مقامات میں اور براہِ راست راویوں کی تضعیف اور توثیق کرنے سے اجتناب کیا ہے۔

ان تینوں بزرگواروں میں سے کسی ایک کا کسی معین راوی کی توثیق کرنا اس کی وثاقت ثابت کرنے کا ذریعہ ہے، اس کی دلیل یہ ہے کہ صاحبانِ عقل کی یہ سیرت و طریقہ ہے کہ تمام مقامات میں ثقہ کی خبر پر عمل کرتے ہیں اور ان مقامات میں سے ایک توثیق کا مقام بھی ہے، اور چونکہ اس سیرت کو (معصومین علیہم السلام کی جانب سے) ممنوع قرار دیا جانا ثابت نہیں ہے لہذا یہ شرعی طور پر امضاء شدہ تصوّر کی جائےگی [ [۷] ] ۔

اور ایک کی گواہی کافی ہے ایک سے زائد کی گواہی لازم نہیں ہے چونکہ مذکورہ سیرت ایک پر اکتفاء کرنے سے قائم ہو جاتی ہے۔

کیا ہمارے بعض متأخرین علماء کی توثیق – جیسے علامہ حلی ؒ، ابن طاوس ؒ، شہید ثانی ؒاور ابن داؤد ؒ– اس بات کا ذریعہ بن سکتی ہے؟ اس میں اختلاف ہے جس کا ہم ان شاء اللہ دوسرے حصے میں جائزہ لیں گے۔

۳۔ وثاقت پر اجماع

بعض ایسے راوی ہیں جن کی وثاقت کی نجاشی ؒاور دوسروں نے وضاحت نہیں کی ہے لیکن ان افراد میں سے ہیں جن کی روایت قابل قبول ہونے پر شیعوں کا اجماع ہونے کا کشی ؒنے دعوی کیا ہے۔

بطور مثال ابان بن عثمان جو ابان الاحمر کے نام سے معروف ہیں جن کی وثاقت کی گواہی نہ تو نجاشی ؒنے دی ہے اور نہ ہی کسی اور نے لیکن یہ امام صادق علیہ السلام کے ان چھ اصحاب میں سے ہیں جن کی تصدیق پر اجماع ہونے کا کشی ؒنے دعوی کیا ہے جیسا کہ انہوں نے کہا اپنی اس عبارت میں: " شیعہ علماء کا اجماع ہے اسے صحیح قرار دینے پر جسے یہ افراد صحیح قرار دیں اور اس بات کی تصدیق پر جسے یہ افراد بیان کریں اور شیعہ علماء نے ان کے فقه (علم و فقاہت) کو تسلیم کیا ہے: جمیل بن دراج، عبد اللہ بن بکیر، حماد بن عثمان، حماد بن عیسی اور ابان ابن عثمان " [ [۸] ] ۔

اور وثاقت کے اثبات کے لیے مذکورہ اجماع کی حجیت کو اس طرح واضح کیا جاتا ہے: اگر کشی ؒاپنے اجماع کے دعوی میں حق پر ہے اور واقعی وہاں وثاقت پر اجماع موجود ہے، تو یہی مطلوب ہے، اور اگر وہ اس سلسلہ میں حق تک نہیں پہنچ سکے ہیں، اور حقیقت میں اجماع کا وجود نہیں ہے تو ہمارے لیے وثاقت کے اثبات کے لیے کشی ؒکی ضمنی اور پوشیدہ گواہی کافی ہے، چونکہ ان کا ان چھ افراد کی وثاقت پر اجماع کا دعوی ان کی طرف سے ان افراد کی وثاقت کی گواہی کو اپنے اندر مضمر اور پوشیدہ کیے ہوئے ہے، اور وثاقت ثابت کرنے کے لیے یہ کافی ہے۔

۴۔ امام علیہ السلام کی طرف سے حاصل وکالت

وکالت کبھی عمومی نمائندگی کی سطح پر اور تمام شعبوں میں ہوتی ہے، اور کبھی کسی خاص شعبے تک محدود ہوتی ہے۔

پہلی وکالت وہ ہے جسے سفارت کہا جاتا ہے، اور اس کی وثاقت پر دلالت میں کوئی شک نہیں ہے بلکہ یہ تو اس سے بھی اعلیٰ مرتبے اور بلند مقام پر دلیل ہے۔

بحث فقط دوسری قسم کے وثاقت پر دلالت کے بارے میں ہے کہ فقہاء کی ایک جماعت جن میں سید خوئی قدّس سرہ بھی شامل ہیں، نے اس کا انکار کیا ہے یہ دلیل پیش کرتے ہوئے کہ ہم بہت سے ایسے وکلاء کا مشاہدہ کرتے ہیں کہ ائمہ علیہم السلام کی طرف سے ان کی مذمت صادر ہوئی ہیں۔ اور شیخ طوسی ؒنے اپنی کتاب " الغیبہ" میں " الوکلاء المذمومین" کے نام سے ایک خاص باب تشکیل دیا ہے [ [۹] ] ۔

اور صحیح یہ ہے کہ وکالت وثاقت کی دلیل ہے، کیونکہ سیرت عقلائیہ اس بات پر قائم ہے کہ صاحبِ عقل اپنے کسی بھی کام کو غیر قابلِ اعتماد شخص کو نہیں سونپتا، اور خاص طور پر امام علیہ السلام، کیونکہ غیر قابلِ اعتماد شخص امام کے مقام کے لیے کوئی ایسی بات منسوب کر سکتا ہے جس کا امام علیہ السلام سے کوئی تعلق نہ ہو، اور یہ بات بعض پہلوؤں سے نقصان دہ یا خطرناک ثابت ہو سکتی ہے۔

اور اگر کہا جائے کے ایسی صورت میں بعض وکلاء کے بارے میں صادر ہونے والی مذمت کی کیا تشریح کی جائےگی؟

تو جواب یہ ہے کہ: یہ مذمت ان کو وکیل بنا دیئے جانے کے بعد صادر ہوئی تھی نہ کہ اس سے پہلے۔

اور یہ بات مخفی نہیں ہے کہ اگر ہم وکیل ہونا ثقہ ہونے پر دلیل ہونے کی بات کو قبول کریں تو ہم ایسے متعدد راویوں کی وثاقت حاصل کر سکتے ہیں جنہیں مجہول اور ضعیف راویوں کی صف میں شمار کیا جاتا ہے، ہم ان کے درمیان میں سے علی بن حمزہ بطائنی کا تذکرہ کرتے ہیں، یہ امام کاظم علیہ السلام کے وکلاء اور آپ علیہ السلام کے اموال کے منتظمین میں سے تھا۔ بزرگ علماء کا اس کے بارے میں اختلاف ہے (کہ آیا یہ ثقہ تھا یا غیر ثقہ) تو اگر ہم اس بات کے قائل ہیں کہ وکالت وثاقت پر دلیل ہے تو اس بات کو بنیاد بنا کر اسے ثقہ قرار دینا ممکن ہو جائےگا اور ہم نتیجۃً ان روایات کے ایک بڑے مجموعے کو صحیح قرار دیں گے جن کی سند میں بطائنی ہے چونکہ بطائنی بہت ساری روایات کی اسناد میں واقع ہے۔

۵۔ ثقہ کی روایت

صاحب مستدرک میرزا حسین نوری ؒاس بات کے قائل ہیں کہ ثقہ جب کسی شخص سے روایت کرے تو یہ اس شخص کی وثاقت پر دلیل ہے۔

اور صحیح یہ ہے کہ یہ وثاقت پر دلیل نہیں ہے، کیونکہ کتنے ہی ثقہ راوی ایسے ہیں جو غیر ثقہ سے روایت کرتے ہیں۔ اور اگر ثقہ کی کسی شخص سے روایت کرنا اس شخص کی وثاقت پر دلیل ہوتی تو زیادہ تر بلکہ تمام کے تمام راویوں کا ثقہ ہونا لازم آتا چونکہ شیخ طوسی رحمہ اللہ ثقہ ہیں تو اگر وہ کسی شخص سے روایت کرے تو وہ شخص ثقہ ہو جائےگا، اور جب مذکورہ شخص تیسرے سے روایت کرےگا تو وہ بھی ثقہ ہو جائےگا، اور اسی طرح سے سلسلہ آگے بڑھےگا۔

ہاں! اگر بڑے بڑے جلیل القدر اور ثقہ راوی کسی شخص سے کثرت سے روایت کریں تو یہ اس کی وثاقت کی دلیل ہو یہ بعید نہیں ہے، کیونکہ کوئی عقلمند شخص کسی کی وثاقت پر یقین رکھے بغیر اس سے بکثرت روایت نہیں کرتا، ورنہ یہ اپنے وقت کو بلا وجہ ضائع کرنا قرار پائےگا، کیونکہ کمزور راویوں سے روایات جمع کرنے میں کوئی فائدہ نہیں ہے۔

اور اگر ہم اس رائے کو قبول کر لیں تو اس سے اہم نتائج برآمد ہوں گے جن میں سے ہم بطور مثال محمد بن اسماعیل کی توثیق کو بیان کرتے ہیں، چونکہ کلینی ؒنے " الکافی" میں محمد بن اسماعیل سے، انہوں نے فضل بن شاذان کے حوالے سے کثرت سے روایات بیان کی ہے جبکہ کہا گیا ہے کہ محمد بن اسماعیل مجہول الحال ہیں لہذا ان کی مذکورہ کثیر روایات اعتبار سے ساقط ہیں، جبکہ اگر ہم بیان شدہ نظریہ پر بنا رکھے تو محمد بن اسماعیل کی وثاقت کا حکم ممکن ہے چاہے ہم انہیں تفصیل کے ساتھ شناخت نہ کر سکتے ہو، اور اس طرح سے بہت بڑی تعداد میں روایات حجّیت کی سطح پر آ جائےگی۔

۶۔ شیخوخۃ الاجازہ

کسی شخص سے روایت اخذ کرنے کی متعدد صورتیں ہیں، کبھی شاگرد اس روایت کو استاد سے سنتا ہے، اور دوسری صورت میں استاد روایت کو شاگرد کے سامنے پڑھتا ہے، اور تیسری صورت میں استاد شاگرد کو اجازت دیتا ہے اس طرح سے کہ وہ اسے وہ کتاب دیتا ہے جس میں اس نے روایات درج کی ہے اور جس میں اس نے روایات کو جمع کیا ہوتا ہے اور اس سے کہتا ہے میں تمہیں اس کتاب میں موجود روایات کو میرے حوالے سے نقل کرنے کی اجازت دیتا ہوں۔

تیسری صورت کو اصطلاحی طور پر " تحمّل الروایۃ بنحو الاجازۃ" کہا جاتا ہے، اسی طرح سے اجازت صادر کرنے والے صاحب کتاب کو اصطلاحاً " شیخ الاجازۃ" کہا جاتا ہے۔

اس بارے میں اختلاف ہے کہ " شیخوخۃ الاجازہ" اثباتِ وثاقت کے لیے کافی ہے یا نہیں ؟

مذکور نکتہ پر بحث اہم ہے چونکہ بہت سی حدیثی اصول و بنیادی کتابیں جن سے " التھذیب" ، " الاستبصار" اور " من لا یحضرہ الفقیہ" کو تالیف کیا گیا ہے وہ شیخ صدوق اور شیخ طوسی قدّس سرھما تک ایسے افراد کے واسطے سے پہنچی ہیں جن کے حق میں کوئی توثیقِ خاص وارد نہیں ہوئی ہے، زیادہ سے زیادہ یہ ہے کہ یہ افراد " مشایخ الاجازہ" تھے جیسے احمد بن عبدون، احمد بن محمد بن حسن بن ولید اور احمد ابن محمد بن یحیی وغیرہ۔۔۔

متقدمین فقہاء کے نزدیک شاید معروف یہ تھا کہ وثاقت کو ثابت کرنے کے لیے مشایخ الاجازہ ہونا کافی ہے برخلاف دوسروں کے جن میں سید خوئی ؒبھی شامل ہیں ان کے نزدیک یہ کافی نہیں ہے۔

یہ کافی نہ ہونے پر یہ دلیل پیش کی جا سکتی ہے کہ اجازت کا فائدہ فقط یہ ہے کہ شیخ مفید ؒکو مثلاً اجازت کی وجہ سے یہ حق حاصل ہوا کہ وہ یہ کہے کہ مجھے احمد بن محمد بن حسن بن ولید نے خبر دی ان روایات کی جو اس کتاب میں موجود ہیں جس کی روایات بیان کرنے کی انہوں نے مجھے اجازت دی ہے اور گویا کہ انہوں نے ان سے روایت سنی تھی۔

اور جب ثقہ کا کسی شخص سے روایت سننا اور اس کے حوالے سے نقل کرنا اس شخص کی وثاقت پر دلیل نہیں ہے تو مشایخ الاجازہ ہونا بھی وثاقت پر دلیل نہیں ہے۔

۷

تطبیقات

تطبیق (۲)

حر عاملی ؒنے وسائل الشیعہ وضو کے ابواب میں سے باب ۱، حدیث ۱، میں کہا جس کی عبارت اس طرح سے ہے:

۱۔ " محمد بن الحسن باسناده عن الحسين بن سعيد عن حماد بن عيسى عن حريز عن زرارة عن أبي جعفر عليه السّلام قال: لا صلاة إلّا بطهور"

(محمد بن حسن نے اپنی اسناد سے حسین بن سعید سے، انہوں نے حماد بن عیسی سے، انہوں نے حریز سے، انہوں نے زرارہ سے، انہوں نے ابو جعفر علیہ السلام سے کہ فرمایا: کوئی نماز نہیں ہےمگر طہارت کے ساتھ)۔

مذکوہ سند کی حالت کو جاننے کے لیے ضروری ہے کہ سب سے پہلے حسین بن سعید تک شیخ طوسی ؒکی سند کی طرف رجوع کیا جائے، اور اس کا طریقہ یہ ہے کہ " مشیخۃ التھذیب ج۱۰ ص۶۳" کو ملاحظہ کیا جائے کہ انہوں نے کہا : " جس چیز کو میں نے اس کتاب میں حسین بن سعید کے حوالے سے بیان کیا ہے تو اس کی مجھے خبر شیخ ابو عبد اللہ محمد بن محمد بن نعمان [ [۱۰] ] اور حسین بن عبید اللہ اور احمد بن عبدون نے دی ہے اور ان تمام نے احمد بن محمد بن حسن بن ولید سے، انہوں نے اپنے والد محمد بن حسن بن ولید سے۔

اور اس کے علاوہ مجھے اس کی خبر دی ہے ابو الحسین بن ابی جید قمی نے، انہوں نے محمد بن حسن ابن ولید سے، انہوں نے حسین بن حسن بن ابان سے، انہوں نے حسین بن سعید سے " ۔

یہ روایت اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ حسین بن سعید کی طرف دو سلسلہ سند موجود ہیں جن دونوں کی انتہاء محمد بن حسن بن ولید پر ہوتی ہے۔ اور یہ دونوں:

الف: مفید، انہوں نے احمد سے، انہوں نے اپنے والد محمد بن حسن بن ولید سے۔

ب: ابن ابی جید، انہوں نے محمد بن حسن بن ولید سے۔

اور محمد بن حسن بن ولید نے نقل کیا ہے حسین بن حسن بن ابان سے، انہوں نے حسین بن سعید سے۔

دونوں سلسلہ سند قابل تأمل و غور ہے۔

جہاں تک پہلے سلسلہ سند کا تعلق ہے: تو احمد بن محمد بن حسن بن ولید کے لحاظ سے چونکہ ان کے حق میں توثیقِ خاص وارد نہیں ہوئی ہے۔

ہاں اس بات پر بنا رکھتے ہوئے کہ توثیق کو ثابت کرنے کے لیے شیخوخۃ الاجازہ ہونا کافی ہے مذکورہ لحاظ سے ان کی وثاقت کا حکم دیا جا سکتا ہے۔

اور جہاں تک دوسرے سلسلہ سند کا تعلق ہے: تو ابن ابی جید کے لحاظ سے چونکہ ان کے حق میں بھی توثیقِ خاص وارد نہیں ہوئی ہے۔

ہاں یہ بھی شیوخ الاجازہ میں سے اور نجاشی ؒکے شیخ ہیں تو تمام مشایخ الاجازہ کی وثاقت یا نجاشی ؒکے تمام مشایخ کی وثاقت پر بنا رکھتے ہوئے – اس بیان کے ساتھ جو ان شاء اللہ تعالی توثیقات عامہ کی بحث میں آئےگا – ان کی وثاقت ثابت ہو جائےگی۔

اور اگر ہم ان تمام باتوں سے چشم پوشی کریں تو حسین بن حسن ابن ابان کے لحاظ سے مشکل درپیش ہے چونکہ ان کی وثاقت ثابت نہیں ہے۔

خلاصہ یہ کہ اگر مذکورہ دونوں یا ان میں سے ایک سلسلہ سند کی صحت ثابت ہو جائے تو یہی مقصود ہے ورنہ ہم شیخ طوسی ؒکی " الفھرست" کی طرف رجوع کریں گے چونکہ اس میں اس سے زیادہ سلسلہ اسناد مذکور ہیں۔ پس ص ۵۸ میں ایک نیا سلسلہ اسناد مذکور ہے اور وہ یہ ہے: " ہمیں اس کی خبر دی ہمارے چند اصحاب (عدة من أصحابنا) نے، انہوں نے محمد بن علی بن حسین سے، انہوں نے اپنے والد اور محمد بن حسن اور محمد بن موسی بن متوکل سے، انہوں (یعنی ان تینوں) نے سعد ابن عبد اللہ اور حمیری سے، انہوں (یعنی ان دونوں) نے احمد بن محمد بن عیسی بن حسین بن سعید سے " ۔

مذکورہ سلسلہ سند صحیح ہے چونکہ " عدة من أصحابنا" کی اصطلاح کم از کم تین کی نمائندگی کرتی ہے اور ہمارے نزدیک یہ قبول کرنا ممکن نہیں ہے کہ شیخ ؒکے مشایخ میں سے تین افراد کذب پر یکجا ہو جائے۔

اور جہاں تک محمد بن علی بن حسین کا تعلق ہے تو یہ صدوق، ثقہ اور جلیل (القدر) ہیں۔

اور یہ تین افراد سے روایت کو نقل کر رہے ہیں وہ تین افراد: اپنے والد، محمد بن حسن اور محمد بن موسی بن متوکل سے اور ان تینوں میں سے ایک کی وثاقت ہمارے لیے کافی ہے، جبکہ اتفاقاً ان تینوں میں سے دو بہت بڑے ثقہ و قابلِ اعتماد شخصیات میں سے ہیں اور وہ دو میں سے ایک تو ان کے والد اور دوسرے محمد بن حسن بن ولید ہیں۔

اور جہاں تک سعد اور حمیری کا تعلق ہے تو یہ دونوں بھی بزرگ ثقہ افراد میں سے ہیں اگرچہ ان دونوں میں سے ایک کی وثاقت ہی ہمارے لیے کافی ہے۔

اور جہاں تک احمد بن محمد بن عیسی کا تعلق ہے تو پہلے بیان ہو چکا ہے کہ یہ اشعری ہیں جو ثقہ ہیں۔

اس سے جو نتیجہ حاصل ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ حسین بن سعید تک کے شیخ طوسی ؒکے سلسلہ سند کو صحیح قرار دینا ممکن ہے۔

اب یہ باقی رہتا ہے کہ ہم حسین بن سعید سے امام علیہ السلام تک کی سند میں موجود افراد کو ملاحظہ کریں۔

جہاں تک حسین بن سعید کا تعلق ہے تو یہ اہوازی اور کثیر کتابوں کے مؤلف ہیں۔ جن کے بارے میں شیخ ؒنے " الفھرست صفحہ ۵۸" میں کہا ہے کہ یہ ثقہ ہیں۔

اور جہاں تک حماد بن عیسی کا تعلق ہے تو ان کے بارے میں نجاشی ؒنے کہا ہے: " یہ اپنی حدیث میں ثقہ تھے اور انتہائی سچے " [ [۱۱] ] ۔

اور جہاں تک حریز کا تعلق ہے تو ان کے بارے میں شیخ ؒکہتے ہیں: " ثقہ ہیں کوفی ہیں " [ [۱۲] ] ۔

اور جہاں تک زرارہ کا تعلق ہے تو ہمارے لیے امام صادق علیہ السلام کی ان کے حق میں یہ تعریف ہی کافی ہے: " متواضع و فروتن لوگوں کو جنت کی خوشخبری دو: برید بن معاویہ عجلی، ابو بصیر لیث بن بختری مرادی، محمد بن مسلم اور زرارہ یہ چار صاحبانِ فضل ہیں جو اللہ کے امانتدار ہیں اس کے حلال اور حرام پر۔ اگر یہ لوگ نہ ہوتے تو آثار نبوت ختم ہو جاتے اور نابود ہو جاتے " [ [۱۳] ] ۔

۸

تمرینات

س ۱: فقیہ کو کسی مخصوص روایت سے حکم نکالنے کے لیے چار امور کو ثابت کرنا ضروری ہے۔ان کا ذکر کریں اور ہر ایک کی ضرورت کی وضاحت کریں۔

س ۲: کیا علمِ رجال کے مطالب میں تقلید جائز ہے؟ اور کیوں؟

س ۳: اگر کہا جائے کہ ہمیں " علمِ رجال " یا زیارہ بہتر ہے کہ کہے " قواعدِ رجالیہ" کے عنوان سے کسی علم کے سیکھنے کی ضرورت نہیں ہے بلکہ روایتوں کی اسناد کی پہچان کے لیے شیخ ؒاور نجاشی ؒکے بیانات ملاحظہ کرنا کافی ہے، تو جب یہ دونوں کسی سند کے راویوں کی توثیق کریں، تو ہم اس روایت کو صحیح قرار دیں گے، ورنہ نہیں۔ تو اس طرح کے کلام کو آپ کیسے رد کریں گے؟

س ۴: معصوم علیہ السلام کی گواہی کی ایک مثال ذکر کریں جس سے راوی کی وثاقت حاصل ہوتی ہو۔

س ۵: معصوم علیہ السلام کی گواہی وثاقت ثابت کرنے میں حجّت ہے ایک شرط کے ساتھ، آپ اس شرط کو ذکر کریں اور اس شرط کو قرار دیئے جانے کا سبب بیان کریں۔

س ۶: تین بزرگ رجالیوں کے نام ذکر کریں جن کی گواہی پر وثاقت کے لیے انحصار کیا جا سکتا ہے۔

س ۷: وثاقت کے لیے رجالی کا قول اور اس کی گواہی کی حجّیت کا سبب بیان کریں۔

س ۸: وثاقت کے لیے ایک شخص کی گواہی کافی ہے، متعدد کی ضرورت نہیں ہے، کیوں؟

س ۹: وثاقت کو ثابت کرنے کا ایک طریقہ وثاقت پر اجماع ہے۔ ایک مثال ذکر کریں جو اس بات کو واضح کرتی ہو۔

س ۱۰: ہم نے وثاقت پر اجماع کی حجیت کے لیے ایک تشریح بیان کی ہے۔ اس تشریح کو واضح کریں۔

س ۱۱: امام علیہ السلام کی جانب سے وکالت دو اقسام پر مشتمل ہے۔ ان دونوں کا فرق واضح کریں۔

س ۱۲: ان دو اقسام میں سے کون سی وکالت کی قسم وثاقت پر دلالت کے بارے میں بحث کا موضوع واقع ہوئی ہے؟

س ۱۳: کیا امام علیہ السلام کا کسی شخص کو وکیل بنانا آپ کی نگاہ میں اس کی وثاقت کی علامت ہے؟ اور کیوں؟

س ۱۴: اگر وکالت وثاقت کی دلیل ہے تو پھر بعض راویوں کے حق میں صادر ہونے والی مذمت کی ہم کیسے تشریح کریں گے؟

س ۱۵: اگر وکالت وثاقت پر دلالت کرتی ہے تو اس سے کچھ راویوں کی وثاقت ثابت ہو جائےگی۔ اس کی ایک مثال ذکر کریں۔

س ۱۶: کیا ایک ثقہ کا کسی شخص سے روایت کرنا آپ کی نگاہ میں اس شخص کی وثاقت پر دلیل ہے؟ اور کیوں؟

س ۱۷: کیا کسی شخص سے جلیل القدر ثقہ راویوں کا کثرت سے روایت کرنا آپ کی نگاہ میں اس شخص کی وثاقت پر دلیل ہے؟ اور کیوں؟

س ۱۸: اس بنیاد پر کہ کسی شخص سے مروی روایت کی کثرت اس کی وثاقت پر دلیل ہے، ہمیں اہم نتائج برآمد ہوں گے۔ اس کی ایک مثال ذکر کریں۔

س ۱۹: " اجازت " کے طریقے سے روایت کے تحمل سے کیا مراد ہے؟ اور " شیخ الاجازة" سے کیا مراد ہے؟

س ۲۰: اثباتِ وثاقت میں " شیخ الاجازہ" کافی ہونے کے بارے میں بحث کیوں اہم ہے؟

س ۲۱: کیا متقدمین علماء اثباتِ وثاقت میں " شیخ الاجازہ" ہونے کو کافی سمجھتے تھے؟

س ۲۲: اثباتِ وثاقت میں " شیخ الاجازہ" ہونا کافی نہ ہونے پر کیسے استدلال کیا جائےگا؟

س ۲۳: حر عاملی ؒنے جو حدیث بیان کی ہے وسائل الشیعہ، ابواب الوضو میں سے باب ۶ حدیث ۱،میں، وہ صحیح ہے؟ اس کی وضاحت کریں۔

۹

دوسرا نکتہ

توثیقاتِ عامہ

توثیق کا تعلق معین شخص یا معین اشخاص کے ساتھ ہو تو یہ توثیق خاص ہے، اور جب کلی عنوان کے ساتھ ہو تو یہ توثیق عام ہے۔

توثیق خاص کی مثال واضح ہے چونکہ شیخ ؒاور نجاشی ؒکی توثیقات عام طور سے خاص ہوتی ہے۔

توثیق عام کی مثال قمی ؒکی ان تمام افراد کی توثیق کرنا جن کے نام ان کی تفسیر میں ذکر ہوئے ہیں جیسا کہ عنقریب ہم واضح کریں گے۔

توثیقات عامہ کے لیے کثیر مثالیں ہیں ان میں سے ہم ذکر کرتے ہیں:

۱۔ تفسیر قمی کے راویوں کی توثیق

تفسیر قمی، قرآن کریم کی ایک روایتی تفسیر ہے جو حال ہی میں نجفِ اشرف میں دو جلدوں میں طبع ہوئی ہے۔ اس کے مؤلف علی بن ابراہیم قمی ؒہیں، جن کا انتقال ۲۱۷ ہجری میں ہوا۔ وہ شیخ کلینی ؒکے مشائخ میں سے ہیں اور کلینی ؒنے الکافی میں ان سے کثرت سے روایت کی ہے۔

مذکورہ کتاب میں ایک طویل مقدمہ ہے جس کے ضمن میں انہوں نے یہ عبارت بیان کی ہے:

" و نحن ذاكرون و مخبرون بما ينتهي الينا، و رواه مشايخنا و ثقاتنا عن الذين فرض اللّه طاعتهم و اوجب ولايتهم۔۔۔"

(ہم بیان کرنے والے اور اطلاع دینے والے ہیں ان باتوں کی جو ہم تک پہنچی ہیں، اور جنہیں ہمارے مشائخ اور ہمارے ثقہ افراد نے ان معززین (ع) سے روایت کیا ہے جن کی اطاعت اللہ نے فرض کی ہے اور جن کی ولایت اللہ نے واجب کی ہے۔۔۔)۔

اس عبارت سے بزرگ علماء کی ایک تعداد نے یہ معنی اخذ کیا ہے کہ مذکورہ کتاب کی روایات کی سند میں موجود تمام افراد ثقہ ہیں۔

اور ان بزرگ علماء میں سید خوئی ؒبھی شامل ہیں۔

اور اس امکان کو کہ قمی ؒکا مقصود فقط اپنے براہِ راست مشائخ کی توثیق ہو، سید خوئی قدّس سرہ نے یہ کہتے ہوئے رد کیا ہے کہ قمی ؒاپنی تفسیر کی صحت کو ثابت کرنا چاہتے ہیں، اور یہ نہ صرف براہِ راست مشائخ بلکہ اس میں موجود تمام راویان کی توثیق پر موقوف ہے۔

اس کی روشنی میں سید خوئی ؒنے حکم دیا ہے کہ تفسیر قمی میں مذکور تمام راوی ثقہ ہیں، سوائے ان کے جنہیں نجاشی ؒیا دیگر نے ضعیف قرار دیا ہو، ایسی صورت میں توثیق کا اعتبار باقی نہیں رہےگا کیونکہ توثیق کا اعتبار اس وقت تک ہی ہے جب تک اس کی مخالفت میں جرح وارد نہ ہوئی ہو جیسا کہ یہ بات واضح ہے۔

پھر مذکورہ توثیقِ عام حاصل ہونے کی بنیاد پر ۲۶۰ راوی ثقہ راویوں کی فہرست میں منتقل ہو جائیں گے جبکہ پہلے ان کا شمار مجہول راویوں میں ہوتا تھا۔

اور اس کا رد یہ ہے کہ: مذکورہ کتاب کا اصلی نسخہ ہمارے ہاتھ میں نہیں ہے، اور جو ہمارے ہاتھ میں رائج مطبوعہ نسخہ ہے اس کے بارے میں ہم یقین سے نہیں کہہ سکتے کہ یہ کامل طور پر تفسیر قمی ہے بلکہ بعض قرائن ایسے ہیں جو اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ اس میں تفسیر قمی اور دوسرے مواد کو مخلوط کر دیا گیا ہے، چونکہ اس میں متعدد مقامات پر اس طرح کی تعبیرات وارد ہوئی ہے: «رجع إلى تفسير علي بن إبراهيم» یا «رجع إلى رواية علي بن إبراهيم»یا «رجع الحديث إلى علي بن إبراهيم» یا ۔۔۔

اور ایسی صورت میں اس بات کا علم اجمالی حاصل ہوتا ہے کہ اس میں تفسیر قمی کے ساتھ دوسرے مواد کو مخلوط کیا گیا ہے، وہ بھی اس طرح سے کہ دونوں کو ایک دوسرے سے جدا کرنا ممکن نہیں ہے لہذا یہ پوری کتاب اعتبار سے ساقط ہو جاتی ہے۔

۲۔ کامل الزیارت کے راوی

کامل الزیارت ایسی کتاب ہے جس میں تمام زیارات کو تالیف کیا گیا ہے، اس کے مؤلف ثقلہ جلیل (القدر) جعفر بن محمد بن قولویہ ہیں جو ہمارے نمایا متقدمین علماء میں سے ہیں۔

اس شیخ جلیل ؒنے اپنی کتاب کا مختصر مقدمہ بیان کیا ہے جس کے ضمن میں انہوں نے یہ عبارت بیان کی ہے:

" و قد علمنا بانا لا يخيط بجميع ما روي عنهم في هذا المعنى و لا في غيره لكن ما وقع لنا من جهة الثقات من أصحابنا رحمهم اللّه برحمته و لا أخرجت فيه حديثا روي عن الشذاذ من الرجال"

(اور ہمیں معلوم ہے کہ ہم اس موضوع میں اور نہ ہی دوسرے موضوعات میں ان حضرات سے مروی تمام روایات پر احاطہ نہیں رکھتے، لیکن جو روایات ہمیں اپنے ثقہ اصحاب کی طرف سے پہنچی ہیں، اللہ ان پر اپنی رحمت نازل کرے، اور میں نے اس میں کوئی ایسی حدیث بیان نہیں کی جو شاذ راویوں سے مروی ہو)۔ اور اس عبارت سے صاحب وسائل ؒنے یہ سمجھا ہے کہ ابن قولویہ ؒاپنے بلا واسطہ اور بالواسطہ تمام مشائخ کی توثیق کر رہے ہیں۔ اور اس پر سید خوئی ؒنے بھی اپنے سابقہ موقف میں موافقت کی تھی، جہاں انہوں نے یہ رائے اختیار کی تھی کہ جس کسی کا نام مذکورہ کتاب کی اسناد میں آیا ہے وہ ثقہ ہے، سوائے اس کے کہ کسی دوسرے کی طرف سے اس کی تضعیف کی گئی ہو۔ یہ اسی کلی اصول کے مطابق ہے جو ہر توثیق میں لاگو ہوتا ہے، یعنی توثیق کو اسی وقت قبول کیا جاتا ہے جب اس کے خلاف تضعیف موجود نہ ہو۔ اس نظریہ کی بنیاد پر ۳۸۸ راویوں کی وثاقت ثابت ہو جائےگی۔

اور اس کا رد: سابقہ عبارت سے جو بات طے شدہ ہے وہ یہ ہے کہ ابن قولویہ ؒفقط ان افراد کی توثیق کر رہے ہیں جن سے انہوں نے براہِ راست روایت بیان کی ہے نہ کہ تمام کی جیسا کہ اسی بات کو خود سید خوئی ؒنے قبول کیا ہے جب انہوں نے اپنی عمر شریف کے آخری حصہ میں اپنی سابقہ رائے سے رجوع کیا تھا۔

۳۔ مشایخ نجاشی

برزگ فقہاء کی ایک تعداد نجاشی ؒکے تمام مشایخ کی وثاقت کی قائل ہیں چونکہ انہوں نے متعدد افراد کے جو حالات بیان کیے ہے اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ غیر ثقہ سے روایت نہ کرنے کے پابند تھے۔

پس انہوں نے جوہری کے حالات میں بیان کیا ہے: " میں نے اس شیخ کو دیکھا ہے، اور وہ میرا اور میرے والد کا دوست تھا اور میں نے اس سے بہت سی باتیں سنی تھیں، لیکن میں نے دیکھا کہ ہمارے مشائخ اسے ضعیف قرار دیتے ہیں، لہٰذا میں نے اس سے کوئی روایت بیان نہیں کی اور اس سے اجتناب کیا۔۔۔ " ۔

اور ابن بھلول کے حالات میں وہ کہتے ہیں : " وہ اپنے ابتدائی دور میں ثابت (قابلِ اعتماد) تھا، پھر اس میں خلل پیدا ہو گیا، اور میں نے دیکھا کہ ہمارے اکثر اصحاب اس پر طعن کرتے اور اسے ضعیف قرار دیتے ہیں۔۔۔ میں نے اس شیخ کو دیکھا تھا اور اس سے بہت کچھ سنا تھا، پھر میں نے اس سے براہِ راست روایت کرنے سے توقف کیا، سوائے اس کے کہ میرے اور اس کے درمیان کوئی واسطہ ہو " ۔

اور اگر کہا جائے کہ: نجاشی ؒکے مشائخ کی وثاقت ثابت ہونے کا کیا فائدہ ہے جبکہ اس کی کوئی روایتی کتاب ہی موجود نہیں ہے۔

تو جواب یہ ہے کہ: فائدہ " التھذیب" اور " الاستبصار" کی روایات کے لحاظ سے ظاہر ہوگا چونکہ شیخ طوسی ؒنے بیان کیا ہے کہ اصحاب کے جملہ اصول و بنیادی کتابیں ان تک احمد بن عبدون یا ابن ابی جید کے توسّط سے پہنچی ہیں، اور یہ دونوں کے حق میں کسی قسم کی توثیقِ خاص وارد نہیں ہوئی ہے لیکن یہ دونوں نجاشی ؒکے مشائخ میں سے ہیں، لہذا نجاشی ؒکے مشائخ کی وثاقت ثابت ہونے کی صورت میں ان دونوں کی وثاقت بھی ثابت ہو جائےگی اور ان دونوں کے توسّط سے پہنچے والی روایات حجّت ہو جائےگی۔

۴۔ سند میں بنو فضال کا واقع ہونا

بنو فضال – یہ حسن بن علی بن فضّال، احمد بن حسن بن علی ابن فضّال اور علی بن حسن بن علی بن فضّال ہیں – یہ فطحیوں کا ایک گروہ ہیں۔

فطحی وہ فرقہ ہے جو امام صادق علیہ السلام کے فرزند عبد اللہ افطح کی امامت کے قائل ہیں۔

ان لوگوں کی احادیث کے کثیر ہونے اور ان کے عقیدے کے فاسد ہونے کی وجہ سے بعض شیعوں نے امام عسکری علیہ السلام سے ان احادیث کے بارے میں کیا موقف اختیار کرنا چاہیے اس کے متعلق سوال کیا تو آپ علیہ السلام نے جواب میں ارشاد فرمایا: " جو انہوں نے روایت کیا ہے اسے لے لو اور جو انہوں نے رائے دی ہے اسے چھوڑ دو " [ [۱۴] ] ۔

اور اس روایت کی وجہ سے بزرگ فقہاء کی ایک بڑی تعداد کہ جن میں شیخ انصاری ؒبھی شامل ہیں اس بات کی قائل ہیں کہ جب کسی روایت کی سند میں بنو فضال واقع ہوئے ہو تو وہ روایت حجّت ہے اور اس پر عمل کیا جائےگا یہاں تک کہ اس صورت میں بھی جب بنو فضال اور امام علیہ السلام کے درمیان بعض ضعیف راوی بھی موجود ہو۔

اور اس رائے کو بہت سے بزرگ علما نے مسترد کیا ہے، اس دعوے کے ساتھ کہ اس روایت کا مقصود یہ بیان کرنا ہے کہ عقیدے کا بگاڑ روایت لینے میں مانع نہیں ہے۔ لہٰذا یہ روایت صرف بنی فضّال کی طرف سے روایت لینے میں کسی ممانعت کے نہ ہونے کو بیان کرنے کے سلسلہ میں ہے، اس سے زیادہ کچھ نہیں۔

۵۔ تین اکابرین میں سے ایک کی روایت

کہا گیا ہے کہ تین بزرگوار – محمد بن ابی عمیر، صفوان اور بزنطی – جب کسی شخص سے روایت کرے تو یہ اس شخص کی وثاقت پر دلیل ہے۔

اس کی بنیاد شیخ طوسی ؒکی اپنی کتاب " عدۃ الاصول" کی یہ عبارت ہے :

" سوّت الطائفة بين ما يرويه محمد بن أبي عمير و صفوان بن يحيى و أحمد بن محمد ابن أبي نصر و غيرهم من الثقات الذين عرفوا بانهم لا يروون و لا يرسلون إلّا عمن يوثق به و بين ما اسنده غيرهم"

(گروہِ امامیہ نے محمد بن ابی عمیر، صفوان بن یحییٰ، احمد بن محمد بن ابی نصر اور دیگر ایسے ثقہ راویوں، جو اس بات سے معروف ہیں کہ وہ روایت اور ارسال صرف قابلِ اعتماد افراد سے ہی کرتے ہیں، ان کی مروی احادیث اور دوسروں کی مسند روایات کے درمیان برابری قائم کی ہے)۔

اور اسی وجہ سے مشہور نے کہا ہے کہ ابن ابی عمیر – اور اسی طرح سے صفوان اور بزنطی – کی مرسل روایات ان کی مسند روایات کی طرح سے ہیں۔

اور سیّد خوئی ؒنے اس بیان کردہ رائے کو رد کر دیا ہے – باوجود اس کے کہ یہ مشہور رائے ہے– اس دلیل کے ساتھ کہ ان (تین راویوں) کا صرف ثقہ افراد سے روایت کرنا ایک ایسی بات ہے جس کا علم صرف انہی تین افراد کی جانب سے ہو سکتا ہے، اور انہوں نے خود اس بات کی صراحت نہیں کی ہے، چونکہ اگر انہوں نے ایسا کہا ہوتا تو ان سے یہ نقل کیا جاتا کہ " ہم صرف ثقہ افراد سے ہی روایت کرتے ہیں " ۔

اور اس بنا پر لازم آتا ہے کہ شیخ (طوسی) کی اصحاب کی جانب تسویہ (یعنی برابری) کی نسبت ان کے حدس و اجتہاد پر مبنی ہے، نہ کہ ان کے حس (مشاہدہ یا سماع) پر۔

اور اس بات کی تائید اس بات سے بھی ہوتی ہے کہ متقدمین علماء میں سوائے شیخ طوسی ؒکے کسی اور کے یہاں یہ دعویٰ معروف نہیں ہے، اور متقدمین کے کلام میں اس (دعویٰ) کا کوئی نشان اور اثر موجود نہیں ہے۔

دیگر توثیقات عامہ

توثیقات عامہ ہم نے بیان کیا انہیں میں منحصر نہیں ہیں بلکہ دیگر مثالیں بھی ہیں جنہیں ہم طوالت کے خوف سے بیان نہیں کر رہے ہیں۔

۱۰

تیسرا نکتہ

رجالی کے قول کی حجّیت کا مدرک

گذشتہ بحث میں ہم جان چکے ہیں کہ وثاقت کو ثابت کرنے کے لیے متعدد طریقے موجود ہیں اور ان میں سب سے عمدہ رجالی کی توثیق ہے۔

اس بحث میں ہم رجالی کے قول کی حجّیت کے مدرک کو جانیں گے۔ اور ذیل میں ہم درج ذیل پہلوؤں کا ذکر کریں گے:

۱۔ یہ بات شہادت کے باب سے ہے، جیسا کہ قاضی کے سامنے جب خبر دی جاتی ہے کہ فلاں مکان زید کا ہے تو یہ گواہی شمار ہوتی ہے اور جس طرح اس کی حجّیت کا تعلق شہادت کی حجّیت کے باب سے ہے اسی طرح سے رجالی کا کسی راوی کی وثاقت کی خبر دینا یہ ایک شہادت ہے اور اس کی حجّیت کا تعلق شہادت کی حجّیت کے باب سے قرار پائےگا۔

اور اس پر یہ اشکال وارد کیا گیا ہے: اس عنوان کا لازمہ یہ ہے کہ نجاشی ؒاور شیخ طوسی ؒجیسی شخصیات کی جانب سے دی گئی وثاقت کی گواہی کو قبول نہ کیا جائے چونکہ گواہ کی گواہی کو قبول کرنے کے لیے شرط ہے کہ وہ زند ہو، مردہ نہ ہو۔

جس طرح سے ان دونوں میں سے ہر ایک کی گواہی کو اس وقت قبول نہ کرنا لازم آئےگا جب فقط ایک کی گواہی ہو اور دوسرے کی نہ ہو چونکہ گواہی قبول کرنے میں گواہ کا متعدد ہونا اور کم از کم دو ہونا ہے شرط ہے۔

اور جس طرح سے یہ بھی لازم آئےگا کہ امامی شیعہ اثنا عشری کے علاوہ کی توثیق کو قبول نہ کیا جائے چونکہ گواہ کی گواہی قبول کرنے میں اس کا عادل ہونا شرط ہے، اس کا ثقہ ہونا کافی نہیں ہے۔ اور اس بنا پر لازم آئےگا کہ بنی فضّال کی ان توثیقات کو رد کیا جائے جن میں سے بعض کو کشّی ؒنے نقل کیا ہے چونکہ بنو فضّال فطحی تھے۔ جبکہ یہ بات بعید ہے۔

۲۔ یہ اہل خبرہ کے قول کی حجّیت کے باب و عنوان سے ہے، جس طرح سے چیزوں کی قیمت کا تعین کرنے والے دلال کا قول حجّت ہوتا ہے چونکہ وہ اہل خبرہ ہیں تو اسی طرح سے بطور مثال نجاشی ؒکا راویوں کی وثاقت کے بارے میں خبر دینا مذکورہ لحاظ سے حجّت ہے۔

۳۔ یہ ثقہ کی خبر کی حجّیت کے باب و عنوان سے ہے، چونکہ صاحبانِ عقل کا یہ طریقہ ہے کہ وہ تمام امور میں ثقہ کی خبر سے وابستہ ہوتے ہیں۔ اور یہ اس وقت تک حجّت ہے جب تک کسی خاص مقام کے متعلق منع ثابت نہ ہو، جیسا کہ زنا کا مسئلہ ہے کہ دلیل اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ یہ چار گواہ کے بغیر ثابت نہیں ہوتا ، اور جس طرح سے چوری کا معاملہ ہے کہ دلیل اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ بغیر دو گواہیوں کے چوری ثابت نہیں ہوتی۔

اس نطریہ کی بنیاد پر جس شخص کو ثقہ قرار دیا گیا ہو اس میں عدالت شرط نہیں ہے بلکہ یہی کافی ہے کہ وہ قابلِ اعتماد ہو اور جھوٹ سے پرہیز کرنے والا ہو۔ جس طرح سے اس میں متعدد و ایک سے زیادہ ہونا بھی شرط نہیں ہے بلکہ ایک کا خبر دینا کافی ہے۔ جس طرح سے اس کا زندہ ہونا بھی شرط نہیں ہے بلکہ اپنی زندگی میں اس کا خبر دینا کافی ہے چونکہ مرنے کے بعد بھی اس کی حجّیت برقرار رہتی ہے۔

یہ سب اس لحاظ سے ہے کہ عقلا کی سیرت اس بات پر قائم ہے کہ وہ تمام مذکورہ حالتوں میں خبرِ ثِقہ سے وابستہ ہوتے ہیں۔

تطبیقات

تطبیق (۳)

صاحب وسائل ؒنے " وسائل الشیعہ ابوابِ وضو میں سے پہلے باب کی حدیث ۲ " میں کہا، جس کی عبارت یہ ہے:

" و عنه عن حماد عن حريز عن زرارة عن أبي جعفر عليه السّلام في حديث قال: يا زرارة الوضوء فريضة"

(اور ان سے، انہوں نے حماد سے، انہوں نے حریز سے، انہوں نے زرارہ سے، انہوں نے ابو جعفر علیہ السلام سے ایک حدیث میں، فرمایا:اے زرارہ وضو فریضہ ہے)۔

اس حدیث کو حر عاملی ؒنے شیخ طوسی ؒسے نقل کیا ہے، اس بات پر قرینہ یہ ہے کہ اس حدیث سے پہلے جو حدیث تھی حر عاملی ؒنے اس کی ابتداء محمد بن حسن طوسی ؒسے کی تھی، اور اس حدیث کی ابتداء میں کلینی ؒیا کسی اور کے نام کا ذکر نہیں کیا ہے جو اس بات پر دلیل ہے کہ ان کا شیخ طوسی ؒسے نقل کرنے کا سلسلہ جاری ہے۔

اور " عنہ " کے لفظ میں جو ضمیر ہے اس کا مرجع حسین بن سعید ہے نہ کہ محمد بن حسن۔ مقصود یہ ہے کہ محمد بن حسن اس دوسری حدیث کو بھی حسین بن سعید سے نقل کر رہے ہیں۔

اس بات کو جاننے کے لیے کہ مذکورہ حدیث کی سند صحیح ہے یا نہیں ضروری ہے کہ حسین بن سعید تک کی شیخ ؒکی سند کو دیکھا جائے اور حسین کے بعد کے اس سند کے باقی افراد کو دیکھا جائے یہاں تک کہ سلسلہ امام علیہ السلام تک پہنچے۔ اور یہ ساری باتیں تطبیق ۲ میں گذر چکی ہے۔

" " "

اور حرّ عاملی ؒنے سابقہ عنوان کی حدیث ۳ میں کہا جس کی عبارت یہ ہے:

" و بالاسناد عن زرارة قال سألت أبا جعفر عليه السّلام عن الفرض في الصلاة فقال: الوقت و الطهور و القبلة و التوجه و الركوع و السجود و الدعاء"

(اور اسناد کے ساتھ زرارہ سے، کہا میں نے ابو جعفر علیہ السلام سے نماز میں فرض کے متعلق سوال کیا تو آپ علیہ السلام نے فرمایا: وقت، طہارت، قبلہ، توجہ، رکوع، سجود اور دعا)۔

اس حدیث کو بھی حرّ عاملی ؒنے شیخ طوسی ؒسے نقل کیا ہے چونکہ انہوں نے اس کی ابتداء میں کسی اور کے نام کا ذکر نہیں کیا ہے۔

اور " و بالاسناد " ساتھ سے مراد ہے کہ سابقہ حدیث میں پہلے بیان شدہ اسناد کے ساتھ، یعنی اس حدیث کو شیخ طوسی ؒحسین بن سعید سے اور انہوں نے حماد سے اور انہوں نے حریز سے اور انہوں نے زرارہ سے نقل کیا ہے۔

۱۱

تمرينات

س ۱: توثیق کی دو اقسام ہیں: خاص اور عام۔ ان دونوں کے درمیان فرق مثال کے ساتھ واضح کریں۔

س ۲: تفسیر قمّی کے مؤلف کون ہیں؟

س ۳: سید خوئی ؒکی تفسیر قمّی کے راویوں کے بارے میں کیا رائے ہے؟ ساتھ میں اس کی بنیاد بھی بیان کریں۔

س ۴: کس طرح اس امکان کو رد کیا گیا ہے کہ قمّی کا مقصد صرف اُن کے خاص ان مشایخ کی توثیق ہے جن سے انہوں نے براہِ راست روایت کی ہے؟

س ۵: تفسیر قمّی کے تمام راوی ثقہ ہیں اس نظریہ پر آپ کیسے اشکال کریں گے؟

س ۶: " کامل الزيارة " کتاب کے مؤلف کون ہیں؟ اور اس کتاب کو اس نام سے کیوں موسوم کیا گیا؟ اس کتاب کے متعلق کیا رائے ہے؟

س ۷: راویانِ " کامل الزيارة " کی وثاقت کے حکم کی کیا بنیاد ہے؟

س ۸: " کامل الزيارة" کے تمام راوی ثقہ ہیں اس نظریہ پر آپ کیسے اشکال کریں گے؟

س ۹: نجاشی ؒکے مشایخ کے متعلق ایک نطریہ ہے۔ اسے واضح کریں اور اس کی بنیاد بیان کریں۔

س ۱۰: نجاشی ؒکی کوئی روائی کتاب نہیں ہے تو نجاشی ؒکے تمام مشایخ کی وثاقت کا دعویٰ کرنے کا کیا فائدہ ہے؟

س ۱۱: بنو فضّال کون تھے؟

س۱۲: ایک نظریہ ہے کہ اگر بنو فضّال میں سے کوئی شخص کسی روایت کے سند میں موجود ہو تو وہ روایت مقبول ہے۔ اس رائے کی وضاحت کریں اور اس کی بنیاد بیان کریں۔

س۱۳: بنو فضّال سے متعلق پیش کردہ نظریہ پر کس طرح سے اشکال کیا جائےگا؟

س۱۴: " تین اکابرین میں سے ایک کی روایت " کا کیا مطلب ہے؟ اور اس سے متعلق کیا رائے ہے؟

س ۱۵: سید خوئی ؒنے " تین اکابرین " کے متعلق رائے کیوں مسترد کی ہے؟

س ۱۶: رجالی کے قول کی حجیت کے مدارک بیان کریں۔

س ۱۷: رجالی کے قول کی حجیت کے پہلے مدرک پر کیا اعتراض ہے؟

س۱۸: کیا آپ کی نگاہ میں وسائل الشیعہ کے ابوابِ وضو کے باب ۱۲ کی حدیث ۱ کی سند صحیح ہے؟ اس کی وضاحت کریں۔

فصل دوم: حدیث کی اقسام کے متعلق

حدیث کو چار اقسام میں تقسیم [۱۵] کیا گیا ہے:-

۱۔ صحیح: جس کے تمام راوی عادل اور امامی ہو۔

۲۔ موثق: جس کے تمام یا بعض راوی غیر امامی ہو لیکن ان کی توثیق ہوئی ہو۔

۳۔ حسن: جس کے تمام یا بعض راوی امامی ہو لیکن عادل نہ ہو بلکہ صرف ممدوح ہو۔

۴۔ ضعیف: جو ان تین اقسام میں سے نہ ہو، اس طرح سے کہ اس کے راوی مجہول ہو یا انہیں ضعیف قرار دیا گیا ہو۔

اور اخباریوں نے اس چہار گانہ تقسیم کی مذمت کی ہے اور اس تقسیم کی ایجاد کی جن کی طرف نسبت ہے یعنی علامہ حلی ؒپر اعتراض کیا ہے۔

اور اخباریوں کے اس تقسیم کو رد کرنے کی وجہ یہ ہے کہ ان کی نگاہ میں کتب اربعہ کی تمام روایات صحیح ہیں اور ان پر عمل کرنا واجب ہے۔ اور حر عاملی ؒنے اپنی کتاب وسائل میں اس – یعنی کتب اربعہ میں موجود تمام روایات کے صحیح ہونے – پر قرائن جمع کیے ہے جن کی تعداد ۲۲ ہیں [ [۱۶] ] ۔

ان قدّس سرہ نے کہا: " اور اس سے حدیث کی صحیح، حسن، موثق اور ضعیف کی تقسیم پر مبنی جدید اصطلاح کا ضعف ظاہر ہو جاتا ہے جو اصطلاح علامہ ؒاور ان کے استاد احمد ابن طاووس ؒکے زمانہ میں نئی نئی وجود میں آئی تھی۔

اور اس دعوے پر مختصر طور پر تبصرہ ان شاء اللہ تیسری فصل میں آئےگا۔

روایات کی ان چار اقسام سے مربوط چند ابحاث ہیں جنہیں ہم چند نکات کے ضمن میں بیان کرتے ہیں۔

صحیح حدیث کے خلاف شہرت

۱۔ جب روایت صحیح السند ہو تو اس کی حجّیت معروف ہے، لیکن بحث اس وقت واقع ہوتی ہے جب شہرتِ فتوائیہ اس صحیح روایت کے برخلاف ہو، تو کیا یہ بات اس روایت کی حجّیت کو ساقط کر دےگی یا نہیں؟

مشہور یہ ہے کہ ایسی صورت میں یہ روایت اعتبار سے ساقط ہو جائےگی سوائے سید خوئی ؒکے جنہوں نے ساقط نہ ہونے کے نظریہ کو اپنایا ہے بعد اس کے کہ (پہلے) وہ ساقط ہونے کے مشہور کے نظریہ کے موافق تھے [ [۱۷] ] ۔

ساقط ہونے کے نظریہ کی یہ تشریح کی جا سکتی ہے کہ ہمارے بزرگ علماء کے سابقہ طبقے نے جب اس روایت کو نظر انداز کیا ہے تو اس سے آشکار ہوتا ہے کہ اس روایت میں بعض لحاظ سے خلل موجود تھا ورنہ وہ کیوں اس روایت کو نظر انداز کرتے۔

ہاں، یہ لازم ہے کہ ان کا اس روایت کو نظر انداز کرنا ان کے اپنے نظریہ اور اجتہاد پر عمل کے نتیجہ میں نہ ہو چونکہ ان کا اجتہاد ان پر حجّت ہے نہ کہ ہم پر۔

لیکن اس کے بعد مسئلہ یہ باقی رہتا ہے کہ ہم یہ کیسے ثابت کریں کہ متقدمین نے اس روایت کو نظر انداز کیا تھا جبکہ ان میں سے کثیر کے بیانایت ہمیں دستیاب نہیں ہیں۔

ثقہ یا عادل کی خبر

۲۔ فقہا؍ کے درمیان یہ مشہور ہے کہ حجّت فقط عادل کی خبر نہیں ہے بلکہ ثقہ کی خبر بھی حجّت ہے۔

ثقہ کی خبر کی حجّیت اور عدالت شرط نہ ہونے کی وجہ یہ ہے کہ سیرتِ عقلائیہ ثقہ کی خبر پر عمل کے بارے میں اسی انداز سے قائم ہے جس طرح سے عادل کی خبر پر عمل کے بارے میں قائم ہے۔ اور چونکہ مذکورہ سیرت سے منع نہیں کیا گیا، اس لیے یہ حجت ہے۔

اور اگر کہا جائے کہ آیتِ نبأ ثقہ کی خبر پر عمل کو ممنوع قرار دیتی ہے اگر وہ ثقہ عادل نہ ہو چونکہ آیت کہتی ہے: اگر تمہارے پاس فاسق کوئی خبر لے کر آئے تو تحقیق کرو، اور ثقہ جب عادل نہ ہو تو وہ فاسق ہے تو اس کی خبر کی تحقیق ضروری ہے اور اس کا مطلب ہے کہ حجّیت نہیں ہے۔

ہم جواب دیں گے کہ اس آیتِ کریمہ میں فاسق سے مراد ایسا شخص ہے جو جھوٹ سے پرہیز نہ کرتا ہو، فاسق سے ایسا شخص مراد نہیں ہے جو عادل کے مقابل ہو، چونکہ دو قرینے موجود ہیں:

الف: حکم اور موضوع کی مناسبت چونکہ عدمِ حجّیت کے حکم سے جو بات مناسب ہے وہ ایسے شخص کی خبر ہے جو جھوٹ سے پرہیز نہ کرتا ہو نہ کہ ایسے شخص کی خبر جو جھوٹ سے پرہیز کرتا ہے لیکن کبھی بعض دیگر گناہوں کا مرتکب ہو جاتا ہو۔

ب۔ آیتِ کریمہ کے آخر میں جو ندامت (پشیمانی) کی علت مذکور ہے، اس وقت وجود میں آتی ہے جب جھوٹ سے پرہیز نہ کرنے والے (غیر متحرز عن الکذب) کی خبر پر عمل کیا جائے، اور یہ علت اُس شخص کو شامل نہیں کرتی جو جھوٹ سے پرہیز کرتا ہو۔

ثقہ کی خبر یا قابلِ اعتماد خبر

۳۔ اس بنا پر کہ حجّت ثقہ کی خبر ہے کیا ثقہ کی خبر کا حجّت ہونا مطلق طور پر ہے یا اس بات سے مشروط ہے کہ اس خبر پر اعتماد اور اطمینان حاصل ہو۔

کہا جا سکتا ہے کہ (خبر کے حجت ہونے کے لیے) اعتماد پیدا ہونا شرط ہے، کیونکہ آیتِ نبأ کے آخر میں ذکر کردہ ندامت (پشیمانی) کا خوف، اس وقت تک باقی رہتا ہے جب تک خبر پر اطمینان حاصل نہ ہو۔

لیکن صحیح نظریہ یہ ہے کہ اطمینان شرط نہیں ہے چونکہ عبد العزیز بن مہتدی اور حسن بن علی بن یقطین کی امام رضا علیہ السلام سے یہ روایت موجود ہے کہ " میں نے عرض کی: اپنے جن دینی امور کی مجھے ضرورت پیش آتی ہیں ان میں سے ہر ایک کے لیے آپ (ع) سے سوال کرنے کے لیے آپ (ع) تک پہنچنا میرے لیے مشکل ہوتا ہے تو کیا یونس بن عبد الرحمن ثقہ ہیں کہ میں ان سے اپنے دینی امور میں سے جس چیز کا محتاج ہوں اسے اس سے حاصل کروں تو آپ علیہ السلام نے فرمایا: ہاں " [ [۱۸] ] ۔ چونکہ یہ روایت اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ سوال کرنے والے کے ذہن میں راوی کی وثاقت کا کافی ہونا مرتکز و طے شدہ تھا، اور امام علیہ السلام نے بھی اس بات کی تائید فرمائی ہے " ۔

خبرِ حسن

۴۔ کیا حسن روایت حجّت ہے؟ شیخ نائینی اور سید خوئی قدّس سرھما اس کی حجّیت کے قائل ہیں۔

اور مصباح الأصول میں انہوں نے اس بات پر سیرتِ عقلائیہ سے استدلال کیا ہے، اس دعوے کے ساتھ کہ عقلاء کا طرزِ عمل اس پر قائم ہے کہ اگر مولا (مالک) کا کوئی حکم اس کے بندے تک ایسے امامی راوی کے ذریعے پہنچے جو قابلِ تعریف (ممدوح) ہو، اور جس کا نہ فسق ظاہر ہو اور نہ عدالت، تو بھی اس پر عمل کیا جاتا ہے، اسی طرح جس طرح سے سیرت اس روایت پر عمل کرنے پر قائم ہے جو کسی امامی عادل راوی کے ذریعے پہنچی ہو۔ اور چونکہ اس سیرت سے شریعت نے منع (ردع) نہیں کیا ہے، تو ہم اس سے یہ نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ شارع نے اس پر امضاء کیا ہے [ [۱۹] ] ۔

اس پر بتصرہ ان شاء اللہ تعالی دوسرے حصے میں آئےگا۔

خبرِ ضعیف

۵۔ متأخر علماء کے درمیان معروف بات یہ ہے کہ ضعیف خبر کے لیے حجیت نہیں ہے، لیکن ایک سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا ضعیف خبر اس وقت حجیت کی سطح تک ترقی کر سکتی ہے جب اس کی موافقت میں شہرتِ فتوائیہ موجود ہو؟ یعنی کیا ممکن ہے کہ سند کی کمزوری کا تدارک اس کے موافقت میں موجود شہرتِ فتوائیہ سے ہو جائے ؟

مشہور یہ ہے کہ اس کے ذریعہ اس کے ضعف کا تدارک ہو جاتا ہے کیونکہ شہرت ایک طرح سے اس روایت کے متعلق " تبیّن" (تحقیق) ہے، اور یہ بات خبر کی حجیت کے لیے کافی ہے۔ کیونکہ آیتِ نبأ نے فاسق کی خبر کو مطلقاً ناقابلِ حجت قرار نہیں دیا بلکہ اس میں " تبیّن" یعنی تحقیق کرنے کا حکم دیا ہے، لہٰذا جب تحقیق کے بعد خبر کی صداقت واضح ہو جائے تو اس پر عمل کرنا ضروری ہے، اور فتوے کی شہرت اس صداقت کو واضح کرتی ہے۔

یہ اس بات کے علاوہ ہے کہ مشہور کی جانب سے کسی روایت پر عمل کرنے سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ وہ اس روایت کی توثیق کر رہے ہیں چونکہ اگر ایسا نہ ہوتا تو وہ کیوں اس پر عمل کرتے بلکہ متقدمین میں سے مشہور کا کسی روایت پر عمل اس روایت کے صدور کا اطمینان فراہم کرتا ہے۔

لیکن مسئلہ یہ باقی رہتا ہے کہ اس بات کو ثابت کیسے کریں، چونکہ متقدمین کی استدلالی کتابیں ہمیں دستیاب نہیں ہیں کہ ہم اس بات کو جان سکے کہ انہوں نے اپنے فتووں میں اس روایت کو بنیاد بنایا ہے اور اس روایت پر عمل کیا ہے، چونکہ اس بات کا امکان موجود ہے کہ مشہور کے فتوے کے درمیان اور اس روایت کے درمیان محض اتفاقی موافقت قائم ہو گئی ہو بغیر اس کے کہ مشہور نے اس روایت کو بنیاد بنایا ہوا۔

خبرِ مضمر

۶۔ خبر مضمر ایسی روایت ہے جس میں جس سے سوال کیا گیا ہو اس کا تذکرہ نہ ہو کہ آیا وہ امام علیہ السلام ہیں یا کوئی اور، جسیا کہ یہی صورت حال زرارہ کی اس صحیح روایت میں ہے جسے شیخ طوسی ؒنے " التھذیب" میں اپنی سند کو حسین بن سعید تک اور انہوں نے حماد سے، انہوں نے حریز سے، انہوں نے زرارہ سے، انہوں نے کہاں: قلت لہ (میں نے ان سے کہا) اگر ایک شخص کو وضو کی حالت میں نیند آ جائے تو کیا ایک جھپکی یا دو جھپکیاں اس پر وضو کو واجب کر دےگی تو آپ علیہ السلام نے فرمایا۔۔۔ " [۲۰] ۔

زرارہ نے یہ نہ کہا کہ میں نے بطور مثال امام صادق علیہ السلام سے عرض کیا بلکہ فقط یہ کہا کہ میں نے ان سے عرض کیا، یعنی ایسی ضمیر کا ذکر کیا جس کے امام علیہ السلام کی طرف رجوع کا بھی امکان ہے اور غیر امام کی طرف بھی رجوع کا امکان ہے۔ اور اسی وجہ سے بعض اوقات روایاتِ مضمرہ کی عدمِ حجیت کا حکم دیا جاتا ہے، کیونکہ اس بات کا یقین نہیں ہوتا کہ جس شخص سے سوال کیا گیا وہ امام علیہ السلام ہی ہیں۔

اس کے مقابل میں دو نظریات پائے جاتے ہیں :

ان میں سے ایک: تمام مضمرات حجّیت رکھتی ہیں اس دعوے کے ساتھ کہ اضمٰار (ضمیر کے استعمال) کا سبب اور اس اسلوب کے پیدا ہونے کی وجہ یہ ہے کہ راوی بعض اوقات امام علیہ السلام سے کئی سوالات کرتا تھا، اور جب وہ ان سوالات کو نقل کرنا چاہتا تو شروع میں امام علیہ السلام کے نام کی وضاحت کرتا اور کہتا کہ

" سألت الصادق عليه السّلام عن كذا فاجاب بكذا، و سألته عن كذا فاجاب بكذا، و سألته عن ۔۔۔"

(میں نے امام صادق علیہ السلام سے سوال کیا فلاں چیز کے بارے میں تو آپ علیہ السلام نے یہ جواب دیا اور میں نے ان سے یہ سوال کیا تو انہوں نے یہ جواب دیا اور میں نے یہ سوال کیا۔۔۔)۔

یہ کہ روایت کے آغاز میں امام علیہ السلام کا نام صراحت کے ساتھ ذکر کیا گیا تھا، اور اس کے بعد صرف ضمیر کے ذریعے اُن کی طرف اشارہ کرنے پر اکتفا کیا گیا، اور نام کی دوبارہ صراحت کی ضرورت محسوس نہیں کی گئی۔ پھر بعد میں، جب احادیث کو تقطیع (ٹکڑوں) میں تقسیم کیا گیا تو ہر فقرہ (جزو) کو اس کے مناسب حدیثی باب میں اسی طرح درج کر دیا گیا جیسا وہ تھا، بغیر جن سے سوال کیا گیا ہے اس شخص یا امام علیہ السلام کے نام کی وضاحت کیے۔

یوں اضمار کا رجحان شروع ہوا۔۔

اور جب ہم اضمٰار (ضمیر کے استعمال) کی اس وجہ سے مطلع ہو جائیں گے، تو ہم بلا شک و شبہ تمام " مضمرات " (ضمیر والی روایات) کی حجّیت کا حکم دیں گے، کیونکہ جس شخص سے سوال کیا گیا تھا وہ شروع سے ہی امام علیہ السلام کے سوا کوئی اور نہیں تھا۔

اور یہ رائے قابلِ بحث و اشکال ہے، کیونکہ یہ بات اس فرض پر درست ہو سکتی ہے جب یہ یقینی ہو کہ شروع میں جن سے سوال کیا گیا وہ شخص امام علیہ السلام ہی تھے، لیکن ہم اس بات کا قطعی حکم کیسے لگا سکتے ہیں؟ ہمیں یہ احتمال بھی رہتا ہے کہ شاید جس سے سوال کیا گیا وہ امام علیہ السلام کے بجائے کوئی اور شخص ہو۔

اور دوسرا نظریہ جو بعض فقہاء نے اختیار کیا ہے، وہ یہ ہے کہ فرق کیا جائے : اگر مضمرہ روایت بیان کرنے والا شخص اصحابِ امام علیہ السلام میں سے جلیل القدر اور بزرگوں میں سے ہو، اس طرح کہ اس کے شایانِ شان نہیں کہ وہ امام علیہ السلام کے علاوہ کسی اور سے نقل کرے — جیسا کہ زرارہ کی صورت حال ہے — تو ایسی صورت میں مضمَرہ روایت حجت ہوگی، کیونکہ راوی کا بلند مقام خود ایک قرینہ ہے جو اس بات کا تعیّن کرتا ہے کہ جس شخص سے سوال کیا گیا ہے وہ امام علیہ السلام ہی ہیں، لیکن اگر راوی ایسا نہ ہو (یعنی عام راوی ہو)، تو ایسی روایت حجت نہیں ہوگی کیونکہ مذکورہ قرینہ موجود نہیں ہے۔

اور ہمارے نزدیک صحیح بات یہ ہے کہ تمام مضمرات (ضمیر والی روایات) حجت ہیں، ایک لطیف و باریک نکتہ کی وجہ سے جس کی وضاحت ان شاء اللہ تعالیٰ دوسرے حصے میں آئےگی

خبرِ مرسل

خبر مرسل یعنی ایسی روایت جس میں سند کے بعض راویوں کے نام کا تذکرہ نہ کیا گیا ہو، جیسا کہ یہی صورت حال اس سند میں ہے کہ شیخ صدوق ؒنے اپنے والد سے، انہوں نے سعد بن عبد اللہ سے، انہوں نے ایوب بن نوح سے، انہوں نے محمد بن ابی عمیر سے، انہوں نے ایک سے زائد سے، انہوں نے ابو عبد اللہ علیہ السلام سے۔۔۔ [ [۲۱] ] ۔

اس میں ابن ابی عمیر نے اس راوی کے نام کی وضاحت نہیں کی ہے جس سے انہوں نے روایت کی ہے اور فقط " عن غیر واحد " (ایک سے زائد سے) کے الفاظ استعمال کیے ہے اور اس طرح کی روایت کو مرسلہ شمار کیا جاتا ہے۔

اور فقہاء کے درمیان مرسلہ روایات کی حجّیت کے بارے میں متعدد اقوال پر مبنی اختلاف واقع ہوا ہے جن میں سے ہم بعض کو مندرجہ ذیل میں ذکر کرتے ہیں:-

الف: مطلق طور پر (ہر حال میں) عدمِ حجیت، چونکہ مبہم و غیر واضح واسطہ کی وثاقت ثابت نہیں کی جا سکتی۔

ب: تفریق کی گئی ہے: اگر ارسال کرنے والا راوی ابنِ ابی عمیر، صفوان، یا بَزَنطی [ [۲۲] ] ہوں تو روایت حجت ہوگی؛ اور اگر ارسال کرنے والا ان کے علاوہ کوئی اور ہو، تو روایت حجت نہیں ہوگی۔

اور اس کی وجہ یہ ہے کہ شیخ طوسی ؒنے اپنی کتاب العدّة [ [۲۳] ] میں ذکر کیا ہے کہ شیعہ علماء نے ابنِ ابی عمیر، صفوان اور بَزَنطی کی مرسل روایات پر عمل کیا ہے، اس بنیاد پر کہ یہ حضرات صرف ثقہ افراد ہی سے روایت کرتے تھے اور انہی سے ارسال کرتے تھے، لہٰذا اگر ارسال کرنے والا راوی ان میں سے کوئی ہو، تو اس کی روایت حجت ہوگی کیونکہ وہ صرف ثقہ سے ہی مرسلہ روایت بیان کرتا ہے، اور اگر ارسال کرنے والا راوی ان کے علاوہ ہو، تو روایت رد کر دی جائےگی کیونکہ اس میں واسطے کی وثاقت کا احراز و اثبات نہیں ہے۔

ج۔ تفریق فقط شیخ صدوق ؒکی مرسلہ روایات میں اس طرح سے کہ فرق کریں گے جب وہ عبارت بیان کرے کہ: کہا صادق علیہ السلام نے اور اس میں جب وہ عبارت استعمال کرے کہ : مروی ہے صادق علیہ السلام سے۔ پہلی قسم حجّت ہے اور دوسری نہیں ہے، چونکہ " قال " (کہا) کے لفظ کا استعمال اس بات پر دلیل ہے کہ شیخ صدوق ؒکو اس روایت کے امام علیہ السلام سے صادر ہونے اور اس کی سند صحیح ہونے کا یقین ہے جبکہ اگر انہیں روایت کی صحت کا یقین نہ ہوتا تو ان کے لیے پختہ یقین کے ساتھ اس روایت کی امام علیہ السلام کی طرف نسبت دینا ممکن و جائز نہ ہوتا۔ اور یہ اس صورت کے برخلاف ہے جب " روی " (مروی ہے) کا لفظ استعمال کرتے ہیں تو یہ اصطلاح نسبت کے صحیح ہونے کے یقین پر دلالت نہیں کرتی لہذا یہ نقل حجّت نہیں ہے۔

تطبیقات

تطبیق(۴)

حر عاملی ؒنے وسائل الشیعہ وضو کے ابواب میں سے باب ۴۲ کی حدیث ۱ میں بیان کیا ہے، اس کی عبارت اس طرح سے ہے :

" محمد بن الحسن عن المفيد عن أحمد بن محمد عن ابيه عن أحمد بن ادريس و سعد بن عبد اللّه عن أحمد بن محمد عن الحسين بن سعيد عن حماد عن حريز عن زرارة عن أبي جعفر عليه السّلام ..."

(محمد بن حسن، انہوں نے مفید سے، انہوں نے احمد بن محمد سے، انہوں نے اپنے والد سے، انہوں نے احمد بن ادریس اور سعد بن عبد اللہ سے، انہوں نے احمد بن محمد سے، انہوں نے حسین بن سعید سے، انہوں نے حماد سے، انہوں نے حریز سے، انہوں نے زرارہ سے، انہوں نے ابو جعفر علیہ السلام سے ۔۔۔)

پھر انہوں نے اس حدیث کے آخر میں جو بیان کیا اس کی عبارت اس طرح سے ہے:

" و رواه الكليني عن علي بن إبراهيم عن ابيه و عن محمد بن اسماعيل عن الفضل بن شاذان جميعا عن حماد بن عيسى عن حريز"

(اور اسے روایت کیا ہے کلینی نے علی بن ابراہیم سے، انہوں نے اپنے والد سے اور محمد بن اسماعیل سے، انہوں نے فضل بن شاذان سے ان سب نے حماد بن عیسی سے، انہوں نے حریز سے)۔

حر عاملی ؒکی یہ عبارت اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ انہوں نے شیخ طوسی ؒکی دو کتابوں میں سے کسی ایک سے اور شیخ کلینی ؒسے یعنی ان دونوں سے اس روایت کو بیان کیا ہے۔ اور دونوں میں سے ایک کا سلسلہ سند دوسرے سے مختلف ہے۔ اور اس کا لازمہ یہ ہے کہ اس روایت کے صحیح ہونے کے لیے ان دونوں میں سے ایک کی سند کا صحیح ہونا کافی ہے۔ تو اگر فرض کریں کہ کسی لحاظ سے شیخ طوسی ؒکا سلسلہ سند ضعیف ہے تو ہمارے لیے کلینی ؒکے سلسلہ سند کا صحیح ہونا کافی ہے۔

دونوں سلسلہ سند کی حالت کی تحقیق کے لیے ہم کہتے ہیں:

جہاں تک پہلے سلسلہ سند کا تعلق ہے تو اس میں کوئی اشکال نہیں ہے سوائے احمد بن محمد کے لحاظ سے جن سے شیخ مفید ؒنے روایت کو بیان کیا ہے چونکہ یہ احمد بن محمد بن حسن بن ولید ہیں۔ اور یہ راوی شیخ مفید ؒکے شیخ و استاد ہیں۔ اور ہم تک بہت سی حدیث کی بنیادی کتابیں ان کے ذریعہ پہنچی ہیں چونکہ شیخ طوسی ؒنے ان بنیادی کتابوں میں سے کثیر کو اپنے استاد مفید ؒکے توسّط سے بیان کیا ہے اور مفید ؒنے ان کی روایت مذکورہ راوی کے توسّط سے کی ہے۔ اور مقام افسوس یہ ہے کہ ان کے حق میں کوئی توثیق وارد نہیں ہوئی ہے۔ ہاں اگر ہم اس بات کو قبول کرتے ہو کہ " شیخوخۃ الاجازہ " ہونا توثیق پر دلالت کرتا ہے تو اس کے ذریعہ ان کی وثاقت ثابت ہو جائےگی، لیکن اگر ہم اس بات کو رد کرتے ہو تو پہلا سلسلہ سند فقط ان کی وجہ سے ضعیف قرار پائےگا چونکہ محمد بن حسن طوسی ؒاور شیخ مفید ؒتو تعارّف کے محتاج نہیں ہیں۔

جہاں تک احمد کے والد کا تعلق ہے یعنی محمد بن حسن بن ولید قمی تو یہ ثقہ و جلیل (القدر) ہیں یہ شیخ صدوق ؒکے استاد ہیں۔

جہاں تک احمد بن ادریس کا تعلق ہے تو یہ ابو علی اشعری ثقہ اور جلیل (القدر) ہیں اس بنا پر جو نجاشی ؒاور شیخ ؒ [ [۲۴] ] نے بیان کیا ہے اور یہ کلینی ؒکے استاد ہیں اور انہوں نے ان کے حوالے سے کثیر روایات بیان کی ہے۔

اور جہاں تک سعد بن عبد اللہ قمی کا تعلق ہے تو یہ ثقہ اور جلیل (القدر) ہیں اس بنا پر جو نجاشی ؒاور شیخ ؒنے بیان کیا ہے۔

اور جہاں تک احمد بن محمد کا تعلق ہے تو یہ احمد بن محمد بن عیسی اشعری قمی ہیں جو ثقہ اور جلیل (القدر) ہیں سعد بن عبد اللہ کے قرینہ سے چونکہ انہوں نے ابن عیسی اشعری سے کثرت سے روایات بیان کی ہے [ [۲۵] ] ۔

اور رہی بات حسین بن سعید اور اس سے اوپر (سند میں) امام علیہ السلام تک کے راویوں کی، تو وہ سب کے سب ثقہ اور جلیل القدر ہیں، جیسا کہ ان کی طرف سابقہ تطبیقات میں اشارہ کیا جا چکا ہے۔

اور اس بنا پر پہلا سلسلہ سند احمد بن محمد بن حسن ابن ولید کے لحاظ سے قابل تأمل ہے اس بات پر بنا رکھتے ہوئے کہ وثاقت ثابت ہونے میں " شیخوخۃ الاجازہ" (اجازہ دینے والے شیخ ہونا) ہونا کافی نہیں ہے۔

اور جو بات مشکل کو آسان کر دیتی ہے وہ یہ ہے کہ دوسرا سلسلہ سند صحیح ہے۔

یہ اس لیے چونکہ دوسرا سلسلہ سند در حقیقت دو سلسلہ سند کی طرف پلٹتا ہے، مندرجہ ذیل شکل میں:-

الف: کلینی ؒ، انہوں نے علی بن ابراہیم ؒسے، انہوں نے اپنے والد ابراہیم بن ھاشم سے، انہوں نے حماد سے، انہوں نے حریز سے۔

ب: کلینی ؒ، انہوں نے محمد بن اسماعیل سے، انہوں نے فضل بن شاذان سے، انہوں نے حماد سے، انہوں نے حریز سے۔

اور کلینی ؒکے سلسلہ سند میں وارد ہونے والا " جمیعا" کا معنی یہ ہے کہ ابراہیم اور فضل دونوں نے اس حدیث کو حمّاد سے روایت کیا ہے، لہذا " جمیعا" کے لفظ کا معنی یہ دونوں ہیں۔

پھر " الف " میں بیان شدہ سلسلہ سند صحیح ہے چونکہ اس کے تمام راوی ثقہ ہیں اس لیے کہ علی بن ابراہیم ؒیہ تو مشہور تفسیر کے مؤلف اور جلیل القدر ثقہ افراد میں سے ہیں۔ اور کلینی ؒنے الکافی کی تقریباً ایک تہائی احادیث ان کے حوالے سے بیان کی ہے۔

اور جہاں تک ابراہیم کا تعلق ہیں تو ان کی توثیق ممکن ہے اس سبب سے جس کا بیان ان شاء اللہ اس کتاب کے دوسرے حصے میں آئےگا۔

اور جہاں تک حمّاد اور حریز کا تعلق ہے تو سابقہ تطبیقات میں بیان ہو چکا ہے کہ یہ دونوں ثقہ ہیں۔

اور جب " الف " کا سلسلہ سند صحیح ہیں تو پھر ہمیں " ب " کے سلسلہ سند کو دیکھنے کی ضرورت نہیں ہے اور اس روایت کی صحت ثابت ہو جائےگی۔

تمرینات

س ۱: حدیث کی چار اقسام کیا ہیں؟ انہیں بیان کریں اور ان کے معنی واضح کریں۔

س ۲: اخباری علماء نے حدیث کی چار اقسام میں تقسیم کی مذمّت کیوں کی؟

س ۳: کہا جاتا ہے کہ صحیح خبر حجیت سے ساقط ہو جاتی ہے اگر وہ شہرتِ فتوائیہ کے مخالف ہو۔ اس بات کا مقصود واضح کریں۔

س ۴: مشہور کی مخالفت کی وجہ سے صحیح روایت حجیت ساقط ہو جاتی ہے اس بات کو ہم کیسے واضح کریں گے؟

س ۵: مشہور کی مخالفت کی وجہ سے صحیح روایت کی حجیت سے ساقط ہونے کی بنیاد پر مسئلہ یہ باقی رہ جاتا ہے کہ ہم کیسے احراز و ثابت کریں کہ۔۔۔ جو مناسب ہو، اس کے ذریعہ جملہ مکمل کریں۔

س ۶: خبرِ ثقہ اور خبرِ عادل میں کیا فرق ہے؟ اور ان میں سے کس کی حجیت مشہور ہے؟

س ۷: خبرِ ثقہ کی حجیت اور عدالت کے شرط نہ ہونے پر ہم کیسے استدلال کریں گے؟

س ۸: اگر کہا جائے کہ خبرِ ثقہ پر عمل کے لیے جس سیرتِ عقلائیہ کا دعوی کیا گیا ہے اس کے ذریعہ استدلال ممکن نہیں ہے کیونکہ آیت النبأ نے اسے رد کر دیا ہے، تو ہم اس دعوے کو کیسے رد کریں گے؟

س ۹: سیرتِ عقلائیہ پر عمل کرنے میں ہمیں شارع کی جانب سے منع نہ ہونے کا ثبوت کیوں درکار ہے؟

س ۱۰: ثقہ کی خبر اور قابل اطمینان خبر میں کیا فرق ہے؟

س ۱۱: اگر کہا جائے کہ خبر کی حجّیت کے ثبوت میں اس روایت پر اطمینان ہونا ضروری ہے تو اس پر کیسے دلیل قائم کی جائےگی۔

س ۱۲: حجیتِ خبر میں اطمینان ضروری نہیں ہے (بلکہ صرف راوی کا ثقہ ہونا کافی ہے) اس بات پر ہم کیسے استدلال کریں گے؟

س ۱۳: خبرِ حسن کی حجیت کےکون قائل ہیں؟

س ۱۴: خبرِ حسن کی حجیت پر استدلال کیسے کیا جا سکتا ہے؟

س ۱۵: خبرِ ضعیف کی عدم حجیت معروف ہے۔ اس میں کیا نکتہ ہے؟

س ۱۶: کہا گیا ہے کہ خبرِ ضعیف خاص حالت میں حجیت رکھتی ہے۔ وہ حالت بیان کریں۔

س ۱۷: شہرتِ فتوائیہ سے تدارک یافتہ خبرِ ضعیف کی حجیت پر ہم کیسے استدلال کریں گے؟

س ۱۸: تلافی و تدارک کے اصول کو قبول کرنے کی بنیاد پر مسئلہ یہ باقی رہ جاتا ہے کہ۔۔۔ جو مناسب ہو اسے بیان کرتے ہوئے اس جملے کو مکمل کریں۔

س ۱۹: خبرِ مضمر کیا ہے؟

س ۲۰: خبرِ مضمر کی ایک مثال دیں۔

س ۲۱: بعض اوقات ابتدائی نگاہ میں کہا جاتا ہے کہ مضمرہ روایات حجّت نہیں ہے۔ اس کی کیا وجہ ہے؟

س ۲۲: کہا گیا ہے کہ تمام مضمرہ روایات حجت ہیں۔ اس بات کی وضاحت کریں۔

س ۲۳: مشہور نے مضمرہ روایات کی حجیت میں تفریق قائم کی ہے۔ وہ تفریق اور اس کی تشریح بیان کریں۔

س ۲۴: خبرِ مرسل کیا ہے؟ اس کی ایک مثال دیں۔

س ۲۵: مرسلہ روایات کی حجیت پر تین اقوال پائے جاتے ہیں۔ انہیں بیان کریں۔

س ۲۶: مرسلہ روایات کی حجیت کے متعلق پہلے قول کو ہم کیسے واضح کریں گے؟

س ۲۷: مرسلہ روایات کی حجیت کے متعلق دوسرے قول کو ہم کیسے واضح کریں گے؟

س ۲۸: تیسرے قول کو ہم کیسے واضح کریں گے؟

تیسری فصل

حدیث کی بعض کتابوں کے بارے میں نظریات

اس سے پہلے کہ ہم اپنی حدیثی کتابوں کے بارے میں گفتگو کریں، ہم اس دعوے کی طرف اشارہ کرتے ہیں جو اخباریوں کی طرف منسوب ہے، کہ وہ کہتے ہیں ہے کہ ہماری چاروں کتابوں یعنی الکافی، من لا یحضره الفقیه، تہذیب الاحکام اور الاستبصار میں موجود ہر چیز صحیح ہے۔

ان کے مطابق، ان کتابوں میں جو کچھ بھی موجود ہے وہ سب صحیح ہے اور اس میں سندی دقت و تحقیق کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔

اور اس دعوے کے قائل بعض اوقات ان عبارات پر اعتماد کرتے ہیں جو ان میں سے ہر ایک کتاب کے مقدمه میں وارد ہوئی ہیں۔

اور اس دعوے کی وضاحت ان شاء اللہ تعالیٰ اس وقت بیان کی جائے گی جب ان کتابوں پر گفتگو ہوگی۔

اور کبھی وہ ایسے دلائل پر اعتماد کرتے ہیں جو چاروں کتابوں پر عمومی طور پر لاگو ہوتے ہیں، کسی ایک کے ساتھ خاص نہیں ہوتے۔ ان دلائل کی مثال ان وجوہات سے دی جا سکتی ہے جنہیں صاحبِ وسائل ؒنے اپنی کتاب کے آخر میں درج بعض فوائد میں ذکر کیا ہے، کیونکہ ان قدس سرہ نےاس بات کو ثابت کرنے کے لیے بائیس (۲۲) وجوہات بیان کی ہیں۔

اور شاید ان میں سب سے قوی دلیل پہلی دلیل ہے، جس کا خلاصہ یہ ہے کہ اصحابِ ائمہ علیہم السلام نے احادیث کو محفوظ رکھنے اور ان کی ضبط و تدوین میں بھرپور کوششیں کیں، یہاں تک کہ یہ احادیث محمدونِ ثلاثہ کے زمانے تک پہنچ گئیں۔ پھر محمدونِ ثلاثہ نے اپنی طرف سے ان احادیث کو مدوّن کیا اور انہیں نئی کتابوں کی صورت میں پیش کیا، جن کے نام ہیں: الکافی، من لا یحضره الفقیه، تہذیب الاحکام اور الاستبصار ۔

اور یہ پختہ اہتمام عام طور سے ان کتابوں میں موجود احادیث کے صادر ہونے کے بارے میں یقین پیدا کرتا ہے۔

اور اس مذکورہ اہتمام کو ثابت کرنے کے لیے کئی شواہد موجود ہیں جو ان شاء اللہ تعالیٰ اس کتاب کے دوسرے حصے میں آئیں گے۔

اور ہم کتب اربعہ کی تمام احادیث کے صحیح ہونے کے دعوے کو متعدد وجوہات کی بنا پر شدّت سے رد کرتے ہیں، جن میں سے ہم کچھ کا ذکر کرتے ہیں :

۱۔ اصحاب کی طرف سے اہلِ بیت علیہم السلام کی احادیث پر شدید و خاص توجہ ان تمام احادیث کے صحیح ہونے کا یقین پیدا نہیں کرتا جو انہوں نے نقل کی ہیں، بلکہ یہ زیادہ سے زیادہ اس علم و یقین کا باعث بنتا ہے کہ ان میں موجود تمام باتیں باطل و غلط نہیں ہیں کیونکہ اس طرح کی پختہ و خاص توجہ ان سب کے باطل ہونے کے ساتھ مطابقت نہیں رکھتی۔

۲۔ کتب اربعہ کے مؤلفین کو خود ان میں موجود تمام احادیث کے صحیح ہونے کا قطعاً یقین نہیں تھا، تو ہم سے اس کا یقین رکھنے کی توقع کیسے کی جا سکتی ہے؟

اور اس بات کی دلیل کہ انہیں یقین حاصل نہیں تھا یہ ہے کہ شیخ طوسی قدس سرہ نے اپنی دونوں کتابوں میں درج بعض احادیث کو قابل بحث و اشکال قرار دیا ہے۔ ہم نے اس کتاب کے دوسرے حصے میں کچھ شواہد پیش کیے ہیں۔

۳۔ یہ کہ اگر کتب اربعہ میں موجود تمام چیزوں کو قطعی مان لیا جائے تو شیخ طوسی ؒاور صدوق ؒکے لیے اپنی کتاب کے آخر میں مشیخہ اورجن سے انہوں نے روایت نقل کی ہے ان کے نام درج کرنے اور ان بنیادی کتابوں تک اپنے ان سلسلہ اسناد ذکر کرنے کی کوئی ضرورت نہیں رہتی جن سے انہوں نے احادیث نقل کی ہیں۔ جبکہ ہم دیکھتے ہیں کہ شیخ طوسی ؒ التھذیب کی مشیخہ میں صراحت سے کہتے ہیں کہ میں یہ مشیخہ اس لیے ذکر کر رہا ہوں تاکہ میری کتاب کی احادیث ارسال سے خارج ہو کر اسنادکی طرف منتقل ہو جائیں۔

۱۲

کتاب الکافی کے بارے میں نظریات

کتاب الکافی شیخ جلیل القدر محمد بن یعقوب کلینی کی تالیف ہے جن کی وفات ۳۲۸ ہجری میں ہوئی تھی۔ انہوں نے اپنی معزز کتاب نجاشی ؒنے جو بات ان کے حالات میں بیان کی ہے اس کے مطابق ۲۰ سال کے عرصے میں تالیف کی۔

یہ جلیل القدر شیخ غیبت صغریٰ کے زمانے میں زندہ تھے اور ناحیۂ مقدسہ کے عظیم سفیروں کے ہم عصر تھے، جو یہ ہیں :

۱۔ ابو عمرو عثمان بن سعید اسدی ؒ۔

۲۔ ابو جعفر محمد بن عثمان ؒ۔

۳۔ شیخ ابو القاسم حسین بن روح نوبختی ؒ۔

۴۔ شیخ ابو الحسن علی بن محمد سمری ؒ۔

کلینی ؒان معزز مشایخ کے ہم عصر تھے۔ اور چوتھے سفیر کی وفات سے ایک سال پہلے یا ان کی وفات کے سال ہی انتقال کر گئے۔

اور الکافی تین حصوں پر مشتمل ہے : الاصول، الفروع، اور الروضہ ۔

جہاں تک " الاصول " کا تعلق ہے، تو یہ دو جلدوں میں ہے، جن میں سے ایک عقل اور جہل، علم کی فضیلت، توحید اور معصومین علیہم السلام سے متعلق ابحاث پر گفتگو کرتی ہے، اور دوسری جلد ایمان اور کفر کے مسائل، دعا، قرآن کی فضیلت اور اسلامی طرزِ عمل کے آداب پر بحث کرتی ہے۔

اور جہاں تک " الفروع" کا تعلق ہے، تو یہ پانچ جلدوں میں ہے جو نماز، روزہ وغیرہ جیسے فقہی احکام سے متعلق احادیث پر مشتمل ہے۔

اور جہاں تک " الروضہ" کا تعلق ہے، تو یہ ایک ہی جلد میں ہے۔ اور یہ اہلِ بیت علیہم السلام کی کچھ نصیحتوں، ان کے خطبوں اور ان سے متعلق بعض تاریخی واقعات پر مشتمل ہے۔

اور کتاب الکافی سے متعلق کئی ابحاث پائی جاتی ہیں، جن میں سے ہم مندرجہ ذیل میں دو نکات کے تحت دو ابحاث کی طرف اشارہ کرتے ہیں :

۱۔ کہا گیا ہے کہ " الکافی" کی تمام احادیث صحیح اور معتبر ہیں۔ اور شیخ نوری ؒنے اس پر چار دلائل سے استدلال کیا ہے جن میں سے ہم دو کا ذکر کرتے ہیں :

الف۔ کلینی ؒچاروں معزز سفیروں کے ہم عصر تھے۔ اور یہ بہت بعید ہے کہ انہوں نے اپنی کتاب ان میں سے کسی ایک کو پیش نہ کی ہو، خصوصاً جب کہ کلینی ؒنے اپنی کتاب شیعوں کے لیے ایک مرجع و رجوع گاہ بنانے کے لیے تالیف کی تھی جیسا کہ انہوں نے اس بات کو مقدمے میں صراحت سے بیان کیا ہے۔

اور کتابوں کو کسی ایک سفیر کے سامنے پیش کرنا ایک عام رواج تھا۔

اور اس سے ہمارا مقصد یہ نہیں کہ بعض زبانوں پر رائج اس بات کو صحیح قرار دیا جائے کہ ناحیۂ مقدسہ سے یہ صادر ہوا تھا کہ " الکافی ہمارے شیعوں کے لیے کافی ہے " ، یہ ثابت نہیں ہے، بلکہ مقصد یہ دعویٰ ہے کہ معزز سفیروں میں سے کسی کے سامنے پیش کیے جانے کی وجہ سے کسی کتاب پر اطمینان حاصل ہوتا ہے۔

اور اس بات پر یہ اشکال کیا جا سکتا ہے کہ اطمینان حاصل ہونے کا دعویٰ سخت و مشکل ہے، کیونکہ بعض کتابیں اگرچہ معزز سفیروں سے سامنے پیش کی گئیں — جیسے شلمغانی کی کتاب جو اپنی ابتدائی زندگی میں سلیم سیرت کا مالک تھا اور اس نے " کتاب التکلیف" کے نام سے ایک کتاب تالیف کی تھی، اور آخری عمر میں شیخ نوبختی ؒسے سفارت کے معاملے میں حسد کی وجہ سے منحرف ہو گیا تھا، اور اس کے انحراف کے بعد اس کی کتابیں شیخ نوبختی ؒکے سامنے پیش کی گئیں اور ان سے کہا گیا کہ ہم ان کی کتابوں کے ساتھ کیا کریں جب کہ ہمارے گھر ان سے بھرے ہوئے ہیں؟ تو انہوں نے کہا: میں اس میں وہی کہتا ہوں جو ابو محمد حسن بن علی صلوات اللہ علیہما نے فرمایا تھا جب آپ (ع) سے بنی فضال کی کتابوں کے بارے میں پوچھا گیا تھا اور کہا گیا تھا کہ ہم ان کی کتابوں کے ساتھ کیا کریں جب کہ ہمارے گھر ان سے بھرے ہوئے ہیں؟ تو آپ صلوات اللہ علیہ نے فرمایا تھا: " جو انہوں نے روایت کیا ہے اسے لے لو اور جو انہوں نے رائے دی ہے اسے چھوڑ دو " [ [۲۶] ] ۔ لیکن یہ اس صورت میں تھا جب کتاب کا مؤلف منحرف ہو گیا تھا اور فرض یہ ہے کہ پیش کرنے کا عمل خود اس کتاب کے مؤلف کے علاوہ دوسرے افراد کی جانب سے واقع ہوا تھا۔ اور اس کا موازنہ اس مقام سے کیسے کیا جا سکتا ہے جس میں کلینی ؒکو استقامات و دیانت کے کمال و عروج پر سمجھا جاتا ہے؟ اور ان کی استقامت کے فرض کے بعد دوسروں کی جانب سے پیش کیے جانے کی کوئی وجہ نہیں ہے۔

اور اگر اس سے صرفِ نظر بھی کیا جائے تو یہ کہا جا سکتا ہے کہ دو یا تین بار کتاب (نائب خاص کی خدمت میں) پیش کیے جانے سے کلی اطمینان حاصل نہیں ہوتا (کہ کتاب پوری کی پوری صحیح ہے)، اور نہ ہی یہ ضروری ہے کہ جو شخص بھی کسی کتاب کو تالیف کرے لازمی ہے کہ وہ اپنی کتاب (نائب خاص کے سامنے) پیش کرے۔

ب۔ اصول کافی کے مقدمے میں کلینی ؒکے اس بیان کو دلیل بنانا کہ بعض لوگوں نے ان سے ایک ایسی کتاب تالیف کرنے کی درخواست کی جس کی طرف رجوع کیا جا سکے، تو انہوں نے اس کا جواب یوں دیا: " میں نے کہا کہ آپ چاہتے ہیں کہ آپ کے پاس ایک ایسی کتابِ کافی ہو جس میں دینی علم کی تمام شاخیں شامل ہوں، جو سیکھنے والوں کے لیے کافی ہو اور جس کی طرف ہدایت کا متلاشی رجوع کرے، اور دین کے علم اور صادقین علیہم السلام کی صحیح روایات پر عمل کرنے کا خواہشمند اس سے فائدہ اٹھائے۔ اور اللہ تعالیٰ نے، کہ اسی کے لیے حمد ہے، جو کچھ آپ نے طلب کیا تھا اس کی تالیف کو آسان کر دیا۔۔۔ " ۔

ان سے ایک ایسی کتاب کی تالیف کی درخواست کی گئی جو صحیح روایات پر مشتمل ہو تاکہ ان پر عمل کیا جا سکے، اور کلینی ؒنے اس کا جواب دیا اور کہا: " اور اللہ تعالیٰ نے آسان کر دیا۔۔۔ " ۔ اور یہ اس بات کی دلیل ہے کہ انہوں نے اس بات کو قبول کیا ہے کہ ان کی کتاب میں جو کچھ بھی ذکر کیا گیا ہے وہ صحیح روایات میں سے ہے۔

اس بات پر یہ اشکال ممکن ہے کہ متقدمین علماء کی اصطلاح میں خبرِ صحیح سے مراد وہ خبر نہیں جس کے راوی عادل ہوں، بلکہ وہ خبر ہے جس پر عمل کرنا واجب ہو کیونکہ اس کے ساتھ ایسے قرائن موجود ہوتے ہیں جو اس کی حقانیت کے علم و یقین کا باعث بنتے ہیں، چاہے کلینی ؒکے نزدیک ہی کیوں نہ ہو۔ اور یہ بات معلوم و ظاہر ہے کہ اس معنی میں صحیح ہونا یہ لازم نہیں کرتا کہ وہ ہمارے نزدیک بھی صحیح ہو، کیونکہ یہ احتمال ہے کہ اگر ہم ان قرائن سے مطلع ہوتے تو وہ ہمارے نزدیک حقانیت کے علم و یقین کا باعث نہ بنتے۔

ہاں، اگر خبر صحیح سے مقصود وہ اصطلاح ہو جو آج کے دور میں رائج ہے، یعنی وہ جس کے راوی عادل امامی ہوں، تو کلینی ؒکی یہ گواہی کہ ان کی کتاب صحیح روایات پر مشتمل ہے، ان کی روایات کی سند کے رجال کے عادل ہونے کی گواہی بن جاتی اور اس سے مطلوب ثابت ہو جاتا، لیکن یہ مقصود نہیں ہے، کیونکہ خبر صحیح کی یہ اصطلاح علامہ ؒکے زمانے سے رائج ہونے والی جدید اصطلاح ہے۔

۲۔ یہاں ایک ایسا رجحان و اسلوب ہے جو کلینی ؒکی کافی سے مخصوص ہے، اور وہ یہ کہ وہ اکثر " عدة من الاصحاب" (اصحاب و علماء کے ایک گروہ) سے روایت کرتے ہیں، تو وہ اس طرح کہتے ہیں:

" عدة من اصحابنا عن سہل بن زیاد " یا کہتے ہیں : " عدة من اصحابنا عن احمد بن محمد بن عیسی " ، یا " عدة من اصحابنا عن احمد بن محمد بن خالد برقی " ۔

اور یہ کہا جا سکتا ہے کہ چونکہ " عدة" سے مقصود اور یہ بات واضح نہیں ہے کہ اس میں کون کون شامل ہیں، لہٰذا " عدة" کے واسطے سے نقل کردہ روایت اعتبار سے ساقط ہو جاتی ہے۔

اور اس کے جواب میں کئی دلائل دیئے جاتے ہیں جن میں سے ہم کچھ کا ذکر کرتے ہیں :

الف۔ علامہ حلی ؒنے " الخلاصة" کے آخر میں تیسرے فائدے میں خود شیخ کلینی ؒسے نقل کیا ہے کہ میرے قول " عدة من اصحابنا عن احمد بن محمد ابن عیسی " سے مقصود: محمد بن یحییٰ، علی بن موسیٰ کمندانی، داؤد بن کورة، احمد ابن ادریس اور علی بن ابراہیم ہیں۔ اور میرے قول " عدة من اصحابنا عن احمد ابن محمد بن خالد برقی " سے مقصود: علی بن ابراہیم اور ۔۔۔ ہیں کہ اس صورت میں " عدة" کا مسئلہ حل ہو جاتا ہے اور اس کا اعتبار ثابت ہو جاتا ہے کیونکہ " عدة" کا کوئی ایک فرد ثقہ ہو — جیسے پہلے " عدة" میں محمد بن یحییٰ اور دوسرے "عدة" میں علی بن ابراہیم — تو یہ اس کے اعتبار کے لیے کافی ہے۔

ب۔ لفظ " عدة" کا اطلاق تین یا اس سے زیادہ پر ہوتا ہے، اور کلینی ؒکے تین یا اس سے زیادہ مشائخ کا جھوٹ پر جمع ہونا بعید ہے۔

ج۔ کلینی ؒنے اصول کافی کی پہلی حدیث میں ذکر کیا ہے: " ہمیں خبر دی ابو جعفر محمد بن یعقوب نے، انہوں نے کہا کہ مجھے حدیث بیان کی ہمارے اصحاب میں سے ایک گروہ (عدۃ) نے جن میں محمد بن یحییٰ عطار شامل ہیں، انہوں نے ۔۔۔ " ۔

یہ فقره اس بات کی دلیل ہے کہ " عدة" کے افراد میں سے ایک محمد بن یحییٰ عطار ہیں، اور چونکہ وہ ثقہ ہیں، تو اس مقام میں اور باقی تمام مقامات میں بھی " عدة" کا اعتبار ثابت ہو جاتا ہے کیونکہ " عدة" کی مذکورہ تفسیر کسی خاص مقام سے مخصوص نہیں ہے۔

۱۳

" کتاب من لا یحضرہ الفقیہ " کے بارے میں نظریات

" کتاب من لا یحضرہ الفقیہ" شیخ جلیل القدر محمد بن علی بن حسین بن بابویہ قمی کی تصنیف ہے جو شیخ صدوق ؒکے نام سے مشہور ہیں۔

اور اس کتاب کی تالیف کا سبب جیسا کہ خود صدوق ؒنے مقدمہ میں بیان کیا ہے کہ جب تقدیر انہیں پردیس لے گئی اور ان کی ملاقات شریف ابو عبداللہ محمد بن الحسن المعروف بنعمہ سے ہوئی، تو انہوں نے ان سے ایک کتاب تالیف کرنے کی درخواست کی جس کا نام " کتاب من لا یحضرہ الفقیہ" ہو، جس طرح سے طبیب رازی نے " کتاب من لا یحضرہ الطبیب" کے نام سے ایک کتاب تصنیف کی تھی۔

اور یہاں دو نکات قابلِ بحث ہیں۔

۱۔ مشہور کی رائے ہے جس کا کہنا ہے کہ " الفقیه " کی تمام احادیث حجت ہیں اور ان کے اسناد میں تحقیق و دقّت کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ اور اس کی بنیاد درج ذیل دو وجوہات ہیں :

الف۔ صدوق ؒنے " الفقیہ " کے مقدمہ میں یہ عبارت ذکر کی ہے:

" و لم اقصد فيه قصد المصنفين في ايراد جميع ما رووه، بل قصدت إلى ايراد ما افتي به و احكم بصحته و اعتقد فيه انه حجة فيما بيني و بين ربي تقدس ذكره"

(اور میں نے تصنیف شدہ کتابوں میں جو کچھ انہوں نے روایات کیا ہے ان تمام کو بیان کرنے کا ارادہ نہیں کیا، بلکہ میرا ارادہ صرف ان روایات کو درج کرنا تھا جن کے مطابق میں فتویٰ دیتا ہوں اور جن کی صحت کا میں حکم کرتا ہوں، اور جن کے بارے میں میرا اعتقاد ہے کہ وہ میرے اور میرے ربّ کہ جس کا ذکر پاک و مقدّس ہے- کے درمیان حجت ہیں)۔

مذکورہ فقره اس بات کو بالکل واضح طور پر بیان کرتا ہے کہ وہ اپنی کتاب میں صرف وہی ذکر کرتے ہیں جس کی صحت کا وہ حکم کرتے ہیں اور جس کے بارے میں ان کا اعتقاد ہے کہ وہ ان کے اور ان کے ربّ کے درمیان حجت ہے۔ لہٰذا، مذکورہ گواہی کی بنیاد پر " الفقیہ" کی تمام احادیث پر اعتماد کرنا لازم ہے۔

ب۔ صدوق ؒکی اپنی کتاب کے مقدمہ میں ایک اور عبارت ہے جس میں وہ کہتے ہیں:

" و جميع ما فيه مستخرج من كتب مشهورة عليها المعول و اليها المرجع مثل كتاب حريز ابن عبد اللّه السجستاني و كتاب عبيد اللّه بن علي الحلبي و ..."

(اور اس (کتاب) میں جو کچھ بھی ہے وہ ان مشہور کتابوں سے ماخوذ ہے، جن پر اعتماد کیا جاتا ہے اور جن کی طرف رجوع کیا جاتا ہے، جیسے حریز بن عبداللہ سجستانی کی کتاب اور عبید اللہ بن علی حلبی کی کتاب اور۔۔۔)۔

چونکہ " الفقیہ" کی احادیث مشہور کتابوں سے ماخوذ ہیں اور اصحاب ان کتابوں پر اعتماد کرتے تھے، لہٰذا ان کی سند کی جانچ پڑتال کی کوئی ضرورت باقی نہیں رہتی۔

اور مذکورہ دونوں دلائل پر بحث کتاب کے دوسرے حصے میں آئےگی، ان شاء اللہ تعالیٰ۔

۲۔ کتاب " الفقیہ" میں بہت سی مراسيل شامل ہیں جو کُل کا ایک تہائی سے زیادہ ہیں۔ اور اسی وجہ سے ان مذکورہ مراسيل کو صحیح قرار دینے کے ممکنہ طریقے پر غور کرنے کی ضرورت پیش آئی ہے۔

اور اگر پہلے ذکر کردہ دونوں دلائل درست ثابت ہو جائیں تو ان پر اعتماد کرنا ممکن ہے۔

اور ایک رائے جو متعدد علما نے اختیار کی ہے جس کے مطابق فرق کیا جائےگا کہ آیا صدوق ؒنے ارسال میں " قال الصادق علیہ السلام" کا لفظ استعمال کیا ہے یا " روي عن الصادق علیہ السلام" کا لفظ استعمال کیا ہے، تو اول حجت ہے اور دوم نہیں۔

اور مذکورہ تفریق کی توضیح خبرِ مرسل کے متعلق بحث کے موقع پر پہلے بیان ہو چکی ہے۔

اور اس پر ہماری بحث ان شاء اللہ تعالیٰ کتاب کے دوسرے حصے میں آئےگی۔

۱۴

تہذیبین (تہذیب و استبصار) کے بارے میں نظریات

تہذیب الاحکام اور الاستبصار شیخ طوسی قدس سرہ کی دو کتابیں ہیں۔

جہاں تک " تہذیب الاحکام" کا تعلق ہے، تو یہ ایک ایسی کتاب ہے جسے انہوں نے اپنے استاد شیخ مفید ؒکی کتاب "المقنعہ " کی شرح کے طور پر تالیف کیا ہے۔

اور جہاں تک " الاستبصار" کا تعلق ہے، تو انہوں نے اسے اس لیے تالیف کیا کہ ہمارے مخالفین کا ایک گروہ ہماری کتابوں کی احادیث میں اختلاف اور تعارض کا طعنہ دیتا تھا، تو انہوں نے مذکورہ کتاب کو روایات میں بظاہر دکھائی دینے والے اس تعارض کو دور کرنے کی کوشش کے طور پر تالیف کیا۔

اور ان دونوں کتابوں میں شیخ ؒکا طریقہ شیخ کلینی ؒکے الکافی کے طریقے سے مختلف ہے۔ کلینی ؒعام طور پر روایت کی پوری سند ذکر کرتے ہیں اور اس کا کوئی حصہ حذف نہیں کرتے، اس کے برعکس شیخ ؒشاذ و نادر ہی پوری سند ذکر کرتے ہیں، اور عام طور پر سند کا آغاز اس اصل و بنیادی کتاب کے مؤلف کے نام سے کرتے ہیں جس کے حوالے سے وہ حدیث نقل کرتے ہیں۔ تو اگر انہوں نے حدیث عمار بن موسیٰ ساباطی کے اصل سے لی ہو تو وہ سند کا آغاز عمار سے کرتے ہیں اور یوں کہتے ہیں: عمار بن موسیٰ عن۔۔۔

جہاں تک عمار تک ان کی اپنی سند کا تعلق ہے تو وہ اسے حدیث نقل کرتے وقت ذکر نہیں کرتے، بلکہ اسے وہ مشیخہ [ [۲۷] ] میں ذکر کرتے ہیں، کیونکہ انہوں نے ایک کتابچہ تالیف کیا ہے جسے " تہذیب" اور " الاستبصار" کے آخر میں شامل کیا ہے، اس میں انہوں نے ان اصولوں و بنیادی کتابوں کے مؤلفین تک کا اپنا وہ سلسلہ سند ذکر کیا ہے جس سے انہوں نے احادیث نقل کی ہے اور اسے مشیخہ کا نام دیا ہے۔

تو اگر ہم عمار تک ان کی سند جاننا چاہیں تو ہم مشیخہ کی طرف رجوع کریں گے، اگر وہ صحیح ہو تو ہم روایت کو لیں گے اور اس کی حجیت کا حکم لگائیں گے، بشرطیکہ عمار اور امام علیہ السلام کے درمیان کی سند بھی صحیح ہو۔

چونکہ شیخ ؒاپنی دونوں کتابوں میں احادیث کو عام طور پر اصول کے مؤلفین سے نقل کرتے ہیں اور سند کا آغاز اصل کے مؤلف کے نام سے کرتے ہیں، لہٰذا حدیث کی صحت ثابت کرنے کے لیے دو باتوں کو ثابت کرنا ضروری ہے :

۱۔ شیخ اور اصل کتاب کے مؤلف درمیان سند کی صحت۔

۲۔ اصل کتاب کے مؤلف اور امام علیہ السلام کے درمیان سند کی صحت۔

شیخ ؒاور صاحبِ اصل کے درمیان کا طریقہ " مشیخہ" یا " الفھرست" کا مطالعہ کر کے معلوم کیا جا سکتا ہے، کیونکہ انہوں نے کتاب "الفھرست" میں بھی اصول کے مؤلفین تک کے اپنے سلسلہ سند کو ذکر کیا ہے۔ اور "الفھرست" میں ذکر کردہ طریقوں کی تعداد " مشیخہ" میں ذکر کردہ طریقوں سے زیادہ ہے کیونکہ " الفھرست" انہوں نے اصول کے مؤلفین اور ان تک کے سلسلہ سند کی مکمل معلومات حاصل کرنے کے لیے تالیف کی تھی۔

پھر شیخ ؒکبھی " مشیخہ" یا " الفھرست" میں صاحبِ اصل تک رسائی کے لیے اسناد کے کئی سلسلہ ذکر کرتے ہیں اور صرف ایک سلسلہ سند پر اکتفا نہیں کرتے۔

اس روشنی میں، یہ سوال کیا جا سکتا ہے: کیا ان تمام سلسلہ اسناد کا صحیح ہونا ضروری ہے یا ان میں سے کسی ایک کا صحیح ہونا کافی ہے؟

یہ واضح ہونا چاہیے کہ ان میں سے کسی ایک کا صحیح ہونا کافی ہے اور ان سب کی صحت ضروری قرار دینے کی کوئی وجہ نہیں ہے۔

اور اس میں نکتہ واضح ہے کیونکہ روایت کی صحت اس کے تمام سلسلہ اسناد کی صحت پر موقوف نہیں ہے، بلکہ اس کے لیے اس میں سے صرف ایک سلسلہ سند کی صحت کافی ہے۔

۱۵

تمرینات

س ۱: اخباریوں کی کتب اربعہ کی روایات کے بارے میں ایک خاص رائے ہے۔ وہ رائے بیان کیجیے؟

س ۲: کتب اربعہ کی تمام روایات کی صحت پر دو دلائل سے استدلال کیا جاتا ہے۔ وہ دو دلائل کیا ہیں؟

س ۳: وہ پہلی دلیل بیان کیجیے جسے حر عاملی ؒنے کتب اربعہ میں موجود ہر چیز کی حجیت کے نظریہ کے لیے بنیاد بنایا ہے؟

س ۴: صاحب وسائل ؒنے کتب اربعہ میں موجود ہر چیز کی حجیت کے مسئلہ کو پیش کیا ہے۔

انہوں نے کتنے دلائل دیئے ہیں اور ان میں سب سے قوی کون سی دلیل ہے؟

س ۵: کتب اربعہ میں موجود ہر چیز کی حجیت کی تردید میں کئی دلائل ہیں۔ پہلی دلیل ذکر کیجیے؟

س ۶: اس کی دوسری دلیل ذکر کیجیے؟

س ۷: اس کی تیسری دلیل ذکر کیجیے؟

س ۸: شیخ کلینی ؒکس زمانہ میں زندگی بسر کرتے تھے؟

س ۹: چاروں معزز سفیر کون ہیں؟ اور سفارت سے کیا مراد ہے؟

س ۱۰: الکافی کا تشکیلی انداز بیان کیجیے؟

س ۱۱: شیخ نوری ؒکی " الکافی" کی احادیث کے بارے میں ایک رائے ہے اور انہوں نے اس رائے کے حق میں چار دلائل کی مدد سے استدلال کیا ہے۔ وہ رائے کیا ہے؟

س ۱۲: ان دلائل میں سے کوئی ایک دلیل بیان کیجیے جسے نوری ؒنے الکافی کی تمام احادیث کی صحت ثابت کرنے کے لیے پیش کیا ہے۔

س ۱۳: اس دلیل پر آپ کیسے اشکال کریں گے؟

س ۱۴: شیخ نوری ؒنے جن چار دلائل کو بنیاد بنایا ہے ان میں سے دوسری دلیل ذکر کیجیے؟

س ۱۵: اس دلیل پر آپ کیسے اشکال کریں گے؟

س ۱۶: ایک مخصوص اسلوب و طریقہ ہے جسے کلینی ؒ "عدة" سے روایت کرنے میں اپنایا ہے۔ اس سے کیا مراد ہے؟

س ۱۷: " عدة" کی پہلی تفسیر ذکر کیجیے؟

س ۱۸: " عدة" کی دوسری تفسیر ذکر کیجیے؟

س ۱۹: تیسری تفسیر ذکر کیجیے؟

س ۲۰: شیخ صدوق ؒنے جو حدیث کی کتاب تالیف کی ہے اس کا نام کیا ہے؟ اور اس نام کی وجہ واضح کیجیے؟

س ۲۱: " کتاب من لا یحضرہ الفقیہ" کی احادیث سے متعلق ایک مشہور رائے ہے۔ وہ رائے کیا ہے؟

س ۲۲: " الفقیہ" کی احادیث کی حجیت ثابت کرنے کے لیے پہلی دلیل بیان کیجیے؟

س ۲۳: اس کی دوسری دلیل ذکر کیجیے؟

س ۲۴: کتاب " الفقیہ" میں ۔۔۔شامل ہیں جو کُل کا ایک تہائی سے زیادہ ہیں۔ مناسب الفاظ سے مکمل کیجیے؟ اور اس سے کیا مراد ہے یہ واضح کیجیے؟

س ۲۵: وہ کیا وجہ ہے جس کی بنیاد پر " الفقیہ" کی مراسل کو صحیح قرار دینے کا طریقہ سوچا گیا؟

س ۲۶: " الفقیہ" کی مراسيل کو صحیح قرار دینے کے لیے کس چیز پر اعتماد کیا جا سکتا ہے؟

س ۲۷: صدوق ؒکی مراسيل کی حجیت میں ایک رائے تفریق پر مشتمل ہے۔ وہ تفریق بیان کیجیے؟

س ۲۸: " تھذیب الاحکام" وہ کتاب ہے جسے شیخ طوسی ؒنے ۔۔۔ کے لیے تالیف کیا۔

س ۲۹: " الاستبصار" کی تالیف کا مقصد کیا تھا؟

س ۳۰: احادیث ذکر کرتے وقت شیخ طوسی ؒکے طریقے اور شیخ کلینی ؒکے طریقے میں کیا فرق ہے؟

س ۳۱: " مشیخہ" سے کیا مراد ہے؟ اور اس کی تالیف کا سبب کیا تھا؟

س ۳۲: اگر ہم شیخ ؒکے اس اصل کے مؤلف تک کے سلسلہ سند کو جاننا چاہیں جس سے وہ نقل کرتے ہیں تو ہمیں کیا کرنا چاہیے؟

س ۳۳: شیخ ؒکے اس اصل کے مؤلف تک کے سلسلہ سند کو جاننے کے لیے ہم یا تو ۔۔۔ یا۔۔۔ کی طرف رجوع کر سکتے ہیں۔

س ۳۴: " مشیخہ" میں مذکور سلسلہ اسناد اور " الفھرست" میں مذکور سلسلہ اسناد کے درمیان فرق ہے، وہ فرق ذکر کیجیے؟

س ۳۵: اگر ہمیں " مشیخہ" میں سلسلہ سند ضعیف ملے تو ہمیں کیا کرنا چاہیے؟

س ۳۶: اگر شیخ ؒ "مشیخہ" میں کئی سلسلہ اسناد بیان کریں تو کیا ان سب کا صحیح ہونا ضروری ہے اور کیوں؟

س ۳۷: اگر ہم کسی ایسی روایت کو لینا چاہیں جو شیخ ؒنے اپنی دونوں کتابوں میں سے کسی ایک میں ذکر کی ہو تو دو باتوں کو ثابت کرنا ضروری ہے۔ انہیں ذکر کیجیے؟ اور یہ دونوں باتیں لازم ہونے میں موجود نکتہ واضح کیجیے؟

س ۳۸: وسائل الشیعہ کے باب ۳، أبواب مقدمة العبادات میں مذکور حدیث : ۱ : کی سند کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟ اپنے جواب کی تائید میں دلیل پیش کریں؟

۱۶

چوتھی فصل

ہماری بعض رجالی کتابوں کے بارے میں نظریات

۱۔ رجال کشّی

رجال کشّی ، یہ شیخ جلیل القدر محمد بن عمر بن عبد العزیز کشّی ؒکی تالیف ہے جو ابو عمرو کی کنیت سے مشہور تھے۔

یہ شیخِ جلیل القدر شیخ کلینی ؒکے ہم عصر تھے اور ان کے طبقے میں شمار ہوتے ہیں۔

اور ان کے بارے میں کہا گیا ہے: وہ ثقہ، عین و نمایا شخصیت کے حامل، روایات اور راویوں کے بارے میں بصیرت رکھنے والے تھے، لیکن وہ ضعیف راویوں سے روایت کرتے ہیں۔

یہ جلیل القدر شیخ، محمد بن مسعود عیاشی ؒکے شاگردوں میں سے تھے اور ان کے اس گھر سے تربیت حاصل کی جو شیعہ اور اہل علم کا مرکز تھا۔

اس جلیل القدر شیخ نے ایک کتاب تالیف کی جس میں راویوں کی تعریف یا مذمت میں وارد روایات کا ذکر ہے، پس وہ عام طور پر یہ نہیں بتاتے کہ یہ ثقہ ہے یا ضعیف، بلکہ پہلے راوی کا نام ذکر کرتے ہیں اور پھر اس کے بارے میں روایات میں جو کچھ وارد ہوا ہے اسے ذکر کرتے ہیں۔ اور اس بنا پر وہ تمام راویوں کا ذکر نہیں کرتے، بلکہ صرف ان کا ذکر کرتے ہیں جن کے بارے میں کوئی روایت وارد ہوئی ہوں۔ اور کہا گیا ہے کہ انہوں نے جن راویوں کا ذکر کیا ہے ان کی تعداد " ۵۲۰ " افراد تک پہنچتی ہے۔

اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ اصلی رجال کشّی – جسے " معرفة الرجال" سے موسوم کیا جاتا ہے – وہ نہیں ہے جو آج کل ہاتھوں میں گردش کر رہی ہے، کیونکہ اصلی کتاب میں بہت سی غلطیاں تھیں، اور شیخ طوسی ؒنے اس کی طرف توجہ دی اور اسے ان غلطیوں سے پاک کیا، اور اسی لیے آج کل متداول و رائج کتاب " اختیار معرفة الرجال" کے نام سے جانی جاتی ہے، یعنی وہ جس کا انتخاب شیخ طوسی ؒنے کتاب " معرفة الرجال" سے کیا۔

اور اس کتاب کے بارے میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ چونکہ یہ عام طور پر راویوں کی توثیق یا تضعیف کے لیے نہیں لکھی گئی بلکہ راویوں کے حالات سے متعلقہ روایات کا ذکر کرتی ہے، لہٰذا یہ رجال نجاشی یا شیخ کی فہرست کے درجے میں نہیں آتی، بلکہ ان سے بعد کے مرحلے میں آتی ہے۔

۲، ۳۔ رجالِ شیخ اور فھرستِ شیخ

شیخ طوسی قدس سرہ کی اس موضوع میں دو کتابیں ہیں۔

الف۔ ان کی رجالی کتاب جو رجال شیخ طوسی کے نام سے مشہور ہے۔ اور اس کتاب میں وہ عام طور پر راویوں کی توثیق یا تضعیف بیان نہیں کرتے، اور اگر ایسا کسی جگہ ہوا بھی ہے تو وہ نادر و بہت کم ہے۔ بلکہ انہوں نے اس میں نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے اصحاب اور اہلِ بیت علیہم السلام کے ہر امام کے اصحاب کا ذکر کیا ہے۔ تو وہ پہلے نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے اصحاب کے نام ذکر کرتے ہیں، پھر امیر المومنین علیہ السلام کے اصحاب کے، پھر باقی ائمہ علیہم السلام کے اصحاب کے۔ اور آخر میں ان لوگوں کے ناموں کی ایک فہرست ذکر کی ہے جنہوں نے ائمہ علیہم السلام سے روایت نہیں کی ہے۔

اور اس بنا پر مذکورہ کتاب کا فائدہ راوی کی طبقے اور اس بات کو جاننے میں ظاہر ہوتا ہے کہ وہ کس زمانی مرحلے میں زندگی بسر کر رہا تھا اور کس امام کے اصحاب میں سے تھا۔

اور مذکورہ کتاب سے متعلق دو نمایاں پہلو ہیں۔

اول: یہ کہ وہ بعض راویوں کے نام دو بار ذکر کرتے ہیں، مثال کے طور پر قاسم بن محمد جوہری کا ایک بار اصحابِ امام صادق علیہ السلام میں ذکر کیا ہے اور دوسری بار ان لوگوں کے باب میں ذکر کیا ہے جنہوں نے ائمہ علیہم السلام سے روایت نہیں کی ہے۔ اور ایسا انہوں نے دوسرے راویوں کے بارے میں بھی کیا ہے۔

اور اس میں واضح تضاد شامل ہے، کیونکہ اگر کوئی شخص اصحابِ امام صادق علیہ السلام میں سے ہو اور آپ علیہ السلام سے روایت کرنے والوں میں سے ہو تو اسے ان لوگوں کے باب میں کیسے ذکر کیا جا سکتا ہے جنہوں نے ائمہ علیہم السلام سے روایت نہیں کی؟ اس کا لازمہ متضاد چیزوں کا ایک ساتھ جمع ہونا اور ایک ہی شخص کا ائمہ علیہم السلام سے روایت کرنے والا اور ائمہ علیہم السلام سے روایت نہ کرنے والا دونوں ہونا ہے۔

اور ان شاء اللہ تعالیٰ کتاب کے دوسرے حصے میں وہ وجوہات بیان کی جائیں گی جو مذکورہ تضاد کو دور کرنے کے لیے ذکر کی گئی ہیں۔

دوم:امام صادق علیہ السلام کے اصحاب کے باب میں شیخ ؒکی طرف سے لفظ " اسند عنہ" کا تکرار۔ تو جب وہ محمد بن مسلم کو مثلاً اصحابِ امام صادق علیہ السلام میں ذکر کرتے ہیں تو کہتے ہیں :

" اسند عنہ" اور یہ ایک ایسا انداز ہے جو شیخ قدس سرہ سے مخصوص ہے۔ اور اس سے مقصود کیا ہے اس کے بارے میں کلام واقع ہوا ہے۔ اور اس سلسلہ میں کئی احتمالات ذکر کیے گئے ہیں جن کی طرف ہم ان شاء اللہ تعالیٰ کتاب کے دوسرے حصے میں اشارہ کریں گے۔

ب۔ الفھرست ۔ اور یہ ایک ایسی کتاب ہے جسے انہوں نے ہمارے اصحاب میں سے جو کتب اور اصول کے مؤلفین ہیں ان کی تحقیق و جمع آوری کے لیے تالیف کیا ہے۔ تو انہوں نے ہر راوی کا ذکر نہیں کیا ہے بلکہ صرف ان کا ذکر کیا ہے جن کی کوئی کتاب ہے۔ اور راوی کا نام اور اس کی کتاب کا ذکر کرنے کے بعد وہ اس کتاب تک اپنے سلسلہ سند کو بیان کرتے ہیں۔

اور انہوں نے عملی طور پر خود کو اس بات کا پابند نہیں کیا کہ ہر راوی کی توثیق و تضعیف بھی بیان کریں، بلکہ یہ کام انہوں نے بعض مقامات پر کیا ہے اور یہ ان کا عمومی طریقہ کار نہیں ہے۔

۴۔ رجالِ نجاشی

رجالِ نجاشی یہ شیخ جلیل القدر احمد بن علی بن العباس نجاشی ؒکی تالیف ہے۔ اور ان کی کنیت ابو العباس ہے۔یہ شیخِ جلیل القدر شیخ طوسی ؒکے ہم عصر تھے اور وہ ان کے ساتھ ایک ہی شیخ و استاد یعنی حسین بن عبید اللہ غضائری سے استفادہ میں شریک تھے۔

اور اس شیخ ؒنے اپنی کتاب صرف کتب کے مؤلفین کو جمع کرنے کے لیے تالیف کی ہے، لہٰذا وہ – شیخ طوسی ؒکی فہرست کی طرح – صرف ہمارے اصحاب و علماء میں سے ان کا ذکر کرتے ہیں جن کی کوئی کتاب ہو۔

اور یہ کتاب شیخ طوسی ؒکی فہرست سے اس بات میں ممتاز ہے کہ اس کتاب کا عمومی طریقہ یہ ہے کہ جس کے نام کو اس میں پیش کیا گیا ہے ساتھ ہی اس کی توثیق و تضعیف بھی بیان کی گئی ہے۔

اور نجاشی ؒکے اس کتاب کو تالیف کرنے کی وجہ یہ تھی کہ مخالفین کے ایک گروہ نے شیعہ پر یہ طعن کیا کہ ان کے پاس نہ کوئی سلف ہے اور نہ ہی کوئی تصنیف شدہ کتاب۔

۱۷

تمرینات

س ۱: رجال کشّی کے مؤلف کون ہیں؟

س ۲: شیخ کشّی ؒکو ۔۔۔ کے ہم عصر شمار کیا جاتا ہے؟

س ۳: کشّی ؒکے بارے میں کہا گیا ہے کہ ۔۔۔

س ۴: کشّی ؒنے ۔۔۔ سے تعلیم و تربیت حاصل کی؟

س ۵: کشّی ؒکا اپنی کتاب میں کیا طریقہ ہے؟

س ۶: کشّی ؒکی کتاب کو " اختیار معرفة الرجال" کیوں کہا جاتا ہے؟

س ۷: شیخ طوسی ؒکی دو کتابیں ہیں۔ وہ کون سی ہیں؟

س ۸: شیخ ؒکا اپنی رجال میں کیا طریقہ ہے اور کیا وہ ان کی کتاب " الفھرست" کے طریقے سے مختلف ہے؟

س ۹: شیخ ؒکی رجال میں ایک دوسرے سے مربوط دو نمایا پہلو ہیں۔ پہلےپہلو کو واضح کیجیے؟

س ۱۰: دوسرےپہلو کو واضح کیجیے؟

س ۱۱: کیا شیخ طوسی ؒکی فہرست اور رجال النجاشی میں کوئی نمایاں فرق یا امتیاز موجود ہے؟

س ۱۲: رجال نجاشی کے مؤلف کا نام کیا ہے؟

س ۱۳: نجاشی ؒ۔۔۔ کے ہم عصر تھے؟

س ۱۴: نجاشی ؒنے اپنی کتاب کس وجہ سے تالیف کی؟

س ۱۵: کیا شیخ ؒکی فہرست اور رجالِ نجاشی غیر شیعہ راویوں کا ذکر کرتی ہیں؟

س ۱۶: حر عاملی ؒنے وسائل الشیعہ کے باب ۲، ابواب صلاة الجماعة کی حدیث ۴ میں یہ عبارت نقل کی ہے:

" قال: و قال رسول اللّه صلّى اللّه عليه و آله لقوم: لتحضرن المسجد أو لاحرقن عليكم منازلكم "

(یعنی: انہوں نے کہا: اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ایک قوم سے فرمایا: تم ضرور مسجد میں حاضر ہوا کرو، ورنہ میں تمہارے گھروں کو جلا دوں گا)۔ پہلے " قال " کا فاعل واضح کیجیے؟ اور مذکورہ حدیث کی سند کو کس رائے کی بنیاد پر صحیح قرار دیا جا سکتا ہے؟

یہ ہماری کتاب کے پہلے حصے میں جن باتوں کا ہم نے ذکر کرنا چاہا تھا ان کا اختتام ہے۔ اور یہ نبوی مبعث کے دن ۲۷ رجب المرجب، ۱۴۱۶ ہجری کو مقدس شہر قم میں، اس شخص کے قلم سے مکمل ہوا جو کریم سے اپنے گناہوں سے درگزر کی امید رکھتا ہے۔

باقر الایروانی

۱۸

دروس تمہیدیہ فی القواعد الرجالیہ

(اردو ترجمہ)

حصۂ دوم

مؤلف: آیت اللہ محمد باقر ایروانی

مترجم: دلاور حُسین حجّتی

تمہید

جب فقیہ کسی خاص و معین حکم کا استنباط کرنا چاہتا ہے تو وہ تشریع کے چاروں مصادر کی طرف رجوع کرتا ہے , مثال کے طور پر اگر وہ ریاکاری (دکھاوے) کا حکم جاننا چاہے تو وہ وسائل الشیعہ کے عبادات کے مقدمہ کے ابواب میں سے بارہویں باب کی طرف رجوع کرے گا، تو وہاں اسے حر عاملی ؒایک حدیث کو اس شکل میں نقل کرتے ہوئے ملیں گے:

" أحمد ابن محمد بن خالد البرقي في المحاسن عن أبيه عن ابن أبي عمير عن هشام بن سالم عن أبي عبد اللّه عليه السّلام قال: يقول اللّه عزّ و جلّ انا خير شريك فمن عمل لي و لغيري فهو لمن عمله غيري"

(احمد بن محمد بن خالد برقی نے المحاسن میں اپنے والد سے، انہوں نے ابن ابی عمیر سے، انہوں نے ہشام بن سالم سے، انہوں نے ابو عبد اللہ علیہ السلام سے روایت کیا ہے کہ آپ علیہ السلام نے فرمایا: اللہ عزّ و جلّ فرماتا ہے کہ میں بہترین شریک ہوں، پس جو شخص میرے لیے اور کسی اور کے لیے عمل انجام دےگا، تو وہ عمل اُس غیر کے لیے ہو جائےگا جس کے لیے اس نےعمل کیا ہے)۔

اگرچہ اس معزز روایت کی دلالت ریاکاری کے ساتھ کیے گئے عمل کے باطل ہونے پر واضح ہے، لیکن کیا ہر روایت کو قبول کر لیا جائےگا یا مخصوص شرائط کے تحت ہی ایسا کرنا جائز ہے؟ [ [۲۸] ] ۔

اس سوال کے جوابات مختلف ہیں۔ ہم ان میں سے کچھ کا ذکر کرتے ہیں :

خبر کی حجیت کے مسئلے میں آراء

۱۔ اگر روایت متواتر ہو یا قطعی قرینہ سے گھری ہوئی ہو تو اس پر عمل کرنا جائز ہے، ورنہ نہیں۔ یہ رائے سید مرتضیٰ ؒاور دیگر کئی افراد سے منسوب ہے۔

۲۔ اگر روایت پر مشہور نے عمل کیا ہو تو وہ حجت ہے، چاہے اس کی سند ضعیف ہو اور اسے غیر ثقہ راویوں نے روایت کیا ہو، اور اگر مشہور نے اس پر عمل نہ کیا ہو تو وہ حجت نہیں ہے، چاہے اس کی سند صحیح ہو اور اسے ثقہ راویوں نے روایت کیا ہو۔ یہ رائے محقق حلی ؒسے منسوب ہے۔

۳۔ اگر روایت کتب اربعہ [ [۲۹] ] میں موجود ہو تو اس کی سند میں غور کیے بغیر اسے قبول کیا جائےگا، اس اعتبار سے کہ کتب اربعہ میں موجود تمام چیزیں ائمہ علیہم السلام سے قطعی طور پر صادر ہوئی ہیں۔ یہ رائے بعض اخباریوں سے منسوب ہے۔

۴۔ اگر روایت کتب اربعہ میں موجود ہو تو اس کی سند میں غور کیے بغیر اسے قبول کیا جائےگا، اس لیے نہیں کہ کتب اربعہ میں موجود تمام چیزیں قطعی الصدور ہیں، بلکہ اس لیے کہ اس میں موجود تمام چیزیں معتبر اور ان کی حجّیت قطعی ہیں۔ اور شاید یہی رائے اخباریوں میں مشہور ہے، بلکہ شاید بعض اصولیوں سے بھی ظاہر ہوتا ہے کہ انہوں نے اس رائے کو اختیار کیا ہے، پس سید خوئی اپنے استاد شیخ نائینی قدس سرّھما سے نقل کرتے ہیں کہ وہ اپنی درسی نشست میں کہتے تھے: " الکافی کی روایات کی اسناد پر بحث و اشکال عاجز کا پیشہ ہے " [ [۳۰] ] ۔

۵۔ اگر روایت کی سند کے راوی عادل ہوں تو وہ حجت ہے، اور اگر وہ عادل نہ ہوں تو وہ حجت نہیں ہے، چاہے وہ ثقہ ہی کیوں نہ ہوں۔ یہ رائے صاحب مدارک ؒسے منسوب ہے، اور شاید علامہ حلی ؒکے بعض بیانات سے بھی یہ رائے ظاہر ہوتی ہے۔

۶۔ اگر روایت کی سند کے راوی ثقہ ہوں تو وہ حجت ہے، چاہے وہ عادل نہ ہوں، اور اگر وہ ثقہ نہ ہوں تو وہ حجت نہیں ہے۔ یہ رائے ہمارے متاخرین علماء میں مشہور ہے۔

ہاں، اس رائے کے پیروکاروں میں اس بات میں اختلاف ہے کہ اگر روایت کی سند کے راوی ثقہ نہ ہوں لیکن مشہور نے اس روایت پر عمل کیا ہو تو کیا ان کا یہ عمل اس روایت کے سندی ضعف کا تدارک کرتا ہے یا نہیں؟اور سید خوئی ؒکے دور سے پہلے کے علماء میں یہ معروف تھا کہ وہ تدارک کے کبری و کلیہ کو تسلیم کرتے تھے لیکن ان کے زمانہ سے اس بات کا انکار معروف ہو گیا ہے۔

تحقیق: کیا صحیح ہے؟

اور علمِ اصول کی " خبر کی حجیت " کی بحث نے ان اقوال کی تحقیق اور ان کے دلائل کا جائزہ لینے کے بعد صحیح قول کو واضح کرنے کی ذمہ داری لی ہے۔

لیکن اجمالی طور پر ہم کہتے ہیں: ان اقوال میں سے صحیح آخری قول ہے، یعنی حجت خبرِ ثقہ ہے، کیونکہ عقلاء کی سیرت ثقہ افراد کی خبروں پر عمل کرنے پر استوار ہے اور شارع کی طرف سے اس کی ممانعت واقع نہیں ہوئی ہے، لہٰذا اس سے شارع کی جانب سے امضاء و اجازت کا انکشاف ہوتا ہے۔

علمِ رجال کی ضرورت

علماء کے درمیان اس بات میں اختلاف ہے کہ علمِ رجال اور نجاشی ؒو شیخ طوسی ؒکے بیانات کی طرف رجوع کرنا، تاکہ یہ معلوم ہو سکے کہ کون سا راوی ثقہ (قابلِ اعتماد) ہے اور کون سا ضعیف، آیا یہ ایک لازمی عمل ہے جس کی فقیہ کو اشد ضرورت ہے، یا یہ ایک ایسا معاملہ ہے جس سے بےنیاز ہوا جا سکتا ہے؟

کچھ علماء نے علمِ رجال کی ضرورت کو مسترد کیا ہے، بلکہ بعض نے تو اسے حرام تک قرار دیا ہے، اس دعوے کے ساتھ کہ اس میں مومنین کے عیب ظاہر ہوتے ہیں اس طرح سے کہ فلاں راوی ضعیف ہے، اس کی حدیث نہیں لی جائے گی، اور فلاں انتہائی جھوٹا ہے۔

علمِ رجال کی ضرورت یا عدم ضرورت کا یہ اختلاف پہلے ذکر کردہ آراء سے منسلک کیا جا سکتا ہے، مثال کے طور پر، اگر یہ مان لیا جائے کہ اگر کسی خبر پر مشہور نے عمل کیا ہو تو وہ حجّت ہے، چاہے اس کے راوی ثقہ نہ ہوں، تو اس صورت میں علمِ رجال کی کوئی ضرورت نہیں رہتی، کیونکہ اصل بنیاد مشہور کا عمل ہے نہ کہ راوی کی وثاقت، کہ جس کی خاطر وثاقت کی تشخیص کی ضرورت ہو۔

اسی طرح، علمِ رجال کی ضرورت کمزور پڑ جاتی ہے، اگرچہ مکمل طور پر ختم نہیں ہوتی، جب یہ اصول تسلیم کیا جائے کہ سند کے ضعف کا مشہور کے عمل سے تدارک ہو جاتا ہے، چونکہ اس رائے کی بنیاد پر جب ہم یہ فرض کر لیتے ہیں کہ مشہور نے روایت پر عمل کیا ہے، تو پھر راویوں کی وثاقت کی تحقیق کی ضرورت باقی نہیں رہتی، ایسی صورت میں، تحقیق کی ضرورت صرف اس روایت کی حد تک محدود ہو جاتی ہے جس پر مشہور نے عمل نہ کیا ہو۔

اور چونکہ ہمارے نزدیک — جیسا کہ پہلے بیان ہو چکا — صحیح بات یہ ہے کہ ثقہ راوی کی خبر حجت ہے، اور انجبار (یعنی عملِ علما سے سند کے ضعف کا تدارک) اس وقت تک کافی نہیں ہے جب تک وہ سچائی کا اطمینان پیدا کرنے کی سطح تک نہ پہنچے، لہٰذا علمِ رجال کی ضرورت ثابت اور شدت کے ساتھ باقی رہتی ہے۔

اور یہ دعویٰ کہ یہ حرام ہے اور اس میں مؤمنین کے عیوب ظاہر ہوتے ہیں۔

مردود ہے، کیونکہ جب یہ کسی اہم تر مقصد کے لیے ہو ـ اور وہ مقصد یہ ہے کہ ثقہ کی روایت کو پہچاننا اور اسے غیر ثقہ کی روایت سے جدا کرنا ہے ـ تو اس میں کوئی قباحت نہیں، جیسے بابِ قضاء میں معاملہ ہے، جہاں گواہوں کو جرح کرنا اور ان کے فسق کو ظاہر کرنا بالاتفاق جائز ہے، کیونکہ ایک بڑے اہم کام کا انحصار اس پر ہے۔

پھر وہیں سے آغاز

ہم نے پہلے اس روایت کا ذکر کیا تھا جسے صاحب وسائل ؒاس طرح نقل کرتے ہیں:

" أحمد ابن محمد بن خالد البرقي في المحاسن عن أبيه عن ابن أبي عمير عن هشام بن سالم عن أبي عبد اللّه عليه السّلام ..."

(احمد بن محمد بن خالد برقی نے المحاسن میں اپنے والد سے، انہوں نے ابن ابی عمیر سے، انہوں نے ہشام بن سالم سے، انہوں نے ابو عبد اللہ علیہ السلام سے۔۔۔)۔

اور اگر ہم یہ جاننا چاہیں کہ مذکورہ روایت کی سند معتبر ہے یا نہیں تو ہمیں دو امور کو مد نظر رکھنا ہوگا :

الف۔ برقی اور امام علیہ السلام کے درمیان کی سند کا جائزہ لینا۔ اگر سند کے تمام افراد کی وثاقت ثابت ہو جائے تو اس لحاظ سے کوئی مشکل نہیں ہوگی۔

لیکن مذکورہ سند کے افراد کی وثاقت ہم کیسے ثابت کریں گے؟ یہ وثاقت کو ثابت کرنے کے طریقوں میں سے کسی ایک کو استعمال کر کے ہو سکتا ہے جس کی طرف ہم تھوڑی دیر بعد اشارہ کریں گے۔

ب۔ حر عاملی ؒاور برقی ؒکے درمیان کی سند کا جائزہ لینا۔ کیونکہ یہ دونوں ہم عصر نہیں ہیں بلکہ ان کے درمیان ایک بڑا زمانی فاصلہ ہے، تو اگر مذکورہ سند کے تمام افراد کی وثاقت ثابت ہو جائے تو اس لحاظ سے بھی کوئی مشکل نہیں ہوگی۔

لیکن ہم حر عاملی ؒکی سند کو برقی ؒتک کیسے جانیں گے، یا دوسرے الفاظ میں ہم ان راویوں کے نام کیسے جانیں گے جن کے حوالے سے حر عاملی ؒنے برقی ؒکی کتاب روایت کی ہے؟

یہ اس طرح واضح کیا جا سکتا ہے: شیخ طوسی ؒکا برقی ؒکی کتابِ محاسن تک ایک سلسلہ سند ہے جس کا انہوں نے اپنی کتاب " الفھرست" میں احمد بن محمد بن خالد برقی کے حالات میں اشارہ کیا ہے۔

اور صاحب وسائل ؒکے پاس ان تمام کتابوں تک سلسلہ سند ہے ہیں جنہیں شیخ طوسی ؒنے روایت کیا ہیں، اور انہوں نے وہ سلسلہ اسناد وسائل کے آخر میں درج کیے ہیں۔ تو جب ہم اِس کو اُس کے ساتھ ملائیں گے تو ہمارے لیے حر عاملی ؒکا برقی ؒتک سلسلہ سند ثابت ہو جائےگا۔

۱۹

تمرینات

س ۱: اگر فقیہ کسی روایت سے حکم استنباط کرنا چاہے تو اسے تین امور ثابت کرنا ضروری ہے۔

انہیں ہر ایک کی ضرورت کی وجہ بیان کرتے ہوئے ذکر کیجیے؟

س ۲: خبر یا تو متواتر ہوتی ہے یا واحد۔ ان میں کیا فرق ہے؟ اور ان میں سے کس کی حجیت پر اتفاق ہے؟

س ۳: حجیتِ خبر کے باب میں سید مرتضیٰ ؒکی کیا رائے ہے؟

س ۴: حجیتِ خبر کے باب میں محقق حلی ؒکی رائے ذکر کیجیے؟

س ۵: روایات کے باب میں اخباریوں سے منسوب رائے ذکر کیجیے؟

س ۶: رواہات کے باب میں صاحبِ مدارک ؒکی کیا رائے ہے؟

س ۷: حجیتِ خبر کے باب میں متاخرین کے درمیان مشہور رائے کیا ہے؟

س ۸: سند کے ضعف کا شہرت کے ذریعے تدارک کرنے کے اصول سے کیا مراد ہے؟

س ۹: شیخ نائینی ؒکی کتاب الکافی کی احادیث کے بارے میں کیا رائے ہے؟

س ۱۰: حجیتِ خبر کے باب میں متاخرین کی رائے پر ہم کیسے استدلال کریں گے؟

س ۱۱: کیا علمِ رجال کی کوئی ضرورت ہے؟

س ۱۲: بعض نے علمِ رجال کو کیوں حرام قرار دیا ہے؟ اور ہم اس کو کیسے جواب دیں گے؟

س ۱۳: علمِ رجال کی ضرورت کو حجیتِ خبر کے مسئلہ میں موجود اقوال سے مربوط کیا جا سکتا ہے۔ اس کی وضاحت کیجیے؟

س ۱۴: اگر ہم کسی روایت کی سند کو جاننا چاہیں اور یہ کہ کیا وہ صحیح ہے یا نہیں، تو کون سا طریقہ اختیار کرنا ضروری ہے؟

س ۱۵: صاحب وسائل ؒنے باب ۳، ابواب مقدمۃ العبادات میں نمبر ۱ میں ایک حدیث بیان کی ہے جو عقل کی اہمیت اور تکلیف کے ثبوت میں اس کے کردار سے متعلق ہے۔ کیا مذکورہ حدیث کی سند صحیح ہے؟ اس کی وضاحت کیجیے؟

س ۱۶: کیا رجالی مبانی (یعنی علمِ رجال کے اصول و نظریات) میں تقلید ممکن ہے؟ اور کیوں؟

۲۰