تفسير راہنما جلد ۱

 تفسير راہنما 10%

 تفسير راہنما مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن
صفحے: 785

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴ جلد ۵ جلد ۶ جلد ۷ جلد ۸ جلد ۹ جلد ۱۰ جلد ۱۱
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 785 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 200885 / ڈاؤنلوڈ: 5793
سائز سائز سائز
 تفسير راہنما

تفسير راہنما جلد ۱

مؤلف:
اردو

أ

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں تنظیم ہوئی ہے

۱

تفسير راہنما

قرآنى موضوعات اور مفاہيم كے بارے ميں ايك جديد روش

پہلى جلد

مؤلف: آيت الله ہاشمى رفسنجاني

اور

مركز فرہنگ و معارف قرآن كے محققين كى ايك جماعت

مترجم: معارف اسلام پبلشرز

ناشر:نور مطاف

جلد: اول

اشاعت:اول

تاريخ اشاعت: رجب ۱۴۲۳ھ _ق

Web : www.maaref-foundation.com

Email: info@maaref-foundation.com

جملہ حقوق طبع بحق معارف اسلام پبلشرز محفوظ ہيں _

۲

كتاب انزلناه اليك لتخرج الناس من الظلمات الي النور باذن ربهم الى صراط العزيز الحميد (ابراہيم ۲)

ہم نے كتاب كو آپ كى طرف نازل كيا تا كہ آپ انسانوں كو ظلمتوں سےنور كى طرف نكال كے لے جائيں ، ان كے پروردگار كے حكم سے، صاحب عزت و قابل تعريف پروردگار كے راستے كى طرف_اس صحيفے يا كتاب كے بارے ميں جو سرور كائنات، الہى سفيروں ميں سب سے اشرف و برترين شخصيت، خاتم الانبياءعليه‌السلام محمد مصطفى (ص) كا عظيم ترين معجزہ ہے كيا تحرير كيا جاسكتاہے ؟ قرآن كريم ايسى كتاب ہے جو زندگى كے تمام ميدانوں ميں بے مثل و بے نظير ہے_ اس كى عمل دارى اور حكومت كى حديں لا محدود ہيں _ اس كى فصاحت و بلاغت كا كوئي مقابلہ نہيں اور نہ ہى اس كے معانى و معارف كے بے كراں سمندر كے لئے كسى خاتمے يا اتمام كا كوئي نقطہ متعين كيا جاسكتاہے _ اس كا مقابلے كى دعوت دينا _ ''فاتوا بسورة من مثله و ادعوا من استطعتم من دون الله '' (يونس ۳۸)(۱)

يہ دعوت بہت وسيع اور ہمہ گير ہے جو زمان و مكان كى حدود سے ماوراء ہے _ بتوں كے فريب كى دنيا كا رہنے والا بشر اور توہم پرست انسان اس كے مقابلے كى سكت نہيں ركھتا _ جديد تہذيب كے علمى غرور كا فريفتہ شخص بھى اس كے مقابلے ميں كمزور و ناتواں اور بے بس ہے _

قرآن نے جس طرح زمانہ جاہليت كے انسانوں كو دعوت دى اور اپنا مجذوب قرار ديا اسى طرح آج ستاروں پر كمنديں ڈالنے والے اور نيلگوں آسمان پر اپنى فتح كے جھنڈے گاڑنے والے انسان كو اپنى طرف تفكر و تدبر كى دعوت دے رہاہے_ اُس زمانے ميں لوگ فوج در فوج آئے اور قرآن كے دلدادہ و گرويدہ ہوگئے _ آج بھى محققين ، دانشمند اور صاحبان بصيرت كى ايك كثير تعداد قرآن حكيم كے مطالعات اور اس ميں غور و فكر سے اس كى عاشق و شيدائي ہوتى جارہى ہے _ اگر اس دور كے انسانوں نے قرآن كے لئے اپنى زندگياں صرف كيں تو آج بھى منصف مزاج لوگ قرآنى معارف و حقائق كے سامنے سر تسليم ہوئے جاتے ہيں _ اگر چہ آج اسلام و قرآن كے خلاف پر اپيگنڈے كا وسيع جال بچھايا گيا ہے _ دھمكياں ، دھونس، دھاندلى ، زر ، زور اور مكر و فريب كا بازار خوب گرم ہے ليكن اس كے باوجود پورى دنيا ميں قرآنى معارف كے ادراك و معرفت كے لئے لوگوں كا ايك سيلاب ہے جو دينى اور علمى مراكز كى طرف عشق و شيفتگى كے ساتھ امڈا چلا آرہا ہے _ قرآن كريم كى بارگاہ ميں يہ فريفتگى اور اظہار محبت در حقيقت امام صادقعليه‌السلام كے اس فرمان كى تصديق ہے _

___________________

۱) پس اس كى ايك سورة كى ہى مثل لے آؤ اور جس جس كو اللہ كے علاوہ مدد كے ليئے بلانا چاہتے ہو دعوت دو_

۳

''ان الله تبارك و تعالى لم يجعله لزمان دون زمان و لناس دون ناس فهو فى كل زمان جديد و عند كل قوم غض الى يوم القيامه '' (كافى ج/۲ص ۱۸۰)(۱) اس صحيفہ الہى كى جاذبيت، دلربائي ، استحكام، پائيدارى اور بقا كى حقيقى دليل و سبب كيا ہے ؟ بالاجمال يہ كہا جاسكتاہے كہ قرآن وہ واحد كتاب ہے جو مطلق ، لا محدود عصمت كى مالك ہے_ وہ كتاب ہے جو ہر طرح كى تحريف اور انحراف سے محفوظ ہے _ البتہ اس امر كى دليل اس كتاب كامعجز نما كلام ہے_ ارشاد ہوتاہے :_ ''انا نحن نزلنا الذكر و انا له لحافظون (حجر۹)(۲) اگر تورات اور انجيل كا سرسرى جائزہ لينے كے لئے ان كى ورق گردانى كى جائے تو واضح ہوجاتاہے كہ بہت كم معارف اور حقائق ہيں جن ميں تحريف نہيں كى گئي ورنہ اكثر موضوعا ت ميں دست برد كركے انہيں آلودہ كرديا گيا ہے_ ان ميں موجود بہت سارے سست، غير صحيح ، خلاف عقل اور خلاف فطرت مطالب آنكھوں كو حيرانى و پريشانى ميں مبتلا كرديتے ہيں _ اسى طرح علمائے اہل كتاب كى طرف سے ہونے والى جرح و تنقيد كو اگر ملاحظہ كيا جائے تو معلوم ہوتاہے كہ يہ تنقيدات اور كتاب مقدس كے متون كى عدم حجيت پر دلالت كرنے والے مطالب اصل كتاب سے كئي گنا زيادہ ہيں _ اس كے برخلاف گزشتہ صديوں ميں كئي افراد اور مراكز ايسے رہے ہيں جنہوں نے قرآن كريم ميں شك و ترديد اور جرح و تنقيد كى راہيں ہموار كرنے كى كوشش كى ليكن اس كے باوجود آج تك كوئي ايك بات بھى قرآن ميں خلاف عقل و فطرت تلاش نہيں كرسكے_ يہى سبب ہے كہ قرآن حكيم اپنے قديم و جديد مخاطبين كو ايك اعتماد بخشتا ہے _ اس طرح ہر روز اس كے لفظى اور معنوى معجزات آشكارتر ہوتے جاتے ہيں _ آج انسانى معاشروں كے لئے ايك چيز درد و رنج كا باعث ہے _ اس كے باعث ہر روز بشر كى خفت و خوارى اور حيرت ميں اضافہ ہورہاہے _ يہ چيز دنيا كے قانون ساز اداروں پر قائم دردناك اور پريشان كن حالت ہے _ اسى طرح وہ دساتير ہيں جو ان مراكز سے بن سنور كے نكلتے ہيں _ يہ دساتير نہ فقط انسان كے اضطراب كو كم نہيں كرتے بلكہ اغراض و خواہشات كا مجموعہ ہونے كى وجہ سے ہاتھ كى ہتھكڑياں اور پاؤں كى بيڑياں بن چكے ہيں _ انہوں نے كرہ ارض كے باسيوں كو سختيوں اور اسارت ميں مبتلا كر ركھا ہے _ اس امر كى زندہ دليل يہ ہے كہ انسان كے بنائے ہوئے ايسے قوانين ميں ترميم و تغيير كے لئے روزانہ كميٹياں تشكيل دى جاتى ہيں _

____________________

۱) اللہ تبارك و تعالى نے قرآن كريم كو نہ تو كسى خاص زمانے كے لئے قرار ديا ہے اور نہ ہى كسى خاص قوم كے لئے پس يہ قيامت تك كے لئے ہر زمانے ميں جديد ہے اور ہر قوم كے نزديك تر و تازہ رہے گا _

۲)يقيناً ہم ہى اس كتاب كو نازل كرنے والے ہيں اور ہم ہى يقينا اس كے محافظ ہيں _

۴

انسان كے بنائے ہوئے آئين ميں جو كمزورى و اضمحلال پايا جاتاہے اسى بناپر ان كو حرف آخر تصور نہيں كيا جاسكتا _ انسانى كى بنيادى ضروريات كے عظيم خلا كو ايسے كارآمد اور جاوداں قوانين كا مجموعہ پرُكرسكتاہے جو مادى اور معنوى ضروريات كى تكميل اور نشو ونما كرسكتاہو_ قرآن حكيم ايك كامل اور جامع صحيفہ ہونے كى وجہ سے بہت پر اميد اور بااطمينان لہجے ميں ارشاد فرماتاہے: ''لا رطب و لا يابس الا فى كتاب مبين '' (انعام ۶)(۱) ''وما فرطنا فى الكتاب من شيئ '' (انعام ۳۸)(۲) بالكل اسى تناظرميں رسول گرامى اسلام (ص) كا يہ ارشاد ہے :'' فاذا التبست عليكم الفتن كقطع الليل المظلم فعليكم بالقرآن فانه شافع مشفع و ما حل مصدّق و من جعله امامه قاده الى الجنة و من جعله خلفه ساقه الى النار'' (كافى ج/۲ ص۵۹۹)(۳) پس كوئي راستہ ہى نہيں مگر يہ كہ قرآن كى پناہ لى جائے اوراسى كو تھام ليا جائے_ پس اگر دنيا قرآن كا رخ كرے اور مسلمان اس كى طرف لوٹ آئيں تو اُس وقت بدنظميوں ميں انسجام پيدا ہوجائے گا اورپريشانياں برطرف ہوجائيں گى _ قرآن حكيم پر اس توجہ اور راہ بازگشت كى طرف امام علىعليه‌السلام اس طرح اشارہ فرماتے ہيں _'' ذلك القرآن فاستنطقوه'' (كافى ج/۲ ص ۵۹۹)(۱) اس كا معنى يہ ہے كہ وہ ذمہ دار علماء جو استعداد ركھتے اور تحقيقى و تخليقى صلاحيتوں كے مالك ہيں روزمرہ كى مشكلات ،مسائل اور تقاضوں كى بنياد پر قرآن حكيم كى تشريح و تفسير بيان كريں _ ان علماء كو چاہيئے كہ اس بحر بيكراں ميں غوطہ زني كريں اور اسلامى و انسانى معاشروں كے دردوں كا مداوا تلاش كريں _ يہ امر اس بات كا تقاضا كرتاہے كہ علم تفسير اور فقہى ابحاث ميں اجتہاد ايك دائمى اور پرثمرجد و جہد كى شكل اختيار كرجائے _ اگر ايسا ہوجائے تو اس الہى دستر خوان كى عظيم ، بھرپور اور لايزال نعمتوں كے ذريعے عصر حاضر كى مشكلات كا وافى و شافى حل تلاش كيا جاسكتاہے _ تفسير راہنما كے عظيم مؤلف كى شخصيت اگرچہ محتاج تعريف و تعارف نہيں ہے تا ہم مندرجہ ذيل دو عناوين كے تحت بعض اہم مطالب كا ذكر كيئے ديتے ہيں _

الف: مؤلف

۱ _ تفسير راہنما كے بزرگوار اور نكتہ شناس و نكتہ سنج مؤلف حضرت آيت الله ہاشمى رفسنجانى (دام ظلہ) ہيں _

____________________

۱) كوئي خشك و تر ايسا نہيں جس كا بيان كتاب مبين ميں نہ ہو_ ۲) ہم نے كوئي بھى چيز كتاب ميں اٹھا نہيں ركھي_

۳) جب فتنے سياہ راتوں كى مانند تم پر ٹوٹ پڑيں تو ضرورى ہے قرآن كى پناہ لو كيونكہ اس كى شفاعت قبول كى جانے والى ہے اور اس كى شكايت تصديق شدہ ہے جس نے اس كو اپنا امام قرار ديا تو اسے جنت كى طرف راہنمائي كرے گا اور جو (اسكا امام بنايعني) اسے پس پشت ڈال دے تو اسے جہنم كى طرف دھكيل دے گا_

۴) يہ قرآن ہے پس اس سے گفتگو كرو_

۵

آپ تقريباً گزشتہ ساٹھ سال سے اپنى اعلى صلاحيتوں ، روشن ذہنيت و ذكاوت كے ہمراہ بلافاصلہ اسلامى و قرآنى علوم كى تحقيق و تاليف ميں مشغول ہيں _آپ نے اپنے زمانے كى شہرہ آفاق شخصيات اور اساتذہ مثلاً آيت الله العظمى بروجردي ، حضرت امام خميني ، صاحب تفسير الميزان علامہ طباطبائي و غيرہم سے كسب فيض كيا _ آپ كے دوستوں كى فہرست ميں شہيد مطہري ، شہيد بہشتى ، شہيد باہنر اور رہبر معظم حضرت آيت الله خامنہ اى (دام ظلہ العالي) جيسى باكمال شخصيات ہيں _ ان دو خصوصيات كے علاوہ انتھك جد و جہد، اعلى انتظامى صلاحيت، طاقت فرسا ليكن منظم و منسجم كوششيں اور بالخصوص توفيقات پروردگار نے آپ كى شخصيت كو نابغہ روزگار ہستى ميں تبديل كرديا ہے _

۲ _ آپ كى ايك دوسرى خصوصيت جو اس كتاب كى تاليف او رتدوين ميں بہت مؤثر رہى وہ آپ كى مختلف عملى ميدانوں ميں اسلامى انقلاب سے پہلے اور بعد ميں دنيا كے مختلف ممالك كے سفر ہيں _ اسى طرح مملكت اسلامى كے مختلف اعلى سياسى ، معاشرتى ، ثقافتى اور اقتصادى عہدوں پر فائز ہونا ہے اس كا فائدہ اور نتيجہ يہ نكلا كہ آپ عالم اسلام بالخصوص ايران اسلامى كى مشكلات سے واقفيت حاصل كريں _ دوسرى اہم چيز يہ كہ آپ نے اسلام كى عملى صورت اور احكام قرآن كو نافذ كرنے كا عملى تجربہ حاصل كيا _ اس طرح اس راہ ميں حائل مشكلات كو نزديك سے لمس كيا _ ان تجربات نے كمك كى كہ كس طرح عالم اسلام كى جديد اور موجود مشكلات كا حل قرآن حكيم سے تلاش كريں _ پس يوں قرآن كريم كو فكرى اور عملى ميدان ميں ظاہر كرنے كا موقع ميسر آيا_

ب: تفسير راہنما

تفسير راہنما پر ايك سرسرى نظر اس بات كو واضح كرتى ہے كہ موتيوں بھرا يہ خزانہ مختلف امتيازات اور خوبيوں سے معمور ہے _ البتہ يہاں ہم مختصر طور پر چند موارد كى طرف اشارہ كررہے ہيں _

تفسير ترتيبى موضوعي:

تفسير ترتيبى كى قديم الايام سے ايك مقبوليت اور مقام رہاہے _ علمائے اسلام نے زيادہ تر اسى روش اور انداز كو اپنايا_ غالباً جب تفسير كہا جائے تو فورى طور پر اسى روش كى تصوير ذہن ميں ابھرتى ہے _البتہ گزشتہ چند عشروں سے تفسير موضوعى علماء و محققين كى توجہ كا مركز بنى ہوئي ہے _ اس كے ابھى تك بہت زيادہ ثمرات و نتائج سامنے آئے ہيں جو قابل تعريف ہيں _ تفسير راہنما پر پہلى نظر جو توجہ كا باعث بنتى ہے وہ يہ كہ مؤلف نے تفسير ترتيبى كى روش كو اپنايا ہے

۶

اور عملى طور پر اسى پہ كاربند نظر آتے ہيں ليكن يہ بھى كہا جاسكتاہے كہ انہوں نے صرف اسى انداز پر اكتفا نہيں كيا اور نہ ہى تفسير ترتيبى كو تفسير موضوعى كى راہ ميں ركاوٹ تصور كيا ہے _ پس اس كتاب پر دوسرى نظر دوڑائي جائے تو اسے تفسير موضوعى بھى كہا جاسكتاہے كيونكہ اس اعتبار سے بھى كوئي كمى نظر نہيں آتي_

تفسير مأثور عقلي:

تفسير مأثور جس كى بنياد سنت نبوى (ص) اور اہل بيتعليه‌السلام كى احاديث ہيں يہ بھى اسلام كى ابتدائي صديوں كا ايك قابل قدر ورثہ ہے _يہ سرمايہ اپنى جگہ عظيم المرتبت ہے_ بعض محققين كا يہ نكتہ نظر رہاہے كہ مصحف شريف كے اصلى مخاطبين سركار دو جہاں پيامبر گرامى اسلام (ص) اور آئمہ معصومين (عليہم السلام ) ہيں _ پس ان محققين نے قرآن كريم كے ہم وزن كلمات يا احاديث سے آنكھيں نہ چرائيں بلكہ اپنا تمام تر ہم و غم اس طرح كى روايات كى تلاش كو قرار ديا _ يہى وجہ ہے كہ اس طرح كى تفاسير قاريان قرآن كو اطمينان بخش لگتى ہيں _ اس تفسير كے وسيع النظر مفسر نے دوسرے علماء كى طرح روايات پر انحصار كے ساتھ ساتھ عقل سے استفادہ كو يہاں قابل اجتماع سمجھا ہے_ پس روش نگارش كو يوں منظم كيا ہے كہ عقل و نقل دونوں كہيں عدم التفا ت كا شكار نہ ہوجائيں _ اس تفسير ميں ايك اور تخليقى نوعيت كا كام كيا گيا ہے وہ يہ كہ مفسر نے ہر آيت سے مطالب كو اخذ كرتے ہوئے ماقبل اور مابعد كى آيات بلكہ تمام آيات كے تمام پہلوؤں پر بھى گہرى نظر ركھى ہے _ پس جزوى مطالب كو اخذ كرتے ہوئے ان كو كلى مفاہيم كے ساتھ مرتبط كيا ہے _ گويا قرآنى آيات كے جہاں باطن كى طرف نظر دوڑائي ہے وہاں ظاہر كو نظر انداز نہيں كيا _

چند اہم نكات:

۱)واضح رہے كہ آيات كا ترجمہ ہم نے حجة الاسلا م والمسلمين جناب سيد ذيشان حيدر جوادى صاحب كے قرآن حكيم كے ترجمہ سے انتخاب كيا ہے _ لہذا اگر كہيں آيات كے تفسيرى مطالب ميں اختلاف رائے موجود ہو تو يہ تفاوت فطرى نوعيت ہوگا_

۲)ہر آيت كے آخر ميں اور كتاب كے آخر ميں اشاريوں كا نظام اردو حروف تہجى كى ترتيب سے مرتب كيا گيا ہے _ مذكورہ انڈكسز ميں عناوين دو طرح كے ہيں ايك اصلى عنوان اور پھر ہر اصلى عنوان كے ذيل ميں فرعى عناوين ہيں _ پورى كتاب ميں فرعى عناوين كو البتہ حروف تہجى كى ترتيب سے تحرير نہيں كيا گيا _

۷

۳)بعض تفسيرى نكات ايسے بھى ہيں جن كى سند و دليل آيات كے مذكورہ موارد ميں نہيں ہے اور نہ ہى انہيں كلام كے لفظى مدلولات سے اخذ كيا جاسكتاہے كہ انہيں موضوعاتى ادبى نكات سے ماخوذ قرار ديا سكے_ البتہ يہ نكات غير لفظى عوامل جيسے خارجى و تاريخى قرا ت ، عقلى قرائن، الغاء خصوصيت كا احتمال، آيات كے مابين ارتباط و غيرہ سے ماخوذ ہيں _ پس ايسى صورت ميں اس احتمالى نكتہ سے نہ تو چشم پوشى كى جاسكتى ہے اور نہ ہى اسے قرآن كريم كى طرف واضح اور قاطع نسبت دے سكتے ہيں _ لہذا ايسے احتمالى نكتہ كے سامنے(*) كى علامت لگادى گئي ہے جو آيت سمجھنے كے لئے زيادہ تعقل و تفكر كى زمين فراہم كرتاہے_

۴)تفسير راہنما كا اردو ترجمہ آپ قارئين كے پيش خدمت ہے _ اس ترجمہ كو محققين اور عالم و فاضل افراد كے ايك گروہ نے انتہائي گہرى نظر اور عميق غور و تدبر سے انجام ديا ہے_ محققين كى يہ ٹيم اردو زبان سے آشنائي ركھنے كے علاوہ عربي، فارسى پر بھى تسلط ركھتى ہے _ علاوہ بر اين ان افراد نے پورى ديانت اور سعى و كوشش كے ساتھ كتاب كے مفاہيم و مطالب كو اردو زبان كے قالب ميں ڈھالا ہے _ انشاء الله يہ كتاب اميد ہے كہ شريعت مقدسہ اسلام كے پيروكاروں كے ہاں مقبول و منظور نظر واقع ہوگى _ تا ہم يہ ادارہ اہل فكر و نظر كى اصلاحى و تعميرى آراء كا خندہ پيشانى سے استقبال كرے گا _ معارف اسلام پبلشرز كى جانب سے ابھى تك جو قلمى خدمات انجام دى گئي ہيں يہ اسلامى معارف كے علمى و ثقافتى مركز سے مربوط ہيں _يہ مركز حضرت آيت الله طاہرى خرم آبادي(مدظلہ) كے زير نظر كام كر رہاہے_ مذكورہ تفسير كى اہميت كے پيش نظر اسے ترجمہ كے لائق سمجھاگيا _ لہذا ہم نے اسے اردو كے قالب ميں ڈھالنے كى سعى كى ہے اور اس پر خدائے رحيم و متعال كى بارگاہ اقدس ميں شكر گزار ہيں _ آخر ميں ہم '' مركز فرہنگ و معارف قرآن'' كے محققين اور فاضل شخصيات كے شكر گزار ہيں جنہوں نے اس تفسير كى ترتيب و تنظيم اور تدوين ميں بنيادى كام كيا _ اسى طرح مترجمين اور مصححين كا شكريہ ادا كرتے ہيں جنہوں نے تہہ دل سے اس مسئلے ميں ہمارى معاونت فرمائي _ خصوصاً جناب حجةالاسلام سيد نجم الحسن نقوى جنہوں نے اس پہلى جلد كے ترجمہ و تصحيح كے امور انجام ديئے_ يہاں سے ہم آپ كى توجہ مبذول كروانا چاہيں گے تا كہ آپ اس تفسير كے مفسر اور اس تأليف كے مراحل سے زيادہ آشنائي حاصل كريں _ اس كے لئے اس '' پيش لفظ'' كى طرف رجوع كريں جو خود مؤلف محترم نے تحرير فرماياہے_

الحمدلله اولاً و آخراً

معارف اسلام پبلشرز

۸

مقدمہ

بسم الله الرحمن الرحيم

اس پہلى جلد كى اشاعت كے ساتھ ہى جو قرآنى مفاہيم تك پہنچے كے ليئے كليدى كتاب تدوين كرنے كا راستہ ہموار كرے گى مجھے اپنى ديرينہ آرزوئيں پايہ تكميل تك پہنچتى نظر آرہى ہيں يہ آرزوئيں عرصہ دراز( يعنى معارف اسلامى كے حصول و تحقيق كے زمانہ سے ميرے افكار و روح ميں سرايت كئے ہوئے تھيں _

ميں نے اسى زمانے ميں محسوس كيا كہ قرآن كريم جولوگوں كے ليئے خدا كى تجليات كا مقام ، ميزان قسط و عدالت اور ہدايت كا محور ہے معاشرے ميں متروك و اجنبى ہے_ امت مسلمہ كے انفرادى و معاشرتى دردوں كا مداوا كرنے كے ليئے شفا بخش شہد كے متلاشى افراد،اسى طرح محققين كے ليئے اس سے استفادہ كرنے ميں مشكل و دشوارى ہوتى ہے تو اس سے مجھے بہت دكھ پہنچتا اور ميں اندر ہى اندر كڑھتا رہتا _ بعض اوقات ايسا بھى ہوتا كہ كسى ايك موضوع كے بارے ميں قرآن كريم كى رائے معلوم كرنے كے ليئے مجھے چار و ناچار تمام قرآن كا مطالعہ كرنا پڑتا پھر كسى اور موضوع پر تحقيق كرتے وقت يہى كام دوبارہ انجام دينے پر مجبور ہوتا _ اس كے نتيجے ميں ہر موضوع كے متعلق تحقيقى كام انتہائي طويل فرصت كا طالب ہوتا اور يوں تحقيق كى رفتار بہت سست پڑجاتى _

مجھے اس پر بہت افسوس تھا كہ بالآخر امت مسلمہ نے صدياں گذر جانے كے باوجود كما حقہ اس كتاب كو جو لوگوں كے ساتھ خدا كا عہد اور انسانى معاشرے كے جسمانى و روحانى امرا ض كا حقيقى و با بركت علاج ہے اس كى حكمت و عظمت كے مطابق ايك شائستہ اہميت كيوں نہيں دى گئي؟ اس طولانى مدت كے دوران ايك قرآنى انسائيكلوپيڈيا تدوين كيوں نہيں ہوا تاكہ معرفت و حكمت كے متلاشى ، نور و ہدايت كے طالب اس سے باآسانى استفادہ ، روح كى تسكين ، قلب كى شفا اور اطمينان خاطر پيدا كر سكيں _ البتہ جو كچھ بيان كيا ہے اس كا مطلب ہرگز يہ نہيں كہ اس دوران كوئي كام ہى نہيں ہوا بلكہ مقصد يہ ہے كہ جو كچھ انجام پاچكا ہے اور تا بحال سامنے آيا ہے اور جو كچھ ہونا چاہيئے تھا اس ميں بہت زيادہ فاصلہ ہے _

ہر عصر كے مسلمان محققين اور دانشمندوں نے اسى زمانے كے علوم و معارف كى سطح كے مطابق جو تفاسير تدوين كى ہيں ہمارے پاس موجود گراں بہا خزانہ ہيں _ ليكن ان منابع سے استفادہ كے ليئے بہت زياد وقت دركار ہوتاہے اور طاقت فرساكام_ پھر محقق كے ذہن ميں ہميشہ يہ كھٹكا موجود رہتا ہے كہ وہ تمام پہلوؤں سے قرآن كے نظريہ تك نہيں پہنچ سكا _

۹

اسى طرح تفصيل الآيات ، المعجم المفہرس اور الجامع لمواضيع الآيات و غيرہ جيسى موضوعى تفسيريں اور الفاظ و معانى كى راہنمائي والى كتب محققين كى تمام ضرورتوں كو پورا نہيں كرتيں _

احساس ذمہ دارى :

اسى زمانے ميں ميرے ايك فاضل دوست جنہوں نے چند موضوعات پر قرآنى تحقيق انجام دى اور برسوں اس پر محنت كى تھى ايك سفر كے دوران تدوين شدہ تمام تحقيقى يادداشتيں گم كر بيٹھے _ يہ چيز ميرے اورباقى دوستوں كے ليئے بہت رنج كا باعث بنى _ اس طرح ميں نے قرآن كريم ميں تحقيق كى راہ ہموار كرنے ، قرآن سے دريافت شدہ مطالب و مفاہيم اور نظريات ميں مزيد تيزى و استحكام پيدا كرنے اورايك مذہبى و علمى ماحول يا سماج سے يہ كمى پورا كرنے كے ليئے اقدام كرنا اپنے اوپر فرض سمجھا _ يہ شديد ظلم و استبداد كا دور دورہ تھا _ ہمارى بہت سارى محنتيں اور وقت اس كے خلاف جد و جہد ميں گذر جاتا لہذا اس مقدس احساس اورعظيم آرزو كو عملى جامہ پہنانے كا مناسب موقع نصيب نہيں ہوتا تھا _ اس دوران جب بھى جيل ميں ڈالا جاتا تو پوچھ گچھ اور تفتيش كى مدت گذارنے كے بعد ہميشہ اس نہايت اہم كام كے انجام دينے كى فكر ميں رہتا عام طور پر ہيجان ، جوش و جذبہ اور اضطراب انسان سے غور و فكر اور تحقيق كا امكان چھين ليتاہے اور ميں تو اكثر قيد تنہائي ميں ہوتا جہاں تحقيق كے وسائل بالكل ميسر نہ ہوتے تھے پس اس كم مدت كے دوران اتنى فرصت نہ ہوتى كہ يہ خواہش پايہ تكميل تك پہنچا سكوں _ ميں نے چند مرتبہ تفتيش اور قيد تنہائي كے دوران اپنے پاس موجود قرآن كريم سے استفادہ كرتے ہوئے مختلف موضوعات منجملہ اشرافيہ، صبر اور جہاد پر تحقيقى كام كيا _ ان دنوں ميرا اكثر وقت قرآن حفظ كرنے ميں صرف ہوتا _ ميں چار دفعہ گرفتار ہوا ليكن قيد كى مدت كم تھي_ بہر حال جتنى مدت (۱۶ مہينے ) جيل ميں رہا مجموعى طور پر ۲۵ پارے حفظ كيئے_ البتہ افسوس ہے كہ اب وہ منظم و مرتب صورت ميں ميرے ذ ہن ميں محفوظ نہيں رہے _ يہ يادداشتيں بيان كرنے كا مقصد قرآن سے اپنے عشق لگاؤ اور وہ احساس ذمہ دارى تھى جو قرآن حكيم كى نسبت ميرے وجود ميں تھى _ وہ كتاب جو تمام اہل قبلہ كى نظر ميں اسلامى بلكہ انسانى معارف كا بنيادى ترين ، غنى ترين اور معتبر ترين منبع ہے _ جو كتاب عدل و انصاف، كتاب حكومت و نظم فيصلہ كرنے والى اور كتاب حكمت ہے _

۱۰

وہ كتاب كہ جس كے بارے ميں ارشاد ہے ''لا ياتيه الباطل من بين يديه و لامن خلفه تنزيل من حكيم حميد '' حم السجدہ _۴۲(۱) ليكن افسوس كہ اسلامى معاشروں ميں اس قدر عزت و احترام كے باوجود يہ اجنبى و ناشناختہ ہے_ بالآخر ميرى دعا قبول ہوئي اس منصوبہ كو عملى جامہ پہنانے اور ديرينہ آرزو كو پايہ تكميل تك پہنچانے كے ليئے بہترين موقع اور كافى فرصت نصيب ہوئي _ ۱۳۵۴ ھ _ ش( ايرانى كيلنڈر كے مطابق )ميں انقلابى جد و جہدكے دوران ايك سفر سے واپسى پر مجھے ساواك كے گماشتوں نے گرفتار كر ليا _ پوچھ گچھ كے ابتدائي مراحل ميں ہى اس وقت كے خاص حالات اور بعض دستاويزى ثبوت ايسے تھے جن كے پيش نظر مجھے اندازہ ہوگيا تھا كہ اس دفعہ قيد كى مدت خاصى طولانى ہوگى _ لہذا ميں نے ( كليد قرآن ) كے عنوان سے تحقيق انجام دينے كا مصمم ارادہ كرليا _ اگر چہ شكنجوں كى وجہ سے ميں برى طرح زخمى تھا اور ميرى بدنى قوت مضمحل ہوچكى تھى _ ليكن يہ كام شروع كرنے كے ليئے ميرا حوصلہ بلند اور كافى حد تك پُر نشاط تھا _

ميں نے '' مشتركہ كميٹي'' ميں ساواك كے كارندوں سے ايك قرآن مانگا ليكن انہوں نے ايسا كرنے سے انكار كرديا_ كيوں كہ انہيں علم تھا كہ قيد تنہائي ميں قرآن بہترين انيس وساتھى ہے اور مختلف رنج و الم ، مشكلا ت اور تنہائيوں كى تلافى كرنے كا بہترين ذريعہ ہے _

ميرے اختيار ميں قرآن كا نہ ہونا اس بابركت عمل كو شروع كرنے كے ليئے ميرے ارادہ ميں كسى قسم كى ركاوٹ كھڑى نہ كرسكا ميں نے اپنى يادداشت سے مدد لى كيونكہ ان دنوں اكثر و بيشتر آيات لفظ و ترتيب كے ساتھ ميرے ذہن ميں محفوظ تھيں _ توقيق الہى بھى شامل حال ہوئي اور اچھے نتائج حاصل ہوئے _ اگرچہ ميرے پاس لكھنے كا كوئي وسيلہ نہيں تھا تا ہم ميں نے اپنے ذہن كے صفحات پر قرآنى مطالب و مضامين كا اچھا خاصہ ذخيرہ منظم طريقے سے محفوظ كرليا تھا _

مورد نظر اہداف سے ہم آہنگ اس كام كا ايك كلى منصوبہ مكمل طور پر ميرے ذہن ميں نقش ہوچكا تھا _ سپيشل پوليس كى حراست ميں ايك ماہ تك يہ كام اسى طرح انجام پاتا رہا جبكہ ميں ايك سطر بھى تحرير نہ كرسكا_ بہرحال تفتيش كى مدت ختم ہوئي مجھے حوالات سے'' اوين'' جيل ميں منتقل كرديا گيا _جہاں مجھے ركھا كيا گيا وہاں جناب طالقانى ، جناب منتظرى ، جناب مھدوى كنى ، جناب لاہوتى ، جناب انوارى ، جناب ربانى شيرازى ، جيسے بہترين دوست اور انقلابى جد و جہد ميں شريك افراد پہلے سے موجود تھے جبكہ چند دنوں بعد جناب كروبى ، جناب موحدى ساوجى ، جناب عراقى شھيد ، جناب عسكر اولادى اور كچھ دوسرے لوگ ہمارے ساتھ آن ملے _

____________________

۱) باطل اس كے نہ تو سامنے سے آسكتاہے اور نہ ہى عقب سے ( يہ كتاب) حكيم و حميد ذات كى جانب سے نازل ہوئي ہے_

۱۱

يہ انتہائي اہم شخصيات كا اكٹھ تھا _ تفتيش كا زمانہ گذر چكا تھا لہذا ہميں كسى قسم كا اضطراب يا پريشانى لاحق نہيں تھى _ چند كتابيں اور لكھنے كے وسائل بھى كہيں نہ كہيں سے مل گئے _ قيد تنہائي كے مقابلے ميں بيرق كا ماحول تحقيق اور غور و فكر كے ليئے انتہائي مناسب تھا الغرض قرآن سے جس چيز كى تلاش ميں تھا اسكى تكميل كے ليئے ہر چيز ميسر تھى _ خدا كى نعمت اور حجت مجھ پر تمام تھى اس كے مقابلے ميں اس فرصت كو غنيمت سمجھتے ہوئے ميں نے خوب استفادہ كيا اور بہترين تحقيقى نتائج حاصل كيئے _ ميں نے اپنا بيشتر وقت اس كام كے ليئے وقف كرديا _ ميں قارئين كرام كے سامنے صحيح تصوير پيش نہيں كر سكتا ہوں كہ ( خدا كى طرف سے) نصيب ہونے والى اس توفيق پر كس قدر خوش اورشكر گذار تھا_ اس جيل ميں تمام مشكلات كے باوجود جو انس و محبت اور وابستگى قرآن سے پيدا ہوئي اور ميں اپنے وجود ميں جو نشاط ، جوش و جذبہ محسوس كرتا تھا اس پر دن ميں كئي مرتبہ يہ الفاظ ( اين الملوك و ابناء الملوك ) ترجمہ: (كہاں ہيں شہنشاہ اور ان كى آل اولاد)اپنے دل ميں يا زبان پر دہراتا_ كام كى ابتدا ميں ميرے پاس تفسير كى كتب نہ تھيں تا ہم كچھ عرصہ بعد يہ كتابيں بھى مل گئيں _

كام كى روش

نماز صبح اول وقت ادا كرنے كے بعد شروع ہو جاتا تھا اور تقريباً ظہر تك يہى كام انجام ديتا البتہ صرف ناشتہ، صبح كى مختصر ورزش اور ديگر ضرورى امور كى انجام دہى كے ليئے اپنے كام سے جدا ہوتا _( تا ہم جيل ميں جن دنوں صفائي، برتن دھونا و غيرہ ميرے ذمہ ہوتا تو وہ سارا وقت ہاتھ سے نكل جاتا جس كى بعد ميں تلافى كرتا) سب جانتے تھے كہ ان اوقات ميں مجھے كسى اور كام ميں مشغول نہيں كرنا _ كبھى كبھار كسى مطلب كو سمجھنے كى خاطر دوسروں سے بحث مباحثے كى ضرورت پيش آجاتى تو الحمد للہ اس لحاظ سے بھى جيل ميں كوئي كمى نہ تھى _ صرف آٹھويں پارے تك تفسير مجمع البيان ميرے پاس تھى اور سورہ انفال كے بعد تفسير الميزان بھى مجھے مل گئي _ قرآن و تفسير كے علاوہ تحريرى وسائل ميں سے صرف ايك قلم اور / ۲۰۰ اوراق پر مشتمل كاپى تھى بالآخر انتہائي ، مختصر اور ٹيلى گرافى صورت ميں آمادہ كيئے گيئے انڈكسز سے ايسى بائيس ( ۲۲ ) كاپياں مكمل طور پر بھرگئيں _ اگرچہ ميرے پاس نہ فائل تھى اور نہ ہى كام كو سہل و آسان بنانے كے ديگر وسائل ;البتہ جو كچھ تھا وہ بھى كافى ثابت ہوا_ كم وقت اور جيل كے محدود وسائل سے زيادہ سے زيادہ استفادہ كرنے اور تحرير شدہ نوٹس كو آسانى كے ساتھ باہر منتقل كرنے كے ليئے ان كا حجم كم تھا جس سے يہ انڈكس انتہائي چھوٹے ، مختصر ، ٹيلى گرافى صورت ميں مرتب ہوتے تھے_

۱۲

مثلاًايك آيت يا اس كے بعض حصے سے جو مطالب اخذ كرتا انہيں عنوانات كے ساتھ ايك جملہ ميں لكھ ليتا _ پہلے پہل تو كافى مشكل پيش آئي ليكن آہستہ آہستہ يہ عمل كافى آسان و رواں ہوگيا _ كام كى روش مندرجہ ذيل تھي: انسان :تاريخ ( گذشتہ تاريخ ميں انسانى معاشرہ متحد اور ہر قسم كے اختلافات سے خالى تھا )

وحدت:كان الناس امة واحد

معاشرہ : اختلاف :يا مثال كے طور پر ۔انبياء ۔تبليغ

بشارت : ( انبياء كى تبليغ ميں جزا و سزا اور بشارت و ڈرانے كا كردار )

ڈرانا :فبعث الله مبشرين و منذرين

پاداش (جزا)

كيفر ( سزا )

جيساكہ آپ نے ملاحظہ فرمايا ان دو تين سطروں ميں گيارہ نكات لكھے گئے ہيں اور ايك جملہ جو كئي ايك عنوانات كے ساتھ مربوط ہے اسكے ساتھ ہى متعدد نكات بھى تيار ہوگئے يوں عام طور پر كاپى كے ہر صفحہ پر تقريباً بيس نكات سماجاتے تھے _ چونكہ ہر ورق كے دونوں طرف لكھتا تھا لہذا ہر دوسو اوراق كى كاپى ہزاروں نكات پر مشتمل ہوتى تھى _

البتہ يہ بات مسلم ہے كہ مضمون كے ليئے آخرى متن ميں اصلاح شدہ ، آسان فہم اورمناسب عبارتيں منتخب كى گئي ہيں _لہذا خدا كے كرم و احسانات اور قرآن كى نورانيت كى بدولت ميرا ذہن و قلم ايسا ہوگيا تھا كہ ايك آيت كا مطالعہ كرتے ہى اس ميں موجود مطالب و مضامين كا سائن بورڈ ميرے ذہن ميں روشن ہوجاتا اور ميں فوراً انہيں كاپى ميں درج كرليتا _ كچھ عرصہ كام كرنے كے بعدآقا فاكر بھى ميرا ہاتھ بٹانے لگے _ ہوا يوں كہ وہ ايك الگ كاپى ميں آيات كے نكات اور حوالے فہرست وار لكھتے تھے ليكن افسوس كہ قيد خانے سے گھر منتقل ہوتے وقت وہ كاپى اور كاغذات كہيں كھو گئے _ رفقاء اور دوستوں سے توقع ہے كے وہ اس كا كھوج لگا كے شائع كريں گے _

۱۳

عبا اور چادر :

ابتداء ميں عدالت نے مجھے چھ سال كى قيد سنائي _ ميں نے سوچا اس مرتبہ جيل ميں اپنا كام مكمل كرلوں گا _ ليكن جناب آيت اللہ خوانسارى كى سفارش پر نظرثانى كرتے ہوئے ميرى سزا ميں تين سال كى تخفيف كر دى گئي _ مجھے اندازہ ہوگيا كہ ميں اپنا كام پايہ تكمل تك نہيں پہنچا سكوں گا _ لہذا ميں نے ان كاپيوں كو جيل سے باہر منتقل كرنے كا فيصلہ كرليا _ ہميشہ اس بات كى پريشانى رہتى تھى كہ كہيں ميرى تمام محنت و زحمت كا ما حصل ساواكيوں كے ہتھے نہ چڑھ جائے اور وہ اسے ضبط نہ كرليں _ كيوں كہ اس طرح كى تكاليف ، ركاوٹيں اور كمينگى ہم نے بہت ديكھى تھى دوست احباب بھى اسطرح كے خدشات كا اظہار كرتے رہتے تھے_ ادھر خدا نے بھى راہ نجات پيدا كر دى جيل كى ملاقات كے دوران عام طور پر ہم شيشہ كے پيچھے سے انٹركام پر بات كيا كرتے تھے _ ليكن آہستہ آہستہ يہ پابندياں نرم پڑتى گئيں اور ہم خلاف معمول ملنے كے ليئے آنے والوں كے ساتھ آمنے سامنے بيٹھ كر ملاقات كرنے لگے _ ميں ہر ملاقات ميں پريشانى واضطراب كے ساتھ اپنى عبا كے نيچے سے ايك آدھ يا چند ايك كاپياں اپنى بيگم كے ہاتھ ميں تھما ديتا وہ بھى اپنى مخصوص شجاعت كے ساتھ تمام خطرات مول ليتے ہوئے انہيں اپنى چادر ميں چھپاليتى _ ميرى بيگم جانتى تھى كے ميرے كام كا ماحصل ميرے ليئے اور ہمارے اسلامى معاشرے كے ليئے كس قدر اہميت ركھتا ہے لہذا وہ اسے جيل سے باہر لے جاتيں اور خدا كا شكر ہے كہ اس كے لطف و كرم سے كوئي خطرہ پيش نہ آيا _

قيد خانے سے باہر :

قيد كے آخرى سال اسلامى انقلاب كى تحريك اپنے عروج پر تھى انتہائي واضح طور پرنظر آرہا تھا كہ پہلوى حكومت كا منحوس نظام اب نابود ہونے والا ہے قيديوں كو معاف كيا جارہا تھا _ آخرى دنوں ميں بہت سارے قيدى ايسے بھى تھے جن كى مدت قيد ختم ہوچكى تھى ليكن انہيں اس آمرانہ حكومت نے خلاف قانون زبر دستى جيل ميں روكا ہوا تھا _ ايسے قيديوں كو '' ملت كے قاتل'' كہا جاتا تھا_ ميرى اس تين سالہ قيد كے آخرى دس دن معاف كرديئے گئے _ اسطرح انقلاب كى كاميابى سے پہلے ہى آزاد ہوگيا اب كوئي زيادہ بازپرس بھى نہيں تھى لہذا تمام تحريريں اپنے ساتھ گھر لے آيا _ ارادہ تھا كہ گھر ميں قرآن پر يہ كام

۱۴

جارى ركھوں گا _ شروع ميں تو كچھ دن چند گھنٹے اس پر صرف كرتا رہا ليكن جلد ہى يہ احساس ہوا كہ ان امور كى نسبت انقلاب كے حوالے سے ميرى ذمہ دارياں اس سے كہيں زيادہ ہيں _

انقلاب كى كاميابى كے بعد ريڈيوٹيلى ون كارپوريشن نے مجھ سے انقلاب كى مناسبت سے دينى اور سماجى عناوين پر كچھ مطالب كے ليئے مدد مانگى اس زمانے ميں ان كا اسٹاك روم اسطرح كے مطالب سے خالى تھا _ جناب آقا معاديخواہ نے مطالب كى جمع آورى ميں ميرى مدد كى تھى اس مقصد كے لئے انہوں نے بعض علماء اور طالب علموں كو بھى ساتھ ملايا تھا يہ لوگ ميرے كام سے آگاہ تھے انہوں نے مجھ سے درخواست كى كہ دينى و معاشرتى پروگراموں كے ليئے يہ يادداشتيں ان كے حوالے كردوں _ ميں نے بھى اسے قبول كرتے ہوئے ان سے اس چيز كى خواہشں كى كہ ان مطالب كو جدا جدا ترتيب كے ساتھ جمع كريں _ انہوں نے يہ كام بخوبى انجام ديا اس كے نتيجے ميں الف ، ب كى ترتيب سے مستقل -بہت سارى فائليں تيار ہوگئيں _ اس فہرست كا ايك نسخہ انہوں نے مجھے بھى ديا تہران اور قم ميں زمانہ گرفتارى سے پہلے آئمہ( عليہم السلام) كى زندگى كے بارے ميں بعض دوستوں كى مدد سے تحقيقى كام انجام ديا تھا جس كے انتہائي قيمتى نوٹس جمع ہو چكے تھے وہ بھى ريڈيو ٹيلى ون كو دے ديئے گئے غالباً يہ كام بھى دفتر تبليغات كے توسط سے تكميل كے مراحل طے كر رہا ہے _ اس كے بعد كے مرحلے ميں حزب جمہورى اسلامى كے ثقافتى شعبہ كے سربراہ جناب آقا دعا گو نے '' كليد قرآن '' كى تكميل كا كام اپنے ذمے لے ليا اور كچھ پيشرفت بھى كى _ ليكن افسوس كہ يہ كام نا مكمل رہا اس مرحلہ ميں ميرى بڑى بيٹى فاطمہ ہاشمى نے بہت زيادہ مدد كى _ اس دوران بعض اشاعتى ادارے اس كام كى تكميل كے ليئے ميرى طرف رجوع كرتے رہے ايك آدھ كاپى بھى لے جاتے ليكن عام طور پركام كى وسعت اور اسكا بھارى بھر كم ہونا انہيں اس كے انجام دينے سے عاجز ہونے پر مجبور كرديتا_ ليكن اس تمام عرصے ميں كام كو جارى ركھنے كے بارے ميں ميرے ارادہ ميں كبھى لغزش نہيں آئي امت مسلمہ كى ضرورتوں كا مشاہدہ وہ بھى انقلاب كى كاميابى كے بعد جب كہ قرآن كى شناخت كے ليئے مختلف تقاضوں كا ايك سيلاب امڈ آيا تھا اس كام كو جارى ركھنے كے متعلق ميرے ايمان ميں اور زيادہ قوت پيدا كرتا تھا _

دفتر تبليغات اسلامى حوزہ علميہ قم كا شعبہ ثقافت و معارف قرآن :

مختلف ضرورتوں اور احتياجات نے دينى مدارس كو اسلامى تعليمات و معارف كے مختلف پہلوؤں كے متعلق بيشتر تحقيق پر مجبور كيا _اسطرح كئي ايك تحقيقى گروہوں نے متعدد شعبوں ميں از خود يا بعض اہم شخصيات كى راہنمائي ميں كام شروع كرديا_

۱۵

دفتر تبليغات اسلامى حوزہ علميہ قم نے اس كام كو جارى ركھنے اور اس منصوبہ كو پايہ تكميل تك پہنچانے كے ليئے مجھ سے رابطہ كيا ميں نے بڑى خوشى سے اسے قبول كر ليا كچھ عرصہ بعد اس دفتر سے مربوط علماء ميرے كام كے ہدف و مقصد اور طريقہ كار سے آشنا ہوگئے _ ايك طرف تو اس كام كى ضرورت بہت زيادہ تھى دوسرى طرف عملى اور زود رس علمى كاموں كى زيادتي، جبكہ فاضل دانشمندوں كى تعداد كم تھى ، اسى طرح ايسے پر ثمر تحقيقاتى كاموں كے لئے بہت حوصلے اور ہمت كى ضرورت ہوتى ہے_ ان حالات ميں دفتر تبليغات كے شعبہ ثقافت و معارف قرآن ميں موجود بعض فاضل علماء اور ان كا اس مقدس ہدف كے حصول ميں انتہائي شوق و اشتياق كا مظاہرہ بڑى ہى غنيمت اور اللہ رب العزت كى مجھ پر غيبى امداد ہے_ جب ديكھتا ہوں كہ حوزہ علميہ قم كے بعض فاضل دوست اس كام كى اہميت كو بھانپ گئے ہيں اور انتہائي لگن و قلبى لگاؤ كے ساتھ اپنا وقت و توانائي صرف كر رہے ہيں اور خود مجھ سے بہتر اس كام كو چلارہے ہيں تو خدا كے حضور شكر و سپاس كى وہى حالت اور گہرائي اپنے اندر محسوس كرنے لگا جو اوائل ميں ميرے دل ميں تھى _ اب كام ميں ٹھہراؤ سے پيدا ہونے والى مايوسى كو دور ہوتے ہوئے ديكھ رہا ہوں _ يہاں پر يہ اعتراف كرنا ضرورى سمجھتا ہوں كہ مل جل كر ، ايك دوسرے كى مشاورت اور حوزہ علميہ قم كے فاضل علماء كى ہم آہنگى سے كام كى كيفيت ميرے منصوبے اور عمل سے كہيں بہتر ہے _ اس كى ظاہرى شكل و شباہت زيادہ روشن و اميد افزا ہوگئي ہے _

ہدف اور مقصد :

جيسا كہ پہلے بھى اشارہ كيا ہے كہ قرآن سے اخذ شدہ ان مطالب كو منظم اور مدوّن كرنے كا مقصد ايسا مجموعہ تيار كرنا تھا جو قرآنى مفاہيم و معارف كى كليد شمار ہو _ جب يہ كام دفتر تبليغات اسلامى قم كے سپرد كيا گيا تو انہوں نے قرآنى معارف ميں تحقيق كے ميدان كو بہت زيادہ وسعت دى اور مذكورہ پروگرام كے علاوہ بعض اور مقاصد كو بھى اپنے مدنظر ركھا ان كے ليئے با قاعدہ منصوبہ بندى كي_ كلى طور پر چار پروگرام سامنے آئے كہ '' كليد قرآن '' ان ميں دوسرے نمبر پر تھا مذكورہ اہداف بالترتيب يوں ہيں :

۱ _ تفسير ترتيبى موضوعى :

قرآن كريم سے حاصل شدہ تمام مفاہيم اور مرتب شدہ اشاريئے سورتوں كى ترتيب كے لحاظ سے سورہ حمد سے آخر تك بالكل اسى طرح جيسے آپ اس جلد ميں ملاحظہ فرمائيں گے آراستہ كيئے جائيں _ يعنى ہر آيت كے ذيل ميں

۱۶

اس سے استفادہ كيئے گئے مطالب كو منطقى ترتيب اور منظم شكل ميں ڈھالا جائے _

اس روش كے چند ايك فوائد ہيں :

الف : آسان فہم و سادہ زبان ميں غير تفسيرى مطالب كو چھوڑتے ہوئے اور غير ضرورى ابحاث سے اجتناب كرتے ہوئے ايك مكمل تفسير سامنے آئے گي_

ب : قرآنى آيات سے ا خذ شدہ ان مرتب و منظم معانى و مفا ہيم سے تعليمى و تحقيقى مراكز ميں استفادہ كيا جاسكے گا_

ج : تحقيقى كاموں كے ليئے ايك آيت سے مربوط موضوعات پيش كرنا _

د : قرآن حكيم كى موضوعاتى ابحاث كو وسعت ،تكامل دينا اور ان پر بحث و مباحثہ كى راہ ہموار كرنا_

۲ _ قرآن حكيم كى موضوعاتى لغت كى تيارى ( كليد قرآن ) :

ترتيبى تفسير تيار كرنے كے ساتھ ساتھ مختلف عناوين اور مطالب كى حروف تہجى كے لحاظ سے ايك موضوعى فہرست مرتب كى جائے يہ عناوين كس سورہ يا آيت سے مربوط ہيں مثال كے طور پر جہاد سے مربوط وہ تمام آيات فہرست وار ذكر كى جائيں جن ميں اس بارے ميں كوئي مطلب بيان ہوا ہے _

۳ _قرآن كريم كے معارف سے متعلق معلومات كا منبع :

اس معلومات كے مجموعے ميں قرآنى معارف كے تمام منابع ، مآخذ اور اسناد و مدارك كا كھوج لگا كر انہيں جمع كيا جائے پھر ان ميں موجود مطالب كو منطقى طريقہ پر منظم ، آراستہ و پيوستہ اور ايك لڑى ميں پروئے ہوئے موتيوں كى مانند درجہ بندى كى جائے _ اس طرح جمع شدہ اسناد و معلومات ، محققين اور تحقيقاتى مراكز كے ليئے بہت زيادہ قابل استفادہ ہونے كے علاوہ ايسا پر ثمر سرمايہ ہوں گے جو قرآن حكيم كى موضوعى تفسير كى تدوين ميں كار آمد ثابت ہوگا _

۴ _ قرآن پاك كى موضوعاتى تفسير :

قرآنى مفاہيم جمع كرنے ، مختلف موضوعات كى تقسيم بندى اور قرآن كريم كے متعلق معلومات فراہم كرنے والا منبع آمادہ كرنے كے بعد آخرى اور بنيادى ترين ہدف و مقصد '' موضوعاتى تفسير '' تيار كرنا ہے _

يہاں پر اس نكتہ كى طرف توجہ دلانا ضرورى ہے كہ ان تمام كوششوں كے ساتھ ساتھ جمع شدہ معارف و معلومات كمپيوٹر ميں منتقل كى جائيں گى يہ عمل خود قرآن كے وسيع و عميق معارف و مفاہيم كو سرعت كے ساتھ مرتب كرنے، ان

۱۷

معارف كے ايك دوسرے كے ساتھ ربط و تعلق كو نماياں كرنے ميں انتہائي مؤثر و كليدى كردار كا حامل ہے _ اسطرح قرآنى معلومات و مفاہيم پر سوچ بچار اور غور و فكر كرنے كا راستہ ہموارہو گا _ وہ بحر بے كراں كہ جس كے بارے ميں ارشاد رب العزت ہے : 'لو ان ما فى الاَرض من شجرة: اقلام و البحر يمده من بعده سبعة ابحر مانفدت كلمات الله ' ( سورہ لقمان آيت / ۲۷ ) كمپيوٹر جيسى عظيم ، حيرت انگيز ايجاد اور قرآن حكيم جيسى كتاب سے استفادہ نہ كرنا اسلامى معارف و تعليمات پر بہت بڑا ظلم ہوگا _ جبكہ انسانيت كو اسكى اشد ضرورت ہے _ ہميں اميد ہے كہ دينى مدارس اس طرح كے نئے ، ترقى يافتہ اور انتہائي مفيد وسائل سے زيادہ سے زيادہ استفادہ كريں گے تا كہ گذشتہ دور ميں اسلامى تمدن و معارف پر ہونے والے ظلم كى تلافى كى جاسكے_ مذكورہ اہداف كى تكميل كے ساتھ قرآن اور اسلام كے غنى و بے نياز تمدن پر تحقيقى كام كا خاتمہ نہيں ہوجائے گا بلكہ اس سے اور زيادہ بہتر و گہرى تحقيقات كا راستہ ہموار ہوجائے گا اس ميں ہميشہ اضافہ ہى ہوگا مستقبل ميں اس دائرة المعارف ( انسائيكلو پيڈيا ) كے ذريعہ انجام پانے والے علمى امور خود كتاب سے كئي درجہ بہتر ، عميق اور جامع ہونگے _ ميں نے اپنے كم مدت كام كے دوران اس باليدگى كا بخوبى مشاہدہ كيا ہے _ شروع سے آخر تك ميں نے جو مطالب يادداشت كيئے تھے ديگر مصروف عمل، قابل احترام برادران كى طرف سے ان ميں بھارى مقدار ميں اضافہ كيے جانے والے اشاريوں كے درميان تقابل كرنے سے اس دعوى كى تصديق ہو جاتى ہے _ ابھى سے يہ بات واضح و روشن ہے كہ اگر اس كتاب ميں موجود موضوعات كو كسى ماہر محقق كے سپرد كيا جائے تو وہ اس ميں نئے نئے سوالات و جوابات كا اضافہ كر سكتا ہے _ ہر علم و فن ميں مہارت ركھنے والا دانشمند ايك آيت ، جملہ يا حتى ايك كلمہ پر اپنے خاص نكتہ نظر سے توجہ كرے تو وہ ايسے مطالب درك كرے گا جو كسى غير ماہر شخص كے ذہن ميں نہيں آسكتے _ اس كا راز يہ ہے كہ قرآن حكيم كے مفاہيم زندہ ، جاوداں اور ہميشہ رہنے والے ہيں جو وحى كے لازوال سرچشمے سے پھوٹے ہيں يہ تعبير بالكل اميرالمؤمنين حضرت على (عليہ السلام) كے عظيم كلام كے مطابق ہے كہ : '' نوراً لاتطفا مصابيحہ و سراجا َلا يخبؤ توقدہ و بحراً لاَ يدرك قعرہ''(۲) قرآن ايسانور ہے جس كے چراغ كبھى خاموش نہيں ہوں گے اور ايك ايسا چراغ ہے جس كے شعلے كبھى نہ بجھيں گے اور ايك ايسا سمندر ہے جس كى گہرائي كو چھوا نہيں جاسكتا_

اكبرہاشمى رفسنجانى

____________________

۱) اگر روئے زمين كے درخت قلم بن جائيں اور سمندر كو سہارا دينے كے لئے سات مزيد سمندر آجائيں تو بھى كلمات الہى تمام ہونے والے نہيں ہيں _

۲) نہج البلاغہ صبحى صالحي، خطبہ ۱۹۸_

۱۸

سورہ حمد

بِسْمِ اللّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ ( ۱ )

عظيم اور دائمى رحمتوں والے خدا كے نام سے _

۱_ قرآن ايسى كتاب ہے جو اسم''اللہ''سے تحقق پذير ہوئي يا وجود ميں آئي_بسم الله قرآن كريم كے آغاز ميں بسم اللہ كے ذكر كو دو اعتبار سے ديكھا جاسكتاہے ۱_ ايسا كلام جو پروردگار متعال نے انسانوں كے لئے بيان فرماياہے_ اس اعتبار سے ''بسم اللہ'' لوگوں كے لئے ايك حكم ہے كہ كس طرح اپنے كاموں كا آغاز كرو ۲_ اسكا متكلم خود خداوند متعال ہو_ اس صورت ميں قرآن كريم كے آغاز ميں ''بسم اللہ '' اس بات كى طرف اشارہ ہے كہ اللہ تعالى نے اسم ''اللہ'' كے ساتھ قرآن كريم كو ظہور بخشاہے گويا قرآن اسم '' اللہ'' كا مظہر ہے_

۲_ قرآن كريم ايسى كتاب ہے جس كا آغاز اللہ كے نام اور بندگان خدا پر رحمت كے اعلان سے ہوا_بسم الله الرحمن الرحيم

۳_ كاموں كا آغاز اللہ كے نام سے كرنا چاہيئے اور ''بسم اللہ''كہنا ضرورى ہے_بسم الله

۴_قرآن كريم چونكہ كتاب ہدايت ہے اور قرآن نے اپنى گفتگو كا آغاز''بسم الله'' سے كياہے لہذا يہ نكتہ اپنے مخاطبوں كو القا فرماتاہے كہ اپنے كاموں كا آغاز'' بسم الله'' سے كرو _ ۴ _ اللہ تعالى رحمان ( انتہائي وسيع رحمت كا مالك) اور رحيم (مہربان) ہے _بسم الله الرحمن الرحيم

۵ _ تمام تر موجودات اور مخلوقات اللہ تعالى كى وسيع رحمت سے بہرہ مند ہيں _بسم الله الرحمن الرحيم ''رحمان'' صيغہ مبالغہ ہے جو رحمت كى شدت اور وسعت پر دلالت كرتاہے_

۶_ اللہ تعالى اپنے بندوں پر مہربان ہے_بسم الله الرحيم رحمانيت اور رحيميت كى صفت آگے پيچھے كيوں آئي ہيں جبكہ دونوں ہى اللہ كى رحمت ہيں ؟ اس سوال كے جواب ميں نكتہ نظريہ ہے_ قرآن كريم كا دو صفات كا استعمال كرنا اس بات كى طرف اشارہ ہے كہ رحمانيت كى صفت تمام تر مخلوقات كے لئے ہے جبكہ رحيميت كى صفت صرف انسان اور ديگر مكلف مخلوق كے لئے ہے_

۷_بندوں پر اللہ تعالى كى وسيع رحمت و مہربانى اس بات كى دليل ہے كہ سب كاموں كو اسكے نام سے انجام دينا چاہيئے_بسم الله الرحمن الرحيم

۱۹

''اللہ''كى رحمان و رحيم سے توصيف و ثنا كرنا اشارہ ہے اس بات كى طرف كہ تمام كام اللہ كے نام سے كئے جائيں بالفاظ ديگر اس حكم كى حكمت يہ ہے_ يعنى چونكہ اللہ رحمان و رحيم ہے اسى لئے اسكے نام سے امور كا آغاز كرو_

۸ _ امور كى انجام دہى اللہ كے نام سے كرنا اسكى رحمت كا باعث ہے _بسم الله الرحمن الرحيم امور كو اللہ كے نام سے انجام دينے كى نصيحت كرنا اور اسكى حكمت كے طور پر رحمانيت اور رحيميت كا ذكر اس مطلب كا بيان ہے كہ كاموں ميں اللہ كا نام رحمت الہى كا موجب ہوتاہے جبكہ اس طرح كام پايہ تكميل كو پہنچتے ہيں _

۹_قرآن كريم اللہ تعالى كى رحمانيت اور رحيميت كا ايك جلوہ ہے _بسم الله الرحمن الرحيم عمومى طور پر متكلم آغاز سخن ميں اپنے پروگرام كے كلى اہداف بيان كرتاہے يہ كہا جاسكتاہے كہ قرآن كے آغاز ميں ان دو صفات كا انتخاب در حقيقت اسيلئے كيا گيا ہے كہ قرآن كريم بشريت كے لئے اللہ تعالى كى رحمت كا ايك جلوہ ہے_

۱۰_ عبداللہ بن سنان كہتے ہيں ميں نے امام صادقعليه‌السلام سے''بسم الله الرحمن الرحيم'' كا معنى پوچھا تو آپعليه‌السلام نے فرمايا ''الباء بهاء الله و السين سناء الله و الميم مجد الله و روى بعضهم ملك الله و الله اله كل شيء (و) الرحمن لجميع العالم و الرحيم بالمؤمنين خاصة'' (۱) بسم اللہ كى باء سے مراد اللہ كا حسن و جمال اور خوبياں ہيں سين سے مراد رفعت و بلندى ہے اور ميم اللہ كى عظمت و بزرگى كى طرف اشارہ ہے _ بعض نے روايت كى ہے كہ ميم اللہ كے ملك و سلطنت كى طرف اشارہ ہے_ اور اللہ ہر چيز كا معبود ہے_ رحمان كا مطلب يہ ہے كہ اس كى رحمت سارى كائنات كيلئے ہے _اور رحيم يعنى مومنين كےلئے اسكى خصوصى رحمت ہے_

۱۱_ اسماعيل بن مہران كہتے ہيں :امام رضاعليه‌السلام نے فرمايا :ان بسم الله الرحمن الرحيم اقرب الى اسم الله الاعظم من سواد العين الى بياضها (۲) آنكھ كى سياہى سے اسكى سفيدى جتنى نزديك ہے اس سے كہيں زيادہ بسم اللہ الرحمن الرحيم،اللہ تعالى كے اسم اعظم كے نزديك ہے_

۱۲_ حسن بن فضال كہتے ہيں ميں نے امام على ابن موسى الرضا سے بسم اللہ كے بارے سوال كيا تو آپعليه‌السلام نے فرمايا''معنى قول القائل ''بسم الله'' اسم على نفسى سمة من سمات الله عزوجل و هى العباد (۳) جب كوئي كہتاہے بسم اللہ تو اسكا مطلب يہ ہے كہ اللہ عزوجل كى بندگى و عبادت كى نشانيوں ميں سے ايك نشانى اپنے لئے قرار ديتاہوں _

____________________

۱) معانى الاخبارص۳ح۱،نورالثقلين ج/۱ ص۱۲ح۴۶_ ۲) تفسير عياشى ج/۱ ص۲۱ ح ۱۳ ، نورالثقلين ج/۱ ص۸ ح۲۳ ، ۲۵_ ۳) معانى الاخبارص۳ ح۱،نورالثقلين ج/۱ص۱۱ح۴۱_

۲۰

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

كہ عوام سے باطل خيالات كو اكھاڑ پھينكيں تا كہ ان ميں ايمان كى راہيں فراہم ہوسكے_

۱۳ _ دينى حقائق تك پہنچنے كے لئے لوگوں كو حدسيات اور گمان سے روكنا ان ميں ايمان كا راستہ ہمواركرنے كى بنيادى شرط ہے _أفتطمعون ان يؤمنوا لكم ان هم الا يظنون

يہ جملہ''ان ہم الا يظنون'' بھى ما قبل جملوں كى طرح يہوديوں كے ايمان نہ لانے كے علل و اسباب بيان كررہاہے _ پس يہ جملہ اس مفہوم كو پہنچا رہاہے كہ جب تك لوگ دينى حقائق تك پہنچنے كے لئے حدسيات اور گمان پر عمل پيرا رہيں گے ان سے ايمان كى توقع كرنا بے جاہے_ يہ دعوت دينے والوں كى ذمہ دارى ہے كہ ان كو اس روش سے باز ركھيں تا كہ ان ميں حقيقى ايمان كى بنياديں فراہم ہوجائيں _

انسان: انسانوں كى ذمہ دارى ۸

ايمان: ايمان كى راہيں ہموار كرنا ۱۲،۱۳

بے جا توقعات: ۶،۷

تفسير بالرائے : تفسير بالرائے سے اجتناب ۱۱

تورات: تورات پر جھوٹ باندھنا ۴; تورات كى تعليمات سے جہالت ۳

دين: دين سے شبہات دور كرنے كى اہميت ۱۲; دين كى حفاظت ۱۲

شناخت: شناخت ميں گمان اور ظن۹

عقيدہ: عقيدہ ميں گمان ۷،۱۳

علمائے يہود: علمائے يہود كى دشمنى ۱

كتب سماوي: كتب سماوى كى تعليمات ۱۰; كتب سماوى كى تفسير ۱۱; كتب سماوى كا پاك و مبرا ہونا ۱۰; كتب سماوى كے فہم و ادراك كى روش ۹; كتب سماوى كا فہم و ادراك۸

يہود: يہودى عوام كى ناخواندگى ۲،۶; يہودى عوام كى جہالت ۳،۶; يہودى عوام كا خيال پر داز ہونا ۵ ، ۷; يہودى معاشرے كے طبقات۱; يہودى عوام كا عقيدہ ۴،۵،۶،۷; يہودى عوام ۱; يہودى عوام او ر تورات ۳،۴،۶; يہودى عوام اور آسمانى كتابيں ۴; صدر اسلام كے يہود ۱

۲۶۱

فَوَيْلٌ لِّلَّذِينَ يَكْتُبُونَ الْكِتَابَ بِأَيْدِيهِمْ ثُمَّ يَقُولُونَ هَذَا مِنْ عِندِ اللّهِ لِيَشْتَرُواْ بِهِ ثَمَناً قَلِيلاً فَوَيْلٌ لَّهُم مِّمَّا كَتَبَتْ أَيْدِيهِمْ وَوَيْلٌ لَّهُمْ مِّمَّا يَكْسِبُونَ ( ۷۹ )

وائے ہوان لوگوں پرجو اپنے ہاتھ سے كتاب لكھ كر يہ كہتے ہيں كہ يہ خدا كى طرف سے ہے تا كہ اسے تھوڑےدام ميں بيچ ليں _ان كے لئے اس تحرير پربھى عذاب ہےاور اس كى كمائي پر بھى (۷۹)

۱ _ مختلف افكار و نظريات كو اللہ كى كتاب اور دينى قوانين كا عنوان دے كر لكھنا جرم، گناہ كبيرہ اور عذاب الہى كا باعث ہے_فويل للذين يكتبون فويل لهم مما كتبت ايديهم

'' ويل'' وہ لفظ ہے كہ انسان جب عذاب ميں مبتلا ہوتاہے تو زبان پر جارى كرتاہے _ بنابريں ''فويل للذين ...'' سے مراد بدعت ايجاد كرنے والوں كا عذاب ميں مبتلا ہونا ہے_

۲ _ مختلف افكار و نظريات كو آسمانى كتاب يا فرامين الہى كا عنوان دے كر نشر و اشاعت كرنا حرام، گناہ كبيرہ اور عذاب الہى كا موجب ہے _فويل للذين ...ثم يقولون هذامن عند الله

۳ _ اپنے ذاتى نظريات اور افكار كو آسمانى كتاب كا عنوان دے كر نشر و اشاعت كرنا تحرير كرنے كى نسبت شديد طور پر حرام ہے _ثم يقولون هذا من عندالله يہ جملہ ''فويل للذين ...'' اپنى خيال بافيوں كو آسمانى كتاب كا عنوان دے كر لكھنے كى حرمت كو بيان كررہاہے جبكہ جملہ'' يقولون ...'' اس كى نشر و اشاعت كى حرمت كو بيان كررہاہے_ دوسرا جملہ جو '' ثم'' كے ساتھ بيان ہوا ہے يہاں تراخى رتبہ كے لئے ہے نہ كہ تراخى زمانى كے لئے اور يہ اس مطلب كى طرف اشارہ ہے كہ ان امور كى نشر و اشاعت لكھنے كى نسبت زيادہ شديد طور پر حرام ہے_

۴ _ عامة الناس كا دين اور آسمانى كتابوں كے بارے ميں خيال بافيوں كا شكار ہونا علمائے سوء كے كردار اور تحريف كے عمل كا نتيجہ ہے _و منهم اميون فويل للذين يكتبون الكتاب بايديهم

ما قبل آيت جو لوگوں كى آسمانى كتاب كے بارے ميں جہالت كے عنوان سے تھى اس پر جملہ ''فويل للذين ...'' كى تفريع گويا يہ معنى دے رہى ہے كہ بدكردار اور تحريف كرنے والے علماء كا عوام كى جہالت اور خرافات كى طرف رجحانات

۲۶۲

ميں بہت اہم كردار ہے_

۵ _ كچھ يہودى علماء عوام كے سامنے اپنى خيال بافيوں اور خرافات كو اللہ تعالى كى جانب سے آنے والے حقائق ( معارف اور احكام و غيرہ) كے طور پر پيش كرتے تھے_ فويل للذين يكتبون الكتاب بايديهم ثم يقولون هذا من عند الله ''بايدھم _ اپنے ہاتھوں سے '' سے يہ جملہ اس بات پر تاكيد ہے كہ علمائے يہود كتاب الہى كے عنوان سے جو كچھ لكھتے تھے وہ ان كى اپنى انشاء پردازياں ہوتى تھيں _ ان جملوں كى طرح ''يقولون بافواہھم'' اور ''نظرتہ بعيني'' و غيرہ و غيرہ

۶_ علمائے يہود كا اپنے خودساختہ افكار و نظريات كو آسمانى كتاب كے طور پر پيش كرنے كا مقصد دنياوى متاع ( مال ، رياست، جاہ و جلال و غيرہ) كا حصول تھا_ليشتروا به ثمناً قليلاً

۷ _ يہودى عوام اپنے علماء كى تحريفات اور بدعتوں كے خريدار تھے_ليشتروا به ثمناً قليلاً

۸ _ بعض يہودى علماء دين بنانے والے اور بدعت ايجاد كرنے والے افراد تھے_فويل للذين يكتبون الكتاب بايديهم

۹ _ دين ساز اور بدعت ايجاد كرنے والے يہودى علماء عذاب الہى سے دوچار ہوں گے _فويل للذين يكتبون الكتاب فويل لهم مما كتبت ايديهم

۱۰ _ تحريف كرنے والے اور بدعت ايجاد كرنے والے يہودى علماء اپنے عوام كى گمراہى كى راہيں ہموار كرنے والے تھے_ثم يقولون هذا من عند الله ليشتروا به ثمناً قليلاً

۱۱ _ دين سازى اور بدعتوں سے حاصل ہونے والى درآمد حرام اور عذاب الہى كا موجب ہے_وويل لهم مما يكسبون ''مما يكسبون'' ميں موجود ''ما'' موصولہ ممكن ہے اس درآمد كى طرف اشارہ ہو جس كا ذكر اس عبارت ميں ہے ''ليشتروا به ثمناً قليلاً '' اور يہ بھى ممكن ہے كہ اس سے مطلقاً ناپسنديدہ اعمال و كردار مراد ہو ، مذكورہ بالا مفہوم پہلے احتمال كى بناپر ہے_

۱۲ _ بدعتيں ايجاد كركے يا دين سازى كے عمل سے جتنى بھى كمائي حاصل كى جائے اور جس قدر بھى زيادہ ہو انتہائي ناچيز اور بے قيمت ہے_ليشتروا به ثمنا قليلاً ظاہر يہ ہے كہ ''قليلاً'' ، ''ثمناً'' كے لئے توضيحى صفت ہے پس ثمناً قليلاً كا معنى يہ ہے كہ يہ قيمت جو دين سازى كے مقابل حاصل كى جائے ناچيز ہے اگر چہ ظاہراً يہ قيمت بہت زيادہ ہى ہو_

۱۳ _ بدعت ايجاد كرنے والوں اور دين ساز افراد كے لئے محرك اور ترغيب ،مادى اور دنياوى مفادات كى

۲۶۳

كشش ہے_ليشتروا به ثمناً قليلاً

۱۴ _ حرام كاموں كے مقابل حاصل ہونے والى كمائي يا اموال حرام ہيں _و ويل لهم مما يكسبون

۱۵ _ زمانہ بعثت ميں كتاب اور كتابت كا فن موجود تھا_يكتبون الكتاب بايديهم

۱۶ _و قيل كتابتهم بايديهم انهم عمدوا الى التوراة و حرفوا صفة النبي(ص) ليوقعوا الشك بذلك للمستضعفين من اليهود و هو المروى عن ابى جعفر عليه‌السلام ...(۱) امام باقرعليه‌السلام سے روايت ہے كہ '' علمائے يہود نے اپنے ہاتھوں سے جان بوجھ كر تو رات ميں پيامبر (ص) كى لكھى ہوئي صفات كو بدل ڈالا تا كہ اسطرح يہوديوں ميں سے (جو فكرى طور پر ) مستضعف تھے ان افراد كو شك ميں ڈال ديں _

۱۷_ پيامبر اسلام (ص) سے ''فويل لھم مما كتبت ايديھم''كے بارے ميں روايت ہے آپ (ص) نے ارشاد فرمايا''الويل جبل فى النار وهو الذى انزل فى اليهود لانهم حرفوا التوراة زادوا فيها ما احبوا و محوا منها ما يكرهون و محوا اسم محمد(ص) من التوراة '' (۲) ''ويل''جہنم ميں ايك پہاڑ ہے جو (قرآن كى آيتوں ميں ) يہوديوں كے لئے نازل ہوا ہے كيونكہ انہوں نے تورات ميں ايسے تحريف كى كہ جو چاہا اضافہ كيا اور جس كو ناپسند كيا اس كو مٹا ديا اور انہوں نے تورات ميں سے محمد(ص) كے نام كو مٹا ديا _

احكام: ۲،۳،۱۱،۱۴

اللہ تعالى : اللہ تعالى كے عذاب ۱ ، ۲ ، ۹

بدعت: بدعت كے نتائج ۱،۲;بدعت كا جرم ۱; بدعت كا حرام ہونا ۲،۳ ; بدعت كا عذاب ۱،۲; بدعت كا گناہ ۱،۲

بدعت ايجاد كرنے والے: بدعت ايجاد كرنے والوں كى دنياطلبى ۱۳

پيامبر اسلام (ص) : پيامبر اسلام (ص) تورات ميں ۱۶،۱۷

تحريف: تحريف كے نتائج ۴

تورات: تورات ميں تحريف ۱۷; تورات كى تعليمات ۱۶

____________________

۱) مجمع البيان ج/ ۱ ص ۲۹۲ ، نورالثقلين ج/ ۱ ص ۹۳ ح ۲۵۶_

۲) الدرالمنثور ج/ ۱ ص ۲۰۱_

۲۶۴

جہنم:جہنم كا ويل ۱۷

دنياطلبي: دنياطلبى كے نتائج ۶،۱۳

دين: دين كو پہنچنے والے آسيب كى شناخت ۴; دين كے بارے ميں لوگوں كى خيال بافياں ۴

دين ساز افراد: ۵،۶،۸،۹

دين سازى : دين سازى كا جرم ۱; دين سازى كا حرام ہونا ۳; دين سازى كا گناہ ۲

روايت: ۱۶،۱۷

عذاب: اہل عذاب ۹; عذاب كے موجبات ۱،۲،۹، ۱۱

علماء : برے اور بدكار علماء كا بنيادى كردار ۴

كتاب: كتاب كى تاريخ ۱۵

كتابت: صدر اسلام ميں كتابت ۱۵

كسب (كمائي): بدعت كے ذريعے كسب كرنا ۱۱،۱۲; دين سازى كے ذريعے كسب كرنا ۱۱،۱۲; محرمات كے ذريعے كسب كرنا ۱۴; بے قيمت كسب ۱۲; حرام كسب ۱۱،۱۴

گناہان كبيرہ : ۱،۲

محرمات: ۲،۱۱،۱۴ محرمات كے مختلف مراحل و درجے ۳

يہودي: يہودى عوام كى بصيرت ۷; يہوديوں كى گمراہى كى زمين فراہم ہونا ۱۰; يہوديوں ميں بدعت ايجاد كرنے والوں كى سزا اور انجام ۹

يہودى علماء : علمائے يہود كا بدعت ايجاد كرنا ۵،۶،۷،۸،۱۰; علمائے يہود كى بصيرت ۵; علمائے يہود كى تحريف كا عمل ۵،۷،۱۰; علمائے يہود كى دنياطلبى ۶; علمائے يہود كى دين سازى ۵،۶،۸،۹; علماء يہود كى جاہ طلبى ۶; علمائے يہودى كا شبہات ايجاد كرنا ۱۶; علمائے يہود اور پيامبر اسلام (ص) ۱۶; علمائے يہود كا كردار۱۰

۲۶۵

وَقَالُواْ لَن تَمَسَّنَا النَّارُ إِلاَّ أَيَّاماً مَّعْدُودَةً قُلْ أَتَّخَذْتُمْ عِندَ اللّهِ عَهْدًا فَلَن يُخْلِفَ اللّهُ عَهْدَهُ أَمْ تَقُولُونَ عَلَى اللّهِ مَا لاَ تَعْلَمُونَ ( ۸۰ )

يہ كہتےہيں كہ ہميں آتش جہنم چند دن كےعلاوہ چھو بھى نہيں سكتى _ ان سے پوچھئےكہ كيا تم نے اللہ سے كوئي عہد لے ليا ہےجس كى وہ مخالفت نہيں كرسكتا يا اسكےخلاف جہالت كى باتيں كررہے ہو(۸۰)

۱_ يہوديوں كے دينى عقائد ميں سے تھا كہ گناہگار يہود آتش جہنم ميں سوائے چند محدود ايام كے مبتلا نہ ہوں گے _

و قالوا لن تمسنا النار الا اياما معدودة

''معدوة'' كا معنى ہے ''گنا گيا '' اور يہناچيزيا كم ہونے كا كنايہ ہے _ واضح ہے كہ يہ (باطل) گمان گناہگار يہوديوں كے بارے ميں ہے _ اس مطلب كى مابعد والى آيت تائيد كرتى ہے (بلى من كسب ...) اسى لئے مذكورہ مطلب ميں '' گناہگار'' كا لفظ استعمال كيا گيا ہے_

۲ _ عذاب قيامت كے بارے ميں يہوديوں كا نظريہ (يہوديوں كو فقط چند روز كا عذاب ہوگا) يہ علمائے يہود كى بدعتوں ميں سے تھا_فويل للذين يكتبون الكتاب و قالوا لن تمسنا النار الا اياماً معدودة

جملہ'' و قالوا ...'' علاوہ بر اس كے كہ '' و قد كان فريق'' آيت ۷۵ پر عطف ہے آيت ۷۸ كے '' اماني'' كا بھى مصداق ہے اسى طرح آيت ۷۹ ميں ''الكتاب'' كا بھى مصداق ہے_مذكورہ بالا مفہوم آخرى مطلب كى بناپر ہے _

۳ _ گناہگار يہوديوں كو قيامت ميں فقط تھوڑا سا عذاب ہونا يہ يہودى عوام كے باطل اور خام خيالات ميں سے ہے_

لا يعلمون الكتاب الا امانى و قالوا لن تمسنا النار الا اياما معدودة اس مفہوم ميں جملہ '' قالوا ...'' آيت ۷۸ ميں ''اماني'' كا مصداق ہے _

۴ _ يہودى عوام خود خواہ، مغرور اور احساس برترى كا شكار ہيں _و قالوا لن تمسنا النار الا اياماً معدودة

۵ _ يہود قيامت پر اعتقاد ركھتے ہيں اور اس بات پر كہ گناہگار آتش جہنم ميں مبتلا ہوں گے _و قالوا لن تمسنا النار الا اياماً معدودة

۶ _ يہوديوں كا باطل نظريہ ( يہوديوں كو فقط چند دن عذاب ہوگا)ان كو اسلام پر ايمان لانے سے روكنے والا ہے _

أفتطمعون ان يومنوا لكم و قالوا لن تمسنا النار الا اياما معدودة جملہ''و قالوا ...'' آيت ۷۵ كے اس جملہ ''و قد كان فريق ...'' پر عطف ہے جو اس امر كى حكايت كررہاہے كہ اس طرح كا باطل گمان يہوديوں كے ايمان لانے ميں ركاوٹ ہے _

۲۶۶

۷ _ قيامت كے بارے ميں يہوديوں كے نادرست عقيدہ (يہوديوں كو فقط چند روز عذاب ہوگا) پر توجہ ان كے ايمان لانے كى اميد كے منقطع ہونے كا سبب ہے _أفتطمعون ان يومنوا لكم و قالوا لن تمسنا النار الا اياماً معدودة

۸ _ لوگوں ميں ايمان كى زمين ہموار كرنے كى بنيادى شرط يہ ہے كہ قيامت كے بارے ميں باطل خيالات كو جڑ سے اكھاڑ پھينكاجائے_أفتطمعون ان يومنوا لكم و قالوا لن تمسنا النار الا اياما معدودة

۹_ اللہ تعالى نے ہرگز يہوديوں كو كم عذاب دينے كى ضمانت نہيں دى اور نہ ہى اس بارے ميں كوئي عہد و پيمان باندھاہے_اتخذتم عند الله عهداً '' اتخذتم'' ميں ہمزہء استفہام انكار ابطالى كيلئے ہے يعنى اس طرح كا عہد و پيمان تم خدا كے ہاں نہيں ركھتے_

۱۰_ اللہ تعالى اپنے عہد و پيمان كو ہرگز نہيں توڑے گا _فلن يخلف الله عهده اس جملہ ميں '' فائ'' فصيحہ ہے جو ايك شرط مقدر كى حكايت كررہى ہے گويا مطلب يوں ہے ''اتخذتم عند اللہ عہد اً فلن يخلف اللہ عہدہ''

۱۱ _ اللہ تعالى جو پيامبر اكرم (ص) كو تعليم دينے والا ہے بتارہاہے كہ باطل دعووں كا جواب كيسے دو اور اس كے لئے دليل كيسے لاؤ _قل اتخذتم عند الله عهداً ام تقولون على الله ما لا تعلمون يہ مفہوم '' قل'' سے استفادہ كيا گيا ہے _

۱۲ _ يہوديوں كى اللہ تعالى كو دى گئي جھوٹى نسبتوں ميں سے ايك يہ تھى كہ قيامت كے دن يہوديوں كو چند دن سے زيادہ عذاب نہ ہوگا_و قالوا لن تمسنا النار الا اياماً معدودة ام تقولون على الله ما لا تعلمون

۱۳ _ اللہ تعالى كى طرف كسى بھى چيز ( حكم، كلام و غيرہ) كى نسبت دينے سے اجتناب كرناچاہيئے اس صورت ميں جب اس نسبت كا علم اور يقين نہ ہو_ام تقولون على الله ما لا تعلمون

۱۴ _ اللہ تعالى كى طرف نسبت دينے كا واحد طريق اللہ تعالى كے حكم يا كلام كا علم و يقين ہونا ہے _ام تقولون على الله ما لا تعلمون

۱۵_ كسى حكم يا كلام كى نسبت اللہ تعالى كى طرف دينا جبكہ اسے پرودرگار نے نہ فرمايا ہو تو يہ نسبت جھوٹى اور ايك بے جا عمل ہے _

اتخذتم عند الله عهداً ام تقولون على الله ما لاتعلمون مذكورہ مفہوم ان دو جملوں '' اتخذتم عند اللہ عہداً '' اور ''ام تقولون على اللہ ...''كے باہم ارتباط سے نكلتاہے يعنى يہ كہ جس كلام يا حكم كى نسبت اللہ تعالى كى طرف ديتے ہويہ ا س صورت ميں درست ہے كہ يہ اللہ تعالى نے بيان فرمايا ہو ورنہ جھوٹى نسبت ہے _

۲۶۷

۱۶ _ مكتب الہى سے فقط منسوب ہوجانا ہى آتش جہنم سے بچنے كے لئے كافى نہيں ہوگا _

و قالوا لن تمسنا النار الا اياماً معدودة قل اتخذتم عند الله عهداً

استدلال كرنا : استدلال قائم كرنے كى روش كى تعليم ۱۱

اللہ تعالى : كسى حكم كى نسبت اللہ تعالى كو دينا ۱۵; اللہ تعالى كى طرف كسى حكم كى نسبت دينے كى شرائط ۱۴; عہد الہى كى وفا۱۰

ايمان: ايمان اجاگر كرنے كے لئے راہ ہموار كرنا۸

پيامبر اسلام (ص) : پيامبر اسلام (ص) كا معلم ۱۱

جہنم: آتش جہنم ۱،۵،۱۶; جہنم سے بچاؤ۱۶

جھوٹ: اللہ تعالى پر جھوٹ باندھنے سے اجتناب ۱۳

اللہ تعالى پر جھوٹ باندھنا ۱۲،۱۵

دين داري: دين دارى كى شرائط ۱۶

شبہات: شبہات كے جوابات دينے كى روش ۱۱

عقيدہ: باطل عقيدہ كے نتائج ۶; باطل عقيدہ۷

باطل عقيدہ سے نبرد آزمائي ۸

علماء يہود: علماء يہود كا بدعت ايجاد كرنا ۲

عمل: ناپسنديدہ عمل ۱۵

يہود: يہوديوں كى افترا پردازياں ۱۲; يہوديوں كا تكبر ۴; يہوديوں كى صفات۴; يہوديوں كے لئے اخروى عذاب۱،۲،۳،۶،۷،۱۲;يہوديوں كےلئے عذاب ۹; يہوديوں كا باطل عقيدہ ۷; يہودى عوام كا عقيدہ ۳; يہوديوں كا عقيدہ ۱،۲;يہوديوں كا جہنم پر عقيدہ۵; يہوديوں كا قيامت پر عقيدہ ۵; آخرت كے عذاب پر يہوديوں كا عقيدہ۵; يہودى عوام اور آخرت كا عذاب ۳; اللہ تعالى كا يہوديوں سے عہد۹; يہوديوں كے اسلام قبول كرنے ميں ركاوٹيں ۶،۷; يہوديوں كے ايمان لانے ميں ركاوٹيں ۶; يہوديوں كے اسلام لانے پر مايوسى ۷

۲۶۸

بَلَى مَن كَسَبَ سَيِّئَةً وَأَحَاطَتْ بِهِ خَطِيئَتُهُ فَأُوْلَئِكَ أَصْحَابُ النَّارِ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ ( ۸۱ )

يقيناً جس نےكوئي برائي حاصل كى اور اسكيغلطى نے اسے گھير ليا وہ لوگ اہل جہنمميں اور وہيں ہميشہ رہنے والے ہيں (۸۱)

۱_ يہودى گناہگارلوگ باقى گناہگاروں كى طرح اپنے استحقاق اوراندازے كے مطابق آتش جہنم ميں مبتلا ہوں گے_

لن تمسنا النار الا اياما معدودة بلي

'' بلى _ ہاں يوں نہيں ہے'' يہ حرف جواب ہے جو ايك دعوى كى رد كے طور پر آياہے يہ '' لن تمسنا النار الا اياما معدودة'' كے دعوى كى رد كے طور پر آياہے_

۲ _ انسانوں كى مختلف نسليں اور قبائل اپنے گناہوں كى سزا كے مقابل ايك دوسرے پر كوئي امتياز نہيں ركھتے_

لن تمسنا النار الا اياما معدودة بلي

۳ _ اللہ تعالى نے يہوديوں كو كم عذاب دينے كى ہرگز ضمانت نہيں دى بلكہ اس صورت ميں كہ گناہ نے ان كا احاطہ كرليا ہو ان كو ہميشہ كے لئے آتش جہنم ميں ڈالے گا_

اتخذتم عند الله عهداً بلى من كسب سيئة هم فيها خالدون

۴ _ ايسے گناہگار جن كے تمام وجود كو گناہوں نے گھير ركھا ہے ہميشہ كے لئے آتش جہنم ميں ڈال ديئے جائيں گے _

من كسب سيئة و احاطت به خطيئته فاولئك اصحاب النار هم فيها خالدون

''سيئة'' اور ''خطيئتہ'' دونوں كا معنى برائي اور گناہ ہے_

۵ _گناہ پر مصر رہنا اس بات كا موجب ہوتاہے كہ گناہ انسان كے سارے وجود كو گھير ليتے ہيں _

من كسب سيئة و احاطت به خطيئته

اگر فقط گناہ كا ارتكاب انسان پر خطيئة ( گناہ) كے احاطہ كا باعث ہوتا تو يہ جملہ ''احاطت ...'' استعمال نہ كيا جاتا _ پس يہ احتمال قوى ہو جاتاہے كہ گناہوں كا احاطہ اس وقت ہوتاہے جب گناہوں ميں اصرار و تكرار ہو_

۶ _ پيامبر اسلام (ص) اور اسلام كے بارے ميں كفر ( انكار) انسان كے دوزخ ميں گرنے اور وہاں ہميشہ رہنے كا باعث ہوگا_أفتطمعون ان يومنوا لكم من كسب سيئة هم فيها خالدون

۲۶۹

مورد بحث آيہ مجيدہ ( من كسب ...)، گذشتہ آيات كے لئے قضيہ كلى يا كبرى ہے جبكہ گذشتہ آيات اس قضيہ كا قضيہ صغرى ہيں _ پس پيامبر اسلام(ص) اور اسلام كا كفر جو اس جملہ ''أفتطمعون ان يومنوا لكم'' (آيت ۷۵)سے سمجھ ميں آتاہے، يہ كفر ''سيئة'' كے مصاديق ميں سے ہے اور اس پر اصرار و تكرار ''احاطہ خطيئة'' كا مصداق ہوگا_

۷ _ پيامبر اسلام (ص) كى رسالت كے انكار كى صورت ميں يہود ہميشہ كے لئے آتش جہنم ميں جائيں گے _

أفتطمعون ان يومنوا لكم من كسب سيئة هم فيها خالدون

۸ _ بدعت ايجاد كرنا اور دين سازي، ان سيئات ميں سے ہيں كہ جو توبہ نہ كرنے كى صورت ميں جہنم ميں ہميشہ كے عذاب كا باعث ہوں گے _فويل للذين يكتبون الكتاب من كسب سيئة هم فيها خالدون

'' فويل للذين ...'' كى دليل سے '' سيئة'' كے مورد نظر مصاديق ميں سے ايك بدعت كا ايجاد كرناہے اور اس كا اصرار اور تكرار بدعت ايجاد كرنے والے پر خطيئة كے احاطہ كا موجب بنتاہے_

۹_دوزخ ايك ابدى مقام ہے _هم فيها خالدون

۱۰_ ابن ابى عمير كہتے ہيں ميں نے امام كاظمعليه‌السلام سے سناكہ آپعليه‌السلام نے فرمايا''لا يخلّد الله فى النار الا اهل الكفر والجحود و اهل الضلال والشرك'' (۱) اللہ تعالى كفار، معاندين ، گمراہوں اور مشركوں كے علاوہ كسى اور كو ہميشہ كے لئے جہنم ميں نہيں ڈالے گا_

اللہ تعالى : اللہ تعالى كے عذاب ۳

بدعت: بدعت كى اخروى سزا ۸; بدعت كا گناہ ۸

پيامبر اسلام (ص) : پيامبر اسلام (ص) كو جھٹلانے كے نتائج۷

جرائم: جرائم كى سزاؤں كے ساتھ نسبت ۱

جہنم: آتش جہنم ۱،۳،۶،۷; جہنم ميں ہميشہ رہنے والے ۱۰; جہنم كى ہميشگى ۹; جہنم ميں ہميشگى كے اسباب ۳،۴،۶،۷،۱۸; جہنم كے موجبات ۶

خطيئة ( گناہ): خطيئة سے مراد۱۰

____________________

۱) توحيد صدوق ص ۴۰۷ ح ۶ ب ۶۳ ، نورالثقلين ج/۱ ص ۹۴ ح ۲۵۹_

۲۷۰

روايت: ۱۰

سزائيں : سزاؤں كا نظام ۲

سيئة: سيئة سے مراد ۱۰; سيئة كے موارد ۸

عذاب: اہل عذاب ۱،۴; عذاب كے موجبات ۱،۳،۴ ،۶،۸

كفر: پيامبر اسلام (ص) كے بارے ميں كفر اختيار كرنے كي سزا و انجام

گناہ : گنا ہ پر اصرار و تكرار كے نتائج ۵; گناہ كے نتائج ۳،۴; گناہ كا انسان پر احاطہ ۳،۴،۵

گناہگار: گناہگاروں كا اخروى عذاب۱; گناہگاروں كا انجام و سزا ۲

يہود: يہوديوں كااخروى عذاب ۱،۳; يہودى گناہگاروں كى سزا ۱،۳; يہودى كافروں كى سزا ۷

وَالَّذِينَ آمَنُواْ وَعَمِلُواْ الصَّالِحَاتِ أُولَئِكَ أَصْحَابُ الْجَنَّةِ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ ( ۸۲ )

اور جوايمان لائے اورانهوں نے نيك عمل كئے ده اہل جنت ہيں اور دہيں ہميشه رہنے والے ہيں _

۱ _ وہ لوگ جو پيامبر اسلام (ص) پر ايمان لائے اور انہوں نے اعمال صالح انجام ديئے وہ اہل بہشت ہيں اور اس ميں ہميشہ رہيں گے _والذين آمنوا و عملوا الصالحات اولئك اصحاب الجنة هم فيها خالدون

آيت ۷۵ (أفتطمعون ان يومنوا لكم) كے قرينہ سے يہاں ايمان سے مراد پيامبر اسلام (ص) پر ايمان ہے _

۲ _ ايمان عمل صالح كے بغير اور عمل صالح بغير ايمان كے اسكا اجر (بہشت ميں ہميشہ رہنا ) نہيں ملے گا _

والذين آمنوا و عملوا الصالحات فيها خالدون

۳ _ بہشت ايك ابدى اور ہميشہ رہنے والا مقام ہے _هم فيها خالدون

۲۷۱

ايمان : ايمان عمل صالح كے بغير ۲

بہشت : بہشت كى ابديت ''ہميشگي'' ۳; بہشت ميں ہميشگى كے اسباب ۱،۲

پيامبر اسلام (ص) : پيامبر اسلام (ص) كے پيروكاروں كا اجر ۱

عمل صالح : عمل صالح كے نتائج ۱; عمل صالح بغير ايمان كے ۲

مؤمنين: مؤمنين كا اجر ۱

وَإِذْ أَخَذْنَا مِيثَاقَ بَنِي إِسْرَائِيلَ لاَ تَعْبُدُونَ إِلاَّ اللّهَ وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَاناً وَذِي الْقُرْبَى وَالْيَتَامَى وَالْمَسَاكِينِ وَقُولُواْ لِلنَّاسِ حُسْناً وَأَقِيمُواْ الصَّلوةََ وَآتُواْ الزَّكَوةَ ثُمَّ تَوَلَّيْتُمْ إِلاَّ قَلِيلاً مِّنكُمْ وَأَنتُم مِّعْرِضُونَ ( ۸۳ )

اس وقت كو ياد كرو جب ہم نے بنى اسرائيل سےعہد ليا كہ خبردار خدا كے علاوہ كسى كيعبادت نہ كرنا اور ماں باپ ، قرابتداروں ،يتيموں اور مسكينوں كے ساتھ اچھا برتاؤكرنا _لوگوں سے اچھى باتيں كرنا _ نازقائم كرنا _ زكوة اداكرنا _ ليكن اس كےبعد تم ميں سے چند كے علاوہ سب منحرفہوگئے اور تم لوگ تو بس اعراض كرنے والےہى ہو(۸۳)

۱_ اللہ تعالى كى طرف سے بنى اسرائيل كے ذمے كچھ عہد و پيمان تھے _و إذ أخذنا ميثاق بنى اسرائيل

۲ _ خدائے وحدہ لا شريك كى عبادت اور اس كے غير كى پوجا سے پرہيز كرنا بنى اسرائيل كے ساتھ خدا كے عہد و پيمان ميں سے تھا_و إذ أخذنا ميثاق بنى اسرائيل لا تعبدون الا الله

۳ _ خداوند متعال كے بنى اسرائيل كے ساتھ عہد و پيمان ميں سے ايك يہ تھا كہ والدين ، قريبيوں ، يتيموں اور مسكينوں كے ساتھ احسان كريں _و بالوالدين احسانا و ذى القربى واليتامى و المساكين

''احساناً'' فعل محذوف ''تحسنون'' يا ''احسنوا'' كے لئے مفعول مطلق ہے _ جبكہ يہ كلمات ''ذى القربى و ...'' الوالدين پر عطف ہيں _

۲۷۲

۴ _ خدائے متعال كے بنى اسرائيل كے ساتھ عہد و پيمان ميں سے ايك يہ تھا كہ لوگوں سے اچھا كلام كريں اور ان سے حسن سلوك كريں _و قولوا للناس حسنا

''حسنا'' مصدر ہے جو صفت ( حَسَناً _ اچھا) كے معنى ميں ہے _ يہ لفظ ممكن ہے مفعول مطلق كے لئے صفت واقع ہوا ہو اور اسكا قائم مقام ہو يعنى جملہ يوں ہو ''قولوا للناس قولاً حسناً'' لوگوں سے اچھا اور بہترين كلام كرو _ الميزان ميں ہے كہ يہ جملہ لوگوں سے حسن سلوك كے لئے كنايہ ہے _

۵_ عوام كے لئے نيك امور ( امر بہ معروف ، نيكيوں كى طرف ہدايت و غيرہ) كو بيان كرنا خداوند متعال كے بنى اسرائيل كے ساتھ معاہدوں ميں سے ايك تھا_و إذ أخذنا ميثاق بنى اسرائيل قولوا للناس حسنا

يہ مفہوم اس بناپر ہے كہ ''حسناً'' ، ''قولوا'' كے لئے مفعول بہ ہو _ پس معنى يہ بنتاہے لوگوں كے لئے نيكيوں كو بيان كرو_

۶ _ خدائے متعال كے بنى اسرائيل كے ساتھ عہد و پيمان ميں سے ايك يہ تھا كہ مختلف اقوام اور ملتوں كے ساتھ اچھا كلام اور حسن سلوك كريں _و قولوا للناس حسناً ''الناس'' سے مراد ممكن ہے يہودى عوام ہوں اور ممكن ہے دوسرى اقوام اور ملتيں ہوں _ مذكورہ مفہوم دوسرے احتمال كى بناپر ہے _

۷_ نماز قائم كرنا اورزكوة كى ادائيگى خداوند متعال كے بنى اسرائيل كے ساتھ كيئے گئے معاہدوں ميں سے تھا_

و إذ أخذنا ميثاق بنى اسرائيل و اقيموا الصلوة و آتو الزكوة

۸ _ بنى اسرائيل كا مكتب مختلف اعتقادي، معاشرتي، عبادتى اور اقتصادى پہلو ركھتا تھا_لا تعبدون الا الله و بالوالدين احسانا و آتواالزكوة

۹_ اللہ تعالى كا بنى اسرائيل سے عہد و پيمان لينے كا واقعہ ايك اچھا واقعہ اور ياد ركھنے كے لائق ہے_و إذ أخذنا ميثاق بنى اسرائيل 'اذ'' فعل'' اذكروا_ يا د كرو'' كے لئے مفعول ہے _ اللہ تعالى كا ياد كرنے كا حكم دينا اس بات كى علامت ہے كہ يہ موضوع ايك خاص اہميت ركھتاہے كہ جسے ياد ركھنا چاہيئے_

۱۰_ اللہ تعالى كى بندگى واجب اور اسكے غير كى پوجا سے اجتناب واجب ہے _لا تعبدون الا الله

جملہ '' لا تعبدون الا اللہ _ تم اللہ كے علاوہ كسى كى عبادت نہيں كرتے '' نہى ہے جو نفى كى صورت ميں آياہے بالفاظ ديگر خبر ہے جو انشاء كے مقام پر

۲۷۳

ہے گويا يہ كہ عبادت نہ كرو

۱۱ _ يكتا پرستى اور توحيد عبادى اديان الہى كے اہم ترين اصولوں ميں سے ہے _

و إذ أخذنا ميثاق بنى اسرائيل لا تعبدون الا الله

'' لا تعبدون الا اللہ '' كو دوسرے معاہدوں اور عہد و پيمان پر مقدم كرنا اس عہد و پيمان كى خاص اہميت كى خاطر ہے _

۱۲ _ انسانوں كا غير خدا كى پرستش كرنا ايك تعجب آور اور ايسا امر ہے جو متوقع نہيں ہے _لا تعبدون الا الله

جملہ انشائي '' غير خدا كى ہرگز عبادت نہ كرو'' كى جگہ اللہ تعالى نے جو جملہ خبريہ استعمال فرمايا كہ ''تم غير خدا كى عبادت نہيں كرتے '' يہ اس حقيقت كى طرف اشارہ ہے كہ خدا كى پرستش اور غير خدا كى پوجا سے اجتناب ايك ايسا انتہائي واضح فريضہ اور فطرت انسانى كے ساتھ گندھا ہوا ہے كہ اس سے نہى كرنے كى ضرورت نہيں اور اسكے برخلاف كى توقع ہى نہيں ہے _

۱۳ _ والدين ، يتيموں اور مساكين سے نيكى كرنا اہل ايمان كے اہم اور ضرورى فرائض ميں سے ہے _

و بالوالدين احساناً و ذى القربى و اليتامى والمساكين

آيہ مجيدہ ميں موجود فرامين اگر چہ خداوند متعال كے بنى اسرائيل كے ساتھ عہد و پيمان كے طور پر بيان ہوئے ہيں ليكن قرآن حكيم ميں ان كا بيان اس بات كى دليل ہے كہ ان فرامين پر عمل كرنا تمام اہل ايمان كى ذمہ دارى ہے _

۱۴ _ اہل ايمان كى اہم ترين معاشرتى تكاليف ( ذمہ داريوں ) ميں سے والدين كے ساتھ نيكى و احسان كرنا ہے _

لا تعبدون الا الله و بالوالدين احسانا

يہ جو اللہ تعالى كى بندگى كے بعد والدين كے ساتھ نيكى كا ذكر ہواہے اس سے اسكى خاص اہميت كا پتہ چلتاہے _

۱۵ _ دوسروں پر نيكى و احسان كى نسبت والدين سے نيكى و احسان كہيں زيادہ اہم و برتر ہے _و بالوالدين احسانا

يہ مفہوم اس بناپر ہے كہ ''والدين '' كو ''ذى القربى و ...'' پر مقدم كياگيا ہے اور ''احسانا'' كو آخرى معطوف '' مساكين'' كے بعد لانے كى بجائے '' والدين'' كے بعد ركھا گيا ہے _

۱۶ _ اہل ايمان كے فرائض ميں سے ہے كہ دوسروں حتى كافروں كے ساتھ بھى حسن سلوك كريں _و قولوا للناس حسنا ً ممكن ہے '' الناس'' سے مراد اسى قوم و ملت كے افراد ہوں جو '' قولوا'' ميں مخاطب ہيں اور ممكن ہے ديگر اقوام و ملل كے افراد ہوں _ مذكورہ مفہوم

۲۷۴

دوسرے احتمال كى بناپر ہے _

۱۷_ توحيد پرستى اور والدين، قرابتداروں ، يتيموں ،مساكين اور درماندہ افرادسے نيكى كرنا اچھے اعمال كے مصاديق ميں سے ہے _و عملوا الصالحات لا تعبدون الا الله وبالوالدين احسانا و المساكين يہ آيہ مجيدہ در حقيقت ما قبل آيت ميں موجود ''الصالحات'' كى تفسير اور اسكے بعض مصاديق كا ذكر ہے_

۱۸ _ لوگوں سے حسن سلوك ، نماز قائم كرنا اورزكوة كى ادائيگى اچھے اعمال كے مصاديق ميں سے ہے_

عملوا الصالحات ...وقولوا للناس حسناً و اقيموا الصلوة و آتوا الزكوة

۱۹ _ دينى تكاليف ( فرائض) اللہ تعالى كے انسانوں كے ساتھ عہد و پيمان ہيں _و إذ أخذنا ميثاق بنى اسرائيل و آتو الزكوة

۲۰ _ بنى اسرائيل كى اكثريت نے دينى تكاليف سے منہ موڑ كر الہى عہد و پيمان توڑ ديئے _ثم توليتم الا قليلاً منكم و انتم معرضون '' تولي'' اور '' اعراض'' كا معنى ہے روگردان ہونا ، منہ موڑنا اور اس سے مراد مخالفت و انحراف ہے _ جملہ '' و انتم معرضون، '' توليتم'' كے فاعل كے لئے حال ہے اور چونكہ اعراض اور تولى كا معنى ايك ہى ہے اس لئے حال مؤكد ہے جو بنى اسرائيل كى سخت مخالفت، نافرمانى اور انحراف كى حكايت كررہاہے_

۲۱ _ بنى اسرائيل ميں سے بہت كم افراد نے الہى عہد و پيمان كى وفا كى اور دينى تكاليف پر عمل كيا _

ثم توليتم الا قليلاً منكم

۲۲ _ بنى اسرائيل ميں سے كچھ افراد غير خدا كى پرستش كى طرف مائل ہوگئے اور انہوں نے والدين ، قرابتداروں ، يتيموں اور مسكينوں كے حقوق ضائع كرديئے _لا تعبدون الا الله و بالوالدين احساناً ثم توليتم الا قليلاً منكم

۲۳ _ بنى اسرائيل ميں سے سوائے كچھ افراد كے باقى سب نے لوگوں سے حسن سلوك نہ كيا ، نماز قائم نہ كى اورزكوة ادا نہ كى _و قولوا للناس حسناً و اقيموا الصلوة و آتو الزكوة ثم توليتم الا قليلاً منكم

۲۴ _ الہى عہد و پيمان كو توڑنا اور الہى فرامين كى مخالفت بنى اسرائيل كى عادت و روش تھي_و انتم معرضون

بعض مفسرين كے نزديك جملہ ''وانتم معرضون_ تم (عہد و پيمان سے ) منہ موڑے ہوئے ہو'' معترضہ ہے اور اس معنى كى طرف اشارہ ہے كہ بنى اسرائيل نے نہ صرف مذكورہ عہد و پيمان توڑے بلكہ عہد

۲۷۵

و پيمان توڑنا انكى عادت اور روش تھي_

۲۵ _عن جعفر بن محمد(ص) قال الله ''وقولوا للناس حسناً'' نزلت فى اهل الذمه (۱)

امام صادقعليه‌السلام سے اللہ تعالى كے اس فرمان ''قولوا للناس حسناً '' كے بارے ميں روايت ہے كہ يہ اہل ذمہ كے بارے ميں نازل ہوئي ہے

۲۶ _ جابر نے امام باقرعليه‌السلام سے اللہ تعالى كے اس فرمان'' قولوا للناس حسناً'' كے بارے ميں روايت كى ہے كہ آپعليه‌السلام نے فرمايا ''قولوا للناس احسن ما تحبون ان يقال لكم (۲)

جس طرح تم چاہتے ہو كہ تم سے گفتگو كى جائے اس سے بہتر لوگوں سے كلام كرو _

۲۷ _ سدير صيرفى كہتے ہيں :قلت لابى عبدالله عليه‌السلام اطعم سائلاً لا اعرفه مسلماً؟ فقال نعم اعط من لا تعرفه بولاية و لاعداوة للحق ان الله عزوجل يقول وقولوا للناس حسناً و لا تطعم من نصب لشى من الحق او دعا الى شى من الباطل (۳) امام صادقعليه‌السلام سے ميں نے عرض كيا جس سائل كو ميں نہيں جانتا كہ مسلمان ہے يا نہيں تو كيا ميں اسكو كھانا كھلاؤں ؟ تو امامعليه‌السلام نے فرمايا ہاں جس كے بارے ميں تم نہيں جانتے كہ اہل ولايت ہے يا دشمن حق ہے تو اسكو كھانا كھلاؤ كيونكہ اللہ تعالى ارشاد فرماتاہے'' و قولوا للناس حسناً'' اور وہ جو حق كا دشمن ہے اور باطل كى دعوت ديتاہے تو اسكو كھانا مت كھلاؤ_

۲۸_ ابى ولاد حناط كہتے ہيں :سألت ابا عبدالله عن قول الله عزوجل '' و بالوالدين احسانا'' ما هذا الاحسان ؟ فقال الاحسان ان تحسن صحبتهما و ان لا تكلفهما ان يسألاك شيئاً مما يحتاجان اليه و ان كانا مستغنين (۴)

ميں نے امام صادقعليه‌السلام سے اللہ تعالى كے اس فرمان ''وبالوالدين احساناً'' كے بارے ميں سوال كيا كہ يہ احسان كيا ہے ؟ تو آپعليه‌السلام نے فرمايا: احسان يہ ہے كہ ان كے ساتھ حسن سلوك كرو اور ان كو مجبور نہ كرو كہ وہ تم سے ايسى چيز مانگيں جس كى ان كو ضرورت ہے اگر چہ وہ بے نياز ہوں _

احكام: ۱۰

____________________

۱) تفسير عياشى ج/ ۱ ص ۴۸ ح ۶۶ ، تفسيربرہان ج/۱ ص ۱۲۱ ح ۱۱_ ۲) تفسير عياشى ج/ ۱ ص ۴۸ ح ۶۳ ، تفسير برہان ج/ ۱ ص ۱۲۱ ح ۸_

۳) كافى ج/۴ ص ۱۳ ح /۱ ، تفسير برہان ج/ ۱ ص ۱۲۰ ح ۵_ ۴) كافى ج/ ۲ ص ۱۵۷ ح ۱ ، نورالثقلين ج/ ۳ ص ۱۴۸ ح ۱۲۹_

۲۷۶

اديان: اديان كا اہم ترين ركن۱۱

امر بہ معروف : امر بہ معروف كى اہميت ۵

امور: تعجب آور امور ۱۲

انسان: انسانوں كے ساتھ خدا تعالى كا عہد و پيمان۱۹

اہل ذمہ : اہل ذمہ سے ميل جول كى روش ۲۵

بنى اسرائيل: دين بنى اسرائيل كے پہلو ۱۸; بنى اسرائيل كا دين سے منہ موڑنا ۲۰; بنى اسرائيل كى اقليت ۲۱،۲۲،۲۳; بنى اسرائيل كى ا كثريت ۲۰،۲۳; بنى اسرائيل ميں امر بہ معروف ۵; بنى اسرائيل كا برا سلوك ۲۳; بنى اسرائيل اور والدين كے حقوق ۲۲; بنى اسرائيل اور زكوة ۲۳; بنى اسرائيل اور مساكين ۲۲; بنى اسرائيل اور نماز ۲۳; بنى اسرائيل اور يتيم ۲۲; بنى اسرائيل كى تاريخ ۲۱،۲۳ ; بنى اسرائيل كى شرعى ذمہ دارياں ۶،۷; بنى اسرائيل كى اكثريت كا شرك كرنا ۲۲; بنى اسرائيل كى صفات ۲۴; بنى اسرائيل كى نافرمانى ۲۴; بنى اسرائيل سے اللہ تعالى كا عہد و پيمان ۱،۲،۳،۴، ۵،۶،۷،۹،۲۱; بنى اسرائيل كى وعدہ شكنى ۲۰ ، ۲۴ ; بنى اسرائيل كا وفائے عہد ۲۱

توحيد: توحيد عبادى كى اہميت ۱۰،۱۱; اديان ميں تو حيد ۱۱; توحيد عبادى ۲،۱۷

دين: دينى تعليمات ۱۹

ذكر: عہد الہى كا ذكر ۹

روايت: ۲۵ ، ۲۶ ،۲۷ ،۲۸

زكاة: زكاة كى ادائيگي۷،۱۸;زكوة كے ترك كرنے والے ۲۳

سائلين : سائلين كو كھانا كھلانا ۲۷

شرك: عبادى شرك سے اجتناب ۲،۱۰; شرك عبادى كا تعجب آور ہونا ۱۲

عبادت: عبادت كا وجوب ۱۰

عمل صالح: عمل صالح كے موارد ۱۷،۱۸

قرابت دار:

۲۷۷

قرابت داروں پر احسان ۳،۱۷

كلام: كلام كرنے كے آداب ۲۶; پسنديدہ كلام ۴،۶

كفار: كفارسے حسن سلوك ۱۶

كھانا كھلانا: كھانا كھلانے كے احكام ۲۷

لوگ: لوگوں سے حسن سلوك۴،۶،۱۶،۱۸

مسكين: مسكينوں پر احسان ۳،۱۳،۱۷; مسكينوں كے حقوق ضائع كرنا ۲۲

مشركين : ۲۲

مؤمنين : مومنين كى معاشرتى ذمہ دارى ۱۴; مؤمنين كى ذمہ دارى ۱۳،۱۶

ميل جول: ميل جول كے آداب ۴،۶،۱۶،۱۸

نافرماني: اللہ تعالى كى نافرمانى (۲۴)

نماز : نماز كا قيام۷،۱۸; تاركين صلوة ۲۳

نيكي: نيكى كى دعوت ۵

واجبات: ۱۰

والدين: والدين پر احسان ۳،۱۳،۱۴،۱۷،۲۸; والدين پر احسان كى اہميت ۱۵; والدين كے حقوق ضائع كرنا ۲۲; والدين كے حقوق ۲۸; والدين سے حسن سلوك۲۸

وعدہ شكن لوگ : ۲۰

يتيم: يتيم پر احسان۳،۱۳،۱۷; يتيم كے حقوق ضائع كرنا ۲۲

يہوديت: يہوديت كا معاشرتى پہلو ۸; يہوديت كا اقتصادى پہلو۸; يہوديت كا عبادتى پہلو ۸; يہوديت كا عقيدتى پہلو۸; يہوديت كى تعليمات۳،۴،۵

۲۷۸

وَإِذْ أَخَذْنَا مِيثَاقَكُمْ لاَ تَسْفِكُونَ دِمَاءكُمْ وَلاَ تُخْرِجُونَ أَنفُسَكُم مِّن دِيَارِكُمْ ثُمَّ أَقْرَرْتُمْ وَأَنتُمْ تَشْهَدُونَ ( ۸۴ )

اور ہم نے تم سے عہد ليا كہآپس ميں ايك دوسرے كا خون نہ بہانا اوركسى كو اپنے وطن سے نكال باہر نہ كرنااور تم نے اس كا اقرار كيا اور تم خود ہياس كے گواہ بھى ہو (۸۴ )

۱ _ بنى اسرائيل كے ذمے اللہ تعالى كى طرف سے عہد و پيمان تھے_و اذا أخذنا ميثاقكم

۲ _ ايك دوسرے كے قتل اور خون ريزى كرنے سے پرہيز كرنا يہ اللہ تعالى كے بنى اسرائيل كے ساتھ عہد و پيمان ميں سے تھا_و اذأخذنا ميثاقكم لا تسفكون دمائكم '' لا تسفكون دماء كم _ تم ايك دوسرے كا خون نہيں كرتے '' جملہ خبر يہ ہے اور اس سے مراد جملہ انشائيہ ہے يعنى خون ريزى نہ كرو _

۳_ ايك دوسرے كو بے گھر نہ كرنا اور دياروطن سے نہ نكالنا خداوند متعال كے بنى اسرائيل كے ساتھ عہد و پيمان ميں سے تھا_و إذ أخذنا ميثاقكم لا تخرجون أنفسكم من دياركم '' دار'' كا معنى گھر ہے البتہ شہر اور محلے كو بھي

''دار'' كہا جاتاہے پس ''ديار'' جو '' دار'' كى جمع ہے اسكا معنى گھر ، شہر اور محلے ہے_

۴ _ انسانى معاشروں اورملتوں كے حقوق ميں سے ہے كہ ان كے پاس وطن اور جائے سكونت ہو _*من دياركم

قرآن كريم ''ديار'' كو ''كم'' كى طرف اضافت دے كر يعنى گھر اور وطن كو انسانوں كى طرف نسبت دے كر ( تمہارے گھر ) اس حقيقت كو ثابت كررہاہے گويا ہر ملت ، قوم ، قبيلے كو حق حاصل ہے كہ ايك سرزمين كو اپنى جائے سكونت قرار دے اور كسى جگہ كو اپنى زندگى كرنے كے لئے انتخاب كرے _

۵ _ بنى اسرائيل كے وہ عہد و پيمان جو خداوند متعال كے ان كے ساتھ تھے ا ن كا اعتراف كرتے اور اس كى گواہى ديتے تھے_إذ أخذنا ميثاقكم ثم اقررتم و انتم تشهدون

۶ _ الہى مكتب ميں مومنين كے قتل محرمات مؤكدہ ميں سے ہے_

لا تسفكون دماء كم

۲۷۹

اگر چہ آيت اللہ تعالى كا بنى اسرائيل سے عہد و پيمان كا ذكر كررہى ہے ليكن اسكا قرآن حكيم ميں بيان كرنا اس بات كى دليل ہے كہ يہ فريضہ قرآن كريم كے تمام تر مخاطبين كے لئے ہے _

۷ _ توحيد پرستوں كو ان كے گھر بار اور ديار وطن سے نكالنا اور دربدر كرنا مؤكدہ محرمات الہى ميں سے ہے _

و لاتخرجون أنفسكم من دياركم

'' لا تخرجون ...'' تم اپنے ( دينى بھائيوں ) كو ان كے گھروں سے باہر نہ نكالويہ جملہ بھى ''لاتسفكون ...''كى طرح خبريہ ہے جو مقام انشاء پر ہے يعنى '' باہر نہ نكالو'' انشاء كى جگہ جملہ خبريہ كا آنا تاكيد كے لئے ہے _

۸ _ ہر معاشرہ اور ملت ايك جسم كى طرح ہے اور اسكے افراد اس جسم كے اعضاء كى طرح ہيں _

لا تسفكون دماء كم و لا تخرجون أنفسكم من دياركم

'' لا تسفكون ...'' اس جملہ سے مراد خودكشى اور خود كو دربدر كرنا نہيں ہے بلكہ اس سے مراد ايك قوم يا قبيلے كا دوسرے كو قتل كرنا اور دربدر كرناہے_ البتہ يہاں دوسروں كى بجائے يہ تعبير استعمال كرنا كہ خود كو قتل نہيں كرتے اور خود كو دربدر نہيں كرتے يہ اس مطلب كى طرف اشارہ ہے كہ ايك ملت كے افراد اور ايك مكتب كے پيروكار امت واحدہ كى طرح ہيں _

احكام:۶،۷

انسان: انسانوں كے حقوق ۴

بنى اسرائيل: بنى اسرائيل كا اقرار ۵; اللہ تعالى كا بنى اسرائيل كے ساتھ عہد و پيمان ۱،۲،۳،۵; بنى اسرائيل كى گواہى ۵

جلاوطنى ( وطن بدرى ) : جلاوطن كرنے سے اجتناب ۳

حقوق: سكونت كا حق ۴; وطن كا حق ۴

قتل: قتل سے اجتناب ۲

محرمات: ۶،۷

معاشرہ : معاشروں كے حقوق ۴; معاشرے كى وحدت ۸

مؤمنين: مومنين كو جلاوطن كرنے كى حرمت۷; مومنين كے قتل كى حرمت ۶; مؤمنين كے درجات ۶،۷

۲۸۰

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

461

462

463

464

465

466

467

468

469

470

471

472

473

474

475

476

477

478

479

480

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

501

502

503

504

505

506

507

508

509

510

511

512

513

514

515

516

517

518

519

520

521

522

523

524

525

526

527

528

529

530

531

532

533

534

535

536

537

538

539

540

541

542

543

544

545

546

547

548

549

550

551

552

553

554

555

556

557

558

559

560

561

562

563

564

565

566

567

568

569

570

571

572

573

574

575

576

577

578

579

580

581

582

583

584

585

586

587

588

589

590

591

592

593

594

595

596

597

598

599

600

601

602

603

604

605

606

607

608

609

610

611

612

613

614

615

616

617

618

619

620

621

622

623

624

625

626

627

628

629

630

631

632

633

634

635

636

637

638

639

640

641

642

643

644

645

646

647

648

649

650

651

652

653

654

655

656

657

658

659

660

661

662

663

664

665

666

667

668

669

670

671

672

673

674

675

676

677

678

679

680

681

682

683

684

685

686

687

688

689

690

691

692

693

694

695

696

697

698

699

700

701

702

703

704

705

706

707

708

709

710

711

712

713

714

715

716

717

718

719

720

721

722

723

724

725

726

727

728

729

730

731

732

733

734

735

736

737

738

739

740

741

742

743

744

745

746

747

748

749

750

751

752

753

754

755

756

757

758

759

760

761

762

763

764

765

766

767

768

769

770

771

772

773

774

775

776

777

778

779

780

781

782

783

784

785