تفسير راہنما جلد ۱

 تفسير راہنما 7%

 تفسير راہنما مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن
صفحے: 785

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴ جلد ۵ جلد ۶ جلد ۷ جلد ۸ جلد ۹ جلد ۱۰ جلد ۱۱
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 785 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 201317 / ڈاؤنلوڈ: 5794
سائز سائز سائز
 تفسير راہنما

تفسير راہنما جلد ۱

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

هُوَ الَّذِي خَلَقَ لَكُم مَّا فِي الأَرْضِ جَمِيعاً ثُمَّ اسْتَوَى إِلَى السَّمَاء فَسَوَّاهُنَّ سَبْعَ سَمَاوَاتٍ وَهُوَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ ( ۲۹ )

وہ خدا وہ ہے جس نے زمين كے تمام ذخيروں كو تم ہى لوگوں كے لئے پيدا كياہے_ اس نے آسمان كا رخ كيا تو سات مستحكم آسمان بناديئے اور وہ ہر شے كا جاننے والا ہے_

۱_ زمين ميں موجود تمام ترنعمتوں كا خالق پروردگار عالم ہے _هو الذى خلق لكم ما فى الارض جميعاً جميعاًكا معنى كل ہے اور يہ ''ما'' موصولہ كا بدل واقع ہوا ہے_

۲_ الله تعالى نے زمين كى نعمتوں كو انسانوں كے استفادے كے لئے خلق فرمايا ہے_هو الذى خلق لكم ما فى الارض جميعاً يہ مطلب ''لكم'' ميں موجود لام انتفاع سے استفادہ ہوتا ہے_

۳_ انسان زمين كے تمام موجودات سے افضل و اشرف ہے _الذى خلق لكم ما فى الارض جميعاً

۴_ زمين كى نعمتوں سے استفادے كا حق تمام انسانوں كيلئے مساوى ہے_هو الذى خلق لكم ما فى الارض جميعاً

۵_ زمين كى تمام نعمتوں سے استفادہ كرنا حلال ہے_هو الذى خلق لكم ما فى الارض جميعاً

۶_ الله تعالى نے زمين كى نعمات خلق فرمانے كے بعد آسمان كو متعادل و متوازن ركھنے كا سامان فراہم فرمايا_ثم استوى الى السماء فسواهن ''استوى ''كا مصدر ''استوائ''ہے _ اگر ''الى '' كے ساتھ متعدى ہو تو ارادہ كرنا، متوجہ ہونا كے معانى ديتا ہے_يہ جملہ ''فسوّى ھن_پس الله نے آسمانوں كو توازن و اعتدال ميں قرار ديا'' متوجہ ہونے كے ہدف كو بيان كرتا ہے_ يعنى مطلب يوں ہوگا :استوى الى السّماء لتسويتهن ، الله تعالى نے آسمانوں كى طرف توجہ فرمائي (يا ارادہ فرمايا) كہ آسمانوں كو اعتدال و توازن ميں ركھے_

۱۰۱

۷_ الله تعالى نے عالم خلقت ميں سات آسمان قرار ديے _فسواهن سبع سماوات ''سوي''كا مصدر تسويہ ہے جسكا معنى ہے اعتدال كو وجود ميں لانا _ آيہ كريمہ ميں يہ فعل دو مفعول كے ساتھ آيا ہے ايك ''ھن'' اور دوسرا ''سبع سماوات'' اس اعتبار سے اسكا معنى تصير (ہونا) بنتا ہے جس ميں تبديل كا مفہوم بھى موجود ہے تو پس معنى يہ بنا : الله تعالى نے آسمان كو اعتدال ميں قرار ديا اور (پھر) اس كو سات آسمانوں ميں تبديل كر ديا_

۸_ اس عالم كے سات آسمانوں ميں مكمل اعتدال پايا جاتا ہے اور ان ميں ذرہ برابر انحراف يا نا ہم آہنگى نہيں ہے_فسواهن سبع سماوات

۹_ آسمانوں كى تخليق دو مرحلوں ميں ہوئي : ايك مرحلہ غير متوازن، ناشناختہ اور مخلوطجبكہ دوسرا مرحلہ بالكل مشخص، ممتاز اور متوازن تھا_ اس جملہ ''ثم استوى الى السمائ'' ميں لفظ السماء مفرد استعمال ہوا جبكہ جملہ ''فسواھن'' ميں جمع كى ضمير اسكى طرف لوٹتى ہے يہ مطلب ممكن ہے اس بات كى طرف اشارہ ہو كہ آسمان سات عدد ہونے سے پہلے ايك نامشخص اور مخلوط حالت ميں تھے پس اس لفظ ''السمائ'' كا اطلاق آسمان (مفرد) اور آسمانوں (جمع) دونوں پر ہوتا ہے_

۱۰_ ہر چيز الله تعالى كے وسيع علم كے دائرے ميں ہے_وهُو بكلّ شيء عليم ''عليم'' صيغہ مبالغہ ہے اور علم كى بہت زيادہ وسعت پر دلالت كرتا ہے_

۱۱_ سات آسمانوں اور زمين كى نعمتوں كى خلقت ايك عالمانہ آفرينش ہے_هو الذى خلق لكم و هو بكل شيء عليم

۱۲_ زمين اور سات آسمانوں كى موجودات كى تخليق اس بات كى دليل ہے كہ الله تعالى مردوں كو زندہ كرنے كى قوت و طاقت ركھتا ہے_ثم يحييكم ثم اليه ترجعون _ هو الذى خلق لكم فسواهنسبع سماوات يہ جملہ ''هوالذى ...'' ممكن ہے ماقبل آيت كے ذيل سے مربوط ہو اور يہ بھى ممكن ہے كہ اسكا ارتباط آيہء مباركہ كے ابتدائيہ سے ہو_ مذكورہ بالا مفہوم پہلے احتمال كى بنا پر ہے_

۱۳_ الله تعالى كے مطلق علم اور انتہائي وسيع قدرت و اقتدار پر ايمان قيامت اور مردوں كے زندہ ہونے كے بارے ميں ہر طرح كے شك و شبہہ كو زائل كر ديتا ہے_ثم يحييكم ثم اليه ترجعون _ هو الذى خلق و هو بكل شيء عليم يہ جملہ''هوالذى سبع سموت : '' الله تعالى كى بے انتہا قدرت كى طرف اشارہ ہے اور

۱۰۲

جملہ ''َوهو بكل شيئ: عَليم'' الله تعالى كے لامحدود علم كى طرف اشارہ ہے_ قيامت اور مردوں كو زندہ كرنے كا ذكر كرنے كے بعد الله تعالى كى لامحدود قدرت و علم كا بيان ہر شك وشبہہ كو زائل كرديتا ہے_

۱۴_ نعمتوں كے عطا كرنے والے اور ضرورتوں كے پورا كرنے والے پروردگار كا انكار ايك تعجب آور اور غير منطقى امر ہے_كيف تكفرون بالله هو الذى خلق لكم ما فى الارض جميعاً يہ مفہوم اس بنا پر ہے كہ اگر يہ آيت ماقبل آيت كے ابتدائيہ سے مربوط ہو_

۱۵_ لامحدود قدرتوں اور علم كے مالك پروردگار كا انكار كرنا ايك تعجب آور اور غيرمعقول بات ہے _كيف تكفرون بالله هو الذى خلق لكم و هو بكل شيء عليم

آسمان : سات آسمان ۷; آسمانوں كا ايك دوسرے ميں مخلوط ہونا ۹; آسمانوں كا متوازن ہونا ۶،۸،۹; آسمان كا متعدد ہونا ۷،۸; آسمانوں كى ايك دوسرے سے جدائي اور امتياز ۹; آسمان كى تخليق ۱۱، ۱۲; آسمانوں كى عالمانہ خلقت ۱۱; آسمانوں كى تخليق كے مراحل ۹

احكام : ۵

اسماء اور صفات : عليم ۹

الله تعالى : الله تعالى كا دائرہ علمى ۱۰; افعال خداوندى ۶،۷; الله تعالى كى خالقيت ۱،۲،۶; الله تعالى كى عنايات ۱، ۲، ۴، ۵، ۱۴; الله تعالى كا لامحدود علم ۱۰، ۱۵; الله تعالى كى لامحدود قدرت ۱۵; الله تعالى كى قدرت كى نشانياں ۱۲

امور : تعجب آور امور ۱۴،۱۵; غير معقول امور ۱۵

انسان : انسان كى ديگر موجودات پر برتري۳; انسانوں كے حقوق ۴; انسانوں كى فضيلتيں ۲،۳

ايمان : ايمان كے اثرات و نتائج۱۳; خدا كے علم پر ايمان ۱۳; قدرت خدا پر ايمان ۱۳; ايمان كے متعلقات ۱۳

جہان بينى : جہان بينى توحيدى ۱

حقوق : استفادے كا حق ۴

حلال ہونے كا قانون :۵

شبہات : قيامت كے بارے ميں شبہہ دور ہونے كے اسباب ۱۳

۱۰۳

كفر : كفر كا بے منطق ہونا ۱۴،۱۵; الله تعالى كے بارے ميں كفر ۱۴،۱۵

مردے : مردوں كا زندہ ہونا ۱۲،۱۳

موجودات : موجودات كى تخليق ۱۲

نعمت : نعمت سے استفادہ ۴،۵; دنياوى نعمتوں كا خالق ۱; نعمتوں كى تخليق ۱۱; نعمت كى خلقت كا فلسفہ ۲; نعمتوں كا سرچشمہ ۶

وَإِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلاَئِكَةِ إِنِّي جَاعِلٌ فِي الأَرْضِ خَلِيفَةً قَالُواْ أَتَجْعَلُ فِيهَا مَن يُفْسِدُ فِيهَا وَيَسْفِكُ الدِّمَاء وَنَحْنُ نُسَبِّحُ بِحَمْدِكَ وَنُقَدِّسُ لَكَ قَالَ إِنِّي أَعْلَمُ مَا لاَ تَعْلَمُونَ ( ۳۰ )

اے رسول _ اس وقت كو ياد كرو جب تمھارے پروردگار نے ملائكہ سے كہا كہ ميں زمين ميں اپنا خليفہ بنانے والا ہوں اور انھوں نے كہا كہ كيا اسے بنائے گا جو زمين ميں فساد برپا كرے اور خونريزى كرے گا جب كہ ہم تيرى تسبيح اور تقديس كرتے ہيں تو ارشاد ہوا كہ ميں وہ جانتاہوں جو تم نہيں جانتے ہو_

۱_ آسمانوں اور زمين كى نعمات كى خلقت كے بعد الله تعالى نے انسان كو خلق فرمايا تاكہ اسے منصب خلافت تك پہنچائے_خلق لكم ما فى الارض و اذ قال ربك للملائكة انى جاعل فى الارض خليفة

آيت نمبر ۳۴ اور ديگر آيات جو حضرت آدمعليه‌السلام كى خلقت كے بارے ميں ہيں ان كو مدنظر ركھتے ہوئے كہا جا سكتا ہے كہ فرشتوں سے الله تعالى كى گفتگو حضرت آدمعليه‌السلام كے بارے ميں ، حضرت آدمعليه‌السلام كى خلقت سے پہلے تھي_ بنا برايں يہ جملہ ''انى جاعل فى اُلارُض خليفة ''حضرت آدمعليه‌السلام كى خلافت كے علاوہ خلقت پر بھى دلالت كرتا ہے گويا كہ مفہوم يوں ہے : ميں چاہتا ہوں ايك ''موجود'' كو خلق كروں اور اسے خليفہ قرار دوں _

۲_ عالم خلقت كے فلسفہ ميں انسان ايك والا مقام ركھتا ہے_هو الذى خلق لكم ثم استوى الى السماء و اذ قال ربك

۱۰۴

۳_ حضرت آدمعليه‌السلام كى خلقت و خلافت سے پہلے فرشتے خلق ہوچكے تھے_و اذ قال ربك للملائكه انى جاعل فى الارض خليفة

۴_ الله تعالى اور فرشتوں كے مابين انسان كى خلقت و خلافت كے بارے ميں بحث ہوئي_و اذ قال ربك للملائكة قالوا اتجعل فيها من يفسد قال انى اعلم ما لا تعلمون

:۵_ خدواند متعال نے انسان كى خلقت و خلافت كے بارے ميں اپنى مشيت و ارادے كو فرشتوں سے بيان فرمايا_

و اذ قال ربك للملائكة انى جاعل فى الارض خليفة

:۶_ زمين پر انسان كى خلافت كا فرشتوں سے ايك طرح كا ارتباط ہے_و اذ قال ربك للملائكة انى جاعل فى الارض خليفة يہ جو انسان كى خلقت و خلافت كا مسئلہ فرشتوں كے سامنے پيش كيا گيا يہ اس بات كى طرف اشارہ ہے كہ زمين پر انسان كے وجود كا فرشتوں سے گہرا ارتباط ہے_

۷_ انسان كى خلقت سے قبل فرشتوں كو انسان كے فساد وخون ريزى كا يقين تھا_قالوا اتجعل فيها من يفسد فيها و يسفك الدماء ''يسفك'' كا مصدر ''سفك'' ہے جسكا معنى گرانا ہے _ يہ جملہ''من َيسفك الدمآء '' وہ جو خون گرائے گا'' اس طرف كنايہ ہے كہ بہت زيادہ قتل و غارت گرى ہوگي_

۸_ انسان كے فساد پھيلانے كى پيشن گوئي كى بنا پر فرشتے انسان كو خلافت كا حقدار نہيں سمجھتے تھے_قالوا اتجعل فيها من يفسد فيها و يسفك الدماء

۹_ قتل اور خونريزى نہايت عظيم گناہ اور فسادگرى كا بہت واضح مصداق ہے_اتجعل فيها من يفسد فيها و يسفك الدماء فسادگرى ميں خون ريزى بھى شامل ہے پس ''يسفك الدمائ''كا ''يفسد فيھا'' پر عطف، عطف خاص على العام ہے اور يہ اس بات كى طرف اشارہ ہے كہ خونريزى اور قتل كا گناہ فساد گرى كى ديگر صورتوں سے كہيں زيادہ بڑا ہے جبكہ اس كى تباہى بھى زيادہ ہے_

۱۰_ فرشتے خداوند متعال كى تسبيح كرنے والے اور اسكى حمدوثنا كرنے والے ہيں _و نحن نسبح بحمدك و نقدس لك

۱۱_ فرشتے ادراك اور آگاہى ركھتے ہيں ، اپنى رائے كے اظہار كى صلاحيت ركھتے ہيں اور واقعات كى تحليل و تجزيہ بھى كر سكتے ہيں _قالوا أتجعل فيها من يفسد فيها و يسفك الدماء

۱۲_ فرشتے خداوند متعال كى تسبيح و ثنا كرنے ميں خالص ہيں _و نحن نسبح بحمدك و نقدس لك

۱۰۵

''لك'' نقدس كے علاوہ نسبح سے بھى متعلق ہے_ ''لك'' كے لام سے خلوص كا معنى نكلتا ہے يعنى :نقدس لك لا لغيرك_

۱۳_ تسبيح پروردگار كے ساتھ اسكى حمدوثنا بجا لانا ايك اچھى روش ہے_و نحن نسبح بحمدك ''بحمدك'' ميں باء كا معنى مصاحبت ہے اور استعانت بھى ہو سكتا ہے_ مذكورہ بالا معنى پہلے احتمال كى بنا پر ہے_

۱۴_ الله تعالى كى تعريف وستائش كرتے ہوئے ايسا كلام يا معانى كا استعمال كرنا چاہئے جس ميں ذرہ برابر بھى نقص يا عيب نہ ہو_و نحن نسبح بحمدك يہ معنى اسطرح ہے كہ اگر ''بائ'' كا معنى استعانت ہو پس ''نسبح بحمدك '' كا مفہوم يہ ہوگا: حمد وستائش كے وسيلے سے ہم تيرى تسبيح كرتے ہيں اور تجھے منزہ سمجھتے ہيں _ واضح ہے كہ خداوند متعال كى حمد و ستائش ميں تسبيح و تنزيہ كا مفہوم اس وقت ہوگا جب منتخب شدہ الفاظ يا معانى ميں كسى طرح عيب يا نقص نہ پايا جاتاہو_

۱۵_ عالم ہستى ميں فرشتوں كا اپنے وجود كى جانب متوجہ ہونا اور خود كو خلافت كے لائق جاننا يہ چيز باعث بنى كہ وہ انسان كى تخليق اور خلافت كا فلسفہ سمجھ نہ پائيں _قالوا ا تجعل فيها من يفسد فيها و نحن نسبح بحمدك يہ جملہ ''ونحن نسبح بحمدك'' حاليہ ہے جو اس مطلب كى طرف اشارہ ہے كہ فرشتے علاوہ بر ايں كہ انسان كو فتنہ و فساد كے باعث خلافت كا اہل نہ سمجھتے تھے خود كو اس مقام كا لائق جانتے تھے اور زمين كو انسان كى خلافت سے بے نياز سمجھتے تھے_

۱۶_ انسان ميں موجود صلاحيتيں اور استعداد تھى جو اس كے خلعت خلقت و خلافت كى شائستگى ركھتى تھيں _انى اعلم ما لا تعلمون ''ما لا تعلمون'' ممكن ہے انسان كى پوشيدہ صلاحيتوں كى طرف اشارہ ہو يا ممكن ہے اس سے مراد وہ علوم اور حقائق ہوں جو فرشتوں سے مخفى يا اوجھل تھے جبكہ فرشتے ان علوم كے حصول و ادراك كى صلاحيت نہ ركھتے تھے_ مذكورہ بالا مفہوم پہلے احتمال كى بنا پر ہے_

۱۷_ انسان ميں موجود كمالات اور اعلى اقدار اس كى فتنہ گرى و فساد كى تلافى كرنے والے ہيں _أتجعل فيها من يفسد فيها قال انى اعلم ما لا تعلمون انسان كے فتنہ و فساد كى پيشن گوئي كو الله تعالى نے رد نہيں فرمايا ليكن انسان ميں موجود خاص استعداد كى بنا پر اس كو خلافت كا مستحق سمجھا_ اس سے پتہ چلتا ہے كہ يہ صلاحيت و استعداد انسان كى منفى خصوصيات كى تلافى كرنے والى ہے_

۱۸_ فرشتوں كے پاس محدود معلومات اور آگاہى ہے _انى اعلم ما لا تعلمون

۱۹_ فرشتے انسانى كمالات اور اس كى اعلى اقدار سے

۱۰۶

ناآگاہ تھے_إنى اعلم ما لا تعلمون

۲۰_ اعلى انسانى اقدار سے فرشتوں كى ناآگاہى اس بات كا باعث بنى كہ انسان كا فتنہ و فساد ان كے سامنے جلوہ گر ہو اور وہ انسان كى خلقت و خلافت پر اعتراض كريں _أتجعل فيها من يفسد فيها قال إنى اعلم ما لا تعلمون

۲۱_ عالم ہستى كے تمام ترموجودات ميں راز و رمز پائے جاتے ہيں _ ان پر اعتراض كرنا ان كے وجود كى حكمت سے عدم آگاہى اور جہالت كى دليل ہے_أتجعلُ فيها من يفسد فيها قال إنى اعلم ما لا تعلمون

۲۲_ انسان ايسے علوم اور غيبى حقائق كو سيكھنے كى صلاحيت ركھتا ہے كہ جن كے سيكھنے كى استعداد فرشتے نہيں ركھتے_

إنى اعلم ما لا تعلمونيہ مطلب اس بنا پر ہے اگر ''ما لا تعلمون''سے مراد آدم عليه‌السلام ميں چھپى ہوئي صلاحيتيں نہ ہوں بلكہ مقصود الله تعالى كے ہاں موجود علوم اور حقائق ہوں پس آدم عليه‌السلام كى خلقت و خلافت كے سلسلے ميں ''إنى اعلم ما لا تعلمون''سے مراد يہ ہے: الله تعالى كے ہاں موجود حقائق سے آگاہى ايك اور موجود حاصل كر سكتاہے جبكہ فرشتے اس بار كو نہيں اٹھا سكتے اور نہ ہى آئندہ اس كى صلاحيت ركھيں گے_ صرف انسان ہے جو ان حقائق كو درك كرنے كى استعداد ركھتا ہے اور ان كا مظہر ہوسكتا ہے اس معنى كى تائيدآيت ۳۳ كا يہ جملہ ہے_ ''الم اقل...''

۲۳_ حضرت آدمعليه‌السلام اور ان كى نسل ان انسانوں كى قائم مقام ہے جو ان سے پہلے زمين پر رہتے تھے_إنى جاعل فى الارض خليفة ''خليفه'' كا معنى جانشين ہونا يا جاگزيں ہونا ہے_ يہ معنى اس بات كا تقاضا كرتا ہے كہ يہ انسان جس كا خليفہ بن رہا ہے وہ موجود رہا ہو جبكہ آيہ مجيدہ ميں بيان نہيں ہوا كہ وہ كون ہے_ يہى وجہ ہے كہ اس بارے ميں مختلف آراء بيان ہوئي ہيں ان ميں سے ايك نظريہ يہ ہے كہ حضرت آدمعليه‌السلام اور ان كى نسل سے قبل زمين پر انسان رہتے تھے ، يہ جو فرشتوں كو يقين ہے كہ انسان فتنہ و فساد پھيلائے گا اس احتمال كى تائيد كرتا ہے_

۲۴_ حضرت آدمعليه‌السلام سے پہلے زمين كے رہنے والے فسادى اور خونريزى كرنے والے تھے_إنى جاعل فى الارض خليفة قالوا أتجعل فيها من يفسد فيها آيت كا ظاہرى مطلب يہ ہے فرشتوں كو خليفہ بننے والے انسان كے بارے ميں يقين تھا كہ يہ فسادى و فتنہ پرور ہوگا_ يہ حقيقت ہوسكتا ہے ان دو مطلب كى طرف اشارہ ہو:

- i حضرت آدمعليه‌السلام اور ان كى نسل ما قبل انسانوں كے جانشين ہوں _

- ii پہلے انسان فسادى اور فتنہ پرور تھے_

۲۵_ انسان اس امر كا لائق ہے، شائستگى ركھتا ہے كہ خليفہ الہى بنے_

۱۰۷

إنى جاعل فى الارض خليفةبعد والى آيات ميں حضرت آدم (ص) كو ايك نمونہ انسان كے طور پر ياد كيا گيا ہے ايك ايسا انسان جو فرشتوں سے برتر ہے، جسے تمام اسماء كا علم عطا كيا گيا اور جس كوحقائق (زمين و آسمان كے غيب) كا علم ديا گيا ہو يہ سب اس بات كا قرينہ ہيں كہ خلافت سے مراد خلافت الہى ہے چونكہ انسان كا ايك ايسى مخلوق كے طور پر تعارف كرايا گيا ہے جو علم الہى كا مظہر ہے_

۲۶_ حضرت آدم (ص) كى خلقت و خلافت اور خداوند قدوس كا فرشتوں سے گفتگو كرنا نہايت سبق آموز واقعہ ہے جس ميں گہرے نكات ہيں _و إذ قال ربك للملائكة إنى اعلم ما لا تعلمون يہاں ''اذ'' فعل مقدّر ''اذكر'' كا مفعول ہے_

۲۷_حسين بن بشّار عن ابى الحسن على بن موسى الرضا (ص) قال : سألته أيعلم الله الشى الذى لم يكن أن لو كان كيف كان يكون او لا يعلم الّا ما يكون فقال انّ الله تعالى هوالعالم بالاشياء قبل كون الاشياء قال الله عزوجل '' إنّى أعلم ما لا تعلمون'' فلم يزل الله عزوجل علمه سابقاً للأشياء قديماً قبل ان يخلقها (۱)

حسين بن بشّار كہتے ہيں ميں نے امام رضا(ص) سے سوال كيا خداوند عالم جانتا ہے كہ جو چيزيں وجود ميں نہيں آئيں وہ كيسى ہوں گى يا يہ كہ ايسا نہيں ہے بلكہ اس چيز كے وجود ميں آنے كے بعد اسے جانتا ہے؟ امامعليه‌السلام نے فرمايا خداوند عالم اشياء كے وجود ميں آنے سے قبل ان كے بارے ميں علم ركھتا ہے_ الله عزوجل فرماتا ہے '' إنّى أعلم ما لا تعلمون_ ميں وہ سب كچھ جانتا ہوں جو تم نہيں جانتے'' پس الله تعالى كا علم ہميشہ اشياء كى خلقت اور وجود سے ماقبل ہے_

۲۸_پيامبر خداصلى الله عليہ وآلہ وسلم ارشاد فرماتے ہيں :''دحيت الارض من مكة ...وهى الارض التى قال الله ''إنى جاعل فى الارض خليفة ...' '(۲) زمين كا پھيلائو مكہ سے شروع ہوا اور مكہ وہى سرزمين ہے جس كے بارے ميں الله تعالى ارشاد فرماتا ہے ''ميں بے شك زمين ميں اپنا خليفہ بنانے والا ہوں ...''

۲۹_عن ابى جعفر محمد بن علي عليه‌السلام انه قال فى قول الله عزوجل: و اذ قال ربك للملائكة إنى جاعل فى الارض خليفة قالوا اتجعل فيها من يفسد فيها و قال وإنما قال ذلك بعض الملائكة لما عرفوا من حال من كان فى الارض من الجن قبل آدم (۳) عليه‌السلام عليه‌السلام الله تعالى كے اس كلام ''اور جب تيرے رب نے فرشتوں سے كہا كہ ميں زمين پر خليفہ بنانے والا ہوں تو انہوں نے كہا كيا (اے رب) تو زمين پر

____________________

۱) توحيد صدوق ص ۱۳۶ ح ۸ باب ۱۰ ، نورالثقلين ج/۱ ص ۵۳ ح ۸۴_ ۲) الدرالمنثور ج/۱ص۱۱۳، بحار الانوار ج/۵۴ ص ۲۰۶ ح ۱۵۶_

۳) دعائم الاسلام ج/۱ ص ۲۹۱ ، بحار الانوار ج/ ۹۶ ص ۴۷ ح ۳۶_

۱۰۸

ايسے كو خليفہ قرار دے گا جو فتنہ و فساد برپا كرے گا'' كے بارے ميں امام باقرعليه‌السلام فرماتے ہيں كہ بعض ملائكہ نے ايسا كہا تھا كيونكہ وہ حضرت آدم (ص) كى خلقت سے پہلے زمين پر جنات كا فتنہ و فساد ديكھ چكے تھے_

۳۰_ اميرالمومنين فرماتے ہيں ''قالت الملائكة سبحانك '' أتجعل فيها من يفسد فيها ويسفك الدماء ونحن نسبح بحمدك ونقدّس لك'' فاجعله منّا فانا لا نفسد فى الارض ولا نسفك الدماء قال جلّ جلاله ''إنى اعلم ما لا تعلمون'' انى اريد ان اخلق خلقا بيدى اجعل ذريته انبياء مرسلين وعباداً صالحين و آئمة مهتدين اجعلهم خلفائي فى ارضى ''(۱) ملائكہ نے عرض كيا پروردگار تو پاك و منزہ ہے كيا تو زمين پر ايسے كو قرار دے گا جو اس ميں فتنہ و فساد برپا كرے گا اور خون ريزى كرے گا جبكہ ہم تيرى حمدوثنا سے تيرى تسبيح بجا لاتے ہيں اور تيرى پاكيزگى بيان كرتے ہيں پس ہم ميں سے خليفہ قرار دے كيونكہ نہ تو ہم زمين پر فساد برپا كريں گے اور نہ ہى خونريزى كريں گے تو الله جل جلالہ نے ارشاد فرمايا ميں وہ جانتا ہوں جو تم نہيں جانتے ميں چاہتا ہوں كہ ايسى مخلوق كو خلق كروں جس كى نسل سے انبياء مرسلعليه‌السلام ، صالح بندے اور ہدايت يافتہ آئمہ وجود ميں آئيں اور (پھر) انہى كو زمين پر اپنا خليفہ قرار دوں _

۳۱_ امام صادق عليہ السلام سے روايت ہے آپ(ص) نے فرمايا : ''إن الملائكة قالوا نحن نقدسك و نطيعك و لا نعصيك كغيرنا قال فلما اجيبو بما ذكر فى القرآن علموا انهم تجاوزوا ما لهم فلاذوا بالعرش استغفاراً (۲)

ملائكہ نے كہا ہم تيرى پاكيزگى بيان كرتے ہيں ، تيرى اطاعت كرتے ہيں اورنہ ہى تيرى نافرمانى كرتے ہيں جيسے دوسرے كرتے ہيں _ امام(ص) فرماتے ہيں جيسا كہ قرآن ميں آيا ہے فرشتوں نے الله تعالى كا جواب سنا تو سمجھ گئے كہ انہوں نے اپنى حد سے تجاوز كيا ہے پس انہوں نے طلب مغفرت كے لئے عرش الہى كى پناہ لے لي_

۳۲_ امام على عليہ السلام سے روايت ہے آپعليه‌السلام نے فرمايا: ''او كل علم يحتمله عالم ؟ إنّ الله تعالى قال لملائكته ''إنى جاعل فى الارض خليفة قالوا أتجعل فيها من يفسد فيها ...'' فهل رأيت الملائكة احتملوا العلم؟ (۳) كيا ہر علم عالم كے لئے قابل تحمل ہے ؟ الله تعالى نے اپنے فرشتوں سے فرمايا : _ ميں زمين پر خليفہ بنا رہا ہوں تو انہوں نے كہا كيا تو ايسے كو قرار دے گا جو زمين پر فتنہ و فساد برپا كرے گا كيا تم سمجھتے ہو كہ يہ علم فرشتوں كے لئے قابل تحمل تھا؟

____________________

۱) علل الشرايع ج/۱ ص۱۰۵ ح /۱ باب ۹۶ ، نورالثقلين ج/۱ ص۵۱ ح ۸۰_ ۲) تفسير تبيان ج/۱ ص۱۳۶ ، نورالثقلين ج/۱ ص۵۴ ح ۸۶_

۳) بحار الانوار ج/۲ص ۲۱۱ ح۱۰۶ ، نورالثقلين ج/۱ص۵۱ ح ۷۹_

۱۰۹

آسمان : آسمانوں كى خلقت ۱

الله تعالى : افعال الہى ۱; الله كى تقديس وپاكيزگى كا بيان ۱۰;الله تعالى كى خالقيت ۱; الله تعالى كو معدوم اشياء كا علم ہونا ۲۷; الله تعالى كا علم۲۷; مشيت و مقدرات الہى ۵

الله تعالى كا خليفہ : ۲۵، ۳۰

انبياءعليه‌السلام : انبياءعليه‌السلام كے فضائل ۳۰

انسان : انسانى كمال كے اثرات و نتائج۱۷; انسانى صلاحيتيں اور استعداد ۱۶،۱۷،۲۲، ۲۵; انسان كا فساد برپا كرنا ۷، ۸، ۱۷، ۲۴; حضرت آدمعليه‌السلام سے پہلے كے انسان ۲۳، ۲۴; انسان كى ملائكہ پر برترى ۲۲; انسان كى تاريخ ۲۳; انسان كى خلافت ۱، ۴، ۵، ۶، ۸، ۱۶، ۲۰، ۲۳، ۲۵; انسان كى خلقت ۴، ۵، ۱۶، ۲۰; انسانى خونريزى ۷، ۲۴; انسان كے فضائل ۱۶، ۱۷، ۱۹، ۲۰; انسان كى خلقت كا فلسفہ ۱، ۳۰; انسان كا كمال ۱۹; انسان كے درجات ۲، ۲۵; انسان كى خصوصيات ۲۲

تاريخ : تاريخ سے عبرت لينا ۲۶; تاريخ كے فوائد ۲۶

تسبيح : الله تعالى كى تسبيح كے آداب ۱۳; تسبيح خداوندى ۱۰، ۱۲

جنات : جنات كا فساد برپا كرنا ۲۹; جنات كى تاريخ ۲۹

جہالت : جہالت كے اثرات ونتائج۲۱

جہان بينى يا( نظريہء كائنات ): توحيدى جہان بينى ۱

حضرت آدمعليه‌السلام : آدم(ص) كى تاريخ خلقت ۳; حضرت آدم (ص) كے واقعہ كى تعليمات ۲۶; حضرت آدم (ص) كى خلافت ۳، ۲۳، ۲۶; حضرت آدمعليه‌السلام كى خلقت ۲۶

حمد : حمد الہى كے آداب ۱۴; خدا تعالى كى حمد ۱۰، ۱۲، ۱۳

روايت : ۲۷، ۲۸، ۲۹، ۳۰، ۳۱، ۳۲

زمين : زمين كا نقطئہ آغاز ۲۸; زمين كى تاريخ ۲۸; زمين كا پھيلاؤ۲۸

صالحين : صالحين كے فضائل ۳۰

عبرت : عبرت كے عوامل ۲۶

۱۱۰

علم : پسنديدہ علم ۳۲

فساد برپا كرنا : فساد برپا كرنے كے موارد ۹

قتل : قتل كا گناہ ۹

گناہان كبيرہ : ۹

مكّہ معظّمہ: مكّہ معظّمہ كے فضائل ۲۸

ملائكہ : ملائكہ كى جہالت كے اثرات و نتائج ۲۰;ملائكہ كا اخلاص ۱۲ ملائكہ كا ادراك۱۱;ملائكہ كا پناہ طلب كرنا ۳۱; ملائكہ كى صلاحيت۲۲; ملائكہ كا استغفار كرنا ۳۱; ملائكہ كى بصيرت۱۵;ملائكہ كى پيشين گوئي۸;ملائكہ كى خلقت كى تاريخ ۳; ملائكہ كى تسبيح ۱۰ ، ۱۲; ملائكہ كا ناآگاہ ہونا ۱۹ ; ملائكہ كو علم غيب ہونا۷; ملائكہ كا علم ۱۱ ; ملائكہ كى اللہ سے گفتگو ۴ ، ۵ ، ۲۶; ملائكہ كے علم كا دائرہ كار ۱۸;ملائكہ اور انسان كى خلقت ۱۵ ، ۲۰; ملائكہ اور انسان كى خلافت ۶،۸،۱۵،۲۰

موجودات: موجودات كا راز ۲۱; موجودات كى خلقت كا فلسفہ ۲۱; حضرت ادمعليه‌السلام سے پہلے كى موجودات ۲۹

نعمت: نعمت كا سرچشمہ ۱

وَعَلَّمَ آدَمَ الأَسْمَاء كُلَّهَا ثُمَّ عَرَضَهُمْ عَلَى الْمَلاَئِكَةِ فَقَالَ أَنبِئُونِي بِأَسْمَاء هَؤُلاء إِن كُنتُمْ صَادِقِينَ ( ۳۱ )

اور خدا نے آدم كو تمام اسماء كى تعليم دى اور پھر ان سب كو ملائكہ كے سامنے پيش كركے فرمايا كہ ذرا تم ان سب كے نام تو بتاؤ اگر تم اپنے خيال استحقاق ميں سچے ہو_

۱_ اللہ تعالى نے حضرت ادمعليه‌السلام كو مخصوص علوم كے حصول كى وسيع استعداد عطا فرمائي اور ان كے تمام حقائق اور اسماء تعليم فرمائے_وعلم ادم الا سماء كلها جملہ ''علم ادم'' ايك مقدر جملے پرعطف ہے جو انتہائي واضح ہونے كى بنا پر كلام ميں نہيں ايا_يہ جملہ''انّى جاعل ...''كے قرينے سے يہ ہو سكتا ہے :فخلق ادم جديراًللخلافة و

۱۱۱

۲_ انسان كى افرينش كى حكمت اور زمين پر اس كى خلافت كى لياقت اس ميں ہے كہ وہ عالم ہستى كے حقائق سيكھنے كى توانائي ركھتا ہے_إنى جاعل فى الارض خليفه ...وعلّم ادم الاسماء كلّها''

۳_ انسان كا سب سے پہلا استاد خداوندقدوس ہے _وعلم ادم الا سماء كلها

۴_ علوم اور معارف كے سيكھنے ميں اشياء كى علامتيں يا ان كے نام بہت بنيادى كردار ركھتے ہیں _وعلم ادم الاسماء كلها ''الاسمائ' 'سے مراد عالم ہستى كے حقائق ہيں نہ فقط ان كے نام اور علامتيں _پس عالم ہستى كے حقائق كو ناموں اور علامتوں سے تعبير كرنا اس بات كى علامت ہے كہ چيزوں كے نام، علوم و معارف كى دنيا ميں بہت اہم كردار كے حامل ہيں

۵_حضرت ادمعليه‌السلام كوجو حقائق تعليم ديئے گئے ہيں وہ ذى شعور اور عاقل مخلوقات كے بارے ميں تھے_وعلم ادم الا سماء كلها ثم عرضهم على الملائكة ''ھم''كى ضميرمعمولا با شعور اور عاقل موجودات كيلئے استعمال ہوتى ہے_بنابريں مذكورہ بالا مفہوم اس بناپر ہے كہ ''ھم'' كى ضمير ''الا سمائ'' كى طرف لوٹتى ہے_

۶_اللہ تعالى نے موجودات عالم ہستى كو فرشتوں كے سامنے پيش كيا اور ان سے چاہا كہ ان كے نام بيان كرےں _

ثم عرضهم على الملائكة فقال ا نبئونى باسماء هو لاء ''أنبئوا''فعل امر ہے اور اس كا مصدر ''انبائ''ہے جس كا معنى ہے خبر دينا_

۷_ فرشتوں كا دعوى تھا كہ وہ حضرت ادمعليه‌السلام سے برتر ہیں _أنبئونى با سماء هو لاء ان كنتم صادقين _

فرشتوں كا حضرت ادمعليه‌السلام كى خلقت وخلافت پر اعتراض كرنے كے بعد يہ كہنا ''ونحن نسبح ...'' اس مطلب كى طرف اشارہ ہے كہ''صادقين '' سے متعلق چيز فرشتوں كى ادمعليه‌السلام پر برترى تھى _ گويا مفہوم يہ ہوگا :اگر سچ كہتے ہو كہ تم ادم سے برتر اور مقام خلافت كے زيادہ لائق ہو تو

۸_عالم ہستى كے حقائق كا علم اعلى اقدار ميں سے ہے _إنى اعلم مالاتعلمون _وعلم ادم الا سماء كلها

۹_ حضرت ادمعليه‌السلام كى بہت زيادہ اگاہى فرشتوں پر برترى كا راز تھا _وعلم ادم الا سماء كلها ان كنتم صادقين

۱۰_عن ابى العباس عن ابى عبداللّه عليه‌السلام سالته عن قول الله ''وعلم آدم الاسماء كلها '' ماذا علمه؟ قال الارضين والجبال والشعاب والأوديه ثم نظر الى بساط تحته فقال و هذا البساط مماعلّمه (۱)

____________________

۱) تفسير عياشى ج ۱ ص ۳۲ ح ۱۱، نور الثقلين ج ۱ ص ۵۵ ح ۸۸_

۱۱۲

ابوالعباس كہتے ہيں كہ اللہ تعالى كے اس كلام ''اوراللہ نے ادم كوتمام كے تمام اسماء سكھائے '' كے بارے ميں 'ميں نے امام صادقعليه‌السلام سے سوال كيا كہ خدا وند متعال نے حضرت ادمعليه‌السلام كوكيا سكھايا ؟ حضرتعليه‌السلام نے فرمايا: زمين 'پہاڑ' درّے' وادياں پھر اپعليه‌السلام نے اپنے نيچے بچھى ہوئي بساط (دري)كى طرف نگاہ كى اور فرمايايہ بساط بھى ان ميں سے ہے جس كا علم اللہ تعالى نے حضرت ادمعليه‌السلام كو ديا_

۱۱_امام صادقعليه‌السلام فرماتے ہيں :إن الله تبارك و تعالى علّم ادم اسماء حجج الله كلّها ثمّ عرضهم و هم ارواح_ على الملائكة فقال '' أنبئونى بأسماء هؤلاء ان كنتم صادقين'' بأنكم احق بالخلافة فى الارض لتسبيحكم وتقديسكم من ادم عليه‌السلام (۱) خدا وند متعال نے اپنى تمام حجتوں كا علم حضرت ادمعليه‌السلام كو عنايت فرمايا پھر ان كى ارواح كوفرشتوں كے سامنے پيش كيا ا ور پھر فرمايا ''مجھے وہ اسماء بتاو اگر تم سچے ہو '' كہ تم ہى ادم سے زيادہ خلافت كے حق دار ہو اپنى تسبيح وتقديس كى وجہ سے؟

اقدار: ۸

اللہ تعالى : اللہ تعالى كى حجتيں ۱۱; خداوند قدوس كى اہميت۳

انسان: انسان كا ادراك ۲; انسان كى صلاحيتيں ۲; انسان كى خلافت كا فلسفہ۲;خلقت انسان كا فلسفہ ۲;انسان كا معلم ۳;انسان كى خصوصيات۲ تعليم: تعليم كا سرچشمہ۴

حضرت ادمعليه‌السلام : حضرت آدمعليه‌السلام كى صلاحيتيں ۱; حضرت ادمعليه‌السلام كو تعليم ديئے گئے اسماء ۵; حضرت ادمعليه‌السلام كى ملائكہ پر برترى ۹; حضرت اد معليه‌السلام كو اسماء كى تعليم ديا جانا ۱،۵،۱۰،۱۱; حضرت ادمعليه‌السلام كى تخليق ۱; موجودات كا حضرت ادمعليه‌السلام كے سامنے پيش كيا جانا ۱۰; حضرت ادمعليه‌السلام كا علم ۹; حضرت ادمعليه‌السلام كى برترى كا فلسفہ ۹; حضرت ادمعليه‌السلام كا واقعہ ۱;حضرت ادمعليه‌السلام كى خصوصيات ۱

حقائق: حقائق كے علم كى قدروقيمت۸

روايت:۱۰،۱۱ علم: علم كى اہميت۳ معلم: سب سے پہلا معلم۳

ملائكہ: ملائكہ كے دعوے ۷;ملائكہ كى بڑائي ۷; موجودات كا ملائكہ كے سامنے پيش كيا جانا۶

موجودات : موجودات كے ناموں كى اہميت ۴

____________________

۱) اكمال الدين صدوق ج ۱ ص۱۴ ، نور الثقلين ج ۱ ص ۴۵ ح ۸۷_

۱۱۳

قَالُواْ سُبْحَانَكَ لاَ عِلْمَ لَنَا إِلاَّ مَا عَلَّمْتَنَا إِنَّكَ أَنتَ الْعَلِيمُ الْحَكِيمُ ( ۳۲ )

ملائكہ نے عرض كى كہ ہم تو اتنا ہى جانتے ہيں جتنا تو نے بتاياہے كہ تو صاحب علم بھى ہے اور صاحب حكمت بھى _

۱_ فرشتوں كے سامنے جو حقائق پيش كيئے گئے ان سے وہ نا اگاہ تھے اور اسماء كے بيان كرنے سے عاجز رہے_

ثم عرضهم على الملائكة قالوا سبحانك لا علم لنا الا ما علمتنا

۲_خداوند متعال كى ذات اقدس ہر نقص اور عيب سے پاك ومنزہ ہے_قالوا سبحانك

۳_ پروردگار عالم كى ذات اقدس منزہ ہے اس امرسے كہ موجودات كے اسرار اور ان كى مخفى گاہ سے اگاہ نہ ہو_ أنبئونى بأسماء هو لائ ...قالوا سبحانك لفظ ''سبحانك '' كا استعمال ايسے موارد ميں ہو تا ہے جہاں اللہ تعالى كے بارے ميں متكلم كا كلام نقص يا عيب كا وہم وگمان كرے_ فرشتے چونكہ مقام جواب ميں ہيں اس ليئے ان كے كلام سے وہم پيدا ہوتا ہے كہ گويا خداوند متعال ان كے جواب كى پہلے سے اگاہى نہيں ركھتا لہذا ''سبحانك'' كہنے كا ہدف يہ ہے كے اللہ تعالى اس طرح كے وہم وگمان سے پاك ومنزہ ہے _

۴_ فرشتوں كا علم وبصيرت اللہ تعالى كى جانب سے ہے_لا علم لنا إلاّ ما علمتنا

۵_ خدائے بزرگ وبرتر كى ذات اقدس عليم (انتہائي زيادہ جاننے والا ) اور حكيم (ايسا زيرك و دانا جو امور كو مستحكم واستوار بنائے)ہے_إنك أنت العليم الحكيم

''حكيم'' كےمعانى ہيں قاضى ،صاحب حكمت اور امور كو استحكام بخشنے والا _اس ايت ميں بيان شدہ حقائق سے دوسرا اور تيسرا معنى زيادہ مناسبت ركھتا ہے_

۶_ ذات بارى تعالى وہ واحد حقيقت ہے جو لا محدود (مطلق ) علم وحكمت كى مالك ہے_إنك أنت العليم الحكيم

خبر (العليم الحكيم )پر ''ال'' كا انا اور جملے

۱۱۴

ميں ضمير فصل''انت''كا ہونا حصر پر دلالت كرتا ہے_

۷_ اللہ تعالى كا علم ذاتى ہے اور دوسروں كى دانش اللہ كى جانب سے عطا اور عنايت ہے_لا علم لنا إلاماعلمتنا إنك أنت العليم الحكيم يہ جملہ''انك انت ...''اس مطلب كے بعد بيان ہواہے كہ فرشتوں كا علم ذاتى نہيں بلكہ وہبى ہے پس يہ اس مطلب كى طرف اشارہ ہے كہ اللہ تعالى كاعلم ذاتى ہے_

۸_ حضرت ادمعليه‌السلام فرشتوں سے برتر اور ان سے زيادہ عالم تھے_وعلم ادم الا سماء كلها قالوا سبحانك لا علم لنا إلاما علمتنا

۹_ فرشتوں كو اللہ تعالى كا (حقائق كے اسماء بيان كرنے كيلئے ) حكم دينا افعال الہى كے حكيمانہ اور عالمانہ ہونے كى ياد اورى اور انہيں حضرت ادمعليه‌السلام كى علمى برترى سے اگاہ كرنا تھا_أانبئونى بأسماء هولاء قالوا سبحانك إنك أنت العليم الحكيم

۱۰_ فرشتوں كا اعتراف كرنا كہ انسان كى خلقت عالمانہ اور حكيمانہ تھى اسى طرح اس كا خلافت كيلئے انتخاب درست تھا_إنك أنت العليم الحكيم

انسان كى خلافت كيلئے لياقت ميں شك وترديد كے بعد فرشتوں كا خداوند متعال كو عليم وحكيم كہہ كر توصيف و ثنا كرنے كا مقصد يہ تھا كہ انہوں نے انسان كى عظمت كا اقرار كيا اور اس كى عالمانہ اور حكيمانہ خلقت كا اعتراف كيا_

اسماء اور صفات : حكيم ۵; جلالى صفات ۲،۳; عليم ۵

اللہ تعالى : اللہ تعالى كے مختصات ۶;اللہ تعالى كے فعال ۹; اللہ تعالى كا منزہ ہونا۲،۳; اللہ تعالى كى حكمت ۶،۹ ;اللہ تعالى اور عدم اگاہى ۳; اللہ تعالى كى عنايات ۷; علم الہى ۶،۹; اللہ تعالى كا علم ذاتى ۷

انسان : انسان كى خلافت ۱۰; انسان كى خلقت ۱۰

حضرت ادمعليه‌السلام : حضرت ادمعليه‌السلام كى ملائكہ پر برترى ۸،۹; حضرت ادمعليه‌السلام كا علم ۸،۹

علم : علم كا سر چشمہ ۷

ملائكہ : ملائكہ كا اقرار ۱۰;ملائكہ كا متنبہ ہونا ۹;ملائكہ كى نا اگاہى ۱; ملائكہ كا عجز ۱; ملائكہ كے سامنے موجودات كو پيش كيا جانا۱،۹;ملائكہ اور انسان كى خلافت ۱۰;ملائكہ اور انسان كى خلقت ۱۰;ملائكہ كے علم كا سرچشمہ ۴

۱۱۵

قَالَ يَا آدَمُ أَنبِئْهُم بِأَسْمَآئِهِمْ فَلَمَّا أَنبَأَهُمْ بِأَسْمَآئِهِمْ قَالَ أَلَمْ أَقُل لَّكُمْ إِنِّي أَعْلَمُ غَيْبَ السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضِ وَأَعْلَمُ مَا تُبْدُونَ وَمَا كُنتُمْ تَكْتُمُونَ ( ۳۳ )

ارشاد ہوا كہ آدم اب تم انھيں باخبر كردو_تو جب آدم نے باخبر كرديا تو خدا نے فرمايا كہ ميں نے تم سے نہ كہا تھا كہ ميں آسمان و زمين كے غيب كو جانتاہوں اور جو كچھ تم ظاہر كرتے ہو يا چھپاتے ہو سب كو جانتاہوں _

۱_ اللہ تعالى نے ادمعليه‌السلام كو حكم ديا كہ حقائق ہستى ميں سے ہر ايك كا نام فرشتوں كے لئے بيان كرے_قال يا ادم انبئهم با سماء هم

۲_ حضرت ادمعليه‌السلام نے حقائق ہستى كے اسماء فرشتوں كے لئے بيان كيئے_فلما انبأهم بأسماء هم

۳_ حقائق ہستى كے نام جان لينے كے بعد فرشتوں كو علم ہوگيا كہ اسمان اور زمين غيب ركھتے ہيں _فلما انبأهم ...قال ألم اقل لكم إنى أعلم غيب السماوات والارض

۴_ حضرت ادمعليه‌السلام اللہ تعالى كے خليفہ اور فرشتوں كے لئے فيض الہى كا واسطہ وذريعہ ہیں _يا ادم انبئهم بأسماء هم فلما انبأهم با سماء هم

۵_ حضرت ادمعليه‌السلام فرشتوں كے معلم و استاد_ قال يا ادم انبئهم با سماء هم فلما ا نبأهم با سماء هم

۶_ جہان افرينش كے متعدد اسمان ہیں _انى اعلم غيب السماوات

۷_ اسمانوں اور زمين (ہستي) ميں غيب ہے جو فرشتوں سے مخفى تھا_إانّى أعلم ما لا تعلمون ألم اقل لكم إنى اعلم غيب السماوات والارض

۸_ اللہ تعالى اسمانوں اور زمين كے غيب سے اگاہ ہے_انى أعلم غيب السماوات والارض

۹_ اللہ تعالى نے ادم كو جو اسماء وحقائق تعليم فرمائے ان

۱۱۶

كا تعلق ہستى كے غيب سے تھا_إنّى اعلم ما لا تعلمون ...ألم اقل لكم إنّى اعلم غيب السماوات والارض ''الم اقل ...كيا ميں نے تمھيں نہ كہا تھا كہ زمين و اسمانوں كے غيب سے ميں واقف ہوں '' ظاہراً يہ جملہ اس جملے ''إنّى أعلم ''كى تفصيل ہے جو ايت ۳۰كے ذيل ميں ايا ہے پس ''مالا تعلمون ''سے مراد اسمانوں اورزمين كا غيب ہے اور ''إنّى أعلم مالا تعلمون ''كے بعد ''وعلّم ادم ...'' كا انا اس طرف اشارہ ہے كہ جو نام حضرت ادم عليه‌السلام كو تعليم ديئے گئے وہ ''مالاتعلمون ''كا مصداق ہيں اس گفتگو كى روشنى ميں ''الاسمائ''سے مراد اسمانوں اور زمين كا غيب ہے_

۱۰_اللہ تعالى كا حضرت ادمعليه‌السلام كو (فرشتوں كو اسماء كى تعليم كا)حكم دينے كا مقصد ادمعليه‌السلام كى فرشتوں پر برترى ثابت كرنااور ادمعليه‌السلام كى ان پر فضيلت كو سمجھانا تھا_قال يا ادم انبئهم بأسمائهم بعد والى ايت كے قرينے سے اس بات كو سمجھا جا سكتا ہے كہ اللہ تعالى كے حضرت ادمعليه‌السلام كو( فرشتوں كو اسماء كى تعليم كا) حكم دينے كا مقصد ادمعليه‌السلام كى فرشتوں پر برترى اور فضيلت ثابت كرنا تھا_

۱۱_ حضرت ادمعليه‌السلام كى خلقت و خلافت كے وقت فرشتوں كے دل ياضمير ميں كوئي چيز مخفى تھى جس كو بيان كرنے سے اجتناب كررہے تھے _واعلم ما تبدون وما كنتم تكتمون

۱۲_ اللہ تعالى فرشتوں كے اشكار اور مخفى امور سے اگاہ ہے_أعلم ما تبدون وما كنتم تكتمون

۱۳_ فرشتے اپنے امور كو ديگر فرشتوں سے مخفى ركھنے پر قادر ہيں _أعلم ما تبدون وما كنتم تكتمون

۱۴_ امام صادقعليه‌السلام سے روايت ہے اپعليه‌السلام نے فرمايا:''إن الله تبارك و تعالى علم ادم اسماء حجج الله كلها فقال ...''أنبئهم باسماء هم فلما أنبا هم با سمائهم'' وقفوا على عظيم منزلتهم عندالله تعالى فعلموا إنهم احق بان يكونوا خلفاء الله فى ارضه وحججه على بريته وقال لهم ''ألم اقل لكم إنى أعلم غيب السماوات والارض و أعلم ماتبدون وماكنتم تكتمون ''(۱) اللہ تعالى نے اپنى تمام حجتوں كے اسماء حضرت ادمعليه‌السلام كو تعليم فرمائے پس فرمايا ''ملائكہ كو ان نامو ں سے اگاہ كرو پس جب ملائكہ كو ان كے ناموں سے اگاہ كيا''تو ملائكہ ان كى الله تعالى كے ہاں عظيم منزلت و مقام سے اگاہ ہوگئے اور يہ جان ليا كہ يہى ہستياں زيادہ حق ركھتى ہيں كہ الله كى زمين پر اس كے خليفہ ہوں اور اس كى مخلوق پر حجت ہوں اور اللہ تعالى نے فرشتوں سے ارشاد فرمايا :''كيا ميں نے تم سے نہ كہا تھا كہ بيشك ميں اسمانوں اور زمين كے غيب كو زيادہ جانتا ہوں اور جو كچھ تم اشكار كرتے ہويا پنہا ں كرتے ہو اس سے ميں اگاہى ركھتا ہوں ''

____________________

۱) اكمال الدين صدوق ج ۱ ص۱۴ ،بحارالانوار ج۱۱ ص ۱۴۵ ح ۱۵_

۱۱۷

۱۵_عن ابى جعفر عليه‌السلام انّه قال فى قول الله ...''واعلم ما تبدون وما كنتم تكتمون'' يعنى ما ا بدوه بقولهم'' ا تجعل فيها من يفسد فيها و يسفك الدمائ '' و ما كتموه فقالوا فى انفسهم ما ظننا ان الله يخلق خلقاًاكرم عليه منا (۱) امام محمد باقر عليہ السلام سے روايت ہے اپعليه‌السلام نے اللہ تعالى كے اس كلام ''اور ميں جو كچھ تم اشكار كرتے ہو يا تم چھپاتے ہو بہتر اگاہ ہوں ''كے بارے ميں فرمايا يعنى (مراد) يہ ہے كہ جوچيز انھوں نے اپنے قول يا كلام سے ظاہر كى وہ يہ تھى ''كيا تو ايسے كو زمين ميں قرار دے گا جو اس ميں فساد برپا كرے گا اور خون بہائے گا '' اور جو چيز انھوں نے پنہا ں ركھى وہ يہ تھى كہ انھوں نے دل ہى دل ميں كہا كى ہمارا گمان نہ تھا كہ اللہ تعالى كسى ايسے كو خلق فرمائے گا جو ہمارى نسبت زيادہ اس كے ہاں صاحب عزت وشرف ہو گا _

اسمان: آسمان كا متعدد ہونا۶;اسمانوں كے غيب ۳،۷ ، ۸

اللہ تعالى : اوامر الہي۱;اللہ تعالى كى حجتيں ۱۴;اللہ تعالى كا علم غيب ۸،۲،۱۴،۱۵;اللہ كے اوامر كا فلسفہ ۱۰;اللہ تعالى كے علم كا دائرہ ۸،۱۲;فيض الہى كا ذريعہ ۱۴ اللہ تعالى كا خليفہ :۴،۱۴

حديث:۱۴،۱۵

حضرت ادمعليه‌السلام : حضرت ادمعليه‌السلام كے اثار وجودى ۴;حضرت ادمعليه‌السلام اور ملائكہ ۲،۴،۵; حضرت ادمعليه‌السلام كو تعليم اسمائ۹; حضرت ادمعليه‌السلام كى ملائكہ پر برترى ۵،۱۰; حضرت ادمعليه‌السلام كوتعليم ديئے گئے اسماء ۱،۱۴; حضرت ادمعليه‌السلام كى خلافت ۴،۱۱; خلقت ادمعليه‌السلام ۱۱; حضرت ادمعليه‌السلام كا علم ۱،۲; حضرت ادمعليه‌السلام كے فضائل ۵،۱۰; حضرت ادمعليه‌السلام كا واقعہ ۱،۲،۵; حضرت ادمعليه‌السلام كے درجات ۴;

زمين : زمين كا غيب ۳،۷،۸

كائنات (عالم ہستي): كائنات كا غيب۹

ملائكہ : ملائكہ كو اسماء كى تعليم ۱۰; ملائكہ كا راز۱۲; ملائكہ كا علم ۳; ملائكہ كى قدرت وتوانائي۱۳;ملائكہ كا دائرہ علم ۷; ملائكہ كا معلم ۵; ملائكہ اور حقائق كا مخفى كرنا ۱۱،۱۳;ملائكہ پر فيض كا ذريعہ۴

موجودات : موجودات كے نام ۱،۲،۳

____________________

۱) دعائم الاسلام ج/۱ص/۲۹۱، بحار الانوار ج/۹۶ ص/۴۷ ح /۳۶_

۱۱۸

وَإِذْ قُلْنَا لِلْمَلاَئِكَةِ اسْجُدُواْ لآدَمَ فَسَجَدُواْ إِلاَّ إِبْلِيسَ أَبَى وَاسْتَكْبَرَ وَكَانَ مِنَ الْكَافِرِينَ ( ۳۴ )

اور ياد كرو وہ موقع جب ہم نے ملائكہ سے كہا كہ آدم كے لئے سجدہ كرو تو ابليس كے علاوہ سب نے سجدہ كرليا _ اس نے انكا ر اور غرور سے كام ليا اور كافرين ميں ہوگيا _

۱_ اللہ تعالى نے حضرت ادمعليه‌السلام كو حقائق ہستى كى تعليم دينے اور خلافت كے لئے ان كى لياقت و شائستگى كے ثابت كرنے كے بعد فرشتوں كو حكم ديا كہ ادمعليه‌السلام كو سجدہ كريں _و علّم ادم الاسماء كلها واذقلنا للملائكة اسجدوا لادم

۲_ اللہ تعالى كے حكم كے بعد سب فرشتوں نے حضرت ادمعليه‌السلام كو سجدہ كيا_واذ قلنا للملائكة اسجدوا لادم فسجدوا

۳_ ابليس كو بھى باقى فرشتوں كى طرح حضرت ادمعليه‌السلام كو سجدہ كرنے كا حكم تھا_ فسجدواإلاّ ابليس ابي

۴_ ابليس نے خدا وند متعال كے حكم كى نافرمانى كى اور حضرت ادمعليه‌السلام كو سجدہ نہ كيا_واذقلنا للملائكة اسجدوا لادم فسجدوا إلاّ ابليس ''ابي''كا مصدر ''ابائ''ہے جس كا معنى ہے انكار كرنا يا امتناع كرنا_

۵_ حضرت ادمعليه‌السلام كا مقام و منزلت فرشتوں سے بالاتر ہے_ و إذقلنا للملائكة إسجدوالادم يہ جو فرشتوں كو حكم ہوا كہ ادمعليه‌السلام كو سجدہ كريں اس سے معلوم ہوتاہے كہ حضرت ادمعليه‌السلام فرشتوں پرفضيلت وبرترى كے حامل تھے_

۶_ حضرت ادمعليه‌السلام كى خلافت كا مسئلہ فرشتوں كے سامنے پيش كرنا اور ان كى فضيلت و برترى كو ثابت كرنا اس لئے تھا تاكہ فرشتے اللہ تعالى كے حكم (حضرت ادمعليه‌السلام كو سجدہ كرنے ) كے لئے امادہ ہوں _إذ قال ربك للملائكة إنى جاعل فى الارض خليفه و إذقلنا للملائكة إسجدوا لادم

۷_اللہ تعالى كے حكم سے پہلے ابليس فرشتوں كے برابر اور ان كے مقام پر فائز تھا_و إذ قلنا للملائكة اسجدوا لادم فسجدوا إلا ابليس

۱۱۹

اللہ تعالى كا يہ فرمان (قلناللملائكة اسجدوا) ابليس كيلئے بھى تھا اس سے پتہ چلتا ہے كہ ابليس فرشتوں كے مقام و منزلت پر فائز تھا اس طرح كہ يا تو فرشتوں كے زمرے ميں تھا يا پھر واقعا خود بھى فرشتہ تھا مذكورہ بالا مفہوم پہلے احتمال كى بناپر ہے_

۸_ ابليس فرشتوں كے زمرے ميں تھا_ *اذ قلنا للملائكة اسجدوا لادم فسجدوا إلا ابليس

۹_ ابليس كا تكبر اوراپنى بڑائي كا تصور حضرت ادمعليه‌السلام كو سجدہ سے انكار كا باعث ہوئے _ فسجدوا إلا إبليس أبى و إستكبر

۱۰_ابليس اپنى بڑائي كے تصور اور اللہ تعالى كى نا فرمانى كے ذريعہ كافروں ميں سے ہو گيا_ أبى واستكبر وكان من الكافرين

۱۱_تكبر اور اپنى بڑائي كے خيال سے اللہ تعالى كى نافرمانى كرنا كفر كا موجب ہے _أبى واستكبر و كان من الكافرين

۱۲_ابليس كو تكويناًاختيار حاصل تھا كہ اللہ كى اطاعت كرے يا اس كى معصيت كا انتخاب كرے _فسجدوا إلا ابليس ابى واستكبر

۱۳_ جس وقت ابليس نے خداوند متعال كى نا فرمانى كى اس وقت ابليس كے علاوہ بھى كفار موجود تھے_ *وكان من الكافرين

۱۴_سجدہ خود سے ،فى نفسہ مسجود كى پرستش پہ دلالت نہيں كرتا_واذ قلنا للملائكة اسجدوا لادم

يہ بہت واضح ہے كہ خداوند قدوس نے ہرگز كسى كى يا كسى چيز كى (اپنے علاوہ)عبادت كا نہ حكم ديا ہے اور نہ دے گا بنابريں فرشتوں كا حضرت ادمعليه‌السلام كو سجدہ كرنا ادمعليه‌السلام كى پرستش و عبادت نہ تھا_ پس نتيجہ يہ نكلتا ہے كہ سجدہ كرنا بذات خود بندگى وعبادت شمارنہيں ہوتا بلكہ وہ سجدہ پرستش اور عبادت شمار ہو تا ہے جس ميں مسجود كو اپنا رب تصور كيا جائے_

۱۵_ اپنى بڑائي كا تصور اور تكبر ناپسند يدہ اور شيطانى خصلتوں ميں سے ہے_أبى واستكبر

۱۶_حضرت ادمعليه‌السلام كو فرشتوں كاسجدہ كرنا اور ابليس كا انكار كرنا ايك سبق اموز اور ہميشہ ہميشہ كے لئے ياد ركھنے والا واقعہ ہے _وإذقلنا للملائكة ...وكان من الكافرين ''اذكر _ سيكھو اور ہميشہ ياد ركھو'' اس كا مفعول ''اذ'' ہے_

۱۷ _امام صادقعليه‌السلام سے روايت ہے اپعليه‌السلام نے فرمايا :''ان الله تبارك و تعالى امر الملائكة بالسجود لادم فقيل له فكيف وقع الامر على ابليس و انما امرالله الملائكة بالسجود لادم؟ فقال كان ابليس منهم بالولاء ولم

يكن من جنس الملائكة (۱) اللہ تعالى نے ملائكہ كو حكم ديا كہ ادمعليه‌السلام كو سجدہ كريں ...اپعليه‌السلام سے پوچھا گيا كہ يہ حكم ابليس كو كيسے شامل ہوا جبكہ اللہ تعالى نے فرشتوں كو فرمان ديا تھا؟ امامعليه‌السلام نے فرمايا ابليس فرشتوں ميں سے نہيں تھا بلكہ ''با لولائ'' ان ميں سے شمار ہو تا تھا_

۱۲۰

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

طرف اشارہ كرتاہے كہ روز قيامت انسان كے لئے وقايہ وہى قرآن پر ايمان اور ہوگا _

۴_ مختلف طرح كے عذاب اور قيامت كى ہولناكيوں سے بچنے كے لئے كارآمد اور مفيد اسباب نماز كا قيام ،زكوة كى ادائيگى اور نماز با جماعت ميں شركت ہے_واقيموا الصلوة و اتقوا يوماً

۵ _ قيامت كے دن كوئي شخص بھى كسى دوسرے كا ذرہ برابر عذاب اپنے ذمے نہيں لے گا اور نہ اسكا متحمل ہوسكے گا _

واتقوا يوماً لا تجزى نفس عن نفس شيئاً

۶_ قيامت كے دن كسى كى كسى اور كے بارے ميں شفاعت قبول نہ كى جائے گى _و لا يقبل منها شفاعة

'' منھا'' كى ضمير ممكن ہے دوسرے '' نفس'' كى طرف لوٹتى ہو يعنى مورد مؤاخذہ شخص اگر شفيع لائے تو اس كى شفاعت قبول نہيں كى جائے گى _ ہوسكتاہے يہ ضمير پہلے '' نفس'' كى طرف لوٹتى ہو اور اس سے مراد دوست ، عزيز، رشتہ دار و غيرہ ہيں يعنى يہ كہ دوست اپنے دوستوں كا عذاب اپنے ذمہ نہ ليں گے اگر شفاعت بھى كريں تو قبول نہيں كى جائے گي_

۷ _ قيامت كے دن كسى سے كوئي عوض جس سے وہ فرد خود كو اسيرى و عذاب سے نجات دلاسكے قبول نہيں كيا جائے گا _و لا يؤخذ منها عدل لفظ ''عدل'' كا معنى فديہ اور عوض ہے جسكو كوئي اپنى يا كسى اور كى آزادى كے لئے ادا كرے تا كہ اسارت سے آزاد ہوجائے _

۸ _ قيامت كے دن كوئي كسى كا دفاع نہيں كرے گا اور نہ كسى كى كوئي مدد كرے گا _و لا هم ينصرون

۹_ روز قيامت قرآن كے كافروں كے لئے كوئي راہ نجات نہ ہوگى _آمنوا بما انزلت و اتقوا يوماً لا تجزى نفس عن نفس قيامت كى اسطرح تعريف كرناكہ اس دن كسى سے كوئي فديہ يا عوض قبول نہيں كيا جائے گا اسكا مقصد عذاب كے مستحقين كو مايوس كرنا ہے _ كہيں ايسا نہ ہو كہ لوگ ايمان اور كے علاوہ اپنے لئے كوئي اور راہ نجات كى اميد لگائے بيٹھے ہوں يا كسى خيال سے خوش فہمى ميں مبتلا ہوں _

۱۰_ قيامت كے دن وہ لوگ جواحكامات الہى ( نماز قائم كرنا اورزكوة ادا كرنا ) كى مخالفت كرتے ہيں اور محرمات ( دين فروشى ، حق پر پردہ ڈالنا اور ...) كا ارتكاب كرتے ہيں ان كے لئے كوئي راہ نجات نہ ہوگى _لا تشتروا بآياتى و اقيمو ا الصلوة و اتقوا يوماً لا تجزى نفس عن نفس

۱۱ _ يہ تو ہم كہ قيامت كے روز انسان كو اس كے دوست عذاب قيامت سے نجات دلائيں گے يا اسكے گناہ اپنے ذمہ لے ليں گے بنى اسرائيل كے باطل

۱۶۱

خيالات تھے _واتقوا يوماً لا تجزى نفس عن نفس شيئاً و لا هم ينصرون

۱۲ _ اس خيال سے گناہ كرنا كہ شفاعت ہوجائے گى يا يہ كہ عذاب قيامت سے رہائي كے لئے عوض يا ہديہ قبول كرليا جائے گا بنى اسرائيل كا وہم و گمان اور باطل خيال تھا_واتقوا يوماً و لا يقبل منها شفاعة و لايؤخذ منها عدل

اطاعت: اللہ كى اطاعت كے نتائج ۳

انسان: قيامت كے روز انسا ن۱; انسان كا انجام ۱

ايمان: قرآن پر ايمان كے نتائج ۳

بنى اسرائيل: بنى اسرائيل كا عقيدہ ۱۱،۱۲

حق : قيامت كے دن حق كى پردہ پوشى كرنے والے ۱۰

دين فروش: قيامت كے دن دين فروش ۱۰

زكوة: زكوة كے اثرات و نتائج ۴

سزا: سزا كا نظام ۵،۷،۸

سزائيں : سزاؤں كا انفرادى ہونا ۵; سزاؤں كى خصوصيات ۵

عذاب: اخروى عذاب سے نجات كے عوامل ۳ ، ۴; اخروى عذاب سے نجات ۱۱،۱۲

عقيدہ: باطل عقيدہ ۱۱،۱۲

قرآن حكيم : قرآن كے كافر ۹

قيامت : قيامت كے روز امداد ۸; قيامت كى ہولناكياں ۲،۳،۴; قيامت ميں شفاعت ۶،۱۱،۱۲; قيامت ميں ہديہ و فديہ ۷،۱۲; قيامت ميں سزا كا نظام ۵،۶،۷،۸; قيامت كى خصوصيات ۲،۷،۸

كفار: كفار كے لئے حتمى عذاب ۹; كفار قيامت ميں ۹

محرمات : محرمات سے اجتناب كے نتائج ۳; محرمات كا ارتكاب كرنے والوں كيلئے حتمى عذاب ۱۰

نافرمان: نافرمانوں كے لئے حتمى عذا ب ۱۰;نافرمان قيامت ميں ۱۰

نماز: نماز قائم كرنے كے نتائج و نتائج ۴;با جماعت نماز كے نتائج ۴; قيامت كے دن نماز ترك كرنيوالے ۱۰

۱۶۲

وَإِذْ نَجَّيْنَاكُم مِّنْ آلِ فِرْعَوْنَ يَسُومُونَكُمْ سُوَءَ الْعَذَابِ يُذَبِّحُونَ أَبْنَاءكُمْ وَيَسْتَحْيُونَ نِسَاءكُمْ وَفِي ذَلِكُم بَلاء مِّن رَّبِّكُمْ عَظِيمٌ ( ۴۹ )

اور جب ہم نے تم كو فرعون والوں سے بچاليا جو تمھيں بدترين دكھ دے رہے تھے ، تمھارے بچوں كو قتل كررہے تھے اور عورتوں كو وزندہ ركھتے تھے اور اس ميں تمھارے لئے بہت بڑا امتحان تھا_

۱ _ بنى اسرائيل مدتوں سے مسلسل خاندان اور لشكر فرعون كے سخت شكنجوں ميں گرفتا ر رہے _و اذ نجينكم من آل فرعون يسومونكم سوء العذاب ''يسومون'' كا مصدر ''سوم'' ہے جس كا معنى ہے تكليف ميں ڈالنا يا ذليل كرنا _ ''سوئ'' كا ''العذاب'' كى طرف اضافہ صفت كا موصوف كى طرف اضافہ ہے يعنى''العذاب السوئ'' _

۲_ اللہ تعالى نے حضرت موسىعليه‌السلام كى بعثت كے ذريعے بنى اسرائيل كو فرعونيوں كے شديد شكنجوں اور تسلط سے نجات دلائي _و اذ نجينكم من آل فرعون يسومونكم سوء العذاب ان جملوں ''انعمت عليكم'' اور ''انى فضلتكم'' ميں نعمت عطا كرنے اور برترى عنايت كرنے كى نسبت اللہ تعالى كى طرف دي گئي ہے جبكہ ''نجيناكم_ ہم نے تمہيں نجات دى '' ميں نجات كو ضمير '' نا _ ہم '' كى طرف نسبت دى گئي ہے _ يہاں سے يہ مطلب سمجھا جاسكتاہے كہ نجات دينے ميں خداوند متعال كى نظر اسباب پر بھى ہے جنكا قرينہ بعد كى آيات ميں موجود ہے لہذا كہا جاسكتاہے كہ وہ سبب حضرت موسىعليه‌السلام كى بعثت تھي_

۳ _ فرعونيوں كے شكنجوں اور سختيوں كے چنگل سے نجات ايك ايسا اہم واقعہ تھا جو اس قابل تھا كہ بنى اسرائيل اس كو ہميشہ ہميشہ كے لئے ياد ركھتے *و اذ نجينكم من آل فرعون يسومونكم سوء العذاب ''اذ نجينكم'' ، ''نعمتي'' (آيت ۴۸) پر عطف ہے جبكہ در حقيقت '' اذكروا'' كے لئے مفعول ہے_

۴ _ لشكر فرعون بنى اسرائيل كے بيٹوں كا سركاٹتا اور ان كى

۱۶۳

عورتوں كو زندہ رہنے ديتا_يذبحون ابناء كم و يستحيون نساء كم '' ذبح'' كا معنى سر كاٹنا ہے اور '' يذبحون'' كا مصدر تذبيح ہے جو سر كاٹنے كے معاملے ميں كثرت پر دلالت كرتاہے _ '' يستحيون'' كا مصدر '' استحيائ'' ہے جسكا معنى ہے زندگى پر باقى ركھنا _

۵_ بنى اسرائيل كے بيٹوں كا وسيع سطح پر كشت و كشتار اور ان كى عورتوں كو زندہ چھوڑدينا فرعونيوں كى طرف سے شديدترين شكنجے تھے_يسومونكم سوء العذاب يذبحون ابناء كم و يستحيون نساء كم جملہ'' يذبحون ...'' ممكن ہے ماقبل جملے كى تفسير ہو يعنى '' سوء العذاب'' سے مراد بنى اسرائيل كے فرزندوں كے سر كاٹنا اور ان كى عورتوں كو زندہ چھوڑدينا تا ہم يہ بھى ممكن ہے كہ اسكا واضح مصداق ہو گويا فراعنہ بنى اسرائيل پر جو ظلم و ستم روا ركھتے تھے ان ميں سے ايك ان كے فرزندوں كے سر كاٹنا تھا_ بنابريں يہ جو مخصوص عذاب كا بالخصوص ذكر كيا گيا ہے يہ غالباً شدت كى خاطر ہے _

۶ _ فراعنہ كے تسلط اور زمانہ حكمرانى ميں بنى اسرائيل كى خواتين بھى انتہائي سختيوں ، شكنجوں اور موت كے منہ ميں مبتلا تھيں _يسومونكم سوء العذاب يذبحون ابناء كم و يستحيون نساء كم

۷ _ بنى اسرائيل كى عورتيں اپنے بچوں كے فراعنہ كے ہاتھوں بے تحاشا قتل كى بناپر لذت حيات كھوچكى تھيں اسطرح ان كا خود زندہ رہنا بھى عذاب تھا_يسومونكم سوء العذاب يذبحون ابناء كم و يستحيون نساء كم عورتوں كا زندہ رہنا بنى اسرائيل كے لئے ايك عذاب كے طور پر بيان ہوا ہے _ جبكہ قتل نہ كرنا تو عذاب نہيں ہوتا_ پس جملہ '' يستحيون نساء كم'' چونكہ جملہ ''يذبحون ابناء كم'' كے بعد ذكر ہوا ہے كہا جاسكتاہے كہ عورتيں اپنے بچوں كے ا نتہائي فجيع قتل اور اپنے زندہ رہنے سے انتہائي شديد عذاب كى حالت ميں تھيں _ اس مطلب كى اس نكتہ سے تائيد ہوتى ہے كہ بيٹوں كے مقابل لڑكيوں كا ذكر نہيں كيا گيا بلكہ عورتوں كا ذكر ہوا ہے_

۸ _ يہ جو فراعنہ بنى اسرائيل كى عورتوں كو زندہ چھوڑ ديتے تھے اس كا ہدف عورتوں سے استفادہ كرنا تھا*يسومونكم سوء العذاب و يستحيون نساء كم عورتوں كو زندہ چھوڑنا ايك عذاب كے طور پر كيوں بيان ہوا ہے؟ اسكى ايك اور توجيہ عورتوں سے استفادہ كرنا ہے _

۹_ اگر اللہ تعالى بنى اسرائيل كو فراعنہ كے تسلط سے نجات عنايت نہ فرماتا تو ان كے شكنجو ں اور فرزندوں كے كشت و كشتار ميں تسلسل رہتا_يسومونكم سوء العذاب يذبحون ابنا ء كم و يستحيون نساء كم يہ مفہوم اس بناپر ہے كہ ''يسومون'' ،

۱۶۴

''يذبحون'' ، '' يستحيون'' سب كے سب فعل مضارع استعمال ہوئے ہيں _

۱۰_ اللہ تعالى نے بنى اسرائيل كو فراعنہ كے مختلف طرح كے شديد عذاب سے ايك بہت بڑى آزمائش ميں مبتلا كيا _

و فى ذلكم بلاء من ربكم عظيم لغت ميں ''بلائ'' كا معنى آزمائش اور نعمت دونوں آيا ہے_''ذلكم'' كا مشار اليہ ''عذاب''ہے يا پھر عذاب سے نجات ''نجيناكم'' ہے _ مذكورہ مفہوم اس بنا پر ہے كہ بلاء كا معنى آزمائش اور '' ذلكم'' كا اشارہ عذاب كى طرف ہو_

۱۱ _ اللہ تعالى نے بنى اسرائيل كو فراعنہ كے شديد شكنجوں سے نجات عنايت كركے انہيں ايك بہت بڑى آزمائش ميں مبتلا فرمايا _و فى ذلكم بلاء من ربكم عظيم يہ مفہوم اس بنا پر ہے كہ بلاء كا معنى آزمائش ہو اور ذلكم كا اشارہ عذاب سے نجات اور رہائي '' نجيناكم'' كى طرف ہو_

۱۲ _ فراعنہ كے شكنجوں سے نجات بنى اسرائيل كے لئے اللہ تعالى كى عظيم نعمتوں ميں سے تھا_و فى ذلكم بلاء من ربكم عظيم اس مفہوم ميں ''بلائ'' كا معنى نعمت ہے اور ''ذلكم'' عذاب سے رہائي كى طرف اشارہ ہے_

۱۳ _ انسان سختيوں ، نعمتوں اور اللہ تعالى كى عنايات سے الہى آزمائش و امتحان ميں مبتلا كيا جاتاہے _و فى ذلكم بلاء من ربكم عظيم

۱۴ _ انسانوں كى سختيوں نيز نعمتوں اور آسائشوں سے آزمائش اللہ تعالى كے مقام ربوبيت سے ہے اور انسانوں كى تربيت اور رشد و ہدايت كى خاطر ہے _و فى ذلكم بلاء من ربكم عظيم يہ مفہوم اس بناپر ہے كہ '' رب '' كا معنى مربي، مدير و مدبر ہو_

۱۵ _ اللہ تعالى تاريخ اور اس كے واقعات پر حاكم ہے _و اذ نجيناكم و فى ذلكم بلاء من ربكم عظيم

۱۶ _ امام صادقعليه‌السلام سے روايت ہے : ''... اما مولد موسى عليه‌السلام فان فرعون لما وقف على ان زوال ملكه على يده فلم يزل يأمر اصحابه بشق بطون الحوامل من نساء بنى اسرائيل حتى قتل فى طلبه نيف و عشرون الف مولود (۱) ليكن حضرت موسىعليه‌السلام كى ولادت كا واقعہ پس جب فرعون كو پتہ چلا كہ اسكى سلطنت كا زوال موسىعليه‌السلام كے ہاتھوں ہوگا پس مسلسل اپنے اطرافيوں كو حكم ديتا كہ بنى اسرائيل كى حاملہ عورتوں كے شكم پارہ كردو _ يہاں تك كہ بيس ہزار سے زيادہ بچے حضرت موسىعليه‌السلام كى تلاش ميں قتل كرديئے گئے _

____________________

۱) غيبت شيخ طوسى ص ۱۶۹ ، نورالثقلين ج/ ۱ ص ۸۰ ح ۱۹۴_

۱۶۵

آل فرعون:آل فرعون اور بنى اسرائيل ۱; آل فرعون كے جرائم ۱; آل فرعون كے شكنجے ۱

اللہ تعالى : الہى امتحانات ۱۳; حاكميت الہى ۱۵; ربويت الہى ۱۴; الہى نعمتيں ۱۲

امتحان: امتحان كے ذرائع ۱۳; سختيوں كے ساتھ امتحان ۱۳،۱۴; نعمتوں كے ساتھ امتحان ۱۳،۱۴;امتحان كا فلسفہ ۱۴

انسان: انسان كا امتحان ۱۳

بنى اسرائيل: بنى اسرائيل كى آزمائش ۱۰; عورتوں سے استفادہ ۸;بنى اسرائيل كى عورتوں كو زندہ چھوڑنا ۴،۵ ، ۸; بنى اسرائيل كا امتحان ۱۰، ۱۱; بنى اسرائيل كى تاريخ ۱،۴،۹،۱۰،۱۱،۱۲;بنى اسرائيل كو شكنجے ۱،۵، ۹، ۱۰، ۱۱; بنى اسرائيل كى عورتوں كو شكنجے ۶،۷; بنى اسرائيل كے فرزندوں كا قتل ۴،۵،۷،۹،۱۶; بنى اسرائيل كى نجات ۲،۹،۱۱،۱۲; بنى اسرائيل كى نعمتيں ۱۲

تاريخ: تاريخ كے تغيرات و تحولات كا سرچشمہ ۱۵

تربيت : تربيت ميں مؤثر عوامل ۱۴

حضرت موسىعليه‌السلام : حضرت موسىعليه‌السلام كى بعثت كے نتائج۲

ذكر: بنى اسرائيل كى نجات كا ذكر ۳

رشد و تكامل: رشد و تكامل كے عوامل۱۴

روايت:۱۶

فراعنہ: فراعنہ كے جرائم ۴،۵،۶،۷،۹،۱۱،۱۲; فراعنہ كے شكنجے ۶،۱۰،۱۱،۱۲; فراعنہ اور بنى اسرائيل ۲،۴،۵،۹; فراعنہ اور بنى اسرائيل كى عورتيں ۶; فراعنہ كے قتل ۴،۵،۹; فراعنہ كے اجتماعى قتل ۷

فرعون: فرعون كى خون ريزى ۱۶

۱۶۶

وَإِذْ فَرَقْنَا بِكُمُ الْبَحْرَ فَأَنجَيْنَاكُمْ وَأَغْرَقْنَا آلَ فِرْعَوْنَ وَأَنتُمْ تَنظُرُونَ ( ۵۰ )

ہمارا يہ احسان بھى ياد كرو كہ ہم نے دريا كو شگافتہ كركے تمھيں بچا ليا اور فرعون و الوں كو تمھارى نگاہوں كے سامنے ڈبوديا_

۱_ بنى اسرائيل درياے نيل كے كنارے فرعونى فوج كے محاصرے ميں تھے_و اذ فرقنا بكم البحر

''البحر'' ميں الف لام عہد ذكرى ہے جو دريائے مذكور كى طرف اشارہ ہے بہت سے مفسرين كے مطابق يہ دريائے نيل ہے _ بنى اسرائيل كى نجات اور دريا كے پھٹ جانے كے باعث فرعونيوں كے غرق ہونے كا ذكر اس بات پر دلالت كرتاہے كہ فرعونى لشكر دريا كے كنارے بنى اسرائيل پر حملہ كرنے كے در پے تھا_

۲ _ دريائے نيل كو پار كرنے كے لئے اللہ تعالى نے بنى اسرائيل كے لئے دريا كو پاٹ ديا _و اذ فرقنا بكم البحر ''فرقنا'' كا مصدر ''فرق'' ہے جسكا معنى ہے شگاف ڈالنا اور فاصلہ پيدا كرنا _

۳ _ بنى اسرائيل دريا كو عبور كركے نجات پاگئے اور فرعون اپنى فوج سميت دريا ميں غرق ہوگيا _فانجيناكم و اغرقنا آل فرعون

۴ _ اللہ تعالى بنى اسرائيل كو نجات بخشنے والا اور فرعونيوں كو ہلاك كرنے والا ہے _فانجيناكم و اغرقنا آل فرعون

۵ _ دريا كا پھٹنا فرعون اور اسكى فوج كے غرق ہونے اور ہلاك ہونے كا باعث بنا _و اذ فرقنا بكم البحر فانجيناكم و اغرقنا آل فرعون ''انجيناكم'' كى حرف ''فائ'' كے ذريعے ''فرقنا'' پر تفريع اس بات كى طرف اشارہ ہے كہ دريا كا شگافتہ ہونا بنى اسرائيل كى نجات كا وسيلہ بنا اور اس لئے كہ ''اغرقنا'' ، ''انجيناكم'' پر عطف ہے پس دريا كايہى شگافتہ ہونا فرعون اور اسكى فوج كے غرق ہونے كا ذريعہ قرار پايا _ فرعون اور اسكى فوج نے دريا ميں عبور كے رستے كو ديكھتے ہوئے بنى اسرائيل كا تعاقب كيا تو دريا كا شگاف برابر ہوگيا اور يہ لوگ ہلاك ہوگئے _

۱۶۷

۶ _ عالم طبيعات كے اسباب پر اللہ تعالى كى حاكميت ہے_و اذ فرقنا بكم البحر

۷ _ دريا كے پھٹ جانے ميں بنى اسرائيل كا كردار اہم تھا_و اذ فرقنا بكم البحر يہ مفہوم اس بناپر ہے كہ ''بكم'' كى باء سببيت كے لئے ہے _

۸ _ اللہ تعالى كى آزمائش كے دور ان بنى اسرائيل كا سختياں اور مشكلات برداشت كرنا اور ان ميں كامياب ہونا ان كے لئے اللہ تعالى كى نصرت اور نجات كا سبب بنا _يسومونكم سوء العذاب و فى ذلكم بلاء من ربكم عظيم و اذ فرقنا بكم البحر اس سے ماقبل آيہ مجيدہ ميں بنى اسرائيل كى الہى آزمائش كا بيان تھا جس ميں انہوں نے سختيوں اور مشكلات كو برداشت كيا يہى چيز سبب بنى كہ بنى اسرائيل كے لئے دريا پھٹ گيا گويا كہ بنى اسرائيل نے چونكہ اسطرح عمل كيا كہ جو ان كى اس لياقت كا باعث بنا اور اللہ تعالى نے دريا كو شگافتہ كركے بنى اسرائيل كو نجات عطا فرمائي اور ان كے دشمنوں كو ہلا ك كرديا _

۹ _ انسان كا عمل اللہ تعالى كے تدبير امور كى كيفيت كو معين كرنے ميں بہت اہميت كا حامل ہے _يسومونكم سوء العذاب فى ذلكم بلاء و اذ فرقنا بكم البحر

۱۰_ بنى اسرائيل نے فرعون اور اسكى فوج كے غرق ہونے اور ہلاكت كے منظر كا نظارہ كيا _ ''نظر'' كامعنى ہے ديكھنا اور نظارہ كرنا ما قبل جملے كے قرينے سے تنظرون كا مفعول فرعون اور اسكى فوج كى ہلاكت ہے _

۱۱ _ فرعون اور اسكى فوج كى نابودى كا نظارہ كرنا بنى اسرائيل كے لئے اللہ تعالى كى نعمتوں ميں سے ايك تھا_و اذ فرقنا بكم البحر و اغرقنا آل فرعون و انتم تنظرون ان آيات ميں چونكہ ان نعمتوں كا ذكر ہورہا ہے جو اللہ تعالى نے بنى اسرائيل كو عنايت فرمائيں _ اس اعتبار سے كہا جاسكتاہے كہ ''و انتم تنظرون'' كو بھى نعمت كے طور پر بيان فرمايا گيا ہے _

۱۲ _ ظالموں اور ستم گروں سے مظلوموں كے سامنے انتقام ايك پسنديدہ اور اچھا عمل ہے _و اغرقنا آل فرعون و انتم تنظرون

۱۳ _ دريا كے شگافتہ ہونے سے بنى اسرائيل كى نجات اور فرعون اور اسكے لشكر و خاندان كى نابودى ايك عبرت آموز اور ياد ركھنے والا واقعہ ہے _و اذ فرقنا بكم البحر و انتم تنظرون ''اذ فرقنا'' نعمتى (آيت ۴۷) پر عطف ہے پس ''اذفرقنا'' ،''اذكروا'' كے لئے مفعول ہے_

۱۶۸

اللہ تعالى : افعال الہى ۲،۴; اللہ تعالى كى مدد و نصرت ۲،۴; تدبير الہى ۹; اللہ تعالى كى حاكميت ۶; اللہ تعالى كى نصرت كے عوامل ۸; اللہ تعالى كا نجات عطا كرنا ۴

انتقام: پسنديدہ انتقام ۱۲; مظلوموں كى موجودگى ميں انتقام ۱۲

انسان: انسان كى تقدير يا سرنوشت ۹; انسان كے تدبير امور كا سرچشمہ ۹

بنى اسرائيل: بنى اسرائيل كى كاميابى كے نتائج ۸; بنى اسرائيل كا امتحان ۸; بنى اسرائيل كى امداد ۸; بنى اسرائيل دريائے نيل ميں ۲; بنى اسرائيل اور دريا كا پھٹنا ۷;بنى اسرائيل كى تاريخ ۱،۲،۳،۱۰، ۱۳; بنى اسرائيل كا دريا عبور كرنا ۳; بنى اسرائيل كى نجات كے اسباب ۸; بنى اسرائيل كا امتحان ميں كامياب ہونا ۸; بنى اسرائيل كا محاصرہ ۱; بنى اسرائيل كى نجات ۳،۴،۱۳; بنى اسرائيل كى نعمتيں ۱۱

تاريخ : تاريخ سے عبرت ۱۳

تقدير: تقدير ميں مؤثر عوامل ۹

دريا : دريائے نيل ۱; دريا كے پانى ميں شگاف ۲،۵

ذكر: تاريخ كا ذكر ۱۳

ظالمين : ظالمين سے انتقام ۱۲

عالم طبيعات كے عوامل : طبعى عوامل كا عمل ۶

عبرت : عبرت كے عوامل ۱۳

عمل: عمل كے نتائج ۹

لشكر فرعون: لشكر فرعون كى ہلاكت كے اسباب ۵; لشكر فرعون كا غرق ہونا ۳، ۵، ۱۰، ۱۳; لشكر فرعون اور بنى اسرائيل ۱; لشكر فرعون كى ہلاكت ۴، ۱۱ ، ۱۳

۱۶۹

وَإِذْ وَاعَدْنَا مُوسَى أَرْبَعِينَ لَيْلَةً ثُمَّ اتَّخَذْتُمُ الْعِجْلَ مِن بَعْدِهِ وَأَنتُمْ ظَالِمُونَ ( ۵۱ )

اور ہم نے موسى سے چاليس راتوں كا وعدہ ليا تو تم نے ان كے بعد گوسالہ تيار كرليا كہ تم بڑے ظالم ہو _

۱ _ اللہ تعالى نے بنى اسرائيل كو فرعون اور اسكے لشكر كے تسلط سے نجات دلانے كے بعد حضرت موسىعليه‌السلام كو عبادت اور خاص مناجات كے لئے دعوت دي_و اذ واعدنا موسى اربعين ليلة ''ليلة'' كا معمولاً استعمال شب و روز كے لئے اور '' يوم'' كا استعمال دن كے لئے ہوتاہے _ يہاں '' ليلة'' كا استعمال اس معنى كى طرف اشارہ ہے كہ اللہ تعالى كا حضرت موسىعليه‌السلام سے وعدہ عبادت اورمناجات كے لئے تھا_ يہ جو حضرت موسىعليه‌السلام بنى اسرائيل كے درميان عبادات انجام ديتے تھے معلوم ہوتاہے كہ آپعليه‌السلام كو خاص عبادت و مناجات كے لئے دعوت دى گئي _

۲ _ حضرت موسىعليه‌السلام اللہ تعالى كے ہاں عظيم مقام و منزلت ركھتے ہيں _و اذ واعدنا موسى اربعين ليلة

۳ _ حضرت موسىعليه‌السلام كى خاص عبادت اور مناجات كے لئے چاليس (۴۰) شب كا تعين ہوا _و اذ واعدنا موسى اربعين ليلة

۴ _ الہى رہبروں اور قائدين كا معاشرے سے كچھ محدود مدت تك اللہ تعالى كى عبادت كے لئے كنارہ كشى كرنا ايك پسنديدہ اور اچھا عمل ہے _و اذ واعدنا موسى اربعين ليلة

۵ _ رات كى عبادت و مناجات كى ايك خاص اہميت ہے_واذ واعدنا موسى اربعين ليلة

۶ _ چاليس رات لوگوں سے دور ہوكر عبادت و مناجات كرنے كا ايك خاص اثر ہے _و اذ واعدنا موسى اربعين ليلة

۷ _ حضرت موسىعليه‌السلام كى عدم موجودگى ميں بنى اسرائيل نے بچھڑے كى پوجا كرنا شروع كردى _

ثم اتخذتم العجل من بعده

'' من بعدہ'' يعنى حضرت موسىعليه‌السلام كے دور چلے جانے كے بعد _ ''اتخذتم'' ان افعال ميں سے ہے جو '' تصيير'' كا مفہوم ركھتے ہيں اسكا پہلا مفعول '' العجل '' ہے اور دوسرا مفعول '' الہاً'' ہے جو بہت واضح ہونے كى بناپر كلام ميں ذكر نہيں ہوا _ گويا مطلب يوں ہے ''ثم جعلتم العجل الهاً لكم''

۱۷۰

۸ _ تاريخى اور معاشرتى واقعات ميں شخصيات كا نقش اور كردار اہم ہوتاہے _ثم اتخذتم العجل من بعده

''من بعدہ'' جس سے مراد حضرت موسىعليه‌السلام كى عدم موجودگى ہے اس كا استعمال اس نكتہ كى طرف اشارہ ہے جب تك حضرت موسىعليه‌السلام ان كے درميان تھے تو انہوں نے شرك كى طرف تمايل اختيار نہيں كيا _ پس تاريخ كے اہم واقعات ميں شخصيات بھى اہميت كى حامل ہيں _

۹ _ انبياءعليه‌السلام اور الہى قائدين كى عدم موجودگى سے امتوں ميں انحراف كا خطرہ رہتاہے _ثم اتخذتم العجل من بعده و انتم ظالمون

۱۰ _ بنى اسرائيل نے بچھڑے كى پوجا كى طرف رغبت دريا سے عبور اور فرعونى لشكر سے نجات كے بعد اختيار كى _

و اذ فرقنا بكم البحر و اذ واعدنا ثم اتخذتم العجل من بعده

۱۱ _ بنى اسرائيل كے پا س گوسالہ پرستى كى طرف رغبت و تمايل كا كوئي بہانہ يا عذر نہ تھا_ثم اتخذتم العجل من بعده و انتم ظالمون ''انتم ظالمون _ در آں حاليكہ تم ظالم تھے'' يہ جملہ حاليہ اس معنى ميں ظہور ركھتاہے كہ ظالم ہونا ايك ايسى حالت تھى جو گوسالہ پرستى كے ہمراہ تھى يعنى يہ كہ بنى اسرائيل كى شرك كى طرف رغبت ظلم كى وجہ سے تھى جبكہ جہالت يا اسطرح كا كوئي اور عذر يا بہانہ درميان ميں نہ تھا_

۱۲ _ اللہ تعالى كى نعمتوں كے مقابل بنى اسرائيل انتہائي ناشكرى قوم ہے _فانجيناكم و اغرقنا آل فرعون ثم اتخذتم العجل من بعده و انتم ظالمون بنى اسرائيل پر عظيم الہى نعمتوں كے ذكر كے بعد ان كے غير خدا كى پرستش كى طرف رجحان كا بيان كرنا اس بات كى نشاندہى ہے كہ يہ قوم انتہائي ناشكرى ہے _

۱۳ _ حضرت موسىعليه‌السلام كا اپنى قوم سے دور چلے جانے اور اس قوم كا گوسالہ پرستى اختيار كرلينا انتہائي عبرت ناك ، سبق آموز اور ياد ركھنے كے قابل واقعہ ہے_و اذ واعدنا موسى اربعين ليلة ثم اتخذتم العجل من بعده

۱۴_ ظلم و ستم كرنا بنى اسرائيل كى عادت اور راہ و روش ہے _و انتم ظالمون

يہ مفہوم اس بناپر ہے كہ ''و انتم ظالمون'' جملہ معترضہ ہونہ كہ حاليہ يعنى تم لوگ ستمگر ہو جس كا ايك پہلو گوسالہ پرستى ہے _

۱۵ _بچھڑے كى پوجا بنى اسرائيل كى ستم كاريوں ميں سے

۱۷۱

ايك تھي_ثم اتخذتم العجل من بعده و انتم ظالمون

۱۶ _ غير خدا كى پرستش ظلم ہے_ثم اتخذتم العجل من بعده و انتم ظالمون

۱۷_عن ابى جعفر عليه‌السلام فى قوله ''واذ واعدنا موسى اربعين ليلة'' قال كان فى العلم و التقدير ثلاثين ليلة ثم بدأ لله فزاد عشراً فتم ميقات ربه للاوّل والآخر اربعين ليلة (۱) اللہ تعالى كے اس فرمان''و اذ واعدنا موسى اربعين ليلة'' كے بارے ميں امام باقرعليه‌السلام سے روايت ہے كہ علم و تقدير الہى ميں تيس راتيں تھيں پھر اللہ تعالى كے لئے بدا حاصل ہو اتو دس دنوں كا اضافہ كرديا گيا پس حضرت موسىعليه‌السلام نے اپنے رب كے ميقات كو اول و آخر چاليس شب ميں پورا كيا

اعداد: چاليس كا عدد ۳،۶

اللہ تعالى : اللہ تعالى كے لئے بداء ۱۷ اللہ تعالى كى دعوتيں ۱

امتيں : امتوں كے انحراف كى بنياد۹

انبياءعليه‌السلام : انبياءعليه‌السلام كى عدم موجودگى كے نتائج ۹

بنى اسرائيل : بنى اسرائيل حضرت موسىعليه‌السلام كى عدم موجودگى ميں ۷; بنى اسرائيل كى تاريخ ۷،۱۰،۱۲; بنى اسرائيل كا ظلم ۱۴،۱۵; بنى اسرائيل كا دريا سے عبور كرنا ۱۰; بنى اسرائيل كا كفر ان ۱۲; بنى اسرائيل كى گوسالہ پرستى ۷،۱۰،۱۱،۱۳،۱۵; بنى اسرائيل كى نجات ۱،۱۰

تاريخ: تاريخ سے عبرت ۱۳; تاريخى تغيرات اور تحولات كے عوامل ۸; تاريخ كا محرك ۸; شخصيات كا تاريخ ميں كردار و اہميت ۸

چلہ نشيني: چلہ نشينى كے آثارو نتائج۶

حضرت موسىعليه‌السلام : حضرت موسىعليه‌السلام كى چلہ نشينى ۳،۱۷; حضرت موسىعليه‌السلام كو دعوت ۱; حضرت موسىعليه‌السلام كى عبادت ۱; بنى اسرائيل كے درميان سے حضرت موسىعليه‌السلام كى غيبت ۱۳; حضرت موسىعليه‌السلام كا واقعہ ۱،۳;حضرت موسىعليه‌السلام كى عبادت كى مدت ۳; حضرت موسىعليه‌السلام كى مناجات كى

____________________

۱) تفسير عياشى ج/ ۱ ص ۴۴ ح ۴۶، تفسير برہان ج/۱ ص ۹۸ ح ۲_

۱۷۲

مدت ۳; حضرت موسىعليه‌السلام كے درجات و مقامات ۲; حضرت موسىعليه‌السلام كى مناجات ۱; حضرت موسىعليه‌السلام كا ميقات (يعنى خدا كا حضرت موسىعليه‌السلام سے وعدہ جس كيلئے مدت معين كى گئي )۱۷

دينى رہبر: دينى قائدين كى عدم موجودگى كے نتائج ۹ دينى رہبروں كى پسنديدہ كنارہ كشى ۴

ذكر : تاريخ كے ذكر كى اہميت ۱۳

روايت:۱۷

شرك: عبادتى شرك كا ظلم ۱۶

ظالمين : ۱۴

ظلم : ظلم كے موارد ۱۵،۱۶

عبادت: غير خدا كى عبارت ۱۶

عمل: پسنديدہ عمل ۴

قدريں : ۵

كفران: كفران نعمت ۱۲

كنارہ كشي: پسنديدہ كنارہ كشى ۴

معاشرتى تبديلياں : معاشرتى تبديليوں كے عوامل ۸

مقربين : ۲

نماز تہجد: نماز تہجد كى اہميت ۵

۱۷۳

ثُمَّ عَفَوْنَا عَنكُمِ مِّن بَعْدِ ذَلِكَ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ ( ۵۲ )

پھر ہم نے تمھيں معاف كرديا كہ شايد شكر گذار بن جاؤ_

۱ _ بنى اسرائيل كا بچھڑے كى پوجا و الا گناہ اللہ تعالى نے معاف فرماديا _ثم عفونا عنكم من بعد ذلك

۲ _ انسانوں كے گناہوں كى بخشش و آمرزش اللہ تعالى كے دست قدرت اور اختيار ميں ہے _ثم عفونا عنكم

۳ _ مرتد ہونے كا گناہ اللہ تعالى كے ہاں قابل عفو و بخشش ہے _ثم اتخذتم العجل ثم عفونا عنكم

۴ _ بنى اسرائيل كے ارتداد اور گوسالہ پرستى كے گناہ كى بخشش اللہ تعالى كى جانب سے بنى اسرائيل پر عظيم نعمتوں ميں سے تھي_ ثم عفونا عنكم من بعد ذلك اس حصے كى آيات مباركہ چونكہ بنى اسرائيل پر اللہ تعالى كى عظيم نعمتوں كو بيان كررہى ہيں اس لئے ''عفونا عنكم'' سے بھى مراد نعمت كا ذكر ہے جبكہ يہ مطلب '' ثم'' كےساتھ دوسرى نعمتوں پر عطف ہوا ہے يہ اس معنى كى طرف اشارہ ہے كہ معافى اور بخشش كى نعمت دوسرى نعمتوں سے بالاتر اور والاتر ہے _

۵ _ گوسالہ پرستى كے گناہ كى معافى سے اللہ تعالى نے بنى اسرائيل پر احسان فرمايا_ثم عفونا عنكم من بعد ذلك

واضح ہے كہ معافى گناہ كے ارتكاب كے بعد ہوتى ہے بنابريں''من بعد ذلك ''معافى كے وقت و زمان كو بيان نہيں كررہاہے بلكہ اس مفہوم كى طرف اشارہ ہے كہ بنى اسرائيل بخشش كا استحقاق تو نہ ركھتے تھے اس كے باوجود اللہ تعالى نے ان پر فضل و كرم كيا اور ان كا گناہ بخش ديا _

۶_ اللہ تعالى كى بارگاہ ميں شكر و سپاس گذارى كرنا لازم و ضرورى ہے _لعلكم تشكرون

۷ _ بنى اسرائيل ناشكرى قوم تھي_ثم عفونا عنكم من بعد ذلك لعلكم تشكرون

۱۷۴

۸ _ بنى اسرائيل ميں شكر و سپاس گذارى كى زمين كو ہموار كرنا ان كے مرتد ہونے كے گناہ كو معاف كرنے كے اہداف ميں سے تھا_ثم عفونا عنكم من بعد ذلك لعلكم تشكرون

۹ _ اللہ تعالى كى بارگاہ اقدس ميں سپاس و شكر گزارى اور شاكرين كے مقام تك پہنچنے كى راہ ميں گناہان كبيرہ ركاوٹ بنتے ہيں _ثم عفونا عنكم من بعد ذلك لعلكم تشكرون

۱۰ _ گناہ كا معاف ہونا ايك ايسى نعمت ہے جس كا شكر ادا كيا جانا چاہيئے _ثم عفونا عنكم لعلكم تشكرون

ارتداد (مرتد ہونا ) : ارتداد كى معافى ۳; ارتداد كا گنا ہ ۳

اللہ تعالى : اللہ تعالى كى بخشش ۲; اللہ تعالى سے مختص امور ۲; اللہ تعالى كا احسان ۵; اللہ تعالى كى معافى ۱،۳

بخشش: بخشش كى نعمت ۴ ، ۱۰

بنى اسرائيل: بنى اسرائيل كا ارتداد ۴،۸; بنى اسرائيل كے شكر كى زمين ہموار ہونا ۸; بنى اسرائيل كى بخشش ۱،۴،۵; بنى اسرائيل كى بخشش كا فلسفہ ۸; بنى اسرائيل كا كفران ۷; بنى اسرائيل كى گوسالہ پرستى ۱،۴،۵; بنى اسرائيل پر احسان ۵; بنى اسرائيل كى نعمتيں ۴

شاكرين: شاكرين كے درجات و مقامات ۹

شكر: شكر خدا كى اہميت ۶; بخشش كى نعمت ۱۰; شكر كے موانع ۹

گناہ : گناہان كبيرہ كے نتائج ۹; گناہ كى معافى ۱۰;گناہ كى بخشش كا سرچشمہ ۲

۱۷۵

وَإِذْ آتَيْنَا مُوسَى الْكِتَابَ وَالْفُرْقَانَ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ ( ۵۳ )

اور ہم نے موسى كو كتاب اور حق و باطل كو جدا كرنے والا قانون ديا كہ شايد تم ہدايت يافتہ بن جاؤ_

۱ _ حضرت موسىعليه‌السلام صاحب كتاب و شريعت انبياءعليه‌السلام ميں سے تھے_و اذ آتينا موسى الكتاب

۲ _ اللہ تعالى نے حضرت موسىعليه‌السلام كو تورات عطا فرمائي _و اذ آتينا موسى الكتاب '' الكتاب'' ميں الف لام عہد ذہنى ہے جو تورات كى طرف اشارہ ہے _

۳ _ اللہ تعالى نے تورات كے علاوہ بھى حقائق عنايت فرمائے جو حق و باطل كے مابين امتياز كا وسيلہ ہيں _ و اذ آتينا موسى الكتاب و الفرقان '' الفرقان '' كا '' الكتاب'' پر عطف ممكن ہے صفت كا صفت پر عطف ہو اور ہر ايك تورات كے پہلوؤں ميں سے ايك پہلو ہو _ يعنى يہ كہ ہم نے موسىعليه‌السلام كو ايك ايسى چيز عطا كى جو كتاب بھى ہے اور فرقان بھى يہ بھى ممكن ہے كہ كتاب اور فرقان دو مختلف چيزيں ہوں يعنى ہم نے موسى كو كتاب ( تورات) دى اور فرقان بھى عطا كيا _ اس اعتبار سے فرقان سے مراد معجزات ، دلائل و براہين يا اس طرح كے امور ہوسكتے ہيں _ (تفسير الكشاف سے اقتباس )_

۴ _ تورات حق و باطل كے مابين تشخيص كا بہترين وسيلہ ہے _و اذ آتينا موسى الكتاب والفرقان

'' فرقان'' يعنى تشخيص و امتياز كا ذريعہ اور اس سے يہاں مراد احكام و معارف الہى كى حدود ميں رہتے ہوئے حق كو باطل سے تميز دينا ہے _

۵ _ حضرت موسىعليه‌السلام كو جو تورات عطا كى گئي وہ بنى اسرائيل پر اللہ تعالى كى نعمتوں ميں سے ايك تھى _اذ آتينا موسى الكتاب والفرقان

آيت نمبر ۴۷ سے معلوم ہوتاہے كہ آيات كا يہ حصہ اللہ تعالى كى بنى اسرائيل پر عظيم اور گراں قدر نعمات كو بيان كررہاہے پس اس آيہ مباركہ ميں تورات اور فرقان بھى عظيم نعمت كے طور پر بيان ہوئے ہيں _

۶_ كتب سماوى اور انسانوں كى ہدايت كے اسباب بنى

۱۷۶

اسرائيل پر اللہ تعالى كى عظيم نعمات ميں سے تھے_و اذ آتينا موسى الكتاب و الفرقان لعلكم تهتدون

۷ _ تورات كے نزول كا ہدف بنى اسرائيل كا ہدايت پانا ہے_واذآتينا موسى الكتاب والفرقان لعلكم تهتدون

۸ _ سماوى كتابوں كے نزول كا ہدف انسانوں كا ہدايت پاناہے _و اذ آتينا موسى الكتاب والفرقان لعلكم تهتدون

۹ _ ہدايت اور گمراہى كے قبول كرنے كا اختيار ،انسان تكوينى طور پر ركھتاہے_لعلكم تهتدون

۱۰_ تورات كے حقائق كو بنى اسرائيل تك پہنچانا حضرت موسىعليه‌السلام كے بنيادى فرائض ميں سے تھا_واذآتيناموسى الكتاب والفرقان لعلكم تهتدون حضرت موسىعليه‌السلام كو كتاب عطا اور بنى اسرائيل كى ہدايت كے درميان رابطے (آتينا موسى لعلكم تہتدون) كا مطلب يہ ہے كہ يہ جملہ تقدير ميں ہو '' ہم نے ان كو حكم ديا كہ كتاب كو تمہارے لئے تلاوت كرے اور احكام و معارف كى تمہيں تعليم دے '' يہ معنى بہت واضح ہونے كے باعث اور اختصار كو مدنظر ركھتے ہوئے بيان نہيں كيا گيا _

اللہ تعالى : اللہ تعالى كى عنايات ۲،۳،۵; اللہ تعالى كى نعمتيں ۶

انبياءعليه‌السلام : اولو العزم انبياءعليه‌السلام ۱

انسان: انسان كا تكوينى اختيار ۹; انسانوں كى ہدايت ۸

بنى اسرائيل: بنى اسرائيل كى ہدايت كا سرچشمہ ۷; بنى اسرائيل كى نعمات ۵

تورات: تورات كى تبليغ ۱۰; تورات اور حق كى تشخيص ۳،۴; تورات كے نزول كا فلسفہ ۷; تورات كى نعمت ۵;تورات كى اہميت و كردار ۴،۷

حضرت موسىعليه‌السلام : حضرت موسىعليه‌السلام كى تبليغ ۱۰; حضرت موسىعليه‌السلام كى تورات ۲; حضرت موسىعليه‌السلام كى شريعت ۱; حضرت موسىعليه‌السلام كا فرقان ۳; حضرت موسىعليه‌السلام كى كتاب ۱;حضرت موسىعليه‌السلام كى ذمہ دارى ۱۰; حضرت موسىعليه‌السلام كى نبوت ۱

حق : حق كى تشخيص كے وسائل ۳،۴; حق اور باطل ۴

۱۷۷

كتب سماوى : كتب سماوى كے نزول كا فلسفہ ۸; كتب سماوى كى نعمت ۶; كتب سماوى كى اہميت و كردار۸

گمراہي: گمراہى كا اختيار۹

ہدايت: ہدايت كا اختيار ۹; ہدايت كے اسباب ۶،۸

وَإِذْ قَالَ مُوسَى لِقَوْمِهِ يَا قَوْمِ إِنَّكُمْ ظَلَمْتُمْ أَنفُسَكُمْ بِاتِّخَاذِكُمُ الْعِجْلَ فَتُوبُواْ إِلَى بَارِئِكُمْ فَاقْتُلُواْ أَنفُسَكُمْ ذَلِكُمْ خَيْرٌ لَّكُمْ عِندَ بَارِئِكُمْ فَتَابَ عَلَيْكُمْ إِنَّهُ هُوَ التَّوَّابُ الرَّحِيمُ ( ۵۴ )

اور وہ وقت بھى ياد كرو جب موسى نے اپنى قوم سے كہا كہ تم نے گوسالہ بناكر اپنے اوپر ظلم كيا ہے _ اب تم خالق كى بارگاہ ميں توبہ كرو اور اپنے نفسوں كو قتل كرڈالو كہ يہى تمھارے حق ميں خير ہے_ پھر خدا نے تمھارى توبہ قبول كرلى كہ وہ بڑا توبہ قبول كرنے والا مہربان ہے _

۱ _ حضرت موسىعليه‌السلام كى قوم نے بچھڑے كى پوجا كركے خود پر ظلم كيا اور سزا كے مستحق قرار پائے _يا قوم انكم ظلمتم أنفسكم باتخاذكم العجل

۲_ حضرت موسىعليه‌السلام نے اپنى قوم كى ستمگرى كے بيان كے ساتھ ہى ان كو فرمان ديا كہ اللہ كى بارگاہ ميں توبہ كرو _

و اذ قال موسى لقومه فتوبوا الى بارئكم

۳ _ انسان شرك اختيار كرنے اور غير خدا كى عبادت كرنے سے خود پر ظلم اور ستم كا ارتكاب كرتا ہے_انكم ظلمتم أنفسكم باتخاذكم العجل

۴ _ شرك اختيار كرنے اور غير خدا كى پرستش كرنے سے خداوند متعال كو كوئي ضرر يا نقصان نہيں ہوتا_

انكم ظلمتم أنفسكم باتخذكم العجل

۵ _ گناہ انسان كى اللہ تعالى سے دورى كا سبب بنتاہے _

فتوبوا الى بارئكم

۱۷۸

'' توبوا '' كا مصدر توب اور توبہ ہے جسكا معنى ہے رجوع كرنا اور لوٹنا _ اس سے يہ مطلب نكلتا ہے كہ گناہ كے سبب انسان اللہ تعالى سے دور ہوجاتا ہے اور فاصلہ پيدا كرليتاہے _

۶ _ گناہگاروں كى ضرورى اور اہم ذمہ دارى ہے كہ اللہ تعالى كى بارگاہ ميں توبہ كے ذريعے بازگشت كريں _انكم ظلمتم أنفسكم باتخاذكم العجل فتوبوا الى بارئكم

۷ _ بنى اسرائيل كے گوسالہ پرستوں كى توبہ ايك دوسرے كو قتل كرنا معين كى گئي _فتوبوا الى بارئكم فاقتلوا أنفسكم

'' فاقتلوا'' ميں '' فائ'' تفسير يہ ہے يعنى ''فاقتلوا أنفسكم'' اور يہ''توبوا ...'' كى تفسير ہے _ اس جملہ '' فاقتلوا أنفسكم'' كے بارے ميں دو طرح كى تفسير بيان ہوئي ہے ۱ _ فاقتلوا بعضكم بعضاً _ ايك دوسرے كو قتل كرو ۲ _ ہر كوئي خود كو قتل كرے_

۸ _ گناہوں سے توبہ كا طريقہ كار اس گناہ كى نوعيت كے اعتبار سے مختلف ہوتاہے_انكم ظلمتم أنفسكم باتخاذكم العجل فتوبوا الى بارئكم فاقتلوا أنفسكم

۹_ بنى اسرائيل كے مرتدوں كى فكرى و نفسياتى آمادگى كے بعد حضرت موسىعليه‌السلام نے انہيں امر الہى ( ايك دوسرے كو قتل كرنے) كے اجراء اور قبوليت پر آمادہ كيا _يا قوم انكم ظلمتم أنفسكم يہ جو حضرت موسىعليه‌السلام نے قوم كو اپنے ساتھ نسبت دى ( اے ميرى قوم ) يہ اس حقيقت كى طرف اشارہ ہے كہ حضرت موسىعليه‌السلام نے قوم كو توبہ كى دعوت سوز دل كے ساتھ دى اور ان سے چاہا كہ حكم الہى كے سامنے گردن جھكا ديں _يہ جو صراحت كى گئي ہے كہ بنى اسرائيل نے گوسالہ پرستى كے ذريعے خود پر ستم كيا ہے يہ بھى اسى معنى كے اعتبار سے ہے _

۱۰_ گناہگاروں ميں حدود الہى كى قبوليت كے لئے روحى اور فكرى آمادگى پيدا كرنا ايك اچھا اور بہتر عمل ہے_يا قوم انكم ظلمتم أنفسكم فتوبوا الى بارئكم

۱۱_ تنقيد اور نصيحت سے پہلے مہربانى اور محبت سے پيش آنا ايك اچھا اور بہت بہتر عمل ہے _يا قوم انكم ظلمتم أنفسكم

۱۲ _ الہ يا معبود ہونے كى لياقت و استعداد فقط خالق انسان ميں ہے _انكم ظلمتم أنفسكم باتخاذكم العجل فتوبوا الى بارئكم

'' بارء '' اللہ تعالى كے اسماء اور صفات ميں سے ہے جسكا معنى خالق ہے _ جملہ ''توبوا الى بارئكم'' ميں حضرت موسىعليه‌السلام كا اس اسم اور صفت كا انتخاب كرنا جبكہ آپعليه‌السلام كے ;مخاطبين وہ لوگ تھے جو غير خدا كى پرستش اختيار كرچكے تھے يہ مطلب اس طرف اشارہ ہے كہ انسان كا خالق ہى

۱۷۹

معبود بننے كى صلاحيت ركھتاہے لہذا تم نے غير كى طرف كيوں رجوع اور رجحان پيدا كيا ؟ پس تو بہ كرو _

۱۳ _ حضرت موسىعليه‌السلام كى شريعت ميں مرتدوں كو قتل كرنا سزاؤں كے قوانين ميں سے تھا_ *فتوبوا الى بارئكم فاقتلوا أنفسكم

۱۴ _ حضرت موسىعليه‌السلام نے اپنى قوم كے مرتدوں كى خيرو سعادت كو انكى توبہ اور ايك دوسرے كے قتل ميں جانا _

فاقتلوا أنفسكم ذلكم خير لكم عند بارئكم

۱۵ حضرت موسيعليه‌السلام نے مرتدوں كو اللہ تعالى كى خالقيت كى طرف متوجہ كرنے كے ساتھ ان كے قتل كى سزا كو انكے لئے ايك مفيد امرسمجھا_ذلكم خير لكم عند بارئكم حكم قتل كے اجراء كے وقت '' بارء '' كا انتخاب اس مفہوم كى طرف اشارہ ہے اگر چہ قتل ہونا ظاہراً ختم ہونا اور نابود ہوناہے ليكن در حقيقت دوبارہ زندگى پانا اور خلق ہونا ہے _ '' بارئكم'' كا جملہ ''توبوا الى بارئكم'' اور '' ذلكم خير لكم عند بارئكم'' ميں تكرار قابل توجہ ہے گويا ايك خاص ہدف كے لئے ايسا كيا گيا ہے _

۱۶ _ اللہ تعالى ہى انسانوں كا خالق ہے _فتوبوا الى بارئكم ذلكم خير لكم عند بارئكم

۱۷ _ اديان الہى ميں سزاؤں كے احكام و قوانين ، اگر چہ وہ سزا قتل ہونے كى ہو ،يہ سب گناہگاروں اور خطاكاروں كے لئے فلاح و سعادت كى ضمانت فراہم كرتے ہيں _فاقتلوا أنفسكم ذلكم خير لكم عند بارئكم

۱۸_ اديان الہى كے احكام و فرامين كى بنياد انسانوں كى مصلحت ہے_ذلكم خير لكم

۱۹_ بنى اسرائيل كے مرتدوں ( گوسالہ پرستوں ) نے حضرت موسىعليه‌السلام كے فرمان كے بعد ايك دوسرے كو قتل كرنا شروع كيا _فاقتلوا أنفسكم فتاب عليكم جملہ '' تاب عليكم'' ايك مقدر جملے پر عطف ہے يعنى ''ففعلتم ما امرتم بہ فتاب عليكم پس تم نے جسكا حكم ديا گيا تھا اس پر عمل كردكھا يا تو خداوند عالم نے تمہارى توبہ كو قبول فرماليا'' قابل توجہ ہے كہ '' تاب '' كى ضمير ما بعد جملے كے قرينہ سے '' بارئكم _ تمہارا خالق'' كى طرف لوٹتى ہے_

۲۰_ بنى اسرائيل كے گوسالہ پرستوں كى توبہ كى قبوليت اللہ تعالى كى ان پر نعمتوں ميں سے ايك تھي_و اذ قال موسى فتاب عليكم اس سورہ مباركہ جيسا كہ آغاز ميں آياہے'' يا بنى اسرائيل اذكروا نعمتى ...'' اس سے پتہ چلتاہے كہ آيات كے اس حصے ميں ان نعمتوں كا ذكر ہے جو اللہ تعالى نے بنى اسرائيل كو عنايت فرمائي تھيں _

۱۸۰

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

461

462

463

464

465

466

467

468

469

470

471

472

473

474

475

476

477

478

479

480

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

501

502

503

504

505

506

507

508

509

510

511

512

513

514

515

516

517

518

519

520

521

522

523

524

525

526

527

528

529

530

531

532

533

534

535

536

537

538

539

540

541

542

543

544

545

546

547

548

549

550

551

552

553

554

555

556

557

558

559

560

561

562

563

564

565

566

567

568

569

570

571

572

573

574

575

576

577

578

579

580

581

582

583

584

585

586

587

588

589

590

591

592

593

594

595

596

597

598

599

600

601

602

603

604

605

606

607

608

609

610

611

612

613

614

615

616

617

618

619

620

621

622

623

624

625

626

627

628

629

630

631

632

633

634

635

636

637

638

639

640

641

642

643

644

645

646

647

648

649

650

651

652

653

654

655

656

657

658

659

660

661

662

663

664

665

666

667

668

669

670

671

672

673

674

675

676

677

678

679

680

681

682

683

684

685

686

687

688

689

690

691

692

693

694

695

696

697

698

699

700

701

702

703

704

705

706

707

708

709

710

711

712

713

714

715

716

717

718

719

720

721

722

723

724

725

726

727

728

729

730

731

732

733

734

735

736

737

738

739

740

741

742

743

744

745

746

747

748

749

750

751

752

753

754

755

756

757

758

759

760

761

762

763

764

765

766

767

768

769

770

771

772

773

774

775

776

777

778

779

780

781

782

783

784

785