تفسير راہنما جلد ۱

 تفسير راہنما 7%

 تفسير راہنما مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن
صفحے: 785

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴ جلد ۵ جلد ۶ جلد ۷ جلد ۸ جلد ۹ جلد ۱۰ جلد ۱۱
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 785 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 200965 / ڈاؤنلوڈ: 5793
سائز سائز سائز
 تفسير راہنما

تفسير راہنما جلد ۱

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

نبی یا امام معصوم کی نظر میں محال ہونے کی مثال

پیغمبراسلام کے بعد کوئی نبوت کا دعویٰ کر بیٹھے۔ اس قسم کا دعویٰ یقیناً کذب ہے اس لیے کہ ائمہ معصومین اور رسول اکرم(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) کے ذریعے آنحضرت کا خاتم الانبیاء ہونا مسلم الثبوت ہے۔ جب دعویٰ ہی قطعی طور پر باطل اور جھوٹا ہو تو پھر اس شاہد کا کیا فائدہ ہوگا جسے مدعی پیش کرے جب عقل اس مدعا کے محال ہونے کے کا حکم لگا دے یا شریعت اس کے باطل ہونے کی شہادت دے تو پھر خالق پر واجب نہیں کہ اس کے باطل ہونے کو برملا کرے۔ کبھی ایسا ہوتا ہے کہ ایک انسان کسی الہٰی منصب کا دعویٰ تو کرلیتا ہے اور کوئی خارق العدات (معجزہ نما) کام بھی کر دکھاتا ہے جس سے دوسرے انسان عاجز رہتے ہیں لیکن یہی کام اس کے دعوےٰ کے کذب ہونے کی دلیل بن جاتا ہے۔ مثال کے طور پر مسیلمہ کذّاب نے ایک مرتبہ اپنا لعابِ دھن کنوئیں میں پھینکا جس میں پانی تھوڑا تھا تاکہ اس کا پانی زیادہ ہو جائے لیکن اسمیں جو پانی تھا وہ بھی خشک ہوگیا۔

ایک او واقعے میں اس نے بنی حنیفہ کے کچھ بچوں کو سر پر ہاتھ پھیرا اور بعض کو گھٹی دی (حلق پر ہاتھ پھیرا) اس کے نتیجے میں جن کے سروں پر ہاتھ پھیرا تھا وہ گنجے ہوگئے اور جن کے حلق پر ہاتھ پھیرا تھا ان کو لکنت کا عارضہ ہوگیا۔(۱) جب مدعی اس قسم کا شاہداور دلیل پیش کرے تو خدا کے لیے ضروری نہیں کہ اسے مزید برملا کرے کیوں کہ اس مدعی کا ناکام عمل ہی مدعی کو باطل کرے کے لیے کافی ہے اور اصطلاح میں اسے معجزہ نہیں کہا جاتا۔

____________________

(۱) الکامل ابن اثیر، ج ۲، ص ۱۳۸

۴۱

اس عمل کو بھی اصطلاح میں معجزہ نہیں کہا جائے گا جس کا مظاہرہ جادو گر اور شعبدہ باز کیا کرتے ہیں یا بعض دقیق اور پیچیدہ علوم نظری کے ماہر انجام دیتے ہیس اگرچہ ایسا عمل انجام دینے سے عام آدمی عاجز ہو، خدا کے لیے ضروری نہیں کہ وہ اس عمل کو کسی اور ذریعے سے باطل قرار دے، جبکہ یہ معلوم ہہے کہ اس کا یہ عمل سحر جیسے دوسرے طبیعی امور کے نتیجے میں انجام پایا ہے۔ اگرچہ یہ انسان کسی الہٰی منصب کا دعویدار ہو اور اس کام کو اس نے اپنی صداقت کی دلیل کے طور پر پیش کیا ہو، کیونکہ ان پیچیدہ علوم نظری کے خاص قوانین ہوتے ہیں جن سے اس علم کے ماہرین آگاہ ہوا کرتے ہیں اور ان قواعد کی روشنی میں مخصوص نتاء تک پہنچنا ضروری ہوا کرتا ہے، اگرچہ ان قواعد کو نتائج پر منطبق کرنا کافی دقت طلب ہے۔

بنابرایں علم طبّ کے بعض حیرت انگیز قواعد بھی معجزہ سے خارج ہوں گے جن کا تعلق چیزوں کی طبیعتوں اور ان کے خاصیتوں سے ہے اگرچہ طبّ کی یہ عجیب و غریب باتیں عام لوگوں سے مخفی اور پوشیدہ ہوں بلکہ خود ان طبیبوں اور حکیموں پر بھی چیزوں کی خاصیتیں اور ان کے آثار مخفی ہوں۔

اس میں بھی کوئی قباحت نہیں کہ خدا کسی خاص بندے کو کسی خاص چیز کی معرفت عطا فرمائے جو عام لوگوں کی سمجھ سے بالاتر ہو۔

قباحت اس میں ہے کہ خدا کسی جھوٹے شخص کی تائید کرے اور ایسے جھوٹے شخص کے ہاتھ معجزہ ظاہر کرے جو لوگوں کو راہِ راست سے گمراہ کرے۔

۴۲

نبوّت اور اعجاز

تمام انسانوں کو مکلّف کرنا خدا پر واجب ہے اور یہ بات صحیح عقلی دلائل سے ثابت ہے، کیونکہ انسان اپنی ارتقائی منازل طے کرنے اورابدی سعادت کے حصول اور عظیم منفعت کےلئے تکلیف (فرائض و ذمہ داریوں) کا محتاج ہے۔ اگرخدا انسان کو پابند قرار نہ دے تو اس کی تین وجوہات ہوسکتی ہیں:

i ) خدا نے اپنے بندوں کو اس لیے مکلّف نہیں بنایا کہ خدا نہیں جانتا کہ لوگ ذمہ داری و لائحہ عمل کے محتاج ہیں۔

اس سے جہل لازم آتا ہے جس سے خدا کی ذات پاک و منزہ ہے۔

ii ) خدا نے لوگوں کو اس لیے مکلّف نہیں بنایا کہ وہ انہیں کمال تک پہنچنے سے روکنا چاہتا ہے۔ اس سے بخل لازم آتا ہے اور بخل اس ذات کے لیے محال ہے جو سرچشمہ ئ فیض و سخا ہے۔

iii ) خدا انہیں مکلّف بنانا چاہتا ہے لیکن وہ اس پر قادر نہیں ہے۔ یہ عجز و ناتوانی ہے جو اس قادر و مطلق ذات کے لیے محال ہے۔

بنابریں بشر کو بعض فرائض کا مکلّف بنانا ضروری اور لازمی ہے اور یہ ایک واضح حقیقت ہے کہ انسان کو مکلّف بنانے کے لیے کسی نہ کسی مبلّغ کی ضرورت ہے جو احکامِ الہٰی کے پوشیدہ اور واضح رموز سے آگاہ کرے:

( لِّيَهْلِكَ مَنْ هَلَكَ عَن بَيِّنَةٍ وَيَحْيَىٰ مَنْ حَيَّ عَن بَيِّنَةٍ ) (۸:۴۲)

''تاکہ جو شخص ہلاک (گمراہ) ہو وہ (حق کی) حجت تمام ہونیکے بعد ہلاک ہو اور جو زندہ رہے وہ (ہدایت کی) حجّت تمام ہونیکے بعد زندہ رہے۔،،

۴۳

یہبھی ایک بدیہی بات ہے کہ سفارتِ الہٰی ایسا عظیم منصب ہے جس کے بہت سے مدعی ہوسکتے ہیں اور بہت سے لوگ اس کے حصول کی خواہش رکھتے ہیں۔ اس کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ صادق اور کاذب میں تمیز نہ ہوسکے، گمراہ کرنے والے اور ہادی و راہنما میں امتیاز نہ رہے، اس لیے جو بھی اس سفارت کا دعویدار ہو اس کے لئے ضروری ہے ہک ایسا شاہد اور ثبوت پیش کرے جو اس کے اس دعویٰ میں صادق ہونے پر دلالت کرتا ہو اور اس تبلیغ میں اس کے امین ہونے کی ضمانت دے۔ یہ شاہد ان عام اور معمولی افعال اور کارناموں میں سے نہ ہو جنہیں ہر کس و ناکس انجام دے سکتا ہو۔ بنابرایں اس مدعا کی دلیل میں ان کاموں میں منحصر ہوگی جو طبیعی قوانین کو توڑ دیں۔ معجزہ اس لیے مدعی کی صداقت کی دلیل ہوتا ہے کہ یہ معجزہ طبیعی قوانین سے بالاتر ہوتا ہے اور یہ کام اسی سے صادر ہوتا ہے جسے توفیق الہٰی حاصل ہو اور خدا جسے قدرت اور طاقت دے۔

بنابرایں اگر نبوّت کا مدعی اپنے دعویٰ میںجھوٹا ہو تو ایسے معجزے پر اس کو قدرت دینا لوگوں کو جہالت میں ڈالنے اور باطل کی تقوّیت کا باعث ہوگا اور یہ کام خدا کے لیے محال ہے۔

جب اس قسم کا معجزہ کسی مدعی کے ہاتھ پر ظاہر ہو تو یہ معجزہ اس کی صداقت کی دلیل ہوگا اور اس بات کا اظہار ہوگا کہ خداوند متعال اس کی نبوّت پر راضی ہے۔

یہ ایک ایسا قاعدہ کلیّہ ہے جسے تمام عقلاء اس قسم کے اہم کاموں میں تسلیم کرتے ہیں اور اسے کوئی بھی شک و شبہ کی نگاہ سے نہیں دیکھتا۔

۴۴

جب کوئی کسی بادشاہ یا صدر کے سفیر ہونے کا دعویٰ کرے یا کوئی شخص ایسے کاموں میں بادشاہ کی نمائندی کا دعویٰ کرے جن کا تعلق عوام سے ہے تو اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے دعویٰ پر دلیل پیش کرے جس سے اس کی تائید ہو۔ خصوصاً جب لوگ اس کی صداقت میں شک کریں تو اس کی دلیل واضح اور آشکار ہونی چاہےے۔ مثال کے طور پر اگر سفیر لوگوں سے یہ کہے کہ میری صداقت کی دلیل یہ ہے کہ کل کے دن بادشاہ او صدرمملکت مجھے ایسا تحفہ دیگا جیسا وہ دوسرے سفیروں اور نمائندگان کو دیا کرتا ہے اور میری ایسی عزّت اور تکریم کرے گا جیسی دوسرے سفراء او رنمایندگان کی کیا کرتا ہے تو ایسی صورت میں جب سفیر اور لوگوں میں رونما ہونے والے اس اختلاف کا بادشاہ کو علم ہوگا اور اس کے بعد اسی دن اسی تحفے و عزّت و تکریم سے سفیر کو نوازے تو بادشاہ اور صدر مملکت کی طرف سے یہ فعل مدعیئ سفارت کی تصدیق ہوگی جس میں عقلاء کو کوئی شک نہیں ہوگا، کیوں کہ ایک بادشاہ جو رعیت کی مصلحتوں کا محافظ ہوا کرتا ہے اس کے لئے قبیح ہے کہ وہ کاذب مدعی کی تائید و تصدیق کرے۔ کیونکہ وہ لوگوں میں فساد پھیلانا چاہتا ہے، جب یہ کام عام عقلاء کے لیے قبیح ہو تو اس حکیم اور دانا ذات کے لیے بطریقِ اولیٰ اور قبیح ہے اور یہ حقیقت خدا نے اس آیتِ کریمہ میں بیان فرمائی ہے:

( وَلَوْ تَقَوَّلَ عَلَيْنَا بَعْضَ الْأَقَاوِيلِ لَأَخَذْنَا مِنْهُ بِالْيَمِينِ ثُمَّ لَقَطَعْنَا مِنْهُ الْوَتِينَ ) (۶۹:۴۴۔۴۶)

''اگر رسول(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) ہماری نسبت کوئی جھوٹ بات بنالاتے تو ہم ان کا داہنا ہاتھ پکڑلیتے پھر ہم ضرور ان کی گردن اڑا دیتے۔،،

۴۵

اس آیت کریمہ کا مطلب یہ ہے کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جن کی نبوّت ہم نے ثابت کی ہے اور اس کی تصدیق کے لیے معجزہ ظاہر کیا ہے، آیا ممکن ہے کہ وہ کوئی بات اپنی طرف سے ہماری طرف منسوب کریں۔ اگر وہ ایسا کریں تو ہم ان کا مواءخذہ کریں گے اور ان کی جان لے لیں گے اس کے علاوہ اس قسم کی غلط نسبتوں کو سننے کے بعد خاموشی اختیار کرنا، ان کی تصدیق ہوگی اور شریعت مقدّسہ میں باطل کو شامل کرنے کے مترادف ہوگا۔ بنابرایں جس طرح شریعت کی ابتدائی پیدائش میں اس کی حفاظت ہمارا فرض ہے اسی طرح پیدائش کے بعد بقاء کے مرحلے میں بھی اس کی حفاظت ہمارا فرض ہے۔

معجزے کا کسی مدعی نبوّت کی صداقت پر دلالت کرنا اس بات پر موقوف ہے کہ ہم ےسن و قبح عقلی کے قائل ہوں یعنی اس بات کے قائل ہوں کہ عقل حسن و قبح کو درک کرسکتی ہے۔ لیکن اشاعرہ یہ بات تسلیم نہیں کرتے ان کے نزدیک نبوت کی تصدیق کا دروازہ بند ہوجاتا ہے۔ اس قول کی خرابیوں میں سے ایک خرابی یہی ہے کہ اس سے تصدیق نبوّت کی راہیں مسدود ہو جاتی ہیں۔ کیوں کہ معجزہ اسی صورت میں نبوّشت کی صداقت کی دلیل ہوگا جب عقل کاذب کے ہاتھ پر معجزہ ظاہر ہونے کا قبیح سمجھے، اگر عقل اسے قبیح نہ سمجھے تو پھر کوئی بھی صادق اور کاذب میں تمیز نہ کرسکے گا۔

فضل ابن روز بہان نے اس اشکال و اعتراض کا یہ جواب دیا ہے کہ اگرچہ خدا سے فعل قبیح کا صادر ہونا ممکن ہے یعنی یہ ممکن ہے کہ خدا کاذب کے ہاتھ پر بھی معجزہ ظاہر کرے لیکن اس کی عادت اور سنت یہی رہی ہے کہ معجزہ اسی کے ہاتھ پر ظاہر ہو جو صادق ہو اور کاذب کے ہاتھ پر معجزہ کبھی بھی ظاہر نہیں ہوتا۔

اس سے اشاعرہ کے نزدیک تصدیق نبوّت کی راہیں مسدود نہیں ہوتیں، لیکن اس جواب کی کمزوری ظاہر و آشکار ہے۔

۴۶

اس لیے کہ اوّلاً یہ عادت خدا اور سنت الہٰی جس کی خبر ''ابن روز بہان،، دے رہا ہے، ان چیزوں میں سے نہیں ہے جو اس سے درک کی جاسکیں، کان سے سنی جاسکیں یا آنکھ سے دیکھی جاسکیں بلکہ عقل ہی کے ذریعے اس کا علم حاصل کیا جاسکتا ہے۔ جب عقل حسن و قبح کا ادراک نہ کرسکے (جس کے اشاعرہ قائل ہیں) توپھر کون جانے کہ خدا کی یہ عادت رہی ہے کہ وہ معجزہ صرف صادقین کے ہاتھ پر دکھاتا ہے۔

ثانیاً، یہ عادت گذشتہ انبیاء کی تصدیق کے بعد ہی ثابت ہوسکتی ہے، جن کے ہاتھ سے معجزے ظاہر ہوئے ہیں، تاکہ ہم یہ جان سکیں کہ خدا کی یہ سنّت رہی ہے کہ وہ صادق کے ہاتھ پر ہی معجزہ ظاہر کرتا ہے لیےکن جو حضرات گذشتہ انبیاء کی نبوّتوں کے منکر ہیں یا انہیں شک کی نگاہ سے دیکھتے ہیں، ان کے لیے تو یہ عادت ثابت کرنے کا کوئی طریقہ نہیں ہوگا جس کا ''ابن روز بہان،، مدی ہے اور نہ ہی ان کے لئے معجزہ حجت ہے ہوسکتا ہے۔

ثالثاً، جب عقل کی نظر میں کسی فعل کو انجام دینا اور ترک کرنا مساوی ہو اور اس میں کسی قبح یا حسن کا حکم نہ لگایا جاسکے تو پھر خدا کو اپنی عادت بدلنے میں کون سی چیز مانع ہوگی، جبکہ خدا قادر مطلق ہے اور اس کا کوئی مواخذہ و محاسبہ بھی نہیں کرسکتا۔ بنابرایں اگر خدا کسی کاذب کے ہاتھ پر بھی معجزہ ظاہر کرے تو بھی کوئی مانع نہیں ہونا چاہیے۔

رابعاً، عادت تو ایک ایسی چیز ہے جو کسی عمل کے تکرار کے نتیجے میں حاصل ہوتی ہے اور اس میں عرصہ دراز کی احتیاج ہوتی ہے۔ یہ آخری نبی یا اس سے پہلے انبیاء کے لئے تو معجزہ بن سکتا ہے لیکن ابتدائی نبوّت کے لیے کس طرح معجزہ بن سکتا ہے، جس میں کوئی عادت ہی نہیں بنی تھی۔ ہم آئندہ صفحات پر اشاعرہ کے اقوال ذکر کریں گے اور ان کے باطل پہلو بھی بیان کریں گے۔

۴۷

معجزہ اور عصری تقاضے

آپ نے دیکھا کہ معجزہ وہ ہوتا ہے جو طبیعی قوانین کو توڑ دے، کسی الہٰی منصب کا مدعی اسے انجام دے اور باقی لوگ اسے انجام دینے سے قاصر ہوں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ کوئی معجزہ جس ہنر یا پیشے سے مماثلت رکھا ہو اسی پیشے کے علماء و ماہرین ہی یہ بات سمجھ سکتے ہیں کہ عام لوگ یہ کام انجام دینے سے قاصر ہیں۔ کیونکہ کسی بھی صنعت اور ہنر کی خصوصیات اس کے علماء ہی بہتر سمجھتے ہیں، وہی بتاسکتے ہیں کہ عام لوگ کونسا کام انجام دے سکتے ہیں اور کونسا نہیں یہی وجہ ہے کہ علماء معجزہ کی جلدی تصدیق کرتے ہیں جبکہ اس فن و ہنر کے اصولوں سے آگاہ نہ ہونے کی وجہ سے جاہل کے آگے شک و تردید کے دروازے کھلے رہتے ہیں چنانچہ جب تک اس کا یہ احتمال باقی رہے کہ مدعی نے خاص اصولوں کا سہارا لیا ہوگا جنہیں اہل فن ہی جانتے ہیں اسے بہت دیر تک مدعی کی صداقت پر یقین نہ آئے گا۔

اسی لیے حکمت الہٰی کا یہ تقاضا ہے کہ ہر نبی کو وہی معجزہ دے کر بھیجا جاھے جو اس دور کے مشہور و معروف فن کی مانند اور اس فن کا اس دور میں چرچا بھی ہو، اس طرح کے معجزے کی تصدیق جلدی اورحجت و برہان مضبوط ہوتی ہے۔

حکمت الہٰی کا تقاضا یہی تھا کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو عصا اور ید بیضا سے مسلح کیا جاتا کیوں کہ اس زمانے میں سحر کی شہرت زیادہ تھی اور جادوگر کثرت سے تھے، یہی وجہ ہے کہ سب سے پہلے آپ کی تصدیق جادوگروں نے کی۔ جب انہوں نے دیکھا کہ عصائے موسیٰ (علیہ السلام) اژدھے میں تبدیل ہوگیا اور ان کے جعلی اور بے بنیاد سانپوں کو نگلنے کے بعد دوبارہ اپنی اصلی صورت میں آگیا ہے تووہ فوراً سمجھ گئے کہ یہ سحر کے دائرے سے خارج ہے اور یہ یقیناً الہٰی معجزہ ہے۔ چنانچہ انہوں نے فرعون کے دربار میں اس کی دھمکیوں کی پرواہ کئے بغیر اپنے ایمان کا اعلان کردیا۔

۴۸

حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے زمانے میں یونانی طبّ کو شہرت حاصل تھی، اس دور میں اطباء عجیب و غریب کارنامے انجام دیتے تھے، شام اور فلسطین میں یہ علم بہت زٰادہ مروّج تھا کیونکہ یہ دونوں شہر یونانی استعمار کی زد میں تھے۔ جب خداوند حکیم نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو ان علاقوں میںنبی بناکر بھیجا تو حکمت کا یہی تقاضا تھاکہ آپ کی نبوت کی دلیل طب سے مشابہت رکھنے والی ہو۔ چنانچہ آپ مردوں کو زندہ، مادر زاد اندھوں کو بینا اور برص کے مریضوں کو شفایاب کردیتے تھے تاکہ اس زمانے کے لوگ یہ سمجھ سکیں کہ چونکہ یہ عمل انجام دیناعام لوگوں کی قدرت و استطاعت سے باہر ہے اور طبی اصولوں کا بھی اس سے کوئی تعلق نہیں ہے، اس لیے اس میں طبیعت اور مادہ سے بالاتر کسی ذات کی قدرت کار فرما ہے۔

عرب فصاحت و بلاغت میںبہت آگے تھے، فصاحت ان کا طرہ امتیاز تھی، وہ ادب کی آخری منزل پر پہنچے ہوئے تھے۔ ان کے ہاں شعر و شاعری میں مقابلے اور فخر و مباہات کے لیے خصوصی میلے لگتے تھے جہاں اچھاکلام پیش کرنے والوں کو داد تحسین دی جاتی تھی۔ ان کے نزدیک شعر و شاعری کی قدر و منزلت اس قدر زیادہ تھی کہ انہوں نے قدیم اور عمدہ اشعار پر مشتمل سات قصیدے منتخب کئے اور انہیں آبِ زر سے لکھ کر خانہ کعبہ پر لٹکا دیا، اس کے بعد کسی کے عمدہ کلام پر یہ کہا جانے لگا کہ یہ فلاں شاعر کا سنہرا کلام ہے۔ عرب مرد و زن سب اس فن کو اہمیت دیتے تھے اور شعری مقابلوں میں (معروف شاعر) ''نابغہ ذبیانی،، کو جج مقرر کیا جاتا تھا۔ حج کے موقع پر بازار عکاظ میں اس کے لیے چمڑے کا خیمہ نصب کیا جاتا تھا جہاں آکر شعراء اسے اپنا کلام سناتے تاکہ وہ اپنا فیصلہ سنائے۔

۴۹

ان حالات میں حکمت کا تقاضا یہی تھا کہ پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کو بیان اور بلاغت قرآن کا معجزہ دے کر بھیجا جاتا، چنانچہ ایسے ہی کیا گیا۔ یہ عرب نے اس سمجھا اور تصدیق کی کہ یہ کلام خدا ہے اور اس کی بلاغت بشر کی قدرت سے باہر ہے۔ اس حقیقت کا اعتراف ہر اس عرب نے کیا جس میں تعصب نہیں تھا۔

اس حقیقت پر اس روایت سے بھی ر وشنی پڑتی ہے جو ابن سکیت نے امام رضا (علیہ السلام) سے نقل کی ہے۔ ابن سکیت نے امام رضا (علیہ السلام) سے نقل کی ہے۔ ابن سکیت نے امام رضا (علیہ السلام) سے دریافت کیا:

''لماذا بعث الله موسی بن عمران بالعصا، و یده البیضائ، و آلة السحر؟ و بعث عیسیٰ بآلة الطب؟ و بعث محمداً صلی الله علیه و آله وعلی جمیع الأنبیائ بالکلام و الخطب؟

فقال أبو الحسن : ان الله لما بعث موسی کان الغالب علی أهل عصره السحر، فأتاهم من عند الله بما لم یکن فی وسعهم مثله، و ما أبطل به سحرهم، و أثبت به الحجة علیهم، و ان الله بعث عیسیٰ فی وقت قد ظهرت فیه الزمانات، و احجاج الناس الی الطب، فأتاهم من عند الله بما لم یکن عندهم مثله، و بما أحیی لهم الموتی، و أبرأ الأکمه و الأبرص باذن الله، و أثبت به الحجة علهیم

و ان الله بعث محمد فی وقت کان الغالب علی أهل عصره الخطب و الکلام و أظنه قال: الشعر فأتاهم من عند الله من مواعظه و حکمه ما أبطل به قولهم، و أثبت باه الحجة علیهم ،،(۱)

''کیا وجہ ہے کہ خدا نے حضرت موسیٰ بن عمران (علیہ السلام) کو عصا اور ید بیضا، حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو طب اور حضرت محمد مصطفیٰ (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کو بیان اور خطابت کامعجزہ دے کر بھیجا؟ آپ نے فرمایا: خدا نے حضرت موسیٰ کو جس وقت نبی بنا کر بھیجا اس وقت سحر اور جادو کا دور دورہ تھا۔ اسی لیے خدا نے حضرت موسیٰ کو اسی نوعیت کا ایسا کمال عطا کرکے بھیجا جس سے عام لوگ عاجز تھے اور ان کے سحر باطل ہوگئے اور آپ کی حجت مکمل ہوگئی۔

____________________

(۱) اصول کافی، کتاب عقل و الجہل۔ الروایۃ ۲۰

۵۰

جب حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) مبعوث بر مبعوث برسالت ہوئے تو اس وقت مختلف قسم کی بیماریاں عام تھیں اور لوگ طب کے زیادہ محتاج تھے، چنانچہ خالق نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو وہ طب عطا فرمائی جس کی نظیر لوگوں کے پاس نہ تھی۔ آپ کو ایسا طب عطا فرمایا جس سے آپ باذن اللہ مردوں کو زندہ اور مادر زاد اندھے کو بینا اور برص کے مریضوں کوشفایاب فرماتے تھے۔ جس سے آپ نے ان لوگوں پر اپنی حجت مکمل کی۔ جس وقت خاتم الانبیائ کو نبی بنا کر بٍھیجا گیا اس وقت بیان اور خطابت کی طرف لوگوں کا زیادہ رجحان تھا۔ (میرے خیال میں امام کے کلام میں شعر کا ذکر ہے) خدا نے آنحضرت کو موعظہ اور حکمت آمیز کلام دے کر بھیجا، جس سے ان کے تمام دعوے باطل ہوگئے اور آپ کی حجت پوری ہوگئی۔،،

اگرچہ پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے پاس قرآن کے علاوہ بھی معجزات تھے جن میں چاند کو دو ٹکڑے کرنا، اژدھے سے کلام کرنا اور سنگریزوں کا آپ کے ہاتھ پر تسبیح پڑھنا شامل ہیں لیکن ان تمام معجزات میں قرآن کی شان اور عظمت زیادہ ہے اور یہ سب سے مضبوط حجت اور دلیل ہے۔ چونکہ عرب طبیعی علوم اور کائنات کے اسرار و رموز سے آشنا نہیں تھے اس لیے وہ ان معجزوں (شق قمر وغیرہ) کو شک کی نگاہ سے دیکھتے تھے اور ان کو نامعلوم علل و اسباب کی طرف منسوب کرتے تھے۔ وہ ان اسباب میں سب سے زیادہ احتمال سحر کا دیتے تھے۔ لیکن قرآن کامعجزہ ایسا ہے کہ عرب ا س کی بلاغت اور اعجاز میں شک نہ کرسکے۔اس لیے کہ عرب فنون بلاغت سے مکمل آگاہ تھے اور اس کے اسرار و رموز کو درک کرسکتے تھے۔ اس کے علاوہ شق القمر جیسے دیگر معجزات وقتی تھے جو ہمیشہ کے لیے باقی نہیں رہ سکتے تھے اور بہت جلد ایک تاریخی واقعے میں تبدیل ہوسکتے تھے جنہیں گذشتہ لوگ آئندہ کی نسلوں کے لیے نقل کرتے۔ چنانچہ زمانہ گزرنے کے ساتھ ساتھ وہ شک و تردید کی نگاہ سے دیکھے جاتےٍ۔۔۔ مگر قرآن ایک ایسا معجزہ ہے جو ابد تک باقی رہے گا اور ہردور و نسل میں ایک زندہ معجزہ کے طور پر موجود ہے۔

ہم آئندہ ابحاث میں قرآن کے علاوہ دیگر معجزات پر تفصیلی بحث کریں گے اور ان اہل قلم ہم عصروں کا محاسبہ کریں گے جو معجزات کے منکر ہیں۔

۵۱

قرآن۔۔۔ایک الہٰی معجزہ

دعوتِ اسلام سے آشنا ہر عاقل اور باشعور انسان یقیناً جانتا ہے کہ پیغمبر اسلام نے اقوام عالم کو اسلام قبول کرنے کی دعوت دی اور قرآن مجید کو بطور دلیل پیش فرمایا اور معجزہ قرآن کے ذریعے چیلنج کیا عرب کے تمام فصحاء و بلغاء مل کر اس کی نظیر اور مثل لاکر دکھائیں۔ اس کے بعد آپ نے رعایت دیتے ہوئے قرآن مجید کے دس سوروں کی نظیر و مثل پیش کرنے کا چیلنج دیا۔ پھر مزید رعایت دے کر آپ نے ایک سورہ پیش کرنے کا چیلنج دیا۔

چاہیے تھا کہ عرب، جن میں چوٹی کے فصحاء موجودتھے، آنحضرت کے اس چیلنج کا جواب دیتے اور امکان کی صورت میں قرآن کی نظیر پیش کرکے آنحضرت کا دعویٰ باطل کرتے۔ واقعاً حق تو یہ تھا کہ کم از کم وہ قرآن کے ایک سورہ کا مقابلہ کرتے، بلاغت میں اس کی نظیر پیش کرتے اور اس طرح ہو اس مدعیئ نبوّت کی دلیل کا توڑ فراہم کرتے جس نے اس فن میں ان کو چیلنج کیا، جس میں انہیں کمال حاصل تھا اور جسے وہ اپنا طرہ امتیاز سمجھتے تھے تاکہ تاریخ میں فتح و کامیابی کا سہرا وہ اپنے سر باندھتے اور اپنا نام ہمیشہ کے لیے زندہ کرتے۔ اس طرح ایک معمولی مقابلے کے نتیجے میں بہت سی خونریز جنگوں سے نجات مل جاتی اور بہت سا مال و دوکت بھی بچ جاتا۔ لوگ وطن سے بے وطن نہ ہوتے اور نہ انہیں سختیاں جھیلنی پڑتیں۔

مگر جب عربوں نے قرآن کی بلاغت کا بغور مطالعہ کیا تو انہیں اس کے معجزہ ہونے کا یقین آگیا۔ انہیں معلوم تھا کہ قرآن سے مقابلہ کرنے کی صورت میں انہیں حتمی شکست و ہزیمت سے دوچار ہونا پڑے گا۔ چنانچہ بعض اقوام نے اس داعیِ حق کی تصدیق کی، دعوتِ قرآن کے آگے سرتسلیم خم کیا اور اسلام کا شرف حاصل کرلیا اور کچھ ل وگوں ے عناد اور تعصب کا راستہ اختیار کرتے ہوئے فصاحت و بلاغت کی علمی جنگ پر مسلحانہ جنگ کوترجیح دی اور یہ اس بات کی دلیل ہے کہ قرآن وحی الہٰی ہے۔

۵۲

ایک اعتراض اور اسکا جواب

ایک غیر ملم جاہل یہ دعویٰ کرسکتا ہے کہ عربوں نے قرآن کی نظیر پیش کردی تھی اور انہوں نے قرآن کا مقابلہ کرلیا تھا لیکن زیادہ عرصہ گزرنے کی وجہ سے تاریخ یہ بات ہم تک نہیں پہنچا سکی۔

اس اعتراض کے تین جواب ہیں:

i ) اگر اس قسم کا مقابلہ کرتے ہوئے قرآن کی نظیر پیش کی جاتی تو عرب اپنی محفلوں، اجتماعات اور بازاروں میں اس کا اعلان کرتے، دشمنان اسلام ہر محفل میں اس کے گن گاتے، مناسب موقع پر اس کا ذکر کرتے، ہر آنے والے کو اس کی خبر دیتے، اس کی اس طرح حفاظت کرتے جس طرح ایک مدعی اپنی دلیل و حجت کی حفاظت کیا کرتا ہے اور یہ چیز ان کے لیے اپنے سلف کی ان تواریخ اور زمانہ جاہلیّت کے اشعار سے زیادہ عزیز و قیمتی ہوتی جن سے کتبِ تواریخ اور دیوان بھرے پڑے ہیں۔ مگر قرآن کی نظیر پیش کرنے کا کوئی واقعہ نہ دیکھنے میں آیا اور نہ اس کا ذکر سننے میں آیا۔

ii ) قرآنِ کریم نے عربوں کو ہی چیلنج نہیں کیا، پوری انسانیّت بلکہ تمام جنّ و انس کو یہ چیلنج کیا تھا:

( قُل لَّئِنِ اجْتَمَعَتِ الْإِنسُ وَالْجِنُّ عَلَىٰ أَن يَأْتُوا بِمِثْلِ هَـٰذَا الْقُرْآنِ لَا يَأْتُونَ بِمِثْلِهِ وَلَوْ كَانَ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ ظَهِيرًا ) (۱۷:۸۸)

''(اے رسول) تم کہہ دو کہ اگر (ساری دنیا جہان کے) آدمی اورجنّ اس بات پر اکٹھے ہوں کہ اس قرآن کا مثل لے آئیں (غیر ممکن) اس کے برابر نہیں لاسکتے۔ اگرچہ اس کوشش میں ا یک کا ایک مددگار بھی بنے۔،،

۵۳

تاریخ شاہد ہے کہ نصاریٰ اور دوسرے دشمنان اسلام۔ رسول اسلام ، قرآن کریم اور دین اسلام کو ان کے مقام سے گرانے کے لیے بے تحاشا سرمایہ خرچ کر رہے ہیں اور یہ کام ہر سال بلکہ ہر مہینے ہو رہا ہے۔ اگر قرآنِ کریم کے ایک سورہ کا بھی مقابلہ ممکن ہوتا تو یہ ان کے لیے ایک مضبوط و محکم دلیل ہوتی، وہ اس کی مدد سے جلد اپنی آرزو پوری کرسکتے تھے۔ اتنا سرمایہ خرچ کرنے اور اپنے آپ کو مشقت میں ڈالنے کی انہیں ضرورت ہی محسوس نہ ہوتی:

( يُرِيدُونَ لِيُطْفِئُوا نُورَ اللَّـهِ بِأَفْوَاهِهِمْ وَاللَّـهُ مُتِمُّ نُورِهِ وَلَوْ كَرِهَ الْكَافِرُونَ ) ۶۱:۸

''یہ لوگ اپنے منہ سے (پھونک مارکر) خدا کے نور کو بجھانا چاہتے ہیں، حالانکہ خدا اپنے نور کو پورا کرکے رہے گا، اگرچہ کفّار برا ہی (کیوں نہ) مانیں۔،،

iii ) عام مشاہدہ میں آیا ہے کہ جب کسی شخص کا واسطہ طویل عرصے تک کسی فصیح و بلیغ کلام سے رہا ہو اور ایک مدّت تک اس نے اس کی خدمت کی ہو ہو اس کی مثل یا کم از کم فصاحت و بلاغت میں اس کے قریب قریب اپنا کلام بنانے میں کامیاب ہوجاتا ہے۔

لیکن قرآن کے مقابلے میں اتنا بھی نہیں کیا گیا کیوں کہ انسان قرآن کو کتنا ہی زیادہ پڑھ لے اور اس کی خصوصیّات پر غور و خوض کرے، وہ اس کی معمولی سی جھلک بھی پیش کرنے سے قاصر رہتا ہے اس سے ہم لازماً اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ قرآن کریم کا اسلوب، تعلیم و تعلّم کے عام اسالیب سے مختلف ہے۔

۵۴

اگر قرآن کریم رسول اسلام کا اپنا بنایا ہوا کلام ہوتا تو آپ کے خطبوں اور جملوں میں کہیں نہ کہیں قرآن کریم کے اسلوب بیان کا عکس نظر آتا۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ آپ کے اقوال کے ایک خاص انداز ہے جو قرآن کریم کے اسلوب سے یکسر مختلف ہے۔

اگر آپ کے کلام میں قرآن کریم کے مشابہ کوئی چیز ہوتی تو وہ مشہور ہوجاتی۔ خصوصاً دشمنان اسلام کی زبانوں اور کتب کے ذریعے، جو ہر طریقے سے اسلام کو کمزور اور بدنام کرنے کے درپے رہتے ہیں۔

اس کے علاوہ عام مروّج بلاغت کی مخصوص حدود ہیں جن سے تجاوز نہیں کیا جاسکتا۔ مثلاً ایک بلیغ عربی شاعر یا نثر نگار ہے، لیکن وہ صرف ایک یا دو پہلوؤں پر بلاغت آمیز کلام پیش کرسکتا ہے۔ مثلاً وہ شجاعت و بہادری کے موضوع پر توبلیغ کلام پیش کرسکتا ہے مگر مدح و تعریف کے موضوع پر ویسا بلیغ کلام پیش کرنے سے قاصر ہے یا مرثیہ کے موضوع پر تو بلیغ کلام پیش کرسکتا ہے لیکن غزل کے عنوان سے ویسا کلام پیش کرنے سے قاصر ہے۔

جبکہ قرآن کریم میں متعدد موضوعات اور مختلف فنون کا ذکر ہے اور تمام موضوعات کو اس انداز سے پیش کیا گیا ہے کہ جس کی نظیر لانے سے دنیا قاصر ہے اور یہ کام بشر کے لئے ناممکن ہے۔

۵۵

قرآن۔۔۔ایک ابدی معجزہ

اب تک ہم اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ کسی نبی کی نبوّت کی تصدیق اور اس پر ایمان لانا اس معجزے پر منحصر ہے جسے نبی اپنے دعوےٰ کے ثبوت کے طور پر پیش کرتا ہے۔

چونکہ گذشتہ انبیاء (علیٍھم السلام) کی نبوّتیں انہی ادوار اور انہی نسلوں کے لیے مختص تھیں اس لیے حکمت کا تقاضا یہی تھا کہ ان معجزوں کی مدّت محدود ہوتی۔ اس لیے کہ وہ معجزات محدود دور نبوست کی نشانی تھی۔ اس زمانے میں بعض لوگ تو خود ان معجزات کا مشاہدہ کرتے اور ان پر حجّت تمام ہو جاتی اور بعض لوگوں کے لیے عینی شاہدان معجزوں کو تواتر سے پیش کرتے جس سے ان پر بھی حجّت تمام ہوجاتی تھی۔

لیکن ایک ابدی شریعت کے لیے شاہد کے طورپر پیش کیے جانے والا معجزہ بھی دائمی ہونا چاہیے کیونکہ اگر معجزہ کی مدّت محدود ہوگی تو آنے والی نسل اس کا مشاہدہ نہ کرسکیں گی اور زمانہ گزرنے کے ساتھ ساتھ خبر متواتر کا سلسلہ بھی ختم ہوسکتا ہے جس کے نتیجے میں آئندہ نسلوں کو اس نبوّت کی صداقت کا علم حاصل نہیں ہوسکے گا۔ ایسی صورت میں اگر آنے والی نسلوں کو نبوّت پر ایمان لانے کا مکلّف بنایا جائے تو یہ ایک ناممکن امر کا مکلّف بنانے کے مترادف ہے اور یہ محال و ممتنع ہے کہ اللہ تعالیٰ کسی محال امر کا مکلّف بنائے۔

۵۶

پس معلوم ہوا کہ دائمی نبوّت کا معجزہ بھی دائمی ہونا چاہیے اور یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کو ایک دائمی اور ابدی معجزہ کی صورت میں بھیجا تاکہ یہ ایک ابدی اور دائمی صداقت کا شاہد بن سکے اور جس طرح یہ گذشتہ لوگوں کے لیے حجّت تھا سای طرح یہ آئندہ نسلوں کے لیے بھی حجّت قرار پائے۔

ہم گذشتہ مباحث سے دو نتیجوں پر پہنچے ہیں:

( i قرآن کریم انبیاء ما سلف (علیہم السلام) کے تمام معجزات اور خود خاتم الانبیاء (ص) کے باقی تمام معجزوں پر فوقیت رکھتا ہے، اس لیے کہ قرآن کریم ہمشیہ کےلئے باقی ہے اور اس کا اعجاز دائمی ہے جسے تمام نسلیں سن سکتی ہیں اور یہ سب کے لیے حجت ہے۔

ii ) گذشتہ شریعتوں کی مدت ختم ہوگئی، کیوں کہ ان کی حجت اور دلیل (معجزہ) بھی ختم ہوچکی ہے جس پر ان شریعتوں کی صداقت مبنی تھی۔(۱)

یہاں پر یہ نکتہ بھی قابل ذکر ہے کہ قرآن کریم کو اس وجہ سے بھی گذشتہ انبیاء کے معجزات پر برتری حاصل ہے کہ قرآن کریم نے انسان کی ہدایت(۲) اور کمال کی آخری منزل تک اس کی رہنمائی کی ضمانت دی ہے۔

____________________

(۱) اسی کتاب کے ضمیمہ نمبر ۴ میں مولف اور ایک یہودی عالم کے درمیان ہونے والا مباحثہ ملاحظہ فرمائیں۔

(۲) وضاحت کے لیے اسی کتاب کا ضمیمہ نمبر۵ ملاحظہ فرمائیں۔

۵۷

قرآن کریم ہی وہ رہنما ہے جس نے ان عربوں کی ہدایت کی جو ظالم، سرکش، بدترین عادات کے خوگر اور بتوں کے پرستار تھے۔ جو علوم و معارف اور تزکیّہ ئ نفس سے عاری تھے اورداخلی جنگ و جدال اورجاہلیت پر مبنی فخر و مباھات میں مصروف رہتے تھے۔ یہی عرب ایک قلیل مدّت میں ایک ایسی اُمّت بن گئے جس کی ثقافت عظیم اور تاریخ رشن و درخشاں ارو جو انسانی عادادت و اخلاق سے آراستہ ہوچکی ہے؟

تاریخ اسلام اور راہ اسلام میں جام شہادت نوش کرنے والے اصحاب پیغمبر کے حالاتِ زندگی کا اگر کوئی مطالعہ کرے تو اس پر قرآنی ہدایت و رہبری کی عظمت اور اس کے حیرت انگیز اثرات عیاں ہوں گے، اسے معلوم ہوگا کہ قرآن نے ہی انہیں جاہلیت کی پست زندگی سے نکال کر علم و کمال کے بلند مراتب پر فائز کیا اور انہیں ایسے فداکار انسان بنایا جو دین و شریعت کی راہ میں جان کی بازی لگانے سے بھی دریغ نہیں کرتے اور جنہیں اسلام کے مقابلے مںی مال و دولت اور اہل و عیال کی پرواہ نہیں ہوتی۔

جنگ بدر کے آغاز میں مسلمانوں سے مشورہ کے موقع پر جناب مقدار نے رسولِ خد کو جواب دیا وہ اس حقیقت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ انہوں نے فرمایا:

''یا رسول الله امض لما امرک الله فنجن معک، و الله لانقول کما قالت بنو اسرائیل لموسی: اذهب انت و ربک فقباتلا انا ههنا قاعدون، و لکن اذهب انت و ربک فقاتلا انا معکما مقاتلون، فوالذی بعثک بالحق لوسرت بنا الی وبرک الغماد ۔یعنی مدینة الحبشة ۔لجالدنا معک من دونه حتی تبلغه ۔فقال له رسول الله خیراً، و دعا له بخیر،، (۱)

''یا رسول اللہ! خدا نے آپ کو جس مشن کا حکم دیا ہے اسے کرگزریں۔ ہم آپ کے ساتھ ہیں۔ ہم بنی اسرائیل کی مانند نہیں ہےں کہ جنہوں نے جناب موسیٰ سے کہا تھا: ''آپ خودجائیں اور اپنے خدا کی مدد سے جنگ کریں ہم یہیں بیٹھے رہیں گے۔،، لیکن ہم تو یہ کہتے ہیں کہ آپ جائیں اور

___________________

۱) تاریخ طبری، غزوہئ بدر، ج ۲، ص ۱۴۰، طبع دوم۔

۵۸

اپنے ربّ کی مدد سے جنگ کریں ہم بھی آپ کے ہمراہ جنگ کریں گے۔ قسم اس ذات کی جس نے آپ کو برحق نبی بنا کر بھیجا، اگر آپ ہمیں برک غماد (حبشہ شہر) بھی لے چلیں تو بھی ہم آپ کے ہمراہ جائیںگے، یہاں تک کہ آپ منزل مقصود پر پہنچ جائیں یہ کلام سننے کے بعد رسول اللہ نے جناب مقداد کے لیے دعائے خیر فرمائی۔،،

مسلمانوں میں سے ایک ہے جو اپنے عزم و عقیدہ، حق کو زندہ رکھنے اور باطل کو مٹانے کے لیے جانثاری کااظہار کررہا ہے، خلوص کے ایسے پیکر اور عقیدت مند مسلمانوں میں اور بہت پائے جاتے ہیں۔

ہاں! قرآن حکیم ہی وہ سراپا ہدایت ہے جس نے بت پرستوں کے دلون کو منور کیا جو خانہ جنگی اور جاہلیت کے فخر و مباھات میں الجھے ہوئے تھے اور ان لوگوں کو کفار کے مقابلے میں فولاد کی طرح سخت اور مومنین کے مقابلے میں ابریشم کی طرح نرم (رحمدل) بنایا۔ ان کیایسی تربیت کی کہ یہ اپنے ساتھیوں کو اپنی ذات پر ترجیح دینے لگے۔

اسلام کی بدولت اسّی سال میں مسلمانوں کو اتنے ممالک پر فتح نصیب ہوئی جو دوسروں کو آٹھ سو سال میں بھی نصیب نہیں ہوئی تھی۔ جو شخص اصحاب پیغمبر کی سیرت اور دیگر انبیاء کے اصحاب کی سیرت کا موازنہ کرے وہ سمجھ سکتا ہے کہ اس (فتح) کا ایک الہٰی راز ہے جو اس کتابِ الہٰی میں مضمر ہے، جس نے راسخ عقیدہ اور اصولوں کے ثبات سے دلوں اور روح کو پاکیزگی دی اور نفوس پر نور افشانی کی۔

حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) اور دیگر انبیاء کے اصحاب کی تاریخ بتاتی ہے کہ یہ لوگ سختی کے موقع پر انبیاء کو تنہا چھوڑ دیتے تھے اور جہاں انہیں موت نظر آتی وہاں ان کا ساتھ نہ دیتے تھے، اسی لیے گذشتہ انبیاء اپنے دور کی طاغوتی طاقتوں پر فتح نہ پاسکے تھے بلکہ وہ ان کے خوف سے بیابانوں اور غاروں میں جاکر پناہ لیتے تھے۔ یہ وہ دوسری خاصیت ہے جس کی وجہ سے قرآن کریم کو باقی معجزات پر امتیاز حاصل ہے۔

جب بلاغت میں قرآن کریم کا الہٰی معجزہ ہونا ثابت ہوگیا تو اب یہ حقیقت بھی پوشیدہ نہ رہے کہ قرآن صرف بلاغت کے پہلو سے معجزہ نہیں بلکہ کئی اور جہات سے بھی رسولِ اسلام کی نبوّت کی برہان اور دلیل ہے۔ ہم ان میں بعض جہات کی طرف ذیل میں اشارہ کرتے ہیں:

۵۹

قرآن اور معارف

قرآن کریم کی متعدد آیات میں اس کی تصریح کی گئی ہے کہ حضرت محمد مصطفیٰ (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) امّی تھے اور آپ نے کسی مکتب میں تعلیم حاصل نہیں کی۔ آپ نے اس کا اعلان اپنی قوم اور قبیلے میں فرمایا، جس میں آپ نے نشوونما پائی تھی۔ مگر کسی نے بھی آپ کے اس دعویٰ کی تردید نہیں کی اور یہ (کسی کا تردید نہ کرنا) آپ کے دعویٰ کی صداقت کی قطعی دلیل ہے۔ آپ نے امّی ہونے کے باوجود قرآن کریم جیسی کتاب پیش کی جس کے معارف و علوم سے فلسفیوں کی عقلیں مبہوت ہیں اور ظہور اسلام سے لے کر آج تک مغربی و مشرقی مفکرّین ان کے سامنے مبہوت نظر آتے ہیں اور قرآنِ کریم قیامت تک مفکرّین کے لیے باعثِ حیرت و استعجاب رہے گا اور یہ اعجاز قرآنِ کریم کا ایک اہم اور عظیم پہلو ہے۔

بالفرض اگر مان بھی لیا جائے کہ آپ امّی نہ تھے بلکہ آپ نے تاریخ، فنون اور دیگر معارف کی تعلیم کسی مکتب میں حاصل کی تھی تو کیا یہ لازمی نہیں ہے کہ آپ نے علوم و فنون اس دور کے ماہرین سے سیکھے ہوں جن میں آپ پھلے پھولے۔ حالانکہ ہمیں معلوم ہے کہ آپ نے ایسے لوگوں میں پرورش پائی جو بُتوں اور اوہام کی پرستش کرتے اور خرافات پر ایمان رکھتے تھے۔ ان کے علاوہ آپ کے کچھ ہم عصر اہلِ کتاب جو اپنے معارف، تاریخ اور احکام، حورات و انجیل سے لیتے تھے اور انہیں وحی و انبیاء کی طرف منسوب کرتے تھے۔

اب اگر یہ فرض کرلیا جائے کہ آپ نے اپنی تمام تعلیمات اس زمانے کے علماء سے حاصل کی تھیں تو اس کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ آپ کے اقوال و تعلیمات میں وہی عقائد چھائے ہونے چاہئیں جو آپ نے اپنے استادوں اور راہنماؤں سے سیکھے ہیں۔ حالانکہ قرآنِ کریم ہر لحاظ سے تورات و انجیل سے مختلف نظر آتا ہے۔

۶۰

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

هُوَ الَّذِي خَلَقَ لَكُم مَّا فِي الأَرْضِ جَمِيعاً ثُمَّ اسْتَوَى إِلَى السَّمَاء فَسَوَّاهُنَّ سَبْعَ سَمَاوَاتٍ وَهُوَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ ( ۲۹ )

وہ خدا وہ ہے جس نے زمين كے تمام ذخيروں كو تم ہى لوگوں كے لئے پيدا كياہے_ اس نے آسمان كا رخ كيا تو سات مستحكم آسمان بناديئے اور وہ ہر شے كا جاننے والا ہے_

۱_ زمين ميں موجود تمام ترنعمتوں كا خالق پروردگار عالم ہے _هو الذى خلق لكم ما فى الارض جميعاً جميعاًكا معنى كل ہے اور يہ ''ما'' موصولہ كا بدل واقع ہوا ہے_

۲_ الله تعالى نے زمين كى نعمتوں كو انسانوں كے استفادے كے لئے خلق فرمايا ہے_هو الذى خلق لكم ما فى الارض جميعاً يہ مطلب ''لكم'' ميں موجود لام انتفاع سے استفادہ ہوتا ہے_

۳_ انسان زمين كے تمام موجودات سے افضل و اشرف ہے _الذى خلق لكم ما فى الارض جميعاً

۴_ زمين كى نعمتوں سے استفادے كا حق تمام انسانوں كيلئے مساوى ہے_هو الذى خلق لكم ما فى الارض جميعاً

۵_ زمين كى تمام نعمتوں سے استفادہ كرنا حلال ہے_هو الذى خلق لكم ما فى الارض جميعاً

۶_ الله تعالى نے زمين كى نعمات خلق فرمانے كے بعد آسمان كو متعادل و متوازن ركھنے كا سامان فراہم فرمايا_ثم استوى الى السماء فسواهن ''استوى ''كا مصدر ''استوائ''ہے _ اگر ''الى '' كے ساتھ متعدى ہو تو ارادہ كرنا، متوجہ ہونا كے معانى ديتا ہے_يہ جملہ ''فسوّى ھن_پس الله نے آسمانوں كو توازن و اعتدال ميں قرار ديا'' متوجہ ہونے كے ہدف كو بيان كرتا ہے_ يعنى مطلب يوں ہوگا :استوى الى السّماء لتسويتهن ، الله تعالى نے آسمانوں كى طرف توجہ فرمائي (يا ارادہ فرمايا) كہ آسمانوں كو اعتدال و توازن ميں ركھے_

۱۰۱

۷_ الله تعالى نے عالم خلقت ميں سات آسمان قرار ديے _فسواهن سبع سماوات ''سوي''كا مصدر تسويہ ہے جسكا معنى ہے اعتدال كو وجود ميں لانا _ آيہ كريمہ ميں يہ فعل دو مفعول كے ساتھ آيا ہے ايك ''ھن'' اور دوسرا ''سبع سماوات'' اس اعتبار سے اسكا معنى تصير (ہونا) بنتا ہے جس ميں تبديل كا مفہوم بھى موجود ہے تو پس معنى يہ بنا : الله تعالى نے آسمان كو اعتدال ميں قرار ديا اور (پھر) اس كو سات آسمانوں ميں تبديل كر ديا_

۸_ اس عالم كے سات آسمانوں ميں مكمل اعتدال پايا جاتا ہے اور ان ميں ذرہ برابر انحراف يا نا ہم آہنگى نہيں ہے_فسواهن سبع سماوات

۹_ آسمانوں كى تخليق دو مرحلوں ميں ہوئي : ايك مرحلہ غير متوازن، ناشناختہ اور مخلوطجبكہ دوسرا مرحلہ بالكل مشخص، ممتاز اور متوازن تھا_ اس جملہ ''ثم استوى الى السمائ'' ميں لفظ السماء مفرد استعمال ہوا جبكہ جملہ ''فسواھن'' ميں جمع كى ضمير اسكى طرف لوٹتى ہے يہ مطلب ممكن ہے اس بات كى طرف اشارہ ہو كہ آسمان سات عدد ہونے سے پہلے ايك نامشخص اور مخلوط حالت ميں تھے پس اس لفظ ''السمائ'' كا اطلاق آسمان (مفرد) اور آسمانوں (جمع) دونوں پر ہوتا ہے_

۱۰_ ہر چيز الله تعالى كے وسيع علم كے دائرے ميں ہے_وهُو بكلّ شيء عليم ''عليم'' صيغہ مبالغہ ہے اور علم كى بہت زيادہ وسعت پر دلالت كرتا ہے_

۱۱_ سات آسمانوں اور زمين كى نعمتوں كى خلقت ايك عالمانہ آفرينش ہے_هو الذى خلق لكم و هو بكل شيء عليم

۱۲_ زمين اور سات آسمانوں كى موجودات كى تخليق اس بات كى دليل ہے كہ الله تعالى مردوں كو زندہ كرنے كى قوت و طاقت ركھتا ہے_ثم يحييكم ثم اليه ترجعون _ هو الذى خلق لكم فسواهنسبع سماوات يہ جملہ ''هوالذى ...'' ممكن ہے ماقبل آيت كے ذيل سے مربوط ہو اور يہ بھى ممكن ہے كہ اسكا ارتباط آيہء مباركہ كے ابتدائيہ سے ہو_ مذكورہ بالا مفہوم پہلے احتمال كى بنا پر ہے_

۱۳_ الله تعالى كے مطلق علم اور انتہائي وسيع قدرت و اقتدار پر ايمان قيامت اور مردوں كے زندہ ہونے كے بارے ميں ہر طرح كے شك و شبہہ كو زائل كر ديتا ہے_ثم يحييكم ثم اليه ترجعون _ هو الذى خلق و هو بكل شيء عليم يہ جملہ''هوالذى سبع سموت : '' الله تعالى كى بے انتہا قدرت كى طرف اشارہ ہے اور

۱۰۲

جملہ ''َوهو بكل شيئ: عَليم'' الله تعالى كے لامحدود علم كى طرف اشارہ ہے_ قيامت اور مردوں كو زندہ كرنے كا ذكر كرنے كے بعد الله تعالى كى لامحدود قدرت و علم كا بيان ہر شك وشبہہ كو زائل كرديتا ہے_

۱۴_ نعمتوں كے عطا كرنے والے اور ضرورتوں كے پورا كرنے والے پروردگار كا انكار ايك تعجب آور اور غير منطقى امر ہے_كيف تكفرون بالله هو الذى خلق لكم ما فى الارض جميعاً يہ مفہوم اس بنا پر ہے كہ اگر يہ آيت ماقبل آيت كے ابتدائيہ سے مربوط ہو_

۱۵_ لامحدود قدرتوں اور علم كے مالك پروردگار كا انكار كرنا ايك تعجب آور اور غيرمعقول بات ہے _كيف تكفرون بالله هو الذى خلق لكم و هو بكل شيء عليم

آسمان : سات آسمان ۷; آسمانوں كا ايك دوسرے ميں مخلوط ہونا ۹; آسمانوں كا متوازن ہونا ۶،۸،۹; آسمان كا متعدد ہونا ۷،۸; آسمانوں كى ايك دوسرے سے جدائي اور امتياز ۹; آسمان كى تخليق ۱۱، ۱۲; آسمانوں كى عالمانہ خلقت ۱۱; آسمانوں كى تخليق كے مراحل ۹

احكام : ۵

اسماء اور صفات : عليم ۹

الله تعالى : الله تعالى كا دائرہ علمى ۱۰; افعال خداوندى ۶،۷; الله تعالى كى خالقيت ۱،۲،۶; الله تعالى كى عنايات ۱، ۲، ۴، ۵، ۱۴; الله تعالى كا لامحدود علم ۱۰، ۱۵; الله تعالى كى لامحدود قدرت ۱۵; الله تعالى كى قدرت كى نشانياں ۱۲

امور : تعجب آور امور ۱۴،۱۵; غير معقول امور ۱۵

انسان : انسان كى ديگر موجودات پر برتري۳; انسانوں كے حقوق ۴; انسانوں كى فضيلتيں ۲،۳

ايمان : ايمان كے اثرات و نتائج۱۳; خدا كے علم پر ايمان ۱۳; قدرت خدا پر ايمان ۱۳; ايمان كے متعلقات ۱۳

جہان بينى : جہان بينى توحيدى ۱

حقوق : استفادے كا حق ۴

حلال ہونے كا قانون :۵

شبہات : قيامت كے بارے ميں شبہہ دور ہونے كے اسباب ۱۳

۱۰۳

كفر : كفر كا بے منطق ہونا ۱۴،۱۵; الله تعالى كے بارے ميں كفر ۱۴،۱۵

مردے : مردوں كا زندہ ہونا ۱۲،۱۳

موجودات : موجودات كى تخليق ۱۲

نعمت : نعمت سے استفادہ ۴،۵; دنياوى نعمتوں كا خالق ۱; نعمتوں كى تخليق ۱۱; نعمت كى خلقت كا فلسفہ ۲; نعمتوں كا سرچشمہ ۶

وَإِذْ قَالَ رَبُّكَ لِلْمَلاَئِكَةِ إِنِّي جَاعِلٌ فِي الأَرْضِ خَلِيفَةً قَالُواْ أَتَجْعَلُ فِيهَا مَن يُفْسِدُ فِيهَا وَيَسْفِكُ الدِّمَاء وَنَحْنُ نُسَبِّحُ بِحَمْدِكَ وَنُقَدِّسُ لَكَ قَالَ إِنِّي أَعْلَمُ مَا لاَ تَعْلَمُونَ ( ۳۰ )

اے رسول _ اس وقت كو ياد كرو جب تمھارے پروردگار نے ملائكہ سے كہا كہ ميں زمين ميں اپنا خليفہ بنانے والا ہوں اور انھوں نے كہا كہ كيا اسے بنائے گا جو زمين ميں فساد برپا كرے اور خونريزى كرے گا جب كہ ہم تيرى تسبيح اور تقديس كرتے ہيں تو ارشاد ہوا كہ ميں وہ جانتاہوں جو تم نہيں جانتے ہو_

۱_ آسمانوں اور زمين كى نعمات كى خلقت كے بعد الله تعالى نے انسان كو خلق فرمايا تاكہ اسے منصب خلافت تك پہنچائے_خلق لكم ما فى الارض و اذ قال ربك للملائكة انى جاعل فى الارض خليفة

آيت نمبر ۳۴ اور ديگر آيات جو حضرت آدمعليه‌السلام كى خلقت كے بارے ميں ہيں ان كو مدنظر ركھتے ہوئے كہا جا سكتا ہے كہ فرشتوں سے الله تعالى كى گفتگو حضرت آدمعليه‌السلام كے بارے ميں ، حضرت آدمعليه‌السلام كى خلقت سے پہلے تھي_ بنا برايں يہ جملہ ''انى جاعل فى اُلارُض خليفة ''حضرت آدمعليه‌السلام كى خلافت كے علاوہ خلقت پر بھى دلالت كرتا ہے گويا كہ مفہوم يوں ہے : ميں چاہتا ہوں ايك ''موجود'' كو خلق كروں اور اسے خليفہ قرار دوں _

۲_ عالم خلقت كے فلسفہ ميں انسان ايك والا مقام ركھتا ہے_هو الذى خلق لكم ثم استوى الى السماء و اذ قال ربك

۱۰۴

۳_ حضرت آدمعليه‌السلام كى خلقت و خلافت سے پہلے فرشتے خلق ہوچكے تھے_و اذ قال ربك للملائكه انى جاعل فى الارض خليفة

۴_ الله تعالى اور فرشتوں كے مابين انسان كى خلقت و خلافت كے بارے ميں بحث ہوئي_و اذ قال ربك للملائكة قالوا اتجعل فيها من يفسد قال انى اعلم ما لا تعلمون

:۵_ خدواند متعال نے انسان كى خلقت و خلافت كے بارے ميں اپنى مشيت و ارادے كو فرشتوں سے بيان فرمايا_

و اذ قال ربك للملائكة انى جاعل فى الارض خليفة

:۶_ زمين پر انسان كى خلافت كا فرشتوں سے ايك طرح كا ارتباط ہے_و اذ قال ربك للملائكة انى جاعل فى الارض خليفة يہ جو انسان كى خلقت و خلافت كا مسئلہ فرشتوں كے سامنے پيش كيا گيا يہ اس بات كى طرف اشارہ ہے كہ زمين پر انسان كے وجود كا فرشتوں سے گہرا ارتباط ہے_

۷_ انسان كى خلقت سے قبل فرشتوں كو انسان كے فساد وخون ريزى كا يقين تھا_قالوا اتجعل فيها من يفسد فيها و يسفك الدماء ''يسفك'' كا مصدر ''سفك'' ہے جسكا معنى گرانا ہے _ يہ جملہ''من َيسفك الدمآء '' وہ جو خون گرائے گا'' اس طرف كنايہ ہے كہ بہت زيادہ قتل و غارت گرى ہوگي_

۸_ انسان كے فساد پھيلانے كى پيشن گوئي كى بنا پر فرشتے انسان كو خلافت كا حقدار نہيں سمجھتے تھے_قالوا اتجعل فيها من يفسد فيها و يسفك الدماء

۹_ قتل اور خونريزى نہايت عظيم گناہ اور فسادگرى كا بہت واضح مصداق ہے_اتجعل فيها من يفسد فيها و يسفك الدماء فسادگرى ميں خون ريزى بھى شامل ہے پس ''يسفك الدمائ''كا ''يفسد فيھا'' پر عطف، عطف خاص على العام ہے اور يہ اس بات كى طرف اشارہ ہے كہ خونريزى اور قتل كا گناہ فساد گرى كى ديگر صورتوں سے كہيں زيادہ بڑا ہے جبكہ اس كى تباہى بھى زيادہ ہے_

۱۰_ فرشتے خداوند متعال كى تسبيح كرنے والے اور اسكى حمدوثنا كرنے والے ہيں _و نحن نسبح بحمدك و نقدس لك

۱۱_ فرشتے ادراك اور آگاہى ركھتے ہيں ، اپنى رائے كے اظہار كى صلاحيت ركھتے ہيں اور واقعات كى تحليل و تجزيہ بھى كر سكتے ہيں _قالوا أتجعل فيها من يفسد فيها و يسفك الدماء

۱۲_ فرشتے خداوند متعال كى تسبيح و ثنا كرنے ميں خالص ہيں _و نحن نسبح بحمدك و نقدس لك

۱۰۵

''لك'' نقدس كے علاوہ نسبح سے بھى متعلق ہے_ ''لك'' كے لام سے خلوص كا معنى نكلتا ہے يعنى :نقدس لك لا لغيرك_

۱۳_ تسبيح پروردگار كے ساتھ اسكى حمدوثنا بجا لانا ايك اچھى روش ہے_و نحن نسبح بحمدك ''بحمدك'' ميں باء كا معنى مصاحبت ہے اور استعانت بھى ہو سكتا ہے_ مذكورہ بالا معنى پہلے احتمال كى بنا پر ہے_

۱۴_ الله تعالى كى تعريف وستائش كرتے ہوئے ايسا كلام يا معانى كا استعمال كرنا چاہئے جس ميں ذرہ برابر بھى نقص يا عيب نہ ہو_و نحن نسبح بحمدك يہ معنى اسطرح ہے كہ اگر ''بائ'' كا معنى استعانت ہو پس ''نسبح بحمدك '' كا مفہوم يہ ہوگا: حمد وستائش كے وسيلے سے ہم تيرى تسبيح كرتے ہيں اور تجھے منزہ سمجھتے ہيں _ واضح ہے كہ خداوند متعال كى حمد و ستائش ميں تسبيح و تنزيہ كا مفہوم اس وقت ہوگا جب منتخب شدہ الفاظ يا معانى ميں كسى طرح عيب يا نقص نہ پايا جاتاہو_

۱۵_ عالم ہستى ميں فرشتوں كا اپنے وجود كى جانب متوجہ ہونا اور خود كو خلافت كے لائق جاننا يہ چيز باعث بنى كہ وہ انسان كى تخليق اور خلافت كا فلسفہ سمجھ نہ پائيں _قالوا ا تجعل فيها من يفسد فيها و نحن نسبح بحمدك يہ جملہ ''ونحن نسبح بحمدك'' حاليہ ہے جو اس مطلب كى طرف اشارہ ہے كہ فرشتے علاوہ بر ايں كہ انسان كو فتنہ و فساد كے باعث خلافت كا اہل نہ سمجھتے تھے خود كو اس مقام كا لائق جانتے تھے اور زمين كو انسان كى خلافت سے بے نياز سمجھتے تھے_

۱۶_ انسان ميں موجود صلاحيتيں اور استعداد تھى جو اس كے خلعت خلقت و خلافت كى شائستگى ركھتى تھيں _انى اعلم ما لا تعلمون ''ما لا تعلمون'' ممكن ہے انسان كى پوشيدہ صلاحيتوں كى طرف اشارہ ہو يا ممكن ہے اس سے مراد وہ علوم اور حقائق ہوں جو فرشتوں سے مخفى يا اوجھل تھے جبكہ فرشتے ان علوم كے حصول و ادراك كى صلاحيت نہ ركھتے تھے_ مذكورہ بالا مفہوم پہلے احتمال كى بنا پر ہے_

۱۷_ انسان ميں موجود كمالات اور اعلى اقدار اس كى فتنہ گرى و فساد كى تلافى كرنے والے ہيں _أتجعل فيها من يفسد فيها قال انى اعلم ما لا تعلمون انسان كے فتنہ و فساد كى پيشن گوئي كو الله تعالى نے رد نہيں فرمايا ليكن انسان ميں موجود خاص استعداد كى بنا پر اس كو خلافت كا مستحق سمجھا_ اس سے پتہ چلتا ہے كہ يہ صلاحيت و استعداد انسان كى منفى خصوصيات كى تلافى كرنے والى ہے_

۱۸_ فرشتوں كے پاس محدود معلومات اور آگاہى ہے _انى اعلم ما لا تعلمون

۱۹_ فرشتے انسانى كمالات اور اس كى اعلى اقدار سے

۱۰۶

ناآگاہ تھے_إنى اعلم ما لا تعلمون

۲۰_ اعلى انسانى اقدار سے فرشتوں كى ناآگاہى اس بات كا باعث بنى كہ انسان كا فتنہ و فساد ان كے سامنے جلوہ گر ہو اور وہ انسان كى خلقت و خلافت پر اعتراض كريں _أتجعل فيها من يفسد فيها قال إنى اعلم ما لا تعلمون

۲۱_ عالم ہستى كے تمام ترموجودات ميں راز و رمز پائے جاتے ہيں _ ان پر اعتراض كرنا ان كے وجود كى حكمت سے عدم آگاہى اور جہالت كى دليل ہے_أتجعلُ فيها من يفسد فيها قال إنى اعلم ما لا تعلمون

۲۲_ انسان ايسے علوم اور غيبى حقائق كو سيكھنے كى صلاحيت ركھتا ہے كہ جن كے سيكھنے كى استعداد فرشتے نہيں ركھتے_

إنى اعلم ما لا تعلمونيہ مطلب اس بنا پر ہے اگر ''ما لا تعلمون''سے مراد آدم عليه‌السلام ميں چھپى ہوئي صلاحيتيں نہ ہوں بلكہ مقصود الله تعالى كے ہاں موجود علوم اور حقائق ہوں پس آدم عليه‌السلام كى خلقت و خلافت كے سلسلے ميں ''إنى اعلم ما لا تعلمون''سے مراد يہ ہے: الله تعالى كے ہاں موجود حقائق سے آگاہى ايك اور موجود حاصل كر سكتاہے جبكہ فرشتے اس بار كو نہيں اٹھا سكتے اور نہ ہى آئندہ اس كى صلاحيت ركھيں گے_ صرف انسان ہے جو ان حقائق كو درك كرنے كى استعداد ركھتا ہے اور ان كا مظہر ہوسكتا ہے اس معنى كى تائيدآيت ۳۳ كا يہ جملہ ہے_ ''الم اقل...''

۲۳_ حضرت آدمعليه‌السلام اور ان كى نسل ان انسانوں كى قائم مقام ہے جو ان سے پہلے زمين پر رہتے تھے_إنى جاعل فى الارض خليفة ''خليفه'' كا معنى جانشين ہونا يا جاگزيں ہونا ہے_ يہ معنى اس بات كا تقاضا كرتا ہے كہ يہ انسان جس كا خليفہ بن رہا ہے وہ موجود رہا ہو جبكہ آيہ مجيدہ ميں بيان نہيں ہوا كہ وہ كون ہے_ يہى وجہ ہے كہ اس بارے ميں مختلف آراء بيان ہوئي ہيں ان ميں سے ايك نظريہ يہ ہے كہ حضرت آدمعليه‌السلام اور ان كى نسل سے قبل زمين پر انسان رہتے تھے ، يہ جو فرشتوں كو يقين ہے كہ انسان فتنہ و فساد پھيلائے گا اس احتمال كى تائيد كرتا ہے_

۲۴_ حضرت آدمعليه‌السلام سے پہلے زمين كے رہنے والے فسادى اور خونريزى كرنے والے تھے_إنى جاعل فى الارض خليفة قالوا أتجعل فيها من يفسد فيها آيت كا ظاہرى مطلب يہ ہے فرشتوں كو خليفہ بننے والے انسان كے بارے ميں يقين تھا كہ يہ فسادى و فتنہ پرور ہوگا_ يہ حقيقت ہوسكتا ہے ان دو مطلب كى طرف اشارہ ہو:

- i حضرت آدمعليه‌السلام اور ان كى نسل ما قبل انسانوں كے جانشين ہوں _

- ii پہلے انسان فسادى اور فتنہ پرور تھے_

۲۵_ انسان اس امر كا لائق ہے، شائستگى ركھتا ہے كہ خليفہ الہى بنے_

۱۰۷

إنى جاعل فى الارض خليفةبعد والى آيات ميں حضرت آدم (ص) كو ايك نمونہ انسان كے طور پر ياد كيا گيا ہے ايك ايسا انسان جو فرشتوں سے برتر ہے، جسے تمام اسماء كا علم عطا كيا گيا اور جس كوحقائق (زمين و آسمان كے غيب) كا علم ديا گيا ہو يہ سب اس بات كا قرينہ ہيں كہ خلافت سے مراد خلافت الہى ہے چونكہ انسان كا ايك ايسى مخلوق كے طور پر تعارف كرايا گيا ہے جو علم الہى كا مظہر ہے_

۲۶_ حضرت آدم (ص) كى خلقت و خلافت اور خداوند قدوس كا فرشتوں سے گفتگو كرنا نہايت سبق آموز واقعہ ہے جس ميں گہرے نكات ہيں _و إذ قال ربك للملائكة إنى اعلم ما لا تعلمون يہاں ''اذ'' فعل مقدّر ''اذكر'' كا مفعول ہے_

۲۷_حسين بن بشّار عن ابى الحسن على بن موسى الرضا (ص) قال : سألته أيعلم الله الشى الذى لم يكن أن لو كان كيف كان يكون او لا يعلم الّا ما يكون فقال انّ الله تعالى هوالعالم بالاشياء قبل كون الاشياء قال الله عزوجل '' إنّى أعلم ما لا تعلمون'' فلم يزل الله عزوجل علمه سابقاً للأشياء قديماً قبل ان يخلقها (۱)

حسين بن بشّار كہتے ہيں ميں نے امام رضا(ص) سے سوال كيا خداوند عالم جانتا ہے كہ جو چيزيں وجود ميں نہيں آئيں وہ كيسى ہوں گى يا يہ كہ ايسا نہيں ہے بلكہ اس چيز كے وجود ميں آنے كے بعد اسے جانتا ہے؟ امامعليه‌السلام نے فرمايا خداوند عالم اشياء كے وجود ميں آنے سے قبل ان كے بارے ميں علم ركھتا ہے_ الله عزوجل فرماتا ہے '' إنّى أعلم ما لا تعلمون_ ميں وہ سب كچھ جانتا ہوں جو تم نہيں جانتے'' پس الله تعالى كا علم ہميشہ اشياء كى خلقت اور وجود سے ماقبل ہے_

۲۸_پيامبر خداصلى الله عليہ وآلہ وسلم ارشاد فرماتے ہيں :''دحيت الارض من مكة ...وهى الارض التى قال الله ''إنى جاعل فى الارض خليفة ...' '(۲) زمين كا پھيلائو مكہ سے شروع ہوا اور مكہ وہى سرزمين ہے جس كے بارے ميں الله تعالى ارشاد فرماتا ہے ''ميں بے شك زمين ميں اپنا خليفہ بنانے والا ہوں ...''

۲۹_عن ابى جعفر محمد بن علي عليه‌السلام انه قال فى قول الله عزوجل: و اذ قال ربك للملائكة إنى جاعل فى الارض خليفة قالوا اتجعل فيها من يفسد فيها و قال وإنما قال ذلك بعض الملائكة لما عرفوا من حال من كان فى الارض من الجن قبل آدم (۳) عليه‌السلام عليه‌السلام الله تعالى كے اس كلام ''اور جب تيرے رب نے فرشتوں سے كہا كہ ميں زمين پر خليفہ بنانے والا ہوں تو انہوں نے كہا كيا (اے رب) تو زمين پر

____________________

۱) توحيد صدوق ص ۱۳۶ ح ۸ باب ۱۰ ، نورالثقلين ج/۱ ص ۵۳ ح ۸۴_ ۲) الدرالمنثور ج/۱ص۱۱۳، بحار الانوار ج/۵۴ ص ۲۰۶ ح ۱۵۶_

۳) دعائم الاسلام ج/۱ ص ۲۹۱ ، بحار الانوار ج/ ۹۶ ص ۴۷ ح ۳۶_

۱۰۸

ايسے كو خليفہ قرار دے گا جو فتنہ و فساد برپا كرے گا'' كے بارے ميں امام باقرعليه‌السلام فرماتے ہيں كہ بعض ملائكہ نے ايسا كہا تھا كيونكہ وہ حضرت آدم (ص) كى خلقت سے پہلے زمين پر جنات كا فتنہ و فساد ديكھ چكے تھے_

۳۰_ اميرالمومنين فرماتے ہيں ''قالت الملائكة سبحانك '' أتجعل فيها من يفسد فيها ويسفك الدماء ونحن نسبح بحمدك ونقدّس لك'' فاجعله منّا فانا لا نفسد فى الارض ولا نسفك الدماء قال جلّ جلاله ''إنى اعلم ما لا تعلمون'' انى اريد ان اخلق خلقا بيدى اجعل ذريته انبياء مرسلين وعباداً صالحين و آئمة مهتدين اجعلهم خلفائي فى ارضى ''(۱) ملائكہ نے عرض كيا پروردگار تو پاك و منزہ ہے كيا تو زمين پر ايسے كو قرار دے گا جو اس ميں فتنہ و فساد برپا كرے گا اور خون ريزى كرے گا جبكہ ہم تيرى حمدوثنا سے تيرى تسبيح بجا لاتے ہيں اور تيرى پاكيزگى بيان كرتے ہيں پس ہم ميں سے خليفہ قرار دے كيونكہ نہ تو ہم زمين پر فساد برپا كريں گے اور نہ ہى خونريزى كريں گے تو الله جل جلالہ نے ارشاد فرمايا ميں وہ جانتا ہوں جو تم نہيں جانتے ميں چاہتا ہوں كہ ايسى مخلوق كو خلق كروں جس كى نسل سے انبياء مرسلعليه‌السلام ، صالح بندے اور ہدايت يافتہ آئمہ وجود ميں آئيں اور (پھر) انہى كو زمين پر اپنا خليفہ قرار دوں _

۳۱_ امام صادق عليہ السلام سے روايت ہے آپ(ص) نے فرمايا : ''إن الملائكة قالوا نحن نقدسك و نطيعك و لا نعصيك كغيرنا قال فلما اجيبو بما ذكر فى القرآن علموا انهم تجاوزوا ما لهم فلاذوا بالعرش استغفاراً (۲)

ملائكہ نے كہا ہم تيرى پاكيزگى بيان كرتے ہيں ، تيرى اطاعت كرتے ہيں اورنہ ہى تيرى نافرمانى كرتے ہيں جيسے دوسرے كرتے ہيں _ امام(ص) فرماتے ہيں جيسا كہ قرآن ميں آيا ہے فرشتوں نے الله تعالى كا جواب سنا تو سمجھ گئے كہ انہوں نے اپنى حد سے تجاوز كيا ہے پس انہوں نے طلب مغفرت كے لئے عرش الہى كى پناہ لے لي_

۳۲_ امام على عليہ السلام سے روايت ہے آپعليه‌السلام نے فرمايا: ''او كل علم يحتمله عالم ؟ إنّ الله تعالى قال لملائكته ''إنى جاعل فى الارض خليفة قالوا أتجعل فيها من يفسد فيها ...'' فهل رأيت الملائكة احتملوا العلم؟ (۳) كيا ہر علم عالم كے لئے قابل تحمل ہے ؟ الله تعالى نے اپنے فرشتوں سے فرمايا : _ ميں زمين پر خليفہ بنا رہا ہوں تو انہوں نے كہا كيا تو ايسے كو قرار دے گا جو زمين پر فتنہ و فساد برپا كرے گا كيا تم سمجھتے ہو كہ يہ علم فرشتوں كے لئے قابل تحمل تھا؟

____________________

۱) علل الشرايع ج/۱ ص۱۰۵ ح /۱ باب ۹۶ ، نورالثقلين ج/۱ ص۵۱ ح ۸۰_ ۲) تفسير تبيان ج/۱ ص۱۳۶ ، نورالثقلين ج/۱ ص۵۴ ح ۸۶_

۳) بحار الانوار ج/۲ص ۲۱۱ ح۱۰۶ ، نورالثقلين ج/۱ص۵۱ ح ۷۹_

۱۰۹

آسمان : آسمانوں كى خلقت ۱

الله تعالى : افعال الہى ۱; الله كى تقديس وپاكيزگى كا بيان ۱۰;الله تعالى كى خالقيت ۱; الله تعالى كو معدوم اشياء كا علم ہونا ۲۷; الله تعالى كا علم۲۷; مشيت و مقدرات الہى ۵

الله تعالى كا خليفہ : ۲۵، ۳۰

انبياءعليه‌السلام : انبياءعليه‌السلام كے فضائل ۳۰

انسان : انسانى كمال كے اثرات و نتائج۱۷; انسانى صلاحيتيں اور استعداد ۱۶،۱۷،۲۲، ۲۵; انسان كا فساد برپا كرنا ۷، ۸، ۱۷، ۲۴; حضرت آدمعليه‌السلام سے پہلے كے انسان ۲۳، ۲۴; انسان كى ملائكہ پر برترى ۲۲; انسان كى تاريخ ۲۳; انسان كى خلافت ۱، ۴، ۵، ۶، ۸، ۱۶، ۲۰، ۲۳، ۲۵; انسان كى خلقت ۴، ۵، ۱۶، ۲۰; انسانى خونريزى ۷، ۲۴; انسان كے فضائل ۱۶، ۱۷، ۱۹، ۲۰; انسان كى خلقت كا فلسفہ ۱، ۳۰; انسان كا كمال ۱۹; انسان كے درجات ۲، ۲۵; انسان كى خصوصيات ۲۲

تاريخ : تاريخ سے عبرت لينا ۲۶; تاريخ كے فوائد ۲۶

تسبيح : الله تعالى كى تسبيح كے آداب ۱۳; تسبيح خداوندى ۱۰، ۱۲

جنات : جنات كا فساد برپا كرنا ۲۹; جنات كى تاريخ ۲۹

جہالت : جہالت كے اثرات ونتائج۲۱

جہان بينى يا( نظريہء كائنات ): توحيدى جہان بينى ۱

حضرت آدمعليه‌السلام : آدم(ص) كى تاريخ خلقت ۳; حضرت آدم (ص) كے واقعہ كى تعليمات ۲۶; حضرت آدم (ص) كى خلافت ۳، ۲۳، ۲۶; حضرت آدمعليه‌السلام كى خلقت ۲۶

حمد : حمد الہى كے آداب ۱۴; خدا تعالى كى حمد ۱۰، ۱۲، ۱۳

روايت : ۲۷، ۲۸، ۲۹، ۳۰، ۳۱، ۳۲

زمين : زمين كا نقطئہ آغاز ۲۸; زمين كى تاريخ ۲۸; زمين كا پھيلاؤ۲۸

صالحين : صالحين كے فضائل ۳۰

عبرت : عبرت كے عوامل ۲۶

۱۱۰

علم : پسنديدہ علم ۳۲

فساد برپا كرنا : فساد برپا كرنے كے موارد ۹

قتل : قتل كا گناہ ۹

گناہان كبيرہ : ۹

مكّہ معظّمہ: مكّہ معظّمہ كے فضائل ۲۸

ملائكہ : ملائكہ كى جہالت كے اثرات و نتائج ۲۰;ملائكہ كا اخلاص ۱۲ ملائكہ كا ادراك۱۱;ملائكہ كا پناہ طلب كرنا ۳۱; ملائكہ كى صلاحيت۲۲; ملائكہ كا استغفار كرنا ۳۱; ملائكہ كى بصيرت۱۵;ملائكہ كى پيشين گوئي۸;ملائكہ كى خلقت كى تاريخ ۳; ملائكہ كى تسبيح ۱۰ ، ۱۲; ملائكہ كا ناآگاہ ہونا ۱۹ ; ملائكہ كو علم غيب ہونا۷; ملائكہ كا علم ۱۱ ; ملائكہ كى اللہ سے گفتگو ۴ ، ۵ ، ۲۶; ملائكہ كے علم كا دائرہ كار ۱۸;ملائكہ اور انسان كى خلقت ۱۵ ، ۲۰; ملائكہ اور انسان كى خلافت ۶،۸،۱۵،۲۰

موجودات: موجودات كا راز ۲۱; موجودات كى خلقت كا فلسفہ ۲۱; حضرت ادمعليه‌السلام سے پہلے كى موجودات ۲۹

نعمت: نعمت كا سرچشمہ ۱

وَعَلَّمَ آدَمَ الأَسْمَاء كُلَّهَا ثُمَّ عَرَضَهُمْ عَلَى الْمَلاَئِكَةِ فَقَالَ أَنبِئُونِي بِأَسْمَاء هَؤُلاء إِن كُنتُمْ صَادِقِينَ ( ۳۱ )

اور خدا نے آدم كو تمام اسماء كى تعليم دى اور پھر ان سب كو ملائكہ كے سامنے پيش كركے فرمايا كہ ذرا تم ان سب كے نام تو بتاؤ اگر تم اپنے خيال استحقاق ميں سچے ہو_

۱_ اللہ تعالى نے حضرت ادمعليه‌السلام كو مخصوص علوم كے حصول كى وسيع استعداد عطا فرمائي اور ان كے تمام حقائق اور اسماء تعليم فرمائے_وعلم ادم الا سماء كلها جملہ ''علم ادم'' ايك مقدر جملے پرعطف ہے جو انتہائي واضح ہونے كى بنا پر كلام ميں نہيں ايا_يہ جملہ''انّى جاعل ...''كے قرينے سے يہ ہو سكتا ہے :فخلق ادم جديراًللخلافة و

۱۱۱

۲_ انسان كى افرينش كى حكمت اور زمين پر اس كى خلافت كى لياقت اس ميں ہے كہ وہ عالم ہستى كے حقائق سيكھنے كى توانائي ركھتا ہے_إنى جاعل فى الارض خليفه ...وعلّم ادم الاسماء كلّها''

۳_ انسان كا سب سے پہلا استاد خداوندقدوس ہے _وعلم ادم الا سماء كلها

۴_ علوم اور معارف كے سيكھنے ميں اشياء كى علامتيں يا ان كے نام بہت بنيادى كردار ركھتے ہیں _وعلم ادم الاسماء كلها ''الاسمائ' 'سے مراد عالم ہستى كے حقائق ہيں نہ فقط ان كے نام اور علامتيں _پس عالم ہستى كے حقائق كو ناموں اور علامتوں سے تعبير كرنا اس بات كى علامت ہے كہ چيزوں كے نام، علوم و معارف كى دنيا ميں بہت اہم كردار كے حامل ہيں

۵_حضرت ادمعليه‌السلام كوجو حقائق تعليم ديئے گئے ہيں وہ ذى شعور اور عاقل مخلوقات كے بارے ميں تھے_وعلم ادم الا سماء كلها ثم عرضهم على الملائكة ''ھم''كى ضميرمعمولا با شعور اور عاقل موجودات كيلئے استعمال ہوتى ہے_بنابريں مذكورہ بالا مفہوم اس بناپر ہے كہ ''ھم'' كى ضمير ''الا سمائ'' كى طرف لوٹتى ہے_

۶_اللہ تعالى نے موجودات عالم ہستى كو فرشتوں كے سامنے پيش كيا اور ان سے چاہا كہ ان كے نام بيان كرےں _

ثم عرضهم على الملائكة فقال ا نبئونى باسماء هو لاء ''أنبئوا''فعل امر ہے اور اس كا مصدر ''انبائ''ہے جس كا معنى ہے خبر دينا_

۷_ فرشتوں كا دعوى تھا كہ وہ حضرت ادمعليه‌السلام سے برتر ہیں _أنبئونى با سماء هو لاء ان كنتم صادقين _

فرشتوں كا حضرت ادمعليه‌السلام كى خلقت وخلافت پر اعتراض كرنے كے بعد يہ كہنا ''ونحن نسبح ...'' اس مطلب كى طرف اشارہ ہے كہ''صادقين '' سے متعلق چيز فرشتوں كى ادمعليه‌السلام پر برترى تھى _ گويا مفہوم يہ ہوگا :اگر سچ كہتے ہو كہ تم ادم سے برتر اور مقام خلافت كے زيادہ لائق ہو تو

۸_عالم ہستى كے حقائق كا علم اعلى اقدار ميں سے ہے _إنى اعلم مالاتعلمون _وعلم ادم الا سماء كلها

۹_ حضرت ادمعليه‌السلام كى بہت زيادہ اگاہى فرشتوں پر برترى كا راز تھا _وعلم ادم الا سماء كلها ان كنتم صادقين

۱۰_عن ابى العباس عن ابى عبداللّه عليه‌السلام سالته عن قول الله ''وعلم آدم الاسماء كلها '' ماذا علمه؟ قال الارضين والجبال والشعاب والأوديه ثم نظر الى بساط تحته فقال و هذا البساط مماعلّمه (۱)

____________________

۱) تفسير عياشى ج ۱ ص ۳۲ ح ۱۱، نور الثقلين ج ۱ ص ۵۵ ح ۸۸_

۱۱۲

ابوالعباس كہتے ہيں كہ اللہ تعالى كے اس كلام ''اوراللہ نے ادم كوتمام كے تمام اسماء سكھائے '' كے بارے ميں 'ميں نے امام صادقعليه‌السلام سے سوال كيا كہ خدا وند متعال نے حضرت ادمعليه‌السلام كوكيا سكھايا ؟ حضرتعليه‌السلام نے فرمايا: زمين 'پہاڑ' درّے' وادياں پھر اپعليه‌السلام نے اپنے نيچے بچھى ہوئي بساط (دري)كى طرف نگاہ كى اور فرمايايہ بساط بھى ان ميں سے ہے جس كا علم اللہ تعالى نے حضرت ادمعليه‌السلام كو ديا_

۱۱_امام صادقعليه‌السلام فرماتے ہيں :إن الله تبارك و تعالى علّم ادم اسماء حجج الله كلّها ثمّ عرضهم و هم ارواح_ على الملائكة فقال '' أنبئونى بأسماء هؤلاء ان كنتم صادقين'' بأنكم احق بالخلافة فى الارض لتسبيحكم وتقديسكم من ادم عليه‌السلام (۱) خدا وند متعال نے اپنى تمام حجتوں كا علم حضرت ادمعليه‌السلام كو عنايت فرمايا پھر ان كى ارواح كوفرشتوں كے سامنے پيش كيا ا ور پھر فرمايا ''مجھے وہ اسماء بتاو اگر تم سچے ہو '' كہ تم ہى ادم سے زيادہ خلافت كے حق دار ہو اپنى تسبيح وتقديس كى وجہ سے؟

اقدار: ۸

اللہ تعالى : اللہ تعالى كى حجتيں ۱۱; خداوند قدوس كى اہميت۳

انسان: انسان كا ادراك ۲; انسان كى صلاحيتيں ۲; انسان كى خلافت كا فلسفہ۲;خلقت انسان كا فلسفہ ۲;انسان كا معلم ۳;انسان كى خصوصيات۲ تعليم: تعليم كا سرچشمہ۴

حضرت ادمعليه‌السلام : حضرت آدمعليه‌السلام كى صلاحيتيں ۱; حضرت ادمعليه‌السلام كو تعليم ديئے گئے اسماء ۵; حضرت ادمعليه‌السلام كى ملائكہ پر برترى ۹; حضرت اد معليه‌السلام كو اسماء كى تعليم ديا جانا ۱،۵،۱۰،۱۱; حضرت ادمعليه‌السلام كى تخليق ۱; موجودات كا حضرت ادمعليه‌السلام كے سامنے پيش كيا جانا ۱۰; حضرت ادمعليه‌السلام كا علم ۹; حضرت ادمعليه‌السلام كى برترى كا فلسفہ ۹; حضرت ادمعليه‌السلام كا واقعہ ۱;حضرت ادمعليه‌السلام كى خصوصيات ۱

حقائق: حقائق كے علم كى قدروقيمت۸

روايت:۱۰،۱۱ علم: علم كى اہميت۳ معلم: سب سے پہلا معلم۳

ملائكہ: ملائكہ كے دعوے ۷;ملائكہ كى بڑائي ۷; موجودات كا ملائكہ كے سامنے پيش كيا جانا۶

موجودات : موجودات كے ناموں كى اہميت ۴

____________________

۱) اكمال الدين صدوق ج ۱ ص۱۴ ، نور الثقلين ج ۱ ص ۴۵ ح ۸۷_

۱۱۳

قَالُواْ سُبْحَانَكَ لاَ عِلْمَ لَنَا إِلاَّ مَا عَلَّمْتَنَا إِنَّكَ أَنتَ الْعَلِيمُ الْحَكِيمُ ( ۳۲ )

ملائكہ نے عرض كى كہ ہم تو اتنا ہى جانتے ہيں جتنا تو نے بتاياہے كہ تو صاحب علم بھى ہے اور صاحب حكمت بھى _

۱_ فرشتوں كے سامنے جو حقائق پيش كيئے گئے ان سے وہ نا اگاہ تھے اور اسماء كے بيان كرنے سے عاجز رہے_

ثم عرضهم على الملائكة قالوا سبحانك لا علم لنا الا ما علمتنا

۲_خداوند متعال كى ذات اقدس ہر نقص اور عيب سے پاك ومنزہ ہے_قالوا سبحانك

۳_ پروردگار عالم كى ذات اقدس منزہ ہے اس امرسے كہ موجودات كے اسرار اور ان كى مخفى گاہ سے اگاہ نہ ہو_ أنبئونى بأسماء هو لائ ...قالوا سبحانك لفظ ''سبحانك '' كا استعمال ايسے موارد ميں ہو تا ہے جہاں اللہ تعالى كے بارے ميں متكلم كا كلام نقص يا عيب كا وہم وگمان كرے_ فرشتے چونكہ مقام جواب ميں ہيں اس ليئے ان كے كلام سے وہم پيدا ہوتا ہے كہ گويا خداوند متعال ان كے جواب كى پہلے سے اگاہى نہيں ركھتا لہذا ''سبحانك'' كہنے كا ہدف يہ ہے كے اللہ تعالى اس طرح كے وہم وگمان سے پاك ومنزہ ہے _

۴_ فرشتوں كا علم وبصيرت اللہ تعالى كى جانب سے ہے_لا علم لنا إلاّ ما علمتنا

۵_ خدائے بزرگ وبرتر كى ذات اقدس عليم (انتہائي زيادہ جاننے والا ) اور حكيم (ايسا زيرك و دانا جو امور كو مستحكم واستوار بنائے)ہے_إنك أنت العليم الحكيم

''حكيم'' كےمعانى ہيں قاضى ،صاحب حكمت اور امور كو استحكام بخشنے والا _اس ايت ميں بيان شدہ حقائق سے دوسرا اور تيسرا معنى زيادہ مناسبت ركھتا ہے_

۶_ ذات بارى تعالى وہ واحد حقيقت ہے جو لا محدود (مطلق ) علم وحكمت كى مالك ہے_إنك أنت العليم الحكيم

خبر (العليم الحكيم )پر ''ال'' كا انا اور جملے

۱۱۴

ميں ضمير فصل''انت''كا ہونا حصر پر دلالت كرتا ہے_

۷_ اللہ تعالى كا علم ذاتى ہے اور دوسروں كى دانش اللہ كى جانب سے عطا اور عنايت ہے_لا علم لنا إلاماعلمتنا إنك أنت العليم الحكيم يہ جملہ''انك انت ...''اس مطلب كے بعد بيان ہواہے كہ فرشتوں كا علم ذاتى نہيں بلكہ وہبى ہے پس يہ اس مطلب كى طرف اشارہ ہے كہ اللہ تعالى كاعلم ذاتى ہے_

۸_ حضرت ادمعليه‌السلام فرشتوں سے برتر اور ان سے زيادہ عالم تھے_وعلم ادم الا سماء كلها قالوا سبحانك لا علم لنا إلاما علمتنا

۹_ فرشتوں كو اللہ تعالى كا (حقائق كے اسماء بيان كرنے كيلئے ) حكم دينا افعال الہى كے حكيمانہ اور عالمانہ ہونے كى ياد اورى اور انہيں حضرت ادمعليه‌السلام كى علمى برترى سے اگاہ كرنا تھا_أانبئونى بأسماء هولاء قالوا سبحانك إنك أنت العليم الحكيم

۱۰_ فرشتوں كا اعتراف كرنا كہ انسان كى خلقت عالمانہ اور حكيمانہ تھى اسى طرح اس كا خلافت كيلئے انتخاب درست تھا_إنك أنت العليم الحكيم

انسان كى خلافت كيلئے لياقت ميں شك وترديد كے بعد فرشتوں كا خداوند متعال كو عليم وحكيم كہہ كر توصيف و ثنا كرنے كا مقصد يہ تھا كہ انہوں نے انسان كى عظمت كا اقرار كيا اور اس كى عالمانہ اور حكيمانہ خلقت كا اعتراف كيا_

اسماء اور صفات : حكيم ۵; جلالى صفات ۲،۳; عليم ۵

اللہ تعالى : اللہ تعالى كے مختصات ۶;اللہ تعالى كے فعال ۹; اللہ تعالى كا منزہ ہونا۲،۳; اللہ تعالى كى حكمت ۶،۹ ;اللہ تعالى اور عدم اگاہى ۳; اللہ تعالى كى عنايات ۷; علم الہى ۶،۹; اللہ تعالى كا علم ذاتى ۷

انسان : انسان كى خلافت ۱۰; انسان كى خلقت ۱۰

حضرت ادمعليه‌السلام : حضرت ادمعليه‌السلام كى ملائكہ پر برترى ۸،۹; حضرت ادمعليه‌السلام كا علم ۸،۹

علم : علم كا سر چشمہ ۷

ملائكہ : ملائكہ كا اقرار ۱۰;ملائكہ كا متنبہ ہونا ۹;ملائكہ كى نا اگاہى ۱; ملائكہ كا عجز ۱; ملائكہ كے سامنے موجودات كو پيش كيا جانا۱،۹;ملائكہ اور انسان كى خلافت ۱۰;ملائكہ اور انسان كى خلقت ۱۰;ملائكہ كے علم كا سرچشمہ ۴

۱۱۵

قَالَ يَا آدَمُ أَنبِئْهُم بِأَسْمَآئِهِمْ فَلَمَّا أَنبَأَهُمْ بِأَسْمَآئِهِمْ قَالَ أَلَمْ أَقُل لَّكُمْ إِنِّي أَعْلَمُ غَيْبَ السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضِ وَأَعْلَمُ مَا تُبْدُونَ وَمَا كُنتُمْ تَكْتُمُونَ ( ۳۳ )

ارشاد ہوا كہ آدم اب تم انھيں باخبر كردو_تو جب آدم نے باخبر كرديا تو خدا نے فرمايا كہ ميں نے تم سے نہ كہا تھا كہ ميں آسمان و زمين كے غيب كو جانتاہوں اور جو كچھ تم ظاہر كرتے ہو يا چھپاتے ہو سب كو جانتاہوں _

۱_ اللہ تعالى نے ادمعليه‌السلام كو حكم ديا كہ حقائق ہستى ميں سے ہر ايك كا نام فرشتوں كے لئے بيان كرے_قال يا ادم انبئهم با سماء هم

۲_ حضرت ادمعليه‌السلام نے حقائق ہستى كے اسماء فرشتوں كے لئے بيان كيئے_فلما انبأهم بأسماء هم

۳_ حقائق ہستى كے نام جان لينے كے بعد فرشتوں كو علم ہوگيا كہ اسمان اور زمين غيب ركھتے ہيں _فلما انبأهم ...قال ألم اقل لكم إنى أعلم غيب السماوات والارض

۴_ حضرت ادمعليه‌السلام اللہ تعالى كے خليفہ اور فرشتوں كے لئے فيض الہى كا واسطہ وذريعہ ہیں _يا ادم انبئهم بأسماء هم فلما انبأهم با سماء هم

۵_ حضرت ادمعليه‌السلام فرشتوں كے معلم و استاد_ قال يا ادم انبئهم با سماء هم فلما ا نبأهم با سماء هم

۶_ جہان افرينش كے متعدد اسمان ہیں _انى اعلم غيب السماوات

۷_ اسمانوں اور زمين (ہستي) ميں غيب ہے جو فرشتوں سے مخفى تھا_إانّى أعلم ما لا تعلمون ألم اقل لكم إنى اعلم غيب السماوات والارض

۸_ اللہ تعالى اسمانوں اور زمين كے غيب سے اگاہ ہے_انى أعلم غيب السماوات والارض

۹_ اللہ تعالى نے ادم كو جو اسماء وحقائق تعليم فرمائے ان

۱۱۶

كا تعلق ہستى كے غيب سے تھا_إنّى اعلم ما لا تعلمون ...ألم اقل لكم إنّى اعلم غيب السماوات والارض ''الم اقل ...كيا ميں نے تمھيں نہ كہا تھا كہ زمين و اسمانوں كے غيب سے ميں واقف ہوں '' ظاہراً يہ جملہ اس جملے ''إنّى أعلم ''كى تفصيل ہے جو ايت ۳۰كے ذيل ميں ايا ہے پس ''مالا تعلمون ''سے مراد اسمانوں اورزمين كا غيب ہے اور ''إنّى أعلم مالا تعلمون ''كے بعد ''وعلّم ادم ...'' كا انا اس طرف اشارہ ہے كہ جو نام حضرت ادم عليه‌السلام كو تعليم ديئے گئے وہ ''مالاتعلمون ''كا مصداق ہيں اس گفتگو كى روشنى ميں ''الاسمائ''سے مراد اسمانوں اور زمين كا غيب ہے_

۱۰_اللہ تعالى كا حضرت ادمعليه‌السلام كو (فرشتوں كو اسماء كى تعليم كا)حكم دينے كا مقصد ادمعليه‌السلام كى فرشتوں پر برترى ثابت كرنااور ادمعليه‌السلام كى ان پر فضيلت كو سمجھانا تھا_قال يا ادم انبئهم بأسمائهم بعد والى ايت كے قرينے سے اس بات كو سمجھا جا سكتا ہے كہ اللہ تعالى كے حضرت ادمعليه‌السلام كو( فرشتوں كو اسماء كى تعليم كا) حكم دينے كا مقصد ادمعليه‌السلام كى فرشتوں پر برترى اور فضيلت ثابت كرنا تھا_

۱۱_ حضرت ادمعليه‌السلام كى خلقت و خلافت كے وقت فرشتوں كے دل ياضمير ميں كوئي چيز مخفى تھى جس كو بيان كرنے سے اجتناب كررہے تھے _واعلم ما تبدون وما كنتم تكتمون

۱۲_ اللہ تعالى فرشتوں كے اشكار اور مخفى امور سے اگاہ ہے_أعلم ما تبدون وما كنتم تكتمون

۱۳_ فرشتے اپنے امور كو ديگر فرشتوں سے مخفى ركھنے پر قادر ہيں _أعلم ما تبدون وما كنتم تكتمون

۱۴_ امام صادقعليه‌السلام سے روايت ہے اپعليه‌السلام نے فرمايا:''إن الله تبارك و تعالى علم ادم اسماء حجج الله كلها فقال ...''أنبئهم باسماء هم فلما أنبا هم با سمائهم'' وقفوا على عظيم منزلتهم عندالله تعالى فعلموا إنهم احق بان يكونوا خلفاء الله فى ارضه وحججه على بريته وقال لهم ''ألم اقل لكم إنى أعلم غيب السماوات والارض و أعلم ماتبدون وماكنتم تكتمون ''(۱) اللہ تعالى نے اپنى تمام حجتوں كے اسماء حضرت ادمعليه‌السلام كو تعليم فرمائے پس فرمايا ''ملائكہ كو ان نامو ں سے اگاہ كرو پس جب ملائكہ كو ان كے ناموں سے اگاہ كيا''تو ملائكہ ان كى الله تعالى كے ہاں عظيم منزلت و مقام سے اگاہ ہوگئے اور يہ جان ليا كہ يہى ہستياں زيادہ حق ركھتى ہيں كہ الله كى زمين پر اس كے خليفہ ہوں اور اس كى مخلوق پر حجت ہوں اور اللہ تعالى نے فرشتوں سے ارشاد فرمايا :''كيا ميں نے تم سے نہ كہا تھا كہ بيشك ميں اسمانوں اور زمين كے غيب كو زيادہ جانتا ہوں اور جو كچھ تم اشكار كرتے ہويا پنہا ں كرتے ہو اس سے ميں اگاہى ركھتا ہوں ''

____________________

۱) اكمال الدين صدوق ج ۱ ص۱۴ ،بحارالانوار ج۱۱ ص ۱۴۵ ح ۱۵_

۱۱۷

۱۵_عن ابى جعفر عليه‌السلام انّه قال فى قول الله ...''واعلم ما تبدون وما كنتم تكتمون'' يعنى ما ا بدوه بقولهم'' ا تجعل فيها من يفسد فيها و يسفك الدمائ '' و ما كتموه فقالوا فى انفسهم ما ظننا ان الله يخلق خلقاًاكرم عليه منا (۱) امام محمد باقر عليہ السلام سے روايت ہے اپعليه‌السلام نے اللہ تعالى كے اس كلام ''اور ميں جو كچھ تم اشكار كرتے ہو يا تم چھپاتے ہو بہتر اگاہ ہوں ''كے بارے ميں فرمايا يعنى (مراد) يہ ہے كہ جوچيز انھوں نے اپنے قول يا كلام سے ظاہر كى وہ يہ تھى ''كيا تو ايسے كو زمين ميں قرار دے گا جو اس ميں فساد برپا كرے گا اور خون بہائے گا '' اور جو چيز انھوں نے پنہا ں ركھى وہ يہ تھى كہ انھوں نے دل ہى دل ميں كہا كى ہمارا گمان نہ تھا كہ اللہ تعالى كسى ايسے كو خلق فرمائے گا جو ہمارى نسبت زيادہ اس كے ہاں صاحب عزت وشرف ہو گا _

اسمان: آسمان كا متعدد ہونا۶;اسمانوں كے غيب ۳،۷ ، ۸

اللہ تعالى : اوامر الہي۱;اللہ تعالى كى حجتيں ۱۴;اللہ تعالى كا علم غيب ۸،۲،۱۴،۱۵;اللہ كے اوامر كا فلسفہ ۱۰;اللہ تعالى كے علم كا دائرہ ۸،۱۲;فيض الہى كا ذريعہ ۱۴ اللہ تعالى كا خليفہ :۴،۱۴

حديث:۱۴،۱۵

حضرت ادمعليه‌السلام : حضرت ادمعليه‌السلام كے اثار وجودى ۴;حضرت ادمعليه‌السلام اور ملائكہ ۲،۴،۵; حضرت ادمعليه‌السلام كو تعليم اسمائ۹; حضرت ادمعليه‌السلام كى ملائكہ پر برترى ۵،۱۰; حضرت ادمعليه‌السلام كوتعليم ديئے گئے اسماء ۱،۱۴; حضرت ادمعليه‌السلام كى خلافت ۴،۱۱; خلقت ادمعليه‌السلام ۱۱; حضرت ادمعليه‌السلام كا علم ۱،۲; حضرت ادمعليه‌السلام كے فضائل ۵،۱۰; حضرت ادمعليه‌السلام كا واقعہ ۱،۲،۵; حضرت ادمعليه‌السلام كے درجات ۴;

زمين : زمين كا غيب ۳،۷،۸

كائنات (عالم ہستي): كائنات كا غيب۹

ملائكہ : ملائكہ كو اسماء كى تعليم ۱۰; ملائكہ كا راز۱۲; ملائكہ كا علم ۳; ملائكہ كى قدرت وتوانائي۱۳;ملائكہ كا دائرہ علم ۷; ملائكہ كا معلم ۵; ملائكہ اور حقائق كا مخفى كرنا ۱۱،۱۳;ملائكہ پر فيض كا ذريعہ۴

موجودات : موجودات كے نام ۱،۲،۳

____________________

۱) دعائم الاسلام ج/۱ص/۲۹۱، بحار الانوار ج/۹۶ ص/۴۷ ح /۳۶_

۱۱۸

وَإِذْ قُلْنَا لِلْمَلاَئِكَةِ اسْجُدُواْ لآدَمَ فَسَجَدُواْ إِلاَّ إِبْلِيسَ أَبَى وَاسْتَكْبَرَ وَكَانَ مِنَ الْكَافِرِينَ ( ۳۴ )

اور ياد كرو وہ موقع جب ہم نے ملائكہ سے كہا كہ آدم كے لئے سجدہ كرو تو ابليس كے علاوہ سب نے سجدہ كرليا _ اس نے انكا ر اور غرور سے كام ليا اور كافرين ميں ہوگيا _

۱_ اللہ تعالى نے حضرت ادمعليه‌السلام كو حقائق ہستى كى تعليم دينے اور خلافت كے لئے ان كى لياقت و شائستگى كے ثابت كرنے كے بعد فرشتوں كو حكم ديا كہ ادمعليه‌السلام كو سجدہ كريں _و علّم ادم الاسماء كلها واذقلنا للملائكة اسجدوا لادم

۲_ اللہ تعالى كے حكم كے بعد سب فرشتوں نے حضرت ادمعليه‌السلام كو سجدہ كيا_واذ قلنا للملائكة اسجدوا لادم فسجدوا

۳_ ابليس كو بھى باقى فرشتوں كى طرح حضرت ادمعليه‌السلام كو سجدہ كرنے كا حكم تھا_ فسجدواإلاّ ابليس ابي

۴_ ابليس نے خدا وند متعال كے حكم كى نافرمانى كى اور حضرت ادمعليه‌السلام كو سجدہ نہ كيا_واذقلنا للملائكة اسجدوا لادم فسجدوا إلاّ ابليس ''ابي''كا مصدر ''ابائ''ہے جس كا معنى ہے انكار كرنا يا امتناع كرنا_

۵_ حضرت ادمعليه‌السلام كا مقام و منزلت فرشتوں سے بالاتر ہے_ و إذقلنا للملائكة إسجدوالادم يہ جو فرشتوں كو حكم ہوا كہ ادمعليه‌السلام كو سجدہ كريں اس سے معلوم ہوتاہے كہ حضرت ادمعليه‌السلام فرشتوں پرفضيلت وبرترى كے حامل تھے_

۶_ حضرت ادمعليه‌السلام كى خلافت كا مسئلہ فرشتوں كے سامنے پيش كرنا اور ان كى فضيلت و برترى كو ثابت كرنا اس لئے تھا تاكہ فرشتے اللہ تعالى كے حكم (حضرت ادمعليه‌السلام كو سجدہ كرنے ) كے لئے امادہ ہوں _إذ قال ربك للملائكة إنى جاعل فى الارض خليفه و إذقلنا للملائكة إسجدوا لادم

۷_اللہ تعالى كے حكم سے پہلے ابليس فرشتوں كے برابر اور ان كے مقام پر فائز تھا_و إذ قلنا للملائكة اسجدوا لادم فسجدوا إلا ابليس

۱۱۹

اللہ تعالى كا يہ فرمان (قلناللملائكة اسجدوا) ابليس كيلئے بھى تھا اس سے پتہ چلتا ہے كہ ابليس فرشتوں كے مقام و منزلت پر فائز تھا اس طرح كہ يا تو فرشتوں كے زمرے ميں تھا يا پھر واقعا خود بھى فرشتہ تھا مذكورہ بالا مفہوم پہلے احتمال كى بناپر ہے_

۸_ ابليس فرشتوں كے زمرے ميں تھا_ *اذ قلنا للملائكة اسجدوا لادم فسجدوا إلا ابليس

۹_ ابليس كا تكبر اوراپنى بڑائي كا تصور حضرت ادمعليه‌السلام كو سجدہ سے انكار كا باعث ہوئے _ فسجدوا إلا إبليس أبى و إستكبر

۱۰_ابليس اپنى بڑائي كے تصور اور اللہ تعالى كى نا فرمانى كے ذريعہ كافروں ميں سے ہو گيا_ أبى واستكبر وكان من الكافرين

۱۱_تكبر اور اپنى بڑائي كے خيال سے اللہ تعالى كى نافرمانى كرنا كفر كا موجب ہے _أبى واستكبر و كان من الكافرين

۱۲_ابليس كو تكويناًاختيار حاصل تھا كہ اللہ كى اطاعت كرے يا اس كى معصيت كا انتخاب كرے _فسجدوا إلا ابليس ابى واستكبر

۱۳_ جس وقت ابليس نے خداوند متعال كى نا فرمانى كى اس وقت ابليس كے علاوہ بھى كفار موجود تھے_ *وكان من الكافرين

۱۴_سجدہ خود سے ،فى نفسہ مسجود كى پرستش پہ دلالت نہيں كرتا_واذ قلنا للملائكة اسجدوا لادم

يہ بہت واضح ہے كہ خداوند قدوس نے ہرگز كسى كى يا كسى چيز كى (اپنے علاوہ)عبادت كا نہ حكم ديا ہے اور نہ دے گا بنابريں فرشتوں كا حضرت ادمعليه‌السلام كو سجدہ كرنا ادمعليه‌السلام كى پرستش و عبادت نہ تھا_ پس نتيجہ يہ نكلتا ہے كہ سجدہ كرنا بذات خود بندگى وعبادت شمارنہيں ہوتا بلكہ وہ سجدہ پرستش اور عبادت شمار ہو تا ہے جس ميں مسجود كو اپنا رب تصور كيا جائے_

۱۵_ اپنى بڑائي كا تصور اور تكبر ناپسند يدہ اور شيطانى خصلتوں ميں سے ہے_أبى واستكبر

۱۶_حضرت ادمعليه‌السلام كو فرشتوں كاسجدہ كرنا اور ابليس كا انكار كرنا ايك سبق اموز اور ہميشہ ہميشہ كے لئے ياد ركھنے والا واقعہ ہے _وإذقلنا للملائكة ...وكان من الكافرين ''اذكر _ سيكھو اور ہميشہ ياد ركھو'' اس كا مفعول ''اذ'' ہے_

۱۷ _امام صادقعليه‌السلام سے روايت ہے اپعليه‌السلام نے فرمايا :''ان الله تبارك و تعالى امر الملائكة بالسجود لادم فقيل له فكيف وقع الامر على ابليس و انما امرالله الملائكة بالسجود لادم؟ فقال كان ابليس منهم بالولاء ولم

يكن من جنس الملائكة (۱) اللہ تعالى نے ملائكہ كو حكم ديا كہ ادمعليه‌السلام كو سجدہ كريں ...اپعليه‌السلام سے پوچھا گيا كہ يہ حكم ابليس كو كيسے شامل ہوا جبكہ اللہ تعالى نے فرشتوں كو فرمان ديا تھا؟ امامعليه‌السلام نے فرمايا ابليس فرشتوں ميں سے نہيں تھا بلكہ ''با لولائ'' ان ميں سے شمار ہو تا تھا_

۱۲۰

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

461

462

463

464

465

466

467

468

469

470

471

472

473

474

475

476

477

478

479

480

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

501

502

503

504

505

506

507

508

509

510

511

512

513

514

515

516

517

518

519

520

521

522

523

524

525

526

527

528

529

530

531

532

533

534

535

536

537

538

539

540

541

542

543

544

545

546

547

548

549

550

551

552

553

554

555

556

557

558

559

560

561

562

563

564

565

566

567

568

569

570

571

572

573

574

575

576

577

578

579

580

581

582

583

584

585

586

587

588

589

590

591

592

593

594

595

596

597

598

599

600

601

602

603

604

605

606

607

608

609

610

611

612

613

614

615

616

617

618

619

620

621

622

623

624

625

626

627

628

629

630

631

632

633

634

635

636

637

638

639

640

641

642

643

644

645

646

647

648

649

650

651

652

653

654

655

656

657

658

659

660

661

662

663

664

665

666

667

668

669

670

671

672

673

674

675

676

677

678

679

680

681

682

683

684

685

686

687

688

689

690

691

692

693

694

695

696

697

698

699

700

701

702

703

704

705

706

707

708

709

710

711

712

713

714

715

716

717

718

719

720

721

722

723

724

725

726

727

728

729

730

731

732

733

734

735

736

737

738

739

740

741

742

743

744

745

746

747

748

749

750

751

752

753

754

755

756

757

758

759

760

761

762

763

764

765

766

767

768

769

770

771

772

773

774

775

776

777

778

779

780

781

782

783

784

785