تفسير راہنما جلد ۱

 تفسير راہنما 7%

 تفسير راہنما مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن
صفحے: 785

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴ جلد ۵ جلد ۶ جلد ۷ جلد ۸ جلد ۹ جلد ۱۰ جلد ۱۱
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 785 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 201023 / ڈاؤنلوڈ: 5794
سائز سائز سائز
 تفسير راہنما

تفسير راہنما جلد ۱

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

۱۸_موسى بن ابى بكر واسطى كہتے ہيں :''سألت أبالحسن موسي عليه‌السلام عن الكفر والشرك ايهما اقدم فقال لي: الكفر اقدم وهو الجحود قال لابليس''أبى واستكبر وكان من الكافرين ''(۲) امام كاظمعليه‌السلام سے ميں نے سوال كيا كفر قديمى ترہے يا شرك تو امامعليه‌السلام نے ارشاد فرمايا كفر زيادہ قديمى ہے اور اس كا معنى انكار ہے اللہ تعالى نے ابليس كے بارے ميں فرمايا ''اس نے انكار كيا(نافرمانى كي) اور تكبر اختيار كيا اور كافروں ميں سے ہوگيا ''

۱۹_ امام سجادعليه‌السلام سے روايت ہے''فاول ما عصى الله به الكبر وهى معصيه ابليس حين أبى واستكبر وكان من الكافرين ...'' (۳) اللہ تعالى كى نافرمانى كا اولين سبب تكبر تھا اور يہ نافرمانى ابليس كى تھى جب اس نے انكار كيا اور تكبر كيا اور كافروں ميں سے ہوگيا

۲۰_عن على ابن الحسين عليه‌السلام فى قوله ''إسجدوا لادم فسجدوا'' ...إنها كانت عصابة من الملائكة و هم الذين كانوا حول العرش و هم الذين امروا باالسجود (۴) امام سجاد عليہ السلام سے اللہ تعالى كے اس كلام ''اسجدو الادم فسجدوا''كے بارے ميں روايت ہے كہ اپعليه‌السلام نے فرمايا :وہ (جن كو سجدے كا حكم ديا گيا )ملائكہ كے كچھ گروہ تھے جو عرش الہى كے اطراف ميں تھے ...يہى وہ فرشتے تھے جن كو سجدہ كا حكم ديا گيا_

۲۱_ امير المو منينعليه‌السلام نے فرمايا :''اول بقعة عبد الله عليها ظهر الكوفة لما امرالله الملائكة ان يسجدوا لادم سجدوا على ظهر الكوفة'' (۵) سب سے پہلى مقدس جگہ جہاں اللہ تعالى كى عبادت ہوئي وہ سر زمين كوفہ ہے جب اللہ تعالى نے فرشتوں كو حكم ديا كہ ادمعليه‌السلام كو سجدہ كريں تو انھوں نے ادم كو سر زمين كوفہ پر سجدہ كيا_

۲۲_ پيغبر اسلام صلى اللہ عليہ والہ وسلم كا ارشاد ہے: ''ان الله تبارك و تعالى خلق ادم فأودعنا صلبه و امر الملائكة بالسجود له تعظيماً لنا و اكراما وكان سجودهم لله عزوجل عبودية ولادم اكراما و طاعة لكوننا فى صلبه'' (۶)

____________________

۱) تفسير قمى ج / ۱ص/ ۳۵ ، نور الثقلين ج/۱ ص/۵۵ ح/۹۳_ ۲) تفسير عياشى ج/۱ص/۳۴ح/۱۹، نور الثقلين ج/۱ص/۵۷ ح/۹۹_

۳) كافى ج/۲ص/۱۳۰ح/۱۱، نورالثقلين ج/۱ ص / ۶۰ ح/۱۱۱_ ۴) تفسير عياشى ج/۱ ص۳۰ ح۷ ، تفسير برہان ج/۱ص ۷۴ ح ۶_

۵) تفسير عياشى ج/۱ ص۳۴ ح ۱۸ ، تفسير برہان ج/۱ ص ۷۹ ح ۱۶_

۶) عيوان الاخبار الرضاعليه‌السلام ج/۱ ص/۲۶۳ ح/۲۲باب ۲۶ ، نور الثقلين ج/۱ ص/۵۸ ح/۱۰۱ _

۱۲۱

خدا وند متعال نے حضرت ادمعليه‌السلام كو خلق فرمايا پھر ہميں حضرت ادمعليه‌السلام كى صلب ميں قرار ديا پھر ملائكہ كو امر فرمايا كہ ہمارى تعظيم اور اكرام كى خاطر سجدہ كريں اور ان كا سجدہ اللہ عزوجل كى عبادت كے لئے اور حضرت ادمعليه‌السلام كى اطاعت واكرام كے لئے تھا كيوں كہ ہم ان كى صلب ميں تھے_

ابليس : ابليس كے تكبر كے اثرات و نتائج ۹،۱۰; ابليس كى معصيت كے اثرات و نتائج ۱۰;ابليس كافروں ميں سے ۱۰; ابليس ملائكہ ميں سے ۸; ابليس معصيت سے پہلے ۷;ابليس اور حضرت ادمعليه‌السلام كو سجدہ ۳، ۴، ۹;ابليس كااختيار ۱۲; ابليس كا تكبر كرنا ۱۸ ، ۱۹; ابليس كى اطاعت ۱۲; ابليس كى جنس ۱۷; ابليس كى معصيت ۴،۱۲،۱۳ ،۱۶،۱۸، ۱۹; ابليس كى معصيت كے اسباب۹;ابليس كے كفر كے عوامل ۱۰;ابليس كاكفر ۱۳،۱۸، ۱۹; ابليس كى ذمہ دارى ۳; ابليس كے گذشتہ ; درجات ۷

اخلاق : اخلاقى رذائل ۱۵; شيطانى صفات ۱۵

اطاعت : الله تعالى كى اطاعت كى بنياد ۶

الله تعالى : لله تعالى كے اوامر ۱

اہل بيتعليه‌السلام : اہل بيتعليه‌السلام كى عزت وتكريم ۲۲; اہل بيتعليه‌السلام كے فضائل ۲۲

تاريخ: تاريخ سے عبرت لينا۱۶;تاريخ كے فوائد ۱۶

ترغيب : ترغيب كے عوامل ۶ (استكبار ) تكبر : تكبر كے اثرات و نتائج۱۱; تكبر كى سرزنش ۱۵

حديث:۱۷،۱۸،۱۹،۲۰،۲۱،۲۲

حضرت ادمعليه‌السلام : حضرت ادمعليه‌السلام كى صلاحتيں ۱;حضرت ادمعليه‌السلام كے واقعہ كى اہميت ۱۶;حضرت ادمعليه‌السلام كى ملائكہ پر برترى ۵،۶;حضرت ادمعليه‌السلام كے واقعہ ميں موجود سبق اور تعليمات ۱۶;حضرت ادمعليه‌السلام كواسماء كى تعليم ۱; خلافت ادمعليه‌السلام ۱،۶;حضرت ادمعليه‌السلام كوسجدہ كرنے كا پس منظر ۶;فرشتوں كاحضرت ادمعليه‌السلام كو سجدہ كرنا ۱،۲،۶، ۱۶، ۲۰، ۲۱،۲۲;حضرت ادمعليه‌السلام كاواقعہ ۱،۲،۳;حضرت ادمعليه‌السلام كے درجات ۱،۵

ذكر : تاريخى واقعات كاذكر ۱۶

سجدہ : سجدے كى حقيقت ۱۴

سرزمين : كوفہ كى سرزمين۲۱

۱۲۲

عبرت : عبرت كے عوامل ۱۶

كفار:۱۰،۱۸،۱۹ حضرت ادمعليه‌السلام كے زمانے كے كفار ۱۳

كفر : كفر كے اسباب۱۱

معصيت : معصيت كے نتائج ۱۱; الله تعالى كى معصيت ۱۱، ۱۳

وَقُلْنَا يَا آدَمُ اسْكُنْ أَنتَ وَزَوْجُكَ الْجَنَّةَ وَكُلاَ مِنْهَا رَغَداً حَيْثُ شِئْتُمَا وَلاَ تَقْرَبَا هَذِهِ الشَّجَرَةَ فَتَكُونَا مِنَ الْظَّالِمِينَ ( ۳۵ )

اور ہم نے كہا كہ اے آدم اب تم اپنى زوجہ كے ساتھ جنت ميں ساكن ہوجاؤ اور جہاں چاہو آرام سے كھاؤ صرف اس درخت كے قريب نہ جانا كہ اپنے اوپر ظلم كرنے والوں ميں سے ہوجاؤگے_

۱_خداوند متعال نے حضرت ادمعليه‌السلام اور ان كى زوجہ كو حكم ديا كہ جنت ميں سكونت اختيار كريں _وقلناياادم اسكن أنت وزوجك الجنة

۲_حضرت ادمعليه‌السلام اور ان كى زوجہ كى بہشت ميں سكونت فرشتوں كے حضرت ادمعليه‌السلام كو سجدہ كرنے كے بعد تھى _

واذقلنا للملائكة اسجدو لادم و قلنا يا ادم اسكن

۳_حضرت ادمعليه‌السلام كى بہشت ميں سكونت سے قبل حضرت حواعليه‌السلام كى تخليق ہوچكى تھى _ اسكن أنت وزوجك الجنة

۴_حضرت ادمعليه‌السلام وحضرت حواعليه‌السلام كى بہشت ميں سكونت سے قبل شادى ہوچكى تھي_ياادم اسكن أنت وزوجك الجنة

۵_بہشت كى تمام ترچيزوں سے استفادہ حضرت ادمعليه‌السلام اور اپعليه‌السلام كى زوجہ كے لئے مباح تھا _وكلامنها رغداًحيث شئتما

۶_جس بہشت ميں حضرت ادمعليه‌السلام اور حضرت حواعليه‌السلام نے قيام كيا انتہائي ارام دہ اور نعمتوں سے معمور تھى _

وكلامنها رغداًحيث شئتما''رغد ''كامعنى ہے خيرو بركت سے پُر،پاك اور جس ميں ارام واسائش ہو_يہ لفظ ''رغداً'' ضمير''منھا''كے لئے حال واقع ہواہے يعنى بہشت سے استفادہ كرو در اں حاليكہ يہ بہشت خيروبركت ، ارام واسائش اور ...سے پرُ ہے_

۱۲۳

۷_بہشت ميں ہر كہيں انا جانا حضرت ادمعليه‌السلام و حوّاعليه‌السلام كے لئے ازاد تھا_حيث شئتما

۸_ خدا وند متعال نے حضرت ادمعليه‌السلام و حوّاعليه‌السلام كو ايك مخصوص درخت سے كھانے سے منع فرمايا_ولا تقربا هذه الشجرة

۹_ ادمعليه‌السلام وحو ّ اعليه‌السلام ممنوعہ شجر كے نزديك ہونے سے نہى الہى كے مرتكب قرار پائے_ولا تقربا هذه الشجرة

اگر ''ولا تقربا _نزديك نہ جائو '' سے مرا د كھانے سے منع كرناہو تو''لا تاكلا_نہ كھاو،'' كى جگہ ''لاتقربا '' كااستعمال اس معنى كى طرف اشارہ ہے كہ ادمعليه‌السلام وحواعليه‌السلام نے شجرہ، ممنوعہ كے نزديك جانے سے نہى الہى كے ارتكاب كا خطرہ مول ليا_

۱۰ _ حضرت ادمعليه‌السلام وحواعليه‌السلام كى بہشت ميں شجرہ ممنوعہ ايك خاص كشش ركھتاتھا_*ولاتقربا هذه الشجرة

يہ جو ادمعليه‌السلام وحواعليه‌السلام ممنوعہ درخت كے قريب جانے سے نہى الہى كے مرتكب ہوئے اس سے معلوم ہوتاہے كہ اس درخت كاپھل اتنا پر كشش تھاكہ اس كے نزديك جانا ہى اس ميں پورى رغبت وتمايل اور اس سے استفادہ كا باعث تھا_

۱۱_ جب انسان كو كسى گناہ كے ارتكاب كا خطرہ ہو تو اس گناہ كى حدود اور دائرہ سے بھى دور رہنا چاہئے_ولا تقربا هذه الشجرةفتكونا من الظالمين

۱۲_ ممنوعہ درخت سے ہر طرح كا استفادہ ادمعليه‌السلام و حوّاعليه‌السلام كے لئے ممنوع تھا_*ولا تقربا هذه الشجرة

يہ مفہوم اس احتمال كى بنا پر ہے كہ جملہ ''ولا تقربا''سے مراد تمام تصرفات اور استعمالات حرام ہوں نہ فقط كھانا جب كہ يہ جملہ اس احتمال سے مانع بھى نہيں بلكہ ايك اچھى توجيہ ہے اس سوال كے مقابلے ميں كہ اللہ تعالى نے يہ كيوں نہيں ارشاد فرمايا''ولا تا كلا من هذه الشجرة''

۱۳_ اللہ تعالى نے ادمعليه‌السلام وحو ّاعليه‌السلام كو متنبہ كيا تھا كہ اگر انھو ں نے شجرئہ ممنوعہ سے كچھ تناول كيا تو ظالموں ميں سے شمار ہوں گے_ولا تقربا هذه الشجرة فتكونا من الظالمين

۱۴_ جس بہشت ميں حضرت ادمعليه‌السلام و حضرت حوّاعليه‌السلام تھے وہ

۱۲۴

شرعى ذمہ داريوں (تكليف شرعي)كا گھر تھا_اسكن انت و زوجك الجنة ولا تقربا هذه الشجرة

۱۵_ سكونت كى جگہ ،بيوى اور خور اك انسان كى ضرورى احتياجات ہيں _اسكن أنت و زوجك الجنة وكلا منها

حضرت ادمعليه‌السلام كى خلقت كا سارا ماجرا انسان كى شخصيت ،اس كى ضروريات ،نفسيات،اور افكار وغيرہ كى ايك كلى تصوير ہے حضرت ادمعليه‌السلام وحوّا كا واقعہ محض ايك داستان ہى نہيں با لفاط ديگر اگر حضرت ادمعليه‌السلام اور حضرت حواعليه‌السلام كے بارے ميں ان كى جائے سكونت، زوجہ ،خوراك كے بارے ميں گفتگو ہوئي ہے تو يہ بطور كلى سب انسانوں كى ضرورت ہے اسى طرح اگر شريعت اور ہدايت كى بات ہوئي ہے تو يہ بھى سب انسانوں كى ضرورت ہے_

۱۶_ عورت اور مرد دونوں يہ لياقت اور شائستگى ركھتے ہيں كہ ان كے ذمے الہى تكاليف (ذمہ دارياں ) ہوں اور يہ دونوں خدا وند قدوس كى بارگاہ ميں جواب دہ ہوں _ولا تقربا هذه الشجرة

۱۷_ انسان ايك ايسا موجود ہے جو قانون كا محتاج اور اللہ تعالى كى جانب سے شرعى ہدايات كا نياز مند ہے_ولا تقربا هذه الشجرة فتكونا من الظالمين

۱۸_ انسان اللہ تعالى كى اطاعت اور نافرمانى ميں صاحب اختيار ہے_ولا تقربا هذه الشجرة فتكونا من الظالمين

۱۹_ اللہ تعالى كے فرامين كى نا فرمانى كرنا ظلم ہے_ولا تقربا هذه الشجرة فتكونا من الظالمين

۲۰_ الہى ذمہ دارياں انسان كى مصلحتوں اور مفادات كو پورا كرتى ہيں _ولا تقربا هذه الشجرة فتكونا من الظالمين

۲۱_ حسين بن ميسرّ كہتے ہيں :سا لت أبا عبد الله عن جنة ادم فقال جنة من جنان الدنيا تطلع فيها الشمس والقمر ولو كانت من جنان الاخرة ما خرج منها ابداً (۱) ميں نے امام صادق( عليہ السلام )سے حضرت ادمعليه‌السلام كى بہشت كے بارے ميں سوال كيا تو اپعليه‌السلام نے فرما يا دنيا كے باغات ميں سے ايك باغ تھا جس ميں سورج اور چاند طلوع كرتے تھے اگر يہ اخرت كى بہشت ہوتى تو اس سے ہر گز نہ نكلتے_

۲۲_عن ابى جعفر عليه‌السلام فى قوله ''ولا تقربا هذه الشجره''يعنى لا تا كلا منها (۲) اللہ تعالى كے اس كلام ''و لا تقربا هذه الشجره'' كے بارے ميں امام باقرعليه‌السلام سے منقول ہے يعنى '' اس درخت سے مت كھاؤ''

____________________

۱) كافى ج /۳ ص/۲۴۷ ح/۲ ،نور الثقلين ج/۱ ص/۶۲ ح/۱۱۸ ،۱۱۷_

۲) تفسير عياشى ج/۱ ص/۳۵ ح/۲۰، مجمع البيان ج/۱ ص/۱۹۴ _

۱۲۵

۲۳_اختلفت فى الشجرة التى نهى عنها ادم عليه‌السلام وقيل هى شجرة الكافور يروى عن علي عليه‌السلام ...(۱) جس شجر سے حضرت ادمعليه‌السلام كو منع كيا گيا تھا اس ميں اختلاف رائے ہے_ امام علىعليه‌السلام سے ايك روايت ہے كہ وہ كافور كادرخت تھا_

اللہ تعالى : اوامر الہى ۱; اللہ تعالى كے نواھى ۹; اللہ تعالى كى تشريعى ہدايت۱۷;اللہ تعالى كى تنبيہات ۱۳

انسان : انسان كا اختيار ۱۸;انسانى مصلحتوں كى تكميل ۲۰; انسانى ضروريات ۱۵،۱۷

جبر: جبر اور اختيار ۱۸

حديث:۲۱،۲۲،۲۳

حضرت ادمعليه‌السلام : حضرت ادمعليه‌السلام بہشت ميں ۳; حضرت ادمعليه‌السلام اور شجرہ ممنوعہ۸،۹،۱۲،۱۳;حضرت ادمعليه‌السلام اور حضرت حواعليه‌السلام كى شادى ۴; بہشت ميں حضرت ادم كى تكليف (شرعى ذمہ داري) ۵،۸، ۱۲; حضرت ادمعليه‌السلام كى بہشت ميں كھانے والى اشياء ۵; حضرت ادمعليه‌السلام كى بہشت ميں اسائش۶; حضرت ادم كو ملائكہ كا سجدہ۲; حضرت ادمعليه‌السلام كى بہشت ميں سكو نت اختيار كرنا ۱،۲;حضرت ادمعليه‌السلام كا واقعہ ۱،۲، ۴، ۹; حضرت ادمعليه‌السلام كى بہشت ميں محرمات ۸; حضرت ادمعليه‌السلام كى بہشت كا مقام ۲۱; حضرت ادمعليه‌السلام كى بہشت كى نعمتيں ۶; حضرت ادمعليه‌السلام كى بہشت كى خصوصيات ۶،۷،۱۴;حضرت ادمعليه‌السلام كو تنبيہ ۱۳

حضرت حواعليه‌السلام : حضرت حواعليه‌السلام كى بہشت ميں تكليف (شرعى ذمہ دارى ) ۵،۸،۱۲; حضرت حواعليه‌السلام اورشجرہ ممنوعہ ۸،۹ ،۱۲،۱۳; حضرت حواعليه‌السلام كى تخليق ۳; حضرت حواعليه‌السلام كا بہشت ميں قيام ۱،۲; حضرت حواعليه‌السلام كا واقعہ ۱،۲،۳،۴،۹;حضرت حواعليه‌السلام كو تنبيہ ۱۳ دين : دين كا فلسفہ ۲۰

شجرہ ممنوعہ: شجرہ ممنوعہ سے اجتناب ۲۲; شجرہ ممنوعہ سے استفادہ ۱۲;شجرہ ممنوعہ سے مراد كيا ہے ۲۳; شجرہ ممنوعہ كى خصوصيات ۱۰

ضروريات : غذاكى ضرورت ۱۵;دين كى ضرورت ۱۷; جائے سكونت كى ضرورت ۱۵; ہدايت كى ضرورت ۱۷ زوجہ كى ضرورت۱۵

ظالمين:۱۳ ظلم: ظلم كے موارد ۱۳،۱۹

____________________

۱) تفسير تبيان ج/۱ ص/۱۵۸ ،مجمع البيان ج/۱ ص/۱۹۵_

۱۲۶

عورت : عورت كى شرعى ذمہ دارى ۱۶;عورت كى ذمہ دارى ۱۶

كافور : كافور كا درخت ۲۳

گناہ: سے اجتناب ۱۱; گناہ كے ارتكاب كا خطرہ ۱۱

مرد: مرد كى شرعى ذمہ داري۱۶; مرد كى ذمہ داري۱۶

معصيت: معصيت الہى ۱۹

فَأَزَلَّهُمَا الشَّيْطَانُ عَنْهَا فَأَخْرَجَهُمَا مِمَّا كَانَا فِيهِ وَقُلْنَا اهْبِطُواْ بَعْضُكُمْ لِبَعْضٍ عَدُوٌّ وَلَكُمْ فِي الأَرْضِ مُسْتَقَرٌّ وَمَتَاعٌ إِلَى حِينٍ ( ۳۶ )

تب شيطان نے انھيں فريب دينے كى كوشش كى اور انھيں ان نعمتوں سے باہر نكال ليا اور ہم نے كہا كہ اب تم سب زمين پراتر جاؤ وہاں ايك دوسرے كى دشمنى ہوگى اور وہيں تمھارا مركز ہوگا اور ايك خاص وقت تك كے لئے عيش زندگانى رہے گا_

۱_ شيطان نے حضرت ادمعليه‌السلام و حواعليه‌السلام كوشجرہ ممنوعہ سے استفادہ كى ترغيب دلائي اور اس طرح انھيں اللہ تعالى كى نا فرمانى كى طرف كھينچ كر لے گيا_فازلهما الشيطان عنها ''ازل''كا مصدر''ازلال'' ہے جس كا معنى لغزش، تزلزل پيدا كرنا اور گناہ كى ترغيب دلاناہے_ عنھا كى ضمير ممكن ہے ''الجنة''كى طرف لوٹتى ہو يعنى شيطان نے ادم وحوا كو گناہ كى طرف ترغيب دلا كر جنت سے دور كر ديا_يہ بھى ممكن ہے كہ ''عنھا '' كى ضمير ''الشجرة''كى گناہ طرف لوٹتى ہو پس مفہوم يہ ہوگا كہ شيطان نے ادمعليه‌السلام و حواعليه‌السلام كو ايسے گناہ كى طرف ترغيب دلائي جس كا منبع شجرہ ممنوعہ تھا مذكورہ بالا مطلب دوسرے احتمال كى بنا پر ہے_

۲_ حضرت ادمعليه‌السلام و حوا نے اللہ تعالى كى نافرمانى سے جنت ميں قيام كى لياقت كھو دي_فاخر جهما مما كانا فيه

۳_ شيطان اور اس كا ورغلانا حضرت ادمعليه‌السلام وحواعليه‌السلام كے جنت سے نكلنے كا سبب بنے_فا خرجهما مما كانا فيه

۴_ حضرت ادمعليه‌السلام وحواعليه‌السلام كے جنت ميں قيام و سكونت كى شائستگى و لياقت سلب ہوجانے كے بعد اللہ تعالى نے انھيں جنت سے نكل كر زمين پر انے كا حكم فرمايا_وقلنا اهبطوا ''اھبطوا''كا مصدر ''ھبوط'' ہے جس كا معنى ہے نيچے انا ما بعد كے جملے كى روشنى ميں ''اھبطوا''كا مفعول ''الارض ''بنتا ہے_

۱۲۷

۵_ حضرت ادمعليه‌السلام و حواعليه‌السلام كى جنت ميں سكونت اور ان كى لغزش كے ما بين وقت نسبتاًبہت مختصر تھا_

وقلنا يادم اسكن أنت و زوجك الجنة فأزلهما الشيطان عنها''ازلھما''كا ماقبل جملے پر ''فا''كے ذريعہ عطف ممكن ہے اس مطلب كى طرف اشارہ ہو_

۶_ شيطان ايك ورغلانے والا عنصر ہے اور انسان فريب كے دام ميں انے والا موجود ہے_فأزلهما الشيطان عنها

۷_ حضرت ادمعليه‌السلام وحواعليه‌السلام كى بہشت ميں شيطان بھى تھا_فأزلهما الشيطان عنها

۸_ اللہ تعالى نے شيطان كو حكم ديا كہ وہ بہشت سے نكل كر زمين پر چلا جائے_وقلنا اهبطوا ''اهبطوا' 'جمع كا صيغہ ہے جو اس بات كى طرف اشارہ ہے كہ يہ خطاب حضرت ادمعليه‌السلام وحواعليه‌السلام كے علاوہ ديگر كسى فردياافرادكو بھى ہے بعض كا خيال ہے كہ يہ خطاب شيطان كو بھى تھا_

۹_زمين شياطين كى جائے سكونت اور قيام گاہ ہے_اهبطوا ...ولكم فى الارض مستقر يہ مفہوم اس بنا پر ہے كہ اگر ''اھبطوا ''كا حكم شيطان كو بھى شامل ہو_

۱۰_ دنياوى زندگى ميں انسان اور شيطان ايك دوسرے كے دشمن ہيں _اهبطوا بعضكم لبعض عدو اگر ''اهبطوا '' كا خطاب حضرت ادمعليه‌السلام ،حواعليه‌السلام اور شيطان كو ہو تو ''بعضكم لبعض عدو''سے مراد يہ ہے كہ شيطان اور انسان ايك دوسرے كے دشمن ہوں گے_

۱۱_ زمين ميں انسانوں كى زندگى ہميشہ ايك دوسرے سے دشمنى سے پرُ ہے_اهبطوا بعضكم لبعض عدو يہ مفہوم اس بنا پر ہے كہ اگر ''اھبطوا ''اور اسى طرح ديگر خطابات سے مراد حضرت ادمعليه‌السلام ،حواعليه‌السلام اور ان كى نسل ہوں اس طرح''بعضكم لبعض عدو ''سے مراد انسانوں كى اپس ميں دشمنى ہے_

۱۲_ حضرت ادمعليه‌السلام و حواعليه‌السلام كے ہبوط كے ساتھ ہى اللہ تعالى نے ان كى نسل كى اپس ميں دشمنى كے بارے ميں بتايا_وقلنا اهبطوا بعضكم لبعض عدو

۱۳_ حضرت ادمعليه‌السلام و حواعليه‌السلام كے شجرہ ممنوعہ كا پھل كھانے سے ان كى نسل كي، ابتدائي بہشت ميں قيام و سكونت كى لياقت وشائستگى سلب ہو گئي *قلنا اهبطوا حضرت ادمعليه‌السلام و حواعليه‌السلام كو بہشت سے نكال كر زمين ميں قيام كے خطاب ميں اللہ تعالى نے گفتگو كے طبعى تقاضے كے بر خلاف حضرت ادمعليه‌السلام و حواعليه‌السلام كى نسل كو بھى خطاب فرمايا ہے

۱۲۸

اس طرح اس نكتے كى طرف اشارہ فرمايا ہے كہ ادمعليه‌السلام و حواعليه‌السلام كے شجرہ ممنوعہ سے پھل كھانے كا اثر ان كى نسل پر بھى ہوا جس كا نتيجہ يہ نكلا كہ ان كى نسل زمين پر زندگى كرے_

۱۴ _ شجرہ ممنوعہ سے ادمعليه‌السلام و حواعليه‌السلام كا تناول كرنا اس بات كى كى راہ ہموار ہوئي كہ انسانوں كے درميان دشمنى كے جذبات پيدا ہو گئے _*فأزلهماالشيطان عنها وقلنا اهبطوا بعضكم لبعض عدو

۱۵_ زمين انسانوں كے ليئے ايك وقتى جائے سكونت اور قرار گاہ ہے_و لكم فى الارض مستقر و متاع الى حين ''الى حين _ايك وقت تك ''يہ ''متاع'' كے علاوہ '' مستقر'' سے بھى متعلق ہے_

۱۶_ زمين پر انسانوں كے سكونت اور قرار كى مدت ان كے لئے نا معلوم ہے_ولكم فى الارض مستقر و متاع الى حين ''حين'' كا نكرہ انا اس بات كى علامت ہے كہ انسانوں كيلئے ان كے زمين پر قيام كى مدت نامعلوم ہو اور يہ كہ اس كو نہ جان سكيں گے_

۱۷_ زمين انسانوں كے لئے ايك خاص وقت اور نا معلوم مدت تك زندگى كرنے كا ذريعہ ہے_ ولكم فى الارض مستقر و متاع الى حين ''متاع'' اس چيز كو كہتے ہيں جس سے كوئي منفعت ہو_

۱۸_ جس بہشت ميں حضرت ادمعليه‌السلام وحواعليه‌السلام تھے وہ جگہ زمين سے برتر اور بالا تر تھي_قلنا اهبطوا ...ولكم فى الارض مستقر يہ جملہ ''ولكم فى الارض مستقر '' اس بات پر دلالت كرتا ہے جس بہشت ميں حضرت ادمعليه‌السلام وحواعليه‌السلام قيام پذير تھے وہ زمين پر نہ تھى جبكہ ''اھبطوا'' اس بات كى طرف اشارہ ہے كہ وہ جگہ زمين سے برتر اور والا تر تھي_

۱۹_رسول اسلام صلى اللہ عليہ والہ وسلم سے روايت ہے كہ اپ (ص) نے ارشاد فرمايا:''انما كان لبث ادم وحوا فى الجنة حتى خرجا منها سبع ساعات من ايام الدنيا ...'' (۱) حضرت ادمعليه‌السلام و حواعليه‌السلام كا بہشت ميں قيام دنيا كے ايك دن كے سات گھنٹے تھے_

۲۰_ رسول خدا (ص) سے روايت ہے كہ اپ (ص) نے ارشادفرمايا:''يوم الجمعة سيد الايام خلق الله فيه ادم واهبط فيه ادم الى الارض'' (۲) جمعہ كا دن سيد الايام (دنوں كا سردار) ہے اس دن اللہ تعالى نے حضرت ادمعليه‌السلام كو خلق فرمايا اور اسى دن حضرت ادمعليه‌السلام زمين كى طرف بھيجے گئے _

____________________

۱) تفسير عياشى ج/۱ ص/۳۵ ح/۲۱ ،نور الثقلين ج/۱ ص/۶۴ ح/۱۲۹_ ۲) خصال صدوق ج/۱ ص/۳۱۶ ح/۹۷ ،نور الثقلين ج/۱ ص/۶۴ ح/۱۲۸_

۱۲۹

۲۱_''عن الصادق عليه‌السلام ...فى قوله تعالى ولكم فى الارض مستقر ومتاع الى حين قال الى يوم القيامة '' (۱) امام صادق عليہ السلام سے اللہ تعالى كے اس كلام''ولكم فى الارض مستقر ومتاع الى حين '' كے بارے ميں روايت ہے آپعليه‌السلام نے فرمايا اس سے مراد قيامت تك زمين پر قيام اور اس سے استفادہ كرناہے_

۲۲_امام رضاعليه‌السلام سے روايت ہے''فتسلط عليه (ادم) الشيطان ...وتسلط على حوا عليه‌السلام فاخرجهما الله عزوجل عن جنته فاهبطهما عن جواره الى الارض ... (۲) پس شيطان ادمعليه‌السلام اور حواعليه‌السلام پر مسلط ہو گيا پس اللہ تعالى نے انھيں اپنى جنت اور اپنے جوار سے نكال كرزمين كى طرف بھيجا_

۲۳_ انحضرت (ص) سے روايت ہے كہ اپ (ص) نے ارشاد فرمايا''فاوحى الله تعالى الى جبرائيل ان اهبطهما الى البلدة المباركة مكة فهبط بهما جبرائيل فالقى ادم على الصفا والقى حواء على المروة'' (۳) پس اللہ تعالى نے جبرائيلعليه‌السلام كو وحى فرمائي كہ ادمعليه‌السلام و حواعليه‌السلام كو مكہ كى مبارك سر زمين كى طرف لے جائے پس جبرائيلعليه‌السلام نے حضرت ادمعليه‌السلام كو كوہ صفا پر اور حضرت حواعليه‌السلام كو كوہ مروہ پر اتارا_

۲۴ _رسول گرامى قدر اسلام صلى اللہ عليہ والہ وسلم نے ارشاد فرمايا''حين امر ادم عليه‌السلام ان يهبط هبط ادم وزوجته و هبط ابليس ولا زوجة له ...'' (۴) جب اللہ تعالى نے حضرت ادمعليه‌السلام كو نيچے اتر نے كا حكم فرمايا ...ادمعليه‌السلام اور ان كى زوجہعليه‌السلام نيچے اتر ائے اور ابليس بھى اترا ليكن اس كى زوجہ نہ تھى

۲۵_''عن امير المومنين فى حديث طويل وفيه ساله عن اكرم واد على وجه الارض فقال واد يقال له ''سرانديب'' ،''سقط فيه ادم من السمائ'' (۵) امير المومنينعليه‌السلام سے ايك طويل حديث ميں سوال كيا گيا كہ روئے زمين پر سب سے زيادہ صاحب شرف مقام كون سا ہے؟ حضرتعليه‌السلام نے ارشاد فرمايا وہ جگہ ''سرانديب''ہے(لغت نامہ دہخدا كے مطابق يہ جگہ سرى لنكا ميں ہے)يہاں حضرت ادمعليه‌السلام اسمان سے نازل ہوئے_

ابليس: ابليس كا ہبوط (اترنا)۲۴

اللہ تعالى : اوامر الہى ۴،۸;اللہ تعالى كى تنبيہات۱۲

____________________

۱) تفسير قمى ج/۱ ص/۴۳، نور الثقلين ج/۱ ص/۶۳ح/۱۲۳ ۲) عيون اخبار الرضا ج/۱ ص/۳۰۶ ح /۶۷ ،نور الثقلين ج/۱ ص/ ۶۰ ح /۱۱۲_

۳) تفسير عياشى ج/ ۱ ص/۳۶ ح / ۲۱ ، تفسير برہان ج/۱ ص۸۴ ح/۱۵_ ۴)علل الشرائع ص/۵۴۷ ح /۲ باب۳۴۰ ،نور الثقلين ج/۱ ص/۶۶ و ح / ۱۳۷_

۵) نور الثقلين ج/۱ ص/ ۶۴ ح / ۱۲۶_

۱۳۰

انسان: زمين پر انسانوں كا استقرار ''قيام'' ۱۵،۱۶،۲۱ انسان كا فريب كھانا ۶; انسانوں كے دشمن ۱۰;انسانوں كى دشمنى ۱۱; انسانوں كى دشمنى كے اسباب۱۴;انسانوں كا مسكن ۱۵

جمعہ: جمعہ كى فضيلت ۲۰

حديث: ۱۹،۲۰ ،۲۱،۲۲،۲۳،۲۴،۲۵

حضرت ادمعليه‌السلام : حضرت ادمعليه‌السلام اور ممنوعہ درخت ۱;حضرت ادمعليه‌السلام كا بہشت سے نكلنا۳،۴،۲۲;حضرت ادمعليه‌السلام كى اولاد كى دشمنى ۱۲;حضرت ادمعليه‌السلام كا بہشت ميں قيام ۵،۱۹; حضرت آدمعليه‌السلام كى نافرمانى ۲; حضرت ادمعليه‌السلام كى نافرمانى كے عوامل ۱; حضرت ادمعليه‌السلام كے ہبوط كے اسباب ۳،۴; حضرت ادمعليه‌السلام كى بہشت كے فضائل ۱۸; حضرت ادمعليه‌السلام كا واقعہ ۱،۳،۴،۵ ،۱۲،۳ ۱ ، ۱۹; حضرت ادمعليه‌السلام كى لغزش ۱،۵; حضرت ادمعليه‌السلام كا بہشت سے محروم ہونا ۱۳; حضرت ادمعليه‌السلام كى نسل كا محروم ہونا ۱۳;حضرت ادمعليه‌السلام كى بہشت كا مقام ۱۸; حضرت ادمعليه‌السلام كے اترنے كى جگہ ۲۳،۲۵; حضرت ادمعليه‌السلام كى خلقت كا وقت ۲۰;حضرت ادمعليه‌السلام كا اترنا۱۲، ۲۲، ۲۴

حضرت حواعليه‌السلام : حضرت حواعليه‌السلام كا بہشت سے نكالا جانا ۳،۴،۲۲ حضرت حواعليه‌السلام اور شجرہ ممنوعہ ۱; حضرت حواعليه‌السلام كا جنت ميں قيام ۵،۱۹;حضرت حواكى نافرمانى ۲; حضرت حواعليه‌السلام كى نافرمانى كے عوامل۱; حضرت حواعليه‌السلام كے اترنے كے عوامل۳،۴;حضرت حواعليه‌السلام كا واقعہ ۱،۳،۴، ۵،۷،۱۲، ۱۳،۱۹; حضرت حواعليه‌السلام كى لغزش ۱،۵; حضرت حواعليه‌السلام كے اترنے كى جگہ ۲۳;حضرت حواعليه‌السلام كا اترنا ۱۲،۲۲،۲۴

زمين: زمين كے فوائد ۱۷

زندگي: دنياوى زندگى ۱۷

سر زمينيں : سرزمين سرانديب۲۵;سر زمين سرى لنكا ۲۵

شجرہ ممنوعہ: شجرہ ممنوعہ سے استفادہ ۱۳،۱۴

شياطين: شياطين زمين پر ۹; شياطين كا مسكن ۹

شيطان: شيطان كے ورغلانے كے نتائج۳;شيطان كا بہشت سے نكالا جانا ۸; شيطان كا فريب دينا ۱،۶;شيطان كے دشمن۱۰; شيطان كا تسلط ۲۲;شيطان، حضرت ادمعليه‌السلام كى بہشت ميں ۷; شيطان كا كردار۱،۳،۶;شيطان كا اترنا۸

كوہ صفا : ۲۳ كوہ مروہ:۲۳ نا فرمان : نافرمانى كے نتائج ۲;اللہ تعالى كى نا فرمانى ۱،۲

۱۳۱

فَتَلَقَّى آدَمُ مِن رَّبِّهِ كَلِمَاتٍ فَتَابَ عَلَيْهِ إِنَّهُ هُوَ التَّوَّابُ الرَّحِيمُ ( ۳۷ )

پھر آدم نے پروردگار سے كلمات كى تعليم حاصل كى اور ان كى بركت سے خدا نے ان كى توبہ قبولى كرلى كہ وہ توبہ قبول كرنے والا اور مہربان ہے_

۱_ حضرت ادمعليه‌السلام اپنے كيئے پر پشيمان ہوئے اور اللہ تعالى كى بارگاہ ميں توبہ كے لئے رجوع كيا_من ربه كلمات

۲_اللہ تعالى نے انتہائي قدرو قيمت والے كلمات حضرت ادمعليه‌السلام كو تعليم و تلقين فرمائے تا كہ ان كے واسطے سے اللہ كى بارگاہ ميں توبہ كريں _فتلقى ادم من ربه كلمات ''تلقى ''كا مصدر ''تلقى ''ہے جس كا معنى ہے لے لينا_لہذا اس جملے ''فتلقي ...'' كا معنى يوں بنتا ہے حضرت ادمعليه‌السلام نے اللہ تعالى كى جانب سے كلمات لے ليئے _كلمات كو نكرہ لانا ان كى عظمت وبلندى پر دلالت كرتا ہے _

۳_حضرت ادمعليه‌السلام كى توبہ اور اللہ تعالى كى جانب سے كلمات حاصل كرنا حضرت ادمعليه‌السلام كے زمين پر قيام پذير ہونے كے بعد ہوا_ *ولكم فى الارض مستقر ...فتلقى ادم من ربه كلمات يہ مفہوم ''فتلقى ''كي'' فاء ''سے استفادہ ہو تا ہے جو ترتيب كے معانى ديتا ہے_

۴_ اللہ تعالى نے حضرت ادمعليه‌السلام كى توبہ قبول كى ،انكاگناہ معاف فرما ديا اور اپعليه‌السلام پر اپنى رحمت نازل فرمائي _

فتاب عليه انه هو التواب الرحيم

۵_ اللہ تعالى توّاب (انتہائي زيادہ توبہ قبول كر نے والا ہے) اور رحيم (مہربان )ہے_انه هو التوّاب الرحيم

۶_اللہ انسان تعالى كى طرف سے گناہ كاروں كى توبہ قبول كرنا اس كى رحمت كا پر تو ہے_ فتاب عليه انه هو التواب الرحيم اللہ تعالى كى رحمت كو اس كے تو اب ہونے كے ساتھ ساتھ ملاحظہ كيا جاسكتا ہے يعنى اللہ تعالى كے توبہ قبول كرنے كاسرچشمہ اسكى رحمت ہے يا يہ رحمت اس اعتبار سے ہے كہ حضرت ادمعليه‌السلام كو اللہ تعالى نے كلمات تعليم فرمائے مذكورہ بالا مفہوم پہلے اعتبار كے مطابق ہے_

۷_ حضرت ادمعليه‌السلام كو كلمات كى تلقين و تعليم (اللہ تعالى كى بارگاہ ميں كس طرح توبہ كى جائے اور اس كى بارگاہ اقدس ميں نياز حاصل كيا جائے ) خدا وند

۱۳۲

قدوس كى رحمت كا حضرت ادمعليه‌السلام پر ايك جلوہ تھا_فتلقى ادم من ربه كلمات انه هو التواب الرحيم

يہاں ''الرحيم'' كا جملہ ''فتلقى ...'' كے ساتھ ارتباط كے عنوان سے معنى بيان ہوا ہے اس كا مطلب يہ ہے كہ اللہ تعالى كى رحمت اس بات كا موجب بنى كہ حضرت ادمعليه‌السلام كو كلمات كى تعليم دى جائے_

۸_اللہ تعالى كى بارگاہ ميں توبہ اوراس سے گناہوں كى معافى طلب كرناضرورى ہے_ فتلقى ادم من ربه كلمات انه هو التواب الرحيم اولين انسان ہونے كے ناطے حضرت ادمعليه‌السلام كى توبہ كامسئلہ پيش كرنا گويااس كامقصد يہ تھاكہ انسان جب لغزش يا گناہ ميں مبتلاہو تواس كا فريضہ بيان كياجائے_

۹_توبہ كيسے كى جائے اوراس كے لئے لازم وضرورى واسطے كيسے تلاش كئے جائيں ، يہ واسطے كيسے ہوں يہ سب كچھ دين سے سيكھنا چاہئے_فتلقى ادم من ربه كلمات فتاب عليه مذكورہ بالا مفہوم اس سے استفادہ ہوتا ہے كہ حضرت ادمعليه‌السلام كى توبہ كى قبوليت(تاب عليہ)كو فاء تفريع كے ساتھ اللہ كى جانب سے كلمات سيكھنے كے بعد استعمال كيا گيا ہے_

۱۰_ توبہ كى قبوليت اور اللہ تعالى كى رحمت كا يقين گناہگار انسان كو توبہ اور طلب مغفرت كى طرف راغب كرتا ہے_

فتاب عليه انه هو التواب الرحيم توبہ كى قبوليت كے لئے حرف تاكيد ''انّ''كے استعمال، ضمير فصل ''ھو'' اورصيغہ مبالغہ ''توّاب''كے استعمال سے يہ مطلب اخذہوتا ہے كہ گناہگار وں كو طلب مغفرت كى ترغيب دلائي گئي ہے_

۱۱ _ ابن عباس كہتے ہيں :''سألت رسول الله عن الكلمات التى تلقيها آدم من ربه فتاب عليه قال سأل بحق محمدوعلى و فاطمة و الحسن والحسين الا تبت عليّ فتاب عليه'' (۱) ميں نے رسول اللہ(ص) سے ان كلمات كے بارے ميں سوال كيا جو حضرت آدمعليه‌السلام نے اللہ تعالى سے حاصل كيئے اور اللہ نے ان كى توبہ قبول فرمائي حضرت (ص) نے ارشاد فرمايا حضرت آدمعليه‌السلام نے اللہ تعالى كو محمد (ص) ، علىعليه‌السلام ، فاطمہعليه‌السلام ، حسنعليه‌السلام ، حسينعليه‌السلام كے واسطے سے پكار ا اور عرض كيا يا اللہ ميرى توبہ قبول فرما تو اللہ تعالى نے حضرت آدمعليه‌السلام كى توبہ قبول كى _

۱۲ _ امام باقرعليه‌السلام سے روايت ہے آپعليه‌السلام نے ارشاد فرمايا :''الكلمات التى تلقيهن آدم من ربه فتاب عليه و هدى قال سبحانك اللهم و بحمدك انى عملت سوء اً و ظلمت نفسى فاغفر لى انك خير الغافرين انك انت الغفور الرحيم (۲)

____________________

۱) الدرالمنثور ج/ ۱ ص ۱۴۷ ، نورالثقلين ج/ ۱ ص ۶۷ ح ۱۴۳ ،۱۴۵ ، ۱۴۷ _ ۲) تفسير عياشى ج/ ۱ ص ۴۱ ح ۲۵ ، تفسير برہان ج/ ۱ ص ۸۷ ح ۸ _

۱۳۳

وہ كلمات جو حضرت آدمعليه‌السلام نے اللہ تعالى سے حاصل كيئے پس اللہ نے حضرت آدمعليه‌السلام كى توبہ قبول فرمائي اور حضرت آدمعليه‌السلام كى ہدايت فرمائي ( وہ كلمات يہ تھے) كہا اے اللہ تيرى ذات پاك ہے اور تيرى حمد بجالاتاہوں بے شك ميں نے برا عمل انجام ديا اور اپنے اوپر ظلم كيا پس تو مجھے بخش دے بے شك تو بہترين بخشنے والا ہے بتحقيق تو بخشنے والا اور رحيم ہے _

۱۳_ امام صادقعليه‌السلام سے روايت ہے ''ان الله تبارك و تعالى لما اراد ان يتوب على آدم ارسل اليه جبرئيل فقال له ان الله تبارك و تعالى بعثنى اليك لا علمك المناسك التى يريد ان يتوب عليك بها ففعل ذالك آدم عليه‌السلام فقال له جبرئيل ان الله تبارك و تعالى قد غفرلك و قبل توبتك . ..(۱) جب اللہ تعالى نے ارادہ فرمايا كہ آدمعليه‌السلام كى توبہ قبول فرمائے تو حضرت جبرئيلعليه‌السلام كو آپعليه‌السلام كى طرف بھيجا جبرائيلعليه‌السلام نے آپعليه‌السلام سے كہا اللہ تعالى نے مجھے آپعليه‌السلام كى طرف بھيجا ہے تا كہ آپعليه‌السلام كو مناسك (حج) كى تعليم دوں اور اللہ تعالى چاہتاہے كہ مناسك كى وجہ سے آپعليه‌السلام كى توبہ كو قبول فرمائے پس حضرت آدمعليه‌السلام نے مناسك كو انجام ديا پس جبرائيلعليه‌السلام نے آپعليه‌السلام سے كہا كہ بے شك اللہ تبارك و تعالى نے آپعليه‌السلام كو بخش ديا ہے اور آپعليه‌السلام كى توبہ قبول فرمالى ہے _

استغفار ( طلب مغفرت): طلب مغفرت كى اہميت ۸; طلب مغفرت كى بنياد۱۰

اسماء اور صفات: توّاب ۵; رحيم ۵

اللہ تعالى : اللہ تعالى كى بخشش ۴; اللہ تعالى كى توبہ ۱۰; اللہ تعالى كى رحمت ۴،۱۰; اللہ تعالى كى رحمت كے مظاہر ۶،۷

اہل بيتعليه‌السلام : اہل بيتعليه‌السلام كے فضائل ۱۱

ايمان: رحمت خدا پر ايمان كے اثرات و نتائج۱۰

بخشش: بخشش كى درخواست ۸

ترغيب : ترغيب كے عوامل ۱۰

توبہ : توبہ كے آداب ۲،۷،۹; توبہ كى اہميت ۸; توبہ ميں توسل ۲; توبہ كا سرچشمہ ۱۰; توبہ كى قبوليت ۶

جہان بينى (نظريہ كائنات): جہان بينى اورآئيڈيالوجى ۱۰

____________________

۱) علل الشرائع ج / ۱ص ۴۰۰ ح/ ۱ باب ۱۴۱، نورالثقلين ج/ ۱ ص ۶۹ ح ۱۵۲_

۱۳۴

حضرت آدمعليه‌السلام : حضرت آدمعليه‌السلام كى بخشش ۴،۱۳; حضرت آدمعليه‌السلام كا طلب مغفرت كرنا ۱۲; آدمعليه‌السلام كا زمين پر قيام و سكونت ۳;حضرت آدمعليه‌السلام كو كلمات القاء كرنا ۲،۳، ۷،۱۱،۱۲، ۱۳;حضرت آدمعليه‌السلام كى پشيمانى ۱;حضرت آدمعليه‌السلام كو توبہ كى تعليم دينا ۲، ۳، ۷; حضرت آدمعليه‌السلام كى توبہ ۱،۲،۱۱،۱۲; آدمعليه‌السلام كى نافرماني۱;حضرت آدمعليه‌السلام كى توبہ قبول ہونا ۴ ، ۱۳ ; حضرت آدمعليه‌السلام كا واقعہ ۱،۲،۳،۴،۱۱; حضرت آدمعليه‌السلام كى توبہ كى جگہ ۳

دين : دين كى اہميت و كردار ۹

رحمت الہى : رحمت الہى جن لوگوں كے شامل حال ہوتى ہے۴،۷

روايت : ۱۱، ۱۲،۱۳

قُلْنَا اهْبِطُواْ مِنْهَا جَمِيعاً فَإِمَّا يَأْتِيَنَّكُم مِّنِّي هُدًى فَمَن تَبِعَ هُدَايَ فَلاَ خَوْفٌ عَلَيْهِمْ وَلاَ هُمْ يَحْزَنُونَ ( ۳۸ )

اور ہم نے يہ بھى كہا كہ يہاں سے اتر پڑو پھر اگر ہمارى طرف سے ہدايت آجائے تو جو بھى اس كا اتباع كرلے گا اس كے لئے نہ كوئي خوف ہوگا نہ حزن _

۱_ حضرت آدمعليه‌السلام و حواعليه‌السلام كى نافرمانى كے بعد اللہ تعالى نے ان سے چاہا كہ بہشت سے نكل جائيں_ قلنا اهبطوا منها '' قلنا اہبطوا'' كے آيت ۳۶ اور ۳۸ ميں تكرار كے بارے ميں چند آراء كا ذكر ہوا ہے _ اس آيت ميں '' واو'' يا كوئي اور حرف عطف موجود نہيں ہے پس اس امر سے اس بات كى تقويت ہوتى ہے كہ اس آيت ميں ''قلنا اهبطوا '' آيت ۳۶ ميں''قلنا اهبطوا'' كے لئے تاكيد ہے _

۲ _ شجرہ ممنوعہ سے حضرت آدمعليه‌السلام و حواعليه‌السلام كے تناول كرنے سے ان كى نسل بھى ابتدائي بہشت سے محروم ہوگئي _قلنا اهبطوا منهماجميعاً ''اهبطوا '' جمع كا صيغہ استعمال ہوا ہے يہ اس بات كى طرف اشارہ ہے كہ حضرت آدمعليه‌السلام و حواعليه‌السلام كے علاوہ بھى كوئي ايك يا زيادہ افراد مورد خطاب ہيں اس بارے ميں چند آراء كا اظہار ہوا ہے ان ميں سے ايك يہ ہے كہ دوسرے مخاطبين آدمعليه‌السلام و حواعليه‌السلام كى نسل ہے _ مذكورہ بالا مفہوم

۱۳۵

اسى رائے كے مطابق ہے _

۳_ اللہ تعالى نے شيطان كو بھى بہشت سے نكال باہر كيا_*قلنا اهبطوا منها جميعاً

يہ مفہوم اس احتمال كى بناپر ہے كہ اگر ''اہبطوا'' كا حكم حضرت آدمعليه‌السلام و حواعليه‌السلام كے علاوہ شيطان كو بھى شامل ہو_

۴ _ حضرت آدمعليه‌السلام و حواعليه‌السلام اور انكى نسل كو بہشت سے نكلتے ہوئے اللہ تعالى نے انكو اپنى جانب سے ہدايت اور راہنمائي سے بہرہ مند ہونے كى بشارت دى _فاما ياتينكم منى هدي لفظ '' امّا'' ان شرطيہ اور ما زائدہ سے تركيب پايا ہے _ جملے ميں ايك طرف انْ شرطيہ اور دوسرى طرف ما زائدہ اور يا تينَّ ميں نون تاكيد سے اس كى تاكيد كرنا اس امر كا مقتضى ہے كہ جملے كا معنى يہ ہو '' اگر ميرى طرف سے ہدايت ملے كہ جو يقيناً آئے گى ...''

۵ _ انسان كو سعادت كے حصول كى خاطر ہدايت اور الہى راہنمائي كى ضرورت ہے_ فاما ياتينكم منى هديً

۶ _ اللہ تعالى كى ہدايات و راہنمائي كى اتباع كرنے والوں كو قيامت كے روز كوئي خوف و خطر نہ ہوگا _فمن تبع هداى فلا خوف عليهم و لا هم يحزنون ''خوف'' نكرہ استعمال ہوا ہے اور حرف نفى كے بعد واقع ہوا ہے جو معنى ميں عموميت پر دلالت كرتاہے گويا مطلب يوں ہے كسى قسم كا كوئي بھى خوف نہ ہوگا اسى طرح جب فعل منفى ہو تو تمام تر مصاديق كے نہ ہونے پر دلالت كرتاہے پس ''ولا ہم يحزنون'' سے مراد يہ ہے كہ كسى طرح كا بھى غم وا ندوہ نہ ہوگا_

۷_ سرائے آخرت اديان كے پيروكاروں كےلئے ايك ايسى سرائے ہے جو خوف و پريشانى كے عوامل سے دور اور ہر طرح كے حزن و ملال آور واقعات سے امان ميں ہے _فلا خوف عليهم و لا هم يحزنون

بعد والى آيت جس ميں كفار كے لئے آخرت ميں پاداش كاذكر ہواہے اس كے قرينے سے كہا جاسكتاہے كہ اس آيت ميں اہل ہدايت كى آخرت ميں جزا كا ذكر كيا گيا ہے بنابريں '' فلا خوف ...'' كا تعلق عالم آخرت سے ہے _

۸ _ گناہ كے وضعى نتائج اللہ تعالى كى جانب سے توبہ كى قبوليت كے باوجود رہتے ہيں _فتاب عليه قلنا اهبطوا منها جميعاً فاما ياتينكم منى هديً حضرت آدمعليه‌السلام كى توبہ اور اللہ تعالى كى جانب سے اسكى قبوليت كے بعد بھى حضرت آدمعليه‌السلام كو ہبوط كا تاكيد سے حكم دينا اس بات پر دلالت كرتاہے كہ حضرت آدمعليه‌السلام كى توبہ قبول ہونے كے باوجود انكو بہشت ميں دوبارہ ان كا مقام نہ مل سكا يہ چيز حكايت كرتى ہے كہ گناہ كى معافى كا لازمہ اسكے وضعى نتائج كا خاتمہ نہيں ہے _

۱۳۶

اديان : اديان كے پيروكاروں كى آخرت ميں امنيت ۷; اديان كے پيروكار قيامت ميں ۷; اديان كے پيروكاروں كا اخروى سرور ۷

اللہ تعالى : افعال الہى ۱،۳; اللہ تعالى كى بشارتيں ۴; ہدايت الہى ۴،۵

انسان: انسان كى معنوى ضروريات۵

توبہ : توبہ كے نتائج ۸

حضرت آدمعليه‌السلام : آدمعليه‌السلام كى نافرمانى كے نتائج ۲; حضرت آدمعليه‌السلام كا بہشت سے اخراج ۱،۴; نسل آدمعليه‌السلام كو بشارت ۴; حضرت آدمعليه‌السلام كى نافرمانى ۱; حضرت آدمعليه‌السلام كا واقعہ ۴;حضرت آدمعليه‌السلام كا بہشت سے محروم ہونا ۲; نسل آدمعليه‌السلام كا محروم ہونا ۲; حضرت آدمعليه‌السلام كا ہبوط ۱

حضرت حواعليه‌السلام : حواعليه‌السلام كى نافرمانى كے نتائج ۲; حواعليه‌السلام كا بہشت سے اخراج ۱،۴; حضرت حواعليه‌السلام كى نافرمانى ۱; حضرت حواعليه‌السلام كا واقعہ ۴; حضرت حواعليه‌السلام كا ہبوط ۱

سعادت: سعادت كے عوامل ۵

شيطان : شيطان كا بہشت سے اخراج ۳; شيطان كا ہبوط ۳

ضروريات : ہدايت كى ضرورت ۵

گناہ : گناہ كے وضعى نتائج۸

نافرماني: نافرمانى كے نتائج ۱

ہدايت يافتہ افراد: اہل ہدايت كا آخرت ميں امن و امان ۶; اہل ہدايت كا اخروى سرور ۶; ہدايت يافتہ انسان قيامت ميں ۶

۱۳۷

وَالَّذِينَ كَفَرواْ وَكَذَّبُواْ بِآيَاتِنَا أُولَئِكَ أَصْحَابُ النَّارِ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ ( ۳۹ )

جو لوگ كافر ہوگئے اور انھوں نے ہمارى نشانيوں كو جھٹلا ديا وہ جہنمى ہيں اور ہميشہ وہيں پڑے رہيں گے_

۱ _ آيات الہى كا انكار اور تكذيب كرنے والوں كى سزا اور كيفر آتش جہنم ہے_والذين كفروا و كذبوا باياتنا اولئك اصحاب النار '' كذبوا'' كا مصدر تكذيب ہے جسكا معنى ہے جھوٹى نسبت دينا ہے '' باياتنا'' كذبوا كے علاوہ كفروا سے بھى متعلق ہے_ جملہ''الذين كفروا '' جملہ ''من تبع ...'' پر عطف ہے جو اس بات كى طرف اشارہ ہے كہ يہ لوگ اللہ تعالى كى ہدايت و راہنمائي كو قبول كرنے والے نہيں _

۲ _ آيات الہى كا كفر اختيار كرنے والے اور جھٹلانے والے ہميشہ كے لئے جہنم ميں رہيں گے _اولئك اصحاب النارهم فيها خالدون

۳ _ دوزخ اور اسكى آگ دائمى اور ہميشہ رہنے والى ہے_هم فيها خالدون

۴ _ اللہ تعالى اپنى ہدايت و راہنمائي كو لوگوں كى طرف ايسے بھيجتاہے كہ اس ہدايت كے خدائي ہونے كى نشانى و علامت اسكے ہمراہ ہوتى ہے_فاما ياتينكم منى هدى الذين كفروا و كذبوا بآياتنا

''آيات'' جمع استعمال ہوا ہے اور اسكا معنى ہے نشانياں اور علامات_ لفظ '' ہديً'' اور ما قبل آيہ ميں لفظ '' ہداي'' دليل ہے كہ آيات سے مراد اللہ تعالى كى ہدايات او ر راہنمائي ہے _ ہدايت كو آيت سے تعبير كرنے كا معنى يہ ہے كہ اللہ تعالى اپنى ہدايت كو اس انداز سے پيش فرماتاہے كہ جس سے اسكى حقانيت آشكار ہو اور اسكا خدائي ہونا ثابت ہو_

آيات الہى : آيات الہى كو جھٹلانے والوں كى سزا ۱; آيات الہى كو جھٹلانے والے جہنم ميں ۲

اللہ تعالى : ہدايت الہى كى خصوصيات ۴

۱۳۸

اہل جہنم : ۲ جہنم : آتش جہنم ۱; آتش جہنم كا ہميشہ رہنا ۳; جہنم كا دائمى ہونا ۳; جہنم ميں ہميشہ كے لئے رہنا ۲

سزا : سزا كى وجوہات ۱، ۲

عذاب : اہل عذاب ۱،۲

كفار: كفار جہنم ميں ۲

يَا بَنِي إِسْرَائِيلَ اذْكُرُواْ نِعْمَتِيَ الَّتِي أَنْعَمْتُ عَلَيْكُمْ وَأَوْفُواْ بِعَهْدِي أُوفِ بِعَهْدِكُمْ وَإِيَّايَ فَارْهَبُونِ ( ۴۰ )

اے بنى اسرائيل ہمارى نعمتوں كو ياد كرو جو ہم نے تم پر نازل كى ہيں اور ہمارے عہد كو پورا كرو ہم تمھارے عہد كو پورا كريں گے اور ہم سے ڈرتے رہو_

۱ _ اللہ تعالى نے بنى اسرائيل كو گراں قدر نعمتوں سے بہرہ مند فرمايا:يا بنى اسرائيل اذكروا نعمتى التى أنعمت عليكم

'' نعمت'' مفرد آياہے اس سے مراد خاص نعمت ہوسكتى ہے جيساكہ حضرت موسىعليه‌السلام كى بعثت اور ممكن ہے نعمت كى جنس يا صنف مراد ہو جس ميں متعدد نعمتيں شامل ہيں جن كا آيت ۴۷ كے بعد والى آيات ميں ذكر ہوا ہے _ نعمت كى '' يائ'' متكلم كى طرف اضافت اس بات كى دليل ہے كہ يہ نعمت يا نعمتيں بہت عظيم و باشرافت ہيں _

۲ _ اللہ تعالى نے بنى اسرائيل سے چاہا كہ اسكى نعمتوں كو ہميشہ ہميشہ كے لئے ياد ركھيں _يا بنى اسرائيل اذكروا نعمتى التى أنعمت عليكم

۳ _ بنى اسرائيل قرآن كريم كے مخاطب قرار پائے اور ان كا فريضہ قرار ديا گيا كہ قرآن حكيم كى پيروى كريں _

يا بنى اسرائيل اذكروا

۴ _ نزول قرآن كے زمانے تك بنى اسرائيل ايك قوم و

۱۳۹

قبيلے كى شكل ميں تھے_يا بنى اسرائيل اذكروا حضرت اسحاقعليه‌السلام كے فرزند اور حضرت ابراہيمعليه‌السلام كے پوتے حضرت يعقوبعليه‌السلام كا ايك اور نام اسرائيل تھا يہ جو بنى اسرائيل ( فرزندان يعقوبعليه‌السلام ) كے عنوان سے ايك گروہ يا جماعت كى شكل ميں معروف تھے اور آنحضرتعليه‌السلام كے زمانے ميں بھى اسى نام سے جانے پہچانے جاتے تھے اس سے معلوم ہوتاہے كہ انہوں نے اپنے زمانہ آغاز سے اس زمانے تك اپنى قوميت كو محفوظ كر ركھا تھا اور قوم قبيلے كى صورت ميں رہتے تھے _

۵ _ اللہ تعالى اور بنى اسرائيل كے ما بين متقابل عہد و پيمان كا وجود _اوفوا بعهدى اوف بعهدكم '' عہدي'' يعنى وہ عہد و پيمان جو اللہ تعالى نے لوگوں كے ذمے قرار ديا ہے _ '' عہدكم'' سے مراد وہ وعدے ہيں جو اللہ تعالى نے اپنے بندوں كو ديئے ہيں اور ان كى انجام دہى كو اپنے ليئے ضرورى قرار ديا ہے _

۶ _ بنى اسرائيل كو اللہ تعالى كے احكام و فرامين ميں سے ايك حكم يہ تھا كہ الہى وعدوں كو وفا كريں _و اوفوا بعهدي

۷_ پيامبر اكرم صلى اللہ عليہ و آلہ و سلم كے زمانے كے بنى اسرائيل الہى عہد و پيمان سے آگاہ تھے_اوفوا بعهدى اوف بعهدكم

۸_ اللہ تعالى كا وفائے عہد كرنا اس شرط كے ساتھ تھا كہ بنى اسرائيل الہى عہد و پيمان كى پابندى كريں _اوفوا بعهدى اوف بعهدكم

۹_ بنى اسرائيل كو اللہ تعالى كى نصيحتوں ميں سے ايك نصيحت يہ تھى كہ فقط خدا سے ڈريں اور اسكے غير سے خوف زدہ نہ ہوں _و اياى فارهبون ''رہبہ'' كا معنى ڈرنا ہے _'' ارھبون'' ميں فعل امر ''ارہبوا'' اور نون وقايہ مكسور ہے جو اس بات كى حكايت كرتى ہے كہ يہاں '' ياى متكلم'' محذوف ہے يعنى جملہ يوں ہے ''و اياى فارهبونى ''

۱۰_ اللہ تعالى انسانوں كو نعمت عطا كرنيوالاہے _نعمتى التى انعمت عليكم

۱۱_ الہى نعمتوں كو ياد ركھنے كى ضرورت_اذكروا نعمتى التى انعمت عليكم

۱۲ _ نعمتوں كو ياد كرنے اور ياد ركھنے كا ہدف اللہ كى ياد ميں رہنا اور نعمتوں كو اس كى جانب سے سمجھنا ہے _

اذكروا نعمتى التى انعمت عليكم''نعمت'' كى توصيف يوں كرنا كہ اللہ تعالى نے اسے عطا فرمايا ہے '' انعمت عليكم'' يہ اس حقيقت كى طرف اشارہ ہے كہ نعمت كو ياد كرنا نعمت دينے والے كى ياد كا ذريعہ ہونا چاہيئے يعنى نعمت كو ياد كرنے كا لازمہ يہ ہو كہ ہر نعمت ميں خدا كو ديكھاجائے_

۱۴۰

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

کیا قرآن سات حروف پر نازل ہوا؟

٭ روایات کے کمزور پہلو

٭ روایات میں تضاد

٭ سات حروف کی تاویل و توجیہ

٭ قریب المعنی الفاظ

٭ سات ابواب

٭ سات ابواب کا ایک اور معنی

٭ فصیح لغات

٭ قبیلہ ئ مضر کی لغت

٭ قراءتوں میں اختلاف

٭ اختلاف قراءت کا ایک اور معنی

٭ اکائیوں کی کثرت

٭ سات قراءتیں

٭ مختلف لہجے

۲۲۱

اہل سنت کی روایات بتاتی ہیں کہ قرآن سات حروف میں نازل کیا گیا ہے۔ بہتر ہے کہ پہلے ان روایات کو بیان کیا جائے اور پھر ان کے بارے میں اپنی تحقیق پیش کی جائے۔

۱۔ طبری نے یونس اور ابی کریب سے انہوں نے ابی شہاب سے اور اس نے ابن عباس سے روایت کی ہے کہ رسول خدا(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) نے فرمایا:

قال:''أقرأنی جبرئیل علی حرف فراجعته، فلم أزل أستزیده فیزیدنی حتی انتهی الی سبعة أحرف،،

''مجھے جبرئیل نے ایک حرف میں پڑھایا۔ میں نے دوبارہ جبرئیل کی طرف رجوع کیا اور یہ سلسلہ سات حروف تک منتہی ہوا۔،،

اس روایت کومسلم نے حرملہ سے، حرملہ نے ابن وھب سے اور اس نے یونس سے نقل کیا ہے۔(۱) بخاری نے دوسری سند سے یہ روایت بیان کی ہے اور اس کا مضمون ابن برقی اور ابن عباس کے ذریعے نقل کیا ہے۔(۲)

۲۔ ابی کریب نے عبد الرحمن بن ابی لیلیٰ کی سند سے اس نے اپنے جد کی سند سے اور اس نے ابی ابن کعب کی سند سے روایت کی ہے۔ ابیّ کہتا ہے:

''کنت فی المسجد فدخل رجل یصلی فقرأ قراءة أنکرتها علیه، ثم دخل رجل آخر فقرأ قراء ة غیر قراء ة صاحبه، فدخلنا جمیعاً علی رسول الله قال: فقلت یا رسول الله ان هذا قرأ قراء ة أنکرتها علیه، ثم دخل هذا فقرأ قراءة غیر قراءة صاحبه، فامرهما رسول الله(صلّی اللّه علیه وآله وسلّم) فقرأا ، فحسن رسول الله(صلّی اللّه علیه وآله وسلّم) شأهما، فوقع فی نفسی من التکذیب، ولا اذ کنت فی الجاهلیة فلما رأی رسول الله(صلّی اللّه علیه وآله وسلّم) ما غشینی ضرب صدری، ففضت عرقا کأنما أنظر الی الله فرقا فقال لی: یاأبی أرسل الی ان اقرأ القرآن علی حرف، فرددت علیه أن هون علی أمتی، فرد علی فی الثانیة أن اقرأ القرآن علی حرف فرددت علیه أن هون علی أمتی، فرد علی فی الثالثة أن اقرأه علی سبعة أحرف، و لک بکل ردة رددتها مسألة تسألنبها، فقلت: اللهم اغفر لأمتی اللهم اغفر لأمتی، و اخرت الثالثه لیوم یرغب فیه الی الخلق کلهم حتی ابراهیم علیه السلام،،

____________________

(۱)صحیح مسلم باب ان القرآن انزل علی سبعة أحرف ، ج ۲، ص ۲۰۲، طبع محمد علی صبیح، مصر۔

(۲)صحیح البخاری باب انزل القرآن علی سبعة أحرف ،ج ۲، ص ۱۰۰، مطبع عامرہ۔

۲۲۲

''میں مسجد رسول میں بیٹھا ہوا تھا، اتنے میں ایک آدمی مسجد میں داخل ہوا اور اس نے نماز پڑھنی شروع کی۔ اس نے ایک ایسی قراءت پڑھی جسے میں نہ جانتا تھا۔ اس اثنا میں دوسرا آدمی مسجد میں داخل ہوا اور اس نے ایک اور قراءت سے نماز شروع کی۔ پھر جب ہم سب نماز پڑھ چکے تو رسول اللہ(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ میں نے آپ کی خدمت میں عرض کی کہ اس شخص نے ایسی قراءت سے نمام پڑھی کہ مجھے تعجب ہوا اور دوسرا آیا تو اس نے اس کے علاوہ ایک اور قراءت پڑھی۔ آپ نے ان دونوں کو دوبارہ نماز پڑھنے کا حکم دیا۔ ان دونوں نے اسی طرح نماز پڑھی جس طرح پہلے پڑھی تھی، آپ نے دونوں کی نماز کو سراہا، اس سے میرے دل میں تکذیب آئی لیکن ایسی تکذیب نہیں جیسی زمانہ جاہلیت میں تھی۔ جب رسول اللہ(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) نے میری یہ کیفیت دیکھی تو میرے سینے پر ہاتھ مارا جس سے میں شرم کے مارے پسینہ سے شرابور ہوگیا اور یوں لگا جیسے میں اللہ کو دیکھ رہا ہوں۔ اس کے بعد پیغمبر اکرم(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) نے فرمایا: اے اُبیّ! مجھے یہ حکم دیا گیا کہ قرآن کو ایک حرف میں پڑھوں۔ میں نے خالق کے دربار میں درخواست کی کہ میری امت پر اس فریضہ کو آسان فرما مجھے دوبارہ یہی حکم ملا کہ قرآن کو ایک حرف میں پڑھوں۔ میں نے پھر وہی درخواست دہرائی۔ اس دفعہ مجھے حکم دیا گیا کہ میری ہر دعا، جو قبول نہیں ہوئی، کے عوض ایک دعا قبول کی جائے گی۔ اس پر میں نے یہ دعا مانگی: پالنے والے! میری امت کو بخش دے۔ پالنے والے! میری اُمّت کو بخش دے اور تیسری دعا کو اس دن کے لیے محفوظ رکھا ہے جس دن حضرت ابراہیم (علیہ السلام) تک میری دعا کے محتاج ہوں گے۔،،

اس روایت کو مُسلم نے بھی معمولی اختلاف کے ساتھ بیان کیا ہے۔(۱) طبری نے بھی ایک اور سند سے معمولی اختلاف کے ساتھ اس کو نقل کیا ہے اور تقریباً اسی مضمون کی یونس بن عبد الاعلیٰ اور محمد بن عبد الاعلیٰ اور محمد بن عبد الاعلیٰ صنعانی کے ذریعے اُبیّ بن کعب سے روایت کی گئی ہے۔

____________________

(۱) صحیح مسلم، ج ۲، ص ۲۰۳۔

۲۲۳

۳۔ ابی کریب نے سلیمان بن صرد کی سند سے اُبیّ بن کعب سے روایت کی ہے۔ اُبیّ بن کعب کہتا ہے:

قال: ''رحت الی المسجد فسمعت رجلاً یقرأ فقلت: من أقرأک؟ فقال: رسول الله(صلّی اللّه علیه وآله وسلّم) فانطلقت به الی رسول الله(صلّی اللّه علیه وآله وسلّم) فقلت: استقریئ هذاں، فقرأ فقال: أحسنت قال: فقلت انک أقرأتنی کذا و کذا فقال: وأنت قد أحسنت قال: فقلت قد أحسنت قد أحسنت قال: فضرب بیده علی صدری، ثم قال: اللهم أذهب عن أبیّ الشک قال: ففضت عرقاً و امتلأ جو فی فرقاً ثم قال: ان اللکین أتیانی فقال أحدهما: اقرأ القرآن علی حرف، و قال الآخر: زده قال: فقلت زدنی قال: اقرأه علی حرفین حتی بلغ سبعة أحرف فقال: اقرأ علی سبعة أحرف،،

''میں مسجد میں داخل ہوا تو ایک آدمی کی قراءت سُنی، میں نے اس سے دریافت کیا تمہیں یہ قراءت کس نے پڑھائی ہے، اس نے جواب دیا رسول اللہ(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) نے پڑھائی ہے چنانچہ میں اسے لے کر رسول اللہ(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا: یا رسول اللہ(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) اس کی قراءت سنیئے۔ اس شخص نے قراءت پڑھی اور سول اللہؐ نے سننے کے بعد فرمایا: عمدہ ہے۔ میں نے کہا: آپ نے تو مجھے اس طرح اور اس طرح قراءت پڑھائی تھی۔ آپ نے فرمایا: یقیناً تمہاری قراءت بہت اچھی ہے میں نے آپ کی نقل اتارتے ہوئے کہا: تمہاری قراءت بھی بہت اچھی ہے۔ آپ نے اپنا ہاتھ میرے سینے پر مارا اور فرمایا: پالنے والے! اُبیّ کے دل شک دور فرما۔ میں (اُبیّ) خجالت کے مارے پسینے سے شرابور ہو گیا اور میری پورا وجود خوف سے لرزنے لگا۔ پھر آپ نے فرمایا: میرے پاس دو فرشتے نازل ہوئے ان میں سے ایک نے کہا: قرآن کو ایک حرف میں پڑھیئے۔ دوسرے فرشتے نے پہلے سے کہا: اس ایک حرف میں اضافہ کریں۔ میںؐ نے بھی فرشتے سے یہی کہا۔ فرشتے نے کہا: قرآن کو دو حرفوں میں پڑھیئے۔ فرشتہ حروف کی تعداد بڑھاتا گیا یہاں تک کہ فرشتے نے کہا قرآن کو سات حروف میں پڑھیئے۔،،

۲۲۴

۴۔ ابو کریب نے عبد الرحمن بن ابی بکرہ کی سند سے اور اس نے اپنے باپ کی سند سے روایت کی ہے۔ ابو کریب کہتا ہے:

قال: ''قال رسول الله(صلّی اللّه علیه وآله وسلّم): قال جبرئیل: اقرأ القرآن علی حرف فقال میکائیل استزده فقال: علی حرفین، حتی بلغ ستة أو سبعة أحرف و الشک من أبی کریب فقال: کهها شاف کاف ما لم تختم آیة عذاب برحمة، أو آیة رحمة بعذاب کقولک: هلم و تعال،،

''پیغمبر اکرم(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) فرماتے ہیں: جبرئیل نے کہا قرآن کو ایک حرف میں پڑھیئے۔ میکائیل نے کہا کہ جبرئیل سے درخواست کریں کہ اسے بڑھا دے، میریؐ درخواست پر جبرئیل نے کہا دو حروف میں پڑھیئے۔ اس طرح حروف کو بڑھاتے گئے یہاں تک کہ چھ یا ست تک پہنچ گئے (چھ اور سات میں تردد ابی کریب کی طرف سے ہے) پھر آپ نے فرمایا: ان میں سے جس حرف میں بھی پڑھیں کافی ہے اور سب کا مطلب ایک ہے، جس طرح ''ھلم،، اور ''تعال،، دونوں کا معنی ہے ''آجاؤ،، بشرطیکہ رحمت کی آیہ عذاب میں اور عذاب کی آیہ رحمت میں تبدیل نہ ہو۔،،

۵۔ طبری نے احمد بن منصور کی سند سے اس نے عبد اللہ بن ابی طلحہ سے اس نے اپنے باپ سے اور اس نے اپنے باپ سے روایت بیان کی ہے:

قال: ''قرأ رجل عند عمر بن الخطاب فغیر علیه فقال: لقد قرأت علی رسول الله(صلّی اللّه علیه وآله وسلّم) فلم یغیر علی قال: فاختصما عند النبی فقال: یا رسول الله ألم تقرئنی آیة کذا و کذا؟ قال: بلی، فوقع فی صدر عمر شیئ فعرف النبی ذلک فی وجهه قال: فضرب صدره وقال: أبعد شیطاناً، قالها ثلاثاً ثم قال: یا عمر ان القرآن کله سوائ، ما لم تجعل رحمةً عذاباً و عذاباً رحمة،،

''ایک شخص نے حضرت عمر بن خطاب کے سامنے قرآن پڑھا حضرت عمر بن خطاب نے اس پر اعتراض کیا اور اس کی اصلاح کی کوشش کی۔ اس شحص نے کہا: میں نے پیغمبر اکرم(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) کے سامنے بھی اسی طرح قراءت پڑھی تھی۔ لیکن آپ نے اعتراض نہیں کیا تھا۔ چنانچہ یہ دونوں فیصلے کے لیے رسول اللہ(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) کی خدمت میں حاضر ہوئے۔

۲۲۵

اس شخص نے کہا: یا رسول اللہ(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم)! کیا آپ نے مجھے اس آیہ کی قراءت اس طرح نہیں پڑھائی تھی؟ آپ نے فرمایا: ہاں اسی طرح پڑھائی تھی؟ آپ نے فرمایا: ہاں اسی طرح پڑھائی تھی۔ حضرت عمر کے دل میں شکوک و شبہات پیدا ہوئے جنہیں رسول اللہ(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) نے حضرت عمر کے چہرے پر نمایاں محسوس فرمایا۔ راوی کہتا ہے: رسول اللہ(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) نے حضرت عمر کے سینے پر ہاتھ مارا اور تین مرتبہ فرمایا: شیطان کو اپنے آپ سے دور رکھو۔ اس کے بعد فرمایا: یہ سب قرآن ایک جیسے ہیں جب تک کسی رحمت کو عذاب میں اور عذاب کو رحمت میں تبدیل نہ کرو۔،،

طبری نے یونس بن عبد الاعلیٰ سے حضرت عمر اور ہشام بن حکیم کا اسی قسم کا ایک واقعہ نقل کیا ہے جس کی سند خود حضرت عمر تک پہنچتی ہے۔

بخاری، مسلم اور ترمذی نے بھی حضرت عمر کا ہشام کے ساتھ ایک واقعہ بیان کیا ہے جس کی سند اور حدیث کے الفاظ کچھ مختلف ہیں۔(۱)

۶۔ طبری نے محمد بن مثنی سے اس نے ابن ابی لیلیٰ سے اور اس نے اُبیّ بن کعب سے روایت کی ہے:

قال: ''فأتاه جبرئیل فقال: ان الله یأمرک أن تقریئ أمّتک القرآن علی حرف فقال: أسأل الله معافاته و مغفرته، و ان أمتی لا تطبق ذلک قال: ثم أتاه الثانیة فقال: ان الله یأمرک أن تقریئ أمتک القرآن علی حرفین فقال: أسأل الله معافاته و مغفرته، و ان أمتی لا تطبق ذلک، ثم جاء الثالثة فقال: ان الله یأمرک أن تقری، امّتک القرآن علی ثلاثة أحرف فقال: أسأل الله معافاته و مغفرته، و ان أمتی لاتطبق ذلک، ثم جاء الرابعة فقال: ان الله یأمرک أن قری، أمّتک القرآن علی سبعة أحرف، فأنما حرف قرأوا علیه فقد أصابوا،،

''رسول اللہ(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) قبیلہ بنی غفار کے ہاں تھے، اس وقت جبرئیل نازل ہوئے اور فرمایا: اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اپنی اُمّت کو ایک حرف میں قرآن پڑھایئے۔ آپ نے فرمایا: اللہ سے مغفرت اور عفو کی درخواست ہے کیونکہ میری امّت اس کی قدرت نہیں رکھتی

____________________

(۱) صحیح مسلم، ج ۲، ص ۲۰۲۔ صحیح بخاری، ج ۳، ص ۹۰ اور ج ۶، ص ۱۰۰،۱۱۱، ج ۸، ص ۵۳۔۲۱۵۔صحیح ترمذی، بشرح ابن العربی باب ما جاء انزل القرآن علی سبعة احرف ، ج ۱۱، ص ۶۰۔

۲۲۶

اُبیّ کہتا ہے: جبرئیل دوسری مرتبہ نازل ہوئے اور فرمایا: اپنی اُمّت کو دو حروف میں قرآن پڑھایئے۔ آپ نے فرمایا: اللہ سے مغفرت اور عفو کی درخوات ہے کیونکہ میری امت اس کی قدرت نہیں رکھتی۔ تیسری مرتبہ جبرئیل نازل ہوئے اور فرمایا: اپنی امت کو تین حروف میں قرآن پڑھایئے۔ آپ نے فرمایا: اللہ سے مغفرت اور عفو کی درخواست ہے کیونکہ میری امت اس کی قدرت نہیں رکھتی۔ جبرئیل پھر چوتھی مرتبہ نازل ہوئے اور فرمایا: اپنی امت کو سات حروف میں قرآن پڑھایئے، ان میں سے جس حرف پر بھی وہ قرآن پڑھے صحیح ہے۔،، اس روایت کو مسلم نے اپنی صحیح(۱) میں بیان کیا ہے۔ نیز طبری نے اس روایت کے کچھ حصے احمد بن محمد طوقی سے، اس نے ابن ابی لیلیٰ سے اور اس نے اُبیّ بن کعب سے معمولی اختلاف سے بیان کئے ہیں۔ اس کے علاوہ طبری نے محمد بن مثنیٰ سے اور اس نے ابیّ بن ابی کعب سے روایت کی ہے۔

۷۔ طبری نے ابی کریب سے اس نے زر سے اور اس نے اُبیّ سے نقل کیا ہے:

قال: ''لقی رسول الله صلی الله علیه وآله جبرئیل عند أحجار المرائ ۔فقال: انی بعثت الی أمّة أمیین منهم الغلام و الخادم، و فیهم الشیخ الفانی و العجوز فقال جبرئیل: فلیقرأوا القرآن علی سبعة أحرف،، (۲)

''مقام''مراء احجار،، پر رسول اللہ(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) نے جبرئیل کو دیکھا آپ نے فرمایا میں ایسی ان پڑھ قوم کی طرف بھیجا گیاہوں جس میں غلام، بوڑھے اور عورتیں شامل ہیں۔ جبرئیل نے فرمایا: آپ کی امّت سات حروف میں قرآن پڑھے۔،،

۸۔ طبری نے عمرو بن عثمان عثمانی سے، اس نے مقبری سے اور اس نے ابوہریرہ سے نقل کیا ہے کہ رسول اللہ(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) نے فرمایا:

''قال رسول الله(صلّی اللّه علیه وآله وسلّم): ان هذا القران انزل علی سبعة أحرف، فاقرأوا و لاحرج، و لکن لا تختموا طذکر رحمة بعذاب، ولا ذکر عذاب برحمة،،

''قرآن سات حروف میں نازل کیا گیا ہے۔ جس حرف میں چاہو اسے پڑھو، کوئی حرف نہیں۔ لیکن یہ خیال رکھو کہ رحمت کی آیہ کو عذاب کی آیہ میں اور عذاب کی آیہ کو رحمت کی آیہ میں بدل نہ دینا۔،،

___________________

(۱) صحیح مسلم ، ج ۲، ص ۲۰۳۔

(۲) اس روایت کو ترمذی نے بھی معمولی اختلاف کے ساتھ بیان کیا ہے۔ ج ۱۱، ص ۶۲۔

۲۲۷

۹۔ طبری نے عبید بن اسباط سے، اس نے ابی سلمہ سے اور اس نے ابوہریرہ سے نقل کیا ہے کہ رسول اللہ(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) نے فرمایا:

''قرآن چار حرفوں میں نازل کیا گیا ہے علیم، حکیم، غفور اور رحیم،،۔

اسی قسم کی روایت طبری نے ابی کریب سے اس نے ابی سلمہ سے اور اس نے ابوہریرہ سے نقل کی ہے۔

۱۰۔ طبری سعید بن یحییٰ سے، اس نے عاصم کی سند سے، اس نے زر سے اور اس نے عبداللہ بن مسعود سے روایت کی ہے، عبد اللہ ابن مسعود کہتا ہے:

قال: ''تمارینا فی سورة من القرآن، فقلنا: خمس و ثلاثون، أوست و ثلاثون آیة، قال: فانطلقنا الی رسول الله(صلّی اللّه علیه وآله وسلّم) فوجدنا علیاً یناجیه قال: فقلنا انما اختلفنا فی القراء ة قال: فاحمر وجه رسول الله(صلّی اللّه علیه وآله وسلّم) و قال: انما هلک من کان قبلکم باختلافهم بینهم قال: ثم أسرَّ الی علی شیأا فقال لنا علی: ان رسول الله یأمرکم ان تقرأوا کما علّمتم،،

''قرآن کے کسی سورۃ کے بارے میں ہمارا اختلاف ہوا۔ بعض نے کہا اس کی آیئتیں پینتیس ہیں اور بعض نے کہا چھتیس ہیں۔ چنانچہ ہم رسول اللہ(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) کی خدمت میں حاضر ہوئے دیکھا کہ آپ حضرت علی(علیہ السلام) سے راز و نیاز میں مشغول ہیں۔ ابن مسعود کہتا ہے کہ ہم نے رسول اللہ(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) سے عرض کیا: یا رسول اللہ(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم)! قراءت کے بارے میں ہمارا آپس میں اختلاف ہو رہا ہے۔ ہماری بات سن کر آپ کا چہرہ مبارک غصّے سے سرخ ہوگیا آپ نے فرمایا: تم سے پہلے لوگ آپس کے اختلاف کی وجہ سے ہلاکت میں مبتلا ہوگئے

پھر آپ نے آہستہ سے امیر المومنین (علیہ السلام) سے کچھ فرمایا۔ اس کے بعد حضرت علی (علیہ السلام) نے ہم سے کہا: رسول اللہ(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) فرماتے ہیں کہ جس طرح تمہیں قرآن پڑھایا گیا ہے اسی طرح پڑھو۔،،(۱)

____________________

(۱) یہ سب روایتیں تفسیر طبری، ج ۱، ص ۹۔۱۵ میں مذکور ہیں۔

۲۲۸

۱۱۔ قرطبی نے اُبی داؤد سے اور اس نے اُبیّ بن کعب سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) نے فرمایا:''یا اُبیّ انی قرأت القرآن ۔فقیل لی: علی حرف أوحرفین ۔فقال الملک الذی معی: قل علی حرفین ۔فقیل لی: علی حرفین أو ثلاثة ۔فقال الملک الذی معی: قل علی ثلاثة، حتی بلغ سبعة أحرف، ثم قال: لیس منها الا شاف کاف، ان قلت سمیعاً، علیماً، عزیزاً، حکیماً، مالم تخلط آیة عذاب برحمة، أو آیة رحمة بعذاب،،

''اے اُبی! میں نے قرآن کی تلاوت کی تو مجھ سے پوچھا گیا: آپ ایک حرف میں قرآن پڑھیں گے یا دو حرف میں؟ میرے ساتھ موجود فرشتے نے کہا: کہیئے دو حرف میں۔ فرشتے نے کہا: کہیئے تین حروف میں۔ اس طرح سات حروف تک سلسلہ جا پہنچا۔ اس کے بعد مجھ سے کہا گیا کہ ان سات حروف میں سے جس میں چاہیں پڑھیں، کافی ہے۔ چاہیں تو سمیعاً پڑھیں یا علیماً یا عزیزاً یا حکیماً پڑھیں البتہ عذاب کی آیہ کو رحمت کی آیہ سے اور رحمت کی آیہ کو عذاب کی آیہ سے خلط ملط نہ کردیں۔،،(۱)

i ۔ ان روایات کے کمزور پہلو

یہ تھیں اس مضمون کی اہم روایات جو اہل سُنّت کے سلسلہئ سند سے منقول ہیں اور یہ سب روایتیں صحیحہ زرارہ کی مخالف ہیں جو حضرت امام جعفر صادق (علیہ السلام) سے مروی ہے، آپ فرماتے ہیں:

''ان القرآن واحد نزل من عند واحد، و لکن الاختلاف یحیئ من قبل الرواة،،

''قرآن ایک ہی ہے اور ایک ہی ذات کی طرف سے نازل کیا گیا ہے اور اختلاف راویوں کے پیدا کردہ ہیں۔،،(۲)

____________________

(۱) تفسیر قرطبی، ج ۱، ص ۴۳۔

(۲) اصول کافی کتاب فضل القرآن، باب نوادر روایت ۱۲۔

۲۲۹

فضیل بن یسار نے حضرت ابا عبد اللہ(ع) سے پوچھا: یہ لوگ کہتے ہیں کہ قرآن سات حروف میں نازل ہوا ہے۔ امام(ع) نے فرمایا:

''أبو عبد الله علیه السلام: کذبوا أعداء الله ولکنه نزل علی حرف واحدمن عند الواحد،،

''یہ دشمنان خدا جھوٹ بولتے ہیں۔ قرآن کو صرف ایک حرف میں اور ایک ذات کی طرف سے نازل کیا گیا۔،،(۱)

اسسے پہے بطور اختصار بیان کیا جاچکا ہے کہ دینی معاملات میں رسول اللہ(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) کے بعد واحد مرجع و مرکز کتابِ خدا اور اہل بیت پیغمبرؐ ہیں جن سے خدا نے ہر قسم کے رجس و ناپاکی کو دور رکھا ہے۔ انشاء اللہ تعالیٰ اس کی مزید وضاحت بعد میں آئے گی۔

ان روایات کی کوئی وقعت نہیں ہے جو اہل بیتؑ کی صحیح روایات کی مخالف ہیں۔ اس لئے دوسری روایات کی سند کے بارے میں کسی بحث کی نوبت نہیں آئی اور روایات اہل بیتؑ کی مخالفت کی وجہ سے ہی وہ روایات ناقابل اعتبار قرار پاتی ہیں اس کے علاوہ بھی ان روایات میں آپس میں تضاد پایا جاتا ہے اور بعض روایات ایسی ہیں جن کے سوال و جواب کا آپس میں کوئی تعلق نہیں ہے۔

ii ۔ روایات میں تضاد

تضاد کا ایک نمونہ یہ ہے کہ بعض روایات کے مطابق جبرئیل نے رسول اللہ(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) کو ایک حرف میں قرآن پڑھایا اور آپ نے مزید حروف کی درخواست کی یہاں تک کہ یہ سلسلہ سات حروف تک منتہی ہوا۔

____________________

(۱) اصول کافی کتاب فضل القرآن، باب نوارد روایت ۱۳۔

۲۳۰

اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حروف میں اضافہ تدریجاً ہوا ہے بعض روایات کے مطابق یہ اضافہ ایک ہی نشست میں ہوا اور آپ نے ان میں اضافے کا مطالبہ میکائیل کی ہدایت پر کیا اور جبرئیل نے سات حرف تک اضافہ کردیا اور بعض روایات کے مطابق میکائیل کی رہنمائی اور رسول اللہ(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) کی درخواست کے بغیر ہی جبرئیل آسمان پر جاتے اور نازل ہوتے تھے حتیٰ کہ سات حروف مکمل ہوئے۔

تضاد کا تیسرا نمونہ یہ ہے کہ بعض روایات کہتی ہیں کہ اُبیّ بن کعب مسجد میں داخل ہوا اور کسی کو اپنی قراءت کے خلاف قرآن پڑھتے سنا اور بعض روایات یہ کہتی ہےں کہ اُبیّ بن کعب پہلے سے مسجد میں موجود تھا اور بعد میں دو آدمیوں نے مسجد میں داخل ہو کر اس کی قراءت کے خلاف قرآن پڑھا۔ اس کے علاوہ ان روایات میں وہ کلام بھی مختلف طریقے سے مذکور ہے جو

آنحضرت(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) نے اُبیّ سے فرمایا۔

سوال و جواب میں مناسبت نہ ہونے کا نمونہ ابن مسعود کی روایت میں حضرت علی (علیہ السلام) کا یہ فرمانا ہے کہ رسول اللہ(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) فرماتے ہیں: جس طرح تمہیں پڑھایا گیا ہے اسی طرح پڑھو۔ یہ جواب سائل کے سوال سے مطابقت نہیں رکھتا کیونکہ ابن مسعود نے آیتوں کی تعدادکے بارے میں پوچھاتھا آیہ کی کیفیت اور قراءت کے بارے میں نہیں۔

ان تمام اشکالات کے علاوہ بھی قرآن کے سات حروف میں نازل ہونے کا کوئی معنی نہیں بنتا اور کوئی صاحب فکر و نظر کسی صحیح نتیجے تک نہیں پہنچ سکتا۔

۲۳۱

سات حروف کی تاویل و توجیہ

سات حروف کی تاویل و توجیہ میں چند اقوال ذکر کیے گئے ہیں۔ ذیل میں ہم ان میں سے اہم اقوال اور ان میں موجود سقم اور اشکال بیان کریں گے:

۱۔ قریب المعنی الفاظ

سات حروف کی پہلی توجیہ اور تاویل یہ کی گئی ہے کہ الفاظ مختلف ہیں اور ان کے معانی قریب قریب ہیں، جس طرح عجل اسرع اور اسع ہیں۔ ان تینوں الفاظ کا معنی ہے۔ ''جلدی کرو،، یہ حروف حضرت عثمان کے زمانے تک موجود تھے۔ اس کے بعد حضرت عثمان نے ان حروف کو ایک حرف میں منحصر کردیا اور باقی چھ حروف پر مشتمل قرآنوں کو نذر آتش کرنے کا حکم دے دیا۔

اس تاویل کو طبری اور علماء کی ایک جماعت نے بھی اختیار کیا ہے(۱) قرطبی کا کہنا ہے کہ اکثر اہل علم کا یہی نظریہ ہے(۲) اور ابو عمرو بن عبد البر کی رائے بھی یہی ہے(۳) ۔

اس تاویل پر ابن ابی بکرہ اور ابی داؤد کی روایت کے علاوہ یونس کی روایت سے استدلال کیا جاتا ہے جو ابن شہاب سے منقول ہے، اس میں انہوں نے کہا ہے:

سعید بن المسیب نے مجھے خبر دی ے کہ جس شخص کی طرف خدا نے آیہ کریمہ( إِنَّمَا يُعَلِّمُهُ بَشَرٌ ) ۱۶:۱۰۳

یعنی اس (رسول) کو تو ایک بشر قرآن سکھاتا ہے،، میں نے جس کی طرف اشارہ فرمایا ہے وہ ایک کاتب وحی تھا جو اس لیے شک و شبہ میں مبتلا ہوگیا کہ آپ اس سے آیتوں کے آحر میں سمیع علیم یا عزیز حکیم لکھواتے تھے پھر آپ سے پوچھتا: یا رسول اللہ(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم)! عزیز حکیم لکھوں یا سمیع علیم یا عزیز علیم؟ آپ فرماتے: ان

____________________

(۱) تفسیر طبری، ج ۱، ص ۱۵۔

(۲) تفسیر قرطبی، ج ۱، ص ۴۲۔

(۳) التبیان، ص ۳۹۔

۲۳۲

میں سے جو بھی لکھو صحیح ہے۔ اس بات سے یہ شخص اس غلط فہمی میں مبتلا ہوگیا کہ محمدؐ نے قرآن میرے سپرد کرد یا ہے، میں جو چہے لکھوں۔،،

نیز یونس کی اس قراءت سے بھی استدلال کیا گیا ہے:''ان ناشئة اللیل هی اشد وطا و اصوب قیلا ۔،، (۱) کچھ لوگوں نے یونس پر اعتراض کیا: اے ابو حمزہ قرآن میں تو ''اقوم،، ہے۔ یونس نے جواب دیا: اقوم اصوب اور اھدی کا معنی ایک ہی ہے۔

اسی طرح ابن مسعود کی قراءت ''ان کانت الا زقیۃ واحدۃ،، سے استدلال کیا گیا ہے۔ اس نے ''ان کانت صیحۃ واحدۃ،، کی بجائے ''ان کانت الا ذقیۃ واحدۃ،، پڑھا ہے۔ اس لیے کہ''صیحة،، اور''زقیة،، کا معنی ایک ہے۔(۱)

اس کے علاوہ طبری کی یہ روایت بھی بطور دلیل پیش کی جاتی ہے۔ طبری نے محمد بن بشار اور ابی السائب اور انہوں نے ہمام سے روایت کی ہے:

''ابو الدرداء ایک شخص کو آیہ کریمہ،( إِنَّ شَجَرَتَ الزَّقُّومِ ﴿﴾ طَعَامُ الْأَثِيمِ ) (۴۴:_۴۴_۴۳) پڑھ رہا تھا اس سے یہ آیہ نہیں پڑھی جارہی تھی اور وہ بار بار بتانے کے باوجوداس شخص سے ''طعام الاثیم،، نہیں پڑھا گیا تو ابو الدرداء نے اس سے کہا کہ اس کی جگہ پڑھو''ان شجرة الزقوم طعام الفاجر،، اس لیے کہ ''اثیم،، اور ''فاجر،، کا معنی ایک ہے۔،،(۲)

اس کے علاوہ اس تاویل کی دلیل میں ان روایات کو پیش کیا جاتا ہے جن میں یہ کہہ کر قراءت میں کافی گنجائش رکھی ہے:

ما لم تختم اٰیة رحمة بعذاب او اٰیة عذاب برحمة (یعنی) قرآن میں اتنی تبدیلی کرسکتے ہو کہ رحمت کی آیہ عذاب کی آیہ میں اور عذاب کی آیہ رحمت کی آیہ میں تبدیل نہ ہوجائے۔

____________________

(۱) تفسیر طبری، ج۱،ص ۱۸۔

(۲) ایضاً، ج ۲۵، ص ۷۸۔ آیہ مبارکہ کی تفسیر کے ذیل میں۔

۲۳۳

اس حد بندی کی یہی معنی ہوسکتا ہے کہ سات حروف سے مراد سات کلمات میں سے بعض کو بعض کی جگہ استعمال کرنا ہے۔ البتہ اس سے صرف اس صورت کو مستثنیٰ قرار دیا گیا جس سے رحمت کی کوئی آیہ عذاب کی آیہ میں اور عذاب کی آیہ رحمت کی آیہ میں تبدیل ہوجائے۔ بنابرایں ان روایات میں سے مجمل(۱) روایات کی مبین(۲) روایات پر محمول کرنے کے بعد ان سے وہی معنی مراد لیے جائیں جو ہم نے بیان کئے ہیں۔

مؤلف: سات حروف کے بارے میں جتنی بھی تاویلیں کی گئی ہیں ان میں سے کوئی بھی روایت سے سازگار نہیں، چانچہ اس کے بارے میں آئندہ بیان کیا جائے گا۔ بنابرایں یہ تمام روایات ناقابل قبول ہیں کیونکہ ان کے مفہوم کو اپنانا اور ان پر عمل کرنا ناممکن ہے، اس لیے کہ:

اولا: یہ تاویل، قرآن کے بعض معانی پر منطبق ہوسکتی ہے جس کی سات حروف سے تعبیر ہوسکتی ہو۔ اور یہ بدیہی امر ہے کہ قرآن میں اکثریت ان معانی کی ہے جنہیں مختلف الفاظ سے تعبیر نہیں کیا جاسکتا تو پھر یہ کیسے کہا جاسکتا ہے کہ قرآن ان سات حروف میں نازل ہوا ہے۔

ثانیاً: اگر اس تاویل سے مراد یہ ہو کہ خود رسول اللہ(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) نے بعض الفاظ جن کے معنی ملتے جلتے ہوں، میں تبدیل کرنے کی اجازت دی ے اور گذشتہ روایات کو اس کے ثبوت میں پیش کیا جائے تو یہ احتمال، اس قرآن کی بنیاد کو منہدم کرنے کا باعث بنے گا جو ایک ابدی معجزہ اور پوری انسانیت پر خدا کی طرف سے حجّت ہے، اور کسی بھی عاقل کو اس بات میں شک نہیں ہوگا کہ یہ احتمال حقیقی قرآن کے متروک اور اس کے بے وقعت ہوے کا متقاضی ہے۔

____________________

(۱) ایسا کلام جس کا معنی واضح نہ ہو۔ (مترجم)

(۲) ایسا کلام جس کا معنی واضح ہو۔ (مترجم)

۲۳۴

کوئی عاقل یہ سوچ سکتا ہے کہ پیغمبر اکرم(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) نے سورہ یٰس میں موجود آیات کی جگہ ان الفاظ کی تلاوت کی اجازت دی ہو:''یٰس والذکر العظیم، انک لمن الانبیآئ، علی طریق سویّ، انزال الحمید الکریم، التخوف قوماً خوف اسلافهم فهم ساهون ۔

ہم تو کہیں گے ان کی آنکھیں ٹھنڈی رہیں جو اسے جائز سمجھتے ہیںاللهمّ ان هٰذا الا بهتان عظیم ، پالنے والے! تو جانتا ہے کہ یہ تیرے رسول پر بہتان عظیم ہے۔ اللہ تعالیٰ تو فرماتا ہے:

( قُلْ مَا يَكُونُ لِي أَنْ أُبَدِّلَهُ مِن تِلْقَاءِ نَفْسِي ۖ إِنْ أَتَّبِعُ إِلَّا مَا يُوحَىٰ إِلَيَّ ۖ) ۱۰:۱۵

''(اے رسول) تم کہہ دو کہ مجھے یہ اختیار نہیں کہ میں اسے اپنے جی سے بدل ڈالوں میں تو بس اسی کا پابند ہوں جو میری طرف وحی کی گئی ہے۔،،

جب رسول اللہ(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) کو قرآن میں اپنی طرف سے کسی قسم کی تبدیلی کا اختیار نہیں ہے تو آپ دوسروں کو کیسے اس کی اجازت دے سکتے ہیں۔

رسول اللہ(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) نے براء بن عازب کو ایک دعا کی تعلیم فرمائی تھی جس میں یہ جملہ بھی شامل تھا: ''و نبیک الذی ارسلت،، اس کو براء نے ''و رسولک الذی ارسلت،، پڑھا تو آپ نے براء کو ٹوکا اور فرمایا ''نبی،، کی جگہ ''رسول،، مت پڑھو۔(۱)

____________________

(۱) التبیان، ص ۵۸۔

۲۳۵

جب دعا کی یہ شان اور اہمیت ہے تو قرآن کی اہمیت کتنی زیادہ ہوگی۔

اگر اس تاویل سے مراد یہ ہو کہ خود رسول اللہ(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) نے سات حروف کے مطابق قرآن پڑھا ہے اور ان روایات کو اس کے ثبوت میں پیش کیا جائے توپھر مدعی کو ان سات حروف کی ٹھیک ٹھیک نشاندہی کرنی چاہیے جن کے مطابق رسول اللہ(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) نے قرآن پڑھا ہے کیوں کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کی حفاظت کا وعدہ فرمایا ہے:

( إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَإِنَّا لَهُ لَحَافِظُونَ ) ۱۵:۹

''بیشک ہم ہی نے قرآن نازل کیا اور ہم ہی تو اس کے نگہبان بھی ہیں۔،،

ثالثاً: گذشتہ روایات میں اس بات کی تصریح کی گئی ہے کہ قرآن کو سات حروف میں نازل کرنے کی حکمت، اُمّت کی سہولت اور آسانی ہے، اس لیے کہ اُمّت ایک حرف میں قراءت کی استطاعت نہیں رکھتی اور اسی غرض سے رسول اللہ(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) نے سات حروف تک اضافہ کرنے کی درخواست کی تھی۔

لیکن آپ نے دیکھا کہ قراءتوں میں اختلاف باعث بنا کہ مسلمان ایک دوسرے کو کافر گردانیں، حتیٰ کہ حضرت عثمان نے قراءت کو ایک حرف میں منحصر کردیا اور باقی قرآنوں کو نذر آتش کردیا۔

اس سے ہم درج ذیل نتائج تک پہنچتے ہیں:

۱۔ قراءتوں میں اختلاف اُمّت کے لیے ایک عذاب تھا حضرت عثمان کے دور میں ظاہر ہوا۔ رسول اللہ(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) خدا سے ایسی چیز کا مطالبہ کس طرح کرسکتے تھے۔ جس میں اُمّت کا فساد و نقصان ہو اور کیایہ صحیح ہے کہ خدا ایسی درخواست منطور فرمالے؟ جبکہ بہت سی روایات میں اختلاف سے روکا گیا ہے اور اختلاف کو امّت کی ہلاکت کا باعث قرار دیا گیا ہے۔ بعض روایات تو یہاں تک کہتی ہیںکہ جب آپ نے قراءتوں میں اختلاف کی بات سنی تو غصے سے آپ کا چہرہ مبارک سُرخ ہوگیا۔ ان میں س کچھ روایات کا ذکر ہو چکا ہے اور کچھ روایات کا ذکر بعد میں کیا جائے گا۔

۲۳۶

۲۔ گذشتہ روایات کا مفہوم یہ تھا کہ نبی اکرم(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) نے فرمایا: میری اُمّت ایک حرف میں قرآن پڑھنے کی استطاعت نہیں رکھتی اور یہ صریحاً جھوٹ ہے۔ عقل اس کو نبی کریمؐ کی طرف نسبت دینے کی اجازت نہیں دیتی۔ کیونکہ ہم دیکھتے ہیں کہ حضرت عثمان کے بعد اُمّت پیغمبر، جس میں مختلف عناصر قبیلے اور مختلف زبانوں والے شامل تھے، قرآن کو ایک حرف میں پڑھنے پر قادر تھی۔ اب یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا رسول اکرم(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) کے زمانے میں ایک قراءت پر اتفاق کرنا کوئی مشکل تھا جبکہ اس وقت امّت پیغمبر اکرم(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) فصیح عربوں پر مشتمل تھی۔

۳۔ قراءتوں میں اختلاف، جس کی بنیاد پر حضرت عثمان نے قراءتوں کو ایک حرف میں منحصر کیا، خود پیغمبر اکرم(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) کے زمانے میں بھی تھا۔ آپ نے ہر قاری کی تائید بھی فرمائی تھی اور مسلمانوں کو حکم دیا تھا کہ وہ ان تمام قراءتوں کو تسلیم کرلیں اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی فرما دیا کہ قراءتوں میں اختلاف خدا کی طرف سے رحمت ہے۔

اب حضرت عثمان اور ان کے تابعین کو کیا حق پہنچتا ہے کہ وہ رحمت کے دروازے بند کردیں؟ جبکہ رسول اعظمؐ نے قراءت قرآن روکنے سے ممانعت فرمائی تھی۔

مسلمانوں کے پاس کیا جواز تھا کہ وہ رسول اکرم(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) کے قول کو تو ٹھکرا دیں اور حضرت عثمان کی بات مان کر اس پر عمل کریں؟

کیا مسلمانوں کی نظر میں حضرت عثمان، رحمۃ العالمین سے زیادہ مہربان اور ہمدرد تھے؟

معاذ اللہ کیا حضرت عثمان کے پیش نظر ایسی حکمت اور مصلحت تھی جس سے رسول اکرم(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) نے خبر تھی؟ یا حاشا وکلا حضرت عثمان پر ان حروف کے منسوخ ہونے کی وحی نازل ہوئی تھی؟!

۲۳۷

اس بحث کا خلاصہ یہ ہے کہ سات حروف سے متعلق روایات کی یہ بدنما تاویل اس قابل نہیں ہے کہ اسے ردّ بھی کیا جائے۔ اسی وجہ سے علمائے اہل سُنّت میں سے متاخرین نے اس تاویل کو ٹھکرا دیا ہے اور ابو جعفر محمد بن سعد ان النحوی اور حافظ جلال الدین سیوطی ان روایات کو مشکل اور متشابہ قرار دینے پر مجبور ہوگئے۔ چنانچہ کہا جاتا ہے کہ ان روایات کا کوئی مفہوم واضح نہیں ہے۔(۱) حالانکہ آپ نے ملاحظہ فرمایا کہ ان روایات کا مفہوم واضح ہے اور جو بھی ان روایات کا بنظر غائر مطالعہ کرے، اس کے لیے کوئی شک و تردد باقی نہیں رہتا۔

۲۔ سات ابواب

سات حروف کی تفسیر و تاویل کے سلسلے میں دوسری رائے یہ ہے کہ ان سے مراد سات ابواب ہیں اور قرآن ان سات ابواب میں تقسیم کیا گیا ہے ان کے عنوان یہ ہیں:

i ۔ آیات زجر (نہی)۔

ii ۔ آیات امر۔

iii ۔ آیات حلال۔

iv ۔ آیات حرام۔

v ۔ آیات محکم۔

vi ۔ آیات متشابہ۔

vii ۔ آیات امثال۔

اس نظریہ پر یونس کی روایت سے استدلال کیا گیا ہے، جسے اس نے ابن مسعود کی سند سے پیغمبر اکرم(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) سے نقل کیا ہے۔ آپ نے فرمایا:

____________________ _

(۱) التبیان، ص ۶۱۔

۲۳۸

انه قال: ''کان الکتاب الأول نزل من باب واحد علی حرف واحد، و نزل القرآن من سبعة أبواب، و علی سبعة أحرف: زجر، و أمر، و حلال، و حرام، و محکم، و متشابه، و أمثال ۔فأحلّوا حلاله، و حرّموا واعتبروا بأمثاله، و اعملوا بمحکمه، و آمنوا بمتشابهه، و قولوا آمنا به کل من عند ربنا،،

''پہلی آسمانی کتاب کا ایک ہی باب تھا اور وہ ایک ہی حرف پر نازل کی گئی تھی۔ قرآن مجید سات ابواب اور سات حروف میں نازل کیا گیاہے۔ زجر، امر، حلال، حرام، محکم، متشابہ اور امثال۔ حلال خدا کو حلا ل اور حرام خدا کو حرام سجھو، جس چیز کا تمہیں حکم دیا جائے اسے انجام دو اور جس چیز سے تمہیں منع کیا جائے اس سے باز آجاؤ، قرآن کی مثالوں سے عبرت حاصل کرو، محکم آیات پر عمل کرو اور متشابہ آیات پر ایمان لے آؤ اور کہو ہم اس پر ایمان لے آئے یہ سب کچھ ہمارے ربّ کی طرف سے ہے۔،،(۱)

اس نظریہ پر بھی چند اعتراضات ہیں:

۱۔ اس روایت سے یہی ظاہر ہوتا ہے کہ سات حروف، جن میں قرآن نازل ہوا ہے اور ہیں، اور سات ابواب، جن میں قرآن تقسیم ہوا ہے اور ہیں، لہذا اس روایت کو ان مجمل روایات کی تفسیر قرار نہیں دیا جاسکتا۔

۲۔ یہ روایت ابو کریب کی روایت سے متصادم ہے، جو اس نے ابن مسعود سے نقل کی ہے اور جس میں کہا گیا ہے:

ان الله انزل القرآن علی خمسة احرفٍ ۔حلال و حرام و محکم و متشابه و امثال ۔(۲) (یعنی) اللہ نے قرآن کو پانچ حروف ، حلال، حرام، محکم، متشابہ اور امثال میں نازل فرمایا ہے

____________________

(۱) تفسیر طبری، ج ۱، ص ۳۲۔

(۲) ایضاً، ج ۱، ص ۲۴۔

۲۳۹

۳۔ اس روایت کا مفہوم مضطرب و متزلزل ہے۔ کیونکہ ''زجر،، اور ''حرام،، ایک چیز ہے، اس طرح چھ ابواب ہو جائیں گے نہ کہ سات۔ اس کے علاوہ قرآن میں اور بہت سے موضوعات کا بھی ذکر ہے جو ان سات ابواب میں شامل نہیں ہیں۔جیسے: مبدائ، معاد، قصّے، احتجاجات ، دلائل اور علوم و معارف ہیں اور اگر اس تاویل کے قائل کا مقصد یہ ہے کہ باقی ماندہ موضوعات بھی محکم و متشابہ می داخل ہیں تو باقی پانچ ابواب، حلال، حرام، امر، زجر اور امثال کو بھی دوسرے موضوعات کی طرح محکم و متشابہ میں داخل ہونا چاہیے تھا۔ اس طرح قرآن دو حروف محکم و متشابہ میں منحصر ہو جاتا۔ اس لیے کہ قرآن میں جو کچھ ہے و محکم یا متشابہ ہے۔

۴۔ سات حروف کی تفسیر، سات ابواب کرنا گذشتہ روایات سے سازگار نہیں کیونکہ گذشتہ روایات میں قرآن کے سات حروف میں نازل ہونے کی وجہ امّت کی سہولت بیان کی گئی ہے۔ اس لیے کہ اُمّت ایک حرف پر قرآن پڑھنے کی قدرت نہیں رکھتی تھی۔

۵۔ بعض گذشتہ روایات اس بات کی تصریح کرتی ہیں کہ سات حروف سے مراد قراءت کی قسمیں ہیں، جن میں قاریوں کا اختلاف ہے۔

فرض کیا اگر اس روایت کا معنی سات ابواب ہیں تب بھی اس ایک روایت کی وجہ سے ان متعدد روایات کے ظاہری معنی سے دستبردار نہیں ہوا جاسکتا اور نہ ہی یہ ایک روایت گذشتہ روایات کے ظاہری معنی کے خلاف کسی معنی کے لیے قرینہ اور علامت بن سکتی ہے۔

۲۴۰

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

461

462

463

464

465

466

467

468

469

470

471

472

473

474

475

476

477

478

479

480

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

501

502

503

504

505

506

507

508

509

510

511

512

513

514

515

516

517

518

519

520

521

522

523

524

525

526

527

528

529

530

531

532

533

534

535

536

537

538

539

540

541

542

543

544

545

546

547

548

549

550

551

552

553

554

555

556

557

558

559

560

561

562

563

564

565

566

567

568

569

570

571

572

573

574

575

576

577

578

579

580

581

582

583

584

585

586

587

588

589

590

591

592

593

594

595

596

597

598

599

600

601

602

603

604

605

606

607

608

609

610

611

612

613

614

615

616

617

618

619

620

621

622

623

624

625

626

627

628

629

630

631

632

633

634

635

636

637

638

639

640

641

642

643

644

645

646

647

648

649

650

651

652

653

654

655

656

657

658

659

660

661

662

663

664

665

666

667

668

669

670

671

672

673

674

675

676

677

678

679

680

681

682

683

684

685

686

687

688

689

690

691

692

693

694

695

696

697

698

699

700

701

702

703

704

705

706

707

708

709

710

711

712

713

714

715

716

717

718

719

720

721

722

723

724

725

726

727

728

729

730

731

732

733

734

735

736

737

738

739

740

741

742

743

744

745

746

747

748

749

750

751

752

753

754

755

756

757

758

759

760

761

762

763

764

765

766

767

768

769

770

771

772

773

774

775

776

777

778

779

780

781

782

783

784

785