تفسير راہنما جلد ۱

 تفسير راہنما 7%

 تفسير راہنما مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن
صفحے: 785

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴ جلد ۵ جلد ۶ جلد ۷ جلد ۸ جلد ۹ جلد ۱۰ جلد ۱۱
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 785 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 201078 / ڈاؤنلوڈ: 5794
سائز سائز سائز
 تفسير راہنما

تفسير راہنما جلد ۱

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

۱۳ _ انسانوں كے ساتھ اللہ تعالى كے معاہدوں كى پابندى ضرورى ہے _اوفوا بعهدي

۱۴ _ انسانوں كے اس عہد كى وفا كرنا جو خداوند متعال كے ہاں ہے اس سے مشروط ہے كہ انسان الہى عہد و پيمان كو نبھائيں _و اوفوا بعهدى اوف بعهدكم

۱۵ _ خداوند متعال ہى اس مقام و عظمت كا مالك ہے جو شائستگى ركھتاہے كہ اسكى ہى ذات اقدس سے ڈراجائے _

و اياى فارهبون

۱۶_ اللہ تعالى سے ڈرنا اور اس كے غير سے خوف نہ كھانا اس امر كا موجب بنتاہے كہ عہد الہى كى پابندى كى جائے_

اوفوا بعهدى و اياى فارهبون

۱۷_ تاريخ سے آگاہى و واقفيت انسان كے لئے بہت كردار ساز ہوسكتى ہے _يا بنى اسرائيل اذكروا نعمتى التى انعمت عليكم گذشتہ نعمتوں كو ياد كرنا ايك طرح كى تاريخ سے واقفيت ہے جسكى پروردگار عالم نے نصيحت فرمائي ہے_ چونكہ اللہ تعالى كى نصيحتيں اور احكامات انسان كى تعمير ذات اور ہدايت كے لئے ہوتے ہيں اس اعتبار سے مذكورہ بالا مفہوم اخذ كيا گيا ہے_

اللہ تعالى : اللہ تعالى سے مختص امور ۱۵; اوامر الہى ۲; اللہ تعالى كى نصيحتيں ۶،۹; عہد خدا كى وفا كى شرائط ۸،۱۴; عنايات الہى ۱۰; عہد الہى ۵، ۷،۸،۱۳ ، ۱۴; نعمات الہى ۱،۱۰

انسان : انسانوں كے ساتھ خدا تعالى كا عہد ۱۳،۱۴; انسانوں كى ذمہ دارى ۱۵

بنى اسرائيل : بنى اسرائيل كى آگاہى ۲; صدر اسلام كے بنى اسرائيل ۷; بنى اسرائيل كى تاريخ ۱،۴; بنى اسرائيل كى معاشرتى شكل ۴;بنى اسرائيل كا اللہ تعالى سے عہد و پيمان ۵،۸; اللہ تعالى كا بنى اسرائيل سے عہد ۵، ۷،۸; بنى اسرائيل كى ذمہ دارى ۲،۳،۶،۹; بنى اسرائيل كى نعمتيں ۱،۲

تاريخ : تاريخ سے آگاہى كے نتائج ۱۷; تاريخ كے فوائد۱۷

تكليف ( شرعى ذمہ داري): تكليف پر عمل كے عوامل ۱۶

خوف: خوف خدا كے آثارو نتائج ۱۶; خوف خدا ۹،۱۵; غير خدا كا خوف ۱۶

۱۴۱

ذكر : نعمت كے ذكر كى اہميت ۱۱; ذكر خدا ۱۲; نعمت كا ذكر ۲، ۱۲

رشد: رشد كے عوامل ۱۷

عہد: وفائے عہد كے آثارو نتائج۱۴; وفائے عہد كي

اہميت ۱۳; وفائے عہد كے موجبات يا بنياديں ۱۶; وفائے عہد ۶

قرآن حكيم : قرآن كى اتباع ۳; قرآن حكيم اور بنى اسرائيل ۳; قرآن كريم كے مخاطبين ۳

نعمت: نعمت كا سرچشمہ ۱۰،۱۲

وَآمِنُواْ بِمَا أَنزَلْتُ مُصَدِّقاً لِّمَا مَعَكُمْ وَلاَ تَكُونُواْ أَوَّلَ كَافِرٍ بِهِ وَلاَ تَشْتَرُواْ بِآيَاتِي ثَمَناً قَلِيلاً وَإِيَّايَ فَاتَّقُونِ ( ۴۱ )

ہم نے جو قرآن تمھارى تورات كى تصديق كے لئے بھيجا ہے اس پر ايمان لے آو اور سب سے پہلے كافر نہ بن جاؤ ہمارى آيتوں كو معمولى قيمت پر نہ بيچو اور ہم سے ڈرتے رہو_

۱_ اللہ تعالى نے بنى اسرائيل كو قرآن كى تصديق اور اس پر ايمان لانے كى دعوت دى _ يا بنى اسرائيل و آمنوا بما انزلت

۲ _ قرآن كريم كا نازل كرنے والا پروردگار عالم ہے _و آمنوا بما انزلت

'' بما انزلت '' ميں ما موصولہ سے مراد قرآن حكيم ہے_

۳ _ قرآن پر ايمان لانا اور اسكا انكار نہ كرنا اللہ تعالى كے بنى اسرائيل سے عہد و پيمان ميں سے تھا_اوفوا بعهدى و آمنوا بما انزلت

۴ _ قرآن حكيم بنى اسرائيل پر نازل ہونے والى آسمانى كتابوں ( تورات ، انجيل ...) كى حقانيت كى تصديق كرنے والا ہے_آمنوا بما انزلت مصدقا لما معكم

''لما معكم'' ميں مائے موصولہ سے مراد بنى اسرائيل پر نازل ہونے والى آسمانى كتابيں ہيں جنكا واضح ترين مصداق تورات و انجيل ہيں _ ''مصدقاً'' كا مصدر تصديق ہے جسكا معنى ہے كسى شخص يا چيز كى طرف راستى و درستگى كى نسبت دينا _ پس '' مصدقا لما معكم'' كا معنى يہ بنتاہے قرآن تمھارى آسمانى كتابوں كو صحيح و درست جانتاہے اور ان كى حقانيت كى تصديق كرتاہے_

۱۴۲

۵ _ قرآن كريم كا خداوند متعال كى جانب سے نازل ہونا اس بات كى دليل ہے كہ سب كو اس پر ايمان لانا چاہيئے_

آمنوا بما انزلت قرآن كى بجائے مائے موصولہ كو استعمال كرنا اور اسكى تشريح جملہ '' انزلت'' كے ساتھ كرنے كا ہدف اس حكم ( قرآن پر ايمان لانے )كى دليل بيان كرناہے گويا قرآن چونكہ خداوند متعال كى جانب سے نازل ہواہے پس اس پر ايمان لے آؤ_

۶ _ قرآن حكيم تورات و انجيل كى حقانيت كى دليل ہے_* قرآن كريم كا آسمانى كتابوں كى تائيد كرنے كا مفہوم يہ ہوسكتاہے قرآن كريم كا نازل ہونا اس بات كا موجب ہوا كہ ان كتابوں ميں قرآن كے آنے كے بارے ميں جو پيشين گوئياں ہوئي تھيں وہ پورى ہوچكى ہيں _ بنابريں نزول قرآن ان كتابوں كى راستى و درستگى كو پايہ ثبوت تك پہنچاتاہے_

۷_اللہ تعالى نے بنى اسرائيل ( يہود و نصارى ) كو قرآن كريم كا انكار اور كفر كرنے سے متنبہ فرمايا_ولا تكونوا اوّل كافر به '' بہ '' كى ضمير ممكن ہے '' ما انزلت '' كى طرف لوٹتى ہو يا پھر '' ما معكم'' كى طرف، مذكورہ مفہوم پہلے احتمال كى بناپر ہے _

۸ _ قرآن كريم كے كفر و انكار كى صورت ميں بنى اسرائيل اللہ كى بارگاہ ميں انتہائي ناپسنديدہ اور منفور كفار ہوں گے _

و لا تكونوا اوّل كافر به يہ مفہوم مندرجہ ذيل دو واضح امور كى بناپر ہے_

۱_ جملہ '' ولا تكونوا ...'' ميں لفظ اول رتبے اور درجے كے اعتبار سے ہے نہ كہ زمانے كے اعتبار سے _

۲ _ '' اوّل'' قيد توضيحى ہے نہ كہ احترازى پس ''ولا تكونوا ...'' كا مفہوم يہ ہوگا قرآن كا كفر اختيار نہ كرو ورنہ اس صورت ميں يہ كفر اولين درجے كا ہوگا_

۹ _ قرآن كے انكار سے بنى اسرائيل اپنى آسمانى كتابوں كے كفر ميں بھى بڑھے ہوئے ہوں گے _و لا تكونوا اوّل كافر به يہ مفہوم اس بناپر ہے كہ '' بہ '' كى ضمير ''ما معكم''كى طرف لوٹتى ہو_ بنابريں جملہ '' و لا تكونوا ...'' كا جملہ '' امنوا بما انزلت'' سے ارتباط ہونے كى صورت ميں معنى يہ بنتاہے _ اے بنى اسرائيل قرآن پر ايمان لے آؤاور ان اولين افراد ميں سے نہ بنو جنہوں نے اپنى آسمانى كتابوں كے بارے ميں كفر اختيار كيا گويا تم نے قرآن كے انكار سے اپنى آسمانى كتابوں كا بھى انكار كرديا ہے_

۱۴۳

۱۰_ قرآن كريم كے انكار اور تورات و انجيل كے حقائق كے كفر سے يہود و نصارى كا ہدف متاع دنيا كا حصول تھا_

و لا تشتروا بآيا تى ثمناً قليلاً ''آياتى '' كا لفظ قرآن كے علاوہ تورات و انجيل ميں موجود حقائق كو بھى شامل ہے _ گويا '' بہ'' ضمير كى جگہ اسم ظاہر '' آياتي'' اسى مقصد كے لئے استعمال كيا گيا ہے _ قابل توجہ بات يہ ہے چونكہ قرآن كريم پر ايمان كے بارے ميں گفتگو ہے تو ''آياتي'' كا مورد نظر مصداق تورات و انجيل كے حقائق ہيں جو قرآن كريم كى حقانيت كى دليل ہيں _

۱۱ _ قرآن كريم كے كفر و انكار كى طرف رجحان كے عوامل ميں سے ايك دنياوى مفادات كا حصول ہے _و لا تشتروا بآياتى ثمنا قليلا

۱۲ _ پروردگار عالمين كى عظمت و منزلت ہى اس لائق ہيں كہ اس كى ذات اقدس سے ڈراجائے اور اسى امر كا خيال ركھا جائے _و ايّاى فاتقون بہت واضح ہے كہ اللہ تعالى سے خوف كھانا اور اسكا خيال ركھنا اس كے عذاب اور سزا كے اعتبار سے ہے جسے اس نے خطاكاروں اور گناہ گاروں كے لئے مقرر فرماياہے_

۱۳ _ قرآن كريم پر ايمان اور ديگر آسمانى كتابوں كے حقائق سے وابستہ رہنا اس بات كا سبب ہے كہ الہى عذاب سے محفوظ رہا جاسكے _و ايّاى فاتقون ''اتقوا'' كا مصدر ''اتقائ'' ہے يعنى ايسے وسيلے يا ذريعے كو اختيار كرنا كہ اس سے انسان ان حوادث و مشكلات سے بچ سكے جن كے درپيش آنے كا خوف و خطر ہے _ پس '' فاتقون'' يعنى الہى عذاب سے بچنے كى خاطر كسى وسيلے كا اختيار كرنا _ ما قبل عبارت كى روشنى ميں يہ وسيلہ قرآن پر ايمان اور آسمانى كتابوں كے حقائق سے وابستگى ہے _

۱۴_ دين فروشى عذاب و عقاب الہى ميں گرفتارى كا سبب ہے _ولا تشتروا بآياتى و ايّاى فاتّقون

۱۵ _ تورات و انجيل كے حقائق سے وابستگى اور قرآن پر ايمان كے نتائج ميں سے ايك بلاخوف و خطر ہوناہے اور يہ اللہ تعالى كى جانب سے بنى اسرائيل كو كى گئي نصيحتوں ميں سے ايك تھى _و لا تشتروا بآياتى و ايّاى فاتّقون

ايمان كو ضرورى قرار دينے اور دين فرشى سے بچنے كے بعد جملہ '' ايّاى فاتّقون'' ميں موجود حصر اس بات كى طرف اشارہ ہے كہ ممكن ہے قرآن پر ايمان اور تورات و انجيل كے حقائق سے وابستگى كى صورت ميں تمہيں اے يہود و نصارى ممكن ہے مشكلات كا سامنا كر نا پڑے توپس ان سے خوف زدہ نہ ہونا بلكہ فقط عذاب الہى سے ڈرنا _

۱۶_ دين فروشى كے مقابل جو بھى قيمت و اجرت، جتنى

۱۴۴

بھى زيادہ حاصل ہو حقير و ناچيز ہے _ولا تشتروا بآياتى ثمنا قليلاً '' قليلاً'' ، '' ثمنا''كے لئے توضيحى قيد ہے يعنى مراد يہ ہے كہ آيات الہى كو كھودينے كے مقابل جو قيمت بھى حاصل ہو بظاہر جتنى بھى زيادہ يا فراواں ہو بہت ناچيز ہے _

۱۷ _ خداوند متعال كو نظر ميں ركھنا اور اسكے غير سے خوف نہ كھانا قرآن پر ايمان اور دين فروشى سے اجتناب كا باعث بنتاہے _آمنوا بما انزلت و لا تشتروا بآياتى ثمنا قليلاً و اياى فاتقون

۱۸_ امام باقرعليه‌السلام سے روايت ہے: ''... كان حيى بن اخطب و كعب بن الاشرف و آخرون من اليهود لهم ماكلة على اليهود فى كل سنة فكرهوا بطلانها بامرالنبى (ص) فحرفوا لذلك آيات من التوراة فيها صفته و ذكره فذلك الثمن الذى اريد فى الآية (۱) حيى بن اخطب ، كعب بن اشرف اور بعض ديگر افراد يہوديوں سے كچھ سالانہ ماليات ( ٹيكس) وصول كرتے تھے _ پيامبر اسلام (ص) كى بعثت كے بعد يہ لوگ نہيں چاہتے تھے كہ اس ٹيكس سے محروم ہوجائيں لہذا انہوں نے تورات كى وہ آيات جن ميں رسول اسلام (ص) كا ذكر تھا ان ميں تحريف كردى يہ وہى قيمت ہے جسكا آيات ميں ذكر ہوا ہے _

آسمانى كتابيں : كتب سماوى كى حقانيت ۴; آسمانى كتب كے جھٹلائے جانے كا فلسفہ ۱۰

اللہ تعالى : اللہ تعالى سے مختص امور ۱۲; افعال خداوندى ۲; اوامر الہى ۱; اللہ تعالى كى نصيحتيں ۱۵; اللہ تعالى كے عذاب ۱۳، ۱۴ ; عہد الہى ۳; اللہ تعالى كے نواہى ۷

انجيل: انجيل كى حقانيت كے دلائل ۶

ايمان : انجيل پر ايمان كے نتائج ۱۵; تورات پر ايمان كے نتائج ۱۵; قرآن پر ايمان كے نتائج ۱۳،۱۵; آسمانى كتابوں پر ايمان كے آثارو نتائج ۱۳; قرآن كريم پر ايمان ۱،۳، ۵; قرآن پر ايمان كے عوامل ۱۷; ايمان كے متعلقات ۱،۳،۵

بنى اسرائيل : بنى اسرائيل اور قرآن ۱،۳،۷،۹; بنى اسرائيل اور آسمانى كتابيں ۹; بنى اسرائيل كى سرزنش ۸; اللہ تعالى كا بنى اسرائيل سے عہد ۳; بنى اسرائيل كا كفر ۹; بنى اسرائيل كى ذمہ دارى ۱،۷،۱۵

____________________

۱) مجمع البيان ج/ ۱ ص ۲۱۰ ، نورالثقلين ج/ ۱ ص ۷۳ ح ۱۶۴

۱۴۵

پيامبر اسلام (ص) : پيامبر اسلام(ص) تورات ميں ۱۸

تقوي: تقوى كے آثارونتائج ۱۷

تورات : تورات كى تحريف ۱۸ تورات كى حقانيت كے دلائل ۶

خوف: خوف خدا ۱۲; غير خدا كا خوف ۱۷; پسنديدہ خوف ۱۲; ممنوع خوف ۱۵

دنيا طلبي: دنيا طلبى كے نتائج ۱۱

دين : دين كى آسيب شناسى ۱۱

دين فروشي: دين فروشى كے نتائج ۱۴; دين فروشى كى قيمت ۱۶; دين فروشى كے عوامل سے اجتناب ۱۷

روايت : ۱۸

عذاب: عذاب سے بچاؤ كے عوامل ۱۳; موجبات عذاب ۱۴

عيسائي : عيسائيوں كى دنيا طلبى ۱۰; عيسائيوں كى ذمہ دارى ۷; عيسائي اور انجيل ۱۰; عيسائي اور تورات ۱۰; عيسائي اور قرآن ۷، ۱۰

قرآن حكيم : قرآن اور انجيل ۴، ۶; قرآن اور تورات ۴،۶; قرآن اور آسمانى كتابيں ۴; قرآن كے نزول كا سرچشمہ ۲،۵; قرآن كى اہميت و كردار ۶

كفار : بدترين كفار ۸

كفر: قرآن كے انكار ( كفر) كے نتائج ۸; قرآن كے كفر سے اجتناب ۷; قرآن كے كفر كا فلسفہ ۱۱; قرآن كا كفر ۹; آسمانى كتابوں كا كفر ۹

يہود: يہوديوں كى دنيا طلبى ۱۰; يہوديوں كى ذمہ دارى ۷; يہودى اور انجيل ۱۰; يہودى اور تورات ۱۰; يہودى اور قرآن كريم ۷،۱۰

۱۴۶

وَلاَ تَلْبِسُواْ الْحَقَّ بِالْبَاطِلِ وَتَكْتُمُواْ الْحَقَّ وَأَنتُمْ تَعْلَمُونَ ( ۴۲ )

حق كو باطل سے مخلوط نہ كرو اور جان بوجھ كر حق كى پردہ پوشى نہ كرو_

۱ _ اللہ تعالى نے بنى اسرائيل سے چاہا كہ حق و باطل كو ايك دوسرے سے نہ ملائيں اور لوگوں كو باطل كى نشاندہى سے ان پر حق كو مشتبہ نہ كريں _و لا تلبسوا الحق بالباطل '' لا تلبسوا'' كا مصدر '' لبس'' ہے جسكا معنى ہے ملانا اور مشتبہ كرنا _ پہلے معنى كى بنياد پر ''بالباطل'' كى باء تعديہ كيلئے اور دوسرے معنى كى بناپر استعانت كے لئے ہے_

۲ _ اللہ تعالى نے بنى اسرائيل كو نصيحت فرمائي كہ حقائق پر پردہ نہ ڈاليں _و لا تلبسوا الحق و تكتموا الحق '' تكتموا '' كا مصدر كتمان ہے جسكا معنى ہے مخفى كرنا _ '' تكتموا'' ، '' تلبسوا'' پر عطف ہے يعنى '' ولا تكتموا'' ہے_

۳ _ حق و باطل كو ملانے اور گڈمڈ كرنے سے يہود و نصارى كا مقصد حقيقت كى پردہ پوشى تھا_لا تلبسوا الحق بالباطل و تكتموا الحق '' تكتموا'' پر لائے نہى كا تكرار نہ كرنے كا مقصد يہ ہوسكتاہے كہ حق و باطل كو آپس ميں ملانے سے يہود و نصارى كا ہدف يہ تھا كہ حق كو مخفى ركھاجائے _

۴ _ دينى حقائق كى پردہ پوشى اور معارف الہى كے ناشناختہ رہنے كے لئے عوامل و اسباب پيدا كرنا ايك ناپسنديدہ اور حرام فعل ہے _و لا تلبسوا الحق بالباطل و تكتموا الحق

۵ _ علمائے دين كى طرف سے دينى حقائق كى پردہ پوشى بہت زيادہ مكروہ و منفور عمل ہے _

و لا تلبسوا الحق بالباطل و تكتموا الحق و انتم تعلمون

''تعلمون'' ہوسكتاہے فعل لازم ہو جس كے لئے مفعول كى ضرورت نہيں بنابريں''و انتم تعلمون'' كا معنى يہ بنتاہے در آں حاليكہ تم اہل علم و دانش ہو جبكہ حق كى پردہ پوشى سب كے نزديك ناپسنديدہ فعل ہے پس يہ جملہ حاليہ دلالت كرتاہے كہ حق كى پردہ پوشى علماء كى جانب سے

۱۴۷

انتہائي ناپسنديدہ عمل ہے _

۶ _ عصر بعثت النبى (ص) كے بنى اسرائيل قرآن كى حقانيت سے بخوبى آگاہ تھے اورا سكى پردہ پوشى كى حرمت سے واقف تھے_

و لا تلبسوا الحق بالباطل و تكتموا الحق و انتم تعلمون

ممكن ہے تعلمون فعل متعدى ہو پس اسكا مفعول وہ مطالب ہيں جو آيہ مجيدہ ميں ذكر ہوئے ہيں ان ميں ايك حق كى پردہ پوشى ہے اور دوسرے يہ كہ حق كيا ہے اور باطل كيا چيزہے _ قابل ذكر ہے كہ ماقبل آيت كے قرينے سے '' الحق '' كے مورد نظر مصاديق ميں سے ايك '' قرآن كى حقانيت'' ہے_

۷ _ بنى اسرائيل كى سماوى كتابوں ميں نزول قرآن كى بشارت اور اسكى حقانيت كى نشانياں موجود تھيں _ولا تلبسوا الحق بالباطل و تكتموا الحق

۸ _ بعثت پيامبر اسلام (ص) كے زمانے كے بنى اسرائيل اپنى سماوى كتب ميں تحريف كے ذريعے قرآن كے بارے ميں بشارتوں اور اسكى حقانيت كى نشانيوں پر پردے ڈالنے كے درپے تھے _ولا تلبسوا الحق بالباطل و تكتموا الحق

بعض كا نظريہ يہ ہے كہ '' الباطل '' سے مراد لفظى يا معنوى تحريفات ہيں جو علمائے بنى اسرائيل اپنى سماوى كتب ميں انجام ديتے تھے تا كہ ان سے قرآن و اسلام كى حقانيت كى نشانياں واضح نہ ہوپائيں _

اللہ تعالى : اللہ تعالى كى نصيحتيں ۱،۲; عہد الہى ۱

بنى اسرائيل: صدر اسلام كے بنى اسرائيل ۶،۸; بنى اسرائيل اور قرآن ۶; بنى اسرائيل كى تاريخ ۶،۸; بنى اسرائيل كى تحريفات ۸; اللہ تعالى كا بنى اسرائيل سے عہد ۱۱; بنى اسرائيل كى كتب سماوى ۷; بنى اسرائيل كى ذمہ دارى ۱،۲

حق : حق كى پردہ پوشى سے اجتناب ۲; حق كى پردہ پوشى كى حرمت ۴; حق كى پردہ پوشى كى سرزنش ۴،۵; حق كى پردہ پوشى كے عوامل ۳

دين : دين كى پردہ پوشى كے عوامل ۴;دين كى پردہ پوشى ۵

شبہات : شبہہ كے عوامل ۱۱

علماء : علمائے دين اور حق كى پردہ پوشى ۵

عيسائي : عيسائي اور حق كى پردہ پوشى ۳

قرآن كريم : قرآن كى پردہ پوشى كى حرمت ۶; قرآن كى

۱۴۸

حقانيت ۶،۷; قرآن كتب سماوى ميں ۷،۸; حقانيت قرآن كى پردہ پوشي۸

كتب سماوى : كتب سماوى كى تحريف ۸; كتب سماوى كى تعليمات ۷

گڈمڈ كرنا يا ملانا : گڈمڈ كرنے كے نتائج ۳; گڈمڈ كرنے سے اجتناب ۱

محرمات : ۴

يہود: يہود اور حقائق كى پردہ پوشى ۳

وَأَقِيمُواْ الصَّلوةَ وَآتُواْ الزَّكَوةَ وَارْكَعُواْ مَعَ الرَّاكِعِينَ ( ۴۳ )

نماز قائم كرو ، زكوة ادا كرو اور ركوع كرنے والوں كے ساتھ ركوع كرو_

۱ _ اللہ تعالى نے بنى اسرائيل كو نماز قائم كرنے اور زكاة ادا كرنے كا حكم ديا _يا بنى اسرائيل اذكروا و اقيموا الصلوة و آتوا الزكوة

۲ _ مسلمانوں كے ہمراہ جماعت كے ساتھ نماز قائم كرنے كا حكم اللہ تعالى نے بنى اسرائيل كو ديا _واركعوا مع الراكعين

ركوع كرنے سے مراد نماز كا قيام ہے اور ''راكعين'' سے مراد مسلمان نماز گزار ہيں كيونكہ اہل كتاب كو ايمان اور اسلام كى دعوت دينے كے بعد اس احتمال كى گنجائش نہيں رہ جاتى كہ نماز سے مرا د ان كى اپنى شريعت كى نماز ہے _

۳ _ نماز اور زكاة اسلام كے دينى واجبات اور عملى اركان ميں سے ہيں _و اقيموا الصلوة و آتوا الزكاة

اہل كتاب كو ايمان كى دعوت دينے كے بعد نماز كے قائم كرنے اور زكوة كى ادائيگى كا حكم دينا اس بات كى طرف اشارہ ہے كہ اسلام كى سارى عملى ذمہ داريوں ميں سے نماز اورزكوة كى خاص اہميت ہے_

۱۴۹

۴ _ نمازوں كو جماعت كے ساتھ ادا كرنے كى ضرورت و اہميت _واركعوا مع الراكعين نماز گزاروں كے ساتھ نماز كى ادائيگى نماز با جماعت كے قيام كا كنايہ ہے _

۵_ افعال نماز ميں نمازيوں كى ہمراہى نماز با جماعت كے احكام و آداب ميں سے ہے_و اركعوا مع الراكعين

يہ جو نماز با جماعت كا حكم ديتے ہوئے يوں نہيں كہا گيا '' اركعوا جماعة'' بلكہ لفظ '' مع'' كا استعمال ہوا ہے اس سے ہمراہى كا معنى نكلتاہے _ يہ مفہوم اسى اعتبار سے ہے _

۶ _ نماز با جماعت كے دوران نماز كے بنيادى اركان ميں سے ركوع ہے_واركعوا مع الراكعين

يہ جو نماز با جماعت كو ركوع كرنے سے تعبير كيا گيا ہے اور نمازيوں كے لئے راكعين استعمال ہوا ہے اس سے نماز با جماعت ميں ركوع كى انتہائي زيادہ اہميت واضح ہوتى ہے _

۷ _ اسحاق بن مبارك كہتے ہيں :''سألت ابا ابراهيم عليه‌السلام عن صدقه الفطرة _أهى مما قال الله تعالى ''اقيموا الصلوة و آتوا الزكاة'' فقال نعم . ..(۱) امام كاظمعليه‌السلام سے ميں نے سوال كيا كہ كيازكوة فطرة ان موارد ميں سے ہے كہ جس بارے ميں خداوند متعال كا ارشاد ہے ''و اقيموا الصلوة و آتوا الزكاة '' تو حضرتعليه‌السلام نے ارشاد فرمايا ہاں

احكام: ۳،۵،۶

اسلام: اركان اسلام ۳

اللہ تعالى : اللہ كى نصيحتيں اور احكام ۱،۲

بنى اسرائيل: بنى اسرائيل كى شرعى ذمہ دارياں ۱،۲;بنى اسرائيل كو دعوت ۱

روايت :۷

زكاة: زكاة كے احكام ۳; ادائيگى زكاة كى اہميت ۱;زكاة فطرة ۷; زكاة كا وجوب ۳

نماز : باجماعت نماز كے آداب ۵; احكام نماز ۳; با جماعت نماز كے احكام ۵،۶; اركان نماز ۶ ; نماز كے قيام كى اہميت ۱; نماز با جماعت كى اہميت ۲،۴; نماز ميں ركوع ۶; نماز كا وجوب ۳; نماز با جماعت ميں ہم آہنگى ۵

واجبات : ۳

____________________

۱) تہذيب الاحكام ج/۴ ص ۸۹ ح۱۰ نورالثقلين ج/ ۱ ص ۷۳ ح ۱۶۶_

۱۵۰

أَتَأْمُرُونَ النَّاسَ بِالْبِرِّ وَتَنسَوْنَ أَنفُسَكُمْ وَأَنتُمْ تَتْلُونَ الْكِتَابَ أَفَلاَ تَعْقِلُونَ ( ۴۴ )

كيا تم لوگوں كو نيكيوں كا حكم ديتے ہو اور خود اپنے كو بھول جاتے ہو جب كہ كتاب خدا كى تلاوت بھى كرتے ہو _ كيا تمھارے پاس عقل نہيں ہے_

۱ _ علمائے بنى اسرائيل لوگوں كو نيكى كى دعوت كرتے تھے_اتامرون الناس بالبر '' اتامرون'' كے مخاطبين چونكہ '' الناس'' كے علاوہ ہيں پس '' و انتم تتلون الكتاب'' كے قرينے سے يہ لوگ علمائے دين ہيں اور ''الناس'' عوام ہيں _

۲ _ علمائے بنى اسرائيل جس چيز كى لوگوں كو دعوت ديتے تھے خود اس پر عمل نہيں كرتے تھے_اتامرون الناس بالبر وتنسون أنفسكم

۳ _ چونكہ علمائے بنى اسرائيل جس چيز كى لوگوں كو دعوت ديتے تھے اس پر خود عمل نہيں كرتے تھے اس پر اللہ تعالى نے انكى سرزنش كى _اتامرون الناس بالبر و تنسون أنفسكم ''أَتامرون '' ميں استفہام انكار توبيخى ہے_

۴_ وہ علماء جو آسمانى كتابوں كے عالم اور ان كى تلاوت كرتے ہيں ان كى زيادہ ذمہ دارى ہے كہ نيك اعمال و كردار كو اپنائيں (نيك اعمال يعنى آسمانى كتابوں كے احكامات )و تنسون أنفسكم و انتم تتلون الكتاب يہ بڑى واضح سى بات ہے كہ جو شخص دوسروں كو نيكى كا حكم دے اور خود اس پر عمل نہ كرے تو سرزنش كا سزاوار ہے يہ شخص عالم ہو يا غير عالم _ البة يہاں جملہ حاليہ '' و انتم تتلون الكتاب'' علماء كے بارے ميں تاكيد ہے جو آسمانى كتابوں كے عالم اور ان كى تلاوت كرنيوالے ہيں _

۵ _ امر بمعروف اور دين كى تبليغ كرنے والوں كو چاہيئے كہ جس چيز كى دعوت ديں اس پر خود بھى عمل كريں _اتامرون الناس بالبر و تنسون أنفسكم

۱۵۱

۶_ بنى اسرائيل كى سماوى كتب ميں بے عمل مبلغوں اور ہاديوں كى توبيخ و سرزنش كى گئي تھى _اتامرون الناس و انتم تتلون الكتاب جملہ حاليہ '' و انتم تتلون الكتاب در آں حاليكہ تم كتاب تورات يا انجيل كى تلاوت كرتے ہو'' يہ جملہ بے عمل ہدايت كرنے والوں كى مذمت كے طور پر آيا ہے _ ايسا معلوم ہوتا ہے كہ بنى اسرائيل كى آسمانى كتابوں ميں ايسے عمل كى ناپسنديدگى پر تاكيد كى گئي ہے_

۷_ وہ لوگ جو دوسروں كو تو نيكى كى دعوت ديتے ہيں اور خود عمل نہيں كرتے سزاوار ہيں كہ ان كى توبيخ و سرزنش كى جائے _اتامرون الناس بالبر و تنسون أنفسكم

۸_ تورات و انجيل كے پيروكاروں كو يہ حكم تھا كہ اسلام قبول كريں اور قرآن پر ايمان لے آئيں _اتامرون الناس بالبر و تنسون أنفسكم و انتم تتلون الكتاب گذشتہ آيت جس ميں ايمان كى دعوت تھى اس كے قرينے سے ممكن ہے''و تنسون أنفسكم'' سے مراد قرآن پر ايمان ہو پس آيت كا اشارہ اس مطلب كى طرف ہے كہ تم علمائے اہل كتاب لوگوں كو تو نيكى كى دعوت ديتے ہو ليكن اپنے فريضے (قرآن پر ايمان) كو فراموش كرچكے ہو _ اس كے بعد اس جملہ ''و انتم تتلون الكتاب'' سے يہ بيان فرماتاہے كہ يہ لوگ اپنے اس فريضے سے آگاہ تھے گويا يہ حقيقت آسمانى كتابوں ميں موجود تھي_

۹ _ ايسے علماء جو لوگوں كو تو نيكى كى دعوت ديتے ہيں ليكن خود اس پر عمل نہيں كرتے فہم ، ادراك اور شعور نہيں ركھتے_اتامرون الناس بالبر افلا تعقلون

۱۰_ معارف الہى اور دينى حقائق پر يقين صحيح فہم و ادراك كى دليل ہے _افلا تعقلون

۱۱ _ امام صادقعليه‌السلام فرماتے ہيں : ''من لم ينسلخ عن ہواجسہ و لم يتخلص من آفات نفسہ وشہواتہا ولم يدخل فى كنف اللہ و امان عصمتہ لايصلح لہ الامر بالمعروف والنہى عن المنكر ...قال تعالى ''اتامرون الناس بالبروتنسون أنفسكم''(۱) جو كوئي نفسانى خواہشات اور القاء ات سے دورى اختيار نہيں كرتا ، نفس كى آفتوں اور شہوتوں سے خلاصى اختيار نہيں كرتا اور اللہ تعالى كى رحمت، امان و حفاظت ميں داخل نہيں ہوتا، صلاحيت نہيں ركھتا كہ امر بمعروف اور نہى عن المنكر بجالائے، اللہ تعالى ارشاد فرماتاہے '' كيا تم لوگوں كو نيكى كى دعوت ديتے ہو اور خود كو فراموش كرديتے ہو''_

____________________

۱) مصباح الشريعہ ص ۱۸ باب ۷، نورالثقلين ج/۱ ص۷۵ ح ۱۷۱_

۱۵۲

امر بہ معروف كرنيوالے: امر بمعروف كرنيوالوں كى ذمہ دارى ۵،۷

ادراك: ادراك سے فاقد افراد۹; صحيح ادراك كى علامتيں ۱۰

امر بہ معروف : امر بہ معروف كى شرائط ۱۱

انجيل: انجيل اور قرآن ۸; انجيل كى تعليمات ۸

ايمان: دين پر ايمان كے نتائج ۱۰; اسلام پر ايمان ۸; قرآن پر ايمان ۸;ايمان كے متعلقات۸

بنى اسرائيل: علمائے بنى اسرائيل كى تبليغ ۱،۲،۳; علمائے بنى اسرائيل كى سرزنش ۳; علمائے بنى اسرائيل كا عمل ۲،۳; بنى اسرائيل كى آسمانى كتب ۶

تورات: تورات كى تعليمات ۸; تورات اور قرآن ۸

روايت:۱۱

علماء : بے عمل علماء كى سرزنش ۷; بے عمل علماء ۲،۳، ۹; علماء كى ذمہ دارى ۴

قرآن كريم : انجيل ميں قرآن كريم ۸; تورات ميں قرآن كريم ۸

كتب سماوي: آسمانى كتابوں كى تعليمات ۴،۶; كتب سماوى كى تلاوت ۴; كتب سماوى پر عمل ۴

مبلغين : بے عمل مبلغين كى سرزنش ۶; مبلغين كى ذمہ دارى ۵،۷

نہى از منكر: نہى از منكر كى شرائط ۱۱

نيكي: نيكى كى دعوت ۱

۱۵۳

وَاسْتَعِينُواْ بِالصَّبْرِ وَالصَّلوةِ وَإِنَّهَا لَكَبِيرَةٌ إِلاَّ عَلَى الْخَاشِعِينَ ( ۴۵ )

صبراور نماز كے ذريعے مدد مانگو ، نماز بہت مشكل كام ہے مگر ان لوگوں كے لئے جو خشوع و خضوع والے ہيں _

۱_ صبر اختيار كرنا اور نماز قائم كرنا اللہ تعالى كے فرامين اور نصيحتوں ميں سے ہيں _واستعينوا بالصبر والصلاة

۲ _ بنى اسرائيل اگر قرآن پر ايمان لاتے اور جديد شريعت كو قبول كرتے تو شديد مسائل و مشكلات كا شكار ہوتے _

يا بنى اسرائيل اذكروا و آمنوا و استعينوا بالصبر والصلاة اللہ تعالى كا بنى اسرائيل كو ايمان كى دعوت دينے كے بعد صبر اور نماز كے قيام كا فرمان دينا يا نصيحت كرنا اس مطلب كى طرف اشارہ ہے كہ اگر وہ اسلام كو قبول كرتے اور سابقہ شريعت كو ترك كرديتے تو انہيں انتہائي زيادہ مشكلات كا سامنا كرنا پڑتا_

۳_ مشكلات و مسائل پر قابو پانے اور كامياب ہونے كا طريقہ يہ ہے كہ صبر كيا جائے اور نماز قائم كى جائے_واستعينوا بالصبر والصلاة

۴ _ الہى احكام(قرآن پہ ايمان، الہى عہد و پيمان كى وفا ...) كى انجام دہى ميں كاميابى كے لئے صبر اور نماز بہت كا رساز وسائل و ذرائع ہيں _اوفوا بعهدي واستعينوا بالصبر والصلاة ما قبل آيات كى روشنى ميں كہا جاسكتاہے كہ ''استعينوا'' كے متعلق وہ فرامين ہيں جو گذشتہ آيات ميں بيان ہوئے ہيں گويا مطلب يوں ہے:واستعينوا على ما امرتكم به و نهيتكم عنه بالصبر والصلاة

۵ _ محرمات الہى ( قرآن كا كفر، دين فروشى ، حق پر پردہ ڈالنا ...) سے اجتناب ميں كاميابى كے لئے صبر اور نماز انتہائي كارآمد اسباب ہيں _و لا تكونوا اوّل كافر به واستعينوا بالصبر والصلاة

۶ _ نماز كا قيام انتہائي مشكل اور دشوار كام ہے ليكن خاشع

۱۵۴

اور خاضع انسانوں كے لئے ايسا نہيں _و انها لكبيرة الا على الخاشعين '' انہا'' كى ضمير ممكن ہے '' الصلاة'' كى طرف لوٹتى ہو اور ممكن ہے '' استعانت'' كى طرف جو ''استعينوا'' سے سمجھى جاتى ہے _ مذكورہ مفہوم پہلے احتمال كى بنا پر ہے _ قابل ذكر ہے كہ نماز كا مشكل ہونا اس معنى ميں ہے كہ اسكا قيام دشوار ہے_

۷_ نماز كو مشكل اور سختى سے قائم كرنا تكبر كے ہونے اور خشوع و خضوع كے نہ ہونے كى دليل ہے _و انها لكبيرة الا على الخاشعين

۸ _ كاميابى كے لئے صبر اور نماز سے مدد طلب كرنا ايك مشكل ود شوار عمل ہے ليكن خاشعين كے لئے ايسا نہيں _

واستعينوا بالصبر والصلوة و انها لكبيرة الا على الخاشعين يہ مفہوم اس بناپر ہے كہ '' انہا'' كى ضمير استعانت كى طرف لوٹتى ہو_

۹ _ نماز كے ذريعے مشكلات كے آسان ہونے پر يقين ايك ايسى حقيقت ہے جس پر خاشعين كا ايمان ہے_و استعينوا بالصبر والصلوة و انها لكبيرة الا على الخاشعين نماز سے مدد طلب كرنے ميں دشوارى اس معنى ميں ہے كہ نماز كے كارساز و كارآمد ہونے پر يقين و ايمان نہ ہو اور يہ مفہوم اس صورت ميں ہے كہ جب '' انہا'' كى ضمير''استعانت '' كى طرف لوٹتى ہو_

۱۰_عن ابى عبدالله عليه‌السلام فى قول الله عزوجل ''واستعينوا بالصبر والصلوة '' قال الصبر الصوم اذا نزلت بالرجل النازلة و الشديدة فليصم فان الله عزوجل يقول استعينوا بالصبر يعنى الصيام (۱)

امام صادقعليه‌السلام سے اللہ تعالى كے اس فرمان ''استعينوا بالصبر والصلوة'' كے بارے ميں روايت ہے كہ آپعليه‌السلام نے فرمايا صبر سے مراد روزہ ہے جب كبھى كسى شخص پر كوئي سختى يا شديد مشكلات آن پڑيں تو روزہ ركھے كيونكہ اللہ تعالى فرماتاہے '' صبر سے مدد طلب كرو'' يعنى روزے سے _

اللہ تعالى : اللہ كى نصيحتيں اور فرامين ۱; عہد الہى ۴

ايمان: قرآن حكيم پر ايمان كے نتائج ۲

بنى اسرائيل : بنى اسرائيل كى مشكلات ۲

تكبر: تكبر كى علامتيں ۷

____________________

۱) كافى ج۴ ص ۶۳ ح ۷ ، نورالثقلين ج/ ۱ ص ۷۶ ح ۱۸۲_

۱۵۵

حق : حق كى پر پردہ ڈالنے سے اجتناب ۵

خاشعين : خاشعين كا ايمان ۹;خاشعين كى خصوصيات ۶،۸،۹

دين فروشي: دين فروشى سے اجتناب ۵

روايت : ۱۰

روزہ : روزے كى اہميت ۱۰

سختى : سختيوں كو آسان بنانے كى روش ۳،۹

شرعى ذمہ داري: شرعى ذمہ دارى پر عمل كى بنياد۴

صبر : صبر كے نتائج ۳،۴،۵; صبر كى اہميت ۱،۵

عہد: وفائے عہد ۴

كاميابى : كاميابى كے عوامل ۳

كفر: قرآن كے بارے ميں كفر ۵; كفر كى ركاوٹيں ۵

محرمات : محرمات سے اجتناب ۵

مدد طلب كرنا : روزے سے مدد طلب كرنا ۱; صبر سے مدد طلب كرنا ۸،۱۰; نماز سے مددطلب كرنا ۸

نماز: نماز قائم كرنے كے نتائج ۳،۴،۵،۹; قيام نماز كى اہميت ۱; نماز كى اہميت ۳،۴،۵،۶،۹; قيام نماز كى سختى ۶،۷

۱۵۶

الَّذِينَ يَظُنُّونَ أَنَّهُم مُّلاَقُو رَبِّهِمْ وَأَنَّهُمْ إِلَيْهِ رَاجِعُونَ ( ۴۶ )

اور جنھيں يہ خيال ہے كہ انھيں اللہ سے ملاقات كرناہے اور اس كى بارگاہ ميں واپس جاناہے _

۱ _ تمام انسان اللہ كى ملاقات كو جائيں گے اور ان كى بازگشت صرف اسى كى طرف ہوگى _أنهم ملاقوا ربهم و أنهم اليه راجعون

۲ _ جو لوگ اللہ تعالى كى ملاقات كا يقين ركھتے ہيں وہ اپنى بڑائي كى خصلت سے رہا ہوجاتے اور خشوع و خضوع جيسى نيكى اور خوبى سے آراستہ ہوجاتے ہيں _الاعلى الخاشعين _الذين يظنون أنهم ملاقوا ربهم

۴ _ جو لوگ لقائے الہى اور اسكى طرف بازگشت پر يقين ركھتے ہيں ان كے لئے نماز كا قيام ايك سہل اور آسان امر ہے _و إنها لكبيرة إلا على الخاشعين _ الذين يظنون أنهم ملاقوا ربهم

۵ _ لقائے الہى اور اسى كى طرف بازگشت پر گمان ركھنا خشوع و خضوع اور فروتنى كا جذبہ پيدا كرنے كے ليئے كافى ہے _الذين يظنون أنهم ملقوا ربهم و أنهم اليه راجعون جملہ ''يظنون _ گمان كرتے ہيں '' كا يہاں استعمال جب خداوند متعال كے بارے ميں ہے اور اس بات كى طرف اشارہ ہے كہ قيامت اور خداوند متعال كے بارے ميں حتى گمان بھى كافى ہے كہ بڑائي كے جذبہ يا احساس برترى كو زائل كردے اور انسان ميں خشوع و خضوع پيدا كردے _ البتہ قطع نظر اس كے كہ مسلمان پر واجب ہے اللہ تعالى كے بارے عزم و جزم اور يقين كا مل ركھتاہو_

۶ _ خاشعين خود كو ہميشہ خدا كے حضور اور اسى كى طرف بازگشت كى حالت ميں محسوس كرتے ہيں _الذين يظنون أنهم ملقوا ربهم و أنهم اليه راجعون يہ مفہوم اس احتمال كى بناپر ہے كہ''ملقوا ربهم'' اور'' اليه راجعون'' كا زمانہ حال ہو نہ كہ مستقبل _

۱۵۷

انسان : انسان كا انجام ۱

ايمان : لقائے الہى پر ايمان كے آثارو نتائج۲،۴

تكبر: تكبر سے نجات ۲،۳

جہان بيني: جہان بينى اور آئيڈيالوجى ۴،۵

خاشعين : ۳ خاشعين كا ايمان ۶; خاشعين كى خصوصيات ۶

خدا تعالى كى طرف بازگشت : ۱ ، ۳، ۵، ۶

خشوع : خشوع و خضوع كى بنياد ۲،۵

شرعى ذمہ داري: شرعى ذمہ دارى پر عمل كى بنياد ۴

لقائے الہي: لقائے الہى كا حتمى ہونا ۱; لقائے الہى كا گمان ۵

مومنين : مومنين كى خصوصيات ۴

نماز: نماز كا قيام۴

يَا بَنِي إِسْرَائِيلَ اذْكُرُواْ نِعْمَتِيَ الَّتِي أَنْعَمْتُ عَلَيْكُمْ وَأَنِّي فَضَّلْتُكُمْ عَلَى الْعَالَمِينَ ( ۴۷ )

اے بنى اسرائيل ہمارى ان نعمتوں كو ياد كرو جو ہم نے تمھيں عنايت كى ہيں اور ہم نے تمھيں عالمين سے بہتر بناياہے_

۱ _ بنى اسرائيل عظيم نعمتوں سے بہرہ مند تھے _يا بنى اسرائيل اذكروا نعمتي

۲_ اللہ تعالى اپنے بندوں كو نعمتوں سے نوازنے والا ہے_نعمتى التى انعمت عليكم

۳ _ اللہ تعالى نے بنى اسرائيل سے چاہا كہ اس كى نعمتوں كو ہميشہ ہميشہ كے لئے ياد ركھيں _يا بنى اسرائيل اذكروا نعمتي

۱۵۸

۴ _ زمانہ نزول قرآن تك بنى اسرائيل ايك قوم و قبيلے كى شكل ميں تھے_يا بنى اسرائيل

۵ _ بنى اسرائيل قرآن كے مخاطبين ميں سے تھے اور ان كى ذمہ دارى تھى كہ قرآن كا اتباع كريں _يا بنى اسرائيل اذكروا

۶ _ اللہ تعالى كى نعمتوں كو ياد كرنے كا ہدف ياد خدا ہے اور اسكى نعمتوں كو اسكى جانب سے سمجھنا ہے _اذكروا نعمتى التى انعمت عليكم ''نعمت'' كو يوں بيان كرنا كہ يہ اللہ تعالى كى جانب سے انعام ہے '' انعمت عليكم'' يہ اس معنى كى طرف اشارہ ہے كہ نعمت كو ياد كرنا نعمت عطا كرنے والے كى ياد كا ذريعہ ہونا چاہيئے_

۷ _ اللہ تعالى نے بنى اسرائيل كو ان كے زمانے كے تمام انسانوں پر برترى عنايت فرمائي_و انى فضلتكم على العالمين

لفظ ''عالمين'' كا اطلاق بعض اوقات تمام عالم ہستى پر اور بعض اوقات عالم موجودات ميں صاحب شعور مخلوقات پر ہوتاہے جبكہ بعض اوقات اسكا استعمال انسانوں كے لئے ہوتاہے _ اس آيہ مجيدة ميں حكم اور موضوع كى مناسبت كے اعتبار سے غالباً ''العالمين'' سے مراد انسان ہيں _

۸ _ بنى اسرائيل كى تمام ديگر لوگوں پر برترى ان پر عظيم الہى نعمتوں ميں سے تھي_و انى فضلتكم على العالمين

يہ مفہوم اس بناپر ہے كہ''انى فضلتكم'' كا ''نعمتي'' پر عطف خاص على العام ہويا عطف تفسيرى ہو_

۹ _ بنى اسرائيل كى تمام لوگوں پر برترى كى نعمت كو ياد ركھنے كى نصيحت اور فرمان اللہ تعالى نے بنى اسرائيل كو ديا _

اذكروا نعمتى انى فضلتكم على العالمين ''انى فضلتكم'' كا نعمتى پر عطف اس بات كا تقاضا كرتاہے كہ''انى فضلتكم'' بھى ''اذكروا'' كے لئے مفعول ہو گويا عبارت يوں ہے _اذكرو انى فضلتكم

۱۰_ تاريخ سے آگاہى كا انسانوں كى ہدايت ميں بہت بنيادى اور سودمند كردار ہے _اذكروا نعمتى التى انعمت عليكم و انى فضلتكم

اللہ تعالى : اوامر الہى ۳; اللہ تعالى كى نصيحتيں ۹;اللہ تعالى كى نعمتيں ۲،۳،۶،۸

بنى اسرائيل: بنى اسرائيل كى برترى ۷،۸،۹; بنى اسرائيل كى تاريخ ۴،۷; بنى اسرائيل كى معاشرتى شكل ۴; بنى اسرائيل كى فضيلتيں ۷،۸،۹; بنى اسرائيل كى قوم ۴; بنى اسرائيل كى ذمہ دارى ۳،۵،۹; بنى اسرائيل كى نعمتيں ۱،۳،۹

تاريخ : تاريخ كا علم ہونے كے نتائج ۱۰

۱۵۹

ذكر ( ياد): ذكر خدا ۶; ذكر نعمت ۳،۹; ذكر نعمت كا فلسفہ ۶

قرآن كريم : قرآن كا اتباع ۵; قرآ ن اور بنى اسرائيل ۵; قرآن كے مخاطبين ۵

نعمت : نعمت كا سرچشمہ ۲،۶

ہدايت: ہدايت كى بنياد ۱۰

وَاتَّقُواْ يَوْماً لاَّ تَجْزِي نَفْسٌ عَن نَّفْسٍ شَيْئاً وَلاَ يُقْبَلُ مِنْهَا شَفَاعَةٌ وَلاَ يُؤْخَذُ مِنْهَا عَدْلٌ وَلاَ هُمْ يُنصَرُونَ ( ۴۸ )

اس دن سے ڈرو جس دن كوئي كسى كا بدل نہ بن سكے گا اور كسى كى سفارش قبول نہ ہو گى _ نہ كوئي معاوضہ ليا جائے گا اور نہ كسى كى مدد كى جائے گي_

۱ _ انسان كو مستقبل ميں ايك نہايت عظيم دن (قيامت) كا سامنا ہوگا_واتقوا يوماً ''يوماً'' سے مراد قيامت كا دن ہے اور نكرہ دلالت كرتاہے كہ يہ دن بہت باعظمت ہے_

۲ _ قيامت كا دن بہت ہولناك ہوگا اس سے بچنے كے لئے بہت ہى كارآمد وسيلہ تلاش كرنا چاہيئے _واتقوا يوماً

'' اتقائ'' يعنى پر خطر اور ہولنا ك چيزسے حفاظت كے لئے كسى وسيلے كى تلا ش كرنا بنابريں واتقوا

يوماً دلالت كرتاہے كہ قيامت كے دن ہولناك خطرات كا سامنا ہوگا اورانسان كو اس سے محفوظ رہنے كے لئے وقايہ (محافظ) كا تدارك كرنا چاہيئے_

۳ _ قرآن پر ايمان ، اللہ تعالى كے فرامين كا اتباع اور محرمات سے پرہيز ،روز محشر كى ہولناكيوں اور مختلف طرح كے عذاب سے حفاظت كا ذريعہ ہيں _آمنوا بما انزلت و اتقوا يوماً

ايمان كى دعوت (آمنوا بما انزلت ) اور شرعى تكاليف كا حكم دينے كے بعد وقايہ ( حفاظت كا وسيلہ ) كے حصول كا فرمان دينا اس مطلب كى

۱۶۰

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

متقدمین اور متاخرین میں اہل تحقیق کا صحیح نظریہ یہی ہے۔ اسی کی امام حافظ ابوعمرو عثمان بن سعید دانی نے تصریح کی ہے۔ امام ابو محمد مکی بن ابی طالب نے متعدد مقامات پر اور امام ابو العباس احمد بن عمار المھدوی نے صاف الفاظ میں اسی نظریہ کو بیان کیا ہے۔ امام حافظ ابو القاسم عبد الرحمن بن اسماعیل المعروف ابی شامہ کی تحقیق بھی یہی ہے۔ یہ وہ نظریہ ہے جس پر گذشتہ علماء کا اتفاق ہے اور اس کا کوئی مخالف دیکھنے میں نہیں آتا۔

۲۔ ابو شامہ اپنی کتاب ''المرشد الوجیز،، میں لکھتے ہیں:

''کبھی بھی ہر اس قراءت جو ان سات قاریوں میں سے کسی ایک کی طرف منسوب ہو، سے فریب نہ کھائیں اور اس پر مہر صحت ثبت نہ کریں اور نہ ہی یہ سمجھیں کہ قرآن اسی قراءت کے مطابق نازل ہوا ہے مگر یہ کہ صحت قراءت کے قواعد و ضوابط اس پر منطبق ہوں اور یہ شرائط صحت پر مشتمل ہو تو پھر اس کا ناقل تنہاایک مصنف نہیں ہوگا بلکہ یہ قراءت اجماعی ہوگی۔ کیونکہ دیکھا یہ جاتا ہے کہ صحت کی شرائط موجود ہیں یا نہیں۔ یہ نہیں دیکھا جاتا کہ یہ قراءت کس قاری سے منسوب ہے۔ جتنی قراءتیں بھی ان سات قاریوں یا کسی اور قاری سے منسوب ہیں وہ دو قسم کی ہیں۔

i ) متفق علیہ۔

ii ) شاذ۔

لیکن چونکہ ان سات قاریوں کی شہرت ہے اور ان کی قراءتوں میں صحیح و اجماعی قراءتوں کی کثرت ہے اس لیے دوسروں کی نسبت ان کی قراءتوں پر انسان زیادہ مطمئن ہوتا ہے۔،،(۱)

____________________

(۱) النشر فی القراات العشر، ج ۱، ص ۹۔

۲۰۱

۳۔ ابن جزری کہتے ہیں:

''بعض متاخری نے قراءت کی صحت سند پر اکتفاء نہیں کیا بلکہ اس میں تواتر کو شرط قرار دیا ہے۔ ان حضرات کا خیال ہے کہ قرآن خبر متواتر ہی ثابت ہوتا ہے خبر واحد سے نہیں۔ مخفی نہ رہے کہ یہ قول خالی از اشکال نہیں ہے۔ اس لی ےکہ جب کوئی قراءت تواتر سے ثابت ہو تو پھر باقی دو شرطوں لغت عرب اور عثمانی قرآن سے مطابقت کی ضرورت نہیں رہتی کیونکہ جو اختلافی قراءت بطور تواتر پیغمبر اکرم(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) سے منقول ہوگی اس کو تسلیم کرنا لازمی ہوگا اور اس کے قراّ ہونے کا یقین حاصل ہوگا چاہے باقی شرائط اس میں موجود ہوں یا نہ ہوں اور اگر ہر اختلافی قراءت میں تواتر شرط ہو تو بہت ساری اختلافی قراءتیں جو سات مشہور قاریوں سے منقول ہیں باطل ثابت ہوں گی۔ پہلے میں اس نظریئے کی طرف رحجان اور جھکاؤ رکھتا تھا۔ بعد میں میرے نزدیک اس کا بطلان ثابت ہوا اور میں نے ان موجودہ اور گذشتہ علماء کرام کی رائے کو اپنایا جو تواتر شرط نہیں سمجھتے۔،،

۴۔ امام ابو شامہ اپنی کتاب ''المرشد،، میں فرماتے ہیں:

''متاخرین میں سے بعض اساتذہئ قراءت اور ان کے تابعین میں یہ مشہور ہے کہ قرااءات ہفتگانہ (سات قراءتیں) سب کی سب متواتر ہیں یعنی ان سات قاریوں میں سے ہر ایک کی ہر قراءت متواتر ہے۔ متاخرین مزید کہتے ہیں: اس بات کا یقین رکھنا بھی لازمی ہے کہ یہ قراءتیں اللہ کی طرف سے نازل ہوئی ہیں۔ ہم بھی اسی کے قائل ہیں لیکن صرف ان قراءتوں میں جن کی سند نقل میں سب متفق ہوں، تمام فرقوں کا ان پر اتفاق ہو اور ان کا کوئی منکر نہ ہو، جبکہ ان قراءتوں میں اختلافات کثرت سے ہیں اور ان کے منکرین بھی بہت سے ہیں۔ بنابرایں اگر کوئی قراءت تواتر سے ثابت نہیں ہوت تو کم از کم اسے مختلف فیہ بھی نہیں ہونا چاہیے اور اس کا انکار کرنے والے بھی موجود نہیں ہونے چاہیں۔،،(۱)

____________________

(۱) النشر فی القراات العشر،ج ۱، ص ۱۳۔

۲۰۲

۵۔ سیوطی فرماتے ہیں:

''قراءت کے موضوع پر سب سے عمدہ کلام اپنے دور کے امام القراء اور استاذ الاساتید ابوالخیر ابن جزری کا ہے۔ وہ اپنی کتاب ''النشر فی القراءات العشر،، میں فرماتے ہیں: ہر وہ قراءت جو لغت عرب اور عثمانی قرآنوں کے کسی نسخے کے مطابق ہو اور اس کی سند صحیح ہو وہ قراءت صحیح سمجھی جائے گی۔،،

اس کے بعد سیوطی فرماتے ہیں:

''میں تو یہ کہوں گا، ابن جزری نے اس باب میں نہایت مضبوط اور مستحکم بات کہی ہے۔،،(۱)

۶۔ ابو شامہ''کتاب البسملة،، میں فرماتے ہیں:

''ہم ان کلمات میں تواتر کے قائل نہیں جن کے بارے میں قاریوں میں اختلاف ہے کہ بلکہ تمام قراءتوں میں بعض متواتر ہیں اور بعض غیر متواتر اوریہ بات اہل انصاف و معرفت اور مختلف قراءتوں پر عبور رکھنے والوں کے لیے واضح ہے۔،،(۲)

۷۔ بعض علماء فرماتے ہیں:

''آج تک اصولیین میں سے کسی نے بھی تصریح نہیں کی کہ قراءتیں متواتر ہیں البتہ بعضوں نے کہا ہے کہ قراءتیں سات مشہور قاریوں سے بطور تواتر ثابت ہیں لیکن کا پیغمبر اکرم(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) سے بطور تواتر ثابت ہونااشکال سے خالی نہیں ہے۔ کیونکہ ان قاریوں نے خبر واحد کے ذریعے قراءتوں کو پیغمبر اکرم(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) سے منسوب کیا ہے۔،،(۳)

____________________

(۱) الاتقان النوع ۲۲۔۲۷، ج ۱، ص ۱۲۹۔

(۲) التبیان، ص ۱۰۲۔

(۳) التبیان، ص ۱۰۵۔

۲۰۳

۸۔ علماء حدیث میں سے بعض متاءخرین کا کہنا ہے:

''کچھ اصولی حضرت قرااءات ہفتگانہ اور بعض حضرات دس قراءتوں کے متواتر ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں لیکن ان کے پاس کوئی علمی دلیل نہی ںہے۔ اس کے علاوہ قاریوں ہی کی ایک جماعت نے اس بات پر اجماع کا دعویٰ کیا ہے کہ انہی سات قراءتوں میں سے بعض متواتر ہیں اور بعض غیر متواتر (آحاد) ہیں۔ ان قاریوں میں سے کسی نے بھی سات کی سات قراءتوں کے متواتر ہونے کا دعویٰ نہیں کیا چہ جائیکہ دس کی دس قراءتیں متواتر ہوں۔ البتہ بعض علماء اصول تمام قراءتوں کے متواتر ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں لیکن اہل فن ہی اپنے فن کے بارے میں دوسروں سے زیادہ آگاہ اور آشنا ہوا کرتے ہیں۔(۱)

۹۔ قراءتوں کے بارے میں مکّی کہتے ہیں:

''بعض حضرات صرف ان قراءتوں کو معتبر اور قابل عمل سمجھتے ہیں جن پر نافع اور عاصم متفق ہوں، کیونکہ باقی قراءتوں میں سے ان کی قراءت افضل، سند کے اعتبار سے صحیح اور عربی لغت کے اعتبار سے زیادہ فصیح ہے۔،،(۲)

۱۰۔ جن حضرات نے قرائتوں حتی کہ قرااءات ہفتگانہ کے متواتر نہ ہونے کا اعتراف کیا ہے ان میں شیخ محمد سعید العریان بھی شامل ہے۔ اس نے اپنی ''تعلیقات،، میں اس کا ذکر کیا ہے، یہ فرماتے ہیں:

''تمام کی تمام قراءتیں، حتی کہ قراءات ہفتگانہ بھی شاذ اور نامشہور قراءتوں سے خالی نہیں ہےں۔،،

یہ مزید فرماتے ہیں:

''علماء کرام کے نزدیک موثق سندکے اعتبار سے سب سے زیادہ صحیح قراءت نافع اور عاصم کی ہے اور فصاحت کے دیگر پہلوؤں کے اعتبار سے ابوعمرو اور کسائی کی ہے۔،،(۳)

____________________

(۱) ایضاً، ص ۱۰۶۔

(۲) ایضاً، ص ۹۰۔

(۳) اعجاز القرآن، رافعی، طبع چہارم، ص ۵۲۔۵۳۔

۲۰۴

اقوال علماء میں قراءتوں کے متواتر نہ ہونے کا اعتراف کیا گیا ہے کو نقل کرنے میں اب تک ہم نے اختصار سے کام لیا ہے۔ اس کے بعد بھی ہم مزید علماء کرام کے اعترافات نقل کریں گے۔

خدا را ذرا غور فرمائیے! کیا اتنے علماء کرام کی تصریحات کے باوجود بھی قراءتوں کے متواتر ہونے کے دعویٰ کی کوئی وقعت و ارزش باقی رہتی ہے؟

کیا یہ ممکن ہے کہ بغیر کسی دلیل کے صرف تقلید اور بعض افراد کے دعویٰ بلا دلیل کی بنیاد پر تواتر قراءت کو ثابت کیا جائے خصوصاً جب انسان کا وجدان بھی اس قسم کے دعویٰ کی تکذیب کرے؟

مجھے اس سے زیادہ تعجب اندلس کے مفتی پر ہو رہا ہے جس نے ان لوگوں کے کفر کا فتویٰ صادر کردیا جو تواتر قراءت کے منکر ہیں!!!۔

بفرض تسلیم، اگر قراءتیں بالاتفاق متواتر بھی ہوں تب بھی جب تک یہ ضروریات دین میں سے نہ ہوں، ان کا منکر کافر نہیںگردانا جاسکتا۔

فرض کیجئے! اس خیالی تواتر کی وجہ سے قراءت ضروریات دین میں سے قرار پائے تو کیا اس کے انکار سے وہ آدمی بھی کافر ہو جاتا ہے جس کے نزدیک ان کا متواتر ہونا ثابت نہیں ہے؟

اے اللہ! یہ تیری بارگاہ میں جراءت، جسارت، تیری حدود سے تجاوز اور مسلمانوں میں انتشار پھیلانے کے علاوہ کچھ نہیں!!!

۲۰۵

تواتر قراءت کے دلائل

جو حضرات قراءت ہفتگانہ کے قائل ہیں انہوں نے اپنے دعویٰ پر چند دلائل پیش کئے ہیں:

۱۔ ان حضرات نے تواتر قراءت پر موجودہ اورگذشتہ علماء کرام کے اجماع کا دعویٰ کیا ہے۔

ہمارے گذشتہ بیانات سے یہ نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ یہ دعویٰ باطل اور بے بنیاد ہے۔ اس کے علاوہ ایک ہی مذہب کے ماننے والوں کے اتفاق سے اجماع وجود میں نہیں آتا جبکہ دوسروں کے مخالفت بھی موجود ہےں۔ انشاء اللہ آئندہ کسی مناسب موقع پر ہم اس کی مزید وضاحت کریں گے۔

۲۔ صحابہ کرام اور ان کے تابعین، قرآن کو جس اہمیت کی نگاہ سے دیکھتے تھے اس کا تقاضا یہ ہے کہ قرآن کی قراءت متواتر ہو اور یہ ہر مصنف مزاج اور حقیقت طلب انسان کے لیے ایک واضح حقیقت ہے۔

جواب:

اس دلیل سے تو یہ ثابت ہوتا ہے کہ خود قرآن متواتر ہے، اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ قراءتوں کی کیفیتیں بھی متواتر ہیں۔ خصوصیاً جب اکثر علمائے قراءت کی قراءتیں ان کے ذاتی اجتہاد یا ایک دو آدمیوں کی نقل پر مبنی ہیں۔ جیسا کہ گذشتہ مباحث میں آپ نے ملاحظہ فرمایا۔

اگر اس دلیل میں یہ قسم موجود نہ ہو تو اس کا تقاضا یہ ہے کہ تمام کی تمام قراءتیں متواتر ہیں، صرف سات یا دس قراءتوں کے متواتر ہونے کی کوئی وجہ نہیں ہے۔

جیسا کہ ہم بعد میں وضاحت کریں گے کہ قراءتوں کو سات میں منحصر کرنے کا عمل تیسری صدی ہجری میں انجام دیا گیا اور اس سے پہلے اس کا کوئی نام و نشان نہ تھا۔ بنابرایں یا تو تمام کی تمام قراءتوں کو متواتر ہونا چاہیے یا پھر کسی بھی قراءت کو متواتر نہیں ہونا چاہیے۔

۲۰۶

پہلا احتمال تو مسلماً باطل ہے اس لیے لامحالہ ماننا پڑے گا کہ دوسرا احتمال و نظریہ صحیح اور قابل قبول ہے۔

۳۔ اگر قرااءات ہفتگانہ متواتر نہ ہوں تو اس سے یہ لازم آئے گا کہ قرآن مجید بھی متواتر نہ ہو اور قرآن کا متواتر نہ ہونا یقیناً باطل ہے جو محتاج بیان نہیں۔ لہذا قراءتوں کا متواتر نہ ہونا بھی باطل ہے۔ قراءتوں کے متواتر نہ ہونے سے قرآن کا متواتر نہ ہونا لازم آتا ہے۔ چونکہ قرآن ہم تک حافظان قرآن اور مشہور و معروف قاریوں کے ذریعے پہنچا ہے اس لیے اگر ان قاریوں کی قراءتیں متواتر ہونگی تو قرآن بھی متواتر ہوگا ورنہ قران بھی متواتر نہیں ہوگا، لہذا لامحالہ ماننا پڑے گا کہ قراءتیں متواتر ہیں۔

جواب:

اولاً:تواتر قرآن کا لازمہ یہ نہیں ہے کہ قراءتیں بھی متواتر ہیں۔ کیونکہ کسی کلمہ کی کیفیت اور ادائیگی میں اختلاف اصل کلمہ پر اتفاق ہونے سے منافات نہیں رکھتا۔ اسی وجہ سے ہم دیکتے ہیں کہ ''متنبی،، کے قصیدوں کے الفاظ میں بعض راویوں کا احتلاف کرنا اس بات کے منافی نہیں ہے کہ اصل قصیدہ بھی اس سے متواتراً ثابت نہ ہو۔ اسی طرح ہجرت رسول اکرم(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) کی خصوصیات میں راویوں کا اختلاف اصل ہجرت کے متواتر ہونے سے منافات نہیں رکھتا۔

ثانیاً: قاریوں کے ذریعے جو چیز ہم تک پہنچی ہے وہ ان کی قراءتوں کی خصوصیات ہیں اور جہاں تک اصل قرآن کا تعلق ہے وہ مسلمانوں میں تواتر کے ذریعے ہم تک پہنچا اور گذشتہ مسلمانوں سے آنے والے مسلمانوں میں منتقل ہونے سے ثابت ہوا جو کہ ان کے سینوں اور تحریروں میں محفوظ تھھا۔ اصل قران کی نقل میں قاری حضرات کا کوئی دخل نہیں ہے، اسی لیے ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ اگر یہ سات یا دس قاری موجود نہ ہوتے تب بھی قرآن کریم بطور تواتر موجود ہوتا اور کلام مجید کی عظمت و شرف اس سے بالاتر ہے کہ چند گنے چنے افراد کی نقل پر یہ موقوف و منحصر ہو۔

۲۰۷

۴۔ اگر قراءتیں متواتر نہ ہوں تو اس سے یہ لازم آئے گا کہ قرآن کے بعض حصے متواتر نہیں ہیں جس طرح ''ملک یوم الدین،، اور ''مالک یوم الدین،، ہے۔ کیونکہ اگر ان میں سے صرف ایک کو متواتر سمجھیں گے تو یہ دعویٰ بلا دلیل ہوگا، جو باطل ہے۔ اس دلیل کو ابن حاجب اور پھر علماء کی ایک جماعت نے اسی کی پیروی میں ذکر کیا ہے۔

جواب:

اولاً: اس دلیل کا تقاضا تو یہ ہے کہ تمام کی تمام قراءتیں متواتر ہوں اور صرف سات قراءتوں کو متواتر قرار دینا دعویٰ بلادلیل ہے جو باطل ہے۔ خصوصاً جب دوسرے قاریوں میں ایسے افراد بھی موجود ہیں جو ان سات قاریوں سے زیادہ باعظمت اور زیادہ موثق ہیں جس کا بعض حضرات نے اعتراف بھی کی ہے۔

اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ سات مشہور قاری دوسروں سے زیادہ باوثوق اور جہاتِ قراءت کو زیادہ بہتر سمجھتے ہیں تو اس سے بھی یہ ثابت نہیں ہوتا کہ ان کی قراءتیں متواتر ہیں اور دوسرے قاریوں کی قراءتیں متواتر نہیں ہیں۔

ہاں، یہ بات قابل قبول ہے کہ عمل کے مقام پر ان کی قراءت کو ترجیح دی جائے گی۔ لیکن کسی قراءت کا مقدم سمجھا جانا اور بات ہے اور اس جا متواتر ہونا دوسری بات ہے بلکہ ان دونوں میں مشرق و مغرب کا فاصلہ ہے اور تمام کی تمام قراءتوں کو متواتر قرار دینا مسلماً باطل ہے۔

ثانیاً: قراءتوں میں اختلاف اس چیز کا باعث بنتا ہے کہ قرآن کو غیر قرآن سے تمیز نہ دی جاسکے۔ البتہ یہ ابہام الفاظ قرآن کی ہیئت (شکل و صورت) اور اعراب قرآن کے اعتبار سے پایا جائے گا، یعنی یہ معلوم نہ ہوگا کہ کون سی ہیئت اور اعراب قرآن ہیں اور کون سے نہیں اور یہ اصل قرآن کے متواتر ہوے کے منافی نہیں ہے۔

۲۰۸

بنابرایں مادہئ قرآن (مفردات قرآن) متواتر ہے اور صرف اس کی مخصوص شکل و صورت اور اعراب (زبر زیر پیش) مختلف فیہ ہیں اور ان دو یا دو سے زیادہ کیفیتوں اور حالتوں میں سے کوئی نہ کوئی ضرور قرآن ہے اگرچہ ہم اس کیفیت و حالت کوخصوصیت سے نہ جائیں۔

تتمہ

حق یہ ہے کہ قرآن کے متواتر ہونے سے یہ لازم نہیں آتا کہ قراءتیں بھی متواتر ہوں۔ چنانچہ اس حقیقت کا ''زرقانی،، نے اعتراف کیا ہے وہ فرماتے ہیں:

''بعض علماء نے سا ت قراءتوں کی تائید و تقویت میں مبالغہ سے کام لیا ہے اور کہا کہ قراءتوں میں تواتر کو ضروری نہ سمجھنا کفر ہے کیونکہ قراءتوں میں تواتر کا انکار قرآن کے متواتر نہ ہونے پر منتج ہوتا ہے (یعنی قراءتوں کے تواتر میں انکار کا نتیجہ تواتر قرآن کا انکار ہے) یہ رائے مفتیئ اندلس استاد ابی سعید فرج بن لب کی طرف منسوب کی جاتی ہے۔ اس نے اپنا نظریہ پیش کرنے کی کافی کوشش کی ہے اور اپنے نظریئے کی تائید میں ایک بڑا سا رسالہ بھی لکھا ہے اور اپنے نظریئے پر ہونے پر والے اشکالات کا جواب دیا ہے۔ مگر اس کی دلیل اس کے مدعا کو ثابت نہیں کرتی، کیونکہ قرااءات ہفتگانہ کے عدم تواتر کے قائل ہونے کا لازمہ یہ نہیں ہے کہ قرآن بھی متواتر نہ ہو۔ اس لیے کہ اصل قرآن اور قرآن کی قراءتوں میں بہت فرق ہے اور عین ممکن ہے کہ قرآن ان سات قراءتوں کے بغیر بھی متواتر ہو یا ان الفاظ میں متواتر ہو جن پر تمام قاریوں کا اتفاق ہے یا اس مقدار میں متواتر ہو کہ جس پر اتنے افراد متفق ہیں جن کے کذب پر متفق ہونے کا خدشہ نہیں ہے۔ چاہے یہ لوگ قاری ہوں یا نہ ہوں۔،،(۱)

بعض علمائے کرام نے فرمایا ہے: ''تواتر قرآن سے قراءتوں کا متواتر ہونا لازم نہیں آتا اور علمائے اصول میں سے کسی نے آج تک اس بات کی تصریح نہیں کی کہ قراءتیں متواتر ہیں اور یہ کہ قرآن کا متواتر ہونا قراءتوں کے متواتر ہونے پر موقوف ہے، البتہ ابن حاجب نے یہ بات کہیں ہے۔،،(۲)

____________________

(۱) مناہل العرفان، ص ۴۲۸۔

(۲) التبیان، ص ۱۰۵۔

۲۰۹

زرکشی ''برہان،، میں لکھتے ہیں:

''قرآن اور قراءتیں دو مختلف حقائق ہیں، قرآن وہ وحی الہٰی ہے جو محمد مصطفیٰ (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) پر بیان احکام اور اعجاز کی غرض سے نازل ہوا اور قراءتیں وحی کے مختلف تلفظ، لہجہ، لفظی کیفیت مثلاً شد اور جزم وغیرہ سے عبارت ہیں، اکثر علماء کے نزدیک سات قراءتیں متواتر ہیں اور بعض کے نزدیک یہ متواتر نہیں بلکہ مشہور ہیں۔،،

آگے چل کر زرکشی کہتے ہیں:

''بتحقیق یہ قراءتیں سات قاریوں سے متواتر منقول ہیں لیکن ان کا پیغمبر اکرم(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) سے متواتر منقول ہونا اشکال سے خالی نہیں ہے کیونکہ جس سلسلہ سند سے یہ روائتیں نقل کی گئی ہیں وہ قراءت کی کتب میں مذکور ہے اور اس میں صرف ایک راوی نے ایک راوی سے نق لکی ہے۔،،(۱)

قراءتیں اور سات اسلوب

کبھی یہ تصور کیا جاتا ہے کہ سات حروف سے مراد سات قراءتیں ہیں۔ اس کے بعد اس بات کے ثبوت میں کہ یہ سات قراءتیں قرآن میں داخل ہیں، ان احادیث و روایات سے تمسک کیا ہے جو یہ کہتی ہیں کہ قرآن سات حروف میں نازل ہوا ہے۔

اس غلط فہمی کی طرف قارئین کرام کی توجہ مبذول کرانا لازمی ہے کہ علماء کرام اور محققین میں سے کوئی بھی اس توہم کا شکار نہیں ہوا۔ اس لیے کہ ہم ان روایات کو تسلیم نہیں کرتے۔ ابھی ہم ان روایات کا ذکر نہیں کرتے آئندہ تفصیل سے بات ان کا ذکرکیں گے۔ انشاء اللہ تعالیٰ۔

____________________

(۱) الاتقان النوع، ۲۲۔۲۷، ج ۱، ص ۱۳۸۔

۲۱۰

اس سلسلے میں ہم شروع میں جزائری کا کلام پیش کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے:

''سات قراءتوں کو باقی قراءتوں پر کوئی امتیاز حاصل نہیں تھا۔ یہاں تک کہ ابوبکر احمد بن موسیٰ بن عباس بن مجاہد نے تیسری صدی کے آغاز میں بغداد میں بیٹھ کر مکّہ، مدینہ، کوفہ، بصرہ اور شام کے علماء قراءت میں سے سات قاریوں نافع، عبد اللہ بن کثیر، ابو عمرو بن علائ، عبد اللہ بن عامر، عاصم، حمزہ اور کسائی کا انتخاب کیا۔ اس سے لوگوں کو یہ وہم ہونے لگا کہ یہ سات قراءتیں وہی سات حروف ہیں، حالانکہ ایسا نہیں ہے۔ بعض علماء نے ان سات عدد قراءتوں کے انتخاب کیا ہے انتہائی نامناسب عمل انجام دیا ہے۔ کیونکہ کم فکر افراد اس غلط فہمی کا شکار ہوگئے کہ روایات میں موجود سات حروف سے مراد سات قراءتیں ہیں۔ اس لیے بہتر یہ تھا کہ سات سے کم یا زیادہ کا

انتخاب کیا جاتا تاکہ لوگ اس غلط فہمی میں مبتلا نہ ہوتے۔،،

استاد اسماعیل بن ابراہیم بن محمد قراب کتاب شافی میں لکھتے ہیں:

''صرف سات قراءتوں کے انتخاب ان کی تائید کرنے اور دوسری قراءتوں کو باطل قرار دینے کی کوئی دلیل نہی ںہے یہ تو بعض متاخرین کا کارنامہ ہے جن کو سات سے زیادہ قراءتوں کا علم نہ تھا۔ چنانچہ انہوں نے اس موضوع پر ایک کتاب لکھی اور اس کا نام ''کتاب السبعہ،، رکھ دیا اس کتاب کی لوگوں میں تشہیر کی گئی اور یہ سات مشہور قراءتوں کی بنیاد و دلیل قرار پائی۔،،

امام ابو محمد مکّی فرماتے ہیں:

''ائمہ قراءت نے اپنی کتاب میں ستر سے زیادہ ایسے افراد کا ذکر کیا ہے جن کا مرتبہ ان سات مشہور قاریوں سے بلند ہے۔ اس کے باوجود یہ احتمال کیسے دیا جاسکتا ہے کہ ان سات قاریوں کی قراءتیں وہی سات حروف ہیں جن کا ذکر روایات میں ہوا ہے۔ یہ تو حق وحقیقت سے انحراف ہے۔

۲۱۱

کیا رسول اکرم(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) نے کسی روایت میں یہ تصریح فرمائی ہے کہ سات حروف سے مراد سات قراءتیں ہیں؟! اگر نہیں تو پھر کس دلیل کی بنیاد پر یہ نظریہ قائم کیا گیا ہے اور جبکہ کسائی ابھی کل یعنی مامون رشید کے دور میں ان سات قاریوں میں شامل کیا گیا ہے اور اس سے پہلے ساتواں قاری یعقوب حضرمی تھا اور ۳۰۰ھ میں ابن مجاہد نے یعقوب حضرمی کی جگہ کسائی کو ان قاریوں کی فہرست میں شامل کیا ہے۔،،(۱)

شرف مرسی کہتے ہیں:

''اکثر عوام کا خیال یہ ہے کہ روایات میں سات حروف سے مراد سات قراءتیں ہیں اور یہ فاش غلطی و جہالت ہے۔،،(۲)

قرطبی کا کہنا ہے:

''داؤدی، ابن ابی سفرۃ اور دیگر ہمارے علمائے کرام کا کہنا ہے کہ سات مشہور قاریوں سے منسوب یہ سات قراءتیں، وہ سات حروف نہیں ہیں جن میں سے کسی کے مطابق بھی قرآن پڑھنے کا اختیار صحابہ کرام کو دیا گیا تھا۔ ابن نحاس اور دیگر علماء کی رائے کے مطابق ان سات قراءتوں کی برگشت تو ایک حرف ہے جس کے مطابق حضرت عثمان نے قرآن جمع کیا تھا اور یہ مشہور قراءتیں علماء قراءت کا اپنا انتحاب ہے۔،،(۳)

ابن جزری اس نظریئے کو با ط ل قرار دیتے ہیں جس کے مطابق جن سات حروف پر قرآن نازل ہوا تھا وہ آج تک برقرار ہیں، وہ فرماتے ہیں:

____________________

(۱) التبیان، ص ۸۲۔

(۲) ایضاً، ص ۶۱۔

(۳) تفسیر قرطبی، ج ۱، ص ۴۲۔

۲۱۲

''اس نظریہ کی کمزوری و بے مائیگی کسی سے پوشیدہ نہیں، کیونکہ سات دس اور تیرہ قراءتیں جو آج کل مشہور ہیں وہ ان قراءتوں کے مقابلے میں سمندر کے سامنے قطرہ کی مانند ہیں جو پہلی صدی میں مشہور تھیں۔ کیونکہ ان سات اور ان کے علاوہ دیگر قاریوں نے جن سے قراءتیں اخذ کی ہیں وہ ان گنت ہیں حتی کہ جب تیسری صدی آئی علماء کی مصروفیات زیادہ اور حافظے کم ہوگئے اور کتاب و سنت کے علم کا رواج عام ہوگیا تو بعض علمائے قراءت نے ان قراءتوں کی تدوین شروع کردی جو انہو ںنے گذشتہ علماء قراءت سے حاصل کی تھیں۔ سب سے پہلا بااعتماد امام قراءت جس نے تمام قراءتوں کو ایک کتاب میں جمع کیا وہ ابو عبید القاسم بن سلام تھے۔ میری معلومات کے مطابق انہوں نے سات مشہور قراءتوں سمیت کل پچیس قراءتیں قرار دیں۔ ان کا انتقال ۲۲۴ھ میں ہوا۔ اس کے بعد انطاکیہ کے رہنے والے احمد بن جبیربن محمد کوفی پانچ قراءتوں پر مشتمل ایک کتاب لکھی جو ہر شہر سے ایک قاری پر مشتمل تھی۔ ان کا انتقال ۲۵۸ھ میں ہوا۔ ان کے بعد قالون کے ہم عصر قاضی اسماعل بن اسحاق مالکی نے قراءت پر ایک کتاب لکھی جس میں بیس ائمہ قراءت کی قراءتیں موجود ہیں۔ ان میں سات مشہور قراءتیں بھی شامل ہیں۔ ان کا انتقال ۲۸۲ھ میں ہوا۔ اس کے بعد امام ابو جعفر محمد بن جریر طبری نے ایک مفصل کتاب ''الجامع،، لکھی جو بیس یا اس سے زیادہ ائمہ قراءت کی قراءتوں پر مشتمل ہے۔ انہوں نے ۳۱۰ھ میں وفات پائی۔ طبری کے کچھ ہی عرصہ بعد ابو بکر محمد بن احمد بن عمرو اجونی نے قراءت کے موضوع پر ایک کتاب لکھی جس میں انہوں نے ابوجعفر، جو دس قاریوں میں سے ایک ہے، کو بھی شامل کردیا۔ ان کی وفات ۳۲۴ھ میں ہوئی۔ اس کے بعد ابوبکر احمد بن موسیٰ بن عباس بن مجاہد وہ پہلا قاری ہے، جس نے صرف سات قراءتوں پر اکتفا کیا اور داجونی اور ابن جریر سے بھی اس نے قراءت نقل کی ان کا انتقال ۳۲۴ھ میں ہوا۔،،

۲۱۳

ابن جزری نے ان کے علاوہ بھی قراءت کے موضوع پر کتاب لکھنے والوں کا نام لیا ہے اور پھر فرمایا ہے:

''اس باب کو طول دینے کی وجہ یہ ہے کہ ہمیں بعض جاہلوں کے بارے میں یہ اطلاع ملی ہے کہ وہ صحیح قراءتیں صرف ان سات قراءتوں میں منحصر سمجھتے ہیں اور اور وہ سمجھتے ہیں کہ وہ سات حروف جن کی طرف رسول اکرم(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) نے اشارہ فرمایا تھا یہی سات قراءتیں ہیں بلکہ ان جاہلوں میں سے بعض کا تو غالب خیال یہ ہے کہ صحیح قراءتیں وہی ہیں جو کتب ''الشاطبیہ اور التیسیر،، میں ہیں اور پیغمبر اکرم(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) کی حدیث:

''انزل القرآن علیٰ سبعة أحرف،،

''قرآن سات حروف میں نازل کیا گیا۔،،

کا اشارہ انہی دو کتب میں موجود قراءتوں کی طر فہے حتی کہ ان میں سے بعض نے ہر اس قراءت کو شاذ و نادر قرار دیا ہے جو ان دونوں کتابوں میں موجود نہ ہو جبکہ حق تو یہ ہے کہ بہت سی ایسی قراءتیں جو ان کتب ''الشاطیبہ اور التیسیر،، اور ان سات قراءتوں میں شامل نہیں ہیں وہ ان کتب میں موجود قراءتوں سے زیادہ صحیح ہیں۔ لوگوں کے اس غلط فہمی کاشکار ہونے کی وجہ یہ ہے کہ ہے ان لوگوں نے رسول اکرم(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) کی حدیث: ''انزل القرآن علی سبعۃ اءحرف،، سن رکھی تھی۔ اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے سات قراءتوں کا نام بھی سن لیا۔ اس سے یہ شبہ پیدا ہوا کہ سات قراءتیں وہی ہیں جن کا حدیث میں ذکر ہوا ہے۔ اسی لیے گذشتہ ائمہ قراءت نے ابن مجاہد کی اس رائے کو پسند نہیں کیا اور اسے غلط قرار دیا جس کے مطابق قراءتوں کو سات میں منحصر کردیا گیا۔ اسے چاہیے تھا کہ یا تو وہ قراءتوں کو سات سے زیادہ یا ان سے کم بیان کرتایا پھر اپنے مقصد کی صحیح وضاحت کرتا تا کہ عوام غلط فہی کا شکار نہ ہوتے۔،،

۲۱۴

اس کے بعد ابن جزری نے ابن عمار مہدوی اور ابو محمد مکی کی عبارتیں نقل کی ہیں جن کا ذکر پہلے ہوچکا ہے۔(۱)

ابوشامہ فرماتے ہیں:

''ایک قوم کا گمان ہے کہ موجودہ مروج سات قراءتوں کا ہی حدیث میں ذکر ہے۔ یہ گمان تمام اہل علم کے اجماع کے خلاف ہے اور صرف جاہل ہی اس غلط فہمی میں مبتلا ہوسکتا ہے۔،،(۲)

ہمارے ان بیانات سے قارئین کے سامنے یہ حقیقت واضح ہو جانی چاہیے کہ یہ سات قراءتیں نہ رسول اسلامؐ سے اور نہ قاریوں سے بطور تواتر منقول ہیں بفرض تسلیم اگر یہ قراءتیں قاریوں سے بطور تواتر منقول ہیں تو رسول اکرم(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) سے یقیناً بطور تواتر منقول نہیں بلکہ خبر واحد کے ذریعے منقول ہیں یا قاریوں کا اپنااجتہاد ہے۔

قراءت سے متعلق دو مقامات پر بحث کی جائے گی:

۱۔ حجیت قراءت

علماء کی ایک جماعت کے نزدیک یہ قراءتیں حجت اور سند ہیں اور ان کے ذریعے حکم شرعی پر استدلال کیا جاسکتا ہے۔ جس طرح حیض والی عورت سے خون بند ہونے کے بعد اور غسل کرنے سے پہلے ہمبستری حرام ہونے پر حفص کے علاوہ باقی کوفی قاریوں کی قراءت:''ولا تقربوا هن حتیٰ یطهرن،، میں ط مشدد سے استدلال کیا گیا ہے۔ جس کا ترجمہ یہ ہے: ''جب تک (تمہاری عورتیں) اپنے آپ کو (غسل کے ذریعے) پاک نہ کرلیں ان کے نزدیک نہ جاؤ۔،،(۳)

___________________

(۱) النشر فی القرات العشر، ج۱، ص ۳۳۔۳۷۔

(۲) الاتقان النوع۔ ۲۲۔۲۷، ج ۱، ص ۱۳۸۔

(۳) ''حفص،، کے علاوہ کوفی قاری اسے ''یطھرن،، پڑھتے ہیں جو باب تفعل ہے اور باب تفعل میں ایک معنی ''اتخاذ،، یعنی مبداء کو اپنانا اور حاصل کرنا ہے۔ اس کی رو سے آیہ شریفہ کا ترجمہ یہی ہوگا کہ جب تک عورت غسل کے ذریعے اپنے آپ کو پاک نہ کرے اس سے ہمبستری جائز نہیں۔ دوسرے قول کے مطابق ''یطھرن،، پڑھا گیا ہے اس کا مطلب یہ ہے: ''اپنی عورتوں کے پاس نہ جاؤ جب تک وہ پاک نہ ہو جائیں،، ظاہر ہے خودبخود تو صرف خون بند ہو جانے سے پی پاک ہوا جاسکتا ہے۔ اس قراءت کی رو سے خون بند ہونے کے بعد اور غسل کرنے سے پہلے بھی اس سے ہمبستری کی جاسکتی ہے۔ (مترجم)

۲۱۵

جواب:

لیکن حق یہی ہے کہ قراءتیں حجت نہیں ہیں اور ان کے ذریعے کسی حک شرعی کو ثابت نہیں کیاجاسکتا۔ کیونکہ ہر قاری اشتباہ و غلطی کرسکتا ہے او رمتعدد قاریوں میں سے کسی خاص کی اتباع و پیروی پر ہمارے پاس نہ کوئی عقلی دلیل ہے اور نہ نقلی دلیل اور اس بات پر عقلی و شرعی دلیل قائم ہے کہ غیر علم کی اتباع کرنا جائز نہیں ہے۔ اس کی مزید وضاحت آئندہ کی جائے گی۔ انشاء اللہ تعالیٰ۔

ہوسکتا ہے ہمارے اس جواب پریہ اعتراض کیا جائے کہ اگرچہ قراءتیں خود متواتر نہیں ہیں لیکن خبر واحد کے ذریعے رسول اسلامؐ سے ضرور منقول ہیں، اس بناء پر وہ دلائل قطعیہ و یقینیہ ان قراءتوں کو شامل ہوں گے جو خبر واحد کے حجت ہونے پر دلالت کرتے ہیں۔ جب یہ دلائل یقینیہ و قطعیہ ان قراءتوں کو شامل ہوں تو پھر ان قراءتوں پر عمل کرنا ورود یا حکومت یا تخصیص(۱) کی بنیاد پر عمل بالظن سے خارج ہو جائے گا (یعنی عمل بالظن نہیں کہلائے گا)۔

جواب:

اولاً: یہ ثابت نہیں کہ یہ قراءتیں روایت کے ذریعے منقول ہیں کہ خبر واحد کی حجیت کے دلائل ان کو بھی شامل ہوں۔ اس لئے یہ احتمال دیا جاسکتا ہے کہ یہ قراءتیں ہر قاری کا اپنا اجتہاد ہوں۔ چنانچہ اس احتمال کی تائید بعض علمائے کرام کے کلام سے بھی ہوتی ہے بلکہ جب قاریوں کے اختلاف کی وجہ و منشاء کو دیکھتے ہیں تو اس احتمال کو مزید تقویت ملتی ہے کیوں کہ اس وقت (حضرت عثمان کے دور حکومت میں) مرکز سے دیگر علاقوں میں بھیجے جانے والے قرآنی نسخوں پر نقطے اور اعراب نہیں ہوتے تھے۔

____________________

(۱) ان معانی اور اصلاحات کی وضاحت ہم اپنے اصول فقہ کے درس کے دوران ''تعادل و ترجیح،، کی بحث میں کرچکے ہیں جو طبع ہوچکا ہے۔

۲۱۶

ابن ابی ہاشم کہتے ہیں:

''سات قراءتوں میں اختلاف کا سبب یہ ہے کہ جن علاقوں میں قرآنی نسخے مرکز سے بھیجے جاتے تھے ان علاقوں میں موجود صحابہ کرام سے لوگ قرآن سیکھتے تھے اور یہ نسخے نقطوں اور اعراب سے خالی ہوا کرتے تھے۔ یہ آگے چل کر فرماتے ہیں:

''ان علاقوں کے لوگوں نے اسی قراءت کو اخذ کیا جو انہوں نے اپنے علاقے کے اصحاب سے سیکھی تھی اور اس میں وہ صرف یہ دیکھتے تھے کہ قرآن کے خط کے موافق ہے یا نہیں۔ اگر یہ قرآنی خط کے مخالف ہوتی تو اسے چھوڑ دیتے تھے۔

پس یہیں سے مختلف شہروں کے لوگوں کی قراءتوں میں اختلاف پیدا ہوگیا۔،،(۱)

زرقانی کہتے ہیں:

''صدر اول کے علمائے کرام قرآن کو نقطے اور حرکات دینا صحیح نہیں سمجھتے تھے کیونکہ اس سے قرآن میں تغیر و تبدل

ہونے کا اندیشہ تھا، ان حرکات اور نقطے دینے کے نتیجے میں قرآن کی اصلی شکل و صورت تبدیل ہوسکتی تھی۔ مگر زمانہ گزرنے کے ساتھ ساتھ مسلمانوں نے محسوس کیا کہ جس مقصد کے لیے حرکات اور نقطے نہیں دیئے گئے اب اسی مقصد کے لیے حرکات اور نقطے دینا لازمی ہوگیا تاکہ کہیں کوئی شخص اپنی مرضی و منشاء کے مطابق کوئی حرکت اور نقطہ دے کر قرآن کو تبدیل نہ کرسکے۔،،(۲)

ثانیاً: ان قراءتوں کے راویوں کا باوثوق ہونا ثابت نہیں ہے اور جب تک ان کا باوثوق ہونا ثابت نہ ہو، خبر واحد کی حجیت کی دلیل ان قراءتوں کو شامل نہ ہوگی۔ چنانچہ قاریوں اور ان کے رایوں کی سوانح حیات سے یہ بات ظاہر ہوچکی ہے۔

____________________

(۲) التبیان، ص ۸۶۔

(۱) مناہل العرفان، ص ۴۰۲، طبع دوم۔

۲۱۷

ثالثاً: اگر یہ تسلیم بھی کرلیا جائے کہ ان قراءتوں کا مسند اور مدرک وہ روایات ہیں اور یہ بھی مان لیا جائے کہ ان روایات کے راوی موثق ہیں پھر بھی ایک سقم باقی رہ جاتا ہے یہ کہ ہم اجمالی طور پر اتنا ضرور جانتے ہیں کہ ان روایات میں سے بعض یقیناً رسول اکرم(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) سے صادر نہیں ہوئیں اور یہ اجمالی علم روایات کے باہمی تعارض اور ٹکراؤ کا باعث بنتا ہے اور بعض روایات سے بعض روایات کی تکذیب ہوتی ہے۔ جس کے نتیجے میں یہ روایات حجت نہیں بنتیں۔

اس کے علاوہ بعض مخصوص روایات کو حجت اور معتبر سمجھنا ترجیح بلا مرجع(۱) ہے جو کہ قبیح ہے۔ لامحالہ کسی نہ کسی مرجح(۲) کو تلاش کرنا پڑے گا، جو روایات کے تعارض اور ٹکراؤ کی صورت میں لازمی ہے او رمرجح کے بغیر ان روایات میں سے کسی روایت کو کسی حکم شرعی کی دلیل قرار دینا جائز نہیں ہے۔

اگر ہم ان روایات کو متواتر سمجھیں تب بھی یہی نتیجہ نکلتا ہے کیوکہ جب دو مختلف قراءتیں رسول اکرم(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) سے بطور تواتر منقول ہوں تو اس سے یہ یقین حاصل ہو جاتا ہے کہ دونوں قراءتیں قرآن ہیں جو خدا کی طرف سے نازل ہوئی ہیں اور ان میں سند کے اعتبار سے کوئی تعارض و ٹکراؤ نہیں ہے بلکہ صرف دلالت اور مفہوم کے اعتبار سے ان میں ٹکراؤ ہوگا۔

جب ہمیں اجمالی طور پر یہ علم ہے کہ دنوں ظاہری معنوںمیں سے ایک معنی کا فی الواقع ارادہ نہیں کیا گیا تو اس صورت میں دونوں معانی ساقط اور ناقابل عمل ہو جائیں گے اور کسی اور دلیل لفظی یا عملی کی طرف رجوع کرنا پڑے گا۔ کیو نکہ دونوں دلیلوں کے سند ظنی ہو، یقینی اور قطعی نہ ہو۔ ترجیح اور تخییر کی دلیلیں ان دلائل کو شامل نہیں جن کی سند قطعی ہو۔ اس کی تفصیل علم اصول کی تعادل و ترجیح کی بحث میں مذکور ہے۔

____________________

(۱) بلا وجہ کسی روایت کو دوسری روایت پر ترجیح دینا۔ (مترجم)

(۲) ترجیح دینے کی وجہ (مترجم)۔

۲۱۸

۲۔ نماز میں ان قراءتوں کا پڑھنا جائز ہے

اکثر شیعہ و سنی علمائے کرام کی رائے یہی ہے کہ نماز میں ان سات قراءتوں کا پڑھنا جائز ہے بلکہ ان علماء میں سے بہت سوں کے کلام میں اس مسئلہ پر اجماع کا دعویٰ کیا گیا ہے۔

بعض کی رائے ہے کہ دس قراءتوں میں سے کوئی بھی نماز میں پڑھی جاسکتی ہے اور بعض کا کہنا ہے کہ نماز میں ہر اس قراءت کا پڑھنا جائز ہے جس کے لغت عرب اور عثمانی قرآنوں میں سے کسی کے مطابق ہونے کا احتمال ہو۔ البتہ سند صحیح ہو لیکن ان قراءتوں کی تعداد معین نہیں کی گئی۔

حق تو یہ ہے کہ قاعدہ اولیہ کی رو سے ہر اس قراءت کا پڑھنا جائز نہیں جس کے بارے میں یہ ثابت نہ ہو کہ اسے رسول اسلامؐ یا کسی امام معصوم نے پڑھا ہے۔ کیونکہ نماز میں قرآن کا پڑھنا واجب ہے۔ بنابرایں ایسی چیز کا پڑھنا کافی نہ ہوگا، جس کا قرآن ہونا ثابت نہ ہو اور عقل کا یہ فیصلہ ہے کہ اگر ایک چیز کے واجب ہونے کا یقین ہو تو اس کی ادائیگی کا یقین کرنا لازمی ہے۔ لہذا ضروری ہے کہ یا تو اتنی نمازیں پڑھی جایں جتنی قراءتیں ہیں یا ایک ہی مقام میں اس اختلافی مقام کو مکرر پڑھا جائے تاکہ امتثال یقینی حاصل ہو۔ مثلاً سورۃ فاتحہ میں دونوں اختلافی قراءتیں ''مالک،، اور ''ملک،، کو پڑھے اور باقی ایک سورہ جو حمد کے پڑھنا چاہیے اس میں یا تو ایسا سورہ پڑھیں جس میں کوئی اختلاف نہ ہو یا سورہ فاتحہ کی طرح اختلافی الفاظ کو مکرر پڑھیں۔

۲۱۹

(یہ وہ احکام تھے جن کا قاعدہئ اولیہ متقاضی ہے) لیکن جہاں تک ائمہ کے زمانے میں مشہور قراءتوں کے بارے میں شیعوں کے لیے معصومین کی قطعی تقریر(۱) کا تعلق ہے، اس میں کوئی شک نہیں کہ کسی بھی ایسی قراءت پر اکتفاء کیا جاسکتا ہے جو معصومین(ع) کے زمانے میں مشہور تھی اور معصومین(ع) نے اسے پڑھنے سے روکا بھی نہیں۔ اس لیے کہ اگر کسی امام(علیہ السلام) نے روکا ہوتا تو اس کی خبر بطور تواتر ہم تک پہنچتی یا کم از کم خبر واحد کے ذریعے ہی پہنچتی۔ بلکہ روایات سے یہ استفادہ ہوتا ہے کہ ائمہ ھدیٰ نے ان قراءتوں کی تصدیق و تائید فرمائی ہے۔ چنانچہ معصوم کا فرمان ہے۔

''اقرأ کما یقرأ الناس،، ۔۔۔''جس طرح دوسرے پڑھتے ہیں تم بھی اسی طرح پڑھو۔،،

''اقروا کما علمتم،، ۔۔۔''جس طرح تمہیں سکھایا جاے اسی طرح پڑھو۔،،(۲)

ان روایات کی موجودگی میں صرف سات یا دس قراءتوں پر اکتفاء کرنے کی کوئی وجہ نظر نہیں آتی۔ ہاں! ایسی قراءت پر اکتفاء نہیں کیا جاسکتا جو شاذ و نادر ہو، اہلسنت کے نزدیک موثق راویوں کے ذریعے ثابت نہ ہو اور من گھڑت ہو۔

مثال کے طور پر ''ملک یوم الدین،، میں ''ملک،، کے لیے صیغہ ماضی کا ہو اور یوم منصوب ہو۔ یہ شاذ و غیر معروف ہے اور جعلی قراءت کی مثال یہ ہے ۔''انما یخشی الله من عباده العلمائ،، میں لفظ ''اللہ،، پر پیش اور لفظ ''العلمائ،، پر زبر دیا گیا ہے۔ یہ خزاعی کی قراءت ہے جو ابو حنیفہ سے منقول ہے۔

اس بحث کا خلاصہ یہ ہے کہ نماز مںی ہر اس قراءت کا پڑھنا جائز ہے جو اہل بیت اطہار (علیہم السلام) کے زمانے میں مشہور تھی۔

____________________

(۱) یعنی کوئی فعل امام(علیہ السلام) کے سامنے انجام دیا جائے اور امام(علیہ السلام) اس سے نہ روکیں۔(مترجم)

(۲) الکافی: باب النو ادر کتاب فضل القرآن۔

۲۲۰

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

461

462

463

464

465

466

467

468

469

470

471

472

473

474

475

476

477

478

479

480

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

501

502

503

504

505

506

507

508

509

510

511

512

513

514

515

516

517

518

519

520

521

522

523

524

525

526

527

528

529

530

531

532

533

534

535

536

537

538

539

540

541

542

543

544

545

546

547

548

549

550

551

552

553

554

555

556

557

558

559

560

561

562

563

564

565

566

567

568

569

570

571

572

573

574

575

576

577

578

579

580

581

582

583

584

585

586

587

588

589

590

591

592

593

594

595

596

597

598

599

600

601

602

603

604

605

606

607

608

609

610

611

612

613

614

615

616

617

618

619

620

621

622

623

624

625

626

627

628

629

630

631

632

633

634

635

636

637

638

639

640

641

642

643

644

645

646

647

648

649

650

651

652

653

654

655

656

657

658

659

660

661

662

663

664

665

666

667

668

669

670

671

672

673

674

675

676

677

678

679

680

681

682

683

684

685

686

687

688

689

690

691

692

693

694

695

696

697

698

699

700

701

702

703

704

705

706

707

708

709

710

711

712

713

714

715

716

717

718

719

720

721

722

723

724

725

726

727

728

729

730

731

732

733

734

735

736

737

738

739

740

741

742

743

744

745

746

747

748

749

750

751

752

753

754

755

756

757

758

759

760

761

762

763

764

765

766

767

768

769

770

771

772

773

774

775

776

777

778

779

780

781

782

783

784

785