تفسير راہنما جلد ۱

 تفسير راہنما 7%

 تفسير راہنما مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن
صفحے: 785

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴ جلد ۵ جلد ۶ جلد ۷ جلد ۸ جلد ۹ جلد ۱۰ جلد ۱۱
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 785 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 200987 / ڈاؤنلوڈ: 5794
سائز سائز سائز
 تفسير راہنما

تفسير راہنما جلد ۱

مؤلف:
اردو

أ

یہ کتاب برقی شکل میں نشرہوئی ہے اور شبکہ الامامین الحسنین (علیہما السلام) کے گروہ علمی کی نگرانی میں تنظیم ہوئی ہے

۱

تفسير راہنما

قرآنى موضوعات اور مفاہيم كے بارے ميں ايك جديد روش

پہلى جلد

مؤلف: آيت الله ہاشمى رفسنجاني

اور

مركز فرہنگ و معارف قرآن كے محققين كى ايك جماعت

مترجم: معارف اسلام پبلشرز

ناشر:نور مطاف

جلد: اول

اشاعت:اول

تاريخ اشاعت: رجب ۱۴۲۳ھ _ق

Web : www.maaref-foundation.com

Email: info@maaref-foundation.com

جملہ حقوق طبع بحق معارف اسلام پبلشرز محفوظ ہيں _

۲

كتاب انزلناه اليك لتخرج الناس من الظلمات الي النور باذن ربهم الى صراط العزيز الحميد (ابراہيم ۲)

ہم نے كتاب كو آپ كى طرف نازل كيا تا كہ آپ انسانوں كو ظلمتوں سےنور كى طرف نكال كے لے جائيں ، ان كے پروردگار كے حكم سے، صاحب عزت و قابل تعريف پروردگار كے راستے كى طرف_اس صحيفے يا كتاب كے بارے ميں جو سرور كائنات، الہى سفيروں ميں سب سے اشرف و برترين شخصيت، خاتم الانبياءعليه‌السلام محمد مصطفى (ص) كا عظيم ترين معجزہ ہے كيا تحرير كيا جاسكتاہے ؟ قرآن كريم ايسى كتاب ہے جو زندگى كے تمام ميدانوں ميں بے مثل و بے نظير ہے_ اس كى عمل دارى اور حكومت كى حديں لا محدود ہيں _ اس كى فصاحت و بلاغت كا كوئي مقابلہ نہيں اور نہ ہى اس كے معانى و معارف كے بے كراں سمندر كے لئے كسى خاتمے يا اتمام كا كوئي نقطہ متعين كيا جاسكتاہے _ اس كا مقابلے كى دعوت دينا _ ''فاتوا بسورة من مثله و ادعوا من استطعتم من دون الله '' (يونس ۳۸)(۱)

يہ دعوت بہت وسيع اور ہمہ گير ہے جو زمان و مكان كى حدود سے ماوراء ہے _ بتوں كے فريب كى دنيا كا رہنے والا بشر اور توہم پرست انسان اس كے مقابلے كى سكت نہيں ركھتا _ جديد تہذيب كے علمى غرور كا فريفتہ شخص بھى اس كے مقابلے ميں كمزور و ناتواں اور بے بس ہے _

قرآن نے جس طرح زمانہ جاہليت كے انسانوں كو دعوت دى اور اپنا مجذوب قرار ديا اسى طرح آج ستاروں پر كمنديں ڈالنے والے اور نيلگوں آسمان پر اپنى فتح كے جھنڈے گاڑنے والے انسان كو اپنى طرف تفكر و تدبر كى دعوت دے رہاہے_ اُس زمانے ميں لوگ فوج در فوج آئے اور قرآن كے دلدادہ و گرويدہ ہوگئے _ آج بھى محققين ، دانشمند اور صاحبان بصيرت كى ايك كثير تعداد قرآن حكيم كے مطالعات اور اس ميں غور و فكر سے اس كى عاشق و شيدائي ہوتى جارہى ہے _ اگر اس دور كے انسانوں نے قرآن كے لئے اپنى زندگياں صرف كيں تو آج بھى منصف مزاج لوگ قرآنى معارف و حقائق كے سامنے سر تسليم ہوئے جاتے ہيں _ اگر چہ آج اسلام و قرآن كے خلاف پر اپيگنڈے كا وسيع جال بچھايا گيا ہے _ دھمكياں ، دھونس، دھاندلى ، زر ، زور اور مكر و فريب كا بازار خوب گرم ہے ليكن اس كے باوجود پورى دنيا ميں قرآنى معارف كے ادراك و معرفت كے لئے لوگوں كا ايك سيلاب ہے جو دينى اور علمى مراكز كى طرف عشق و شيفتگى كے ساتھ امڈا چلا آرہا ہے _ قرآن كريم كى بارگاہ ميں يہ فريفتگى اور اظہار محبت در حقيقت امام صادقعليه‌السلام كے اس فرمان كى تصديق ہے _

___________________

۱) پس اس كى ايك سورة كى ہى مثل لے آؤ اور جس جس كو اللہ كے علاوہ مدد كے ليئے بلانا چاہتے ہو دعوت دو_

۳

''ان الله تبارك و تعالى لم يجعله لزمان دون زمان و لناس دون ناس فهو فى كل زمان جديد و عند كل قوم غض الى يوم القيامه '' (كافى ج/۲ص ۱۸۰)(۱) اس صحيفہ الہى كى جاذبيت، دلربائي ، استحكام، پائيدارى اور بقا كى حقيقى دليل و سبب كيا ہے ؟ بالاجمال يہ كہا جاسكتاہے كہ قرآن وہ واحد كتاب ہے جو مطلق ، لا محدود عصمت كى مالك ہے_ وہ كتاب ہے جو ہر طرح كى تحريف اور انحراف سے محفوظ ہے _ البتہ اس امر كى دليل اس كتاب كامعجز نما كلام ہے_ ارشاد ہوتاہے :_ ''انا نحن نزلنا الذكر و انا له لحافظون (حجر۹)(۲) اگر تورات اور انجيل كا سرسرى جائزہ لينے كے لئے ان كى ورق گردانى كى جائے تو واضح ہوجاتاہے كہ بہت كم معارف اور حقائق ہيں جن ميں تحريف نہيں كى گئي ورنہ اكثر موضوعا ت ميں دست برد كركے انہيں آلودہ كرديا گيا ہے_ ان ميں موجود بہت سارے سست، غير صحيح ، خلاف عقل اور خلاف فطرت مطالب آنكھوں كو حيرانى و پريشانى ميں مبتلا كرديتے ہيں _ اسى طرح علمائے اہل كتاب كى طرف سے ہونے والى جرح و تنقيد كو اگر ملاحظہ كيا جائے تو معلوم ہوتاہے كہ يہ تنقيدات اور كتاب مقدس كے متون كى عدم حجيت پر دلالت كرنے والے مطالب اصل كتاب سے كئي گنا زيادہ ہيں _ اس كے برخلاف گزشتہ صديوں ميں كئي افراد اور مراكز ايسے رہے ہيں جنہوں نے قرآن كريم ميں شك و ترديد اور جرح و تنقيد كى راہيں ہموار كرنے كى كوشش كى ليكن اس كے باوجود آج تك كوئي ايك بات بھى قرآن ميں خلاف عقل و فطرت تلاش نہيں كرسكے_ يہى سبب ہے كہ قرآن حكيم اپنے قديم و جديد مخاطبين كو ايك اعتماد بخشتا ہے _ اس طرح ہر روز اس كے لفظى اور معنوى معجزات آشكارتر ہوتے جاتے ہيں _ آج انسانى معاشروں كے لئے ايك چيز درد و رنج كا باعث ہے _ اس كے باعث ہر روز بشر كى خفت و خوارى اور حيرت ميں اضافہ ہورہاہے _ يہ چيز دنيا كے قانون ساز اداروں پر قائم دردناك اور پريشان كن حالت ہے _ اسى طرح وہ دساتير ہيں جو ان مراكز سے بن سنور كے نكلتے ہيں _ يہ دساتير نہ فقط انسان كے اضطراب كو كم نہيں كرتے بلكہ اغراض و خواہشات كا مجموعہ ہونے كى وجہ سے ہاتھ كى ہتھكڑياں اور پاؤں كى بيڑياں بن چكے ہيں _ انہوں نے كرہ ارض كے باسيوں كو سختيوں اور اسارت ميں مبتلا كر ركھا ہے _ اس امر كى زندہ دليل يہ ہے كہ انسان كے بنائے ہوئے ايسے قوانين ميں ترميم و تغيير كے لئے روزانہ كميٹياں تشكيل دى جاتى ہيں _

____________________

۱) اللہ تبارك و تعالى نے قرآن كريم كو نہ تو كسى خاص زمانے كے لئے قرار ديا ہے اور نہ ہى كسى خاص قوم كے لئے پس يہ قيامت تك كے لئے ہر زمانے ميں جديد ہے اور ہر قوم كے نزديك تر و تازہ رہے گا _

۲)يقيناً ہم ہى اس كتاب كو نازل كرنے والے ہيں اور ہم ہى يقينا اس كے محافظ ہيں _

۴

انسان كے بنائے ہوئے آئين ميں جو كمزورى و اضمحلال پايا جاتاہے اسى بناپر ان كو حرف آخر تصور نہيں كيا جاسكتا _ انسانى كى بنيادى ضروريات كے عظيم خلا كو ايسے كارآمد اور جاوداں قوانين كا مجموعہ پرُكرسكتاہے جو مادى اور معنوى ضروريات كى تكميل اور نشو ونما كرسكتاہو_ قرآن حكيم ايك كامل اور جامع صحيفہ ہونے كى وجہ سے بہت پر اميد اور بااطمينان لہجے ميں ارشاد فرماتاہے: ''لا رطب و لا يابس الا فى كتاب مبين '' (انعام ۶)(۱) ''وما فرطنا فى الكتاب من شيئ '' (انعام ۳۸)(۲) بالكل اسى تناظرميں رسول گرامى اسلام (ص) كا يہ ارشاد ہے :'' فاذا التبست عليكم الفتن كقطع الليل المظلم فعليكم بالقرآن فانه شافع مشفع و ما حل مصدّق و من جعله امامه قاده الى الجنة و من جعله خلفه ساقه الى النار'' (كافى ج/۲ ص۵۹۹)(۳) پس كوئي راستہ ہى نہيں مگر يہ كہ قرآن كى پناہ لى جائے اوراسى كو تھام ليا جائے_ پس اگر دنيا قرآن كا رخ كرے اور مسلمان اس كى طرف لوٹ آئيں تو اُس وقت بدنظميوں ميں انسجام پيدا ہوجائے گا اورپريشانياں برطرف ہوجائيں گى _ قرآن حكيم پر اس توجہ اور راہ بازگشت كى طرف امام علىعليه‌السلام اس طرح اشارہ فرماتے ہيں _'' ذلك القرآن فاستنطقوه'' (كافى ج/۲ ص ۵۹۹)(۱) اس كا معنى يہ ہے كہ وہ ذمہ دار علماء جو استعداد ركھتے اور تحقيقى و تخليقى صلاحيتوں كے مالك ہيں روزمرہ كى مشكلات ،مسائل اور تقاضوں كى بنياد پر قرآن حكيم كى تشريح و تفسير بيان كريں _ ان علماء كو چاہيئے كہ اس بحر بيكراں ميں غوطہ زني كريں اور اسلامى و انسانى معاشروں كے دردوں كا مداوا تلاش كريں _ يہ امر اس بات كا تقاضا كرتاہے كہ علم تفسير اور فقہى ابحاث ميں اجتہاد ايك دائمى اور پرثمرجد و جہد كى شكل اختيار كرجائے _ اگر ايسا ہوجائے تو اس الہى دستر خوان كى عظيم ، بھرپور اور لايزال نعمتوں كے ذريعے عصر حاضر كى مشكلات كا وافى و شافى حل تلاش كيا جاسكتاہے _ تفسير راہنما كے عظيم مؤلف كى شخصيت اگرچہ محتاج تعريف و تعارف نہيں ہے تا ہم مندرجہ ذيل دو عناوين كے تحت بعض اہم مطالب كا ذكر كيئے ديتے ہيں _

الف: مؤلف

۱ _ تفسير راہنما كے بزرگوار اور نكتہ شناس و نكتہ سنج مؤلف حضرت آيت الله ہاشمى رفسنجانى (دام ظلہ) ہيں _

____________________

۱) كوئي خشك و تر ايسا نہيں جس كا بيان كتاب مبين ميں نہ ہو_ ۲) ہم نے كوئي بھى چيز كتاب ميں اٹھا نہيں ركھي_

۳) جب فتنے سياہ راتوں كى مانند تم پر ٹوٹ پڑيں تو ضرورى ہے قرآن كى پناہ لو كيونكہ اس كى شفاعت قبول كى جانے والى ہے اور اس كى شكايت تصديق شدہ ہے جس نے اس كو اپنا امام قرار ديا تو اسے جنت كى طرف راہنمائي كرے گا اور جو (اسكا امام بنايعني) اسے پس پشت ڈال دے تو اسے جہنم كى طرف دھكيل دے گا_

۴) يہ قرآن ہے پس اس سے گفتگو كرو_

۵

آپ تقريباً گزشتہ ساٹھ سال سے اپنى اعلى صلاحيتوں ، روشن ذہنيت و ذكاوت كے ہمراہ بلافاصلہ اسلامى و قرآنى علوم كى تحقيق و تاليف ميں مشغول ہيں _آپ نے اپنے زمانے كى شہرہ آفاق شخصيات اور اساتذہ مثلاً آيت الله العظمى بروجردي ، حضرت امام خميني ، صاحب تفسير الميزان علامہ طباطبائي و غيرہم سے كسب فيض كيا _ آپ كے دوستوں كى فہرست ميں شہيد مطہري ، شہيد بہشتى ، شہيد باہنر اور رہبر معظم حضرت آيت الله خامنہ اى (دام ظلہ العالي) جيسى باكمال شخصيات ہيں _ ان دو خصوصيات كے علاوہ انتھك جد و جہد، اعلى انتظامى صلاحيت، طاقت فرسا ليكن منظم و منسجم كوششيں اور بالخصوص توفيقات پروردگار نے آپ كى شخصيت كو نابغہ روزگار ہستى ميں تبديل كرديا ہے _

۲ _ آپ كى ايك دوسرى خصوصيت جو اس كتاب كى تاليف او رتدوين ميں بہت مؤثر رہى وہ آپ كى مختلف عملى ميدانوں ميں اسلامى انقلاب سے پہلے اور بعد ميں دنيا كے مختلف ممالك كے سفر ہيں _ اسى طرح مملكت اسلامى كے مختلف اعلى سياسى ، معاشرتى ، ثقافتى اور اقتصادى عہدوں پر فائز ہونا ہے اس كا فائدہ اور نتيجہ يہ نكلا كہ آپ عالم اسلام بالخصوص ايران اسلامى كى مشكلات سے واقفيت حاصل كريں _ دوسرى اہم چيز يہ كہ آپ نے اسلام كى عملى صورت اور احكام قرآن كو نافذ كرنے كا عملى تجربہ حاصل كيا _ اس طرح اس راہ ميں حائل مشكلات كو نزديك سے لمس كيا _ ان تجربات نے كمك كى كہ كس طرح عالم اسلام كى جديد اور موجود مشكلات كا حل قرآن حكيم سے تلاش كريں _ پس يوں قرآن كريم كو فكرى اور عملى ميدان ميں ظاہر كرنے كا موقع ميسر آيا_

ب: تفسير راہنما

تفسير راہنما پر ايك سرسرى نظر اس بات كو واضح كرتى ہے كہ موتيوں بھرا يہ خزانہ مختلف امتيازات اور خوبيوں سے معمور ہے _ البتہ يہاں ہم مختصر طور پر چند موارد كى طرف اشارہ كررہے ہيں _

تفسير ترتيبى موضوعي:

تفسير ترتيبى كى قديم الايام سے ايك مقبوليت اور مقام رہاہے _ علمائے اسلام نے زيادہ تر اسى روش اور انداز كو اپنايا_ غالباً جب تفسير كہا جائے تو فورى طور پر اسى روش كى تصوير ذہن ميں ابھرتى ہے _البتہ گزشتہ چند عشروں سے تفسير موضوعى علماء و محققين كى توجہ كا مركز بنى ہوئي ہے _ اس كے ابھى تك بہت زيادہ ثمرات و نتائج سامنے آئے ہيں جو قابل تعريف ہيں _ تفسير راہنما پر پہلى نظر جو توجہ كا باعث بنتى ہے وہ يہ كہ مؤلف نے تفسير ترتيبى كى روش كو اپنايا ہے

۶

اور عملى طور پر اسى پہ كاربند نظر آتے ہيں ليكن يہ بھى كہا جاسكتاہے كہ انہوں نے صرف اسى انداز پر اكتفا نہيں كيا اور نہ ہى تفسير ترتيبى كو تفسير موضوعى كى راہ ميں ركاوٹ تصور كيا ہے _ پس اس كتاب پر دوسرى نظر دوڑائي جائے تو اسے تفسير موضوعى بھى كہا جاسكتاہے كيونكہ اس اعتبار سے بھى كوئي كمى نظر نہيں آتي_

تفسير مأثور عقلي:

تفسير مأثور جس كى بنياد سنت نبوى (ص) اور اہل بيتعليه‌السلام كى احاديث ہيں يہ بھى اسلام كى ابتدائي صديوں كا ايك قابل قدر ورثہ ہے _يہ سرمايہ اپنى جگہ عظيم المرتبت ہے_ بعض محققين كا يہ نكتہ نظر رہاہے كہ مصحف شريف كے اصلى مخاطبين سركار دو جہاں پيامبر گرامى اسلام (ص) اور آئمہ معصومين (عليہم السلام ) ہيں _ پس ان محققين نے قرآن كريم كے ہم وزن كلمات يا احاديث سے آنكھيں نہ چرائيں بلكہ اپنا تمام تر ہم و غم اس طرح كى روايات كى تلاش كو قرار ديا _ يہى وجہ ہے كہ اس طرح كى تفاسير قاريان قرآن كو اطمينان بخش لگتى ہيں _ اس تفسير كے وسيع النظر مفسر نے دوسرے علماء كى طرح روايات پر انحصار كے ساتھ ساتھ عقل سے استفادہ كو يہاں قابل اجتماع سمجھا ہے_ پس روش نگارش كو يوں منظم كيا ہے كہ عقل و نقل دونوں كہيں عدم التفا ت كا شكار نہ ہوجائيں _ اس تفسير ميں ايك اور تخليقى نوعيت كا كام كيا گيا ہے وہ يہ كہ مفسر نے ہر آيت سے مطالب كو اخذ كرتے ہوئے ماقبل اور مابعد كى آيات بلكہ تمام آيات كے تمام پہلوؤں پر بھى گہرى نظر ركھى ہے _ پس جزوى مطالب كو اخذ كرتے ہوئے ان كو كلى مفاہيم كے ساتھ مرتبط كيا ہے _ گويا قرآنى آيات كے جہاں باطن كى طرف نظر دوڑائي ہے وہاں ظاہر كو نظر انداز نہيں كيا _

چند اہم نكات:

۱)واضح رہے كہ آيات كا ترجمہ ہم نے حجة الاسلا م والمسلمين جناب سيد ذيشان حيدر جوادى صاحب كے قرآن حكيم كے ترجمہ سے انتخاب كيا ہے _ لہذا اگر كہيں آيات كے تفسيرى مطالب ميں اختلاف رائے موجود ہو تو يہ تفاوت فطرى نوعيت ہوگا_

۲)ہر آيت كے آخر ميں اور كتاب كے آخر ميں اشاريوں كا نظام اردو حروف تہجى كى ترتيب سے مرتب كيا گيا ہے _ مذكورہ انڈكسز ميں عناوين دو طرح كے ہيں ايك اصلى عنوان اور پھر ہر اصلى عنوان كے ذيل ميں فرعى عناوين ہيں _ پورى كتاب ميں فرعى عناوين كو البتہ حروف تہجى كى ترتيب سے تحرير نہيں كيا گيا _

۷

۳)بعض تفسيرى نكات ايسے بھى ہيں جن كى سند و دليل آيات كے مذكورہ موارد ميں نہيں ہے اور نہ ہى انہيں كلام كے لفظى مدلولات سے اخذ كيا جاسكتاہے كہ انہيں موضوعاتى ادبى نكات سے ماخوذ قرار ديا سكے_ البتہ يہ نكات غير لفظى عوامل جيسے خارجى و تاريخى قرا ت ، عقلى قرائن، الغاء خصوصيت كا احتمال، آيات كے مابين ارتباط و غيرہ سے ماخوذ ہيں _ پس ايسى صورت ميں اس احتمالى نكتہ سے نہ تو چشم پوشى كى جاسكتى ہے اور نہ ہى اسے قرآن كريم كى طرف واضح اور قاطع نسبت دے سكتے ہيں _ لہذا ايسے احتمالى نكتہ كے سامنے(*) كى علامت لگادى گئي ہے جو آيت سمجھنے كے لئے زيادہ تعقل و تفكر كى زمين فراہم كرتاہے_

۴)تفسير راہنما كا اردو ترجمہ آپ قارئين كے پيش خدمت ہے _ اس ترجمہ كو محققين اور عالم و فاضل افراد كے ايك گروہ نے انتہائي گہرى نظر اور عميق غور و تدبر سے انجام ديا ہے_ محققين كى يہ ٹيم اردو زبان سے آشنائي ركھنے كے علاوہ عربي، فارسى پر بھى تسلط ركھتى ہے _ علاوہ بر اين ان افراد نے پورى ديانت اور سعى و كوشش كے ساتھ كتاب كے مفاہيم و مطالب كو اردو زبان كے قالب ميں ڈھالا ہے _ انشاء الله يہ كتاب اميد ہے كہ شريعت مقدسہ اسلام كے پيروكاروں كے ہاں مقبول و منظور نظر واقع ہوگى _ تا ہم يہ ادارہ اہل فكر و نظر كى اصلاحى و تعميرى آراء كا خندہ پيشانى سے استقبال كرے گا _ معارف اسلام پبلشرز كى جانب سے ابھى تك جو قلمى خدمات انجام دى گئي ہيں يہ اسلامى معارف كے علمى و ثقافتى مركز سے مربوط ہيں _يہ مركز حضرت آيت الله طاہرى خرم آبادي(مدظلہ) كے زير نظر كام كر رہاہے_ مذكورہ تفسير كى اہميت كے پيش نظر اسے ترجمہ كے لائق سمجھاگيا _ لہذا ہم نے اسے اردو كے قالب ميں ڈھالنے كى سعى كى ہے اور اس پر خدائے رحيم و متعال كى بارگاہ اقدس ميں شكر گزار ہيں _ آخر ميں ہم '' مركز فرہنگ و معارف قرآن'' كے محققين اور فاضل شخصيات كے شكر گزار ہيں جنہوں نے اس تفسير كى ترتيب و تنظيم اور تدوين ميں بنيادى كام كيا _ اسى طرح مترجمين اور مصححين كا شكريہ ادا كرتے ہيں جنہوں نے تہہ دل سے اس مسئلے ميں ہمارى معاونت فرمائي _ خصوصاً جناب حجةالاسلام سيد نجم الحسن نقوى جنہوں نے اس پہلى جلد كے ترجمہ و تصحيح كے امور انجام ديئے_ يہاں سے ہم آپ كى توجہ مبذول كروانا چاہيں گے تا كہ آپ اس تفسير كے مفسر اور اس تأليف كے مراحل سے زيادہ آشنائي حاصل كريں _ اس كے لئے اس '' پيش لفظ'' كى طرف رجوع كريں جو خود مؤلف محترم نے تحرير فرماياہے_

الحمدلله اولاً و آخراً

معارف اسلام پبلشرز

۸

مقدمہ

بسم الله الرحمن الرحيم

اس پہلى جلد كى اشاعت كے ساتھ ہى جو قرآنى مفاہيم تك پہنچے كے ليئے كليدى كتاب تدوين كرنے كا راستہ ہموار كرے گى مجھے اپنى ديرينہ آرزوئيں پايہ تكميل تك پہنچتى نظر آرہى ہيں يہ آرزوئيں عرصہ دراز( يعنى معارف اسلامى كے حصول و تحقيق كے زمانہ سے ميرے افكار و روح ميں سرايت كئے ہوئے تھيں _

ميں نے اسى زمانے ميں محسوس كيا كہ قرآن كريم جولوگوں كے ليئے خدا كى تجليات كا مقام ، ميزان قسط و عدالت اور ہدايت كا محور ہے معاشرے ميں متروك و اجنبى ہے_ امت مسلمہ كے انفرادى و معاشرتى دردوں كا مداوا كرنے كے ليئے شفا بخش شہد كے متلاشى افراد،اسى طرح محققين كے ليئے اس سے استفادہ كرنے ميں مشكل و دشوارى ہوتى ہے تو اس سے مجھے بہت دكھ پہنچتا اور ميں اندر ہى اندر كڑھتا رہتا _ بعض اوقات ايسا بھى ہوتا كہ كسى ايك موضوع كے بارے ميں قرآن كريم كى رائے معلوم كرنے كے ليئے مجھے چار و ناچار تمام قرآن كا مطالعہ كرنا پڑتا پھر كسى اور موضوع پر تحقيق كرتے وقت يہى كام دوبارہ انجام دينے پر مجبور ہوتا _ اس كے نتيجے ميں ہر موضوع كے متعلق تحقيقى كام انتہائي طويل فرصت كا طالب ہوتا اور يوں تحقيق كى رفتار بہت سست پڑجاتى _

مجھے اس پر بہت افسوس تھا كہ بالآخر امت مسلمہ نے صدياں گذر جانے كے باوجود كما حقہ اس كتاب كو جو لوگوں كے ساتھ خدا كا عہد اور انسانى معاشرے كے جسمانى و روحانى امرا ض كا حقيقى و با بركت علاج ہے اس كى حكمت و عظمت كے مطابق ايك شائستہ اہميت كيوں نہيں دى گئي؟ اس طولانى مدت كے دوران ايك قرآنى انسائيكلوپيڈيا تدوين كيوں نہيں ہوا تاكہ معرفت و حكمت كے متلاشى ، نور و ہدايت كے طالب اس سے باآسانى استفادہ ، روح كى تسكين ، قلب كى شفا اور اطمينان خاطر پيدا كر سكيں _ البتہ جو كچھ بيان كيا ہے اس كا مطلب ہرگز يہ نہيں كہ اس دوران كوئي كام ہى نہيں ہوا بلكہ مقصد يہ ہے كہ جو كچھ انجام پاچكا ہے اور تا بحال سامنے آيا ہے اور جو كچھ ہونا چاہيئے تھا اس ميں بہت زيادہ فاصلہ ہے _

ہر عصر كے مسلمان محققين اور دانشمندوں نے اسى زمانے كے علوم و معارف كى سطح كے مطابق جو تفاسير تدوين كى ہيں ہمارے پاس موجود گراں بہا خزانہ ہيں _ ليكن ان منابع سے استفادہ كے ليئے بہت زياد وقت دركار ہوتاہے اور طاقت فرساكام_ پھر محقق كے ذہن ميں ہميشہ يہ كھٹكا موجود رہتا ہے كہ وہ تمام پہلوؤں سے قرآن كے نظريہ تك نہيں پہنچ سكا _

۹

اسى طرح تفصيل الآيات ، المعجم المفہرس اور الجامع لمواضيع الآيات و غيرہ جيسى موضوعى تفسيريں اور الفاظ و معانى كى راہنمائي والى كتب محققين كى تمام ضرورتوں كو پورا نہيں كرتيں _

احساس ذمہ دارى :

اسى زمانے ميں ميرے ايك فاضل دوست جنہوں نے چند موضوعات پر قرآنى تحقيق انجام دى اور برسوں اس پر محنت كى تھى ايك سفر كے دوران تدوين شدہ تمام تحقيقى يادداشتيں گم كر بيٹھے _ يہ چيز ميرے اورباقى دوستوں كے ليئے بہت رنج كا باعث بنى _ اس طرح ميں نے قرآن كريم ميں تحقيق كى راہ ہموار كرنے ، قرآن سے دريافت شدہ مطالب و مفاہيم اور نظريات ميں مزيد تيزى و استحكام پيدا كرنے اورايك مذہبى و علمى ماحول يا سماج سے يہ كمى پورا كرنے كے ليئے اقدام كرنا اپنے اوپر فرض سمجھا _ يہ شديد ظلم و استبداد كا دور دورہ تھا _ ہمارى بہت سارى محنتيں اور وقت اس كے خلاف جد و جہد ميں گذر جاتا لہذا اس مقدس احساس اورعظيم آرزو كو عملى جامہ پہنانے كا مناسب موقع نصيب نہيں ہوتا تھا _ اس دوران جب بھى جيل ميں ڈالا جاتا تو پوچھ گچھ اور تفتيش كى مدت گذارنے كے بعد ہميشہ اس نہايت اہم كام كے انجام دينے كى فكر ميں رہتا عام طور پر ہيجان ، جوش و جذبہ اور اضطراب انسان سے غور و فكر اور تحقيق كا امكان چھين ليتاہے اور ميں تو اكثر قيد تنہائي ميں ہوتا جہاں تحقيق كے وسائل بالكل ميسر نہ ہوتے تھے پس اس كم مدت كے دوران اتنى فرصت نہ ہوتى كہ يہ خواہش پايہ تكميل تك پہنچا سكوں _ ميں نے چند مرتبہ تفتيش اور قيد تنہائي كے دوران اپنے پاس موجود قرآن كريم سے استفادہ كرتے ہوئے مختلف موضوعات منجملہ اشرافيہ، صبر اور جہاد پر تحقيقى كام كيا _ ان دنوں ميرا اكثر وقت قرآن حفظ كرنے ميں صرف ہوتا _ ميں چار دفعہ گرفتار ہوا ليكن قيد كى مدت كم تھي_ بہر حال جتنى مدت (۱۶ مہينے ) جيل ميں رہا مجموعى طور پر ۲۵ پارے حفظ كيئے_ البتہ افسوس ہے كہ اب وہ منظم و مرتب صورت ميں ميرے ذ ہن ميں محفوظ نہيں رہے _ يہ يادداشتيں بيان كرنے كا مقصد قرآن سے اپنے عشق لگاؤ اور وہ احساس ذمہ دارى تھى جو قرآن حكيم كى نسبت ميرے وجود ميں تھى _ وہ كتاب جو تمام اہل قبلہ كى نظر ميں اسلامى بلكہ انسانى معارف كا بنيادى ترين ، غنى ترين اور معتبر ترين منبع ہے _ جو كتاب عدل و انصاف، كتاب حكومت و نظم فيصلہ كرنے والى اور كتاب حكمت ہے _

۱۰

وہ كتاب كہ جس كے بارے ميں ارشاد ہے ''لا ياتيه الباطل من بين يديه و لامن خلفه تنزيل من حكيم حميد '' حم السجدہ _۴۲(۱) ليكن افسوس كہ اسلامى معاشروں ميں اس قدر عزت و احترام كے باوجود يہ اجنبى و ناشناختہ ہے_ بالآخر ميرى دعا قبول ہوئي اس منصوبہ كو عملى جامہ پہنانے اور ديرينہ آرزو كو پايہ تكميل تك پہنچانے كے ليئے بہترين موقع اور كافى فرصت نصيب ہوئي _ ۱۳۵۴ ھ _ ش( ايرانى كيلنڈر كے مطابق )ميں انقلابى جد و جہدكے دوران ايك سفر سے واپسى پر مجھے ساواك كے گماشتوں نے گرفتار كر ليا _ پوچھ گچھ كے ابتدائي مراحل ميں ہى اس وقت كے خاص حالات اور بعض دستاويزى ثبوت ايسے تھے جن كے پيش نظر مجھے اندازہ ہوگيا تھا كہ اس دفعہ قيد كى مدت خاصى طولانى ہوگى _ لہذا ميں نے ( كليد قرآن ) كے عنوان سے تحقيق انجام دينے كا مصمم ارادہ كرليا _ اگر چہ شكنجوں كى وجہ سے ميں برى طرح زخمى تھا اور ميرى بدنى قوت مضمحل ہوچكى تھى _ ليكن يہ كام شروع كرنے كے ليئے ميرا حوصلہ بلند اور كافى حد تك پُر نشاط تھا _

ميں نے '' مشتركہ كميٹي'' ميں ساواك كے كارندوں سے ايك قرآن مانگا ليكن انہوں نے ايسا كرنے سے انكار كرديا_ كيوں كہ انہيں علم تھا كہ قيد تنہائي ميں قرآن بہترين انيس وساتھى ہے اور مختلف رنج و الم ، مشكلا ت اور تنہائيوں كى تلافى كرنے كا بہترين ذريعہ ہے _

ميرے اختيار ميں قرآن كا نہ ہونا اس بابركت عمل كو شروع كرنے كے ليئے ميرے ارادہ ميں كسى قسم كى ركاوٹ كھڑى نہ كرسكا ميں نے اپنى يادداشت سے مدد لى كيونكہ ان دنوں اكثر و بيشتر آيات لفظ و ترتيب كے ساتھ ميرے ذہن ميں محفوظ تھيں _ توقيق الہى بھى شامل حال ہوئي اور اچھے نتائج حاصل ہوئے _ اگرچہ ميرے پاس لكھنے كا كوئي وسيلہ نہيں تھا تا ہم ميں نے اپنے ذہن كے صفحات پر قرآنى مطالب و مضامين كا اچھا خاصہ ذخيرہ منظم طريقے سے محفوظ كرليا تھا _

مورد نظر اہداف سے ہم آہنگ اس كام كا ايك كلى منصوبہ مكمل طور پر ميرے ذہن ميں نقش ہوچكا تھا _ سپيشل پوليس كى حراست ميں ايك ماہ تك يہ كام اسى طرح انجام پاتا رہا جبكہ ميں ايك سطر بھى تحرير نہ كرسكا_ بہرحال تفتيش كى مدت ختم ہوئي مجھے حوالات سے'' اوين'' جيل ميں منتقل كرديا گيا _جہاں مجھے ركھا كيا گيا وہاں جناب طالقانى ، جناب منتظرى ، جناب مھدوى كنى ، جناب لاہوتى ، جناب انوارى ، جناب ربانى شيرازى ، جيسے بہترين دوست اور انقلابى جد و جہد ميں شريك افراد پہلے سے موجود تھے جبكہ چند دنوں بعد جناب كروبى ، جناب موحدى ساوجى ، جناب عراقى شھيد ، جناب عسكر اولادى اور كچھ دوسرے لوگ ہمارے ساتھ آن ملے _

____________________

۱) باطل اس كے نہ تو سامنے سے آسكتاہے اور نہ ہى عقب سے ( يہ كتاب) حكيم و حميد ذات كى جانب سے نازل ہوئي ہے_

۱۱

يہ انتہائي اہم شخصيات كا اكٹھ تھا _ تفتيش كا زمانہ گذر چكا تھا لہذا ہميں كسى قسم كا اضطراب يا پريشانى لاحق نہيں تھى _ چند كتابيں اور لكھنے كے وسائل بھى كہيں نہ كہيں سے مل گئے _ قيد تنہائي كے مقابلے ميں بيرق كا ماحول تحقيق اور غور و فكر كے ليئے انتہائي مناسب تھا الغرض قرآن سے جس چيز كى تلاش ميں تھا اسكى تكميل كے ليئے ہر چيز ميسر تھى _ خدا كى نعمت اور حجت مجھ پر تمام تھى اس كے مقابلے ميں اس فرصت كو غنيمت سمجھتے ہوئے ميں نے خوب استفادہ كيا اور بہترين تحقيقى نتائج حاصل كيئے _ ميں نے اپنا بيشتر وقت اس كام كے ليئے وقف كرديا _ ميں قارئين كرام كے سامنے صحيح تصوير پيش نہيں كر سكتا ہوں كہ ( خدا كى طرف سے) نصيب ہونے والى اس توفيق پر كس قدر خوش اورشكر گذار تھا_ اس جيل ميں تمام مشكلات كے باوجود جو انس و محبت اور وابستگى قرآن سے پيدا ہوئي اور ميں اپنے وجود ميں جو نشاط ، جوش و جذبہ محسوس كرتا تھا اس پر دن ميں كئي مرتبہ يہ الفاظ ( اين الملوك و ابناء الملوك ) ترجمہ: (كہاں ہيں شہنشاہ اور ان كى آل اولاد)اپنے دل ميں يا زبان پر دہراتا_ كام كى ابتدا ميں ميرے پاس تفسير كى كتب نہ تھيں تا ہم كچھ عرصہ بعد يہ كتابيں بھى مل گئيں _

كام كى روش

نماز صبح اول وقت ادا كرنے كے بعد شروع ہو جاتا تھا اور تقريباً ظہر تك يہى كام انجام ديتا البتہ صرف ناشتہ، صبح كى مختصر ورزش اور ديگر ضرورى امور كى انجام دہى كے ليئے اپنے كام سے جدا ہوتا _( تا ہم جيل ميں جن دنوں صفائي، برتن دھونا و غيرہ ميرے ذمہ ہوتا تو وہ سارا وقت ہاتھ سے نكل جاتا جس كى بعد ميں تلافى كرتا) سب جانتے تھے كہ ان اوقات ميں مجھے كسى اور كام ميں مشغول نہيں كرنا _ كبھى كبھار كسى مطلب كو سمجھنے كى خاطر دوسروں سے بحث مباحثے كى ضرورت پيش آجاتى تو الحمد للہ اس لحاظ سے بھى جيل ميں كوئي كمى نہ تھى _ صرف آٹھويں پارے تك تفسير مجمع البيان ميرے پاس تھى اور سورہ انفال كے بعد تفسير الميزان بھى مجھے مل گئي _ قرآن و تفسير كے علاوہ تحريرى وسائل ميں سے صرف ايك قلم اور / ۲۰۰ اوراق پر مشتمل كاپى تھى بالآخر انتہائي ، مختصر اور ٹيلى گرافى صورت ميں آمادہ كيئے گيئے انڈكسز سے ايسى بائيس ( ۲۲ ) كاپياں مكمل طور پر بھرگئيں _ اگرچہ ميرے پاس نہ فائل تھى اور نہ ہى كام كو سہل و آسان بنانے كے ديگر وسائل ;البتہ جو كچھ تھا وہ بھى كافى ثابت ہوا_ كم وقت اور جيل كے محدود وسائل سے زيادہ سے زيادہ استفادہ كرنے اور تحرير شدہ نوٹس كو آسانى كے ساتھ باہر منتقل كرنے كے ليئے ان كا حجم كم تھا جس سے يہ انڈكس انتہائي چھوٹے ، مختصر ، ٹيلى گرافى صورت ميں مرتب ہوتے تھے_

۱۲

مثلاًايك آيت يا اس كے بعض حصے سے جو مطالب اخذ كرتا انہيں عنوانات كے ساتھ ايك جملہ ميں لكھ ليتا _ پہلے پہل تو كافى مشكل پيش آئي ليكن آہستہ آہستہ يہ عمل كافى آسان و رواں ہوگيا _ كام كى روش مندرجہ ذيل تھي: انسان :تاريخ ( گذشتہ تاريخ ميں انسانى معاشرہ متحد اور ہر قسم كے اختلافات سے خالى تھا )

وحدت:كان الناس امة واحد

معاشرہ : اختلاف :يا مثال كے طور پر ۔انبياء ۔تبليغ

بشارت : ( انبياء كى تبليغ ميں جزا و سزا اور بشارت و ڈرانے كا كردار )

ڈرانا :فبعث الله مبشرين و منذرين

پاداش (جزا)

كيفر ( سزا )

جيساكہ آپ نے ملاحظہ فرمايا ان دو تين سطروں ميں گيارہ نكات لكھے گئے ہيں اور ايك جملہ جو كئي ايك عنوانات كے ساتھ مربوط ہے اسكے ساتھ ہى متعدد نكات بھى تيار ہوگئے يوں عام طور پر كاپى كے ہر صفحہ پر تقريباً بيس نكات سماجاتے تھے _ چونكہ ہر ورق كے دونوں طرف لكھتا تھا لہذا ہر دوسو اوراق كى كاپى ہزاروں نكات پر مشتمل ہوتى تھى _

البتہ يہ بات مسلم ہے كہ مضمون كے ليئے آخرى متن ميں اصلاح شدہ ، آسان فہم اورمناسب عبارتيں منتخب كى گئي ہيں _لہذا خدا كے كرم و احسانات اور قرآن كى نورانيت كى بدولت ميرا ذہن و قلم ايسا ہوگيا تھا كہ ايك آيت كا مطالعہ كرتے ہى اس ميں موجود مطالب و مضامين كا سائن بورڈ ميرے ذہن ميں روشن ہوجاتا اور ميں فوراً انہيں كاپى ميں درج كرليتا _ كچھ عرصہ كام كرنے كے بعدآقا فاكر بھى ميرا ہاتھ بٹانے لگے _ ہوا يوں كہ وہ ايك الگ كاپى ميں آيات كے نكات اور حوالے فہرست وار لكھتے تھے ليكن افسوس كہ قيد خانے سے گھر منتقل ہوتے وقت وہ كاپى اور كاغذات كہيں كھو گئے _ رفقاء اور دوستوں سے توقع ہے كے وہ اس كا كھوج لگا كے شائع كريں گے _

۱۳

عبا اور چادر :

ابتداء ميں عدالت نے مجھے چھ سال كى قيد سنائي _ ميں نے سوچا اس مرتبہ جيل ميں اپنا كام مكمل كرلوں گا _ ليكن جناب آيت اللہ خوانسارى كى سفارش پر نظرثانى كرتے ہوئے ميرى سزا ميں تين سال كى تخفيف كر دى گئي _ مجھے اندازہ ہوگيا كہ ميں اپنا كام پايہ تكمل تك نہيں پہنچا سكوں گا _ لہذا ميں نے ان كاپيوں كو جيل سے باہر منتقل كرنے كا فيصلہ كرليا _ ہميشہ اس بات كى پريشانى رہتى تھى كہ كہيں ميرى تمام محنت و زحمت كا ما حصل ساواكيوں كے ہتھے نہ چڑھ جائے اور وہ اسے ضبط نہ كرليں _ كيوں كہ اس طرح كى تكاليف ، ركاوٹيں اور كمينگى ہم نے بہت ديكھى تھى دوست احباب بھى اسطرح كے خدشات كا اظہار كرتے رہتے تھے_ ادھر خدا نے بھى راہ نجات پيدا كر دى جيل كى ملاقات كے دوران عام طور پر ہم شيشہ كے پيچھے سے انٹركام پر بات كيا كرتے تھے _ ليكن آہستہ آہستہ يہ پابندياں نرم پڑتى گئيں اور ہم خلاف معمول ملنے كے ليئے آنے والوں كے ساتھ آمنے سامنے بيٹھ كر ملاقات كرنے لگے _ ميں ہر ملاقات ميں پريشانى واضطراب كے ساتھ اپنى عبا كے نيچے سے ايك آدھ يا چند ايك كاپياں اپنى بيگم كے ہاتھ ميں تھما ديتا وہ بھى اپنى مخصوص شجاعت كے ساتھ تمام خطرات مول ليتے ہوئے انہيں اپنى چادر ميں چھپاليتى _ ميرى بيگم جانتى تھى كے ميرے كام كا ماحصل ميرے ليئے اور ہمارے اسلامى معاشرے كے ليئے كس قدر اہميت ركھتا ہے لہذا وہ اسے جيل سے باہر لے جاتيں اور خدا كا شكر ہے كہ اس كے لطف و كرم سے كوئي خطرہ پيش نہ آيا _

قيد خانے سے باہر :

قيد كے آخرى سال اسلامى انقلاب كى تحريك اپنے عروج پر تھى انتہائي واضح طور پرنظر آرہا تھا كہ پہلوى حكومت كا منحوس نظام اب نابود ہونے والا ہے قيديوں كو معاف كيا جارہا تھا _ آخرى دنوں ميں بہت سارے قيدى ايسے بھى تھے جن كى مدت قيد ختم ہوچكى تھى ليكن انہيں اس آمرانہ حكومت نے خلاف قانون زبر دستى جيل ميں روكا ہوا تھا _ ايسے قيديوں كو '' ملت كے قاتل'' كہا جاتا تھا_ ميرى اس تين سالہ قيد كے آخرى دس دن معاف كرديئے گئے _ اسطرح انقلاب كى كاميابى سے پہلے ہى آزاد ہوگيا اب كوئي زيادہ بازپرس بھى نہيں تھى لہذا تمام تحريريں اپنے ساتھ گھر لے آيا _ ارادہ تھا كہ گھر ميں قرآن پر يہ كام

۱۴

جارى ركھوں گا _ شروع ميں تو كچھ دن چند گھنٹے اس پر صرف كرتا رہا ليكن جلد ہى يہ احساس ہوا كہ ان امور كى نسبت انقلاب كے حوالے سے ميرى ذمہ دارياں اس سے كہيں زيادہ ہيں _

انقلاب كى كاميابى كے بعد ريڈيوٹيلى ون كارپوريشن نے مجھ سے انقلاب كى مناسبت سے دينى اور سماجى عناوين پر كچھ مطالب كے ليئے مدد مانگى اس زمانے ميں ان كا اسٹاك روم اسطرح كے مطالب سے خالى تھا _ جناب آقا معاديخواہ نے مطالب كى جمع آورى ميں ميرى مدد كى تھى اس مقصد كے لئے انہوں نے بعض علماء اور طالب علموں كو بھى ساتھ ملايا تھا يہ لوگ ميرے كام سے آگاہ تھے انہوں نے مجھ سے درخواست كى كہ دينى و معاشرتى پروگراموں كے ليئے يہ يادداشتيں ان كے حوالے كردوں _ ميں نے بھى اسے قبول كرتے ہوئے ان سے اس چيز كى خواہشں كى كہ ان مطالب كو جدا جدا ترتيب كے ساتھ جمع كريں _ انہوں نے يہ كام بخوبى انجام ديا اس كے نتيجے ميں الف ، ب كى ترتيب سے مستقل -بہت سارى فائليں تيار ہوگئيں _ اس فہرست كا ايك نسخہ انہوں نے مجھے بھى ديا تہران اور قم ميں زمانہ گرفتارى سے پہلے آئمہ( عليہم السلام) كى زندگى كے بارے ميں بعض دوستوں كى مدد سے تحقيقى كام انجام ديا تھا جس كے انتہائي قيمتى نوٹس جمع ہو چكے تھے وہ بھى ريڈيو ٹيلى ون كو دے ديئے گئے غالباً يہ كام بھى دفتر تبليغات كے توسط سے تكميل كے مراحل طے كر رہا ہے _ اس كے بعد كے مرحلے ميں حزب جمہورى اسلامى كے ثقافتى شعبہ كے سربراہ جناب آقا دعا گو نے '' كليد قرآن '' كى تكميل كا كام اپنے ذمے لے ليا اور كچھ پيشرفت بھى كى _ ليكن افسوس كہ يہ كام نا مكمل رہا اس مرحلہ ميں ميرى بڑى بيٹى فاطمہ ہاشمى نے بہت زيادہ مدد كى _ اس دوران بعض اشاعتى ادارے اس كام كى تكميل كے ليئے ميرى طرف رجوع كرتے رہے ايك آدھ كاپى بھى لے جاتے ليكن عام طور پركام كى وسعت اور اسكا بھارى بھر كم ہونا انہيں اس كے انجام دينے سے عاجز ہونے پر مجبور كرديتا_ ليكن اس تمام عرصے ميں كام كو جارى ركھنے كے بارے ميں ميرے ارادہ ميں كبھى لغزش نہيں آئي امت مسلمہ كى ضرورتوں كا مشاہدہ وہ بھى انقلاب كى كاميابى كے بعد جب كہ قرآن كى شناخت كے ليئے مختلف تقاضوں كا ايك سيلاب امڈ آيا تھا اس كام كو جارى ركھنے كے متعلق ميرے ايمان ميں اور زيادہ قوت پيدا كرتا تھا _

دفتر تبليغات اسلامى حوزہ علميہ قم كا شعبہ ثقافت و معارف قرآن :

مختلف ضرورتوں اور احتياجات نے دينى مدارس كو اسلامى تعليمات و معارف كے مختلف پہلوؤں كے متعلق بيشتر تحقيق پر مجبور كيا _اسطرح كئي ايك تحقيقى گروہوں نے متعدد شعبوں ميں از خود يا بعض اہم شخصيات كى راہنمائي ميں كام شروع كرديا_

۱۵

دفتر تبليغات اسلامى حوزہ علميہ قم نے اس كام كو جارى ركھنے اور اس منصوبہ كو پايہ تكميل تك پہنچانے كے ليئے مجھ سے رابطہ كيا ميں نے بڑى خوشى سے اسے قبول كر ليا كچھ عرصہ بعد اس دفتر سے مربوط علماء ميرے كام كے ہدف و مقصد اور طريقہ كار سے آشنا ہوگئے _ ايك طرف تو اس كام كى ضرورت بہت زيادہ تھى دوسرى طرف عملى اور زود رس علمى كاموں كى زيادتي، جبكہ فاضل دانشمندوں كى تعداد كم تھى ، اسى طرح ايسے پر ثمر تحقيقاتى كاموں كے لئے بہت حوصلے اور ہمت كى ضرورت ہوتى ہے_ ان حالات ميں دفتر تبليغات كے شعبہ ثقافت و معارف قرآن ميں موجود بعض فاضل علماء اور ان كا اس مقدس ہدف كے حصول ميں انتہائي شوق و اشتياق كا مظاہرہ بڑى ہى غنيمت اور اللہ رب العزت كى مجھ پر غيبى امداد ہے_ جب ديكھتا ہوں كہ حوزہ علميہ قم كے بعض فاضل دوست اس كام كى اہميت كو بھانپ گئے ہيں اور انتہائي لگن و قلبى لگاؤ كے ساتھ اپنا وقت و توانائي صرف كر رہے ہيں اور خود مجھ سے بہتر اس كام كو چلارہے ہيں تو خدا كے حضور شكر و سپاس كى وہى حالت اور گہرائي اپنے اندر محسوس كرنے لگا جو اوائل ميں ميرے دل ميں تھى _ اب كام ميں ٹھہراؤ سے پيدا ہونے والى مايوسى كو دور ہوتے ہوئے ديكھ رہا ہوں _ يہاں پر يہ اعتراف كرنا ضرورى سمجھتا ہوں كہ مل جل كر ، ايك دوسرے كى مشاورت اور حوزہ علميہ قم كے فاضل علماء كى ہم آہنگى سے كام كى كيفيت ميرے منصوبے اور عمل سے كہيں بہتر ہے _ اس كى ظاہرى شكل و شباہت زيادہ روشن و اميد افزا ہوگئي ہے _

ہدف اور مقصد :

جيسا كہ پہلے بھى اشارہ كيا ہے كہ قرآن سے اخذ شدہ ان مطالب كو منظم اور مدوّن كرنے كا مقصد ايسا مجموعہ تيار كرنا تھا جو قرآنى مفاہيم و معارف كى كليد شمار ہو _ جب يہ كام دفتر تبليغات اسلامى قم كے سپرد كيا گيا تو انہوں نے قرآنى معارف ميں تحقيق كے ميدان كو بہت زيادہ وسعت دى اور مذكورہ پروگرام كے علاوہ بعض اور مقاصد كو بھى اپنے مدنظر ركھا ان كے ليئے با قاعدہ منصوبہ بندى كي_ كلى طور پر چار پروگرام سامنے آئے كہ '' كليد قرآن '' ان ميں دوسرے نمبر پر تھا مذكورہ اہداف بالترتيب يوں ہيں :

۱ _ تفسير ترتيبى موضوعى :

قرآن كريم سے حاصل شدہ تمام مفاہيم اور مرتب شدہ اشاريئے سورتوں كى ترتيب كے لحاظ سے سورہ حمد سے آخر تك بالكل اسى طرح جيسے آپ اس جلد ميں ملاحظہ فرمائيں گے آراستہ كيئے جائيں _ يعنى ہر آيت كے ذيل ميں

۱۶

اس سے استفادہ كيئے گئے مطالب كو منطقى ترتيب اور منظم شكل ميں ڈھالا جائے _

اس روش كے چند ايك فوائد ہيں :

الف : آسان فہم و سادہ زبان ميں غير تفسيرى مطالب كو چھوڑتے ہوئے اور غير ضرورى ابحاث سے اجتناب كرتے ہوئے ايك مكمل تفسير سامنے آئے گي_

ب : قرآنى آيات سے ا خذ شدہ ان مرتب و منظم معانى و مفا ہيم سے تعليمى و تحقيقى مراكز ميں استفادہ كيا جاسكے گا_

ج : تحقيقى كاموں كے ليئے ايك آيت سے مربوط موضوعات پيش كرنا _

د : قرآن حكيم كى موضوعاتى ابحاث كو وسعت ،تكامل دينا اور ان پر بحث و مباحثہ كى راہ ہموار كرنا_

۲ _ قرآن حكيم كى موضوعاتى لغت كى تيارى ( كليد قرآن ) :

ترتيبى تفسير تيار كرنے كے ساتھ ساتھ مختلف عناوين اور مطالب كى حروف تہجى كے لحاظ سے ايك موضوعى فہرست مرتب كى جائے يہ عناوين كس سورہ يا آيت سے مربوط ہيں مثال كے طور پر جہاد سے مربوط وہ تمام آيات فہرست وار ذكر كى جائيں جن ميں اس بارے ميں كوئي مطلب بيان ہوا ہے _

۳ _قرآن كريم كے معارف سے متعلق معلومات كا منبع :

اس معلومات كے مجموعے ميں قرآنى معارف كے تمام منابع ، مآخذ اور اسناد و مدارك كا كھوج لگا كر انہيں جمع كيا جائے پھر ان ميں موجود مطالب كو منطقى طريقہ پر منظم ، آراستہ و پيوستہ اور ايك لڑى ميں پروئے ہوئے موتيوں كى مانند درجہ بندى كى جائے _ اس طرح جمع شدہ اسناد و معلومات ، محققين اور تحقيقاتى مراكز كے ليئے بہت زيادہ قابل استفادہ ہونے كے علاوہ ايسا پر ثمر سرمايہ ہوں گے جو قرآن حكيم كى موضوعى تفسير كى تدوين ميں كار آمد ثابت ہوگا _

۴ _ قرآن پاك كى موضوعاتى تفسير :

قرآنى مفاہيم جمع كرنے ، مختلف موضوعات كى تقسيم بندى اور قرآن كريم كے متعلق معلومات فراہم كرنے والا منبع آمادہ كرنے كے بعد آخرى اور بنيادى ترين ہدف و مقصد '' موضوعاتى تفسير '' تيار كرنا ہے _

يہاں پر اس نكتہ كى طرف توجہ دلانا ضرورى ہے كہ ان تمام كوششوں كے ساتھ ساتھ جمع شدہ معارف و معلومات كمپيوٹر ميں منتقل كى جائيں گى يہ عمل خود قرآن كے وسيع و عميق معارف و مفاہيم كو سرعت كے ساتھ مرتب كرنے، ان

۱۷

معارف كے ايك دوسرے كے ساتھ ربط و تعلق كو نماياں كرنے ميں انتہائي مؤثر و كليدى كردار كا حامل ہے _ اسطرح قرآنى معلومات و مفاہيم پر سوچ بچار اور غور و فكر كرنے كا راستہ ہموارہو گا _ وہ بحر بے كراں كہ جس كے بارے ميں ارشاد رب العزت ہے : 'لو ان ما فى الاَرض من شجرة: اقلام و البحر يمده من بعده سبعة ابحر مانفدت كلمات الله ' ( سورہ لقمان آيت / ۲۷ ) كمپيوٹر جيسى عظيم ، حيرت انگيز ايجاد اور قرآن حكيم جيسى كتاب سے استفادہ نہ كرنا اسلامى معارف و تعليمات پر بہت بڑا ظلم ہوگا _ جبكہ انسانيت كو اسكى اشد ضرورت ہے _ ہميں اميد ہے كہ دينى مدارس اس طرح كے نئے ، ترقى يافتہ اور انتہائي مفيد وسائل سے زيادہ سے زيادہ استفادہ كريں گے تا كہ گذشتہ دور ميں اسلامى تمدن و معارف پر ہونے والے ظلم كى تلافى كى جاسكے_ مذكورہ اہداف كى تكميل كے ساتھ قرآن اور اسلام كے غنى و بے نياز تمدن پر تحقيقى كام كا خاتمہ نہيں ہوجائے گا بلكہ اس سے اور زيادہ بہتر و گہرى تحقيقات كا راستہ ہموار ہوجائے گا اس ميں ہميشہ اضافہ ہى ہوگا مستقبل ميں اس دائرة المعارف ( انسائيكلو پيڈيا ) كے ذريعہ انجام پانے والے علمى امور خود كتاب سے كئي درجہ بہتر ، عميق اور جامع ہونگے _ ميں نے اپنے كم مدت كام كے دوران اس باليدگى كا بخوبى مشاہدہ كيا ہے _ شروع سے آخر تك ميں نے جو مطالب يادداشت كيئے تھے ديگر مصروف عمل، قابل احترام برادران كى طرف سے ان ميں بھارى مقدار ميں اضافہ كيے جانے والے اشاريوں كے درميان تقابل كرنے سے اس دعوى كى تصديق ہو جاتى ہے _ ابھى سے يہ بات واضح و روشن ہے كہ اگر اس كتاب ميں موجود موضوعات كو كسى ماہر محقق كے سپرد كيا جائے تو وہ اس ميں نئے نئے سوالات و جوابات كا اضافہ كر سكتا ہے _ ہر علم و فن ميں مہارت ركھنے والا دانشمند ايك آيت ، جملہ يا حتى ايك كلمہ پر اپنے خاص نكتہ نظر سے توجہ كرے تو وہ ايسے مطالب درك كرے گا جو كسى غير ماہر شخص كے ذہن ميں نہيں آسكتے _ اس كا راز يہ ہے كہ قرآن حكيم كے مفاہيم زندہ ، جاوداں اور ہميشہ رہنے والے ہيں جو وحى كے لازوال سرچشمے سے پھوٹے ہيں يہ تعبير بالكل اميرالمؤمنين حضرت على (عليہ السلام) كے عظيم كلام كے مطابق ہے كہ : '' نوراً لاتطفا مصابيحہ و سراجا َلا يخبؤ توقدہ و بحراً لاَ يدرك قعرہ''(۲) قرآن ايسانور ہے جس كے چراغ كبھى خاموش نہيں ہوں گے اور ايك ايسا چراغ ہے جس كے شعلے كبھى نہ بجھيں گے اور ايك ايسا سمندر ہے جس كى گہرائي كو چھوا نہيں جاسكتا_

اكبرہاشمى رفسنجانى

____________________

۱) اگر روئے زمين كے درخت قلم بن جائيں اور سمندر كو سہارا دينے كے لئے سات مزيد سمندر آجائيں تو بھى كلمات الہى تمام ہونے والے نہيں ہيں _

۲) نہج البلاغہ صبحى صالحي، خطبہ ۱۹۸_

۱۸

سورہ حمد

بِسْمِ اللّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ ( ۱ )

عظيم اور دائمى رحمتوں والے خدا كے نام سے _

۱_ قرآن ايسى كتاب ہے جو اسم''اللہ''سے تحقق پذير ہوئي يا وجود ميں آئي_بسم الله قرآن كريم كے آغاز ميں بسم اللہ كے ذكر كو دو اعتبار سے ديكھا جاسكتاہے ۱_ ايسا كلام جو پروردگار متعال نے انسانوں كے لئے بيان فرماياہے_ اس اعتبار سے ''بسم اللہ'' لوگوں كے لئے ايك حكم ہے كہ كس طرح اپنے كاموں كا آغاز كرو ۲_ اسكا متكلم خود خداوند متعال ہو_ اس صورت ميں قرآن كريم كے آغاز ميں ''بسم اللہ '' اس بات كى طرف اشارہ ہے كہ اللہ تعالى نے اسم ''اللہ'' كے ساتھ قرآن كريم كو ظہور بخشاہے گويا قرآن اسم '' اللہ'' كا مظہر ہے_

۲_ قرآن كريم ايسى كتاب ہے جس كا آغاز اللہ كے نام اور بندگان خدا پر رحمت كے اعلان سے ہوا_بسم الله الرحمن الرحيم

۳_ كاموں كا آغاز اللہ كے نام سے كرنا چاہيئے اور ''بسم اللہ''كہنا ضرورى ہے_بسم الله

۴_قرآن كريم چونكہ كتاب ہدايت ہے اور قرآن نے اپنى گفتگو كا آغاز''بسم الله'' سے كياہے لہذا يہ نكتہ اپنے مخاطبوں كو القا فرماتاہے كہ اپنے كاموں كا آغاز'' بسم الله'' سے كرو _ ۴ _ اللہ تعالى رحمان ( انتہائي وسيع رحمت كا مالك) اور رحيم (مہربان) ہے _بسم الله الرحمن الرحيم

۵ _ تمام تر موجودات اور مخلوقات اللہ تعالى كى وسيع رحمت سے بہرہ مند ہيں _بسم الله الرحمن الرحيم ''رحمان'' صيغہ مبالغہ ہے جو رحمت كى شدت اور وسعت پر دلالت كرتاہے_

۶_ اللہ تعالى اپنے بندوں پر مہربان ہے_بسم الله الرحيم رحمانيت اور رحيميت كى صفت آگے پيچھے كيوں آئي ہيں جبكہ دونوں ہى اللہ كى رحمت ہيں ؟ اس سوال كے جواب ميں نكتہ نظريہ ہے_ قرآن كريم كا دو صفات كا استعمال كرنا اس بات كى طرف اشارہ ہے كہ رحمانيت كى صفت تمام تر مخلوقات كے لئے ہے جبكہ رحيميت كى صفت صرف انسان اور ديگر مكلف مخلوق كے لئے ہے_

۷_بندوں پر اللہ تعالى كى وسيع رحمت و مہربانى اس بات كى دليل ہے كہ سب كاموں كو اسكے نام سے انجام دينا چاہيئے_بسم الله الرحمن الرحيم

۱۹

''اللہ''كى رحمان و رحيم سے توصيف و ثنا كرنا اشارہ ہے اس بات كى طرف كہ تمام كام اللہ كے نام سے كئے جائيں بالفاظ ديگر اس حكم كى حكمت يہ ہے_ يعنى چونكہ اللہ رحمان و رحيم ہے اسى لئے اسكے نام سے امور كا آغاز كرو_

۸ _ امور كى انجام دہى اللہ كے نام سے كرنا اسكى رحمت كا باعث ہے _بسم الله الرحمن الرحيم امور كو اللہ كے نام سے انجام دينے كى نصيحت كرنا اور اسكى حكمت كے طور پر رحمانيت اور رحيميت كا ذكر اس مطلب كا بيان ہے كہ كاموں ميں اللہ كا نام رحمت الہى كا موجب ہوتاہے جبكہ اس طرح كام پايہ تكميل كو پہنچتے ہيں _

۹_قرآن كريم اللہ تعالى كى رحمانيت اور رحيميت كا ايك جلوہ ہے _بسم الله الرحمن الرحيم عمومى طور پر متكلم آغاز سخن ميں اپنے پروگرام كے كلى اہداف بيان كرتاہے يہ كہا جاسكتاہے كہ قرآن كے آغاز ميں ان دو صفات كا انتخاب در حقيقت اسيلئے كيا گيا ہے كہ قرآن كريم بشريت كے لئے اللہ تعالى كى رحمت كا ايك جلوہ ہے_

۱۰_ عبداللہ بن سنان كہتے ہيں ميں نے امام صادقعليه‌السلام سے''بسم الله الرحمن الرحيم'' كا معنى پوچھا تو آپعليه‌السلام نے فرمايا ''الباء بهاء الله و السين سناء الله و الميم مجد الله و روى بعضهم ملك الله و الله اله كل شيء (و) الرحمن لجميع العالم و الرحيم بالمؤمنين خاصة'' (۱) بسم اللہ كى باء سے مراد اللہ كا حسن و جمال اور خوبياں ہيں سين سے مراد رفعت و بلندى ہے اور ميم اللہ كى عظمت و بزرگى كى طرف اشارہ ہے _ بعض نے روايت كى ہے كہ ميم اللہ كے ملك و سلطنت كى طرف اشارہ ہے_ اور اللہ ہر چيز كا معبود ہے_ رحمان كا مطلب يہ ہے كہ اس كى رحمت سارى كائنات كيلئے ہے _اور رحيم يعنى مومنين كےلئے اسكى خصوصى رحمت ہے_

۱۱_ اسماعيل بن مہران كہتے ہيں :امام رضاعليه‌السلام نے فرمايا :ان بسم الله الرحمن الرحيم اقرب الى اسم الله الاعظم من سواد العين الى بياضها (۲) آنكھ كى سياہى سے اسكى سفيدى جتنى نزديك ہے اس سے كہيں زيادہ بسم اللہ الرحمن الرحيم،اللہ تعالى كے اسم اعظم كے نزديك ہے_

۱۲_ حسن بن فضال كہتے ہيں ميں نے امام على ابن موسى الرضا سے بسم اللہ كے بارے سوال كيا تو آپعليه‌السلام نے فرمايا''معنى قول القائل ''بسم الله'' اسم على نفسى سمة من سمات الله عزوجل و هى العباد (۳) جب كوئي كہتاہے بسم اللہ تو اسكا مطلب يہ ہے كہ اللہ عزوجل كى بندگى و عبادت كى نشانيوں ميں سے ايك نشانى اپنے لئے قرار ديتاہوں _

____________________

۱) معانى الاخبارص۳ح۱،نورالثقلين ج/۱ ص۱۲ح۴۶_ ۲) تفسير عياشى ج/۱ ص۲۱ ح ۱۳ ، نورالثقلين ج/۱ ص۸ ح۲۳ ، ۲۵_ ۳) معانى الاخبارص۳ ح۱،نورالثقلين ج/۱ص۱۱ح۴۱_

۲۰

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

کیا قرآن سات حروف پر نازل ہوا؟

٭ روایات کے کمزور پہلو

٭ روایات میں تضاد

٭ سات حروف کی تاویل و توجیہ

٭ قریب المعنی الفاظ

٭ سات ابواب

٭ سات ابواب کا ایک اور معنی

٭ فصیح لغات

٭ قبیلہ ئ مضر کی لغت

٭ قراءتوں میں اختلاف

٭ اختلاف قراءت کا ایک اور معنی

٭ اکائیوں کی کثرت

٭ سات قراءتیں

٭ مختلف لہجے

۲۲۱

اہل سنت کی روایات بتاتی ہیں کہ قرآن سات حروف میں نازل کیا گیا ہے۔ بہتر ہے کہ پہلے ان روایات کو بیان کیا جائے اور پھر ان کے بارے میں اپنی تحقیق پیش کی جائے۔

۱۔ طبری نے یونس اور ابی کریب سے انہوں نے ابی شہاب سے اور اس نے ابن عباس سے روایت کی ہے کہ رسول خدا(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) نے فرمایا:

قال:''أقرأنی جبرئیل علی حرف فراجعته، فلم أزل أستزیده فیزیدنی حتی انتهی الی سبعة أحرف،،

''مجھے جبرئیل نے ایک حرف میں پڑھایا۔ میں نے دوبارہ جبرئیل کی طرف رجوع کیا اور یہ سلسلہ سات حروف تک منتہی ہوا۔،،

اس روایت کومسلم نے حرملہ سے، حرملہ نے ابن وھب سے اور اس نے یونس سے نقل کیا ہے۔(۱) بخاری نے دوسری سند سے یہ روایت بیان کی ہے اور اس کا مضمون ابن برقی اور ابن عباس کے ذریعے نقل کیا ہے۔(۲)

۲۔ ابی کریب نے عبد الرحمن بن ابی لیلیٰ کی سند سے اس نے اپنے جد کی سند سے اور اس نے ابی ابن کعب کی سند سے روایت کی ہے۔ ابیّ کہتا ہے:

''کنت فی المسجد فدخل رجل یصلی فقرأ قراءة أنکرتها علیه، ثم دخل رجل آخر فقرأ قراء ة غیر قراء ة صاحبه، فدخلنا جمیعاً علی رسول الله قال: فقلت یا رسول الله ان هذا قرأ قراء ة أنکرتها علیه، ثم دخل هذا فقرأ قراءة غیر قراءة صاحبه، فامرهما رسول الله(صلّی اللّه علیه وآله وسلّم) فقرأا ، فحسن رسول الله(صلّی اللّه علیه وآله وسلّم) شأهما، فوقع فی نفسی من التکذیب، ولا اذ کنت فی الجاهلیة فلما رأی رسول الله(صلّی اللّه علیه وآله وسلّم) ما غشینی ضرب صدری، ففضت عرقا کأنما أنظر الی الله فرقا فقال لی: یاأبی أرسل الی ان اقرأ القرآن علی حرف، فرددت علیه أن هون علی أمتی، فرد علی فی الثانیة أن اقرأ القرآن علی حرف فرددت علیه أن هون علی أمتی، فرد علی فی الثالثة أن اقرأه علی سبعة أحرف، و لک بکل ردة رددتها مسألة تسألنبها، فقلت: اللهم اغفر لأمتی اللهم اغفر لأمتی، و اخرت الثالثه لیوم یرغب فیه الی الخلق کلهم حتی ابراهیم علیه السلام،،

____________________

(۱)صحیح مسلم باب ان القرآن انزل علی سبعة أحرف ، ج ۲، ص ۲۰۲، طبع محمد علی صبیح، مصر۔

(۲)صحیح البخاری باب انزل القرآن علی سبعة أحرف ،ج ۲، ص ۱۰۰، مطبع عامرہ۔

۲۲۲

''میں مسجد رسول میں بیٹھا ہوا تھا، اتنے میں ایک آدمی مسجد میں داخل ہوا اور اس نے نماز پڑھنی شروع کی۔ اس نے ایک ایسی قراءت پڑھی جسے میں نہ جانتا تھا۔ اس اثنا میں دوسرا آدمی مسجد میں داخل ہوا اور اس نے ایک اور قراءت سے نماز شروع کی۔ پھر جب ہم سب نماز پڑھ چکے تو رسول اللہ(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ میں نے آپ کی خدمت میں عرض کی کہ اس شخص نے ایسی قراءت سے نمام پڑھی کہ مجھے تعجب ہوا اور دوسرا آیا تو اس نے اس کے علاوہ ایک اور قراءت پڑھی۔ آپ نے ان دونوں کو دوبارہ نماز پڑھنے کا حکم دیا۔ ان دونوں نے اسی طرح نماز پڑھی جس طرح پہلے پڑھی تھی، آپ نے دونوں کی نماز کو سراہا، اس سے میرے دل میں تکذیب آئی لیکن ایسی تکذیب نہیں جیسی زمانہ جاہلیت میں تھی۔ جب رسول اللہ(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) نے میری یہ کیفیت دیکھی تو میرے سینے پر ہاتھ مارا جس سے میں شرم کے مارے پسینہ سے شرابور ہوگیا اور یوں لگا جیسے میں اللہ کو دیکھ رہا ہوں۔ اس کے بعد پیغمبر اکرم(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) نے فرمایا: اے اُبیّ! مجھے یہ حکم دیا گیا کہ قرآن کو ایک حرف میں پڑھوں۔ میں نے خالق کے دربار میں درخواست کی کہ میری امت پر اس فریضہ کو آسان فرما مجھے دوبارہ یہی حکم ملا کہ قرآن کو ایک حرف میں پڑھوں۔ میں نے پھر وہی درخواست دہرائی۔ اس دفعہ مجھے حکم دیا گیا کہ میری ہر دعا، جو قبول نہیں ہوئی، کے عوض ایک دعا قبول کی جائے گی۔ اس پر میں نے یہ دعا مانگی: پالنے والے! میری امت کو بخش دے۔ پالنے والے! میری اُمّت کو بخش دے اور تیسری دعا کو اس دن کے لیے محفوظ رکھا ہے جس دن حضرت ابراہیم (علیہ السلام) تک میری دعا کے محتاج ہوں گے۔،،

اس روایت کو مُسلم نے بھی معمولی اختلاف کے ساتھ بیان کیا ہے۔(۱) طبری نے بھی ایک اور سند سے معمولی اختلاف کے ساتھ اس کو نقل کیا ہے اور تقریباً اسی مضمون کی یونس بن عبد الاعلیٰ اور محمد بن عبد الاعلیٰ اور محمد بن عبد الاعلیٰ صنعانی کے ذریعے اُبیّ بن کعب سے روایت کی گئی ہے۔

____________________

(۱) صحیح مسلم، ج ۲، ص ۲۰۳۔

۲۲۳

۳۔ ابی کریب نے سلیمان بن صرد کی سند سے اُبیّ بن کعب سے روایت کی ہے۔ اُبیّ بن کعب کہتا ہے:

قال: ''رحت الی المسجد فسمعت رجلاً یقرأ فقلت: من أقرأک؟ فقال: رسول الله(صلّی اللّه علیه وآله وسلّم) فانطلقت به الی رسول الله(صلّی اللّه علیه وآله وسلّم) فقلت: استقریئ هذاں، فقرأ فقال: أحسنت قال: فقلت انک أقرأتنی کذا و کذا فقال: وأنت قد أحسنت قال: فقلت قد أحسنت قد أحسنت قال: فضرب بیده علی صدری، ثم قال: اللهم أذهب عن أبیّ الشک قال: ففضت عرقاً و امتلأ جو فی فرقاً ثم قال: ان اللکین أتیانی فقال أحدهما: اقرأ القرآن علی حرف، و قال الآخر: زده قال: فقلت زدنی قال: اقرأه علی حرفین حتی بلغ سبعة أحرف فقال: اقرأ علی سبعة أحرف،،

''میں مسجد میں داخل ہوا تو ایک آدمی کی قراءت سُنی، میں نے اس سے دریافت کیا تمہیں یہ قراءت کس نے پڑھائی ہے، اس نے جواب دیا رسول اللہ(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) نے پڑھائی ہے چنانچہ میں اسے لے کر رسول اللہ(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا: یا رسول اللہ(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) اس کی قراءت سنیئے۔ اس شخص نے قراءت پڑھی اور سول اللہؐ نے سننے کے بعد فرمایا: عمدہ ہے۔ میں نے کہا: آپ نے تو مجھے اس طرح اور اس طرح قراءت پڑھائی تھی۔ آپ نے فرمایا: یقیناً تمہاری قراءت بہت اچھی ہے میں نے آپ کی نقل اتارتے ہوئے کہا: تمہاری قراءت بھی بہت اچھی ہے۔ آپ نے اپنا ہاتھ میرے سینے پر مارا اور فرمایا: پالنے والے! اُبیّ کے دل شک دور فرما۔ میں (اُبیّ) خجالت کے مارے پسینے سے شرابور ہو گیا اور میری پورا وجود خوف سے لرزنے لگا۔ پھر آپ نے فرمایا: میرے پاس دو فرشتے نازل ہوئے ان میں سے ایک نے کہا: قرآن کو ایک حرف میں پڑھیئے۔ دوسرے فرشتے نے پہلے سے کہا: اس ایک حرف میں اضافہ کریں۔ میںؐ نے بھی فرشتے سے یہی کہا۔ فرشتے نے کہا: قرآن کو دو حرفوں میں پڑھیئے۔ فرشتہ حروف کی تعداد بڑھاتا گیا یہاں تک کہ فرشتے نے کہا قرآن کو سات حروف میں پڑھیئے۔،،

۲۲۴

۴۔ ابو کریب نے عبد الرحمن بن ابی بکرہ کی سند سے اور اس نے اپنے باپ کی سند سے روایت کی ہے۔ ابو کریب کہتا ہے:

قال: ''قال رسول الله(صلّی اللّه علیه وآله وسلّم): قال جبرئیل: اقرأ القرآن علی حرف فقال میکائیل استزده فقال: علی حرفین، حتی بلغ ستة أو سبعة أحرف و الشک من أبی کریب فقال: کهها شاف کاف ما لم تختم آیة عذاب برحمة، أو آیة رحمة بعذاب کقولک: هلم و تعال،،

''پیغمبر اکرم(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) فرماتے ہیں: جبرئیل نے کہا قرآن کو ایک حرف میں پڑھیئے۔ میکائیل نے کہا کہ جبرئیل سے درخواست کریں کہ اسے بڑھا دے، میریؐ درخواست پر جبرئیل نے کہا دو حروف میں پڑھیئے۔ اس طرح حروف کو بڑھاتے گئے یہاں تک کہ چھ یا ست تک پہنچ گئے (چھ اور سات میں تردد ابی کریب کی طرف سے ہے) پھر آپ نے فرمایا: ان میں سے جس حرف میں بھی پڑھیں کافی ہے اور سب کا مطلب ایک ہے، جس طرح ''ھلم،، اور ''تعال،، دونوں کا معنی ہے ''آجاؤ،، بشرطیکہ رحمت کی آیہ عذاب میں اور عذاب کی آیہ رحمت میں تبدیل نہ ہو۔،،

۵۔ طبری نے احمد بن منصور کی سند سے اس نے عبد اللہ بن ابی طلحہ سے اس نے اپنے باپ سے اور اس نے اپنے باپ سے روایت بیان کی ہے:

قال: ''قرأ رجل عند عمر بن الخطاب فغیر علیه فقال: لقد قرأت علی رسول الله(صلّی اللّه علیه وآله وسلّم) فلم یغیر علی قال: فاختصما عند النبی فقال: یا رسول الله ألم تقرئنی آیة کذا و کذا؟ قال: بلی، فوقع فی صدر عمر شیئ فعرف النبی ذلک فی وجهه قال: فضرب صدره وقال: أبعد شیطاناً، قالها ثلاثاً ثم قال: یا عمر ان القرآن کله سوائ، ما لم تجعل رحمةً عذاباً و عذاباً رحمة،،

''ایک شخص نے حضرت عمر بن خطاب کے سامنے قرآن پڑھا حضرت عمر بن خطاب نے اس پر اعتراض کیا اور اس کی اصلاح کی کوشش کی۔ اس شحص نے کہا: میں نے پیغمبر اکرم(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) کے سامنے بھی اسی طرح قراءت پڑھی تھی۔ لیکن آپ نے اعتراض نہیں کیا تھا۔ چنانچہ یہ دونوں فیصلے کے لیے رسول اللہ(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) کی خدمت میں حاضر ہوئے۔

۲۲۵

اس شخص نے کہا: یا رسول اللہ(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم)! کیا آپ نے مجھے اس آیہ کی قراءت اس طرح نہیں پڑھائی تھی؟ آپ نے فرمایا: ہاں اسی طرح پڑھائی تھی؟ آپ نے فرمایا: ہاں اسی طرح پڑھائی تھی۔ حضرت عمر کے دل میں شکوک و شبہات پیدا ہوئے جنہیں رسول اللہ(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) نے حضرت عمر کے چہرے پر نمایاں محسوس فرمایا۔ راوی کہتا ہے: رسول اللہ(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) نے حضرت عمر کے سینے پر ہاتھ مارا اور تین مرتبہ فرمایا: شیطان کو اپنے آپ سے دور رکھو۔ اس کے بعد فرمایا: یہ سب قرآن ایک جیسے ہیں جب تک کسی رحمت کو عذاب میں اور عذاب کو رحمت میں تبدیل نہ کرو۔،،

طبری نے یونس بن عبد الاعلیٰ سے حضرت عمر اور ہشام بن حکیم کا اسی قسم کا ایک واقعہ نقل کیا ہے جس کی سند خود حضرت عمر تک پہنچتی ہے۔

بخاری، مسلم اور ترمذی نے بھی حضرت عمر کا ہشام کے ساتھ ایک واقعہ بیان کیا ہے جس کی سند اور حدیث کے الفاظ کچھ مختلف ہیں۔(۱)

۶۔ طبری نے محمد بن مثنی سے اس نے ابن ابی لیلیٰ سے اور اس نے اُبیّ بن کعب سے روایت کی ہے:

قال: ''فأتاه جبرئیل فقال: ان الله یأمرک أن تقریئ أمّتک القرآن علی حرف فقال: أسأل الله معافاته و مغفرته، و ان أمتی لا تطبق ذلک قال: ثم أتاه الثانیة فقال: ان الله یأمرک أن تقریئ أمتک القرآن علی حرفین فقال: أسأل الله معافاته و مغفرته، و ان أمتی لا تطبق ذلک، ثم جاء الثالثة فقال: ان الله یأمرک أن تقری، امّتک القرآن علی ثلاثة أحرف فقال: أسأل الله معافاته و مغفرته، و ان أمتی لاتطبق ذلک، ثم جاء الرابعة فقال: ان الله یأمرک أن قری، أمّتک القرآن علی سبعة أحرف، فأنما حرف قرأوا علیه فقد أصابوا،،

''رسول اللہ(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) قبیلہ بنی غفار کے ہاں تھے، اس وقت جبرئیل نازل ہوئے اور فرمایا: اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اپنی اُمّت کو ایک حرف میں قرآن پڑھایئے۔ آپ نے فرمایا: اللہ سے مغفرت اور عفو کی درخواست ہے کیونکہ میری امّت اس کی قدرت نہیں رکھتی

____________________

(۱) صحیح مسلم، ج ۲، ص ۲۰۲۔ صحیح بخاری، ج ۳، ص ۹۰ اور ج ۶، ص ۱۰۰،۱۱۱، ج ۸، ص ۵۳۔۲۱۵۔صحیح ترمذی، بشرح ابن العربی باب ما جاء انزل القرآن علی سبعة احرف ، ج ۱۱، ص ۶۰۔

۲۲۶

اُبیّ کہتا ہے: جبرئیل دوسری مرتبہ نازل ہوئے اور فرمایا: اپنی اُمّت کو دو حروف میں قرآن پڑھایئے۔ آپ نے فرمایا: اللہ سے مغفرت اور عفو کی درخوات ہے کیونکہ میری امت اس کی قدرت نہیں رکھتی۔ تیسری مرتبہ جبرئیل نازل ہوئے اور فرمایا: اپنی امت کو تین حروف میں قرآن پڑھایئے۔ آپ نے فرمایا: اللہ سے مغفرت اور عفو کی درخواست ہے کیونکہ میری امت اس کی قدرت نہیں رکھتی۔ جبرئیل پھر چوتھی مرتبہ نازل ہوئے اور فرمایا: اپنی امت کو سات حروف میں قرآن پڑھایئے، ان میں سے جس حرف پر بھی وہ قرآن پڑھے صحیح ہے۔،، اس روایت کو مسلم نے اپنی صحیح(۱) میں بیان کیا ہے۔ نیز طبری نے اس روایت کے کچھ حصے احمد بن محمد طوقی سے، اس نے ابن ابی لیلیٰ سے اور اس نے اُبیّ بن کعب سے معمولی اختلاف سے بیان کئے ہیں۔ اس کے علاوہ طبری نے محمد بن مثنیٰ سے اور اس نے ابیّ بن ابی کعب سے روایت کی ہے۔

۷۔ طبری نے ابی کریب سے اس نے زر سے اور اس نے اُبیّ سے نقل کیا ہے:

قال: ''لقی رسول الله صلی الله علیه وآله جبرئیل عند أحجار المرائ ۔فقال: انی بعثت الی أمّة أمیین منهم الغلام و الخادم، و فیهم الشیخ الفانی و العجوز فقال جبرئیل: فلیقرأوا القرآن علی سبعة أحرف،، (۲)

''مقام''مراء احجار،، پر رسول اللہ(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) نے جبرئیل کو دیکھا آپ نے فرمایا میں ایسی ان پڑھ قوم کی طرف بھیجا گیاہوں جس میں غلام، بوڑھے اور عورتیں شامل ہیں۔ جبرئیل نے فرمایا: آپ کی امّت سات حروف میں قرآن پڑھے۔،،

۸۔ طبری نے عمرو بن عثمان عثمانی سے، اس نے مقبری سے اور اس نے ابوہریرہ سے نقل کیا ہے کہ رسول اللہ(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) نے فرمایا:

''قال رسول الله(صلّی اللّه علیه وآله وسلّم): ان هذا القران انزل علی سبعة أحرف، فاقرأوا و لاحرج، و لکن لا تختموا طذکر رحمة بعذاب، ولا ذکر عذاب برحمة،،

''قرآن سات حروف میں نازل کیا گیا ہے۔ جس حرف میں چاہو اسے پڑھو، کوئی حرف نہیں۔ لیکن یہ خیال رکھو کہ رحمت کی آیہ کو عذاب کی آیہ میں اور عذاب کی آیہ کو رحمت کی آیہ میں بدل نہ دینا۔،،

___________________

(۱) صحیح مسلم ، ج ۲، ص ۲۰۳۔

(۲) اس روایت کو ترمذی نے بھی معمولی اختلاف کے ساتھ بیان کیا ہے۔ ج ۱۱، ص ۶۲۔

۲۲۷

۹۔ طبری نے عبید بن اسباط سے، اس نے ابی سلمہ سے اور اس نے ابوہریرہ سے نقل کیا ہے کہ رسول اللہ(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) نے فرمایا:

''قرآن چار حرفوں میں نازل کیا گیا ہے علیم، حکیم، غفور اور رحیم،،۔

اسی قسم کی روایت طبری نے ابی کریب سے اس نے ابی سلمہ سے اور اس نے ابوہریرہ سے نقل کی ہے۔

۱۰۔ طبری سعید بن یحییٰ سے، اس نے عاصم کی سند سے، اس نے زر سے اور اس نے عبداللہ بن مسعود سے روایت کی ہے، عبد اللہ ابن مسعود کہتا ہے:

قال: ''تمارینا فی سورة من القرآن، فقلنا: خمس و ثلاثون، أوست و ثلاثون آیة، قال: فانطلقنا الی رسول الله(صلّی اللّه علیه وآله وسلّم) فوجدنا علیاً یناجیه قال: فقلنا انما اختلفنا فی القراء ة قال: فاحمر وجه رسول الله(صلّی اللّه علیه وآله وسلّم) و قال: انما هلک من کان قبلکم باختلافهم بینهم قال: ثم أسرَّ الی علی شیأا فقال لنا علی: ان رسول الله یأمرکم ان تقرأوا کما علّمتم،،

''قرآن کے کسی سورۃ کے بارے میں ہمارا اختلاف ہوا۔ بعض نے کہا اس کی آیئتیں پینتیس ہیں اور بعض نے کہا چھتیس ہیں۔ چنانچہ ہم رسول اللہ(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) کی خدمت میں حاضر ہوئے دیکھا کہ آپ حضرت علی(علیہ السلام) سے راز و نیاز میں مشغول ہیں۔ ابن مسعود کہتا ہے کہ ہم نے رسول اللہ(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) سے عرض کیا: یا رسول اللہ(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم)! قراءت کے بارے میں ہمارا آپس میں اختلاف ہو رہا ہے۔ ہماری بات سن کر آپ کا چہرہ مبارک غصّے سے سرخ ہوگیا آپ نے فرمایا: تم سے پہلے لوگ آپس کے اختلاف کی وجہ سے ہلاکت میں مبتلا ہوگئے

پھر آپ نے آہستہ سے امیر المومنین (علیہ السلام) سے کچھ فرمایا۔ اس کے بعد حضرت علی (علیہ السلام) نے ہم سے کہا: رسول اللہ(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) فرماتے ہیں کہ جس طرح تمہیں قرآن پڑھایا گیا ہے اسی طرح پڑھو۔،،(۱)

____________________

(۱) یہ سب روایتیں تفسیر طبری، ج ۱، ص ۹۔۱۵ میں مذکور ہیں۔

۲۲۸

۱۱۔ قرطبی نے اُبی داؤد سے اور اس نے اُبیّ بن کعب سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) نے فرمایا:''یا اُبیّ انی قرأت القرآن ۔فقیل لی: علی حرف أوحرفین ۔فقال الملک الذی معی: قل علی حرفین ۔فقیل لی: علی حرفین أو ثلاثة ۔فقال الملک الذی معی: قل علی ثلاثة، حتی بلغ سبعة أحرف، ثم قال: لیس منها الا شاف کاف، ان قلت سمیعاً، علیماً، عزیزاً، حکیماً، مالم تخلط آیة عذاب برحمة، أو آیة رحمة بعذاب،،

''اے اُبی! میں نے قرآن کی تلاوت کی تو مجھ سے پوچھا گیا: آپ ایک حرف میں قرآن پڑھیں گے یا دو حرف میں؟ میرے ساتھ موجود فرشتے نے کہا: کہیئے دو حرف میں۔ فرشتے نے کہا: کہیئے تین حروف میں۔ اس طرح سات حروف تک سلسلہ جا پہنچا۔ اس کے بعد مجھ سے کہا گیا کہ ان سات حروف میں سے جس میں چاہیں پڑھیں، کافی ہے۔ چاہیں تو سمیعاً پڑھیں یا علیماً یا عزیزاً یا حکیماً پڑھیں البتہ عذاب کی آیہ کو رحمت کی آیہ سے اور رحمت کی آیہ کو عذاب کی آیہ سے خلط ملط نہ کردیں۔،،(۱)

i ۔ ان روایات کے کمزور پہلو

یہ تھیں اس مضمون کی اہم روایات جو اہل سُنّت کے سلسلہئ سند سے منقول ہیں اور یہ سب روایتیں صحیحہ زرارہ کی مخالف ہیں جو حضرت امام جعفر صادق (علیہ السلام) سے مروی ہے، آپ فرماتے ہیں:

''ان القرآن واحد نزل من عند واحد، و لکن الاختلاف یحیئ من قبل الرواة،،

''قرآن ایک ہی ہے اور ایک ہی ذات کی طرف سے نازل کیا گیا ہے اور اختلاف راویوں کے پیدا کردہ ہیں۔،،(۲)

____________________

(۱) تفسیر قرطبی، ج ۱، ص ۴۳۔

(۲) اصول کافی کتاب فضل القرآن، باب نوادر روایت ۱۲۔

۲۲۹

فضیل بن یسار نے حضرت ابا عبد اللہ(ع) سے پوچھا: یہ لوگ کہتے ہیں کہ قرآن سات حروف میں نازل ہوا ہے۔ امام(ع) نے فرمایا:

''أبو عبد الله علیه السلام: کذبوا أعداء الله ولکنه نزل علی حرف واحدمن عند الواحد،،

''یہ دشمنان خدا جھوٹ بولتے ہیں۔ قرآن کو صرف ایک حرف میں اور ایک ذات کی طرف سے نازل کیا گیا۔،،(۱)

اسسے پہے بطور اختصار بیان کیا جاچکا ہے کہ دینی معاملات میں رسول اللہ(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) کے بعد واحد مرجع و مرکز کتابِ خدا اور اہل بیت پیغمبرؐ ہیں جن سے خدا نے ہر قسم کے رجس و ناپاکی کو دور رکھا ہے۔ انشاء اللہ تعالیٰ اس کی مزید وضاحت بعد میں آئے گی۔

ان روایات کی کوئی وقعت نہیں ہے جو اہل بیتؑ کی صحیح روایات کی مخالف ہیں۔ اس لئے دوسری روایات کی سند کے بارے میں کسی بحث کی نوبت نہیں آئی اور روایات اہل بیتؑ کی مخالفت کی وجہ سے ہی وہ روایات ناقابل اعتبار قرار پاتی ہیں اس کے علاوہ بھی ان روایات میں آپس میں تضاد پایا جاتا ہے اور بعض روایات ایسی ہیں جن کے سوال و جواب کا آپس میں کوئی تعلق نہیں ہے۔

ii ۔ روایات میں تضاد

تضاد کا ایک نمونہ یہ ہے کہ بعض روایات کے مطابق جبرئیل نے رسول اللہ(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) کو ایک حرف میں قرآن پڑھایا اور آپ نے مزید حروف کی درخواست کی یہاں تک کہ یہ سلسلہ سات حروف تک منتہی ہوا۔

____________________

(۱) اصول کافی کتاب فضل القرآن، باب نوارد روایت ۱۳۔

۲۳۰

اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حروف میں اضافہ تدریجاً ہوا ہے بعض روایات کے مطابق یہ اضافہ ایک ہی نشست میں ہوا اور آپ نے ان میں اضافے کا مطالبہ میکائیل کی ہدایت پر کیا اور جبرئیل نے سات حرف تک اضافہ کردیا اور بعض روایات کے مطابق میکائیل کی رہنمائی اور رسول اللہ(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) کی درخواست کے بغیر ہی جبرئیل آسمان پر جاتے اور نازل ہوتے تھے حتیٰ کہ سات حروف مکمل ہوئے۔

تضاد کا تیسرا نمونہ یہ ہے کہ بعض روایات کہتی ہیں کہ اُبیّ بن کعب مسجد میں داخل ہوا اور کسی کو اپنی قراءت کے خلاف قرآن پڑھتے سنا اور بعض روایات یہ کہتی ہےں کہ اُبیّ بن کعب پہلے سے مسجد میں موجود تھا اور بعد میں دو آدمیوں نے مسجد میں داخل ہو کر اس کی قراءت کے خلاف قرآن پڑھا۔ اس کے علاوہ ان روایات میں وہ کلام بھی مختلف طریقے سے مذکور ہے جو

آنحضرت(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) نے اُبیّ سے فرمایا۔

سوال و جواب میں مناسبت نہ ہونے کا نمونہ ابن مسعود کی روایت میں حضرت علی (علیہ السلام) کا یہ فرمانا ہے کہ رسول اللہ(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) فرماتے ہیں: جس طرح تمہیں پڑھایا گیا ہے اسی طرح پڑھو۔ یہ جواب سائل کے سوال سے مطابقت نہیں رکھتا کیونکہ ابن مسعود نے آیتوں کی تعدادکے بارے میں پوچھاتھا آیہ کی کیفیت اور قراءت کے بارے میں نہیں۔

ان تمام اشکالات کے علاوہ بھی قرآن کے سات حروف میں نازل ہونے کا کوئی معنی نہیں بنتا اور کوئی صاحب فکر و نظر کسی صحیح نتیجے تک نہیں پہنچ سکتا۔

۲۳۱

سات حروف کی تاویل و توجیہ

سات حروف کی تاویل و توجیہ میں چند اقوال ذکر کیے گئے ہیں۔ ذیل میں ہم ان میں سے اہم اقوال اور ان میں موجود سقم اور اشکال بیان کریں گے:

۱۔ قریب المعنی الفاظ

سات حروف کی پہلی توجیہ اور تاویل یہ کی گئی ہے کہ الفاظ مختلف ہیں اور ان کے معانی قریب قریب ہیں، جس طرح عجل اسرع اور اسع ہیں۔ ان تینوں الفاظ کا معنی ہے۔ ''جلدی کرو،، یہ حروف حضرت عثمان کے زمانے تک موجود تھے۔ اس کے بعد حضرت عثمان نے ان حروف کو ایک حرف میں منحصر کردیا اور باقی چھ حروف پر مشتمل قرآنوں کو نذر آتش کرنے کا حکم دے دیا۔

اس تاویل کو طبری اور علماء کی ایک جماعت نے بھی اختیار کیا ہے(۱) قرطبی کا کہنا ہے کہ اکثر اہل علم کا یہی نظریہ ہے(۲) اور ابو عمرو بن عبد البر کی رائے بھی یہی ہے(۳) ۔

اس تاویل پر ابن ابی بکرہ اور ابی داؤد کی روایت کے علاوہ یونس کی روایت سے استدلال کیا جاتا ہے جو ابن شہاب سے منقول ہے، اس میں انہوں نے کہا ہے:

سعید بن المسیب نے مجھے خبر دی ے کہ جس شخص کی طرف خدا نے آیہ کریمہ( إِنَّمَا يُعَلِّمُهُ بَشَرٌ ) ۱۶:۱۰۳

یعنی اس (رسول) کو تو ایک بشر قرآن سکھاتا ہے،، میں نے جس کی طرف اشارہ فرمایا ہے وہ ایک کاتب وحی تھا جو اس لیے شک و شبہ میں مبتلا ہوگیا کہ آپ اس سے آیتوں کے آحر میں سمیع علیم یا عزیز حکیم لکھواتے تھے پھر آپ سے پوچھتا: یا رسول اللہ(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم)! عزیز حکیم لکھوں یا سمیع علیم یا عزیز علیم؟ آپ فرماتے: ان

____________________

(۱) تفسیر طبری، ج ۱، ص ۱۵۔

(۲) تفسیر قرطبی، ج ۱، ص ۴۲۔

(۳) التبیان، ص ۳۹۔

۲۳۲

میں سے جو بھی لکھو صحیح ہے۔ اس بات سے یہ شخص اس غلط فہمی میں مبتلا ہوگیا کہ محمدؐ نے قرآن میرے سپرد کرد یا ہے، میں جو چہے لکھوں۔،،

نیز یونس کی اس قراءت سے بھی استدلال کیا گیا ہے:''ان ناشئة اللیل هی اشد وطا و اصوب قیلا ۔،، (۱) کچھ لوگوں نے یونس پر اعتراض کیا: اے ابو حمزہ قرآن میں تو ''اقوم،، ہے۔ یونس نے جواب دیا: اقوم اصوب اور اھدی کا معنی ایک ہی ہے۔

اسی طرح ابن مسعود کی قراءت ''ان کانت الا زقیۃ واحدۃ،، سے استدلال کیا گیا ہے۔ اس نے ''ان کانت صیحۃ واحدۃ،، کی بجائے ''ان کانت الا ذقیۃ واحدۃ،، پڑھا ہے۔ اس لیے کہ''صیحة،، اور''زقیة،، کا معنی ایک ہے۔(۱)

اس کے علاوہ طبری کی یہ روایت بھی بطور دلیل پیش کی جاتی ہے۔ طبری نے محمد بن بشار اور ابی السائب اور انہوں نے ہمام سے روایت کی ہے:

''ابو الدرداء ایک شخص کو آیہ کریمہ،( إِنَّ شَجَرَتَ الزَّقُّومِ ﴿﴾ طَعَامُ الْأَثِيمِ ) (۴۴:_۴۴_۴۳) پڑھ رہا تھا اس سے یہ آیہ نہیں پڑھی جارہی تھی اور وہ بار بار بتانے کے باوجوداس شخص سے ''طعام الاثیم،، نہیں پڑھا گیا تو ابو الدرداء نے اس سے کہا کہ اس کی جگہ پڑھو''ان شجرة الزقوم طعام الفاجر،، اس لیے کہ ''اثیم،، اور ''فاجر،، کا معنی ایک ہے۔،،(۲)

اس کے علاوہ اس تاویل کی دلیل میں ان روایات کو پیش کیا جاتا ہے جن میں یہ کہہ کر قراءت میں کافی گنجائش رکھی ہے:

ما لم تختم اٰیة رحمة بعذاب او اٰیة عذاب برحمة (یعنی) قرآن میں اتنی تبدیلی کرسکتے ہو کہ رحمت کی آیہ عذاب کی آیہ میں اور عذاب کی آیہ رحمت کی آیہ میں تبدیل نہ ہوجائے۔

____________________

(۱) تفسیر طبری، ج۱،ص ۱۸۔

(۲) ایضاً، ج ۲۵، ص ۷۸۔ آیہ مبارکہ کی تفسیر کے ذیل میں۔

۲۳۳

اس حد بندی کی یہی معنی ہوسکتا ہے کہ سات حروف سے مراد سات کلمات میں سے بعض کو بعض کی جگہ استعمال کرنا ہے۔ البتہ اس سے صرف اس صورت کو مستثنیٰ قرار دیا گیا جس سے رحمت کی کوئی آیہ عذاب کی آیہ میں اور عذاب کی آیہ رحمت کی آیہ میں تبدیل ہوجائے۔ بنابرایں ان روایات میں سے مجمل(۱) روایات کی مبین(۲) روایات پر محمول کرنے کے بعد ان سے وہی معنی مراد لیے جائیں جو ہم نے بیان کئے ہیں۔

مؤلف: سات حروف کے بارے میں جتنی بھی تاویلیں کی گئی ہیں ان میں سے کوئی بھی روایت سے سازگار نہیں، چانچہ اس کے بارے میں آئندہ بیان کیا جائے گا۔ بنابرایں یہ تمام روایات ناقابل قبول ہیں کیونکہ ان کے مفہوم کو اپنانا اور ان پر عمل کرنا ناممکن ہے، اس لیے کہ:

اولا: یہ تاویل، قرآن کے بعض معانی پر منطبق ہوسکتی ہے جس کی سات حروف سے تعبیر ہوسکتی ہو۔ اور یہ بدیہی امر ہے کہ قرآن میں اکثریت ان معانی کی ہے جنہیں مختلف الفاظ سے تعبیر نہیں کیا جاسکتا تو پھر یہ کیسے کہا جاسکتا ہے کہ قرآن ان سات حروف میں نازل ہوا ہے۔

ثانیاً: اگر اس تاویل سے مراد یہ ہو کہ خود رسول اللہ(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) نے بعض الفاظ جن کے معنی ملتے جلتے ہوں، میں تبدیل کرنے کی اجازت دی ے اور گذشتہ روایات کو اس کے ثبوت میں پیش کیا جائے تو یہ احتمال، اس قرآن کی بنیاد کو منہدم کرنے کا باعث بنے گا جو ایک ابدی معجزہ اور پوری انسانیت پر خدا کی طرف سے حجّت ہے، اور کسی بھی عاقل کو اس بات میں شک نہیں ہوگا کہ یہ احتمال حقیقی قرآن کے متروک اور اس کے بے وقعت ہوے کا متقاضی ہے۔

____________________

(۱) ایسا کلام جس کا معنی واضح نہ ہو۔ (مترجم)

(۲) ایسا کلام جس کا معنی واضح ہو۔ (مترجم)

۲۳۴

کوئی عاقل یہ سوچ سکتا ہے کہ پیغمبر اکرم(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) نے سورہ یٰس میں موجود آیات کی جگہ ان الفاظ کی تلاوت کی اجازت دی ہو:''یٰس والذکر العظیم، انک لمن الانبیآئ، علی طریق سویّ، انزال الحمید الکریم، التخوف قوماً خوف اسلافهم فهم ساهون ۔

ہم تو کہیں گے ان کی آنکھیں ٹھنڈی رہیں جو اسے جائز سمجھتے ہیںاللهمّ ان هٰذا الا بهتان عظیم ، پالنے والے! تو جانتا ہے کہ یہ تیرے رسول پر بہتان عظیم ہے۔ اللہ تعالیٰ تو فرماتا ہے:

( قُلْ مَا يَكُونُ لِي أَنْ أُبَدِّلَهُ مِن تِلْقَاءِ نَفْسِي ۖ إِنْ أَتَّبِعُ إِلَّا مَا يُوحَىٰ إِلَيَّ ۖ) ۱۰:۱۵

''(اے رسول) تم کہہ دو کہ مجھے یہ اختیار نہیں کہ میں اسے اپنے جی سے بدل ڈالوں میں تو بس اسی کا پابند ہوں جو میری طرف وحی کی گئی ہے۔،،

جب رسول اللہ(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) کو قرآن میں اپنی طرف سے کسی قسم کی تبدیلی کا اختیار نہیں ہے تو آپ دوسروں کو کیسے اس کی اجازت دے سکتے ہیں۔

رسول اللہ(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) نے براء بن عازب کو ایک دعا کی تعلیم فرمائی تھی جس میں یہ جملہ بھی شامل تھا: ''و نبیک الذی ارسلت،، اس کو براء نے ''و رسولک الذی ارسلت،، پڑھا تو آپ نے براء کو ٹوکا اور فرمایا ''نبی،، کی جگہ ''رسول،، مت پڑھو۔(۱)

____________________

(۱) التبیان، ص ۵۸۔

۲۳۵

جب دعا کی یہ شان اور اہمیت ہے تو قرآن کی اہمیت کتنی زیادہ ہوگی۔

اگر اس تاویل سے مراد یہ ہو کہ خود رسول اللہ(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) نے سات حروف کے مطابق قرآن پڑھا ہے اور ان روایات کو اس کے ثبوت میں پیش کیا جائے توپھر مدعی کو ان سات حروف کی ٹھیک ٹھیک نشاندہی کرنی چاہیے جن کے مطابق رسول اللہ(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) نے قرآن پڑھا ہے کیوں کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کی حفاظت کا وعدہ فرمایا ہے:

( إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَإِنَّا لَهُ لَحَافِظُونَ ) ۱۵:۹

''بیشک ہم ہی نے قرآن نازل کیا اور ہم ہی تو اس کے نگہبان بھی ہیں۔،،

ثالثاً: گذشتہ روایات میں اس بات کی تصریح کی گئی ہے کہ قرآن کو سات حروف میں نازل کرنے کی حکمت، اُمّت کی سہولت اور آسانی ہے، اس لیے کہ اُمّت ایک حرف میں قراءت کی استطاعت نہیں رکھتی اور اسی غرض سے رسول اللہ(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) نے سات حروف تک اضافہ کرنے کی درخواست کی تھی۔

لیکن آپ نے دیکھا کہ قراءتوں میں اختلاف باعث بنا کہ مسلمان ایک دوسرے کو کافر گردانیں، حتیٰ کہ حضرت عثمان نے قراءت کو ایک حرف میں منحصر کردیا اور باقی قرآنوں کو نذر آتش کردیا۔

اس سے ہم درج ذیل نتائج تک پہنچتے ہیں:

۱۔ قراءتوں میں اختلاف اُمّت کے لیے ایک عذاب تھا حضرت عثمان کے دور میں ظاہر ہوا۔ رسول اللہ(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) خدا سے ایسی چیز کا مطالبہ کس طرح کرسکتے تھے۔ جس میں اُمّت کا فساد و نقصان ہو اور کیایہ صحیح ہے کہ خدا ایسی درخواست منطور فرمالے؟ جبکہ بہت سی روایات میں اختلاف سے روکا گیا ہے اور اختلاف کو امّت کی ہلاکت کا باعث قرار دیا گیا ہے۔ بعض روایات تو یہاں تک کہتی ہیںکہ جب آپ نے قراءتوں میں اختلاف کی بات سنی تو غصے سے آپ کا چہرہ مبارک سُرخ ہوگیا۔ ان میں س کچھ روایات کا ذکر ہو چکا ہے اور کچھ روایات کا ذکر بعد میں کیا جائے گا۔

۲۳۶

۲۔ گذشتہ روایات کا مفہوم یہ تھا کہ نبی اکرم(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) نے فرمایا: میری اُمّت ایک حرف میں قرآن پڑھنے کی استطاعت نہیں رکھتی اور یہ صریحاً جھوٹ ہے۔ عقل اس کو نبی کریمؐ کی طرف نسبت دینے کی اجازت نہیں دیتی۔ کیونکہ ہم دیکھتے ہیں کہ حضرت عثمان کے بعد اُمّت پیغمبر، جس میں مختلف عناصر قبیلے اور مختلف زبانوں والے شامل تھے، قرآن کو ایک حرف میں پڑھنے پر قادر تھی۔ اب یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا رسول اکرم(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) کے زمانے میں ایک قراءت پر اتفاق کرنا کوئی مشکل تھا جبکہ اس وقت امّت پیغمبر اکرم(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) فصیح عربوں پر مشتمل تھی۔

۳۔ قراءتوں میں اختلاف، جس کی بنیاد پر حضرت عثمان نے قراءتوں کو ایک حرف میں منحصر کیا، خود پیغمبر اکرم(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) کے زمانے میں بھی تھا۔ آپ نے ہر قاری کی تائید بھی فرمائی تھی اور مسلمانوں کو حکم دیا تھا کہ وہ ان تمام قراءتوں کو تسلیم کرلیں اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی فرما دیا کہ قراءتوں میں اختلاف خدا کی طرف سے رحمت ہے۔

اب حضرت عثمان اور ان کے تابعین کو کیا حق پہنچتا ہے کہ وہ رحمت کے دروازے بند کردیں؟ جبکہ رسول اعظمؐ نے قراءت قرآن روکنے سے ممانعت فرمائی تھی۔

مسلمانوں کے پاس کیا جواز تھا کہ وہ رسول اکرم(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) کے قول کو تو ٹھکرا دیں اور حضرت عثمان کی بات مان کر اس پر عمل کریں؟

کیا مسلمانوں کی نظر میں حضرت عثمان، رحمۃ العالمین سے زیادہ مہربان اور ہمدرد تھے؟

معاذ اللہ کیا حضرت عثمان کے پیش نظر ایسی حکمت اور مصلحت تھی جس سے رسول اکرم(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) نے خبر تھی؟ یا حاشا وکلا حضرت عثمان پر ان حروف کے منسوخ ہونے کی وحی نازل ہوئی تھی؟!

۲۳۷

اس بحث کا خلاصہ یہ ہے کہ سات حروف سے متعلق روایات کی یہ بدنما تاویل اس قابل نہیں ہے کہ اسے ردّ بھی کیا جائے۔ اسی وجہ سے علمائے اہل سُنّت میں سے متاخرین نے اس تاویل کو ٹھکرا دیا ہے اور ابو جعفر محمد بن سعد ان النحوی اور حافظ جلال الدین سیوطی ان روایات کو مشکل اور متشابہ قرار دینے پر مجبور ہوگئے۔ چنانچہ کہا جاتا ہے کہ ان روایات کا کوئی مفہوم واضح نہیں ہے۔(۱) حالانکہ آپ نے ملاحظہ فرمایا کہ ان روایات کا مفہوم واضح ہے اور جو بھی ان روایات کا بنظر غائر مطالعہ کرے، اس کے لیے کوئی شک و تردد باقی نہیں رہتا۔

۲۔ سات ابواب

سات حروف کی تفسیر و تاویل کے سلسلے میں دوسری رائے یہ ہے کہ ان سے مراد سات ابواب ہیں اور قرآن ان سات ابواب میں تقسیم کیا گیا ہے ان کے عنوان یہ ہیں:

i ۔ آیات زجر (نہی)۔

ii ۔ آیات امر۔

iii ۔ آیات حلال۔

iv ۔ آیات حرام۔

v ۔ آیات محکم۔

vi ۔ آیات متشابہ۔

vii ۔ آیات امثال۔

اس نظریہ پر یونس کی روایت سے استدلال کیا گیا ہے، جسے اس نے ابن مسعود کی سند سے پیغمبر اکرم(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) سے نقل کیا ہے۔ آپ نے فرمایا:

____________________ _

(۱) التبیان، ص ۶۱۔

۲۳۸

انه قال: ''کان الکتاب الأول نزل من باب واحد علی حرف واحد، و نزل القرآن من سبعة أبواب، و علی سبعة أحرف: زجر، و أمر، و حلال، و حرام، و محکم، و متشابه، و أمثال ۔فأحلّوا حلاله، و حرّموا واعتبروا بأمثاله، و اعملوا بمحکمه، و آمنوا بمتشابهه، و قولوا آمنا به کل من عند ربنا،،

''پہلی آسمانی کتاب کا ایک ہی باب تھا اور وہ ایک ہی حرف پر نازل کی گئی تھی۔ قرآن مجید سات ابواب اور سات حروف میں نازل کیا گیاہے۔ زجر، امر، حلال، حرام، محکم، متشابہ اور امثال۔ حلال خدا کو حلا ل اور حرام خدا کو حرام سجھو، جس چیز کا تمہیں حکم دیا جائے اسے انجام دو اور جس چیز سے تمہیں منع کیا جائے اس سے باز آجاؤ، قرآن کی مثالوں سے عبرت حاصل کرو، محکم آیات پر عمل کرو اور متشابہ آیات پر ایمان لے آؤ اور کہو ہم اس پر ایمان لے آئے یہ سب کچھ ہمارے ربّ کی طرف سے ہے۔،،(۱)

اس نظریہ پر بھی چند اعتراضات ہیں:

۱۔ اس روایت سے یہی ظاہر ہوتا ہے کہ سات حروف، جن میں قرآن نازل ہوا ہے اور ہیں، اور سات ابواب، جن میں قرآن تقسیم ہوا ہے اور ہیں، لہذا اس روایت کو ان مجمل روایات کی تفسیر قرار نہیں دیا جاسکتا۔

۲۔ یہ روایت ابو کریب کی روایت سے متصادم ہے، جو اس نے ابن مسعود سے نقل کی ہے اور جس میں کہا گیا ہے:

ان الله انزل القرآن علی خمسة احرفٍ ۔حلال و حرام و محکم و متشابه و امثال ۔(۲) (یعنی) اللہ نے قرآن کو پانچ حروف ، حلال، حرام، محکم، متشابہ اور امثال میں نازل فرمایا ہے

____________________

(۱) تفسیر طبری، ج ۱، ص ۳۲۔

(۲) ایضاً، ج ۱، ص ۲۴۔

۲۳۹

۳۔ اس روایت کا مفہوم مضطرب و متزلزل ہے۔ کیونکہ ''زجر،، اور ''حرام،، ایک چیز ہے، اس طرح چھ ابواب ہو جائیں گے نہ کہ سات۔ اس کے علاوہ قرآن میں اور بہت سے موضوعات کا بھی ذکر ہے جو ان سات ابواب میں شامل نہیں ہیں۔جیسے: مبدائ، معاد، قصّے، احتجاجات ، دلائل اور علوم و معارف ہیں اور اگر اس تاویل کے قائل کا مقصد یہ ہے کہ باقی ماندہ موضوعات بھی محکم و متشابہ می داخل ہیں تو باقی پانچ ابواب، حلال، حرام، امر، زجر اور امثال کو بھی دوسرے موضوعات کی طرح محکم و متشابہ میں داخل ہونا چاہیے تھا۔ اس طرح قرآن دو حروف محکم و متشابہ میں منحصر ہو جاتا۔ اس لیے کہ قرآن میں جو کچھ ہے و محکم یا متشابہ ہے۔

۴۔ سات حروف کی تفسیر، سات ابواب کرنا گذشتہ روایات سے سازگار نہیں کیونکہ گذشتہ روایات میں قرآن کے سات حروف میں نازل ہونے کی وجہ امّت کی سہولت بیان کی گئی ہے۔ اس لیے کہ اُمّت ایک حرف پر قرآن پڑھنے کی قدرت نہیں رکھتی تھی۔

۵۔ بعض گذشتہ روایات اس بات کی تصریح کرتی ہیں کہ سات حروف سے مراد قراءت کی قسمیں ہیں، جن میں قاریوں کا اختلاف ہے۔

فرض کیا اگر اس روایت کا معنی سات ابواب ہیں تب بھی اس ایک روایت کی وجہ سے ان متعدد روایات کے ظاہری معنی سے دستبردار نہیں ہوا جاسکتا اور نہ ہی یہ ایک روایت گذشتہ روایات کے ظاہری معنی کے خلاف کسی معنی کے لیے قرینہ اور علامت بن سکتی ہے۔

۲۴۰

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

461

462

463

464

465

466

467

468

469

470

471

472

473

474

475

476

477

478

479

480

ظاہر ہے كہ يہود ى يہ نہيں كہتے تھے كہ حضرت ابراہيمعليه‌السلام اور نصرانى ہيں اسى طرح نصارى بھى يہ نہ كہتے تھے كہ حضرت ابراہيمعليه‌السلام اور يہودى ہيں پس لف اجمالى كا استعمال اور ان ميں سے ہر ايك كے عقيدہ كى تفصيل بيان نہ كرنا اس نكتہ كى طرف اشارہ ہے كہ وہ لوگ باوجود اپنے درميان شديد اختلافات كے مسلمانوں كےخلاف بالكل ايك اور ہم آواز ہيں _

۴ _ اللہ تعالى اپنے انبياءعليه‌السلام كے دين سے دوسروں كى نسبت زيادہ آگاہ ہے _قل اانتم اعلم ام الله

۵ _ حضرت ابراہيمعليه‌السلام ، حضرت اسماعيلعليه‌السلام ، حضرت اسحاقعليه‌السلام ، حضرت يعقوبعليه‌السلام اور ان كى اولاد نہ تو يہودى تھے اور نہ ہى نصرانى _ام تقولون كانوا هوداً اونصارى جملہ''ام تقولون ...'' ميں استفہام انكارى توبيخى ہے يعنى يہ گمان ہے اور ايك باطل و غير صحيح گمان ہے اس پر اعتقاد ركھنے والا سزا كا مستوجب ہے _

۶ _ يہود و نصارى نے تاريخ انبياءعليه‌السلام ميں تحريف كى _ام تقولون ابراهيم و اسماعيل كانوا هوداً او نصارى

۷_ لوگوں ميں ظالم ترين افراد وہ ہيں جو دينى حقائق اور الہى معارف كو چھپاتے ہيں اور ان كو دوسروں كے سامنے پيش كرنے سے اجتناب كرتے ہيں _و من اظلم ممن كتم شهادة عنده من الله ''من اللہ'' ،''عندہ''كى طرح ''شہادة'' كے لئے صفت ہے پس ''شہادة عندہ من اللہ'' يعنى اسكے پاس جو شہادت ہے وہ اللہ تعالى كى جانب سے ہے _ انسان كے اختيار ميں اللہ تعالى كى جانب سے جو شہادت ہے اس سے مراد دينى حقائق اور الہى معارف ہيں _

۸_ يہود و نصارى كے پاس اللہ تعالى كى جانب سے ايك حقيقت تھى جسے ان كو لوگوں كے سامنے پيش كرنا تھا_ امتقولون و من اظلم ممن كنم شهادة عنده من الله آيات كے اس حصہ ميں بحث چونكہ يہود و نصارى كے بارے ميں ہے اس سے معلوم ہوتاہے كہ جملہ'' من اظلم ...'' كا براہ راست اشارہ يہود و نصارى كى طرف ہے _

۹ _ ضرت ابراہيمعليه‌السلام ، حضرت اسماعيلعليه‌السلام ، حضرت اسحاقعليه‌السلام ، حضرت يعقوبعليه‌السلام اور حضرت يعقوبعليه‌السلام كى آل اولاد كے بارے ميں يہود و نصارى نے كچھ حقائق پر پردہ ڈالا اس ليئے وہ ظالم ترين لوگ ہيں _

ام تقولون ان ابراهيم و من اظلم ممن كتم شهادة عنده من الله '' شہادة من اللہ'' كے مورد نظر مصاديق ميں سے آيہ مجيدہ كے صدر كى روشنى ميں حضرت ابراہيمعليه‌السلام اور ديگر مذكورہ انبياءعليه‌السلام كے بارے ميں كچھ حقائق ہيں _

۴۸۱

۱۰_ جس حقيقت كى يہود و نصارى كيلئے گواہى دينا ضرورى تھى اس پر انہوں نے پردہ ڈالا اور لوگوں كے سامنے اسے پيش كرنے سے اجتناب كيا _و من اظلم ممن كتم شهادة عنده من الله

۱۱ _ حضرت ابراہيمعليه‌السلام ، حضرت اسماعيلعليه‌السلام ، حضرت اسحاقعليه‌السلام اور حضرت يعقوبعليه‌السلام انبياءعليه‌السلام ميں سے تھے اور يہود و نصارى كے مورد قبول شخصيات تھيں _ام تقولون ان ابراهيم كانوا هوداً او نصارى

۱۲ _ گواہى دينا واجب اور اسكا چھپانا ظلم ہے_و من اظلم ممن كتم شهادة عنده من الله

۱۳ _ اللہ تعالى انسانوں كے اعمال سے غافل نہيں اور ان سب سے آگاہ ہے _و ما الله بغافل عما تعملون

۱۴ _ آسمانى حقائق كو چھپانے كى وجہ سے اہل كتاب كے علماء كو اللہ تعالى كى جانب سے دھمكى دى گئي _و من اظلم ممن كتم شهادة عنده من الله و ما الله بغافل عما تعملون اللہ تعالى كے آگاہ ہونے اور علمائے اہل كتاب كے كردار سے غافل نہ ہونے كے كے بيان كرنے كا ہدف انہيں سزا دينے كى دھمكى دينا ہے_

۱۵ _ امام كاظمعليه‌السلام سے روايت ہے آپعليه‌السلام نے فرمايا ''و ان سئلت عن الشهادة فاشهد بها و هو قول الله عزوجل و من اظلم ممن كتم شهادة عنده من الله .''(۱)

اگر تيرے پاس موجود گواہى كے بارے ميں سوال كيا جائے تو گواہى دو كيونكہ اللہ جل جلالہ كا ارشاد ہے ''و من اظلم ممن كتم شهادة عنده من الله ...''

اسباط: اسباط كا دين ۵

اسلام: دشمنان اسلام۳

اسماء اور صفات: جلالى صفات۱۳; جمالى صفات۱۳

اللہ تعالى : اللہ تعالى كے مختصات ۴; اللہ تعالى كى دھمكياں ۱۴; اللہ تعالى اور غفلت ۱۳; علم الہى ۴،۱۳

انبيائ( عليہم السلام ): انبياءعليه‌السلام كى تاريخ كى تحريف ۶; انبياءعليه‌السلام كا دين ۴

____________________

۱) كافى ج/ ۱ ص ۳۱۵ ح ۱۴_

۴۸۲

انسان: انسانى عمل ۱۳

اہل كتاب كے علماء : علمائے اہل كتاب كو دھمكى ۱۴; علمائے اہل كتاب اور حق كا چھپانا ۱۴

جرائم : جرائم كے موارد ۱۲

حضرت ابراہيمعليه‌السلام : دين ابراہيمىعليه‌السلام ۵; حضرت ابراہيمعليه‌السلام كى شخصيت ۱۱

حضرت اسحاقعليه‌السلام : دين حضرت اسحاقعليه‌السلام ۵; حضرت اسحاقعليه‌السلام كى شخصيت ۱۱

حضرت اسماعيلعليه‌السلام : دين حضرت اسماعيلعليه‌السلام ۵; حضرت اسماعيلعليه‌السلام كى شخصيت ۱۱

حق: حق كو چھپانے كا ظلم ۷

دين: دين كا چھپانا ۷ روايت:۱۵ ظالمين : ظالم ترين لوگ ۷،۹ ظلم : ظلم كے درجات ۷; ظلم كے موارد ۱۲

عيسائي: عيسائيوں كا تحريف كرنا ۶; عيسائيوں كا ظلم ۹; عيسائيوں كا عقيدہ ۲; عيسائيوں كى ذمہ دارى ۸; عيسائي اور حضرت ابراہيمعليه‌السلام ۹،۱۱; عيسائي اور اسباط ۹; عيسائي اور حضرت اسحاقعليه‌السلام ۹،۱۱; عيسائي اور حضرت اسماعيلعليه‌السلام ۹ ، ۱۱; عيسائي اور دين ابراہيمىعليه‌السلام ۲; عيسائي اور اسباطعليه‌السلام كا دين ۲; عيسائي اور حضرت اسحاقعليه‌السلام كا دين ۲; عيسائي اور حضرت اسماعيلعليه‌السلام كا دين ۲; عيسائي اور حضرت يعقوبعليه‌السلام كا دين ۲; عيسائي اور حق كا چھپانا ۹،۱۰; عيسائي اور حضرت يعقوبعليه‌السلام ۹،۱۱

گواہي: گواہى كے احكام ۱۲; گواہى كى اہميت ۱۵; گواہى كا چھپانا ۱۲; گواہى كا وجوب ۱۲

مسلمان : مسلمانوں كے دشمن ۳ واجبات:۱۲

حضرت يعقوبعليه‌السلام : حضرت يعقوبعليه‌السلام كا دين ۵; حضرت يعقوبعليه‌السلام كى شخصيت ۱۱

يہود: يہوديوں اور عيسائيوں كا اتحاد ۳; يہوديوں كا عيسائيوں سے اختلاف ۳; يہوديوں كا تحريف كا عمل ۶; يہوديوں كا ظلم ۹; يہوديوں كا عقيدہ ۱; يہوديوں كى ذمہ دارى ۸; يہود اور حضرت ابراہيمعليه‌السلام ۹،۱۱; يہود اور اسباطعليه‌السلام ۹; يہود اور حضرت اسحاقعليه‌السلام ۹،۱۱; يہود اور حضرت اسماعيلعليه‌السلام ۹،۱۱; يہود اور دين ابراہيمىعليه‌السلام ۱; يہود اور اسباطعليه‌السلام كا دين ۱; يہود اور حضرت اسحاقعليه‌السلام كا دين۱; يہود اور حضرت اسماعيلعليه‌السلام كا دين ۱; يہود اور حضرت يعقوبعليه‌السلام كا دين ۱; يہود اور حق كا چھپانا ۹،۱۰; يہود اور حضرت يعقوبعليه‌السلام ۹،۱۱

۴۸۳

تِلْكَ أُمَّةٌ قَدْ خَلَتْ لَهَا مَا كَسَبَتْ وَلَكُم مَّا كَسَبْتُمْ وَلاَ تُسْأَلُونَ عَمَّا كَانُواْ يَعْمَلُونَ ( ۱۴۱ )

يہ امت گذرچكى ہے اس كا حصہ وہ ہے جو اس نے كيا ہےاور تمھارا حصہ وہ ہے جو تم كردگے اورخدا تم سے ان كے اعمال كے بارے ميں كوئيسوال نہيں كرے گا(۱۴۱)

۱ _ حضرت ابراہيمعليه‌السلام ، حضرت اسماعيلعليه‌السلام ، حضرت اسحاقعليه‌السلام اور حضرت يعقوبعليه‌السلام اللہ تعالى كى پرستش كرنے والى امت اور اسكے حضور سر تسليم خم تھے_تلك امة قد خلت ''تلك '' كا مشار اليہ ما قبل آيت ميں موجود انبياءعليه‌السلام ہيں مذكر كى طرف اشارہ كے لئے ''تلك'' كا استعمال خبر (امة) كى مناسبت سے ہے _

۲ _ تمام انسان حتى انبياءعليه‌السلام اولوالعزم بھى دنيا ميں نہ رہے اور سب كو عالم آخرت كى طرف جانا ہوگا_تلك امة قد خلت اس مطلب كى مزيد وضاحت كے لئے آيت ۱۳۴ كے مطلب نمبر ۲ كى طرف رجوع كريں _

۳ _ حضرت ابراہيمعليه‌السلام ، حضرت اسماعيلعليه‌السلام ، حضرت اسحاقعليه‌السلام اور حضرت يعقوبعليه‌السلام كے نيك اعمال كى جزا نہيں سے مختص ہے اس سے دوسروں كو فائدہ نہ ہوگا_تلك امة قد خلت لها ما كسبت '' لہا'' كا '' ماكسبت'' پر مقدم ہونا حصر كا معني ديتاہے پس '' لہا ما كسبت''يعنى ان كے نيك اعمال كا فائدہ خود انہى كى طرف لوٹ كے جائے گا _

۴ _ حضرت ابراہيمعليه‌السلام ، حضرت اسحاقعليه‌السلام اور جيسے انبياءعليه‌السلام كے نيك اعمال اور انكى فضيلتوں كى جزا سے يہود كا بہرہ مند ہونا يہود كے نادرست عقائد ميں سے ہے_لها ما كسبت و لكم ما كسبتم اس مطلب كا يوں استفادہ ہوتاہے كہ اللہ تعالى يہوديوں سے مخاطب ہوكر فرماتاہے كہ انبياءعليه‌السلام كے اعمال كا نتيجہ دوسروں كو نہ ملے گا _

۵ _ ہر فرد اور ہر امت اپنے نيك اعمال كے اجر سے بہرہ مند ہوں گے _لها ما كسبت و لكم ما كسبتم

۶_ ہر شخص اور ہر معاشرے كے اعمال كا نتيجہ خود انہيں سے مربوط ہے اور انہيں كى طرف لوٹے گا_

لها ما كسبت و لكم ما كسبتم

۴۸۴

۷_ ہر معاشرے اور امت كى ايك زندگي، موت اور مستقل شخصيت ہے_تلك امة قد خلت

۸ _ انسان اپنے اسلاف كے اعمال كا ذمہ دار نہيں ہے اور نہ ہى ان كے سبب اسكا مؤاخذہ ہوگا_و لاتسئلون عما كانوا يعملون

۹ _ يہوديوں كو ان كے اپنے اسلاف كے برُے اعمال كا نتيجہ بھگتنا پڑے گا اور اس پر ان كا مواخذہ ہوگا يہ يہوديوں كے باطل خيالات ميں سے ہے *و لا تسئلون عما كانوا يعملون يہ مطلب اس وجہ سے ہے كہ يہوديوں كو مورد خطاب قرار دے كر يہ حقيقت بيان كى گئي ہے كہ وہ لوگ اپنے اسلاف كے اعمال كے ذمہ دار نہيں ہيں _

۱۰_ انبياءعليه‌السلام سے رشتہ دارى يا ان كى نسل سے ہونا قيامت ميں كام نہ آئے گا اور نہ ہى اعمال كے نتائج سے رہائي كا باعث ہوگا_تلك امة قد خلت لها ما كسبت و لكم ما كسبتم

انبياءعليه‌السلام كے اعمال كے نتائج سے دوسروں كو فائدہ نہ ہوگا يہ مطلب ايسے لوگوں سے مخاطب ہوكر كہا گيا ہے جو حضرت ابراہيمعليه‌السلام ، حضرت اسحاقعليه‌السلام اور حضرت يعقوبعليه‌السلام جيسے انبياءعليه‌السلام كى نسل سے ہيں اس سے مذكورہ بالا مطلب اخذ كيا جاسكتاہے _

۱۱ _ انسانوں كے اعمال كے حساب كتاب اور ان كے اعمال كى جزا عدل الہى كے مطابق ہوگي_لها ما كسبت و لكم ما كسبتم

اجر : اجر كا مختص ہونا ۳،۵،۶; اجر ميں عدالت و انصاف ۱۱

اسلاف: اسلاف كا عمل ۸

اللہ تعالى : الہى جزائيں ۱۱; اللہ تعالى كا حساب كتاب ۱۱; اللہ تعالى كا عدل و انصاف ۱۱

امتيں : عبادت گزارا امتيں ۱; امتوں كى جزا ۵; امتوں كى زندگى ۷; امتوں كى شخصيت ۷; امتوں كى موت ۷

انبيائ( عليہم السلام) : انبياءعليه‌السلام سے ر شتہ دارى ۱۰; انبياءعليه‌السلام كى رحلت ۲; انبياءعليه‌السلام كى نسل ۱۰

انسان: انسانوں كى موت ۲

اولاد: اولاد كى ذمہ دارى كا دائرہ۸

۴۸۵

حضرت ابراہيمعليه‌السلام : حضرت ابراہيمعليه‌السلام كا خشوع و خضوع ۱; حضرت ابراہيمعليه‌السلام كى اخروى جزا ۳; حضرت ابراہيمعليه‌السلام كى عبادت ۱

حضرت اسحاقعليه‌السلام : حضرت اسحاقعليه‌السلام كا خشوع و خضوع ۱; حضرت اسحاقعليه‌السلام كى اخروى جزا ۳; حضرت اسحاقعليه‌السلام كى عبادت ۱

حضرت اسماعيلعليه‌السلام : حضرت اسماعيلعليه‌السلام كا خشوع و خضوع ۱; حضرت اسماعيلعليه‌السلام كى اخروى جزا ۳; حضرت اسماعيلعليه‌السلام كى عبادت۱

حضرت يعقوبعليه‌السلام : حضرت يعقوبعليه‌السلام كا خشوع و خضوع ۱; حضرت يعقوبعليه‌السلام كى اخروى جزا ۳; حضرت يعقوبعليه‌السلام كى عبادت۱

سرتسليم خم ہونا : اللہ تعالى كے حضور سرتسليم خم ہونے كى اہميت ۱

سزائيں : سزاؤں كا ذاتى ہونا۸; سزاؤں كا نظام ۶،۱۱

عقيدہ: باطل عقيدہ ۴،۹

عمل : عمل كے آثار۱۰; دوسروں كے عمل سے فائدہ اٹھانا ۳،۴;عمل كى جزا ۶

عمل صالح : عمل صالح كى جزا ۳،۵

قيامت : قيامت ميں رشتہ دارى ۱۰

معاشرہ : معاشروں كى زندگى ۷; معاشروں كى شخصيت ۷ معاشروں كى موت ۷

موت : موت كا حتمى ہونا ۲

نجات: اخروى نجات كے عوامل۱۰

يہودي: يہوديوں كا عقيدہ۴،۹; يہوديوں كے اسلاف كا عمل ۹

۴۸۶

سَيَقُولُ السُّفَهَاء مِنَ النَّاسِ مَا وَلاَّهُمْ عَن قِبْلَتِهِمُ الَّتِي كَانُواْ عَلَيْهَا قُل لِّلّهِ الْمَشْرِقُ وَالْمَغْرِبُ يَهْدِي مَن يَشَاء إِلَى صِرَاطٍ مُّسْتَقِيمٍ ( ۱۴۲ )

عنقريب احمق لوگ يہكہيں گے كہ ان مسلمانوں كو اس قبلہ سے كسنے موڑديا ہے جس پر پہلے قائم تھے تو اےپيغمبر كہہ ديجئے كہ مشرق و مغرب سب خداكے ہيں وہ جسے چاہتا ہے صراط مستقيم كيہدايت دے ديتا ہے (۱۴۲)

۱ _ زمانہ بعثت ميں كچھ مدت كے لئے بيت المقدس مسلمانوں كا قبلہ رہا _ما ولّى هم عن قبلتهم التى كانوا عليها

اكثر مفسرين كے نظريئے كے مطابق ''قبلتھم ...'' سے مراد بيت المقدس ہے _

۲ _ مسلمانوں كا قبلہ اول (بيت المقدس) اللہ تعالى كے حكم سے كعبہ كى طرف تبديل ہوگيا_ما ولّى هم عن قبلتهم التى كانوا عليها ...يهدى من يشاء '' يہدى من يشائ'' قرينہ ہے اس پر كہ قبلہ كى تبديلى اللہ تعالى كے فرمان سے ہوئي _

۳ _ احمقوں اور بے وقوفوں نے قبلہ كى تبديلى كو بے جا تصور كيا اور اس پر اعتراض كيا _سيقول السفهآء من الناس ما ولّى هم عن قبلتهم التى كانوا عليها

۴ _ اللہ تعالى كے احكام كو قبول نہ كرنا اور ان پراعتراض كرنا بے وقوفى اور كم عقلى ہے _سيقول السفهاء من الناس ما ولّى هم عن قبلتهم

۵ _ احكام دين كا نسخ ايك ممكن امر ہے اس كو بے جا تصور كرنا حماقت و كم عقلى كى دليل ہے _سيقول السفهاء من الناس ما ولّى هم عن قبلتهم

۶_ تبديلى قبلہ كے بارے ميں مخالفين اسلام كى مخالفت اور ضد كى قرآن حكيم نے پيشين گوئي فرمائي_سيقول السفهآء من الناس ما ولّى هم عن قبلتهم التى كانوا عليها

۷_ تبديلى قبلہ كے سلسلہ ميں قبل اس كے كہ اعتراض كرنے والے اعتراض كريں اللہ تعالى نے آنحضرت (ص) كو اسكا جواب سكھايا_سيقول قل لله المشرق والمغرب

۴۸۷

۸_ دين كى تبليغ كرنے والوں كيلئے مخالفين كے شبہات اور اعتراضات سے مطلع ہونا اور انكا مناسب جواب دينا ضرورى ہے_سيقول ما ولّى هم عن قبلتهم قل لله المشرق والمغرب مخالفين كے شبہات اور اعتراضات سے پہلے ہى جو اللہ تعالى نے اپنے حبيب (ص) كو ان سے آگاہ فرمايا اور ان كا جواب سكھايا اس سے مذكورہ بالا مطلب اخذ ہوتاہے_

۹_ مشرق و مغرب ( سب جہتيں اور جگہيں ) اللہ تعالى كى ہيں _قل لله المشرق والمغرب

۱۰_ سب سمتوں اور جگہوں كى ملكيت ميں اللہ تعالى كا كوئي شريك نہيں ہے_لله المشرق والمغرب

۱۱ _ اس اعتبار سے كہ تمام سمتيں اور جگہيں اللہ تعالى كى ملكيت ہيں لذا قبلہ بننے كى صلاحيت ركھتى ہيں ان ميں سے بعض كو بعض پر كوئي فوقيت حاصل نہيں ہے_قل لله المشرق والمغرب

۱۲ _ كعبہ كا قبلہ بننا انسانوں كى صراط مستقيم كى طرف ہدايت كى بنياد ہے _ماولّى هم عن قبلتهم يهدى من يشاء الى صراط مستقيم يہ جملہ ''لله المشرق ...'' بيان كررہاہے كہ كعبہ اور بيت المقدس دونوں خداوند متعال كى ملكيت ہيں اس اعتبار سے ان ميں كوئي فرق نہيں پايا جاتا_ جملہ''يھدي ...'' اس نكتہ كى طرف اشارہ ہے كہ كعبہ كو قبلہ كے طور پر انتخاب كرنا انسانوں كى ہدايت كا ذريعہ ہے اسى لئے اسے سب كے لئے قبلہ قرار ديا گياہے_

۱۳ _ كسى سمت كو قبلہ قرار دينے كا معيار يہ ہے كہ وہ سمت يا حگہ انسانوں كى ہدايت ميں مؤثر ہو_ما وليهم عن قبلتهم قل لله المشرق والمغرب يهدى من يشائ _

۱۴ _ انسانوں كى صراط مستقيم كى طرف ہدايت كرنے والا اللہ تعالى ہے _يهدى من يشاء الى صراط مستقيم

۱۵ _ اللہ تعالى كى جانب سے احكام اور دين كى تشريع (قانون سازي) كا ہدف انسانوں كى صراط مستقيم كى طرف ہدايت ہے _ماولّى هم عن قبلتهم يهدى من يشاء الى صراط مستقيم

۱۶_ انسانوں كى ہدايت اور دين كے قوانين كى تشريع كے سلسلے ميں اللہ تعالى مختار ہے _يهدى من يشاء الى صراط مستقيم

۱۷_ امام صادقعليه‌السلام نے فرمايا''و صلّى رسول الله (ص) الى بيت المقدس بعد النبوة ثلاث عشرة سنة بمكة و تسعة عشر شهراً بالمدينة

۴۸۸

ثم عيرته اليهود (۱)

رسول خدا (ص) نے رسالت كے بعد تيرہ سال مكہ ميں اور انيس ماہ مدينہ منورہ ميں بيت المقدس كى طرف نماز پڑھى يہاں تك كہ يہوديوں نے آپ (ص) پر انگشت نمائي اور اعتراضات كيئے _

احكام: احكام پر اعتراض ۴; احكام كى تشريع ۱۶; فلسفہ احكام ۱۵; احكام كا نسخ ہونا ۵

اسلام: صدر اسلام كى تاريخ ۱،۲

اللہ تعالى : اللہ تعالى كا اختيار ۱۶ ;اوامر الہى ۲; اللہ تعالى اور شريك ۱۰; اللہ تعالى كى مالكيت ۹،۱۰،۱۱; ہدايت الہى ۱۴

انسان: انسانوں كى ہدايت ۱۲،۱۴،۱۵،۱۶

بيت المقدس: بيت المقدس كا قبلہ ہونا۱،۲

پيامبر اسلام (ص) : پيامبر اسلام (ص) كو تعليم دينا ۷; پيامبر اسلام (ص) كا بيت المقدس كى طرف نماز پڑھنا ۱۷

حماقت: حماقت كے نتائج ۴; حماقت كى علامتيں ۵

دين : فلسفہ دين ۱۵

روايت:۱۷

مقامات: مقامات كا مالك ۹،۱۰،۱۱

شبہات: شبہہ شناسى كى اہميت ۸; شبہات كا جواب دينا ۷،۸

شرك: شرك كو رد كرنا ۱۰

قبلہ : تبديلى قبلہ پر اعتراض ۳،۷; تبديلى قبلہ ۲; دشمن اور تبديلى قبلہ ۶; احمق افراد اور تبديلى قبلہ ۳; مسلمانوں كا قبلہ اوّل ۱،۲; قبلہ ہونے كا معيار ۱۱،۱۳

قرآن كريم : قرآن كريم كى پيشين گوئي ۶

كعبہ: كعبہ كے قبلہ ہونے كے نتائج ۱۲; كعبہ كا قبلہ ہونا ۲

مبلغين :

____________________

۱) من لايحضرہ الفقيہہ ج ص ۱۷۸ح۸۴۳;نور الثقلين ج۱ ص ۱۳۷ ح ۴۲۷

۴۸۹

مبلغين كى ذمہ دارى ۸;

مشرق : مشرق كا مالك ۹

مغرب: مغرب كا مالك ۹

نسخ : نسخ پر اعتراض۵

ہدايت: ہدايت كى اہميت ۱۳; ہدايت كى بنياد ۱۲; ہدايت كے عوامل ۱۳; ہدايت كا سرچشمہ ۱۴; صراط مستقيم كى ہدايت ۱۲،۱۴،۱۵

وَكَذَلِكَ جَعَلْنَاكُمْ أُمَّةً وَسَطًا لِّتَكُونُواْ شُهَدَاء عَلَى النَّاسِ وَيَكُونَ الرَّسُولُ عَلَيْكُمْ شَهِيدًا وَمَا جَعَلْنَا الْقِبْلَةَ الَّتِي كُنتَ عَلَيْهَا إِلاَّ لِنَعْلَمَ مَن يَتَّبِعُ الرَّسُولَ مِمَّن يَنقَلِبُ عَلَى عَقِبَيْهِ وَإِن كَانَتْ لَكَبِيرَةً إِلاَّ عَلَى الَّذِينَ هَدَى اللّهُ وَمَا كَانَ اللّهُ لِيُضِيعَ إِيمَانَكُمْ إِنَّ اللّهَ بِالنَّاسِ لَرَؤُوفٌ رَّحِيمٌ ( ۱۴۳ )

او رتحويل قبلہكى طرح ہم نے تم كو درميانى امت قرادراہے تا كہ تم لوگوں كے اعمال كے گواہ رہواور پيغمبر تمھارے اعمال كے گواہ رہيں اور ہم نے پہلے قبلہ كو صرف اس لئے قبلہبنايا تھا كہ ہم يہ ديكھيں كہ كون رسولكا اتباع كرتا ہے اور كون پھچلے پاؤں پلٹجاتا ہے _ اگر چہ قبلہ ان لوگوں كے علاوہسب پرگراں ہے جن كى الله نے ہدايت كردى ہےاور خدا تمھارے ايمان كو ضائع نہيں كرناچاہتا _ وہ بندوں كے حال پر مہربان اوررحم كرنے والا ہے (۱۴۳)

۱_ اللہ تعالى نے امت مسلمة كو معتدل اور برتر امت قرار دياہے_جعلناكم امة وسطاً '' وسطاً'' بعض مفسرين كے بقول كہ يہ كنايہ ہے '' معتدل '' يا ''برتر'' سے_

۲ _ ماديات اور معنويات كے اعتبار سے اسلام ايك متوازن دين ہے _جعلناكم امة وسطاً

ان آيات ميں مورد خطاب يہود و نصارى ہيں اس اعتبار سے كہا جاسكتاہے كہ امت مسلمہ كو جو متوازن اور معتدل امت قرار ديا گياہے يہ يہود و نصارى كے مقابلہ ميں ہے_ كيونكہ يہود ى دنياپرست ہيں جبكہ نصارى ترك دنيا اور رہبانيت كى تائيد كرتے ہيں _ پس امت مسلمہ كا معتدل ہونا دنياوى اور معنوى امور ميں ہے _

۴۹۰

۳_ بيت المقدس سے كعبہ كى طرف قبلہ كى تبديلى كا كردار امت مسلمہ ايك متوازن اور برتر امت كا درجہ حاصل كرنے ہيںماولى هم عن قبلتهم التى كانوا عليها و كذلك جعلناكم امة وسطاً

۴ _ اسلامى آداب و احكام ہر طر ح كى افراط و تفريط سے مبرا اور پاك ہيں _جعلناكم امة و سطاً

۵ _ مسلمان ديگر انسانوں كے اعمال پر گواہ ہيں اور پيامبر گرامى اسلام (ص) مسلمانوں كے اعمال پر گواہ ہيں _

لتكونوا شهداء على الناس و يكون الرسول عليكم شهيداًآيہ مجيدہ ميں '' شہدائ'' اور '' شہيد '' سے كيا مراد ہے اس سلسلہ ميں چند آراء پائي جاتى ہيں _ ان ميں سے ايك اعمال پر گواہ ہونا ہے يعنى امت اسلامى يا اس امت كے بعض لوگ دوسرى امتوں كے اعمال كا مشاہدہ كرتے ہيں اور قيامت كے دن ان پر گواہى ديں گے اور نبى اسلام (ص) بھى مسلمانوں كے اعمال پر ناظر ہيں اور عالم آخرت ميں ان پر گواہى ديں گے_

۶ _ پيامبر اسلام (ص) مسلمانوں پر اللہ تعالى كى حجّت و برہان ہيں اور امت مسلمہ ديگر لوگوں پر اللہ تعالى كى حجت ہے_

لتكونوا شهداء على الناس و يكون الرسول عليكم شهيداً ميں ''شہدا'' اور ''شہيد '' كى ايك تفسيرحجت ہے_

۷_ امت مسلمہ كا معتدل ہونا اور ديگر امتوں سے برتر ہونا امت مسلمہ كے ديگر امتوں پر حجت ہونے كى علت ہے_

جعلنكم امة وسطاً لتكونوا شهداء على الناس

۸_ زمانہ بعثت ميں كچھ عرصہ كے لئے بيت المقدس مسلمانوں كا قبلہ رہاہے_و ما جعلنا القبلة التى كنت عليها

''القبلة'' سے مراد بيت المقدس ہے '' التى كنت عليہا'' ميں ''كان'' ممكن ہے حال كامعنى ديتا ہو يعنى وہ قبلہ جس كى طرف تم ہو_ اس بناپر مذكورہ آيت قبلہ كى تبديلى سے قبل نازل ہوئي يہ بھى ممكن ہے كہ ''كان'' ماضى كا معنى ديتاہو اس صورت ميں مذكورہ آيت قبلہ كى تبديلى كے بعد نازل ہوئي _البتہ قبلہ كى تبديلى كا حكم چونكہ بعد والى آيت ميں بيان ہوا ہے اس اعتبار سے زيادہ بہتر پہلے والا احتمال معلوم ہوتاہے _

۹_ بيت المقدس كو مسلمانوں كے لئے قبلہ كے طور پر متعين كرنے كا ہدف پيامبر اسلام (ص) كے حقيقى پيروكاروں كو دوسروں سے مشخص اور ممتاز كرنا تھا_و ما جعلنا القبلة التى كنت عليها الا لنعلم من يتبع الرسول ممن ينقلب على عقبيه

۴۹۱

۱۰_ بيت المقدس كو قبلہ كے طور پر معين كرنا مسلمانوں كى آزمائش اور ان كى چھان پھٹك كے لئے تھا_و ما جعلنا القبلة التى كنت عليها الا لنعلم

۱۱ _ بيت المقدس كا اہل اسلام كے لئے قبلہ ہونا كچھ مسلمانوں كے لئے ايك مشكل اور ناقابل قبول امر تھا_و ان كانت لكبيرة الا على الذين هدى الله

۱۲ _ فقط ہدايت يافتہ لوگ تھے جنہوں نے بيت المقدس كو قبلہ كے طور پر قبول كيا اور اسكو كوئي مشكل شرعى حكم نہ سمجھا_و ان كانت لكبيرة الا على الذين هدى الله

۱۳ _ اللہ تعالى تمام انسانوں كى ہدايت كرنے والا ہے_الا على الذين هدى الله

۱۴ _ احكام الہى كو قبول كرنا اللہ تعالى كى طرف سے بھيجے ہوئے انسانوں كى پيروى كرنے كى دليل ہے _ما جعلنا القبلة التى كنت عليها الا لنعلم من يتبع الرسول ممن ينقلب على عقبيه

۵ ۱_ پيامبر اسلام (ص) كى اتباع كرنا ہدايت الہى سے بہرہ مند ہونے كى دليل ہے _الا لنعلم من يتبع الرسول و ان كانت لكبيرة الا على الذين هدى الله

۱۶ _ پيامبر اسلام (ص) كى اتباع اور احكام الہى كے سامنے سر تسليم خم ہوناضرورى ہے_ما جعلنا القبلة الا لنعلم من يتبع الرسول

۱۷ _ بيت المقدس كو مسلمانوں كے لئے قبلہ كے طور پر متعين كرنے كا فلسفہ اور حكمت اس چيز كا مشخص كرنا تھا كہ كون خداوند متعال كے حضور سر تسليم خم ہے اور چون و چرا نہيں كرتا _الا لنعلم من يتبع الرسول ...و ان كانت لكبيرة الا على الذين هدى الله

۱۸ _ ہدايت يافتہ انسانوں ميں خداوند متعال اور احكام الہى كے سامنے بے چون و چرا سر تسليم خم ہونے جذبہ پايا جاتاہے_و ان كانت لكبيرة الا على الذين هدى الله

۱۹ _ بيت المقدس سے مسجد الحرام كى طرف مسلمانوں كے قبلہ كى تبديلى كا واقع ہونا*و ما جعلنا القبلة التى كنت عليها مذكورہ مطلب اس بناپر ہے كہ''التى كنت عليها'' ميں ''كان'' زمانہ ماضى پر دلالت كرتاہو اس صورت ميں ''التى كنت عليها'' قبلہ كى تبديلى پر دلالت كرتاہے_

۲۰_ قبلہ كى تبديلى اور مسجد الحرام كو مسلمانوں كے لئے قبلہ كے طور پر متعين كرنے كا ہدف آنحضرت كے حقيقى پيروكاروں كو دوسروں سے مشخص اور ممتاز كرنا ہے_*ما جعلنا القبلة التى كنت عليها الا لنعلم من يتبع الرسول ممن

۴۹۲

ينقلب بعض كى رائے يہ ہے كہ ''الا لنعلم ...'' كا بيان كرنا بيت المقدس سے مسجد الحرام كى طرف قبلہ كى تبديلى كا ہدف بيان كرنے كيلئےہے يعنى ''لنعلم'' در حقيقت فعل محذوف سے متعلق ہے_ كہ جس پركلام كے قرائن دلالت كررہے ہيں _ پس جملہ در حقيقت يوں ہے''ما جعلنا القبلة التى كنت عليها فصرفناك عنها الا لنعلم ...''

۲۱ _ قبلہ كى تبديلى دوسروں كى بجائے سچے مسلمانوں كى پاكيزگى اور چھانٹى كےلئے ايك آزمائش تھي_و ما جعلنا القبلة التى كنت عليها الا لنعلم

۲ ۲_ قبلہ كى تبديلى كا معاملہ بعض مسلمانوں كے لئے ايك مشكل اور ناقابل قبول مسئلہ تھا_وان كانت لكبيرة الا على الذين هدى الله

۲۳ _ فقط ہدايت يافتہ لوگ پيامبر اسلام (ص) كے سچے پيروكار تھے جنہوں نے قبلہ كى تبديلى كو قبول كيا اور اسكو ايك دشوار امر نہ سمجھا_و ان كانت لكبيرة الا على الذين هدى الله

۲۴ _ نماز ايمان كا مظہر ہے _و ما كان الله ليضيع ايمانكم

بہت سے مفسرين كا كہناہے كہ ايمان سے مراد يہاں نماز ہے_ ايمان كا نماز پر اطلاق نماز كى عظمت پر دلالت كرتاہے _ اس طرح كہ نماز كو ايمان كہاجاسكتاہے يا اسے مظہر ايمان سمجھا جائے_

۲۵ _ قبلہ كى تبديلى سے قبل جو نمازيں بيت المقدس كے رخ پر پڑھى گئي ان كو اللہ تعالى نے قبول فرمايا اور ان كا اجر ضائع نہيں ہوگا_و ما كان الله ليضيع ايمانكم

قبلہ كى تبديلى يا تبديلى كى خوشخبرى نے مسلمانوں كے درميان اس سوال كو پيدا كيا كہ وہ نمازيں اور عبادات جو بيت المقدس كے رخ پر ادا كى گئي ہيں كيا وہ باطل ہيں ؟ يہ جملہ''و ما كان ...'' اس سؤال كا جواب ہے _

۲۶ _ قواعد و ضوابط اور قوانين كا وضع ہونا اور ان كا رسمى اعلان ان سے ماقبل كے زمانوں كو شامل نہيں ہوتا_

و ما كان الله ليضيع ايمانكم

۲۷_ اللہ تعالى انسانوں كے ساتھ رؤوف اور مہربان ہے _ان الله بالناس لرؤوف رحيم

۲۸_ اللہ تعالى كے اس كلام '' و كذلك جعلناكم امة وسطاً لتكونوا شہداء على الناس'' كے بارے ميں امام صادقعليه‌السلام سے روايت ہے آپعليه‌السلام نے فرمايا : ''نحن الشهداء على الناس بما عندهم من الحلال والحرام و ما ضيعوا منه_ ''(۱) ہم (ائمہ) حلال و حرام اور جو كچھ لوگ ان (حرام و حلال) سے ضائع كرتے ہيں كے شاہد ہيں _

۴۹۳

۲۹_ رسول خدا (ص) نے فرمايا:''يدعى نوح يوم القيامة فيقال له: هل بلغت؟ فيقول نعم، فيدعى قومه فيقال لهم هل بلغكم ؟ فيقولون ما اتانا من نذير و ما اتانا من احد، فيقال لنوح من يشهد لك؟ فيقول محمد (ص) ، و امته و ذلك قوله ''و كذلك جعلناكم امة وسطاً'' قال والوسط العدل فتدعون فتشهدون له بالبلاغ ...''(۲)

'' قيامت كے دن حضرت نوحعليه‌السلام كو بلايا جائے گا اور كہا جائے گا كيا آپعليه‌السلام نے رسالت كى تبليغ كى ؟ تو جواب دينگے ہاں اس كے بعد آپعليه‌السلام كى قوم كو بلايا جائےگا اور ان سے پوچھا جائے گا كيا نوحعليه‌السلام نے تمہيں (رسالت كي) تبليغ كى تو وہ جواب ميں كہيں گے ہميں كوئي ڈرانے كے لئے نہيں آيا تھا پھر حضرت نوحعليه‌السلام سے كہا جائے گا آپعليه‌السلام كى گواہى دينے والا كون ہے تو آپعليه‌السلام جواب دينگے حضرت محمد (ص) اور آپ (ص) كى امت ، پس يہى اللہ تعالى كا قول ہے _ اور اسى طرح ہم نے تمہيں امت وسط قرار ديا'' رسول خدا (ص) فرماتے ہيں وسط سے مراد عدل ہے پس تم (مسلمان) بلائے جاؤگے اور حضرت نوحعليه‌السلام كى رسالت اور خود ان كے بارے ميں گواہى دوگے ...''

۳۰ _ امام صادقعليه‌السلام سے روايت ہے ''و لما ان اصرف نبيه الى الكعبة عن بيت المقدس قال المسلمون للنبي(ص) ا رأيت صلاتنا التى كنا نصلى الى بيت المقدس ما حالنا فيها وماحال من مضى من امواتنا و هم يصلون الى بيت المقدس؟ فانزل الله ''و ما كان الله ليضيع ايمانكم ان الله بالناس لرؤوف رحيم'' فسمّى الصلوة ايماناً ...''(۳) اللہ تعالى نے جب اپنے نبى (ص) كا رخ بيت المقدس سے كعبہ كى طرف بدلا تو مسلمانوں نے حضور (ص) كى خدمت ميں عرض كيا كہ ہم نے جو نمازيں بيت المقدس كى طرف رخ كركے پڑھى ہيں ان كا كيا بنے گا اسى طرح ان لوگوں كى نمازيں جنہوں نے بيت المقدس كى طرف رخ كركے پڑھيں او ر اب دنيا سے جاچكے ہيں ؟ تو اللہ تعالى نے اس آيہ مباركہ كو نازل فرمايا''و ما كان الله ليضيع ايمانكم ان الله بالناس لرؤوف رحيم'' اس آيت ميں اللہ تعالى نے نماز كو ايمان قرار ديا ہے ...''

۳۱_عن ابى بصير عن احدهما عليه‌السلام فقلت له الله امره ان يصلى الى بيت المقدس قال نعم الا ترى ان الله تعالى يقول '' و ما جعلنا القبلة التى كنت عليها الا لنعلم من يتبع الرسول ممن ينقلب على عقبيه (۴)

___________________

۱) بصائر الدرجات ص ۸۲ ح /۱ باب ۱۳ ،نورالثقلين ج/ ۱ ص ۱۳۳ ح ۴۰۱ و ۴۰۸_ ۲) تفسير ابن كثير ج/ ۱ ص ۲۹۷_ ۳) تفسير عياشى ج/ ۱ ص۶۳ ح ۱۱۵ ، تفسير برہان ج/ ۱ ص ۱۶۱ ح ۳ ، ۴_ ۴) تہذيب الاحكام ج/ ۲ ص ۴۴ ح ۱۳۸ ، نورالثقلين ج/ ۱ ص ۱۳۶ ح ۴۱۴_

۴۹۴

ابى بصير نے امام باقرعليه‌السلام يا امام صادقعليه‌السلام سے سوال كيا كيا اللہ تعالى نے پيامبر اسلام (ص) كو مامور فرمايا كہ بيت المقدس كى طرف رخ كركے نماز پڑھيں ؟ تو حضرتعليه‌السلام نے فرمايا ہاں كيا تجھے نہيں معلوم كہ اللہ تعالى ارشاد فرماتاہے'' اس سے پہلے جس قبلہ پر تم تھے ہم نے فقط اس ليئے اسكو قبلہ قرار ديا تا كہ رسول كى اتباع كرنے والوں كو ان لوگوں سے ممتاز و مشخص كريں جو جاہليت كى طرف لوٹ جاتے ہيں

آئمہعليه‌السلام : آئمہعليه‌السلام كى گواہى ۲۸; آئمہعليه‌السلام كے درجات ۲۸;

احكام : فلسفہ احكام ۹،۲۰; احكام كا دائرہ عمل ۲۶

اسلام : اسلام اور ماديات ۲; اسلام اور معنويات ۲; اسلام ميں اعتدال ۲،۴; صدر اسلام كى تاريخ ۸،۱۱،۲۲ ; اسلام كى خصوصيات۴

اسماء اور صفات: رؤوف ۲۷; رحيم ۲۷

اطاعت: پيامبر اسلام (ص) كى اطاعت كے نتائج ۱۵; انبياءعليه‌السلام كى اطاعت ۱۴; پيامبر اسلام (ص) كى اطاعت ۱۶

اللہ تعالى : اللہ تعالى كى حجتيں ۶; اللہ تعالى اور اجر كا ضائع كرنا۲۵; اللہ تعالى كا رؤف ہونا ۲۷; اللہ تعالى كى مہربانى ۲۷; ہدايت الہى ۱۳

امتحان : امتحان كے وسائل و ذرائع ۱۰،۲۱

امتيں : امت وسط ۱،۳،۷; امتوں كى حجت ۷; امت وسط كى گواہى ۲۹; امت وسط كے درجات ۲۹

انسان: انسانوں كے گواہ ۵; انسانوں كى ہدايت ۱۳

ايمان: ايمان كى نشانياں يا علامتيں ۲۴

بيت المقدس : بيت المقدس كى طرف نماز پڑھنے كا اجر ۲۵; بيت المقدس كے قبلہ بننے كا فلسفہ ۹،۱۰،۱۷; بيت المقدس كا قبلہ بننا ۸،۱۹; بيت المقدس كى طرف نماز پڑھنا ۳۰;

پيامبر گرامى اسلام (ص) : پيامبر اسلام (ص) كو نمونہ عمل قرار دينا ۶; پيامبر اسلام (ص) كے پيروكار ۲۳; پيامبر اسلام (ص) كا حجت ہونا ۶; پيامبر اسلام (ص) كے پيروكاروں كى تشخيص كى روش ۲۰;

۴۹۵

پيامبر اسلام (ص) كى گواہى ۵،۲۹; پيامبر اسلام (ص) كے درجات ۲۹; پيامبر(ص) اسلام كے پيروكاروں كى تشخيص كے معيارات۹; پيامبر اسلام (ص) كا بيت المقدس كے رخ نماز پڑھنا ۳۱

تعبد و بندگى : تعبد كى اہميت ۱۷، ۱۸

دين : دين قبول كرنا ۱۴; دين كا نظام تعليم ۴

روايت:۲۸، ۲۹، ۳۰،۳۱،۳۲

روح بندگى ركھنے والے يا متعبد افراد:

متعبد انسانوں كى تشخيص كى روش ۱۷

سر تسليم ہونا : اللہ تعالى كے حضور سر تسليم ہونے كى اہميت ۱۷،۱۸; دين كے حضور سر تسليم ہونے كى اہميت ۱۶

عمل: عمل كے گواہ ۵

قانون: قانون كا ماضى پر اطلاق ۲۶

قبلہ : قبلہ كى تبديلى كے نتائج ۳; قبلہ كى تبديلى ۱۹; قبلہ كى تبديلى كا فلسفہ ۲۰،۲۱; قبلہ كى تبديلى اور مسلمان ۲۲;ہدايت يافتہ لوگ اور قبلہ كى تبديلى ۲۳

مسجد الحرام : مسجد الحرام كا قبلہ بننا ۱۹

مسلمان: مسلمانوں كا اعتدال ۱،۷; مسلمانوں كو نمونہ عمل قرار دينا ۶،۷; مسلمانوں كا نمونہ عمل ہونا ۶; مسلمانوں كا امتحان ۱۰،۲۱; مسلمانوں كى برترى ۱،۷; مسلمانوں كى صفوں كى چھانٹى ۲۱; مسلمانوں كا حجت ہونا ۶،۷; مسلمانوں كے اعتدال كے اسباب ۳; مسلمانوں كى برترى كے عوامل ۳; مسلمانوں كے فضائل ۱; مسلمانوں كا گواہ ہونا ۵; مسلمانوں كى گواہى ۵،۲۹; مسلمان اور بيت المقدس كا قبلہ ہونا ۱۱; مسلمانوں كے درجات ۲۹

نماز : نماز كى اہميت ۲۴

نمونہ عمل: لوگوں كے لئے نمونہ عمل ۶

ہدايت: ہدايت كے عوامل ۱۳،۱۵

ہدايت يافتہ لوگ: ہدايت يافتہ انسانوں كا خشوع و خضوع ۱۸; ہدايت يافتہ انسانوں كا تعبد ۱۸; ہدايت يافتہ انسانوں كا جذبہ ۱۸; ہدايت يافتہ انسانوں كى صفات ۱۸; ہدايت يافتہ لوگ اور بيت المقدس كا قبلہ ہونا ۱۲

۴۹۶

قَدْ نَرَى تَقَلُّبَ وَجْهِكَ فِي السَّمَاء فَلَنُوَلِّيَنَّكَ قِبْلَةً تَرْضَاهَا فَوَلِّ وَجْهَكَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ وَحَيْثُ مَا كُنتُمْ فَوَلُّواْ وُجُوِهَكُمْ شَطْرَهُ وَإِنَّ الَّذِينَ أُوْتُواْ الْكِتَابَ لَيَعْلَمُونَ أَنَّهُ الْحَقُّ مِن رَّبِّهِمْ وَمَا اللّهُ بِغَافِلٍ عَمَّا يَعْمَلُونَ (۱۴۴)

اے رسول ہم آپ كيتوجہ كو آسمان كى طرف ديكھ رہے ہيں تو ہمعنقريب آپ كو اس قبلہ كى طرف موڑديں گےجسے آپ پسند كرتے ہيں لہذا آپ اپنا رخمسجد الحرام كى جہت كى طرف موڑديجئے اورجہاں بھى رہے اسى طرف رخ كيجئے _ اہلكتاب خوب جانتا ہيں كہ خدا كى طرف سے يہيبر حق ہے اور الله ان لوگوں كے اعمال سےغافل نہيں ہے (۱۴۴)

۱ _ آنحضرت (ص) كچھ عرصہ كے لئے اس انتظار اور اشتياق ميں تھے كہ اللہ تعالى كى جانب سے قبلہ كى تبديلى كا فرمان آئے _قد نرى تقلب وجهك فى السماء فلنولينك قبلة ''فلنولينك ...''كى جملہ'' قد نري''پر تفريع اس بات كى طرف اشارہ ہے كہ آنحضرت (ص) كا آسمان كے اطراف و اكناف پہ نظريں جمائے ركھنا تبديلى قبلہ كے فرمان كے انتظار كے لئے تھا_

۲ _ وحى كے انتظار كے وقت آنحضرت(ص) آسمان كے ہر طرف نظريں لگائے ركھتے _قد نرى تقلب وجهك فى السماء '' تقلب '' كا معنى ايك طرف سے دوسرى طرف گھومنا _چہرے كو آسمان كى طرف كركے گھمانے كا مطلب آسمان كى ايك طرف سے دوسرى طرف ديكھنا ہے _

۳ _ انبياءعليه‌السلام پر وحى كے ظہور كا مقام آسمان ہے _قد نرى تقلب وجهك فى السماء

۴ _ آنحضرت (ص) پر فرشتہ وحى كے نزول كا احتمال تھا كہ آسمان ميں سے كسى بھى مقام سے ظاہر ہوجائے_

قد نرى تقلب وجهك فى السماء يہ مطلب اس بناپر ہے كہ آنحضرت (ص) فرشتہ وحى كے نزول كے مشاہدہ كے لئے آسمان كے كسى خاص نقطہ كى طرف نگاہ نہ فرماتے بلكہ اپنے چہرہ مبارك كو آسمان كے تمام اطراف كى طرف پھيرتے_

۵ _ اللہ تعالى انسانوں كے اعمال پر ناظر اور ان كے ضميروں سے آگاہ ہے _قد نرى تقلب وجهك فى السماء

۶ _ اللہ تعالى نے پيامبراسلام (ص) كو قبلہ كى تبديلى اور اسكى جگہ ايسے قبلہ كى جاگزينى كى خوشخبرى دى جو آپ (ص) كى خوشنودى كا باعث تھا_فلنولينك قبلة ترضى ها

''نولّي'' كا مصدر'' تولية'' ہے جسكا معنى گھمانا ہے پس '' فلنولينك ...'' يعنى ہم نے تيرا رخ ايسے قبلہ كى طرف پھيرديں گے جو تيرى خوشنودى اور رضايت كا باعث تھا_

۴۹۷

۷_ سابق قبلہ (بيت المقدس) كے نسخ ميں آنحضرت (ص) كے انتظار و اشتياق كى بڑى اہميت تھي_ قد نرى تقلب وجهك فى السماء فلنولينك قبلة ترضى ها جملہ'' فلنولينك ...'' كى '' قد نري ...'' پر حرف فاء كے ساتھ تفريع اس بات كى طرف اشارہ ہے كہ آنحضرت (ص) كا انتظار و اشتياق قبلہ كى تبديلى ميں مؤثر تھا_

۸_ پيامبر اسلام(ص) اللہ تعالى كے ہاں بہت ہى زيادہ عظمت و شان كے مالك ہيں _قد نرى تقلب وجهك فى السماء فلنولينك قبله ترضى ها

۹_ قبلہ كا تعين كرنا اللہ تعالى كے امور و افعال ميں سے ہے _قد نرى فلنولينك قبلة ترضى ها

۱۰_ احكام دين كى تشريع ( قانونسازي) اور انكا نسخ اللہ تعالى كے دست قدرت اور اسى كے دائرہ اختيار ميں ہے _

قدنرى تقلب وجهك فى السماء فلنولينك قبلة ترضى ها

۱۱_ قبلہ كا نسخ كرنا اور متعين كرنا آنحضرت (ص) كے اختيار ميں نہ تھا_قد نرى تقلب و جهك فى السماء فلنولينك قبلة ترضيها اگر پيامبر اسلام(ص) كو اللہ تعالى كى جانب سے قبلہ كى تبديلى ، كسى حكم كى تشريع يا نسخ كى اجازت ہوتى تو پھر قبلہ كے نسخ اور نئے قبلہ كے تعين كے لئے وحى كا انتظار نہ ہوتا اور آپ(ص) آسمان كى طرف نگاہيں نہ لگائے ركھتے_

۱۲ _ اللہ تعالى نے پيامبر اسلام(ص) اور مسلمانوں كو قبلہ كى تبديلى كى خوشخبرى دينے كے ساتھ ساتھ حكم ديا كہ مسجد الحرام كى طرف رخ كركے نماز پڑھيں _فلنولينك فول وجهك شطر المسجد الحرام و حيث ما كنتم فولوا وجوهكم شطرة

۱۳_ مسلمان جس بھى سرزمين پر ہوں ان كو چاہيئے كہ مسجد الحرام كو اپنا قبلہ قرار ديں _و حيث ما كنتم فولوا وجوهكم شطره

۱۴ _ مسلمانوں كے لئے مسجد الحرام كو قبلہ كے طور پر متعين كرنا پيامبر اسلام (ص) كى رضايت و خوشنودى كا باعث بنا _فلنولينك قبلة ترضى ها فول وجهك شطر المسجد الحرام

۱۵_ مسجد الحرام كى سمت يا جہت كى طرف رخ كرنا ان اعمال كے لئے كافى ہے جن ميں قبلہ رخ ہونا شرط ہے _

فول وجهك شطر المسجد الحرام و حيث ما كنتم فولوا وجوهكم شطره يہ واضح ہے كہ خود مسجد الحرام يا كعبہ ہى قبلہ ہے بنابريں لفظ '' شطر'' كا لانا سمت اور جہت كے معنى ميں ہے_

۴۹۸

يہ معنى اس مطلب كو بيان كررہاہے كہ جن اعمال مثلاً نماز ميں قبلہ رخ ہونا شرط ہے لازم نہيں كہ ايك سيد ھا خط جو بالكل مسجد الحرام يا كعبہ كى طرف ہو اسى رخ كھڑا ہوا جائے بلكہ اتنا ہى كافى ہے كہ مسجد الحرام يا كعبہ كى جہت يا سمت ہو_

۱۶_ علمائے اہل كتاب (يہود و نصارى ) تبديلى قبلہ (بيت المقدس سے مسجد الحرام كى جانب) كى حقانيت سے واقف و آگاہ تھے _ان الذين اوتوا الكتاب يعلمون انه الحق ''انہ'' كى ضمير سے مراد سابق قبلہ ( بيت المقدس) كا نسخ اور موجود ہ قبلہ ( مسجد الحرام) كا تعين ہے _

۱۷ _ علمائے يہود و نصارى بڑى اچھى طرح جانتے تھے كہ مسجد الحرام كا قبلہ بننا اللہ تعالى كا فرمان ہے _

ان الذين اوتوا الكتاب ليعلمون انه الحق من ربهم '' ليعلمون'' كا لام تاكيد اس بات كى دليل ہے كہ اہل كتاب كو كوئي شك و ترديد نہ تھا اور بڑى اچھى طرح جانتے تھے كہ قبلہ كى تبديلى حق اور اللہ تعالى كى طرف سے ہے _

۱۸_ قبلہ كى بيت المقدس سے كعبہ كى جانب تبديلى ايسى حقيقت ہے جسكا ماقبل آسمانى كتابوں (تورات ، انجيل اور ...) ميں ذكر تھا_ان الذين اوتو الكتاب ليعلمون انه الحق من ربهم تبديلى قبلہ بيت المقدس سے كعبہ كى طرف اسكى حقانيت سے يہود و نصارى كى آگاہى كو '' اہل كتاب'' كے عنوان سے بيان كرنا اس معنى كى طرف اشارہ ہے كہ ان كى آگاہى كا سرچشمہ آسمانى كتابيں ( تورات وانجيل ) تھيں _

۱۹_ علمائے اہل كتاب نے تبديلى قبلہ كى حقيقت كو چھپايا_ان الذين اوتوا الكتاب ليعلمون انه الحق من ربهم و ما الله بغافل عما يعملون

۲۰_ تبديلى قبلہ كى حقيقت و حقانيت سے آگاہى كے باوجود يہود و نصارى نے ضد و مخالفت كا مظاہرہ كيا_

ان الذين اوتوا الكتاب ليعلمون انه الحق من ربهم و ما الله بغافل عما يعملونجملہ''و ما اللہ ...'' اہل كتاب كو دھمكى ہے اور اس بات كى طرف اشارہ ہے كہ اہل كتاب نے تبديلى قبلہ كى حقانيت كے مقابل ضد اور حكم الہى كے خلاف مخالفت كا مظاہر ہ كيا _

۲۱ _ انسانوں كے اعمال سے ہرگز اللہ تعالى غافل نہيں ہے_و ما الله بغافل عما يعملون

۲۲ _ تبديلى قبلہ كے خلاف ضد و مخالفت كے باعث اللہ تعالى كى جانب سے اہل كتاب كو دھمكى دى گئي_

۴۹۹

وما الله بغافل عما يعملون يہ جملہ ''و ما اللہ ' اللہ تعالى كى طرف سے سزا كے طور پر اہل كتاب كو دھمكى سے كنايہ ہے_

۲۳ _ زمانہ بعثت كے يہود و نصارى حق كو قبول كرنے والے نہ تھے _و ان الذين اوتوا الكتاب ليعلمون انه الحق من ربهم و ما الله بغافل عما يعلمون

۲۴ _ ''ان الفرائض لا تصليها الا الى القبلة و هو المروى عن آئمتنا عليه‌السلام (۱) ائمہ اہل بيت( عليہم السلام )سے روايت ہے كہ واجب نمازيں فقط قبلہ رخ ادا كى جاسكتى ہيں _

۲۵ _ امام صادقعليه‌السلام سے روايت ہے ''و صلى رسول الله (ص) الى بيت المقدس ثم عيرته اليهود فقالوا انك تابع لقبلتنا فاغتم لذلك غماً شديداولما كان فى بعض الليل خرج (ص) يقلب وجهه فى آفاق السمائ فلما صلى من الظهر ركعتين جاء ه جبرائيل عليه‌السلام فقال له ''قد نرى تقلب وجهك فى السماء فلنولينك قبلة ترضى ها فول وجهك شطر المسجد الحرام '' ثم اخذ بيد النبي(ص) فحوّل وجهه الى الكعبة ...'' (۲) رسول اللہ (ص) بيت المقدس كى طرف رخ كركے نماز پڑھتے تھے پھر يہود نے آپ (ص) كى ،سرزنش كى اور كہنے لگے آپ(ص) تو ہمارے قبلہ كى پيروى كرتے ہيں _ پس ا س پر آنحضرت (ص) شديد غم و اندوہ ميں مبتلا ہوگئے ، ايك رات آپ(ص) (گھر سے )باہر نكلے اور آسمانوں كى طرف متوجہ ہوئے ...جب آپ (ص) ظہر كى دو ركعت بجا لاچكے تو جبرائيلعليه‌السلام نازل ہوئے اور حضور (ص) سے كہا '' ہم نے(تبديلى قبلہ كيلئے) تمہارى انتظار سے بھرى ہوئي نظروں كا مشاہدہ كيا پس ہم آپ (ص) كا رخ ايسے قبلہ كى طرف موڑ ديں گے جس پر تم راضى ہو پس اپنا رخ مسجد الحرام كى طرف كرلو'' اس كے بعد جبرائيلعليه‌السلام نے نبى (ص) كا ہاتھ پكڑ كر ان كا رخ كعبہ كى طرف كرديا

احكام : ۱۳،۱۵ ، ۲۴

احكام كى تشريع كا سرچشمہ ۱۰; احكام كے نسخ كا سرچشمہ ۱۰; نسخ احكام ۷

اسلام : صدر اسلام كى تاريخ ۲۰

اسماء اور صفات: جلالى صفات۲۱

اللہ تعالى : افعالى الہى ۹،۱۰ ;اوامر الہى ۱۲،۱۷; اللہ تعالى كى بشارتيں ۶ اللہ تعالى كى دھمكياں ۲۲; اللہ تعالى اور غفلت ۲۱; اللہ تعالى كا علم غيب ۵; اللہ تعالى كى نظارت ۵

____________________

۱) مجمع البيان ج/ ۱ ص ۳۶۳، نورالثقلين ج/ ۱ ص ۱۱۸ ح ۳۲۶_ ۲) من لا يحضرہ الفقيہ ج/ ۱ ص ۱۷۸ ح ۳ ، نور الثقلين ج/ ۱ ص ۱۳۶ ح ۴۱۷_

۵۰۰

501

502

503

504

505

506

507

508

509

510

511

512

513

514

515

516

517

518

519

520

521

522

523

524

525

526

527

528

529

530

531

532

533

534

535

536

537

538

539

540

541

542

543

544

545

546

547

548

549

550

551

552

553

554

555

556

557

558

559

560

561

562

563

564

565

566

567

568

569

570

571

572

573

574

575

576

577

578

579

580

581

582

583

584

585

586

587

588

589

590

591

592

593

594

595

596

597

598

599

600

601

602

603

604

605

606

607

608

609

610

611

612

613

614

615

616

617

618

619

620

621

622

623

624

625

626

627

628

629

630

631

632

633

634

635

636

637

638

639

640

641

642

643

644

645

646

647

648

649

650

651

652

653

654

655

656

657

658

659

660

661

662

663

664

665

666

667

668

669

670

671

672

673

674

675

676

677

678

679

680

681

682

683

684

685

686

687

688

689

690

691

692

693

694

695

696

697

698

699

700

701

702

703

704

705

706

707

708

709

710

711

712

713

714

715

716

717

718

719

720

721

722

723

724

725

726

727

728

729

730

731

732

733

734

735

736

737

738

739

740

741

742

743

744

745

746

747

748

749

750

751

752

753

754

755

756

757

758

759

760

761

762

763

764

765

766

767

768

769

770

771

772

773

774

775

776

777

778

779

780

781

782

783

784

785