تفسير راہنما جلد ۱

 تفسير راہنما 10%

 تفسير راہنما مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن
صفحے: 785

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴ جلد ۵ جلد ۶ جلد ۷ جلد ۸ جلد ۹ جلد ۱۰ جلد ۱۱
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 785 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 201324 / ڈاؤنلوڈ: 5794
سائز سائز سائز
 تفسير راہنما

تفسير راہنما جلد ۱

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

طرف اشارہ كرتاہے كہ روز قيامت انسان كے لئے وقايہ وہى قرآن پر ايمان اور ہوگا _

۴_ مختلف طرح كے عذاب اور قيامت كى ہولناكيوں سے بچنے كے لئے كارآمد اور مفيد اسباب نماز كا قيام ،زكوة كى ادائيگى اور نماز با جماعت ميں شركت ہے_واقيموا الصلوة و اتقوا يوماً

۵ _ قيامت كے دن كوئي شخص بھى كسى دوسرے كا ذرہ برابر عذاب اپنے ذمے نہيں لے گا اور نہ اسكا متحمل ہوسكے گا _

واتقوا يوماً لا تجزى نفس عن نفس شيئاً

۶_ قيامت كے دن كسى كى كسى اور كے بارے ميں شفاعت قبول نہ كى جائے گى _و لا يقبل منها شفاعة

'' منھا'' كى ضمير ممكن ہے دوسرے '' نفس'' كى طرف لوٹتى ہو يعنى مورد مؤاخذہ شخص اگر شفيع لائے تو اس كى شفاعت قبول نہيں كى جائے گى _ ہوسكتاہے يہ ضمير پہلے '' نفس'' كى طرف لوٹتى ہو اور اس سے مراد دوست ، عزيز، رشتہ دار و غيرہ ہيں يعنى يہ كہ دوست اپنے دوستوں كا عذاب اپنے ذمہ نہ ليں گے اگر شفاعت بھى كريں تو قبول نہيں كى جائے گي_

۷ _ قيامت كے دن كسى سے كوئي عوض جس سے وہ فرد خود كو اسيرى و عذاب سے نجات دلاسكے قبول نہيں كيا جائے گا _و لا يؤخذ منها عدل لفظ ''عدل'' كا معنى فديہ اور عوض ہے جسكو كوئي اپنى يا كسى اور كى آزادى كے لئے ادا كرے تا كہ اسارت سے آزاد ہوجائے _

۸ _ قيامت كے دن كوئي كسى كا دفاع نہيں كرے گا اور نہ كسى كى كوئي مدد كرے گا _و لا هم ينصرون

۹_ روز قيامت قرآن كے كافروں كے لئے كوئي راہ نجات نہ ہوگى _آمنوا بما انزلت و اتقوا يوماً لا تجزى نفس عن نفس قيامت كى اسطرح تعريف كرناكہ اس دن كسى سے كوئي فديہ يا عوض قبول نہيں كيا جائے گا اسكا مقصد عذاب كے مستحقين كو مايوس كرنا ہے _ كہيں ايسا نہ ہو كہ لوگ ايمان اور كے علاوہ اپنے لئے كوئي اور راہ نجات كى اميد لگائے بيٹھے ہوں يا كسى خيال سے خوش فہمى ميں مبتلا ہوں _

۱۰_ قيامت كے دن وہ لوگ جواحكامات الہى ( نماز قائم كرنا اورزكوة ادا كرنا ) كى مخالفت كرتے ہيں اور محرمات ( دين فروشى ، حق پر پردہ ڈالنا اور ...) كا ارتكاب كرتے ہيں ان كے لئے كوئي راہ نجات نہ ہوگى _لا تشتروا بآياتى و اقيمو ا الصلوة و اتقوا يوماً لا تجزى نفس عن نفس

۱۱ _ يہ تو ہم كہ قيامت كے روز انسان كو اس كے دوست عذاب قيامت سے نجات دلائيں گے يا اسكے گناہ اپنے ذمہ لے ليں گے بنى اسرائيل كے باطل

۱۶۱

خيالات تھے _واتقوا يوماً لا تجزى نفس عن نفس شيئاً و لا هم ينصرون

۱۲ _ اس خيال سے گناہ كرنا كہ شفاعت ہوجائے گى يا يہ كہ عذاب قيامت سے رہائي كے لئے عوض يا ہديہ قبول كرليا جائے گا بنى اسرائيل كا وہم و گمان اور باطل خيال تھا_واتقوا يوماً و لا يقبل منها شفاعة و لايؤخذ منها عدل

اطاعت: اللہ كى اطاعت كے نتائج ۳

انسان: قيامت كے روز انسا ن۱; انسان كا انجام ۱

ايمان: قرآن پر ايمان كے نتائج ۳

بنى اسرائيل: بنى اسرائيل كا عقيدہ ۱۱،۱۲

حق : قيامت كے دن حق كى پردہ پوشى كرنے والے ۱۰

دين فروش: قيامت كے دن دين فروش ۱۰

زكوة: زكوة كے اثرات و نتائج ۴

سزا: سزا كا نظام ۵،۷،۸

سزائيں : سزاؤں كا انفرادى ہونا ۵; سزاؤں كى خصوصيات ۵

عذاب: اخروى عذاب سے نجات كے عوامل ۳ ، ۴; اخروى عذاب سے نجات ۱۱،۱۲

عقيدہ: باطل عقيدہ ۱۱،۱۲

قرآن حكيم : قرآن كے كافر ۹

قيامت : قيامت كے روز امداد ۸; قيامت كى ہولناكياں ۲،۳،۴; قيامت ميں شفاعت ۶،۱۱،۱۲; قيامت ميں ہديہ و فديہ ۷،۱۲; قيامت ميں سزا كا نظام ۵،۶،۷،۸; قيامت كى خصوصيات ۲،۷،۸

كفار: كفار كے لئے حتمى عذاب ۹; كفار قيامت ميں ۹

محرمات : محرمات سے اجتناب كے نتائج ۳; محرمات كا ارتكاب كرنے والوں كيلئے حتمى عذاب ۱۰

نافرمان: نافرمانوں كے لئے حتمى عذا ب ۱۰;نافرمان قيامت ميں ۱۰

نماز: نماز قائم كرنے كے نتائج و نتائج ۴;با جماعت نماز كے نتائج ۴; قيامت كے دن نماز ترك كرنيوالے ۱۰

۱۶۲

وَإِذْ نَجَّيْنَاكُم مِّنْ آلِ فِرْعَوْنَ يَسُومُونَكُمْ سُوَءَ الْعَذَابِ يُذَبِّحُونَ أَبْنَاءكُمْ وَيَسْتَحْيُونَ نِسَاءكُمْ وَفِي ذَلِكُم بَلاء مِّن رَّبِّكُمْ عَظِيمٌ ( ۴۹ )

اور جب ہم نے تم كو فرعون والوں سے بچاليا جو تمھيں بدترين دكھ دے رہے تھے ، تمھارے بچوں كو قتل كررہے تھے اور عورتوں كو وزندہ ركھتے تھے اور اس ميں تمھارے لئے بہت بڑا امتحان تھا_

۱ _ بنى اسرائيل مدتوں سے مسلسل خاندان اور لشكر فرعون كے سخت شكنجوں ميں گرفتا ر رہے _و اذ نجينكم من آل فرعون يسومونكم سوء العذاب ''يسومون'' كا مصدر ''سوم'' ہے جس كا معنى ہے تكليف ميں ڈالنا يا ذليل كرنا _ ''سوئ'' كا ''العذاب'' كى طرف اضافہ صفت كا موصوف كى طرف اضافہ ہے يعنى''العذاب السوئ'' _

۲_ اللہ تعالى نے حضرت موسىعليه‌السلام كى بعثت كے ذريعے بنى اسرائيل كو فرعونيوں كے شديد شكنجوں اور تسلط سے نجات دلائي _و اذ نجينكم من آل فرعون يسومونكم سوء العذاب ان جملوں ''انعمت عليكم'' اور ''انى فضلتكم'' ميں نعمت عطا كرنے اور برترى عنايت كرنے كى نسبت اللہ تعالى كى طرف دي گئي ہے جبكہ ''نجيناكم_ ہم نے تمہيں نجات دى '' ميں نجات كو ضمير '' نا _ ہم '' كى طرف نسبت دى گئي ہے _ يہاں سے يہ مطلب سمجھا جاسكتاہے كہ نجات دينے ميں خداوند متعال كى نظر اسباب پر بھى ہے جنكا قرينہ بعد كى آيات ميں موجود ہے لہذا كہا جاسكتاہے كہ وہ سبب حضرت موسىعليه‌السلام كى بعثت تھي_

۳ _ فرعونيوں كے شكنجوں اور سختيوں كے چنگل سے نجات ايك ايسا اہم واقعہ تھا جو اس قابل تھا كہ بنى اسرائيل اس كو ہميشہ ہميشہ كے لئے ياد ركھتے *و اذ نجينكم من آل فرعون يسومونكم سوء العذاب ''اذ نجينكم'' ، ''نعمتي'' (آيت ۴۸) پر عطف ہے جبكہ در حقيقت '' اذكروا'' كے لئے مفعول ہے_

۴ _ لشكر فرعون بنى اسرائيل كے بيٹوں كا سركاٹتا اور ان كى

۱۶۳

عورتوں كو زندہ رہنے ديتا_يذبحون ابناء كم و يستحيون نساء كم '' ذبح'' كا معنى سر كاٹنا ہے اور '' يذبحون'' كا مصدر تذبيح ہے جو سر كاٹنے كے معاملے ميں كثرت پر دلالت كرتاہے _ '' يستحيون'' كا مصدر '' استحيائ'' ہے جسكا معنى ہے زندگى پر باقى ركھنا _

۵_ بنى اسرائيل كے بيٹوں كا وسيع سطح پر كشت و كشتار اور ان كى عورتوں كو زندہ چھوڑدينا فرعونيوں كى طرف سے شديدترين شكنجے تھے_يسومونكم سوء العذاب يذبحون ابناء كم و يستحيون نساء كم جملہ'' يذبحون ...'' ممكن ہے ماقبل جملے كى تفسير ہو يعنى '' سوء العذاب'' سے مراد بنى اسرائيل كے فرزندوں كے سر كاٹنا اور ان كى عورتوں كو زندہ چھوڑدينا تا ہم يہ بھى ممكن ہے كہ اسكا واضح مصداق ہو گويا فراعنہ بنى اسرائيل پر جو ظلم و ستم روا ركھتے تھے ان ميں سے ايك ان كے فرزندوں كے سر كاٹنا تھا_ بنابريں يہ جو مخصوص عذاب كا بالخصوص ذكر كيا گيا ہے يہ غالباً شدت كى خاطر ہے _

۶ _ فراعنہ كے تسلط اور زمانہ حكمرانى ميں بنى اسرائيل كى خواتين بھى انتہائي سختيوں ، شكنجوں اور موت كے منہ ميں مبتلا تھيں _يسومونكم سوء العذاب يذبحون ابناء كم و يستحيون نساء كم

۷ _ بنى اسرائيل كى عورتيں اپنے بچوں كے فراعنہ كے ہاتھوں بے تحاشا قتل كى بناپر لذت حيات كھوچكى تھيں اسطرح ان كا خود زندہ رہنا بھى عذاب تھا_يسومونكم سوء العذاب يذبحون ابناء كم و يستحيون نساء كم عورتوں كا زندہ رہنا بنى اسرائيل كے لئے ايك عذاب كے طور پر بيان ہوا ہے _ جبكہ قتل نہ كرنا تو عذاب نہيں ہوتا_ پس جملہ '' يستحيون نساء كم'' چونكہ جملہ ''يذبحون ابناء كم'' كے بعد ذكر ہوا ہے كہا جاسكتاہے كہ عورتيں اپنے بچوں كے ا نتہائي فجيع قتل اور اپنے زندہ رہنے سے انتہائي شديد عذاب كى حالت ميں تھيں _ اس مطلب كى اس نكتہ سے تائيد ہوتى ہے كہ بيٹوں كے مقابل لڑكيوں كا ذكر نہيں كيا گيا بلكہ عورتوں كا ذكر ہوا ہے_

۸ _ يہ جو فراعنہ بنى اسرائيل كى عورتوں كو زندہ چھوڑ ديتے تھے اس كا ہدف عورتوں سے استفادہ كرنا تھا*يسومونكم سوء العذاب و يستحيون نساء كم عورتوں كو زندہ چھوڑنا ايك عذاب كے طور پر كيوں بيان ہوا ہے؟ اسكى ايك اور توجيہ عورتوں سے استفادہ كرنا ہے _

۹_ اگر اللہ تعالى بنى اسرائيل كو فراعنہ كے تسلط سے نجات عنايت نہ فرماتا تو ان كے شكنجو ں اور فرزندوں كے كشت و كشتار ميں تسلسل رہتا_يسومونكم سوء العذاب يذبحون ابنا ء كم و يستحيون نساء كم يہ مفہوم اس بناپر ہے كہ ''يسومون'' ،

۱۶۴

''يذبحون'' ، '' يستحيون'' سب كے سب فعل مضارع استعمال ہوئے ہيں _

۱۰_ اللہ تعالى نے بنى اسرائيل كو فراعنہ كے مختلف طرح كے شديد عذاب سے ايك بہت بڑى آزمائش ميں مبتلا كيا _

و فى ذلكم بلاء من ربكم عظيم لغت ميں ''بلائ'' كا معنى آزمائش اور نعمت دونوں آيا ہے_''ذلكم'' كا مشار اليہ ''عذاب''ہے يا پھر عذاب سے نجات ''نجيناكم'' ہے _ مذكورہ مفہوم اس بنا پر ہے كہ بلاء كا معنى آزمائش اور '' ذلكم'' كا اشارہ عذاب كى طرف ہو_

۱۱ _ اللہ تعالى نے بنى اسرائيل كو فراعنہ كے شديد شكنجوں سے نجات عنايت كركے انہيں ايك بہت بڑى آزمائش ميں مبتلا فرمايا _و فى ذلكم بلاء من ربكم عظيم يہ مفہوم اس بنا پر ہے كہ بلاء كا معنى آزمائش ہو اور ذلكم كا اشارہ عذاب سے نجات اور رہائي '' نجيناكم'' كى طرف ہو_

۱۲ _ فراعنہ كے شكنجوں سے نجات بنى اسرائيل كے لئے اللہ تعالى كى عظيم نعمتوں ميں سے تھا_و فى ذلكم بلاء من ربكم عظيم اس مفہوم ميں ''بلائ'' كا معنى نعمت ہے اور ''ذلكم'' عذاب سے رہائي كى طرف اشارہ ہے_

۱۳ _ انسان سختيوں ، نعمتوں اور اللہ تعالى كى عنايات سے الہى آزمائش و امتحان ميں مبتلا كيا جاتاہے _و فى ذلكم بلاء من ربكم عظيم

۱۴ _ انسانوں كى سختيوں نيز نعمتوں اور آسائشوں سے آزمائش اللہ تعالى كے مقام ربوبيت سے ہے اور انسانوں كى تربيت اور رشد و ہدايت كى خاطر ہے _و فى ذلكم بلاء من ربكم عظيم يہ مفہوم اس بناپر ہے كہ '' رب '' كا معنى مربي، مدير و مدبر ہو_

۱۵ _ اللہ تعالى تاريخ اور اس كے واقعات پر حاكم ہے _و اذ نجيناكم و فى ذلكم بلاء من ربكم عظيم

۱۶ _ امام صادقعليه‌السلام سے روايت ہے : ''... اما مولد موسى عليه‌السلام فان فرعون لما وقف على ان زوال ملكه على يده فلم يزل يأمر اصحابه بشق بطون الحوامل من نساء بنى اسرائيل حتى قتل فى طلبه نيف و عشرون الف مولود (۱) ليكن حضرت موسىعليه‌السلام كى ولادت كا واقعہ پس جب فرعون كو پتہ چلا كہ اسكى سلطنت كا زوال موسىعليه‌السلام كے ہاتھوں ہوگا پس مسلسل اپنے اطرافيوں كو حكم ديتا كہ بنى اسرائيل كى حاملہ عورتوں كے شكم پارہ كردو _ يہاں تك كہ بيس ہزار سے زيادہ بچے حضرت موسىعليه‌السلام كى تلاش ميں قتل كرديئے گئے _

____________________

۱) غيبت شيخ طوسى ص ۱۶۹ ، نورالثقلين ج/ ۱ ص ۸۰ ح ۱۹۴_

۱۶۵

آل فرعون:آل فرعون اور بنى اسرائيل ۱; آل فرعون كے جرائم ۱; آل فرعون كے شكنجے ۱

اللہ تعالى : الہى امتحانات ۱۳; حاكميت الہى ۱۵; ربويت الہى ۱۴; الہى نعمتيں ۱۲

امتحان: امتحان كے ذرائع ۱۳; سختيوں كے ساتھ امتحان ۱۳،۱۴; نعمتوں كے ساتھ امتحان ۱۳،۱۴;امتحان كا فلسفہ ۱۴

انسان: انسان كا امتحان ۱۳

بنى اسرائيل: بنى اسرائيل كى آزمائش ۱۰; عورتوں سے استفادہ ۸;بنى اسرائيل كى عورتوں كو زندہ چھوڑنا ۴،۵ ، ۸; بنى اسرائيل كا امتحان ۱۰، ۱۱; بنى اسرائيل كى تاريخ ۱،۴،۹،۱۰،۱۱،۱۲;بنى اسرائيل كو شكنجے ۱،۵، ۹، ۱۰، ۱۱; بنى اسرائيل كى عورتوں كو شكنجے ۶،۷; بنى اسرائيل كے فرزندوں كا قتل ۴،۵،۷،۹،۱۶; بنى اسرائيل كى نجات ۲،۹،۱۱،۱۲; بنى اسرائيل كى نعمتيں ۱۲

تاريخ: تاريخ كے تغيرات و تحولات كا سرچشمہ ۱۵

تربيت : تربيت ميں مؤثر عوامل ۱۴

حضرت موسىعليه‌السلام : حضرت موسىعليه‌السلام كى بعثت كے نتائج۲

ذكر: بنى اسرائيل كى نجات كا ذكر ۳

رشد و تكامل: رشد و تكامل كے عوامل۱۴

روايت:۱۶

فراعنہ: فراعنہ كے جرائم ۴،۵،۶،۷،۹،۱۱،۱۲; فراعنہ كے شكنجے ۶،۱۰،۱۱،۱۲; فراعنہ اور بنى اسرائيل ۲،۴،۵،۹; فراعنہ اور بنى اسرائيل كى عورتيں ۶; فراعنہ كے قتل ۴،۵،۹; فراعنہ كے اجتماعى قتل ۷

فرعون: فرعون كى خون ريزى ۱۶

۱۶۶

وَإِذْ فَرَقْنَا بِكُمُ الْبَحْرَ فَأَنجَيْنَاكُمْ وَأَغْرَقْنَا آلَ فِرْعَوْنَ وَأَنتُمْ تَنظُرُونَ ( ۵۰ )

ہمارا يہ احسان بھى ياد كرو كہ ہم نے دريا كو شگافتہ كركے تمھيں بچا ليا اور فرعون و الوں كو تمھارى نگاہوں كے سامنے ڈبوديا_

۱_ بنى اسرائيل درياے نيل كے كنارے فرعونى فوج كے محاصرے ميں تھے_و اذ فرقنا بكم البحر

''البحر'' ميں الف لام عہد ذكرى ہے جو دريائے مذكور كى طرف اشارہ ہے بہت سے مفسرين كے مطابق يہ دريائے نيل ہے _ بنى اسرائيل كى نجات اور دريا كے پھٹ جانے كے باعث فرعونيوں كے غرق ہونے كا ذكر اس بات پر دلالت كرتاہے كہ فرعونى لشكر دريا كے كنارے بنى اسرائيل پر حملہ كرنے كے در پے تھا_

۲ _ دريائے نيل كو پار كرنے كے لئے اللہ تعالى نے بنى اسرائيل كے لئے دريا كو پاٹ ديا _و اذ فرقنا بكم البحر ''فرقنا'' كا مصدر ''فرق'' ہے جسكا معنى ہے شگاف ڈالنا اور فاصلہ پيدا كرنا _

۳ _ بنى اسرائيل دريا كو عبور كركے نجات پاگئے اور فرعون اپنى فوج سميت دريا ميں غرق ہوگيا _فانجيناكم و اغرقنا آل فرعون

۴ _ اللہ تعالى بنى اسرائيل كو نجات بخشنے والا اور فرعونيوں كو ہلاك كرنے والا ہے _فانجيناكم و اغرقنا آل فرعون

۵ _ دريا كا پھٹنا فرعون اور اسكى فوج كے غرق ہونے اور ہلاك ہونے كا باعث بنا _و اذ فرقنا بكم البحر فانجيناكم و اغرقنا آل فرعون ''انجيناكم'' كى حرف ''فائ'' كے ذريعے ''فرقنا'' پر تفريع اس بات كى طرف اشارہ ہے كہ دريا كا شگافتہ ہونا بنى اسرائيل كى نجات كا وسيلہ بنا اور اس لئے كہ ''اغرقنا'' ، ''انجيناكم'' پر عطف ہے پس دريا كايہى شگافتہ ہونا فرعون اور اسكى فوج كے غرق ہونے كا ذريعہ قرار پايا _ فرعون اور اسكى فوج نے دريا ميں عبور كے رستے كو ديكھتے ہوئے بنى اسرائيل كا تعاقب كيا تو دريا كا شگاف برابر ہوگيا اور يہ لوگ ہلاك ہوگئے _

۱۶۷

۶ _ عالم طبيعات كے اسباب پر اللہ تعالى كى حاكميت ہے_و اذ فرقنا بكم البحر

۷ _ دريا كے پھٹ جانے ميں بنى اسرائيل كا كردار اہم تھا_و اذ فرقنا بكم البحر يہ مفہوم اس بناپر ہے كہ ''بكم'' كى باء سببيت كے لئے ہے _

۸ _ اللہ تعالى كى آزمائش كے دور ان بنى اسرائيل كا سختياں اور مشكلات برداشت كرنا اور ان ميں كامياب ہونا ان كے لئے اللہ تعالى كى نصرت اور نجات كا سبب بنا _يسومونكم سوء العذاب و فى ذلكم بلاء من ربكم عظيم و اذ فرقنا بكم البحر اس سے ماقبل آيہ مجيدہ ميں بنى اسرائيل كى الہى آزمائش كا بيان تھا جس ميں انہوں نے سختيوں اور مشكلات كو برداشت كيا يہى چيز سبب بنى كہ بنى اسرائيل كے لئے دريا پھٹ گيا گويا كہ بنى اسرائيل نے چونكہ اسطرح عمل كيا كہ جو ان كى اس لياقت كا باعث بنا اور اللہ تعالى نے دريا كو شگافتہ كركے بنى اسرائيل كو نجات عطا فرمائي اور ان كے دشمنوں كو ہلا ك كرديا _

۹ _ انسان كا عمل اللہ تعالى كے تدبير امور كى كيفيت كو معين كرنے ميں بہت اہميت كا حامل ہے _يسومونكم سوء العذاب فى ذلكم بلاء و اذ فرقنا بكم البحر

۱۰_ بنى اسرائيل نے فرعون اور اسكى فوج كے غرق ہونے اور ہلاكت كے منظر كا نظارہ كيا _ ''نظر'' كامعنى ہے ديكھنا اور نظارہ كرنا ما قبل جملے كے قرينے سے تنظرون كا مفعول فرعون اور اسكى فوج كى ہلاكت ہے _

۱۱ _ فرعون اور اسكى فوج كى نابودى كا نظارہ كرنا بنى اسرائيل كے لئے اللہ تعالى كى نعمتوں ميں سے ايك تھا_و اذ فرقنا بكم البحر و اغرقنا آل فرعون و انتم تنظرون ان آيات ميں چونكہ ان نعمتوں كا ذكر ہورہا ہے جو اللہ تعالى نے بنى اسرائيل كو عنايت فرمائيں _ اس اعتبار سے كہا جاسكتاہے كہ ''و انتم تنظرون'' كو بھى نعمت كے طور پر بيان فرمايا گيا ہے _

۱۲ _ ظالموں اور ستم گروں سے مظلوموں كے سامنے انتقام ايك پسنديدہ اور اچھا عمل ہے _و اغرقنا آل فرعون و انتم تنظرون

۱۳ _ دريا كے شگافتہ ہونے سے بنى اسرائيل كى نجات اور فرعون اور اسكے لشكر و خاندان كى نابودى ايك عبرت آموز اور ياد ركھنے والا واقعہ ہے _و اذ فرقنا بكم البحر و انتم تنظرون ''اذ فرقنا'' نعمتى (آيت ۴۷) پر عطف ہے پس ''اذفرقنا'' ،''اذكروا'' كے لئے مفعول ہے_

۱۶۸

اللہ تعالى : افعال الہى ۲،۴; اللہ تعالى كى مدد و نصرت ۲،۴; تدبير الہى ۹; اللہ تعالى كى حاكميت ۶; اللہ تعالى كى نصرت كے عوامل ۸; اللہ تعالى كا نجات عطا كرنا ۴

انتقام: پسنديدہ انتقام ۱۲; مظلوموں كى موجودگى ميں انتقام ۱۲

انسان: انسان كى تقدير يا سرنوشت ۹; انسان كے تدبير امور كا سرچشمہ ۹

بنى اسرائيل: بنى اسرائيل كى كاميابى كے نتائج ۸; بنى اسرائيل كا امتحان ۸; بنى اسرائيل كى امداد ۸; بنى اسرائيل دريائے نيل ميں ۲; بنى اسرائيل اور دريا كا پھٹنا ۷;بنى اسرائيل كى تاريخ ۱،۲،۳،۱۰، ۱۳; بنى اسرائيل كا دريا عبور كرنا ۳; بنى اسرائيل كى نجات كے اسباب ۸; بنى اسرائيل كا امتحان ميں كامياب ہونا ۸; بنى اسرائيل كا محاصرہ ۱; بنى اسرائيل كى نجات ۳،۴،۱۳; بنى اسرائيل كى نعمتيں ۱۱

تاريخ : تاريخ سے عبرت ۱۳

تقدير: تقدير ميں مؤثر عوامل ۹

دريا : دريائے نيل ۱; دريا كے پانى ميں شگاف ۲،۵

ذكر: تاريخ كا ذكر ۱۳

ظالمين : ظالمين سے انتقام ۱۲

عالم طبيعات كے عوامل : طبعى عوامل كا عمل ۶

عبرت : عبرت كے عوامل ۱۳

عمل: عمل كے نتائج ۹

لشكر فرعون: لشكر فرعون كى ہلاكت كے اسباب ۵; لشكر فرعون كا غرق ہونا ۳، ۵، ۱۰، ۱۳; لشكر فرعون اور بنى اسرائيل ۱; لشكر فرعون كى ہلاكت ۴، ۱۱ ، ۱۳

۱۶۹

وَإِذْ وَاعَدْنَا مُوسَى أَرْبَعِينَ لَيْلَةً ثُمَّ اتَّخَذْتُمُ الْعِجْلَ مِن بَعْدِهِ وَأَنتُمْ ظَالِمُونَ ( ۵۱ )

اور ہم نے موسى سے چاليس راتوں كا وعدہ ليا تو تم نے ان كے بعد گوسالہ تيار كرليا كہ تم بڑے ظالم ہو _

۱ _ اللہ تعالى نے بنى اسرائيل كو فرعون اور اسكے لشكر كے تسلط سے نجات دلانے كے بعد حضرت موسىعليه‌السلام كو عبادت اور خاص مناجات كے لئے دعوت دي_و اذ واعدنا موسى اربعين ليلة ''ليلة'' كا معمولاً استعمال شب و روز كے لئے اور '' يوم'' كا استعمال دن كے لئے ہوتاہے _ يہاں '' ليلة'' كا استعمال اس معنى كى طرف اشارہ ہے كہ اللہ تعالى كا حضرت موسىعليه‌السلام سے وعدہ عبادت اورمناجات كے لئے تھا_ يہ جو حضرت موسىعليه‌السلام بنى اسرائيل كے درميان عبادات انجام ديتے تھے معلوم ہوتاہے كہ آپعليه‌السلام كو خاص عبادت و مناجات كے لئے دعوت دى گئي _

۲ _ حضرت موسىعليه‌السلام اللہ تعالى كے ہاں عظيم مقام و منزلت ركھتے ہيں _و اذ واعدنا موسى اربعين ليلة

۳ _ حضرت موسىعليه‌السلام كى خاص عبادت اور مناجات كے لئے چاليس (۴۰) شب كا تعين ہوا _و اذ واعدنا موسى اربعين ليلة

۴ _ الہى رہبروں اور قائدين كا معاشرے سے كچھ محدود مدت تك اللہ تعالى كى عبادت كے لئے كنارہ كشى كرنا ايك پسنديدہ اور اچھا عمل ہے _و اذ واعدنا موسى اربعين ليلة

۵ _ رات كى عبادت و مناجات كى ايك خاص اہميت ہے_واذ واعدنا موسى اربعين ليلة

۶ _ چاليس رات لوگوں سے دور ہوكر عبادت و مناجات كرنے كا ايك خاص اثر ہے _و اذ واعدنا موسى اربعين ليلة

۷ _ حضرت موسىعليه‌السلام كى عدم موجودگى ميں بنى اسرائيل نے بچھڑے كى پوجا كرنا شروع كردى _

ثم اتخذتم العجل من بعده

'' من بعدہ'' يعنى حضرت موسىعليه‌السلام كے دور چلے جانے كے بعد _ ''اتخذتم'' ان افعال ميں سے ہے جو '' تصيير'' كا مفہوم ركھتے ہيں اسكا پہلا مفعول '' العجل '' ہے اور دوسرا مفعول '' الہاً'' ہے جو بہت واضح ہونے كى بناپر كلام ميں ذكر نہيں ہوا _ گويا مطلب يوں ہے ''ثم جعلتم العجل الهاً لكم''

۱۷۰

۸ _ تاريخى اور معاشرتى واقعات ميں شخصيات كا نقش اور كردار اہم ہوتاہے _ثم اتخذتم العجل من بعده

''من بعدہ'' جس سے مراد حضرت موسىعليه‌السلام كى عدم موجودگى ہے اس كا استعمال اس نكتہ كى طرف اشارہ ہے جب تك حضرت موسىعليه‌السلام ان كے درميان تھے تو انہوں نے شرك كى طرف تمايل اختيار نہيں كيا _ پس تاريخ كے اہم واقعات ميں شخصيات بھى اہميت كى حامل ہيں _

۹ _ انبياءعليه‌السلام اور الہى قائدين كى عدم موجودگى سے امتوں ميں انحراف كا خطرہ رہتاہے _ثم اتخذتم العجل من بعده و انتم ظالمون

۱۰ _ بنى اسرائيل نے بچھڑے كى پوجا كى طرف رغبت دريا سے عبور اور فرعونى لشكر سے نجات كے بعد اختيار كى _

و اذ فرقنا بكم البحر و اذ واعدنا ثم اتخذتم العجل من بعده

۱۱ _ بنى اسرائيل كے پا س گوسالہ پرستى كى طرف رغبت و تمايل كا كوئي بہانہ يا عذر نہ تھا_ثم اتخذتم العجل من بعده و انتم ظالمون ''انتم ظالمون _ در آں حاليكہ تم ظالم تھے'' يہ جملہ حاليہ اس معنى ميں ظہور ركھتاہے كہ ظالم ہونا ايك ايسى حالت تھى جو گوسالہ پرستى كے ہمراہ تھى يعنى يہ كہ بنى اسرائيل كى شرك كى طرف رغبت ظلم كى وجہ سے تھى جبكہ جہالت يا اسطرح كا كوئي اور عذر يا بہانہ درميان ميں نہ تھا_

۱۲ _ اللہ تعالى كى نعمتوں كے مقابل بنى اسرائيل انتہائي ناشكرى قوم ہے _فانجيناكم و اغرقنا آل فرعون ثم اتخذتم العجل من بعده و انتم ظالمون بنى اسرائيل پر عظيم الہى نعمتوں كے ذكر كے بعد ان كے غير خدا كى پرستش كى طرف رجحان كا بيان كرنا اس بات كى نشاندہى ہے كہ يہ قوم انتہائي ناشكرى ہے _

۱۳ _ حضرت موسىعليه‌السلام كا اپنى قوم سے دور چلے جانے اور اس قوم كا گوسالہ پرستى اختيار كرلينا انتہائي عبرت ناك ، سبق آموز اور ياد ركھنے كے قابل واقعہ ہے_و اذ واعدنا موسى اربعين ليلة ثم اتخذتم العجل من بعده

۱۴_ ظلم و ستم كرنا بنى اسرائيل كى عادت اور راہ و روش ہے _و انتم ظالمون

يہ مفہوم اس بناپر ہے كہ ''و انتم ظالمون'' جملہ معترضہ ہونہ كہ حاليہ يعنى تم لوگ ستمگر ہو جس كا ايك پہلو گوسالہ پرستى ہے _

۱۵ _بچھڑے كى پوجا بنى اسرائيل كى ستم كاريوں ميں سے

۱۷۱

ايك تھي_ثم اتخذتم العجل من بعده و انتم ظالمون

۱۶ _ غير خدا كى پرستش ظلم ہے_ثم اتخذتم العجل من بعده و انتم ظالمون

۱۷_عن ابى جعفر عليه‌السلام فى قوله ''واذ واعدنا موسى اربعين ليلة'' قال كان فى العلم و التقدير ثلاثين ليلة ثم بدأ لله فزاد عشراً فتم ميقات ربه للاوّل والآخر اربعين ليلة (۱) اللہ تعالى كے اس فرمان''و اذ واعدنا موسى اربعين ليلة'' كے بارے ميں امام باقرعليه‌السلام سے روايت ہے كہ علم و تقدير الہى ميں تيس راتيں تھيں پھر اللہ تعالى كے لئے بدا حاصل ہو اتو دس دنوں كا اضافہ كرديا گيا پس حضرت موسىعليه‌السلام نے اپنے رب كے ميقات كو اول و آخر چاليس شب ميں پورا كيا

اعداد: چاليس كا عدد ۳،۶

اللہ تعالى : اللہ تعالى كے لئے بداء ۱۷ اللہ تعالى كى دعوتيں ۱

امتيں : امتوں كے انحراف كى بنياد۹

انبياءعليه‌السلام : انبياءعليه‌السلام كى عدم موجودگى كے نتائج ۹

بنى اسرائيل : بنى اسرائيل حضرت موسىعليه‌السلام كى عدم موجودگى ميں ۷; بنى اسرائيل كى تاريخ ۷،۱۰،۱۲; بنى اسرائيل كا ظلم ۱۴،۱۵; بنى اسرائيل كا دريا سے عبور كرنا ۱۰; بنى اسرائيل كا كفر ان ۱۲; بنى اسرائيل كى گوسالہ پرستى ۷،۱۰،۱۱،۱۳،۱۵; بنى اسرائيل كى نجات ۱،۱۰

تاريخ: تاريخ سے عبرت ۱۳; تاريخى تغيرات اور تحولات كے عوامل ۸; تاريخ كا محرك ۸; شخصيات كا تاريخ ميں كردار و اہميت ۸

چلہ نشيني: چلہ نشينى كے آثارو نتائج۶

حضرت موسىعليه‌السلام : حضرت موسىعليه‌السلام كى چلہ نشينى ۳،۱۷; حضرت موسىعليه‌السلام كو دعوت ۱; حضرت موسىعليه‌السلام كى عبادت ۱; بنى اسرائيل كے درميان سے حضرت موسىعليه‌السلام كى غيبت ۱۳; حضرت موسىعليه‌السلام كا واقعہ ۱،۳;حضرت موسىعليه‌السلام كى عبادت كى مدت ۳; حضرت موسىعليه‌السلام كى مناجات كى

____________________

۱) تفسير عياشى ج/ ۱ ص ۴۴ ح ۴۶، تفسير برہان ج/۱ ص ۹۸ ح ۲_

۱۷۲

مدت ۳; حضرت موسىعليه‌السلام كے درجات و مقامات ۲; حضرت موسىعليه‌السلام كى مناجات ۱; حضرت موسىعليه‌السلام كا ميقات (يعنى خدا كا حضرت موسىعليه‌السلام سے وعدہ جس كيلئے مدت معين كى گئي )۱۷

دينى رہبر: دينى قائدين كى عدم موجودگى كے نتائج ۹ دينى رہبروں كى پسنديدہ كنارہ كشى ۴

ذكر : تاريخ كے ذكر كى اہميت ۱۳

روايت:۱۷

شرك: عبادتى شرك كا ظلم ۱۶

ظالمين : ۱۴

ظلم : ظلم كے موارد ۱۵،۱۶

عبادت: غير خدا كى عبارت ۱۶

عمل: پسنديدہ عمل ۴

قدريں : ۵

كفران: كفران نعمت ۱۲

كنارہ كشي: پسنديدہ كنارہ كشى ۴

معاشرتى تبديلياں : معاشرتى تبديليوں كے عوامل ۸

مقربين : ۲

نماز تہجد: نماز تہجد كى اہميت ۵

۱۷۳

ثُمَّ عَفَوْنَا عَنكُمِ مِّن بَعْدِ ذَلِكَ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ ( ۵۲ )

پھر ہم نے تمھيں معاف كرديا كہ شايد شكر گذار بن جاؤ_

۱ _ بنى اسرائيل كا بچھڑے كى پوجا و الا گناہ اللہ تعالى نے معاف فرماديا _ثم عفونا عنكم من بعد ذلك

۲ _ انسانوں كے گناہوں كى بخشش و آمرزش اللہ تعالى كے دست قدرت اور اختيار ميں ہے _ثم عفونا عنكم

۳ _ مرتد ہونے كا گناہ اللہ تعالى كے ہاں قابل عفو و بخشش ہے _ثم اتخذتم العجل ثم عفونا عنكم

۴ _ بنى اسرائيل كے ارتداد اور گوسالہ پرستى كے گناہ كى بخشش اللہ تعالى كى جانب سے بنى اسرائيل پر عظيم نعمتوں ميں سے تھي_ ثم عفونا عنكم من بعد ذلك اس حصے كى آيات مباركہ چونكہ بنى اسرائيل پر اللہ تعالى كى عظيم نعمتوں كو بيان كررہى ہيں اس لئے ''عفونا عنكم'' سے بھى مراد نعمت كا ذكر ہے جبكہ يہ مطلب '' ثم'' كےساتھ دوسرى نعمتوں پر عطف ہوا ہے يہ اس معنى كى طرف اشارہ ہے كہ معافى اور بخشش كى نعمت دوسرى نعمتوں سے بالاتر اور والاتر ہے _

۵ _ گوسالہ پرستى كے گناہ كى معافى سے اللہ تعالى نے بنى اسرائيل پر احسان فرمايا_ثم عفونا عنكم من بعد ذلك

واضح ہے كہ معافى گناہ كے ارتكاب كے بعد ہوتى ہے بنابريں''من بعد ذلك ''معافى كے وقت و زمان كو بيان نہيں كررہاہے بلكہ اس مفہوم كى طرف اشارہ ہے كہ بنى اسرائيل بخشش كا استحقاق تو نہ ركھتے تھے اس كے باوجود اللہ تعالى نے ان پر فضل و كرم كيا اور ان كا گناہ بخش ديا _

۶_ اللہ تعالى كى بارگاہ ميں شكر و سپاس گذارى كرنا لازم و ضرورى ہے _لعلكم تشكرون

۷ _ بنى اسرائيل ناشكرى قوم تھي_ثم عفونا عنكم من بعد ذلك لعلكم تشكرون

۱۷۴

۸ _ بنى اسرائيل ميں شكر و سپاس گذارى كى زمين كو ہموار كرنا ان كے مرتد ہونے كے گناہ كو معاف كرنے كے اہداف ميں سے تھا_ثم عفونا عنكم من بعد ذلك لعلكم تشكرون

۹ _ اللہ تعالى كى بارگاہ اقدس ميں سپاس و شكر گزارى اور شاكرين كے مقام تك پہنچنے كى راہ ميں گناہان كبيرہ ركاوٹ بنتے ہيں _ثم عفونا عنكم من بعد ذلك لعلكم تشكرون

۱۰ _ گناہ كا معاف ہونا ايك ايسى نعمت ہے جس كا شكر ادا كيا جانا چاہيئے _ثم عفونا عنكم لعلكم تشكرون

ارتداد (مرتد ہونا ) : ارتداد كى معافى ۳; ارتداد كا گنا ہ ۳

اللہ تعالى : اللہ تعالى كى بخشش ۲; اللہ تعالى سے مختص امور ۲; اللہ تعالى كا احسان ۵; اللہ تعالى كى معافى ۱،۳

بخشش: بخشش كى نعمت ۴ ، ۱۰

بنى اسرائيل: بنى اسرائيل كا ارتداد ۴،۸; بنى اسرائيل كے شكر كى زمين ہموار ہونا ۸; بنى اسرائيل كى بخشش ۱،۴،۵; بنى اسرائيل كى بخشش كا فلسفہ ۸; بنى اسرائيل كا كفران ۷; بنى اسرائيل كى گوسالہ پرستى ۱،۴،۵; بنى اسرائيل پر احسان ۵; بنى اسرائيل كى نعمتيں ۴

شاكرين: شاكرين كے درجات و مقامات ۹

شكر: شكر خدا كى اہميت ۶; بخشش كى نعمت ۱۰; شكر كے موانع ۹

گناہ : گناہان كبيرہ كے نتائج ۹; گناہ كى معافى ۱۰;گناہ كى بخشش كا سرچشمہ ۲

۱۷۵

وَإِذْ آتَيْنَا مُوسَى الْكِتَابَ وَالْفُرْقَانَ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُونَ ( ۵۳ )

اور ہم نے موسى كو كتاب اور حق و باطل كو جدا كرنے والا قانون ديا كہ شايد تم ہدايت يافتہ بن جاؤ_

۱ _ حضرت موسىعليه‌السلام صاحب كتاب و شريعت انبياءعليه‌السلام ميں سے تھے_و اذ آتينا موسى الكتاب

۲ _ اللہ تعالى نے حضرت موسىعليه‌السلام كو تورات عطا فرمائي _و اذ آتينا موسى الكتاب '' الكتاب'' ميں الف لام عہد ذہنى ہے جو تورات كى طرف اشارہ ہے _

۳ _ اللہ تعالى نے تورات كے علاوہ بھى حقائق عنايت فرمائے جو حق و باطل كے مابين امتياز كا وسيلہ ہيں _ و اذ آتينا موسى الكتاب و الفرقان '' الفرقان '' كا '' الكتاب'' پر عطف ممكن ہے صفت كا صفت پر عطف ہو اور ہر ايك تورات كے پہلوؤں ميں سے ايك پہلو ہو _ يعنى يہ كہ ہم نے موسىعليه‌السلام كو ايك ايسى چيز عطا كى جو كتاب بھى ہے اور فرقان بھى يہ بھى ممكن ہے كہ كتاب اور فرقان دو مختلف چيزيں ہوں يعنى ہم نے موسى كو كتاب ( تورات) دى اور فرقان بھى عطا كيا _ اس اعتبار سے فرقان سے مراد معجزات ، دلائل و براہين يا اس طرح كے امور ہوسكتے ہيں _ (تفسير الكشاف سے اقتباس )_

۴ _ تورات حق و باطل كے مابين تشخيص كا بہترين وسيلہ ہے _و اذ آتينا موسى الكتاب والفرقان

'' فرقان'' يعنى تشخيص و امتياز كا ذريعہ اور اس سے يہاں مراد احكام و معارف الہى كى حدود ميں رہتے ہوئے حق كو باطل سے تميز دينا ہے _

۵ _ حضرت موسىعليه‌السلام كو جو تورات عطا كى گئي وہ بنى اسرائيل پر اللہ تعالى كى نعمتوں ميں سے ايك تھى _اذ آتينا موسى الكتاب والفرقان

آيت نمبر ۴۷ سے معلوم ہوتاہے كہ آيات كا يہ حصہ اللہ تعالى كى بنى اسرائيل پر عظيم اور گراں قدر نعمات كو بيان كررہاہے پس اس آيہ مباركہ ميں تورات اور فرقان بھى عظيم نعمت كے طور پر بيان ہوئے ہيں _

۶_ كتب سماوى اور انسانوں كى ہدايت كے اسباب بنى

۱۷۶

اسرائيل پر اللہ تعالى كى عظيم نعمات ميں سے تھے_و اذ آتينا موسى الكتاب و الفرقان لعلكم تهتدون

۷ _ تورات كے نزول كا ہدف بنى اسرائيل كا ہدايت پانا ہے_واذآتينا موسى الكتاب والفرقان لعلكم تهتدون

۸ _ سماوى كتابوں كے نزول كا ہدف انسانوں كا ہدايت پاناہے _و اذ آتينا موسى الكتاب والفرقان لعلكم تهتدون

۹ _ ہدايت اور گمراہى كے قبول كرنے كا اختيار ،انسان تكوينى طور پر ركھتاہے_لعلكم تهتدون

۱۰_ تورات كے حقائق كو بنى اسرائيل تك پہنچانا حضرت موسىعليه‌السلام كے بنيادى فرائض ميں سے تھا_واذآتيناموسى الكتاب والفرقان لعلكم تهتدون حضرت موسىعليه‌السلام كو كتاب عطا اور بنى اسرائيل كى ہدايت كے درميان رابطے (آتينا موسى لعلكم تہتدون) كا مطلب يہ ہے كہ يہ جملہ تقدير ميں ہو '' ہم نے ان كو حكم ديا كہ كتاب كو تمہارے لئے تلاوت كرے اور احكام و معارف كى تمہيں تعليم دے '' يہ معنى بہت واضح ہونے كے باعث اور اختصار كو مدنظر ركھتے ہوئے بيان نہيں كيا گيا _

اللہ تعالى : اللہ تعالى كى عنايات ۲،۳،۵; اللہ تعالى كى نعمتيں ۶

انبياءعليه‌السلام : اولو العزم انبياءعليه‌السلام ۱

انسان: انسان كا تكوينى اختيار ۹; انسانوں كى ہدايت ۸

بنى اسرائيل: بنى اسرائيل كى ہدايت كا سرچشمہ ۷; بنى اسرائيل كى نعمات ۵

تورات: تورات كى تبليغ ۱۰; تورات اور حق كى تشخيص ۳،۴; تورات كے نزول كا فلسفہ ۷; تورات كى نعمت ۵;تورات كى اہميت و كردار ۴،۷

حضرت موسىعليه‌السلام : حضرت موسىعليه‌السلام كى تبليغ ۱۰; حضرت موسىعليه‌السلام كى تورات ۲; حضرت موسىعليه‌السلام كى شريعت ۱; حضرت موسىعليه‌السلام كا فرقان ۳; حضرت موسىعليه‌السلام كى كتاب ۱;حضرت موسىعليه‌السلام كى ذمہ دارى ۱۰; حضرت موسىعليه‌السلام كى نبوت ۱

حق : حق كى تشخيص كے وسائل ۳،۴; حق اور باطل ۴

۱۷۷

كتب سماوى : كتب سماوى كے نزول كا فلسفہ ۸; كتب سماوى كى نعمت ۶; كتب سماوى كى اہميت و كردار۸

گمراہي: گمراہى كا اختيار۹

ہدايت: ہدايت كا اختيار ۹; ہدايت كے اسباب ۶،۸

وَإِذْ قَالَ مُوسَى لِقَوْمِهِ يَا قَوْمِ إِنَّكُمْ ظَلَمْتُمْ أَنفُسَكُمْ بِاتِّخَاذِكُمُ الْعِجْلَ فَتُوبُواْ إِلَى بَارِئِكُمْ فَاقْتُلُواْ أَنفُسَكُمْ ذَلِكُمْ خَيْرٌ لَّكُمْ عِندَ بَارِئِكُمْ فَتَابَ عَلَيْكُمْ إِنَّهُ هُوَ التَّوَّابُ الرَّحِيمُ ( ۵۴ )

اور وہ وقت بھى ياد كرو جب موسى نے اپنى قوم سے كہا كہ تم نے گوسالہ بناكر اپنے اوپر ظلم كيا ہے _ اب تم خالق كى بارگاہ ميں توبہ كرو اور اپنے نفسوں كو قتل كرڈالو كہ يہى تمھارے حق ميں خير ہے_ پھر خدا نے تمھارى توبہ قبول كرلى كہ وہ بڑا توبہ قبول كرنے والا مہربان ہے _

۱ _ حضرت موسىعليه‌السلام كى قوم نے بچھڑے كى پوجا كركے خود پر ظلم كيا اور سزا كے مستحق قرار پائے _يا قوم انكم ظلمتم أنفسكم باتخاذكم العجل

۲_ حضرت موسىعليه‌السلام نے اپنى قوم كى ستمگرى كے بيان كے ساتھ ہى ان كو فرمان ديا كہ اللہ كى بارگاہ ميں توبہ كرو _

و اذ قال موسى لقومه فتوبوا الى بارئكم

۳ _ انسان شرك اختيار كرنے اور غير خدا كى عبادت كرنے سے خود پر ظلم اور ستم كا ارتكاب كرتا ہے_انكم ظلمتم أنفسكم باتخاذكم العجل

۴ _ شرك اختيار كرنے اور غير خدا كى پرستش كرنے سے خداوند متعال كو كوئي ضرر يا نقصان نہيں ہوتا_

انكم ظلمتم أنفسكم باتخذكم العجل

۵ _ گناہ انسان كى اللہ تعالى سے دورى كا سبب بنتاہے _

فتوبوا الى بارئكم

۱۷۸

'' توبوا '' كا مصدر توب اور توبہ ہے جسكا معنى ہے رجوع كرنا اور لوٹنا _ اس سے يہ مطلب نكلتا ہے كہ گناہ كے سبب انسان اللہ تعالى سے دور ہوجاتا ہے اور فاصلہ پيدا كرليتاہے _

۶ _ گناہگاروں كى ضرورى اور اہم ذمہ دارى ہے كہ اللہ تعالى كى بارگاہ ميں توبہ كے ذريعے بازگشت كريں _انكم ظلمتم أنفسكم باتخاذكم العجل فتوبوا الى بارئكم

۷ _ بنى اسرائيل كے گوسالہ پرستوں كى توبہ ايك دوسرے كو قتل كرنا معين كى گئي _فتوبوا الى بارئكم فاقتلوا أنفسكم

'' فاقتلوا'' ميں '' فائ'' تفسير يہ ہے يعنى ''فاقتلوا أنفسكم'' اور يہ''توبوا ...'' كى تفسير ہے _ اس جملہ '' فاقتلوا أنفسكم'' كے بارے ميں دو طرح كى تفسير بيان ہوئي ہے ۱ _ فاقتلوا بعضكم بعضاً _ ايك دوسرے كو قتل كرو ۲ _ ہر كوئي خود كو قتل كرے_

۸ _ گناہوں سے توبہ كا طريقہ كار اس گناہ كى نوعيت كے اعتبار سے مختلف ہوتاہے_انكم ظلمتم أنفسكم باتخاذكم العجل فتوبوا الى بارئكم فاقتلوا أنفسكم

۹_ بنى اسرائيل كے مرتدوں كى فكرى و نفسياتى آمادگى كے بعد حضرت موسىعليه‌السلام نے انہيں امر الہى ( ايك دوسرے كو قتل كرنے) كے اجراء اور قبوليت پر آمادہ كيا _يا قوم انكم ظلمتم أنفسكم يہ جو حضرت موسىعليه‌السلام نے قوم كو اپنے ساتھ نسبت دى ( اے ميرى قوم ) يہ اس حقيقت كى طرف اشارہ ہے كہ حضرت موسىعليه‌السلام نے قوم كو توبہ كى دعوت سوز دل كے ساتھ دى اور ان سے چاہا كہ حكم الہى كے سامنے گردن جھكا ديں _يہ جو صراحت كى گئي ہے كہ بنى اسرائيل نے گوسالہ پرستى كے ذريعے خود پر ستم كيا ہے يہ بھى اسى معنى كے اعتبار سے ہے _

۱۰_ گناہگاروں ميں حدود الہى كى قبوليت كے لئے روحى اور فكرى آمادگى پيدا كرنا ايك اچھا اور بہتر عمل ہے_يا قوم انكم ظلمتم أنفسكم فتوبوا الى بارئكم

۱۱_ تنقيد اور نصيحت سے پہلے مہربانى اور محبت سے پيش آنا ايك اچھا اور بہت بہتر عمل ہے _يا قوم انكم ظلمتم أنفسكم

۱۲ _ الہ يا معبود ہونے كى لياقت و استعداد فقط خالق انسان ميں ہے _انكم ظلمتم أنفسكم باتخاذكم العجل فتوبوا الى بارئكم

'' بارء '' اللہ تعالى كے اسماء اور صفات ميں سے ہے جسكا معنى خالق ہے _ جملہ ''توبوا الى بارئكم'' ميں حضرت موسىعليه‌السلام كا اس اسم اور صفت كا انتخاب كرنا جبكہ آپعليه‌السلام كے ;مخاطبين وہ لوگ تھے جو غير خدا كى پرستش اختيار كرچكے تھے يہ مطلب اس طرف اشارہ ہے كہ انسان كا خالق ہى

۱۷۹

معبود بننے كى صلاحيت ركھتاہے لہذا تم نے غير كى طرف كيوں رجوع اور رجحان پيدا كيا ؟ پس تو بہ كرو _

۱۳ _ حضرت موسىعليه‌السلام كى شريعت ميں مرتدوں كو قتل كرنا سزاؤں كے قوانين ميں سے تھا_ *فتوبوا الى بارئكم فاقتلوا أنفسكم

۱۴ _ حضرت موسىعليه‌السلام نے اپنى قوم كے مرتدوں كى خيرو سعادت كو انكى توبہ اور ايك دوسرے كے قتل ميں جانا _

فاقتلوا أنفسكم ذلكم خير لكم عند بارئكم

۱۵ حضرت موسيعليه‌السلام نے مرتدوں كو اللہ تعالى كى خالقيت كى طرف متوجہ كرنے كے ساتھ ان كے قتل كى سزا كو انكے لئے ايك مفيد امرسمجھا_ذلكم خير لكم عند بارئكم حكم قتل كے اجراء كے وقت '' بارء '' كا انتخاب اس مفہوم كى طرف اشارہ ہے اگر چہ قتل ہونا ظاہراً ختم ہونا اور نابود ہوناہے ليكن در حقيقت دوبارہ زندگى پانا اور خلق ہونا ہے _ '' بارئكم'' كا جملہ ''توبوا الى بارئكم'' اور '' ذلكم خير لكم عند بارئكم'' ميں تكرار قابل توجہ ہے گويا ايك خاص ہدف كے لئے ايسا كيا گيا ہے _

۱۶ _ اللہ تعالى ہى انسانوں كا خالق ہے _فتوبوا الى بارئكم ذلكم خير لكم عند بارئكم

۱۷ _ اديان الہى ميں سزاؤں كے احكام و قوانين ، اگر چہ وہ سزا قتل ہونے كى ہو ،يہ سب گناہگاروں اور خطاكاروں كے لئے فلاح و سعادت كى ضمانت فراہم كرتے ہيں _فاقتلوا أنفسكم ذلكم خير لكم عند بارئكم

۱۸_ اديان الہى كے احكام و فرامين كى بنياد انسانوں كى مصلحت ہے_ذلكم خير لكم

۱۹_ بنى اسرائيل كے مرتدوں ( گوسالہ پرستوں ) نے حضرت موسىعليه‌السلام كے فرمان كے بعد ايك دوسرے كو قتل كرنا شروع كيا _فاقتلوا أنفسكم فتاب عليكم جملہ '' تاب عليكم'' ايك مقدر جملے پر عطف ہے يعنى ''ففعلتم ما امرتم بہ فتاب عليكم پس تم نے جسكا حكم ديا گيا تھا اس پر عمل كردكھا يا تو خداوند عالم نے تمہارى توبہ كو قبول فرماليا'' قابل توجہ ہے كہ '' تاب '' كى ضمير ما بعد جملے كے قرينہ سے '' بارئكم _ تمہارا خالق'' كى طرف لوٹتى ہے_

۲۰_ بنى اسرائيل كے گوسالہ پرستوں كى توبہ كى قبوليت اللہ تعالى كى ان پر نعمتوں ميں سے ايك تھي_و اذ قال موسى فتاب عليكم اس سورہ مباركہ جيسا كہ آغاز ميں آياہے'' يا بنى اسرائيل اذكروا نعمتى ...'' اس سے پتہ چلتاہے كہ آيات كے اس حصے ميں ان نعمتوں كا ذكر ہے جو اللہ تعالى نے بنى اسرائيل كو عنايت فرمائي تھيں _

۱۸۰

۲۱ _ بنى اسرائيل كے مرتدوں كى توبہ كا واقعہ اور اللہ تعالى كے اس فرمان كا اجراء كہ ايك دوسرے كو قتل كريں ايك بہت ہى سبق آموز اور ياد ركھنے والا واقعہ ہے_و اذ قال موسى لقومه فتاب عليكم '' اذ قال ...'' آيت ۴۷ ميں نعمتى پر عطف ہے يعنى '' اذكروا اذ قال ...''

۲۲_ فقط خداوند عالم توّاب ( بہت زيادہ بخشنے والا) اور رحيم ( مہربان) ہے _انه هوالتواب الرحيم

احكام: سزاؤں كے احكام كا خير ہونا ۱۷; فلسفہ احكام ۱۸

اديان: اديان كى تعليمات۱۳

اسماء و صفات: توّاب ۲۲; رحيم ۲۲

اللہ تعالى : اللہ تعالى كى خالقيت ۱۶; اللہ تعالى اور ضرر و نقصان ۴; خدائي سزاؤں كا مفيد اور بہتر ہونا ۱۵; اللہ تعالى سے دورى كے اسباب ۵; الہى نعمتيں ۲۰

الوہيت: الوہيت كے معيارات ۱۲

انسان: انسان كا خالق ۱۶; انسانى مصلحتيں ۱۸

بنى اسرائيل: بنى اسرائيل اور ايك دوسرے كا قتل ۷،۹،۱۴، ۱۹، ۲۱; بنى اسرائيل كى تاريخ ۲،۷،۸،۱۹،۲۱; بنى اسرائيل كى توبہ ۲ ، ۷ ،۱۴; بچھڑے كى پوجا كرنے والوں كى توبہ ۷،۲۰; بنى اسرائيل كى خودكشى ۷،۹، ۱۴ ، ۱۹،۲۱; بنى اسرائيل كى سعادت مندى كى شرائط ۱۴; بنى اسرائيل كا ظلم ۱،۲; بنى اسرائيل كى توبہ كى قبوليت ۲۰;بنى اسرائيل كى سزا۱;گوسالہ پرستوں كى سزا ۱۵; بنى اسرائيل كے گوسالہ پرست ۱۹; بنى اسرائيل كى گوسالہ پرستى ۱،۷; بنى اسرائيل كے مرتد ۹،۱۹، ۲۱; بنى اسرائيل كى نعمتيں ۲۰

تاريخ: تاريخ سے عبرت ۲۱

تقرب: تقرب كے موانع ۵

توبہ: توبہ كى اہميت ۶،۱۴; توبہ كى مناسبت گناہ كے ساتھ۸; گناہ سے توبہ ۶; توبہ كى كيفيت ۸

حدود الہي: حدود الہى كى قبوليت كى زمين ہموار كرنا ۱۰

حضرت موسىعليه‌السلام : حضرت موسى كے اوامر ۲; حضرت موسىعليه‌السلام كى

۱۸۱

شريعت كى تعليمات ۱۳; حضرت موسىعليه‌السلام كى خيرخواہى ۱۱۴; حضرت موسىعليه‌السلام كا واقعہ ۲،۹،۱۵

حقيقى معبود: معبود حقيقى كى خالقيت۱۲

خدا كى طرف بازگشت : ۶

خود: خود پر ظلم ۱،۳

دين: دين كا فلسفہ ۱۸

ذكر: تاريخ كے ذكر كى اہميت ۲۱; اللہ تعالى كى خالقيت كا ذكر ۱۵

سزا : سزاؤں كے قوانين كے اجراء كے نتائج ۱۷; سزاؤں كے قوانين كا فلسفہ ۱۷; سزاؤں كے موجبات ۱

سعادت: سعادت كے اسباب ۱۴،۱۷

شرك: شرك كا نقصان ۴; شرك كا ظلم ۳

شرعى ذمہ داري: شرعى ذمہ دارى كے اجراء كى زمين ہموار كرنا ۹

ظلم : ظلم كے موارد ۱،۳

عبادت: غير خدا كى عبادت ۳،۴

عبرت: عبرت كے عوامل ۲۱

عمل: پسنديدہ عمل ۱۰،۱۱

گناہ : گناہ كے نتائج ۵

گناہگار: گناہگاروں كى سعادت كى شرائط ۱۷; گناہگاروں كى ذمہ دارى ۶

مرتد: اديان ميں مرتد كا قتل ۱۳

معبوديت: معبوديت كے معيارات ۱۲

وعظ و نصيحت: وعظ و نصيحت كى شرائط ۱۱; وعظ و نصيحت ميں مہرباني۱۱

يہوديت: يہوديت ميں ارتداد كى سزا ۱۳

۱۸۲

وَإِذْ قُلْتُمْ يَا مُوسَى لَن نُّؤْمِنَ لَكَ حَتَّى نَرَى اللَّهَ جَهْرَةً فَأَخَذَتْكُمُ الصَّاعِقَةُ وَأَنتُمْ تَنظُرُونَ ( ۵۵ )

اور وہ وقت بھى ياد كرو جب تم نے موسى سے كہا كہ ہم اس وقت تك ايمان نہ لائيں گے جب تك الله كو علانيہ نہ ديكھ ليں جس كے بعد بجلى نے تم كو لے ڈالا او رتم ديكھتے ہى رہ گئے _

۱_ حضرت موسىعليه‌السلام كى قوم نے آپعليه‌السلام كى رسالت كى تصديق كرنے سے انكار كيا اور آپعليه‌السلام پر ايمان نہ لانے پر تاكيد كى _و اذ قلتم يا موسى لن نؤمن لك '' لن نؤمن لك_ ہم تيرى ہرگز تصديق نہيں كريں گے ''آمن'' لام كے ساتھ استعمال ہو (آمن لہ) يا حرف باء كے ساتھ (آمن بہ ) ايك ہى معنى ركھتاہے_

۲ _ حضرت موسىعليه‌السلام كے زمانے كے بنى اسرائيل نے اللہ تعالى كو ديكھنے كى خواہش كى _لن نؤمن لك حتى نرى الله جهرة

۳ _ بنى اسرائيل نے حضرت موسىعليه‌السلام كى رسالت كى تصديق كے لئے يہ شرط ركھى كہ اللہ تعالى كو واضح طور پر ديكھيں گے(تب ايمان لائيں گے)_لن نؤمن لك حتى نرى الله جهرة

۴ _ بنى اسرائيل محسوسات كے رجحانات ركھتے تھے_حتى نرى الله جهرة

۵ _ حضرت موسىعليه‌السلام كى قوم آپعليه‌السلام كا انكار كرنے اور ايك بے جا مطالبہ ( اللہ كو ديكھنا ) كرنے كى وجہ سے ہلاك ہوگئي_لن نؤمن لك فاخذتكم الصاعقة '' اخذت '' كا مصدر '' اخذ'' ہے جسكا معنى ہے پكڑنا، لے لينا اور ما بعد كى آيت كے قرينے سے يہ قتل سے كنايہ ہے_

۶ _ آسمانى بجلى حضرت موسىعليه‌السلام كى قوم كى ہلاكت كا موجب بنى _فاخذتكم الصاعقة صاعقہ وہ آسمانى آگ ہے جو شد يد گرج و چمك كے وقت نمودار ہوتى ہے_

۷_ اللہ تعالى كو آنكھوں سے ديكھنا ممكن نہيں ہے_حتى نرى الله جهرة فاخذتكم الصاعقة

۱۸۳

باوجود اس كے كہ اللہ تعالى نے بنى اسرائيل كو مختلف طرح كے معجزات دكھائے ، ان كو مخصوص نعمات سے نوازا اور ان كے مختلف مطالبات پورے كيئے ليكن ان كے اللہ كو ديكھنے كى خواہش كو پورا نہ فرمايا بلكہ يہ خواہش انكى سزا كا باعث بنى _ معلوم ہوتاہے كہ يہ خواہش بے جاتھي_

۸ _ اللہ تعالى كو ديكھنے كى خواہش ايك بے جا مطالبہ ہے_حتى نرى الله جهرة فاخذتكم الصاعقة

۹ _ خداوند متعال كو ديكھنے كى خواہش كا نتيجہ سزائے الہى ہے_حتى نرى الله جهرة فاخذتكم الصاعقة

۱۰_ انبيائے الہى كى رسالت كى تصديق نہ كرنا گناہ اور سزائے الہى كا موجب ہے _لن نؤمن لك فاخذتكم الصاعقة

يہ مفہوم اس بناپر ہے كہ '' اخذتكم ...'' كا ارتباط ''نرى اللہ جھرة'' كے علاوہ '' لن نومن لك'' سے بھى ہو_

۱۱_ گناہ كا عذاب و عقاب دنيا ميں متحقق ہونے كا احتمال پايا جاتاہے_فاخذتكم الصاعقة

۱۲ _ گناہگار دنياوى عقاب ميں مبتلا ہونے سے امن و امان ميں نہيں ہيں اور نہ ہى انہيں اس امان كا احساس كرنا چاہيئے_فاخذتكم الصاعقة

۱۳ _ اللہ تعالى كو ديكھنے كے مطالبے سے حضرت موسىعليه‌السلام كى قوم پر بجلى ( صاعقة) گري_فاخذتكم الصاعقة و انتم تنظرون '' تنظرون_ ديكھتے تھے'' كا مفعول بجلى كا گرنا ہے_

۱۴ _ اللہ تعالى كو ديكھنے كا مطالبہ كرنا ، بنى اسرائيل كا حضرت موسىعليه‌السلام كى باتوں پر يقين كا اظہار نہ كرنا اور ان پر بجلى كا گرنا يہ نہايت سبق آموز اور ياد ركھنے كے قابل و اقعہ ہے_اذ قلتم يا موسى لن نومن لك ...وانتم تنظرون '' اذ قلتم'' آيت نمبر ۴۷ ميں نعمتى پر عطف ہے يعنى مطلب يوں ہے ''اذكروا اذ قلتم ''

۱۵ _ امام رضاعليه‌السلام سے روايت ہے كہ آپعليه‌السلام نے ارشاد فرمايا:''ان كليم الله موسى بن عمران لما كلمه الله عزوجل رجع الى قومه فقالوا لن نؤمن لك حتى نسمع كلامه ثم اختار منهم سبعين رجلاً فكلمه الله تعالى ذكره و سمعوا كلامه فقالوا لن نؤمن لك بان هذا الذى سمعناه كلام الله حتى نرى الله جهرة ...'' (۱) جناب موسى ابن عمرانعليه‌السلام سے جب اللہ تعالى نے كلام فرمايا وہ اپنى قوم كى طرف پلٹ كے گئے قوم نے كہا ہم تجھ پر ہرگز ايمان نہ لائيں

____________________

۱) عيون اخبار الرضاعليه‌السلام ج/۱ ص ۲۰۰ ح/۱ باب ۱۵ تفسير برہان ج/ ۱ ص ۲۰۰ ح ۲_

۱۸۴

گے مگر يہ كہ اللہ كا كلام سنيں اس كے بعد حضرت مو سىعليه‌السلام نے اپنى قوم سے ستر ۷۰ افراد كا انتخاب فرمايا ( اور كوہ طور كى طرف روانہ ہوئے) وہاں حضرت موسىعليه‌السلام اللہ تعالى سے ہم كلام ہوئے تو انہوں نے اس كلام كو سنا اور كہنے لگے ہم ہرگز اس بات پر ايمان نہ لائيں گے كہ يہ كلام جو ہم نے سنا ہے اللہ كا ہے مگر يہ كہ ہم اسے آشكارا ديكھيں _

اللہ تعالى : اللہ تعالى كا ديدار محال ہے ۷; اللہ تعالى كا تكلم ۱۵; اللہ تعالى كے ديدار كى درخواست ۲،۸،۱۵; اللہ تعالى كے ديكھنے كى خواہش كى سزا ۹; اللہ تعالى كى سزائيں ۹،۱۰

انبياءعليه‌السلام : انبياء كو جھٹلانے كے نتائج ۱۰; انبياءعليه‌السلام كو جھٹلانے كى سزا ۱۰; انبياءعليه‌السلام كو جھٹلانے كا گناہ ۱۰

بنى اسرائيل: حضرت موسىعليه‌السلام كے زمانے كے بنى اسرائيل ۲; بنى اسرائيل اور حضرت موسىعليه‌السلام كى تصديق ۳; بنى اسرائيل اور اللہ تعالى كا ديدار ۳،۵،۱۳،۱۴; بنى اسرائيل كى تاريخ ۱،۲،۵،۶،۱۳،۱۴; بنى اسرائيل كا محسوسات كى طرف رجحان ۴; بنى اسرائيل كى خواہشات ۲،۳،۵،۱۳; بنى اسرائيل پر عذاب ۱۴; بنى اسرائيل پر دنياوى عذاب ۱۳; بنى اسرائيل كا كفر ۱،۵; بنى اسرائيل كى ہلاكت ۵،۶

بے جا توقعات : ۸

حضرت موسىعليه‌السلام : حضرت موسى كى تكذيب ۱۴; حضرت موسىعليه‌السلام كا واقعہ ۱۵; حضرت موسىعليه‌السلام كا اللہ تعالى سے كلام ۱۵

ذكر: تاريخ كا ذكر ۱۴

روايت: ۱۵

سزا: سزا كے موجبات ۹،۱۰

عذاب: بجلى كا عذاب ۶،۱۳،۱۴; دنياوى عذاب ۱۱

كفر: حضرت موسىعليه‌السلام كا كفر ۱،۵

گناہ: گناہ كى دنياوى سزا ۱۱; گناہ كے موارد۱۰

گناہ گار: گناہگاروں كى دنياوى سزا ۱۲; گناہگاروں كو تنبيہ ۱۲

۱۸۵

ثُمَّ بَعَثْنَاكُم مِّن بَعْدِ مَوْتِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَشْكُرُونَ ( ۵۶ )

پھر ہم نے تمھيں موت كے بعد زندہ كرديا كہ شايد اب شكر گزار بن جاؤ _

۱ _ اللہ تعالى نے حضرت موسىعليه‌السلام كى قوم كو بجلى كے ذريعے ہلاك كرنے كے بعد دوبارہ حيات بخشى _ثم بعثناكم من بعد موتكم

۲ _ دنيا ميں مردوں كے زندہ ہونے كا امكان ہے اور دنياوى زندگى كى طرف دوبارہ رجعت ممكن ہے _ثم بعثناكم من بعد موتكم

۳ _ حضرت موسىعليه‌السلام كى قوم كا بجلى سے ہلاك ہونے كے بعد زندہ ہونا ان پر اللہ تعالى كى نعمات ميں سے ايك نعمت تھي_اذكروا نعمتى التى انعمت ثم بعثناكم من بعد موتكم

۴ _ شاكرين كے مقام و درجے پر پہنچنا انسان كے بنيادى فرائض اور اسكى خلقت كے اہداف ميں سے ہے _

ثم بعثناكم من بعد موتكم لعلكم تشكرون شكر و سپا س گزارى كو جو '' بعثناكم'' كے ہدف كے طور پر بيان كيا گيا ہے _ ظاہراً يہ دوبارہ زندگى ملنے سے مخصوص نہيں ہے _ بلكہ خود زندگى كے ہدف كے طور پر بيان ہوا ہے يعنى يہ كہ اللہ تعالى

نے ان لوگوں كو جو بجلى سے ہلاك ہوگئے تھے دوبارہ جو حيات بخشى تو اس لئے تھى كہ دنياوى زندگى ميں شكر گزار بنيں اور شا كرين كے درجے تك پہنچيں _

۵ _ بنى اسرائيل اللہ تعالى كى نعمتوں كے مقابل ناشكرى قوم تھي_لعلكم تشكرون

۶ _ بنى اسرائيل كا ہلاك ہونے كے بعد دوبارہ زندہ ہونا ان ميں شكر و سپاس گزارى كى روح پيدا كرنے اور شاكرين كے مقام تك پہنچنے كيلئے راہ ہموار كرنے كا باعث بنا _ثم بعثناكم لعلكم تشكرون

''لعلكم تشكرون _ ہوسكتاہے تم شكر گزار بن جاؤ '' اس جملے ميں '' لعل'' بنى اسرائيل كے بجلى زدہ افراد كو زندہ كرنے كے ہدف كو بيان كرنے كے علاوہ اس معنى پر بھى دلالت كرتاہے كہ دوبارہ زندہ ہونا ان كى شكر گزارى كا موجب نہيں تھابلكہ اس امر نے ان ميں شكر و سپاسگزارى كى زمين فراہم كى _

۱۸۶

اللہ تعالى : اللہ تعالى كى نعمتيں ۳

انسان: انسان كى تخليق كا فلسفہ ۴; انسان كى ذمہ دارى ۴

بنى اسرائيل: بنى اسرائيل كا دوبارہ زندہ ہونا ۱،۳،۶; بنى اسرائيل كى تاريخ ۱; بنى اسرائيل كے شكر كى زمين فراہم ہونا ۶; بنى اسرائيل كا كفران نعمت ۵; بنى اسرائيل كى نعمتيں ۳; بنى اسرائيل كى ہلاكت ۱،۳

رجعت: رجعت كا امكان ۲

شاكرين: شاكرين كے درجات ۴

شكر: شكر كى زمين فراہم ہونا ۶

عذاب: بجلى كا عذاب۱،۳

كفران: كفران نعمت ۵

مردے: دنيا ميں مردوں كا زندہ ہونا ۱،۲

وَظَلَّلْنَا عَلَيْكُمُ الْغَمَامَ وَأَنزَلْنَا عَلَيْكُمُ الْمَنَّ وَالسَّلْوَى كُلُواْ مِن طَيِّبَاتِ مَا رَزَقْنَاكُمْ وَمَا ظَلَمُونَا وَلَكِن كَانُواْ أَنفُسَهُمْ يَظْلِمُونَ ( ۵۷ )

اور ہم نے تمھارے سروں پر ابر كا سايہ كيا _ تم پر من و سلوى نازل كيا كہ پاكيزہ رزق اطمينان سے كھاؤ _ ان لوگوں نے ہمارا كچھ نہيں بگاڑا بلكہ خود اپنے نفس پر ظلم كيا ہے _

۱ _ حضرت موسىعليه‌السلام كى قوم فرعون اور اسكے لشكر سے نجات پيدا كرنے اور دريا سے گزرنے كے بعد بيابانوں ميں سورج كى شديد گرمى ميں مبتلا ہوگئي_و ظللنا عليكم الغمام

''ظللنا'' كا مصدر '' تظليل '' ہے جسكا معنى ہے سايہ كرنا يہ اس مطلب كى طرف اشارہ ہے كہ حضرت موسىعليه‌السلام كى قوم نے دريا عبور كرنے كے بعد كسى چھت والى يا سايہ دار جگہ پر قيام نہ كيا پس بيابانوں كا مفہوم يہاں موجود ہے _

۱۸۷

۲ _ اللہ تعالى نے حضرت موسىعليه‌السلام كى قوم پر بادلوں كے ذريعے وسيع سطح پر سايہ كركے انہيں سورج كى جلادينے والى شعاؤں سے بچايا_و ظللنا عليكم الغمام ''غمامة'' كا معنى ہے باد ل اور اسكى جمع ''غمام '' ہے ( لسان العرب) بعض اہل لغت كے نزديك غمامہ كا معنى سفيد بادل ہيں _

۳ _ اللہ تعالى نے حضرت موسىعليه‌السلام كى قوم كو صحرا عبور كرتے ہوئے ان كى غذا كے لئے ' من و سلوي'' نازل فرمايا_

و أنزلنا عليكم المن والسلوي لغت ميں ''من '' كے معانى ميں سے ايك معنى ميٹھا شربت يا ايك طرح كا ميٹھا گوند ہے _ سلوى كے بارے ميں كہا گيا ہے كہ اس سے مراد بٹيريا سفيد رنگ كا ايك پرندہ ہے_

۴ _ عالم طبيعات اور جہان ہستى كا اختيار اور اسكے تغيرات و تحولات كا اختيار خداوند قدوس كے دست قدرت ميں ہے _و ظللنا عليكم الغمام و أنزلنا عليكم المن و السلوى

۵ _ بجلى گرنے اور دوبارہ زندہ كئے جانے كے واقعہ كے بعد بنى اسرائيل پر ''من'' و ''سلوى '' نازل ہوا اور انہيں سورج كى گرمى كى حدّت و شدّت سے بادلوں كے وسيع سايہ كے ذريعے نجات دى گئي _ثم بعثناكم و ظللنا عليكم الغمام

جملہ'' ظللنا ...'' كا جملہ '' بعثناكم ...'' پر عطف اس بات كا تقاضا كرتاہے كہ بادلوں كے سايہ كيئے جانے اور '' من و سلوى '' كا واقعہ بجلى گرنے كے واقعہ كے بعد ہوا _

۶ _ بادلوں كا وسيع سايہ اور من و سلوى كا نازل كرنا حضرت موسىعليه‌السلام كى قوم كو دكھائے گئے معجزات ميں سے تھا_

و ظللنا عليكم الغمام و أنزلنا عليكم المن والسلوي

۷ _ '' من'' اور ''سلوى '' حضرت موسىعليه‌السلام كى قوم كو عطا كى گئي دو پاكيزہ غذائيں تھيں _و أنزلنا عليكم المن والسلوى كلوا من طيبات ما رزقناكم

۸_ ''من اور سلوى '' اور پاكيزہ و حلال غذاؤں سے استفادہ كرنے كى اللہ تعالى نے بنى اسرائيل كو نصيحت فرمائي_

كلوا من طيبات ما رزقناكم يہ مفہوم اس بناپر ہے كہ '' كلوا'' فعل امر ہے

۹_ اللہ تعالى اپنے بندوں كو روزى عنايت كرنے والا ہے_ما رزقناكم

۱۰_ حضرت موسىعليه‌السلام كى قوم كو دريا عبور كرتے ہوئے اور صحرانوردى كرتے وقت پاكيزہ اور ناپاك ( حلال اور حرام ) غذائيں ميسر تھيں _كلوا من طيبات ما رزقناكم يہ مفہوم اس بناپر ہے كہ لفظ طيبات استعمال ہوا اور اس كو '' ما رزقناكم'' كى طرف اضافت دى گئي ہے_

۱۸۸

۱۱_ حضرت موسىعليه‌السلام كى قوم نے ناپاك اور حرام غذاؤں كے استعمال سے اللہ تعالى كے حكم كى نافرمانى كى _

كلوا من طيبات ما رزقناكم و ما ظلمونا و لكن كا نوا أنفسهم يظلمون حضرت موسىعليه‌السلام كى قوم كو ظالم كہنا اس جملہ '' كلوا من طيبات ...'' كے اعتبار سے ہوسكتاہے_ اس صورت ميں يہاں ظلم سے مراد ناپاك اور حرام غذاؤں سے استفادہ ہے _ نيز يہ بھى ممكن ہے ان كو ظالم كہنا ان تمام نعمتوں كے اعتبارسے ہو جن كا ذكر اس آيت اور ماقبل كى آيات ميں ہوا ہے _ پس اس بناپر ان كے ظلم سے مراد اللہ تعالى كى نعمتوں كے مقابل ان كى ناسپاسى اور ناشكرى ہے_ مذكورہ بالا مفہوم پہلے احتمال كى بنياد پر ہے _

۱۲ _ حضرت موسىعليه‌السلام كى قوم نے '' من و سلوي'' سے حرام اور ناجائز فائدہ اٹھاكر گناہ كا ارتكاب كيا اور خود پر ظلم كيا _ *كلوا من طيبات ما رزقناكم و ما ظلمونا و لكن كانوا أنفسهم يظلمون يہ جملہ ''و لكن كانوا ...'' اس معنى پر دلالت كرتاہے كہ حضرت موسىعليه‌السلام كى قوم نے حرام خورى كا ارتكاب كيا _ يہ جملہ چونكہ '' من و سلوى '' كے نزول كے بيان كے بعد ذكر ہوا ہے لہذا يہ اس امر پر قرينہ ہے كہ ان كى حرام خورى كا ايك مصداق '' من و سلوى '' سے ناجائز فائدہ اٹھانا ہوسكتاہے جيسے مثلاً دوسروں كے حصے پر تجاوز كرنا_

۱۳ _ اللہ تعالى كى نعمتوں كے مقابل حضرت موسىعليه‌السلام كى قوم ناشكرى تھي_ما ظلمونا و لكن كانوا أنفسهم يظلمون يہ مفہوم اس بناپر ہے كہ اگر جملہ '' ما ظلمونا و لكن ...'' كا ارتباط آيات ميں بيان شدہ نعمات الہى سے ہو_

۱۴ _ اللہ تعالى كى اپنے بندوں كو نصيحت ہے كہ حلال و پاكيزہ نعمتوں اور غذاؤں سے استفادہ كريں _كلوا من طيبات ما رزقناكم

۱۵ _ اللہ تعالى كى نعمتوں كا شكر ادا كرنا بندوں كے ذمے ايك اہم فريضہ ہے_و ما ظلمونا و لكن كانوا أنفسهم يظلمون

۱۶_ حضرت موسىعليه‌السلام كى قوم كى ناشكرى اور احكام الہى كى نافرمانى بارگاہ اقدس الہى ميں كسى طرح كا كوئي بھى ضرر و نقصان نہ پہنچا سكي_ و ما ظلمونا

۱۷_ حضرت موسىعليه‌السلام كى قوم كى ناشكرى اور فرامين الہى كى نافرمانى ايك ايسا ظلم تھا جو انہوں نے خود پر رَوا ركھا_

و ما ظلمونا و لكن كانوا أنفسهم يظلمون

۱۸_ نافرمانى كے نقصان كى بازگشت گناہ گار كى طرف ہے نہ كہ بارگاہ مقدس رب الارباب كى طرف _و ما ظلمونا و لكن كانوا أنفسهم يظلمون

۱۸۹

۱۹_ اللہ تعالى كے فرامين كى مخالفت اور اسكى نعمتوں كى ناشكرى و ناسپاسى ايك ايسا ظلم ہے جو انسان خود اپنے اوپر كرتا _و لكن كانوا أنفسهم يظلمون

۲۰_ ناپاك غذاؤں سے پرہيز كرنا ضرورى ہے _كلوا من طيبات و ما ظلمونا و لكن كانوا أنفسهم يظلمون

۲۱_''عن امير المومنين عليه‌السلام قد اخبر الله فى كتابه حيث يقول و ظللنا عليكم الغمام و أنزلنا عليكم المن والسلوى '' فهذا بعد الموت اذ بعثهم (۱) اس آيہ مجيدہ ''وظللنا عليكم الغمام و أنزلنا عليكم المن والسلوى '' كے بارے ميں امير المومنينعليه‌السلام سے روايت ہے كہ يہ نعمتيں اسوقت تھيں جب اللہ تعالى نے ان كے مرنے كے بعد ان كو دوبارہ زندہ كيا _

۲۲_ امام صادقعليه‌السلام سے روايت ہے ''كان ينزل المن على بنى اسرائيل من بعد الفجر الى طلوع الشمس (۲) بنى اسرائيل پر ''من'' طلوع فجر سے لے كر طلوع خورشيد تك نازل ہوتا تھا_

اللہ تعالى : اللہ تعالى سے مختص امور۴; اللہ تعالى كو نقصان

پہنچانا ۱۶،۱۸; اللہ تعالى كى نصيحتيں ۸،۱۴; اللہ تعالى كى رزاقيت ۹; اللہ تعالى كى عنايات ۷

انسان: انسان كى ذمہ دارى ۱۵

بادل: بادلوں كا سايہ ۲

بنى اسرائيل: بنى اسرائيل كا گرمى ميں مبتلا ہونا ۱; بنى اسرائيل كا زندہ ہونا ۵،۲۱; بنى اسرائيل صحرا ميں ۳،۱۰; بنى اسرائيل اور سلوى كا كھانا ۱۲; بنى اسرائيل اور منّ كا كھانا ۱۲; بنى اسرائيل كى تاريخ ۱،۲،۳،۵، ۸،۱۰،۱۲; بنى اسرائيل كى حرام خورى ۱۱،۱۲; بنى اسرائيل كى غذائيں ۳; بنى اسرائيل كا رزق ۷; بنى اسرائيل پر سايہ ۲،۵،۶; بنى اسرائيل پر بجلى كا گرنا ۵; بنى اسرائيل كا طعام ۱۰; بنى اسرائيل كا ظلم ۱۲ ، ۱۷; بنى اسرائيل كى نافرمانى ۱۱،۱۲،۱۶،۱۷; بنى اسرائيل كا كفران ۱۳،۱۶،۱۷; بنى اسرائيل كى نجات ۱،۲،۵; بنى اسرائيل پر بٹيروں كا نزول ۳; بنى اسرائيل پر ميٹھے شربت كا نزول ۳; بنى اسرائيل پر سلوى كا نزول ۳،۵،۶; بنى اسرائيل پر ''من'' كا نزول ۳،۵،۶،۲۲; بنى اسرائيل كى نعمتيں ۳،۱۰،۲۱،۲۲

حضرت موسىعليه‌السلام : حضرت موسىعليه‌السلام كا معجزہ۶

خود: خود پر ظلم ۱۲،۱۷،۱۹

____________________

۱) بحارالانوار ج/۳ ص ۵۳ ح ۷۳ ، تفسير برہان ج/۱ ص ۱۰۱ ح ۳_ ۲) مجمع البيان ج/۱ ص ۲۴۴ ، نورالثقلين ج/۱ ص۸۲ ح ۲۰۷_

۱۹۰

رزق : پاكيزہ رزق سے استفادہ ۸; حلال رزق سے استفادہ ۱۴; رزق كا سرچشمہ ۹

روايت: ۲۱، ۲۲

شكر : نعمت كے شكر كى اہميت ۱۵

طيبات: طيبات سے استفادہ ۸،۱۴

عالم آفرينش : عالم آفرينش كے تغيرات كا منبع۴

غذائيں : حرام غذاؤں سے اجتنا ب۲۰

كفران: كفران نعمت كے نتائج ۱۹; كفران نعمت ۱۳

گناہ : گناہ كے نتائج ۱۹; گناہ كا نقصان ۱۸

محرمات: محرمات سے استفادہ ۱۱

نعمت : نعمت سے استفادہ ۱۴

وَإِذْ قُلْنَا ادْخُلُواْ هَذِهِ الْقَرْيَةَ فَكُلُواْ مِنْهَا حَيْثُ شِئْتُمْ رَغَداً وَادْخُلُواْ الْبَابَ سُجَّداً وَقُولُواْ حِطَّةٌ نَّغْفِرْ لَكُمْ خَطَايَاكُمْ وَسَنَزِيدُ الْمُحْسِنِينَ ( ۵۸ )

اور وہ وقت بھى ياد كرو جب ہم نے كہا كہ اس قريہ ميں داخل ہوجاؤ اور جہاں چاہو اطمينان سے كھاؤ اور دروازہ سے سجدہ كرتے ہوئے اور حطہ كہتے ہوئے داخل ہو كہ ہم تمھارى خطائيں معاف كرديں گے اور ہم نيك عمل والوں كى جزا ميں اضافہ بھى كرديتے ہيں _

۱_ اللہ تعالى نے بنى اسرائيل كو حكم ديا كہ بيت المقدس كو آباد كرنے كے لئے وہاں داخل ہوجائيں _و إذ قلنا ادخلوا هذه القرية

لغت ميں '' قرية'' كا معنى ديہات اور شہر بھى آياہے قرآن كريم ميں بھى دونوں معانى ميں استعمال ہوا ہے _ اب چونكہ كوئي قرينہ نہيں ہے كہ كس معنى ميں استعمال ہوا ہے لہذا '' آبادي'' كا مفہوم لياگياہے اور'' القرية'' ميں الف لام عہد حضورى ہے لہذا ايك خاص خطے كى طرف اشارہ ہے _ بہت سے مفسرين كى رائے يہ ہے كہ اس سے مراد بيت المقدس ہے _

۱۹۱

۲ _ بنى اسرائيل كى صحرائي زندگى كے بعد انہيں بيت المقدس كو اپنے تصرف ميں لانے كا حكم ديا گيا _و ظللنا عليكم الغمام و إذ قلنا ادخلوا هذه القرية

۳_ جب بنى اسرائيل كو بيت المقدس پر تصرف كا حكم ديا گيا تو وہ اس كے نزديك كسى مقام پر تھے_وإذ قلنا ادخلوا هذه القرية يہ مفہوم اس بناپر ہے كہ اسم اشارہ ''ہذہ'' نزديك كے لئے آتاہے_

۴ _ حضرت موسىعليه‌السلام كے زمانے ميں بيت المقدس ايك آباد، نعمتوں سے پرُ اور غذاؤں سے بھر پور سرزمين تھي_

فكلوا منها حيث شئتم رغداً '' رغداً _ پاك ، آسائش سے بھر پور اور خير و بركت سے معمور'' يہ لفظ منہا كى ضمير كے لئے حال واقع ہوا ہے اسكى دليل '' كلوا'' ہے كہ اس سے مراد نعمتوں اور غذاؤں كى فراوانى ہے_

۵_ بيت المقدس كے تمام نقاط سے غذاؤں كا آمادہ كرنا بنى اسرائيل كے لئے حلال اور مباح تھا_فكلوا منها حيث شئتم '' حيث _ جہاں سے چاہو'' يہ اس بات پر دلالت كرتاہے كہ نعمتوں سے استفادہ كے لئے بيت المقدس كے كسى خاص مقام كو معين نہيں كيا گيا _

۶ _ بيت المقدس كے تصرف اور قبضے كے لئے اسكا دروازہ اللہ تعالى كى جانب سے معين كيا گيا راستہ تھا_ادخلوا هذه القرية و ادخلوا الباب

۷_ بيت المقدس پر قبضے كے وقت اللہ تعالى كے حضور خشوع و خضوع كا اظہار بنى اسرائيل كو اللہ تعالى كے فرامين ميں سے تھا_وادخلوا الباب سجّدا ''ساجد'' كى جمع '' سجدا'' ہے اور ''ادخلوا'' كے فاعل كے لئے حال ہے _ داخل ہوتے ہوئے سجدہ كى حالت ميں ہونا يہ اصطلاحى معنى ( خاك پر پيشانى ركھنا ) سے مناسبت نہيں ركھتا پس كہا جاسكتاہے كہ يہاں اس سے مراد اسكا لغوى معنى ہے يعنى خشوع و خضوع_

۸_ بيت المقدس كو تصرف ميں لاتے وقت گناہوں سے توبہ كرنا بنى اسرائيل كو اللہ تعالى كى جانب سے حكم تھا_ادخلوا و قولوا حطة

''حطة'' مبتدائے محذوف مثلاً ''مسألتنا '' كى خبر ہے يہ اسم مصدر ہے اور اسكا معنى ہے ركھنا يا نيچے اتارنا _ جملہ ''نغفر لكم ...'' كے قرينے سے اس سے مراد گناہوں كا اٹھنا يا بخشش ہے _ بنابريں '' قولوا حطة'' يعنى كہو اے اللہ ہمارى درخواست ہمارے گناہوں كى معافى ہے_

۱۹۲

۹ _ اللہ تعالى نے حضرت موسىعليه‌السلام كى قوم كو ان كے گناہوں كى بخشش كى خوشخبرى دى اس صورت ميں كہ وہ بيت المقدس ميں آداب كا خيال ركھتے ہوئے داخل ہوں _ادخلوا هذه القرية و قولوا حطة نغفر لكم خطاياكم ظاہراً ايسا ہے كہ '' نغفر لكم'' آيہ مجيدہ ميں پيش ہونے والے سارے امور كا جواب ہے_ پس اسكى تقدير يوں بنتى ہے ''ان تدخلوا و تاكلوا و تدخلوا الباب سجداً و تقولوا حطة نغفر لكم''

۱۰ _ بيت المقدس ميں داخل ہونے سے پہلے بنى اسرائيل پر بہت سارے گناہوں كا بوجھ تھا_نغفر لكم خطاياكم يہ مفہوم اس بناپر ہے كہ ''خطاياكم'' جمع استعمال ہوا ہے_

۱۱_ انسان كے گناہوں كى بخشش كا اختيار اللہ تعالى كے پاس ہے _نغفر لكم خطاياكم

۱۲ _ اللہ تعالى كى بارگاہ ميں استغفار گناہوں كى بخشش كا موجب بنتى ہے _و قولوا حطة نغفر لكم خطاياكم

۱۳ _ اللہ تعالى كے فرامين كا اجراء گناہوں كى بخشش كى زمين فراہم كرتاہے_و ادخلوا الباب سجدا نغفر لكم خطاياكم

۱۴ _ اللہ تعالى كى بارگاہ ميں توبہ و استغفار كے لئے ضرورى ہے كہ پروردگار كى جانب سے ديئے گئے احكام و آداب پر عمل كيا جائے_و قولوا حطة نغفر لكم خطاياكم

۱۵_ حضرت موسىعليه‌السلام كى قوم ميں پاك دامن اور اچھے كردار كے لوگ موجود تھے_و سنزيد المحسنين

'' المحسنين _ نيك لوگ'' ،ہوسكتاہے كہ يہ لفظ بنى اسرائيل كے دوسرے گروہ كے بارے ميں ہو اور يہ مطلب جملہ '' نغفر لكم خطاياكم'' سے سمجھ ميں آتاہے يعنى يہ كہ بنى اسرائيل كے دو گروہ تھے ايك گروہ گناہگاروں كا تھا جس كى طرف ''نغفر لكم خطاياكم'' كے ذريعے اشارہ كيا گيا ہے اور دوسرا گروہ پاك دامن افراد كا تھا اور ''المحسنين'' اسى كو بيان كررہاہے_

۱۶ _ اللہ تعالى نے بنى اسرائيل كے پاك دامن اور نيك افراد كو اگر انہوں نے بيت المقدس ميں داخل ہونے كے آداب كا خيال ركھا تو ايك عظيم اجر عنايت كرنے كى خوشخبرى دى ہے _قولوا حطة نغفر لكم خطاياكم و سنزيد المحسنين

۱۷_ اللہ تعالى كے احكامات كى اطاعت كرنے والے لوگ اگر نيك ہوئے تو انہيں دوسروں كى نسبت زيادہ اجر ملے گا _

و سنزيد المحسنين

۱۸ _ حضرت موسىعليه‌السلام كے زمانے كے بنى اسرائيل كا بيت

۱۹۳

المقدس ميں وارد ہونے والا واقعہ سبق آموز اور ياد ركھنے كے قابل ہے _إذ قلنا ادخلوا و سنزيد المحسنين

جملہ ''اذ قلنا ...'' ، نعمتي( آيت ۴۷) پر عطف ہے يعنى ''اذكروا إذ قلنا ...'' اس وقت كو ياد كرو جب ہم نے حكم ديا ...''

۱۹ _عن الباقر عليه‌السلام قال فى قوله تعالى '' و ادخلوا الباب سجّدا '' ان ذلك حين فصل موسى من أرض التيّه فدخلوا العمران .. .(۱) اللہ تعالى كے اس فرمان '' و ادخلوا كے بارے ميں امام باقرعليه‌السلام سے روايت ہے كہ يہ حكم اس وقت ہوا جب حضرت موسىعليه‌السلام نے سرزمين ''تيہ'' سے نجات حاصل كى اور ايك آباد سرزمين ميں وارد ہوئے_

اجر: اجر كے زيادہ ہونے كى شرائط ۱۶،۱۷

استغفار: استغفار كے نتائج ۱۲; استغفار كے آداب ۱۴; استغفار كى اہميت ۸

اطاعت گزار لوگ: اطاعت گزاروں كا اجر ۱۷

اللہ تعالى : اللہ تعالى كى بخشش ۱۱; اللہ تعالى سے مختص امور ۱۱; اوامر الہى ۱،۲،۷،۸; الہى بشارتيں ۹

بنى اسرائيل: بنى اسرائيل كو بشارت ۹; بنى اسرائيل بيابان ميں ۲; بنى اسرائيل اور بيت المقدس كا تصرف ۲،۳،۶،۷،۸،۱۰; بنى اسرائيل كى تاريخ ۱،۲،۳،۶،۱۸; بنى اسرائيل كى غذائيں ۵; بنى اسرائيل كى سرگردانى ۱۹;بنى اسرائيل كى بخشش كى شرائط ۹; بنى اسرائيل كا گناہ ۱۰; بنى اسرائيل كے نيك لوگ۱۵،۱۶; بنى اسرائيل كى ذمہ دارى ۷،۸; بنى اسرائيل كى نعمتيں ۵; بنى اسرائيل كا بيت المقدس ميں داخلہ ۱،۹،۱۶،۱۸

بيت المقدس: بيت المقدس كا آباد ہونا ۱،۴; بيت المقدس حضرت موسىعليه‌السلام كے زمانے ميں ۴; بيت المقدس كى تاريخ ۴،۶; بيت المقدس كا تصرف ۳،۷،۸; بيت المقدس كى غذائيں ۵; بيت المقدس كا دروازہ ۶; بيت المقدس كے تصرف كا راستہ ۶; سرزمين بيت المقدس ۴

تكليف شرعي: تكليف شرعى پر عمل كے نتائج ۱۳

توبہ: توبہ كے آداب ۱۴

حضرت موسىعليه‌السلام : حضرت موسىعليه‌السلام كا واقعہ ۱۹

____________________

۱) تفسير عياشى ج/ ۱ ص ۴۵ ح ۴۸ ، بحار الانوار ج/۱۳ ص ۱۷۸ ح ۸_

۱۹۴

خشوع: خشوع كى اہميت ۷

ذكر: تاريخ كا ذكر ۱۸

روايت:۱۹

عمل: اوامر الہى پر عمل ۱۳،۱۴،۱۷

گناہ : گناہ كى معافى كى زمين ہموار ہونا ۱۳; گناہ كى بخشش كے عوامل ۱۲; گناہ كى بخشش كا سرچشمہ ۱۱

محسنين ( نيك لوگ): محسنين كا اجر ۱۶; محسنين كے درجات ۱۷

فَبَدَّلَ الَّذِينَ ظَلَمُواْ قَوْلاً غَيْرَ الَّذِي قِيلَ لَهُمْ فَأَنزَلْنَا عَلَى الَّذِينَ ظَلَمُواْ رِجْزاً مِّنَ السَّمَاء بِمَا كَانُواْ يَفْسُقُونَ ( ۵۹ )

مگر ظالموں نے جو بات ان سے كہى گئي تھى اسے بدل ديا تو ہم نے ان ظالموں پر ان كى نافرمانى كى بناپر آسمان سے عذاب نازل كرديا _

۱_ بيت المقدس ميں داخل ہونے سے قبل حضرت موسىعليه‌السلام كى قوم كے بعض لوگ ظالم اور گناہ سے آلودہ تھے_

فبدل الذين ظلموا قولاً غير الذى قيل لهم

۲ _ حضرت موسىعليه‌السلام كى قوم كے حرام خوروں نے بيت المقدس ميں داخل ہوتے ہوئے اپنے گناہوں كى معافى مانگنے اور ''حطة'' كہنے كى بجائے كچھ اور كہنا شروع كيا _فبدل الذين ظلموا قولا غير الذى قيل لهم ايسا معلوم ہوتاہے كہ''الذين ظلموا'' سے مراد وہ لوگ ہيں جن كو آيت ۵۷ ميں ان كى ناشكرى اور ناپاك غذاؤں سے استفادہ كى وجہ سے ظالم كہا گيا ہے_

۳ _ حرام خورى اللہ تعالى كے فرامين سے بغاوت اور ديگر گناہوں كے ارتكاب كى زمين فراہم كرتى ہے_فبدل الذين ظلموا قولا غير الذى قيل لهم

۴ _ ستم گرى اللہ تعالى كے احكامات سے انحراف كى بنياد

۱۹۵

فراہم كرتى ہے _فبدل الذين ظلموا قولاً غير الذى قيل لهم

۵ _ حضرت موسىعليه‌السلام كى قوم كے منحرف اور ستم گر افراد آسمانى عذاب ميں مبتلا ہوئے_فأنزلنا على الذين ظلموا رجزاً من السماء

۶_ اللہ تعالى كے اوامر كو تبديل و تغيير كرنا ظلم ہے اور عذاب كا باعث ہے_فأنزلنا على الذين ظلموا رجزاً من السماء يہاں '' الذين ظلموا'' سے مراد وہ لوگ ہيں جنہوں نے '' حطة '' خدايا تجھ سے گناہوں كى معافى چاہتے ہيں كى جگہ كچھ اور اپنى زبانوں پر جارى كيا _

۷_ بنى اسرائيل كے گناہگاروں پر آسمانى عذاب كا نازل ہونا ان كے پرانے فسق و فجور اور فرمان الہى كو تبديل كرنے كے گناہ كى وجہ سے تھا_فأنزلنا على الذين ظلموا رجزاً من السماء بما كانوا يفسقون ''بما كانوا يفسقون'' ميں باء سببيت اس بات كى طرف اشارہ ہے كہ آسمانى عذاب كے نزول كا سبب بنى اسرائيل كا ديرينہ فسق تھا_ ان كو ظالم، ستمگر''الذين ظلموا'' كہنا اس بات پر دلالت كرتاہے كہ عذاب ان كے ظلم كى وجہ سے ہوا اور يہ ظلم فرمان الہى كى تبديلى تھا بنابريں كہا جاسكتاہے كہ بنى اسرائيل كے ظلم و ستمگرى كے ساتھ ساتھ ان كا پرانا فسق ان پر عذاب كا باعث بنا _

۸ _ اللہ تعالى كى طرف سے متعين شدہ اذكار اور متون كو تبديل كرنے سے اجتناب كرنا چاہيئے_فبدل الذين ظلموا قولاً غير الذى قيل لهم

۹_ فسق كا گناہ كرنے والوں كے لئے دنياوى عذابوں ميں مبتلا ہونے كا خطرہ موجود ہے_فأنزلنا على الذين ظلموا رجزاً من السماء بما كانوا يفسقون

۱۰_ الہى فرامين سے بغاوت اور انحراف ظلم ہے _فبدل الذين ظلموا قولا غير الذى قيل لهم

۱۱ _ حضرت موسىعليه‌السلام كى قوم كے كچھ لوگ بڑے عرصے سے فاسق اور فسادى افراد تھے_بما كانوا يفسقون

'' بما كانوا ...'' ميں باء سببية كى ہے اور '' ما'' مصدرية ہے _ فعل مضارع پر جب ''كان'' آجائے تو زمانہ ماضى ميں استمرار پر دلالت كرتاہے_

۱۲ _ امام باقرعليه‌السلام سے روايت ہے ''و اما الذين ظلموا'' فزعموا حنطة حمراء فبدلوا ...(۱) اور وہ لوگ جنہوں نے ظلم كيا '' انہوں نے جان بوجھ كر لفظ ''حطة' ' كو ''حنطة حمراء سرخ گندم ''ميں تبديل كرديا_

____________________

۱) بحار الانوار ج/ ۱۳ ص ۱۷۸ ح ۸ ، الدرالمنثور ج/۱ ص ۱۷۳_

۱۹۶

اذكار: اذكار ميں تحريف سے اجتناب ۸

استغفار: استغفار كى اہميت ۲

اللہ تعالى : اللہ تعالى كے عذاب ۶

بنى اسرائيل: بنى اسرائيل كى تاريخ ۲،۵; بنى اسرائيل كى تحريف ۷; بنى اسرائيل كے حرام خور ۲; بنى اسرائيل كو استغفار كا حكم ۲; بنى اسرائيل كے ظالم ۱،۱۲; بنى اسرائيل كے فاسقين ۱۱; بنى اسرائيل كا فسق ۷،۱۱; بنى اسرائيل كا انجام ''سزا'' ۷; بنى اسرائيل كے ظالموں كا انجام ۵; بنى اسرائيل كے معصيت كاروں كا انجام ۵; بنى اسرائيل كے گناہ گار ۱،۷; بنى اسرائيل كا بيت المقدس ميں داخل ہونا ۲

تحريف: تحريف سے اجتناب ۸; اوامر الہى كى تحريف ۶; تحريف كا ظلم ۶; تحريف كى سزا ۶،۷

حرام خوري: حرام خورى كے نتائج ۳

روايت: ۱۲

ظلم : ظلم كے نتائج ۴; ظلم كے موارد ۶،۱۰

عذاب: آسمانى عذاب ۵،۷; دنياوى عذاب ۵،۹; عذاب كے موجبات ۶

فاسقين : فاسقين كو دنياوى عذاب ۹

فسق: فسق كى سزا ۷

گناہ: گناہ كى بنياد۳

گناہ گار لوگ: گناہگاروں كو دنياوى عذاب ۹گناہگاروں كو تنبيہ ۹

نافرمان لوگ: ۵

نافرماني: نافرمانى كى بنياد۳،۴; نافرمانى كا ظلم ۱۰; اللہ تعالى كى نافرمانى ۳،۴،۱۰

۱۹۷

وَإِذِ اسْتَسْقَى مُوسَى لِقَوْمِهِ فَقُلْنَا اضْرِب بِّعَصَاكَ الْحَجَرَ فَانفَجَرَتْ مِنْهُ اثْنَتَا عَشْرَةَ عَيْناً قَدْ عَلِمَ كُلُّ أُنَاسٍ مَّشْرَبَهُمْ كُلُواْ وَاشْرَبُواْ مِن رِّزْقِ اللَّهِ وَلاَ تَعْثَوْاْ فِي الأَرْضِ مُفْسِدِينَ ( ۶۰ )

اور اس موقع كو ياد كرو جب موسى نے اپنى قوم كے لئے پانى كا مطالبہ كيا تو ہم نے كہا كہ اپنا عصا پتھر پر مارو جس كے نتيجہ ميں بارہ چشمے جارى ہوگئے اور سب نے اپنا اپنا گھاٹ پہچان ليا اب ہم نے كہا كہ من و سلوى كھاؤ اور چشمہ كا پانى پيئو اور روئے زمين ميں فساد نہ پھيلاؤ_

۱ _ حضرت موسىعليه‌السلام كى قوم فرعون كے تسلط سے نجات پيدا كرنے اور دريا سے عبور كرنے كے بعد ايسى سرزمين ميں گھومتى پھرتى رہى جس ميں پانى كى شديد قلت تھي_و اذ استسقى موسى لقومه

۲ _ حضرت موسىعليه‌السلام نے اللہ تعالى سے درخواست كى كہ ان كى قوم كو پانى كى قلت سے نجات دلائے_و إذ استسقى موسى لقومه لغت ميں '' استسقائ'' كا معنى ہے پانى طلب كرنا اور شرعى اصطلاح ميں ايك خاص انداز سے اللہ تعالى كى بارگاہ ميں بارش كے لئے دعا كرنا ہے_

۳ _ اللہ تعالى نے پانى كے حصول كے لئے حضرت موسىعليه‌السلام كو حكم ديا كہ اپنا عصا پتھر پر ماريں _فقلنا اضرب بعصاك الحجر '' الحجر'' ميں الف لام ممكن ہے جنس كے لئے ہو پس اس سے مراد ديگر اشياء كے مقابل پتھر ہيں _يہ بھى ممكن ہے كہ الف لام عہد حضورى يا عہد ذہنى كا ہو _ اس صورت ميں اس سے مراد خاص پتھر ہے_

۴_ اللہ تعالى نے حضرت موسىعليه‌السلام كى پانى كى درخواست كو بہت جلد قبول فرمايا _فقلنا اضرب بعصاك الحجر

''فقلنا'' كى '' فائ'' اس مطلب كى طرف اشارہ ہے كہ حضرت موسىعليه‌السلام كى دعا اور اسكى قبوليت ميں زمانى فاصلہ نہ تھا_

۵ _ حضرت موسىعليه‌السلام نے اللہ تعالى كے فرمان كے بعد

۱۹۸

بلافاصلہ پانى كى دستيابى كے لئے اپنا عصا پتھر پردے مارا _فقلنا اضرب بعصاك الحجر فانفجرت منه اثنتا عشرة عينا

'' فانفجرت ''كى فاء فصيحہ ہے يعنى ايك مقدر معطوف عليہ كو بيان كررہى ہے _ پس جملے كى تقدير يوں بنتى ہے _ '' فضرب بعصاہ الحجر فانفجرت'' اس جملے كا حذف ہونا گويا اس مطلب كى طرف اشارہ ہے كہ فرمان الہى و ہى مارنا ہے _

۶_ حضرت موسىعليه‌السلام كا عصا پتھر پر پڑنے سے بارہ ۱۲) چشمے پانى كے پھوٹ پڑے_فانفجرت منه اثنتا عشرة عيناً

۷_ حضرت موسىعليه‌السلام كے زمانے ميں بنى اسرائيل كے بارہ ۱۲) قبائل تھے_فانفجرت منه اثنتا عشرة عيناً قد علم كل اناس مشربهم انس كى جمع '' اناس'' ہے اور اس سے مراد بنى اسرائيل كے قبائل ہيں '' اثنتا عشرة عيناً'' كے قرينہ سے معلوم ہوتاہے كہ يہ قبائل بارہ تھے_

۸_ پتھر سے پھوٹنے والے بارہ چشموں ميں سے ہر ايك بنى اسرائيل كے ايك مخصوص قبيلے كے لئے تھاقد علم كل اناس مشربهم '' مشرب ' ' پانى پينے نيز اس جگہ كو بھى كہتے ہيں جہاں سے پانى ليا جائے _ البتہ آيہء مجيدہ ميں اس سے مراد پتھر سے پھوٹنے والے چشمے ہيں _

۹_ بنى اسرائيل كا ہر قبيلہ اپنے مخصوص چشمہ سے آگاہ تھا_قد علم كل اناس مشربهم

۱۰_ پتھر سے پھوٹنے والے بارہ چشموں ميں سے ہر ايك پر ايك خاص علامت تھى جس سے ہر چشمہ بنى اسرائيل كے ايك خاص قبيلے سے مربوط تھا_قد علم كل اناس مشربهم اگرخود چشموں پر علامت نہ ہوتى بلكہ چشمہ پھوٹنے كے بعد علامت لگائي جاتى تا كہ ہر ايك چشمہ ايك خاص قبيلے سے مخصوص ہوجائے تو پھر''قد علم كل اناس مشربهم _ ہر قبيلہ نے اپنا چشمہ پہچان ليا'' اسكى جگہ جملہ يوں ہوتا ''علّم بتايا گيا كہ ...''

۱۱ _ قلت كى صورت ميں رزق كى تقسيم اور كوٹہ سسٹم كرنے كى ضرورت ہوتى ہے _فانفجرت منه اثنتا عشرة عينا قد علم كل اناس مشربهم

۱۲ _ معاشرتى اختلافات كى بنيادوں كو جڑ سے اكھاڑنے كى ضرورت ہے*قد علم كل اناس مشربهم ظاہراً ايسا معلوم ہوتاہے كہ پانى كى تقسيم كرنا اور ہر چشمہ كو بنى اسرائيل كے ايك قبيلہ سے مخصوص كرنا اس لئے تھا تا كہ اختلافات اور تنازعات كوروكا جاسكے_

۱۳ _ پتھر سے متعدد چشموں كا پھوٹنا اور ان كى خاص

۱۹۹

خصوصيات حضرت موسىعليه‌السلام كى قوم كے لئے پيش كيئے گئے معجزات ميں سے تھے_فانفجرت منه اثنتا عشرة عينا قد علم كل اناس مشربهم

۱۴ _ پانى كى قلت كو دور كرنے كے لئے خداوند قدوس كى بارگاہ ميں دعا و مناجات كرنا ايك اچھا اور لائق تحسين عمل ہے اور دينى قائدين كى ذمہ دارى بھى ہے_و إذ استسقى موسى لقومه

۱۵ _ حضرت موسىعليه‌السلام كے استسقاء اور پتھر سے چشموں كے پھوٹنے كا واقعہ سبق آموز اور ياد ركھنے كے لائق ہے_

و اذاستسقى موسى لقومه قد علم كل اناس مشربهم '' اذاستسقى '' آيہ مجيدہ ۴۷ ميں '' نعمتي'' پر عطف ہے يعنى''اذكروا إذ استسقى موسى لقومه''

۱۶_ اللہ تعالى كے ديئے ہوئے رزق و روزى سے كھانا پينا حضرت موسىعليه‌السلام كى قوم كو اللہ تعالى كى نصيحت تھي_

كلوا و اشربوا من رزق الله

۱۷_ اللہ تعالى نے بنى اسرائيل كو اس زمين كى تمام تر وسعتوں ميں فساد و بربادى پھيلانے سے منع فرمايا_و لاتعثوا فى الأرض مفسدين '' لا تعثوا'' كا مصدر'' عثو'' ہے جسكا معنى ہے فساد پھيلانا _

۱۸_ زمين ميں فساد و تباہى پھيلانا ان محرمات ميں سے ہے جن پر بہت تاكيد كى گئي ہے_و لا تعثوا فى الأرض مفسدين

'' مفسدين'' ، '' لاتعثوا'' كے فاعل كے لئے حال ہے '' لا تعثوا'' چونكہ خود فساد و تباہى كى حرمت پر دلالت كررہاہے اس لئے ''مفسدين'' مؤكد حال ہوگا اور اس تكليف شرعى كى تاكيد پردلالت كرتاہے_

۱۹_ اللہ تعالى نے بنى اسرائيل كے ہر قبيلہ كو دوسرے قبيلہ كے كھانے اور پينے والى اشياء كى طرف تجاوز سے منع فرمايا_قد علم كل اناس مشربهم كلوا واشربوا و لا تعثوا فى الأرض مفسدين

ہر چشمے كو بنى اسرائيل كے ايك قبيلے كے ساتھ مخصوص كرنا اور پھر انہيں فساد و تباہى پھيلانے سے منع كرنا اس مطلب كى طرف اشارہ ہے كہ ہر قبيلے كا دوسرے قبيلے كے حقوق پر تجاوز فساد و تباہى پھيلاناہے پس بنى اسرائيل اس سے اجتناب كريں _

۲۰ _ دوسروں كے حقوق پر ڈاكے ڈالنا اور تجاوز كرنا فساد و تباہى كے مصاديق ميں سے ہے _كلوا وا شربوا و لا تعثوا فى الأرض مفسدين

۲۱ _ اللہ تعالى ہى اپنے بندوں كو رزق و روزى عنايت

۲۰۰

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

461

462

463

464

465

466

467

468

469

470

471

472

473

474

475

476

477

478

479

480

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

501

502

503

504

505

506

507

508

509

510

511

512

513

514

515

516

517

518

519

520

521

522

523

524

525

526

527

528

529

530

531

532

533

534

535

536

537

538

539

540

541

542

543

544

545

546

547

548

549

550

551

552

553

554

555

556

557

558

559

560

561

562

563

564

565

566

567

568

569

570

571

572

573

574

575

576

577

578

579

580

581

582

583

584

585

586

587

588

589

590

591

592

593

594

595

596

597

598

599

600

601

602

603

604

605

606

607

608

609

610

611

612

613

614

615

616

617

618

619

620

621

622

623

624

625

626

627

628

629

630

631

632

633

634

635

636

637

638

639

640

641

642

643

644

645

646

647

648

649

650

651

652

653

654

655

656

657

658

659

660

661

662

663

664

665

666

667

668

669

670

671

672

673

674

675

676

677

678

679

680

681

682

683

684

685

686

687

688

689

690

691

692

693

694

695

696

697

698

699

700

701

702

703

704

705

706

707

708

709

710

711

712

713

714

715

716

717

718

719

720

721

722

723

724

725

726

727

728

729

730

731

732

733

734

735

736

737

738

739

740

741

742

743

744

745

746

747

748

749

750

751

752

753

754

755

756

757

758

759

760

761

762

763

764

765

766

767

768

769

770

771

772

773

774

775

776

777

778

779

780

781

782

783

784

785