تفسير راہنما جلد ۱

 تفسير راہنما 10%

 تفسير راہنما مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن
صفحے: 785

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴ جلد ۵ جلد ۶ جلد ۷ جلد ۸ جلد ۹ جلد ۱۰ جلد ۱۱
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 785 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 201011 / ڈاؤنلوڈ: 5794
سائز سائز سائز
 تفسير راہنما

تفسير راہنما جلد ۱

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

گناہگار: گناہگار اور اللہ كى رحمت ۱۰;گناہگار اور فضل خدا ۱۰

معجزہ : كوہ طور كا معجزہ ۲

نااميدى : نااميدى سے اجتناب ۱۰; اللہ كى رحمت سے

نااميدى ۱۰

نقصان : نقصان كے عوامل ۶،۸،۹

ہلاكت : ہلاكت كے اسباب ۶

وَلَقَدْ عَلِمْتُمُ الَّذِينَ اعْتَدَواْ مِنكُمْ فِي السَّبْتِ فَقُلْنَا لَهُمْ كُونُواْ قِرَدَةً خَاسِئِينَ ( ۶۵ )

تم ان لوگوں كو بھى جانتے ہو جنھوں نے شنبہ كے معاملہ ميں زيادتى سے كام ليا تو ہم نے حكم دے ديا كہ اب ذلت كے ساتھ بندر بن جائيں _

۱_ بنى اسرائيل كے لئے ہفتہ (شنبہ) والے دن كام ، كارو بار كرنا حرام تھا_و لقد علمتم الذين اعتدوا منكم فى السبت

''سبت'' كا معنى ہے كام روكنا يا سكون و استراحت اسكو تعطيل يا چھٹى سے تعبير كيا جاتاہے_ '' اعتدوا'' كا مصدر ہے '' اعتدائ'' اسكا معنى ہے تجاوز يا خلاف ورزى كرنا _

۲ _ بنى اسرائيل كے ايك گروہ نے اللہ تعالى كے فرمان كى اعتنا نہ كى اور ہفتہ ( شنبہ) كى چھٹى كى خلاف ورزى كى _

و لقد علمتم الذين اعتدوا منكم فى السبت

۳ _ اللہ تعالى نے اصحاب سبت ( ہفتہ كے دن كى خلاف ورزى كرنے والے ) كو راندے ہوئے بندروں ميں تبديل كرديا _فقلنا لهم كونوا قردة خاسئين

''قردة'' كا مفرد ''قرد'' ہے جسكا معنى ہے بندر ''خاسي'' كا معنى ہے راندہ ہوا نيز حقير اور ذليل كے معنى ميں بھى آتا ہے _ خاسئين'' ، ''كونوا'' كى دوسرى خبر ہے_

۴_ بنى اسرائيل اصحاب سبت كى برى داستان اور اس كے علل و اسباب سے آگاہ تھے_لقد علمتم الذين اعتدوا منكم فى السبت فقلنا لهم كونوا قردة خاسئين

۲۲۱

۵ _ بنى اسرائيل قرآن حكيم پر ايمان نہ لانے اور اعمال صالح انجام نہ دينے كى صورت ميں مختلف طرح كے دنياوى عذاب ( ذليل ہونا، راندہ درگاہ ہونا و غيرہ ) ميں مبتلا ہوئے _و لقد علمتم الذين اعتدوا منكم فى السبت فقلنا لهم كونوا قردة خاسئين گذشتہ آيات ۴۱تا ۴۵ اور ۶۲) ميں اللہ تعالى نے بنى اسرائيل كو قرآن حكيم پر ايمان، اس كى تصديق اور نيك اعمال بجالانے كى دعوت دى _ اس آيہ مجيدہ ميں بنى اسرائيل كو اصحاب سبت كى برى سرگذشت كى ياد دلائي گئي تا كہ ان كے لئے تنبيہ كا باعث ہو، كہيں ايسا نہ ہو كہ اللہ كى دعوت اور اس كے فرامين كى خلاف ورزى كريں تو اصحاب سبت كى طرح مبتلا ہو جائيں _

۶ _ بنى اسرائيل كے بندر بننے والے لوگ زياں كار اور خسارہ اٹھانے والوں ميں سے ہيں _لكنتم من الخاسرين _ و لقد علمتم الذين اعتدوا منكم فى السبت آيہ مجيدہ ميں خسارہ اور زياں ( نقصان) كى نوع كا ذكر كيا گيا ہے اس كا ماقبل آيت كے ذيل ميں ذكر ہوا ہے يعنى وہ خسارہ يا نقصان جو گناہ اور تجاوز كے نتيجے ميں ہوتاہے جيسا كہ اصحاب سبت كا خسارہ _

۷ _ احكام الہى سے انحراف كرنے والوں كے ليئے مختلف طرح كے دنياوى عذاب ( ذليل ہونا اور راندہ جانا) ميں مبتلا ہونے كا خطرہ موجو د ہے _الذين اعتدوا منكم فى السبت فقلنا لهم كونوا قردة خاسئين

۸ _ اللہ تعالى كى حاكميت مطلق ( لا محدود) ہے اور عالم آفرينش پر نافذ ہے_قلنا لهم كونوا قردة آيہ مجيدہ ميں يہ نہيں فرمايا گيا كہ بنى اسرائيل كے متجاوزين بندر بن گئے ''كونوا قردة'' كے حكم ميں اس كى عملى صورت كى تصريح نہ كرنا جبكہ منظور نظر يہى ہے_ يہ اس حقيقت كى طرف اشارہ ہے كہ فرامين و احكام الہى حتمى اور اجتناب ناپذير ہيں ان كے راستے ميں كوئي چيز ركاوٹ نہيں ہوسكتي_ فرمان ، يعنى اس كا ہوجانا _

۹ _ عالم طبيعات ميں ايك موجود كا دوسرے موجود ميں تبديل ہونا ممكن ہے_قلنا لهم كونوا قردة خاسئين

۱۰_ امام سجادعليه‌السلام سے روايت ہے:اما القردة فكانوا قوماً من بنى اسرائيل اعتدوا فى السبت فصادوا الحيتان فمسخهم الله قردة ..(۱) بندر بنى اسرائيل كا ايك گروہ تھا جنہوں نے ہفتے كے دن اللہ تعالى كے فرمان كى خلاف ورزى كى اور مچھلى كا شكار كيا پس اللہ نے ان كى صورت كو مسخ كركے بندر بنا ديا _

____________________

۱) خصال ج/۲ ص ۴۹۳ ح /۱ ، نورالثقلين ج/ ۱ ص ۸۶ ح ۲۳۱ و ۲۳۲_

۲۲۲

۱۱ _عبدالله بن الفضل الهاشمى قال قلت لابى عبدالله عليه‌السلام '' و لقد علمتم الذين اعتدوا منكم فى السبت فقلنا لهم كونوا قردة خاسئين'' قال ان اولئك مسخوا ثلاثة ايام ثم ماتوا و لم يناسلوا و ان القردة اليوم مثل اولئك (۱) عبد الله بن فضل ہاشمى نے امام صادقعليه‌السلام سے اللہ تعالى كے اس كلام''و لقد علمتم الذين اعتدوا منكم فى السبت فقلنا لهم كونوا قردة خاسئين ' ' كے بارے ميں سوال كيا تو امامعليه‌السلام نے فرمايا وہ لوگ (يہودي) مسخ شدہ حالت ميں تين دن رہے اور اسكے بعد مرگئے جبكہ ان كى نسل بھى باقى نہ رہي_ موجودہ بندر ان بندروں كى طرح ہيں ( گويا ان كے مشابہ ہيں نہ كہ ان كى نسل ہيں )_

اصحاب سبت : اصحاب سبت كا راندہ جانا ۳; اصحاب سبت كا انجام ۴; اصحاب سبت كا مسخ ہونا ۳،۱۱

اللہ تعالى : اللہ كى حاكميت ۸

انجام: برا انجام ۴ انواع كا تبديل ہونا : ۳،۹

بنى اسرائيل : بنى اسرائيل كى تجاوز گرى كے نتائج ۳; بنى اسرائيل كى آگاہى ۴; بنى اسرائيل اور اصحاب سبت ۴; بنى اسرائيل كى تاريخ ۲،۳،۶; بنى اسرائيل ميں تعطيل ۱،۲; بنى اسرائيل كى ذلت ۵; بنى اسرائيل كے زياں كار ۶; بنى اسرائيل ميں ہفتہ ۱،۳; بنى اسرائيل كا راندہ جانا ۵; بنى اسرائيل كے لئے دنياوى عذاب ۵; بنى اسرائيل كى نافرمانى ۲; بنى اسرائيل كے محرمات ۱; بنى اسرائيل كا مسخ ہونا ۱۰; بنى اسرائيل كے مسخ شدہ افراد ۶; بنى اسرائيل كو تنبيہ ۵

ذلت: ذلت كے عوامل ۷

روايت: ۱۰، ۱۱

زياں كار : ۶

عالم ہستي: عالم ہستى كا حاكم ۸

عذاب: دنياوى عذاب كے موجبات ۵،۷

كفر: قرآن كے كفر كے نتائج ۵

____________________

۱) علل الشرائع ج/ ۱ ص ۲۲۵ ، ۲۲۷ ح / ۱ ب ۱۶۲ ، بحارالانوار ج/ ۴۴ ص ۲۷۱ ح/ ۱ _

۲۲۳

مسخ ہونا: مسخ ہونے كا امكان ۹; بندر ميں مسخ ہونا ۳،۶،۱۰،۱۱

نافرمان لوگ: نافرمانوں كى تذليل ۷; نافرمانوں كا راندہ جانا ۷; نافرمانوں كے ليئے دنياوى عذاب ۷

نافرما ني: نافرمانى كے نتائج ۷; اللہ تعالى كى نافرمانى ۲،۷

نيك عمل: نيك عمل ترك كرنے كے نتائج۵

ہفتہ : ہفتہ كى چھٹى ۱،۲; ہفتہ كے دن كام ، كاروبار كى حرمت۱; ہفتہ كے دن مچھلى كا شكار ۱۰

يہود: متجاوز يہود ۳

فَجَعَلْنَاهَا نَكَالاً لِّمَا بَيْنَ يَدَيْهَا وَمَا خَلْفَهَا وَمَوْعِظَةً لِّلْمُتَّقِينَ ( ۶۶ )

اور ہم نے اس جنسى تبديلى كو ديكھنےوالوں اور بعد والوں كے لئے عبرت اورصاحبان تقوى كےلئے نصيحت بناديا (۶۶)

۱_ اصحاب سبت كا عذاب و عقوبت ان كے ہم عصر افراد اور ما بعد كے انسانوں كے لئے درس عبرت ہے_

فجعلناها نكالا لما بين يديها و ما خلفها '' فجعلناها'' كى ضمير سے مراد اصحاب سبت كا عذاب و عقوبت ہے اور يہ مطلب '' فقلنالہم كونوا قردة'' سے سمجھ ميں آتاہے _'' يديہا'' اور ''خلفہا'' كى ضمير ''الذين اعتدوا'' كى طرف لوٹتى ہے اس كو مؤنث اسى لئے استعمال كيا ہے كہ مراد''امت'' يا ''طائفة ''ہے '' ما بين يديہا_جو تمہارے سامنے ہے '' گويا اصحاب

سبت كے ہم عصر لوگ مراد ہيں _ '' ما خلفہا _ جو ان كے بعد ہے'' گويا آنے والے انسان مراد ہيں _

۲ _ مسخ ہونا اصحاب سبت اور ان امتوں كى سزا ہے جو احكام الہى كى خلاف ورزى كرتى ہيں _

فجعلناها نكالا لما بين يديها و ما خلفها

۳ _ اصحاب سبت كا انجام اہل تقوى كےلئے وعظ و نصيحت ہے _فجعلناها موعظة للمتقين

۴ _ گناہگار اور فرمان الہى سے انحراف كرنے والى امتوں كے دنياوى عذاب اور برے انجام ميں مبتلا ہونے كا خطرہ موجود ہے _فجعلناها نكالا لما بين يديها و ما خلفها

۲۲۴

۵_ اصحاب سبت كے برے انجام پر توجہ كرنا گناہ اور اللہ تعالى كى نافرمانى سے بچنے كى زمين فراہم كرتاہے_فجعلنا ها نكالا لما بين يديها و ما خلفها ''نكال''كا معنى عبرت ہے نيز باز ركھنے والى ، عقوبت اور خوفناك انجام كے معنى ميں بھى آياہے_

۶_ واقعات اور حوادث كا عبرت آموز ہونا خداوند متعال كے دست قدرت ميں ہے_فجعلنا ها نكالاً جملہ''فجعلناہا (ہم نے اس عقوبت كو عبرت قرار ديا) ميں ''جعل'' كى نسبت خداوند متعال كى طرف دينا اس مطلب كى طرف اشارہ ہے كہ كوئي ايك بھى واقعہ يا حادثہ اگر عبرت كى نشانى بننا چاہے تو يہ فقط خداوند متعال كے دست قدرت ميں ہے_

۷ _ گذشتہ امتوں كى سرگذشت سے نصيحت حاصل كرنا اس بات كى نشانى ہے كہ انسان ميں روح تقوى موجود ہے _

فجعلنا ها و موعظة للمتقين

۸ _ امتوں كى تاريخ يا سرگذشت موعظہ، عبرت ا ور سبق آموزى كا سرچشمہ ہے_فجعلناها نكالاً لما بين يديها و ما خلفها و موعظة

۹_'' فجعلناها'' الضمير يعود الى الامة التى مسخت و هم اهل ايله قرية على شاطئي البحر و هو المروى عن ابى جعفر عليه‌السلام ...(۱) امام باقرعليه‌السلام سے روايت ہے كہ اللہ تعالى نے شہر ايلہ (ساحل سمند رپر واقعہ تھا) كے رہنے والوں كو مسخ كيا_

اصحاب سبت: اصحاب سبت سے عبرت ۱،۳،۵; اصحاب سبت كا عذاب ۱; اصحاب سبت كا انجام ۵; اصحاب سبت كو سزا ۲،۳; اصحاب سبت كا مسخ ہونا ۲

اللہ تعالى : مشيت الہي۶

انجام : برا انجام ۴

اہل ايلہ: اہل ايلہ كا مسخ ہونا ۹

تاريخ : تاريخ سے عبرت ۱،۶،۷،۸; تاريخ كے فوائد ۱،۸

____________________

۱) مجمع البيان ج/۱ص ۲۶۵ ، نورالثقلين ج/۱ص ۸۷ ح ۲۳۷_

۲۲۵

تقوى : تقوى كى نشانياں ۷

ذكر: ذكر تاريخ كے نتائج و اثرات۵

روايت:۹

عبرت: عبرت كے عوامل ۱،۳،۸

عذاب: دنياوى عذاب كے موجبات۴

گناہ : گناہ سے اجتناب كى زمين آمادہ ہونا۵

گناہگار: گناہگاروں كا انجام۴; گناہگاروں كى دنياوى سزا ۴

متقين : متقين كى عبرت ۳; متقين كے لئے موعظہ ۳

موعظہ : موعظہ كے اسباب ۸

نافرمان لوگ: نافرمانوں كا انجام ۴; نافرمانوں كى دنياوى سزا ۴; نافرمانوں كا مسخ ہونا ۲

نافرمانى : نافرمانى سے اجتناب كى زمين فراہم ہونا ۵

وَإِذْ قَالَ مُوسَى لِقَوْمِهِ إِنَّ اللّهَ يَأْمُرُكُمْ أَنْ تَذْبَحُواْ بَقَرَةً قَالُواْ أَتَتَّخِذُنَا هُزُواً قَالَ أَعُوذُ بِاللّهِ أَنْ أَكُونَ مِنَ الْجَاهِلِينَ ( ۶۷ )

اور وہ موقع بھى ياد كرو جب موسى نے قومسے كہا كہ حكم ہے كہ ايك گائے ذبح كروتوان لوگوں نے كہا كہ آپ ہميں مذاقبنارہے ہيں _ فرمايا پناہ بخدا كہ ميں جاہلوں ميں سے ہوجاؤں (۶۷)

۱_خداوند متعال نے حضرت موسىعليه‌السلام كى قوم كو مادہ گائے ذبح كرنے كا حكم ديا _ان الله يامركم ان تذبحوا بقرة

مادہ گائے كے حكم ذبح كا استفادہ بعد والى آيت ميں لفظ '' بكر'' سے ہوتاہے_

۲ _ حضرت موسىعليه‌السلام اپنى قوم كو فرمان الہى ( گائے ذبح كرنا) پہنچانے والے تھے _إذ قال موسى لقومه ان الله يامركم ان تذبحوا بقرة

۳ _ حضرت موسىعليه‌السلام كا گائے ذبح كرنے كے حكم پر تاكيد كرنا اللہ تعالى كى جانب سے تھا نہ كہ حضرت موسىعليه‌السلام كى رائے_إذ قال موسى لقومه ان الله يامركم

۲۲۶

۴ _ بنى اسرائيل كا گائے كے حكم ذبح كو بازيچہ قرار دينا اور اپنے ساتھ تمسخر كئے جانے كے برابر قرار دينا، يہ انكا تحليل و تجزيہ اور باطل گمان تھا_اتتخذنا هزواً '' ہزواً'' يعنى كھيل تماشا سمجھنا اور تمسخر اڑانا_ آيت ۷۲ ، ۷۳ سے يہ بات سمجھ ميں آتى ہے كہ يہ حكم اس قتل كے بارے ميں تھا جو بنى اسرائيل كے درميان ہوا _ ہر قبيلہ اسكا ذمہ دار دوسرے كو جانتا تھا_ يہ جو حضرت موسىعليه‌السلام كى قوم ذبح گائے كے فرمان اور واردات قتل ميں كوئي ربط محسوس نہ كرتى تھي_ اس فرمان كا يوں تحليل و تجزيہ كرتے ہوئے اسے اپنے ساتھ تمسخر كيا جانا سمجھتے تھے_

۵ _ حضرت موسىعليه‌السلام كى قوم كا گمان يہ تھا كہ گائے ذبح كرنے كا فرمان حضرت موسىعليه‌السلام كى طرف سے تھا نہ كہ اللہ تعالى كى جانب سے _اتتخذنا هزواً '' اتتخذنا هزواً _ كيا ہمارا تمسخر اڑاتے ہو'' يہ جملہ بنى اسرائيل كا حضرت موسىعليه‌السلام كو خطاب تھا_ اس سے معلوم ہوتاہے كہ ذبح گائے كے حكم كو خداوند متعال كى طرف سے نہيں بلكہ حضرت موسىعليه‌السلام كى جانب سے تصور كرتے تھے_

۶_ حضرت موسىعليه‌السلام جانتے تھے كہ ان كى قوم گائے ذبح كرنے كے فرمان كى مخالفت كرے گى اورڈٹ جائے گي_

ان الله يامركم ان تذبحوا بقرة حضرت موسىعليه‌السلام نے حكم الہى كو جملہ اسميہ '' ان اللہ ...'' سے بيان كيا جو حرف تاكيد كے ساتھ آياہے_ معمولاً كلام كے ساتھ تاكيد اس لئے استعمال كى جاتى ہے كہ مخاطب اسكو قبول كرنے پر تيار نہيں ہوتا يايہ كہ اس ميں شك كا اظہار كرتاہے_

۷_ اللہ تعالى كا حكم پہنچانے ميں حضرت موسىعليه‌السلام كى قوم نے ان پر دروغ گوئي كى تہمت لگائي_ان الله يامركم قالوا اتتخذنا هزواً

حضرت موسىعليه‌السلام اس جملہ '' ان اللہ ...'' كے ذريعے صراحت سے بيان فرماتے ہيں كہ يہ اللہ تعالى كا ہى حكم ہے ليكن بنى اسرائيل اس جملہ ''اتتخذنا'' كے ذريعے يہى سمجھتے ہيں كہ يہ موسىعليه‌السلام كا حكم ہے _ گويا ان كا گمان تھا كہ حضرت موسىعليه‌السلام نے دروغ گوئي سے كام ليتے ہوئے اسكو اللہ كى طرف نسبت دى ہے_

۸_ بنى اسرائيل نے حضرت موسىعليه‌السلام پر يہ الزام لگايا كہ انہوں نے اپنى قوم كا تمسخر اڑايا ہے_اتتخذنا هزواً

۹ _ حضرت موسىعليه‌السلام كے زمانے ميں معاشرے ميں عقيدہ و رائے كے اظہار كى آزادى حاصل تھي_ اتتخذنا هزواً

۱۰_ حضرت موسىعليه‌السلام نے اس امر سے كہ ان كا شمار جاہلوں ميں ہو اللہ تعالى كى پناہ طلب كى _اعوذ بالله ان اكون من الجاهلين

۲۲۷

۱۱_ حضرت موسىعليه‌السلام نے لوگوں كا مذاق اڑانے كو جاہلانہ اقدام قرار ديا اسطرح انہوں نے اپنى قوم كے گمان و خيال كو اپنے بارے ميں نادرست قرار ديا_قال اعوذ بالله ان اكون من الجاهلين

۱۲_ حضرت موسىعليه‌السلام كى قوم ان پر راسخ ايمان نہ ركھتى تھي_اتتخذنا هزواً

۱۳ _ خود كو ناروا اور بے جا الزامات سے بَرى ثابت كرنے كى كوشش كرنا ايك اچھا اور قابل تعريف عمل ہے_

قالوا اتتخذنا هزواً قال اعوذ بالله ان اكون من الجاهلين

۱۴ _ انبياءعليه‌السلام لوگوں كے تمسخر اڑانے اور انہيں كھيل تماشا تصور كرنے سے پاك و منزہ ہيں _قال اعوذ بالله ان اكون من الجاهلين

۱۵ _ انبياءعليه‌السلام جاہلانہ كردار سے پاك و منزہ ہيں _قال اعوذ بالله ان اكون من الجاهلين

۱۶_ حضرت موسىعليه‌السلام كى قوم انبياءعليه‌السلام كى ضرورى معرفت نہ ركھتى تھي_اتتخذنا هزواً قال اعوذ بالله ان اكون من الجاهلين

۱۷_ حضرت موسىعليه‌السلام كا اللہ تعالى كى پناہ مانگنا اس چيز سے تھا كہ حضرت موسىعليه‌السلام كسى بھى چيز كو خداوند متعال كى طرف جھوٹ منسوب كريں _اتتخذنا هزواً قال اعوذ بالله ان اكون من الجاهلين يہ جملہ '' اعوذ باللہ ...'' ان الزمات پر ناظر ہے جو اس جملہ '' اتتخذنا ہزواً'' ميں ہيں اس جملہ ميں دو باطل خيال اور بے جا الزام موجود ہيں ۱ _ حضرت موسىعليه‌السلام نے لوگوں كو بازيچہ سمجھا ہے ۲ _ گائے ذبح كرنے كا حكم حضرت موسىعليه‌السلام كى طرف سے ہے نہ كہ خداوند متعال كى جانب سے _

۱۸_ انبياءعليه‌السلام ہرگز خداوند متعال كى طرف كسى جھوٹے حكم كى نسبت نہيں ديتے _اتتخذنا هزواً قال اعوذ بالله ان اكون من الجاهلين

۱۹_ الہى احكام كے بيان اور ان كو لوگوں تك پہنچانے ميں انبياءعليه‌السلام معصوم ہيں _اتتخذنا هزواً قال اعوذ بالله ان اكون من الجاهلين

۲۰_ لوگوں كا تمسخر اڑانا جاہلانہ كردار ہے_اتتخذنا هزواً قال اعوذ بالله ان اكون من الجاهلين

۲۱ _ جاہلانہ كردار اور وہ لغزشيں جن كى بنياد جہالت پر مبنى ہو ان سے دور رہنے كے لئے اللہ تعالى كى پناہ اور ا س كى نصرت طلب كرنا ضرورى ہے_قال اعوذ بالله ان اكون من الجاهلين

۲۲ _ جہالت اور نادانى خطرات كو جنم ديتى ہے اور لغزشوں كا سرچشمہ ہے _اعوذ بالله ان اكون من الجاهلين

۲۲۸

''اعوذ''كا مصدر ''عياذ'' ہے جس كا معنى ہے پناہ لينا اور يہ اس وقت ہوتا جب انسان كسى چيز كے شر سے خوف زدہ ہو_

۲۳ _ لوگوں كا مذاق اڑانا اور تمسخر كرنا، اس كى بنياد جہالت و نادانى ہے_اتتخذنا هزواً قال اعوذ بالله ان اكون من الجاهلين

۲۴ _ اللہ تعالى كى طرف كسى امر يا حكم كى جھوٹى نسبت دينے كا منبع اور دليل جہالت و نادانى ہے _اتتخذنا هزواً قال اعوذ بالله ان اكون من الجاهلين_

حضرت موسىعليه‌السلام كى قوم كا يہ الزام كہ گائے ذبح كرنے كا حكم اللہ تعالى كى طرف سے نہيں ہے بلكہ موسىعليه‌السلام نے اسے خدا كى طرف نسبت دى ہے اس پر حضرت موسىعليه‌السلام نے فرمايا '' ميں جاہلانہ امور سے دور ہوں '' يعنى يہ امر جہالت پر مبنى ہے_

۲۵_ امام صادقعليه‌السلام نے ارشاد فرمايا:''ان رجلاً من خيار بنى اسرائيل وعلماء هم خطب امراة منهم فانعمت له وخطبها ابن عم لذلك الرجل وكان فاسقاً ردياً فلم ينعموا له فحسد ابن عمه الذى انعموا له فقعد له فقتله غيلة ثم حمله الى موسي عليه‌السلام فقال يا نبى الله هذا ابن عمى قد قتل قال موسي عليه‌السلام من قتله؟ قال لا ادرى فعظم ذلك على موسى عليه‌السلام فاجتمع اليه بنو اسرائيل فقالوا ما ترى يا نبى الله'' قال لهم موسى عليه‌السلام '' ان الله يامركم ان تذبحوا بقرة'' (۱) بنى اسرائيل كے علماء و بزرگان ميں سے ايك فرد نے ايك خاتون سے شادى كى درخواست كى تو اس نے قبول كرلى اسى خاتون كا رشتہ اس عالم دين كے چچا زاد نے بھى مانگا جو نہايت پست اور فاسق و فاجر شخص تھا پس انہوں نے اس كو رد كرديا ( مثبت جواب نہ ديا ) پس اس چچا زاد نے اس عالم دين سے حسد كيا اور اس كى تاك ميں بيٹھ گيا اور اس كو دھوكے سے قتل كرديا پھر اس كا جنازہ حضرت موسىعليه‌السلام كے پاس لے گيا _ كہنے لگا اے اللہ كے نبى يہ ميرا چچا زاد ہے اس كو كسى نے قتل كرديا ہے حضرت موسىعليه‌السلام نے پوچھا كس نے قتل كيا ہے كہنے لگا مجھے نہيں معلوم يہ واقعہ حضرت موسىعليه‌السلام پر بڑا گراں گذرا _ بنى اسرائيل حضرت موسىعليه‌السلام كے گرد جمع ہوگئے اور كہنے لگے اے اللہ كے نبىعليه‌السلام آپعليه‌السلام كا حكم كيا ہے؟ تو حضرت موسىعليه‌السلام نے فرمايا ''بے شك اللہ تمہيں حكم كرتاہے كہ گائے ذبح كرو ...''

آزادى : حضرت موسىعليه‌السلام كے زمانے ميں آزادى ۹

استعاذہ : ( پناہ طلب كرنا ) اللہ تعالى كى پناہ طلب كرنا ۱۰;اللہ تعالى كى پناہ طلب كرنے كى اہميت ۲۱

____________________

۱) تفسير قمى ج/ ۱ ص ۴۹ ، نورالثقلين ج/۱ ص۸۸ ح ۲۴۰_

۲۲۹

اظہار رائے كى آزادي: اظہار رائے كى آزادى كى تاريخ ۹

اللہ تعالى : اوامر الہى ۱،۳

انبياءعليه‌السلام : انبياءعليه‌السلام اور لوگوں كا تمسخر اڑانا ۱۴; انبياءعليه‌السلام اور اللہ تعالى پر جھوٹ باندھنا ۱۸; انبياءعليه‌السلام اور جاہلانہ عمل ۱۵; انبياءعليه‌السلام كى تبليغ ۱۹; انبياءعليه‌السلام كا پاك و منزہ ہونا ۱۴،۱۵،۱۸; انبياءعليه‌السلام كى صفات ۱۴، ۱۵; انبياءعليه‌السلام كى عصمت ۱۹

بنى اسرائيل: بنى اسرائيل كے تمسخر ۴،۱۱; بنى اسرائيل اور انبياءعليه‌السلام ۱۶; بنى اسرائيل اور حضرت موسىعليه‌السلام ; ۷،۸،۱۲; بنى اسرائيل كى حضرت موسىعليه‌السلام پر بے اعتقادى ۱۲; بنى اسرائيل كے گمان و توہمات۵; بنى اسرائيل كى تاريخ ۱،۴،۵ ، ۷،۸; بنى اسرائيل كى جہالت ۱۱،۱۶; بنى اسرائيل كا گائے كو ذبح كرنا ۱،۳،۵; بنى اسرائيل كا خدا كے بارے ميں عقيدہ ۱۱; بنى اسرائيل كى گائے كا واقعہ ۲۵; بنى اسرائيل كى گائے ۴،۶،۷

جہالت: جہالت كے نتائج ۲۱، ۲۲،۲۳،۲۴

جھوٹ باندھنا : اللہ تعالى پر جھوٹ باندھنے كى بنياد۲۴

حضرت موسىعليه‌السلام : حضرت موسىعليه‌السلام كا پناہ طلب كرنا ۱۰،۱۷; حضرت موسىعليه‌السلام كا قبل ازوقت متوجہ ہونا ۶; حضرت موسىعليه‌السلام كى تبليغ ۲; حضرت موسىعليه‌السلام پر تمسخر اڑانے كى تہمت ۸; حضرت موسىعليه‌السلام پر دروغ گوئي كى تہمت ۷; حضرت موسى كا واقعہ ۶،۷،۸،۱۰،۱۱; حضرت موسىعليه‌السلام كى ذمہ دارى ۲; حضرت موسىعليه‌السلام اور اللہ تعالى پر جھوٹ كى نسبت ۱۷; حضرت موسىعليه‌السلام اور عقيدہ كى تصحيح ۱۱; حضرت موسىعليه‌السلام اور جہلاء ۱۰

خود: خود كو تہمت سے بَرى كرنا ۱۳

روايت: ۲۵

عقيدہ: آزادى عقيدة كى تاريخ ۹

عمل: جاہلانہ عمل سے اجتناب ۲۱; پسنديدہ عمل ۱۳; جاہلانہ عمل ۲۰

عوام: عوام كا تمسخر ۲۰

گائے : ۱ لغزش : لغزش كے اسباب ۲۱،۲۲ مدد طلب كرنا : اللہ تعالى سے مدد طلب كرنے كى اہميت ۲۱

مذاق اڑانا: مذاق اڑانے كى بنياد۲۳

۲۳۰

قَالُواْ ادْعُ لَنَا رَبَّكَ يُبَيِّن لّنَا مَا هِيَ قَالَ إِنَّهُ يَقُولُ إِنَّهَا بَقَرَةٌ لاَّ فَارِضٌ وَلاَ بِكْرٌ عَوَانٌ بَيْنَ ذَلِكَ فَافْعَلُواْ مَا تُؤْمَرونَ ( ۶۸ )

ان لوگوں نےكہا كہ اچھأ خدا سے دعا كيجئے كہ ہميں اسكى حقيقت بتائے _ انھوں نے كہا كہ ايسيگائے چاہئے جو نہ بوڑھى ہو نہ بچہ _درميانى قسم كى ہو اب حكم خدا پر عمل كرو(۶۸)

۱_ بنى اسرائيل اپنے پہلے انكار كے بعد مطمئن ہوگئے كہ يہ حكم اللہ تعالى كى جانب سے ہے _قالوا اتتخذنا هزواً قا لوا ادع لنا ربك يبين لنا ماهي گائے كى خصوصيات اور مشخصات كو بيان كرنے كا تقاضا اس معنى كى طرف اشارہ ہے كہ حضرت موسىعليه‌السلام كى قوم كو ان كے اس كلام ''اعوذ باللہ ...'' سے يقين ہوگيا كہ يہ حكم اللہ تعالى كى جانب سے ہى ہے_

۲ _ حضرت موسىعليه‌السلام كى قوم كو قتل كا معمہ حل كرنے كے لئے ہر طرح كى گائے كافى ہوگى ، اس پر يقين نہ تھا_

قالوا ادع لنا ربك يبين لنا ما هي

۳ _ حضرت موسىعليه‌السلام كى قوم نے ان سے چاہا كہ وہ گائے جو ذبح ہونى چاہيئے اسكى خصوصيات ہمارے لئے اللہ تعالى سے سوال كريں _قالوا ادع لنا ربك يبين لنا ماهي

۴ _ گائے كا درميانى عمر كا ہونا (نہ نوجوان بچھڑ ا ہو اور نہ ہى بوڑھى گائے ہو) ان معين كى گئي خصوصيات ميں سے تھا جو گائے حضرت موسىعليه‌السلام كى قوم ذبح كرنے پر مامور كى گئي _انها بقرة لا فأرض و لا بكر عوان بين ذلك '' فأرض'' كا معنى ہے بوڑھى '' بقرة بكر'' ايسى جو اں سال گائے كو كہتے ہيں جو حاملہ نہ ہوئي ہو ( لسان العرب) '' عوان '' كا معنى درميانى عمر ہے _

۵ _ حضرت موسىعليه‌السلام نے اپنى قوم كو جس پر مامور تھى (جواں سال گائے ذبح كرنا ) اسكا حكم ديا _فافعلوا ما تؤمرون

۶ _ ديگر خصوصيات كے سوال كرنے سے پہلے گائے كا جو اں سال ہونا ہى ضرورى و لازم تھا جس كے ذبح كرنے پر بنى اسرائيل مامور تھے_ عوان بينذلك فافعلوا ما تؤمرون '' فافعلوا ما تؤمرون _ جس پر مامور ہو عمل

۲۳۱

كرو '' يہ جملہ بيان كررہاہے كہ حضرت موسىعليه‌السلام كى قوم كى تكليف شرعى يا انكا '' مامور بہ'' صرف جو اں سال گائے تھى جس ميں ديگر خصوصيات كا بيان نہ تھا_

۷_ حضرت موسىعليه‌السلام نے لوگوں سے چاہا كہ جس گائے كے ذبح كرنے پر مامور ہيں اسكے بارے ميں مزيد سوالات كركے خود كو مشكلات سے دوچار نہ كريں _فافعلوا ما تؤمرون

۸_ امام صادقعليه‌السلام سے اس آيت '' قال انہ يقول انہا بقرة لا فأرض و لا بكر'' كے بارے ميں روايت ہے كہ آپعليه‌السلام نے فرمايا :والفأرض التى قد ضربها الفحل و لم تحمل والبكر التى لم يضربها الفحل (۱)

'' فأرض'' ايسى گائے كو كہتے ہيں جسكا جوڑا تو بنا ہو ليكن حاملہ نہ ہوئي ہو اور '' بكر'' ايسى گائے كو كہتے ہيں جسكا جوڑا نہ بناہو_

بنى اسرائيل: بنى اسرائيل كے سوالات ۷; بنى اسرائيل كى تاريخ ۱،۲،۳،۶; بنى اسرائيل كى خواہشات ۳; بنى اسرائيل كا گائے ذبح كرنا ۱،۲،۵،۶; بنى اسرائيل كا شك ۲;بنى اسرائيل كى گائے كى خصوصيات ۳،۴، ۶،۸; بنى اسرائيل كى ذمہ دارى ۵،۶

تكليف شرعي: تكليف شرعى كے سخت ہونے كے اسباب ۷

حضرت موسىعليه‌السلام : حضرت موسىعليه‌السلام كا واقعہ ۳،۵،۷;حضرت موسىعليه‌السلام اور بنى اسرائيل ۵

روايت: ۸

سوال: بے جا سوال ۷

قتل: ذبح شدہ گائے سے قتل كا منكشف ہونا۲

گائے : ۶

____________________

۱) تفسير قمى ج/ ۱ ص ۴۹ ، نورالثقلين ج/ ۱ ص ۸۸ ح ۲۴۰_

۲۳۲

قَالُواْ ادْعُ لَنَا رَبَّكَ يُبَيِّن لَّنَا مَا لَوْنُهَا قَالَ إِنَّهُ يَقُولُ إِنّهَا بَقَرَةٌ صَفْرَاء فَاقِعٌ لَّوْنُهَا تَسُرُّ النَّاظِرِينَ ( ۶۹ )

ان لوگوں نے كہا يہ بھى پوچھئے كہرنگ كيا ہوگا _ كہا كہ حكم خدا ہے كہ زردبھرك دار رنگ كى ہو جو ديكھنے ميں بھيمعلوم ہو (۶۹)

۱_ حضرت موسىعليه‌السلام كى قوم تكليف شرعى كے مشخص ہونے اور ہدف ( قتل كا معمہ حل كرنا) تك پہنچنے كى خاطر گائے كے جو اں سال ہونے كو كافى نہ سمجھتى تھي_فافعلوا ما تؤمرون _ قالوا ادع لنا ربك يبين لنا مالونها

جملہ '' فافعلوا ما تؤمرون'' سے حضرت موسىعليه‌السلام نے اپنى قوم كو سمجھايا كہ تمہارى ذمہ دارى اس سے زيادہ نہيں كہ جواں سال گائے ذبح كرو اس كے باوجود انہوں نے گائے كا رنگ اور ديگر خصوصيات كے بارے ميں سوال كيا جو اس معنى كى طرف اشارہ ہے: اس طرح كى گائے (صرف جواں سال ہونا) ذبح كرنا قتل كے معمہ كو حل نہيں كرسكتا_

۲ _ حضرت موسىعليه‌السلام كى قوم نے آپعليه‌السلام سے تقاضا كيا كہ جو گائے ذ بح ہونى چاہيئے اس كا رنگ اللہ تعالى سے پوچھ كے بتائيں _قالوا ادع لنا ربك يبين لنا ما لونها

۳ _ حضرت موسىعليه‌السلام كى قوم جس گائے كو ذبح كرنے پر مامور ہوئي اس كا رنگ گہرا پيلا اور فرحت بخش ہونا

چاہيئے تھا_انها بقره صفرآء فاقع لونها تسر الناظرين ''فاقع'' كا معنى گہرا، خالص اور روشن ہے '' تسر _ مسرت بخش ہو'' اسكى ضمير '' بقرة'' كى طرف لوٹتى ہے گويا گائے ايسى ہونى چاہيئے كہ ديكھنے والوں كے لئے خوشى و مسرت كا باعث ہو _ ''صفرآئ ...'' سے يہ مفہوم نكلتاہے كہ مسرت بخش ہونے ميں رنگ بھى دخيل ہے _ يعنى مراد يہ ہے ''تسر بلونہا الناظرين'' پس گائے بھى خوبصورت ہو اور اس كا رنگ بھى _

۴ _ حضرت موسىعليه‌السلام نے اس امر پر تاكيد فرمائي كہ ذبح ہونے والى گائے كى خصوصيات اللہ تعالى كى جانب سے معين كى گئي ہيں نہ كہ آپعليه‌السلام كى طرف سے _قال انه يقول

۵ _ گہرے پيلے رنگ والى گائے لوگوں كے لئے جاذب نظر ہوگى اور مسرت بخش ہوگى _*انها بقرة صفراء فاقع لونها تسر الناظرين يہ مفہوم اس بناپر ہے كہ جملہ '' تسر الناظرين''

۲۳۳

قيد توضيحى ہو نہ كہ احترازى _

بنى اسرائيل: بنى اسرائيل اور حضرت مو سىعليه‌السلام ۲; بنى اسرائيل كى تاريخ ۱،۲; بنى اسرائيل كے مطالبات۲; بنى اسرائيل كى گائے كا رنگ ۲،۳; بنى اسرائيل كى گائے كى خصوصيات۱،۴

ترغيب : ترغيب كے اسباب ۵

حضرت موسىعليه‌السلام : حضرت موسىعليه‌السلام كا واقعہ ۲

رنگ: پيلا رنگ ۳،۵

سرور: سرور كے اسباب ۵

قتل : ذبح شدہ گائے سے قتل كا منكشف ہونا ۱

گائے : پيلے رنگ كى گائے ۵

قَالُواْ ادْعُ لَنَا رَبَّكَ يُبَيِّن لَّنَا مَا هِيَ إِنَّ البَقَرَ تَشَابَهَ عَلَيْنَا وَإِنَّآ إِن شَاء اللَّهُ لَمُهْتَدُونَ ( ۷۰ )

ان لوگوں نے كہا كہ ايسى توبہت سى گائيں ہيں اب كونسى ذبح كريں اسےبيان كيا جائے ہم انشاء اللہ تلاش كرليں گے (۷۰)

۱ _ حضرت موسىعليه‌السلام كى قوم نے مذكورہ گائے كے رنگ اور عمر كى خصوصيات كو كافى نہ سمجھتے ہوئے اسكى مزيد خصوصيات كى توضيح مانگى _قالوا ادع لنا ربك يبين لنا ما هي

۲ _ حضرت موسىعليه‌السلام كى قوم كو يہ يقين تھا كہ ذبح اور معمہ قتل كے حل والى گائے كى خصوصيات بے نظير ہونى چاہئيں _ان البقر تشابه علينا ''تشابہ '' يعنى مثل يا مشابہ ہونا _ چونكہ ''علي'' كے ساتھ متعدى ہوا ہے اس لئے اس ميں اشتباہ و التباس كا معنى پايا جاتاہے _ بنابريں ''ان البقر ...'' كا معنى يہ ہوا كہ جس گائے كى خصوصيات پيلا ہونا اور جواں سال ہونا بيان ہوئي ہے اسكے مصاديق بہت سے ہيں اور يہ امر اس بات كا موجب ہے كہ ہم كون سى گائے كا انتخاب كريں _ حضرت موسىعليه‌السلام كى قوم كا يہ جملہ حكايت كرتاہے كہ ان كا خيال تھا كہ ذبح كے لئے موردنظر گائے كى اسطرح تعريف و تشريح ہو كہ اس جيسى گائے بس ايك ہى ہو_

۲۳۴

۳ _ حضرت موسىعليه‌السلام كى قوم نے ذبح ہونے والى گائے كے انتخاب ميں حيرت و پريشانى كو اپنے سوالات كے تكرار اور زيادہ توضيح و تشريح كى دليل قرار ديا _قال ادع لنا ربك ان البقر تشابه علينا جملہ '' ان البقر ...'' ما قبل جملے كى تعليل ہے اس ميں حضرت موسىعليه‌السلام كى قوم يہ بتانے كے درپے تھى كہ ان كے بار بار كے سوالات اس لئے ہيں كہ معاملہ ان كے لئے مشتبہ ہوگيا ہے اور وہ لوگ حيرت و پريشانى سے نكلنا چاہتے ہيں نہ يہ كہ بہانے بنا رہے ہيں اور ذمہ دارى سے فرار كرنا چاہتے ہيں _

۴ _ حضرت موسىعليه‌السلام كى قوم آخرى سوال سے گائے كے معين ہونے اور حيرت و پريشانى سے نكلنے كے لئے پر اميد تھے _انا إن شاء الله لمهتدون ''مھتدون'' ، ''اہتدائ'' سے اسم فاعل ہے اور اسكا معنى ہے ہدايت يافتہ اسكا متعلق وہى گائے ہے جسے ذبح كرنا ہے _

۵ _ ذبح ہونے والى گائے ملنے كيلئے حضرت موسىعليه‌السلام كى قوم كا اعتماد مشيت الہى پر تھا_و انا إن شاء الله لمهتدون

۶ _ انسانوں كا ہدايت پانا اور حيرت و سرگردانى سے نكلنا اللہ تعالى كے اختيار اور اسكى مشيت سے ممكن ہے_

و انا إن شاء الله لمهتدون

۷_ حضرت موسىعليه‌السلام كى قوم كو اس پر يقين تھا كہ انسان كى ہدايت مشيت الہى اور خداوند متعال كے چاہنے سے وابستہ ہے_و انا إن شآء الله لمهتدون

۸_ حضرت موسىعليه‌السلام كى قوم كو بارگاہ رب العزت سے آپعليه‌السلام كى دعاؤں كى قبوليت اور اپنے مطالبوں كے پوراہونے كا اطمينان تھا_قالوا ادع لنا ربك يبين لنا ماهى ادع لنا ربك يبين لنا مالونها ادع لنا ربك يبين لنا ماهي '' يبين '' اس آيت ميں اور ماقبل آيات ميں شرط مقدر سے مجزوم ہے _ كلام كى تقدير يوں ہے ''ادع لنا ربك ليبين لنا ان تدع اللہ يبين'' خدا سے چاہو كہ ہمارے لئے بيان كرے اگر تم خدا سے چاہوگے تو بيان فرمائے گا '' مذكورہ بالا مفہوم اس معنى ( اگر تم خدا سے چاہوگے تو بيان فرمائے گا ) كى بناپر ہے _

۹ _ پيامبرگرامى اسلام(ص) سے روايت ہے ''انهم امروا بادنى بقرة و لكنهم لما شدوا على أنفسهم شدد الله عليهم و ايم الله لو لم

۲۳۵

يستثنوا ما بينت لهم الى آخر الا بد (۱)

بنى اسرائيل كو كمترين گائے ذبح كرنے كا حكم ديا گيا تھا ليكن انہوں نے خود اپنے لئے سختى كا انتخاب كيا تو اللہ تعالى نے بھى شدت اختيار فرمائي اور خدا كى قسم اگر وہ لوگ '' انشاء اللہ '' نہ كہتے تو ان كے لئے گائے كى خصوصيات قيامت تك بيان نہ ہوپاتيں _

اللہ تعالى : اللہ تعالى سے مختص امور۶; مشيت الہى ۵،۶ ، ۷

بنى اسرائيل: بنى اسرائيل كا اعتماد ۵; بنى اسرائيل اور مشيت الہى ۵; بنى اسرائيل اور حضرت موسىعليه‌السلام ۸; بنى اسرائيل كا نكتہ نظر ۲; بنى اسرائيل كے سوالات ۴; بنى اسرائيل كى تاريخ ۱،۳،۴; بنى اسرائيل كى حيرت ۳،۴; بنى اسرائيل كے مطالبات ۱; بنى اسرائيل كى گائے كى خصوصيات ۱،۲،۹; بنى اسرائيل كا عقيدہ ۵،۷،۸، بنى اسرائيل كے سوالات كا فلسفہ ۳; بنى اسرائيل كى گائے كا واقعہ ۹; بنى اسرائيل كى گائے ۳،۴،۵

حضرت موسىعليه‌السلام : حضرت موسىعليه‌السلام كى دعا كا مستجاب ہونا۸

حيرت و سرگرداني: حيرت سے نجات:۶

روايت: ۹ قاتل: قاتل كى ہويت منكشف ہونے كى كيفيت۲

قتل: ذبح شدہ گائے سے قتل كا منكشف ہونا۲

ہدايت: ہدايت كا سرچشمہ۶،۷

____________________

۱) مجمع البيان ج/ ۱ ص ۲۷۴ ، نورالثقلين ج/ ۱ ص ۸۹ ح ۲۴۳_

۲۳۶

قَالَ إِنَّهُ يَقُولُ إِنَّهَا بَقَرَةٌ لاَّ ذَلُولٌ تُثِيرُ الأَرْضَ وَلاَ تَسْقِي الْحَرْثَ مُسَلَّمَةٌ لاَّ شِيَةَ فِيهَا قَالُواْ الآنَ جِئْتَ بِالْحَقِّ فَذَبَحُوهَا وَمَا كَادُواْ يَفْعَلُونَ ( ۷۱ )

حكم ہوا كہ ايسى گائے جوكاروبارى نہ ہو نہ زمين جو تے نہ كھيٹسينچے ايسى صاف ستھرى كہ اس ميں كوئيدھبہ بھى نہ ہو ان لوگوں نے كہا كہ اب آپنے ٹھيك بيان كيا ہے _ا س كے بعد انلوگوں نے ذبح كرديا حالانكہ وہ ايسا كرنےوالے نہيں تھے(۷۱)

۱ _ حضرت موسىعليه‌السلام كى قوم كو جو گائے ذبح كرنے كا حكم ديا اس كى خصوصيات ميں سے تھا كہ اسے ہل چلانے كے لئے رام نہ كيا گيا ہو اور نہ ہى اس سے آبيارى كا كام ليا گيا ہو_ قال انه يقول انها بقرة لا ذلول تثير الأرض و لا تسقى الحرث

''ذلول'' كامعنى ہے مطيع يا رام كرنا _ تثير كا مصدر ''اثارة'' ہے جسكا معنى ہے تہہ و بالا كرنا اور اس سے مراد زمين پر گائے كے ذريعے ہل چلاكر اس كو تہہ و بالا كرنا _

۲ _ جس گائے كے ذبح كرنے كا حكم حضرت موسىعليه‌السلام كى قوم كو ديا گيا وہ سالم ،بے عيب ، اس كى جلد ميں كسى طرح كا كوئي نقطہ نہ ہو اور اس كے رنگ اور بدن پر كوئي لكير و غيرہ نہيں ہونى چاہيئے تھي_مسلّمة لا شيه فيها ''مسلّمة'' يعنى سالم اور اس كا مطلب يہ ہے كہ ہر طرح كے عيب سے پاك ہو_ ''شية'' ہر اس رنگ كو كہتے ہيں جو عمومى رنگ سے مختلف ہو پس ''لا شية فيہا'' يعنى گائے كے رنگ ميں كوئي اور رنگ نہ ہو _ '' شية'' كا مصدر''وشي'' ہے اور اس كے آخر كى ''ہائ'' واو محذوف كے عوض آئي ہے_

۳ _ حضرت موسىعليه‌السلام كى قوم نے آخر ى علامتوں ( اس سے ہل نہ چلايا گيا ہو وغيرہ ) كو يقين آور اور ذہنى اضطراب كى برطرفى كا ذريعہ سمجھا_قالوا آلان جئت بالحق اس جملہ ميں '' حق '' كا معنى ثابت و استوار ہے اسكے مقابلے ميں غير مشخص اور ترديد پذير امر ہے_ ''الحق'' ميں الف لام استغراق كے لئے ہے يعنى كامل اور پور احق _

۴ _ حضرت موسىعليه‌السلام كى قوم گائے سے ہل چلانے كا اور آبيارى كا كام ليتى تھي_

لا ذلول تثير الأرض و لا تسقى الحرث

۵ _ حضرت موسىعليه‌السلام كى قوم نے گائے كو تمام خصوصيات كے ساتھ تلاش كركے ذبح كيا _فذبحوها ''ہا''كى ضمير بقرة ( مشخص كى گئي گائے) كى طرف لوٹتى ہے_

۲۳۷

۶_ حضرت موسىعليه‌السلام كى قوم نے ذبح ہونے والى گائے كى بيان شدہ ابتدائي خصوصيات كو ناكافى جان كر حضرت موسىعليه‌السلام پر اور حقيقت بيان نہ كرنے كا الزام لگايا_قالوا الان جئت بالحق حضرت موسىعليه‌السلام كى قوم كا مفہوم كلام يہى ہے( تم نے اب سارى حقيقت بيان كى ہے) بالفاظ ديگر گويا حضرت موسىعليه‌السلام نے پہلے جو خصوصيات بيان كيں اس ميں حق كو كامل طور پر بيان نہ كيا _

۷_ حضرت موسىعليه‌السلام كى قوم منظور نظر گائے كى تلاش كے بعد اس كو ذبح كرنے پر تيار نہ تھي_و ما كادوا يفعلون

'' كاد '' كا معنى ہے '' قريب تھا _كہ يہ فعل جب منفى ہوتاہے تو بعض اوقات كام كے نہ ہونے كى تاكيد پر دلالت كرتاہے اور بعض اوقات انجام پانے پر حكايت كرتاہے البتہ بے رغبتى اور عدم تمايل كے ساتھ _'' فذبحوہا'' كے قرينہ سے ''و ما كادوا يفعلون'' ميں دوسرا معنى مراد ہے گويا انہوں نے يہ كام انجام تو ديا ليكن بہت ہى بے رغبتى كے ساتھ_

۸ _ حضرت موسىعليه‌السلام كى قوم نے تكليف شرعى ( معمہ قتل كو حل كرنے كے لئے گائے ذبح كرنا ) كو خواہ مخواہ كے سوالات اور تجسس سے اپنے لئے دشوار و مشكل كرليا _فذبحوها و ما كادوا يفعلون يہ جملہ '' و ما كادوا يفعلون _ قريب تھا كہ انجام نہ ديں '' ممكن ہے كام كے دشوار ہونے كى طرف اشارہ ہو اس كا گواہ يہ جملہ '' فافعلوا ما تؤمرون_ آيت ۶۸'' اور ديگر قرائن ہيں _ حضرت موسىعليه‌السلام كى قوم كے خواہ مخواہ كے سوالات مشكل آفريں بنے اور تكليف كو انہوں نے اپنے لئے دشوار كرليا_

۹_ احكام اور تكاليف شرعى كے بارے ميں وارد ہونے والے اطلاقات اور عمومات حجت ہيں _فافعلوا ما تؤمرون قالوا الان جئت بالحق جملہ ''فافعلوا ما تؤمرون'' اس پر دلالت كرتاہے كہ حضرت موسىعليه‌السلام كى قوم اگر جواں سال گائے ذبح كرديتى اگر چہ اس كا رنگ پيلا نہ ہوتا اور اس طرح ديگر خصوصيات بھى نہ ہوتيں تو تكليف الہى انجام پاجاتى _ پس اگر شارع مقدس تكليف كو مطلق يا عام بيان فرمائے اور قيد و شرط بيان نہ فرمائے تو انسانوں كو چاہيئے كہ انہى اطلاقات اور عمومات پر عمل كريں _

۱۰_ انسان شارع مقدس كے بيان كردہ حكم سے زيادہ كے مكلف نہيں ہيں _فافعلوا ما تؤمرون قالوا الان جئت بالحق فذبحوها و ما كادوا يفعلون

۱۱ _ امام صادقعليه‌السلام كا ارشاد ہے _''... و كان فى بنى اسرائيل رجل له بقرة و كان له ابن بارّ و كان عند ابنه سلعة فجاء قوم يطلبون سلعته و كان مفتاح بيته تحت راس ابيه و كان نائما

۲۳۸

فلما انتبه ابوه قال له يا بنى ما صنعت فى سلعتك قال هى قائمة لم ابعها لان المفتاح كان تحت راسك فكرهت ان انبهك و انغص عليك نومك قال له ابوه قد جعلت هذه البقرة عوضاً عما فاتك من ربح سلعتك و شكر الله لابنه ما فعل بابيه و امر بنى اسرائيل ان تذبحوا تلك بقرة قال لهم موسى ان الله يامركم ان تذبحوا بقرة هى بقره فلان فذهبوا ليشتروها فقال لا ابيعها الا بملء جلدها ذهباً فرجعوا الى موسى عليه‌السلام فاخبروه فقال لهم موسى عليه‌السلام لابد لكم من ذبحها بعينها بملء جلدها ذهباً فذبحوها (۱) بنى اسرائيل كے مابين ايك شخص كے پاس گائے تھى اسكا ايك نيك خصلت بيٹا تھا_ اس بيٹے كے پاس ايك جنس تھى جس كو خريدنے كے ليئے كچھ افراد آئے تو چابى اس كے والد كے سرہا نے تلے تھى جو سورہا تھا والد جب اٹھا تو اس نے بيٹے سے پوچھا تو نے جنس كا كيا كيا ؟ تو بيٹے نے جواب ديا كہ جنس ويسے ہى ہے ميں نے اسے نہيں بيچا كيونكہ چابى آپ كے سركے نيچے تھى اور ميں نہيں چاہتا تھا كہ آپ كو بيدار كروں اور آپ كى نيند خراب كروں _ والد نے اس سے كہا وہ منافع جو تو نے ضائع كرديا ہے اسكے بدلے ميں يہ گائے تجھے بخشتا ہوں _ بيٹے كے والد سے اس نيك سلوك پر اللہ تعالى نے بنى اسرائيل كو حكم ديا كہ گائے كو ذبح كريں حضرت موسىعليه‌السلام نے ان سے فرمايا '' اللہ تعالى نے تمہيں حكم ديا ہے كہ ايك گائے ذبح كرو'' يہ اسى نيك آدمى كى گائے تھى _ يہ گائے خريدنے كے لئے لوگ اس كے پاس گئے تو اس نے كہا كہ جب تك اس كى جلد كو سونے سے نہ بھرو اس كو ہرگز نہيں بيچوں گا _ پس بنى اسرائيل حضرت موسىعليه‌السلام كے پاس آئے تو حضرت موسىعليه‌السلام نے فرمايا كہ اسى گائے كو ذبح كرو اگر چہ اس كى جلد كو سونے سے بھرنا پڑے تو اس طرح بنى اسرائيل اسى گائے كو ذبح كرنے پر مجبور ہوئے ...''

۱۲ _ امام رضاعليه‌السلام سے روايت ہے كہ آپعليه‌السلام نے ارشاد فرمايا: ''ان الذين امروا قوم موسي عليه‌السلام بعبادة العجل كانوا خمسة انفس و كانوا اهل بيت ياكلون على خوان واحد و هم الذين ذبحوا بقرة التى امر الله عزوجل بذبحها (۲) جن لوگوں نے حضرت موسىعليه‌السلام كى قوم كو گوسالہ پرستى كى دعوت دى پانچ افراد تھے جو ايك ہى خاندان سے اور ايك دستر خوان پر بيٹھتے تھے يہ وہى لوگ تھے جن كو خداوند عالم كى طرف سے گائے ذبح كرنے كا حكم ديا گيا _

۱۳ _ يونس بن يعقوب كہتے ہيں''قلت لابى عبدالله عليه‌السلام ان اهل مكه يذبحون البقره فى اللبب فما ترى فى اكل لحومها ؟ قال فسكت هنيهة ثم قال:قال الله ''فذبحوها و ما كادوا يفعلون لا تاكل الا ماذبحوا من مذبحه'' (۳)

____________________

۱) تفسير قمى ج/ ۱ ص ۴۹ ، نورالثقلين ج/ ۱ ص ۸۸ ح ۲۴۰_ ۲) خصال ج/ ۱ ص ۲۹۲ ح ۵۵ ، نورالثقلين ج/ ۱ ص ۸۸ ح ۲۳۹_ ۳) تفسير عياشى ج/ ۱ ص ۴۷ ح ۶۱ تفسير برہان ج/۱ ص ۱۱۲ ح ۶_

۲۳۹

ميں نے اما م صادقعليه‌السلام سے عرض كيا اہل مكہ گائے كو اونٹ كى طرح ذبح كرتے ہيں (نحر كرتے ہيں ) پس اس كے گوشت كا كيا حكم ہے ؟ امامعليه‌السلام كچھ دير خاموش رہے اور پھر فرمايا اللہ تعالى فرماتا ہے ''انہوں نے گائے كو ذبح كيا اور قريب تھا كہ اس ذمہ دارى كو انجام نہ ديں '' پس كوئي گوشت نہ كھاؤ مگر يہ كہ شرعى طريقے سے ذبح ہوا ہو_

آبيارى : گائے سے آبيارى ۴; آبيارى كا ذريعہ ۴

احكام: احكام كے اطلاقات كا حجت ہونا ۹; احكام كے عمومات كا حجت ہونا ۹

بنى اسرائيل : بنى اسرائيل ميں آبيارى ۴; بنى اسرائيل كى بصيرت ۶; بنى اسرائيل كے سوالات ۸; بنى اسرائيل كى تاريخ ۱،۲ ، ۳، ۴،۵،۶،۷،۸; بنى اسرائيل كا گائے ذبح كر نا ۲،۵، ۷،۸; بنى اسرائيل كى حيرانگى دور ہونا ۳; بنى اسرائيل كى

گائے كى خصوصيات ۱،۲،۳،۶; بنى اسرائيل كى گائے كا واقعہ ۱۱،۱۲،۱۳; بنى اسرائيل كى زراعت ۴; بنى اسرائيل كا بچھڑے كى پوجا كرنا ۱۲

تكليف شرعي: تكليف شرعى كے سخت و دشوار ہونے كے اسباب ۸ ;تكليف شرعى كا دائرہ كا ر ۱۰;تكليف شرعى كا منبع ۱۰

حضرت موسىعليه‌السلام : حضرت موسىعليه‌السلام پر تہمت ۶; حضرت موسىعليه‌السلام كا واقعہ۶

روايت: ۱۱،۱۲،۱۳

زراعت: زراعت كے آلات ۴

سوال: بے جا سوالات۸

گائے : ۸

ہل چلانا: گائے سے ہل چلانا ۴

۲۴۰

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

461

462

463

464

465

466

467

468

469

470

471

472

473

474

475

476

477

478

479

480

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

501

502

503

504

505

506

507

508

509

510

511

512

513

514

515

516

517

518

519

520

521

522

523

524

525

526

527

528

529

530

531

532

533

534

535

536

537

538

539

540

541

542

543

544

545

546

547

548

549

550

551

552

553

554

555

556

557

558

559

560

561

562

563

564

565

566

567

568

569

570

571

572

573

574

575

576

577

578

579

580

581

582

583

584

585

586

587

588

589

590

591

592

593

594

595

596

597

598

599

600

601

602

603

604

605

606

607

608

609

610

611

612

613

614

615

616

617

618

619

620

الٰہی نعمتوں سے مستفید ہونے والوں کو جو یہ صفت بیان کی گئی ہے کہ وہ غضب الٰہی سے بچتے ہیں اس کے مفہوم و اطلاق کو مقید کیا گیا ہے تاکہ یہ جملہ صرف ان لوگوں کو شامل ہو جو دونوں صفات کے حامل ہیں اس طرح یہ آیت ان لوگوں کو شامل نہیں ہو گی جنہوں نے اللہ کی نعمتوں کاشکر ادا نہیں کیا۔

بنا برایں آیہ کریمہ کا مفہوم یہ ہے کہ بندے ، اللہ سے ایسے راستے کی ہدایت کے طالب ہیں جس پر اللہ کی نعمتوں سے بہرہ مند لوگوں میں سے کچھ خاص لوگ گامزن ہیں اور وہ ، وہ لوگ ہیں جنہوں نے کفران نعمت نہیں کیا اور اللہ کی اطاعت میں ثابت قدم رہتے ہوئے آخرت کی نعمتوں سے بھی اسی طرح مستفیض ہوں گے جس طرح دنیا میں اس کی نعمتوں سے مستفیض ہوئے اس طرح دنیا و آخرت دونوں میں انہیں سعادت حاصل ہوئی۔

آیہ شریفہ اپنے مفہوم کے اعتبار سے اس جملے کی مانند ہے جیسے کہا جائے : گمراہ کن کتابوں کے علاوہ دوسری کتب اپنے پاس رکھنا جائز ہے،، اس تحیل کی روشنی میں بعض حضرات کے اس اعتراض کی کوئی گنجائش نہیں رہتی اور نہ ہی اس کا جواب دینے کی ضرورت ہے جو یہ کہتے ہیں ۔

''لفظ،، غیر میں بہت زیادہ ابہام پایا جاتا ہے جو اضافت کی وجہ سے معرفہ نہیں بن سکتا اس لئے یہ کسی معرفہ کی صفت نہیں بن سکتا،،

خلاصہ بحث یہ ہوا کہ کسی بھی جملے، چاہے خبر ہو یا انشائیہ ، میں موجود حکم اگر عام ہو اور موضوع کے تمام افرادکو شامل ہو تو اس کی تخصیص جس طرح ''الا،، وغیرہ سے کی جا سکتی ہے اسی طرح لفظ ''غیر،، کے ذریعے بھی کی جا سکتی ہے گویا آپ یوں کہہ سکتے ہیں میرے پاس سارے شہر والے آئے سوائے فاسقین کے یا سب شہر والوں کا احترام کرو سوائے فاسقین کے۔

۶۲۱

الضآلین

اس لفظ کا عطف ''غیر المغضوب علیھم ،، پر ہے ۔ اس جملے میں ''لا،، نفی کو بھی استعمال کیا گیاہ ے تاکہ نفی کی تاکید ہو اور یہ غلط فہمی نہ ہو کہ ''مغضوب،، اور ''ضالین،، دونوں کے مجموعے کی نفی کی گئی ہے چنانچہ لفظ ''غیر،، ضمنی طور پر نفی پر دلالت کرتا ہے اس لئے اس پر وہی حکم جاری کرتے ہیں جو حروف کا ہے مثلاً کہتے ہیں:

جالس رجلا غیر فاسق ولا سئی الخلق ، اعبدالله بغیر کس ولا ملل ،، (یعنی) ''ایسے آدمی کے ساتھ بیٹھو جو فاسق اور بداخلاق نہ ہو۔ اللہ کی عبادت کرو بغیر کسی اکتاہٹ اور سستی کے،،۔

ہمارے بعض تقریباً ہم عصر علمائے کرام کا خیال ہے لفظ ''غیر،، کا استعمال نفی میں صحیح نہیں ہے اس طرح انہوں نے آیہ کریمہ کی توجیہ کرنے میں اپنے آپ کو مشقت میں مبتلا کیا ہے آخر کار کوئی تسلی بخش جواب نہیں دے سکے اور اپنی عاجزی کا ا عتراف کر لیا ہے۔

تفسیر

اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو پہلے توحید فی العبادۃ اور توحید فی الاستعانۃ کا اعتراف کرنے کی تعلیم دی یعنی صرف اللہ کی عبادت کی جائے اور مدد بھی صرف اسی سے مانگی جائے اس کے بعد اپنے بن دوں کو اس امر کی تلقین کی کہ وہ اللہ سے صراط مستقیم کی ہدایت کی دعا مانگیں۔

اس آیہ شریفہ کا پہلا حصہ اللہ کی حمد و ثناء اور بزرگی پر مشتمل ہے اور آخری حصہ ہدایت کی دعا پر ابتدائی اور آخری حصے کے درمیان آیہ شریفہ :ایاک نعبد و ایاک نستعین،، پہلی آیت کے مضمون کا نتیجہ اوربعد والی آیت میں موجود دعا کی تمہید ہے اس لئے کہ پہلی آیت میں خدا کی جو عظمت و بزرگی بیان کی گئی ہے اس پر عبادت و استعانت (مدد طلبی) کا ذات الٰہی سے مختص ہونے کا دار و مدار ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ اپنی ذات ، رحمت اور سلطنت کی وجہ سے عبادت کا مستحق ہے اور غیر اللہ عبادت و استعانت کا مستحق نہیں۔

۶۲۲

جب عبادت اور استعانت خدا کی ذات سے مختص ہوئی تو لامحالہ دعا بھی اسی کے دربار میں کی جانے چاہئے یہی وجہ ہے کہ فریقین نے اس روایت کو نقل کیا ہے۔

ان الله تبارک و تعالیٰ قدجعل هذه السورة نصفین : نصف له و نصف لعبده ، فاذا قال العبد : الحمد لله رب العالمین ، یقول الله تعالیٰ : مجدنی عبدی ، و اذاقال : اهدنا الصراط المستقیم ، قال الله تعالیٰ هذا لعبدی و لعبدی ماسال ،، (۱)

''اللہ نے سورہ حمد کو دو حصوں میں تقسیم فرمایا ، آدھا سورہ اللہ کیلئے اور آدھا اس کے بندوں کیلئے ، جب بندہ الحمد للہ رب العالمین کہتا ہے تو خالق فرماتا ہے : میرے عبد نے میری عظمت بیان کی ہے اور جب بندہ کہے :اھدنا الصراط المستقیم،، تو خالق فرماتا ہے : یہ میرے عبد کا حصہ ہے میرا بندہ جو مانگے اسے دیا جائے گا،،۔

گزشتہ بحثوں سے معلوم ہوا کہ انسان اپنے ایمان و عقیدہ اوراعمال کے سلسلے میں تین میں سے کسی ایک راستے کا انتخاب کر سکتا ہے۔

(۱) وہ راستہ جو اللہ نے اپنے بندوں کیلئے مقرر کر رکھا ہے اس راستے پر وہ شخص چلتا ہے جسے اللہ نے اپنے فضل و کرم سے ہدایت فرمائی ہے۔

(۲) وہ راستے ، جن پر گمراہ چلتے ہیں۔

(۳) وہ راستہ جس پر غضب الٰہی کے مستحق افراد چلتے ہیں۔

سورہ حمد میں اللہ تعالیٰ نے یہ حقیقت بیان فرمائی ہے کہ صراط مستقیم جو پہلا راستہ ہے وہ دوسرے دو راستوں سے مختلف ہے بایں معنی کہ صراط مستقیم پر چلنے والے اور ہوتے ہیں اور دوسرے راستوں پر چلنے والے اور ہوتے ہیں اس طرح یہاں پر یہ نکتہ بیان فرمایا ہے کہ جو شخص طریق مستقیم سے انحراف کرے رسوائی اس کا مقدر ہوتی ہے اس لئے کہ وہ گمراہ وتا ہے یا گمراہ ہونے کے علاوہ غضب الٰہی کا بھی مستحق ہوتا ہے۔

____________________

(۱) عیون اخبار الرضا ۔ باب ماجاء من الرضامن الاخبار المتفرقہ ، ص ۱۶۶ طبع ایران ۱۳۱۷ھ

۶۲۳

اللہ تعالیٰ ہمیں آخرت کی رسوائی سے بچائے اور صراط مستقیم کی ہدایت فرمائے۔

مفسرین کا کہنا ہے : اللہ سے وہ شخص ہدایت طلب کرتا ہے جو پہلے سے ہدایت یافتہ نہ ہو اور ایک مسلمان ، جو اللہ کی وحدانیت اور یگانگی کا قائل ہے وہ کیونکر اپنی نماز میں ہدایت کی دعا کرتا ہے۔

اس اعتراض کے کئی جواب دیئے گئے ہیں

(۱) آیت میں ہدایت سے مراد پہلے سے حاصل ہدایت کی بقاء اور دوام ہے یعنی جب اللہ نے اپنے بندوں کو اپنے فضل و احسان سے ایمان کی ہدایت کر دی تو اب اس کے بندے یہ دعا مانگتے ہیں : پالنے والے ! ہمیں ایمان پر ثابت قدم رہنے اور اسے برقرار رکھنے کی توفیق عنایت فرما تاکہ ہدایت کے بعد کہیں لغزش قدم کے نتیجے میں دوبارہ گمراہ نہ ہو جائیں۔

(۲) ہدایت کا معنی ثواب ہے یعنی بارالٰہا! ہمیں ثواب کے طور پر راہ جنت عطا فرما۔

(۳) ہدایت سے مراد ہدایت میں اضافہ ہے اس لئے کہ ہدایت کبھی کم اور کبھی زیادہ ہوتی ہے جو شخص ہدایت کی ایک منزل پر فائز ہو وہ اس سے بلند منزل پر فائز ہونے کی دعا کر سکتا ہے۔

یہ تینوں جوابات خام خیالی اور ظاہر آیہ کریمہ کیخلاف ہیں ۔ صحیح جواب یہ ہے کہ جس ہدایت کی مسلمان اپنی نماز میں دعا کرتا ہے وہ ایسی ہدایت ہے جو اسے پہلے حاصل نہیں اسی لئے اللہ کے حضور اس کے حصول کی دعا مانگی جاتی ہے۔

وضاحت: اللہ کی طرف سے دو قسم کی ہدایت کی جاتی ہے۔

(۱) ہدایت عامہ

(۲) ہدایت خاصہ

۶۲۴

ہدایت عامہ: یہ ہدایت کبھی تکوینی ہوتی ہے اور کبھی تشریعی ۔ تکوینی ہدایت عامہ وہ ہے جو اللہ نے جمادات ، نباتات اور حیوانات غرض تمام موجودات کو ودیعت فرمائی ہے یہ سب چیزیں قدرتی طور پر یا اپنے اختیار سے اپنے کمال اور ارتقائی منازل کی طرف رواں دواں ہیں ۔ اللہ کی ذات نے ان چیزوں میں طلب کمال کی قدرت و دیعت فرمائی ہے:

کیا آپ نے نباتات میں کبھی غور کیا ہے کہ وہ اپنی نشوونما کے دوران ایسے راستے کا انتخاب کرتی ہیں جس میں کوئی رکاوٹ نہ ہو ، یا کبھی حیوانات کے بارے میں سوچا ہے کہ وہ موذی حیوانوں کوکیسے دوسروں سے تمیز دے لیتے ہیں مثلاً چوہا بلی سے تو بھاگتا ہے لیکن بکری سے نہیں بھاگتا یا چیونٹی اور شہد کی مکھی اجتماع اور حکومت تشکیل دینے اور اپنی رہائشی جگہ تعمیر کرنے کی ہدایت و رہنمائی کیسے حاصل کرتی ہے ؟ یا شیر خوار طفل پستان مادر کی رہنمائی کیسے حاصل کرتا ہے اور ولادت کے فوراً بعد دودھ پینا شروع کر دیتا ہے۔

( قَالَ رَبُّنَا الَّذِي أَعْطَىٰ كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدَىٰ ) ۲۰:۵۰

''موسیٰ (ع) نے کہا ہمارا پروردگار وہ ہے جس نے ہر چیز کو اسی کے (مناسب) صورت عطا فرمای پھرا سی نے (زندگی بسر کرنے کے) طریقے بتائے،،۔

تشریعی ہدایت عامہ وہ ہے جو اللہ نے انسانوں کی طرف نبی (ع) بھیج کر اور ان پر کتب نازل فرما کر مکمل کی پہلے خدا نے انسان کو عقل اور حق و باطل میں تمیز کرنے کی صلاحیت دے کر ان پر حجت تمام کی اس کے بعد انسان کی ہدایت کیلئے انبیاء بھیجے جو انسانوںکے سامنے آیات الٰہی کی تلاوت کرتے اور ان کیلئے مختلف شریعتوں کو بیان کرتے تھے پھر اللہ نے انبیاء (ع) کو معجزات دے کر بھیجا جو ان کی نبوت کا ثبوت اور دلیل بن سکے اس کے بعد کچھ لوگ ہدایت پا گئے اور کچھ گمراہ ہو گئے اور ضلالت ان کا مقدر بن گئی۔

( إِنَّا هَدَيْنَاهُ السَّبِيلَ إِمَّا شَاكِرًا وَإِمَّا كَفُورًا ) ۷۶:۳

''اس کو رستہ بھی دکھا دیا (اب وہ ) خواہ شکر گزار ہو خواہ ناشکرا،،

۶۲۵

ہدایت خاصہ: یہ ہدایت تکوینی ہوتی ہے اور یہ اللہ کا خاص لطف و کرم ہے جس سے وہ اپنے بعض مخصوص بندوں کو اپنی حکمت و مصلحت کے مطابق نوازتا ہے اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کے لئے وہ اسباب و ذرائع فراہم کرتا ہے جس سے وہ اپنے کمال اور منزل مقصود تک پہنچ جائیں اگر اللہ تعالیٰ اپنی ہدایت خاصہ کے ذریعے لوگوں کی ہدایت اور اصلاح نہ فرمائے تو وہ گمراہی کی اتھاہ گہرائیوں میں جاگریں ہدایت کی اس قسم کی طرف قرآن کی متعدد آیات میں اشارہ کیا گیا ہے۔

( فَرِيقًا هَدَىٰ وَفَرِيقًا حَقَّ عَلَيْهِمُ الضَّلَالَةُ ۗ ) ۷:۳۰

''اسی نے ایک فریق کی ہدایت کی اور ایک گروہ (کے سر) پر گمراہی سوار ہو گئی،،۔

( قُلْ فَلِلَّـهِ الْحُجَّةُ الْبَالِغَةُ ۖ فَلَوْ شَاءَ لَهَدَاكُمْ أَجْمَعِينَ ) ۶:۱۴۹

(اےرسول(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم)) تم کہو کہ اب (تمہارے پاس کوئی دلیل نہیں) خدا تک پہنچانے والی دلیل خدا ہی کے لئے خاص ہے پھر اگر وہی چاہتا تو تم سب کی ہدایت کرتا،،

( لَّيْسَ عَلَيْكَ هُدَاهُمْ وَلَـٰكِنَّ اللَّـهَ يَهْدِي مَن يَشَاءُ ۗ ) ۲:۲۷۲

''(اے رسول(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم)) انہیں منزل مقصود تک پہنچانا تمہارا فرض نہیں (تمہارا کام) صرف راستہ دکھانا ہے مگر ہاں خدا جس کو چاہے منزل مقصود تک پہنچا دے،،

( إِنَّ اللَّـهَ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الظَّالِمِينَ ) ۶:۱۴۴

''خدا ہرگز ظالم قوم کو منزل مقصود تک نہیں پہنچاتا،،

( وَاللَّـهُ يَهْدِي مَن يَشَاءُ إِلَىٰ صِرَاطٍ مُّسْتَقِيمٍ ) ۲:۲۱۳

''اور خدا جس کو چاہے راہ راست کی ہدایت کرتا ہے،،

( إِنَّكَ لَا تَهْدِي مَنْ أَحْبَبْتَ وَلَـٰكِنَّ اللَّـهَ يَهْدِي مَن يَشَاءُ ۚ وَهُوَ أَعْلَمُ بِالْمُهْتَدِينَ ) ۲۸:۵۶

(اےرسول(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم)) بیشک تم چسے چاہو منزل مقصود تک نہیں پہنچا سکتے مگر ہاں خا جسے چاہے منزل مقصود تک پہنچائے،،

۶۲۶

( وَالَّذِينَ جَاهَدُوا فِينَا لَنَهْدِيَنَّهُمْ سُبُلَنَا ۚ ) ۲۹:۶۹

''اور جن لوگوں نے ہماری راہ میں جہاد کیا انہیں ہم ضرور اپنی راہ کی ہدایت کریں گے،،

( فَيُضِلُّ اللَّـهُ مَن يَشَاءُ وَيَهْدِي مَن يَشَاءُ ۚ وَهُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ ) ۱۴:۴

''تو یہی خدا جسے چاہتا ہے گمراہی میں چھوڑ دیتا ہے اور جس کو چاہتا ہے ہدایت کرتا ہے اور وہی سب پر غالب حکمت والا ہے،،

ان آیات کے علاوہ بھی قرآن کریم کی متعدد آیات ایسی ہیں جن سے یہ استفادہ ہوتا ہے کہ اللہ کی ہدایت خاصہ کچھ خاص قسم کے لوگوں کو نصیب ہوتی ہے سب کو نہیں بنا برایں اس سورہ فاتحہ میں مسلمان پہلے اللہ کی تشریعی و تکوینی ہدایت عامہ کا اعتراف کرتا ہے اس کے بعد درگاہ الٰہی میں تکوینی ہدایت خاصہ کی دعا کرتا ہے جو صرف مخصوص لوگوں کو نصیب ہوتی ہے۔

خلاصہ کلام یہ ہے کہ انسان قدرتی طور پر ہلاکت اور سرکشی سے دو چار ہو سکتا ہے اس لئے مسلمان اور موحد کو چاہئے کہ وہ صرف اپنے نفس پر اعتماد نہ کرے بلکہ اپنے رب سے مدد طلب کرے اور اس سے ہدایت کی دعا مانگے تاکہ وہ اسے صراط مستقیم کی رہنمائی فرمائے اور وہ ان لوگوں میں سے نہ ہو جو گمراہ اور غضب الٰہی کے مستحق ہیں۔

۶۲۷

ضمیمہ جات

۱۔ حدیث ثقلین کے مدارک اور حوالے

۲۔ حارث کی سوانح حیات اور شعبی کے بہتان

۳۔ حدیث شریف''لترکبن سنن من قبلکم ،، کے حوالے۔

۴۔ موتف اور یہودی عالم میں بحث

۵۔ ترجمہ قرآن اور اس کی شرائط

۶۔ رسول اسلام (ص) کو شکست دینے کی قریشیوں کی کوشش۔

۷۔ صحیح بخاری میں حدیث متعہ کی تحریف

۸۔ محمد عبدہ ، اور تین طلاقیں

۹۔ شیعوں پر رازی کا افترائ

۱۰۔ احادیث اور مشیّت الٰہی

۱۱۔ دعا سے تقدیر الٰہی بدل جانے کی احادیث

۱۲۔ آیہ بسم اللہ کی اہمیت

۱۳۔ آغاز آفرینش

۱۴۔ بسم اللہ کے جزء قرآن ہونے کی احادیث

۱۵۔ معاویہ بسم اللہ پڑھنا بھول جاتا تھا

۶۲۸

۱۶۔ رسول خدا کا بسم اللہ پڑھنا اور روایت انس کی توجیح

۱۷۔ ابن تیمیہ اور زیارت قبور کے جواز کی حدیثیں

۱۸۔ آلوسی کی شیعوں پر بہتان تراشی

۱۹۔ مولف اور حجازی عالم میں بحث

۲۰۔ تربت سید الشہداء (ع) کی حقیقت

۲۱۔ مکاشفہ کے ذریعے آیہ سجود کی تاویل

۲۲۔ ابلیس اور خدا کامکالمہ

۲۳۔ اسلام اور شہداتین

۲۴۔ عبادت اور اس کے عوامل

۲۵۔ الامربین الامرین لوگوں کی نیکیاں اور برائیاں

۲۶۔ شفاعت کے مدارک

۶۲۹

ضمیمہ (۱) ص ۱۸

حدیث ثقلین کے مدارک اور حوالے

حدیث ثقلین کو احمد نے اپنی کتاب ''مسند،، کی جلد ۳ کے صفحہ ۱۴ ، ۱۷ ، ۲۶ اور ۵۹ پر ابو سعید خدری سے روایت کیا ہے دارمی نے کتاب فضائل القرآن،، کے جزء ۲ کے صفحہ ۴۳۱ اور احمد نے اپنی کتاب ''مسند،، کے جزء ۴ کے صفحہ ۳۶۶ اور ۳۷۱ پر زید بن ارقم سے اور جزء ۵ کے ص ۱۸۶ ، ۱۸۹ پر زید بن ثابت سے روایت کیا ہے ۔

جلال ادین سیوطی نے ''جامع الصغیر،، میں طبرانی سے اور اس نے زید بن ثابت سے اس کی روایت کی ہے جلال الدین سیوطی نے یہ حدیث نقل کر کے اسے صحیح قرار دیا ہے علامہ مناوی نے اپنی شرح کی جز ۳ کے صفحہ ۱۵ پر لکھا ہے : ھیثمی کا کہنا ہے '' اس حدیث کے راوی موثق ہیں،،

نیز ابویعلیٰ نے اس حدیث کی ایسے سلسلہ سند سے روایت کی جو قابل خدشہ نہیں ہے حافظ عبدالعزیز ابن الاخضر نے بھی اس حدیث کو نقل کیا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ اس بات کااضافہ بھی کیا ہے کہ یہ حدیث حجتہ الوداع کے موقع پر صادر ہوئی اور وہ شخص (جیسا کہ ابن جوزی ہے) غلطی پر ہے جو اسے من گھڑت سمجھتا ہے سمھودی کا کہنا ہے کہ اس حدیث کو بیس سے زیادہ صحابہ نے نقل کیا ہے۔

حاکم نے کتاب ''المستدرک،، کی جزء ۳ کے صفحہ ۱۰۹ پر زید ابن ارقم سے اس حدیث کی روایت کی ہے اور اسے صحیح قرار دیا ہے ذہبی نے اس پر کوئی تبصرہ نہیں کیا ہے اگرچہ روایات کی تعبیریں مختلف ہیں مگر سب کا مطلب ایک ہی ہے۔

۶۳۰

ضمیمہ (۲) ص ۱۸

حارث کی سوانح حیات اور

شعبی کے بہتان ان کا نام حارث بن عبداللہ الاعور الھمدانی ہے علمائے امامیہ کا اس پر اتفاق ہے کہ آپ امیر المومنین (علیہ السلام) کے بزرگ اصحاب میں سے تھے علماء کرام نے ان کو عظیم المرتبت ، متقی ، پرہیز گار اور خدمت گزارامیر المومنین (ع) کے لقب سے یاد کیا ہے۔

علماء کرام نے اپنی کتاب رجال اور دیگر کتابوں میں ان کے موثق ہونے کی تصریح کی ہے اہل سنت کے کئی بزرگ علماء نے حارث کا ذکر کیا ہے اور اس کی تعریف کی ہے ابن حجر عسقلانی ''تہذیب التہذیب،، میں لکھتے ہیں،،

''دوری نے ابن معین سے نقل کیا ہے کہ حارث نے ابن مسعود سے حدیث سنی ہے اور یہ قابل خدشہ نہیں ہے،،

عثمان دارمی نے ابن معین سے نقل کیا ہے : ''حارث موثق ہے،،

اشعث ابن سوار نے ابن سیرین سے نقل کیا ہے ''میں نے کوفہ جا کر دیکھا کہ لوگ پانچ آدمیوں کو دوسروں پر مقدم سمجھتے تھے ان میں سے جو شخص حارث کو سب سے مقدم سمجھتا تھا وہ دوسرے نمبر پر عبیدہ کا نام لیتا تھا اور جو شخص عبیدہ کو سب سے مقدم سمجھتا تھا وہ دوسرے نمبر پر حارث کا نام لیتا تھا،،

ابن ابی داؤد کہتے ہیں ''حارث ، فقہ ، حسب و نسب اور مسائل ارث میں سب سے بہتر تھے آپ نے میراث کے احکام امیر المومنین (ع) سے حاصل کئے،،

۶۳۱

ذہبی حارث کے حالات زندگی میں لکھتا ہے ''حارث کی احادیث سنن اربعہ میں موجود ہیں اور نسائی نے رجال (راویوں) کے سلسلے میں سخت گیر ہونے کے باوجود حارث کی احادیث سے استدلال کیا ہے اور اس کی تائید کی ہے وہ (حارث) علم کے سمندر تھے،،

مرہ بن خالد کہتا ہے کہ محمد بن سیرین نے خبر دی ہے ''اصحاب بابن مسعود میں پانچ افراد ایسے تھے جن کی احادیث قابل قبول ہوتی تھیں ان میں سے چار کی زیارت کی گئی مگر حارث کی زیارت سے محروم رہا حارث کو باقی چاروں پر فضیلت حاصل تھی اور وہ ان سے بہتر تھا،،

مولف: تعصبات و خواہشات کاتقاضا یہی ہے جو شعیی نے کہا ہے ''حارث اعور نے مجھ سے حدیث بیان کی اور وہ (حارث) ایک جھوٹا انسان تھا ،، اس بات میں کچھ اور لوگوں نے بھی شعبی کی متابعت کی ہے۔

عبداللہ قرطبی اپنی تفسیر کے جزء اول صفحہ ۵ پر لکھتے ہیں۔

درحقیقت حارث کو اس لئے مطعون کیا جاتا ہے کہ ان کے دل میں حب علی (ع) کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی اور وہ امیر المومنین (ع) کو دوسروں سے افضل سمجھتے تھے اسی لئے شعبی نے اس (حارث) کی تکذیب کی ہے کیونکہ وہ شعبی حضرت ابوبکر کو دوسروں سے بہتر اور پہلا مسلمان سمجھتا تھا،،۔

ابن حجر ، حارث کے حالات میں لکھتا ہے کہ ابن عبدالبر نے اپنی کتاب ''العلم،، میں حارث کا شبی کی طرف سے طعن و تشینع کا نشانہ بننے کا یہ راز بیان کیا ہے۔

''حارث حب علی (ع) میں انتہا پسند تھے میرے خیال میں شعبی ، حارث کی تکذیب اور اسے جھٹلانے کی وجہ سے عذاب الٰہی کا مستحق ہو گا اس لئے کہ حارث کی کوئی بھی بات جھوٹ ثابت نہیں ہوئی،،۔

ابن شاہین نے ''ثقات،، میں لکھا ہے کہ احمد بن صالح مصری کہتے ہیں۔

''حارث کتنے مضبوط حافظہ کے مالک تھے اور انہوں نے کتنی اچھی اور زندہ روایات حضرت علی (علیہ السلام) سے روایت کی ہیں،،

۶۳۲

اس کے بعد انہوں نے حارث کی تعریف و ستائش کی ہے احمد بن صالح سے کہا گیا شعبی تو کہتا ہے کہ حارث جھوٹ بولا کرتاتھا احمد بن صالح نے کہا حارث نقل حدیث کے سلسلے میں جھوٹ نہیں بولتا تھا۔ صرف اس کی اپنی رائے خلاف واقعہ ہوتی تھی۔

خدارا! صاحب بصیرت نقاد بتائیں کیا علم پرور شریعت اور دین اسلام اس امر کی اجازت دیتا ہے کہ کسی مسلمان کی طرف فحاشی کی نسبت صرف اس بنیاد پر دی جائے اورا س پر جھوٹ بولنے کی تہمت صرف اس لئے لگائی جائے کہ اسکے دل میں حضرت علی (ع) کی محبت ہے اور کہ وہ حضرت علی (ع) کو دوسروں سے افضل سمجھتا ہے ؟ کیا خود رسول اللہ (ص) نے حضرت علی (ع) کے دوسروں سے افضل ہونے کا برملا اعلان نہیں فرمایا یہاں تک کہ رسول اللہ (ص) نے حضرت علی (ع) کو وہ مقام دیا جو حضرت ہارون (ع) کو حضرت موسیٰ (ع) کی نسبت حاصل تھا اور آپ (ع) کو ایسے خصائل و خصوصیات سے نوازا جو دوسرے صحابہ رسول (ص) میں سے کسی کو حاصل نہ تھیں۔

مستدرک حاکم جزء ۳ ، ۱۰۸ کے مطابق سعد ابن ابی وقاص نے معاوضہ کے سامنے ان فضائل کی اس وقت شہادت دی جب معاویہ نے سعد بن ابی وقاص کو امیر المومنین (ع) پر سب و شتم کرنے پر مجبور کرنا چاہا اس موقع پر سعد بن ابی وقاص نے کہا۔

کیف اسب رجلاً کانت لہ خصال من رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم: لو ان لی واحدۃ منہا لکان احب الی من حمر انعم ،،

''بھلا اس ہستی پر میں کیسے سب و شتم کر سکتا ہوں جسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم نے ایسے فضائل و مناقب سے نوازا جن میں ایک فضیلت بھی مجھے نصیب ہوتی تو سرخ اونٹوں سے زیادہ میں اسے پسند کرتا،،

اس کے بعد سعد بن ابی وقاص نے حدیث کساء ، حدیث منزلت (انت منی بمنزلہ ہارون من موسیٰ ) اور جنگ خیبر میں علم دینے کا واقعہ بیان کیا رسول اللہ (ص) نے صرف انہی فضائل کے بیان پر اکتفا نہیں کیا بلکہ امت کے سامنے حضرت علی (علیہ السلام) کے بلند مقام کا اعلان فرمایا۔ چنانچہ مستدرک حاکم جزء ۳ ، صفحہ ۱۰۸ پر ہے کہ رسول اللہ (ص) نے امیر المومنین (ع) سے فرمایا۔

۶۳۳

''من اطاعنی فقداطاع الله و من عصانی فقد عصی الله و من اطاعک فقد اطاعنی و من عصاک فقد عصانی،،

''جس نے میری اطاعت کی اس نے اللہ کی اطاعت کی اور جس نے میری نافرمانی کی اس نے اللہ کی نافرمانی کی اور جس نے تیری اطاعت کی اس نے میری اطاعت کی اور جس نے تیری نافرمانی کی اس نے میری نافرمانی کی،،

ان کے علاوہ اور بھی بہت سے فضائل ہیں جو حدو حصر سے باہر ہیں۔

ہاں ! اگر شعبی حارث پر تہمتیں لگائے اور اس کی طرف کذب کی نسبت دے تو اس پر تعجب نہیں ہونا چاہئے اس لئے کہ شعبی وہ آدمی ہے جو بنی امیہ اور ان کے ماحول کا پروردہ اور ان کی دنیا میں موج اڑاتا اور ان کی خواہشات کے مطابق عمل کرتا تھا۔

کتاب النجوم الزاہرۃ جزء ۱ صفحہ ۲۰۸ کے مطابق ولید بن عبدالملک کی بیعت کے صلے میں عبدالملک بن مردان نے شعبی کو مصر بھیجا پھر کوفے کے والی و گورنر بشر بن مردان کی طر فسے کوفہ میں اس کا (امور حبیہ میں )وکیل رہا۔

چنانچہ کتاب الاغانی جزء ۲ ، ص ۱۲۰ پر ہے اس کے بعد عمر بن عبدالعزیز کی طرف سے کوفہ کی قضاوت کے منصب پر فائز رہا چنانچہ تاریخ طبری جزئ۵ ، ۳۱۰ پر یہ واقعہ موجود ہے۔

یہی وجہ ہے کہ اس کی تمام حرکات و سکنات مروانی تھیں اور وہ وہی کچھ کہتا اور کرتا تھا جو خواہشات نفسانی کاتقاضا ہو کسی جھوٹی بات سے نہ اسے کوئی جھجھک ہوتی تھی اور نہ بیہودگی سے یہ باز آتات ھا۔

ابو الفرج نے الاغانی جزء ۱ ، ص ۱۲۱ پر حسن بن عمر فقیمی سے نقل کیا ہے کہ فقیمی کہتا ہے:

''میں شعبی کے کمرے میں اس کے پاس بیٹھا ہوا تھا ، اتنے میں، میں نے گانے کی آواز سنی میں نے شعبی سے کہا : گانے کی آواز آپ کے ہمسائے کے گھر سے آ رہی ہے میں نے اس کے ساتھ جا کر اس کے مکان کی چھت پر ایک چاند سے حسین و جمیل لڑکے کو دیکھا جوگانےگا رہا تھا حسن بن عمر فقیمی کہتا ہے کہ شعبی نے مجھ سے کہا : جانتے ہو یہ کون ہے ؟ میں نے کہا نہیں۔ شعبی نھے کہا یہ وہ ہے جس کو بچپن ہی میں حکمت عطا کی گئی ہے یہ ابن سریج ہے،،۔

۶۳۴

نیز الاغانی کے جزء ۲ ، ص ۷۱ پر عمر بن ابی خلیفہ سے منقول ہے۔

''شعبی اور میرے والد گھر کے بالائی حصے میں تھے اتنے میں ہم نے اچھی آواز میں گانے کی آواز سنی میرے والد نے کہا تمہیں کچھ نظر آ رہا ہے ؟ شعبی نے کہا نہیں ۔ اس وقت ہمیں ایک خوبصورت نوجوان لڑکا نظر آیا جو گا رہا تھا اور وہ عائشہ کابیٹا تھا ، شعبی نے اس کے گانے کو پسند کیا اور کہا : خدا جسے چاہتا ہے علم و حکمت سے نوازتا ہے،،۔

الاغانی کے جزء ۲ ، ص ۱۳۳ پر مذکور ہے ''مصعب بن زبیر نے کوفے پر اپنی گورنری کے دوران شعبی کا ہاتھ تھام کر اسے اپنی زوجہ عائشہ بنت طلحہ ، جو اس وقت بے حجاب تھی کی خواہب گاہ میں لے گیا اور پھر مصعب نے اپنی زوجہ کے بارے میں شعبی کی رائے پوچھی شعبی نے اپنی رائے ظاہر کی اور اس کی زوجہ کی ایسی ہی تعریف کی جیسی مصعب چاہتا تھا اس پر مصعب نے شعبی کو دس ہزار درہم اور تیس لباس دیئے،،۔

شعبی اگر حارث کو ان الفاظ میں یاد کرے تعجب کی کون سی بات ہے یہ تو وہی شخص ہے جو امیر المومنین علی (علیہ السلام) کے بارے میں قسم کھا کر کہتا تھا:

لقد دخل علی حضرة و ما حفظ القرآن،،

یعنی ''علی (ع) اپنی قبر میں پہنچ گئے مگر قرآن حفظ نہ کر سکے،،

چنانچہ قرطین کے جزء ۱ ، ص ۱۵۸ پر مذکور عبارت موجود ہے۔

صاحبی ، فقہ اللغۃ کے صفحہ ۱۷۰ پر رقمطراز ہے۔

''شعبی کا یہ جملہ اس شخص کے بارے میں انتہائی بے ہودہ ہے جو کہا کرتا تھا۔

''سلونی قبل ان تفقدونی ، سلونی فمامن آیة الااعلم بلیل نزلت ام بنهار ام فی سهل ام فی جبل ،،

یعنی ''پوچھنا ہے مجھ سے پوچھ لو قبل اس کے کہ میں تم میں نہ رہوں اس لئے کہ میں قرآن کی ہر آیت کے بارے میں بتا سکتا ہوں کہ وہ رات کے وقت نازل ہوئی یا دن کے وقت کسی ہموار جگہ پر نازل ہوئی ہے یا پہاڑ پر،،

۶۳۵

سدی نے عبد خبر سے اور اس نے علی (علیہ السلام) سے روایت کی ہے۔

''آپ (ع) نے رسول خدا (ص) کی وفات کے موقع پر لوگوں کو فال بد کی کیفیت میں دیکھا جس کے بعد آپ (ع) نے قسم کھائی کہ جب تک قرآن مجید کو مکمل جمع نہ کر لوں اپنی چادر دوش پر نہیں رکھوں گا عبد خیر کہتے ہیں پس امیر المومنین (ع) نے اپنے بیت الشرف میں گوشہ نشین ہوئے اور وہیں پر آپ نے قرآن جمع کیا یہ وہ پہلا مصحف تھا جس میںق رآن جمع کیا گیا آپ نے اسی قرآن کو جمع کیا جو آپ کے قلب مطہر پر نقش اور زبانی یاد تھا اور یہ قرآن آل جعفر کے پاس تھا،،

ہر غیرت مند مسلمان کیلئے لمحہ فکریہ ہے کہ اس شخص نے خدا اور رسول(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) کیخلاف اس قسم کی بے ہودہ گوئی کی کیسی جرات کی ہے یہ الفاظ ''قرآن حفظ نہ کر سکا،، اس شخص کے بارے میں کہے جا رہے ہیں جو علم رسول(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) کے شہر کا دروازہ تھااور آپ (ع) لوگوں کیلئے ان احکام کو بیان کیا کرتے تھے جنہیں دے کر رسول اللہ (ص) کوبھیجاگیا تھا اس مضمون کی بہت سی روایات ہیں جیسا کہ کنز العمال جزء ۶ ص ۱۵۶ پر موجود ہاں ! تو یہ الفاظ اس ہستی کے بارے میں کہے جا رہے ہیں جو حکمت کا شہر تھا جیسا کہ صحیح بخاری جزء ۱۳ ، ص ۱۷۱ پر موجود ہے اور اس شخص کے بارے میں کہا جا رہا ہے کہ اسے قرآن حفظ نہیں تھا جوقرآن کے ساتھ ہے اور قرآن اس کے ساتھ اور یہ اس وقت تک ایک دوسرے سے جدا نہ ہوں گے جب تک حوض کوثر پر نہ پہنچیں چنانچہ مستدرک الحاکم جزء ۳ ، ص ۱۲۴ اور سیوطی کی جامع الصغیر جزء ۴ ، ص ۳۵۶ پر یہ روایت موجود ہے۔

ان الذین یکسبون الاثم سیجزون ماکانوا یقترفون

''جو لوگ گناہ کا ارتکاب کرتے ہیں عنقریب ان کو اپنے اعمال کی سزا ملے گی،،

۶۳۶

ضمیمہ (۳) ص ۲۰

حدیث شریف ''لترکبن سنن من قبلکم ،، کے حوالے

یہ حدیث مسند احمد کی جزء ۵ ص ۲۱۸ پر ابی واقدلیثی کی حدیث میں وارد ہوئی ہے۔

بخاری میں کتاب الاعتصام بالکتاب و السنتہ باب قول النبی لتتبعن سنن من قبلکم جزء ۸ ، ص ۱۵۱ ، مسلم کی کتاب العلم باب اتباع سنن الیہود و انصاریٰ جزء ۸ ، ص ۵۷ ، اور مسند احمد جزء ۳ ، ص ۷۴ پر ابی سعید خدری سے یہ حدیث وارد ہے نیز ھیثمی کی کتاب مجمع الزوائد ، جزء ۷ ، ص ۲۶۱ پر ابن عباس سے یہ روایت مروی ہے۔

ضمیمہ (۴) ص ۴۳

مولف اور یہودی عالم میں بحث

ایک مرتبہ ایک یہودی عالم سے اس موضوع پر میری بحث ہوئی کہ شریعت یہود بھی اپنی حجت و دلیل کے ختم ہونے پر ختم ہو جاتی ہے۔

میں نے یہودی عالم سے کہا : حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کی شریعت پر عمل کرنا صرف یہودیوں پر واجب تھا یا یہ کہ یہودیوں کے علاوہ دوسری امتوں پر بھی شریعت موسیٰ ؑ پر عمل کرنا واجب ہے ؟ اگر شریعت موسیٰ ؑ صرف یہودیوں سے مختص ہو تو دوسری امتوں کیلئے کسی اور نبی کا ہونا ضروری ہے بتایئے وہ نبی کون ہے ؟ اور اگر شریعت موسیٰ ؑ تمام اقوام اور امتوں کیلئے ہو تو پھر ضرورت اس امر کی ہے کہ حضرت موسیٰ ؑ کی نبوت کی صداقت اور اس کے تمام امتوں کو شامل ہونے پر کوئی حجت و دلیل پیش کی جائے اور تم کوئی ایسی دلیل پیش نہیں کر سکتے اس لئے کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے معجزات آئندہ آنے والی نسلوں نے دیکھے تک نہیں

۶۳۷

تاکہ ان معجزات پر یقین کر سکیں حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے معجزات آئندہ آنے والی نسلوں نے دیکھے تک نہیں تاکہ ان معجزات پر یقین کر سکیں حضرت موسیٰ (علیہ اسلام) کے معجزات کی خبر صرف اسی صورت میں تواتر کی حد تک پہنچ سکتی ہے کہ جب ہر دور میں خبر دینے والوں کی تعداد اتنی زیادہ ہو کہ عقلی طور پر ان سب کا جھوٹی بات پر اتفاق ناممکن ہو اور یہ وہ امر ہے جس کو ثابت کرنا تمہارے دائرہ قدرت سے باہر ہے۔

تم (یہود) حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے معجزوں کی خبر دیتے ہو ، نصاریٰ حضرت عیسی ٰ (علیہ السلام) کے معجزات کی خبر دیتے ہیں اور دوسری امتیں اپنے اپنے نبیوں کے معجزات کی خبر دیتی ہیں بھلا ان خبروں میں کوئی فرق ہے اور ایک خبر کو دوسری خبر پر کوئی فوقیت حاصل ہے ؟ اگر لوگوں پر تمہاری خبروں کی تصدیق واجب ہے تو باقی لوگوں کی خبروں کی تصدیق کیوں ضرورت نہیں جو اپنے انبیاء کے معجزات نقل کرتے ہیں جب مسئلے کی صورت یہ ہو تو پھر تم (یہود) حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے علاوہ دوسرے انبیاء کی تصدیق کیوں نہیں کرتے۔

یہودی عالم نے جواب میں کہا حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے معجزات یہود ، نصاریٰ اور مسلمان سب کے نزدیک ثابت ہیں اور سب ہی ان کا اعتراف کرتے ہیں جبکہ باقی انبیاء کے معجزات کا سب لوگ اعتراف نہیں کرتے اسی لئے باقی انبیاء کی نبوت محتاج دلیل ہے۔

میں نے کہا : مسلمانوں اور نصاریٰ کے نزدیک حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے معجزات اس لئے ثابت ہیں کہ ان کے نبی (حضرت عیسیٰ ؑ اور حضرت خاتم الانبیا (ص) نے ان معجزات کی خبر دی ہے اس وجہ سے ثابت نہیں کہ خبر متواتر ان معجزات پر دلالت کرتی ہو اگر حضرت موسیٰ ؑ کے معجزات کے بارے میں حضرت عیسیٰ ؑ اور حضرت محمد مصطفی (ص) کی خبر کی تصدیق ضروری ہے تو ان کی نبوت کی تصدیق بھی ضروری ہونی چاہئے جس کا وہ دعویٰ کرتے ہیں اگر اس سلسلے میں ان کی تصدیق ضروری ہو تو ان کی خبر سے حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کے معجزات بھی ثابت نہیں ہو سکیں گے یہ تو گزشتہ شریعتوں کا حال تھا۔

۶۳۸

جہاں تک شریعت اسلام کاتعلق ہے اس کی حجت اور دلیل ہمیشہ کیلئے باقی ہے اور قیامت تک آنے والی نسلوں کیلئے ایک چیلنج کے طورپر باقی رہے گی جب شریعت اسلام ثابت ہو گی تو اس کی بنیاد پر گزشتہ تمام انبیاء کی تصدیق بھی ہم پر واجب ہو گی اس لئے کہ قرآن مجید نے بھی اور رسول(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) خدا نے بھی ان انبیاء کی نبوت کی شہادت دی ہے پس معلوم یہ ہوا کہ قرآن کریم ہی وہ یگانہ اور ابدی معجزہ ہے جو تمام آسمانی کتابوں کی صداقت ، اور انبیاء علیہم السلام کی عصمت اور پاکیزگی کی شہادت دیتا ہے۔

ضمیمہ (۵) ص ۴۳

ترجمہ قرآن اور اس کی شرائط

خداوند عالم نے لوگوں کی ہدایت کیلئے اپنے نبی کو بھیجا اور قرآن کریم کے ذریعے آپ (ص) کی عظمت بیان کی اور لوگوں کو سعادت و ارتقائی مراحل تک پہنچانے والا ہر امر قرآن میں موجود ہے اور یہ خدا کا وہ لطف و کرم ہے جو کسی ایک قوم سے مختص نہیں بلکہ تمام انسانیت کو شامل ہے مشیّت الٰہی یہی ہے کہ اپنے نبی کی قوم کی زبان میں ہی اپنا پیغام آپ (ص) پر نازل کیا جائے جبکہ قرآن کی تعلیمات اور ہدایات ہر دور کے انسانوں کو شامل ہیں اسی نکتہ کے پیش نظر ہر شخص پر واجب ہے کہ وہ قرآن مجید کو سمجھے تاکہ اس سے ہدایت حاصل کر سکے۔

۶۳۹

اس میں کوئی شک نہیں کہ قرآن کا ترجمہ قرآن کو سمجھنے میں ممدومعاون ثابت ہو سکتا ہے لیکن ترجمہ کیلئے ضرورت اس امر کی ہے کہ ترجمہ کرنے والا شخص لغت عربی پر مکمل عبور رکھتا ہو جس سے کسی دوسرے لغت میں قرآن کا ترجمہ کرنا چاہتا ہے۔

اس لئے کہ ترجمہ چاہے کتناہی مستحکم اور مضبوط ہو اس میں فصاحت و بلاغت اور وہ خصوصیات حاصل نہیں ہو سکتیں جن کی بدولت قرآن کو امتیازی مقام حاصل ہے یہی بات قرآن کے علاوہ دوسرے کلاموں کے بارے میں بھی کہی جا سکتی ہے کیونکہ یہ عین ممکن (یہ خطرہ باقی رہتا ) ہے ترجمہ سے اس نتیجہ تک پہنچا جائے جو اس کے اصل مضمون کے بالکل برعکس ہو۔

پس ترجمہ قرآن کیلئے سب سے پہلے قرآن کا سمجھنا ضروری ہے اور قرآن فہمی کا دارو مدار تین چیزوں پر ہے ۔

۱۔ ظہور لفظی جس کو فصیح عرب سمجھیں۔

۲۔ عقل فطری کا حکم ، جو ہر قسم کی آلودگی سے پاک ہو۔

۳۔ تفسیر قرآن کے سلسلے میں معصومین (ع) کی روایات۔

بنا براین مترجم کیلئے ضروری ہے کہ وہ مندرجہ بالا تین چیزوں کا مکمل احاطہ رکھتا ہو تاکہ قرآن کے معانی اور مفاہیم کو کسی دوسری لغت میں نقل کر سکے۔

باقی رہی ذاتی رائے جس کو بعض مفسرین اپنی تفسیروں میں پیش کرتے ہیں اور وہ ان گزشتہ رہنما اصولوں کی روشنی میں حاصل نہ ہو تو وہ تفسیر بالرائے ہے اور اس کی کوئی حیثیت اور مقام نہیں مترجم کو چاہئے کہ ترجمہ کے سلسلے میں اس قسم کی تفسیروں کا سہارا نہ لے۔

ترجمہ کے سلسلے میں ان نکات کومدنظر رکھتے ہوئے حقائق قرآن اور اس کے مفاہیم ہر قوم کیلئے اسی کی لغت میں پیش کئے جائیں کیونکہ قرآن تمامل وگوں کی ہدایت کیلئے نازل کیاگیا ہے ، اور جب تک قرآن کی تعلیمات اور اس کے حقائق تمام انسانوں کیلئے لغت قرآن کو ، عام انسانوں اور قرآنی تعلیمات کے درمیان حائل نہیں ہونا چاہئے۔

۶۴۰

641

642

643

644

645

646

647

648

649

650

651

652

653

654

655

656

657

658

659

660

661

662

663

664

665

666

667

668

669

670

671

672

673

674

675

676

677

678

679

680

681

682

683

684

685

686

687

688

689

690

691

692

693

694

695

696

697

698

699

700

701

702

703

704

705

706

707

708

709

710

711

712

713

714

715

716

717

718

719

720

721

722

723

724

725

726

727

728

729

730

731

732

733

734

735

736

737

738

739

740

741

742

743

744

745

746

747

748

749

750

751

752

753

754

755

756

757

758

759

760

761

762

763

764

765

766

767

768

769

770

771

772

773

774

775

776

777

778

779

780

781

782

783

784

785