تفسير راہنما جلد ۱

 تفسير راہنما 5%

 تفسير راہنما مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن
صفحے: 785

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴ جلد ۵ جلد ۶ جلد ۷ جلد ۸ جلد ۹ جلد ۱۰ جلد ۱۱
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 785 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 201321 / ڈاؤنلوڈ: 5794
سائز سائز سائز
 تفسير راہنما

تفسير راہنما جلد ۱

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

گناہگار: گناہگار اور اللہ كى رحمت ۱۰;گناہگار اور فضل خدا ۱۰

معجزہ : كوہ طور كا معجزہ ۲

نااميدى : نااميدى سے اجتناب ۱۰; اللہ كى رحمت سے

نااميدى ۱۰

نقصان : نقصان كے عوامل ۶،۸،۹

ہلاكت : ہلاكت كے اسباب ۶

وَلَقَدْ عَلِمْتُمُ الَّذِينَ اعْتَدَواْ مِنكُمْ فِي السَّبْتِ فَقُلْنَا لَهُمْ كُونُواْ قِرَدَةً خَاسِئِينَ ( ۶۵ )

تم ان لوگوں كو بھى جانتے ہو جنھوں نے شنبہ كے معاملہ ميں زيادتى سے كام ليا تو ہم نے حكم دے ديا كہ اب ذلت كے ساتھ بندر بن جائيں _

۱_ بنى اسرائيل كے لئے ہفتہ (شنبہ) والے دن كام ، كارو بار كرنا حرام تھا_و لقد علمتم الذين اعتدوا منكم فى السبت

''سبت'' كا معنى ہے كام روكنا يا سكون و استراحت اسكو تعطيل يا چھٹى سے تعبير كيا جاتاہے_ '' اعتدوا'' كا مصدر ہے '' اعتدائ'' اسكا معنى ہے تجاوز يا خلاف ورزى كرنا _

۲ _ بنى اسرائيل كے ايك گروہ نے اللہ تعالى كے فرمان كى اعتنا نہ كى اور ہفتہ ( شنبہ) كى چھٹى كى خلاف ورزى كى _

و لقد علمتم الذين اعتدوا منكم فى السبت

۳ _ اللہ تعالى نے اصحاب سبت ( ہفتہ كے دن كى خلاف ورزى كرنے والے ) كو راندے ہوئے بندروں ميں تبديل كرديا _فقلنا لهم كونوا قردة خاسئين

''قردة'' كا مفرد ''قرد'' ہے جسكا معنى ہے بندر ''خاسي'' كا معنى ہے راندہ ہوا نيز حقير اور ذليل كے معنى ميں بھى آتا ہے _ خاسئين'' ، ''كونوا'' كى دوسرى خبر ہے_

۴_ بنى اسرائيل اصحاب سبت كى برى داستان اور اس كے علل و اسباب سے آگاہ تھے_لقد علمتم الذين اعتدوا منكم فى السبت فقلنا لهم كونوا قردة خاسئين

۲۲۱

۵ _ بنى اسرائيل قرآن حكيم پر ايمان نہ لانے اور اعمال صالح انجام نہ دينے كى صورت ميں مختلف طرح كے دنياوى عذاب ( ذليل ہونا، راندہ درگاہ ہونا و غيرہ ) ميں مبتلا ہوئے _و لقد علمتم الذين اعتدوا منكم فى السبت فقلنا لهم كونوا قردة خاسئين گذشتہ آيات ۴۱تا ۴۵ اور ۶۲) ميں اللہ تعالى نے بنى اسرائيل كو قرآن حكيم پر ايمان، اس كى تصديق اور نيك اعمال بجالانے كى دعوت دى _ اس آيہ مجيدہ ميں بنى اسرائيل كو اصحاب سبت كى برى سرگذشت كى ياد دلائي گئي تا كہ ان كے لئے تنبيہ كا باعث ہو، كہيں ايسا نہ ہو كہ اللہ كى دعوت اور اس كے فرامين كى خلاف ورزى كريں تو اصحاب سبت كى طرح مبتلا ہو جائيں _

۶ _ بنى اسرائيل كے بندر بننے والے لوگ زياں كار اور خسارہ اٹھانے والوں ميں سے ہيں _لكنتم من الخاسرين _ و لقد علمتم الذين اعتدوا منكم فى السبت آيہ مجيدہ ميں خسارہ اور زياں ( نقصان) كى نوع كا ذكر كيا گيا ہے اس كا ماقبل آيت كے ذيل ميں ذكر ہوا ہے يعنى وہ خسارہ يا نقصان جو گناہ اور تجاوز كے نتيجے ميں ہوتاہے جيسا كہ اصحاب سبت كا خسارہ _

۷ _ احكام الہى سے انحراف كرنے والوں كے ليئے مختلف طرح كے دنياوى عذاب ( ذليل ہونا اور راندہ جانا) ميں مبتلا ہونے كا خطرہ موجو د ہے _الذين اعتدوا منكم فى السبت فقلنا لهم كونوا قردة خاسئين

۸ _ اللہ تعالى كى حاكميت مطلق ( لا محدود) ہے اور عالم آفرينش پر نافذ ہے_قلنا لهم كونوا قردة آيہ مجيدہ ميں يہ نہيں فرمايا گيا كہ بنى اسرائيل كے متجاوزين بندر بن گئے ''كونوا قردة'' كے حكم ميں اس كى عملى صورت كى تصريح نہ كرنا جبكہ منظور نظر يہى ہے_ يہ اس حقيقت كى طرف اشارہ ہے كہ فرامين و احكام الہى حتمى اور اجتناب ناپذير ہيں ان كے راستے ميں كوئي چيز ركاوٹ نہيں ہوسكتي_ فرمان ، يعنى اس كا ہوجانا _

۹ _ عالم طبيعات ميں ايك موجود كا دوسرے موجود ميں تبديل ہونا ممكن ہے_قلنا لهم كونوا قردة خاسئين

۱۰_ امام سجادعليه‌السلام سے روايت ہے:اما القردة فكانوا قوماً من بنى اسرائيل اعتدوا فى السبت فصادوا الحيتان فمسخهم الله قردة ..(۱) بندر بنى اسرائيل كا ايك گروہ تھا جنہوں نے ہفتے كے دن اللہ تعالى كے فرمان كى خلاف ورزى كى اور مچھلى كا شكار كيا پس اللہ نے ان كى صورت كو مسخ كركے بندر بنا ديا _

____________________

۱) خصال ج/۲ ص ۴۹۳ ح /۱ ، نورالثقلين ج/ ۱ ص ۸۶ ح ۲۳۱ و ۲۳۲_

۲۲۲

۱۱ _عبدالله بن الفضل الهاشمى قال قلت لابى عبدالله عليه‌السلام '' و لقد علمتم الذين اعتدوا منكم فى السبت فقلنا لهم كونوا قردة خاسئين'' قال ان اولئك مسخوا ثلاثة ايام ثم ماتوا و لم يناسلوا و ان القردة اليوم مثل اولئك (۱) عبد الله بن فضل ہاشمى نے امام صادقعليه‌السلام سے اللہ تعالى كے اس كلام''و لقد علمتم الذين اعتدوا منكم فى السبت فقلنا لهم كونوا قردة خاسئين ' ' كے بارے ميں سوال كيا تو امامعليه‌السلام نے فرمايا وہ لوگ (يہودي) مسخ شدہ حالت ميں تين دن رہے اور اسكے بعد مرگئے جبكہ ان كى نسل بھى باقى نہ رہي_ موجودہ بندر ان بندروں كى طرح ہيں ( گويا ان كے مشابہ ہيں نہ كہ ان كى نسل ہيں )_

اصحاب سبت : اصحاب سبت كا راندہ جانا ۳; اصحاب سبت كا انجام ۴; اصحاب سبت كا مسخ ہونا ۳،۱۱

اللہ تعالى : اللہ كى حاكميت ۸

انجام: برا انجام ۴ انواع كا تبديل ہونا : ۳،۹

بنى اسرائيل : بنى اسرائيل كى تجاوز گرى كے نتائج ۳; بنى اسرائيل كى آگاہى ۴; بنى اسرائيل اور اصحاب سبت ۴; بنى اسرائيل كى تاريخ ۲،۳،۶; بنى اسرائيل ميں تعطيل ۱،۲; بنى اسرائيل كى ذلت ۵; بنى اسرائيل كے زياں كار ۶; بنى اسرائيل ميں ہفتہ ۱،۳; بنى اسرائيل كا راندہ جانا ۵; بنى اسرائيل كے لئے دنياوى عذاب ۵; بنى اسرائيل كى نافرمانى ۲; بنى اسرائيل كے محرمات ۱; بنى اسرائيل كا مسخ ہونا ۱۰; بنى اسرائيل كے مسخ شدہ افراد ۶; بنى اسرائيل كو تنبيہ ۵

ذلت: ذلت كے عوامل ۷

روايت: ۱۰، ۱۱

زياں كار : ۶

عالم ہستي: عالم ہستى كا حاكم ۸

عذاب: دنياوى عذاب كے موجبات ۵،۷

كفر: قرآن كے كفر كے نتائج ۵

____________________

۱) علل الشرائع ج/ ۱ ص ۲۲۵ ، ۲۲۷ ح / ۱ ب ۱۶۲ ، بحارالانوار ج/ ۴۴ ص ۲۷۱ ح/ ۱ _

۲۲۳

مسخ ہونا: مسخ ہونے كا امكان ۹; بندر ميں مسخ ہونا ۳،۶،۱۰،۱۱

نافرمان لوگ: نافرمانوں كى تذليل ۷; نافرمانوں كا راندہ جانا ۷; نافرمانوں كے ليئے دنياوى عذاب ۷

نافرما ني: نافرمانى كے نتائج ۷; اللہ تعالى كى نافرمانى ۲،۷

نيك عمل: نيك عمل ترك كرنے كے نتائج۵

ہفتہ : ہفتہ كى چھٹى ۱،۲; ہفتہ كے دن كام ، كاروبار كى حرمت۱; ہفتہ كے دن مچھلى كا شكار ۱۰

يہود: متجاوز يہود ۳

فَجَعَلْنَاهَا نَكَالاً لِّمَا بَيْنَ يَدَيْهَا وَمَا خَلْفَهَا وَمَوْعِظَةً لِّلْمُتَّقِينَ ( ۶۶ )

اور ہم نے اس جنسى تبديلى كو ديكھنےوالوں اور بعد والوں كے لئے عبرت اورصاحبان تقوى كےلئے نصيحت بناديا (۶۶)

۱_ اصحاب سبت كا عذاب و عقوبت ان كے ہم عصر افراد اور ما بعد كے انسانوں كے لئے درس عبرت ہے_

فجعلناها نكالا لما بين يديها و ما خلفها '' فجعلناها'' كى ضمير سے مراد اصحاب سبت كا عذاب و عقوبت ہے اور يہ مطلب '' فقلنالہم كونوا قردة'' سے سمجھ ميں آتاہے _'' يديہا'' اور ''خلفہا'' كى ضمير ''الذين اعتدوا'' كى طرف لوٹتى ہے اس كو مؤنث اسى لئے استعمال كيا ہے كہ مراد''امت'' يا ''طائفة ''ہے '' ما بين يديہا_جو تمہارے سامنے ہے '' گويا اصحاب

سبت كے ہم عصر لوگ مراد ہيں _ '' ما خلفہا _ جو ان كے بعد ہے'' گويا آنے والے انسان مراد ہيں _

۲ _ مسخ ہونا اصحاب سبت اور ان امتوں كى سزا ہے جو احكام الہى كى خلاف ورزى كرتى ہيں _

فجعلناها نكالا لما بين يديها و ما خلفها

۳ _ اصحاب سبت كا انجام اہل تقوى كےلئے وعظ و نصيحت ہے _فجعلناها موعظة للمتقين

۴ _ گناہگار اور فرمان الہى سے انحراف كرنے والى امتوں كے دنياوى عذاب اور برے انجام ميں مبتلا ہونے كا خطرہ موجود ہے _فجعلناها نكالا لما بين يديها و ما خلفها

۲۲۴

۵_ اصحاب سبت كے برے انجام پر توجہ كرنا گناہ اور اللہ تعالى كى نافرمانى سے بچنے كى زمين فراہم كرتاہے_فجعلنا ها نكالا لما بين يديها و ما خلفها ''نكال''كا معنى عبرت ہے نيز باز ركھنے والى ، عقوبت اور خوفناك انجام كے معنى ميں بھى آياہے_

۶_ واقعات اور حوادث كا عبرت آموز ہونا خداوند متعال كے دست قدرت ميں ہے_فجعلنا ها نكالاً جملہ''فجعلناہا (ہم نے اس عقوبت كو عبرت قرار ديا) ميں ''جعل'' كى نسبت خداوند متعال كى طرف دينا اس مطلب كى طرف اشارہ ہے كہ كوئي ايك بھى واقعہ يا حادثہ اگر عبرت كى نشانى بننا چاہے تو يہ فقط خداوند متعال كے دست قدرت ميں ہے_

۷ _ گذشتہ امتوں كى سرگذشت سے نصيحت حاصل كرنا اس بات كى نشانى ہے كہ انسان ميں روح تقوى موجود ہے _

فجعلنا ها و موعظة للمتقين

۸ _ امتوں كى تاريخ يا سرگذشت موعظہ، عبرت ا ور سبق آموزى كا سرچشمہ ہے_فجعلناها نكالاً لما بين يديها و ما خلفها و موعظة

۹_'' فجعلناها'' الضمير يعود الى الامة التى مسخت و هم اهل ايله قرية على شاطئي البحر و هو المروى عن ابى جعفر عليه‌السلام ...(۱) امام باقرعليه‌السلام سے روايت ہے كہ اللہ تعالى نے شہر ايلہ (ساحل سمند رپر واقعہ تھا) كے رہنے والوں كو مسخ كيا_

اصحاب سبت: اصحاب سبت سے عبرت ۱،۳،۵; اصحاب سبت كا عذاب ۱; اصحاب سبت كا انجام ۵; اصحاب سبت كو سزا ۲،۳; اصحاب سبت كا مسخ ہونا ۲

اللہ تعالى : مشيت الہي۶

انجام : برا انجام ۴

اہل ايلہ: اہل ايلہ كا مسخ ہونا ۹

تاريخ : تاريخ سے عبرت ۱،۶،۷،۸; تاريخ كے فوائد ۱،۸

____________________

۱) مجمع البيان ج/۱ص ۲۶۵ ، نورالثقلين ج/۱ص ۸۷ ح ۲۳۷_

۲۲۵

تقوى : تقوى كى نشانياں ۷

ذكر: ذكر تاريخ كے نتائج و اثرات۵

روايت:۹

عبرت: عبرت كے عوامل ۱،۳،۸

عذاب: دنياوى عذاب كے موجبات۴

گناہ : گناہ سے اجتناب كى زمين آمادہ ہونا۵

گناہگار: گناہگاروں كا انجام۴; گناہگاروں كى دنياوى سزا ۴

متقين : متقين كى عبرت ۳; متقين كے لئے موعظہ ۳

موعظہ : موعظہ كے اسباب ۸

نافرمان لوگ: نافرمانوں كا انجام ۴; نافرمانوں كى دنياوى سزا ۴; نافرمانوں كا مسخ ہونا ۲

نافرمانى : نافرمانى سے اجتناب كى زمين فراہم ہونا ۵

وَإِذْ قَالَ مُوسَى لِقَوْمِهِ إِنَّ اللّهَ يَأْمُرُكُمْ أَنْ تَذْبَحُواْ بَقَرَةً قَالُواْ أَتَتَّخِذُنَا هُزُواً قَالَ أَعُوذُ بِاللّهِ أَنْ أَكُونَ مِنَ الْجَاهِلِينَ ( ۶۷ )

اور وہ موقع بھى ياد كرو جب موسى نے قومسے كہا كہ حكم ہے كہ ايك گائے ذبح كروتوان لوگوں نے كہا كہ آپ ہميں مذاقبنارہے ہيں _ فرمايا پناہ بخدا كہ ميں جاہلوں ميں سے ہوجاؤں (۶۷)

۱_خداوند متعال نے حضرت موسىعليه‌السلام كى قوم كو مادہ گائے ذبح كرنے كا حكم ديا _ان الله يامركم ان تذبحوا بقرة

مادہ گائے كے حكم ذبح كا استفادہ بعد والى آيت ميں لفظ '' بكر'' سے ہوتاہے_

۲ _ حضرت موسىعليه‌السلام اپنى قوم كو فرمان الہى ( گائے ذبح كرنا) پہنچانے والے تھے _إذ قال موسى لقومه ان الله يامركم ان تذبحوا بقرة

۳ _ حضرت موسىعليه‌السلام كا گائے ذبح كرنے كے حكم پر تاكيد كرنا اللہ تعالى كى جانب سے تھا نہ كہ حضرت موسىعليه‌السلام كى رائے_إذ قال موسى لقومه ان الله يامركم

۲۲۶

۴ _ بنى اسرائيل كا گائے كے حكم ذبح كو بازيچہ قرار دينا اور اپنے ساتھ تمسخر كئے جانے كے برابر قرار دينا، يہ انكا تحليل و تجزيہ اور باطل گمان تھا_اتتخذنا هزواً '' ہزواً'' يعنى كھيل تماشا سمجھنا اور تمسخر اڑانا_ آيت ۷۲ ، ۷۳ سے يہ بات سمجھ ميں آتى ہے كہ يہ حكم اس قتل كے بارے ميں تھا جو بنى اسرائيل كے درميان ہوا _ ہر قبيلہ اسكا ذمہ دار دوسرے كو جانتا تھا_ يہ جو حضرت موسىعليه‌السلام كى قوم ذبح گائے كے فرمان اور واردات قتل ميں كوئي ربط محسوس نہ كرتى تھي_ اس فرمان كا يوں تحليل و تجزيہ كرتے ہوئے اسے اپنے ساتھ تمسخر كيا جانا سمجھتے تھے_

۵ _ حضرت موسىعليه‌السلام كى قوم كا گمان يہ تھا كہ گائے ذبح كرنے كا فرمان حضرت موسىعليه‌السلام كى طرف سے تھا نہ كہ اللہ تعالى كى جانب سے _اتتخذنا هزواً '' اتتخذنا هزواً _ كيا ہمارا تمسخر اڑاتے ہو'' يہ جملہ بنى اسرائيل كا حضرت موسىعليه‌السلام كو خطاب تھا_ اس سے معلوم ہوتاہے كہ ذبح گائے كے حكم كو خداوند متعال كى طرف سے نہيں بلكہ حضرت موسىعليه‌السلام كى جانب سے تصور كرتے تھے_

۶_ حضرت موسىعليه‌السلام جانتے تھے كہ ان كى قوم گائے ذبح كرنے كے فرمان كى مخالفت كرے گى اورڈٹ جائے گي_

ان الله يامركم ان تذبحوا بقرة حضرت موسىعليه‌السلام نے حكم الہى كو جملہ اسميہ '' ان اللہ ...'' سے بيان كيا جو حرف تاكيد كے ساتھ آياہے_ معمولاً كلام كے ساتھ تاكيد اس لئے استعمال كى جاتى ہے كہ مخاطب اسكو قبول كرنے پر تيار نہيں ہوتا يايہ كہ اس ميں شك كا اظہار كرتاہے_

۷_ اللہ تعالى كا حكم پہنچانے ميں حضرت موسىعليه‌السلام كى قوم نے ان پر دروغ گوئي كى تہمت لگائي_ان الله يامركم قالوا اتتخذنا هزواً

حضرت موسىعليه‌السلام اس جملہ '' ان اللہ ...'' كے ذريعے صراحت سے بيان فرماتے ہيں كہ يہ اللہ تعالى كا ہى حكم ہے ليكن بنى اسرائيل اس جملہ ''اتتخذنا'' كے ذريعے يہى سمجھتے ہيں كہ يہ موسىعليه‌السلام كا حكم ہے _ گويا ان كا گمان تھا كہ حضرت موسىعليه‌السلام نے دروغ گوئي سے كام ليتے ہوئے اسكو اللہ كى طرف نسبت دى ہے_

۸_ بنى اسرائيل نے حضرت موسىعليه‌السلام پر يہ الزام لگايا كہ انہوں نے اپنى قوم كا تمسخر اڑايا ہے_اتتخذنا هزواً

۹ _ حضرت موسىعليه‌السلام كے زمانے ميں معاشرے ميں عقيدہ و رائے كے اظہار كى آزادى حاصل تھي_ اتتخذنا هزواً

۱۰_ حضرت موسىعليه‌السلام نے اس امر سے كہ ان كا شمار جاہلوں ميں ہو اللہ تعالى كى پناہ طلب كى _اعوذ بالله ان اكون من الجاهلين

۲۲۷

۱۱_ حضرت موسىعليه‌السلام نے لوگوں كا مذاق اڑانے كو جاہلانہ اقدام قرار ديا اسطرح انہوں نے اپنى قوم كے گمان و خيال كو اپنے بارے ميں نادرست قرار ديا_قال اعوذ بالله ان اكون من الجاهلين

۱۲_ حضرت موسىعليه‌السلام كى قوم ان پر راسخ ايمان نہ ركھتى تھي_اتتخذنا هزواً

۱۳ _ خود كو ناروا اور بے جا الزامات سے بَرى ثابت كرنے كى كوشش كرنا ايك اچھا اور قابل تعريف عمل ہے_

قالوا اتتخذنا هزواً قال اعوذ بالله ان اكون من الجاهلين

۱۴ _ انبياءعليه‌السلام لوگوں كے تمسخر اڑانے اور انہيں كھيل تماشا تصور كرنے سے پاك و منزہ ہيں _قال اعوذ بالله ان اكون من الجاهلين

۱۵ _ انبياءعليه‌السلام جاہلانہ كردار سے پاك و منزہ ہيں _قال اعوذ بالله ان اكون من الجاهلين

۱۶_ حضرت موسىعليه‌السلام كى قوم انبياءعليه‌السلام كى ضرورى معرفت نہ ركھتى تھي_اتتخذنا هزواً قال اعوذ بالله ان اكون من الجاهلين

۱۷_ حضرت موسىعليه‌السلام كا اللہ تعالى كى پناہ مانگنا اس چيز سے تھا كہ حضرت موسىعليه‌السلام كسى بھى چيز كو خداوند متعال كى طرف جھوٹ منسوب كريں _اتتخذنا هزواً قال اعوذ بالله ان اكون من الجاهلين يہ جملہ '' اعوذ باللہ ...'' ان الزمات پر ناظر ہے جو اس جملہ '' اتتخذنا ہزواً'' ميں ہيں اس جملہ ميں دو باطل خيال اور بے جا الزام موجود ہيں ۱ _ حضرت موسىعليه‌السلام نے لوگوں كو بازيچہ سمجھا ہے ۲ _ گائے ذبح كرنے كا حكم حضرت موسىعليه‌السلام كى طرف سے ہے نہ كہ خداوند متعال كى جانب سے _

۱۸_ انبياءعليه‌السلام ہرگز خداوند متعال كى طرف كسى جھوٹے حكم كى نسبت نہيں ديتے _اتتخذنا هزواً قال اعوذ بالله ان اكون من الجاهلين

۱۹_ الہى احكام كے بيان اور ان كو لوگوں تك پہنچانے ميں انبياءعليه‌السلام معصوم ہيں _اتتخذنا هزواً قال اعوذ بالله ان اكون من الجاهلين

۲۰_ لوگوں كا تمسخر اڑانا جاہلانہ كردار ہے_اتتخذنا هزواً قال اعوذ بالله ان اكون من الجاهلين

۲۱ _ جاہلانہ كردار اور وہ لغزشيں جن كى بنياد جہالت پر مبنى ہو ان سے دور رہنے كے لئے اللہ تعالى كى پناہ اور ا س كى نصرت طلب كرنا ضرورى ہے_قال اعوذ بالله ان اكون من الجاهلين

۲۲ _ جہالت اور نادانى خطرات كو جنم ديتى ہے اور لغزشوں كا سرچشمہ ہے _اعوذ بالله ان اكون من الجاهلين

۲۲۸

''اعوذ''كا مصدر ''عياذ'' ہے جس كا معنى ہے پناہ لينا اور يہ اس وقت ہوتا جب انسان كسى چيز كے شر سے خوف زدہ ہو_

۲۳ _ لوگوں كا مذاق اڑانا اور تمسخر كرنا، اس كى بنياد جہالت و نادانى ہے_اتتخذنا هزواً قال اعوذ بالله ان اكون من الجاهلين

۲۴ _ اللہ تعالى كى طرف كسى امر يا حكم كى جھوٹى نسبت دينے كا منبع اور دليل جہالت و نادانى ہے _اتتخذنا هزواً قال اعوذ بالله ان اكون من الجاهلين_

حضرت موسىعليه‌السلام كى قوم كا يہ الزام كہ گائے ذبح كرنے كا حكم اللہ تعالى كى طرف سے نہيں ہے بلكہ موسىعليه‌السلام نے اسے خدا كى طرف نسبت دى ہے اس پر حضرت موسىعليه‌السلام نے فرمايا '' ميں جاہلانہ امور سے دور ہوں '' يعنى يہ امر جہالت پر مبنى ہے_

۲۵_ امام صادقعليه‌السلام نے ارشاد فرمايا:''ان رجلاً من خيار بنى اسرائيل وعلماء هم خطب امراة منهم فانعمت له وخطبها ابن عم لذلك الرجل وكان فاسقاً ردياً فلم ينعموا له فحسد ابن عمه الذى انعموا له فقعد له فقتله غيلة ثم حمله الى موسي عليه‌السلام فقال يا نبى الله هذا ابن عمى قد قتل قال موسي عليه‌السلام من قتله؟ قال لا ادرى فعظم ذلك على موسى عليه‌السلام فاجتمع اليه بنو اسرائيل فقالوا ما ترى يا نبى الله'' قال لهم موسى عليه‌السلام '' ان الله يامركم ان تذبحوا بقرة'' (۱) بنى اسرائيل كے علماء و بزرگان ميں سے ايك فرد نے ايك خاتون سے شادى كى درخواست كى تو اس نے قبول كرلى اسى خاتون كا رشتہ اس عالم دين كے چچا زاد نے بھى مانگا جو نہايت پست اور فاسق و فاجر شخص تھا پس انہوں نے اس كو رد كرديا ( مثبت جواب نہ ديا ) پس اس چچا زاد نے اس عالم دين سے حسد كيا اور اس كى تاك ميں بيٹھ گيا اور اس كو دھوكے سے قتل كرديا پھر اس كا جنازہ حضرت موسىعليه‌السلام كے پاس لے گيا _ كہنے لگا اے اللہ كے نبى يہ ميرا چچا زاد ہے اس كو كسى نے قتل كرديا ہے حضرت موسىعليه‌السلام نے پوچھا كس نے قتل كيا ہے كہنے لگا مجھے نہيں معلوم يہ واقعہ حضرت موسىعليه‌السلام پر بڑا گراں گذرا _ بنى اسرائيل حضرت موسىعليه‌السلام كے گرد جمع ہوگئے اور كہنے لگے اے اللہ كے نبىعليه‌السلام آپعليه‌السلام كا حكم كيا ہے؟ تو حضرت موسىعليه‌السلام نے فرمايا ''بے شك اللہ تمہيں حكم كرتاہے كہ گائے ذبح كرو ...''

آزادى : حضرت موسىعليه‌السلام كے زمانے ميں آزادى ۹

استعاذہ : ( پناہ طلب كرنا ) اللہ تعالى كى پناہ طلب كرنا ۱۰;اللہ تعالى كى پناہ طلب كرنے كى اہميت ۲۱

____________________

۱) تفسير قمى ج/ ۱ ص ۴۹ ، نورالثقلين ج/۱ ص۸۸ ح ۲۴۰_

۲۲۹

اظہار رائے كى آزادي: اظہار رائے كى آزادى كى تاريخ ۹

اللہ تعالى : اوامر الہى ۱،۳

انبياءعليه‌السلام : انبياءعليه‌السلام اور لوگوں كا تمسخر اڑانا ۱۴; انبياءعليه‌السلام اور اللہ تعالى پر جھوٹ باندھنا ۱۸; انبياءعليه‌السلام اور جاہلانہ عمل ۱۵; انبياءعليه‌السلام كى تبليغ ۱۹; انبياءعليه‌السلام كا پاك و منزہ ہونا ۱۴،۱۵،۱۸; انبياءعليه‌السلام كى صفات ۱۴، ۱۵; انبياءعليه‌السلام كى عصمت ۱۹

بنى اسرائيل: بنى اسرائيل كے تمسخر ۴،۱۱; بنى اسرائيل اور انبياءعليه‌السلام ۱۶; بنى اسرائيل اور حضرت موسىعليه‌السلام ; ۷،۸،۱۲; بنى اسرائيل كى حضرت موسىعليه‌السلام پر بے اعتقادى ۱۲; بنى اسرائيل كے گمان و توہمات۵; بنى اسرائيل كى تاريخ ۱،۴،۵ ، ۷،۸; بنى اسرائيل كى جہالت ۱۱،۱۶; بنى اسرائيل كا گائے كو ذبح كرنا ۱،۳،۵; بنى اسرائيل كا خدا كے بارے ميں عقيدہ ۱۱; بنى اسرائيل كى گائے كا واقعہ ۲۵; بنى اسرائيل كى گائے ۴،۶،۷

جہالت: جہالت كے نتائج ۲۱، ۲۲،۲۳،۲۴

جھوٹ باندھنا : اللہ تعالى پر جھوٹ باندھنے كى بنياد۲۴

حضرت موسىعليه‌السلام : حضرت موسىعليه‌السلام كا پناہ طلب كرنا ۱۰،۱۷; حضرت موسىعليه‌السلام كا قبل ازوقت متوجہ ہونا ۶; حضرت موسىعليه‌السلام كى تبليغ ۲; حضرت موسىعليه‌السلام پر تمسخر اڑانے كى تہمت ۸; حضرت موسىعليه‌السلام پر دروغ گوئي كى تہمت ۷; حضرت موسى كا واقعہ ۶،۷،۸،۱۰،۱۱; حضرت موسىعليه‌السلام كى ذمہ دارى ۲; حضرت موسىعليه‌السلام اور اللہ تعالى پر جھوٹ كى نسبت ۱۷; حضرت موسىعليه‌السلام اور عقيدہ كى تصحيح ۱۱; حضرت موسىعليه‌السلام اور جہلاء ۱۰

خود: خود كو تہمت سے بَرى كرنا ۱۳

روايت: ۲۵

عقيدہ: آزادى عقيدة كى تاريخ ۹

عمل: جاہلانہ عمل سے اجتناب ۲۱; پسنديدہ عمل ۱۳; جاہلانہ عمل ۲۰

عوام: عوام كا تمسخر ۲۰

گائے : ۱ لغزش : لغزش كے اسباب ۲۱،۲۲ مدد طلب كرنا : اللہ تعالى سے مدد طلب كرنے كى اہميت ۲۱

مذاق اڑانا: مذاق اڑانے كى بنياد۲۳

۲۳۰

قَالُواْ ادْعُ لَنَا رَبَّكَ يُبَيِّن لّنَا مَا هِيَ قَالَ إِنَّهُ يَقُولُ إِنَّهَا بَقَرَةٌ لاَّ فَارِضٌ وَلاَ بِكْرٌ عَوَانٌ بَيْنَ ذَلِكَ فَافْعَلُواْ مَا تُؤْمَرونَ ( ۶۸ )

ان لوگوں نےكہا كہ اچھأ خدا سے دعا كيجئے كہ ہميں اسكى حقيقت بتائے _ انھوں نے كہا كہ ايسيگائے چاہئے جو نہ بوڑھى ہو نہ بچہ _درميانى قسم كى ہو اب حكم خدا پر عمل كرو(۶۸)

۱_ بنى اسرائيل اپنے پہلے انكار كے بعد مطمئن ہوگئے كہ يہ حكم اللہ تعالى كى جانب سے ہے _قالوا اتتخذنا هزواً قا لوا ادع لنا ربك يبين لنا ماهي گائے كى خصوصيات اور مشخصات كو بيان كرنے كا تقاضا اس معنى كى طرف اشارہ ہے كہ حضرت موسىعليه‌السلام كى قوم كو ان كے اس كلام ''اعوذ باللہ ...'' سے يقين ہوگيا كہ يہ حكم اللہ تعالى كى جانب سے ہى ہے_

۲ _ حضرت موسىعليه‌السلام كى قوم كو قتل كا معمہ حل كرنے كے لئے ہر طرح كى گائے كافى ہوگى ، اس پر يقين نہ تھا_

قالوا ادع لنا ربك يبين لنا ما هي

۳ _ حضرت موسىعليه‌السلام كى قوم نے ان سے چاہا كہ وہ گائے جو ذبح ہونى چاہيئے اسكى خصوصيات ہمارے لئے اللہ تعالى سے سوال كريں _قالوا ادع لنا ربك يبين لنا ماهي

۴ _ گائے كا درميانى عمر كا ہونا (نہ نوجوان بچھڑ ا ہو اور نہ ہى بوڑھى گائے ہو) ان معين كى گئي خصوصيات ميں سے تھا جو گائے حضرت موسىعليه‌السلام كى قوم ذبح كرنے پر مامور كى گئي _انها بقرة لا فأرض و لا بكر عوان بين ذلك '' فأرض'' كا معنى ہے بوڑھى '' بقرة بكر'' ايسى جو اں سال گائے كو كہتے ہيں جو حاملہ نہ ہوئي ہو ( لسان العرب) '' عوان '' كا معنى درميانى عمر ہے _

۵ _ حضرت موسىعليه‌السلام نے اپنى قوم كو جس پر مامور تھى (جواں سال گائے ذبح كرنا ) اسكا حكم ديا _فافعلوا ما تؤمرون

۶ _ ديگر خصوصيات كے سوال كرنے سے پہلے گائے كا جو اں سال ہونا ہى ضرورى و لازم تھا جس كے ذبح كرنے پر بنى اسرائيل مامور تھے_ عوان بينذلك فافعلوا ما تؤمرون '' فافعلوا ما تؤمرون _ جس پر مامور ہو عمل

۲۳۱

كرو '' يہ جملہ بيان كررہاہے كہ حضرت موسىعليه‌السلام كى قوم كى تكليف شرعى يا انكا '' مامور بہ'' صرف جو اں سال گائے تھى جس ميں ديگر خصوصيات كا بيان نہ تھا_

۷_ حضرت موسىعليه‌السلام نے لوگوں سے چاہا كہ جس گائے كے ذبح كرنے پر مامور ہيں اسكے بارے ميں مزيد سوالات كركے خود كو مشكلات سے دوچار نہ كريں _فافعلوا ما تؤمرون

۸_ امام صادقعليه‌السلام سے اس آيت '' قال انہ يقول انہا بقرة لا فأرض و لا بكر'' كے بارے ميں روايت ہے كہ آپعليه‌السلام نے فرمايا :والفأرض التى قد ضربها الفحل و لم تحمل والبكر التى لم يضربها الفحل (۱)

'' فأرض'' ايسى گائے كو كہتے ہيں جسكا جوڑا تو بنا ہو ليكن حاملہ نہ ہوئي ہو اور '' بكر'' ايسى گائے كو كہتے ہيں جسكا جوڑا نہ بناہو_

بنى اسرائيل: بنى اسرائيل كے سوالات ۷; بنى اسرائيل كى تاريخ ۱،۲،۳،۶; بنى اسرائيل كى خواہشات ۳; بنى اسرائيل كا گائے ذبح كرنا ۱،۲،۵،۶; بنى اسرائيل كا شك ۲;بنى اسرائيل كى گائے كى خصوصيات ۳،۴، ۶،۸; بنى اسرائيل كى ذمہ دارى ۵،۶

تكليف شرعي: تكليف شرعى كے سخت ہونے كے اسباب ۷

حضرت موسىعليه‌السلام : حضرت موسىعليه‌السلام كا واقعہ ۳،۵،۷;حضرت موسىعليه‌السلام اور بنى اسرائيل ۵

روايت: ۸

سوال: بے جا سوال ۷

قتل: ذبح شدہ گائے سے قتل كا منكشف ہونا۲

گائے : ۶

____________________

۱) تفسير قمى ج/ ۱ ص ۴۹ ، نورالثقلين ج/ ۱ ص ۸۸ ح ۲۴۰_

۲۳۲

قَالُواْ ادْعُ لَنَا رَبَّكَ يُبَيِّن لَّنَا مَا لَوْنُهَا قَالَ إِنَّهُ يَقُولُ إِنّهَا بَقَرَةٌ صَفْرَاء فَاقِعٌ لَّوْنُهَا تَسُرُّ النَّاظِرِينَ ( ۶۹ )

ان لوگوں نے كہا يہ بھى پوچھئے كہرنگ كيا ہوگا _ كہا كہ حكم خدا ہے كہ زردبھرك دار رنگ كى ہو جو ديكھنے ميں بھيمعلوم ہو (۶۹)

۱_ حضرت موسىعليه‌السلام كى قوم تكليف شرعى كے مشخص ہونے اور ہدف ( قتل كا معمہ حل كرنا) تك پہنچنے كى خاطر گائے كے جو اں سال ہونے كو كافى نہ سمجھتى تھي_فافعلوا ما تؤمرون _ قالوا ادع لنا ربك يبين لنا مالونها

جملہ '' فافعلوا ما تؤمرون'' سے حضرت موسىعليه‌السلام نے اپنى قوم كو سمجھايا كہ تمہارى ذمہ دارى اس سے زيادہ نہيں كہ جواں سال گائے ذبح كرو اس كے باوجود انہوں نے گائے كا رنگ اور ديگر خصوصيات كے بارے ميں سوال كيا جو اس معنى كى طرف اشارہ ہے: اس طرح كى گائے (صرف جواں سال ہونا) ذبح كرنا قتل كے معمہ كو حل نہيں كرسكتا_

۲ _ حضرت موسىعليه‌السلام كى قوم نے آپعليه‌السلام سے تقاضا كيا كہ جو گائے ذ بح ہونى چاہيئے اس كا رنگ اللہ تعالى سے پوچھ كے بتائيں _قالوا ادع لنا ربك يبين لنا ما لونها

۳ _ حضرت موسىعليه‌السلام كى قوم جس گائے كو ذبح كرنے پر مامور ہوئي اس كا رنگ گہرا پيلا اور فرحت بخش ہونا

چاہيئے تھا_انها بقره صفرآء فاقع لونها تسر الناظرين ''فاقع'' كا معنى گہرا، خالص اور روشن ہے '' تسر _ مسرت بخش ہو'' اسكى ضمير '' بقرة'' كى طرف لوٹتى ہے گويا گائے ايسى ہونى چاہيئے كہ ديكھنے والوں كے لئے خوشى و مسرت كا باعث ہو _ ''صفرآئ ...'' سے يہ مفہوم نكلتاہے كہ مسرت بخش ہونے ميں رنگ بھى دخيل ہے _ يعنى مراد يہ ہے ''تسر بلونہا الناظرين'' پس گائے بھى خوبصورت ہو اور اس كا رنگ بھى _

۴ _ حضرت موسىعليه‌السلام نے اس امر پر تاكيد فرمائي كہ ذبح ہونے والى گائے كى خصوصيات اللہ تعالى كى جانب سے معين كى گئي ہيں نہ كہ آپعليه‌السلام كى طرف سے _قال انه يقول

۵ _ گہرے پيلے رنگ والى گائے لوگوں كے لئے جاذب نظر ہوگى اور مسرت بخش ہوگى _*انها بقرة صفراء فاقع لونها تسر الناظرين يہ مفہوم اس بناپر ہے كہ جملہ '' تسر الناظرين''

۲۳۳

قيد توضيحى ہو نہ كہ احترازى _

بنى اسرائيل: بنى اسرائيل اور حضرت مو سىعليه‌السلام ۲; بنى اسرائيل كى تاريخ ۱،۲; بنى اسرائيل كے مطالبات۲; بنى اسرائيل كى گائے كا رنگ ۲،۳; بنى اسرائيل كى گائے كى خصوصيات۱،۴

ترغيب : ترغيب كے اسباب ۵

حضرت موسىعليه‌السلام : حضرت موسىعليه‌السلام كا واقعہ ۲

رنگ: پيلا رنگ ۳،۵

سرور: سرور كے اسباب ۵

قتل : ذبح شدہ گائے سے قتل كا منكشف ہونا ۱

گائے : پيلے رنگ كى گائے ۵

قَالُواْ ادْعُ لَنَا رَبَّكَ يُبَيِّن لَّنَا مَا هِيَ إِنَّ البَقَرَ تَشَابَهَ عَلَيْنَا وَإِنَّآ إِن شَاء اللَّهُ لَمُهْتَدُونَ ( ۷۰ )

ان لوگوں نے كہا كہ ايسى توبہت سى گائيں ہيں اب كونسى ذبح كريں اسےبيان كيا جائے ہم انشاء اللہ تلاش كرليں گے (۷۰)

۱ _ حضرت موسىعليه‌السلام كى قوم نے مذكورہ گائے كے رنگ اور عمر كى خصوصيات كو كافى نہ سمجھتے ہوئے اسكى مزيد خصوصيات كى توضيح مانگى _قالوا ادع لنا ربك يبين لنا ما هي

۲ _ حضرت موسىعليه‌السلام كى قوم كو يہ يقين تھا كہ ذبح اور معمہ قتل كے حل والى گائے كى خصوصيات بے نظير ہونى چاہئيں _ان البقر تشابه علينا ''تشابہ '' يعنى مثل يا مشابہ ہونا _ چونكہ ''علي'' كے ساتھ متعدى ہوا ہے اس لئے اس ميں اشتباہ و التباس كا معنى پايا جاتاہے _ بنابريں ''ان البقر ...'' كا معنى يہ ہوا كہ جس گائے كى خصوصيات پيلا ہونا اور جواں سال ہونا بيان ہوئي ہے اسكے مصاديق بہت سے ہيں اور يہ امر اس بات كا موجب ہے كہ ہم كون سى گائے كا انتخاب كريں _ حضرت موسىعليه‌السلام كى قوم كا يہ جملہ حكايت كرتاہے كہ ان كا خيال تھا كہ ذبح كے لئے موردنظر گائے كى اسطرح تعريف و تشريح ہو كہ اس جيسى گائے بس ايك ہى ہو_

۲۳۴

۳ _ حضرت موسىعليه‌السلام كى قوم نے ذبح ہونے والى گائے كے انتخاب ميں حيرت و پريشانى كو اپنے سوالات كے تكرار اور زيادہ توضيح و تشريح كى دليل قرار ديا _قال ادع لنا ربك ان البقر تشابه علينا جملہ '' ان البقر ...'' ما قبل جملے كى تعليل ہے اس ميں حضرت موسىعليه‌السلام كى قوم يہ بتانے كے درپے تھى كہ ان كے بار بار كے سوالات اس لئے ہيں كہ معاملہ ان كے لئے مشتبہ ہوگيا ہے اور وہ لوگ حيرت و پريشانى سے نكلنا چاہتے ہيں نہ يہ كہ بہانے بنا رہے ہيں اور ذمہ دارى سے فرار كرنا چاہتے ہيں _

۴ _ حضرت موسىعليه‌السلام كى قوم آخرى سوال سے گائے كے معين ہونے اور حيرت و پريشانى سے نكلنے كے لئے پر اميد تھے _انا إن شاء الله لمهتدون ''مھتدون'' ، ''اہتدائ'' سے اسم فاعل ہے اور اسكا معنى ہے ہدايت يافتہ اسكا متعلق وہى گائے ہے جسے ذبح كرنا ہے _

۵ _ ذبح ہونے والى گائے ملنے كيلئے حضرت موسىعليه‌السلام كى قوم كا اعتماد مشيت الہى پر تھا_و انا إن شاء الله لمهتدون

۶ _ انسانوں كا ہدايت پانا اور حيرت و سرگردانى سے نكلنا اللہ تعالى كے اختيار اور اسكى مشيت سے ممكن ہے_

و انا إن شاء الله لمهتدون

۷_ حضرت موسىعليه‌السلام كى قوم كو اس پر يقين تھا كہ انسان كى ہدايت مشيت الہى اور خداوند متعال كے چاہنے سے وابستہ ہے_و انا إن شآء الله لمهتدون

۸_ حضرت موسىعليه‌السلام كى قوم كو بارگاہ رب العزت سے آپعليه‌السلام كى دعاؤں كى قبوليت اور اپنے مطالبوں كے پوراہونے كا اطمينان تھا_قالوا ادع لنا ربك يبين لنا ماهى ادع لنا ربك يبين لنا مالونها ادع لنا ربك يبين لنا ماهي '' يبين '' اس آيت ميں اور ماقبل آيات ميں شرط مقدر سے مجزوم ہے _ كلام كى تقدير يوں ہے ''ادع لنا ربك ليبين لنا ان تدع اللہ يبين'' خدا سے چاہو كہ ہمارے لئے بيان كرے اگر تم خدا سے چاہوگے تو بيان فرمائے گا '' مذكورہ بالا مفہوم اس معنى ( اگر تم خدا سے چاہوگے تو بيان فرمائے گا ) كى بناپر ہے _

۹ _ پيامبرگرامى اسلام(ص) سے روايت ہے ''انهم امروا بادنى بقرة و لكنهم لما شدوا على أنفسهم شدد الله عليهم و ايم الله لو لم

۲۳۵

يستثنوا ما بينت لهم الى آخر الا بد (۱)

بنى اسرائيل كو كمترين گائے ذبح كرنے كا حكم ديا گيا تھا ليكن انہوں نے خود اپنے لئے سختى كا انتخاب كيا تو اللہ تعالى نے بھى شدت اختيار فرمائي اور خدا كى قسم اگر وہ لوگ '' انشاء اللہ '' نہ كہتے تو ان كے لئے گائے كى خصوصيات قيامت تك بيان نہ ہوپاتيں _

اللہ تعالى : اللہ تعالى سے مختص امور۶; مشيت الہى ۵،۶ ، ۷

بنى اسرائيل: بنى اسرائيل كا اعتماد ۵; بنى اسرائيل اور مشيت الہى ۵; بنى اسرائيل اور حضرت موسىعليه‌السلام ۸; بنى اسرائيل كا نكتہ نظر ۲; بنى اسرائيل كے سوالات ۴; بنى اسرائيل كى تاريخ ۱،۳،۴; بنى اسرائيل كى حيرت ۳،۴; بنى اسرائيل كے مطالبات ۱; بنى اسرائيل كى گائے كى خصوصيات ۱،۲،۹; بنى اسرائيل كا عقيدہ ۵،۷،۸، بنى اسرائيل كے سوالات كا فلسفہ ۳; بنى اسرائيل كى گائے كا واقعہ ۹; بنى اسرائيل كى گائے ۳،۴،۵

حضرت موسىعليه‌السلام : حضرت موسىعليه‌السلام كى دعا كا مستجاب ہونا۸

حيرت و سرگرداني: حيرت سے نجات:۶

روايت: ۹ قاتل: قاتل كى ہويت منكشف ہونے كى كيفيت۲

قتل: ذبح شدہ گائے سے قتل كا منكشف ہونا۲

ہدايت: ہدايت كا سرچشمہ۶،۷

____________________

۱) مجمع البيان ج/ ۱ ص ۲۷۴ ، نورالثقلين ج/ ۱ ص ۸۹ ح ۲۴۳_

۲۳۶

قَالَ إِنَّهُ يَقُولُ إِنَّهَا بَقَرَةٌ لاَّ ذَلُولٌ تُثِيرُ الأَرْضَ وَلاَ تَسْقِي الْحَرْثَ مُسَلَّمَةٌ لاَّ شِيَةَ فِيهَا قَالُواْ الآنَ جِئْتَ بِالْحَقِّ فَذَبَحُوهَا وَمَا كَادُواْ يَفْعَلُونَ ( ۷۱ )

حكم ہوا كہ ايسى گائے جوكاروبارى نہ ہو نہ زمين جو تے نہ كھيٹسينچے ايسى صاف ستھرى كہ اس ميں كوئيدھبہ بھى نہ ہو ان لوگوں نے كہا كہ اب آپنے ٹھيك بيان كيا ہے _ا س كے بعد انلوگوں نے ذبح كرديا حالانكہ وہ ايسا كرنےوالے نہيں تھے(۷۱)

۱ _ حضرت موسىعليه‌السلام كى قوم كو جو گائے ذبح كرنے كا حكم ديا اس كى خصوصيات ميں سے تھا كہ اسے ہل چلانے كے لئے رام نہ كيا گيا ہو اور نہ ہى اس سے آبيارى كا كام ليا گيا ہو_ قال انه يقول انها بقرة لا ذلول تثير الأرض و لا تسقى الحرث

''ذلول'' كامعنى ہے مطيع يا رام كرنا _ تثير كا مصدر ''اثارة'' ہے جسكا معنى ہے تہہ و بالا كرنا اور اس سے مراد زمين پر گائے كے ذريعے ہل چلاكر اس كو تہہ و بالا كرنا _

۲ _ جس گائے كے ذبح كرنے كا حكم حضرت موسىعليه‌السلام كى قوم كو ديا گيا وہ سالم ،بے عيب ، اس كى جلد ميں كسى طرح كا كوئي نقطہ نہ ہو اور اس كے رنگ اور بدن پر كوئي لكير و غيرہ نہيں ہونى چاہيئے تھي_مسلّمة لا شيه فيها ''مسلّمة'' يعنى سالم اور اس كا مطلب يہ ہے كہ ہر طرح كے عيب سے پاك ہو_ ''شية'' ہر اس رنگ كو كہتے ہيں جو عمومى رنگ سے مختلف ہو پس ''لا شية فيہا'' يعنى گائے كے رنگ ميں كوئي اور رنگ نہ ہو _ '' شية'' كا مصدر''وشي'' ہے اور اس كے آخر كى ''ہائ'' واو محذوف كے عوض آئي ہے_

۳ _ حضرت موسىعليه‌السلام كى قوم نے آخر ى علامتوں ( اس سے ہل نہ چلايا گيا ہو وغيرہ ) كو يقين آور اور ذہنى اضطراب كى برطرفى كا ذريعہ سمجھا_قالوا آلان جئت بالحق اس جملہ ميں '' حق '' كا معنى ثابت و استوار ہے اسكے مقابلے ميں غير مشخص اور ترديد پذير امر ہے_ ''الحق'' ميں الف لام استغراق كے لئے ہے يعنى كامل اور پور احق _

۴ _ حضرت موسىعليه‌السلام كى قوم گائے سے ہل چلانے كا اور آبيارى كا كام ليتى تھي_

لا ذلول تثير الأرض و لا تسقى الحرث

۵ _ حضرت موسىعليه‌السلام كى قوم نے گائے كو تمام خصوصيات كے ساتھ تلاش كركے ذبح كيا _فذبحوها ''ہا''كى ضمير بقرة ( مشخص كى گئي گائے) كى طرف لوٹتى ہے_

۲۳۷

۶_ حضرت موسىعليه‌السلام كى قوم نے ذبح ہونے والى گائے كى بيان شدہ ابتدائي خصوصيات كو ناكافى جان كر حضرت موسىعليه‌السلام پر اور حقيقت بيان نہ كرنے كا الزام لگايا_قالوا الان جئت بالحق حضرت موسىعليه‌السلام كى قوم كا مفہوم كلام يہى ہے( تم نے اب سارى حقيقت بيان كى ہے) بالفاظ ديگر گويا حضرت موسىعليه‌السلام نے پہلے جو خصوصيات بيان كيں اس ميں حق كو كامل طور پر بيان نہ كيا _

۷_ حضرت موسىعليه‌السلام كى قوم منظور نظر گائے كى تلاش كے بعد اس كو ذبح كرنے پر تيار نہ تھي_و ما كادوا يفعلون

'' كاد '' كا معنى ہے '' قريب تھا _كہ يہ فعل جب منفى ہوتاہے تو بعض اوقات كام كے نہ ہونے كى تاكيد پر دلالت كرتاہے اور بعض اوقات انجام پانے پر حكايت كرتاہے البتہ بے رغبتى اور عدم تمايل كے ساتھ _'' فذبحوہا'' كے قرينہ سے ''و ما كادوا يفعلون'' ميں دوسرا معنى مراد ہے گويا انہوں نے يہ كام انجام تو ديا ليكن بہت ہى بے رغبتى كے ساتھ_

۸ _ حضرت موسىعليه‌السلام كى قوم نے تكليف شرعى ( معمہ قتل كو حل كرنے كے لئے گائے ذبح كرنا ) كو خواہ مخواہ كے سوالات اور تجسس سے اپنے لئے دشوار و مشكل كرليا _فذبحوها و ما كادوا يفعلون يہ جملہ '' و ما كادوا يفعلون _ قريب تھا كہ انجام نہ ديں '' ممكن ہے كام كے دشوار ہونے كى طرف اشارہ ہو اس كا گواہ يہ جملہ '' فافعلوا ما تؤمرون_ آيت ۶۸'' اور ديگر قرائن ہيں _ حضرت موسىعليه‌السلام كى قوم كے خواہ مخواہ كے سوالات مشكل آفريں بنے اور تكليف كو انہوں نے اپنے لئے دشوار كرليا_

۹_ احكام اور تكاليف شرعى كے بارے ميں وارد ہونے والے اطلاقات اور عمومات حجت ہيں _فافعلوا ما تؤمرون قالوا الان جئت بالحق جملہ ''فافعلوا ما تؤمرون'' اس پر دلالت كرتاہے كہ حضرت موسىعليه‌السلام كى قوم اگر جواں سال گائے ذبح كرديتى اگر چہ اس كا رنگ پيلا نہ ہوتا اور اس طرح ديگر خصوصيات بھى نہ ہوتيں تو تكليف الہى انجام پاجاتى _ پس اگر شارع مقدس تكليف كو مطلق يا عام بيان فرمائے اور قيد و شرط بيان نہ فرمائے تو انسانوں كو چاہيئے كہ انہى اطلاقات اور عمومات پر عمل كريں _

۱۰_ انسان شارع مقدس كے بيان كردہ حكم سے زيادہ كے مكلف نہيں ہيں _فافعلوا ما تؤمرون قالوا الان جئت بالحق فذبحوها و ما كادوا يفعلون

۱۱ _ امام صادقعليه‌السلام كا ارشاد ہے _''... و كان فى بنى اسرائيل رجل له بقرة و كان له ابن بارّ و كان عند ابنه سلعة فجاء قوم يطلبون سلعته و كان مفتاح بيته تحت راس ابيه و كان نائما

۲۳۸

فلما انتبه ابوه قال له يا بنى ما صنعت فى سلعتك قال هى قائمة لم ابعها لان المفتاح كان تحت راسك فكرهت ان انبهك و انغص عليك نومك قال له ابوه قد جعلت هذه البقرة عوضاً عما فاتك من ربح سلعتك و شكر الله لابنه ما فعل بابيه و امر بنى اسرائيل ان تذبحوا تلك بقرة قال لهم موسى ان الله يامركم ان تذبحوا بقرة هى بقره فلان فذهبوا ليشتروها فقال لا ابيعها الا بملء جلدها ذهباً فرجعوا الى موسى عليه‌السلام فاخبروه فقال لهم موسى عليه‌السلام لابد لكم من ذبحها بعينها بملء جلدها ذهباً فذبحوها (۱) بنى اسرائيل كے مابين ايك شخص كے پاس گائے تھى اسكا ايك نيك خصلت بيٹا تھا_ اس بيٹے كے پاس ايك جنس تھى جس كو خريدنے كے ليئے كچھ افراد آئے تو چابى اس كے والد كے سرہا نے تلے تھى جو سورہا تھا والد جب اٹھا تو اس نے بيٹے سے پوچھا تو نے جنس كا كيا كيا ؟ تو بيٹے نے جواب ديا كہ جنس ويسے ہى ہے ميں نے اسے نہيں بيچا كيونكہ چابى آپ كے سركے نيچے تھى اور ميں نہيں چاہتا تھا كہ آپ كو بيدار كروں اور آپ كى نيند خراب كروں _ والد نے اس سے كہا وہ منافع جو تو نے ضائع كرديا ہے اسكے بدلے ميں يہ گائے تجھے بخشتا ہوں _ بيٹے كے والد سے اس نيك سلوك پر اللہ تعالى نے بنى اسرائيل كو حكم ديا كہ گائے كو ذبح كريں حضرت موسىعليه‌السلام نے ان سے فرمايا '' اللہ تعالى نے تمہيں حكم ديا ہے كہ ايك گائے ذبح كرو'' يہ اسى نيك آدمى كى گائے تھى _ يہ گائے خريدنے كے لئے لوگ اس كے پاس گئے تو اس نے كہا كہ جب تك اس كى جلد كو سونے سے نہ بھرو اس كو ہرگز نہيں بيچوں گا _ پس بنى اسرائيل حضرت موسىعليه‌السلام كے پاس آئے تو حضرت موسىعليه‌السلام نے فرمايا كہ اسى گائے كو ذبح كرو اگر چہ اس كى جلد كو سونے سے بھرنا پڑے تو اس طرح بنى اسرائيل اسى گائے كو ذبح كرنے پر مجبور ہوئے ...''

۱۲ _ امام رضاعليه‌السلام سے روايت ہے كہ آپعليه‌السلام نے ارشاد فرمايا: ''ان الذين امروا قوم موسي عليه‌السلام بعبادة العجل كانوا خمسة انفس و كانوا اهل بيت ياكلون على خوان واحد و هم الذين ذبحوا بقرة التى امر الله عزوجل بذبحها (۲) جن لوگوں نے حضرت موسىعليه‌السلام كى قوم كو گوسالہ پرستى كى دعوت دى پانچ افراد تھے جو ايك ہى خاندان سے اور ايك دستر خوان پر بيٹھتے تھے يہ وہى لوگ تھے جن كو خداوند عالم كى طرف سے گائے ذبح كرنے كا حكم ديا گيا _

۱۳ _ يونس بن يعقوب كہتے ہيں''قلت لابى عبدالله عليه‌السلام ان اهل مكه يذبحون البقره فى اللبب فما ترى فى اكل لحومها ؟ قال فسكت هنيهة ثم قال:قال الله ''فذبحوها و ما كادوا يفعلون لا تاكل الا ماذبحوا من مذبحه'' (۳)

____________________

۱) تفسير قمى ج/ ۱ ص ۴۹ ، نورالثقلين ج/ ۱ ص ۸۸ ح ۲۴۰_ ۲) خصال ج/ ۱ ص ۲۹۲ ح ۵۵ ، نورالثقلين ج/ ۱ ص ۸۸ ح ۲۳۹_ ۳) تفسير عياشى ج/ ۱ ص ۴۷ ح ۶۱ تفسير برہان ج/۱ ص ۱۱۲ ح ۶_

۲۳۹

ميں نے اما م صادقعليه‌السلام سے عرض كيا اہل مكہ گائے كو اونٹ كى طرح ذبح كرتے ہيں (نحر كرتے ہيں ) پس اس كے گوشت كا كيا حكم ہے ؟ امامعليه‌السلام كچھ دير خاموش رہے اور پھر فرمايا اللہ تعالى فرماتا ہے ''انہوں نے گائے كو ذبح كيا اور قريب تھا كہ اس ذمہ دارى كو انجام نہ ديں '' پس كوئي گوشت نہ كھاؤ مگر يہ كہ شرعى طريقے سے ذبح ہوا ہو_

آبيارى : گائے سے آبيارى ۴; آبيارى كا ذريعہ ۴

احكام: احكام كے اطلاقات كا حجت ہونا ۹; احكام كے عمومات كا حجت ہونا ۹

بنى اسرائيل : بنى اسرائيل ميں آبيارى ۴; بنى اسرائيل كى بصيرت ۶; بنى اسرائيل كے سوالات ۸; بنى اسرائيل كى تاريخ ۱،۲ ، ۳، ۴،۵،۶،۷،۸; بنى اسرائيل كا گائے ذبح كر نا ۲،۵، ۷،۸; بنى اسرائيل كى حيرانگى دور ہونا ۳; بنى اسرائيل كى

گائے كى خصوصيات ۱،۲،۳،۶; بنى اسرائيل كى گائے كا واقعہ ۱۱،۱۲،۱۳; بنى اسرائيل كى زراعت ۴; بنى اسرائيل كا بچھڑے كى پوجا كرنا ۱۲

تكليف شرعي: تكليف شرعى كے سخت و دشوار ہونے كے اسباب ۸ ;تكليف شرعى كا دائرہ كا ر ۱۰;تكليف شرعى كا منبع ۱۰

حضرت موسىعليه‌السلام : حضرت موسىعليه‌السلام پر تہمت ۶; حضرت موسىعليه‌السلام كا واقعہ۶

روايت: ۱۱،۱۲،۱۳

زراعت: زراعت كے آلات ۴

سوال: بے جا سوالات۸

گائے : ۸

ہل چلانا: گائے سے ہل چلانا ۴

۲۴۰

وَإِذْ قَتَلْتُمْ نَفْساً فَادَّارَأْتُمْ فِيهَا وَاللّهُ مُخْرِجٌ مَّا كُنتُمْ تَكْتُمُونَ ( ۷۲ )

اور جب تم نے ايك شخصكو قتل كرديا اوراس كے قاتل كے بارے ميں جھگڑا كرنے لگے جب كہ خدا اس راز كا واضحكرنے والا ہے جسے تم چھپارہے تھے(۷۲)

۱ _ حضرت موسىعليه‌السلام كى قوم كا ايك فرد قتل ہوگيا تو ہر قبيلہ ايك دوسرے پر الزام دھرنے لگا اس طرح ان ميں اختلاف و نزاع بپا ہوگيا _و إذ قتلتم نفسا فادار ء تم فيها '' ادارء تم'' كا معنى ہے تم نے اختلاف و جھگڑا كيا _ يہ لفظ باب تفاعل ميں '' تدارء تم'' تھا_ ''ادارء تم فيہا'' مقتول ميں نزاع و اختلاف كا معنى يہ ہے كہ ايك دوسرے پر قتل كا الزام لگانا اور اسى مسئلہ پر ايك دوسرے سے جھگڑنا ہے_

۲ _ اللہ تعالى نے حضرت موسىعليه‌السلام كى قوم كو قاتل كى پہچان كى خوش خبرى دى اور قاتلوں كى ماہيت كو افشا كرنے كى دھمكى د ي_والله مخرج ما كنتم تكتمون ''ما كنتم تكتمون'' تم نے جو كچھ چھپاياہے ما قبل جملہ كے قرينہ سے اس جملہ سے مراد يہ ہے كہ قاتل كو جاننے كے باوجود انہوں نے نہيں بتايا ''مخرج '' كا مصدر '' اخراج '' ہے اور تكتمون كے قرينہ سے اس سے مراد آشكارا كرنا ہے_

۳ _ حضرت موسىعليه‌السلام كى قوم كے بعض افراد قاتل كو جانتے

تھے_ ليكن اس كى ماہيت كو ظاہر كرنے سے انہوں نے پرہيز كيا _والله مخرج ما كنتم تكتمون

اگر چہ قاتل كو چھپانے كى نسبت حضرت موسىعليه‌السلام كى سارى قوم كو دى گئي ہے ليكن '' فادارء تم'' كے قرينہ سے معلوم ہوتاہے كہ بعض لوگ قاتل كو پہچانتے تھے ليكن انہوں نے بتانے سے اجتناب كيا _

۴ _ اللہ تعالى انسانوں كے رازوں سے آگاہ ہے اور ان كو ظاہر كرنے پر قدرت و توانائي ركھتاہے_والله مخرج ما كنتم تكتمون

اللہ تعالى : اللہ تعالى كى دھمكياں ۲; اللہ تعالى كا علم غيب ۴; اللہ تعالى كى قدرت ۴

انسان: انسانوں كے راز ۴

۲۴۱

بنى اسرائيل: بنى اسرائيل ميں قتل كى بنياد ركھنے والے كو آشكار كرنا ۲; بنى اسرائيل كى تاريخ ۱،۳; بنى اسرائيل كو دھمكى ۲; بنى اسرائيل ميں قتل كا واقعہ۱; بنى اسرائيل ميں قاتل كو چھپايا جانا۳; بنى اسرائيل كا جھگڑا ۱

راز: راز كا افشا ہونا ۴

قاتل: قاتل كى ماہيت كا افشا ہونا ۲،۳

فَقُلْنَا اضْرِبُوهُ بِبَعْضِهَا كَذَلِكَ يُحْيِي اللّهُ الْمَوْتَى وَيُرِيكُمْ آيَاتِهِ لَعَلَّكُمْ تَعْقِلُونَ ( ۷۳ )

توہم نے كہا كہ مقتول كو گائے كے ٹكڑے سےمس كردو خدا اسى طرح مردوں كو زندہكرتاہے اور تمھيں اپنى نشانياں دكھلاتاہےكہ شايد تمھيں عقل آجائے(۷۳)

۱ _ اللہ تعالى نے حضرت موسيعليه‌السلام كى قوم كو حكم ديا كہ ذبح شدہ گائے كا ايك ٹكڑا مقتول كے جسم پر ماريں _

فقلنا اضربوه ببعضها ''اضربوہ'' كى مفعولى ضمير ''نفساً'' كى طرف لوٹتى ہے اور ببعضہا كى ضمير ''بقرہ'' كى طرف پلٹتى ہے_

۲ _ حضرت موسىعليه‌السلام كى قوم كا مقتول، ذبح شدہ گائے كا ايك ٹكڑا لگنے سے زندہ ہوگيا _فقلنااضربوه ببعضهاكذلك يحيى الله الموتى ''كذلك يحى الله الموتى '' اللہ اسى طرح مردوں كو زندہ كرتاہے'' يہ عبارت اس جملہ ''فقلنا ...'' كے بعد آنا اس پر دلالت كرتى ہے كہ مقتول زندہ ہوگيا _

۳ _ اللہ تعالى كا فعل علل و اسباب پيدا ہونے سے متحقق يا وقوع پذير ہوتاہے_فقلنا اضربوه ببعضها

۴ _ حضرت موسىعليه‌السلام كى قوم كے مقتول نے زندہ ہونے كے بعد اپنے قاتل كا تعارف كرايا_والله مخرج ما كنتم تكتمون _ فقلنا اضربوه ببعضها كذلك يحيى الله الموتى اللہ تعالى كے اس وعدہ كے بعد كہ وہ قاتل كى ماہيت و شخصيت كو افشا كرے گا بنى اسرائيل كے مقتول كے زندہ ہونے كاذكر ايك محذوف جملے پر دلالت كرتاہے يعنىفضربوه بها فصار حياً و قال ان فلانا قتلني _

۵ _ بنى اسرائيل كے مقتول كو زندگى عطا كرنا اللہ تعالى كا فعل تھا_فقلنا اضربوه ببعضها كذلك يحيى الله الموتى

بنى اسرائيل كے مقتول كے گائے كا ايك عضو مارنے سے زندہ ہوجانے كے بعد اس حقيقت كا بيان كرنا ''اللہ تعالى مردوں كو زندہ كرتاہے'' اس سے يہ مفہوم نكلتاہے كہ مقتول كو زندگى عطا كرنا اللہ تعالى كا فعل ہے نہ كہ ذبح شدہ گائے كے عضو كا اثر _

۲۴۲

۶ _ حضرت موسىعليه‌السلام كى قوم كا مقتول مذكر تھا_فقلنا اضربوه ببعضها يہ مفہوم اس بناپر ہے كہ '' اضربوہ'' ميں ضمير ''ہ'' مذكر ہے جو '' نفسا'' كى طرف لوٹتى ہے_

۷_ اللہ تعالى تمام مردوں كو دوبارہ زندگى عنايت فرمائے گا _كذلك يحيى الله الموتى

۸ _ مردوں كو زندہ كرنا اللہ تعالى كے لئے سہل اور آسان امر ہے _كذلك يحيى الله الموتى

بنى اسرائيل كے مقتول كو زندہ كرنے ميں اور تمام مردوں كو زندہ كرنے ميں غالباً جو وجہ شباہت پائي جاتى ہے وہ سہولت اور آسانى ہے _ يعنى جسطرح اللہ تعالى نے اس مردے كو آسانى سے زندہ فرمايا باقى سارے مردوں كو بھى زندہ كرے گا _

۹ _ اللہ تعالى قيامت كے دن مردوں كے حاضر ہونے كے لئے ان كو اسباب كے ذريعے زندہ فرمائے گا_*فقلنا اضربوه ببعضها كذلك يحيى الله الموتي يہ مفہوم اس بناپر ہے كہ بنى اسرائيل كے مقتول كے زندہ ہونے ميں اور باقى مردوں كے قيامت كے روز زندہ ہونے ميں وجہ شباہت پائي جاتى ہو اور وہ اسباب كا استعمال ہے_

۱۰_ دنيا ميں مردوں كے زندہ ہونے كا امكان پايا جاتاہے _فقلنا اضربوه ببعضها كذلك يحيى الله الموتي

۱۱_ حضرت موسىعليه‌السلام كى قوم ميں سے ايك شخص كا قتل ہونا اور اسكا دوبارہ زندہ ہونا ايك معجزہ ہے اور ايك ايسا واقعہ ہے جو ياد ركھنے كے قابل ہے _إذ قتلتم نفسا فقلنا اضربوه ببعضها كذلك يحيى الله الموتى '' اذ'' فعل مقدر '' اذكروا'' كا مفعول ہے _

۱۲ _ اللہ تعالى لوگوں كے لئے اپنى قدرت كى نشانيوں كو ہميشہ اور واضح كركے بيان فرماتاہے_و يريكم آياته

آيات كا معنى نشانياں ہيں _ مردوں كے زندہ كرنے كے ذكر كى مناسبت سے ايسا معلوم ہوتاہے كہ مافوق آيت ميں آيات سے مراد قيامت يا قدرت خدا كے دلائل و نشانياں مراد ہيں _

۱۳ _ انسانوں كو آيات كا مشاہدہ كرانے كے اہداف ميں سے ايك يہ ہے كہ انسانوں كو يہ ادراك اور شعور ديا جائے كہ ان آيات پر قدرت و توانائي اور اقتدار و

۲۴۳

صلاحيت خداوند متعال كو حاصل ہے _يريكم آياته لعلكم تعقلون

۱۴ _ سوچنا اور غور و فكر كرنا اعلى ترين اقدار ميں سے ہے_يريكم آياته لعلكم تعقلون

يہ جو آيات كو اس ہدف كے لئے پيش كيا گياہے كہ بشر ميں سوچنے اور غور و فكر كرنے كى زمين ہموار كى جائے اس سے غور و فكر اور تدبر كى اہميت كا پتہ چلتاہے_

۱۵ _بنى اسرائيل كے مقتول كا زندہ ہونا اور اپنے قاتل كى پہچان كرانا اللہ تعالى كى آيات اور اسكى قدرت و اقتدار كى نشانيوں ميں سے ہے_فقلنا اضربوه ببعضها كذلك يريكم آياته لعلكم تعقلون ''آياتہ'' كے مصاديق ميں سے بنى اسرائيل كے مقتول كا زندہ ہونا ہے جبكہ آيت كا منظور نظر بھى يہى ہے_

۱۶ _ قرآن كريم ميں واقعات يا داستانوں كے نقل كرنے كا ہدف يہ ہے كہ انسانوں ميں تدبر اور ادراك كى زمين فراہم كى جائے_و يريكم آياته لعلكم تعقلون ''آياتہ'' سے بعض اوقات مراد خارجى واقعات اور حقائق ہيں جبكہ بعض اوقات منظور نظر ان حقائق كا بيان اور نقل كرنا ہے _ مذكورہ مفہوم دوسرے احتمال كى بنياد پر ہے _ اس احتمال كى بنياد پر ''آياتہ'' كے مصاديق ميں سے بنى اسرائيل كى گائے كا واقعہ اور ان كے مقتول كے زندہ ہونے كا واقعہ ہے_

۱۷ _ بزنطى نے امام رضاعليه‌السلام سے روايت كى ہے كہ''ان رجلاً من بنى اسرائيل قتل قرابة له فقالوا لموسى عليه‌السلام ان سبط آل فلان قتلوا فلاناً فاخبرنا من قتله ؟ قال ايتونى ببقرة فاشتروهاوجاؤابهافامر بذبحها ثم امر ان يضرب الميت بذنبها فلما فعلوا ذلك حيى المقتول و قال يا رسول الله ابن عمى قتلنى دون من يدعى عليه قتلى فعلموا بذلك قاتله (۱) بنى اسرائيل ميں سے ايك شخص نے اپنے قريبيوں ميں سے ايك فرد كو قتل كرديا بنى اسرائيل نے حضرت موسىعليه‌السلام سے كہا كہ فلاں قبيلے كے ايك فرد نے كسى كو قتل كرديا ہے تو آپعليه‌السلام ہميں قاتل كى خبر ديں كون ہے ؟ حضرت موسىعليه‌السلام نے فرمايا ا يك گائے ميرے پاس لاؤ وہ لوگ گائے خريد كے حضرت موسىعليه‌السلام كے پاس لائے _ حضرت موسىعليه‌السلام نے اس گائے كو ذبح كرنے كا حكم ديا پھر فرمايا گائے كى دم مقتول كو مارو جب انہوں نے يوں كيا تو مردہ زندہ ہوگيا اور عرض كى يا رسول اللہ ميرے چچا زاد نے مجھے قتل كيا ہے نہ كہ اس شخص نے جس پر ميرے قتل كا الزام لگايا گيا ہے پس اسطرح انہوں نے قاتل كو پہچان ليا _

آيات الہى : ۱۵ آيات الہى كا پيش كرنا ۱۲; آيات الہى كو بيان كرنا ۱۲;آيات الہى كو پيش كرنے كا فلسفہ ۱۳

____________________

۱) عيون اخبار الرضاعليه‌السلام ج/۲ ص ۱۳ ح ۳۱ ، نورالثقلين ج/ ۱ ص ۸۸ ح ۲۳۸_

۲۴۴

ادراك: ادراك كى قدر و قيمت ۱۴; ادراك كى زمين فراہم كرنا ۱۶ اقدار: ۱۴

اللہ تعالى : افعال الہى ۵،۷،۸،۹،۱۲; اوامر الہى ۱; افعال الہى كا وجود ميں آنا ۳; اللہ تعالى كى قدرت كى نشانياں ۱۲،۱۳،۱۵

بنى اسرائيل: بنى اسرائيل كے مقتول كا زندہ ہونا ۲،۴،۵،۱۱، ۱۵; بنى اسرائيل كى تاريخ ۱،۲ ، ۴ ، ۱۱ ،۱۷; بنى اسرائيل كى گائے كا ذبح ہونا ۱۷; بنى اسرائيل ميں قتل كا واقعہ ۱۱; بنى اسرائيل كى گائے كا واقعہ ۱۷; بنى اسرائيل كے مقتول كا مذكر ہونا ۶

تعقل: تعقل كى قدر و قيمت ۱۴; تعقل كى زمين فراہم ہونا ۱۶

جرائم : جرائم كے انكشاف كى كيفيت ۱،۲،۴

حضرت موسى (ع): حضرت موسىعليه‌السلام كا واقعہ۱۷

ذكر: تاريخ كا ذكر ۱۱

رجعت ( دوبارہ زندہ ہونا ): رجعت كا امكان ۱۰

روايت :۱۷

زندگي: زندگى كا دوبارہ لوٹنا ۷; زندگى كا سرچشمہ ۵،۷

سببيت: سببيت كا نظام ۳

طبعى و فطرى عوامل: طبعى و فطرى عوامل كى اہميت ۳

قاتل: قاتل كى شخصيت و ماہيت كے انكشاف كى كيفيت ۱،۲

قتل: ذبح شدہ گائے سے قتل كا انكشاف ۱

قرآن حكيم : قرآنى قصوں كا فلسفہ ۱۶

قيامت : قيامت ميں حشر و نشر يا حاضرى ۹

مردے : مردوں كا دنيا ميں زندہ كرنا ۱۰; مردوں كا زندہ كرنا ۷; مردوں كو زندہ كرنے كے اسباب ۹; مردوں كا زندہ كرنا سہل اور آسان ہے ۸

معجزہ : مردوں كے زندہ كرنے كا معجزہ ۱۱

۲۴۵

ثُمَّ قَسَتْ قُلُوبُكُم مِّن بَعْدِ ذَلِكَ فَهِيَ كَالْحِجَارَةِ أَوْ أَشَدُّ قَسْوَةً وَإِنَّ مِنَ الْحِجَارَةِ لَمَا يَتَفَجَّرُ مِنْهُ الأَنْهَارُ وَإِنَّ مِنْهَا لَمَا يَشَّقَّقُ فَيَخْرُجُ مِنْهُ الْمَاء وَإِنَّ مِنْهَا لَمَا يَهْبِطُ مِنْ خَشْيَةِ اللّهِ وَمَا اللّهُ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُونَ ( ۷۴ )

پھر تمھارےدل سخت ہوگئے جيسے پتھر يا اس سے بھى كچھزيادہ سخت كہ پتھروں ميں سے تو بعض سےنہريں بھى جارى ہوجاتى ہيں اور بعضشگافتہ ہوجاتے ہيں تو ان سے پانى نكلآتاہے اور بعض خوف خدا سے گر پڑتے ہيں _ليكن اللہ تمھارے اعمال سے غافل نہيں ہے(۷۴)

۱_ آيات الہى اور بہت سارے معجزات ديكھنے كے باوجود بنى اسرائيل كے دل سخت ہوگئے اور آيات و معارف الہى كے فہم و ادراك سے عاجز ہوگئے_لعلكم تعلقون _ ثم قست قلوبكم من بعد ذلك '' قست'' كا مصدر '' قساوة'' ہے اسكا معنى ہے گاڑھا اور سخت ہونا _ جملہ '' لعلكم تعقلون'' كا مفہوم يہ ہے كہ بنى اسرائيل كے دلوں كا سخت ہونا آيات و معارف الہى كے فہم و ادراك كے مقابلے ميں ہے _ '' ذلك'' ان نعمات اور معجزات كى طرف اشارہ ہے جو اللہ تعالى نے بنى اسرائيل كو پيش كيئے اور ان كا ذكر گزشتہ آيات ميں ہوچكاہے_

۲_ بنى اسرائيل كے دل سختى اور نفوذ ناپذيرى ميں پتھر كى طرح بلكہ اس سے بھى سخت تر ہوگئے_فهى كالحجارة او اشد قسوة '' حجارة'' حجر كى جمع ہے جسكا معنى ہے پتھر يا سنگ ريزہ_

۳ _ بنى اسرائيل كى قساوت قلبى ان كى ضد، ہٹ دھرمي، بہانہ تراشيوں اور نافرمانيوں كا نتيجہ تھي_قالوا اتتخذنا هزواً ثم قست قلوبكم

۴ _ بنى اسرائيل كے دل سخت ہونے كى وجہ سے ذرہ برابر معرفت سے بھى محروم و ناتواں ہوگئے_ثم قست قلوبكم فهى كالحجارة او اشد قسوة و ان من الحجارة جملہ '' ثم قست ...'' كا جملہ '' يريكم آياتہ لعلكم تعقلون '' سے ارتباط كا تقاضا يہ ہے كہ سختى دل كا مفہوم يہ ہو معارف الہى كے القا كو قبول

۲۴۶

نہ كرنا _ جبكہ اس جملہ ''ان من الحجارة ...'' ميں سختى كا مطلب يہ ہو كہ دل ميں معارف و حقائق القا نہيں ہوسكتے يعنى قسى القلب پر نہ خارج سے اثر ہوتاہے اور نہ ہى اندر كوئي چيز القا ہوسكتى ہے_

۵ _ بعض پتھروں سے پانى كے چشموں كا جارى ہونا دليل ہے كہ بنى اسرائيل كے دل پتھر سے زيادہ سخت ہيں _

او اشد قسوة و ان من الحجارة لما يتفجر منه الانهار ''يتفجر'' كا مصدر '' تفجّر'' ہے جسكا معنى ہے باہر آنا اور جارى ہونا ( مجمع البيان) جملہ ''ان من الحجارة'' ، ''اشدقسوة'' كے لئے دليل كے طور پر ہے_ '' لما'' لام تاكيد اور '' ما'' موصولہ سے مركب ہے اور اس سے مراد پتھر ہے پس مفہوم يوں ہے ''ان من الحجارة لما ...بعض پتھروں ميں سے يقيناً پتھر ہے كہ جو ...''

۶ _ بعض پتھروں ميں شگاف پيدا ہونا اور ان سے پانى كا جارى ہونا اس بات كى دليل ہے كہ بنى اسرائيل كے دل پتھروں سے زيادہ سخت ہيں _و ان منها لما يشقق فيخرج منه الماء '' يشقق، يتشقق'' كا مصدر تشقق ہے جسكا معنى ہے شگاف پيدا ہونا _ بعض اہل لغت كى رائے ہے كہ '' شق'' ايسے چھوٹے شگاف كو كہتے ہيں جو زيادہ واضح نہ ہو_

۷_ پتھروں كا خوف و خشيت الہى سے گرنا اس بات كى دليل ہے كہ بنى اسرائيل كے دل پتھروں سے زيادہ سخت ہيں _و ان منها لما يهبط من خشية الله ''من خشية الله'' ميں '' من'' تعليليہ ہے _ ''يہبط'' كا مصدر ہبوط ہے جس كا معنى ہے گرنا سقوط كرنا _ بنابريں جملہ''ان منھا ...'' سے مراد ہے كہ بعض پتھروں ميں ايسے پتھر ہيں جو خوف خدا سے گرجاتے ہيں _

۸ _ عالم مادہ يا جہان طبيعات شعور ركھتاہے _و ان منها لما يهبط من خشية الله

۹ _ عالم طبيعات يا جہان مادہ اللہ تعالى كى معرفت ركھتاہے اور اس كے مقام الوھيت سے آگاہ ہے_و ان منها لما يهبط من خشية الله

۱۰_ عالم طبيعات كا خداوند عالم سے خوف،اس كے عمل اور رد عمل كا سبب ہے _و ان منها لما يهبط من خشية الله

۱۱ _ جمادات سے پست تر مرحلے ميں انسان كے سقوط اور زوال كا خطرہ موجود ہے _و ان من الحجارة لما يتفجر و ان منها لما يهبط من خشية الله

۱۲ _ دينى حقائق اور معارف الہى كو درك نہ كرنا اور قبول نہ كرنا قساوت قلبى يا دلوں كے سخت ہونے كى دليل ہے _

يريكم آياته لعلكم تعقلون_ثم قست قلوبكم من بعد ذلك

۲۴۷

۱۳ _ قساوت قلبى يا سخت دلى كے مختلف درجات اور مراحل ہيں _فهى كالحجارة او اشد قسوة مذكورہ بالا جملے ميں '' او'' ممكن ہے مختلف اقسام اور انواع كے لئے استعمال ہوا ہو _ بنابريں يہ جملہ ''فھى كالحجارة ...'' دلالت كرتاہے كہ كچھ دل تو پتھر كى طرح سخت ہيں اور كچھ پتھر سے بھى سخت تر ہيں _

۱۴ _ انسان كے دل اور قلب كو خوف و خشيت الہى سے لرزاں بر اندام ہونا چاہيئے اور اسى كى راہ ميں چلنا چاہيئے_

و ان منها لما يهبط من خشية الله

۱۵ _ انسانى قلب كو الہى حقائق و معارف كے ظہور كا ذريعہ اور علم و حكمت كا مقام ہونا چاہيئے_ان من الحجارة لما يتفجر منه الانهار و ان منها لما يشقق فيخرج منه الماء

۱۶ _ قلب اگر خير و بركت كے ظہور كا مركز اور علم و حكمت كا سرچشمہ ہو تو يہ اس بات كى دليل ہے كہ قلب قساوت و سختى اور كينہ و كدورت سے پاك ہے_ثم قست قلوبكم فهى كالحجارة او اشد و ان من الحجارة لما يتفجر منه الانهار

۱۷_ اللہ تعالى كے حضور خشوع و خضوع، قلب كى قساوت و كدورت سے سلامتى و پاكيزگى كى دليل ہے_ثم قست قلوبكم فهى كالحجارة او اشد و ان منها لما يهبط من خشية الله

۱۸ _ اللہ تعالى انسانوں كے تمام تر اعمال و افعال سے آگاہ ہے_و ما الله بغافل عما تعملون

۱۹_ بنى اسرائيل گناہگار اور برے اعمال كے مالك تھے ان كو خداوند متعال كى جانب سے سزاؤں كى دھمكى دى گئي _

و ما الله بغافل عما تعملون اللہ تعالى گناہگاروں كے اعمال سے آگاہ ہے اس كے بيان كرنے كا ايك مقصد يہ ہے كہ گناہگاروں كو سزا كى دھمكى دى گئي ہے_

۲۰ _ گناہگار لوگ اور برے اعمال كے مالك افراد كا اللہ تعالى كى سزاؤں ميں مبتلا ہونے كا خطرہ موجود ہے_

و ما الله بغافل عما تعملون

اللہ تعالى : اللہ تعالى كى دھمكياں ۱۹; اللہ تعالى كا علم ۱۸; اللہ تعالى كى سزائيں ۱۹،۲۰

انسان: انسان كا عمل ۱۸; انسان كے زوال كے درجات۱۱

بنى اسرائيل: بنى اسرائيل كو آيات كا مشاہدہ كرانا ۱; بنى

۲۴۸

اسرائيل گناہگار ہيں ۱۹; بنى اسرائيل كى بہانہ تراشياں ۳; بنى اسرائيل كو دھمكى ۱۹; بنى اسرائيل كى نافرمانى ۳; بنى اسرائيل كى قساوت قلبى ۱،۲،۳،۴،۵،۶،۷; بنى اسرائيل كى ضد اور ہٹ دھرمى ۳

بہانہ تراشى : بہانہ تراشى كے نتائج ۳

پاني: پانى كا پتھر سے جارى ہونا ۵،۶

پتھر: پتھروں كا زوال و سقوط ۷; پتھروں كا شگافتہ ہونا ۶

تشبيہات: پتھر سے تشبيہ ۲

حكمت : حكمت كے نتائج ۱۶; حكمت كا مقام ۱۵

خشيت: خشيت كے آثار و نتائج ۱۷; خشيت خدا ۷،۱۰،۱۴

دين: دين سے منہ موڑنا۱۲; دين كا مقام ۱۵

سزا : سزا كے موجبات ۲۰

شناخت: شناخت كى ركاوٹيں ۴

ضد: ضد كے نتائج ۳

عالم طبيعات: عالم طبيعات كى خدا شناسى ۹; عالم طبيعات كى خشيت و خوف ۱۰; عالم طبيعات كا شعور ۸،۹; عالم طبيعات ميں تحولات و تغيرات كا سرچشمہ ۱۰

علم : علم كے نتائج ۱۶; علم كا مقام ۱۵

عمل: ناپسنديدہ عمل كى سزا و انجام ۲۰

قرآن حكيم: قرآن حكيم كى تشبيہات۲

قلب: قساوت قلبى كے نتائج ۴; خشيت قلب ۱۴; قساوت قلبى كے اسباب ۳; قساوت قلبى كے درجات ۱۳; قساوت قلبى كى نشانياں ۱۲; قلب سليم كى علامتيں ۱۶،۱۷; قلب كى اہميت و كردار ۱۵;

گناہگار: گناہگاروں كى سزا ۱۹،۲۰; گناہگاروں كو تنبيہ ۲۰

نافرماني: نافرمانى كے نتائج ۳

۲۴۹

أَفَتَطْمَعُونَ أَن يُؤْمِنُواْ لَكُمْ وَقَدْ كَانَ فَرِيقٌ مِّنْهُمْ يَسْمَعُونَ كَلاَمَ اللّهِ ثُمَّ يُحَرِّفُونَهُ مِن بَعْدِ مَا عَقَلُوهُ وَهُمْ يَعْلَمُونَ ( ۷۵ )

مسلمانو كيا تمھيں اميد ہے كہ يہيہودى تمھارى طرح ايمان لے آئيں گے جب كہان كے اسلاف كا ايك گروہ كلام خدا كو سنكر تحريف كرديتا تھا حالانكہ سب سمجھتےبھى تھے اور جانتے بھى تھے(۷۵)

۱_ زمانہ بعثت كے مسلمانوں كو اس دور كے يہوديوں سے توقع اور اميد تھى كہ وہ پيامبر اسلام (ص) كى رسالت كى حقانيت اور ان كے پيروكاروں كى تائيد كريں گے_أفتطمعون ان يومنوا لكم طمع كا معنى ايسى چيز كى طرف نفس كا كشش كرناہے جسكو دل چاہے ( مفردات راغب) طمع كا معنى اميد و رغبت ہے ( لسان العرب) ''ان يومنوا'' ميں ''لكم'' كے قرينہ سے ايمان كے معنى تصديق و تائيد كرناہے _ پس ''أفتطمعون ...'' يعنى كيا تمہيں اميد ہے كہ جس راہ كا تم نے انتخاب كيا ہے اس كى تائيد كريں ؟

۲ _ صدر اسلام كے مسلمانوں كى دلبستگى اور اميد بنى اسرائيل كے ايمان لانے پر تھي_أفتطمعون ان يومنوا لكم

يہ مفہوم ''ان يومنوا لكم'' كا لازمہ ہے كيونكہ كسى مكتب كے پيروكاروں كى تصديق و تائيد در حقيقت اس مكتب كى حقانيت كى تصديق ہے اور بالاخر اس پر ايمان لاناہے_

۳ _ اللہ تعالى نے مسلمانوں كو بنى اسرائيل اور يہوديوں كے ايمان نہ لانے سے آگاہ فرمايا _أفتطمعون ان يومنوا لكم

''أفتطمعون'' ميں ہمزہ استفہام انكار توبيخى يا تعجبى كے لئے ہے _ دونوں صورتوں ميں اس پر دلالت كرتاہے كہ يہودى معاشرہ اوربنى اسرائيل اسلام و قرآن پر ايمان نہ لائيں گے _

۴ _ بنى اسرائيل اور يہودى معاشرے كى سخت دلى اور قساوت قلبي، ان ميں اسلام كى طرف رجحان اور ايمان كو جڑ سے اكھاڑنے والى تھي_ثم قست قلوبكم أفتطمعون ان يومنوا لكم

'' أفتطمعون'' ميں حرف '' فائ'' بنى اسرائيل سے ايمان كى اميد منقطع ہونے كو انكى قساوت قلبى كا نتيجہ قرا ر ديتاہے جيسا كہ اسكا بيان ما قبل آيت ميں ہوا ہے يعنى بنى اسرائيل ميں قساوت قلبى كے پيدا ہونے سے ان ميں ايمان لانے كى اميديں منقطع ہوگئي ہيں _

۵_ كچھ لوگوں نے بنى اسرائيل سے كلام الہى (تورات) سننے اور سمجھنے كے بعد اس ميں تحريف كردى _و قد كان فريق منهم يسمعون كلام الله ثم يحرفونه من بعد ما عقلوه

۲۵۰

آيہ مجيدہ ميں ''كلام اللہ '' سے مراد تورات ہوسكتى ہے اور قرآن كريم بھى ہوسكتاہے _ مذكورہ مفہوم پہلے احتمال كى بناپر ہے

۶ _ بعض بنى اسرائيل نے پيامبرعليه‌السلام خدا كے واسطہ كے بغير كلام الہى كو سنا_ *و قد كان فريق منهم يسمعون كلام الله بعض مفسرين كى رائے كے مطابق ''فريق منھم'' سے مراد وہ ستر ۷۰) افراد ہيں جن كو حضرت موسىعليه‌السلام نے انتخاب فرمايا تا كہ خود كلام الہى كو سن ليں _ انہى افراد نے اسى كلام ميں تحريف كى _

۷ _ علمائے يہود نے تورات ميں معنوى تحريف كى _ثم يحرفونه من بعد ما عقلوه علماء اور ان كے مقابل كا گروہ ''اميون'' ہےجيسا كہ آيت ۷۸ ميں بيان ہواہے ان لوگوں كا مذكورہ مسائل سے ربط و مناسبت اس بات پر دلالت كرتے ہيں كہ ''فريق منھم'' سے مراد بنى اسرائيل كے علماء اور يہودى ہيں ''من بعد ما عقلوہ'' _ بعد اس كے كہ كلام خدا كو سمجھ گئے اس ميں تحريف كردي'' اس مطلب كى طرف اشارہ ہے كہ تحريف سے مراد معنوى تحريف ہے _

۸ _ علمائے يہود آگاہى و توجہ سے اور جان بوجھ كر كلام الہى ميں تحريف كرتے تھے_ثم يحرفونه من بعد ما عقلوه و هم يعلمون يہ مفہوم اس بناپر ہے كہ '' يعلمون'' كا مفعول كلام خدا ميں تحريف ہو يعنى '' و ہم يعلمون انھم يحرفونہ'' اس ميں بعض اور احتمالات بھى بيان كيئے گئے ہيں جن كا ذكر ہوگا_

۹_ علمائے يہود كى طرف سے كلام الہى ميں تحريف ، ان ميں فقدان ايمان كى زمين فراہم ہونے كى دليل ہے_

أفتطمعون ان يومنوا لكم و قد كان فريق منهم من بعد ما عقلوه جملہ حاليہ ''و قد كان ...'' اس علت كو بيان كررہاہے كہ يہوديوں ميں ايمان لانے كى اميد منفى و منقطع ہے _

۱۰_ قرآن كريم ميں بنى اسرائيل اور يہودى معاشرے كى داستان كى تشريح كے اہداف ميں سے ايك ان كے اسلام پر ايمان نہ لانے كے اسباب و علل كا بيان ہے_أفتطمعون ان يومنوا لكم

آيہ مجيد ہ جو زير بحث ہے يہ بنى اسرائيل خصوصاً يہوديوں سے مربوط تاريخى حقائق كا نتيجہ ہے _ يعنى انہوں نے بہت زيادہ معجزات ديكھنے اور فراواں نعمات حاصل كرنے كے بعد كفر اختيار كيا، بچھڑے كى پوجا كى طرف رغبت اور رجحان اختيار كيا اور حضرت موسىعليه‌السلام كو جہالت اور مذاق اڑانے كى طرف نسبت دى بنابريں ان سے قرآن پر ايمان لانے كى اميد ركھنا ايك بے جا اميد ہے _

۲۵۱

۱۱ _ حقائق كى تحريف كرنے والے علماء سے ايمان كى اميد ركھنا ايك بے مورد اور بے جا اميد ہے _

أفتطمعون ان يومنوا لكم و قد كان من بعد ما عقلوه

۱۲ _ كچھ يہودى قرآن ( كلام الہي) كو سنتے اور اس كو اچھى طرح سمجھ ليتے تھے پھر اسكے معانى اور مفاہيم ميں تحريف كرتے تھے_و قد كان فريق منهم يسمعون كلام الله ثم يحرفونه من بعد ما عقلوه يہ مفہوم اس بناپر ہے كہ كلام اللہ سے مراد قرآن ہو

۳ ۱ _ زمانہ پيامبر اسلام (ص) كے علمائے يہود قرآن كريم كے الہى ہونے كى مكمل آگاہى ركھتے تھے_و هم يعلمون

يہ مفہوم اس بناپر ہے كہ ''يسمعون كلام اللہ '' كے قرينہ سے ''يعلمون'' كا مفعول ان كے لئے قراء ت كيا جانے والا كلام الہى ہو _ يعنى''وهم يعلمون ان الذى يسمعونه كلام الله''

۱۴ _ يہودى علماء كا اپنے عوام كو اسلام اور پيامبر اسلام (ص) پر ايمان لانے سے روكنے ميں نہايت اہم كردار تھا_

أفتطمعون ان يومنوا لكم و قد كان فريق منهم يہ جملہ ''و قد كان ...''ممكن ہے علماء يہود كے ايمان كى اميد منقطع ہونے كى دليل ہو اور يہ بھى ممكن ہے كہ يہود عوام كے ايمان كى اميد منقطع ہونے كى دليل ہو _ مذكورہ مفہوم دوسرے احتمال كى بنياد پر ہے يعنى يہودى ايمان نہيں لائيں گے كيونكہ ان كے علماء حقائق كى تحريف كرنے كے باعث اجازت نہيں ديں گے كہ حقائق جيسے ہيں ويسے ہى عوام تك پہنچ جائيں اور ان ميں ايمان كى راہ ہموار ہو_

۱۵ _ ہر معاشرے كے علمائ، نابغہ اور اہم شخصيات عوامى رجحانات ميں بہت اہم كردار كے حامل ہوتے ہيں _

أفتطمعون ان يومنوا لكم و قد كان فريق منهم

اسلام : صدر اسلام كى تاريخ ۱،۲

ايمان: اسلام پر ايمان ميں ركاوٹ ۱۴; ايمان كى راہ ميں ركاوٹيں ۴

بنى اسرائيل: بنى اسرائيل كا اسلام سے منہ موڑنا ۳; بنى اسرائيل اور كلام الہى كا سننا ۶; بنى اسرائيل كى تاريخ ۵; بنى اسرائيل كے تحريف كرنے والے ۵; اسلام سے بنى اسرائيل كے منہ موڑنے كے دلائل ۱۰; بنى اسرائيل كى تاريخ بيان كرنے كا فلسفہ ۱۰; بنى اسرائيل كى قساوت قلبى ۴

بے جا توقعات: ۱۱

۲۵۲

تحريف: كلام الہى كى تحريف ۸،۹،۱۲

تورات: تورات كى تحريف ۵،۷

ثقافت : ثقافت و تمدن كے بنيادى عوامل ۱۵

رجحانات: اسلام كى طرف رجحان ميں ركاوٹيں ۴

علماء : تحريف كرنے والے علماء ۱۱; علماء كى اہميت و كردار۱۵

علمائے يہود: علمائے يہود كى آگاہى ۱۳; علمائے يہود كا تحريف كرنا ۷،۸،۹; علمائے يہوداور اسلام ۱۴; علمائے يہود اور قرآن ۱۳; علمائے يہود ا ور عوام ۱۴; علمائے يہود كا كردار۱۴

قرآن كريم : قرآن كى معنوى تحريف ۱۲; قرآن كى تحريف

كرنے والے ۱۲; قرآن كريم كا وحى ہونا ۱۳

قلب: قساوت قلبى كے نتائج ۴

مسلمان: صدر اسلام كے مسلمانوں كى آگاہى ۳; صدر اسلام كے مسلمانوں كى توقعات ۱; صدر اسلام كے مسلمانوں كى اميديں ۲; صدر اسلام كے مسلمان اور بنى اسرائيل ۲;مسلمان اور يہودى ۱

نابغہ افراد يا اہم شخصيات: نابغہ افراد كى معاشرتى اہميت ۱۵

وحي: عوام اور وحى كا غور سے سننا ۶

يہود: يہوديوں كا اسلام سے منہ موڑنا ۳; يہوديوں كى تحريف كا عمل ۱۲; يہوديوں كے اسلام سے منہ موڑنے كے دلائل ۱۰; يہوديوں كى تاريخ بيان كرنے كا فلسفہ ۱۰; يہوديوں كى قساوت قلبى ۴; يہود اور قرآن ۱۲

۲۵۳

إِذَا لَقُواْ الَّذِينَ آمَنُواْ قَالُواْ آمَنَّا وَإِذَا خَلاَ بَعْضُهُمْ إِلَىَ بَعْضٍ قَالُواْ أَتُحَدِّثُونَهُم بِمَا فَتَحَ اللّهُ عَلَيْكُمْ لِيُحَآجُّوكُم بِهِ عِندَ رَبِّكُمْ أَفَلاَ تَعْقِلُونَ ( ۷۶ )

يہ يہوديايمان والوں سے ملتے ہيں تو كہتے ہيں كہہم بھى ايمان لے آئے اور آپس ميں ايكدوسرے سے ملتے ہيں تو كہتے ہيں كہ كيا تممسلمانوں كو توريت كے مطالب بتادوگے كہوہ اپنے نبى كے اوصاف سے تمھارے اوپراستدلال كريں كيا تمھيں عقل نہيں ہے كہايسى حماقت كروگے (۷۶)

۱ _ يہودى عوام مسلمانوں كے سامنے پيامبر اسلام (ص) كى حقانيت اور پيامبر(ص) موعود كى آپ (ص) پر تطبيق كا اعتراف كرتے تھے _و اذا لقوا الذين آمنوا قالوا آمنا قالوا اتحدثونهم بما فتح الله عليكم

''اتحدثونھم وہ حقائق جو اللہ نے تمہارے اختيار ميں ديئے ہيں مسلمانوں كے سامنے كيوں بيان كرتے ہو؟ '' يہ جملہ اس پر دلالت كرتاہے كہ ''آمنا'' سے مراد تورات ميں پيامبر موعود كى خصوصيات كا بيان اور انكى مطابقت رسول اسلام(ص) كے ساتھ ہے _ پس ''آمنا'' يعنى ہم تصديق كرتے ہيں كہ محمد(ص) ہى پيامبر موعود ہيں اور بيان شدہ خصوصيات كى تطبيق آپعليه‌السلام پر ہى ہوتى ہے_

۲ _ زمانہ بعثت كے يہود پيامبر اسلام (ص) كى رسالت كي حقانيت كا اطمينان ركھتے تھے اور پيامبر موعود كى علامتوں كے آپعليه‌السلام پر انطباق كے قائل تھے_و اذا لقوا الذين آمنوا قالوا آمنا قالوا اتحدثونهم بما فتح الله

''ليحاجوكم بہ ...'' تا كہ ان حقائق سے خدا كى بارگاہ ميں تمہارے خلاف دلائل پيش كريں '' يہ عبارت اس مفہوم كو پہنچاتى ہے كہ ''ما فتح اللہ '' كا مصداق اسلام اور پيامبر اسلام (ص) كى حقانيت ہے جو تورات ميں بيان ہوئي ہے بنابريں تمام يہوديوں كو، علماء و عوام ہر دو كو پيامبر اسلام (ص) كى رسالت پر اطمينان تھا_

۳ _ تورات ميں پيامبر اسلام(ص) كى بعثت اور آنحضرت (ص) كى صفات بيان كى گئي تھيں _

قالوا اتحدثونهم بما فتح الله عليكم

'' فتح'' كے معانى ميں سے مطلع كرنا اور تعليم دينا بھى ہے پس '' ما فتح اللہ عليكم'' يعنى وہ حقائق جن سے اللہ تعالى نے تمہيں مطلع كيا ہے اور تمہارے اختيار ميں قرار ديا ہے _ تورات چونكہ يہوديوں كے لئے اسطرح كى اطلاعات كا واحد منبع ہے لہذا اس مفہوم كو حاصل كيا جاسكتاہے_

۲۵۴

۴ _ زمانہ بعثت كے يہود اسلام كے خلاف سازشيں كرنے كے لئے مخفى نشستيں كرتے تھے_و اذا خلا بعضهم الى بعض

۵ _ يہوديوں كے علماء اور قائدين اپنى عوام كو پيامبر موعود كى صفات بيان كرنے اور ان صفات كا پيامبر اسلام(ص) پر انطباق بتانے سے منع كرتے تھے_قالوا اتحدثونهم بما فتح الله عليكم '' اتحدثونھم'' ميں استفہام انكار توبيخى ہے _

۶ _ علماء يہود نے اپنى عوام كو پيامبر موعود كى صفات بيان كرنے اور ان كى تشہير كرنے سے روكنے كى توجيہ يہ كى كہ مسلمان اللہ تعالى كى بارگاہ ميں يہوديوں كے خلاف دليل نہيں لاسكتے_اتحدثونهم بما فتح الله عليكم ليحاجوكم به عند ربكم

۷ _ زمانہ بعثت كے يہود اسلام اور پيامبر اكرم (ص) كى رسالت كى حقانيت كو چھپانے كے درپے تھے _

اتحدثونھم بما فتح اللہ عليكم

۸ _ يہودى قائدين پيامبر موعود كى صفات كو بيان كرنے اور ان كى حقانيت كے اعتراف كو بے عقلى اور حماقت جانتے تھے _اتحدثونهم افلا تعقلون

۹ _ زمانہ بعثت كے يہودى علماء اور قائدين ہٹ دھرم اور حق كو قبول كرنے والے نہ تھے_اتحدثونهم بما فتح الله عليكم افلا تعقلون

۱۰_ يہودى علماء و قائدين كى ضد اور حق ناپذيرى اس بات كى دليل تھى كہ مسلمانوں نے جو ان كے ايمان لانے كى اميديں باندھ ركھى تھيں وہ بے جا تھيں _أفتطمعون ان يومنوا لكم قالوا اتحدثونهم بما فتح الله عليكم

يہ آيہ مجيدہ جملہ حاليہ '' و قد كان ...'' پر عطف ہے يا پھر جملہ ''يسمعون ...'' پر عطف ہے دونوں صورتوں ميں '' أفتطمعون'' كے لئے ايك اور دليل ہے _

۱۱ _ يہودى قوم اور معاشرے كے مفادات كا تحفظ ان كے علماء اور قائدين كى نظر ميں دينى اعتقادات كے اعتراف و يقين سے زيادہ اہم و برتر مسئلہ تھا_قالوا اتحدثونهم بما فتح الله عليكم افلا تعقلون

۱۲ _ يہودى علماء اور قائدين دينى حقائق اور الہى معارف كا اعتراف اس صورت ميں كہ ان كے قومى مفادات كے لئے ضرر رساں ہو بے جا تصور كرتے اور اسكو حماقت جانتے تھے_اتحدثونهم بما فتح الله عليكم افلا تعقلون

۲۵۵

۱۳ _ يہود قيامت پر ، اس دن محاكمہ كے برقرار ہونے پر اور اس روز انسانوں كے ايك دوسرے كے خلاف اللہ تعالى كى بارگاہ ميں دليل لانے پر عقيدہ ركھتے تھے_اتحدثونهم ليحاجوكم به عند ربكم

۱۴ _ يہوديوں كا اللہ تعالى كى ربوبيت پر ايمان ركھنا _اتحدثونهم بما فتح الله عليكم ليحاجوكم به عند ربكم

۱۵ _ يہوديوں كے باطل گمان اور عقائد ميں سے تھا كہ اللہ تعالى انسانوں كے اسرار اور بھيدوں سے آگاہ نہيں ہے_

اتحدثونهم بما فتح الله عليكم ليحاجوكم به عند ربكم

جملہ '' اتحدثونھم ...'' سے يہ مفہوم نكلتاہے كہ يہوديوں كا خيال تھا اگر انہوں نے اپنے حقائق اور معلومات كو آشكارا كرديا تو ان كے خلاف دليل لائي جاسكتى ہے اور اگر ايسانہ كريں تو ان كے خلاف دليل نہيں لائي جاسكتى اور نہ ہى انكا مؤاخذہ ہو سكتاہے_ مذكورہ بالا مفہوم اسى گمان باطل كى بناپر ہے_

۱۶ _ علماء يہود كا اپنے عوام كے كمزور دينى عقائد اور بصيرت سے سوء استفادہ كرنا _اتحدثونهم بما فتح الله عليكم ليحاجوكم به عند ربكم

۱۷_ امام باقر (ص) سے روايت ہے ''انه قال كان قوم من اليهود ليسوا من المعاندين المتواطئين اذا لقوا المسلمين حدثوهم بما فى التوراة من صفه محمد (ص) فنها هم كبرائهم عن ذلك و قالوا لا تخبروهم بما فى التوراة من صفة محمد (ص) فيحاجوكم به عند ربكم فنزلت هذه الآية '' (۱)

يہوديوں كا ايك گروہ جو مسلمانوں سے كينہ و عناد نہ ركھتا تھا جب مسلمانوں سے انكا سامنا ہوتا تو رسول خدا (ص) كى تورات ميں بيان شدہ صفات ان كے لئے بيان كرتے _ اس امر سے يہوديوں كے بڑے باخبر ہوئے تو انہوں نے ان كو منع كيا اور كہا تورات ميں محمد (ص) كى جو صفات بيان ہوئيں ہيں ان سے مسلمانوں كو مطلع نہ كرو ورنہ اس ذريعے سے پروردگار كى بارگاہ ميں وہ لوگ تمہارے خلاف دليل لائيں گے پس يہ آيت نازل ہوئي _

اسلام: صدر اسلام كى تاريخ ۱،۴،۶،۷،۸; اسلام كے خلاف سازش ۴

اقرار: پيامبر اسلا (ص) كى حقانيت كا اقرار ۱

اللہ تعالى : اللہ تعالى اور جہالت ۱۵

پيامبر اسلام (ص) :

____________________

۱) مجمع البيان ج/۱ ص ۲۸۶ ، نورالثقلين ج/۱ ص۹۲ ح ۲۵۳_

۲۵۶

پيامبر اسلام(ص) كى حقانيت ۲ پيامبر اسلام (ص) تورات ميں ۳،۱۷

تورات: تورات كى تعليما ت ۳،۱۷

روايت: ۱۷

عقيدہ: اللہ تعالى كى ربوبيت پر عقيدہ ۱۴; قيامت پر عقيدہ۱۳

علمائے يہود: يہودى علماء كى بصيرت ۶،۸،۱۱،۱۲; علمائے يہود كا توجيہ كرنا ۶; علمائے يہود كى حق ناپذيرى ۹،۱۰; علمائے يہود كى توجيہ كرنے كا عمل اور اسكى بنياد ۶; علمائے يہود كا سوء استفادہ ۱۶;علمائے يہود اور حماقت ۸،۱۲; علمائے يہود اور حق پر پردہ ڈالنا ۱۲; علمائے يہود اور پيامبر اسلام(ص) ۵،۶،۸; علمائے

يہود اور مسلمان ۶; علمائے يہود اور يہودى ۵،۱۶; علمائے يہود كى ہٹ دھرمى ۹،۱۰; علمائے يہود كى نسل پرستى ۱۱

عوام: عوام كى كمزورى سے سوء استفادہ۱۶

قيامت : قيامت كے دن دليل و حجت قائم كرنا ۱۳; قيامت كے دن مؤاخذہ ۱۳

مسلمان: مسلمان اور علمائے يہود ۱۰

يہود: يہودى عوام كا اقرار ۱; يہوديوں كى سازش ۴; صدر اسلام كے يہوديوں كى مخفى نشستيں ۴; يہوديوں كا عقيدہ ۱۳،۱۴; يہوديوں كا باطل عقيدہ۱۵; يہودى عوام اور پيامبر موعود ۱

أَوَلاَ يَعْلَمُونَ أَنَّ اللّهَ يَعْلَمُ مَا يُسِرُّونَ وَمَا يُعْلِنُونَ ( ۷۷ )

كيا تمھيں تہيں معلوم كہ خدا سب كچھ جانتاہے جس كا يہاظہار كررہے ہيں اور جس كى يہ پردہ پوشيكررہے ہيں (۷۷)

۱ _ انسان جو كچھ بھى چھپاتاہے يا ظاہر كرتاہے اللہ تعالى اس سے آگاہ ہے_ان الله يعلم ما يسرون و ما يعلنون

۲ _ يہود اللہ تعالى كو انسان كے پنہاں امور سے آگاہ و عالم نہ سمجھتے تھے_او لا يعلمون ان الله يعلم ما يسرون و ما

۲۵۷

يعلنون

''اولا يعلمون ...'' ميں استفہام انكار توبيخى ہے_ كے اسلام لانے سے مايوسى ۱۰; صدر اسلام كے يہود اور اسلام ۷; صدر اسلام كے يہود اور پيامبر موعود ۲; صدر اسلام كے يہود اور حق كا چھپانا ۷; صدر اسلام كے يہود اور پيامبر اسلام (ص) ۲،۷،۱۷; يہود اور قومى مفادات كا تحفظ ۱۱،۱۲; يہود اور اللہ تعالى كى ربوبيت ۱۴; يہود اور اللہ تعالى كا علم غيب ۱۵; يہود اور حق كا چھپانا ۱۷

۳_ اللہ تعالى كا يہوديوں كو توبيخ و سرزنش كرنا اسيلئے ہے كہ وہ اللہ تعالى كے علم كو محدود خيال كرتے تھے_

او لا يعلمون ان الله يعلم ما يسرون و ما يعلنون

۴ _ آشكارا اور محسوس امور كے بارے ميں اللہ تعالى كے علم كو محدود جاننا ايك باطل خيا ل ہے اور اس كا عقيدہ ركھنے والے توبيخ و سرزنش كے سزاوار ہيں _او لا يعلمون ان الله يعلم ما يسرون و ما يعلنون

۵_يہود اللہ تعالى اور اسكى صفات كى ضرورى و لازمى معرفت و شناخت نہ ركھتے تھے_او لايعلمون ان الله يعلم ما يسرون و ما يعلنون

۶ _ اللہ تعالى كے لامحدود علم اور انسان كے آشكار اور پنہاں امور كے بارے ميں اس كى آگاہى پريقين ركھنا خطاؤں اور لغزشوں سے بچاتاہے_او لايعلمون ان الله يعلم ما يسرون و ما يعلنون

يہ جملہ''اتحدثونهم ...ليحاجوكم'' اس مفہوم كى طرف اشارہ ہے كہ يہوديوں كا باطل خيال (اللہ تعالى كے بارے ميں محدود علم كا عقيدہ) ان كو مخفى گناہوں اور لغزشوں كے بارے ميں لاپرواہ كرديتا تھا_ پس اللہ تعالى كے مطلق (لا محدود) علم كا ذكر كرنا اس باطل خيال كو رد كرنا ہے اس طرح كہ: خطاؤں كے بارے ميں اللہ تعالى كى تمام پہلوؤں سے آگاہى كے يقين اور توجہ سے انسان لغزشوں سے باز آجائيں ، وہ مخفى ہوں يا آشكارا_

انسان: انسان كا راز ۱

ايمان: ايمان كے نتائج ۶; اللہ تعالى كے علم پر ايمان ۶; ايمان كے متعلقات ۶

جہان بينى (نظريہ كائنات): جہان بينى اور آئيڈيالوجى ۶

اللہ تعالى : اللہ تعالى اور جہالت ۴; اللہ تعالى كى سرزنشيں ۳،۴; اللہ تعالى كا علم غيب ۱

خطا: خطا كى ركاوٹيں ۶

۲۵۸

عقيدہ: باطل عقيدہ ۴

لغزش: لغزش كے موانع ۶

وَمِنْهُمْ أُمِّيُّونَ لاَ يَعْلَمُونَ الْكِتَابَ إِلاَّ أَمَانِيَّ وَإِنْ هُمْ إِلاَّ يَظُنُّونَ ( ۷۸ )

ان يہوديوں ميں كچھ ايسےجاہل بھى ہيں جو توريت كو ياد كئے ہوئےہيں اور اس كے بارے ميں سوائے اميدوں كےكچھ نہيں جانتے ہيں حالانكہ يہ ان كافقط خيال خام ہے(۷۸)

۱ _ زمانہ بعثت كا يہودى معاشرہ، عناد ركھنے والے علماء اور جاہل عوام پر مشتمل تھا_و قد كان فريق منهم و منهم اميوں لا يعلمون الكتاب الا اماني

آيت نمبر ۷۵ ميں گذر گيا ہے كہ ''فريق منہم'' سے مراد (جيسا كہ ان كى صفات بيان كى گئي ہيں ) يہودى علماء ہيں _

۲_يہودى عوام ان پڑھ تھے يعنى نہ پڑھنا جانتے تھے اور نہ ہى انہوں نے لكھنا سيكھا تھا_و منهم اميون

''امّي'' كى جمع ''اميون'' ہے امّى اسكو كہتے ہيں

يہود: يہوديوں كى ناقص خداشناسى ۵; يہوديوں كى سرزنش ۳;يہوديوں كا عقيدہ ۲،۳،۵; يہود اور خدا كا علم ۳; يہود اور اللہ تعالى كا علم غيب ۲ جو لكھنا نہ جانتا ہو تا ہم بعض اہل لغت نے نہ پڑھنے كى قيدبھى اسكے معنى ميں لگائي ہے_

۳ _ يہودى عوام اپنى آسمانى كتاب كے نفس كلام اور مفہوم سے ناآگاہ تھے_لا يعلمون الكتاب

۴ _ يہودى عوام توہمات اور تورات كى طرف نسبت ديئے گئے (جھوٹے) امور كو آسمانى كتاب كے طور پر اور احكام الہى كى حيثيت سے قبول كرچكے تھے_لايعلمون الكتاب الا اماني

۲۵۹

'' امنية'' كى جمع '' اماني'' ہے جسكا معنى ہے باطل خيال اور گھڑا ہوا جھوٹ _ جملے ميں استثنا ''استثنائے منقطع '' ہے _ بنابريں '' لا يعلمون ...'' يعنى يہودى عوام تورات كى حقيقت اور نفس كلام سے آگاہى نہ ركھتے تھے بلكہ باطل خيالات، توہمات اور جھوٹے مطالب كو آسمانى كتاب سمجھتےتھے_

۵ _ يہودى عوام كے دينى افكار كى بنياد حدسيات اور گمان تھے_ان هم الا يظنون

۶ _ يہودى عوام كى ناخواندگى اور تورات سے عدم آگاہى ان دلائل ميں سے تھے كہ جن كى بناپر ان سے ايمان كى توقع بے جا تھي_أفتطمعون ان يومنوا لكم و منهم اميون لا يعلمون الكتاب الا اماني

جملہ '' منھم اميون'' آيت ۷۵ كے اس جملہ ''قد كان فريق ...'' پر عطف ہے _ بنابريں مورد بحث آيت بھى '' أفتطمعون ...'' كے لئے علت ہے_

۷_ باطل خيالات كو آسمانى كتاب كے حقيقى مفاہيم كى جگہ قبول كرنا اور دينى عقائد و افكار ميں حدسيات اور گمان كو بنياد قرار دينا ان دلائل ميں سے تھے كہ جن كى بناپر ان سے ايمان كى توقع ركھنا بے جا تھا_أفتطمعون ان يومنوا لكم و منهم اميون ان هم الا يظنون

۸ _ آسمانى كتابوں كے نفس كلام اور حقيقى مفاہيم كا حصول سب انسانوں كى ذمہ دارى ہے_منهم اميون لا يعلمون الكتاب آيہ مجيدہ كا لب و لہجہ گويا ان لوگوں كى سرزنش ہے جو آسمانى كتاب كے حقيقى مفاہيم سے مطلع نہيں ہيں _

۹ _ آسمانى كتابوں كے مفاہيم كى شناخت كےلئے حدسيات اور گمان كو بنياد قرار دينا بے جا اور بے اعتبار روش ہے_

لايعلمون الكتاب الا امانى و ان هم الا يظنون

۱۰ _ آسمانى كتابوں كے معارف اور نفس كلام باطل و خام خيالات سے خالى ہيں _لا يعلمون الكتاب الا اماني

۱۱ _ آسمانى كتابوں كى تفسير حدسيات اور گمان كے ذريعے كرنے سے اجتناب كرنا چاہئے_لا يعلمون الكتاب الا امانى و ان هم الا يظنون

۱۲ _ عامة الناس ميں حقيقى ايمان كى زمين فراہم كرنے كى بنيادى شرط دينى مسائل كے بارے ميں خيالات و توہمات كو دور پھينكناہے_أفتطمعون ان يومنوا لكم و منهم اميون لا يعلمون الكتاب الا اماني

مذكورہ بالا جملے ( أفتطمعون ...) يہ معنى و مفہوم ركھتے ہيں كہ جب تك لوگ باطل خيالات كو ہى دينى مسائل سمجھتے رہيں اور اسى پر مست رہيں توان سے ايمان كى توقع كرنا بے جاہے _ پس ان آيات ميں يہ مفہوم اور نكتہ موجود ہے كہ اسلام و قرآن كى دعوت دينے والوں كو كوشش كرنى چاہيئے

۲۶۰

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

461

462

463

464

465

466

467

468

469

470

471

472

473

474

475

476

477

478

479

480

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

501

502

503

504

505

506

507

508

509

510

511

512

513

514

515

516

517

518

519

520

521

522

523

524

525

526

527

528

529

530

531

532

533

534

535

536

537

538

539

540

541

542

543

544

545

546

547

548

549

550

551

552

553

554

555

556

557

558

559

560

561

562

563

564

565

566

567

568

569

570

571

572

573

574

575

576

577

578

579

580

581

582

583

584

585

586

587

588

589

590

591

592

593

594

595

596

597

598

599

600

601

602

603

604

605

606

607

608

609

610

611

612

613

614

615

616

617

618

619

620

621

622

623

624

625

626

627

628

629

630

631

632

633

634

635

636

637

638

639

640

641

642

643

644

645

646

647

648

649

650

651

652

653

654

655

656

657

658

659

660

661

662

663

664

665

666

667

668

669

670

671

672

673

674

675

676

677

678

679

680

681

682

683

684

685

686

687

688

689

690

691

692

693

694

695

696

697

698

699

700

701

702

703

704

705

706

707

708

709

710

711

712

713

714

715

716

717

718

719

720

721

722

723

724

725

726

727

728

729

730

731

732

733

734

735

736

737

738

739

740

741

742

743

744

745

746

747

748

749

750

751

752

753

754

755

756

757

758

759

760

761

762

763

764

765

766

767

768

769

770

771

772

773

774

775

776

777

778

779

780

781

782

783

784

785