تفسير راہنما جلد ۱

 تفسير راہنما 7%

 تفسير راہنما مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن
صفحے: 785

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴ جلد ۵ جلد ۶ جلد ۷ جلد ۸ جلد ۹ جلد ۱۰ جلد ۱۱
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 785 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 200930 / ڈاؤنلوڈ: 5793
سائز سائز سائز
 تفسير راہنما

تفسير راہنما جلد ۱

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

گناہگار: گناہگار اور اللہ كى رحمت ۱۰;گناہگار اور فضل خدا ۱۰

معجزہ : كوہ طور كا معجزہ ۲

نااميدى : نااميدى سے اجتناب ۱۰; اللہ كى رحمت سے

نااميدى ۱۰

نقصان : نقصان كے عوامل ۶،۸،۹

ہلاكت : ہلاكت كے اسباب ۶

وَلَقَدْ عَلِمْتُمُ الَّذِينَ اعْتَدَواْ مِنكُمْ فِي السَّبْتِ فَقُلْنَا لَهُمْ كُونُواْ قِرَدَةً خَاسِئِينَ ( ۶۵ )

تم ان لوگوں كو بھى جانتے ہو جنھوں نے شنبہ كے معاملہ ميں زيادتى سے كام ليا تو ہم نے حكم دے ديا كہ اب ذلت كے ساتھ بندر بن جائيں _

۱_ بنى اسرائيل كے لئے ہفتہ (شنبہ) والے دن كام ، كارو بار كرنا حرام تھا_و لقد علمتم الذين اعتدوا منكم فى السبت

''سبت'' كا معنى ہے كام روكنا يا سكون و استراحت اسكو تعطيل يا چھٹى سے تعبير كيا جاتاہے_ '' اعتدوا'' كا مصدر ہے '' اعتدائ'' اسكا معنى ہے تجاوز يا خلاف ورزى كرنا _

۲ _ بنى اسرائيل كے ايك گروہ نے اللہ تعالى كے فرمان كى اعتنا نہ كى اور ہفتہ ( شنبہ) كى چھٹى كى خلاف ورزى كى _

و لقد علمتم الذين اعتدوا منكم فى السبت

۳ _ اللہ تعالى نے اصحاب سبت ( ہفتہ كے دن كى خلاف ورزى كرنے والے ) كو راندے ہوئے بندروں ميں تبديل كرديا _فقلنا لهم كونوا قردة خاسئين

''قردة'' كا مفرد ''قرد'' ہے جسكا معنى ہے بندر ''خاسي'' كا معنى ہے راندہ ہوا نيز حقير اور ذليل كے معنى ميں بھى آتا ہے _ خاسئين'' ، ''كونوا'' كى دوسرى خبر ہے_

۴_ بنى اسرائيل اصحاب سبت كى برى داستان اور اس كے علل و اسباب سے آگاہ تھے_لقد علمتم الذين اعتدوا منكم فى السبت فقلنا لهم كونوا قردة خاسئين

۲۲۱

۵ _ بنى اسرائيل قرآن حكيم پر ايمان نہ لانے اور اعمال صالح انجام نہ دينے كى صورت ميں مختلف طرح كے دنياوى عذاب ( ذليل ہونا، راندہ درگاہ ہونا و غيرہ ) ميں مبتلا ہوئے _و لقد علمتم الذين اعتدوا منكم فى السبت فقلنا لهم كونوا قردة خاسئين گذشتہ آيات ۴۱تا ۴۵ اور ۶۲) ميں اللہ تعالى نے بنى اسرائيل كو قرآن حكيم پر ايمان، اس كى تصديق اور نيك اعمال بجالانے كى دعوت دى _ اس آيہ مجيدہ ميں بنى اسرائيل كو اصحاب سبت كى برى سرگذشت كى ياد دلائي گئي تا كہ ان كے لئے تنبيہ كا باعث ہو، كہيں ايسا نہ ہو كہ اللہ كى دعوت اور اس كے فرامين كى خلاف ورزى كريں تو اصحاب سبت كى طرح مبتلا ہو جائيں _

۶ _ بنى اسرائيل كے بندر بننے والے لوگ زياں كار اور خسارہ اٹھانے والوں ميں سے ہيں _لكنتم من الخاسرين _ و لقد علمتم الذين اعتدوا منكم فى السبت آيہ مجيدہ ميں خسارہ اور زياں ( نقصان) كى نوع كا ذكر كيا گيا ہے اس كا ماقبل آيت كے ذيل ميں ذكر ہوا ہے يعنى وہ خسارہ يا نقصان جو گناہ اور تجاوز كے نتيجے ميں ہوتاہے جيسا كہ اصحاب سبت كا خسارہ _

۷ _ احكام الہى سے انحراف كرنے والوں كے ليئے مختلف طرح كے دنياوى عذاب ( ذليل ہونا اور راندہ جانا) ميں مبتلا ہونے كا خطرہ موجو د ہے _الذين اعتدوا منكم فى السبت فقلنا لهم كونوا قردة خاسئين

۸ _ اللہ تعالى كى حاكميت مطلق ( لا محدود) ہے اور عالم آفرينش پر نافذ ہے_قلنا لهم كونوا قردة آيہ مجيدہ ميں يہ نہيں فرمايا گيا كہ بنى اسرائيل كے متجاوزين بندر بن گئے ''كونوا قردة'' كے حكم ميں اس كى عملى صورت كى تصريح نہ كرنا جبكہ منظور نظر يہى ہے_ يہ اس حقيقت كى طرف اشارہ ہے كہ فرامين و احكام الہى حتمى اور اجتناب ناپذير ہيں ان كے راستے ميں كوئي چيز ركاوٹ نہيں ہوسكتي_ فرمان ، يعنى اس كا ہوجانا _

۹ _ عالم طبيعات ميں ايك موجود كا دوسرے موجود ميں تبديل ہونا ممكن ہے_قلنا لهم كونوا قردة خاسئين

۱۰_ امام سجادعليه‌السلام سے روايت ہے:اما القردة فكانوا قوماً من بنى اسرائيل اعتدوا فى السبت فصادوا الحيتان فمسخهم الله قردة ..(۱) بندر بنى اسرائيل كا ايك گروہ تھا جنہوں نے ہفتے كے دن اللہ تعالى كے فرمان كى خلاف ورزى كى اور مچھلى كا شكار كيا پس اللہ نے ان كى صورت كو مسخ كركے بندر بنا ديا _

____________________

۱) خصال ج/۲ ص ۴۹۳ ح /۱ ، نورالثقلين ج/ ۱ ص ۸۶ ح ۲۳۱ و ۲۳۲_

۲۲۲

۱۱ _عبدالله بن الفضل الهاشمى قال قلت لابى عبدالله عليه‌السلام '' و لقد علمتم الذين اعتدوا منكم فى السبت فقلنا لهم كونوا قردة خاسئين'' قال ان اولئك مسخوا ثلاثة ايام ثم ماتوا و لم يناسلوا و ان القردة اليوم مثل اولئك (۱) عبد الله بن فضل ہاشمى نے امام صادقعليه‌السلام سے اللہ تعالى كے اس كلام''و لقد علمتم الذين اعتدوا منكم فى السبت فقلنا لهم كونوا قردة خاسئين ' ' كے بارے ميں سوال كيا تو امامعليه‌السلام نے فرمايا وہ لوگ (يہودي) مسخ شدہ حالت ميں تين دن رہے اور اسكے بعد مرگئے جبكہ ان كى نسل بھى باقى نہ رہي_ موجودہ بندر ان بندروں كى طرح ہيں ( گويا ان كے مشابہ ہيں نہ كہ ان كى نسل ہيں )_

اصحاب سبت : اصحاب سبت كا راندہ جانا ۳; اصحاب سبت كا انجام ۴; اصحاب سبت كا مسخ ہونا ۳،۱۱

اللہ تعالى : اللہ كى حاكميت ۸

انجام: برا انجام ۴ انواع كا تبديل ہونا : ۳،۹

بنى اسرائيل : بنى اسرائيل كى تجاوز گرى كے نتائج ۳; بنى اسرائيل كى آگاہى ۴; بنى اسرائيل اور اصحاب سبت ۴; بنى اسرائيل كى تاريخ ۲،۳،۶; بنى اسرائيل ميں تعطيل ۱،۲; بنى اسرائيل كى ذلت ۵; بنى اسرائيل كے زياں كار ۶; بنى اسرائيل ميں ہفتہ ۱،۳; بنى اسرائيل كا راندہ جانا ۵; بنى اسرائيل كے لئے دنياوى عذاب ۵; بنى اسرائيل كى نافرمانى ۲; بنى اسرائيل كے محرمات ۱; بنى اسرائيل كا مسخ ہونا ۱۰; بنى اسرائيل كے مسخ شدہ افراد ۶; بنى اسرائيل كو تنبيہ ۵

ذلت: ذلت كے عوامل ۷

روايت: ۱۰، ۱۱

زياں كار : ۶

عالم ہستي: عالم ہستى كا حاكم ۸

عذاب: دنياوى عذاب كے موجبات ۵،۷

كفر: قرآن كے كفر كے نتائج ۵

____________________

۱) علل الشرائع ج/ ۱ ص ۲۲۵ ، ۲۲۷ ح / ۱ ب ۱۶۲ ، بحارالانوار ج/ ۴۴ ص ۲۷۱ ح/ ۱ _

۲۲۳

مسخ ہونا: مسخ ہونے كا امكان ۹; بندر ميں مسخ ہونا ۳،۶،۱۰،۱۱

نافرمان لوگ: نافرمانوں كى تذليل ۷; نافرمانوں كا راندہ جانا ۷; نافرمانوں كے ليئے دنياوى عذاب ۷

نافرما ني: نافرمانى كے نتائج ۷; اللہ تعالى كى نافرمانى ۲،۷

نيك عمل: نيك عمل ترك كرنے كے نتائج۵

ہفتہ : ہفتہ كى چھٹى ۱،۲; ہفتہ كے دن كام ، كاروبار كى حرمت۱; ہفتہ كے دن مچھلى كا شكار ۱۰

يہود: متجاوز يہود ۳

فَجَعَلْنَاهَا نَكَالاً لِّمَا بَيْنَ يَدَيْهَا وَمَا خَلْفَهَا وَمَوْعِظَةً لِّلْمُتَّقِينَ ( ۶۶ )

اور ہم نے اس جنسى تبديلى كو ديكھنےوالوں اور بعد والوں كے لئے عبرت اورصاحبان تقوى كےلئے نصيحت بناديا (۶۶)

۱_ اصحاب سبت كا عذاب و عقوبت ان كے ہم عصر افراد اور ما بعد كے انسانوں كے لئے درس عبرت ہے_

فجعلناها نكالا لما بين يديها و ما خلفها '' فجعلناها'' كى ضمير سے مراد اصحاب سبت كا عذاب و عقوبت ہے اور يہ مطلب '' فقلنالہم كونوا قردة'' سے سمجھ ميں آتاہے _'' يديہا'' اور ''خلفہا'' كى ضمير ''الذين اعتدوا'' كى طرف لوٹتى ہے اس كو مؤنث اسى لئے استعمال كيا ہے كہ مراد''امت'' يا ''طائفة ''ہے '' ما بين يديہا_جو تمہارے سامنے ہے '' گويا اصحاب

سبت كے ہم عصر لوگ مراد ہيں _ '' ما خلفہا _ جو ان كے بعد ہے'' گويا آنے والے انسان مراد ہيں _

۲ _ مسخ ہونا اصحاب سبت اور ان امتوں كى سزا ہے جو احكام الہى كى خلاف ورزى كرتى ہيں _

فجعلناها نكالا لما بين يديها و ما خلفها

۳ _ اصحاب سبت كا انجام اہل تقوى كےلئے وعظ و نصيحت ہے _فجعلناها موعظة للمتقين

۴ _ گناہگار اور فرمان الہى سے انحراف كرنے والى امتوں كے دنياوى عذاب اور برے انجام ميں مبتلا ہونے كا خطرہ موجود ہے _فجعلناها نكالا لما بين يديها و ما خلفها

۲۲۴

۵_ اصحاب سبت كے برے انجام پر توجہ كرنا گناہ اور اللہ تعالى كى نافرمانى سے بچنے كى زمين فراہم كرتاہے_فجعلنا ها نكالا لما بين يديها و ما خلفها ''نكال''كا معنى عبرت ہے نيز باز ركھنے والى ، عقوبت اور خوفناك انجام كے معنى ميں بھى آياہے_

۶_ واقعات اور حوادث كا عبرت آموز ہونا خداوند متعال كے دست قدرت ميں ہے_فجعلنا ها نكالاً جملہ''فجعلناہا (ہم نے اس عقوبت كو عبرت قرار ديا) ميں ''جعل'' كى نسبت خداوند متعال كى طرف دينا اس مطلب كى طرف اشارہ ہے كہ كوئي ايك بھى واقعہ يا حادثہ اگر عبرت كى نشانى بننا چاہے تو يہ فقط خداوند متعال كے دست قدرت ميں ہے_

۷ _ گذشتہ امتوں كى سرگذشت سے نصيحت حاصل كرنا اس بات كى نشانى ہے كہ انسان ميں روح تقوى موجود ہے _

فجعلنا ها و موعظة للمتقين

۸ _ امتوں كى تاريخ يا سرگذشت موعظہ، عبرت ا ور سبق آموزى كا سرچشمہ ہے_فجعلناها نكالاً لما بين يديها و ما خلفها و موعظة

۹_'' فجعلناها'' الضمير يعود الى الامة التى مسخت و هم اهل ايله قرية على شاطئي البحر و هو المروى عن ابى جعفر عليه‌السلام ...(۱) امام باقرعليه‌السلام سے روايت ہے كہ اللہ تعالى نے شہر ايلہ (ساحل سمند رپر واقعہ تھا) كے رہنے والوں كو مسخ كيا_

اصحاب سبت: اصحاب سبت سے عبرت ۱،۳،۵; اصحاب سبت كا عذاب ۱; اصحاب سبت كا انجام ۵; اصحاب سبت كو سزا ۲،۳; اصحاب سبت كا مسخ ہونا ۲

اللہ تعالى : مشيت الہي۶

انجام : برا انجام ۴

اہل ايلہ: اہل ايلہ كا مسخ ہونا ۹

تاريخ : تاريخ سے عبرت ۱،۶،۷،۸; تاريخ كے فوائد ۱،۸

____________________

۱) مجمع البيان ج/۱ص ۲۶۵ ، نورالثقلين ج/۱ص ۸۷ ح ۲۳۷_

۲۲۵

تقوى : تقوى كى نشانياں ۷

ذكر: ذكر تاريخ كے نتائج و اثرات۵

روايت:۹

عبرت: عبرت كے عوامل ۱،۳،۸

عذاب: دنياوى عذاب كے موجبات۴

گناہ : گناہ سے اجتناب كى زمين آمادہ ہونا۵

گناہگار: گناہگاروں كا انجام۴; گناہگاروں كى دنياوى سزا ۴

متقين : متقين كى عبرت ۳; متقين كے لئے موعظہ ۳

موعظہ : موعظہ كے اسباب ۸

نافرمان لوگ: نافرمانوں كا انجام ۴; نافرمانوں كى دنياوى سزا ۴; نافرمانوں كا مسخ ہونا ۲

نافرمانى : نافرمانى سے اجتناب كى زمين فراہم ہونا ۵

وَإِذْ قَالَ مُوسَى لِقَوْمِهِ إِنَّ اللّهَ يَأْمُرُكُمْ أَنْ تَذْبَحُواْ بَقَرَةً قَالُواْ أَتَتَّخِذُنَا هُزُواً قَالَ أَعُوذُ بِاللّهِ أَنْ أَكُونَ مِنَ الْجَاهِلِينَ ( ۶۷ )

اور وہ موقع بھى ياد كرو جب موسى نے قومسے كہا كہ حكم ہے كہ ايك گائے ذبح كروتوان لوگوں نے كہا كہ آپ ہميں مذاقبنارہے ہيں _ فرمايا پناہ بخدا كہ ميں جاہلوں ميں سے ہوجاؤں (۶۷)

۱_خداوند متعال نے حضرت موسىعليه‌السلام كى قوم كو مادہ گائے ذبح كرنے كا حكم ديا _ان الله يامركم ان تذبحوا بقرة

مادہ گائے كے حكم ذبح كا استفادہ بعد والى آيت ميں لفظ '' بكر'' سے ہوتاہے_

۲ _ حضرت موسىعليه‌السلام اپنى قوم كو فرمان الہى ( گائے ذبح كرنا) پہنچانے والے تھے _إذ قال موسى لقومه ان الله يامركم ان تذبحوا بقرة

۳ _ حضرت موسىعليه‌السلام كا گائے ذبح كرنے كے حكم پر تاكيد كرنا اللہ تعالى كى جانب سے تھا نہ كہ حضرت موسىعليه‌السلام كى رائے_إذ قال موسى لقومه ان الله يامركم

۲۲۶

۴ _ بنى اسرائيل كا گائے كے حكم ذبح كو بازيچہ قرار دينا اور اپنے ساتھ تمسخر كئے جانے كے برابر قرار دينا، يہ انكا تحليل و تجزيہ اور باطل گمان تھا_اتتخذنا هزواً '' ہزواً'' يعنى كھيل تماشا سمجھنا اور تمسخر اڑانا_ آيت ۷۲ ، ۷۳ سے يہ بات سمجھ ميں آتى ہے كہ يہ حكم اس قتل كے بارے ميں تھا جو بنى اسرائيل كے درميان ہوا _ ہر قبيلہ اسكا ذمہ دار دوسرے كو جانتا تھا_ يہ جو حضرت موسىعليه‌السلام كى قوم ذبح گائے كے فرمان اور واردات قتل ميں كوئي ربط محسوس نہ كرتى تھي_ اس فرمان كا يوں تحليل و تجزيہ كرتے ہوئے اسے اپنے ساتھ تمسخر كيا جانا سمجھتے تھے_

۵ _ حضرت موسىعليه‌السلام كى قوم كا گمان يہ تھا كہ گائے ذبح كرنے كا فرمان حضرت موسىعليه‌السلام كى طرف سے تھا نہ كہ اللہ تعالى كى جانب سے _اتتخذنا هزواً '' اتتخذنا هزواً _ كيا ہمارا تمسخر اڑاتے ہو'' يہ جملہ بنى اسرائيل كا حضرت موسىعليه‌السلام كو خطاب تھا_ اس سے معلوم ہوتاہے كہ ذبح گائے كے حكم كو خداوند متعال كى طرف سے نہيں بلكہ حضرت موسىعليه‌السلام كى جانب سے تصور كرتے تھے_

۶_ حضرت موسىعليه‌السلام جانتے تھے كہ ان كى قوم گائے ذبح كرنے كے فرمان كى مخالفت كرے گى اورڈٹ جائے گي_

ان الله يامركم ان تذبحوا بقرة حضرت موسىعليه‌السلام نے حكم الہى كو جملہ اسميہ '' ان اللہ ...'' سے بيان كيا جو حرف تاكيد كے ساتھ آياہے_ معمولاً كلام كے ساتھ تاكيد اس لئے استعمال كى جاتى ہے كہ مخاطب اسكو قبول كرنے پر تيار نہيں ہوتا يايہ كہ اس ميں شك كا اظہار كرتاہے_

۷_ اللہ تعالى كا حكم پہنچانے ميں حضرت موسىعليه‌السلام كى قوم نے ان پر دروغ گوئي كى تہمت لگائي_ان الله يامركم قالوا اتتخذنا هزواً

حضرت موسىعليه‌السلام اس جملہ '' ان اللہ ...'' كے ذريعے صراحت سے بيان فرماتے ہيں كہ يہ اللہ تعالى كا ہى حكم ہے ليكن بنى اسرائيل اس جملہ ''اتتخذنا'' كے ذريعے يہى سمجھتے ہيں كہ يہ موسىعليه‌السلام كا حكم ہے _ گويا ان كا گمان تھا كہ حضرت موسىعليه‌السلام نے دروغ گوئي سے كام ليتے ہوئے اسكو اللہ كى طرف نسبت دى ہے_

۸_ بنى اسرائيل نے حضرت موسىعليه‌السلام پر يہ الزام لگايا كہ انہوں نے اپنى قوم كا تمسخر اڑايا ہے_اتتخذنا هزواً

۹ _ حضرت موسىعليه‌السلام كے زمانے ميں معاشرے ميں عقيدہ و رائے كے اظہار كى آزادى حاصل تھي_ اتتخذنا هزواً

۱۰_ حضرت موسىعليه‌السلام نے اس امر سے كہ ان كا شمار جاہلوں ميں ہو اللہ تعالى كى پناہ طلب كى _اعوذ بالله ان اكون من الجاهلين

۲۲۷

۱۱_ حضرت موسىعليه‌السلام نے لوگوں كا مذاق اڑانے كو جاہلانہ اقدام قرار ديا اسطرح انہوں نے اپنى قوم كے گمان و خيال كو اپنے بارے ميں نادرست قرار ديا_قال اعوذ بالله ان اكون من الجاهلين

۱۲_ حضرت موسىعليه‌السلام كى قوم ان پر راسخ ايمان نہ ركھتى تھي_اتتخذنا هزواً

۱۳ _ خود كو ناروا اور بے جا الزامات سے بَرى ثابت كرنے كى كوشش كرنا ايك اچھا اور قابل تعريف عمل ہے_

قالوا اتتخذنا هزواً قال اعوذ بالله ان اكون من الجاهلين

۱۴ _ انبياءعليه‌السلام لوگوں كے تمسخر اڑانے اور انہيں كھيل تماشا تصور كرنے سے پاك و منزہ ہيں _قال اعوذ بالله ان اكون من الجاهلين

۱۵ _ انبياءعليه‌السلام جاہلانہ كردار سے پاك و منزہ ہيں _قال اعوذ بالله ان اكون من الجاهلين

۱۶_ حضرت موسىعليه‌السلام كى قوم انبياءعليه‌السلام كى ضرورى معرفت نہ ركھتى تھي_اتتخذنا هزواً قال اعوذ بالله ان اكون من الجاهلين

۱۷_ حضرت موسىعليه‌السلام كا اللہ تعالى كى پناہ مانگنا اس چيز سے تھا كہ حضرت موسىعليه‌السلام كسى بھى چيز كو خداوند متعال كى طرف جھوٹ منسوب كريں _اتتخذنا هزواً قال اعوذ بالله ان اكون من الجاهلين يہ جملہ '' اعوذ باللہ ...'' ان الزمات پر ناظر ہے جو اس جملہ '' اتتخذنا ہزواً'' ميں ہيں اس جملہ ميں دو باطل خيال اور بے جا الزام موجود ہيں ۱ _ حضرت موسىعليه‌السلام نے لوگوں كو بازيچہ سمجھا ہے ۲ _ گائے ذبح كرنے كا حكم حضرت موسىعليه‌السلام كى طرف سے ہے نہ كہ خداوند متعال كى جانب سے _

۱۸_ انبياءعليه‌السلام ہرگز خداوند متعال كى طرف كسى جھوٹے حكم كى نسبت نہيں ديتے _اتتخذنا هزواً قال اعوذ بالله ان اكون من الجاهلين

۱۹_ الہى احكام كے بيان اور ان كو لوگوں تك پہنچانے ميں انبياءعليه‌السلام معصوم ہيں _اتتخذنا هزواً قال اعوذ بالله ان اكون من الجاهلين

۲۰_ لوگوں كا تمسخر اڑانا جاہلانہ كردار ہے_اتتخذنا هزواً قال اعوذ بالله ان اكون من الجاهلين

۲۱ _ جاہلانہ كردار اور وہ لغزشيں جن كى بنياد جہالت پر مبنى ہو ان سے دور رہنے كے لئے اللہ تعالى كى پناہ اور ا س كى نصرت طلب كرنا ضرورى ہے_قال اعوذ بالله ان اكون من الجاهلين

۲۲ _ جہالت اور نادانى خطرات كو جنم ديتى ہے اور لغزشوں كا سرچشمہ ہے _اعوذ بالله ان اكون من الجاهلين

۲۲۸

''اعوذ''كا مصدر ''عياذ'' ہے جس كا معنى ہے پناہ لينا اور يہ اس وقت ہوتا جب انسان كسى چيز كے شر سے خوف زدہ ہو_

۲۳ _ لوگوں كا مذاق اڑانا اور تمسخر كرنا، اس كى بنياد جہالت و نادانى ہے_اتتخذنا هزواً قال اعوذ بالله ان اكون من الجاهلين

۲۴ _ اللہ تعالى كى طرف كسى امر يا حكم كى جھوٹى نسبت دينے كا منبع اور دليل جہالت و نادانى ہے _اتتخذنا هزواً قال اعوذ بالله ان اكون من الجاهلين_

حضرت موسىعليه‌السلام كى قوم كا يہ الزام كہ گائے ذبح كرنے كا حكم اللہ تعالى كى طرف سے نہيں ہے بلكہ موسىعليه‌السلام نے اسے خدا كى طرف نسبت دى ہے اس پر حضرت موسىعليه‌السلام نے فرمايا '' ميں جاہلانہ امور سے دور ہوں '' يعنى يہ امر جہالت پر مبنى ہے_

۲۵_ امام صادقعليه‌السلام نے ارشاد فرمايا:''ان رجلاً من خيار بنى اسرائيل وعلماء هم خطب امراة منهم فانعمت له وخطبها ابن عم لذلك الرجل وكان فاسقاً ردياً فلم ينعموا له فحسد ابن عمه الذى انعموا له فقعد له فقتله غيلة ثم حمله الى موسي عليه‌السلام فقال يا نبى الله هذا ابن عمى قد قتل قال موسي عليه‌السلام من قتله؟ قال لا ادرى فعظم ذلك على موسى عليه‌السلام فاجتمع اليه بنو اسرائيل فقالوا ما ترى يا نبى الله'' قال لهم موسى عليه‌السلام '' ان الله يامركم ان تذبحوا بقرة'' (۱) بنى اسرائيل كے علماء و بزرگان ميں سے ايك فرد نے ايك خاتون سے شادى كى درخواست كى تو اس نے قبول كرلى اسى خاتون كا رشتہ اس عالم دين كے چچا زاد نے بھى مانگا جو نہايت پست اور فاسق و فاجر شخص تھا پس انہوں نے اس كو رد كرديا ( مثبت جواب نہ ديا ) پس اس چچا زاد نے اس عالم دين سے حسد كيا اور اس كى تاك ميں بيٹھ گيا اور اس كو دھوكے سے قتل كرديا پھر اس كا جنازہ حضرت موسىعليه‌السلام كے پاس لے گيا _ كہنے لگا اے اللہ كے نبى يہ ميرا چچا زاد ہے اس كو كسى نے قتل كرديا ہے حضرت موسىعليه‌السلام نے پوچھا كس نے قتل كيا ہے كہنے لگا مجھے نہيں معلوم يہ واقعہ حضرت موسىعليه‌السلام پر بڑا گراں گذرا _ بنى اسرائيل حضرت موسىعليه‌السلام كے گرد جمع ہوگئے اور كہنے لگے اے اللہ كے نبىعليه‌السلام آپعليه‌السلام كا حكم كيا ہے؟ تو حضرت موسىعليه‌السلام نے فرمايا ''بے شك اللہ تمہيں حكم كرتاہے كہ گائے ذبح كرو ...''

آزادى : حضرت موسىعليه‌السلام كے زمانے ميں آزادى ۹

استعاذہ : ( پناہ طلب كرنا ) اللہ تعالى كى پناہ طلب كرنا ۱۰;اللہ تعالى كى پناہ طلب كرنے كى اہميت ۲۱

____________________

۱) تفسير قمى ج/ ۱ ص ۴۹ ، نورالثقلين ج/۱ ص۸۸ ح ۲۴۰_

۲۲۹

اظہار رائے كى آزادي: اظہار رائے كى آزادى كى تاريخ ۹

اللہ تعالى : اوامر الہى ۱،۳

انبياءعليه‌السلام : انبياءعليه‌السلام اور لوگوں كا تمسخر اڑانا ۱۴; انبياءعليه‌السلام اور اللہ تعالى پر جھوٹ باندھنا ۱۸; انبياءعليه‌السلام اور جاہلانہ عمل ۱۵; انبياءعليه‌السلام كى تبليغ ۱۹; انبياءعليه‌السلام كا پاك و منزہ ہونا ۱۴،۱۵،۱۸; انبياءعليه‌السلام كى صفات ۱۴، ۱۵; انبياءعليه‌السلام كى عصمت ۱۹

بنى اسرائيل: بنى اسرائيل كے تمسخر ۴،۱۱; بنى اسرائيل اور انبياءعليه‌السلام ۱۶; بنى اسرائيل اور حضرت موسىعليه‌السلام ; ۷،۸،۱۲; بنى اسرائيل كى حضرت موسىعليه‌السلام پر بے اعتقادى ۱۲; بنى اسرائيل كے گمان و توہمات۵; بنى اسرائيل كى تاريخ ۱،۴،۵ ، ۷،۸; بنى اسرائيل كى جہالت ۱۱،۱۶; بنى اسرائيل كا گائے كو ذبح كرنا ۱،۳،۵; بنى اسرائيل كا خدا كے بارے ميں عقيدہ ۱۱; بنى اسرائيل كى گائے كا واقعہ ۲۵; بنى اسرائيل كى گائے ۴،۶،۷

جہالت: جہالت كے نتائج ۲۱، ۲۲،۲۳،۲۴

جھوٹ باندھنا : اللہ تعالى پر جھوٹ باندھنے كى بنياد۲۴

حضرت موسىعليه‌السلام : حضرت موسىعليه‌السلام كا پناہ طلب كرنا ۱۰،۱۷; حضرت موسىعليه‌السلام كا قبل ازوقت متوجہ ہونا ۶; حضرت موسىعليه‌السلام كى تبليغ ۲; حضرت موسىعليه‌السلام پر تمسخر اڑانے كى تہمت ۸; حضرت موسىعليه‌السلام پر دروغ گوئي كى تہمت ۷; حضرت موسى كا واقعہ ۶،۷،۸،۱۰،۱۱; حضرت موسىعليه‌السلام كى ذمہ دارى ۲; حضرت موسىعليه‌السلام اور اللہ تعالى پر جھوٹ كى نسبت ۱۷; حضرت موسىعليه‌السلام اور عقيدہ كى تصحيح ۱۱; حضرت موسىعليه‌السلام اور جہلاء ۱۰

خود: خود كو تہمت سے بَرى كرنا ۱۳

روايت: ۲۵

عقيدہ: آزادى عقيدة كى تاريخ ۹

عمل: جاہلانہ عمل سے اجتناب ۲۱; پسنديدہ عمل ۱۳; جاہلانہ عمل ۲۰

عوام: عوام كا تمسخر ۲۰

گائے : ۱ لغزش : لغزش كے اسباب ۲۱،۲۲ مدد طلب كرنا : اللہ تعالى سے مدد طلب كرنے كى اہميت ۲۱

مذاق اڑانا: مذاق اڑانے كى بنياد۲۳

۲۳۰

قَالُواْ ادْعُ لَنَا رَبَّكَ يُبَيِّن لّنَا مَا هِيَ قَالَ إِنَّهُ يَقُولُ إِنَّهَا بَقَرَةٌ لاَّ فَارِضٌ وَلاَ بِكْرٌ عَوَانٌ بَيْنَ ذَلِكَ فَافْعَلُواْ مَا تُؤْمَرونَ ( ۶۸ )

ان لوگوں نےكہا كہ اچھأ خدا سے دعا كيجئے كہ ہميں اسكى حقيقت بتائے _ انھوں نے كہا كہ ايسيگائے چاہئے جو نہ بوڑھى ہو نہ بچہ _درميانى قسم كى ہو اب حكم خدا پر عمل كرو(۶۸)

۱_ بنى اسرائيل اپنے پہلے انكار كے بعد مطمئن ہوگئے كہ يہ حكم اللہ تعالى كى جانب سے ہے _قالوا اتتخذنا هزواً قا لوا ادع لنا ربك يبين لنا ماهي گائے كى خصوصيات اور مشخصات كو بيان كرنے كا تقاضا اس معنى كى طرف اشارہ ہے كہ حضرت موسىعليه‌السلام كى قوم كو ان كے اس كلام ''اعوذ باللہ ...'' سے يقين ہوگيا كہ يہ حكم اللہ تعالى كى جانب سے ہى ہے_

۲ _ حضرت موسىعليه‌السلام كى قوم كو قتل كا معمہ حل كرنے كے لئے ہر طرح كى گائے كافى ہوگى ، اس پر يقين نہ تھا_

قالوا ادع لنا ربك يبين لنا ما هي

۳ _ حضرت موسىعليه‌السلام كى قوم نے ان سے چاہا كہ وہ گائے جو ذبح ہونى چاہيئے اسكى خصوصيات ہمارے لئے اللہ تعالى سے سوال كريں _قالوا ادع لنا ربك يبين لنا ماهي

۴ _ گائے كا درميانى عمر كا ہونا (نہ نوجوان بچھڑ ا ہو اور نہ ہى بوڑھى گائے ہو) ان معين كى گئي خصوصيات ميں سے تھا جو گائے حضرت موسىعليه‌السلام كى قوم ذبح كرنے پر مامور كى گئي _انها بقرة لا فأرض و لا بكر عوان بين ذلك '' فأرض'' كا معنى ہے بوڑھى '' بقرة بكر'' ايسى جو اں سال گائے كو كہتے ہيں جو حاملہ نہ ہوئي ہو ( لسان العرب) '' عوان '' كا معنى درميانى عمر ہے _

۵ _ حضرت موسىعليه‌السلام نے اپنى قوم كو جس پر مامور تھى (جواں سال گائے ذبح كرنا ) اسكا حكم ديا _فافعلوا ما تؤمرون

۶ _ ديگر خصوصيات كے سوال كرنے سے پہلے گائے كا جو اں سال ہونا ہى ضرورى و لازم تھا جس كے ذبح كرنے پر بنى اسرائيل مامور تھے_ عوان بينذلك فافعلوا ما تؤمرون '' فافعلوا ما تؤمرون _ جس پر مامور ہو عمل

۲۳۱

كرو '' يہ جملہ بيان كررہاہے كہ حضرت موسىعليه‌السلام كى قوم كى تكليف شرعى يا انكا '' مامور بہ'' صرف جو اں سال گائے تھى جس ميں ديگر خصوصيات كا بيان نہ تھا_

۷_ حضرت موسىعليه‌السلام نے لوگوں سے چاہا كہ جس گائے كے ذبح كرنے پر مامور ہيں اسكے بارے ميں مزيد سوالات كركے خود كو مشكلات سے دوچار نہ كريں _فافعلوا ما تؤمرون

۸_ امام صادقعليه‌السلام سے اس آيت '' قال انہ يقول انہا بقرة لا فأرض و لا بكر'' كے بارے ميں روايت ہے كہ آپعليه‌السلام نے فرمايا :والفأرض التى قد ضربها الفحل و لم تحمل والبكر التى لم يضربها الفحل (۱)

'' فأرض'' ايسى گائے كو كہتے ہيں جسكا جوڑا تو بنا ہو ليكن حاملہ نہ ہوئي ہو اور '' بكر'' ايسى گائے كو كہتے ہيں جسكا جوڑا نہ بناہو_

بنى اسرائيل: بنى اسرائيل كے سوالات ۷; بنى اسرائيل كى تاريخ ۱،۲،۳،۶; بنى اسرائيل كى خواہشات ۳; بنى اسرائيل كا گائے ذبح كرنا ۱،۲،۵،۶; بنى اسرائيل كا شك ۲;بنى اسرائيل كى گائے كى خصوصيات ۳،۴، ۶،۸; بنى اسرائيل كى ذمہ دارى ۵،۶

تكليف شرعي: تكليف شرعى كے سخت ہونے كے اسباب ۷

حضرت موسىعليه‌السلام : حضرت موسىعليه‌السلام كا واقعہ ۳،۵،۷;حضرت موسىعليه‌السلام اور بنى اسرائيل ۵

روايت: ۸

سوال: بے جا سوال ۷

قتل: ذبح شدہ گائے سے قتل كا منكشف ہونا۲

گائے : ۶

____________________

۱) تفسير قمى ج/ ۱ ص ۴۹ ، نورالثقلين ج/ ۱ ص ۸۸ ح ۲۴۰_

۲۳۲

قَالُواْ ادْعُ لَنَا رَبَّكَ يُبَيِّن لَّنَا مَا لَوْنُهَا قَالَ إِنَّهُ يَقُولُ إِنّهَا بَقَرَةٌ صَفْرَاء فَاقِعٌ لَّوْنُهَا تَسُرُّ النَّاظِرِينَ ( ۶۹ )

ان لوگوں نے كہا يہ بھى پوچھئے كہرنگ كيا ہوگا _ كہا كہ حكم خدا ہے كہ زردبھرك دار رنگ كى ہو جو ديكھنے ميں بھيمعلوم ہو (۶۹)

۱_ حضرت موسىعليه‌السلام كى قوم تكليف شرعى كے مشخص ہونے اور ہدف ( قتل كا معمہ حل كرنا) تك پہنچنے كى خاطر گائے كے جو اں سال ہونے كو كافى نہ سمجھتى تھي_فافعلوا ما تؤمرون _ قالوا ادع لنا ربك يبين لنا مالونها

جملہ '' فافعلوا ما تؤمرون'' سے حضرت موسىعليه‌السلام نے اپنى قوم كو سمجھايا كہ تمہارى ذمہ دارى اس سے زيادہ نہيں كہ جواں سال گائے ذبح كرو اس كے باوجود انہوں نے گائے كا رنگ اور ديگر خصوصيات كے بارے ميں سوال كيا جو اس معنى كى طرف اشارہ ہے: اس طرح كى گائے (صرف جواں سال ہونا) ذبح كرنا قتل كے معمہ كو حل نہيں كرسكتا_

۲ _ حضرت موسىعليه‌السلام كى قوم نے آپعليه‌السلام سے تقاضا كيا كہ جو گائے ذ بح ہونى چاہيئے اس كا رنگ اللہ تعالى سے پوچھ كے بتائيں _قالوا ادع لنا ربك يبين لنا ما لونها

۳ _ حضرت موسىعليه‌السلام كى قوم جس گائے كو ذبح كرنے پر مامور ہوئي اس كا رنگ گہرا پيلا اور فرحت بخش ہونا

چاہيئے تھا_انها بقره صفرآء فاقع لونها تسر الناظرين ''فاقع'' كا معنى گہرا، خالص اور روشن ہے '' تسر _ مسرت بخش ہو'' اسكى ضمير '' بقرة'' كى طرف لوٹتى ہے گويا گائے ايسى ہونى چاہيئے كہ ديكھنے والوں كے لئے خوشى و مسرت كا باعث ہو _ ''صفرآئ ...'' سے يہ مفہوم نكلتاہے كہ مسرت بخش ہونے ميں رنگ بھى دخيل ہے _ يعنى مراد يہ ہے ''تسر بلونہا الناظرين'' پس گائے بھى خوبصورت ہو اور اس كا رنگ بھى _

۴ _ حضرت موسىعليه‌السلام نے اس امر پر تاكيد فرمائي كہ ذبح ہونے والى گائے كى خصوصيات اللہ تعالى كى جانب سے معين كى گئي ہيں نہ كہ آپعليه‌السلام كى طرف سے _قال انه يقول

۵ _ گہرے پيلے رنگ والى گائے لوگوں كے لئے جاذب نظر ہوگى اور مسرت بخش ہوگى _*انها بقرة صفراء فاقع لونها تسر الناظرين يہ مفہوم اس بناپر ہے كہ جملہ '' تسر الناظرين''

۲۳۳

قيد توضيحى ہو نہ كہ احترازى _

بنى اسرائيل: بنى اسرائيل اور حضرت مو سىعليه‌السلام ۲; بنى اسرائيل كى تاريخ ۱،۲; بنى اسرائيل كے مطالبات۲; بنى اسرائيل كى گائے كا رنگ ۲،۳; بنى اسرائيل كى گائے كى خصوصيات۱،۴

ترغيب : ترغيب كے اسباب ۵

حضرت موسىعليه‌السلام : حضرت موسىعليه‌السلام كا واقعہ ۲

رنگ: پيلا رنگ ۳،۵

سرور: سرور كے اسباب ۵

قتل : ذبح شدہ گائے سے قتل كا منكشف ہونا ۱

گائے : پيلے رنگ كى گائے ۵

قَالُواْ ادْعُ لَنَا رَبَّكَ يُبَيِّن لَّنَا مَا هِيَ إِنَّ البَقَرَ تَشَابَهَ عَلَيْنَا وَإِنَّآ إِن شَاء اللَّهُ لَمُهْتَدُونَ ( ۷۰ )

ان لوگوں نے كہا كہ ايسى توبہت سى گائيں ہيں اب كونسى ذبح كريں اسےبيان كيا جائے ہم انشاء اللہ تلاش كرليں گے (۷۰)

۱ _ حضرت موسىعليه‌السلام كى قوم نے مذكورہ گائے كے رنگ اور عمر كى خصوصيات كو كافى نہ سمجھتے ہوئے اسكى مزيد خصوصيات كى توضيح مانگى _قالوا ادع لنا ربك يبين لنا ما هي

۲ _ حضرت موسىعليه‌السلام كى قوم كو يہ يقين تھا كہ ذبح اور معمہ قتل كے حل والى گائے كى خصوصيات بے نظير ہونى چاہئيں _ان البقر تشابه علينا ''تشابہ '' يعنى مثل يا مشابہ ہونا _ چونكہ ''علي'' كے ساتھ متعدى ہوا ہے اس لئے اس ميں اشتباہ و التباس كا معنى پايا جاتاہے _ بنابريں ''ان البقر ...'' كا معنى يہ ہوا كہ جس گائے كى خصوصيات پيلا ہونا اور جواں سال ہونا بيان ہوئي ہے اسكے مصاديق بہت سے ہيں اور يہ امر اس بات كا موجب ہے كہ ہم كون سى گائے كا انتخاب كريں _ حضرت موسىعليه‌السلام كى قوم كا يہ جملہ حكايت كرتاہے كہ ان كا خيال تھا كہ ذبح كے لئے موردنظر گائے كى اسطرح تعريف و تشريح ہو كہ اس جيسى گائے بس ايك ہى ہو_

۲۳۴

۳ _ حضرت موسىعليه‌السلام كى قوم نے ذبح ہونے والى گائے كے انتخاب ميں حيرت و پريشانى كو اپنے سوالات كے تكرار اور زيادہ توضيح و تشريح كى دليل قرار ديا _قال ادع لنا ربك ان البقر تشابه علينا جملہ '' ان البقر ...'' ما قبل جملے كى تعليل ہے اس ميں حضرت موسىعليه‌السلام كى قوم يہ بتانے كے درپے تھى كہ ان كے بار بار كے سوالات اس لئے ہيں كہ معاملہ ان كے لئے مشتبہ ہوگيا ہے اور وہ لوگ حيرت و پريشانى سے نكلنا چاہتے ہيں نہ يہ كہ بہانے بنا رہے ہيں اور ذمہ دارى سے فرار كرنا چاہتے ہيں _

۴ _ حضرت موسىعليه‌السلام كى قوم آخرى سوال سے گائے كے معين ہونے اور حيرت و پريشانى سے نكلنے كے لئے پر اميد تھے _انا إن شاء الله لمهتدون ''مھتدون'' ، ''اہتدائ'' سے اسم فاعل ہے اور اسكا معنى ہے ہدايت يافتہ اسكا متعلق وہى گائے ہے جسے ذبح كرنا ہے _

۵ _ ذبح ہونے والى گائے ملنے كيلئے حضرت موسىعليه‌السلام كى قوم كا اعتماد مشيت الہى پر تھا_و انا إن شاء الله لمهتدون

۶ _ انسانوں كا ہدايت پانا اور حيرت و سرگردانى سے نكلنا اللہ تعالى كے اختيار اور اسكى مشيت سے ممكن ہے_

و انا إن شاء الله لمهتدون

۷_ حضرت موسىعليه‌السلام كى قوم كو اس پر يقين تھا كہ انسان كى ہدايت مشيت الہى اور خداوند متعال كے چاہنے سے وابستہ ہے_و انا إن شآء الله لمهتدون

۸_ حضرت موسىعليه‌السلام كى قوم كو بارگاہ رب العزت سے آپعليه‌السلام كى دعاؤں كى قبوليت اور اپنے مطالبوں كے پوراہونے كا اطمينان تھا_قالوا ادع لنا ربك يبين لنا ماهى ادع لنا ربك يبين لنا مالونها ادع لنا ربك يبين لنا ماهي '' يبين '' اس آيت ميں اور ماقبل آيات ميں شرط مقدر سے مجزوم ہے _ كلام كى تقدير يوں ہے ''ادع لنا ربك ليبين لنا ان تدع اللہ يبين'' خدا سے چاہو كہ ہمارے لئے بيان كرے اگر تم خدا سے چاہوگے تو بيان فرمائے گا '' مذكورہ بالا مفہوم اس معنى ( اگر تم خدا سے چاہوگے تو بيان فرمائے گا ) كى بناپر ہے _

۹ _ پيامبرگرامى اسلام(ص) سے روايت ہے ''انهم امروا بادنى بقرة و لكنهم لما شدوا على أنفسهم شدد الله عليهم و ايم الله لو لم

۲۳۵

يستثنوا ما بينت لهم الى آخر الا بد (۱)

بنى اسرائيل كو كمترين گائے ذبح كرنے كا حكم ديا گيا تھا ليكن انہوں نے خود اپنے لئے سختى كا انتخاب كيا تو اللہ تعالى نے بھى شدت اختيار فرمائي اور خدا كى قسم اگر وہ لوگ '' انشاء اللہ '' نہ كہتے تو ان كے لئے گائے كى خصوصيات قيامت تك بيان نہ ہوپاتيں _

اللہ تعالى : اللہ تعالى سے مختص امور۶; مشيت الہى ۵،۶ ، ۷

بنى اسرائيل: بنى اسرائيل كا اعتماد ۵; بنى اسرائيل اور مشيت الہى ۵; بنى اسرائيل اور حضرت موسىعليه‌السلام ۸; بنى اسرائيل كا نكتہ نظر ۲; بنى اسرائيل كے سوالات ۴; بنى اسرائيل كى تاريخ ۱،۳،۴; بنى اسرائيل كى حيرت ۳،۴; بنى اسرائيل كے مطالبات ۱; بنى اسرائيل كى گائے كى خصوصيات ۱،۲،۹; بنى اسرائيل كا عقيدہ ۵،۷،۸، بنى اسرائيل كے سوالات كا فلسفہ ۳; بنى اسرائيل كى گائے كا واقعہ ۹; بنى اسرائيل كى گائے ۳،۴،۵

حضرت موسىعليه‌السلام : حضرت موسىعليه‌السلام كى دعا كا مستجاب ہونا۸

حيرت و سرگرداني: حيرت سے نجات:۶

روايت: ۹ قاتل: قاتل كى ہويت منكشف ہونے كى كيفيت۲

قتل: ذبح شدہ گائے سے قتل كا منكشف ہونا۲

ہدايت: ہدايت كا سرچشمہ۶،۷

____________________

۱) مجمع البيان ج/ ۱ ص ۲۷۴ ، نورالثقلين ج/ ۱ ص ۸۹ ح ۲۴۳_

۲۳۶

قَالَ إِنَّهُ يَقُولُ إِنَّهَا بَقَرَةٌ لاَّ ذَلُولٌ تُثِيرُ الأَرْضَ وَلاَ تَسْقِي الْحَرْثَ مُسَلَّمَةٌ لاَّ شِيَةَ فِيهَا قَالُواْ الآنَ جِئْتَ بِالْحَقِّ فَذَبَحُوهَا وَمَا كَادُواْ يَفْعَلُونَ ( ۷۱ )

حكم ہوا كہ ايسى گائے جوكاروبارى نہ ہو نہ زمين جو تے نہ كھيٹسينچے ايسى صاف ستھرى كہ اس ميں كوئيدھبہ بھى نہ ہو ان لوگوں نے كہا كہ اب آپنے ٹھيك بيان كيا ہے _ا س كے بعد انلوگوں نے ذبح كرديا حالانكہ وہ ايسا كرنےوالے نہيں تھے(۷۱)

۱ _ حضرت موسىعليه‌السلام كى قوم كو جو گائے ذبح كرنے كا حكم ديا اس كى خصوصيات ميں سے تھا كہ اسے ہل چلانے كے لئے رام نہ كيا گيا ہو اور نہ ہى اس سے آبيارى كا كام ليا گيا ہو_ قال انه يقول انها بقرة لا ذلول تثير الأرض و لا تسقى الحرث

''ذلول'' كامعنى ہے مطيع يا رام كرنا _ تثير كا مصدر ''اثارة'' ہے جسكا معنى ہے تہہ و بالا كرنا اور اس سے مراد زمين پر گائے كے ذريعے ہل چلاكر اس كو تہہ و بالا كرنا _

۲ _ جس گائے كے ذبح كرنے كا حكم حضرت موسىعليه‌السلام كى قوم كو ديا گيا وہ سالم ،بے عيب ، اس كى جلد ميں كسى طرح كا كوئي نقطہ نہ ہو اور اس كے رنگ اور بدن پر كوئي لكير و غيرہ نہيں ہونى چاہيئے تھي_مسلّمة لا شيه فيها ''مسلّمة'' يعنى سالم اور اس كا مطلب يہ ہے كہ ہر طرح كے عيب سے پاك ہو_ ''شية'' ہر اس رنگ كو كہتے ہيں جو عمومى رنگ سے مختلف ہو پس ''لا شية فيہا'' يعنى گائے كے رنگ ميں كوئي اور رنگ نہ ہو _ '' شية'' كا مصدر''وشي'' ہے اور اس كے آخر كى ''ہائ'' واو محذوف كے عوض آئي ہے_

۳ _ حضرت موسىعليه‌السلام كى قوم نے آخر ى علامتوں ( اس سے ہل نہ چلايا گيا ہو وغيرہ ) كو يقين آور اور ذہنى اضطراب كى برطرفى كا ذريعہ سمجھا_قالوا آلان جئت بالحق اس جملہ ميں '' حق '' كا معنى ثابت و استوار ہے اسكے مقابلے ميں غير مشخص اور ترديد پذير امر ہے_ ''الحق'' ميں الف لام استغراق كے لئے ہے يعنى كامل اور پور احق _

۴ _ حضرت موسىعليه‌السلام كى قوم گائے سے ہل چلانے كا اور آبيارى كا كام ليتى تھي_

لا ذلول تثير الأرض و لا تسقى الحرث

۵ _ حضرت موسىعليه‌السلام كى قوم نے گائے كو تمام خصوصيات كے ساتھ تلاش كركے ذبح كيا _فذبحوها ''ہا''كى ضمير بقرة ( مشخص كى گئي گائے) كى طرف لوٹتى ہے_

۲۳۷

۶_ حضرت موسىعليه‌السلام كى قوم نے ذبح ہونے والى گائے كى بيان شدہ ابتدائي خصوصيات كو ناكافى جان كر حضرت موسىعليه‌السلام پر اور حقيقت بيان نہ كرنے كا الزام لگايا_قالوا الان جئت بالحق حضرت موسىعليه‌السلام كى قوم كا مفہوم كلام يہى ہے( تم نے اب سارى حقيقت بيان كى ہے) بالفاظ ديگر گويا حضرت موسىعليه‌السلام نے پہلے جو خصوصيات بيان كيں اس ميں حق كو كامل طور پر بيان نہ كيا _

۷_ حضرت موسىعليه‌السلام كى قوم منظور نظر گائے كى تلاش كے بعد اس كو ذبح كرنے پر تيار نہ تھي_و ما كادوا يفعلون

'' كاد '' كا معنى ہے '' قريب تھا _كہ يہ فعل جب منفى ہوتاہے تو بعض اوقات كام كے نہ ہونے كى تاكيد پر دلالت كرتاہے اور بعض اوقات انجام پانے پر حكايت كرتاہے البتہ بے رغبتى اور عدم تمايل كے ساتھ _'' فذبحوہا'' كے قرينہ سے ''و ما كادوا يفعلون'' ميں دوسرا معنى مراد ہے گويا انہوں نے يہ كام انجام تو ديا ليكن بہت ہى بے رغبتى كے ساتھ_

۸ _ حضرت موسىعليه‌السلام كى قوم نے تكليف شرعى ( معمہ قتل كو حل كرنے كے لئے گائے ذبح كرنا ) كو خواہ مخواہ كے سوالات اور تجسس سے اپنے لئے دشوار و مشكل كرليا _فذبحوها و ما كادوا يفعلون يہ جملہ '' و ما كادوا يفعلون _ قريب تھا كہ انجام نہ ديں '' ممكن ہے كام كے دشوار ہونے كى طرف اشارہ ہو اس كا گواہ يہ جملہ '' فافعلوا ما تؤمرون_ آيت ۶۸'' اور ديگر قرائن ہيں _ حضرت موسىعليه‌السلام كى قوم كے خواہ مخواہ كے سوالات مشكل آفريں بنے اور تكليف كو انہوں نے اپنے لئے دشوار كرليا_

۹_ احكام اور تكاليف شرعى كے بارے ميں وارد ہونے والے اطلاقات اور عمومات حجت ہيں _فافعلوا ما تؤمرون قالوا الان جئت بالحق جملہ ''فافعلوا ما تؤمرون'' اس پر دلالت كرتاہے كہ حضرت موسىعليه‌السلام كى قوم اگر جواں سال گائے ذبح كرديتى اگر چہ اس كا رنگ پيلا نہ ہوتا اور اس طرح ديگر خصوصيات بھى نہ ہوتيں تو تكليف الہى انجام پاجاتى _ پس اگر شارع مقدس تكليف كو مطلق يا عام بيان فرمائے اور قيد و شرط بيان نہ فرمائے تو انسانوں كو چاہيئے كہ انہى اطلاقات اور عمومات پر عمل كريں _

۱۰_ انسان شارع مقدس كے بيان كردہ حكم سے زيادہ كے مكلف نہيں ہيں _فافعلوا ما تؤمرون قالوا الان جئت بالحق فذبحوها و ما كادوا يفعلون

۱۱ _ امام صادقعليه‌السلام كا ارشاد ہے _''... و كان فى بنى اسرائيل رجل له بقرة و كان له ابن بارّ و كان عند ابنه سلعة فجاء قوم يطلبون سلعته و كان مفتاح بيته تحت راس ابيه و كان نائما

۲۳۸

فلما انتبه ابوه قال له يا بنى ما صنعت فى سلعتك قال هى قائمة لم ابعها لان المفتاح كان تحت راسك فكرهت ان انبهك و انغص عليك نومك قال له ابوه قد جعلت هذه البقرة عوضاً عما فاتك من ربح سلعتك و شكر الله لابنه ما فعل بابيه و امر بنى اسرائيل ان تذبحوا تلك بقرة قال لهم موسى ان الله يامركم ان تذبحوا بقرة هى بقره فلان فذهبوا ليشتروها فقال لا ابيعها الا بملء جلدها ذهباً فرجعوا الى موسى عليه‌السلام فاخبروه فقال لهم موسى عليه‌السلام لابد لكم من ذبحها بعينها بملء جلدها ذهباً فذبحوها (۱) بنى اسرائيل كے مابين ايك شخص كے پاس گائے تھى اسكا ايك نيك خصلت بيٹا تھا_ اس بيٹے كے پاس ايك جنس تھى جس كو خريدنے كے ليئے كچھ افراد آئے تو چابى اس كے والد كے سرہا نے تلے تھى جو سورہا تھا والد جب اٹھا تو اس نے بيٹے سے پوچھا تو نے جنس كا كيا كيا ؟ تو بيٹے نے جواب ديا كہ جنس ويسے ہى ہے ميں نے اسے نہيں بيچا كيونكہ چابى آپ كے سركے نيچے تھى اور ميں نہيں چاہتا تھا كہ آپ كو بيدار كروں اور آپ كى نيند خراب كروں _ والد نے اس سے كہا وہ منافع جو تو نے ضائع كرديا ہے اسكے بدلے ميں يہ گائے تجھے بخشتا ہوں _ بيٹے كے والد سے اس نيك سلوك پر اللہ تعالى نے بنى اسرائيل كو حكم ديا كہ گائے كو ذبح كريں حضرت موسىعليه‌السلام نے ان سے فرمايا '' اللہ تعالى نے تمہيں حكم ديا ہے كہ ايك گائے ذبح كرو'' يہ اسى نيك آدمى كى گائے تھى _ يہ گائے خريدنے كے لئے لوگ اس كے پاس گئے تو اس نے كہا كہ جب تك اس كى جلد كو سونے سے نہ بھرو اس كو ہرگز نہيں بيچوں گا _ پس بنى اسرائيل حضرت موسىعليه‌السلام كے پاس آئے تو حضرت موسىعليه‌السلام نے فرمايا كہ اسى گائے كو ذبح كرو اگر چہ اس كى جلد كو سونے سے بھرنا پڑے تو اس طرح بنى اسرائيل اسى گائے كو ذبح كرنے پر مجبور ہوئے ...''

۱۲ _ امام رضاعليه‌السلام سے روايت ہے كہ آپعليه‌السلام نے ارشاد فرمايا: ''ان الذين امروا قوم موسي عليه‌السلام بعبادة العجل كانوا خمسة انفس و كانوا اهل بيت ياكلون على خوان واحد و هم الذين ذبحوا بقرة التى امر الله عزوجل بذبحها (۲) جن لوگوں نے حضرت موسىعليه‌السلام كى قوم كو گوسالہ پرستى كى دعوت دى پانچ افراد تھے جو ايك ہى خاندان سے اور ايك دستر خوان پر بيٹھتے تھے يہ وہى لوگ تھے جن كو خداوند عالم كى طرف سے گائے ذبح كرنے كا حكم ديا گيا _

۱۳ _ يونس بن يعقوب كہتے ہيں''قلت لابى عبدالله عليه‌السلام ان اهل مكه يذبحون البقره فى اللبب فما ترى فى اكل لحومها ؟ قال فسكت هنيهة ثم قال:قال الله ''فذبحوها و ما كادوا يفعلون لا تاكل الا ماذبحوا من مذبحه'' (۳)

____________________

۱) تفسير قمى ج/ ۱ ص ۴۹ ، نورالثقلين ج/ ۱ ص ۸۸ ح ۲۴۰_ ۲) خصال ج/ ۱ ص ۲۹۲ ح ۵۵ ، نورالثقلين ج/ ۱ ص ۸۸ ح ۲۳۹_ ۳) تفسير عياشى ج/ ۱ ص ۴۷ ح ۶۱ تفسير برہان ج/۱ ص ۱۱۲ ح ۶_

۲۳۹

ميں نے اما م صادقعليه‌السلام سے عرض كيا اہل مكہ گائے كو اونٹ كى طرح ذبح كرتے ہيں (نحر كرتے ہيں ) پس اس كے گوشت كا كيا حكم ہے ؟ امامعليه‌السلام كچھ دير خاموش رہے اور پھر فرمايا اللہ تعالى فرماتا ہے ''انہوں نے گائے كو ذبح كيا اور قريب تھا كہ اس ذمہ دارى كو انجام نہ ديں '' پس كوئي گوشت نہ كھاؤ مگر يہ كہ شرعى طريقے سے ذبح ہوا ہو_

آبيارى : گائے سے آبيارى ۴; آبيارى كا ذريعہ ۴

احكام: احكام كے اطلاقات كا حجت ہونا ۹; احكام كے عمومات كا حجت ہونا ۹

بنى اسرائيل : بنى اسرائيل ميں آبيارى ۴; بنى اسرائيل كى بصيرت ۶; بنى اسرائيل كے سوالات ۸; بنى اسرائيل كى تاريخ ۱،۲ ، ۳، ۴،۵،۶،۷،۸; بنى اسرائيل كا گائے ذبح كر نا ۲،۵، ۷،۸; بنى اسرائيل كى حيرانگى دور ہونا ۳; بنى اسرائيل كى

گائے كى خصوصيات ۱،۲،۳،۶; بنى اسرائيل كى گائے كا واقعہ ۱۱،۱۲،۱۳; بنى اسرائيل كى زراعت ۴; بنى اسرائيل كا بچھڑے كى پوجا كرنا ۱۲

تكليف شرعي: تكليف شرعى كے سخت و دشوار ہونے كے اسباب ۸ ;تكليف شرعى كا دائرہ كا ر ۱۰;تكليف شرعى كا منبع ۱۰

حضرت موسىعليه‌السلام : حضرت موسىعليه‌السلام پر تہمت ۶; حضرت موسىعليه‌السلام كا واقعہ۶

روايت: ۱۱،۱۲،۱۳

زراعت: زراعت كے آلات ۴

سوال: بے جا سوالات۸

گائے : ۸

ہل چلانا: گائے سے ہل چلانا ۴

۲۴۰

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

461

462

463

464

465

466

467

468

469

470

471

472

473

474

475

476

477

478

479

480

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

501

502

503

504

505

506

507

508

509

510

511

512

513

514

515

516

517

518

519

520

521

522

523

524

525

526

527

528

529

530

531

532

533

534

535

536

537

538

539

540

541

542

543

544

545

546

547

548

549

550

551

552

553

554

555

556

557

558

559

560

561

562

563

564

565

566

567

568

569

570

571

572

573

574

575

576

577

578

579

580

عبد: کبھی ''عبد،، انسان کو کہا جاتا ہے خواہ وہ آزاد ہی کیوں نہ ہو کیونکہ انسان اللہ کی مخلوق اور اس کا پروردہ ہے جو اپنے وجود اور تمام افعال میں اللہ تعالیٰ کے سامنے خاضع اور نیاز مند ہے اگرچہ وہ اس کے اوامرونواہی کی مخالفت کرے اور کبھی ''عہد،، زرخرید غلام کو کہا جاتا ہے کیونکہ یہ اپنے مالک کا مملوک اور اس کے زیر سلطنت ہوتا ہے کبھی لفظ ''عبد،، کے استعمال میں وسعت سے کام لیا جاتا ہے اور ہر اس شخص کو ''عبد،، کہا جاتا ہے جو کسی غیر معمولی چیز کو اہمیت دے اور اس کے علاوہ کوئی دوسری چیز اسے دکھائی نہ دیتی ہو چنانچہ امام حسین (علیہ السلام) فرماتے ہیں:

الناس عبید الدنیا و الدین لعق علیٰ السنتهم یحوطونه مادرت معایشهم و اذا محصوبالبلاء قل الدیا نون،، (۱)

''لوگ دنیا پرست ہیں اور دین ان کی زبانوں تک محدود ہے جب تک یہ آسودہ حال رہیں دین کا طواف کرتے ہیں اور جب آزمائش کا وقت آتا ہے تو متدین افراد بہت کم رہ جاتے ہیں،،۔

کبھی ''عبد،، متواضع اور عبادت گزار کو کہا جاتا ہے چنانچہ ارشاد ہوتا ہے:

( أَنْ عَبَّدتَّ بَنِي إِسْرَائِيلَ ) ۲۶:۲۲

''کہ آپ نے بنی اسرائیل کو غلام بنا رکھا ہے،،۔

( عَبَّدتَّ بَنِي إِسْرَائِيلَ ) کا مطلب ہے کہ تو نے بنی اسرائیل کو اپنا اطاعت گزار بنا دیا ہے جو تیرے امرو نہی کی مخالفت نہیں کرتے۔

____________________

(۱) بحار ، ج ۱۰ ، ص ۱۸۹

۵۸۱

الاستعانتہ

استعانت مدد طلب کرنے کو کہتے ہیں یہ لفظ کبھی خود اور کبھی 'ب، کے ذریعے متعدی ہوتا ہے چنانچہ استعنتہ،، بھی کہا جاتا ہے اور''استعنت به ،، بھی کہا جاتا ہے یعنی میں نے اس سے مدد طلب کی۔

اعراب:

دونوں جملوں( إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ ) میں ''ایاک،، کو جو مفعول ہے حصر کی خاطر مقدم کیا گیا ہے اور آیت میں غائب سے خطاب کی طرف التفات سے کام لیا گیا ہے(۱) اس میں دو راز ہو سکتے ہیں:

(۱) گزشتہ آیات اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ اللہ تعالیٰ تمام موجدات کامالک اور مزتی ہے اور زندگی کا ہر کام اس کی قدرت سے انجام پاتا ہے یہ امر اس بات کا متقاضی ہے کہ کائنات کی ہر شئی اللہ کے سامنے حاضر ہو اور اللہ ، انسان اور اس کے تمام اعمال کا احاطہ کئے ہوئے ہو تاکہ روز قیامت اطاعت گزاروں اور معصیت کاروں کو جزاء و سزا دے سکے اس کا تقاضا یہ ہے کہ بندہ اللہ کے سامنے اپنی حاضری دے اور اس سے مخاطب ہو۔

(۲) عبادت کی حقیقت یہ ہے کہ بندہ اپنے خالق کے سامنے اسے اپنا رب سمجھ کر متواضع ہو اور ربوبیت کا تقاضا یہ ہے کہ مربی ا پنے پروردہ کے سامنے ہو۔ یہی حکم استعانت کا بھی ہے کیونکہ انسان کا اپنے رب کا محتاج ہونا اور اس کا مستقل نہ ہونا اس امر کا متقاضی ہے کہ معبود ، عبد کے سامنے ہوتا کہ اس کی طرف سے مدد ہو سکے۔

ان دو نکتوں کے پیش نظر سورہ حمد میں غایب سے خطاب کی طرف رخ کیا گیا اور( إِيَّاكَ نَعْبُدُ ) کہا گیا ۔ پس بندہ اپنے رب کے سامنے حاضر ہو اس سے غائب نہیں۔

____________________

(۱) علم معنی بیان میں کسی خاص مقصد کے تحت غائب کی ضمیرا ستعمال کرتے کرتے اچانک مخاطب کی ضمیر لانے یا مخاطب کے بعد غائب کی ضمیر لائے ، یعنی ایک ضمیر کو چھوڑ کر دوسری ضمیر سے استفادہ کرنے کو ''التفات،، کہا جاتا ہے۔ (مترجم)

۵۸۲

گزشتہ آیات میں اللہ تعالیٰ نے اپنی عظمت اور بزرگی بیان فرمائی اس کے بعد اس آیت( إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ ) کی تلاوت کی تلقین فرمائی اور یہ کہ اس آیت کے مدلول و مفہوم کا اعتراف کریں یعنی ہم سوائے خدا کے کسی اور کی عبادت و پرستش نہیں کرتے اور غیر اللہ سے مدد طلب نہیں کرتے اس خدا کے علاوہ تمام موجودات ذاتاً فقیر، محتاج اور عاجز ہیں بلکہ وہ لاشئی اور ہیچ ہیں مگر یہ کہ رحمت الٰہی انہیں شامل حال ہو۔

جس موجود و مخلوق کی یہ حالت ہو وہ اس قابل نہیں کہ اس کی عبادت کی جائے یا اس سے مدد طلب کی جائے اور تمام ممکنات ، اگرچہ کمال و نقص کے اعتبار سے ان کے درجے مختلف ہیں صفت عجز میں مشترک ہیں جو ایک ممکن کا لازمہ ہے اور یہ کہ سب ممکنات اللہ کے حکم اور اس کے ارادے سے موجود ہیں۔

( أَلَا لَهُ الْخَلْقُ وَالْأَمْرُ ۗ تَبَارَكَ اللَّـهُ رَبُّ الْعَالَمِينَ ) ۷:۵۴

''دیکھو حکومت اور پیدا کرنا بس خاص اسی کیلئے ، وہ خدا جو سارے جہاں کا پروردگار ہے ، بڑا برکت والا ہے،،

( وَلِلَّـهِ مُلْكُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۖ وَإِلَى اللَّـهِ الْمَصِيرُ ) ۲۴:۴۲

''اور سارے آسمان اور زمین کی سلطنت خاص خدا ہی کی ہے اور خدا ہی کی طرف (سب کو) لوٹ کر جانا ہے،،

اللہ کے ساتھ اس کی سلطنت میں کون ٹکر لے سکتا ہے اور اس کے امرو حکم کے سامنے کون آ سکتا ہے عطا کرنے والی ذات بھی وہی ہے اور روکنے والی ذات بھی وہی ہے وہ جو چاہتا ہے کرتا ہے اور جو چاہے حکم فرماتا ہے پس مومن اللہ کے علاوہ کسی کی عبادت نہیں کرتا اور نہ اس کے غیر سے مدد مطلب کرتا ہے کیونکہ غیر خدا چاہے کوئی بھی ہو ہر کام اور ہر بات میں اللہ کا محتاج ہے معبود کوہر حالت میں مستغنی اور بے نیاز ہونا چاہئے اس لئے کہ فقیر اپنے جیسے فقیروں کی کیسے عبادت کرسکتا ہے۔

خلاصہ کلام یہ کہ اللہ پر ایمان کا تقاضا یہ ہے کہ انسان سوائے اللہ کے کسی کی عبادت نہ کرے اور اللہ کے علاوہ کسی کے پاس اپنی حاجت لے کر نہ جائے غمیر خدا پر بھروسہ نہ کرے اور صرف اللہ سے مانگے ورنہ شرک باللہ اور اس کی سلطنت میں کسی اور کی حاکمیت کو تسلیم کرنے کے مترادف ہو گا۔

( وَقَضَىٰ رَبُّكَ أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ ) ۱۷:۲۳

''اور تمہارے پروردگار نے تو حکم دیا ہے کہ اس کے سوا کسی دوسرے کی عبادت نہ کرنا،،

۵۸۳

آیتہ ''الحمد،، کے بارے میں بحث دوم

٭ العبادۃ و التالہ

٭ عبادت اور اطاعت

٭ عبادت اور خشوع

٭ غیر اللہ کو سجدہ

٭ آدم (ع) کو سجدہ ۔۔۔۔۔۔ اقوال علمائ

٭ شرک باللہ کیا ہے ؟

٭ اسباب عبادت

٭ صرف اللہ تعالیٰ سے مدد مانگتا ہے

٭ شفاعت

٭ امامیہ کے نزدیک شفاعت کی احادیث

٭ اہلسنت کے نزدیک شفاعت کی احادیث

٭ تحلیل آیتہ ،اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ ۔

٭ قرات

٭ لغت ، الہدایتہ ، الصراط ، الاستقامہ ، الانعام ، الغضب ، اضلال

٭ اعراب ، الضالین

٭ تفسیر----- ٭ ہدایت عامہ

٭ ہدایت خاصہ

۵۸۴

العبادۃ و التالہ

اس میں کوئی مسلمان شک نہیں کر سکتا کہ ''عبادت،، بمعنی ''پرستش،، صرف اللہ سے مختص ہے اور اس سے قبل یہ بتایا جا چکا ہے کہ جب بھی یہ لفظ (عبادت) بولا جائے اس کا معنی ''پرستش،، ہی ذہن میں آتا ہے اور یہی وہ توحید ہے جس کی تبلیغ کیلئے اللہ کی طرف سے انبیاء (ع) بھیجے گئے اور آسمان سے کتابیں نازل کی گئیں ارشادباری ہے:

( قُلْ يَا أَهْلَ الْكِتَابِ تَعَالَوْا إِلَىٰ كَلِمَةٍ سَوَاءٍ بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمْ أَلَّا نَعْبُدَ إِلَّا اللَّـهَ وَلَا نُشْرِكَ بِهِ شَيْئًا وَلَا يَتَّخِذَ بَعْضُنَا بَعْضًا أَرْبَابًا مِّن دُونِ اللَّـهِ ۚ ) ۳:۶۴

''(اےرسول(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم)) تم (ان سے) کہو کہ اے اہل کتاب تم ایسی (ٹھکانے کی) بات پر تو آؤ جو ہمارے اورتمہارے درمیان یکساں ہے کہ خدا کے سوا کسی کی عبادت نہ کریں اور کسی چیز کو اس کا شریک نہ بنائیں اور خدا کے سوا ہم میں سے کوئی کسی کو اپنا پروردگار نہ بنائے،،

پس ایمان بخدا اور غیر خدا کی عبادت یہ دونوں جمع نہیں ہو سکتے غیر خدا کی عبادت حرام ہے چاہے یہ عبادت ، توحید فی الذات سے انکار اور متعدد خالقوں کے عقیدے کی بنیاد پر ہو یا اس عقیدے کی وجہ سے کی جائے کہ مخلوق اور اللہ میں فاصلہ بہت زیادہ ہے اور لوگوں کی دعا اللہ تک نہیں پہنچ سکتی لہٰذا اس خالق کائنات کے علاوہ ایک یا کئی دیگر خداؤں کے محتاج ہیں جو خالق اور لوگوں کے درمیان واسطہ بن سکیں اور ان کے ذریعے اللہ کا قرب حاصل کر سکیں خدا کے مقابلے میں ان خداؤں کی وہی حیثیت ہے جو بادشاہ کے مقابلے میں اس کے حواریوں کی ہوتی ہے چونکہ بادشاہ اور عوام میں فاصلہ زیادہ ہوتا ہے اور عام لوگوں کی اس تک رسائی نہیں ہو سکتی اس لئے بادشاہ کے حواریوں کو واسطہ قرار دیتے ہیں اور انہی کے ذریعے اپنی حاجات اور ضروریات پوری کی جاتی ہیں۔

اللہ تعالیٰ نے کلام مجید میں ان دونوں عقیدوں کو باطل قرار دیا ہے چنانچہ پہلے عقیدے کے ابطال میں خالق فرماتا ہے۔

( لَوْ كَانَ فِيهِمَا آلِهَةٌ إِلَّا اللَّـهُ لَفَسَدَتَا ۚ ) ۲۱:۲۲

'' اگر (بفرض محال) زمین اور آسمان میں خدا کے سوا چند معبود ہوتے تو دونوں کب کے بربادہو گئے ہوتے،،

۵۸۵

( وَمَا كَانَ مَعَهُ مِنْ إِلَـٰهٍ ۚ إِذًا لَّذَهَبَ كُلُّ إِلَـٰهٍ بِمَا خَلَقَ وَلَعَلَا بَعْضُهُمْ عَلَىٰ بَعْضٍ ۚ سُبْحَانَ اللَّـهِ عَمَّا يَصِفُونَ ) ۲۳:۹۱

''اور نہ اس کے ساتھ کوئی اور خدا ہے (اگر ایسا ہوتا تو) اس وقت ہر خدا اپنی اپنی مخلوق کو لئے پھرتا ہے اور یقیناً ایک دوسرے پر چڑھائی کرتے (اور خوب جنگ ہوتی) جو جو باتیں یہ لوگ (خدا کی نسبت) بیان کرتے ہیں اس سے خدا پاک و پاکیزہ ہے،،۔

دوسرا عقیدہ جس کی رو سے لوگ واسطہ کے قائل ہیں اور الٰہی نظام کو بادشاہوں کے نظام سے قیاس کرتے ہیں اللہ نے مختلف بیانات کے ذریعے اس عقیدے کو باطل قرار دیا ہے بعض آیات میں اس غلط دعویٰ کی دلیل کا مطالبہ کیا گیا ہے اور یہ بتایا گیا ہے کہ اس عقیدے کی کوئی دلیل نہیں ہے ارشاد ہوتا ہے:

( قُلْ هَاتُوا بُرْهَانَكُمْ إِن كُنتُمْ صَادِقِينَ ) ۲۷:۶۴

''تو کیا خدا کے سامنے کوئی اور معبود بھی ہے (ہرگز نہیں اےرسول(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم)) تم (ان مشرکین سے) کہہ دو کہ اگر تم سچے ہوتو اپنی دلیل پیش کرو،،

( قَالُوا نَعْبُدُ أَصْنَامًا فَنَظَلُّ لَهَا عَاكِفِينَ ) ۲۶:۷۱

''وہ بوگے ہم بتوں کی عبادت کرتے ہیں اور ان ہی کے مجاور بن جاتے ہیں،،

( أَوْ يَنفَعُونَكُمْ أَوْ يَضُرُّونَ ) : ۷۳

''یا تمہیں کچھ نفع یا نقصان پہنچا سکتے ہیں،،

( قَالُوا بَلْ وَجَدْنَا آبَاءَنَا كَذَٰلِكَ يَفْعَلُونَ ) : ۷۴

''کہنے لگے ( کہ یہ سب کچھ تو نہیں) بلکہ ہم نے اپنے باپ داداؤں کو ایسا ہی کرتے پایا،،

۵۸۶

کبھی اللہ تعالیٰ ان (منکرین توحید) کو ان چیزوں کی طرف متوجہ فرماتا ہے جن کو وہ اپنے حواس کے ذریعے درک کر سکتے ہیں اور کہ یہ لوگ جن بتوں کی پوجا کرتے ہیں وہ کسی کو نہ فائدہ پہنچا سکتے ہیں اور نہ نقصان اور جو نفع ، نقصان ، لینے دینے ، مارنے اور زندہ کرنے کا اختیار نہیں رکھتا وہ ایک کمزور مخلوق ہی ہو سکتی ہے وہ اس قابل نہیں کہ اسے معبود بنایا جائے ارشاد ہوتا ہے:

( قَالَ أَفَتَعْبُدُونَ مِن دُونِ اللَّـهِ مَا لَا يَنفَعُكُمْ شَيْئًا وَلَا يَضُرُّكُمْ ) ۲۱:۶۶

''ابرہیم نے کہا تو کیا تم لوگ خدا کو چھوڑ کر ایسی چیزوں کی پرستش کرتے ہو جو نہ تمہیں کچھ نفع ہی پہنچا سکتے ہیں اور نہ تمہارا کچھ نقصان ہی کر سکتے ہیں،،

( أُفٍّ لَّكُمْ وَلِمَا تَعْبُدُونَ مِن دُونِ اللَّـهِ ۖ أَفَلَا تَعْقِلُونَ ) : ۶۷

''تف ہے تم پر اور اس چیز پر جسے تم خدا کے سوا پوجتے ہو تو کیا تم (اتنا بھی) نہیں سمجھتے،،

( قُلْ أَتَعْبُدُونَ مِن دُونِ اللَّـهِ مَا لَا يَمْلِكُ لَكُمْ ضَرًّا وَلَا نَفْعًا ۚ ) ۵:۷۶

''(اےرسول(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) تم ) کہہ دو کہ کیا تم خدا (جیسے قادر وتوانا) کو چھوڑ کر ایسی (ذلیل) چیز کی عبادت کرتے ہو جس کو نہ تو نقصان ہی کا اختیار ہے اور نہ نفع کا،،۔

( أَلَمْ يَرَوْا أَنَّهُ لَا يُكَلِّمُهُمْ وَلَا يَهْدِيهِمْ سَبِيلًا ۘ اتَّخَذُوهُ وَكَانُوا ظَالِمِينَ ) ۷:۱۴۸

''(افسوس ) کیا ان لوگوں نے اتنا بھی نہ دیکھا کہ وہ نہ تو ان سے بات ہی کر سکتا ہے نہ کسی طرح کی ہدایت ہی کر سکتا ہے (خلاصہ) ان لوگو نے اسے اپنا معبود بنا لیا اور اپنے اوپر ظلم کرتے تھے،،

مخلوق کا عبادت و پرستش کے قابل نہ ہونا ا یک عقلی اور فطری قانون ہے جس کی طرف اللہ تعالیٰ ان آیات کے ذریعے متوجہ فرما رہا ہے اور اس قانون سے کوئی موجود ، ممکن اور محتاج مستثنیٰ نہیں اگرچہ وہ نبی ہی کیوں نہ ہو۔

۵۸۷

( وَإِذْ قَالَ اللَّـهُ يَا عِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ أَأَنتَ قُلْتَ لِلنَّاسِ اتَّخِذُونِي وَأُمِّيَ إِلَـٰهَيْنِ مِن دُونِ اللَّـهِ ۖ قَالَ سُبْحَانَكَ مَا يَكُونُ لِي أَنْ أَقُولَ مَا لَيْسَ لِي بِحَقٍّ ۚ إِن كُنتُ قُلْتُهُ فَقَدْ عَلِمْتَهُ ۚ تَعْلَمُ مَا فِي نَفْسِي وَلَا أَعْلَمُ مَا فِي نَفْسِكَ ۚ إِنَّكَ أَنتَ عَلَّامُ الْغُيُوبِ ) ۵:۱۱۶

''اور وہ (وقت بھی یاد کرو) جب (قیامت میں عیسیٰ سے) خدا فرمائے گا کہ (کیوں) اے مریم کے بیٹے عیسیٰ کیا تم نے لوگوں سے یہ کہہ دیا تھا کہ خدا کو چھوڑ کر مجھ کو اور میری ماں کو خدا بنالو ، عیسیٰ عرض کریں گے سبحان اللہ میری تو یہ مجال نہ تھی کہ میں منہ سے ایسی بات نکالوں جس کا مجھے کوئی حق نہ ہو (اچھا) اگر میں نے کہا ہو گا کہ تجھ کو تو ضرور معلوم ہو گا کیونکہ تو میرے دل کی (سب بات ) جانتا ہے ہاں البتہ میں تیرے دل کی بات نہیں انتا (کیونکہ) اس میں تو شک ہی نہیں کہ تو ہی غیب کی باتیں خوب جانتا ہے،،

( مَا قُلْتُ لَهُمْ إِلَّا مَا أَمَرْتَنِي بِهِ أَنِ اعْبُدُوا اللَّـهَ رَبِّي وَرَبَّكُمْ ۚ ) ۵:۱۱۷

؟؟ تو نے مجھے جو کچھ حکم دیا اس کے سوا تو میں نے ان سے کچھ بھی نہیں کہا یہی کہ خدا ہی کی عبادت کرو جو میرا اور تمہارا سب کا پالنے والا ہے،،

کبھی اس اعتقاد کو اس دلیل سے باطل قرار دیا کہ اللہ اپنے بندوں کے نزدیک ہے ، ان کی سرگوشیوں کو سنتا اور ان کی پکار پر انہیں جواب دیتا ہے ان کی تربیت اور سرپرستی اسی کے ہاتھ میں ہے چنانچہ ارشاد ہوتا ہے:

( وَنَحْنُ أَقْرَبُ إِلَيْهِ مِنْ حَبْلِ الْوَرِيدِ ) ۵۰:۱۶

''اور ہم تو اس کی شہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہیں،،

( أَلَيْسَ اللَّـهُ بِكَافٍ عَبْدَهُ ۖ ) ۳۹:۳۶

''کیا خدا اپنے بندوں (کی مدد) کیلئے کافی نہیں ہے (ضرور ہے)،،

( ادْعُونِي أَسْتَجِبْ لَكُمْ ) ۴۰:۶۰

''تم مجھ سے دعائیں مانگو میں تمہاری (دعا) قبول کروں گا،،

۵۸۸

( وَهُوَ الْقَاهِرُ فَوْقَ عِبَادِهِ ۚ وَهُوَ الْحَكِيمُ الْخَبِيرُ ) ۶:۱۸

''وہی اپنے تمام بندوں پر غالب ہے اور وہ واقف کار حکیم ہے،،

( قُلْ إِن تُخْفُوا مَا فِي صُدُورِكُمْ أَوْ تُبْدُوهُ يَعْلَمْهُ اللَّـهُ ۗ وَيَعْلَمُ مَا فِي السَّمَاوَاتِ وَمَا فِي الْأَرْضِ ۗ وَاللَّـهُ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ ) ۳:۲۹

''(اےرسول(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم)) تم (ان لوگوں سے) کہہ دو کہ جو کچھ تمہارے دلوں میں ہے تم خواہ اسے چھپاؤ یا ظاہر کرو (بہرحال) خدا تو اسے جانتا ہے اور جو کچھ آسمانوں میں ہے اور جو کچھ زمین میں ہے وہ (سب کچھ) جانتا ہے اور خداہر چیز پر قادر ہے،،۔

( وَإِن يَمْسَسْكَ اللَّـهُ بِضُرٍّ فَلَا كَاشِفَ لَهُ إِلَّا هُوَ ۖ وَإِن يُرِدْكَ بِخَيْرٍ فَلَا رَادَّ لِفَضْلِهِ ۚ ) ۱۰:۱۰۷

'' اور (یاد رکھو) اگر خدا کی طرف سے تمہیں کوئی برائی چھو بھی گئی تو اس کے سوا کوئی اس کا دفع کرنے والا نہ ہو گا۔ اور اگر تمہارے ساتھ بھلائی کا ارادہ کرے تو پھر اس کے فضل (وکرم) کا پلٹنے والا بھی کوئی نہیں،،

( وَإِن يَمْسَسْكَ اللَّـهُ بِضُرٍّ فَلَا كَاشِفَ لَهُ ----- فَهُوَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ ) ۶:۱۷

''اور اگر تمہیں کچھ فائدہ پہنچائے تو بھی (کوئی روک نہیں سکتا کیونکہ) وہ ہر چیز پر قادر ہے،،

( اللَّـهُ يَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَن يَشَاءُ وَيَقْدِرُ ۚ ) ۱۳:۲۶

''اور خدا ہی جس کیلئے چاہتا ہے روزی کو بڑھا دیتا ہے اور (جس کیلئے چاہتا ہے) تنگ کرتا ہے،،

ان اللہ ھو الرزاق دینے والا زور آور (اور) زبردست ہے،،

( لَيْسَ كَمِثْلِهِ شَيْءٌ ۖ وَهُوَ السَّمِيعُ الْبَصِيرُ ) ۴۲:۱۱

''کوئی چیز اس کے مثل نہیں اوروہ ہر چیز کو سنتا دیکھتا ہے ،،

۵۸۹

( أَلَا إِنَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ مُّحِيطٌ ) ۴۱:۵۴

''سن رکھو وہ یقیناً ہر چیز پر حاوی ہے،،

بنا برایں خدا اپنےی مخلوق سے دور نہیں اس کے اور اس کی مخلوق کے درمیان کوئی فاصلہ نہیں لوگوں کے تمام معاملات اس کے ہاتھ میں ہیں لوگ کسی ایسے واسطے کے محتاج نہیں جو ان کی حاجات اللہ تک پہنچائے تاکہ یہ واسطے عبادت میں شریک ہو جائیں بلکہ سب کے سب لوگ اس بات میں مشترک ہیں کہ اللہ ہی ان کا پروردگار ہے اور ان کے تمام معاملات اس کے ہاتھ میں ہیں۔

( مَا يَكُونُ مِن نَّجْوَىٰ ثَلَاثَةٍ إِلَّا هُوَ رَابِعُهُمْ وَلَا خَمْسَةٍ إِلَّا هُوَ سَادِسُهُمْ وَلَا أَدْنَىٰ مِن ذَٰلِكَ وَلَا أَكْثَرَ إِلَّا هُوَ مَعَهُمْ أَيْنَ مَا كَانُوا ۖ ) ۵۸:۷

''جب تین (آدمیوں) کا خفیہ مشورہ ہوتا ہے تو وہ (خدا) ان کا ضرور چوتھا ہے اور جب پانچ کا (مشورہ) ہوتا ہے تو وہ ان کا چھٹا ہے اور اس سے کم ہوں یا زیادہ اور چاہے جہاں کہیں ہو وہ ان کے ساتھ ضرور ہوتا ہے،،

( كَذَٰلِكَ اللَّـهُ يَفْعَلُ مَا يَشَاءُ ) ۳:۴۰

'' اسی طرح خدا جو چاہتا ہے کرتا ہے،،

( إِنَّ اللَّـهَ يَحْكُمُ مَا يُرِيدُ ) ۵ :۱

''بیشک خدا جو چاہتا ہے حکم دیتا ہے،،

خلاصہ کلام یہ کہ توحید در عبادت کے بارے میں کوئی مسلمان شک نہیں کر سکتا اور یہ وہ امتیاز ہے جو موحد انسان کو حاصل ہے جو غیر اللہ کی عبادت کرے اور اسے اپنا پروردگار بنائے وہ کافرو مشرک ہے:

۵۹۰

عبادت اور اطاعت

اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ اللہ تعالیٰ کی اطاعت اور فرمانبرداری واجب اوراس کی مخالفت عقلاً مستوجب عذاب ہے قرآن مجید میں بار بار اللہ تعالیٰ نے اطاعت کے عوض ثواب اور معصیت کی پاداش میں عذاب دینے کا وعدہ فرمایا ہے۔

غیر اللہ کی اطاعت کئی قسم کی ہوتی ہے۔

اول: غیر اللہ کی ایک عبادت وہ ہے جو اللہ کے حکم اور اس کی اجازت سے ہو جس طرح رسول اکرم (ص) اور ائمہ اطہار (ع) کی اطاعت ہے درحقیقت یہ اللہ ہی کی اطاعت ہے عقلی طورپر اطاعت خدا کی طرح یہ اطاعت بھی واجب ہے:

( مَّن يُطِعِ الرَّسُولَ فَقَدْ أَطَاعَ اللَّـهَ ۖ ) ۴:۸۰

''جس نے رسول(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) کی اطاعت کی تو اس نے خدا کی اطاعت کی،،

( وَمَا أَرْسَلْنَا مِن رَّسُولٍ إِلَّا لِيُطَاعَ بِإِذْنِ اللَّـهِ ۚ ) ۴:۶۴

''اور ہم نے کوئی رسول نہیں بھیجا مگر اس واسطے کہ خدا کے حکم سے لوگ اس کی اطاعت کریں،،

یہی وجہ ہے کہ جہاں اللہ نے اپنی اطاعت کا حکم دیا ہے وہاں ساتھ ساتھ رسول (ص) کی اطاعت کا بھی حکم دیا ہے ارشاد ہوتا ہے:

( وَمَن يُطِعِ اللَّـهَ وَرَسُولَهُ فَقَدْ فَازَ فَوْزًا عَظِيمًا ) ۳۳:۷۱

''اور جس شخص نے خدا اور اس کے رسول کی اطاعت کی وہ تو اپنی مراد کو خوب اچھی طرح پہنچ گیا ہے،،

( يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّـهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَأُولِي الْأَمْرِ مِنكُمْ ۖ ) ۴:۵۹

'' اے ایماندار و خدا کی اطاعت کرو اور رسول(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) کی اور جو تم میں سے صاحبان حکم ہوں ا ن کی اطاعت کرو،،

۵۹۱

ثانی: غیر اللہ کی دوسری عبادت وہ ہے جس سے منع کیا گیا ہے جس طرح شیان اور ہر اس شخص کی اطاعت ہے جو اللہ کی معصیت کا حکم دے اس اطاعت کے شرعی طور پر حرام اور عقلی طور پر قبیح ہونے میں بھی کوئی شک نہیں بلکہ بعض اوقات یہی اطاعت کفر اور شرک قرار پاتی ہے ، جب کفر یا شرک کا حکم دیا جائے اور اس پر عمل کیا جائے:

( يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ اتَّقِ اللَّـهَ وَلَا تُطِعِ الْكَافِرِينَ وَالْمُنَافِقِينَ ۗ ) ۳۳:۱

''اے نبی خدا ہی سے ڈرتے رہو اور کافروں اور منافقوں کی بات نہ مانو،،

( فَاصْبِرْ لِحُكْمِ رَبِّكَ وَلَا تُطِعْ مِنْهُمْ آثِمًا أَوْ كَفُورًا ) ۷۶:۲۴

''تم اپنے پروردگار کے حکم کے انتظار میں صبر کئے رہو ، اور ان لوگوں میں سے گنہگار اور ناشکرے کی پیروی نہ کرو۔

( وَإِن جَاهَدَاكَ عَلَىٰ أَن تُشْرِكَ بِي مَا لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ فَلَا تُطِعْهُمَا ۖ ) ۳۱:۱۵

''اگر تیرے ماں باپ تجھے اس بات پر مجبور کریں کہ تو میرا شریک ایسی چیز کو قرار دے جس کا تجھے کچھ علم نہیں توتو (اس میں) ان کی اطاعت نہ کر۔

ثالث: تیسری اطاعت وہ ہے جس کا نہ حکم دیا گیا ہے اور نہ اس سے روکا گیا ہے یہ اطاعت واجب بھی نہیں اور حرام بھی نہیں بلکہ جائز ہے۔

عبادت اور خشوع

اس میں کوئی شک نہیں کہ مخلوق کو اپنے خالق کے سامنے متواضع ہو کر پیش ہونا چاہئے اس بات کا عقل بھی حکم دیتی ہے اور شرع نے بھی اس کا حکم دیا ہے جہاں تک مخلوق کے سامنے تواضع سے پیش آنے کا تعلق ہے اس کی بھی کئی قسمیں ہیں۔

۵۹۲

(۱) ایسی مخلوق سے تواضع کی جائے جس کی اللہ سے کوئی خاص نسبت نہیں جس طرح شاگرد اپنے استاد، بیٹا اپنے والد اور خادم اپنے آقا سے تواضع کیساتھ پیش آتا ہے یا اس قسم کی اور تواضع جس کا عام لوگوں میں رواج ہے اس تواضع کے جواز میں بھی کوئی شک نہیں بشرطیکہ شارع نے اس سے منہ نہ فرمایا ہو پس غیر اللہ کو سجدہ کرنا جائز نہیں اس لئے کہ اس سجدہ سے منع کیا گیا ہے:

مخلوق کے ساتھ تواضع سے پیش آنے کا جائزہ ہونا ضرورت کا تقاضا ہے اور اس میں شرک کامعمولی سابھی شائبہ نہیں چنانچہ خ الق کا ارشاد ہے:

( وَاخْفِضْ لَهُمَا جَنَاحَ الذُّلِّ مِنَ الرَّحْمَةِ وَقُل رَّبِّ ارْحَمْهُمَا كَمَا رَبَّيَانِي صَغِيرًا ) ۱۷:۲۴

''اور ان کے سامنے نیاز سے خاکساری کاپہلو جھکائے رکھو اور (ان کے حق میں) دعا کرو کہ اے میرے پالنے والے جس طرح ان دونوں نے میرے چھٹپنے میں پرورش کی ہے اسی طرح تو بھی ان پر رحم فرما،،

ملا خطہ فرمائیں کیا اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے والدین کے سامنے اظہار ذلت کرنے کا حکم دے کر ان کی عبادت کا حکم دیا ہے ؟ جبکہ اس سے قبل غیر اللہ کی عبادت سے منع فرمایا گیا ہے۔

( وَقَضَىٰ رَبُّكَ أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَانًا ۚ ) ۱۷:۲۳

''اور تمہارے پروردگار نے تو ہی دا ہے کہ اس کے سوا کسی دوسرے کی عبادت نہ کرنا اور ماں باپ سے نیکی کرنا،،

نیز ملاخطہ ہو کہ شانہ ذلت کو جھکانا (جس طرح چھوٹے اور کمزور پرندے جھکایا کرتے ہیں) وہی احسان ہے جس کا آیت میں حکم دیا گیا ہے اور اسے عبادت کے مقابلے میں قرار دیا ہے معلوم ہوا ہر خشوع و خضوع اور اظہار ذلت شرک نہیں ہوتا ، تاکہ یہ حرام قرار پائے۔

۵۹۳

(۲) دوسرا خشوع و خضوع اور اظہار تواضح وہ ہے جو اس خیال سے کی مخلوق سے کیا جائے کہ اس مخلوق کو اللہ سے کوئی خاص نسبت ہے جس کی وجہ سے یہ مخلوق مستحق خشوع و خضوع ہے یہ عقیدہ درحقیقت باطل ہے اس خشوع و خضوع کی اللہ تعالیٰ نے اجازت نہیں دی جس طرح بعض باطل اور فاسد مذاہب کے پیروکار اپنے پیشوایان مذاہب کا کرتے ہیں اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ بدعت ہے یعنی ایک ایسے عمل کو دین میں شامل کرنے کے مترادف ہے جو درواقع دین سے خارج ہے اور اس کی تشریع کہا جاتا ہے جو ادلہ اربعہ(۱) کی رو سے حرام اور ذات خدا پر بہتان ہے۔

( فَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرَىٰ عَلَى اللَّـهِ كَذِبًا ) ۱۸:۱۵

''اور جو شخص خدا پر جھوٹ بہتان باندھے اس سے زیادہ ظالم اور کون ہو گا،،

(۳) تیسرا خشوع و خضوع وہ ہے جو اللہ کے حکم پر کسی مخلوق کے سامنے اختیار کیا جائے جس طرح رسول اللہ (ص) اور ائمہ ہدی (ع) اور دوسرے مومنین ہیں بلکہ بعض ایسی اشیاء ہیں جن کو اللہ سے کوئی خاص نسبت حاصل ہے جیسے مسجد ، قرآن اور حجراسود اور دوسرے شعائرالٰہی ہیں اس قسم کا تواضع اللہ تعالیٰ کے نزدیک پسندیدہ عمل ہے۔

( فَسَوْفَ يَأْتِي اللَّـهُ بِقَوْمٍ يُحِبُّهُمْ وَيُحِبُّونَهُ أَذِلَّةٍ عَلَى الْمومنينَ أَعِزَّةٍ عَلَى الْكَافِرِينَ ) ۵:۵۴

''عنقریب ہی خدا ایسے لوگوں کو ظاہر کر دے گا جنہیں خدا دوست رکھتا ہو گا اور وہ اس کو دوست رکھتے ہوں گے ایمانداروں کے ساتھ منسکر (متواضع ) (اور) کافروں کے ساتھ کڑے،،

____________________

(۱) قرآن سنت ، اجماع اور عقل

۵۹۴

خشوع کی یہ قسم درحقیقت اللہ تعالیٰ کے سامنے خشوع و خضوع اور اس کی عبادیت و بندگی اختیار کرنے کے مترادف ہے ظاہر ہے جو شخص اللہ تعالیٰ کی واحدنیت اور یگانگت کا معتقد ہو اس بات کااعتقاد رکھتا ہو کہ زندگی دینا ، مارنا ، خلق کرنا، رزق دینا ، بندوں کو کچھ عطا کرنا ، ان سے لے لینا ، لوگوں کوبخشنا اور عذاب کرنا اللہ ہی کے قبضہ قدرت میں ہے اور یہ عقیدہ بھی رکھتا ہو کہ نبی اکرم (ص) اور آپ (ص) اللہ کے لائق عزت و تکریم بندے ہیں جو کسی بات میں اللہ سے سبقت نہیں لے جاتے اور اس کے ہر حکم کی تعمیل کرتے ہیں۔

( عِبَادٌ مُّكْرَمُونَ ﴿﴾ لَا يَسْبِقُونَهُ بِالْقَوْلِ وَهُم بِأَمْرِهِ يَعْمَلُونَ ) (۲۱: ۲۶۔۲۷)

'' خدا کے معزز بندے ہیں یہ لوگ اس کے سامنے بڑھ کر بول نہیں سکتے اور یہ لوگ اسی کے حکم پر چلتے ہیں،،

ان ہستیوں (ع) کو اللہ تک پہنچنے کا وسیلہ اور ذریعہ بنائے ، باذن اللہ ان (ع) کی شفاعت ، عظمت اور شان کا قائل ہو تو وہ دائرہ ایمان سے خارج نہیں ہوتا اور یہ نہیں کہا جائے گا کہ اس شخص نے غیر اللہ کی عبادت کی ہے اس لئے کہ ہر مسلمان بخوبی جانتا ہے کہ رسول اللہ (ص) حجراسود کو بوسہ دیا کرتے تھے اور اسے اپنے ہاتھ سے مس کر کے اس کی عزت و تکریم فرمایا کرتے تھے آپ (ع) مومنین ، شہداء اور دوسرے نیک بندوں کی قبروں کی زیارت فرماتے تھے انہیں سلام کرتے اور ان کیلئے دعا فرماتے تھے

آپ (ص) کے بعد صحابہ کرام اور تابعین بھی اس سنت پر عمل پیرا رہے یہ حضرت رسول اللہ (ص) کی قبر کی زیارت کرتے اور ا سے متبرک سمجھتے بوسہ دیتے اور رسول اللہ (ص) سے اسی طرح شفاعت طلب کرتے جس طرح زندگی میں کیا کرتے تھے اسی طرح ائمہ دین اور صالحین اولیائے کرام کی قبروں کی زیارت اور احترام کرتے تھے اس عمل کو کسی بھی صحابی نے برا اور حرام نہیں کہا اور نہ تابعین یا علمائے کرام میں سے کسی نے اس عمل کو ناجائز سمجھا یہاں تک کہ احمد بن عبدالجلیم بن عبدالسلام بن عبداللہ بن تیمیہ حرانی ظاہر ہوا جس نے ان قبروں میں دفن ہستیوں سے شفاعت طلب کرنا حرام قرار دیا یہاں تک کہ اس نے ہر اس شخص کی سخت مذمت کی جس نے پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی قبر مطہر کی زیارت کی ، بطرو تبرک اس کا بوسہ لیا یا اسے مس کیا بلکہ اس نے اس عمل کو بھی شرک اصغر اور کبھی شرک اکبر گردانا۔

۵۹۵

جب اس زمانے کے تمام علمائے کرام نے دیکھا کہ ابن تیمیہ اپنے اس عیقدے کے نتیجے میں دین اسلام کے مسلمات اور ضروریات مسلمین کی مخالفت کر رہا ہے کیونکہ ان علمائے کرام نے آپ (ص) سے روایت نقل کی ہے جس میں آپ (ص) نے بالعموم تمام مومنین اور بالخصوص اپنی زیارت کی ترغیب و تشویق دلائی ہے اور فرمایا ہے۔

من زارنی بعد مماتی کان کمن زارنی فی حیاتی

''جس نے میری وفات کے بعد میری زیارت کی گویا اس نے میری زندگی میں میری زیارت کی،،۔

اس مضمون کی اور روایات بھی مروی ہیں(۱) جب علماء نے ابن تیمیہ کے اس خلاف اسلام عمل کو دیکھا(۱) تو انہوں نے اس سے برات اور نفرت کا اظہار کیا ، اس کی گمراہی کا فیصلہ دے دیا ، اس پر توبہ کو واجب قرار دیا اور اسے ہر حالت میں یا توبہ نہ کرنے کی صورت میں قید کرنے کا حکم صادر کر دیا۔

اگر ابن تیمیہ کے اس عمل کو مسلمانوں میں اختلاف وانتشار کا بیج بونے کا ایک سوچا سمجھا منصوبہ نہ کہا جائے توا س کی اس غلط فہمی کی وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ اس کے خیال میں یہ اعمال (زیارات وغیرہ) شرک اور غیر اللہ کی عبادت شمار ہوتے ہیں ابن تیمیہ کو یہ معلوم نہیں کہ جو لوگ اس قسم کے اعمال بجا لاتے ہیں وہ اللہ کی توحید اور اس کی یگانگی کے معتقد ہیں اور یہ کہ اللہ کے علاوہ کوئی دوسراخالق و رازق نہیں خلق اور امر صرف اس کی ذات سے مختص ہے ان اعمال کا مقصد صرف اور صرف شعائر الٰہی کی تعظیم ہے اس قبل ہم بتا چکے ہیں کہ ان ہستیوں کی تعظیم و تکریم درحقیقت اللہ کی تعظیم و تکریم ہے اور اللہ کے سامنے خشوع و خضوع اختیار کرنے اور اس کا تقرب حاصل کرنے کے مترادف ہے۔

___________________

(۱) قبروں کی زیارت جائز ہونے کے متعلق روایات ضمیمہ نمبر ۱۷ میں ذکر کی گئی ہیں۔

۵۹۶

ان اعمال میں شرک کا معمولی سا شائبہ تک نہیں کیونکہ شرک غیر اللہ کی عبادت کا نام ہے اور کسی کی عبادت کا مطلب کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ اس کو قابل پرستش رب سمجھ کر اس کے سامنے خشوع و خضوع اختیار کیا جائے اس معنی میں عبادت کجا اورنبی (ص) اور آپ (ص) کے اوصیاء (ع) کو اللہ کے مکرم بندے مانتے ہوئے نبی کریم (ص) اور آپ (ص) کے اوصیاء (ع) کی تعظیم و تکریم کجا؟ اس میں کوئی شک نہیں کہ کوئی مسلمان کسی نبی یا اس کے وصی کی عبادت نہیں کرتا چہ جائیکہ ان کی قبروں کی عبادت کرے۔

خلاصہ بحث یہ ہے کہ قبروں کی زیارت کرنا اور ان کو بوسہ دینا یا اس قسم کی تعظیم کی دیگر صورتیں کسی بھی اعتبار اور سبب سے شرک نہیں کہلاتیں اگر یہ چیزیں شرک کہلاتیں تو زندہ انسانوں کی تعظیم و تکریم بھی شرک شمار ہوتی کیونکہ اس اعتبار (غیر اللہ کی تعظیم شرک ہونا) سے زندہ اور مردے میں کوئی فرق نہیں۔ حالانکہ ابن تیمیہ اور اس کے ہم مسلک ، زندہ انسانوں کی زیارت کو کبھی بھی شرک نہیں سمجھتے اس کے علاوہ اگر قبروں کی زیارت کرنا شرک ہوتا تو العیاذ باللہ حاشاوکلا رسول اللہ (ص) بھی مشرک کہلائیں گے اس لئے کہ آپ (ص) بھی قبروں کی زیارت فرمایا کرتے ، انہیں سلام کرتے تھے اور حجراسود کا بوسہ کا بوسہ لیتے تھے جیسا کہ اس سے قبل ہم بتا چکے ہیں۔

بنا برایں اس مقام پر دو میں سے ایک بات ضرور تسلیم کرنا پڑے گی۔

(۱) بعض شرک جائز ہیں اور بعض جائز نہیں۔

(۲)پرستش کی نیت کے بغیر کسی قبر کی تعظیم کرنا اور اس کا بوسہ لینا شرک نہیں کہلاتا۔

ظاہر ہے پہلی بات کا کوئی قائل نہیں ہو سکتا اس لئے کہ وہ سراسر باطل اور غلط ہے لامحالہ دوسری بات حق اور صحیح ہو گی اور یہ ثابت ہو گیا کہ انبیاء اوصیاء (علیہم السلام) کی قبروں کی زیارت اور تعظیم ، عبادت الہی اور تعظیم خدا شمار ہوتی ہے شرک نہیں کہلاتی

( وَمَن يُعَظِّمْ شَعَائِرَ اللَّـهِ فَإِنَّهَا مِن تَقْوَى الْقُلُوبِ ) ۲۲:۳۲

''اور جس شخص نے خدا کی نشانیوں کی تعظیم کی تو کچھ شک نہیں کہ یہ بھی دلوں کی پرہیز گاری سے حاصل ہوتی ہے،،

اس قبل وہ روایات بیان کی جا چکی ہیں جن کی رو سے بنی (ع) اور صالحین اولیاء اللہ کی زیارت مستحب ہے۔

۵۹۷

غیر اللہ کو سجدہ

گزشتہ مباحث سے یہ واضح ہو چکا ہے کہ کسی بھی مخلوق کے سامنے خشوع و خضوع اختیار کرنا ( اگر شریعت میں اس سے منع کیا گیا ہو تو) جائز نہیں اگرچہ یہ تواضع بطور پرستش نہ ہو غیر اللہ کو سجدہ کرنا بھی اسی قبیل سے ہے اور تمام مسلمانوں کا اجماع ہے کہ غیر خدا کو سجدہ کرنا حرام ہے ارشاد ہوتا ہے:

( لَا تَسْجُدُوا لِلشَّمْسِ وَلَا لِلْقَمَرِ وَاسْجُدُوا لِلَّـهِ الَّذِي خَلَقَهُنَّ إِن كُنتُمْ إِيَّاهُ تَعْبُدُونَ ) ۴۱:۳۷

''تم لوگ نہ سورج کو سجدہ کرنا اور نہ چاند کو اور اگر تم کو خدا ہی کی عبادت کرنی منظور ہے تو بس اسی کو سجدہ کرو جس نے ان چیزوں کو پیدا کیا ہے،،۔

اس آیت سے یہی استفادہ ہوتا ہے کہ سجدہ صرف خالق کائنات کیلئے مختص ہے اور کسی مخلوق کیلئے جائز نہیں۔

( وَأَنَّ الْمَسَاجِدَ لِلَّـهِ فَلَا تَدْعُوا مَعَ اللَّـهِ أَحَدًا ) ۷۲:۱۸

''اور یہ کہ مسجدیں خاص خدا کی ہیں تو تم لوگ خدا کے ساتھ کسی کی عبادت نہ کرنا،،

یہ آیت ہمارے مدعا پر صرف اس صورت میں دلالت کرتی ہے جب آیت میں ''مساجد،، سے مراد سات اعضاء (پٍیشانی ، دونوں ہا تھوں کی ہتھیلیاں ، دونوں گھٹنے اور دونوں پاؤں کے انگوٹھے ) ہوں جن کا حالت سجدہ میں زمین سے لگنا ضروری ہے چنانچہ آیہ شریفہ سے یہی ظاہر ہو رہا ہے اور معصومین (ع) کی روایات بھی اسی پر دلالت کرتی ہیں(۱)

بہرحال اس میں کوئی شک نہیں کہ اور تو اور کسی نبی یا اس کے وصی کو سجدہ کرنا بھی جائز نہیں شیعوں کی طرف یہ نسبت دینا

____________________

(۱) وسائل باب حدالقطع من ابواب حداسرقہ ، ج ۳ ، ص ۴۴۸

۵۹۸

کہ وہ اپنے ائمہ (ع) کی قبروں کو سجدہ کرتے ہیں محض تہمت اور الزام ہے روز محشر شیعہ اور ان پر اس قسم کے الزامات لگانے والے درگاہ الٰہی میں پیش ہوں گے اور اللہ ہی فیصلہ کرنے والا ہے ان میں سے بعض تو الزام تراشی میں حد سے بڑھ گئے ہیں یہ الزام تو پہلے سے بھی زیادہ دل آزار اور تکلیف دہ ہے اور وہ یہ کہ شیعہ اپنے ائمہ (ع) کی قبروں کی مٹی لے کر اس کو سجدہ کرتے ہیں۔

بارالہا ! تو جانتا ہے کہ یہ کتنی بڑی تہمت ہے(۱) شیعوں کی قدیم و جدید مطبوعہ اور قلمی کتب دنیا کے کونے کونے میں پھیلی ہوئی ہیں اور ان تمام کتب کا اتفاق ہے کہ غیر اللہ کو سجدہ کرنا حرام ہے جس شخص نے شیعوں کی طرف یہ نسبت دی ہے وہ یا تو شیعوں پر عمداً الزام تراشی اور تہمت کا مرتکب ہوا ہے یا وہ غافل ہے اور کسی چیز کو سجدہ کرنے اور کسی چیز پر سجدہ کرنے میں موجود فرق کو نہیں سمجھتا۔

شیعوں کے نزیک نماز میں ہر اس چیز پر سجدہ ہو سکتا ہے جو زمین کا حصہ اور جزء شمار ہو جیسا کہ پتھر یا ڈھیلا یا ریت یا مٹی ہے ۔ ان نباتات پر بھی سجدہ ہو سکتا ہے جو کھائی یا پہنی نہ جائیں شیعہ نقطہ نگاہ سے مٹی پر سجدہ کرنا دوسری چیزوں کی نسبت افضل ہے ، اسی طرح خاک کربلا پر سجدہ کرنا باقی سب چیزوں پر سجدہ کرنے سے افضل ہے اور ان سب باتوں میں شیعہ اپنے ائمہ معصوم (ع) کی پیروی کرتے ہیں(۲) اس کے باوجود شیعوں کی طرف کیونکر شرک کی نسبت دی جاتی ہے کہ شیعہ غیر اللہ کو سجدہ کرتے ہیں(۳)

خاک کربلا اللہ کی اس وسیع و عریض سرزمین ہی کاایک جزء ہے جسے اللہ نے اپنے نبی (ص) کیلئے سجدہ گاہ اور مطہر بنایا(۴)

____________________

(۱) اسی کتاب کے ضمیمہ نمبر ۱۸ میں روزوں کے بارے میں شیعوں پر آلوسی کے الزامات ملا خطہ فرمائیں۔

(۲) وسائل ، باب ۱۶۲ ، من ابواب مایسجد علیہ ، ص ۲۳۶

(۳) ضمیمہ نمبر ۱۹ میں تربت حسینیہ کے بارے میں ایک مباحثہ ملا خطہ فرمائیں جو م ولف اور ایک حجازی عالم کے درمیان ہوا

(۴) سنن البیہقی باب التیمم بالصعید الطیب ، ج ۱ ، ص۲۱۲ ۔ ۲۱۳

۵۹۹

ہاں ! خاک کربلا وہ خاک ہے جس کی عظمت اور قدرو منزلت کا کوئی اندازہ نہیں کر سکتا کیونکہ اس سرزمین میں وہ نواسہ رسول (ص) اور جوانان جنت کے سردار دفن ہیں جنہوں نے اپنے نفس ، خاندان اور اصاب کو دین اسلام کی راہ اور شریعت سید المرسلین (ص) کے احیاء کی خاطر قربان کر دیا خاک کربلا کی فضیلت میں فریقین نے رسول اللہ (ص) سے روایات نقل کی ہیں(۱)

فرض کیجئے اس خاک کی فضیلت میں رسول اللہ (ص) اور آپ (ص) کے اوصیاء کی کوئی روایت نہیں ہے لیکن کیا حق و انصاف کا یہ تقاضا نہیں کہ مسلمان اس مقدس خاک کو ہر وقت اپنے پاس رکھے اور جب بھی سجدہ کرنا ہو اس پر سجدہ کرے ؟ اس لئے کہ اس خاک پر سجدہ کرنا ، جو بذات خود ان چیزوں میں سے ہے جنپر سجدہ صحیح ہے اس حقیقت کی طرف اشارہ ہے کہ اس مقدس خاک کو ہمیشہ اپنے ساتھ رکھنے والا شخص اس عظیم شخصیت کا پیروکار ہے جس کی طرف یہ خاک منسوب ہے اور جسے اللہ اور اصلاح مسلمین کی راہ میں شہید کر دیا گیا۔

آدم (ع) کوسجدہ ۔ اقوال علمائ

اب یہ سوال رہ جاتا ہے کہ حضرت آدم (ع) کو فرشتوں کا سجدہ کرنا کیوں جائز ہوا جبکہ غیر اللہ کو سجدہ کرنا جائز نہیں؟ علماء نے اس سوال کے مختلف جوابات دیئے ہیں۔

(۱) حضرت آدم(ع) کوفرشتوں کا سجدہ ، خشوع و خضوع کے معنی میں تھا یہ وہ سجدہ نہیں تھا جس کا عام طور پر تصور کیا جاتا ہے۔

__________________

(۱) وسائل ، ج ۱ ، ص ۲۳۶ ۔ باب استحباب السجود علی تربتہ الحسین (ع) نیز ملا خطہ فرمائیں ضمیمہ نمبر ۲۰

۶۰۰

601

602

603

604

605

606

607

608

609

610

611

612

613

614

615

616

617

618

619

620

621

622

623

624

625

626

627

628

629

630

631

632

633

634

635

636

637

638

639

640

641

642

643

644

645

646

647

648

649

650

651

652

653

654

655

656

657

658

659

660

661

662

663

664

665

666

667

668

669

670

671

672

673

674

675

676

677

678

679

680

681

682

683

684

685

686

687

688

689

690

691

692

693

694

695

696

697

698

699

700

701

702

703

704

705

706

707

708

709

710

711

712

713

714

715

716

717

718

719

720

721

722

723

724

725

726

727

728

729

730

731

732

733

734

735

736

737

738

739

740

741

742

743

744

745

746

747

748

749

750

751

752

753

754

755

756

757

758

759

760

761

762

763

764

765

766

767

768

769

770

771

772

773

774

775

776

777

778

779

780

781

782

783

784

785