تفسير راہنما جلد ۱

 تفسير راہنما 7%

 تفسير راہنما مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن
صفحے: 785

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴ جلد ۵ جلد ۶ جلد ۷ جلد ۸ جلد ۹ جلد ۱۰ جلد ۱۱
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 785 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 200948 / ڈاؤنلوڈ: 5793
سائز سائز سائز
 تفسير راہنما

تفسير راہنما جلد ۱

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

۱۳_ ابوسعيد خدرى سے روايت ہے كہ رسول خدا (ص) نے فرمايا:''قال عيسي عليه‌السلام ...''الرحمان'' رحمان الدنيا و الآخرة و''الرحيم'' رحيم الآخرة (۱)

حضرت عيسىعليه‌السلام نے فرمايا رحمان اللہ تعالى كى دنيا و آخرت كے لئے وسيع رحمت ہے _ اور رحيم اللہ تعالى كى آخرت ميں خصوصى رحمت ہے _

اسما و صفات: رحمان ۴،۱۰ َ; رحيم ۴،۱۰

اللہ: اسم اللہ كى خصوصيات۱

اللہ تعالى : اسم اعظم ۱۱;اللہ كا حسن و جمال ۱۰; اللہ كے نام كى اہميت ۷،۸; اللہ كى رحمت كے اسباب ۸; اللہ كى رحمت كے مظاہر ۹; اللہ كى سلطنت ۱۰; اللہ كى عظمت و بزرگي۱۰;خدا كى بلندى ۱۰;خدا كى رحمت كے نتائج ۵،۷; خدا كى رحمانيت ۹،۱۰،۱۳; خدا كى رحيميت ۹،۱۰،۱۳; خد ا كى عمومى رحمت ۵، ۷ ; خدا كى مہربانى ۶; خدا كا نام ۲،۳، ۱۰

بسم اللہ : بسم اللہ كى اہميت ۳; بسم اللہ كى باء ۱۰; بسم اللہ كى سين ۱۰ ،۱۲; بسم اللہ كى فضيلت ۱۱; بسم اللہ كى ميم ۱۰;كاموں ميں اسكے اثرات و نتائج۸

بندگي: بندگى كى نشانياں ۱۲

حديث ۱۰،۱۱،۱۲،۱۳

قرآن كريم: آغاز قرآن ۲; قرآن كى خصوصيات ۲، ۹ قرآن كا رحمت ہونا۲; قرآن كا سرچشمہ ۱;

كام: كام كے آداب ۳; كاموں ميں بسم اللہ ۳; كاموں ميں بسم اللہ كى حكمت يا فلسفہ ۷

مؤمنين: مومنين كے درجات ۱۰

____________________

۱) الدرالمنثور ج/۱ ص۲۳_

۲۱

الْحَمْدُ لِلّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ ( ۲ )

سارى تعريف اللہ كے لئے ہے جو عالمين كا پالنے والا ہے_

۱_سب تعريفيں اللہ كے لئے ہيں _

الحمدلله

''الحمدللہ'' ميں ''ال'' جنس كے لئے ہے جو استغراق كا مفہوم ديتاہے يعنى تمام حمد اللہ كے لئے ہے_

۲_ تما م تر كمالات رعنائيوں اور خوبيوں كا سرچشمہ اللہ تعالى ہے_الحمدلله اللہ تعالى كى حمد حسن و جمال اور كمالات كے مقابلے ميں ہے_ ''الحمدلله '' كے مطابق ہر توصيف و تعريف اللہ كے لئے ہے پس ہر حسن و كمال اسكى ذات اقدس سے ہے_

۳_ صرف اللہ تعالى ہى لائق حمد و ثنا ہے اور اسى كى ستائش ہونى چاہيئے_

الحمدلله

۴_ اللہ تعالى جہان ہستى كے عالمين كا مالك اور تدبير كرنے والا ہے_رب العالمين عالمين كا مفرد عالم ہے _ موجودات كے ايك مجموعہ يا گروہ كو ''عالَم'' كہتے ہيں _ پس عالمين يعنى تمام تر موجودات كے گروہ _

۵_ جہان خلقت متعدد عالموں سے تشكيل پاياہے _رب العالمين يہ مطلب''عالمين ''كے جمع ہونے سے سمجھاجاتاہے_

۶_ عالم ہستى تمام كا تمام خوبصورت اور اس ميں موجود تدبير و حكمت حسين و جميل ہے_

الحمد لله رب العالمين

''رب العالمين'' الحمدللہ كے لئے دليل كے طور پر ہے يعنى چونكہ عالم ہستى كى تدبير كرنے والا خداوند متعال ہے لہذا تمام تعريفيں اسى كے لئے ہيں اور تعريف و توصيف ہميشہ كمال و جمال كے لئے ہوتى ہے پس اسكا نتيجہ يہ نكلتاہے كہ سارے كا سارا جہاں ہستى خوبصورت اور اس ميں موجود تدبير حسين و جميل ہے_

۷_ كائنات كى تدبير و حكمت پروردگار عالم كے اختيار سے ہے اسكے انتظام و انصرام ميں جبر يا اضطرار نہيں پايا جاتا _

الحمدلله رب العالمين

فعل و صفت پر حمد و ثنا اس وقت صحيح ہے جب فعل و صفت حسين اور زيبا ہونے كے علاوہ اختيارى بھى ہوں يعنى اگر فعل يا صفت حسين و جميل ہوں تو فاعل كى حمد و ثنا كى جاسكتى ہے كيونكہ اس نے اپنے اختيار سے اسكو انجام دياہے_

۸_ عالم ہستى كمال كى طرف گامزن ہے_

۲۲

رب العالمين

''رب'' كا معنى تربيت كرنا ہے_ تربيت كا مفہوم پہلى حالت سے ايك نئي حالت پيدا كرنا ہے تا كہ كمال تك پہنچ جائے (مفردات راغب ) _ يہ معنى ايك تكاملى تحرك پر دلالت كرتاہے_ اس بات كى جانب اشارہ مناسب ہے كہ لفظ''رب'' صفت اور مصدر كے درميان مشترك لفظى ہے اور اس آيت ميں اسكا وصفى معنى آياہے_

۹_ اس جہان ہستى كے عالمين كى تدبير و حكمت كا پروردگار عالم كى طرف سےہونا اس بات كى دليل ہے كہ تمام ترتعريفيں مخصوص ہيں اسكى ذات اقدس كے ساتھ_الحمدلله رب العالمين

۱۰_عن ابى عبدالله عليه‌السلام فى قوله : ''الحمدلله'' قال: الشكر لله و فى قوله ''رب العالمين'' قال: خالق المخلوقين ...''(۱)

امام صادقعليه‌السلام سے روايت ہے كہ آپعليه‌السلام نے فرمايا: ''الحمدللہ'' يعنى شكر ، خدا كى ذات سے مخصوص ہے اور ''رب لعالمين'' يعنى اللہ تمام عالمين و مخلوقات كا خالق ہے_

اللہ تعالى : اللہ تعالى سے جو امور مختص ہيں ۱،۲،۳،۹،۱۰; اللہ تعالى كا اختيار ۷; اللہ كا خالق ہونا ۱۰;اللہ كا مالك ہونا ۴;ربوبيت الہي۴

حديث: ۱۰

حسن و رعنائي : حسن و رعنائي كا سرچشمہ۲

حمد: اللہ كى حمد ۱،۳،۱۰; حمد خدا كے دلائل ۹

كمال: كمال كا سرچشمہ ۲

كائنات ( عالم ہستي): خلقت كے عوالم ۵; عالم ہستى كا تحرك۸; عالم ہستى كا تكامل ۸; عالم ہستى كا حسن۶; عوالم ہستى كا مالك ۴;عالمين كا انتظام وانصرام ۴،۹; كائنات كى حكمت ۶،۷

موجودات: موجودات كا خالق ۱۰

____________________

۱) تفسير قمى ج/۱ ص ۲۸ ، نورالثقلين ج/۱ ص ۱۵ ح ۶۰_

۲۳

اَلرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ ( ۳ )

وہ عظيم اور دائمى رحمتوں والا ہے_

۱_ اللہ تعالى رحمان ( وسيع رحمت كا مالك) اور رحيم (مہربان) ہے_الرحمن الرحيم

۲_ تمام ترموجودات خدا وند متعال كى وسيع رحمت سے بہرہ مند ہيں _الرحمن

۳_اللہ تعالى تمام انسانوں پر مہربان ہے_الرحيم

۴_ عالم ہستى كے انتظام اور انصرام كى بنياد اللہ كى رحمت پر ہے_رب العالمين _ الرحمن الرحيم

عالم ہستى كى تدبير يا انتظام و انصرام كے بعد اللہ تعالى كى رحمانيت اور رحيميت كے ذكر سے يہ بات سامنے آتى ہے_

۵_ اللہ كى رحمانيت اور رحيميت اس بات كى دليل ہے كہ تمام تر تعريفيں اسكى ذات اقدس سے مختص ہيں _

الحمدلله رب العالمين _ الرحمن الرحيم

''الرحمن الرحيم''،''رب العالمين'' كى طرح '' الحمدللہ'' كے لئے دليل كا درجہ ركھتى ہے_ يعنى چونكہ خداوند متعال رحمان و رحيم ہے اس لئے تمام ترتعريفيں اسكى ذات اقدس كے لئے سزاوار ہيں _

۶_انتظام و انصرام اور تربيت كو مہربانى اور لطف و كرم كے ساتھ ساتھ ہونا چاہيئے_

رب العالمين _ الرحمن الرحيم

اسماء و صفات: رحمان۱; رحيم ۱

انتظام و انصرام: انتظام كى روش ۶; نظم و انتظام ميں لطف و عنايت ۶

تربيت : تربيت كى روش ۶; تربيت ميں مہربانى يا لطف و كرم ۶

حمد: اللہ تعالى كى حمد كے دلائل ۵

خداوند متعال: اللہ تعالى كى ربوبيت ۴; اللہ كى رحمانيت ۵; اللہ كى رحمت كے نتائج و اثرات ۴;اللہ كى رحمت سے استفادہ ۲; خدا كى رحيميت ۵; اللہ كى عمومى رحمت ۱،۲; اللہ تعالى سے مختص امور۵; اللہ كا مہربان ہونا ۱،۳

كائنات: كائنات كا انتظام و حكمت۴

مہربان ہونا : مہربان ہونے كى اہميت ۶

۲۴

مَالِكِ يَوْمِ الدِّينِ ( ۴ )

روز قيامت كا مالك و مختار ہے _

۱_ اللہ تعالى روز قيامت كا مالك اور فرمانروا ہے_مالك يوم الدين

''مالك يوم الدين'' ميں ملكيت حقيقى ہے يعنى وجودى وابستگى جسكا لازمى نتيجہ يہ ہے مالك ملكيت پر كامل اور ہر طرح كا تسلط ركھتاہے_''يوم الدين'' ممكن ہے مالك كے لئے مفعول ہو اورممكن ہے ظرف ہو_ اگر ظرف ہوتو اس صورت ميں مفعول ممكن ہے لفظ ''الامور'' يا اسكى مثل كوئي اور لفظ ہو اس صورت ميں جملے كى تركيب يوں ہوگي'' مالك الامور فى يوم الدين'' بہر حال يہ مفہوم اس آيہ مجيدہ سے نكل سكتا ہے_

۲_ قيامت كے دن حساب و كتا ب اور جزا و سزا خداوند متعال كے اختيار ميں ہے_مالك يوم الدين

۳_ قيامت كا برپا كرنا اور اہل دنيا كے لئے روز جزا كا قرار دينا اللہ تعالى كى رحمت كا ايك جلوہ ہے_

الرحمن الرحيم _ مالك يوم الدين

رحمت الہى كے بيان كے بعد قيامت كا ذكر كرنا اس مطلب كى طرف اشارہ ہے_

۴_قيامت كا برپا كرنا اللہ تعالى كى جہان ہستى پر ربوبيت كا ايك جلوہ ہے_رب العالمين مالك يوم الدين

مذكورہ بالا مفہوم ''مالك يوم الدين'' كے ''رب العالمين'' كے ساتھ ارتباط سے استفادہ كيا گيا ہے_

۵_ قيامت كا دن جزا و سزا كا دن ہے_

مالك يوم الدين

'' دين'' كا معنى يہاں جزا و سزا يا حساب و كتاب ہے يعنى ہر دو كى بازگشت ايك معنى كى طرف ہے_

۶_ روز جزا ميں خداوند متعال كى مالكيت اور اس دن اسكى فرمانروائي اس بات كى دليل ہے كہ تمام ترتعريفيں اسى كى ذات سے مختص ہيں _

الحمدلله مالك يوم الدين

گذشتہ صفات كى طرح''مالك يوم الدين''، ''الحمدللہ'' كے لئے دليل ہے_

۲۵

اللہ: آخرت ميں اللہ كى حاكميت ۱; آخرت ميں اللہ كي مالكيت ۲; اللہ تعالى سے مختص امور۲،۶; اللہ كى حاكميت ۶; اللہ كى ربوبيت كے مظاہر ۴; اللہ كى رحمت كے مظاہر ۳اللہ كى طرف سے آخرت ميں جزا ۲; اللہ كى طرف سے اخروى سزا ۲; اللہ كى طرف سے حساب و كتاب ۲; اللہ كى مالكيت ۶

حمد: اللہ كى حمد كے دلائل ۶

قيامت: قيامت كا برپا ہونا ۳،۴; قيامت كا مالك ۱،۶; قيامت كى خصوصيات ۵،۶قيامت ميں جزا۵; قيامت ميں حاكم۱،۶; قيامت ميں حساب كتاب ۲،۳;قيامت ميں سزا ۵

إِيَّاكَ نَعْبُدُ وإِيَّاكَ نَسْتَعِين ُ ( ۵ )

پروردگار ہم تيرى ہى عبادت كرتے ہيں اورتجھى سے مدد چاہتے ہيں _

۱_ فقط اللہ كى ذات اقدس لائق عبادت و بندگى ہے_

اياك نعبد

''اياك'' مفعول ہے اور اسكا نعبد پر مقدم ہونا حصر پر دلالت كرتاہے_

۲_ جہان ہستى پر اللہ كى ربوبيت، اسكى رحمانيت اور رحيميت قيامت كے دن اسكا مالك ہونا يہ دلائل ہيں اس امر كے كہ صرف وہى لائق عبادت و بندگى ہے_

رب العالمين _ الرحمن الرحيم _ مالك يوم الدين_ اياك نعبد

۳_اللہ كى ربوبيت كا يقين، اسكا رحمت نازل كرنا، روز جزا كا مالك ہونا يہ امور انسان كو اللہ كى پرستش كى ترغيب دلاتے ہيں _

رب العالمين _ الرحمن الرحيم_ مالك يوم الدين_ اياك نعبد

۴_ اللہ اور اسكى صفات كى معرفت توحيد عبادى كے حصول كا ذريعہ ہے _الحمدلله رب العالمين اياك نعبد

۵_ انسانى افكار و عقائد اسكے اعمال و كردار كى بنياد ہيں _الحمدلله رب العالمين_ الرحمن الرحيم_ مالك يو م الدين _ اياك نعبد

۲۶

۶_ خدا كے حضور خود كو ناچيز تصور كرنا اسكى بندگى كے آداب ميں سے ہيں _اياك نعبد

''ميں '' كى جگہ '' ہم'' كا استعمال بعض اوقات بڑائي كے اظہار كے لئے ہوتاہے اور كبھى انانيت، تكبر و خودپرستى سے اجتناب كے لئے آتاہے_ گفتگو كے قرينے سے مراد كا اندازہ لگايا جاسكتاہے_ يہاں بندگى و عبوديت كى مناسبت سے تكبر و انانيت سے اجتناب مراد ہے اس لئے ''نعبد '' جمع كا صيغہ استعمال ہوا ہے_

۷_ اللہ اور اسكى صفات پر ايمان اس يقين كا باعث ہے كہ سب اسكى بارگاہ اور اسكے حضور ميں ہيں _

الحمدلله رب العالمين اياك نعبد

سورہ حمد ميں اسلوب كلام كو تبديل كيا گياہے يعنى غائب سے خطاب كى طرف التفات ہوا ہے اور يہ امر بعض نكات كا حامل ہے_ ان ميں سے ايك يہ ہے كہ انسان جہان ہستى پر اللہ كى ربوبيت جيسى صفات خدا جاننے سے قبل گويا احساس نہيں كرتا كہ اللہ تعالى ہر چيز پر حاضر و ناظر ہے ليكن جب وہ ربوبيت الہى اور ديگر صفات پر ايمان و يقين حاصل كرليتاہے تو خود كو اور دوسروں كو اللہ كے حضور پاتاہے اسى طرح اللہ كو تمام ترحالات ميں حاضر جانتاہے_

۸_ خود كو خدا كے حضور تصور كرنا عبادت كے آداب ميں سے ہے _

اياك نعبد

غائب سے خطاب كى التفات كے نكات ميں سے ايك اور نكتہ سورہ حمد ميں عبادت اور دعا كے آداب ہيں يعنى شائستہ يہى ہے انسان كے لئے كہ عبادت و دعا كے وقت احساس كرے كہ ميں خدا كے حضور ہوں _

۹_ عبادت كى خاطر خدا كى حقيقى معرفت اور اسكى رحمتوں پر اميد اللہ كى بندگى كے لئے ترغيبات ہيں _

الحمدلله رب العالمين_ الرحمن الرحيم اياك نعبد

اللہ كى ربوبيت ، رحمانيت، رحيميت، مالكيت روز جزا جيسى صفات كے بيان كے بعد اللہ كى عبادت كو بيان كرنا اسكى عبادت كى ترغيبات ہيں يعنى چونكہ اللہ رب ہے اس لئے لائق بندگى ہے_ لوگ چونكہ اسكى رحمت كے محتاج ہيں اس لئے عبادت كريں اور اس لئے كہ عذاب آخرت سے خوف زدہ ہيں اسكى پرستش كريں _

۱۰_ عذاب آخرت كا خوف اور جہان آخرت ميں جزا كى اميد انسان كے لئے خدا كى عبادت كے محرّك ہيں _

مالك يوم الدين _ اياك نعبد

۱۱_ اللہ تعالى اور اسكى صفات كى معرفت خود كو اسكى بارگاہ

۲۷

ميں ناچيز سمجھنے كا باعث ہے_الحمدلله اياك نعبد و اياك نستعين

۱۲_ توحيدپرستوں كى آرزوہے كہ سب لوگ يكتا پرست، خدا پرست ہوجائيں _اياك نعبد

'' اعبد _ ميں عباد ت كرتاہوں '' كى جگہ '' نعبد _ ہم عبادت كرتے ہيں '' كا استعمال ہوسكتاہے اس بات كى طرف اشارہ ہو كہ يہ ہر توحيد پرست كى خواہش ہے_ يعنى وہ اس جملہ '' ہم عبادت كرتے ہيں '' كے ذريعے اس خواہش كا اظہار كرتا ہے كہ سب انسان ايسے ہى ہوں _

۱۳_ فقط وہ حقيقت يا ذات جس سے مدد طلب كى جاسكتى ہے وہ اللہ تعالى كى ذات اقدس ہے_و اياك نستعين

۱۴_ اللہ كى بندگى اور اس ميں خلوص كے لئے انسان امداد الہى كا محتاج ہے_اياك نعبد و اياك نستعين

'' نستعين'' كا متعلق تمام تر فرائض ہيں جو سورہ حمد سے استفادہ ہوتے ہيں ان ميں ايك يكتاپرستى يا توحيد پرستى كا واجب و ضرورى ہوناہے جو''اياك نعبد'' سے سمجھ ميں آتاہے يعنى ''نستعينك على عبادتك وخلوصہا''

۱۵_ باوجود اس كے كہ انسان اللہ كى بندگى پر اختيار ركھتا ہے اللہ كى مدد كے بغير عبادت كرنے كى توانائي نہيں ركھتا _

اياك نعبد و اياك نستعين

۱۶_ اللہ كى حمد و ثنا اسكى امداد و نصرت سے ہى امكان پذير ہے_الحمد لله اياك نستعين

جو فرائض سورہ حمد سے استفادہ ہوتے ہيں ان ميں سے ايك اللہ كى توصيف و ثنا كا واجب و ضرورى ہوناہے _بنابريں كہا جاسكتاہے كہ يہ معنى بھى نستعين سے متعلق ہے يعنى '' نستعينك على ان نحمدك''

۱۷_ تمام جہان ہستى پر اللہ كى ربوبيت كى معرفت، اس كى رحمانيت و رحيميت كا يقين اور اسكا روز جزا كے مالك ہونے كا يقين يہ سب اللہ كى امداد سے ہى ممكن ہے_الحمد لله رب العالمين اياك نستعين

اللہ كى ربوبيت كى معرفت اور ان شرعى فرائض ميں سے ہے جسے سورہ حمد سے استفادہ كيا جاسكتاہے لہذا يہ بھى نستعين سے متعلق ہيں يعنى''نستعينك على ان نعرف ربوبيتك و ...''

۱۸_ انسان اپنے تمام امور ميں اللہ كى مدد و نصرت كا محتاج ہے_اياك نستعين

بعض كى رائے يہ ہے كہ نستعين كا متعلق يا استعانت كا مورد ذكر نہيں كيا گيا تا كہ تمام تر امور مراد ہوں يعنى''نستعينك على امورنا كلها''

۱۹_اللہ تعالى بندوں كى تمام دعاؤں كو پورا كرنے كى مكمل توانائي ركھتاہے_ايا ك نستعين

۲۸

اس مطلب كا لازمہ يہ ہے كہ استعانت سے مراد تمام امور ہوں _

۲۰_ اللہ تعالى اور اسكى صفات (رب العالمين ، ...) كى معرفت انسان كو توحيد افعالى كى طرف راہنمائي كرتى ہے _

اياك نستعين

اس كى دليل يہ ہے كہ '' اياك نستعين '' اللہ تعالى كى '' رب العالمين'' كے ساتھ توصيف كے بعد آياہے_ اسكا مطلب يہ ہے كہ ان صفات كے ساتھ اللہ تعالى كى معرفت انسان كو اس مرحلے تك پہنچا ديتى ہے كہ وہ غير اللہ كو ناتواں سمجھے اور نتيجتاً توحيد افعالى تك پہنچ جائے_

۲۱_ توحيد پرستوں كى آرزو ہے كہ سب انسان توحيد افعالى كے قائل ہوجائيں _اياك نستعين

''استعين _ ميں مدد مانگتاہوں '' كى جگہ ''نستعين _ ہم مدد مانگتے ہيں '' كا استعمال مندرجہ بالا مطلب كى طرف اشارہ ہوسكتاہے_

۲۲_ امام رضاعليه‌السلام سے روايت ہے:اياك نعبد رغبة و تقرب الى الله تعالى ذكره و اخلاص له بالعمل دون غيره و '' اياك نستعين'' استزادة من توفيقه و عبادته و استدامة لما انعم الله عليه ونصره (۱) ''اياك نعبد'' يعنى بندے كا خدا كى طرف رغبت كا اظہار اور تقرب كى تلاش اسى طرح اللہ كے لئے عمل ميں خلوص جو كہ غير خدا كے لئے نہ ہو _ '' اياك نستعين '' اللہ كى بارگاہ ميں بہت زيادہ توفيق اور عبادت كى درخواست اسى طرح خدا كى نعمتوں ميں تسلسل اور اسكى مدد كى درخواست كرنا ہے_

اللہ تعالى : اللہ تعالى كى امداد كے اثرات ۱۶،۱۷; خدا شناسى كے نتائج و اثرات ۴،۱۱،۲۰; اللہ تعالى سے مختص امور ۱،۱۳; اللہ تعالى كى امداد ۱۵; اللہ كى ربوبيت ۲،۱۷; اللہ كى رحمانيت ۲،۱۷; اللہ كى رحيميت ۲،۱۷; اللہ تعالى كى قدرت ۱۹; آخرت ميں اللہ تعالى كى مالكيت ۲،۳; خدا كے حضور ۶،۷،۸،۱۱; اللہ تعالى كى مہربانى ۲

امداد طلب كرنا : اللہ تعالى سے طلب امداد ۱۳ ،۲۲

اميد: اخروى جزا كى اميد ۱۰; اللہ كى رحمت كى اميد۹

انانيت : انانيت سے اجتناب ۶

انسان : انسانى خواہشات ۱۹; انسان كا عاجز ہونا ۱۵; انسان كى ضروريات ۱۴، ۱۸; انسان كے اختيارات ۱۵

____________________

۱) من لايحضرہ الفقيہ ج/۱ ص ۲۰۴ ح۱۲، نورالثقلين ج/ ۱ ص ۱۹ ح ۸۱_

۲۹

ايمان: اللہ پر ايمان ۱۷; اللہ پر ايمان كے نتائج و اثرات۳،۷; اللہ كى ربوبيت پر ايمان ۳; اللہ كى رحمت پر ايمان ۳; اللہ كى صفات پر ايمان ۷;اللہ كى مالكيت پر ايمان ۳; توحيد پر ايمان ۲۱; ايمان سے متعلق امور ۳،۷

ترغيبات: ترغيبات كے عوامل ۳،۹،۱۰

تزكيہ : تزكيہ كے اسباب ۱۱

تفكر : تفكر كے اثرات و نتائج ۵

تقرب: تقرب كے عوامل ۲۲

توحيد : توحيد افعالى ۲۱; توحيد افعالى كى بنياد ۲۰; توحيد افعالى كى ترويج۲۱; توحيد عبادى كى بنياد ۴; توحيد كى ترويج ۱۲

توحيد پرست : توحيد پرستوں كى آرزو۱۲، ۲۱

توفيقات: توفيق كى درخواست ۲۲; خداشناسى كى توفيق ۱۷; عبادت كى توفيق ۱۴،۱۵، ۲۲

جہان بينى (نظريہ كائنات): جہان بينى اور آئيڈيالوجى ۳،۴ ، ۷، ۹ ، ۱۰ ،۱۱

حديث :۲۲

حمد: حمد خدا كى بنياد۱۶

خوف: عذاب سے خوف كے نتائج و اثرات ۱۰; اخروى عذاب سے خوف ۱۰

ضروريات: اللہ تعالى كى امداد كى ضرورت۱۴،۱۸

عالم ہستى ( كائنات): عالم ہستى كا نظم و انتظام۲، ۱۷

عبادت: اللہ كى بندگى كے دلائل ۲; بندگى كے محركات ۳خدا كى عبادت ۹،۱۰; عبادت كے آداب ۶،۸; عبادت كے اسباب ۹،۱۰; عبادت ميں اختيار ۱۵;

عبادت ميں خلوص ۱۴; عبادت ميں حضور قلب ۸;

عمل: عمل ميں خلوص ۲۲

قيامت : قيامت كا مالك ۲،۱۷

كردار: كردار و اعمال كى اساس ۵

نعمت : نعمتوں كى درخواست ۲۲

۳۰

اِهْدِنَا الصِّرَاطَ المُسْتَقِيمَ ( ۶ )

ہميں سيدھے راستہ كى ہدايت فرماتا رہ _

۱_ صراط مستقيم كى ہدايت كى درخواست ايك عارف و سالك الى اللہ انسان كى اہم ترين درخواست و دعا ہے_

الحمد لله اياك نستعين _ اهدنا الصراط المستقيم

اگر''اهدنا الصراط المستقيم '' كے''الحمدلله رب العالمين '' كے ساتھ ربط كو ملاحظہ كيا جائے تو يہ پيغام ملتاہے كہ اللہ تعالى كى معرفت كے بعد انسان كا ہدف صراط مستقيم پر گامزن رہناہے يعنى وہ راستہ جسكا منتہائے مقصود اللہ تعالى كى ذات اقدس ہے_

۲_ اللہ تعالى كى بارگاہ اقدس ميں دعا كرنے كا لازمى نتيجہ صراط مستقيم كا حصول ہے_اهدنا الصراط المستقيم

۳_اللہ تعالى كى تعريف اور اس كى بارگاہ ميں بندگى كا اظہار دعا كے آداب ميں سے ہے_

الحمدلله رب العالمين اهدناالصراط المستقيم

چونكہ خداوند قدوس كى حمد و ثنا اوراسكى عبوديت كے اظہار كے بعد اسكى بارگاہ ميں دعا اور'' اهدناالصراط المستقيم'' كى درخواست كى گئي ہے اس سے مذكورہ بالا مطلب نكلتاہے_

۴_ انسان ہميشہ كے لئے اللہ تعالى كى ہدايت و راہنمائي كا محتاج ہے _

اهدنا الصراط المستقيم

۵_ صراط مستقيم كى ہدايت كى دعاكرنا پروردگار متعال سے مدد طلب كرنے كا انتہائي شائستہ اور زيبا مورد ہے_

اياك نستعين _ اهدنا الصراط المستقيم

اگر '' اہدنا ...'' كو''اياك نستعين'' سے مربوط كركے ديكھا جائے تو اس كا مطلب يہ ہے كہ صراط مستقيم كى ہدايت وہ اعلى ترين مورد ہے جسكے حصول ميں انسان خدائے متعال كى امداد كا محتاج ہے_

۶_اللہ تعالى كى مدد و نصرت كے بغير انسان صراط مستقيم كو نہيں پاسكتا_اهدنا الصراط المستقيم

۷_ يكتاپرستى اور فقط خدا سے مدد طلب كرنا ''صراط مستقيم '' ہے_اياك نعبد و اياك نستعين _ اهدنا الصراط المستقيم

لفظ الصراط ميں الف لام عہد ذكرى ہوسكتاہے اور يہ ان حقائق كى طرف اشارہ ہے جو گذشتہ آيت ميں گذرچكے ہے اور ان ميں يكتاپرستى اور صرف خدا سے مدد طلب كرنا ہے_

۳۱

۸_ اللہ تعالى پر اور اسكى صفات پر ايمان لانا ''صراط مستقيم '' ہے_الحمدلله رب العالمين اهدنا الصراط المستقيم

''الصراط المستقيم'' كا جن حقائق كى طرف اشارہ ہے اللہ تعالى اور اسكى ربوبيت پر ايمان لانا ان ميں سے ہے_ ان كى طرف اشارہ''الحمدلله '' سے''مالك يوم الدين'' تك كيا گياہے_

۹_ ايك توحيد پرست انسان كى آرزو ہے كہ سب انسان صراط مستقيم كى ہدايت پاليں _اهدنا الصراط المستقيم

اس مطلب كى طرف راہنمائي اسطرح ہوتى ہے كہ ''اهدنا ہميں ہدايت فرما'' استعمال ہوا ہے نہ كہ ''اهدنى مجھے ہدايت فرما ''_

۱۰_ ہدايت كے بہت سارے درجات اور مراحل ہيں _اهدنا الصراط المستقيم

گذشتہ آيات كے بعد ''اہدنا'' كا استعمال اس امر كى طرف نشاندہى كررہاہے كہ يہ دعا كرنے والا انسان ہدايت يافتہ ہے_ بنابريں يہ كہنا چاہيئے كہ ہدايت كے بہت سارے مراحل ہيں اور يہ كہنا صحيح ہے : ہر وہ شخص جو ہدايت پاچكاہے اسكو بھى انتہائي سنجيدگى سے ہدايت كى دعا كرنى چاہيئے_

۱۱_ ہدايت كے حصول كے لئے بارگاہ رب العزت ميں دعا كا بہت موثر كردار ہے_اهد نا الصراط المستقيم

۱۲_ امام رضاعليه‌السلام سے روايت ہے :''اهدنا الصراط المستقيم استرشاد لدينه واعتصام بحبله و استزادة فى المعرفة لربه عزوجل ..(۱)

''اهدنا الصراط مستقيم'' اللہ كے دين كى طرف ہدايت، اسكى رسى كو مضبوطى سے تھامنے اور اللہ جل جلالہ كى معرفت ميں اضافے كى دعا ہے_

۱۳_ امام صادقعليه‌السلام سے روايت ہے كہ آپعليه‌السلام نے فرمايا:''الصراط المستقيم'' صراط الانبياء و هم الذين انعم الله عليهم (۲) ''صراط مستقيم '' سے مراد انبياءعليه‌السلام كا راستہ ہے يہى وہ ہستياں ہيں جن پر اللہ تعالى نے اپنى نعمتيں نازل فرمائيں _

۱۴_عن رسول الله (ص) انه قال ( فى قول الله عزوجل)_ اهدنا الصراط المستقيم دين الله الذى نزل به جبرئيل عليه‌السلام على محمد (ص) ... (۳)

____________________

۱) من لا يحضرہ الفقيہ ج/ ۱ ص ۲۰۴ ح ۱۲ ، نورالثقلين ج/ ۱ ص ۲۰ ح ۸۵_

۲) تفسير عياشى ج/ ۱ ص ۲۲ح۱۷ ، نورالثقلين ج/ ۱ ص ۲۰ ح ۸۶_

۳) تفسير فرات كوفى ص ۵۱،بحارالانوار ج/۳۶ ص۱۲۸ ح ۷۱_

۳۲

رسول اللہ (ص) سے روايت ہے كہ آپ (ص) نےاهدنا الصراط المستقيم كے بارے ميں فرمايا اس سے مراد اللہ كا دين ہے جو جبرائيلعليه‌السلام كے ذريعے محمد (ص) پر نازل ہوا _

۱۵_عن رسول الله(ص) وعن على عليه‌السلام فى معنى ''الصراط المستقيم '' انه كتاب الله (۱)

پيامبر اسلام (ص) اور حضرت علىعليه‌السلام سے روايت ہے كہ صراط مستقيم سے مراد اللہ كى كتاب ہے_

۱۶_ امام صادقعليه‌السلام سے روايت ہے كہ آپعليه‌السلام نے فرمايا:''الصراط المستقيم اميرالمومنين علي عليه‌السلام '' (۲)

صراط مستقيم امير المومنين على عليہ السلام ہيں _

اسلام: دين اسلام كى اہميت ۱۴

اعتصام: اللہ كى رسى كو مضبوطى سے تھامنا ۱۲

امام علىعليه‌السلام : امام علىعليه‌السلام كا راستہ ۱۶

انبياءعليه‌السلام : انبياءعليه‌السلام كا راستہ ۱۳

انسان: انسان كى امداد۶; انسان كا عاجز ہونا ۶; انسانى ضروريات ۴; انسانوں كى ہدايت ۹

ايمان: اللہ پر ايمان ۸; اللہ كى صفات پر ايمان ۸; ايمان كا متعلق ۸

توحيد : توحيد عبادى ۷

توحيد پرست : توحيد پرستوں كى آرزو ۹; توحيد پرستوں كى خواہشات ۱

توفيقات: ہدايت كى توفيق۶

حديث :۱۲،۱۳،۱۴،۱۵،۱۶

حمد: اللہ كى حمد ۳

خدا تعالى : اللہ كى امداد كے اثرات ۶; ہدايت الہى ۴

دعا: دعا كے اثرات ۱۱;دعا كے آداب ۳; دعا كى اہميت ۲،۱۱

____________________

۱) مجمع البيان ج/۱ص۱۰۴، نورالثقلين ج/ ۱ ص۲۰ ح ۸۷_

۲) معانى الاخبار ص ۳۲ ح ۲ ، نورالثقلين ج/ ۱ ص ۲۱ ح ۹۴_

۳۳

صراط مستقيم : صراط مستقيم سے كيا مراد ہے ۷،۸،۱۳،۱۴، ۱۵،۱۶

مددطلب كرنا : اللہ سے مدد طلب كرنا ۵،۷

ضروريات: ہدايت كى ضرورت ۴

عبوديت: عبوديت كا اظہار ۳

قرآن كريم: قرآن كى فضيلت ۱۵

نعمت : نعمتيں جن كے شامل حال ہيں ۱۳

ہدايت: صراط مستقيم كى ہدايت ۱،۲،۵،۶،۹; ہدايت كى اہميت ۱۲; ہدايت كى درخواست ۱،۵،۱۲; ہدايت كے اسباب ۶،۱۱; ہدايت كے درجات ۱۰;

صِرَاطَ الَّذِينَ أَنعَمْتَ عَلَيهِمْ غَيرِ المَغضُوبِ عَلَيهِمْ وَلاَ الضَّالِّينَ ( ۷ )

جو ان لوگوں كا راستہ ہے جن پر تو نے نعمتيں نازل كى ہيں ان كا راستہ نہيں جن پر غضب نازل ہوا ہے يا جو بہكے ہوئے ہيں _

۱_ قرآن كريم ميں انسانوں كو مختلف طبقات ميں تقسيم كيا گيا ہے ايك وہ ہيں جو ہدايت پر ثابت قدم ہيں اور دوسرے وہ جو گمراہ اور بارگاہ ايزدى ميں غضب كا شكار ہيں _

صراط الذين انعمت عليهم غير المغضوب عليهم و لا الضالين

''انعمت عليہم'' سے پہلے اور بعد والى آيات كے قرينے كى بناپر انعمت سے مراد ہدايت كى نعمت ہے نہ كہ مادى نعمتيں _ ان نعمات سے تمام مخلوقات حتى كافر بھى بہرہ مند ہيں _

۲_ بعض انسان اللہ تعالى كى خصوصى ہدايت سے بہرہ

۳۴

مند ہيں اور ہدايت كے اعلى مراتب و مراحل كے حامل ہيں _صراط الذين انعمت عليهم

جيسا كہ بيان ہوا ہے ''نعمت'' سے مراد ہدايت كى نعمت ہے جبكہ ہدايت كى دعا مانگنے والے خود ہدايت يافتہ ہيں لہذا يہاں مراد خاص ہدايت ہے_

۳_ صراط مستقيم كى ہدايت اللہ تعالى كى عظيم نعمتوں ميں سے ايك ہے_صراط الذين انعمت عليهم

يہاں نعمت مطلق بيان ہوئي ہے پس اس سے ہدايت كى نعمت كا ارادہ كرنا اس بات كى دليل ہے كہ متكلم ہدايت كى نعمت كے مقابل ديگر نعمتوں كو نعمت تصور نہيں كرتا اور يہ چيز حكايت كرتى ہے كہ ہدايت كى نعمت بہت ہى عظيم ہے_

۴_ بعض ہدايت يافتہ لوگ ہدايت پر ثابت قدم نہ رہے اور غضب شدہ اورگمراہ افراد ميں سے قرار پائے_

صراط الذين انعمت عليهم غير المغضوب عليهم و لا الضالين

مذكورہ مطلب اس بناپرہے كہ''غير المغضوب'' ،''الذين انعمت'' كے لئے ايك احترازى صفت ہے_ بنابريں جن كو نعمت دى گئي يعنى ہدايت يافتہ افراد كے تين گروہ ہيں ۱ _ وہ ہدايت يافتہ افراد جو ہدايت سے ہاتھ دھوبيٹھے اور ''مغضوبين'' ميں سے قرار پائے ۲_ وہ افراد جو وسط راہ سے گم ہوگئے اور '' ضالين'' ميں سے قرار پائے ۳_ وہ ہدايت يافتہ انسان جو صراط مستقيم پر آخر تك ثابت قدم رہے_

۵_ ہدايت يافتہ افراد كے لئے يہ خطرہ موجود ہے كہ وہ بھى غضب شدہ اورگمراہ افراد كے زمرے ميں آجائيں _

صراط الذين انعت عليهم غير المغضوب عليهم و لا الضالين

۶_ اللہ تعالى كى يكتائي كے قائل خداپرست انسان چاہتے ہيں كہ وہ ہدايت پر ثابت قدم انسانوں ميں سے ہوں _

الحمدلله اهدنا الصراط المستقيم _ صراط الذين انعمت عليهم

۷_ '' صراط مستقيم'' خدا كى طرف جانے والا راستہ ہے جس ميں كجى اور انحراف ہرگز نہيں پايا جاتا_

اهدنا الصراط المستقيم _ صراط الذين انعمت عليهم

'' غير المغضوب ...'' سے'' الذين ...'' كى صفت بيان كرنا اس بات كى طرف اشارہ ہے كہ ''صراط الذين ...'' ايسا راستہ ہے جس ميں انحراف اور كجى ہرگز نہيں ہوسكتى اور اسى راستے كو صراط مستقيم كہتے ہيں كيونكہ''صراط الذين'' ،''الصراط المستقيم '' كے لئے عطف بيان ہے_

۸_ ہدايت يافتہ انسانوں كے عملى نمونے صراط مستقيم كے حصول اور اس پر گامزن رہنے ميں انتہائي اہم كردار كے حامل ہيں _اهدنا الصراط المستقيم _ صراط الذين انعمت عليهم

۳۵

صراط مستقيم كو چونكہ ہدايت يافتہ انسانوں كى راہ سے تفسير و تعبير كيا گيا ہے اس لئے كہاجاسكتاہے كہ صراط مستقيم كے حصول كے لئے انسان عملى نمونوں كا محتاج ہے_ پس ضرورت ہے كہ ان سالكان راہ كى تلاش كرے اور ان كى پيروى كرے_

۹_جن كو نعمات سے نوازا گيا ہے( ہدايت يافتہ انسان) وہ ايسے لوگ ہيں جن پر اللہ كا غضب نہيں ہوا اور نہ ہى وہ گمراہ ہوئے_صراط الذين انعمت عليهم غير المغضوب عليهم و لا الضالين يہ مطلب اس طرح حاصل ہوتاہے كہ اگر '' غير المغضوب'' ، ''الذين'' كے لئے توضيحى صفت ہو يا بدل اور يا عطف بيان ہو_

۱۰_عن جعفر بن محمد عليه‌السلام قال: قول الله عزوجل فى الحمد''صراط الذين انعمت عليهم'' يعنى محمداً وذريته صلوات الله عليهم (۱) امام صادقعليه‌السلام سے روايت ہے كہ آپعليه‌السلام نے فرمايا: ''صراط الذين انعمت عليہم'' سے سورہ حمد ميں مراد حضرت محمد (ص) اور آپ (ص) كى ذريتعليه‌السلام ہيں _

۱۱_ امام رضاعليه‌السلام سے روايت ہے كہ آپعليه‌السلام نے فرمايا:غير المغضوب عليهم

استعاذة من ان يكون من المعاندين الكافرين المستخفين به و بامره و نهيه .(۲) غير المغضوب عليہم سے مراد اللہ كى پناہ طلب كرنا اس سے كہ انسان دشمنوں اور كافروں ميں سے ہو جو اللہ كو اہميت نہيں ديتے اور اللہ كے امر و نہى كو ہلكا سمجھتے ہيں _

استعاذہ: اللہ تعالى كى پناہ مانگنا ۱۱; پناہ طلب كرنے كے موارد ۱۱

اللہ تعالى : اللہ كى نعمتيں ۳; اللہ كے اوامر كو ہلكا سمجھنا ۱۱; اللہ تعالى كى خاص ہدايت۲;اللہ تعالى كى ذات اقدس كو سبك تصور كرنا ۱۱; اللہ تعالى كے نواہى كو ہلكا سمجھنا ۱۱

انحراف : انحراف كى ركاوٹيں ۷

انسان : انسانوں كى قسميں ۱

اہل بيتعليه‌السلام : اہل بيتعليه‌السلام كے فضائل ۱۰

پيامبر اسلام (ص) : آپ (ص) كے فضائل۱۰;جن پر خدا كا غضب نازل ہوا ۱،۴،۵

____________________

۱) معانى الاخبار ص ۳۶ ح ۷ ، نورالثقلين ج/۱ ص ۲۳ ح ۱۰۱_

۲) من لا يحضرہ الفقيہ ج/۱ ص۲۰۴ ح ۱۲ ، نورالثقلين ج/ ۱ ص ۲۴ ح ۱۰۸_

۳۶

توحيد پرست: توحيد پرستوں كى خواہشات ۶

حديث :۱۰،۱۱

صراط مستقيم: صراط مستقيم سے كيا مراد ہے ۱۰; صراط مستقيم كى خصوصيات ۷

گمراہ افراد :۱

معاشرتى طبقات :۱،۲

مغضوبان خدا : ۱ ، ۴، ۵

نعمت : ۹ ،۱۰

ہدايت: صراط مستقيم كى ہدايت ۳،۸;ہدايت ميں ثابت قدم انسان۱; ہدايت ميں ثابت قدمي۶ ; ہدايت ميں نمونے كى پيروى كرنا ۸; ہدايت كى درخواست ۶; ہدايت كى نعمت ۳; ہدايت كے درجات ۲;

ہدايت يافتہ انسان: ۲ ہدايت يافتہ انسانوں كى خصوصيات۹; ہدايت يافتہ انسانوں كى گمراہى كا خطرہ ۴،۵;

۳۷

سوره بقره

بِسْمِ اللّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ

الم ( ۱ )

عظيم اور دائمى رحمتوں والے خدا كے نام سے _

۱_عن على بن الحسين عليه‌السلام فى دعاء له : الهى و سيدى قلت: '' الم ذلك الكتاب لا ريب فيه ...'' ثنيت بالكتاب مع القسم الذى هو اسم من اختصصته لوحيك و استودعته سرّ غيبك (۱)

امام سجادعليه‌السلام سے روايت ہے كہ آپعليه‌السلام نے ايك دعا كے ضمن ميں بارگاہ رب الارباب ميں عرض كيا: اے ميرے معبود ، اے ميرے آقا تو نے فرماياہے الم ذلك الكتاب تو نے اپنى كتاب كى تعريف اس قسم كے ساتھ كى ہے جو نام ہے اسكا جسكو تو نے اپنى وحى كےساتھ مخصوص كيا اور اسكو تو نے اپنے غيب كا راز وديعت فرمايا

____________________

۱) بحار الانوار ج/۸۸ ص۷،۸ ح۳،نورالثقلين ج/۲ ص۰۲۹۱

۳۸

۲_ امام صادقعليه‌السلام سے روايت ہے آپعليه‌السلام نے فرمايا:''الم'' رمز و اشارة بينه و بين حبيبه محمد (ص) ا راد ان لا يطلع عليه سواهما ..(۱) '' الم'' اللہ اور اسكے حبيب محمد (ص) كے درميان رمز اور اشارہ ہے_ اللہ نے چاہا كہ اس راز سے فقط وہ اور اسكا حبيب ہى آگاہ رہيں _

۳_ سفيان ثورى كہتے ہيں : ''قلت لجعفر بن محمد عليه‌السلام يابن رسول الله ما معنى قول الله عزوجل الم قال عليه‌السلام اما '' الم'' فى اول البقرة فمعناه انا الله الملك (۲)

ميں نے امام صادقعليه‌السلام سے سوال كيا اے فرزند رسول (ص) يہ فرمائيں كہ اللہ كے اس قول '' الم '' كا كيا معنى ہے؟ آپعليه‌السلام نے فرمايا سورة بقرہ كے شروع ميں ''الم'' كامعنى يہ ہے ميں اللہہى بادشاہ_

۴_امام صادقعليه‌السلام سے روايت ہے آپعليه‌السلام نے فرمايا:

''الم'' هو حرف من حروف اسم الله الاعظم المقطع فى القرآن الذى يؤلفه النبى و الامام فاذا دعا به اجيب (۳) ''الم'' اللہ تعالى كے اسم اعظم كے حروف ميں سے ايك ہے جو مقطع صورت ميں قرآن ميں آياہے_ اس كو نبى (ص) اور امامعليه‌السلام تاليف كرتے ہيں اور جب اسكے ذريعے دعا كرتے ہيں تو مستجاب ہوتى ہے_

۵_ آئمہ ہدى (عليہم السلام) سے روايت ہے_'' ان الحروف المفتحة بها السور من المتشابهات التى استاثر الله تعالى بعلمها و لا يعلم تاويلها الا هو (۴) حروف ( مقطعہ) جن سے سورتوں كا آغاز ہوتاہے متشابہات ميں سے ہيں جن كا علم اللہ تعالى نے اپنے ساتھ مختص فرماياہے ان كى تاويل اسكے علاوہ كوئي اور نہيں جانتا_

اللہ تعالى : اللہ تعالى كا اسم اعظم ۴; اللہ تعالى كى سلطنت ۳

پيامبر اسلام(ص) : اللہ اور پيامبر خدا (ص) كے درميان رموز ۱،۲

حديث: ۱،۲،۳،۴،۵

حروف مقطعہ ۱: حروف مقطعہ كا علم ۵; حروف مقطعہ كا فلسفہ ۱،۲،۴

قرآن كريم: قرآن كے متشابہات۵

____________________

۱) بحار الانوار ج/ ۸۹ ص ۳۸۴_ ۲) معانى الاخبار ص۲۲ ح۱، نورالثقلين ج /۱ص ۲۶ ح ۴_ ۳) معانى الاخبار ص۲۳ ح۲ ، نورالثقلين ج/۱ص۲۶ ح۵_

۴) مجمع البيان ج/۱ ص۱۱۲ ، نور الثقلين ج / ۱ ص۳۰ح۸_

۳۹

ذَلِكَ الْكِتَابُ لاَ رَيْبَ فِيهِ هُدًى لِّلْمُتَّقِينَ ( ۲ )

يہ وہ كتاب ہے جس ميں كسى طرح كے شك و شبہہ كى گنجائش نہيں ہے_ يہ صاحبان تقوى اور پرہيزگار لوگوں كے لئے مجسم ہدايت ہے _

۱_ قرآن كريم كامل ترين اور باعظمت كتاب ہے_ذلك الكتاب

''ذلك'' مبتداء اور '' الكتاب'' خبر ہے_ اس اعتبار سے '' ال'' صفات كے استغراق كے لئے آياہے اور كمال پر دلالت كرتاہے_

۲_ آيات قرآن كى كتابت اور تدوين آنحضرت (ص) پر نزول كے بعد ہوئي _ذلك الكتاب

كتاب ( لكھا ہوا يا تحرير شدہ) كا قرآن حكيم پر اطلاق ،اسكى جہات مختلف ہوسكتى ہيں ۱_ آيات نازل ہونے كے بعد لكھى جاتى تھيں ۲_ پروردگار كى طرف سے تاكيد ہو كہ انہيں تحرير كيا جائے۳_ تحرير شدہ صورت ميں آنحضرت (ص) پر نازل ہوئيں _ مذكورہ بالا مطلب پہلے اور دوسرے احتمال كى بناپر ہے_

۳_ قرآن حكيم ايك انتہائي مستحكم كتاب ہے اور ہر اس چيز سے پاك و منزہ ہے جو اس كى حقانيت ميں ترديد اور شبہہ پيدا كرے_لا ريب فيه ريب كا معنى شك اور وہ چيز ہے جو شك كا باعث بنے _ مذكورہ بالا مطلب اسكے دوسرے معنى سے ماخوذ ہے_ پس '' لاريب فيہ'' كا مطلب يہ ہے كہ قرآن كريم ميں كوئي ايك مسئلہ بھى ايسا نہيں كہ جو اس كى حقانيت ميں شك و ترديد كا سبب بنے_

۴_ قرآن حكيم متقى اور پرہيزگار انسانوں كى ہدايت و تربيت كى پورى صلاحيت ركھتاہے يہى چيز قرآن كريم كے استحكام اور حقانيت كى دليل ہے_لا ريب فيه هدى للمتقين

''هدى للمتقين'' ،''لا ريب فيه'' كے لئے دليل كى حيثيت ركھتاہے_

۵_ قرآن حكيم اہل تقوى كو اعلى ترين مدارج كى طرف ہدايت اور راہنمائي كرنے والى كتاب ہے_

هدى للمتقين

۶_ ہدايت كے مختلف درجات اور مراحل ہيں _هدى للمتقين

بعد والى آيات ميں جو صفات بيان ہوئي ہيں خصوصاً آية مباركہ ۵ (اولئك على هديً )

۴۰

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

لیکن قول حق یہی ہے کہ یہ تینوں آیتیں نسخ نہیں ہوئیں کیونکہ ان آیات کی تصریح کے مطابق رسول اللہ (ص) کو اس صورت میں اجازت دینے سے روکا جا رہا ہے اور سرزنش کی جا رہی ہے جب سچے اور جھوٹے میں تمیز نہ کی جا سکے اور اللہ تعالیٰ نے بھی یہ فرما دیا ہے کہ جو لوگ قرآن نہیں لائے ، وہ جنگ سے فرار ہونے کے بہانے تلاش کرتے ہیں اور آپ (ص) سے جنگ میں نہ جانے کی اجازت مانگتے ہیں نیز رسول اللہ (ص) کو حکم دیا ہے کہ اس وقت تک نہ جانے کی اجازت نہ دیں جب تک ان کی صحیح صورتحال معلوم نہ ہو جائے لیکناگر مسلمانوں کی صحیح صورتحال معلوم ہو جائے تو خدا نے مسلمانوں کو اجازت دی ہے کہ وہ اپنی ضروریات کیلئے رسول اللہ (ص) سے اجازت لیں اور رسول اللہ (ص) کو بھی انہیں رخصت دینے کا مجاز قرار دیا ہے۔

معلوم ہوا ان دونوں آیتوں میں کسی قسم کی منافات نہیں پائی جاتی تاکہ ایک دوسری کیلئے ناسخ بن سکے۔

۲۶۔( مَا كَانَ لِأَهْلِ الْمَدِينَةِ وَمَنْ حَوْلَهُم مِّنَ الْأَعْرَابِ أَن يَتَخَلَّفُوا عَن رَّسُولِ اللَّـهِ وَلَا يَرْغَبُوا بِأَنفُسِهِمْ عَن نَّفْسِهِ ۚ ) ۹:۱۲۰

''مدینہ کے رہنے والوں اور ان کے گردونواح کے دیہاتیوں کو یہ جائز نہ تھا کہ رسول(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) خدا کا ساتھ چھوڑ دیں اور نہ یہ جائز تھا کہ رسول کی جان سے بے پرواہ ہو کر اپنی جانوں کے بچانے کی فکر کریں،،۔

ابن زید سے منقول ہے کہ یہ آیت اس آیت کے ذریعے نسخ ہو گئی ہے(۱)

( وَمَا كَانَ الْمومنونَ لِيَنفِرُوا كَافَّةً ۚ ) ۹:۱۲۲

''اور یہ (بھی) مناسب نہیں کہ مومنین کل کے کل (اپنے گھروں سے) نکل کھڑے ہوں،،۔

لیکن حق یہی ہے کہ یہ آیت نسخ نہیں ہوئی کیونکہ دوسری آیت تک ایک قرینہ ہے جو آیہ اول سے متصل ہے اور یہ آیہ اول کا مطلب بیان کر رہی ہے۔

____________________

(۱) الناسخ و المنسوخ للخاس ، ص ۸۷ قرطبی نے اس قول کی نسبت مجاہد کی طرف بھی دی ہے ، ج ۸ ، ص ۳۹۲

۴۶۱

دونوں آیات کا مفہوم یہ ہے کہ بطور واجب کفائی صرف بعض مسلمانوں پر واجب ہے کہ وہ جنگ میں جائیں اس طرح دوسری آیت ، پہلی آیت کیلئے ناسخ نہیں بنے گی۔

ہاں ! اگر کسی خاص موقع پر کسی ضرورت کا یہ تقاضا ہو کہ تمام مسلمان جہاد کیلئے روانہ ہوں یا حاکم شرع سب کو جہاد پر جانے کا حکم دے یا کسی او وجہ سے سب کا جہاد پر جانا ضروری ہو جائے تو اس ضرورت کو پورا کریں یہ عمومی جہاد ، وہ جہاد نہیں جو اسلام میں بطور واجب کفائی مسلمانوں پر واجب ہے بلکہ یہ ایک جداگانہ حکم ہے جوب عض مخصوص حالات میں ثابت ہے یہ دونوں حکم اپنے طور پر مستقل ثابت ہیں اور ایک دوسرے کا ناسخ نہیں ہے:

۲۷۔( وَاتَّبِعْ مَا يُوحَىٰ إِلَيْكَ وَاصْبِرْ حَتَّىٰ يَحْكُمَ اللَّـهُ ۚ وَهُوَ خَيْرُ الْحَاكِمِينَ ) ۱۰۔۱۰۹

''اور (اے رسول(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) ) تمہارے پاس جو وحی بھیجی جاتی ہے تم بس اسی کی پیروی کرو اور صبر کرو یہاں تک کہ خدا (تمہارے اور کافروں کے درمیان) فیصلہ فرمائے اور وہ تمام فیصلہ کرنے والوں سے بہتر ہے،،۔

ابن زید کی رائے یہ ہے کہ یہ آیت ، آیہ جہاد (جس میں کفار پر سختی کرنے کا حکم دیا گیا ہے ) کے ذریعے نسخ ہو گئی ہے(۱) گزشتہ آیات کے بارے میں ہمارے بیان سے اس آیت کے نسخ کا دعویٰ بھی باطل ثابت ہو جاتا ہے ان بیانات کو یہاں دہرانے کی ضرورت نہیں ہے۔

کسی دلیل سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ آیت میں صبر سے مراد کفار کے مقابلے میں صبر ہو (یعنی ان سے جنگ نہ کی جائے) البتہ اس آیت میں مطلق صبر کا حکم دیا جا رہا ہے جو کفار کے مقابلے میں صبر کو بھی شامل ہے ۔

بنا برایں زیر بحث آیہ شریفہ میں نسخ کے دعویٰ کی کوئی وجہ نہیں۔

____________________

(۱) الناسخ و المنسوخ للخاس ، ص ۱۷۸

۴۶۲

۲۸۔( فَاصْدَعْ بِمَا تُؤْمَرُ وَأَعْرِضْ عَنِ الْمُشْرِكِينَ ) ۱۵:۹۴

''اور قیامت یقیناً ضرور آنے والی ہے تو تم (اے رسول(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم)) ان کافروں سے شائستہ عنوان کے ساتھ درگزر کرو،،۔

ابن عباس ، سعید اور قتادہ کا عقیدہ یہ ہے کہ یہ آیت ، آیہ سیف کے ذریعے نسخ ہو گئی ہے۔

لیکن یہ حقیقت پوشیدہ نہیں کہ ''صفح،، (چشم پوشی) سے مراد یہ ہے کہ آپ (ص) ان اذیتوں اور تکلیفوں سے درگزر کریں جو تبلیغ شریعت کی راہ میں مشرکین کی طرف سے دی جاتی تھیں اس آیت کا راہ خدا میں قتال وجہاد سے کوئی ربط و تعلق نہیں اس امر کی تائید بعد والی آیت سے بھی ہوتی ہے جس میں اللہ تعالیٰ کافرمان ہے:

( فاصدع بما تومر و اعرض عن المشرکین) ۱۵:۹۴

پس جس کا تمہیں حکم دیا گیا ہے اسے واضح کر کے سنا دو اور مشرکین کی طر ف سے منہ پھیر لو،،۔

( إِنَّا كَفَيْنَاكَ الْمُسْتَهْزِئِينَ ) : ۹۵

''جو لوگ تمہاری ہنسی اڑاتے ہیں ہم تمہاری طرف سے ان کیلئے کافی ہیں،،۔

آیہ کریمہ کا خلاصہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس میں رسول اللہ (ص) کو اوامرالٰہی کی تبلیغ اور اسلام کے نشرو اشاعت کی تشویق و ترغیب دلائی ہے اور آپ (ص) کو تسلی دی ہے کہ اس سلسلے میں آپ (ص) مشرکین کی اذیت اور ان کے تمسخر کی پروا تک نہ کریں۔

یہ ایک جداگانہ حکم ہے اور اس کا اس بات سے کوئی تعلق نہیں کہ جب اسلام کی حجت مکمل ہو اور مسلمانوں کی کثرت سے تقویت حاصل ہو تو کفارسے جہاد کریں۔

۴۶۳

ہاں ! یہ بات مسلم ہے کہ رسول اللہ (ص) کو اسلام کے آغاز ہی میں قتال و جہاد کا حکم نہیں دیا گیا کیونکہ اس وقت معجزہ اور دوسرے غیر معمولی اقدامات کے علاوہ عام مادی وسائل و اسباب کے بل پر کفار سے جنگ کرنے کی قدرت حاصل نہ تھی لیکن جب قدرت حاصل ہوئی اور مسلمانوں میں اتنی طاقت اور کثرت آ گئی جس سے کفار کا مقابلہ کیا جا سکے تو آپ (ص) کو جہاد کا حکم دیا گیا۔ اس سے قبل بھی یہ حقیقت بیان کی گئی ہے کہ احکام اسلام تدریجاً نافذ کئے گئے ہ یں جو نسخ نہیں کہلاتا۔

۲۹۔( وَمِن ثَمَرَاتِ النَّخِيلِ وَالْأَعْنَابِ تَتَّخِذُونَ مِنْهُ سَكَرًا وَرِزْقًا حَسَنًا ۗ ) ۱۶:۶۷

''اور اسی خرمے اور انگور کے پھل سے (ہم تم کو شیرہ پلاتے ہیں) جس کی (کبھی تو ) شراب بنا لیا کرتے ہو اور (کبھی) اچھی روزی (سرکہ وغیرہ)

قتادہ ، سعید بن جبیر ، شعبی ، مجاہد ، ابراہیم اور ابورزین کا عقیدہ ہے کہ یہ آیت ، اس آیت کے ذریعے نسخ ہو گئی ہے جس میں شراب نوشی کو حرام قرار دیا گیا ہے(۱)

لیکن قول حق یہی ہے کہ باقی آیات کی طرح یہ آیت بھی محکم ہے (نسخ نہیں ہوئی) کیونکہ اس آیت کا نسخ ہونا دو چیزوں پر موقوف ہے:

( i ) ''سکر،، سے مراد نشہ آور شراب ہو لیکن نسخ کے قائلین یہ ثابت نہیں کر سکتے کہ آیت میں ''سکر،، سے مراد نشہ آور شراب ہے کیونکہ ''سکر،، کے معانی میں سے ایک معنی ''سرکہ،، بھی ہے چنانچہ مشہور مفسر علی بن ابراہیم نے اپنی تفسیر میں ''سکر،، کے اسی معنی (سرکہ) کا ذکر کیا ہے(۲) بنا برایں ''رزق حسن،، سے مراد سرکہ اور اس قسم کے دیگر لذیذ کھانے ہوں گے نشہ آور شراب نہیں تاکہ آیہ تحریم خمر کے ذریعے یہ آیت نسخ ہو جائے۔

____________________

(۱) الناسخ و المنسوخ للخاس، ص ۱۸۱

(۲) تفسیر برہان، ج ۱، ص ۵۷۷

۴۶۴

( ii ) آیہ کریمہ مسکر (نشہ آور چیز) کے مباح ہونے پر دلالت کرے تاکہ دوسری آیت ''مسکر،، کو حرام قرار دے اور پہلی آیت کیلئے ناسخ قرار پائے۔

لیکن نسخ کا قائل اس مطلب کو بھی ثابت نہیں کر سکتا کیونکہ اس آیہ کریمہ میں ایسے کام اور واقعہ کی خبر دی جارہی ہے جسکو عام لوگ انجام دیتے تھے۔ اس آیت سے یہ نہیں سمجھا جاتا کہ اللہ تعالیٰ نے لوگوں کو اس کام کی اجامت بھی دی ہو۔

یہ آیت، اس آیت کے بعد نازل ہوئی ہے جس میں کائنات کے طول و عرض میں پھیلی ہوئی نشانیوں کے ذریعے خدائے واجب الوجود کو ثابت کیا گیا ہے، چنانچہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

( وَاللَّـهُ أَنزَلَ مِنَ السَّمَاءِ مَاءً فَأَحْيَا بِهِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِهَا ۚ إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَآيَةً لِّقَوْمٍ يَسْمَعُونَ ) ۱۶:۶۵

''اور خد ہی نے آسمان سے پانی برسایا تو اس کے ذریعہ سے زمین کو مردہ (پڑتی) ہونے کے بعد زندہ (شاداب) کیا کچھ شک نہیں کہ اس میں جو لوگ بستے، ان کے واسطے (قدرت خدا) بہت بڑی نشانی ہے۔،،

( وَإِنَّ لَكُمْ فِي الْأَنْعَامِ لَعِبْرَةً ۖ نُّسْقِيكُم مِّمَّا فِي بُطُونِهِ مِن بَيْنِ فَرْثٍ وَدَمٍ لَّبَنًا خَالِصًا سَائِغًا لِّلشَّارِبِينَ ) : ۶۶

اور اس میں شک نہیں کہ چوپایوں میں بھی تمہارے لیے عبرت (کی بات) ہے کہ ان کے پیٹ میں (خاک ملا)گوبر اور خون (جو کچھ بھرا ہوا ہے) ا س میں سے ہم تم کو خالص دودھ پلاتے ہیں جو پینے والوں کے لیے خوشگوار ہے۔،،

( وَمِن ثَمَرَاتِ النَّخِيلِ وَالْأَعْنَابِ تَتَّخِذُونَ مِنْهُ سَكَرًا وَرِزْقًا حَسَنًا ۗ إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَآيَةً لِّقَوْمٍ يَعْقِلُونَ ) :۶۷

''اور اسی طرح خرمے اور انگور کے پھل سے (ہم تم کو شیرہ پلاتے ہیں) جس کی (کبھی تو) شراب بنالیا کرتے ہو اور (کبھی) اچھی روزی (سرکہ وغیرہ) اس میں شک نہیں کہ اس میں بھی سمجھ دار لوگوں کے لیے (قدرت خدا کی) بڑی نشانی ہے۔،،

۴۶۵

( وَأَوْحَىٰ رَبُّكَ إِلَى النَّحْلِ أَنِ اتَّخِذِي مِنَ الْجِبَالِ بُيُوتًا وَمِنَ الشَّجَرِ وَمِمَّا يَعْرِشُونَ ) :۶۸

''اور (اے رسول(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم)) تمہارے پروردگار نے شہد کی مکھی کے دل میں یہ بات ڈال دی کہ تو پہاڑوں اور درختوں اور لوگ جو اونچی اونچی ٹیٹاں (اور مکانات پاٹ کر) بناتے ہیں ان میں چھتّے بنا۔،،

( ثُمَّ كُلِي مِن كُلِّ الثَّمَرَاتِ فَاسْلُكِي سُبُلَ رَبِّكِ ذُلُلًا ۚ يَخْرُجُ مِن بُطُونِهَا شَرَابٌ مُّخْتَلِفٌ أَلْوَانُهُ فِيهِ شِفَاءٌ لِّلنَّاسِ ۗ إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَآيَةً لِّقَوْمٍ يَتَفَكَّرُونَ ) : ۶۹

''پھر ہر طرح کے پھلوں (کے بورے سے) ان کا چوس پھر اپنے پروردگار کی راہوں میں تابعداری کے ساتھ چلی جا مکھیوں کے پیٹ سے پینے کی ایک چیز نکلتی ہے (شہد) جس کے مختلف رنگ ہوتے ہیں اس میں لوگوں (کی بیماریوں) کی شفا (بھی) ہے اس میں شک نہیں کہ اس میں غور و فکر کرنے والوں کے واسطے (قدرت خدا کی) بہت بڑی نشانی ہے۔،،

اس آیت میں منجملہ آثار قدثرت میں سے ایک یہ ہے کہ خدا نے آسمان سے پانی نازل کیا اور اس سے مردہ زمین کو زندہ کردیا۔ اس کے بعد حیوانات کی خلقت میں تدبیر خداوندی کا بیان ہے اور یہ کہ اللہ تعالیٰ گوبر اور خون کے درمیان سے خالص دودھ پیدا کرتا ہے۔ پھر یہ بیان ہے کہ اللہ تعالیٰ نے کھجور اور انگور میں وہ صلاحیت پیدا کی جس کے ذریعے لذیذ چیزوں سے نشہ آور اشیاء بنائی جاسکتی ہےں اور باقی پھلوں میں یہ امتیاز صرف کھجور اور انگور کو حاصل ہے۔

اس کے بعد شہد کی مکھی کے ان حیرت انگیز کارناموں کا ذکر فرمایاجنہیں سن اور دیکھ کر وہ صاحبان عقل دنگ رہ جاتے ہیں جو شہد بنانے کے طریقوں اور اس کی خصوصیات سے آگاہ ہوتے ہیں اور یہ کہ شہد کی مکھی یہ سب کچھ خدا کی وحی اور الہام کے ذریعے انجام دیتی ہے۔

۴۶۶

پس معلوم ہوا ہے کہ اس آیت میں مسکر کو مباح و حلال قرار دینے کی کوئی دلیل نہیں۔ اس کے علاوہ اسی آیت میں اس بات کی طرف اشارہ موجود ہے کہ (بفرض تسلیم سکر سے مراد نشہ آور چیز بھی ہو تو) نشہ آور چیز کو پینا جائز نہیں اس لیے کہ نشہ آور چیز کو رزق حسن کے مقابلے میں پیش کیا گیا ہے۔ اس سے یہ بات ہوتا ہے کہ نشہ آور چیز کا شمار رزق حسن میں نہیں ہوتا اس لیے یہ مباح بھی نہیں ہوگا۔

اہل بیت اطہار (ع) کی روایات بھی اس پر دلالت کرتی ہیں کہ شراب نوشی کسی وقت اور زمانے میں حلال نہیں تھی۔ چنانچہ شیخ صدوق اپنی سند کے ذریعے محمد بن مسلم سے روایت کرتے ہیں:

''قال: سئل ابو عبد الله علیه السلام عن الخمر فقال: قال رسول الله ان اول ما نهانی عنه ربی عزوجل عبادة الاوثان و شرب الخمرٍ،،

''حضرت امام جعفر صادق(علیہ السلام) سے شراب کے بارے میں سوال کیا گیا تو آپ (ع) نے فرمایا: رسول اللہ نے فرمایا: پہلی چیز جس سے اللہ نے مجِھے منع فرمایا وہ بت پرستی اور شراب نوشی ہے۔۔۔،،

نیز ریان، امام رضا (علیہ السلام) سے نقل کرتے ہیں کہ آپ(ع) نے فرمایا:

قال : ما بعث الله نبیّا الا بتحریم الخمر،، (۱)

''اللہ تعالٰ نے جس نبی کو بھی بھیجا اسے حرمت شراب کا حکم دے کر بھیجا۔،،

____________________

(۱)البحار، ج ۱۶، ص ۱۸۔۲۰، باب حرمۃ شرب الخمر۔ وافی، ج ۱۱، ص ۷۹ میں اس کے لیے ایک مستقل باب مخصوص کیا گیا ہے۔

۴۶۷

اعجاز کی بحث میں بھی گزر چکا ہے کہ شراب کو تورات میں بھی حرام قرار دیا گیا ہے۔(۱) لیکن ایک حقیقت، جس میں کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں، یہ ہے کہ اسلام نے ایک عرصہ تک حرمت شراب کا اعلان نہیں کیا اور یہ بات صرف شراب سے مختص نہیں ہے، تمام احکامات پر اسی طریقے سے عمل کیا گیا ہے، ظاہر ہے اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں ہے کہ شراب پہلے حلال تھی اور بعد میں حرام قرار دی گئی۔

( الزَّانِي لَا يَنكِحُ إِلَّا زَانِيَةً أَوْ مُشْرِكَةً وَالزَّانِيَةُ لَا يَنكِحُهَا إِلَّا زَانٍ أَوْ مُشْرِكٌ ۚ وَحُرِّمَ ذَٰلِكَ عَلَى الْمومنينَ ) ۲۴:۳

''زنا کرنے والا مرد تو زنا کرنے والی ہی عورت یا مشرکہ سے نکایح کرے گا اور زنیا کرنے والی عورت بھی بس زنیا کرنے والے ہی مرد یا مشرک سے نکاح کرے گی اور سچے ایمانداروں پر تو اس قسم کے تعلقات حرام ہیں۔،،

سعید بن مسیّب اور بہت سے دیگر علماء کا عقیدہ یہ ہے کہ یہ آیت اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کے ذریعے نسخ ہو گئی ہے:

( وَأَنكِحُوا الْأَيَامَىٰ مِنكُمْ وَالصَّالِحِينَ مِنْ عِبَادِكُمْ وَإِمَائِكُمْ ۚ ) ۲۴:۳۲

''اوراپنی (قوم کی) بے شوہر عورتوں اور اپنے نیک بخت غلاموں اور لونڈیوں کا بھی نکاح کردیا کرو۔،،

آیہ اوّل کے مطابق زانی عورت سے وہی نکاح کرسکتا ہے جو خود زانی یا مشرک ہو۔ جب کہ دوسری آیت کیمطابق مطلق بے ہمسر مسلمان سے نکاح جائز ہے چاہے وہ زانی ہو یا نہ ہو۔ کیونکہ ''ایامیٰ،، (بے ہمسر) دونوں کو شامل ہے۔ اس طرح دوسری آیت پہلی آیت کے لیے ناسخ قرار پائے گی۔

لیکن حق یہی ہے کہ گذشتہ آیات کی طرح یہ آیت بھی نسخ نہیں ہوئی۔ کیونکہ اس آیت کا نسخ ہونا اس بات پر موقوف ہے کہ آیت میں نکاح سے مراد ازدواج ہو، اور کسی دلیل سے یہ ثابت نہیں کہ اس آیت میں نکاح سے مراد شادی یا ازدواج ہے۔

____________________

) ۱) اسی کتاب کے صفحہ ۵۶ کی طرف رجوع فرمائیں۔

۴۶۸

اس کے علاوہ اگر اس آیت میں نکاح سے مراد ازدواج ہو تو اس کا لازمی نتیجہ یہ ہوگا کہ زانی مسلمان کے لیے مشرک عورت سےشادی کرنا جائز ہے۔ اسی طرح یہ بھی لازم آتا ہے کہ مسلمان زانی عورت کے لیے مشرک مرد سے شادی کرنا جائز ہے اور یہ بات ظاہر کتابِ الہی اور سیرتِ مسلمین کے خلاف ہے

بنابرایں آیت سے یہی ظاہر ہوتا ہے کہ نکاح سے مراد مطلق ہمبستری ہے۔ چاہے جائز طریقے سے ہو یا زنا ہو۔ اس آیت میں جواز یا عدم جواز کا حکم بیان نہیں کیا جارہا بلکہ یہ ایک جملہ خبر یہ ہے۔ اس کے ذریعے حرمتِ زنا کی شدّت بیان کی جارہی ہے اور اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ زانی مرد صرف زانی عورت یا اس سے بھی پست، مشرک عورت سے زنا کرتاہے اسی طرح زانی عورت بھی صرف کسی زانی مرد یا اس سے بھی پست مشرک مرد سے زنا کرتی ہے۔ مومن انسان کبھی بھی اس قسم کے گناہوں کا مرتکب نہیں ہوتا کیونکہ زنا ایک حرام فعل ہے اور وہ حرام فعل انجام نہیں دیتا۔

( قُل لِّلَّذِينَ آمَنُوا يَغْفِرُوا لِلَّذِينَ لَا يَرْجُونَ أَيَّامَ اللَّـهِ ) ۴۵:۱۴

''(اے رسول(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم)) مومنوں سے کہدو کہ جو لوگ خدا کے دنوں کی (جو جزا کے لیے مقرر ہیں) توقع نہیں رکھتے ان سے درگزر کریں۔،،

بعض مفسرین کا یہ عقیدہ ہے کہ یہ آیت، آیہ سیف کے ذریعے نسخ ہوگئی ہے اس آیت کا شان نزول یوں بیان کرتے ہیں کہ یہ آیت مکی ہے اور یہ اس وقت نازل ہوئی جب ہجرت سے قبل مکّہ میں حضرت عمر بن خطاب کو کسی مشرک نے گالی دی اور اور ان کی توہین کی اور حضرت عمر اسے سزا دینا چاہتے تھے اس موقع پر اللہ تعالیٰ نے یہ ایت نازل فرمائی۔ لیکن بعد میں آیت، اس آیہ سیف کے ذریعے منسوخ ہوگئی:

( فَاقْتُلُوا الْمُشْرِكِينَ حَيْثُ وَجَدتُّمُوهُمْ ) ۹:۵

''تو مشرکوں کو جہاں پاؤ (بے تامّل) قتل کردو۔،،

۴۶۹

یہ حضرات اپنے دعویٰ کی دلیل کے طور پر اس روایت کو پیش کرتے ہیں جس کی روایت علیل بن احمد نے محمد بن ہاشم سے، اس نے عاصم بن سلیمان سے، اس نے جویبر سے اس نے ضحاک سے او ضحاک نے ابن عباس سے کی ہے۔(۱)

لیکن یہ روایت ہے بہت ضعیف ہے، اس کا سب سے معمولی اور کمزور پہلو یہ ہے کہ اس کے سلسلہئ سند میں عاصم بن سلیمان شامل ہے جو بہت بڑا جھوٹا اور جعل ساز راوی ہے۔(۲) اس کے علاوہ یہ روایت متن کے اعتبار سے

بھی کمزور اور ناقابل عمل ہے۔ کیونکہ ہجرت سے پہلے مسلمان کمزور تھے اورایسے حالات میں حضرت عمر کے لیے یہ کیسے ممکن تھا کہ وہ اس مشرک سے انتقال لیتے۔ نیز اس روایت میں لفظ ''غفران،، استعمال ہوا ہے۔ یہ لفظ ایسے مقام ہر استعمال کیاجاتا ہے جہاں کوئی انتقال لینے پر قادر ہو لیکن چشم پوشی اور درگزر کرے اور یہ مسلّم ہے کہ ہجرت سے قبل حضرت عمر کے لیے یہ ممکن نہ تھا۔ اس لیے کہ اگر حضرت عمر انتقام لیتے تو مشرک بھی جوابی کارروائی کرتا۔

پس حق یہی ہے کہ یہ آیت محکم ہے (نسخ نہیں ہوئی) آیہ شریفہ کے مطلب یہ ہے کہ جو لوگ آخرت کی امید نہیں رکھتے ان کی طرف سے اگر تمہیں ذاتی طور پر کوئی اذیت پہنچے اور تمہاری توہین کی جائے تو تمہیں اسے درگزرکردینا چاہیے، اس حقیقت پر یہ آیت بھی دلالت کرتی ہے:

( لِيَجْزِيَ قَوْمًا بِمَا كَانُوا يَكْسِبُونَ ) ۴۵:۱۴

''تاکہ وہ لوگوں کے اعمال کا بدلہ دے۔،،

____________________

(۱) الناسخ و المنسوخ للخاس، ص ۲۱۸

(۲) اس کے بارے میں ابن عدی کا کہنا ہے کہ یہ شخص من گھڑت احادیث وضع کرنے والوں میں سے ایک ہے، اور یہ کہ اس کی اکثر احادیث متن اور سند کے اعتبار سے متزلزل ہیں۔

۴۷۰

( مَنْ عَمِلَ صَالِحًا فَلِنَفْسِهِ ۖ وَمَنْ أَسَاءَ فَعَلَيْهَا ۖ ثُمَّ إِلَىٰ رَبِّكُمْ تُرْجَعُونَ ) : ۱۵

''جو شخص نیک کام کرتا ہے تو خاص اپنے لیے اور برا کام کرے گا تو اس کا وبال اسی پر ہوگا پھر (آخر) تم اپنے پروردگار کی طرف لوٹا ئے جاؤگے۔،،

پس اس آیت سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ جو آدمی روز آخرت کا امیدوار نہیں، چاہے وہ مشرک، اہل کتاب یا مسلمان ہو، جو اپنے دین کا صحیح پابند نہی، اس کے بُرے اعمال اور زیادتیوں کی سزا خدا کے ہاتھ میں ہے۔ کوئی ظالم، ظلم کرکے خدا سے بچ نہیں سکتا لہذا مسلمان اور مومن کو چاہےے کہ وہ ظالموں سے انتقام لینے میں جلد بازی نہ کرے، اس لیے کہ خدا کا انتقام، مظلوم کے انتقام سے زیادہ سخت ہے، یہ ایک اخلاقی اور تادیبی حکم ہے اور یہ دعوتِ اسلام یا کسی اور ضرورت کی خاطر کفار سے قتال و جہاد کے منافی نہیں ہے۔ اس لحاظ سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ یہ آیت، آیہ سیف سے پہلے نازل ہوئی ہو یا اس کے بعد نازل ہوئی ہو۔

( فَإِذَا لَقِيتُمُ الَّذِينَ كَفَرُوا فَضَرْبَ الرِّقَابِ حَتَّىٰ إِذَا أَثْخَنتُمُوهُمْ فَشُدُّوا الْوَثَاقَ فَإِمَّا مَنًّا بَعْدُ وَإِمَّا فِدَاءً ) ۴۷:۴

'' تو جب تم کافروں سے بھڑو تو (ان کی) گردنیں مارو یہاں تک کہ جب انہیں زحموں سے چور کر ڈالو تو ان کی مشکیں کس لو پھر اس کے بعد یا تو احسان رکھ کر چھوڑ دینا یا معاوضہ لے کر رہا کرنا۔

علماء کی ایک جماعت کا عقیدہ ہے کہ یہ آیت، آیہ سیف کے ذریعے نسخ ہوگئی ہے اور بعض کا خیال ہے کہ آیہ سیف، اس آیت کے ذریعے نسخ ہوئی ہے۔(۱)

لیکن قول حق یہی ہے کہ یہ آیت ناسخ ہے اور نہ منسوخ۔ البتہ اس مسئلے کی تحقیق مزید تفیصل کی متقاضی ہے۔

____________________

(۱) الناسخ و المنسوخ للخاس، ص ۲۲۰۔

۴۷۱

مسلمانوں سے برسر پیکار کفار کے احکام

شیعہ امامیہ میں یہ حکم مشہور ہے کہ مسلمانوں سے برسرپیکار کفار جب تک اسلام نہ لے آئیں، مکمل شکست سے دوچار نہ ہوجائیں اور زیادہ تعداد میں مارے جانے کی وجہ سے عاجز نہ آجائیں، وہ واجب القتل ہیں۔ صرف اسیری کی وجہ سے کافر کا قتل ساقط نہیں ہوتا۔ اگر کافر مسلمان ہوجائے تو قتل کا موضوع ہی برطرف ہوجاتا ہے کیونکہ موضوع قتل، کفر ہے۔

اسی طرح کفار کی مکمل شکست کے بعد ان کا قتل ساقط ہوجاتا ہے۔ کیونکہ آیت میں اس موقت تک کفار کو قتل کرنے کا حکم دیا گیا ہے جب تک انہیں شکست نہ ہوجائے البتہ قتل کے ساقط ہو نے کے بعد حاکم شرع کو اختیار ہے کہ چاہے تو پکڑے جانے والے کافروں کو اسیر بنائے یا ان سے فدیہ و تاوان وصول کرے یا ان پر احسان کرتے ہوئے انہیں بلاعوض آزاد کردے اس حکم میں بت پرست ،مشرک اور اہل کتاب شریک ہیں۔

ان احکام پر علماء کے اجماع و اتفاق کا دعویٰ کیا گیا ہے اور بہت شاذ و نادر افراد نے ان احکام کی مخالفت کی ہے ار ان کی رائے بھی قابل توجہ نہیں۔ چناچنہ آئندہ بحثوں میں اس کی مزید وضاحت آئے گی۔ انشاء اللہ تعالیٰ۔

اگر ''شد الوثاق،، سے مراد غلام بنانا ہو تو آیہ کریمہ کے ظہور سے بھی یہی احکام سمجھے جاتے ہیں، جن کا ذکر کیا گیا ہے '' شد الوثاق،، سے غلام بنانے کا معنی اس لیے سمجھا گیا ہے کہ ''شدّ الوثاق،، کا معنی ہے: کسی کی آزادی کا سلب کرنا، جب تک اسے بلاعوض یا عوض لے کر آزاد نہ کیا جائے اور یہ معنی غلام بنانے سے زیادہ سازگار ہے۔

اگر ''شدّ الوثاق،، کا معنی غلام بنانا نہ ہو پھر بھی کافر سے فدیہ لینے اور اس پر احسان کرتے ہوئے اسے ازاد کرنے کے ساتھ، اسے غلام بنانے کا بھی حکم موجود ہے، کیونکہ دلیل سے ثابت ہے کہ کافر کو غلام بناناجائز ہے۔ اس دلیل کے ذریعے آیت کے اطلاق کی تقیید ہوگی۔

۴۷۲

مذکورہ احکام اس روایت میں موجود ہیں جسے کلینی اور شیخ طوسی نے طلحہ بن زید سے اور اس نے حضرت ابو عبد اللہ الصادق (علیہ السلام) سے روایت کی ہے: امام (ع) فرماتے ہیں:

''میرے والد گرامی فرماتے تھے: جنگ کے دو حکم ہیں: ایک یہ کہ اگر کفار کے ساتھ جنگ جاری ہو اور ابھی کفار کو شکست نہ ہوئی تو کافر قیدیوں کے بارے میں امام (ع) کو اختیار ہے کہ چاہے تو انہیں قتل کردے اور چاہے تو ان کا بایاں پاؤں کاٹے اور اسے بدن سے جدا نہ کرے تاکہ ان کا خون نکلتا رہے اور اس طرح وہ مرجائیں چنانچہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

( إِنَّمَا جَزَاءُ الَّذِينَ يُحَارِبُونَ اللَّـهَ وَرَسُولَهُ وَيَسْعَوْنَ فِي الْأَرْضِ فَسَادًا أَن يُقَتَّلُوا أَوْ يُصَلَّبُوا أَوْ تُقَطَّعَ أَيْدِيهِمْ وَأَرْجُلُهُم مِّنْ خِلَافٍ أَوْ يُنفَوْا مِنَ الْأَرْضِ ۚ ذَٰلِكَ لَهُمْ خِزْيٌ فِي الدُّنْيَا ۖ وَلَهُمْ فِي الْآخِرَةِ عَذَابٌ عَظِيمٌ ) ۵:۳۳

'' جو لوگ خدا اور اس کے رسول(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) سے لڑتے بھڑتے اور (احکام کو نہیں مانتے) اور فساد پھیلانے کی غرض سے ملکوں (ملکوں) دوڑتے پھرتے ہیں ان کی سزا بس یہی ہے کہ (چن چن کر) یا تو مار ڈالے جائیں یا انہیں سولی دے دی جائے یا ان کے ہاتھ پاؤں ہیر پھیر کے (ایک طرف کا ہاتھ، دوسری طرف کا پاؤں) کاٹ ڈالے جائیں، یا انہیں اپنے وطن کی سرزمین سے شہر بدر کردیا جائے، یہ رسوائی تو ان کی دنیا میں ہوئی اور پر آخرت میں تو ان کے لیے بہت بڑا عذاب ہی ہے۔،،

اس کے بعد امام (ع) نے فرمایا:

''کیا تم دیکھتے نہیں اللہ تعالیٰ نے صرف کفر کی صورت میں امام (ع) کو یہ اختیار دیا ہے، ہر مقام پر نہیں طلحہ کہتے ہیں کہ میں نے امام (ع) سے عرض کیا: آیہ کریمہ :''او ینفوا من الارض،، کا کیا مطلب ہے؟ آپ نے فرمایا: اس کا مطلب یہ ہے کہ مسلمان کفار کو منتشر کردیں اور انہیں بھگا دیں اور اگر مسلمان کفار کا تعاقب کریں اور انہیں گرفتار کرلیں تو ان پر وہ احکام لاگو ہوں گے۔

۴۷۳

دوسرا یہ کہ جب کفار سے جنگ بند ہوجائے اور انہیں شکست دے دی جائے، اس وقت جو بھی قیدی بنایا جائے اور وہ مسلمانوں کے قبضے میں ہو، اس کے لیے امام (ع) کو اختیار ہے کہ چاہے تو اس پر احسان کرے اور اسے آزاد کر دے، چاہے تو اس سے فدیہ و تاوان وصول کرے اور اگر چاہے تو اسے غلام بنالے۔،،(۱)

کفار کی شکست کے بعد ان سے قتل کے ساقط ہونے پر ضحاک اور عطاء بھی ہم سے متفق ہےں اور حسن نے بھی اس بات کی تصریح کی ہے کہ اس صورت میں امام (ع) کو آزاد کرنے، فدیہ لینے اور غلام بنانے میں اختیارحاصل ہے۔(۲)

گذشتہ بیانات کی روشنی میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ زیر بحث آیہ کریمہ نسخ نہیں ہوئی یہ اور بات ہے کہ بعض مقامات سے قتل مختص ہے اور بعض مقامات پر عدم قتل۔ اس اعتبار سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ آیہ سیف زیر بحث آیت سے پہلے نازل ہوئی ہو یا بعد میں۔

مقام تعجب ہے کہ شیخ طوسی نے اس مسئلے میں علمائے امامیہ کی طرف اس قول کی نسبت دی ہے کہ جنگ بندی کے بعد اسیر کے بارے میں امام کو اسیر کے قتل، آزاد کرنے، اس سے تاوان وصول کرنے اور اسے غلام بنانے میں اختیار حاصل ہے۔ چنانچ شیخ طوسی فرماتے ہیں:

''ہمارے اصحاب نے یہ روایت کی ہے کہ اگر جنگ بندی سے پہلے کسی قیدی کو گرفتار کیا جائے تو امام کو اختیار ہے کہ چاہے اس قتل کردے، چاہے اس کے ہاتھ پاؤں کاٹ دے اور اس طرح چھوڑ دے کہ وہ مرجائے۔ وہ اسے بلاعوض آزاد نہیں کرسکتا اور نہ اس سے تاوان وصول کرکے آزاد کرسکتا ہے اور اگر جنگ بندی کے بعد کسی کافر کو قیدی بنایا جائے تو امام کو اسے بلاعوض آزاد کرنے، تاوان مالی یا جانی لے کر آزاد کرنے، غلام بنانے اور قت کرنے میں اختیار ہے۔،،

____________________

(۱) الوافی، ج ۹، ص۲۳

(۲) قرطبی، ج ۱۶، ص ۲۲۷، الناسخ و المنسوخ، ص ۲۲۱۔

۴۷۴

طبرسی نے اپنی تفسیر میں بھی شیخ طوسی کی متابعت کی ہے۔(۱) جبکہ اس مضمون کی کوئی روایت وارد نہیں ہوئی، بلکہ خود شیخ طوسی اپنی کتاب ''مبسوط،،(۲) میں اس بات کی تصریح کرتے ہیں کہ جو قیدی جنگ بندی کے بعد گرفتار کیا جائے اس کے بارے میں امام کو اختیار ہے کہ اس پر احسان کرکے اسے بلا عوض آزاد کردے یا اسے غلام بنائے اور یا اس سے تاوان وصول کرکے آزاد کرے۔ اسے قتل نہیں کیا جاتا۔ چنانچہ ہمارے علماء کی روایات بھی اسی بات پر دلالت کرتی ہیں۔

بلکہ چیخ طوسی نے اپنی کتاب ''خلاف،، کے باب ''فئی، اور ''غنائم،، میں اس بات پر اجماع کا دعویٰ کیا ہے جن حضرات نے اس بات پر اجماع کا دعویٰ کیا ہے ان میں علاّمہ مرحوم بھی ہیں انہوں نے اپنی دونوں کتابوں ''المنتہیٰ،، اور ''التذکرہ،، کے باب جہاد میں، اسیروں کے احکام میں اجماع کا دعویٰ کیا ہے۔

میرے خیال میں شیخ طوسی کی کتاب ''التبیان،، میں لفظ ''ضرب الرقاب،، (اسیروں کو قتل کرنا) لغزشِ قلم کا نتیجہ ہوگا اور مرحوم طبرسی نے بغیر کسی تحقیق کے اس بات کو لے لیا ہے۔

یہاں تک اس مسئلے میں علمائے شیعہ امامیہ، ضحاک، عطاء اورحسن کے نظریات بیان کیے گئے۔

آیت کے بارے میں بعض دیگر عقائد

اس مسئلے میں باقی علمائے اہل سنت کے مختلف اقوال نظر آتے ہیں:

۱۔ یہ آیت مشرکین کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔ پھر یہ آیت، آیہ سیف کے ذریعے نسخ ہوگئی۔ یہ قول قتادہ، ضحاک، سدی، ابن جریح، ابن عباس اور بہت سے کوفی علماء کی طرف منسوب ہے۔ یہ حضرات کہتے ہیں کہ مشرک قیدی کو قتل کرنا واجب ہے اسے بلا عوض یا تاوان وصول کرکے آزاد کرنا جائز نہیں۔(۳)

____________________

(۱) التبیان، ج ۹، ص ۲۹۱، طبع نجف۔

(۲) المبسوط، کتاب الجہاد، فصل فی اضاف الکفار و کیفیۃ قتالہم۔

(۳) تفسیر قرطبی، ج ۱۶، ص ۲۲۷

۴۷۵

جواب: اس قول کے رو سے آیت کے نسخ کی کو ئی وجہ او جواز نہیں بنتا۔ کیونکہ یہ آیت مقید ہے اور آیہ سیف مطلق ہے، چاہے یہ آیت، آیہ سیف سے پہلے نازل ہوئی ہو یا بعد میں۔ اس سے پہلے ہم اس بات کی وضاحت کرچکے ہیں کہ عامِ مؤخر خاصِ مقدم کا ناسخ نہیں بن سکتا تو مطلق متاخر مقید مقدم کے لیے بطریقِ اولیٰ ناسخ نہیں بن سکتا۔(۱)

۲۔ یہ عام کفار کے بارے میں نازل ہوئی لیکن صرف مشرکین کے سلسلے میں نسخ ہوگئی ہے۔ یہ قول قتادہ، مجاہد اور حکم کی طرف منسوبگ ہے۔ مذہب ابو حنیفہ میں بھی قول مشہور ہے۔(۲)

جواب: پہلے کی طرح یہ قول بھی باطل ہے۔ کیونکہ یہ قول اس صورت میں صحیح ہوسکتا ہے جب آیہ سیف، زیرِ بحث آیت کے بعد نازل ہوئی ہو اور نسخ کے قائل حضرات یہ بات ثابت نہیں کرسکتے یہ حضرات اپنے مدعیٰ کے اثبات کے لیے صرف خبر واحد سے تمسک کرسکتے ہیں او علماء کا اجماع ہے کہ خبر واحد سے نسخ ثابت نہیں ہوسکتا۔

اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ خبر واحد سے نسخ ثابت ہو جاتا ہے پھر بھی آیہ سیف کے ناسخ ہونے کی دلیل نہیں بنتی تاکہ یہ قول ثابت ہو۔ بلکہ ثابت یہ ہوگا کہ زیر بحث آیت، آیہ سیف کے لیے مقید ہو۔ اس لیے کہ امت کا اس پر اتفاق ہے کہ یہ آیت مشرکین کو بھی شامل ہے یا اس سے صرف مشرکین ہی مراد ہیں۔ بنابرایں یہ آیت، آیہ سیف کے لیے ایک قرینہ ہوگی کیونکہ مطلق مقید کے لیے ناسخ نہیں بن سکتا۔

اگر ان تمام باتوں سے چشم پوشی بھی کی جائے تو یہ مسلّم ہے کہ زیربحث آیت اور آیہ سیف میں عموم اور حصوص من وجہ کی نسبت پائی جاتی ہے۔ یعنی کہیں تو مشرک ہے لیکن جنگ بندی کے بعد قیدی نہیں۔ یہاں مشرک کے لیے حکم قتل ہی ثابت ہوگا اور کہیں جنگ بندی کے بعد قیدی ہوگا مشرک نہیں۔ یہاں اسے قتل نہیں کیا جائے گا۔

____________________

(۱) ہم نے اپنی کتاب ''اجود التقریرات،، کی عموم و خصوص کی بحث میں اس مسئلے کو تفصیل سے بیان کیا ہے۔

(۲) تفسیر قرطبی، ج ۱۶، ص ۲۲۷

۴۷۶

ایک مقام وہ ہوسکتا ہے جہاں کافر، مشرک ہو اور جنگ بندی کے بعد اسے اسیر بنالیا جائے۔ یہاں دو مختلف احکام میں ٹکراؤ ہوگا۔ ظاہرہے اس صورت میں دونوں آیتیں ایک دوسرے کے لیے ناسخ نہیں ہونگی بلکہ اس آیت کے مضمون پر عمل ہوگا جس کی تائید کوئی دوسری دلیل کرے۔

۳۔ زیر بحث آیت، آیہ سیف کی ناسخ ہے یہ قول ضحاک وغیرہ کی طرف منسوب ہے۔(۱)

جواب: یہ قول اس صورت میں صحیح ہوگا جب اس آیت کا آیہ سیف کے بعد نازل ہونا ثابت ہو۔ اس کو ضحاک وغیرہ ثابت نہیں کرسکتے۔اس کے علاوہ اس سے قبل اس امر کی وضاحت کر دی گئی ہے کہ چاہے یہ آیت، آیہ سیف سے مقدم ہو یا مؤخر، اس کے نسخ ہونے کی کوئی وجہ نہیں ہے۔

۴۔ ہر حالت میں قتل کرنے، غلام بنانے، فدیہ لے کر آزاد کرنے اور بلا عوض آزاد کرنے کا اختیار امام کو حاصل ہے۔ اس قول کو ابو طلحہ نے ابن عباس سے نقل کیا ہے جسے بہت سے علمائے کرام نے اپنایا ہے۔ ان میں ابن عمر، حسن اور عطاء شامل ہیں۔ مالک، شافعی، ثوری، اوزاعی اور ابی عبید وغیرہ کا بھی یہی عقیدہ ہے۔ اس قول کے مطابق آیہ کریمہ میں کسی قسم کا نسخ نہیں ہوا۔(۲) نحاس اس قول کو ذکر کرنے کے بعد کہتے ہیں:

''یہ قول اس بنیاد پر قائم ہے کہ دونوں آیتیں، آیہ سیف اور آیہ عفو، محکم ہیں (نسخ نہیں ہوئیں) اور دونوں کے ظاہر پر عمل کیا گیا ہے۔ یہ قول بالکل صحیح ہے کیونکہ نسخ کے لیے کسی قطعی اور مسلّم دلیل کی ضرورت ہوتی ہے اور جہاں پر دونوں آیتوں پر عمل کرنا ممکن ہے وہاں نسخ کوئی معنی نہیں رکھتا۔ یہ قول اہل مدینہ، شافعی اور ابو عبید سے منقول ہے۔،،(۳)

____________________

(۱) تفسیر قرطبی، ج ۱۶، ص ۲۲۷

(۲) تفسیر قرطبی، ج ۱۶، ص ۲۲۸

(۳) الناسخ و المنسوخ، ص ۲۲۱

۴۷۷

جواب: اگرچہ اس قول سے آیہ شریفہ کا نسخ ہونا لاز م نہیں آتا لیکن پھر بھی یہ باطل ہے کیونکہ آیت میں اس امر کی تصریح ہے کہ کفار کی شکست اور جنگ بندی کے بعد ہی ان قیدیوں کو بلا عوض یا عوض لیکر آزاد کیا جاسکتا ہے۔ بنابریں کفار کی شکست سے پہلے بلاعوض یا عوض لے کر اسیروں کی آزادی کا قائل ہونا سراسر قرآن کی خلاف ورزی ہے۔

اسی طرح آیہ کی رو سے قتل کی اس وقت تک اجازت ہے جب تک کفار کو شکست نہیں ہوتی۔ لیکن کفار کی شکست کے بعد بھی ان کے قتل کا قائل ہونا، خلاف قرآن ہے۔

اس سے قبل بیان کیا جاچکا ہے کہ اس آیت کے ذریعے آیہ سیف کی تقیید کی گئی ہے۔

اس قول کی دلیل یہ پیش کی گئی ہے کہ رسول اللہ(ص) نے بعض قیدیوں کو قتل کیا، بعض کو ان پر احسان کرتے ہوئے آزاد کردیا اوربعض سے فدیہ و تاوان لے کر ان کو آزاد کردیا تھا۔

اس کا جواب یہ ہے کہ بفرض تسلیم اگر یہ روایت صحیح ہو پھر بھی یہ ثابت نہیں ہوتا کہ قتل کرنے، فدیہ لینے اور بلاعوض آزاد کرنے میں امام کو اختیار حاصل ہے کیونکہ عین ممکن ہے کہ نبی اکرم(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) نے اسیر کو جنگ بندی اور کفار کی شکست سے پہلے قتل کیا ہو۔ اسی طرح یہ بھی ممکن ہے کہ آپ نے کفار کی شکست کے بعد اسیروں کو ان سے فدیہ لے کر اور بغیر فدیہ کے آزادکیا ہو۔

ممکن ہے یہ حضرات (جو ہر حالت میں قتل اور آزاد کرنے میں اختیار کے قائل ہیں) حضرت ابوبکر اور حضرت عمر کے عمل سے استدلال کریں جس کے مطابق انہوں نے اسیروںکو قتل کیا تھا۔

۴۷۸

اس کا جواب یہ ہے کہ اوّلاً یہ واقعہ تاریخی اعتبار سے ثابت نہیں ہے بفرض تسلیم اگر یہ واقعہ صحیح بھی ہو پھر بھی مدعیٰ ثابت نہیں ہوسکتا کیونکہ حضرت ابوبکر اور حضرت عمر کا عمل حجیّت نہیں رکھتا تاکہ اس کی بنیاد پر ظاہر قرآن سے دست بردار ہوا جائے۔

۳۳۔( وَفِي أَمْوَالِهِمْ حَقٌّ لِّلسَّائِلِ وَالْمَحْرُومِ ) ۵۱:۱۹

''اور ان کے مال میں مانگنے والے اور نہ مانگنے والے (دونوں) کا حصّہ تھا۔،،

۳۴۔( وَالَّذِينَ فِي أَمْوَالِهِمْ حَقٌّ مَّعْلُومٌ ) ۷۰:۲۴

( لِّلسَّائِلِ وَالْمَحْرُومِ ) : ۲۵

''اور جن کے مال میں مانگنے والے اور نہ مانگنے والے کے لیے ایک مقرر حصّہ ہے۔،،

ان دونوں آیات کے بارے میں اختلاف ہے کہ آیا یہ نسخ ہوئی ہےں؟ کیونکہ ان آیات میں جس معلوم اور آشکار حق کا ذکر کیا گیا ہے ممکن ہے اس سے مراد واجب زکوٰۃ ہو جو ایک واجب حق ہے۔ ممکن ہے اس سے مراد کوئی اور م الی حق ہو جو واجب ہو اور یہ بھی ممکن ہے کہ اس سے مراد ایک مالی حق ہو جو مستحب ہو۔

اگر اس حق سے مراد زکوٰۃ کے علاوہ کوئی دوسرا واجب حق ہے تو اس صورت میں دونوں آیتیں نسخ ہوں گی اس لیے کہ واجب زکوٰۃ کی وجہ سے قرآن میں موجود تمام دوسرے واجب صدقات نسخ ہوگئے ہیں۔ چنانچہ اس احتمال کو علماء کی ایک جماعت نے اختیار کیا ہے۔ اگر اس حق سے مردا واجب زکوٰۃ یا کوئی دوسرا مالی حق ہے تو اس صورت میں دونوں آیتیں محکم ہوں گی۔

تحقیق اس امر کی متقاضی ہے کہ ان دونوں آیتوں میں حق سے مراد واجب زکوٰۃ کے علاوہ کوئی دوسرا حق ہے جس کی ادائیگی کی شارع نے ترغیب دی ہے۔ شیعہ اور اہل سنت کی بہت سی روایات اس بات کی دلیل ہیں کہ زکوٰۃ کے علاوہ کوئی اور صدقہ واجب نہیں ہے اور اہل بیت اطہار (ع) کی روایات میںیہ بیان موجود ہے کہ اس حق سے کیا مراد ہے۔

۴۷۹

شیخ کلینی نے ابو بصیر سے روایت کی ہے ابو بصیر کہتے ہیں:

''ہم امام صادقؑ کی خدمت میں بیٹھے تھے، ہمارے ساتھ کچھ دولت مند افراد بھی تھے انہوں زکوٰۃ کا ذکر کیا تو امام(ع) نے فرمایا: زکوٰۃ کوئی ایسی چیز نہیں کہ زکوٰۃ ادا کرنے والے تعریف کی جائے۔

یہ تو ایک ظاہر ہے اور مسلّم چیز ہے اسی کی وجہ سے تو مسلمانوں کے خون کو تحفظ ملا ہے اور اسی کی بدولت انسان مسلمان کہلانے کا مستحق قرار پاتا ہے۔ اگر مسلمان زکوٰۃ ادا نہ کرے تو اس کی نماز قبول نہیں ہوگی۔ یہ دیکھو کہ زکوٰۃ کے علاوہ بھی تمہارے اموال میں لوگوں کے کچھ حقوق ہیں۔ میں (ابو بصیر) نے عرض کیا: مولا! زکوٰۃ کے علاوہ ہمارے اموال میں اور کون سے حقوق موجود ہیں؟ آپ نے فرمایا: سبحان اللہ! کیا تم نے اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان نہیں سنا: :( وَالَّذِينَ فِي أَمْوَالِهِمْ حَقٌّ مَّعْلُومٌ ) ( لِّلسَّائِلِ وَالْمَحْرُومِ ) ۔ میں نے عرض کی: آحر وہ کون سا حق ہے۔ آپ نے فرمایا: خدا کی قسم! یہ وہی حق ہے جس کی طرف ہر شخص متوجہ ہے۔ اسے چاہیے کہ ہر روز یا جمعہ میںیا مہینے میں ایک مرتبہ کچھ نہ کچھ دیتا رہے۔،،

نیز کلینی نے اپنی سندسے اسماعیل بن جابر سے اور انہوں نے امام صادقؑ سے نقل کیا ہے:

''آپ سے آیہ کریمہ:( وَالَّذِينَ فِي أَمْوَالِهِمْ حَقٌّ مَّعْلُومٌ ) ( لِّلسَّائِلِ وَالْمَحْرُومِ ) کے بارے میں سوال کیا گیا کہ کیا یہ زکوٰۃ کے علاوہ کوئی حق ہے؟ آپ نے فرمایا: اس حق کا مطلب یہ ہے کہ جس شخص کو خدا مال و دولت دے اسے چاہیے کہ اس میں سے ایک ہزار، دو ہزار یا تین ہزار الگ کرلے اور اس کے ذریعے صلہ رحمی کرے اور قریبی رشتہ داروں کی مشکلات کو حل کرے۔،،

ان کے علاوہ بھی امام باقر اور امام صادق (علیھما السلام) سے اس مضمون کی روایات منقول ہیں۔(۱)

____________________

(۱) الوافی باب الحق المعلوم، ج ۶، ص ۵۲

۴۸۰

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

501

502

503

504

505

506

507

508

509

510

511

512

513

514

515

516

517

518

519

520

521

522

523

524

525

526

527

528

529

530

531

532

533

534

535

536

537

538

539

540

541

542

543

544

545

546

547

548

549

550

551

552

553

554

555

556

557

558

559

560

561

562

563

564

565

566

567

568

569

570

571

572

573

574

575

576

577

578

579

580

581

582

583

584

585

586

587

588

589

590

591

592

593

594

595

596

597

598

599

600

601

602

603

604

605

606

607

608

609

610

611

612

613

614

615

616

617

618

619

620

621

622

623

624

625

626

627

628

629

630

631

632

633

634

635

636

637

638

639

640

641

642

643

644

645

646

647

648

649

650

651

652

653

654

655

656

657

658

659

660

661

662

663

664

665

666

667

668

669

670

671

672

673

674

675

676

677

678

679

680

681

682

683

684

685

686

687

688

689

690

691

692

693

694

695

696

697

698

699

700

701

702

703

704

705

706

707

708

709

710

711

712

713

714

715

716

717

718

719

720

721

722

723

724

725

726

727

728

729

730

731

732

733

734

735

736

737

738

739

740

741

742

743

744

745

746

747

748

749

750

751

752

753

754

755

756

757

758

759

760

761

762

763

764

765

766

767

768

769

770

771

772

773

774

775

776

777

778

779

780

781

782

783

784

785