تفسير راہنما جلد ۱

 تفسير راہنما 7%

 تفسير راہنما مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن
صفحے: 785

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴ جلد ۵ جلد ۶ جلد ۷ جلد ۸ جلد ۹ جلد ۱۰ جلد ۱۱
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 785 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 200957 / ڈاؤنلوڈ: 5793
سائز سائز سائز
 تفسير راہنما

تفسير راہنما جلد ۱

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

چھٹا اعتراض

اعجام قرآن پر چھٹا اعتراض یہ ہے کہ اگر ہر وہ کتاب معجزہ ہے جس کی نظیر لانے سے انسان عاجز ہو تو ہیئت کی کتاب ''اقلیدس،، اور ہندسہ کی کتاب بھی معجزہ نہیں ہوسکتی جس کی نظیر انسان نہ لاسکے۔

جواب:

اولاً: ہم یہ تسلیم نہیں کرتے کہ انسان ان دونوں کتابو ںکی نظیر لانے سے عاجز اور قاصر ہے۔ ا س لیے کہ ان کے بعد علم ہیئت اور علم ہندسہ پر ایسی ایسی کتب لکھی جاچکی ہےں جن کا بیان زیادہ وزنی اور سمجھنا آسان ہے۔ بعد کی کتاب کئی اعتبار سے ان دونوں کتابوں پر فوقیت رکھتی ہیں اور ان میں بعض ایسی چیزیں ہیں جن کا ان دونوں کتب میں نام و نشان تک نہیں ہے۔

ثانیاً: ہم نے معجزہ کی کئی شرائط بیان کی ہیں۔ ان میں سے ایک شرط یہ ہے کہ معجزے کو جب پیش کیا جائے تو اسے بطور چیلنج اور اپنے الہٰی منصب کے ثبوت و دلیل میں پیش کیا جائے۔ اس کے علاوہ ایک شرط یہ بھی تھی کہ جو کام بھی بطور معجزہ انجام دیا جائے وہ طبیعی قوانین سے بالاتر ہو۔ یہ دونوں شرائط ان دونوں کتب میں مفقود ہیں۔ اس کی وضاحت ہم اعجاز کی بحث کے شروع میں کرچکے ہیں۔

ساتواں اعتراض

اگر عربوں نے قرآن کا مقابلہ نہیں کیا تو اس کی وجہ یہ نہیں ہے کہ انسان قرآن کی نظیر لانے سے عاجز و قاصر ہے بلکہ اس کی اور وجوہات ہیں جن کا تعلق اعجاز سے نہیں ہے۔

۱۲۱

دعوت اسلام کے معاصر اور ان کے بعد عربوں کی طرف سے قرآن کا مقابلہ نہ کرنے کی ایک وجہ یہ ہے کہ مسلمانوں کی حکومت اور ان کا رعب و ہیبت ان کو اس مقابلے سے روکتا تھا اور انہیں اس میں اپنی جان و مال کا خوف تھا۔ خلفاء اربعہ کی حکومت کا دور گزرنے کے بعد جب امویوں کا دور آیا، جن کی خلافتیں دعوتِ اسلامی کے محور پر قائم نھیں تھیں تو قرآن اپنے الفاظ کی متانت اور مضبوطی کی وجہ سے تمام لوگوں میں مانوس ہوچکا تھا اور نسلیں گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ قرآن لوگوں کے ذہنوں میں راسخ ہوتا چلا گیا یہ رسوخ و راثۃً نسلاً بعد نسل منتقل ہوتا گیا، جس کے نتیجے میں اس کے مقابلے سے لوگ دستبردار ہوگئے۔

جواب:

اولاً: قرآن کا چیلنج اور ایک سورہ کے مقابلے کی دعوت دینا اس زمانے کی بات ہے جب پیغمبر اکرم(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) مکّہ میں تھے اور اسلام کو ابھی وہ تقویت حاصل نہیں ہوئی تھی اور نہ ملسمانوں کا وہ رعب و دبدبہ تھا جس سے مخالفین پر خوف و ہراس طاری ہو جاتا۔ اس کے باوجود عرب کے فصحاء اور بلغاء قرآن کا مقابلہ نہ کرسکے۔

ثانیاً: خلفاء کے دور حکومت میں ایسا خوف نہیں تھا جس کی وجہ سے کفار اور مخالفین قرآن اپنے کفر اور مسلمانوں سے اپنی عدوات کو ظاہر نہ کرسکیں۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ جزیرۃ العرب میں مسلمانوں کے درمیان اہل کتاب بڑے سکون و آرام کی زندگی گزارتے تھے۔ ان کو وہی حقوق حاصل تھے جو مسلمانوں کو حاصل تھے۔ ان کے فرائض وہی تھے جو مسلمانوں کے تھے۔ خاص کر حضرت امیر المومنین (علیہ السلام) کے دور حکومت میں جن کی عدالت اور کثرت علم کی گواہی غیر مسلم تک دیتے ہیں۔ اس قسم کے اہل کتاب یا دوسرے کفار اگر قرآن کی مثل و نظیر لانے پر قادر ہوتے تو یقیناً وہ اپنے نظریئے اور ثبوت میں اسے پیش کرتے۔

۱۲۲

ثالثاً: بالفرض اگر قرآن کے مقابلے سے انہیں خوف محسوس ہوتا تھا تو یہ خوف کھلے عام مقابلے میں مانع ہونا چاہیے تھا۔ گھروں میں اور بالکل مخفی طور پر قرآن کے مقابلے میں عبارتیں بنانے سے کون سی چیز لکھنے والوں کی راہ میں حائل تھی؟

اگر اس قسم کی کتب یا عبارتیں لکھی گئی ہوتیں تو اس خوف کے زائل ہونے کے بعد ان کو ظاہر کیا جاتا جس طرح کتب عہدلین کی خرافات اور ان کے دین سے متعلق دیگر باتیں آج بھی محفوظ ہیں۔

رابعاً: کوئی بھی کلام ہو، چاہے وہ بلاغت کے بلند ترین مقام پر ہو، انسانی طبیعت کا یہ تقاضا ہے کہ جب وہ بار بار سماعت سے ٹکرائے گا تو اپنے پہلے مقام سے گرجائے گا۔ یہی وجہ ہے کہ بلیغ سے بلیغ قصیدہ و کلام بھی اگر انسان کے سامنے مکرر پڑھا جائے تو انسان اس سے اکتا جاتا ہے۔ کیونکہ ا س کے مقابلے میں جب کوئی دوسرا قصیدہ اسے سنایا جاتا ہے تو اسے شروع میں یہی محسوس ہوتا ہے کہ دوسرا قصیدہ پہلے قصیدہ سے بہتراور اس میں زیادہ بلاغت ہے اور جب دوسرے قصیدے کو بھی بار بار پڑھا جائے تو ان دونوں میں موجود فرق واضح ہو جاتا ہے۔

یہ قاعدہ صرف کلام ہی سے مختص نہیں ہے بلکہ یہ ہر اس چیز میں جاری ہے جس سے انسان لطف اندوز وہتا ہے اور اس کے حسن و قبح کو درک کرسکتا ہے۔ چاہے اس کا تعلق کھانے پینے یا پہننے کی چیزوں سے ہو یا سنائی دینے والی آواز سے۔

اگر قرآن کریم معجزہ نہ ہوتا تو یہ کلیّہ اس پر بھی لاگو ہوتا اور سننے والوں کے نزدیک اس کا وہ مقام نہ رہتا جو شروع شروع میں اسے حاصل تھا اور زمانہ گزرنے کے ساتھ ساتھ اس کی فصاحت و بلاغت میںکمی آجانی چاہیے تھی جس کے نتیجے میں قرآن کا مقابلہ آسان ہوجاتا۔

۱۲۳

لیکن ہم بالوجدان یہ دیکھ رہے ہیں کہ قرآن کریم کو بار بار پڑھنے اورسننے کے باجود اس کے حسن اور خوبیوں میں اضافہ ہی ہوتا ہے اور اس سے عرفان و یقین حاصل ہوتا ہے اور انسان اس پر ایمان لانے اور اس کی تصدیق کرنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔

قرآن کریم کی یہ خصوصیت اور امتیاز، دوسرے مانوس کلاموں سے بالکل مختلف ہے۔ پس قرآن کا یہ پہلو بھی اس کے معجزہ ہونے کی تائید اور تاکید کرتا ہے اور یہ اس کے اعجاز کے خلاف نہیں ہے جیسا کہ مخالف قرآن و اسلام کا توہم ہے۔

خامساً: بالفرض یہ مان بھی لیا جائے کہ کسی کلام کو بار بار پڑھنے سے انسان اس سے مانوس اور اس کے مقابلے سے دستبردار ہوجاتا ہے تو یہ بات صرف مسلمانوں کے بارے میں کہی جاسکتی ہے جو قرآن کی تصدیق کرتے ہیں اسے بار بار سنتے اور اس سے مانوس ہوتے ہیں اور چاہے جس کثرت سے بھی اس کی تلاوت کی جائے اسے رغبت و شوق سے سنتے ہیں۔ لیکن مسلمانوں کو چھوڑ کر دوسرے غیر مسلموں کو اس کے مقابلے سے دستبردار نہیں ہونا چاہیے تھا تاکہ اس مقابلے کو کم از کم غیر مسلم ہی تسلیم کرلیتے۔

آٹھواں اعتراض

تاریخ بتاتی ہے کہ حضرت ابوبکر نے جب قرآن کو جمع کرنا چاہا تو انہوںنے حضرت عمر اور زید بن ثابت کو حکم دیا کہ ومسجد کے دروازے پر بیٹھ جائیں اور ہر وہ عبارت لکھ لائیں جس کے کتاب ہونے کی گواہی دو شاہد دیں۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ قرآن کوئی خارق العادۃ اور غیرمعمولی کلام نہیں ہے۔ اس لیے کہ اگر قرآن کوئی خارق العادۃ اور غیر معمولی کلام ہوتا تو اس کے لیے کسی شہادت و گواہی کی ضرورت نہیں ہونی چاہیے تھی اور بذات خود اسے ثبت ہونا چاہیے تھا۔

۱۲۴

جواب:

اولا: قرآن کی بلاغت اور اس کا اسلوب کلام معجزہ ہے، نہ کہ اس کا ایک ایک کلمہ اور لفظ معجزہ ہے۔ اس بناء پر یہ شک ہوسکتا ہے کہ اس کے مفردات اور کسی کلمہ میں تحریف نہ ہوگئی ہو یا اس میں کمی بیشی کا بھی احتمال ہوسکتا ہے۔ فرض کریں شاہدوں کی شہادت والی راویت اگر صحیح بھی ہے تو وہ اس قسم کے احتمالات کے ازالے کے لیے ہے کہ کہیں قرآن پڑھنے والا غلطی سے یا جان بوجھ کر کسی لفظ یا کلمے میں کمی بیشی نہ کردے۔

اس کے علاوہ اگر قرآن کی ایک سورۃ کی نظیر بشر نہ لا سکے تو وہ ایک آیہ کی مثل و نظیر لانے سے منافات نہیں رکھتا۔ یہ ایک ممکن کام ہے اور آج تک مسلمانوں نے اس کے محال یا ناممکن ہونے کا دعویٰ نہیں کیا اور قرآن نے اپنے چیلنج میں بھی یہ نہیں فرمایا کہ لوگ اس کی ایک آیت کی نظیر و مثل نہیں پیش کرسکتے۔

ثانیاً: جتنی روایات اور اخبار اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ حضرت ابوبکر کے زمانے میں صحابہ میں سے دو شاہدوں کی شہادت سے قرآن جمع کیا جاتا تھا۔ یہ سب خبر واحد ہیں خبر متواتر نہیں اور خبر واحد اس قسم کے واقعات میں حجت اور دلیل نہیں بن سکتی۔

ثالثاً: ان اخبار کے مقابلے میں بہت سی روایات اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ قرآن پیغمبر اکرم(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) ہی کے زمانے میں جمع کیا گیا۔ بہت سے اصحاب نے پورا قرآن کریم حفظ کرلیا تھا اور جن حضرات کو قرآن کے بعض سورے اور حصے یاد تھے ان کا تو شمار ہی نہیں ہوسکتا۔

۱۲۵

اس کے علاوہ اگر عقلی طور پر انسان ذرا فکر سے کام لے تو اس قسم کی روایات کا کذب ثابت ہو جاتا ہے جن سے مخالفین قرآن تمسک چاہتے ہیں۔

پس قرآن جو مسلمانوں کی ہدایت کا سب سے بڑا ذریعہ اور ان کو بدبختی اور جہالت کی تاریکیوں سے سعادت اور علم کے نور کی طرف لاتا ہے اور مسلمان قرآن کو حد سے زیادہ اہمیت دیتے اور دن رات اس کی تلاوت کرتے تھے، قرآن کو حفظ کرنے اور اس کی صحیح تلاوت کرنے میں فخر محسوس کرتے تھے، اس کی سورتوں اور آیات کو دیکھنا مبارک سمجھتے تھے اور پیغمبر اکرم(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) بھی اس بات کی ترغیب دیتے تھے، ان سب باتوں کے باوجود کیا کوئی عقلمند یہ احتمال دے سکتا ہے کہ کسی آیہ یا سورہ کو ثابت کرنے کے لیے دو گواہوں کی ضرورت ہوگی۔ انشاء اللہ ہم آ ئندہ ثابت کریں گے کہ قرآن مجید پیغمبر اکرم(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) ہی کے زمانے میں مکمل طور پر جمع کرلیا گیا تھا۔

نواں اعتراض

قرآن کا اسلوب، بلاغت کے مروج اسلوب سے مختلف ہے۔ اس لیے کہ قرآن مجید نے مختلف موضوعات کو باہم مخلوط کردیا ہے۔ مثلاً اگر تاریخ کی بات کررہا ہے تو اچانک وعدہ وعید (بہشت کے وعدوں اور جہنم کے عذاب کی دھمکیوں) میں منتقل ہو جاتا ہے۔ اگر قرآن ابواب میں تقسیم ہوتا اور ہر موضوع کے متعلق جتنی آیات ہیں ان کو یکجا کردیا جاتا تو اس کا فائدہ بہت زیادہ ہوتا اور اس سے استفادہ بھی آسان ہوتا۔

جواب:

قرآن انسانوں کی ہدایت اور ان کو دنیا و آخرت کی سعادتوں سے ہمکنار کرنے کے لیے نازل کیا گیا ہے۔ یہ کوئی تاریخی یافقہ و اخلاق یا اسی قسم کی کوئی اور کتاب نہیں ہے کہ اس کو ان موضوعات کے لحاظ سے مستقل ابواب میں یکجا کیا جاتا اور اس میں کوئی شک نہیں کہ اس کا اسلوب، مطلوبہ مقصد تک پہنچانے کا نزدیک ترین اسلوب ہے، اس لیے کہ جو انسان قرآن کی بعض سورتوں کی تلاوت کرتا ہے

۱۲۶

وہ اسی تلاوت اور قلیل وقت میں، معمولی زحمت کرکے بہت سے اغراض و مقاصد حاصل کرسکتا ہے۔ مثلاً، ایک ہی تلاوت میں وہ توحید و معدا کی طرف متوجہ ہوسکتا ہے۔ گذشتہ لوگوں کے حالات سے آگاہ ہوسکتا ہے اور اس سے عبرت حاصل کرسکتا ہے۔ اخلاق حسنہ کا استفادہ کرسکتا ہے اور دیگر علوم و معارف سے روشناس ہوسکتا ہے ان کے علاوہ اسی تلاوت میں اپنی عبادات اور معاملات سے متعلق کچھ احکام بھی سیکھ سکتا ہے۔

ان تمام خصوصیات کے ساتھ ساتھ قرآن کریم میں نظم کلام کی رعایت بھی کی گئی ہے حسن بیان کا حق ادا کردیا گیا ہے اور مقتضائے حال کا پورا لحاظ رکھا گیا ہے۔

یہ وہ فوائد ہیں جو قرآن کو ابواب میں تقسیم کرنے سے حاصل نہ ہوسکتے۔ کیونکہ اگر اسے ابواب میں تقسیم کیا جاتا تو انسان اپنے مختلف اغراض و مقاصد اسی صورت میں حاصل کرسکتا تھا جب وہ پورے قرآن کی تلاوت کرتا اور عین ممکن ہے کہ کچھ رکاوٹیں پیش آنے کی وجہ سے انسان پورے قرآن کی تلاوت نہ کرپائے اور صرف ایک یا دو ابواب سے مستفید ہوسکے۔

مجھے اپنی زندگی کی قسم حقیقت یہ ہے کہ مذکورہ باتیں اسلوب قرآن کی خوبیوں میں سے ہیں اس اسلوب کی وجہ سے قرآن کو حسن و جمال ملا ہے۔ اس لیے کہ قرآن کے ایک موضوع سے دوسرے موضوع کی طرف منتقل ہونے کے باوجود ان دونوں موضوعات میں مکمل ربط قائم رہتا ہے۔ گویا اس کے تمام جملے موتی ہیں جنہیں ایک لڑی میں پرودیا گیا ہے۔

لیکن اسلام دشمنی نے معترض کی آنکھ کو اندھا اور کان کو بہرا کردیاہے جس کی وجہ سے وہ جمال کو قبح اوراچھائی کو برائی سمجھتا ہے۔

اس کے علاوہ قرآن مجید میں بعض قصوں کی حسب ضرورت مختلف عبارتوں میں تکرار کی گئی ہے، اگر مکرر بیان کی گئی عبارتوں کو ایک ہی باب میںبیان کردیا جاتا تو قاری کو زیر نظر فائدہ حاصل نہ ہوتا۔

۱۲۷

قرآن کا مقابلہ

کتابچہ ''حسن الایجاز،،(۱) کا مصنف اپنے رسالے میں دعویٰ کرتا ہے کہ قرآن کی نظیر پیش کرنا ممکن ہے اور اس نے کچھ ایسے جملے ذکر کئے ہیں جنہیں اس نے قرآن ہی سے لیا ہے اور ان کے بعض الفاظ میں تبدیلی کرکے اپنے زعم باطل میں یہ سمجھاہے کہ وہ قرآن کا مقابلہ کررہا ہے اس طرح اس نے اپنے مبلغ علم اور بلاغت شناسی کاراز فاش کردیا ہے۔

قارئین محترم کی خدمت میں وہ عبارتیں پیش کرکے ہم اس کے وہمی اور خیالی مقابلے کی قلعی کھول دیتے ہیں اور اس کے جملوں میں جو خامیاں پای جاتی ہیں ان کی وضاحت بھی کرتے ہیں۔ ہم اپنی کتاب ''نفحات الاعجاز،، میں بھی ان خیالی مقابلوں کا جواب دے چکے ہیں۔(۲)

اس خیال باف نے سورہ فاتحہ کے مقابلے میں لکھا ہے:

الحمد الرحمن رب الاکوان، الملک الدیان، لک العبادة و بک المستعان، اهدنا صراط الایمان

اپنے زعم باطل میں یہ سمجھتا ہے کہ اس کی یہ عبارت سورۃ فاتحہ کے معانی و مفاہیم ادا کرتی ہے اور اس سے مختصر بھی ہے۔

معلوم نہیں یہ جملے لکھنے والے کو کیا جواب دیا جائے جو علمی اعتبار سے اتنا گیا گزرا ہے کہ وزنی اور ہلکے کلام میں بھی تمیز نہیں کرسکتا۔ کاش اس سے پہلے کہ اس دعویٰ کے ذریعے وہ اپنے آپ کو رسوا کرتا۔ ان عبارتوں کو علمائے نصاریٰ کے سامنے پیش کرتا جو اسلوب کلام اور فنون بلاغت سے آشنائی رکھتے ہیں۔

____________________

(۱) یہ چھوٹا سا کتابچہ ۱۹۱۲ء میں مصر کے شہر بولاق میں ایک اینگلو ارمیکن پریس میں شائع کیا گیا۔

(۲) یہ کتاب رسالہ ''حسن الایجاز،، کی رد میں لکھی گئی جو ۱۳۴۲ھ میں نجف اشرف کے علویہ پریس میں شائع کی گئی۔

۱۲۸

اسے اتنا بھی معلوم نہیں کہ کسی بھی کلام کے مقابلے کاطریقہ یہ ہے ک کوئی شاعر یا مضمون نگار اپنے ہی الفاظ، ترکیب اور اسلوب میں ایسا کلام پیش کرے جو مد مقابل کلام کے کسی پہلو اور مقصد سے مطابقت رکھتا ہو۔ مقابلے کا طریقہ یہ نہیں ہے کہ کلام کی ترکیب اور اسلوب میں اس کلام اور ترکیب کی نقل کی جائے جس سے مقابلہ کیا جارہا ہے اور صرف الفاظ میں رد و بدل کرلیا جائے۔

اسطرح کا مقابلہ تو ہر کلام کا کیا جاسکتا ے اور ایسا مقابلہ پیغمبر اکرم(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) کے ہم عصر عربوںکے لیے آسان تھا، لیکن چونکہ وہ مقابلے کے صحیح مفہوم اور بلاغت قرآن کے پہلوؤں کو سمجھتے تھے اس لیے مقابلہ نہ کرسکے۔ قران کے معجزہ ہونے کا انہوں نے اعتراف کرلیا اور انہوں نے اس پر ایمان لانا تھا وہ ایمان لے آئے اور جنہوں نے اس کا انکار کرناتھا انہوں نے انکار کردیا۔ اس کی طرف قرآن کریم میں اشارہ ہو رہا ہے:

( فَقَالَ إِنْ هَـٰذَا إِلَّا سِحْرٌ يُؤْثَرُ ) ۷۴:۲۴

''پھر کہنے لگا یہ تو بس جادو ہے جو (اگلوں سے) چلا آتا ہے۔،،

اس کے علاوہ مذکورہ بالا جملوں کا سورۃ فاتحہ سے موازنہ تک نہیں ہوسکتا جس سے یہ سوال پیدا ہو کہ ان جملوں سے سورۃ فاتحہ کے معانی ادا ہو جاتے ہیں؟

کیا فن بلاغت سے اس کا بے بہرہ ہونا ہی کافی نہیں تھا کہ اس نے لوگوں کے سامنے اپنی خامیوں اور عیبوں کو بھی

ظاہر کردیا؟!! اور''الحمد للرحمٰن،، کا مقایسہ اللہ تعالیٰ کے اس فرمان( الْحَمْدُ لِلَّـهِ ) ۱:۲،، سے کس طرح کیا جاسکتا ہے۔

جبکہ اس جملے میں وہ معانی نہیں پائے جاتے جو مقصود الہٰی ہیں۔ اس لیے کہ لفظ ''اللہ،، علم ہے اور نام ہے اس ذات اقدس کا جو تمام صفات کمال کی جامع ہے۔

۱۲۹

ان صفات کمال میں سے ایک صفت، رحمت ہے جس کی طرف ''بسم اللہ، میں اشارہ کیا گیا ہے ''اللہ،، کی بجائے ''رحمٰن،، ذکر کرنے سے باقی صفات کمال پر دلالت نہیں ہوتی جو ذات الہٰی میں مجتمع ہیں اور وہ صفات ایسی ہیں جو بذات خود رحمت کی طرح حمد الہٰی کی موجب ہیں۔

اسی طرح اس کے جملے ''رب الاکوان،، میں بھی اللہ تعالیٰ کے اس فرمان:( رَبِّ الْعَالَمِينَ ﴿﴾ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ ) ۱:۳ کے معنی و مفہوم کا کوئی شمہ نہیں پایا جاتا۔ اس لیے کہ( رَبِّ الْعَالَمِينَ ) اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ عالم طولی وعرضی(۱) ایک نہیں بلکہ متعدد ہیں اور اللہ تعالیٰ ان تمام عالموں کا مالک اور پالنے والا ہے اور اس کی رحمت ان تمام عالموں کو شامل ہے۔ چنانچہ ''رحمن،، کے بعد ''رحیم،، کاذکر بھی اس امر پر دلالت کرتا ہے جس کی وضاحت انشاء اللہ ''سورہ فاتحہ،، کی تفسیر میں کی جائے گی۔

یہ پر مغز معانی کجا اور عبارت ''رب الاکوان،، کجا؟ لفظ ''کون،، کئی معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔ یہ ''حدوث،، ''وقوع،، پذیر ''ہوجانا،، اور ''کفالت،،(۲) کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔

یہ سارے معانی مصدری ہیں جن کی طرف لفظ ''رب،، بمعنی مالک و مربی کی اضافت صحیح نہیں ہے۔ البتہ لفظ ''خالق،، کی اضافت ''کون،، کی طرف ہوسکتی ہے، اور ''خالق الاکوان،، کہا جاسکتا ہے۔

____________________

(۱) فلسفیانہ نقطہئ نظر سے عالم کی دوقسمیں ہیں:

i ) عرضی۔

ii ) طولی۔

عالم عرضی سے مراد وہ عالم ہے جس کے افراد میںایک علت اور دوسرا معلول نہ ہو جسے انسان اور حیوانات۔ عالم طولی سے مراد وہ عالم ہے جس کے افراد میں ایک علت اور دوسرا معلول ہو جسے عالم ناسوت (مادہ) جس کی علت عالم ملکوت ہے اور عالم ملکوت جس کی علت عالم لاہوت ہے۔

(۲) ''لسان العرب،، کی طرف رجوع کیجئے۔

۱۳۰

اس کے علاوہ لفظ ''اکوان،، عالم موجودات کے تعدد پر دلالت نہیں کرتا جیسے لفظ ''عالمین،، دلالت کرتا ہے اور آیہ کریمہ کے دوسرے پہلو جس میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:( مَالِكِ يَوْمِ الدِّينِ ) ۱:۴،، اس سے جو مقصد حاصل ہوتا ہے وہ جملہ ''الملک الدیان،، سے حاصل نہیں ہوتا۔ اس لیے کہ یہ جملہ اس عالم کے علاوہ کسی اور عالم کے وجود پر دلالت نہیں کرتا جس میں اعمال کی سزا و جزا دی جائے گی اور یہ کہ اس دن کا مالک صرف خدا کی ذات ہے کسی اور کو اس میں تصرف اور اختیا رکا حق نہیں ہوگا۔ سب لوگ اس دن خدا کے حکم کے تحت ہونگے، خدا ہی کے حکم و امر کا نفاذ ہوگا اور اسی کے حکم سے بعض کو بہشت ملے گی اور بعض کو جہنم میں بھیجا جائے گا۔

جبکہ جملہ ''الملک الدیان،، صرف اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ خدا وہ بادشاہ ہے جو اعمال کی سزا و جزا دیتا ہے۔ کتنا فرق ہے اس جملے اور آیہ کریمہ کے معانی میں؟!

اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

( إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ ) ۱:۵

اس کتابچے کے مصنف نے اس آیہ سے صرف اتنا سمجھا ہے کہ عبادت، خدا کی ہونی چاہیے اور مدد صرف خدا سے لینی چاہیے۔ چنانچہ اپنی اس سمجھ کے مطابق اس نے اللہ تعالیٰ کے مذکورہ فرمان کو اپنے اس قول سے بدل دیا۔''لک العبادة و بک المستعان،، یعنی ''عبادت تیرے لیے ہے اور مدد تمجھ سے ہے۔،، اور اس سے وہ مقصد فوت ہوگیا جو اس آیہ کریمہ کا تھا۔ اس آیہ کریمہ میں اس بات کی تلقین کی گئی ہے کہ مومن، توحید فی العبادۃ کااظہار کرے اس کے علاوہ عبادات اور دیگر افعال میں اپنی احتیاج کابھی اظہار کرے اور یہ اعتراف کرے کہ میں اور دوسرے تمام مومنین غیر اللہ کی عبادت نہیں کرتے اور نہ غیر اللہ سے مدد مانگتے ہیں۔ بھلا یہ نکات اس مصنف کی عبارت میںکہاںمل سکتے ہیں جبکہ اس کی عبارت آیہ مبارکہ سے زیادہ مختصر بھی نہیں ہے؟!

۱۳۱

اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

( اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ ) ۱:۶

اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ ہم اس سے ایسے قریبی راستے کی ہدایت طلب کریں جو اپنے چلنے والے کو اعمال خیر، صفات نفسانی اور عقائد جیسے مقاصد تک پہنچائے اور اس راستے کو صرف ایمان کے راستے میں منحصر نہیں فرمایا۔ یہ مطلب مصنف کے جملہ ''اھدنا صراط الایمان،، میں نہیں پایا جاتا۔ اس کے علاوہ اس جملے میں صرف ایمان کے راستے کی ہدایت کے لیے درخواست کی گئی ہے۔ اس میں اس نکتے کی طرف اشارہ نہیں ہے کہ ایمان کا یہ راستہ مستقیم ہے اور وہ اپنے پر چلنے والے کو گمراہ نہیں کرتا۔

اس مصنف نے صرف انہی جملوں کو مثل و نظیر کے طور پر پیش کرکے یہ گمان کرلیا ہے کہ سورہ مبارکہ کے باقی حصے کی ضرورت نہیں ہے ارو یہ بات کا ثبوت ہے کہ وہ اس آیہ کے مفوہم کو نہیں سمجھ سکا۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ کافرمان ہے:

( صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ ) ۱:۷

اس میں حقیت کی طرف اشارہ ہے کہ یہ راستہ ایک ایسا مستقیم اور سیدھا راستہ ہے کہ اس پر انبیاء(ع) صدیقین، شہداء اور صالحین چلتے ہیں، جن پر اللہ تعالیٰ نے اپنی نعتمیں نازل فرمائیں ہیں، اور اس کے مقابلے میں کچھ ایسے راستے ہیں جو مستقیم نہیں ہیں۔ ان راستوں پر وہ لوگ چلتے ہیں جن پر غضب الہٰی نازل ہوتا ہے، جو حق کے دشمن ہوتے ہیں اور حق آشکار ہونے کے باوجود اس کا انکار کرتے ہںی اور اس راستے پر چلنے والے لوگ ایسے گمراہ ہیں جو اپنی جہالت، جستجو میں کوتاہی اور اپنے آباؤ اجداد کی وراثت میں ملنے والے عقیدہ پر اکتفاء کرنے کی وجہ سے راہ حق سے بھٹک گئے ہیں، جس کے نتیجے میں بغیر کسی ہدایت اور دلیل کے انہوں نے اندھی تقلید کا راستہ اپنالیا ہے۔

۱۳۲

جو بھی اس آیہ کریمہ کو تدبّر اور تفکّر کی نگاہ سے پڑِے وہ اس نکتہ کی طرف متوجہ ہوگا کہ اخلاق و عقاید اور دوسرے اعمال میں اولیائے خدا اور اللہ کے مقربین کی اتباع کرنا چاہیے اور ان سرکشوں کی راہ سے اجتناب کرنا چاہیے جن کے اعمال یا جنکے کرتوتوں کے نتیجے میں خدا نے ان پر غضب نازل فرمایا ہو اور جو حق کے واضح ہونے کے باوجود اس کے راستے بھٹک گئے ہیں۔

اہل انصاف بتائیں کہ کیا یہ کوئی معمولی نکتہ ہے جسے اس مصنف نے نظر انداز کردیا اور اس آیہ کو غیر ضروری سمجھ کر اس کی نطیر یا متبادل عبارت کا ذکر نہیں کیا۔

یہ مصنف سورۃ ''کوثر،، کے مقابلے میں یہ عبارت پیش کرتا ہے:

''انا اعطیناک الجواهر فصل لربک و جاهر ولا تعتمد قول ساحر،،

ملاحظہ فرمائیں کہ نظم اور ترکیب میں یہ کس طرح قرآن کی نقل کررہا ہے اور اس کے بعض الفاظ بدل کر لوگوں کو یہ غلط تاثر دے رہا ہے کہ وہ قرآن کا مقابلہ کرنے میںکامیاب ہوگیا ہے، یہ بھی ملاحظہ فرمائیں کہ اس نے اپنی یہ عبارت کس طرح مسلیمہ کذاب کی عبارت سے چوری ی ہے۔ مسیلمہ کذاب کہتا ہے:

''انا اعطیناک الجماهر فصل لربک وهاجرو ان مبغضک رجل کافر،،

مقام حیرت ہے کہ یہ اس توہم کا شکار ہے کہ اگر دو کلام سجع میں ایک دوسرے کے مشابہ ہوں تو یہ بلاغت میں بھی یکساں ہوں گے اور اس نکتے سے غافل ہے کہ خدا کی طرف سے جواہر دیئے جانے لازمہ یہ نہیں ہے کہ نماز قائم کی جائے اور اس کا اعلان کیا جائے،نیز خداکی نعمتیں صرف جواہر ہی نہیں بلکہ اور بھی بہت سی نعمتیں ہیں جو کہ جواہر اور دوسرے مال و دولت سے بڑھ کر ہیں جیسے زندگی ہے، عقل اور ایمان کی نعمت ہے، جب خدا کی اتنی نعمتیں ہیں تو ان تمام کو چھوڑ کر صرف مال ہی کو کیوں نماز کا سبب قرار دیا ہے۔

۱۳۳

لیکن جو شخص تبشیری مشینری کے لیے کرائے پر کام کرتا ہو اس کاقبلہ تو مال و دولت ہی ہوگا اور مال ہی اس کا آخری ہدف ہوگا جس کے حصول کی وہ کوشش کرتا ہے اور مال ہی اس کی آخری منزل ہوتی ہے جسے وہ ہر مقصد پر برتر سمجھتا ہے، ضرب المثل ہے:

''وکل اناء بالذی فیه ینفح،،

از کوزہ ہمان تراودکہ دراواست

کوئی اس شخص سے پوچھے کہ جواہر سے کیا مراد ہے جسے اس نے الف، لام کے ساتھ ذکر ککیا ہے۔ اگر جواہر سے مراد کوئی خاص جواہر ہیں تو اس لفظ میں اس کی نشاندہی کے لیے کوئی قرینہ بھی ہونا چاہیے تھا جس سے جواہر کا تعین ہو جاتا، جو کہ موجود نہیں ہے۔

اگر جواہر سے مراد دنیا کے تمام جواہر ہیں (کیونکہ جواہر جمع ہے اور اس پر الف لام موجود ہے اور جب جمع پر الف، لام ہو تو یہ استغراق یعنی تمام افراد پردلالت کرتا ہے) تو یہ سفید جھوٹ ہے۔

اس کے علاوہ اس کے سابقہ دو جموں اور جملہ ''ولا تعتمد قول ساحر،، میں کیا مناسبت ہے؟ اور ساحر سے مراد کون ہے؟ جس پر اعتماد کرنے کا حکم دیا جارہا ہے۔ اگر اس سے مراد کوئی خاص ساحر یا جادوگر ہے اور اس ساحر کے اقوال میں سے کوئی خاص قول مراد ہے تو اس کے لیے کسی قرینہ یا علامت کا ذکر ہونا چاہتے تھاکہ اس ساحر سے مراد فلاں ساحر اور اس کا فلاں قول ہے۔ جبکہ اس جملے میں کوئی ایسی چیز نہیں ہے جو کسی خاص ساحر اور کسی خاص قول پر دلالت کرے۔

۱۳۴

اگر ساحر سے مراد ہر ساحر ہر قول ہے(کیونکہ نہی کے بعد نکرہ استعمال ہوا ہے جس سے عموم سمجھا جاتا ہے) تو اس سے کلام کا لغو ہونا لازم آتا ہے۔ کیونکہ اس کا کوئی معقول سبب نہیں ہے کہ انسان کسی بھی ساحر کے قول پر اعتماد نہ کرے خواہ اس کی بات روزمرہ کے کسی معمول کے امر سے متعلق ہو اور انسان کو اس کے قول پر اعتماد و اطمینان بھی ہو۔

اور اگر اس کا مقصد یہ ہے کہ ساحر ہونے کی حیثیت سے، اس کی بات پر اعتماد نہ کرو، تو بھی غلط ہے۔ اس لیے کہ ساحر ہونے کی حیثیت سے تو وہ کوئی بات نہیں کرتا، وہ تو اپنے جادو اور حیلوں کے ذریعے لوگوں کو اذیت دیتا ہے۔

سورہ کوثر اس شخص کے بارے میں نازل ہوئی تھی جو پیغمبر اکرم(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) کا تمسخر اڑاتا تھا اور آپ(ص) سے کہتا تھا کہ آپ(ص) ''ابتر،، (لاولد) ہیں اور جلد ہی آپ(ص) کانام اور دین مٹ جائے گا۔ اس مطلب کی طرف قرآن کریم میں اشارہ ہو رہا ہے:

( أَمْ يَقُولُونَ شَاعِرٌ نَّتَرَبَّصُ بِهِ رَيْبَ الْمَنُونِ ) ۵۲:۳۰

''کیا (تم کو) یہ لوگ کہتے ہیں کہ (یہ) شاعر ہے (اور) ہم تو اس کے بارے میں زمانے کے حوادث کا انتظار کررہے ہیں۔،،

ان کے اس خیال کے رد میں یہ سورۃ نازل ہوا:

( إِنَّا أَعْطَيْنَاكَ الْكَوْثَرَ ) ۱۰۸:۱

''(اے رسول) ہم نے تم کو کوثر عطا کیا۔،،

کوثر سے مراد وہ خیر کثیر ہے جو ہر اعتبار سے خیر ہے۔

۱۳۵

دنیا میں خیر کثیر سے مراد رسالت و نبوّت کا شرف، لوگوں کی ہدایت، مسلمانوں کی امامت، انصار و اعوان کی کثرت، دشمنوں پر غلبہ اور جناب سیدہ (سلام اللہ علیہا) کی ذریت سے آپ(ص) کی نسل اور اولاد کی کثرت ہے، جن کی بدولت رہتی دنیا تک آپ(ص) کا نام قائم رہے گا۔

آخرت کا خیر کثیر آپ(ص) کی شفاعت، جنت کے بلند درجات، حوض کوثر جس سے صرف آپ(ص) اور آپ(ص) کے دوست سیراب ہوں گے اور ان کے علاوہ دیگر بہت سی نعمتیں ہیں جو اللہ تعالیٰ نے آپ کو عطا فرمائی ہیں۔

( فَصَلِّ لِرَبِّكَ وَانْحَرْ )

''پس تم اپنے پروردگار کی نماز پڑھا کرو اور قربانی دیا کرو۔،،

ان نعمتوں پر اس کا شکر ادا کریں اور قربانی دیں۔ نحر سے مراد منیٰ کی قربانی یا عید الاضحیٰ پر دی جانے والی قربای یا نماز میں تکبیرۃ الاحرام کہنے کے دوران ہاتھوں کا گردن تک بلند کرنا یا نماز کے دوران قبلہ رخ ہونا اور متوازن کھڑے ہونا ہے۔ ان میں سے جو معنی مراد لیا جائے مناسب ہے کیونکہ یہ سب اعمال شکر کی صورتیں ہیں۔

( إِنَّ شَانِئَكَ هُوَ الْأَبْتَرُ )

''بیشک تمہارا دشمن بے اولاد رہے گا۔،،

آخر میں ارشاد ہوتا ہے کہ آپ لاولد نہیں ہیں بلکہ آپ کا دشمن ابتر و لا ولد ہو جائے گا۔

ان دشمنوں کا انجام آخر یہی ہوا جس کی خبر اللہ تعالیٰ نے آپ(ص) کو دی تھی۔ ان کا نام و نشان تک مٹ گیا اور دنیا میں ان کا کوئی ذکر خیر باقی نہیں ہے۔ ان کا اس طرح گمنام ہو جانا اس دردناک عذاب اور ابدی رسوائی کے علاوہ ہے جو انہیں نصیب ہوگی۔

۱۳۶

کیا یہ سورہ مبارکہ، جس کے معانی عظیم اور بلاغت کامل ہے، ان گئے گزرنے جملوں سے قابل مقایسہ ہے ،جن کو ترتیب سے لکھنے والے نے اپنی قوّت ضائع کی ہے؟ اس نے اپنے خیال میں نظیر پیش کرنے کے لیے قرآن مجید سے مفردات کی نقل کی ہے اور جملوں کے الفاظ اور اسلوب کو مسیلمہ کذاب سے لیا ہے۔ اس طرح اس نے اپنے عناد اور اسلام دشمنی بلکہ کھلم کھلا جہالت کے تقاضوں کو پورا کیا ہے تاکہ بلاغت اور اعجاز میں عظمت قرآن کا مقابلہ کرسکے!

رسُول اسلام (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)کےدیگر معجزات

تورات و انجیل میں نبوت محمد(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) کی بشارت

کسی دانشمند اور محقق کو اس میں شک نہ ہوگا کہ پیغبر اسلام (صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم)کے معجزات میں سے اعظم معجزہ قرآن کریم ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ قرآن کریم کا مقام تمام انبیاء(ع) کے معجزات سے بلند ہے۔ ہم نے گذشتہ مباحث میں اعجاز قرآن کے چند پہلوؤں کاذکر کیا اور یہ بھی واضح کردیا کہ کتاب الہٰی کو باقی معجزات پر برتری حاصل ہے۔ یہاں یہ بیان کرنا مقصود ہے کہ خاتم الانبیائؐ کا معجزہ صرف قرآن کریم ہی میں منحصر نہیں ہے بلکہ آپ(ص) باقی انبیاء(ع) کے تمام معجزات میں بھی شریک ہیں اور قرآنی معجزہ صرف آپ(ص) سے مختص ہے۔ ہمارے اس دعویٰ کی دو دلیلیں ہیں:

پہلی دلیل: مسلمانوں کی متواتر روایات ہیں جن کے مطابق یہ معجزات رسولل اعظمؐ سے صادر ہوئے اور مختلف مکاتب فکر کے مسلمانوں نے ان معجزات کے موضوع پر بہت کتابیں لکھی ہیں۔ خواہش مند حضرات ان کی طرف رجوع کرسکتے ہیں۔

ان روایات و اخبار کی دو امتیازی خصوصیات ہیں جو باقی انبیاء کے معجزات کے بارے میں اہل کتاب کی روایات میں نہیں ہیں۔

پہلی خصوصیت: ان روایات کا زمانہ ظہور معجزات کے زمانے سے نزدیک ہونا ہے۔ جب کسی چیز واقعہ کا زمانہ نزدیک ہو تو اس کا یقین آسانی سے حاصل ہوسکتا ہے جبکہ واقعہ کا زمانہ اگر دور ہو تو اس کا یقین حاصل کرنا آسان نہیں ہوتا۔

۱۳۷

دوسری خصوصیت: راویوں کی کثرت ہے۔ ا س لیے کہ پیغمبر اکرم(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) کے اصحاب جنہو ں نے اپنی آنکھوں سے ان معجزات کا مشاہدہ کیا ہے ان کی تعداد بنی اسرائیل اور حضرت عیسیٰ پر ایمان لائے تھے اور آپ سے جتنے معجزات منقول ہیں ان کا سلسلہئ سند ان قلیل اور محدود مومنین تک پہنچتا ہے۔ اس کے باوجود اگر حضرت عیسیٰ اور حضرت موسیٰ کے معجزات کے بارے میں تواتر کا دعویٰ کیا جاسکتا ہے تو خاتم الانبیائؐ کے معجزات کے بارے میں بطریق اولیٰ تواتر کا دعویٰ کیا جاسکتا ہے۔

ہم گذشتہ مباحث میں واضح کرچکے ہیں کہ گذشتہ انبیاء(ع) کے معجزات بعد کے زمانے والوں کے لیے تواتر سے ثابت نہیں ہیں اور اس سلسلے میں تواتر کا دعویٰ کرنا باطل ہوگا۔

دوسری دلیل: آپ(ص) نے گذشتہ انبیاء(ع) کے بہت سے معجزات کی تصدیق و تائید فرمائی ہے اور اس کے ساتھ ساتھ یہ دعویٰ بھی فرمایا کہ آپ(ص) ان تمام انبیاء(ع) سے افضل بلکہ خاتم الانبیاء ہیں۔ اس کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ یہ تمام معجزات بدرجہئ اتم آپ(ص) سے بھی صادر ہوں۔ کیونکہ یہ نامعقول ہے کہ ایک آدمی دوسرے آدممی سے بہتر ہونے کا دعویٰ کرے اور یہ بھی اقرار کرے کہ میں بعض صفات کے لحاظ سے دوسرے سے ناقص ہوں، نیز کیا یہ معقول ہے کہ ایک ڈاکٹر، دوسرے تمام ڈاکٹروں سے زیادہ ماہر ہونے کا دعویٰ کرے اور اس کے ساتھ ساتھ یہ اعتراف بھی کرے کہ بعض بیماریاں ایسی ہی ںجن کا علاج دوسرے ڈاکٹر تو کرسکتے ہیں لیکن میں نہیں کرسکتی؟! ظاہر ہے عقل کبھی بھی ایسے دعویٰ کی تصدیق نہیں کرے گی۔ اسی لیے بعض جھوٹے مدعیان نبوت نے اعجاز کا انکار کردیا اور وہ گذشتہ انبیاء کے معجزات میں سے کسی معجزے کو ماننے کے لیے تیار نہیں ہیں اور ان کی تمام تر کوشش ہوتی ہے کہ ہر اس آیہ کی تاویل و توجیہ کریں جو اعجاز پر دلالت کرے۔ یہ سب انکار اس لیے کیا جاتا ہے کہ کہیں لوگ ان سے بھی اس قسم کے معجزات کا مطالبہ نہ کر بیٹھیں جس سے ان کی عاجزی ظاہر ہو جائے اور یہ رسوا ہو جائیں۔

۱۳۸

بعض نادان اور عوام فریبیوں نے لکھا ہے کہ قرآن مجید میں چند ایسی آیات ہیں جن سے سوائے قرآن کریم کے باقی تمام معجزات رسول اعظمؐ کی نفی ہوتی ہے اور آپ(ص) کا واحد معجزہ قرآن کریم ہی ہے اور صرف یہی آپ کی نبوت کی دلیل و حجت ہے ہم ذیل میں وہ آیات ذکر کرتے ہیں جن سے ان لوگوں نے استدلال کنر کی کوشش کی ہے اور اس کے بعد ہم ان کے بطلان کو ثابت کریں گے۔

ان آیات میں سے ایک میں اللہ تعالی کا ارشاد ہوتا ہے:

( وَمَا مَنَعَنَا أَن نُّرْسِلَ بِالْآيَاتِ إِلَّا أَن كَذَّبَ بِهَا الْأَوَّلُونَ ۚ وَآتَيْنَا ثَمُودَ النَّاقَةَ مُبْصِرَةً فَظَلَمُوا بِهَا ۚ وَمَا نُرْسِلُ بِالْآيَاتِ إِلَّا تَخْوِيفًا ) ۱۷:۵۹

''اور ہمیں معجزات کے بھیجنے سے بجز اس کے اور کوئی وجہ مانع نہیں ہوئی کہ اگلوں نے انہیں جھٹلایا ارو ہم نے قوم ثمود کو (معجزے سے) اونٹی عطا کی جو (ہماری قدرت کی) دکھانے والی تھی ان لوگوں نے اس پر ظلم لیا (یہاں تک کہ مار ڈالا) اور ہم تو معجزے صرف ڈرانے کی غرض سے بھیجا کرتے ہیں۔،،

اس آیہ کریمہ سے ان کے زعم باطل کے مطابق ظاہر ہوتا ہے کہ پیغمبر اکرم(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) قرآن کے علاوہ اور کوئی معجزہ لے کر نہیں آئے اور اس کی وج یہ ہے کہ گذشتہ اقوام نے ان نشانیوں کی تکذیب کی جو ان کی طرف بھیجی گئی تھیں۔

جواب: اس آیہ کریمہ میں جن معجزات کی نفی کی گئی ہے اور جنہیں گذشتہ اقوام نے جھٹلالیا تھا ان سے مراد وہ معجزات ہیں جن کی گذشتہ اقوام نے اپنے انبیاء سے فرمائش کی تھی۔

۱۳۹

یہ آیہ کریم آپ(ص) سےہر قسم کے معجزات صادر ہونے کی نفی نہیں کرتی بلکہ اس امر پر دلالت کرتی ہے کہ آپ(ص) نے مشرکین کے مطلوبہ معجزات پیش نہیں کئے۔ اس کے چند دلائل ہیں:

۱۔ ''آیات،،، آیت کی جمع ہے۔ جس کے معنی ''نشانی،، کے ہیں اور جمع کے لفظ پ رالف۔ لام موجود ہے۔ ان خصوصیات کے پیش نظر آیہ کے معنی میں تین احتمال دیئے جاسکتے ہیں۔

i ) آیت سے مراد جنس آیت ہو جو آیت کی ہر فرد پر صادق آئے۔ اس کا مطلب یہ ہوگا کہ قرآن کی یہ آیت ان تمام آیات کی نفی کررہی ہے جو مدعیئ نبوت کی صداقت پر دلالت کرتی ہیں۔ اس سے رسول اعظمؐ کی بعثت کا لغو ہونا لازم آتا ہے اسلئے کہ جب تک آپ(ص) کے دعویٰ کی صداقت کا کوئی ثبوت موجود نہ ہو آپ(ص) کو نبوّت پر فائز کرنے کا کوئی فائدہ نہیں ہے۔ اس کے علاوہ بغیر کسی معجزہ کے آپ کی نبوّت کی تصدیق اور آپ کی اتباع لازمی قرار دینا لوگوں پر ایسی ذمہ داری ڈالنا جو ان کے دائرہئ قدرت سے باہر ہے۔

ii ) اس آیہ سے مراد سب نشانیاں ہوں۔ یہ احتمال بھی باطل ہے اس لیے کہ نبی کی صداقت اس پر موقوف نہیں ہوسکتی کہ جتنی بھی آیات و نشانیاں ہوسکتی ہیں، سب پیش کی جائیں اور نہ ہی مطالبہ کرنے والوں نے سب کی سب آیات و نشانیاں پیش کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔ اس بناء پر آیہ کے یہ معنی بھی صحیح نہیں ہونگے۔

iii ) ''الآیات،، سے مراد کچھ مخصوص نشانیاں ہوں جن کا مشرکین مطالبہ کیا کرتے تھے اور آپ(ص) نے ان کا مطالبہ پورا نہیں فرمایا اور یہی احتمال درست ہے۔

۲۔ اگر لوگوں کی تکذیب معجزات بھیجنے میں مانع بن سکتی ہے تو اسے قرآن نازل کرنے میں بھی مانع بننا چاہےے تھا۔ کیونکہ کوئی وجہ نہی ںکہ ان کی تکذیب بعض معجزات کے لیے مانع ہو اور بعض کے لیے نہ ہو۔

۱۴۰

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

وَإِذْ قَتَلْتُمْ نَفْساً فَادَّارَأْتُمْ فِيهَا وَاللّهُ مُخْرِجٌ مَّا كُنتُمْ تَكْتُمُونَ ( ۷۲ )

اور جب تم نے ايك شخصكو قتل كرديا اوراس كے قاتل كے بارے ميں جھگڑا كرنے لگے جب كہ خدا اس راز كا واضحكرنے والا ہے جسے تم چھپارہے تھے(۷۲)

۱ _ حضرت موسىعليه‌السلام كى قوم كا ايك فرد قتل ہوگيا تو ہر قبيلہ ايك دوسرے پر الزام دھرنے لگا اس طرح ان ميں اختلاف و نزاع بپا ہوگيا _و إذ قتلتم نفسا فادار ء تم فيها '' ادارء تم'' كا معنى ہے تم نے اختلاف و جھگڑا كيا _ يہ لفظ باب تفاعل ميں '' تدارء تم'' تھا_ ''ادارء تم فيہا'' مقتول ميں نزاع و اختلاف كا معنى يہ ہے كہ ايك دوسرے پر قتل كا الزام لگانا اور اسى مسئلہ پر ايك دوسرے سے جھگڑنا ہے_

۲ _ اللہ تعالى نے حضرت موسىعليه‌السلام كى قوم كو قاتل كى پہچان كى خوش خبرى دى اور قاتلوں كى ماہيت كو افشا كرنے كى دھمكى د ي_والله مخرج ما كنتم تكتمون ''ما كنتم تكتمون'' تم نے جو كچھ چھپاياہے ما قبل جملہ كے قرينہ سے اس جملہ سے مراد يہ ہے كہ قاتل كو جاننے كے باوجود انہوں نے نہيں بتايا ''مخرج '' كا مصدر '' اخراج '' ہے اور تكتمون كے قرينہ سے اس سے مراد آشكارا كرنا ہے_

۳ _ حضرت موسىعليه‌السلام كى قوم كے بعض افراد قاتل كو جانتے

تھے_ ليكن اس كى ماہيت كو ظاہر كرنے سے انہوں نے پرہيز كيا _والله مخرج ما كنتم تكتمون

اگر چہ قاتل كو چھپانے كى نسبت حضرت موسىعليه‌السلام كى سارى قوم كو دى گئي ہے ليكن '' فادارء تم'' كے قرينہ سے معلوم ہوتاہے كہ بعض لوگ قاتل كو پہچانتے تھے ليكن انہوں نے بتانے سے اجتناب كيا _

۴ _ اللہ تعالى انسانوں كے رازوں سے آگاہ ہے اور ان كو ظاہر كرنے پر قدرت و توانائي ركھتاہے_والله مخرج ما كنتم تكتمون

اللہ تعالى : اللہ تعالى كى دھمكياں ۲; اللہ تعالى كا علم غيب ۴; اللہ تعالى كى قدرت ۴

انسان: انسانوں كے راز ۴

۲۴۱

بنى اسرائيل: بنى اسرائيل ميں قتل كى بنياد ركھنے والے كو آشكار كرنا ۲; بنى اسرائيل كى تاريخ ۱،۳; بنى اسرائيل كو دھمكى ۲; بنى اسرائيل ميں قتل كا واقعہ۱; بنى اسرائيل ميں قاتل كو چھپايا جانا۳; بنى اسرائيل كا جھگڑا ۱

راز: راز كا افشا ہونا ۴

قاتل: قاتل كى ماہيت كا افشا ہونا ۲،۳

فَقُلْنَا اضْرِبُوهُ بِبَعْضِهَا كَذَلِكَ يُحْيِي اللّهُ الْمَوْتَى وَيُرِيكُمْ آيَاتِهِ لَعَلَّكُمْ تَعْقِلُونَ ( ۷۳ )

توہم نے كہا كہ مقتول كو گائے كے ٹكڑے سےمس كردو خدا اسى طرح مردوں كو زندہكرتاہے اور تمھيں اپنى نشانياں دكھلاتاہےكہ شايد تمھيں عقل آجائے(۷۳)

۱ _ اللہ تعالى نے حضرت موسيعليه‌السلام كى قوم كو حكم ديا كہ ذبح شدہ گائے كا ايك ٹكڑا مقتول كے جسم پر ماريں _

فقلنا اضربوه ببعضها ''اضربوہ'' كى مفعولى ضمير ''نفساً'' كى طرف لوٹتى ہے اور ببعضہا كى ضمير ''بقرہ'' كى طرف پلٹتى ہے_

۲ _ حضرت موسىعليه‌السلام كى قوم كا مقتول، ذبح شدہ گائے كا ايك ٹكڑا لگنے سے زندہ ہوگيا _فقلنااضربوه ببعضهاكذلك يحيى الله الموتى ''كذلك يحى الله الموتى '' اللہ اسى طرح مردوں كو زندہ كرتاہے'' يہ عبارت اس جملہ ''فقلنا ...'' كے بعد آنا اس پر دلالت كرتى ہے كہ مقتول زندہ ہوگيا _

۳ _ اللہ تعالى كا فعل علل و اسباب پيدا ہونے سے متحقق يا وقوع پذير ہوتاہے_فقلنا اضربوه ببعضها

۴ _ حضرت موسىعليه‌السلام كى قوم كے مقتول نے زندہ ہونے كے بعد اپنے قاتل كا تعارف كرايا_والله مخرج ما كنتم تكتمون _ فقلنا اضربوه ببعضها كذلك يحيى الله الموتى اللہ تعالى كے اس وعدہ كے بعد كہ وہ قاتل كى ماہيت و شخصيت كو افشا كرے گا بنى اسرائيل كے مقتول كے زندہ ہونے كاذكر ايك محذوف جملے پر دلالت كرتاہے يعنىفضربوه بها فصار حياً و قال ان فلانا قتلني _

۵ _ بنى اسرائيل كے مقتول كو زندگى عطا كرنا اللہ تعالى كا فعل تھا_فقلنا اضربوه ببعضها كذلك يحيى الله الموتى

بنى اسرائيل كے مقتول كے گائے كا ايك عضو مارنے سے زندہ ہوجانے كے بعد اس حقيقت كا بيان كرنا ''اللہ تعالى مردوں كو زندہ كرتاہے'' اس سے يہ مفہوم نكلتاہے كہ مقتول كو زندگى عطا كرنا اللہ تعالى كا فعل ہے نہ كہ ذبح شدہ گائے كے عضو كا اثر _

۲۴۲

۶ _ حضرت موسىعليه‌السلام كى قوم كا مقتول مذكر تھا_فقلنا اضربوه ببعضها يہ مفہوم اس بناپر ہے كہ '' اضربوہ'' ميں ضمير ''ہ'' مذكر ہے جو '' نفسا'' كى طرف لوٹتى ہے_

۷_ اللہ تعالى تمام مردوں كو دوبارہ زندگى عنايت فرمائے گا _كذلك يحيى الله الموتى

۸ _ مردوں كو زندہ كرنا اللہ تعالى كے لئے سہل اور آسان امر ہے _كذلك يحيى الله الموتى

بنى اسرائيل كے مقتول كو زندہ كرنے ميں اور تمام مردوں كو زندہ كرنے ميں غالباً جو وجہ شباہت پائي جاتى ہے وہ سہولت اور آسانى ہے _ يعنى جسطرح اللہ تعالى نے اس مردے كو آسانى سے زندہ فرمايا باقى سارے مردوں كو بھى زندہ كرے گا _

۹ _ اللہ تعالى قيامت كے دن مردوں كے حاضر ہونے كے لئے ان كو اسباب كے ذريعے زندہ فرمائے گا_*فقلنا اضربوه ببعضها كذلك يحيى الله الموتي يہ مفہوم اس بناپر ہے كہ بنى اسرائيل كے مقتول كے زندہ ہونے ميں اور باقى مردوں كے قيامت كے روز زندہ ہونے ميں وجہ شباہت پائي جاتى ہو اور وہ اسباب كا استعمال ہے_

۱۰_ دنيا ميں مردوں كے زندہ ہونے كا امكان پايا جاتاہے _فقلنا اضربوه ببعضها كذلك يحيى الله الموتي

۱۱_ حضرت موسىعليه‌السلام كى قوم ميں سے ايك شخص كا قتل ہونا اور اسكا دوبارہ زندہ ہونا ايك معجزہ ہے اور ايك ايسا واقعہ ہے جو ياد ركھنے كے قابل ہے _إذ قتلتم نفسا فقلنا اضربوه ببعضها كذلك يحيى الله الموتى '' اذ'' فعل مقدر '' اذكروا'' كا مفعول ہے _

۱۲ _ اللہ تعالى لوگوں كے لئے اپنى قدرت كى نشانيوں كو ہميشہ اور واضح كركے بيان فرماتاہے_و يريكم آياته

آيات كا معنى نشانياں ہيں _ مردوں كے زندہ كرنے كے ذكر كى مناسبت سے ايسا معلوم ہوتاہے كہ مافوق آيت ميں آيات سے مراد قيامت يا قدرت خدا كے دلائل و نشانياں مراد ہيں _

۱۳ _ انسانوں كو آيات كا مشاہدہ كرانے كے اہداف ميں سے ايك يہ ہے كہ انسانوں كو يہ ادراك اور شعور ديا جائے كہ ان آيات پر قدرت و توانائي اور اقتدار و

۲۴۳

صلاحيت خداوند متعال كو حاصل ہے _يريكم آياته لعلكم تعقلون

۱۴ _ سوچنا اور غور و فكر كرنا اعلى ترين اقدار ميں سے ہے_يريكم آياته لعلكم تعقلون

يہ جو آيات كو اس ہدف كے لئے پيش كيا گياہے كہ بشر ميں سوچنے اور غور و فكر كرنے كى زمين ہموار كى جائے اس سے غور و فكر اور تدبر كى اہميت كا پتہ چلتاہے_

۱۵ _بنى اسرائيل كے مقتول كا زندہ ہونا اور اپنے قاتل كى پہچان كرانا اللہ تعالى كى آيات اور اسكى قدرت و اقتدار كى نشانيوں ميں سے ہے_فقلنا اضربوه ببعضها كذلك يريكم آياته لعلكم تعقلون ''آياتہ'' كے مصاديق ميں سے بنى اسرائيل كے مقتول كا زندہ ہونا ہے جبكہ آيت كا منظور نظر بھى يہى ہے_

۱۶ _ قرآن كريم ميں واقعات يا داستانوں كے نقل كرنے كا ہدف يہ ہے كہ انسانوں ميں تدبر اور ادراك كى زمين فراہم كى جائے_و يريكم آياته لعلكم تعقلون ''آياتہ'' سے بعض اوقات مراد خارجى واقعات اور حقائق ہيں جبكہ بعض اوقات منظور نظر ان حقائق كا بيان اور نقل كرنا ہے _ مذكورہ مفہوم دوسرے احتمال كى بنياد پر ہے _ اس احتمال كى بنياد پر ''آياتہ'' كے مصاديق ميں سے بنى اسرائيل كى گائے كا واقعہ اور ان كے مقتول كے زندہ ہونے كا واقعہ ہے_

۱۷ _ بزنطى نے امام رضاعليه‌السلام سے روايت كى ہے كہ''ان رجلاً من بنى اسرائيل قتل قرابة له فقالوا لموسى عليه‌السلام ان سبط آل فلان قتلوا فلاناً فاخبرنا من قتله ؟ قال ايتونى ببقرة فاشتروهاوجاؤابهافامر بذبحها ثم امر ان يضرب الميت بذنبها فلما فعلوا ذلك حيى المقتول و قال يا رسول الله ابن عمى قتلنى دون من يدعى عليه قتلى فعلموا بذلك قاتله (۱) بنى اسرائيل ميں سے ايك شخص نے اپنے قريبيوں ميں سے ايك فرد كو قتل كرديا بنى اسرائيل نے حضرت موسىعليه‌السلام سے كہا كہ فلاں قبيلے كے ايك فرد نے كسى كو قتل كرديا ہے تو آپعليه‌السلام ہميں قاتل كى خبر ديں كون ہے ؟ حضرت موسىعليه‌السلام نے فرمايا ا يك گائے ميرے پاس لاؤ وہ لوگ گائے خريد كے حضرت موسىعليه‌السلام كے پاس لائے _ حضرت موسىعليه‌السلام نے اس گائے كو ذبح كرنے كا حكم ديا پھر فرمايا گائے كى دم مقتول كو مارو جب انہوں نے يوں كيا تو مردہ زندہ ہوگيا اور عرض كى يا رسول اللہ ميرے چچا زاد نے مجھے قتل كيا ہے نہ كہ اس شخص نے جس پر ميرے قتل كا الزام لگايا گيا ہے پس اسطرح انہوں نے قاتل كو پہچان ليا _

آيات الہى : ۱۵ آيات الہى كا پيش كرنا ۱۲; آيات الہى كو بيان كرنا ۱۲;آيات الہى كو پيش كرنے كا فلسفہ ۱۳

____________________

۱) عيون اخبار الرضاعليه‌السلام ج/۲ ص ۱۳ ح ۳۱ ، نورالثقلين ج/ ۱ ص ۸۸ ح ۲۳۸_

۲۴۴

ادراك: ادراك كى قدر و قيمت ۱۴; ادراك كى زمين فراہم كرنا ۱۶ اقدار: ۱۴

اللہ تعالى : افعال الہى ۵،۷،۸،۹،۱۲; اوامر الہى ۱; افعال الہى كا وجود ميں آنا ۳; اللہ تعالى كى قدرت كى نشانياں ۱۲،۱۳،۱۵

بنى اسرائيل: بنى اسرائيل كے مقتول كا زندہ ہونا ۲،۴،۵،۱۱، ۱۵; بنى اسرائيل كى تاريخ ۱،۲ ، ۴ ، ۱۱ ،۱۷; بنى اسرائيل كى گائے كا ذبح ہونا ۱۷; بنى اسرائيل ميں قتل كا واقعہ ۱۱; بنى اسرائيل كى گائے كا واقعہ ۱۷; بنى اسرائيل كے مقتول كا مذكر ہونا ۶

تعقل: تعقل كى قدر و قيمت ۱۴; تعقل كى زمين فراہم ہونا ۱۶

جرائم : جرائم كے انكشاف كى كيفيت ۱،۲،۴

حضرت موسى (ع): حضرت موسىعليه‌السلام كا واقعہ۱۷

ذكر: تاريخ كا ذكر ۱۱

رجعت ( دوبارہ زندہ ہونا ): رجعت كا امكان ۱۰

روايت :۱۷

زندگي: زندگى كا دوبارہ لوٹنا ۷; زندگى كا سرچشمہ ۵،۷

سببيت: سببيت كا نظام ۳

طبعى و فطرى عوامل: طبعى و فطرى عوامل كى اہميت ۳

قاتل: قاتل كى شخصيت و ماہيت كے انكشاف كى كيفيت ۱،۲

قتل: ذبح شدہ گائے سے قتل كا انكشاف ۱

قرآن حكيم : قرآنى قصوں كا فلسفہ ۱۶

قيامت : قيامت ميں حشر و نشر يا حاضرى ۹

مردے : مردوں كا دنيا ميں زندہ كرنا ۱۰; مردوں كا زندہ كرنا ۷; مردوں كو زندہ كرنے كے اسباب ۹; مردوں كا زندہ كرنا سہل اور آسان ہے ۸

معجزہ : مردوں كے زندہ كرنے كا معجزہ ۱۱

۲۴۵

ثُمَّ قَسَتْ قُلُوبُكُم مِّن بَعْدِ ذَلِكَ فَهِيَ كَالْحِجَارَةِ أَوْ أَشَدُّ قَسْوَةً وَإِنَّ مِنَ الْحِجَارَةِ لَمَا يَتَفَجَّرُ مِنْهُ الأَنْهَارُ وَإِنَّ مِنْهَا لَمَا يَشَّقَّقُ فَيَخْرُجُ مِنْهُ الْمَاء وَإِنَّ مِنْهَا لَمَا يَهْبِطُ مِنْ خَشْيَةِ اللّهِ وَمَا اللّهُ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُونَ ( ۷۴ )

پھر تمھارےدل سخت ہوگئے جيسے پتھر يا اس سے بھى كچھزيادہ سخت كہ پتھروں ميں سے تو بعض سےنہريں بھى جارى ہوجاتى ہيں اور بعضشگافتہ ہوجاتے ہيں تو ان سے پانى نكلآتاہے اور بعض خوف خدا سے گر پڑتے ہيں _ليكن اللہ تمھارے اعمال سے غافل نہيں ہے(۷۴)

۱_ آيات الہى اور بہت سارے معجزات ديكھنے كے باوجود بنى اسرائيل كے دل سخت ہوگئے اور آيات و معارف الہى كے فہم و ادراك سے عاجز ہوگئے_لعلكم تعلقون _ ثم قست قلوبكم من بعد ذلك '' قست'' كا مصدر '' قساوة'' ہے اسكا معنى ہے گاڑھا اور سخت ہونا _ جملہ '' لعلكم تعقلون'' كا مفہوم يہ ہے كہ بنى اسرائيل كے دلوں كا سخت ہونا آيات و معارف الہى كے فہم و ادراك كے مقابلے ميں ہے _ '' ذلك'' ان نعمات اور معجزات كى طرف اشارہ ہے جو اللہ تعالى نے بنى اسرائيل كو پيش كيئے اور ان كا ذكر گزشتہ آيات ميں ہوچكاہے_

۲_ بنى اسرائيل كے دل سختى اور نفوذ ناپذيرى ميں پتھر كى طرح بلكہ اس سے بھى سخت تر ہوگئے_فهى كالحجارة او اشد قسوة '' حجارة'' حجر كى جمع ہے جسكا معنى ہے پتھر يا سنگ ريزہ_

۳ _ بنى اسرائيل كى قساوت قلبى ان كى ضد، ہٹ دھرمي، بہانہ تراشيوں اور نافرمانيوں كا نتيجہ تھي_قالوا اتتخذنا هزواً ثم قست قلوبكم

۴ _ بنى اسرائيل كے دل سخت ہونے كى وجہ سے ذرہ برابر معرفت سے بھى محروم و ناتواں ہوگئے_ثم قست قلوبكم فهى كالحجارة او اشد قسوة و ان من الحجارة جملہ '' ثم قست ...'' كا جملہ '' يريكم آياتہ لعلكم تعقلون '' سے ارتباط كا تقاضا يہ ہے كہ سختى دل كا مفہوم يہ ہو معارف الہى كے القا كو قبول

۲۴۶

نہ كرنا _ جبكہ اس جملہ ''ان من الحجارة ...'' ميں سختى كا مطلب يہ ہو كہ دل ميں معارف و حقائق القا نہيں ہوسكتے يعنى قسى القلب پر نہ خارج سے اثر ہوتاہے اور نہ ہى اندر كوئي چيز القا ہوسكتى ہے_

۵ _ بعض پتھروں سے پانى كے چشموں كا جارى ہونا دليل ہے كہ بنى اسرائيل كے دل پتھر سے زيادہ سخت ہيں _

او اشد قسوة و ان من الحجارة لما يتفجر منه الانهار ''يتفجر'' كا مصدر '' تفجّر'' ہے جسكا معنى ہے باہر آنا اور جارى ہونا ( مجمع البيان) جملہ ''ان من الحجارة'' ، ''اشدقسوة'' كے لئے دليل كے طور پر ہے_ '' لما'' لام تاكيد اور '' ما'' موصولہ سے مركب ہے اور اس سے مراد پتھر ہے پس مفہوم يوں ہے ''ان من الحجارة لما ...بعض پتھروں ميں سے يقيناً پتھر ہے كہ جو ...''

۶ _ بعض پتھروں ميں شگاف پيدا ہونا اور ان سے پانى كا جارى ہونا اس بات كى دليل ہے كہ بنى اسرائيل كے دل پتھروں سے زيادہ سخت ہيں _و ان منها لما يشقق فيخرج منه الماء '' يشقق، يتشقق'' كا مصدر تشقق ہے جسكا معنى ہے شگاف پيدا ہونا _ بعض اہل لغت كى رائے ہے كہ '' شق'' ايسے چھوٹے شگاف كو كہتے ہيں جو زيادہ واضح نہ ہو_

۷_ پتھروں كا خوف و خشيت الہى سے گرنا اس بات كى دليل ہے كہ بنى اسرائيل كے دل پتھروں سے زيادہ سخت ہيں _و ان منها لما يهبط من خشية الله ''من خشية الله'' ميں '' من'' تعليليہ ہے _ ''يہبط'' كا مصدر ہبوط ہے جس كا معنى ہے گرنا سقوط كرنا _ بنابريں جملہ''ان منھا ...'' سے مراد ہے كہ بعض پتھروں ميں ايسے پتھر ہيں جو خوف خدا سے گرجاتے ہيں _

۸ _ عالم مادہ يا جہان طبيعات شعور ركھتاہے _و ان منها لما يهبط من خشية الله

۹ _ عالم طبيعات يا جہان مادہ اللہ تعالى كى معرفت ركھتاہے اور اس كے مقام الوھيت سے آگاہ ہے_و ان منها لما يهبط من خشية الله

۱۰_ عالم طبيعات كا خداوند عالم سے خوف،اس كے عمل اور رد عمل كا سبب ہے _و ان منها لما يهبط من خشية الله

۱۱ _ جمادات سے پست تر مرحلے ميں انسان كے سقوط اور زوال كا خطرہ موجود ہے _و ان من الحجارة لما يتفجر و ان منها لما يهبط من خشية الله

۱۲ _ دينى حقائق اور معارف الہى كو درك نہ كرنا اور قبول نہ كرنا قساوت قلبى يا دلوں كے سخت ہونے كى دليل ہے _

يريكم آياته لعلكم تعقلون_ثم قست قلوبكم من بعد ذلك

۲۴۷

۱۳ _ قساوت قلبى يا سخت دلى كے مختلف درجات اور مراحل ہيں _فهى كالحجارة او اشد قسوة مذكورہ بالا جملے ميں '' او'' ممكن ہے مختلف اقسام اور انواع كے لئے استعمال ہوا ہو _ بنابريں يہ جملہ ''فھى كالحجارة ...'' دلالت كرتاہے كہ كچھ دل تو پتھر كى طرح سخت ہيں اور كچھ پتھر سے بھى سخت تر ہيں _

۱۴ _ انسان كے دل اور قلب كو خوف و خشيت الہى سے لرزاں بر اندام ہونا چاہيئے اور اسى كى راہ ميں چلنا چاہيئے_

و ان منها لما يهبط من خشية الله

۱۵ _ انسانى قلب كو الہى حقائق و معارف كے ظہور كا ذريعہ اور علم و حكمت كا مقام ہونا چاہيئے_ان من الحجارة لما يتفجر منه الانهار و ان منها لما يشقق فيخرج منه الماء

۱۶ _ قلب اگر خير و بركت كے ظہور كا مركز اور علم و حكمت كا سرچشمہ ہو تو يہ اس بات كى دليل ہے كہ قلب قساوت و سختى اور كينہ و كدورت سے پاك ہے_ثم قست قلوبكم فهى كالحجارة او اشد و ان من الحجارة لما يتفجر منه الانهار

۱۷_ اللہ تعالى كے حضور خشوع و خضوع، قلب كى قساوت و كدورت سے سلامتى و پاكيزگى كى دليل ہے_ثم قست قلوبكم فهى كالحجارة او اشد و ان منها لما يهبط من خشية الله

۱۸ _ اللہ تعالى انسانوں كے تمام تر اعمال و افعال سے آگاہ ہے_و ما الله بغافل عما تعملون

۱۹_ بنى اسرائيل گناہگار اور برے اعمال كے مالك تھے ان كو خداوند متعال كى جانب سے سزاؤں كى دھمكى دى گئي _

و ما الله بغافل عما تعملون اللہ تعالى گناہگاروں كے اعمال سے آگاہ ہے اس كے بيان كرنے كا ايك مقصد يہ ہے كہ گناہگاروں كو سزا كى دھمكى دى گئي ہے_

۲۰ _ گناہگار لوگ اور برے اعمال كے مالك افراد كا اللہ تعالى كى سزاؤں ميں مبتلا ہونے كا خطرہ موجود ہے_

و ما الله بغافل عما تعملون

اللہ تعالى : اللہ تعالى كى دھمكياں ۱۹; اللہ تعالى كا علم ۱۸; اللہ تعالى كى سزائيں ۱۹،۲۰

انسان: انسان كا عمل ۱۸; انسان كے زوال كے درجات۱۱

بنى اسرائيل: بنى اسرائيل كو آيات كا مشاہدہ كرانا ۱; بنى

۲۴۸

اسرائيل گناہگار ہيں ۱۹; بنى اسرائيل كى بہانہ تراشياں ۳; بنى اسرائيل كو دھمكى ۱۹; بنى اسرائيل كى نافرمانى ۳; بنى اسرائيل كى قساوت قلبى ۱،۲،۳،۴،۵،۶،۷; بنى اسرائيل كى ضد اور ہٹ دھرمى ۳

بہانہ تراشى : بہانہ تراشى كے نتائج ۳

پاني: پانى كا پتھر سے جارى ہونا ۵،۶

پتھر: پتھروں كا زوال و سقوط ۷; پتھروں كا شگافتہ ہونا ۶

تشبيہات: پتھر سے تشبيہ ۲

حكمت : حكمت كے نتائج ۱۶; حكمت كا مقام ۱۵

خشيت: خشيت كے آثار و نتائج ۱۷; خشيت خدا ۷،۱۰،۱۴

دين: دين سے منہ موڑنا۱۲; دين كا مقام ۱۵

سزا : سزا كے موجبات ۲۰

شناخت: شناخت كى ركاوٹيں ۴

ضد: ضد كے نتائج ۳

عالم طبيعات: عالم طبيعات كى خدا شناسى ۹; عالم طبيعات كى خشيت و خوف ۱۰; عالم طبيعات كا شعور ۸،۹; عالم طبيعات ميں تحولات و تغيرات كا سرچشمہ ۱۰

علم : علم كے نتائج ۱۶; علم كا مقام ۱۵

عمل: ناپسنديدہ عمل كى سزا و انجام ۲۰

قرآن حكيم: قرآن حكيم كى تشبيہات۲

قلب: قساوت قلبى كے نتائج ۴; خشيت قلب ۱۴; قساوت قلبى كے اسباب ۳; قساوت قلبى كے درجات ۱۳; قساوت قلبى كى نشانياں ۱۲; قلب سليم كى علامتيں ۱۶،۱۷; قلب كى اہميت و كردار ۱۵;

گناہگار: گناہگاروں كى سزا ۱۹،۲۰; گناہگاروں كو تنبيہ ۲۰

نافرماني: نافرمانى كے نتائج ۳

۲۴۹

أَفَتَطْمَعُونَ أَن يُؤْمِنُواْ لَكُمْ وَقَدْ كَانَ فَرِيقٌ مِّنْهُمْ يَسْمَعُونَ كَلاَمَ اللّهِ ثُمَّ يُحَرِّفُونَهُ مِن بَعْدِ مَا عَقَلُوهُ وَهُمْ يَعْلَمُونَ ( ۷۵ )

مسلمانو كيا تمھيں اميد ہے كہ يہيہودى تمھارى طرح ايمان لے آئيں گے جب كہان كے اسلاف كا ايك گروہ كلام خدا كو سنكر تحريف كرديتا تھا حالانكہ سب سمجھتےبھى تھے اور جانتے بھى تھے(۷۵)

۱_ زمانہ بعثت كے مسلمانوں كو اس دور كے يہوديوں سے توقع اور اميد تھى كہ وہ پيامبر اسلام (ص) كى رسالت كى حقانيت اور ان كے پيروكاروں كى تائيد كريں گے_أفتطمعون ان يومنوا لكم طمع كا معنى ايسى چيز كى طرف نفس كا كشش كرناہے جسكو دل چاہے ( مفردات راغب) طمع كا معنى اميد و رغبت ہے ( لسان العرب) ''ان يومنوا'' ميں ''لكم'' كے قرينہ سے ايمان كے معنى تصديق و تائيد كرناہے _ پس ''أفتطمعون ...'' يعنى كيا تمہيں اميد ہے كہ جس راہ كا تم نے انتخاب كيا ہے اس كى تائيد كريں ؟

۲ _ صدر اسلام كے مسلمانوں كى دلبستگى اور اميد بنى اسرائيل كے ايمان لانے پر تھي_أفتطمعون ان يومنوا لكم

يہ مفہوم ''ان يومنوا لكم'' كا لازمہ ہے كيونكہ كسى مكتب كے پيروكاروں كى تصديق و تائيد در حقيقت اس مكتب كى حقانيت كى تصديق ہے اور بالاخر اس پر ايمان لاناہے_

۳ _ اللہ تعالى نے مسلمانوں كو بنى اسرائيل اور يہوديوں كے ايمان نہ لانے سے آگاہ فرمايا _أفتطمعون ان يومنوا لكم

''أفتطمعون'' ميں ہمزہ استفہام انكار توبيخى يا تعجبى كے لئے ہے _ دونوں صورتوں ميں اس پر دلالت كرتاہے كہ يہودى معاشرہ اوربنى اسرائيل اسلام و قرآن پر ايمان نہ لائيں گے _

۴ _ بنى اسرائيل اور يہودى معاشرے كى سخت دلى اور قساوت قلبي، ان ميں اسلام كى طرف رجحان اور ايمان كو جڑ سے اكھاڑنے والى تھي_ثم قست قلوبكم أفتطمعون ان يومنوا لكم

'' أفتطمعون'' ميں حرف '' فائ'' بنى اسرائيل سے ايمان كى اميد منقطع ہونے كو انكى قساوت قلبى كا نتيجہ قرا ر ديتاہے جيسا كہ اسكا بيان ما قبل آيت ميں ہوا ہے يعنى بنى اسرائيل ميں قساوت قلبى كے پيدا ہونے سے ان ميں ايمان لانے كى اميديں منقطع ہوگئي ہيں _

۵_ كچھ لوگوں نے بنى اسرائيل سے كلام الہى (تورات) سننے اور سمجھنے كے بعد اس ميں تحريف كردى _و قد كان فريق منهم يسمعون كلام الله ثم يحرفونه من بعد ما عقلوه

۲۵۰

آيہ مجيدہ ميں ''كلام اللہ '' سے مراد تورات ہوسكتى ہے اور قرآن كريم بھى ہوسكتاہے _ مذكورہ مفہوم پہلے احتمال كى بناپر ہے

۶ _ بعض بنى اسرائيل نے پيامبرعليه‌السلام خدا كے واسطہ كے بغير كلام الہى كو سنا_ *و قد كان فريق منهم يسمعون كلام الله بعض مفسرين كى رائے كے مطابق ''فريق منھم'' سے مراد وہ ستر ۷۰) افراد ہيں جن كو حضرت موسىعليه‌السلام نے انتخاب فرمايا تا كہ خود كلام الہى كو سن ليں _ انہى افراد نے اسى كلام ميں تحريف كى _

۷ _ علمائے يہود نے تورات ميں معنوى تحريف كى _ثم يحرفونه من بعد ما عقلوه علماء اور ان كے مقابل كا گروہ ''اميون'' ہےجيسا كہ آيت ۷۸ ميں بيان ہواہے ان لوگوں كا مذكورہ مسائل سے ربط و مناسبت اس بات پر دلالت كرتے ہيں كہ ''فريق منھم'' سے مراد بنى اسرائيل كے علماء اور يہودى ہيں ''من بعد ما عقلوہ'' _ بعد اس كے كہ كلام خدا كو سمجھ گئے اس ميں تحريف كردي'' اس مطلب كى طرف اشارہ ہے كہ تحريف سے مراد معنوى تحريف ہے _

۸ _ علمائے يہود آگاہى و توجہ سے اور جان بوجھ كر كلام الہى ميں تحريف كرتے تھے_ثم يحرفونه من بعد ما عقلوه و هم يعلمون يہ مفہوم اس بناپر ہے كہ '' يعلمون'' كا مفعول كلام خدا ميں تحريف ہو يعنى '' و ہم يعلمون انھم يحرفونہ'' اس ميں بعض اور احتمالات بھى بيان كيئے گئے ہيں جن كا ذكر ہوگا_

۹_ علمائے يہود كى طرف سے كلام الہى ميں تحريف ، ان ميں فقدان ايمان كى زمين فراہم ہونے كى دليل ہے_

أفتطمعون ان يومنوا لكم و قد كان فريق منهم من بعد ما عقلوه جملہ حاليہ ''و قد كان ...'' اس علت كو بيان كررہاہے كہ يہوديوں ميں ايمان لانے كى اميد منفى و منقطع ہے _

۱۰_ قرآن كريم ميں بنى اسرائيل اور يہودى معاشرے كى داستان كى تشريح كے اہداف ميں سے ايك ان كے اسلام پر ايمان نہ لانے كے اسباب و علل كا بيان ہے_أفتطمعون ان يومنوا لكم

آيہ مجيد ہ جو زير بحث ہے يہ بنى اسرائيل خصوصاً يہوديوں سے مربوط تاريخى حقائق كا نتيجہ ہے _ يعنى انہوں نے بہت زيادہ معجزات ديكھنے اور فراواں نعمات حاصل كرنے كے بعد كفر اختيار كيا، بچھڑے كى پوجا كى طرف رغبت اور رجحان اختيار كيا اور حضرت موسىعليه‌السلام كو جہالت اور مذاق اڑانے كى طرف نسبت دى بنابريں ان سے قرآن پر ايمان لانے كى اميد ركھنا ايك بے جا اميد ہے _

۲۵۱

۱۱ _ حقائق كى تحريف كرنے والے علماء سے ايمان كى اميد ركھنا ايك بے مورد اور بے جا اميد ہے _

أفتطمعون ان يومنوا لكم و قد كان من بعد ما عقلوه

۱۲ _ كچھ يہودى قرآن ( كلام الہي) كو سنتے اور اس كو اچھى طرح سمجھ ليتے تھے پھر اسكے معانى اور مفاہيم ميں تحريف كرتے تھے_و قد كان فريق منهم يسمعون كلام الله ثم يحرفونه من بعد ما عقلوه يہ مفہوم اس بناپر ہے كہ كلام اللہ سے مراد قرآن ہو

۳ ۱ _ زمانہ پيامبر اسلام (ص) كے علمائے يہود قرآن كريم كے الہى ہونے كى مكمل آگاہى ركھتے تھے_و هم يعلمون

يہ مفہوم اس بناپر ہے كہ ''يسمعون كلام اللہ '' كے قرينہ سے ''يعلمون'' كا مفعول ان كے لئے قراء ت كيا جانے والا كلام الہى ہو _ يعنى''وهم يعلمون ان الذى يسمعونه كلام الله''

۱۴ _ يہودى علماء كا اپنے عوام كو اسلام اور پيامبر اسلام (ص) پر ايمان لانے سے روكنے ميں نہايت اہم كردار تھا_

أفتطمعون ان يومنوا لكم و قد كان فريق منهم يہ جملہ ''و قد كان ...''ممكن ہے علماء يہود كے ايمان كى اميد منقطع ہونے كى دليل ہو اور يہ بھى ممكن ہے كہ يہود عوام كے ايمان كى اميد منقطع ہونے كى دليل ہو _ مذكورہ مفہوم دوسرے احتمال كى بنياد پر ہے يعنى يہودى ايمان نہيں لائيں گے كيونكہ ان كے علماء حقائق كى تحريف كرنے كے باعث اجازت نہيں ديں گے كہ حقائق جيسے ہيں ويسے ہى عوام تك پہنچ جائيں اور ان ميں ايمان كى راہ ہموار ہو_

۱۵ _ ہر معاشرے كے علمائ، نابغہ اور اہم شخصيات عوامى رجحانات ميں بہت اہم كردار كے حامل ہوتے ہيں _

أفتطمعون ان يومنوا لكم و قد كان فريق منهم

اسلام : صدر اسلام كى تاريخ ۱،۲

ايمان: اسلام پر ايمان ميں ركاوٹ ۱۴; ايمان كى راہ ميں ركاوٹيں ۴

بنى اسرائيل: بنى اسرائيل كا اسلام سے منہ موڑنا ۳; بنى اسرائيل اور كلام الہى كا سننا ۶; بنى اسرائيل كى تاريخ ۵; بنى اسرائيل كے تحريف كرنے والے ۵; اسلام سے بنى اسرائيل كے منہ موڑنے كے دلائل ۱۰; بنى اسرائيل كى تاريخ بيان كرنے كا فلسفہ ۱۰; بنى اسرائيل كى قساوت قلبى ۴

بے جا توقعات: ۱۱

۲۵۲

تحريف: كلام الہى كى تحريف ۸،۹،۱۲

تورات: تورات كى تحريف ۵،۷

ثقافت : ثقافت و تمدن كے بنيادى عوامل ۱۵

رجحانات: اسلام كى طرف رجحان ميں ركاوٹيں ۴

علماء : تحريف كرنے والے علماء ۱۱; علماء كى اہميت و كردار۱۵

علمائے يہود: علمائے يہود كى آگاہى ۱۳; علمائے يہود كا تحريف كرنا ۷،۸،۹; علمائے يہوداور اسلام ۱۴; علمائے يہود اور قرآن ۱۳; علمائے يہود ا ور عوام ۱۴; علمائے يہود كا كردار۱۴

قرآن كريم : قرآن كى معنوى تحريف ۱۲; قرآن كى تحريف

كرنے والے ۱۲; قرآن كريم كا وحى ہونا ۱۳

قلب: قساوت قلبى كے نتائج ۴

مسلمان: صدر اسلام كے مسلمانوں كى آگاہى ۳; صدر اسلام كے مسلمانوں كى توقعات ۱; صدر اسلام كے مسلمانوں كى اميديں ۲; صدر اسلام كے مسلمان اور بنى اسرائيل ۲;مسلمان اور يہودى ۱

نابغہ افراد يا اہم شخصيات: نابغہ افراد كى معاشرتى اہميت ۱۵

وحي: عوام اور وحى كا غور سے سننا ۶

يہود: يہوديوں كا اسلام سے منہ موڑنا ۳; يہوديوں كى تحريف كا عمل ۱۲; يہوديوں كے اسلام سے منہ موڑنے كے دلائل ۱۰; يہوديوں كى تاريخ بيان كرنے كا فلسفہ ۱۰; يہوديوں كى قساوت قلبى ۴; يہود اور قرآن ۱۲

۲۵۳

إِذَا لَقُواْ الَّذِينَ آمَنُواْ قَالُواْ آمَنَّا وَإِذَا خَلاَ بَعْضُهُمْ إِلَىَ بَعْضٍ قَالُواْ أَتُحَدِّثُونَهُم بِمَا فَتَحَ اللّهُ عَلَيْكُمْ لِيُحَآجُّوكُم بِهِ عِندَ رَبِّكُمْ أَفَلاَ تَعْقِلُونَ ( ۷۶ )

يہ يہوديايمان والوں سے ملتے ہيں تو كہتے ہيں كہہم بھى ايمان لے آئے اور آپس ميں ايكدوسرے سے ملتے ہيں تو كہتے ہيں كہ كيا تممسلمانوں كو توريت كے مطالب بتادوگے كہوہ اپنے نبى كے اوصاف سے تمھارے اوپراستدلال كريں كيا تمھيں عقل نہيں ہے كہايسى حماقت كروگے (۷۶)

۱ _ يہودى عوام مسلمانوں كے سامنے پيامبر اسلام (ص) كى حقانيت اور پيامبر(ص) موعود كى آپ (ص) پر تطبيق كا اعتراف كرتے تھے _و اذا لقوا الذين آمنوا قالوا آمنا قالوا اتحدثونهم بما فتح الله عليكم

''اتحدثونھم وہ حقائق جو اللہ نے تمہارے اختيار ميں ديئے ہيں مسلمانوں كے سامنے كيوں بيان كرتے ہو؟ '' يہ جملہ اس پر دلالت كرتاہے كہ ''آمنا'' سے مراد تورات ميں پيامبر موعود كى خصوصيات كا بيان اور انكى مطابقت رسول اسلام(ص) كے ساتھ ہے _ پس ''آمنا'' يعنى ہم تصديق كرتے ہيں كہ محمد(ص) ہى پيامبر موعود ہيں اور بيان شدہ خصوصيات كى تطبيق آپعليه‌السلام پر ہى ہوتى ہے_

۲ _ زمانہ بعثت كے يہود پيامبر اسلام (ص) كى رسالت كي حقانيت كا اطمينان ركھتے تھے اور پيامبر موعود كى علامتوں كے آپعليه‌السلام پر انطباق كے قائل تھے_و اذا لقوا الذين آمنوا قالوا آمنا قالوا اتحدثونهم بما فتح الله

''ليحاجوكم بہ ...'' تا كہ ان حقائق سے خدا كى بارگاہ ميں تمہارے خلاف دلائل پيش كريں '' يہ عبارت اس مفہوم كو پہنچاتى ہے كہ ''ما فتح اللہ '' كا مصداق اسلام اور پيامبر اسلام (ص) كى حقانيت ہے جو تورات ميں بيان ہوئي ہے بنابريں تمام يہوديوں كو، علماء و عوام ہر دو كو پيامبر اسلام (ص) كى رسالت پر اطمينان تھا_

۳ _ تورات ميں پيامبر اسلام(ص) كى بعثت اور آنحضرت (ص) كى صفات بيان كى گئي تھيں _

قالوا اتحدثونهم بما فتح الله عليكم

'' فتح'' كے معانى ميں سے مطلع كرنا اور تعليم دينا بھى ہے پس '' ما فتح اللہ عليكم'' يعنى وہ حقائق جن سے اللہ تعالى نے تمہيں مطلع كيا ہے اور تمہارے اختيار ميں قرار ديا ہے _ تورات چونكہ يہوديوں كے لئے اسطرح كى اطلاعات كا واحد منبع ہے لہذا اس مفہوم كو حاصل كيا جاسكتاہے_

۲۵۴

۴ _ زمانہ بعثت كے يہود اسلام كے خلاف سازشيں كرنے كے لئے مخفى نشستيں كرتے تھے_و اذا خلا بعضهم الى بعض

۵ _ يہوديوں كے علماء اور قائدين اپنى عوام كو پيامبر موعود كى صفات بيان كرنے اور ان صفات كا پيامبر اسلام(ص) پر انطباق بتانے سے منع كرتے تھے_قالوا اتحدثونهم بما فتح الله عليكم '' اتحدثونھم'' ميں استفہام انكار توبيخى ہے _

۶ _ علماء يہود نے اپنى عوام كو پيامبر موعود كى صفات بيان كرنے اور ان كى تشہير كرنے سے روكنے كى توجيہ يہ كى كہ مسلمان اللہ تعالى كى بارگاہ ميں يہوديوں كے خلاف دليل نہيں لاسكتے_اتحدثونهم بما فتح الله عليكم ليحاجوكم به عند ربكم

۷ _ زمانہ بعثت كے يہود اسلام اور پيامبر اكرم (ص) كى رسالت كى حقانيت كو چھپانے كے درپے تھے _

اتحدثونھم بما فتح اللہ عليكم

۸ _ يہودى قائدين پيامبر موعود كى صفات كو بيان كرنے اور ان كى حقانيت كے اعتراف كو بے عقلى اور حماقت جانتے تھے _اتحدثونهم افلا تعقلون

۹ _ زمانہ بعثت كے يہودى علماء اور قائدين ہٹ دھرم اور حق كو قبول كرنے والے نہ تھے_اتحدثونهم بما فتح الله عليكم افلا تعقلون

۱۰_ يہودى علماء و قائدين كى ضد اور حق ناپذيرى اس بات كى دليل تھى كہ مسلمانوں نے جو ان كے ايمان لانے كى اميديں باندھ ركھى تھيں وہ بے جا تھيں _أفتطمعون ان يومنوا لكم قالوا اتحدثونهم بما فتح الله عليكم

يہ آيہ مجيدہ جملہ حاليہ '' و قد كان ...'' پر عطف ہے يا پھر جملہ ''يسمعون ...'' پر عطف ہے دونوں صورتوں ميں '' أفتطمعون'' كے لئے ايك اور دليل ہے _

۱۱ _ يہودى قوم اور معاشرے كے مفادات كا تحفظ ان كے علماء اور قائدين كى نظر ميں دينى اعتقادات كے اعتراف و يقين سے زيادہ اہم و برتر مسئلہ تھا_قالوا اتحدثونهم بما فتح الله عليكم افلا تعقلون

۱۲ _ يہودى علماء اور قائدين دينى حقائق اور الہى معارف كا اعتراف اس صورت ميں كہ ان كے قومى مفادات كے لئے ضرر رساں ہو بے جا تصور كرتے اور اسكو حماقت جانتے تھے_اتحدثونهم بما فتح الله عليكم افلا تعقلون

۲۵۵

۱۳ _ يہود قيامت پر ، اس دن محاكمہ كے برقرار ہونے پر اور اس روز انسانوں كے ايك دوسرے كے خلاف اللہ تعالى كى بارگاہ ميں دليل لانے پر عقيدہ ركھتے تھے_اتحدثونهم ليحاجوكم به عند ربكم

۱۴ _ يہوديوں كا اللہ تعالى كى ربوبيت پر ايمان ركھنا _اتحدثونهم بما فتح الله عليكم ليحاجوكم به عند ربكم

۱۵ _ يہوديوں كے باطل گمان اور عقائد ميں سے تھا كہ اللہ تعالى انسانوں كے اسرار اور بھيدوں سے آگاہ نہيں ہے_

اتحدثونهم بما فتح الله عليكم ليحاجوكم به عند ربكم

جملہ '' اتحدثونھم ...'' سے يہ مفہوم نكلتاہے كہ يہوديوں كا خيال تھا اگر انہوں نے اپنے حقائق اور معلومات كو آشكارا كرديا تو ان كے خلاف دليل لائي جاسكتى ہے اور اگر ايسانہ كريں تو ان كے خلاف دليل نہيں لائي جاسكتى اور نہ ہى انكا مؤاخذہ ہو سكتاہے_ مذكورہ بالا مفہوم اسى گمان باطل كى بناپر ہے_

۱۶ _ علماء يہود كا اپنے عوام كے كمزور دينى عقائد اور بصيرت سے سوء استفادہ كرنا _اتحدثونهم بما فتح الله عليكم ليحاجوكم به عند ربكم

۱۷_ امام باقر (ص) سے روايت ہے ''انه قال كان قوم من اليهود ليسوا من المعاندين المتواطئين اذا لقوا المسلمين حدثوهم بما فى التوراة من صفه محمد (ص) فنها هم كبرائهم عن ذلك و قالوا لا تخبروهم بما فى التوراة من صفة محمد (ص) فيحاجوكم به عند ربكم فنزلت هذه الآية '' (۱)

يہوديوں كا ايك گروہ جو مسلمانوں سے كينہ و عناد نہ ركھتا تھا جب مسلمانوں سے انكا سامنا ہوتا تو رسول خدا (ص) كى تورات ميں بيان شدہ صفات ان كے لئے بيان كرتے _ اس امر سے يہوديوں كے بڑے باخبر ہوئے تو انہوں نے ان كو منع كيا اور كہا تورات ميں محمد (ص) كى جو صفات بيان ہوئيں ہيں ان سے مسلمانوں كو مطلع نہ كرو ورنہ اس ذريعے سے پروردگار كى بارگاہ ميں وہ لوگ تمہارے خلاف دليل لائيں گے پس يہ آيت نازل ہوئي _

اسلام: صدر اسلام كى تاريخ ۱،۴،۶،۷،۸; اسلام كے خلاف سازش ۴

اقرار: پيامبر اسلا (ص) كى حقانيت كا اقرار ۱

اللہ تعالى : اللہ تعالى اور جہالت ۱۵

پيامبر اسلام (ص) :

____________________

۱) مجمع البيان ج/۱ ص ۲۸۶ ، نورالثقلين ج/۱ ص۹۲ ح ۲۵۳_

۲۵۶

پيامبر اسلام(ص) كى حقانيت ۲ پيامبر اسلام (ص) تورات ميں ۳،۱۷

تورات: تورات كى تعليما ت ۳،۱۷

روايت: ۱۷

عقيدہ: اللہ تعالى كى ربوبيت پر عقيدہ ۱۴; قيامت پر عقيدہ۱۳

علمائے يہود: يہودى علماء كى بصيرت ۶،۸،۱۱،۱۲; علمائے يہود كا توجيہ كرنا ۶; علمائے يہود كى حق ناپذيرى ۹،۱۰; علمائے يہود كى توجيہ كرنے كا عمل اور اسكى بنياد ۶; علمائے يہود كا سوء استفادہ ۱۶;علمائے يہود اور حماقت ۸،۱۲; علمائے يہود اور حق پر پردہ ڈالنا ۱۲; علمائے يہود اور پيامبر اسلام(ص) ۵،۶،۸; علمائے

يہود اور مسلمان ۶; علمائے يہود اور يہودى ۵،۱۶; علمائے يہود كى ہٹ دھرمى ۹،۱۰; علمائے يہود كى نسل پرستى ۱۱

عوام: عوام كى كمزورى سے سوء استفادہ۱۶

قيامت : قيامت كے دن دليل و حجت قائم كرنا ۱۳; قيامت كے دن مؤاخذہ ۱۳

مسلمان: مسلمان اور علمائے يہود ۱۰

يہود: يہودى عوام كا اقرار ۱; يہوديوں كى سازش ۴; صدر اسلام كے يہوديوں كى مخفى نشستيں ۴; يہوديوں كا عقيدہ ۱۳،۱۴; يہوديوں كا باطل عقيدہ۱۵; يہودى عوام اور پيامبر موعود ۱

أَوَلاَ يَعْلَمُونَ أَنَّ اللّهَ يَعْلَمُ مَا يُسِرُّونَ وَمَا يُعْلِنُونَ ( ۷۷ )

كيا تمھيں تہيں معلوم كہ خدا سب كچھ جانتاہے جس كا يہاظہار كررہے ہيں اور جس كى يہ پردہ پوشيكررہے ہيں (۷۷)

۱ _ انسان جو كچھ بھى چھپاتاہے يا ظاہر كرتاہے اللہ تعالى اس سے آگاہ ہے_ان الله يعلم ما يسرون و ما يعلنون

۲ _ يہود اللہ تعالى كو انسان كے پنہاں امور سے آگاہ و عالم نہ سمجھتے تھے_او لا يعلمون ان الله يعلم ما يسرون و ما

۲۵۷

يعلنون

''اولا يعلمون ...'' ميں استفہام انكار توبيخى ہے_ كے اسلام لانے سے مايوسى ۱۰; صدر اسلام كے يہود اور اسلام ۷; صدر اسلام كے يہود اور پيامبر موعود ۲; صدر اسلام كے يہود اور حق كا چھپانا ۷; صدر اسلام كے يہود اور پيامبر اسلام (ص) ۲،۷،۱۷; يہود اور قومى مفادات كا تحفظ ۱۱،۱۲; يہود اور اللہ تعالى كى ربوبيت ۱۴; يہود اور اللہ تعالى كا علم غيب ۱۵; يہود اور حق كا چھپانا ۱۷

۳_ اللہ تعالى كا يہوديوں كو توبيخ و سرزنش كرنا اسيلئے ہے كہ وہ اللہ تعالى كے علم كو محدود خيال كرتے تھے_

او لا يعلمون ان الله يعلم ما يسرون و ما يعلنون

۴ _ آشكارا اور محسوس امور كے بارے ميں اللہ تعالى كے علم كو محدود جاننا ايك باطل خيا ل ہے اور اس كا عقيدہ ركھنے والے توبيخ و سرزنش كے سزاوار ہيں _او لا يعلمون ان الله يعلم ما يسرون و ما يعلنون

۵_يہود اللہ تعالى اور اسكى صفات كى ضرورى و لازمى معرفت و شناخت نہ ركھتے تھے_او لايعلمون ان الله يعلم ما يسرون و ما يعلنون

۶ _ اللہ تعالى كے لامحدود علم اور انسان كے آشكار اور پنہاں امور كے بارے ميں اس كى آگاہى پريقين ركھنا خطاؤں اور لغزشوں سے بچاتاہے_او لايعلمون ان الله يعلم ما يسرون و ما يعلنون

يہ جملہ''اتحدثونهم ...ليحاجوكم'' اس مفہوم كى طرف اشارہ ہے كہ يہوديوں كا باطل خيال (اللہ تعالى كے بارے ميں محدود علم كا عقيدہ) ان كو مخفى گناہوں اور لغزشوں كے بارے ميں لاپرواہ كرديتا تھا_ پس اللہ تعالى كے مطلق (لا محدود) علم كا ذكر كرنا اس باطل خيال كو رد كرنا ہے اس طرح كہ: خطاؤں كے بارے ميں اللہ تعالى كى تمام پہلوؤں سے آگاہى كے يقين اور توجہ سے انسان لغزشوں سے باز آجائيں ، وہ مخفى ہوں يا آشكارا_

انسان: انسان كا راز ۱

ايمان: ايمان كے نتائج ۶; اللہ تعالى كے علم پر ايمان ۶; ايمان كے متعلقات ۶

جہان بينى (نظريہ كائنات): جہان بينى اور آئيڈيالوجى ۶

اللہ تعالى : اللہ تعالى اور جہالت ۴; اللہ تعالى كى سرزنشيں ۳،۴; اللہ تعالى كا علم غيب ۱

خطا: خطا كى ركاوٹيں ۶

۲۵۸

عقيدہ: باطل عقيدہ ۴

لغزش: لغزش كے موانع ۶

وَمِنْهُمْ أُمِّيُّونَ لاَ يَعْلَمُونَ الْكِتَابَ إِلاَّ أَمَانِيَّ وَإِنْ هُمْ إِلاَّ يَظُنُّونَ ( ۷۸ )

ان يہوديوں ميں كچھ ايسےجاہل بھى ہيں جو توريت كو ياد كئے ہوئےہيں اور اس كے بارے ميں سوائے اميدوں كےكچھ نہيں جانتے ہيں حالانكہ يہ ان كافقط خيال خام ہے(۷۸)

۱ _ زمانہ بعثت كا يہودى معاشرہ، عناد ركھنے والے علماء اور جاہل عوام پر مشتمل تھا_و قد كان فريق منهم و منهم اميوں لا يعلمون الكتاب الا اماني

آيت نمبر ۷۵ ميں گذر گيا ہے كہ ''فريق منہم'' سے مراد (جيسا كہ ان كى صفات بيان كى گئي ہيں ) يہودى علماء ہيں _

۲_يہودى عوام ان پڑھ تھے يعنى نہ پڑھنا جانتے تھے اور نہ ہى انہوں نے لكھنا سيكھا تھا_و منهم اميون

''امّي'' كى جمع ''اميون'' ہے امّى اسكو كہتے ہيں

يہود: يہوديوں كى ناقص خداشناسى ۵; يہوديوں كى سرزنش ۳;يہوديوں كا عقيدہ ۲،۳،۵; يہود اور خدا كا علم ۳; يہود اور اللہ تعالى كا علم غيب ۲ جو لكھنا نہ جانتا ہو تا ہم بعض اہل لغت نے نہ پڑھنے كى قيدبھى اسكے معنى ميں لگائي ہے_

۳ _ يہودى عوام اپنى آسمانى كتاب كے نفس كلام اور مفہوم سے ناآگاہ تھے_لا يعلمون الكتاب

۴ _ يہودى عوام توہمات اور تورات كى طرف نسبت ديئے گئے (جھوٹے) امور كو آسمانى كتاب كے طور پر اور احكام الہى كى حيثيت سے قبول كرچكے تھے_لايعلمون الكتاب الا اماني

۲۵۹

'' امنية'' كى جمع '' اماني'' ہے جسكا معنى ہے باطل خيال اور گھڑا ہوا جھوٹ _ جملے ميں استثنا ''استثنائے منقطع '' ہے _ بنابريں '' لا يعلمون ...'' يعنى يہودى عوام تورات كى حقيقت اور نفس كلام سے آگاہى نہ ركھتے تھے بلكہ باطل خيالات، توہمات اور جھوٹے مطالب كو آسمانى كتاب سمجھتےتھے_

۵ _ يہودى عوام كے دينى افكار كى بنياد حدسيات اور گمان تھے_ان هم الا يظنون

۶ _ يہودى عوام كى ناخواندگى اور تورات سے عدم آگاہى ان دلائل ميں سے تھے كہ جن كى بناپر ان سے ايمان كى توقع بے جا تھي_أفتطمعون ان يومنوا لكم و منهم اميون لا يعلمون الكتاب الا اماني

جملہ '' منھم اميون'' آيت ۷۵ كے اس جملہ ''قد كان فريق ...'' پر عطف ہے _ بنابريں مورد بحث آيت بھى '' أفتطمعون ...'' كے لئے علت ہے_

۷_ باطل خيالات كو آسمانى كتاب كے حقيقى مفاہيم كى جگہ قبول كرنا اور دينى عقائد و افكار ميں حدسيات اور گمان كو بنياد قرار دينا ان دلائل ميں سے تھے كہ جن كى بناپر ان سے ايمان كى توقع ركھنا بے جا تھا_أفتطمعون ان يومنوا لكم و منهم اميون ان هم الا يظنون

۸ _ آسمانى كتابوں كے نفس كلام اور حقيقى مفاہيم كا حصول سب انسانوں كى ذمہ دارى ہے_منهم اميون لا يعلمون الكتاب آيہ مجيدہ كا لب و لہجہ گويا ان لوگوں كى سرزنش ہے جو آسمانى كتاب كے حقيقى مفاہيم سے مطلع نہيں ہيں _

۹ _ آسمانى كتابوں كے مفاہيم كى شناخت كےلئے حدسيات اور گمان كو بنياد قرار دينا بے جا اور بے اعتبار روش ہے_

لايعلمون الكتاب الا امانى و ان هم الا يظنون

۱۰ _ آسمانى كتابوں كے معارف اور نفس كلام باطل و خام خيالات سے خالى ہيں _لا يعلمون الكتاب الا اماني

۱۱ _ آسمانى كتابوں كى تفسير حدسيات اور گمان كے ذريعے كرنے سے اجتناب كرنا چاہئے_لا يعلمون الكتاب الا امانى و ان هم الا يظنون

۱۲ _ عامة الناس ميں حقيقى ايمان كى زمين فراہم كرنے كى بنيادى شرط دينى مسائل كے بارے ميں خيالات و توہمات كو دور پھينكناہے_أفتطمعون ان يومنوا لكم و منهم اميون لا يعلمون الكتاب الا اماني

مذكورہ بالا جملے ( أفتطمعون ...) يہ معنى و مفہوم ركھتے ہيں كہ جب تك لوگ باطل خيالات كو ہى دينى مسائل سمجھتے رہيں اور اسى پر مست رہيں توان سے ايمان كى توقع كرنا بے جاہے _ پس ان آيات ميں يہ مفہوم اور نكتہ موجود ہے كہ اسلام و قرآن كى دعوت دينے والوں كو كوشش كرنى چاہيئے

۲۶۰

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

461

462

463

464

465

466

467

468

469

470

471

472

473

474

475

476

477

478

479

480

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

501

502

503

504

505

506

507

508

509

510

511

512

513

514

515

516

517

518

519

520

521

522

523

524

525

526

527

528

529

530

531

532

533

534

535

536

537

538

539

540

541

542

543

544

545

546

547

548

549

550

551

552

553

554

555

556

557

558

559

560

561

562

563

564

565

566

567

568

569

570

571

572

573

574

575

576

577

578

579

580

581

582

583

584

585

586

587

588

589

590

591

592

593

594

595

596

597

598

599

600

601

602

603

604

605

606

607

608

609

610

611

612

613

614

615

616

617

618

619

620

621

622

623

624

625

626

627

628

629

630

631

632

633

634

635

636

637

638

639

640

641

642

643

644

645

646

647

648

649

650

651

652

653

654

655

656

657

658

659

660

661

662

663

664

665

666

667

668

669

670

671

672

673

674

675

676

677

678

679

680

681

682

683

684

685

686

687

688

689

690

691

692

693

694

695

696

697

698

699

700

701

702

703

704

705

706

707

708

709

710

711

712

713

714

715

716

717

718

719

720

721

722

723

724

725

726

727

728

729

730

731

732

733

734

735

736

737

738

739

740

741

742

743

744

745

746

747

748

749

750

751

752

753

754

755

756

757

758

759

760

761

762

763

764

765

766

767

768

769

770

771

772

773

774

775

776

777

778

779

780

781

782

783

784

785