تفسير راہنما جلد ۱

 تفسير راہنما 7%

 تفسير راہنما مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن
صفحے: 785

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴ جلد ۵ جلد ۶ جلد ۷ جلد ۸ جلد ۹ جلد ۱۰ جلد ۱۱
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 785 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 201042 / ڈاؤنلوڈ: 5794
سائز سائز سائز
 تفسير راہنما

تفسير راہنما جلد ۱

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

كہ عوام سے باطل خيالات كو اكھاڑ پھينكيں تا كہ ان ميں ايمان كى راہيں فراہم ہوسكے_

۱۳ _ دينى حقائق تك پہنچنے كے لئے لوگوں كو حدسيات اور گمان سے روكنا ان ميں ايمان كا راستہ ہمواركرنے كى بنيادى شرط ہے _أفتطمعون ان يؤمنوا لكم ان هم الا يظنون

يہ جملہ''ان ہم الا يظنون'' بھى ما قبل جملوں كى طرح يہوديوں كے ايمان نہ لانے كے علل و اسباب بيان كررہاہے _ پس يہ جملہ اس مفہوم كو پہنچا رہاہے كہ جب تك لوگ دينى حقائق تك پہنچنے كے لئے حدسيات اور گمان پر عمل پيرا رہيں گے ان سے ايمان كى توقع كرنا بے جاہے_ يہ دعوت دينے والوں كى ذمہ دارى ہے كہ ان كو اس روش سے باز ركھيں تا كہ ان ميں حقيقى ايمان كى بنياديں فراہم ہوجائيں _

انسان: انسانوں كى ذمہ دارى ۸

ايمان: ايمان كى راہيں ہموار كرنا ۱۲،۱۳

بے جا توقعات: ۶،۷

تفسير بالرائے : تفسير بالرائے سے اجتناب ۱۱

تورات: تورات پر جھوٹ باندھنا ۴; تورات كى تعليمات سے جہالت ۳

دين: دين سے شبہات دور كرنے كى اہميت ۱۲; دين كى حفاظت ۱۲

شناخت: شناخت ميں گمان اور ظن۹

عقيدہ: عقيدہ ميں گمان ۷،۱۳

علمائے يہود: علمائے يہود كى دشمنى ۱

كتب سماوي: كتب سماوى كى تعليمات ۱۰; كتب سماوى كى تفسير ۱۱; كتب سماوى كا پاك و مبرا ہونا ۱۰; كتب سماوى كے فہم و ادراك كى روش ۹; كتب سماوى كا فہم و ادراك۸

يہود: يہودى عوام كى ناخواندگى ۲،۶; يہودى عوام كى جہالت ۳،۶; يہودى عوام كا خيال پر داز ہونا ۵ ، ۷; يہودى معاشرے كے طبقات۱; يہودى عوام كا عقيدہ ۴،۵،۶،۷; يہودى عوام ۱; يہودى عوام او ر تورات ۳،۴،۶; يہودى عوام اور آسمانى كتابيں ۴; صدر اسلام كے يہود ۱

۲۶۱

فَوَيْلٌ لِّلَّذِينَ يَكْتُبُونَ الْكِتَابَ بِأَيْدِيهِمْ ثُمَّ يَقُولُونَ هَذَا مِنْ عِندِ اللّهِ لِيَشْتَرُواْ بِهِ ثَمَناً قَلِيلاً فَوَيْلٌ لَّهُم مِّمَّا كَتَبَتْ أَيْدِيهِمْ وَوَيْلٌ لَّهُمْ مِّمَّا يَكْسِبُونَ ( ۷۹ )

وائے ہوان لوگوں پرجو اپنے ہاتھ سے كتاب لكھ كر يہ كہتے ہيں كہ يہ خدا كى طرف سے ہے تا كہ اسے تھوڑےدام ميں بيچ ليں _ان كے لئے اس تحرير پربھى عذاب ہےاور اس كى كمائي پر بھى (۷۹)

۱ _ مختلف افكار و نظريات كو اللہ كى كتاب اور دينى قوانين كا عنوان دے كر لكھنا جرم، گناہ كبيرہ اور عذاب الہى كا باعث ہے_فويل للذين يكتبون فويل لهم مما كتبت ايديهم

'' ويل'' وہ لفظ ہے كہ انسان جب عذاب ميں مبتلا ہوتاہے تو زبان پر جارى كرتاہے _ بنابريں ''فويل للذين ...'' سے مراد بدعت ايجاد كرنے والوں كا عذاب ميں مبتلا ہونا ہے_

۲ _ مختلف افكار و نظريات كو آسمانى كتاب يا فرامين الہى كا عنوان دے كر نشر و اشاعت كرنا حرام، گناہ كبيرہ اور عذاب الہى كا موجب ہے _فويل للذين ...ثم يقولون هذامن عند الله

۳ _ اپنے ذاتى نظريات اور افكار كو آسمانى كتاب كا عنوان دے كر نشر و اشاعت كرنا تحرير كرنے كى نسبت شديد طور پر حرام ہے _ثم يقولون هذا من عندالله يہ جملہ ''فويل للذين ...'' اپنى خيال بافيوں كو آسمانى كتاب كا عنوان دے كر لكھنے كى حرمت كو بيان كررہاہے جبكہ جملہ'' يقولون ...'' اس كى نشر و اشاعت كى حرمت كو بيان كررہاہے_ دوسرا جملہ جو '' ثم'' كے ساتھ بيان ہوا ہے يہاں تراخى رتبہ كے لئے ہے نہ كہ تراخى زمانى كے لئے اور يہ اس مطلب كى طرف اشارہ ہے كہ ان امور كى نشر و اشاعت لكھنے كى نسبت زيادہ شديد طور پر حرام ہے_

۴ _ عامة الناس كا دين اور آسمانى كتابوں كے بارے ميں خيال بافيوں كا شكار ہونا علمائے سوء كے كردار اور تحريف كے عمل كا نتيجہ ہے _و منهم اميون فويل للذين يكتبون الكتاب بايديهم

ما قبل آيت جو لوگوں كى آسمانى كتاب كے بارے ميں جہالت كے عنوان سے تھى اس پر جملہ ''فويل للذين ...'' كى تفريع گويا يہ معنى دے رہى ہے كہ بدكردار اور تحريف كرنے والے علماء كا عوام كى جہالت اور خرافات كى طرف رجحانات

۲۶۲

ميں بہت اہم كردار ہے_

۵ _ كچھ يہودى علماء عوام كے سامنے اپنى خيال بافيوں اور خرافات كو اللہ تعالى كى جانب سے آنے والے حقائق ( معارف اور احكام و غيرہ) كے طور پر پيش كرتے تھے_ فويل للذين يكتبون الكتاب بايديهم ثم يقولون هذا من عند الله ''بايدھم _ اپنے ہاتھوں سے '' سے يہ جملہ اس بات پر تاكيد ہے كہ علمائے يہود كتاب الہى كے عنوان سے جو كچھ لكھتے تھے وہ ان كى اپنى انشاء پردازياں ہوتى تھيں _ ان جملوں كى طرح ''يقولون بافواہھم'' اور ''نظرتہ بعيني'' و غيرہ و غيرہ

۶_ علمائے يہود كا اپنے خودساختہ افكار و نظريات كو آسمانى كتاب كے طور پر پيش كرنے كا مقصد دنياوى متاع ( مال ، رياست، جاہ و جلال و غيرہ) كا حصول تھا_ليشتروا به ثمناً قليلاً

۷ _ يہودى عوام اپنے علماء كى تحريفات اور بدعتوں كے خريدار تھے_ليشتروا به ثمناً قليلاً

۸ _ بعض يہودى علماء دين بنانے والے اور بدعت ايجاد كرنے والے افراد تھے_فويل للذين يكتبون الكتاب بايديهم

۹ _ دين ساز اور بدعت ايجاد كرنے والے يہودى علماء عذاب الہى سے دوچار ہوں گے _فويل للذين يكتبون الكتاب فويل لهم مما كتبت ايديهم

۱۰ _ تحريف كرنے والے اور بدعت ايجاد كرنے والے يہودى علماء اپنے عوام كى گمراہى كى راہيں ہموار كرنے والے تھے_ثم يقولون هذا من عند الله ليشتروا به ثمناً قليلاً

۱۱ _ دين سازى اور بدعتوں سے حاصل ہونے والى درآمد حرام اور عذاب الہى كا موجب ہے_وويل لهم مما يكسبون ''مما يكسبون'' ميں موجود ''ما'' موصولہ ممكن ہے اس درآمد كى طرف اشارہ ہو جس كا ذكر اس عبارت ميں ہے ''ليشتروا به ثمناً قليلاً '' اور يہ بھى ممكن ہے كہ اس سے مطلقاً ناپسنديدہ اعمال و كردار مراد ہو ، مذكورہ بالا مفہوم پہلے احتمال كى بناپر ہے_

۱۲ _ بدعتيں ايجاد كركے يا دين سازى كے عمل سے جتنى بھى كمائي حاصل كى جائے اور جس قدر بھى زيادہ ہو انتہائي ناچيز اور بے قيمت ہے_ليشتروا به ثمنا قليلاً ظاہر يہ ہے كہ ''قليلاً'' ، ''ثمناً'' كے لئے توضيحى صفت ہے پس ثمناً قليلاً كا معنى يہ ہے كہ يہ قيمت جو دين سازى كے مقابل حاصل كى جائے ناچيز ہے اگر چہ ظاہراً يہ قيمت بہت زيادہ ہى ہو_

۱۳ _ بدعت ايجاد كرنے والوں اور دين ساز افراد كے لئے محرك اور ترغيب ،مادى اور دنياوى مفادات كى

۲۶۳

كشش ہے_ليشتروا به ثمناً قليلاً

۱۴ _ حرام كاموں كے مقابل حاصل ہونے والى كمائي يا اموال حرام ہيں _و ويل لهم مما يكسبون

۱۵ _ زمانہ بعثت ميں كتاب اور كتابت كا فن موجود تھا_يكتبون الكتاب بايديهم

۱۶ _و قيل كتابتهم بايديهم انهم عمدوا الى التوراة و حرفوا صفة النبي(ص) ليوقعوا الشك بذلك للمستضعفين من اليهود و هو المروى عن ابى جعفر عليه‌السلام ...(۱) امام باقرعليه‌السلام سے روايت ہے كہ '' علمائے يہود نے اپنے ہاتھوں سے جان بوجھ كر تو رات ميں پيامبر (ص) كى لكھى ہوئي صفات كو بدل ڈالا تا كہ اسطرح يہوديوں ميں سے (جو فكرى طور پر ) مستضعف تھے ان افراد كو شك ميں ڈال ديں _

۱۷_ پيامبر اسلام (ص) سے ''فويل لھم مما كتبت ايديھم''كے بارے ميں روايت ہے آپ (ص) نے ارشاد فرمايا''الويل جبل فى النار وهو الذى انزل فى اليهود لانهم حرفوا التوراة زادوا فيها ما احبوا و محوا منها ما يكرهون و محوا اسم محمد(ص) من التوراة '' (۲) ''ويل''جہنم ميں ايك پہاڑ ہے جو (قرآن كى آيتوں ميں ) يہوديوں كے لئے نازل ہوا ہے كيونكہ انہوں نے تورات ميں ايسے تحريف كى كہ جو چاہا اضافہ كيا اور جس كو ناپسند كيا اس كو مٹا ديا اور انہوں نے تورات ميں سے محمد(ص) كے نام كو مٹا ديا _

احكام: ۲،۳،۱۱،۱۴

اللہ تعالى : اللہ تعالى كے عذاب ۱ ، ۲ ، ۹

بدعت: بدعت كے نتائج ۱،۲;بدعت كا جرم ۱; بدعت كا حرام ہونا ۲،۳ ; بدعت كا عذاب ۱،۲; بدعت كا گناہ ۱،۲

بدعت ايجاد كرنے والے: بدعت ايجاد كرنے والوں كى دنياطلبى ۱۳

پيامبر اسلام (ص) : پيامبر اسلام (ص) تورات ميں ۱۶،۱۷

تحريف: تحريف كے نتائج ۴

تورات: تورات ميں تحريف ۱۷; تورات كى تعليمات ۱۶

____________________

۱) مجمع البيان ج/ ۱ ص ۲۹۲ ، نورالثقلين ج/ ۱ ص ۹۳ ح ۲۵۶_

۲) الدرالمنثور ج/ ۱ ص ۲۰۱_

۲۶۴

جہنم:جہنم كا ويل ۱۷

دنياطلبي: دنياطلبى كے نتائج ۶،۱۳

دين: دين كو پہنچنے والے آسيب كى شناخت ۴; دين كے بارے ميں لوگوں كى خيال بافياں ۴

دين ساز افراد: ۵،۶،۸،۹

دين سازى : دين سازى كا جرم ۱; دين سازى كا حرام ہونا ۳; دين سازى كا گناہ ۲

روايت: ۱۶،۱۷

عذاب: اہل عذاب ۹; عذاب كے موجبات ۱،۲،۹، ۱۱

علماء : برے اور بدكار علماء كا بنيادى كردار ۴

كتاب: كتاب كى تاريخ ۱۵

كتابت: صدر اسلام ميں كتابت ۱۵

كسب (كمائي): بدعت كے ذريعے كسب كرنا ۱۱،۱۲; دين سازى كے ذريعے كسب كرنا ۱۱،۱۲; محرمات كے ذريعے كسب كرنا ۱۴; بے قيمت كسب ۱۲; حرام كسب ۱۱،۱۴

گناہان كبيرہ : ۱،۲

محرمات: ۲،۱۱،۱۴ محرمات كے مختلف مراحل و درجے ۳

يہودي: يہودى عوام كى بصيرت ۷; يہوديوں كى گمراہى كى زمين فراہم ہونا ۱۰; يہوديوں ميں بدعت ايجاد كرنے والوں كى سزا اور انجام ۹

يہودى علماء : علمائے يہود كا بدعت ايجاد كرنا ۵،۶،۷،۸،۱۰; علمائے يہود كى بصيرت ۵; علمائے يہود كى تحريف كا عمل ۵،۷،۱۰; علمائے يہود كى دنياطلبى ۶; علمائے يہود كى دين سازى ۵،۶،۸،۹; علماء يہود كى جاہ طلبى ۶; علمائے يہودى كا شبہات ايجاد كرنا ۱۶; علمائے يہود اور پيامبر اسلام (ص) ۱۶; علمائے يہود كا كردار۱۰

۲۶۵

وَقَالُواْ لَن تَمَسَّنَا النَّارُ إِلاَّ أَيَّاماً مَّعْدُودَةً قُلْ أَتَّخَذْتُمْ عِندَ اللّهِ عَهْدًا فَلَن يُخْلِفَ اللّهُ عَهْدَهُ أَمْ تَقُولُونَ عَلَى اللّهِ مَا لاَ تَعْلَمُونَ ( ۸۰ )

يہ كہتےہيں كہ ہميں آتش جہنم چند دن كےعلاوہ چھو بھى نہيں سكتى _ ان سے پوچھئےكہ كيا تم نے اللہ سے كوئي عہد لے ليا ہےجس كى وہ مخالفت نہيں كرسكتا يا اسكےخلاف جہالت كى باتيں كررہے ہو(۸۰)

۱_ يہوديوں كے دينى عقائد ميں سے تھا كہ گناہگار يہود آتش جہنم ميں سوائے چند محدود ايام كے مبتلا نہ ہوں گے _

و قالوا لن تمسنا النار الا اياما معدودة

''معدوة'' كا معنى ہے ''گنا گيا '' اور يہناچيزيا كم ہونے كا كنايہ ہے _ واضح ہے كہ يہ (باطل) گمان گناہگار يہوديوں كے بارے ميں ہے _ اس مطلب كى مابعد والى آيت تائيد كرتى ہے (بلى من كسب ...) اسى لئے مذكورہ مطلب ميں '' گناہگار'' كا لفظ استعمال كيا گيا ہے_

۲ _ عذاب قيامت كے بارے ميں يہوديوں كا نظريہ (يہوديوں كو فقط چند روز كا عذاب ہوگا) يہ علمائے يہود كى بدعتوں ميں سے تھا_فويل للذين يكتبون الكتاب و قالوا لن تمسنا النار الا اياماً معدودة

جملہ'' و قالوا ...'' علاوہ بر اس كے كہ '' و قد كان فريق'' آيت ۷۵ پر عطف ہے آيت ۷۸ كے '' اماني'' كا بھى مصداق ہے اسى طرح آيت ۷۹ ميں ''الكتاب'' كا بھى مصداق ہے_مذكورہ بالا مفہوم آخرى مطلب كى بناپر ہے _

۳ _ گناہگار يہوديوں كو قيامت ميں فقط تھوڑا سا عذاب ہونا يہ يہودى عوام كے باطل اور خام خيالات ميں سے ہے_

لا يعلمون الكتاب الا امانى و قالوا لن تمسنا النار الا اياما معدودة اس مفہوم ميں جملہ '' قالوا ...'' آيت ۷۸ ميں ''اماني'' كا مصداق ہے _

۴ _ يہودى عوام خود خواہ، مغرور اور احساس برترى كا شكار ہيں _و قالوا لن تمسنا النار الا اياماً معدودة

۵ _ يہود قيامت پر اعتقاد ركھتے ہيں اور اس بات پر كہ گناہگار آتش جہنم ميں مبتلا ہوں گے _و قالوا لن تمسنا النار الا اياماً معدودة

۶ _ يہوديوں كا باطل نظريہ ( يہوديوں كو فقط چند دن عذاب ہوگا)ان كو اسلام پر ايمان لانے سے روكنے والا ہے _

أفتطمعون ان يومنوا لكم و قالوا لن تمسنا النار الا اياما معدودة جملہ''و قالوا ...'' آيت ۷۵ كے اس جملہ ''و قد كان فريق ...'' پر عطف ہے جو اس امر كى حكايت كررہاہے كہ اس طرح كا باطل گمان يہوديوں كے ايمان لانے ميں ركاوٹ ہے _

۲۶۶

۷ _ قيامت كے بارے ميں يہوديوں كے نادرست عقيدہ (يہوديوں كو فقط چند روز عذاب ہوگا) پر توجہ ان كے ايمان لانے كى اميد كے منقطع ہونے كا سبب ہے _أفتطمعون ان يومنوا لكم و قالوا لن تمسنا النار الا اياماً معدودة

۸ _ لوگوں ميں ايمان كى زمين ہموار كرنے كى بنيادى شرط يہ ہے كہ قيامت كے بارے ميں باطل خيالات كو جڑ سے اكھاڑ پھينكاجائے_أفتطمعون ان يومنوا لكم و قالوا لن تمسنا النار الا اياما معدودة

۹_ اللہ تعالى نے ہرگز يہوديوں كو كم عذاب دينے كى ضمانت نہيں دى اور نہ ہى اس بارے ميں كوئي عہد و پيمان باندھاہے_اتخذتم عند الله عهداً '' اتخذتم'' ميں ہمزہء استفہام انكار ابطالى كيلئے ہے يعنى اس طرح كا عہد و پيمان تم خدا كے ہاں نہيں ركھتے_

۱۰_ اللہ تعالى اپنے عہد و پيمان كو ہرگز نہيں توڑے گا _فلن يخلف الله عهده اس جملہ ميں '' فائ'' فصيحہ ہے جو ايك شرط مقدر كى حكايت كررہى ہے گويا مطلب يوں ہے ''اتخذتم عند اللہ عہد اً فلن يخلف اللہ عہدہ''

۱۱ _ اللہ تعالى جو پيامبر اكرم (ص) كو تعليم دينے والا ہے بتارہاہے كہ باطل دعووں كا جواب كيسے دو اور اس كے لئے دليل كيسے لاؤ _قل اتخذتم عند الله عهداً ام تقولون على الله ما لا تعلمون يہ مفہوم '' قل'' سے استفادہ كيا گيا ہے _

۱۲ _ يہوديوں كى اللہ تعالى كو دى گئي جھوٹى نسبتوں ميں سے ايك يہ تھى كہ قيامت كے دن يہوديوں كو چند دن سے زيادہ عذاب نہ ہوگا_و قالوا لن تمسنا النار الا اياماً معدودة ام تقولون على الله ما لا تعلمون

۱۳ _ اللہ تعالى كى طرف كسى بھى چيز ( حكم، كلام و غيرہ) كى نسبت دينے سے اجتناب كرناچاہيئے اس صورت ميں جب اس نسبت كا علم اور يقين نہ ہو_ام تقولون على الله ما لا تعلمون

۱۴ _ اللہ تعالى كى طرف نسبت دينے كا واحد طريق اللہ تعالى كے حكم يا كلام كا علم و يقين ہونا ہے _ام تقولون على الله ما لا تعلمون

۱۵_ كسى حكم يا كلام كى نسبت اللہ تعالى كى طرف دينا جبكہ اسے پرودرگار نے نہ فرمايا ہو تو يہ نسبت جھوٹى اور ايك بے جا عمل ہے _

اتخذتم عند الله عهداً ام تقولون على الله ما لاتعلمون مذكورہ مفہوم ان دو جملوں '' اتخذتم عند اللہ عہداً '' اور ''ام تقولون على اللہ ...''كے باہم ارتباط سے نكلتاہے يعنى يہ كہ جس كلام يا حكم كى نسبت اللہ تعالى كى طرف ديتے ہويہ ا س صورت ميں درست ہے كہ يہ اللہ تعالى نے بيان فرمايا ہو ورنہ جھوٹى نسبت ہے _

۲۶۷

۱۶ _ مكتب الہى سے فقط منسوب ہوجانا ہى آتش جہنم سے بچنے كے لئے كافى نہيں ہوگا _

و قالوا لن تمسنا النار الا اياماً معدودة قل اتخذتم عند الله عهداً

استدلال كرنا : استدلال قائم كرنے كى روش كى تعليم ۱۱

اللہ تعالى : كسى حكم كى نسبت اللہ تعالى كو دينا ۱۵; اللہ تعالى كى طرف كسى حكم كى نسبت دينے كى شرائط ۱۴; عہد الہى كى وفا۱۰

ايمان: ايمان اجاگر كرنے كے لئے راہ ہموار كرنا۸

پيامبر اسلام (ص) : پيامبر اسلام (ص) كا معلم ۱۱

جہنم: آتش جہنم ۱،۵،۱۶; جہنم سے بچاؤ۱۶

جھوٹ: اللہ تعالى پر جھوٹ باندھنے سے اجتناب ۱۳

اللہ تعالى پر جھوٹ باندھنا ۱۲،۱۵

دين داري: دين دارى كى شرائط ۱۶

شبہات: شبہات كے جوابات دينے كى روش ۱۱

عقيدہ: باطل عقيدہ كے نتائج ۶; باطل عقيدہ۷

باطل عقيدہ سے نبرد آزمائي ۸

علماء يہود: علماء يہود كا بدعت ايجاد كرنا ۲

عمل: ناپسنديدہ عمل ۱۵

يہود: يہوديوں كى افترا پردازياں ۱۲; يہوديوں كا تكبر ۴; يہوديوں كى صفات۴; يہوديوں كے لئے اخروى عذاب۱،۲،۳،۶،۷،۱۲;يہوديوں كےلئے عذاب ۹; يہوديوں كا باطل عقيدہ ۷; يہودى عوام كا عقيدہ ۳; يہوديوں كا عقيدہ ۱،۲;يہوديوں كا جہنم پر عقيدہ۵; يہوديوں كا قيامت پر عقيدہ ۵; آخرت كے عذاب پر يہوديوں كا عقيدہ۵; يہودى عوام اور آخرت كا عذاب ۳; اللہ تعالى كا يہوديوں سے عہد۹; يہوديوں كے اسلام قبول كرنے ميں ركاوٹيں ۶،۷; يہوديوں كے ايمان لانے ميں ركاوٹيں ۶; يہوديوں كے اسلام لانے پر مايوسى ۷

۲۶۸

بَلَى مَن كَسَبَ سَيِّئَةً وَأَحَاطَتْ بِهِ خَطِيئَتُهُ فَأُوْلَئِكَ أَصْحَابُ النَّارِ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ ( ۸۱ )

يقيناً جس نےكوئي برائي حاصل كى اور اسكيغلطى نے اسے گھير ليا وہ لوگ اہل جہنمميں اور وہيں ہميشہ رہنے والے ہيں (۸۱)

۱_ يہودى گناہگارلوگ باقى گناہگاروں كى طرح اپنے استحقاق اوراندازے كے مطابق آتش جہنم ميں مبتلا ہوں گے_

لن تمسنا النار الا اياما معدودة بلي

'' بلى _ ہاں يوں نہيں ہے'' يہ حرف جواب ہے جو ايك دعوى كى رد كے طور پر آياہے يہ '' لن تمسنا النار الا اياما معدودة'' كے دعوى كى رد كے طور پر آياہے_

۲ _ انسانوں كى مختلف نسليں اور قبائل اپنے گناہوں كى سزا كے مقابل ايك دوسرے پر كوئي امتياز نہيں ركھتے_

لن تمسنا النار الا اياما معدودة بلي

۳ _ اللہ تعالى نے يہوديوں كو كم عذاب دينے كى ہرگز ضمانت نہيں دى بلكہ اس صورت ميں كہ گناہ نے ان كا احاطہ كرليا ہو ان كو ہميشہ كے لئے آتش جہنم ميں ڈالے گا_

اتخذتم عند الله عهداً بلى من كسب سيئة هم فيها خالدون

۴ _ ايسے گناہگار جن كے تمام وجود كو گناہوں نے گھير ركھا ہے ہميشہ كے لئے آتش جہنم ميں ڈال ديئے جائيں گے _

من كسب سيئة و احاطت به خطيئته فاولئك اصحاب النار هم فيها خالدون

''سيئة'' اور ''خطيئتہ'' دونوں كا معنى برائي اور گناہ ہے_

۵ _گناہ پر مصر رہنا اس بات كا موجب ہوتاہے كہ گناہ انسان كے سارے وجود كو گھير ليتے ہيں _

من كسب سيئة و احاطت به خطيئته

اگر فقط گناہ كا ارتكاب انسان پر خطيئة ( گناہ) كے احاطہ كا باعث ہوتا تو يہ جملہ ''احاطت ...'' استعمال نہ كيا جاتا _ پس يہ احتمال قوى ہو جاتاہے كہ گناہوں كا احاطہ اس وقت ہوتاہے جب گناہوں ميں اصرار و تكرار ہو_

۶ _ پيامبر اسلام (ص) اور اسلام كے بارے ميں كفر ( انكار) انسان كے دوزخ ميں گرنے اور وہاں ہميشہ رہنے كا باعث ہوگا_أفتطمعون ان يومنوا لكم من كسب سيئة هم فيها خالدون

۲۶۹

مورد بحث آيہ مجيدہ ( من كسب ...)، گذشتہ آيات كے لئے قضيہ كلى يا كبرى ہے جبكہ گذشتہ آيات اس قضيہ كا قضيہ صغرى ہيں _ پس پيامبر اسلام(ص) اور اسلام كا كفر جو اس جملہ ''أفتطمعون ان يومنوا لكم'' (آيت ۷۵)سے سمجھ ميں آتاہے، يہ كفر ''سيئة'' كے مصاديق ميں سے ہے اور اس پر اصرار و تكرار ''احاطہ خطيئة'' كا مصداق ہوگا_

۷ _ پيامبر اسلام (ص) كى رسالت كے انكار كى صورت ميں يہود ہميشہ كے لئے آتش جہنم ميں جائيں گے _

أفتطمعون ان يومنوا لكم من كسب سيئة هم فيها خالدون

۸ _ بدعت ايجاد كرنا اور دين سازي، ان سيئات ميں سے ہيں كہ جو توبہ نہ كرنے كى صورت ميں جہنم ميں ہميشہ كے عذاب كا باعث ہوں گے _فويل للذين يكتبون الكتاب من كسب سيئة هم فيها خالدون

'' فويل للذين ...'' كى دليل سے '' سيئة'' كے مورد نظر مصاديق ميں سے ايك بدعت كا ايجاد كرناہے اور اس كا اصرار اور تكرار بدعت ايجاد كرنے والے پر خطيئة كے احاطہ كا موجب بنتاہے_

۹_دوزخ ايك ابدى مقام ہے _هم فيها خالدون

۱۰_ ابن ابى عمير كہتے ہيں ميں نے امام كاظمعليه‌السلام سے سناكہ آپعليه‌السلام نے فرمايا''لا يخلّد الله فى النار الا اهل الكفر والجحود و اهل الضلال والشرك'' (۱) اللہ تعالى كفار، معاندين ، گمراہوں اور مشركوں كے علاوہ كسى اور كو ہميشہ كے لئے جہنم ميں نہيں ڈالے گا_

اللہ تعالى : اللہ تعالى كے عذاب ۳

بدعت: بدعت كى اخروى سزا ۸; بدعت كا گناہ ۸

پيامبر اسلام (ص) : پيامبر اسلام (ص) كو جھٹلانے كے نتائج۷

جرائم: جرائم كى سزاؤں كے ساتھ نسبت ۱

جہنم: آتش جہنم ۱،۳،۶،۷; جہنم ميں ہميشہ رہنے والے ۱۰; جہنم كى ہميشگى ۹; جہنم ميں ہميشگى كے اسباب ۳،۴،۶،۷،۱۸; جہنم كے موجبات ۶

خطيئة ( گناہ): خطيئة سے مراد۱۰

____________________

۱) توحيد صدوق ص ۴۰۷ ح ۶ ب ۶۳ ، نورالثقلين ج/۱ ص ۹۴ ح ۲۵۹_

۲۷۰

روايت: ۱۰

سزائيں : سزاؤں كا نظام ۲

سيئة: سيئة سے مراد ۱۰; سيئة كے موارد ۸

عذاب: اہل عذاب ۱،۴; عذاب كے موجبات ۱،۳،۴ ،۶،۸

كفر: پيامبر اسلام (ص) كے بارے ميں كفر اختيار كرنے كي سزا و انجام

گناہ : گنا ہ پر اصرار و تكرار كے نتائج ۵; گناہ كے نتائج ۳،۴; گناہ كا انسان پر احاطہ ۳،۴،۵

گناہگار: گناہگاروں كا اخروى عذاب۱; گناہگاروں كا انجام و سزا ۲

يہود: يہوديوں كااخروى عذاب ۱،۳; يہودى گناہگاروں كى سزا ۱،۳; يہودى كافروں كى سزا ۷

وَالَّذِينَ آمَنُواْ وَعَمِلُواْ الصَّالِحَاتِ أُولَئِكَ أَصْحَابُ الْجَنَّةِ هُمْ فِيهَا خَالِدُونَ ( ۸۲ )

اور جوايمان لائے اورانهوں نے نيك عمل كئے ده اہل جنت ہيں اور دہيں ہميشه رہنے والے ہيں _

۱ _ وہ لوگ جو پيامبر اسلام (ص) پر ايمان لائے اور انہوں نے اعمال صالح انجام ديئے وہ اہل بہشت ہيں اور اس ميں ہميشہ رہيں گے _والذين آمنوا و عملوا الصالحات اولئك اصحاب الجنة هم فيها خالدون

آيت ۷۵ (أفتطمعون ان يومنوا لكم) كے قرينہ سے يہاں ايمان سے مراد پيامبر اسلام (ص) پر ايمان ہے _

۲ _ ايمان عمل صالح كے بغير اور عمل صالح بغير ايمان كے اسكا اجر (بہشت ميں ہميشہ رہنا ) نہيں ملے گا _

والذين آمنوا و عملوا الصالحات فيها خالدون

۳ _ بہشت ايك ابدى اور ہميشہ رہنے والا مقام ہے _هم فيها خالدون

۲۷۱

ايمان : ايمان عمل صالح كے بغير ۲

بہشت : بہشت كى ابديت ''ہميشگي'' ۳; بہشت ميں ہميشگى كے اسباب ۱،۲

پيامبر اسلام (ص) : پيامبر اسلام (ص) كے پيروكاروں كا اجر ۱

عمل صالح : عمل صالح كے نتائج ۱; عمل صالح بغير ايمان كے ۲

مؤمنين: مؤمنين كا اجر ۱

وَإِذْ أَخَذْنَا مِيثَاقَ بَنِي إِسْرَائِيلَ لاَ تَعْبُدُونَ إِلاَّ اللّهَ وَبِالْوَالِدَيْنِ إِحْسَاناً وَذِي الْقُرْبَى وَالْيَتَامَى وَالْمَسَاكِينِ وَقُولُواْ لِلنَّاسِ حُسْناً وَأَقِيمُواْ الصَّلوةََ وَآتُواْ الزَّكَوةَ ثُمَّ تَوَلَّيْتُمْ إِلاَّ قَلِيلاً مِّنكُمْ وَأَنتُم مِّعْرِضُونَ ( ۸۳ )

اس وقت كو ياد كرو جب ہم نے بنى اسرائيل سےعہد ليا كہ خبردار خدا كے علاوہ كسى كيعبادت نہ كرنا اور ماں باپ ، قرابتداروں ،يتيموں اور مسكينوں كے ساتھ اچھا برتاؤكرنا _لوگوں سے اچھى باتيں كرنا _ نازقائم كرنا _ زكوة اداكرنا _ ليكن اس كےبعد تم ميں سے چند كے علاوہ سب منحرفہوگئے اور تم لوگ تو بس اعراض كرنے والےہى ہو(۸۳)

۱_ اللہ تعالى كى طرف سے بنى اسرائيل كے ذمے كچھ عہد و پيمان تھے _و إذ أخذنا ميثاق بنى اسرائيل

۲ _ خدائے وحدہ لا شريك كى عبادت اور اس كے غير كى پوجا سے پرہيز كرنا بنى اسرائيل كے ساتھ خدا كے عہد و پيمان ميں سے تھا_و إذ أخذنا ميثاق بنى اسرائيل لا تعبدون الا الله

۳ _ خداوند متعال كے بنى اسرائيل كے ساتھ عہد و پيمان ميں سے ايك يہ تھا كہ والدين ، قريبيوں ، يتيموں اور مسكينوں كے ساتھ احسان كريں _و بالوالدين احسانا و ذى القربى واليتامى و المساكين

''احساناً'' فعل محذوف ''تحسنون'' يا ''احسنوا'' كے لئے مفعول مطلق ہے _ جبكہ يہ كلمات ''ذى القربى و ...'' الوالدين پر عطف ہيں _

۲۷۲

۴ _ خدائے متعال كے بنى اسرائيل كے ساتھ عہد و پيمان ميں سے ايك يہ تھا كہ لوگوں سے اچھا كلام كريں اور ان سے حسن سلوك كريں _و قولوا للناس حسنا

''حسنا'' مصدر ہے جو صفت ( حَسَناً _ اچھا) كے معنى ميں ہے _ يہ لفظ ممكن ہے مفعول مطلق كے لئے صفت واقع ہوا ہو اور اسكا قائم مقام ہو يعنى جملہ يوں ہو ''قولوا للناس قولاً حسناً'' لوگوں سے اچھا اور بہترين كلام كرو _ الميزان ميں ہے كہ يہ جملہ لوگوں سے حسن سلوك كے لئے كنايہ ہے _

۵_ عوام كے لئے نيك امور ( امر بہ معروف ، نيكيوں كى طرف ہدايت و غيرہ) كو بيان كرنا خداوند متعال كے بنى اسرائيل كے ساتھ معاہدوں ميں سے ايك تھا_و إذ أخذنا ميثاق بنى اسرائيل قولوا للناس حسنا

يہ مفہوم اس بناپر ہے كہ ''حسناً'' ، ''قولوا'' كے لئے مفعول بہ ہو _ پس معنى يہ بنتاہے لوگوں كے لئے نيكيوں كو بيان كرو_

۶ _ خدائے متعال كے بنى اسرائيل كے ساتھ عہد و پيمان ميں سے ايك يہ تھا كہ مختلف اقوام اور ملتوں كے ساتھ اچھا كلام اور حسن سلوك كريں _و قولوا للناس حسناً ''الناس'' سے مراد ممكن ہے يہودى عوام ہوں اور ممكن ہے دوسرى اقوام اور ملتيں ہوں _ مذكورہ مفہوم دوسرے احتمال كى بناپر ہے _

۷_ نماز قائم كرنا اورزكوة كى ادائيگى خداوند متعال كے بنى اسرائيل كے ساتھ كيئے گئے معاہدوں ميں سے تھا_

و إذ أخذنا ميثاق بنى اسرائيل و اقيموا الصلوة و آتو الزكوة

۸ _ بنى اسرائيل كا مكتب مختلف اعتقادي، معاشرتي، عبادتى اور اقتصادى پہلو ركھتا تھا_لا تعبدون الا الله و بالوالدين احسانا و آتواالزكوة

۹_ اللہ تعالى كا بنى اسرائيل سے عہد و پيمان لينے كا واقعہ ايك اچھا واقعہ اور ياد ركھنے كے لائق ہے_و إذ أخذنا ميثاق بنى اسرائيل 'اذ'' فعل'' اذكروا_ يا د كرو'' كے لئے مفعول ہے _ اللہ تعالى كا ياد كرنے كا حكم دينا اس بات كى علامت ہے كہ يہ موضوع ايك خاص اہميت ركھتاہے كہ جسے ياد ركھنا چاہيئے_

۱۰_ اللہ تعالى كى بندگى واجب اور اسكے غير كى پوجا سے اجتناب واجب ہے _لا تعبدون الا الله

جملہ '' لا تعبدون الا اللہ _ تم اللہ كے علاوہ كسى كى عبادت نہيں كرتے '' نہى ہے جو نفى كى صورت ميں آياہے بالفاظ ديگر خبر ہے جو انشاء كے مقام پر

۲۷۳

ہے گويا يہ كہ عبادت نہ كرو

۱۱ _ يكتا پرستى اور توحيد عبادى اديان الہى كے اہم ترين اصولوں ميں سے ہے _

و إذ أخذنا ميثاق بنى اسرائيل لا تعبدون الا الله

'' لا تعبدون الا اللہ '' كو دوسرے معاہدوں اور عہد و پيمان پر مقدم كرنا اس عہد و پيمان كى خاص اہميت كى خاطر ہے _

۱۲ _ انسانوں كا غير خدا كى پرستش كرنا ايك تعجب آور اور ايسا امر ہے جو متوقع نہيں ہے _لا تعبدون الا الله

جملہ انشائي '' غير خدا كى ہرگز عبادت نہ كرو'' كى جگہ اللہ تعالى نے جو جملہ خبريہ استعمال فرمايا كہ ''تم غير خدا كى عبادت نہيں كرتے '' يہ اس حقيقت كى طرف اشارہ ہے كہ خدا كى پرستش اور غير خدا كى پوجا سے اجتناب ايك ايسا انتہائي واضح فريضہ اور فطرت انسانى كے ساتھ گندھا ہوا ہے كہ اس سے نہى كرنے كى ضرورت نہيں اور اسكے برخلاف كى توقع ہى نہيں ہے _

۱۳ _ والدين ، يتيموں اور مساكين سے نيكى كرنا اہل ايمان كے اہم اور ضرورى فرائض ميں سے ہے _

و بالوالدين احساناً و ذى القربى و اليتامى والمساكين

آيہ مجيدہ ميں موجود فرامين اگر چہ خداوند متعال كے بنى اسرائيل كے ساتھ عہد و پيمان كے طور پر بيان ہوئے ہيں ليكن قرآن حكيم ميں ان كا بيان اس بات كى دليل ہے كہ ان فرامين پر عمل كرنا تمام اہل ايمان كى ذمہ دارى ہے _

۱۴ _ اہل ايمان كى اہم ترين معاشرتى تكاليف ( ذمہ داريوں ) ميں سے والدين كے ساتھ نيكى و احسان كرنا ہے _

لا تعبدون الا الله و بالوالدين احسانا

يہ جو اللہ تعالى كى بندگى كے بعد والدين كے ساتھ نيكى كا ذكر ہواہے اس سے اسكى خاص اہميت كا پتہ چلتاہے _

۱۵ _ دوسروں پر نيكى و احسان كى نسبت والدين سے نيكى و احسان كہيں زيادہ اہم و برتر ہے _و بالوالدين احسانا

يہ مفہوم اس بناپر ہے كہ ''والدين '' كو ''ذى القربى و ...'' پر مقدم كياگيا ہے اور ''احسانا'' كو آخرى معطوف '' مساكين'' كے بعد لانے كى بجائے '' والدين'' كے بعد ركھا گيا ہے _

۱۶ _ اہل ايمان كے فرائض ميں سے ہے كہ دوسروں حتى كافروں كے ساتھ بھى حسن سلوك كريں _و قولوا للناس حسنا ً ممكن ہے '' الناس'' سے مراد اسى قوم و ملت كے افراد ہوں جو '' قولوا'' ميں مخاطب ہيں اور ممكن ہے ديگر اقوام و ملل كے افراد ہوں _ مذكورہ مفہوم

۲۷۴

دوسرے احتمال كى بناپر ہے _

۱۷_ توحيد پرستى اور والدين، قرابتداروں ، يتيموں ،مساكين اور درماندہ افرادسے نيكى كرنا اچھے اعمال كے مصاديق ميں سے ہے _و عملوا الصالحات لا تعبدون الا الله وبالوالدين احسانا و المساكين يہ آيہ مجيدہ در حقيقت ما قبل آيت ميں موجود ''الصالحات'' كى تفسير اور اسكے بعض مصاديق كا ذكر ہے_

۱۸ _ لوگوں سے حسن سلوك ، نماز قائم كرنا اورزكوة كى ادائيگى اچھے اعمال كے مصاديق ميں سے ہے_

عملوا الصالحات ...وقولوا للناس حسناً و اقيموا الصلوة و آتوا الزكوة

۱۹ _ دينى تكاليف ( فرائض) اللہ تعالى كے انسانوں كے ساتھ عہد و پيمان ہيں _و إذ أخذنا ميثاق بنى اسرائيل و آتو الزكوة

۲۰ _ بنى اسرائيل كى اكثريت نے دينى تكاليف سے منہ موڑ كر الہى عہد و پيمان توڑ ديئے _ثم توليتم الا قليلاً منكم و انتم معرضون '' تولي'' اور '' اعراض'' كا معنى ہے روگردان ہونا ، منہ موڑنا اور اس سے مراد مخالفت و انحراف ہے _ جملہ '' و انتم معرضون، '' توليتم'' كے فاعل كے لئے حال ہے اور چونكہ اعراض اور تولى كا معنى ايك ہى ہے اس لئے حال مؤكد ہے جو بنى اسرائيل كى سخت مخالفت، نافرمانى اور انحراف كى حكايت كررہاہے_

۲۱ _ بنى اسرائيل ميں سے بہت كم افراد نے الہى عہد و پيمان كى وفا كى اور دينى تكاليف پر عمل كيا _

ثم توليتم الا قليلاً منكم

۲۲ _ بنى اسرائيل ميں سے كچھ افراد غير خدا كى پرستش كى طرف مائل ہوگئے اور انہوں نے والدين ، قرابتداروں ، يتيموں اور مسكينوں كے حقوق ضائع كرديئے _لا تعبدون الا الله و بالوالدين احساناً ثم توليتم الا قليلاً منكم

۲۳ _ بنى اسرائيل ميں سے سوائے كچھ افراد كے باقى سب نے لوگوں سے حسن سلوك نہ كيا ، نماز قائم نہ كى اورزكوة ادا نہ كى _و قولوا للناس حسناً و اقيموا الصلوة و آتو الزكوة ثم توليتم الا قليلاً منكم

۲۴ _ الہى عہد و پيمان كو توڑنا اور الہى فرامين كى مخالفت بنى اسرائيل كى عادت و روش تھي_و انتم معرضون

بعض مفسرين كے نزديك جملہ ''وانتم معرضون_ تم (عہد و پيمان سے ) منہ موڑے ہوئے ہو'' معترضہ ہے اور اس معنى كى طرف اشارہ ہے كہ بنى اسرائيل نے نہ صرف مذكورہ عہد و پيمان توڑے بلكہ عہد

۲۷۵

و پيمان توڑنا انكى عادت اور روش تھي_

۲۵ _عن جعفر بن محمد(ص) قال الله ''وقولوا للناس حسناً'' نزلت فى اهل الذمه (۱)

امام صادقعليه‌السلام سے اللہ تعالى كے اس فرمان ''قولوا للناس حسناً '' كے بارے ميں روايت ہے كہ يہ اہل ذمہ كے بارے ميں نازل ہوئي ہے

۲۶ _ جابر نے امام باقرعليه‌السلام سے اللہ تعالى كے اس فرمان'' قولوا للناس حسناً'' كے بارے ميں روايت كى ہے كہ آپعليه‌السلام نے فرمايا ''قولوا للناس احسن ما تحبون ان يقال لكم (۲)

جس طرح تم چاہتے ہو كہ تم سے گفتگو كى جائے اس سے بہتر لوگوں سے كلام كرو _

۲۷ _ سدير صيرفى كہتے ہيں :قلت لابى عبدالله عليه‌السلام اطعم سائلاً لا اعرفه مسلماً؟ فقال نعم اعط من لا تعرفه بولاية و لاعداوة للحق ان الله عزوجل يقول وقولوا للناس حسناً و لا تطعم من نصب لشى من الحق او دعا الى شى من الباطل (۳) امام صادقعليه‌السلام سے ميں نے عرض كيا جس سائل كو ميں نہيں جانتا كہ مسلمان ہے يا نہيں تو كيا ميں اسكو كھانا كھلاؤں ؟ تو امامعليه‌السلام نے فرمايا ہاں جس كے بارے ميں تم نہيں جانتے كہ اہل ولايت ہے يا دشمن حق ہے تو اسكو كھانا كھلاؤ كيونكہ اللہ تعالى ارشاد فرماتاہے'' و قولوا للناس حسناً'' اور وہ جو حق كا دشمن ہے اور باطل كى دعوت ديتاہے تو اسكو كھانا مت كھلاؤ_

۲۸_ ابى ولاد حناط كہتے ہيں :سألت ابا عبدالله عن قول الله عزوجل '' و بالوالدين احسانا'' ما هذا الاحسان ؟ فقال الاحسان ان تحسن صحبتهما و ان لا تكلفهما ان يسألاك شيئاً مما يحتاجان اليه و ان كانا مستغنين (۴)

ميں نے امام صادقعليه‌السلام سے اللہ تعالى كے اس فرمان ''وبالوالدين احساناً'' كے بارے ميں سوال كيا كہ يہ احسان كيا ہے ؟ تو آپعليه‌السلام نے فرمايا: احسان يہ ہے كہ ان كے ساتھ حسن سلوك كرو اور ان كو مجبور نہ كرو كہ وہ تم سے ايسى چيز مانگيں جس كى ان كو ضرورت ہے اگر چہ وہ بے نياز ہوں _

احكام: ۱۰

____________________

۱) تفسير عياشى ج/ ۱ ص ۴۸ ح ۶۶ ، تفسيربرہان ج/۱ ص ۱۲۱ ح ۱۱_ ۲) تفسير عياشى ج/ ۱ ص ۴۸ ح ۶۳ ، تفسير برہان ج/ ۱ ص ۱۲۱ ح ۸_

۳) كافى ج/۴ ص ۱۳ ح /۱ ، تفسير برہان ج/ ۱ ص ۱۲۰ ح ۵_ ۴) كافى ج/ ۲ ص ۱۵۷ ح ۱ ، نورالثقلين ج/ ۳ ص ۱۴۸ ح ۱۲۹_

۲۷۶

اديان: اديان كا اہم ترين ركن۱۱

امر بہ معروف : امر بہ معروف كى اہميت ۵

امور: تعجب آور امور ۱۲

انسان: انسانوں كے ساتھ خدا تعالى كا عہد و پيمان۱۹

اہل ذمہ : اہل ذمہ سے ميل جول كى روش ۲۵

بنى اسرائيل: دين بنى اسرائيل كے پہلو ۱۸; بنى اسرائيل كا دين سے منہ موڑنا ۲۰; بنى اسرائيل كى اقليت ۲۱،۲۲،۲۳; بنى اسرائيل كى ا كثريت ۲۰،۲۳; بنى اسرائيل ميں امر بہ معروف ۵; بنى اسرائيل كا برا سلوك ۲۳; بنى اسرائيل اور والدين كے حقوق ۲۲; بنى اسرائيل اور زكوة ۲۳; بنى اسرائيل اور مساكين ۲۲; بنى اسرائيل اور نماز ۲۳; بنى اسرائيل اور يتيم ۲۲; بنى اسرائيل كى تاريخ ۲۱،۲۳ ; بنى اسرائيل كى شرعى ذمہ دارياں ۶،۷; بنى اسرائيل كى اكثريت كا شرك كرنا ۲۲; بنى اسرائيل كى صفات ۲۴; بنى اسرائيل كى نافرمانى ۲۴; بنى اسرائيل سے اللہ تعالى كا عہد و پيمان ۱،۲،۳،۴، ۵،۶،۷،۹،۲۱; بنى اسرائيل كى وعدہ شكنى ۲۰ ، ۲۴ ; بنى اسرائيل كا وفائے عہد ۲۱

توحيد: توحيد عبادى كى اہميت ۱۰،۱۱; اديان ميں تو حيد ۱۱; توحيد عبادى ۲،۱۷

دين: دينى تعليمات ۱۹

ذكر: عہد الہى كا ذكر ۹

روايت: ۲۵ ، ۲۶ ،۲۷ ،۲۸

زكاة: زكاة كى ادائيگي۷،۱۸;زكوة كے ترك كرنے والے ۲۳

سائلين : سائلين كو كھانا كھلانا ۲۷

شرك: عبادى شرك سے اجتناب ۲،۱۰; شرك عبادى كا تعجب آور ہونا ۱۲

عبادت: عبادت كا وجوب ۱۰

عمل صالح: عمل صالح كے موارد ۱۷،۱۸

قرابت دار:

۲۷۷

قرابت داروں پر احسان ۳،۱۷

كلام: كلام كرنے كے آداب ۲۶; پسنديدہ كلام ۴،۶

كفار: كفارسے حسن سلوك ۱۶

كھانا كھلانا: كھانا كھلانے كے احكام ۲۷

لوگ: لوگوں سے حسن سلوك۴،۶،۱۶،۱۸

مسكين: مسكينوں پر احسان ۳،۱۳،۱۷; مسكينوں كے حقوق ضائع كرنا ۲۲

مشركين : ۲۲

مؤمنين : مومنين كى معاشرتى ذمہ دارى ۱۴; مؤمنين كى ذمہ دارى ۱۳،۱۶

ميل جول: ميل جول كے آداب ۴،۶،۱۶،۱۸

نافرماني: اللہ تعالى كى نافرمانى (۲۴)

نماز : نماز كا قيام۷،۱۸; تاركين صلوة ۲۳

نيكي: نيكى كى دعوت ۵

واجبات: ۱۰

والدين: والدين پر احسان ۳،۱۳،۱۴،۱۷،۲۸; والدين پر احسان كى اہميت ۱۵; والدين كے حقوق ضائع كرنا ۲۲; والدين كے حقوق ۲۸; والدين سے حسن سلوك۲۸

وعدہ شكن لوگ : ۲۰

يتيم: يتيم پر احسان۳،۱۳،۱۷; يتيم كے حقوق ضائع كرنا ۲۲

يہوديت: يہوديت كا معاشرتى پہلو ۸; يہوديت كا اقتصادى پہلو۸; يہوديت كا عبادتى پہلو ۸; يہوديت كا عقيدتى پہلو۸; يہوديت كى تعليمات۳،۴،۵

۲۷۸

وَإِذْ أَخَذْنَا مِيثَاقَكُمْ لاَ تَسْفِكُونَ دِمَاءكُمْ وَلاَ تُخْرِجُونَ أَنفُسَكُم مِّن دِيَارِكُمْ ثُمَّ أَقْرَرْتُمْ وَأَنتُمْ تَشْهَدُونَ ( ۸۴ )

اور ہم نے تم سے عہد ليا كہآپس ميں ايك دوسرے كا خون نہ بہانا اوركسى كو اپنے وطن سے نكال باہر نہ كرنااور تم نے اس كا اقرار كيا اور تم خود ہياس كے گواہ بھى ہو (۸۴ )

۱ _ بنى اسرائيل كے ذمے اللہ تعالى كى طرف سے عہد و پيمان تھے_و اذا أخذنا ميثاقكم

۲ _ ايك دوسرے كے قتل اور خون ريزى كرنے سے پرہيز كرنا يہ اللہ تعالى كے بنى اسرائيل كے ساتھ عہد و پيمان ميں سے تھا_و اذأخذنا ميثاقكم لا تسفكون دمائكم '' لا تسفكون دماء كم _ تم ايك دوسرے كا خون نہيں كرتے '' جملہ خبر يہ ہے اور اس سے مراد جملہ انشائيہ ہے يعنى خون ريزى نہ كرو _

۳_ ايك دوسرے كو بے گھر نہ كرنا اور دياروطن سے نہ نكالنا خداوند متعال كے بنى اسرائيل كے ساتھ عہد و پيمان ميں سے تھا_و إذ أخذنا ميثاقكم لا تخرجون أنفسكم من دياركم '' دار'' كا معنى گھر ہے البتہ شہر اور محلے كو بھي

''دار'' كہا جاتاہے پس ''ديار'' جو '' دار'' كى جمع ہے اسكا معنى گھر ، شہر اور محلے ہے_

۴ _ انسانى معاشروں اورملتوں كے حقوق ميں سے ہے كہ ان كے پاس وطن اور جائے سكونت ہو _*من دياركم

قرآن كريم ''ديار'' كو ''كم'' كى طرف اضافت دے كر يعنى گھر اور وطن كو انسانوں كى طرف نسبت دے كر ( تمہارے گھر ) اس حقيقت كو ثابت كررہاہے گويا ہر ملت ، قوم ، قبيلے كو حق حاصل ہے كہ ايك سرزمين كو اپنى جائے سكونت قرار دے اور كسى جگہ كو اپنى زندگى كرنے كے لئے انتخاب كرے _

۵ _ بنى اسرائيل كے وہ عہد و پيمان جو خداوند متعال كے ان كے ساتھ تھے ا ن كا اعتراف كرتے اور اس كى گواہى ديتے تھے_إذ أخذنا ميثاقكم ثم اقررتم و انتم تشهدون

۶ _ الہى مكتب ميں مومنين كے قتل محرمات مؤكدہ ميں سے ہے_

لا تسفكون دماء كم

۲۷۹

اگر چہ آيت اللہ تعالى كا بنى اسرائيل سے عہد و پيمان كا ذكر كررہى ہے ليكن اسكا قرآن حكيم ميں بيان كرنا اس بات كى دليل ہے كہ يہ فريضہ قرآن كريم كے تمام تر مخاطبين كے لئے ہے _

۷ _ توحيد پرستوں كو ان كے گھر بار اور ديار وطن سے نكالنا اور دربدر كرنا مؤكدہ محرمات الہى ميں سے ہے _

و لاتخرجون أنفسكم من دياركم

'' لا تخرجون ...'' تم اپنے ( دينى بھائيوں ) كو ان كے گھروں سے باہر نہ نكالويہ جملہ بھى ''لاتسفكون ...''كى طرح خبريہ ہے جو مقام انشاء پر ہے يعنى '' باہر نہ نكالو'' انشاء كى جگہ جملہ خبريہ كا آنا تاكيد كے لئے ہے _

۸ _ ہر معاشرہ اور ملت ايك جسم كى طرح ہے اور اسكے افراد اس جسم كے اعضاء كى طرح ہيں _

لا تسفكون دماء كم و لا تخرجون أنفسكم من دياركم

'' لا تسفكون ...'' اس جملہ سے مراد خودكشى اور خود كو دربدر كرنا نہيں ہے بلكہ اس سے مراد ايك قوم يا قبيلے كا دوسرے كو قتل كرنا اور دربدر كرناہے_ البتہ يہاں دوسروں كى بجائے يہ تعبير استعمال كرنا كہ خود كو قتل نہيں كرتے اور خود كو دربدر نہيں كرتے يہ اس مطلب كى طرف اشارہ ہے كہ ايك ملت كے افراد اور ايك مكتب كے پيروكار امت واحدہ كى طرح ہيں _

احكام:۶،۷

انسان: انسانوں كے حقوق ۴

بنى اسرائيل: بنى اسرائيل كا اقرار ۵; اللہ تعالى كا بنى اسرائيل كے ساتھ عہد و پيمان ۱،۲،۳،۵; بنى اسرائيل كى گواہى ۵

جلاوطنى ( وطن بدرى ) : جلاوطن كرنے سے اجتناب ۳

حقوق: سكونت كا حق ۴; وطن كا حق ۴

قتل: قتل سے اجتناب ۲

محرمات: ۶،۷

معاشرہ : معاشروں كے حقوق ۴; معاشرے كى وحدت ۸

مؤمنين: مومنين كو جلاوطن كرنے كى حرمت۷; مومنين كے قتل كى حرمت ۶; مؤمنين كے درجات ۶،۷

۲۸۰

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

( i ) اس کا دوسری آیہ :( أُحِلَّ لَكُمْ ) ۔۔۔۔۔۔ الخ سے پہلے نازل ہونا ثابت ہو جسے نسخ کے مدعی ثابت نہیں کر سکتے۔

( ii ) آیہ کریمہ :( كُتِبَ عَلَيْكُمُ ) ۔۔۔۔۔۔ الخ میں صدر اسلام کے روزوں کو ہر جہت سے گزشتہ اقوام کے روزوں سے تشبیہ دی جا رہی ہو (تاکہ وہ حکم میں یکساں ہو اور پھر آیت :( كُتِبَ عَلَيْكُمُ ) ۔۔۔۔۔۔ الخ کے ذریعے نسخ ہو جائے) اور یہ بات مفہوم عرفی بلکہ آیت کی صریح دلالت کیخلاف ہے کیونکہ آیہ شریفہ میں صدر اسلام کے روزے کے وجوب کو گزشتہ امتوں کے روزے کے وجوب سے تشبیہ دی جا رہی ہے دونوں کے روزوں کی تفصیلی کیفیت میں یگانگت بیان نہیں کی جا رہی تاکہ آیت :( أُحِلَّ لَكُمْ ) ۔۔۔۔۔۔ الخ کے ذریعے اسے نسخ کیا جا سکے۔

اگر کسی اور خارجی دلیل سے ثہ بات بھی ہو کہ صدر اسلام اور قبل از اسلام کے روزوں کے احکام ایک جیسے تھے تو اس صورت میں آیہ کریمہ :( أُحِلَّ لَكُمْ ) ۔۔۔۔۔۔ الخ کے ریعے ایسا حکم نسخ ہو گی جو قرآن کے علاوہ کسی اور دلیل سے ثابت ہو اور یہ ہمارے محل بحث سے خارج ہے۔

۶۔( وَعَلَى الَّذِينَ يُطِيقُونَهُ فِدْيَةٌ طَعَامُ مِسْكِينٍ ۖ فَمَن تَطَوَّعَ خَيْرًا فَهُوَ خَيْرٌ لَّهُ ۚ وَأَن تَصُومُوا خَيْرٌ لَّكُمْ ۖ ) ۲:۱۸۴

''اور جنہیں روزہ رکھنے کی قوت ہے (اور نہ رکھیں) تو ان پر اس کا بدلہ ایک محتاج کو کھانا کھلا دینا ہے اور جو شخص اپنی خوشی سے بھلائی کرے تو یہ اس کیلئے زیادہ بہتر ہے،،۔

اس آیت کے بارے میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ یہ آیت اس آیہ شریفہ کے ذریعے نسخ ہو گئی ہے:

( فَمَن شَهِدَ مِنكُمُ الشَّهْرَ فَلْيَصُمْهُ ) : ۱۸۵

''(مسلمانو!) تم میں سے جو شخص اس مہینہ میں اپنی جگہ پر ہو تو اسے چاہئے کہ روزہ رکھے،،

۳۸۱

پہلی آیت میں اگر ''طوق،، سے مراد (عام) طاقت و قدرت ہو تو آیت کے منسوخ ہونے کا دعویٰ واضح اور درست ہے کیونکہ اس صورت میں آیہ شریفہ کا مفہوم یہ ہو گا کہ جو شخص روزہ رکھنے کی قدرت رکھتا ہے وہ چاہے تو روزہ نہ رکھے اور اس کے بدلے میں فدیہ کے طور پر مسکینوں کو کھانا کھلائے جبکہ دوسری آیت کا مفہوم یہ ہے کہ جو شخص ماہ مبارک میں حاضر ہو وہ روزہ ضرور رکھے ، یعنی اختیاری حالت میں فدیہ پر اکتفاء نہیں کر سکتا۔

لیکن یہ ایک واضح حقیقت ہے کہ طاقت سے مرا دوہ قدرت ہے جس کے ساتھ مشقت اور زحمت ہو بنا برایں آیہ کریمہ کا مطلب یہ ہے کہخداوند متعال نے سب سے پہلے آیہ شریفہ:

( يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِينَ مِن قَبْلِكُمْ ) ۲:۱۸۳

''اے ایماندارو! روزہ رکھنا جس طرح تم سے پہلے کے لوگوں پر فرض تھا اسی طرح تم پر بھی فرض کیا گیا،،

کے ذریعے واجب تعیین(۱) کے طور پر روزہ رکھنا لازم قرار دیا ہے اور اس کے بعد آیہ شریفہ فمن کان منکم مریضا او علی سفر فعدۃ من ایام اخر : ۱۸۴

''(روزے کے دنوں میں) جو شخص تم میں سے بیمار ہو یا سفر میں ہو اور دونوں میں (جتنے قضا ہوئے ہوں) گن کر رکھ لے،،

کے ذریعے مسافر اور مریض سے اس حکم کو اٹھا لیا اور ان روزوں کے عوض کسی دوسرے وقت (جب مسافر کا سفر ختم ہو جائے اور مریض ٹھیک ہو جائے) روزہ جانے کا حکم دیا ہے۔

اس کے بعد بعض مخصوص افراد کیلئے جداگانہ حکم بیان کیا گیا اور وہ یہ ہے کہ زیادہ بوڑھا آدمی ، وہ آدمی جسے پیاس زیادہ لگتی ہو ، وہ مریض جس کا مرض آئندہ رمضان تک باقی رہے اور اس قسم کے دوسرے افراد جن کو روزہ رکھنے سے ناقابل برداشت مشقت و زحمت اٹھانا پڑتی ہے ، ان لوگوں پر روزے کی ادا و قضا واجب نہیں بلکہ صرف فدیہ دیا جائے گا۔

___________________

(۱) جس کا کوئی اور چیز عوض نہ بن سکے۔

۳۸۲

معلوم ہوا جب آیہ کریمہ کی رو سے عام مومنین پر مخصوص ایام میں بطور واجب تعیینی روزوں کی ادا اور مریض و مسافر پر روزوں کی قضا کو فرض قرار دیا گیا تو وہ لوگ ان دونوں سے مختلف ہوں گے جن پر صرف فدیہ دینا واجب ہے آیات کی اس دلالت کے باوجود یہ دعویٰ کیسے کیا جا سکتا ہے کہ آیہ کریمہ کے مطابق وہ آدمی جو روزہ رکھنے کی قدرت رکھتا ہو ، چاہے تو روزہ رکھے اور چاہے تو روزوں کے بدلے میں فدیہ دے دے ، اسے اختیار ہے اہل بیت اطہار (ع) کی مستفیض روایات بھی آیہ کریمہ کی اسی تفسیر پر دلالت کرتی ہیں(۱)

لفظ طاقت اگرچہ عام قدرت اور توانائی کے معنی میں استعمال ہوتا ہے لیکن طاقت کے لغوی معنی ہیں: مشقت کثیرہ کے ساتھ کسی کام کی قدرت حاصل ہونا چنانچہ ''لسان العرب،، میں ہے:

''الطوق الطاقة ای اقصی غایته و هواسم لمقدار مایمکنه ان یفعله بمشقة منه ،،

(یعنی) '' طوق کا مطلب قدرت و توانائی کی آخری حد ہے جس میں ایک کام انتہائی زحمت کے ساتھ انجام پائے،،

اور ابن اثیر اور راغب سے بھی طاقت کا یہی معنی منقول ہے۔

اگر اس بات کو تسلیم بھی کر لیا جائے کہ طاقت کا معنی عام قدرت وتوانائی ہے ''اطاقہ،، جس سے ''یطیقونہ،، بنا ہے ، کا معنی کسی چیز میں طاقت پیدا کرنا ہے تو لامحالہ ''اطاقہ،، وہاں استعمال ہو گا جہاں ایک کام بذات خود آسان اور مقدور نہ ہو ، کسی دوسرے نے اسے مقدور بنایا ہو اور یہ سخت محنت و مشقت کے ساتھ ہی انجام پایا ہو۔

____________________

(۱) الوافی ، ج ۷ ، باب العاجز من الصیام ، ص ۲۳

۳۸۳

صاحب ''تفسیر المنار،، اپنے استاد سے نقل کرتے ہیں:

''عرب،، ''اطاق الشئی،، وہاں کہتے ہیں جہاں کسی چیز یا فعل پر ضعیف اور معمولی سی قدرت ہو اور اس کیلئے سخت محنت و مشقت درکار ہو،،(۱)

بنا برایں یہ آیہ کریمہ محکم ہے ، منسوخ نہیں ، اور اس کا حکم اس شخص کے حکم سے بالکل مختلف ہے جس پر ادایا قضا روزے رکھنا واجب ہیں۔

یہ سب بحث اس بنیاد پر کی گئی کہ آیہ شریفہ میں مشہور قرات کے مطابق لفظ یطیقونہ یعنی صیغہ معلوم پڑھا جائے لیکن اگر ابن عباس ، حضرت عائشہ ، عکرمہ اور ابن مسیّب کی قرات کے مطابق اس لفظ کو باب تفعیل مجہول(۲) (یطوقونہ) پڑھا جائے تو پھر مسئلہ اور زیادہ واضح ہو جائے گا کیونکہ اس صورت میں یقیناً ''مشقت،، والے معنی مراد لئے جائیں گے۔

البتہ مالک اور ربیعہ کے قول کے مطابق ، جو یہ کہتے ہیں کہ اگر بوڑھے مرداور بوڑھی عورتیں افطار کر لیں تو ان کے ذمے کچھ واجب نہیں (۳) آیہ کریمہ منسوخ ہوگئی لیکن یہ ان کی ذاتی رائے ہے جو ہمارے لئے حجت اور مدرک نہیں بن سکتی اس کے علاوہ اس قول کی صحت مشکوک ہے۔

۷۔( وَلَا تُقَاتِلُوهُمْ عِندَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ حَتَّىٰ يُقَاتِلُوكُمْ فِيهِ ۖ فَإِن قَاتَلُوكُمْ فَاقْتُلُوهُمْ ۗ كَذَٰلِكَ جَزَاءُ الْكَافِرِينَ ) ۲:۱۹۱

''اور جب تک وہ لوگ (کفار) مسجد الحرام(کعبہ) کے پاس تم سے نہ لڑیں تم بھی ان سے اس جگہ نہ لڑو پس وہ اگر تم سے لڑیں تو (بے کھٹکے) تم بھی ان کو قتل کرو ، کافروں کی یہی سزا ہے،،

____________________

(۱) تفسیر المنار ، ج ۲ ، ص ۱۵۶

(۲) احکام القرآن للجصاص ، ص ۱۷۷

(۳) الناسخ و المنسوخ للخاس ، ص ۲۳

۳۸۴

ابو جعفر نحاس اور اکثر اہل نظر کی رائے یہی ہے کہ یہ آیت منسوخ ہو گئی ہے اور مشرکین سے حرم اور غیر محرم میں جنگ لڑی جا سکتی ہے یہ قول قتادہ کی طرف بھی منسوب ہے(۱)

لیکن قول حق یہی ہے کہ گزشتہ آیات کی طرح یہ آیت بھی منسوخ نہیں ہوئی اور محکم ہے اگر اس کے کسی آیت کے ذریعے ناسخ ہونے کا احتمال دیا جا سکتا ہے تو وہ آیت یہ ہے:

( اقْتُلُوا الْمُشْرِكِينَ حَيْثُ وَجَدتُّمُوهُمْ ) ۹:۵

''تو مشرکوں کو جہاں پاؤ (بے تامل) قتل کر دو،،

یہ آیت ناسخ نہیں بن سکتی اس لئے کہ پہلی آیت خاص ہے اور دوسری عام ہے خاص ، عام کیلئے قرینہ ہوا کرتا ہے اور وہ عام کا مقصد و مراد بیان کرتا ہے اگرچہ خاص کی تاریخ صدور مقدم ہی کیوں نہ ہو اور جہاں خاص کا مقدم ہونا ثابت ہی نہ ہو وہ بطریق اولیٰ عام کیلئے قرینہ ہو گا بنا برایں اس آیت سے یہی ثابت ہوا کہ حرم سے باہر مشرکین سے جنگ لڑی جا سکتی ہے لیکن اگر مشرکین حرم میں جنگ کی ابتداء کریں تو ان سے حرم میں بھی جنگ کی جا سکتی ہے۔

دوسرا احتمال یہ ہے کہ مدعیان نسخ اس روایت کو ناسخ قرار دیں جس کے مطابق رسول اکرم (ص) نے حکم دیا تھا کہ ''ابن خطل،، کو قتل کر دو جبکہ وہ خانہ کعبہ سے لپٹا ہواہو۔

یہ دعویٰ بھی باطل ہے کیونکہ اولاً یہ روایت خبر واحد ہے اور خبر واحد سے نسخ ثابت نہیں ہوتا ثانیاً یہ روایت نسخ آیت پر دلالت نہیں کرتی کیونکہ مدعیان نسخ خود رسول اللہ (ص) روایت نقل کرتے ہیں کہ آپ (ص) نے فرمایا:

''انهالم تحل لاحد قبلی و انما احلت لی ساعة من نهارها ،، (۲)

''مجھ سے قبل کسی کیلئے بھی کعبہ میں قتل کو حلال نہیں کیا گیا اور میرے لئے بھی فتح مکہ کے روز صرف ایک گھڑی کیلئے حلال قرار دیا گیاتھا،،

___________________

(۱) الناسخ و المنسوخ للخاس ، ص ۲۸

(۲) فتح القدیر للشوکانی ، ج ۱ ، ص ۱۶۸

۳۸۵

بنا برایں یہ آیہ کریمہ اس حقیقت کی تصریح کر رہی ہے کہ حرم میں قتال کی اجازت صرف پیغمبر اکرم (ص) کی خصوصیات میں سے ہے کسی اور کو یہ اجازت نہیں دی گئی اس طرح سوائے فقہاء کی ایک جماعت کا لحاظ کرنے کے ، اس آیت کے نسخ ہونے کی کوئی دلیل نہیں اور آیہ شریفہ کا مفہوم ان کے دعویٰ کیخلاف ہے۔

۸۔( يَسْأَلُونَكَ عَنِ الشَّهْرِ الْحَرَامِ قِتَالٍ فِيهِ ۖ قُلْ قِتَالٌ فِيهِ كَبِيرٌ ۖ ) ۲:۲۱۷

''(اے رسول(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) ) تم سے لوگ حرمت والے مہینوں کے نسبت پوچھتے ہیں کہ (آیا) جہاد (ان میں جائز) ہے تو تم انہیں جواب دو کہ ان مہینوں میں جہاد بڑا گناہ ہے،،

ابو جعفر نحاس کہتے ہیں:

''علماء (اہل سنت) کا اس بات پر اجماع ہے کہ آیہ کریمہ نسخ ہو گئی ہے اور ان مہینوں میں جنگ جائز ہے البتہ عطا کی رائے یہ ہے کہ آیہ کریمہ محکم ہے اور حرمت والے مہینوں میں قتال جائز نہیں ہے ،،(۱)

شیعہ امامیہ روایات اور علماء کے فتاویٰ کے مطابق یہ آیت نسخ نہیں ہوئی اورا ن مہینوں میں جنگ جائز نہیں ہے چنانچہ صاحب ''التبیان،، اور ''جواہر الکلام،، نے اس بات کی تصریح کی ہے۔

مولف: قول حق یہی ہے کہ یہ آیت منسوخ نہیں ہوئی اس لئے کہ ناسخ کے طورپر آیہ کریمہ:

( اقْتُلُوا الْمُشْرِكِينَ حَيْثُ وَجَدتُّمُوهُمْ ) ۹:۵

''تو مشرکوں کو جہاں پاؤ (بے تامل) قتل کر دو،،

____________________

(۱) الناسخ و المنسوخ للخاس ، ص ۳۲

۳۸۶

کو پیش کرنا تعجب خیز ہے کیونکہ اس آیت میں مشرکین سے قتال اور جنگ کو باحرمت مہینوں کے گزر جانے پر موقوف قرار دیا گیا ہے چنانچہ ارشاد ہوتاہے۔

( فَإِذَا انسَلَخَ الْأَشْهُرُ الْحُرُمُ فَاقْتُلُوا الْمُشْرِكِينَ حَيْثُ وَجَدتُّمُوهُمْ ) ۹:۵

''پھر جب حرمت کے (چاروں) مہینے گزر جائیں تو مشرکوں کو جہاں پاؤ (بے تامل) قتل کر دو،،۔

آیہ کریمہ کی اس تصریح کے باوجود یہ دعویٰ کیسے کیا جا سکتا ہے کہ آیت :یسلونک عن الشہر الحرام ۔۔۔۔۔۔ الخ دوسری آیت : فاقتلوا المشرکین حیث وجد تموھم کے ذریعے نسخ ہوگئی ہے۔

ہو سکتا ہے ناسخ کے طور پر آیہ سیف:

( وَقَاتِلُوا الْمُشْرِكِينَ كَافَّةً كَمَا يُقَاتِلُونَكُمْ كَافَّةً ) ۹:۳۶

''مشرکین جس طرح تم سے سب کے سب مل کر لڑتے ہیں تم بھی اسی طرح سب کے سب مل کر ان سے لڑو،،

کے اطلاق کو پیش کیا جائے لیکن یہ بھی درست نہیں اس لئے کہ یہ آیت مطلق ہے اور مطلق اگرچہ موخر ہو مقید کیلئے ناسخ نہیں بن سکتا۔

اگر نسخ کے اثبات کیلئے ابن عباس اور قتادہ کی روایت کا سہارا لیا جائے جس کے مطابق متنازع فیہ آیت ، آیہ سیف کے ذریعے نسخ ہو گئی ہے تو یہ بھی اعتراض سے خالی نہیں اس لئے کہ اولایہ روایت خبر واحد ہے جس سے نسخ ثابت نہیں ہوتا ثانیاً یہ کسی معصوم کی روایت نہیں شاید یہ ابن عباس اور قتادہ کااپنا اجتہاد ہو ثالثاً یہ روایت ابراہیم ابن شریک کی روایت سے متعارض ہے ابراہیم کہتے ہیں : احمد بن عبداللہ بن یونس نے لیث سے ، لیث نے ابی ازہر سے ، ابی ازہر نے جابر سے نقل کیا ہے کہ رسول اللہ (ص) نے فرمایا:

''لایقاتل فی شهر الحرام الاان یغزی اویغزو فاذا حضر ذالک اقام حتی ٰ ینسلخ ،،

''حرمت والے مہینوں میں جنگ نہ لڑی جائے مگریہ کہ دشمن کی طرف سے پہل ہو اور جب حرمت والا مہینہ آ جائے تو جنگ کو موقوف کیا جائے حتیٰ کہ ماہ حرام گزر جائے،،

۳۸۷

اسکے علاوہ اقتادہ اور ابن عباس سے منقول روایت ، اہل بیت ، (ع) سے منقول روایات کے بھی مخالف ہے ، جن کے مطابق ان مہینوں میں جنگ حرام ہے۔

اس آیت کے نسخ کے اثبات کیلئے اس روایت سے بھی تمسک صحیح نہیں جس کے مطابق رسول اللہ (ص) نے ماہ شوال ، ذیقعدہ اور ذی الحجہ میں حنین میں ہوازن کے ساتھ اور طائف میں ثقیف کے ساتھ جنگ کی کیونکہ اولاً یہ خبر واحد ہے جس سے نسخ ثابت نہیں ہو سکتا ثانیاً بفرض تسلیم اگر یہ روایت صحیح بھی ہو تو یہ مجمل ہے اس کی کئی وجوہات ہو سکتی ہے ممکن ہے کسی خاص اوراہم ضرورت کے تحت آپ نے ان مہینوں میں جنگ کا حکم دیا ہو ایسی روایت کس طرح آیہ کریمہ کے لئے ناسخ بن سکتی ہے ۔

۹۔( وَلَا تَنكِحُوا الْمُشْرِكَاتِ حَتَّىٰ يُؤْمِنَّ ۚ ) ۲:۲۲۱

''اور (مسلمانو) تم مشرک عورتوں سے جب تک ایمان نہ لائیں نکاح نہ کرو،،۔

بعض علماء کا د عویٰ ہے کہ یہ آیت ، اس آیت کے ذریعے منسوخ ہو گئی ہے:

( وَالْمُحْصَنَاتُ مِنَ الْمومناتِ وَالْمُحْصَنَاتُ مِنَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ مِن قَبْلِكُمْ إِذَا آتَيْتُمُوهُنَّ أُجُورَهُنَّ ) ۵:۵

''اور ان لوگوں میں کی آزاد پاک دامن عورتیں جن کوتم میں سے پہلے کتاب دی جا چکی ہے جب تم ان کوا ن کے مہر دیدو،،

چنانچہ ابن عباس ، مالک بن انس ، سفیان بن سعید ، عبدالرحمن ، ابن عمراور اوزاعی کی رائے یہی ہے عبداللہ بن عمر کی رائے یہ ہے کہ دوسری آیت منسوخ اور پہلی آیت ناسخ ہے اس طرح اہل کتاب عورت سے نکاح حرام ہو گا(۱)

لیکن حق یہی ہے کہ یہ دونوں آیتیں منسوخ نہیں ہوئیں اس لئے کہ اگر مشرک عورت (جس سے نکاح پہلی آیت حرام قرار دے دی رہی ہے) سے مراد بت پرست عورتیں ہوں (جیسا کہ آیت سے ظاہر ہو رہا ہے ) تو ان سے نکاح حرام ہونا ، اہل کتاب سے نکاح جائز ہونے سے کوئی منافات نہیں رکھتا تاکہ ایک ناسخ اور دوسری منسوخ قرار پائے کیونکہ پہلی آیت میں عورت بت پرست ہونے کی بنا پر حرام اور

_____________________

(۱) الناسخ و المنسوخ ، ص ۵۸

۳۸۸

دوسری آیت میں عورت اہل کتاب ہونے کی بنیاد پر حلال قرار پائی ہے اور اگر مشرکہ سے مراد وہ عورت ہو جو اہل کتاب کوبھی شامل ہو (جیسا کہ مدعیان نسخ کا خیال ہے) تو دوسری آیت پہلی آیت کیلئے مخصص قرار پائے گی اس طرح دونوں آیتوں کامفہوم یہ ہو گا کہ اہل کتاب عورت سے تو نکاح جائز ہے لیکن مشرک ، بت پرست عورت سے نکاح جائز نہیں کیونکہ اس فرض کے مطابق پہلی آیت بت پرست اور اہل کتاب عورتوں کو حرام قرار دے رہی ہے اور دوسری آیت اس حکم سے اہل کتاب کو خارج کر کے انہیں حلال قرار دے رہی ہے۔

البتہ شیعہ نقطہ نگاہ سے اہل کتاب عورتوں سے نکاح موقت (متعہ) جائز ہے لیکن نکاح دائمی جائز نہیں اہل کتاب سے دائمی نکاح جائز نہ ہونے کی وجہ یا تو یہ ہے کہ وہ روایات جن کی رو سے اہل کتاب عورتوں سے نکاح دائمی جائز نہیں، اس آیت کیلئے مقید ثابت ہوں گی جس کے مطابق اہل کتاب سے نکاح دائمی اور نکاح موقت دونوں کا جواز سمجھا جاتا ہے یا عدم جواز کی وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ آیت کریمہ (جس سے اہل کتاب سے نکاح کا جوازثابت ہوتا ہے) سے صرف نکاح موقت کا جواز ثابت ہوتا ہے۔

اس مشہور قول کے مقابلے میں علماء امامیہ کی ایک جماعت اہل کتاب عورتوں سے نکاح دائمی کوبھی جائز سمجھتی ہے چنانچہ حسین اور صدوقین (علی بن بابویہ ، محمد بن بابویہ ) سے یہ فتویٰ منقول ہے انشاء اللہ تعالیٰ اس مسئلہ پر اس آیت کی تفسیر کے موقع پر تفصیلی بحث کریں گے۔

۱۰۔( لَا إِكْرَاهَ فِي الدِّينِ ۖ قَد تَّبَيَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَيِّ ۚ ) ۲:۲۵۶

''دین میں کسی طرح کی زبردستی نہیں کیونکہ ہدایت گمراہی سے (الگ) ظاہر ہو چکی ۔

۳۸۹

علماء کی ایک جماعت کا خیال ہے کہ یہ آیت ، اس آیہ شریفہ کے ذریعے نسخ ہوگ ئی ہے:

( يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ جَاهِدِ الْكُفَّارَ وَالْمُنَافِقِينَ وَاغْلُظْ عَلَيْهِمْ ۚ ) ۹:۷۳

''اے رسول(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) ! کفار کے ساتھ (تلوار سے) اور منافقین کے ساتھ (زبان سے) جہاد کرو،،

کیونکہ اس آیت میں کفارسے جنگ کر کے انہیں اسلام قبول کرنے پر مجبور کیا جا رہا ہے جبکہ پہلی آیت میں دین کے معاملہ میں جبر کرنے سے روکا گیا ہے بعض حضرات کا خیال ہے کہ پہلی آیت نسخ نہیں ہوئی بلکہ دوسری آیت کے ذریعے اس کی تخصیص ہوئی ہے یعنی اہل کتاب کو مجبور نہ کیا جائے کیونکہ جیسا کہ اس سے قبل بھی اشارہ کیا جا چکا ہے کہ اہل کتاب سے صرف اس بنیاد پر کہ وہ اہل کتاب ہیں ، جنگ نہیں کی جا سکتی۔

مولف : قول حق یہی ہے کہ یہ آیت منسوخ ہوئی ہے اور نہ اس کی تخصیص ہوئی ہے۔

وضاحت : لغت عرب میں ''کرہ،، دو معنی میں استعمال ہوتا ہے:

i ۔ وہ معنی جو رضا مندی کے مقابلے میں استعمال ہوتا ہے یعنی کسی پر نارض یا خفا ہونا چنانچہ آیہ شریفہ:

( وَعَسَىٰ أَن تَكْرَهُوا شَيْئًا وَهُوَ خَيْرٌ لَّكُمْ ۖ) ۲:۲۱۶

''اور عجب نہیں کہ تم کسی چیز (جہاد) کون اپسند کرو حالانکہ وہ تمہارے حق میں بہتر ہو،،

میں یہی معنی مراد ہے۔

ii ۔ وہ معنی جو اختیار کے مقابلے میں استعمال ہوتا ہے یعنی مجبوراً چنانچہ آیہ کریمہ:

( حَمَلَتْهُ أُمُّهُ كُرْهًا وَوَضَعَتْهُ كُرْهًا ۖ ) ۴۶:۱۵

''اس کی ماں نے رنج ہی کی حالت میں اس کو پیٹ میں رکھا اور رنج ہی سے اس کو جنا،،۔

۳۹۰

میں یہی مقصود ہے کیونکہ حاملہ ہونا اور بچے کی ولادت اگرچہ اکثر اوقات عورت کی رضا مندی سے ہوتی ہے لیکن یہ ان کے دائرہ اختیار سے باہر ہے متنازعہ فیہ آیہ شریفہ میں نسخ یا تخصیص اس صورت میں ممکن ہے جب ''کرہ،، پہلے معنی (ناراضگی) میں استعمال ہو۔

لیکن ''اکراہ،، سے پہلا معنی (کسی چیز کو پسند نہ کرنا) مراد ہونا کئی جہات سے باطل ہے:

( i ) جہاں بھی کسی لفظ کے دو معنی ہوں ، ان میں سے کسی ایک معنی کے تعین کیلئے قرینہ اور موید کی ضرورت ہوتی ہے جبکہ اس مقام پر کوئی ایسا قرینہ اور موید موجود نہیں جس سے معنی اول کا ارادہ کیا جانا ثابت ہو سکے۔

( ii ) دین اسلام ، اصول دین اور فروع دین دونوں کو شامل ہے اس آیت کے بعد کفر اور ایمان کا ذکر کرنا اس بات کی دلیل نہیں کہ دین صرف اصول دین کا نام ہے بلکہ ایک کلیہ کو اس کے بعض مصادیق پر منطبق کیا گیا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ شریعت اسلامیہ میں بہت سے ایسے احکام موجود ہیں جو مسلمانوں پر (برحق) مسلط کئے گئے ہیں چنانچہ عقلاء کی سیرت بھی اس کی تائید کرتی ہے شریعت میں اس کی کئی مثالیں دی جا سکتی ہیں مثلاً مقروض کو قرض ادا کرنے پر مجبور کیا جاتا ہے زوجہ کو شہر کی اطاعت پر مجبور کیا گیا ہے چور کو چوری ترک کرنے پر مجبور کیا جاتاہ ے ان تمام موارد کے ہوتے ہوئے کیسے کہا جا سکتا ہے کہ شریعت اسلامیہ میں ''اکراہ،، نہیں ہے۔

( iii ) ''اکراہ،، کی تفسیر میں اس کے پہلے معنی کو ذکر کرنا آیہ شریفہ کے دوسرے حصے:

( قَد تَّبَيَّنَ الرُّشْدُ مِنَ الْغَيِّ ) ۲:۲۵۶

''کیونکہ ہدایت گمراہی سے (الگ) ظاہر ہو چکی،،۔

۳۹۱

سے سازگار نہیں مگر یہ کہ ''قدتبین الرشد من الغی کو ''لااکراہ فی الدین،، کیلئے علت اور وجہ قرار دیا جائے بایں معنی کہ ہدایت اور گمراہی کا آشکار ہونا، احکام اسلام کو لوگوں پر ان کی مرضی کیخلاف مسلط کرنے سے بے نیاز کر دیتا ہے۔

اگر آیہ کریمہ کا مطلب یہی ہے تو پھر اس کے نسخ ہونے کا امکان باقی نہیں رہتاکیونکہ دین اسلام کی دلیلیں اور حجیتیں شروع ہی سے واضح اور آشکار تھیں یہ الگ بات ہے کہ یہ روز بروز مستحکم ہوتی گئیں ا ن حقائق کی روشنی میں صدر اسلام کی بہ نسبت دعوت پیغمبر (ص) کے آخر میں اکراہ کا واقع نہ ہونا زیادہ مناسب ہوتا کیونکہ اسلام کے دلائل صدر اسلام کی بہ نسبت دعوت پیغمبر (ص) کے آخر میں زیادہ واضح اور مستحکم ہو گئے تھے۔

اس کے علاوہ جب عدم کراہ کی یہ علت تمام کفار میں مشترک تھی تو پھر اس حکم (عدم اکراہ) کے صرف بعض کفارسے مختص ہونے کی کوئی وجہ نہیں اور اس کا لازمی نتیجہ یہی ہے کہ تمام کے تمام کفار سے جنگ حرام ہو اس نتیجے کا باطل ہونا بدیہی اور واضح ہے۔

پس حق یہی ہے کہ آیہ کریمہ میں ''اکراہ،، سے مراد وہی معنی ہے جو اختیار کے مقابلے میں آتا ہے اور یہ یہاں جملہ خبریہ ہے انشائیہ نہیں۔

آیہ شریفہ اسی حقیقت کو بیان کر رہی ہے جس کا قرآن کی متعدد آیات میں ذکر ہو چکا ہے کہ شریعت الٰہی کسی جبر و اکراہ پر مبنی نہیں ہے نہ اس کے اصول کے سلسلے میں کسی کو مجبور کیا جاتا ہے اور اس کے فروع کے بارے میں پس حکمت الٰہی کا تقاضا یہ ہے کہ انسانیت کی ہدایت کیلئے رسول بھیجے جائیں ، آسمان سے کتابیں نازل ہوں اور احکام الٰہی کی وضاحت کی جائے تاکہ ہلاک (گمراہ) ہونے اور زندگی (ہدایت) حاصل کرنے والوں پر اتمام حجت ہو جائے اور خدا کے مقابلے میں کوئی عذر باقی نہ رہے جیسا کہ ارشاد تعالیٰ ہے:

( إِنَّا هَدَيْنَاهُ السَّبِيلَ إِمَّا شَاكِرًا وَإِمَّا كَفُورًا ) ۷۶:۳

''اور اس کو رستہ بھی دکھا دیا (اب وہ ) خواہ شکر گزار ہو خواہ ناشکرا،،۔

۳۹۲

آیہ کریمہ کا خلاصہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کسی کوبھی ایمان لانے اور اطاعت کرنے پر مجبور نہیں کرتا بلکہ صرف حق کو گمراہی اور باطل کے مقابلے میںواضح طور پر بیان فرماتا ہے اور جو شخص حق پر ایمان لاتا ہے وہ اپنے ارادے اور اختیارسے ایمان لاتا ہے اور جو گمراہ ہوتا ہے وہ بھی اپنے ارادے اور اختیار سے باطل اورگمراہی کے راستے کا انتخاب کرتا ہے اگر اللہ تعالیٰ چاہے تو تمام لوگوں کو حق کی منزل تک پہنچاسکتا ہے لیکن حکمت کا تقاضا یہ ہے کہ حق اور باطل کی وضاحت کے بعد لوگوں کو ان کے اعمال میں مجبور نہ کیا جائے چنانچہ اللہ تعالیٰ کاارشاد ہے:

( وَلَوْ شَاءَ اللَّـهُ لَجَعَلَكُمْ أُمَّةً وَاحِدَةً وَلَـٰكِن لِّيَبْلُوَكُمْ فِي مَا آتَاكُمْ ۖ فَاسْتَبِقُوا الْخَيْرَاتِ ۚ إِلَى اللَّـهِ مَرْجِعُكُمْ جَمِيعًا فَيُنَبِّئُكُم بِمَا كُنتُمْ فِيهِ تَخْتَلِفُونَ ) ۵:۴۸

''اور اگر خدا چاہتا تو تم سب کے سب کو ایک ہی (شریعت کی ) امت بنا دیتا مگر (مختلف شریعتوں سے) خدا کا مقصودیہ تھا کہ جو کچھ تمہیں دیا ہے اس میں تمہاراامتحان کر لے بس تم نیکیوں میں لپک کے آگے بڑھ جاؤ اور (یقین جانو) کہ تم سب کو خدا ہی کی طرف لوٹ کر جانا ہے تب (اس وقت) جن باتوں میں تم اختلاف کرتے تھے وہ تمہیں بتا دے گا،،

( قُلْ فَلِلَّـهِ الْحُجَّةُ الْبَالِغَةُ ۖ فَلَوْ شَاءَ لَهَدَاكُمْ أَجْمَعِينَ ) ۶:۱۴۹

''اے رسول(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم)) تم کہو کہ (اب تمہارے پاس کوئی دلیل نہیں) خدا تک پہنچانے والی دلیل خد ہی کیلئے خاص ہے پھر اگر وہی چاہتا تو تم سب کی ہدایت کرتا،،

( وَقَالَ الَّذِينَ أَشْرَكُوا لَوْ شَاءَ اللَّـهُ مَا عَبَدْنَا مِن دُونِهِ مِن شَيْءٍ نَّحْنُ وَلَا آبَاؤُنَا وَلَا حَرَّمْنَا مِن دُونِهِ مِن شَيْءٍ ۚ كَذَٰلِكَ فَعَلَ الَّذِينَ مِن قَبْلِهِمْ ۚ فَهَلْ عَلَى الرُّسُلِ إِلَّا الْبَلَاغُ الْمُبِينُ ) ۱۶:۳۵

''اور مشرکین کہتے ہیں کہ اگر خدا چاہتا تو نہ ہم ہی اس کے سوا کسی اور چیز کی عبادت کرتے اور نہ ہمارے باپ دادا اور نہ ہم بغیر اس (کی مرضی) کے کسی چیز کو حرام کر بیٹھتے جولوگ ان سے پہلے ہو گزرے ہیں وہ بھی ایسے ( حیلہ حوالہ کی ) باتیں کر چکے ہیں تو (کہا کریں) پیغمبروں پر تو اس کے سوا کہ احکام کو صاف صاف پہنچا دیں اور کچھ بھی نہیں،،

۳۹۳

۱۱۔( وَاللَّاتِي يَأْتِينَ الْفَاحِشَةَ مِن نِّسَائِكُمْ فَاسْتَشْهِدُوا عَلَيْهِنَّ أَرْبَعَةً مِّنكُمْ ۖ فَإِن شَهِدُوا فَأَمْسِكُوهُنَّ فِي الْبُيُوتِ حَتَّىٰ يَتَوَفَّاهُنَّ الْمَوْتُ أَوْ يَجْعَلَ اللَّـهُ لَهُنَّ سَبِيلًا ) ۴:۱۵

''اور تمہاری عورتوں میں سے جو عورتیں بدکاری کریں تو ان کی بدکاری پر اپنے لوگوں میں سے چار کی گواہی لو پھر اگر چاروں گواہ اس کی تصدیق کریں تو (ان کی سزا یہ ہے کہ ) ان کو گھروں میں بند رکھو یہاں تک کہ موت آ جائے یا خدا ان کی کوئی (دوسری) راہ نکالے،،۔

( وَاللَّذَانِ يَأْتِيَانِهَا مِنكُمْ فَآذُوهُمَا ۖ فَإِن تَابَا وَأَصْلَحَا فَأَعْرِضُوا عَنْهُمَا ۗ إِنَّ اللَّـهَ كَانَ تَوَّابًا رَّحِيمًا ) : ۱۶

'' اور تم لوگوں میں جن سے بدکاری سرزد ہوئی ہو ان کو مارو پیٹو ، پھر اگر وہ دونوں (اپنی حرکت سے) توبہ کریں اور اصلاح کر لیں تو ان کو چھوڑ دو بے شک خدا بڑا توبہ قبول کرنے والا مہربان ہے۔

حسن کی روایت ، جواس نے رقاشی سے نقل کی ہے ، کے مطابق عکرمہ اور عبادۃ بن صامت کی رائے یہ ہے کہ پہلی آیت ، دوسری آیت کے ذریعے نسخ ہو گئی ہے اور دوسری آیت کنوارہ مرد اور عورت جب زنا کریں تو ان کے بارے میں نسخ ہو گئی ہے اس لئے کہ ان کی سزا سو کوڑے اور ایک سال کی جلا وطنی ہے اور شادی شدہ مرد اور عورت جب زنا کریں توا ن کے بارے میں بھی یہ آیت نسخ ہو گئی ہے کیونکہ ان کو سو کوڑے مارنے کے علاوہ سنگسار کیا جاتا ہے یہاں تک کہ وہ مر جائیں۔

قتادہ اور محمد بن جابر کی رائے یہ ہے کہ پہلی آیت (میں موجود حکم) شادی شدہ ہے اور دوسری آیت باکرہ سے مختص ہے اور یہ دونوں آیات کروڑوں اور سنگساری کی سزا دینے کے حکم کے ذریعے منسوخ ہو گئی ہیں۔

۳۹۴

ابن عباس ، مجاہد اور ابو جعفر نحاس جیسے ، ان کے ہم رائے ، حضرات کی رائے یہ ہے کہ پہلی آیت عورتوں کے زنا (چاہے وہ شادی شدہ ہوں یا باکرہ) اور دوسری آیت مردوں کے زنا (چاہے شادی شدہ ہوں یا کنوارے) سے مختص ہے اور یہ دونوں آیات کروڑوں اور سنگساری کی سزا دینے کے حکم کے ذریعے نسخ ہو گئی ہیں(۱) بہرحال ابوبکر جصاص کا کہنا ہے کہ زنا کے ان دونوں حکموں کے نسخ ہونے پر مسلمانوں کا اتفاق ہے(۲)

مولف: حق یہی ہے کہ یہ دونوں آیتیں نسخ نہیں ہوئیں۔

توضیح: لفظ فاحشہ سے مراد وہ عمل ہے جس کی برائی اور قباحت سنگین ہو۔ اگر ایسی سنگین برائی کا ارتکاب دو عورتیں باہم مل کر کریں تو اسے ''مساحقہ،، کہا جاتا ہے ، کبھی اس برائی کو دو مرد انجام دیتے ہیں جو ''لواطہ،، کہلاتا ہے اور کبھی ایک مرد اور ایک عورت کے ذریعے یہ برائی انجام پاتی ہے جو زنا کہلاتی ہے لفظ ''فاحشہ،، سے نہ یہ ظاہر ہوتا ہے کہ یہ زنا کیلئے وضع کیا گیا اور نہ یہ ثابت ہوتا ہے کہ اس سے خالق کی مراد زنا ہے اس نکتے کے پیش نظر پہلی آیت کا نسخ دو چیزوں پر موقوف ہے:

i ۔ پہلی آیت میں گھروں میں نظر بند کرنے کا مطلب ، مرتکب فحش کی تعزیر ہو۔

ii ۔ خدا کی طرف سے راہ مقرر ہونے سے مراد سنگساری اور کوڑے ہوں۔

ان دونوں کا ثابت ہونا ناممکن ہے کیونکہ آیہ مبارکہ سے یہی ظاہر ہوتا ہے کہ عورت کو گھر میں نظر بند کرنے کا مقصد اسے دوبارہ ارتکاب فحش سے روکنا اور اس طرح منکرات کا سدباب کرناہے اور یہ مسلم ہے کہ لوگوں کی جان ، مال ناموس اور اس قسم کے دیگر حساس اعمال کے سلسلے میں منکرات کا سدباب کرنا واجب اور ہر شخص کا فرض ہے بلکہ ایک قول کے مطابق ہر برائی کی روک تھام واجب ہے۔

____________________

(۱) الناسخ و المنسوخ ، ص ۹۸

(۲) احکام القرآن للجصاص ، ج ۲ ، ص ۱۰۷

۳۹۵

اسی طرح فحش کی مرتکب عورت کیلئے راہ مقرر کرنے کا مقصد ، اس کیلئے ایک ایسا طریقہ مقرر کرنا ہے جس کے ذریعے اسے عذاب سے نجات مل جائے یہ راہ کوڑے اور سنگساری کس طرح ہو سکتی ہے ؟ کیا کوئی آسودہ حال اور عقلمند عورت جو نظر بند ہو ، اس بات پر راضی ہو سکتی ہے کہ اسے کوڑے لگائے جائیں یا اسے سنگسار کیا جائے اسے کوڑے مارنا یا سنگسار کرنا تو اس کے عذاب میں اضافہ کرتا ہے ، اس کی نجات اور سہولت کی راہ و سبیل نہیں ہے ۔

گزشتہ بیان کی روشنی میں ''فاحشہ،، سے کبھی مراد ''مساحقہ،، ہوتا ہے ، جس طرح دوسری آیت میں ''فاحشہ،، سے مراد ''لواط،، ہے چنانچہ اس کو بعد میں بیان کیا جائے گا اور کبھی ''فاحشہ،، سے مراد وہ گناہ ہوتا ہے جو ''مساحقہ،، اور زنا دونوں کو شامل ہو۔

ان دونوںاحتمالات کے مطابق آیہ کریمہ میں فاحشہ عورت کی نظر بندی کولازمی قرار دیا جا رہا ہے (حتیٰ کہ خدا اس کیلئے آسانی نصیب فرمائے بایں معنی کہ یا وہ توبہ کر لے یا گھر میں بیٹھی بیٹھی بوڑھی ہو جائے اور کسی فحش کے ارتکاب کے قابل نہ رہے جس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ اسے گھر سے نکلنے کی اجازت مرحمت فرمائے یا اس میں شادی کی خواہش پیدا ہو اور اس کا شوہر اس کی ناموس کا تحفظ کرے یا اس قسم کے دیگر اسباب فراہم ہوں جن کی وجہ سے اس کے کسی فحش میں مبتلا ہونے کا خطرہ نہ رہے یہ ایک ایسا حکم ہے جو ہمیشہ کیلئے ثابت ہے۔

جہاں تک کوڑوں اور سنگساری کا تعلق ہے وہ ایک جداگانہ اور مستقل حکم ہے جو فحش کے مرتکب افراد کی تادیب اور تنبیہ کیلئے شارع مقدس نے مقرر فرمایا ہے جس کا حکم اول (عورت کی نظر بندی) سے کوئی تعلق نہیں اور نہ اس کیلئے نسخ واقع ہوا ہے دوسرے الفاظ میں پہلا حکم شارع مقدس نے اس لئے مقرر فرمایا کہ دوبارہ فحش اور بدکاری کا سدباب ہو سکے اور دوسرے حکم کو پہلے جرم کی سزا اور اس پر تنبیہ کیلئے مقرر کیاتاکہ دوتری عورتیں بھی اس قسم کے جرائم کا ارتکاب نہ کریں پس حکم اول اور حکم ثانی میں کوئی منافات نہیں کہ دوسرے حکم کو پہلے حکم کا ناسخ قرار دیا جائے البتہ اگر کوڑے مارنے اور سنگساری کی وجہ سے عورت کی موت واقع ہو جائے تو اسے گھر میں نظر بند کرنے کا حکم برطرف ہو جائے گا کیونکہ موت سے نظر بندی کا مقصد حاصل ہو جاتا ہے۔

۳۹۶

خلاصہ بحث یہ ہے کہ جو شخص آیہ کریمہ میں غور و فکر کرے اسے اس میں کوئی ایسا نکتہ نظر نہیں آئے گا جس سے نسخ کا تو ہم ہو چاہئے آیہ جلد (کوڑے) اس آیہ پر مقدم ہو یا مؤخر ہو۔

جہاں تک دوسری آیت کے نسخ کا تعلق ہے وہ اس بات پر موقوف ہے۔

اولاً : ''یاتیانھا،، کی ضمیر زنا کی طرف لوٹتی ہو۔

ثانیاً : آیہ کریمہ میں ''ایذائ،، سے مراد سب و شتم (گالی گلوچ) اور لعن طعن ہو۔

ان دونوں امور کی کوئی دلیل نہیں اس کے علاوہ یہ دونوں باتیں آیہ کریمہ سے ظاہر نہیں ہوتیں۔

وضاحت: گزشتہ دونوں آیات میں تین مرتبہ جمع مذکر حاضر کی ضمیر لائی گئی ہے اور یہ مسلم ہے کہ تیسری ضمیر سے مراد وہی ہے جو پہلی اور دوسری ضمیر سے مردا ہے اور یہ بھی واضح ہے کہ پہلی دو ضمیروں سے مراد ، مرد ہیں پس بنا برایں''اللذان،، سے مراد دو مرد ہیں اور اس سے مراد ایسا عام معنی نہیں ہے جو مرد اور عورت دونوں کو شامل ہو۔

اس کے علاوہ اگر تثنیہ کی ضمیر سے مراد دو مرد نہ لئے جائیں تو اس کا کوئی دوسرا معنی مراد لینا صحیح بھی نہیں کیونکہ اگر ضمیر سے مراد دو مرد نہ ہوتے توا س کی جگہ جمع کی ضمیر آنی چاہئے تھی جس طرح سابقہ آیت میں جمع کی ضمیر لائی گئی ہے اور یہ اس بات کا بین ثبوت ہے کہ دوسری آیت میں ''فاحشہ،، سے مراد ''لواط،، ہے ، زنا نہیں اور نہ وہ عام معنی ہے جو لواط اور زنا دونوں کو شامل ہو یہ بات واضح ہونے کے بعد ثابت ہو جاتا ہے کہ اس آیت کے موضوع کا آیہ جلد سے کوئی ربط نہیں یہ بات تسلیم کرنے کے بعد کہ اس آیت میں موجود حکم کے موضوع میں زانی بھی شامل ہے اس امر کی کوئی دلیل نہیں رہتی کہ آیت میں جس ایذارسانی کا حکم دیا گیا ہے اس سے مراد کوئی خاص قسم کی اذیت ہو البتہ ابن عباس ےس مروی ہے کہ اس ایذا سے مراد ضرب و شتم ہے لیکن یہ روایت حجت نہیں کہ اس کے ذریعے نسخ ثابت ہو سکے لہٰذا لفظ کے اپنے ظہور پر عمل کرنا چاہئے اور آیہ جلد یا حکم رجم کے ذریعے (جو قطعی طور پر ثابت ہے) اس کی تقیید کی جائے۔

۳۹۷

خلاصہ بحث یہ کہ ان دونوں آیتوں میں نسخ کے التزام کی کوئی وجہ نہیں مگر یہ کہ کوئی اندھی تقلید کرے اور ان احاد روایات پر عمل کرے جو کسی علم و عمل کا فائدہ نہیں دیتیں۔

۱۲۔( وَأُحِلَّ لَكُم مَّا وَرَاءَ ذَٰلِكُمْ ) ۴:۲۴

''اور ان عورتوں کے سوا( اور عورتیں) تمہارے لئے جائز نہیں،،

بعض مفسرین کا کہنا ہے کہ یہ آیہ کریمہ ان روایات کے ذریعے نسخ ہو گئی ہے جس کی رُو سے سورہ نساء کی آیہ ۲۳ میں مذکور عورتوں کے علاوہ بھی کچھ عورتیں حرام قرار دی گئی ہیں یہ دعویٰ اس وقت صحیح ہو سکتا ہے جب خاص متاخر ، عام مقدم کیلئے ناسخ بنے ، مخصص نہ بنے۔

لیکن قول حق یہی ہے کہ خاص عام کیلئے مخصص بنتا ہے ناسخ نہیںبنتا ، خواہ خاص ، مقدم ہویا موخر یہی وجہ ہے کہ خبر واحد ، جس میں جیت کی تمام شرائط موجود ہوں کو عام کا مخصص قرار دیا جا سکتا ہے چنانچہ عنقریب یہ بحث آئے گی کہ خبر واحد ، جس میں حجیت کی تمام شرائط موجود ہوں، کو عام کا مخصص قرار دیا جا سکتا ہے چنانچہ عنقریب یہ بحث آئے گی کہ خبر واحد کے ذریعے قرآن کی تخصیص جائز ہے اگر مؤخر خاص ناسخ ہوتا تو خبر واحد پر اکتفا نہ کیا جاتا اس لئے کہ خبر واحد کے ذریعے نسخ ثابت نہیں کیا جا سکتا اس کے علاوہ آیہ کریمہ میں کوئی عموم لفظی نہیں پایا جاتا بلکہ ظاہری اطلاق کے ذریعے عموم سمجھا جاتا ہے اور جب کوئی ایسی دلیل موجود ہو جو اس آیہ کیلئے مقید بننے کی صلاحیت رکھتی ہو وہاں یہ حکم لگایا جائے گا کہ اس مقام پر شروع سے (واقعی) اطلاق مراد نہیں۔

۳۹۸

۱۳۔( فَمَا اسْتَمْتَعْتُم بِهِ مِنْهُنَّ فَآتُوهُنَّ أُجُورَهُنَّ فَرِيضَةً ۚ وَلَا جُنَاحَ عَلَيْكُمْ فِيمَا تَرَاضَيْتُم بِهِ مِن بَعْدِ الْفَرِيضَةِ ۚ ) ۴:۲۴

''ہاں جن عورتوں سے تم نے متعہ کیا ہو تو انہیں و مہر معین کیا ہے دے دو،،

علماء اہل سنت میں مشہور ہے کہ متعہ کی حلیت (حلال ہونا) نسخ ہو گئی ہے اور قیامت تک کیلئے اس کی حرمت ثابت ہو گئی ہے اس کے برعکس شیعہ امام کا اتفاق ہے کہ متعہ کی حلیت باقی ہے اور آیہ کریمہ نسخ نہیں ہوئی صحابہ اور تابعین کی ایک جماعت نے بھی شیعہ امامیہ کی اس رائے سے اتفاق کیا ہے چنانچہ ابن حزم لکھتے ہیں:

''ابن مسعود ، معاویہ ، ابو سعید ، ابن عباس ، امیہ بن خلف کے دونوں بیٹے سلمہ اور معبد ، جابر اور عمرو بن حریث پیغمبر اکرم (ص) کے بعد بھی متعہ کی حلیت کے قائل تھے،،۔

اس کے بعد ابن حزم لکھتے ہیں:

''جابر نقل کرتے ہیں کہ تمام صحابہ پیغمبر اکرم (ص) ، رسول اللہ (ص) کی زندگی میں حضرت ابوبکر کی خلافت کے دوران اور خلافت حضرت عمر کے آخر تک متعہ کو حلال سمجھتے تھے،،

ابن حزم مزید لکھتے ہیں:

''تابعین میں سے طاووس ، سعید بن جبیر ، عطا اور مکہ کے دیگر فقہا متعہ کی حلیت کے قائل تھے ،،(۱)

شیخ الاسلام مرغینانی نے جو ازمتعہ کے قول کی نسبت مالک کی طرف دی ہے مالک متعہ کے جواز پر یہ دلیل پیش کرتے ہیں:

____________________

(۱) حاشیہ فقی برمنتقیٰ ، ج ۲ ، ص ۵۲۰

۳۹۹

''متعہ (رسول اللہ (ص) کے زمانے میں) یقیناً مباح تھا۔ جب تک اس کا نسخ ثابت نہ ہو اس کی حلیت باقی رہے گی،،(۱)

ابن کثیر لکھتے ہیں:

''ایک اور روایت کے مطابق امام احمد بن حنبل اضطراری حالت میں متعہ کو جائز سمجھتے ہیں،،(۲)

مکہ کے نامور عالم اور فقیہ ابن جریح نے اپنے زمانے میں ستر عورتوں سے نکاح متعہ کیا تھا(۳) انشاء اللہ اس آیہ کریمہ کی تفسیر کے موقعہپر ہم تفصیلی گفتگو کریں گے یہاں ہم اس آیہ کے بارے میں مختصر بحث کریں گے تاکہ ثابت کیا جا سکے کہ اس آیہ شریفہ کا مفہوم نسخ نہیں ہوا۔

توضیح: آیہ شریفہ میں موجود حکم اس بات پر موقوف ہے۔

اولاً: آیہ شریفہ میں استمتاع سے مراد نکاح متعہ ہو۔

ثانیاً : بعد میں نکاح متعہ کی حرمت ثابت ہو جائے۔

جہاں تک امر اول (استمتاع سے مراد نکاح متعہ ہو) کا تعلق ہے اس کے ثبوت میں کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں طرفین کی بہت سی روایات اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ آیہ شریفہ میں استمتاع سے مراد نکاح متعہ ہے۔

____________________

(۱) ہدایہ شرح بدایہ ص ۳۸۵ ۔ مطبوعہ بولاق معہ فتح القدیر ۔ اس نسبت کی شیخ محمد بابرتی نے بھی شرح ہدایہ میں تاید کی ہے البتہ ابن ہمام حنفی نے فتح القدیر میںاس کاانکار کیا ہے عبدالباقی مالکی زرقانی نے شرح مختصر ابی ضیاء ج ۳ ص ۱۹۰ پر کہا ہے:

''متعہ جو کسی بھی وقت قابل فسخ ہے کی حقیقت یہ ہے کہ مرد یا عورت یا ان کے ولی عقد اس طرح پڑھیں کہ اس میں مدت مذکور ہو اور یہ کہ مرد عورت کو اپنے مقصد سے آگاہ کرے لیکن اگر صیغہ عقد میں مدت کا ذکر نہ ہو لیکن مرد اس کا قصد کرے اور عورت بھی مرد کے قصد کو سمجھا جائے تو بھی کافی ہے امام مالک کا فتویٰ یہی ہے اور یہ عقد مسافروں کیلئے مفید ہے،،۔

(۲) تفسیر ابن کثیر ، ج ۱ ، ص ۴۷۴

(۳) شرح زرقانی برمختصر ابی ضیاء ، ج ۸ ، ص ۷۶

۴۰۰

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

461

462

463

464

465

466

467

468

469

470

471

472

473

474

475

476

477

478

479

480

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

501

502

503

504

505

506

507

508

509

510

511

512

513

514

515

516

517

518

519

520

521

522

523

524

525

526

527

528

529

530

531

532

533

534

535

536

537

538

539

540

541

542

543

544

545

546

547

548

549

550

551

552

553

554

555

556

557

558

559

560

561

562

563

564

565

566

567

568

569

570

571

572

573

574

575

576

577

578

579

580

581

582

583

584

585

586

587

588

589

590

591

592

593

594

595

596

597

598

599

600

601

602

603

604

605

606

607

608

609

610

611

612

613

614

615

616

617

618

619

620

621

622

623

624

625

626

627

628

629

630

631

632

633

634

635

636

637

638

639

640

641

642

643

644

645

646

647

648

649

650

651

652

653

654

655

656

657

658

659

660

661

662

663

664

665

666

667

668

669

670

671

672

673

674

675

676

677

678

679

680

681

682

683

684

685

686

687

688

689

690

691

692

693

694

695

696

697

698

699

700

701

702

703

704

705

706

707

708

709

710

711

712

713

714

715

716

717

718

719

720

721

722

723

724

725

726

727

728

729

730

731

732

733

734

735

736

737

738

739

740

741

742

743

744

745

746

747

748

749

750

751

752

753

754

755

756

757

758

759

760

761

762

763

764

765

766

767

768

769

770

771

772

773

774

775

776

777

778

779

780

781

782

783

784

785