تفسير راہنما جلد ۱

 تفسير راہنما 7%

 تفسير راہنما مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن
صفحے: 785

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴ جلد ۵ جلد ۶ جلد ۷ جلد ۸ جلد ۹ جلد ۱۰ جلد ۱۱
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 785 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 200964 / ڈاؤنلوڈ: 5793
سائز سائز سائز
 تفسير راہنما

تفسير راہنما جلد ۱

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

نبی یا امام معصوم کی نظر میں محال ہونے کی مثال

پیغمبراسلام کے بعد کوئی نبوت کا دعویٰ کر بیٹھے۔ اس قسم کا دعویٰ یقیناً کذب ہے اس لیے کہ ائمہ معصومین اور رسول اکرم(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) کے ذریعے آنحضرت کا خاتم الانبیاء ہونا مسلم الثبوت ہے۔ جب دعویٰ ہی قطعی طور پر باطل اور جھوٹا ہو تو پھر اس شاہد کا کیا فائدہ ہوگا جسے مدعی پیش کرے جب عقل اس مدعا کے محال ہونے کے کا حکم لگا دے یا شریعت اس کے باطل ہونے کی شہادت دے تو پھر خالق پر واجب نہیں کہ اس کے باطل ہونے کو برملا کرے۔ کبھی ایسا ہوتا ہے کہ ایک انسان کسی الہٰی منصب کا دعویٰ تو کرلیتا ہے اور کوئی خارق العدات (معجزہ نما) کام بھی کر دکھاتا ہے جس سے دوسرے انسان عاجز رہتے ہیں لیکن یہی کام اس کے دعوےٰ کے کذب ہونے کی دلیل بن جاتا ہے۔ مثال کے طور پر مسیلمہ کذّاب نے ایک مرتبہ اپنا لعابِ دھن کنوئیں میں پھینکا جس میں پانی تھوڑا تھا تاکہ اس کا پانی زیادہ ہو جائے لیکن اسمیں جو پانی تھا وہ بھی خشک ہوگیا۔

ایک او واقعے میں اس نے بنی حنیفہ کے کچھ بچوں کو سر پر ہاتھ پھیرا اور بعض کو گھٹی دی (حلق پر ہاتھ پھیرا) اس کے نتیجے میں جن کے سروں پر ہاتھ پھیرا تھا وہ گنجے ہوگئے اور جن کے حلق پر ہاتھ پھیرا تھا ان کو لکنت کا عارضہ ہوگیا۔(۱) جب مدعی اس قسم کا شاہداور دلیل پیش کرے تو خدا کے لیے ضروری نہیں کہ اسے مزید برملا کرے کیوں کہ اس مدعی کا ناکام عمل ہی مدعی کو باطل کرے کے لیے کافی ہے اور اصطلاح میں اسے معجزہ نہیں کہا جاتا۔

____________________

(۱) الکامل ابن اثیر، ج ۲، ص ۱۳۸

۴۱

اس عمل کو بھی اصطلاح میں معجزہ نہیں کہا جائے گا جس کا مظاہرہ جادو گر اور شعبدہ باز کیا کرتے ہیں یا بعض دقیق اور پیچیدہ علوم نظری کے ماہر انجام دیتے ہیس اگرچہ ایسا عمل انجام دینے سے عام آدمی عاجز ہو، خدا کے لیے ضروری نہیں کہ وہ اس عمل کو کسی اور ذریعے سے باطل قرار دے، جبکہ یہ معلوم ہہے کہ اس کا یہ عمل سحر جیسے دوسرے طبیعی امور کے نتیجے میں انجام پایا ہے۔ اگرچہ یہ انسان کسی الہٰی منصب کا دعویدار ہو اور اس کام کو اس نے اپنی صداقت کی دلیل کے طور پر پیش کیا ہو، کیونکہ ان پیچیدہ علوم نظری کے خاص قوانین ہوتے ہیں جن سے اس علم کے ماہرین آگاہ ہوا کرتے ہیں اور ان قواعد کی روشنی میں مخصوص نتاء تک پہنچنا ضروری ہوا کرتا ہے، اگرچہ ان قواعد کو نتائج پر منطبق کرنا کافی دقت طلب ہے۔

بنابرایں علم طبّ کے بعض حیرت انگیز قواعد بھی معجزہ سے خارج ہوں گے جن کا تعلق چیزوں کی طبیعتوں اور ان کے خاصیتوں سے ہے اگرچہ طبّ کی یہ عجیب و غریب باتیں عام لوگوں سے مخفی اور پوشیدہ ہوں بلکہ خود ان طبیبوں اور حکیموں پر بھی چیزوں کی خاصیتیں اور ان کے آثار مخفی ہوں۔

اس میں بھی کوئی قباحت نہیں کہ خدا کسی خاص بندے کو کسی خاص چیز کی معرفت عطا فرمائے جو عام لوگوں کی سمجھ سے بالاتر ہو۔

قباحت اس میں ہے کہ خدا کسی جھوٹے شخص کی تائید کرے اور ایسے جھوٹے شخص کے ہاتھ معجزہ ظاہر کرے جو لوگوں کو راہِ راست سے گمراہ کرے۔

۴۲

نبوّت اور اعجاز

تمام انسانوں کو مکلّف کرنا خدا پر واجب ہے اور یہ بات صحیح عقلی دلائل سے ثابت ہے، کیونکہ انسان اپنی ارتقائی منازل طے کرنے اورابدی سعادت کے حصول اور عظیم منفعت کےلئے تکلیف (فرائض و ذمہ داریوں) کا محتاج ہے۔ اگرخدا انسان کو پابند قرار نہ دے تو اس کی تین وجوہات ہوسکتی ہیں:

i ) خدا نے اپنے بندوں کو اس لیے مکلّف نہیں بنایا کہ خدا نہیں جانتا کہ لوگ ذمہ داری و لائحہ عمل کے محتاج ہیں۔

اس سے جہل لازم آتا ہے جس سے خدا کی ذات پاک و منزہ ہے۔

ii ) خدا نے لوگوں کو اس لیے مکلّف نہیں بنایا کہ وہ انہیں کمال تک پہنچنے سے روکنا چاہتا ہے۔ اس سے بخل لازم آتا ہے اور بخل اس ذات کے لیے محال ہے جو سرچشمہ ئ فیض و سخا ہے۔

iii ) خدا انہیں مکلّف بنانا چاہتا ہے لیکن وہ اس پر قادر نہیں ہے۔ یہ عجز و ناتوانی ہے جو اس قادر و مطلق ذات کے لیے محال ہے۔

بنابریں بشر کو بعض فرائض کا مکلّف بنانا ضروری اور لازمی ہے اور یہ ایک واضح حقیقت ہے کہ انسان کو مکلّف بنانے کے لیے کسی نہ کسی مبلّغ کی ضرورت ہے جو احکامِ الہٰی کے پوشیدہ اور واضح رموز سے آگاہ کرے:

( لِّيَهْلِكَ مَنْ هَلَكَ عَن بَيِّنَةٍ وَيَحْيَىٰ مَنْ حَيَّ عَن بَيِّنَةٍ ) (۸:۴۲)

''تاکہ جو شخص ہلاک (گمراہ) ہو وہ (حق کی) حجت تمام ہونیکے بعد ہلاک ہو اور جو زندہ رہے وہ (ہدایت کی) حجّت تمام ہونیکے بعد زندہ رہے۔،،

۴۳

یہبھی ایک بدیہی بات ہے کہ سفارتِ الہٰی ایسا عظیم منصب ہے جس کے بہت سے مدعی ہوسکتے ہیں اور بہت سے لوگ اس کے حصول کی خواہش رکھتے ہیں۔ اس کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ صادق اور کاذب میں تمیز نہ ہوسکے، گمراہ کرنے والے اور ہادی و راہنما میں امتیاز نہ رہے، اس لیے جو بھی اس سفارت کا دعویدار ہو اس کے لئے ضروری ہے ہک ایسا شاہد اور ثبوت پیش کرے جو اس کے اس دعویٰ میں صادق ہونے پر دلالت کرتا ہو اور اس تبلیغ میں اس کے امین ہونے کی ضمانت دے۔ یہ شاہد ان عام اور معمولی افعال اور کارناموں میں سے نہ ہو جنہیں ہر کس و ناکس انجام دے سکتا ہو۔ بنابرایں اس مدعا کی دلیل میں ان کاموں میں منحصر ہوگی جو طبیعی قوانین کو توڑ دیں۔ معجزہ اس لیے مدعی کی صداقت کی دلیل ہوتا ہے کہ یہ معجزہ طبیعی قوانین سے بالاتر ہوتا ہے اور یہ کام اسی سے صادر ہوتا ہے جسے توفیق الہٰی حاصل ہو اور خدا جسے قدرت اور طاقت دے۔

بنابرایں اگر نبوّت کا مدعی اپنے دعویٰ میںجھوٹا ہو تو ایسے معجزے پر اس کو قدرت دینا لوگوں کو جہالت میں ڈالنے اور باطل کی تقوّیت کا باعث ہوگا اور یہ کام خدا کے لیے محال ہے۔

جب اس قسم کا معجزہ کسی مدعی کے ہاتھ پر ظاہر ہو تو یہ معجزہ اس کی صداقت کی دلیل ہوگا اور اس بات کا اظہار ہوگا کہ خداوند متعال اس کی نبوّت پر راضی ہے۔

یہ ایک ایسا قاعدہ کلیّہ ہے جسے تمام عقلاء اس قسم کے اہم کاموں میں تسلیم کرتے ہیں اور اسے کوئی بھی شک و شبہ کی نگاہ سے نہیں دیکھتا۔

۴۴

جب کوئی کسی بادشاہ یا صدر کے سفیر ہونے کا دعویٰ کرے یا کوئی شخص ایسے کاموں میں بادشاہ کی نمائندی کا دعویٰ کرے جن کا تعلق عوام سے ہے تو اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے دعویٰ پر دلیل پیش کرے جس سے اس کی تائید ہو۔ خصوصاً جب لوگ اس کی صداقت میں شک کریں تو اس کی دلیل واضح اور آشکار ہونی چاہےے۔ مثال کے طور پر اگر سفیر لوگوں سے یہ کہے کہ میری صداقت کی دلیل یہ ہے کہ کل کے دن بادشاہ او صدرمملکت مجھے ایسا تحفہ دیگا جیسا وہ دوسرے سفیروں اور نمائندگان کو دیا کرتا ہے اور میری ایسی عزّت اور تکریم کرے گا جیسی دوسرے سفراء او رنمایندگان کی کیا کرتا ہے تو ایسی صورت میں جب سفیر اور لوگوں میں رونما ہونے والے اس اختلاف کا بادشاہ کو علم ہوگا اور اس کے بعد اسی دن اسی تحفے و عزّت و تکریم سے سفیر کو نوازے تو بادشاہ اور صدر مملکت کی طرف سے یہ فعل مدعیئ سفارت کی تصدیق ہوگی جس میں عقلاء کو کوئی شک نہیں ہوگا، کیوں کہ ایک بادشاہ جو رعیت کی مصلحتوں کا محافظ ہوا کرتا ہے اس کے لئے قبیح ہے کہ وہ کاذب مدعی کی تائید و تصدیق کرے۔ کیونکہ وہ لوگوں میں فساد پھیلانا چاہتا ہے، جب یہ کام عام عقلاء کے لیے قبیح ہو تو اس حکیم اور دانا ذات کے لیے بطریقِ اولیٰ اور قبیح ہے اور یہ حقیقت خدا نے اس آیتِ کریمہ میں بیان فرمائی ہے:

( وَلَوْ تَقَوَّلَ عَلَيْنَا بَعْضَ الْأَقَاوِيلِ لَأَخَذْنَا مِنْهُ بِالْيَمِينِ ثُمَّ لَقَطَعْنَا مِنْهُ الْوَتِينَ ) (۶۹:۴۴۔۴۶)

''اگر رسول(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) ہماری نسبت کوئی جھوٹ بات بنالاتے تو ہم ان کا داہنا ہاتھ پکڑلیتے پھر ہم ضرور ان کی گردن اڑا دیتے۔،،

۴۵

اس آیت کریمہ کا مطلب یہ ہے کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جن کی نبوّت ہم نے ثابت کی ہے اور اس کی تصدیق کے لیے معجزہ ظاہر کیا ہے، آیا ممکن ہے کہ وہ کوئی بات اپنی طرف سے ہماری طرف منسوب کریں۔ اگر وہ ایسا کریں تو ہم ان کا مواءخذہ کریں گے اور ان کی جان لے لیں گے اس کے علاوہ اس قسم کی غلط نسبتوں کو سننے کے بعد خاموشی اختیار کرنا، ان کی تصدیق ہوگی اور شریعت مقدّسہ میں باطل کو شامل کرنے کے مترادف ہوگا۔ بنابرایں جس طرح شریعت کی ابتدائی پیدائش میں اس کی حفاظت ہمارا فرض ہے اسی طرح پیدائش کے بعد بقاء کے مرحلے میں بھی اس کی حفاظت ہمارا فرض ہے۔

معجزے کا کسی مدعی نبوّت کی صداقت پر دلالت کرنا اس بات پر موقوف ہے کہ ہم ےسن و قبح عقلی کے قائل ہوں یعنی اس بات کے قائل ہوں کہ عقل حسن و قبح کو درک کرسکتی ہے۔ لیکن اشاعرہ یہ بات تسلیم نہیں کرتے ان کے نزدیک نبوت کی تصدیق کا دروازہ بند ہوجاتا ہے۔ اس قول کی خرابیوں میں سے ایک خرابی یہی ہے کہ اس سے تصدیق نبوّت کی راہیں مسدود ہو جاتی ہیں۔ کیوں کہ معجزہ اسی صورت میں نبوّشت کی صداقت کی دلیل ہوگا جب عقل کاذب کے ہاتھ پر معجزہ ظاہر ہونے کا قبیح سمجھے، اگر عقل اسے قبیح نہ سمجھے تو پھر کوئی بھی صادق اور کاذب میں تمیز نہ کرسکے گا۔

فضل ابن روز بہان نے اس اشکال و اعتراض کا یہ جواب دیا ہے کہ اگرچہ خدا سے فعل قبیح کا صادر ہونا ممکن ہے یعنی یہ ممکن ہے کہ خدا کاذب کے ہاتھ پر بھی معجزہ ظاہر کرے لیکن اس کی عادت اور سنت یہی رہی ہے کہ معجزہ اسی کے ہاتھ پر ظاہر ہو جو صادق ہو اور کاذب کے ہاتھ پر معجزہ کبھی بھی ظاہر نہیں ہوتا۔

اس سے اشاعرہ کے نزدیک تصدیق نبوّت کی راہیں مسدود نہیں ہوتیں، لیکن اس جواب کی کمزوری ظاہر و آشکار ہے۔

۴۶

اس لیے کہ اوّلاً یہ عادت خدا اور سنت الہٰی جس کی خبر ''ابن روز بہان،، دے رہا ہے، ان چیزوں میں سے نہیں ہے جو اس سے درک کی جاسکیں، کان سے سنی جاسکیں یا آنکھ سے دیکھی جاسکیں بلکہ عقل ہی کے ذریعے اس کا علم حاصل کیا جاسکتا ہے۔ جب عقل حسن و قبح کا ادراک نہ کرسکے (جس کے اشاعرہ قائل ہیں) توپھر کون جانے کہ خدا کی یہ عادت رہی ہے کہ وہ معجزہ صرف صادقین کے ہاتھ پر دکھاتا ہے۔

ثانیاً، یہ عادت گذشتہ انبیاء کی تصدیق کے بعد ہی ثابت ہوسکتی ہے، جن کے ہاتھ سے معجزے ظاہر ہوئے ہیں، تاکہ ہم یہ جان سکیں کہ خدا کی یہ سنّت رہی ہے کہ وہ صادق کے ہاتھ پر ہی معجزہ ظاہر کرتا ہے لیےکن جو حضرات گذشتہ انبیاء کی نبوّتوں کے منکر ہیں یا انہیں شک کی نگاہ سے دیکھتے ہیں، ان کے لیے تو یہ عادت ثابت کرنے کا کوئی طریقہ نہیں ہوگا جس کا ''ابن روز بہان،، مدی ہے اور نہ ہی ان کے لئے معجزہ حجت ہے ہوسکتا ہے۔

ثالثاً، جب عقل کی نظر میں کسی فعل کو انجام دینا اور ترک کرنا مساوی ہو اور اس میں کسی قبح یا حسن کا حکم نہ لگایا جاسکے تو پھر خدا کو اپنی عادت بدلنے میں کون سی چیز مانع ہوگی، جبکہ خدا قادر مطلق ہے اور اس کا کوئی مواخذہ و محاسبہ بھی نہیں کرسکتا۔ بنابرایں اگر خدا کسی کاذب کے ہاتھ پر بھی معجزہ ظاہر کرے تو بھی کوئی مانع نہیں ہونا چاہیے۔

رابعاً، عادت تو ایک ایسی چیز ہے جو کسی عمل کے تکرار کے نتیجے میں حاصل ہوتی ہے اور اس میں عرصہ دراز کی احتیاج ہوتی ہے۔ یہ آخری نبی یا اس سے پہلے انبیاء کے لئے تو معجزہ بن سکتا ہے لیکن ابتدائی نبوّت کے لیے کس طرح معجزہ بن سکتا ہے، جس میں کوئی عادت ہی نہیں بنی تھی۔ ہم آئندہ صفحات پر اشاعرہ کے اقوال ذکر کریں گے اور ان کے باطل پہلو بھی بیان کریں گے۔

۴۷

معجزہ اور عصری تقاضے

آپ نے دیکھا کہ معجزہ وہ ہوتا ہے جو طبیعی قوانین کو توڑ دے، کسی الہٰی منصب کا مدعی اسے انجام دے اور باقی لوگ اسے انجام دینے سے قاصر ہوں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ کوئی معجزہ جس ہنر یا پیشے سے مماثلت رکھا ہو اسی پیشے کے علماء و ماہرین ہی یہ بات سمجھ سکتے ہیں کہ عام لوگ یہ کام انجام دینے سے قاصر ہیں۔ کیونکہ کسی بھی صنعت اور ہنر کی خصوصیات اس کے علماء ہی بہتر سمجھتے ہیں، وہی بتاسکتے ہیں کہ عام لوگ کونسا کام انجام دے سکتے ہیں اور کونسا نہیں یہی وجہ ہے کہ علماء معجزہ کی جلدی تصدیق کرتے ہیں جبکہ اس فن و ہنر کے اصولوں سے آگاہ نہ ہونے کی وجہ سے جاہل کے آگے شک و تردید کے دروازے کھلے رہتے ہیں چنانچہ جب تک اس کا یہ احتمال باقی رہے کہ مدعی نے خاص اصولوں کا سہارا لیا ہوگا جنہیں اہل فن ہی جانتے ہیں اسے بہت دیر تک مدعی کی صداقت پر یقین نہ آئے گا۔

اسی لیے حکمت الہٰی کا یہ تقاضا ہے کہ ہر نبی کو وہی معجزہ دے کر بھیجا جاھے جو اس دور کے مشہور و معروف فن کی مانند اور اس فن کا اس دور میں چرچا بھی ہو، اس طرح کے معجزے کی تصدیق جلدی اورحجت و برہان مضبوط ہوتی ہے۔

حکمت الہٰی کا تقاضا یہی تھا کہ حضرت موسیٰ (علیہ السلام) کو عصا اور ید بیضا سے مسلح کیا جاتا کیوں کہ اس زمانے میں سحر کی شہرت زیادہ تھی اور جادوگر کثرت سے تھے، یہی وجہ ہے کہ سب سے پہلے آپ کی تصدیق جادوگروں نے کی۔ جب انہوں نے دیکھا کہ عصائے موسیٰ (علیہ السلام) اژدھے میں تبدیل ہوگیا اور ان کے جعلی اور بے بنیاد سانپوں کو نگلنے کے بعد دوبارہ اپنی اصلی صورت میں آگیا ہے تووہ فوراً سمجھ گئے کہ یہ سحر کے دائرے سے خارج ہے اور یہ یقیناً الہٰی معجزہ ہے۔ چنانچہ انہوں نے فرعون کے دربار میں اس کی دھمکیوں کی پرواہ کئے بغیر اپنے ایمان کا اعلان کردیا۔

۴۸

حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے زمانے میں یونانی طبّ کو شہرت حاصل تھی، اس دور میں اطباء عجیب و غریب کارنامے انجام دیتے تھے، شام اور فلسطین میں یہ علم بہت زٰادہ مروّج تھا کیونکہ یہ دونوں شہر یونانی استعمار کی زد میں تھے۔ جب خداوند حکیم نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو ان علاقوں میںنبی بناکر بھیجا تو حکمت کا یہی تقاضا تھاکہ آپ کی نبوت کی دلیل طب سے مشابہت رکھنے والی ہو۔ چنانچہ آپ مردوں کو زندہ، مادر زاد اندھوں کو بینا اور برص کے مریضوں کو شفایاب کردیتے تھے تاکہ اس زمانے کے لوگ یہ سمجھ سکیں کہ چونکہ یہ عمل انجام دیناعام لوگوں کی قدرت و استطاعت سے باہر ہے اور طبی اصولوں کا بھی اس سے کوئی تعلق نہیں ہے، اس لیے اس میں طبیعت اور مادہ سے بالاتر کسی ذات کی قدرت کار فرما ہے۔

عرب فصاحت و بلاغت میںبہت آگے تھے، فصاحت ان کا طرہ امتیاز تھی، وہ ادب کی آخری منزل پر پہنچے ہوئے تھے۔ ان کے ہاں شعر و شاعری میں مقابلے اور فخر و مباہات کے لیے خصوصی میلے لگتے تھے جہاں اچھاکلام پیش کرنے والوں کو داد تحسین دی جاتی تھی۔ ان کے نزدیک شعر و شاعری کی قدر و منزلت اس قدر زیادہ تھی کہ انہوں نے قدیم اور عمدہ اشعار پر مشتمل سات قصیدے منتخب کئے اور انہیں آبِ زر سے لکھ کر خانہ کعبہ پر لٹکا دیا، اس کے بعد کسی کے عمدہ کلام پر یہ کہا جانے لگا کہ یہ فلاں شاعر کا سنہرا کلام ہے۔ عرب مرد و زن سب اس فن کو اہمیت دیتے تھے اور شعری مقابلوں میں (معروف شاعر) ''نابغہ ذبیانی،، کو جج مقرر کیا جاتا تھا۔ حج کے موقع پر بازار عکاظ میں اس کے لیے چمڑے کا خیمہ نصب کیا جاتا تھا جہاں آکر شعراء اسے اپنا کلام سناتے تاکہ وہ اپنا فیصلہ سنائے۔

۴۹

ان حالات میں حکمت کا تقاضا یہی تھا کہ پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کو بیان اور بلاغت قرآن کا معجزہ دے کر بھیجا جاتا، چنانچہ ایسے ہی کیا گیا۔ یہ عرب نے اس سمجھا اور تصدیق کی کہ یہ کلام خدا ہے اور اس کی بلاغت بشر کی قدرت سے باہر ہے۔ اس حقیقت کا اعتراف ہر اس عرب نے کیا جس میں تعصب نہیں تھا۔

اس حقیقت پر اس روایت سے بھی ر وشنی پڑتی ہے جو ابن سکیت نے امام رضا (علیہ السلام) سے نقل کی ہے۔ ابن سکیت نے امام رضا (علیہ السلام) سے نقل کی ہے۔ ابن سکیت نے امام رضا (علیہ السلام) سے دریافت کیا:

''لماذا بعث الله موسی بن عمران بالعصا، و یده البیضائ، و آلة السحر؟ و بعث عیسیٰ بآلة الطب؟ و بعث محمداً صلی الله علیه و آله وعلی جمیع الأنبیائ بالکلام و الخطب؟

فقال أبو الحسن : ان الله لما بعث موسی کان الغالب علی أهل عصره السحر، فأتاهم من عند الله بما لم یکن فی وسعهم مثله، و ما أبطل به سحرهم، و أثبت به الحجة علیهم، و ان الله بعث عیسیٰ فی وقت قد ظهرت فیه الزمانات، و احجاج الناس الی الطب، فأتاهم من عند الله بما لم یکن عندهم مثله، و بما أحیی لهم الموتی، و أبرأ الأکمه و الأبرص باذن الله، و أثبت به الحجة علهیم

و ان الله بعث محمد فی وقت کان الغالب علی أهل عصره الخطب و الکلام و أظنه قال: الشعر فأتاهم من عند الله من مواعظه و حکمه ما أبطل به قولهم، و أثبت باه الحجة علیهم ،،(۱)

''کیا وجہ ہے کہ خدا نے حضرت موسیٰ بن عمران (علیہ السلام) کو عصا اور ید بیضا، حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو طب اور حضرت محمد مصطفیٰ (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کو بیان اور خطابت کامعجزہ دے کر بھیجا؟ آپ نے فرمایا: خدا نے حضرت موسیٰ کو جس وقت نبی بنا کر بھیجا اس وقت سحر اور جادو کا دور دورہ تھا۔ اسی لیے خدا نے حضرت موسیٰ کو اسی نوعیت کا ایسا کمال عطا کرکے بھیجا جس سے عام لوگ عاجز تھے اور ان کے سحر باطل ہوگئے اور آپ کی حجت مکمل ہوگئی۔

____________________

(۱) اصول کافی، کتاب عقل و الجہل۔ الروایۃ ۲۰

۵۰

جب حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) مبعوث بر مبعوث برسالت ہوئے تو اس وقت مختلف قسم کی بیماریاں عام تھیں اور لوگ طب کے زیادہ محتاج تھے، چنانچہ خالق نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو وہ طب عطا فرمائی جس کی نظیر لوگوں کے پاس نہ تھی۔ آپ کو ایسا طب عطا فرمایا جس سے آپ باذن اللہ مردوں کو زندہ اور مادر زاد اندھے کو بینا اور برص کے مریضوں کوشفایاب فرماتے تھے۔ جس سے آپ نے ان لوگوں پر اپنی حجت مکمل کی۔ جس وقت خاتم الانبیائ کو نبی بنا کر بٍھیجا گیا اس وقت بیان اور خطابت کی طرف لوگوں کا زیادہ رجحان تھا۔ (میرے خیال میں امام کے کلام میں شعر کا ذکر ہے) خدا نے آنحضرت کو موعظہ اور حکمت آمیز کلام دے کر بھیجا، جس سے ان کے تمام دعوے باطل ہوگئے اور آپ کی حجت پوری ہوگئی۔،،

اگرچہ پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے پاس قرآن کے علاوہ بھی معجزات تھے جن میں چاند کو دو ٹکڑے کرنا، اژدھے سے کلام کرنا اور سنگریزوں کا آپ کے ہاتھ پر تسبیح پڑھنا شامل ہیں لیکن ان تمام معجزات میں قرآن کی شان اور عظمت زیادہ ہے اور یہ سب سے مضبوط حجت اور دلیل ہے۔ چونکہ عرب طبیعی علوم اور کائنات کے اسرار و رموز سے آشنا نہیں تھے اس لیے وہ ان معجزوں (شق قمر وغیرہ) کو شک کی نگاہ سے دیکھتے تھے اور ان کو نامعلوم علل و اسباب کی طرف منسوب کرتے تھے۔ وہ ان اسباب میں سب سے زیادہ احتمال سحر کا دیتے تھے۔ لیکن قرآن کامعجزہ ایسا ہے کہ عرب ا س کی بلاغت اور اعجاز میں شک نہ کرسکے۔اس لیے کہ عرب فنون بلاغت سے مکمل آگاہ تھے اور اس کے اسرار و رموز کو درک کرسکتے تھے۔ اس کے علاوہ شق القمر جیسے دیگر معجزات وقتی تھے جو ہمیشہ کے لیے باقی نہیں رہ سکتے تھے اور بہت جلد ایک تاریخی واقعے میں تبدیل ہوسکتے تھے جنہیں گذشتہ لوگ آئندہ کی نسلوں کے لیے نقل کرتے۔ چنانچہ زمانہ گزرنے کے ساتھ ساتھ وہ شک و تردید کی نگاہ سے دیکھے جاتےٍ۔۔۔ مگر قرآن ایک ایسا معجزہ ہے جو ابد تک باقی رہے گا اور ہردور و نسل میں ایک زندہ معجزہ کے طور پر موجود ہے۔

ہم آئندہ ابحاث میں قرآن کے علاوہ دیگر معجزات پر تفصیلی بحث کریں گے اور ان اہل قلم ہم عصروں کا محاسبہ کریں گے جو معجزات کے منکر ہیں۔

۵۱

قرآن۔۔۔ایک الہٰی معجزہ

دعوتِ اسلام سے آشنا ہر عاقل اور باشعور انسان یقیناً جانتا ہے کہ پیغمبر اسلام نے اقوام عالم کو اسلام قبول کرنے کی دعوت دی اور قرآن مجید کو بطور دلیل پیش فرمایا اور معجزہ قرآن کے ذریعے چیلنج کیا عرب کے تمام فصحاء و بلغاء مل کر اس کی نظیر اور مثل لاکر دکھائیں۔ اس کے بعد آپ نے رعایت دیتے ہوئے قرآن مجید کے دس سوروں کی نظیر و مثل پیش کرنے کا چیلنج دیا۔ پھر مزید رعایت دے کر آپ نے ایک سورہ پیش کرنے کا چیلنج دیا۔

چاہیے تھا کہ عرب، جن میں چوٹی کے فصحاء موجودتھے، آنحضرت کے اس چیلنج کا جواب دیتے اور امکان کی صورت میں قرآن کی نظیر پیش کرکے آنحضرت کا دعویٰ باطل کرتے۔ واقعاً حق تو یہ تھا کہ کم از کم وہ قرآن کے ایک سورہ کا مقابلہ کرتے، بلاغت میں اس کی نظیر پیش کرتے اور اس طرح ہو اس مدعیئ نبوّت کی دلیل کا توڑ فراہم کرتے جس نے اس فن میں ان کو چیلنج کیا، جس میں انہیں کمال حاصل تھا اور جسے وہ اپنا طرہ امتیاز سمجھتے تھے تاکہ تاریخ میں فتح و کامیابی کا سہرا وہ اپنے سر باندھتے اور اپنا نام ہمیشہ کے لیے زندہ کرتے۔ اس طرح ایک معمولی مقابلے کے نتیجے میں بہت سی خونریز جنگوں سے نجات مل جاتی اور بہت سا مال و دوکت بھی بچ جاتا۔ لوگ وطن سے بے وطن نہ ہوتے اور نہ انہیں سختیاں جھیلنی پڑتیں۔

مگر جب عربوں نے قرآن کی بلاغت کا بغور مطالعہ کیا تو انہیں اس کے معجزہ ہونے کا یقین آگیا۔ انہیں معلوم تھا کہ قرآن سے مقابلہ کرنے کی صورت میں انہیں حتمی شکست و ہزیمت سے دوچار ہونا پڑے گا۔ چنانچہ بعض اقوام نے اس داعیِ حق کی تصدیق کی، دعوتِ قرآن کے آگے سرتسلیم خم کیا اور اسلام کا شرف حاصل کرلیا اور کچھ ل وگوں ے عناد اور تعصب کا راستہ اختیار کرتے ہوئے فصاحت و بلاغت کی علمی جنگ پر مسلحانہ جنگ کوترجیح دی اور یہ اس بات کی دلیل ہے کہ قرآن وحی الہٰی ہے۔

۵۲

ایک اعتراض اور اسکا جواب

ایک غیر ملم جاہل یہ دعویٰ کرسکتا ہے کہ عربوں نے قرآن کی نظیر پیش کردی تھی اور انہوں نے قرآن کا مقابلہ کرلیا تھا لیکن زیادہ عرصہ گزرنے کی وجہ سے تاریخ یہ بات ہم تک نہیں پہنچا سکی۔

اس اعتراض کے تین جواب ہیں:

i ) اگر اس قسم کا مقابلہ کرتے ہوئے قرآن کی نظیر پیش کی جاتی تو عرب اپنی محفلوں، اجتماعات اور بازاروں میں اس کا اعلان کرتے، دشمنان اسلام ہر محفل میں اس کے گن گاتے، مناسب موقع پر اس کا ذکر کرتے، ہر آنے والے کو اس کی خبر دیتے، اس کی اس طرح حفاظت کرتے جس طرح ایک مدعی اپنی دلیل و حجت کی حفاظت کیا کرتا ہے اور یہ چیز ان کے لیے اپنے سلف کی ان تواریخ اور زمانہ جاہلیّت کے اشعار سے زیادہ عزیز و قیمتی ہوتی جن سے کتبِ تواریخ اور دیوان بھرے پڑے ہیں۔ مگر قرآن کی نظیر پیش کرنے کا کوئی واقعہ نہ دیکھنے میں آیا اور نہ اس کا ذکر سننے میں آیا۔

ii ) قرآنِ کریم نے عربوں کو ہی چیلنج نہیں کیا، پوری انسانیّت بلکہ تمام جنّ و انس کو یہ چیلنج کیا تھا:

( قُل لَّئِنِ اجْتَمَعَتِ الْإِنسُ وَالْجِنُّ عَلَىٰ أَن يَأْتُوا بِمِثْلِ هَـٰذَا الْقُرْآنِ لَا يَأْتُونَ بِمِثْلِهِ وَلَوْ كَانَ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ ظَهِيرًا ) (۱۷:۸۸)

''(اے رسول) تم کہہ دو کہ اگر (ساری دنیا جہان کے) آدمی اورجنّ اس بات پر اکٹھے ہوں کہ اس قرآن کا مثل لے آئیں (غیر ممکن) اس کے برابر نہیں لاسکتے۔ اگرچہ اس کوشش میں ا یک کا ایک مددگار بھی بنے۔،،

۵۳

تاریخ شاہد ہے کہ نصاریٰ اور دوسرے دشمنان اسلام۔ رسول اسلام ، قرآن کریم اور دین اسلام کو ان کے مقام سے گرانے کے لیے بے تحاشا سرمایہ خرچ کر رہے ہیں اور یہ کام ہر سال بلکہ ہر مہینے ہو رہا ہے۔ اگر قرآنِ کریم کے ایک سورہ کا بھی مقابلہ ممکن ہوتا تو یہ ان کے لیے ایک مضبوط و محکم دلیل ہوتی، وہ اس کی مدد سے جلد اپنی آرزو پوری کرسکتے تھے۔ اتنا سرمایہ خرچ کرنے اور اپنے آپ کو مشقت میں ڈالنے کی انہیں ضرورت ہی محسوس نہ ہوتی:

( يُرِيدُونَ لِيُطْفِئُوا نُورَ اللَّـهِ بِأَفْوَاهِهِمْ وَاللَّـهُ مُتِمُّ نُورِهِ وَلَوْ كَرِهَ الْكَافِرُونَ ) ۶۱:۸

''یہ لوگ اپنے منہ سے (پھونک مارکر) خدا کے نور کو بجھانا چاہتے ہیں، حالانکہ خدا اپنے نور کو پورا کرکے رہے گا، اگرچہ کفّار برا ہی (کیوں نہ) مانیں۔،،

iii ) عام مشاہدہ میں آیا ہے کہ جب کسی شخص کا واسطہ طویل عرصے تک کسی فصیح و بلیغ کلام سے رہا ہو اور ایک مدّت تک اس نے اس کی خدمت کی ہو ہو اس کی مثل یا کم از کم فصاحت و بلاغت میں اس کے قریب قریب اپنا کلام بنانے میں کامیاب ہوجاتا ہے۔

لیکن قرآن کے مقابلے میں اتنا بھی نہیں کیا گیا کیوں کہ انسان قرآن کو کتنا ہی زیادہ پڑھ لے اور اس کی خصوصیّات پر غور و خوض کرے، وہ اس کی معمولی سی جھلک بھی پیش کرنے سے قاصر رہتا ہے اس سے ہم لازماً اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ قرآن کریم کا اسلوب، تعلیم و تعلّم کے عام اسالیب سے مختلف ہے۔

۵۴

اگر قرآن کریم رسول اسلام کا اپنا بنایا ہوا کلام ہوتا تو آپ کے خطبوں اور جملوں میں کہیں نہ کہیں قرآن کریم کے اسلوب بیان کا عکس نظر آتا۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ آپ کے اقوال کے ایک خاص انداز ہے جو قرآن کریم کے اسلوب سے یکسر مختلف ہے۔

اگر آپ کے کلام میں قرآن کریم کے مشابہ کوئی چیز ہوتی تو وہ مشہور ہوجاتی۔ خصوصاً دشمنان اسلام کی زبانوں اور کتب کے ذریعے، جو ہر طریقے سے اسلام کو کمزور اور بدنام کرنے کے درپے رہتے ہیں۔

اس کے علاوہ عام مروّج بلاغت کی مخصوص حدود ہیں جن سے تجاوز نہیں کیا جاسکتا۔ مثلاً ایک بلیغ عربی شاعر یا نثر نگار ہے، لیکن وہ صرف ایک یا دو پہلوؤں پر بلاغت آمیز کلام پیش کرسکتا ہے۔ مثلاً وہ شجاعت و بہادری کے موضوع پر توبلیغ کلام پیش کرسکتا ہے مگر مدح و تعریف کے موضوع پر ویسا بلیغ کلام پیش کرنے سے قاصر ہے یا مرثیہ کے موضوع پر تو بلیغ کلام پیش کرسکتا ہے لیکن غزل کے عنوان سے ویسا کلام پیش کرنے سے قاصر ہے۔

جبکہ قرآن کریم میں متعدد موضوعات اور مختلف فنون کا ذکر ہے اور تمام موضوعات کو اس انداز سے پیش کیا گیا ہے کہ جس کی نظیر لانے سے دنیا قاصر ہے اور یہ کام بشر کے لئے ناممکن ہے۔

۵۵

قرآن۔۔۔ایک ابدی معجزہ

اب تک ہم اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ کسی نبی کی نبوّت کی تصدیق اور اس پر ایمان لانا اس معجزے پر منحصر ہے جسے نبی اپنے دعوےٰ کے ثبوت کے طور پر پیش کرتا ہے۔

چونکہ گذشتہ انبیاء (علیٍھم السلام) کی نبوّتیں انہی ادوار اور انہی نسلوں کے لیے مختص تھیں اس لیے حکمت کا تقاضا یہی تھا کہ ان معجزوں کی مدّت محدود ہوتی۔ اس لیے کہ وہ معجزات محدود دور نبوست کی نشانی تھی۔ اس زمانے میں بعض لوگ تو خود ان معجزات کا مشاہدہ کرتے اور ان پر حجّت تمام ہو جاتی اور بعض لوگوں کے لیے عینی شاہدان معجزوں کو تواتر سے پیش کرتے جس سے ان پر بھی حجّت تمام ہوجاتی تھی۔

لیکن ایک ابدی شریعت کے لیے شاہد کے طورپر پیش کیے جانے والا معجزہ بھی دائمی ہونا چاہیے کیونکہ اگر معجزہ کی مدّت محدود ہوگی تو آنے والی نسل اس کا مشاہدہ نہ کرسکیں گی اور زمانہ گزرنے کے ساتھ ساتھ خبر متواتر کا سلسلہ بھی ختم ہوسکتا ہے جس کے نتیجے میں آئندہ نسلوں کو اس نبوّت کی صداقت کا علم حاصل نہیں ہوسکے گا۔ ایسی صورت میں اگر آنے والی نسلوں کو نبوّت پر ایمان لانے کا مکلّف بنایا جائے تو یہ ایک ناممکن امر کا مکلّف بنانے کے مترادف ہے اور یہ محال و ممتنع ہے کہ اللہ تعالیٰ کسی محال امر کا مکلّف بنائے۔

۵۶

پس معلوم ہوا کہ دائمی نبوّت کا معجزہ بھی دائمی ہونا چاہیے اور یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کو ایک دائمی اور ابدی معجزہ کی صورت میں بھیجا تاکہ یہ ایک ابدی اور دائمی صداقت کا شاہد بن سکے اور جس طرح یہ گذشتہ لوگوں کے لیے حجّت تھا سای طرح یہ آئندہ نسلوں کے لیے بھی حجّت قرار پائے۔

ہم گذشتہ مباحث سے دو نتیجوں پر پہنچے ہیں:

( i قرآن کریم انبیاء ما سلف (علیہم السلام) کے تمام معجزات اور خود خاتم الانبیاء (ص) کے باقی تمام معجزوں پر فوقیت رکھتا ہے، اس لیے کہ قرآن کریم ہمشیہ کےلئے باقی ہے اور اس کا اعجاز دائمی ہے جسے تمام نسلیں سن سکتی ہیں اور یہ سب کے لیے حجت ہے۔

ii ) گذشتہ شریعتوں کی مدت ختم ہوگئی، کیوں کہ ان کی حجت اور دلیل (معجزہ) بھی ختم ہوچکی ہے جس پر ان شریعتوں کی صداقت مبنی تھی۔(۱)

یہاں پر یہ نکتہ بھی قابل ذکر ہے کہ قرآن کریم کو اس وجہ سے بھی گذشتہ انبیاء کے معجزات پر برتری حاصل ہے کہ قرآن کریم نے انسان کی ہدایت(۲) اور کمال کی آخری منزل تک اس کی رہنمائی کی ضمانت دی ہے۔

____________________

(۱) اسی کتاب کے ضمیمہ نمبر ۴ میں مولف اور ایک یہودی عالم کے درمیان ہونے والا مباحثہ ملاحظہ فرمائیں۔

(۲) وضاحت کے لیے اسی کتاب کا ضمیمہ نمبر۵ ملاحظہ فرمائیں۔

۵۷

قرآن کریم ہی وہ رہنما ہے جس نے ان عربوں کی ہدایت کی جو ظالم، سرکش، بدترین عادات کے خوگر اور بتوں کے پرستار تھے۔ جو علوم و معارف اور تزکیّہ ئ نفس سے عاری تھے اورداخلی جنگ و جدال اورجاہلیت پر مبنی فخر و مباھات میں مصروف رہتے تھے۔ یہی عرب ایک قلیل مدّت میں ایک ایسی اُمّت بن گئے جس کی ثقافت عظیم اور تاریخ رشن و درخشاں ارو جو انسانی عادادت و اخلاق سے آراستہ ہوچکی ہے؟

تاریخ اسلام اور راہ اسلام میں جام شہادت نوش کرنے والے اصحاب پیغمبر کے حالاتِ زندگی کا اگر کوئی مطالعہ کرے تو اس پر قرآنی ہدایت و رہبری کی عظمت اور اس کے حیرت انگیز اثرات عیاں ہوں گے، اسے معلوم ہوگا کہ قرآن نے ہی انہیں جاہلیت کی پست زندگی سے نکال کر علم و کمال کے بلند مراتب پر فائز کیا اور انہیں ایسے فداکار انسان بنایا جو دین و شریعت کی راہ میں جان کی بازی لگانے سے بھی دریغ نہیں کرتے اور جنہیں اسلام کے مقابلے مںی مال و دولت اور اہل و عیال کی پرواہ نہیں ہوتی۔

جنگ بدر کے آغاز میں مسلمانوں سے مشورہ کے موقع پر جناب مقدار نے رسولِ خد کو جواب دیا وہ اس حقیقت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ انہوں نے فرمایا:

''یا رسول الله امض لما امرک الله فنجن معک، و الله لانقول کما قالت بنو اسرائیل لموسی: اذهب انت و ربک فقباتلا انا ههنا قاعدون، و لکن اذهب انت و ربک فقاتلا انا معکما مقاتلون، فوالذی بعثک بالحق لوسرت بنا الی وبرک الغماد ۔یعنی مدینة الحبشة ۔لجالدنا معک من دونه حتی تبلغه ۔فقال له رسول الله خیراً، و دعا له بخیر،، (۱)

''یا رسول اللہ! خدا نے آپ کو جس مشن کا حکم دیا ہے اسے کرگزریں۔ ہم آپ کے ساتھ ہیں۔ ہم بنی اسرائیل کی مانند نہیں ہےں کہ جنہوں نے جناب موسیٰ سے کہا تھا: ''آپ خودجائیں اور اپنے خدا کی مدد سے جنگ کریں ہم یہیں بیٹھے رہیں گے۔،، لیکن ہم تو یہ کہتے ہیں کہ آپ جائیں اور

___________________

۱) تاریخ طبری، غزوہئ بدر، ج ۲، ص ۱۴۰، طبع دوم۔

۵۸

اپنے ربّ کی مدد سے جنگ کریں ہم بھی آپ کے ہمراہ جنگ کریں گے۔ قسم اس ذات کی جس نے آپ کو برحق نبی بنا کر بھیجا، اگر آپ ہمیں برک غماد (حبشہ شہر) بھی لے چلیں تو بھی ہم آپ کے ہمراہ جائیںگے، یہاں تک کہ آپ منزل مقصود پر پہنچ جائیں یہ کلام سننے کے بعد رسول اللہ نے جناب مقداد کے لیے دعائے خیر فرمائی۔،،

مسلمانوں میں سے ایک ہے جو اپنے عزم و عقیدہ، حق کو زندہ رکھنے اور باطل کو مٹانے کے لیے جانثاری کااظہار کررہا ہے، خلوص کے ایسے پیکر اور عقیدت مند مسلمانوں میں اور بہت پائے جاتے ہیں۔

ہاں! قرآن حکیم ہی وہ سراپا ہدایت ہے جس نے بت پرستوں کے دلون کو منور کیا جو خانہ جنگی اور جاہلیت کے فخر و مباھات میں الجھے ہوئے تھے اور ان لوگوں کو کفار کے مقابلے میں فولاد کی طرح سخت اور مومنین کے مقابلے میں ابریشم کی طرح نرم (رحمدل) بنایا۔ ان کیایسی تربیت کی کہ یہ اپنے ساتھیوں کو اپنی ذات پر ترجیح دینے لگے۔

اسلام کی بدولت اسّی سال میں مسلمانوں کو اتنے ممالک پر فتح نصیب ہوئی جو دوسروں کو آٹھ سو سال میں بھی نصیب نہیں ہوئی تھی۔ جو شخص اصحاب پیغمبر کی سیرت اور دیگر انبیاء کے اصحاب کی سیرت کا موازنہ کرے وہ سمجھ سکتا ہے کہ اس (فتح) کا ایک الہٰی راز ہے جو اس کتابِ الہٰی میں مضمر ہے، جس نے راسخ عقیدہ اور اصولوں کے ثبات سے دلوں اور روح کو پاکیزگی دی اور نفوس پر نور افشانی کی۔

حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) اور دیگر انبیاء کے اصحاب کی تاریخ بتاتی ہے کہ یہ لوگ سختی کے موقع پر انبیاء کو تنہا چھوڑ دیتے تھے اور جہاں انہیں موت نظر آتی وہاں ان کا ساتھ نہ دیتے تھے، اسی لیے گذشتہ انبیاء اپنے دور کی طاغوتی طاقتوں پر فتح نہ پاسکے تھے بلکہ وہ ان کے خوف سے بیابانوں اور غاروں میں جاکر پناہ لیتے تھے۔ یہ وہ دوسری خاصیت ہے جس کی وجہ سے قرآن کریم کو باقی معجزات پر امتیاز حاصل ہے۔

جب بلاغت میں قرآن کریم کا الہٰی معجزہ ہونا ثابت ہوگیا تو اب یہ حقیقت بھی پوشیدہ نہ رہے کہ قرآن صرف بلاغت کے پہلو سے معجزہ نہیں بلکہ کئی اور جہات سے بھی رسولِ اسلام کی نبوّت کی برہان اور دلیل ہے۔ ہم ان میں بعض جہات کی طرف ذیل میں اشارہ کرتے ہیں:

۵۹

قرآن اور معارف

قرآن کریم کی متعدد آیات میں اس کی تصریح کی گئی ہے کہ حضرت محمد مصطفیٰ (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) امّی تھے اور آپ نے کسی مکتب میں تعلیم حاصل نہیں کی۔ آپ نے اس کا اعلان اپنی قوم اور قبیلے میں فرمایا، جس میں آپ نے نشوونما پائی تھی۔ مگر کسی نے بھی آپ کے اس دعویٰ کی تردید نہیں کی اور یہ (کسی کا تردید نہ کرنا) آپ کے دعویٰ کی صداقت کی قطعی دلیل ہے۔ آپ نے امّی ہونے کے باوجود قرآن کریم جیسی کتاب پیش کی جس کے معارف و علوم سے فلسفیوں کی عقلیں مبہوت ہیں اور ظہور اسلام سے لے کر آج تک مغربی و مشرقی مفکرّین ان کے سامنے مبہوت نظر آتے ہیں اور قرآنِ کریم قیامت تک مفکرّین کے لیے باعثِ حیرت و استعجاب رہے گا اور یہ اعجاز قرآنِ کریم کا ایک اہم اور عظیم پہلو ہے۔

بالفرض اگر مان بھی لیا جائے کہ آپ امّی نہ تھے بلکہ آپ نے تاریخ، فنون اور دیگر معارف کی تعلیم کسی مکتب میں حاصل کی تھی تو کیا یہ لازمی نہیں ہے کہ آپ نے علوم و فنون اس دور کے ماہرین سے سیکھے ہوں جن میں آپ پھلے پھولے۔ حالانکہ ہمیں معلوم ہے کہ آپ نے ایسے لوگوں میں پرورش پائی جو بُتوں اور اوہام کی پرستش کرتے اور خرافات پر ایمان رکھتے تھے۔ ان کے علاوہ آپ کے کچھ ہم عصر اہلِ کتاب جو اپنے معارف، تاریخ اور احکام، حورات و انجیل سے لیتے تھے اور انہیں وحی و انبیاء کی طرف منسوب کرتے تھے۔

اب اگر یہ فرض کرلیا جائے کہ آپ نے اپنی تمام تعلیمات اس زمانے کے علماء سے حاصل کی تھیں تو اس کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ آپ کے اقوال و تعلیمات میں وہی عقائد چھائے ہونے چاہئیں جو آپ نے اپنے استادوں اور راہنماؤں سے سیکھے ہیں۔ حالانکہ قرآنِ کریم ہر لحاظ سے تورات و انجیل سے مختلف نظر آتا ہے۔

۶۰

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

ثُمَّ أَنتُمْ هَؤُلاء تَقْتُلُونَ أَنفُسَكُمْ وَتُخْرِجُونَ فَرِيقاً مِّنكُم مِّن دِيَارِهِمْ تَظَاهَرُونَ عَلَيْهِم بِالإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ وَإِن يَأتُوكُمْ أُسَارَى تُفَادُوهُمْ وَهُوَ مُحَرَّمٌ عَلَيْكُمْ إِخْرَاجُهُمْ أَفَتُؤْمِنُونَ بِبَعْضِ الْكِتَابِ وَتَكْفُرُونَ بِبَعْضٍ فَمَا جَزَاء مَن يَفْعَلُ ذَلِكَ مِنكُمْ إِلاَّ خِزْيٌ فِي الْحَيوةِ الدُّنْيَا وَيَوْمَ الْقِيَامَةِ يُرَدُّونَ إِلَى أَشَدِّ الْعَذَابِ وَمَا اللّهُ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُونَ ( ۸۵ )

ليكن اس كے بعدتم نے قتل و خون شروع كرديا _ لوگوں كوعلاقہ سے باہر نكالنے لگے اور گناہ وتعدى ميں ظالموں كى مدد كرنے لگے حالانكہكوئي قيدى بن كر آتاہے تو فديہ دے كرآزادبھى كراليتے ہو جب كہ شروع سے ان كانكالنا ہى حرام تھا_ كيا تم كتاب كے ايكحصہ پر ايمان ركھتےہو اور ايك كا انكاركرديتے ہو_ ايساكرنے والوں كى كيا سزا ہےسوائے اس كے كہ زندگانى دنيا ميں ذليلہوں اور قيامت كے دن سخت ترين عذاب كيطرف پلٹا ديئے جائيں گے_ اور اللہ تمھارےكر توت سے بےخبر نہيں ہے(۸۵)

۱ _ زمانہ بعثت كے بنى اسرائيل باوجود اس كے كہ پيمان الہى كا اعتراف ( خونريزى سے اجتناب) كرتے تھے پھر بھى ايك دوسرے كو قتل كرتے تھے_ثم اقررتم ثم انتم هولاء تقتلون أنفسكم

''ثم انتم ہولاء تم ہى ہو'' ميں لفظ ''ہولائ'' اس مطلب كى طرف اشارہ ہے كہ آيہ مجيدہ جس مورد كو بيان كررہى ہے وہ زمانہ بعثت كے بنى اسرائيل ہيں _ اس آيت كے خطا بات گذشتہ خطابات كى طرح نہيں ہيں جن ميں بنى اسرائيل

كے اسلاف كى صفات كو موجودہ بنى اسرائيل كى طرف نسبت دى گئي ہے _

۲ _ بعض بنى اسرائيل نے اپنے دينى بھائيوں كو انكے گھر اور وطن سے دربدر كركے الہى عہد و پيمان كو توڑا_

ثم انتم هولاء تخرجون فريقا منكم من ديارهم

مورد بحث آيت ان جنگوں اور قتل و غارت گرى كى طرف اشارہ كررہى ہے جو آنحضرت (ص) كى ہجرت سے قبل مدينہ كے يہودى قبائل ميں ہوتى تھيں _ بنى نضير كے يہودى بنى قريظہ كے يہوديوں سے دست و گريبان تھے جو جس پر غلبہ حاصل كرليتا دوسرے كو اسكے گھر اور جائے سكونت سے نكال كر دربدر كرديتا_

۳ _ بنى اسرائيل اپنے بعض دينى بھائيوں كو دربدر كرنے كے ليئے ايك دوسرے كى مدد و نصرت كرتے تھے _تظاهرون عليهم ''تظاہرون'' كا مصدر ''تظاہر'' ہے جسكا معنى ہے ايك دوسرے كى مدد كرنا ''تظاہرون عليہم'' يعنى ايك قبيلے كى دوسرے قبيلے كے ساتھ كشمكش اور ٹكراؤ كے دوران تم ميں سے بعض افراد ايك دوسرے كى مدد كرتے تھے_

۲۸۱

۴ _ اپنے دينى بھائيوں كو ان كے گھر سے دربدر كرنے كے لئے ايك دوسرے كى مدد كرنے كے باعث بنى اسرائيل گناہگار اور متجاوز لوگ تھے_تظاهرون عليهم بالاثم والعدوان

''بالاثم'' ميں باء ملابستہ ہے ''بالاثم و العدوان'' ، '' تظاہرون'' كے فاعل كے لئے حال ہے يعنى ان كے خلاف تم ايك دوسرے كى مدد كرتے تھے در آں حاليكہ تم گناہگار اور متجاوز تھے_

۵ _ اديان الہى پر اعتقاد ركھنے والے لوگوں كو نہ توايك دوسرے كو قتل كرنا چاہيئے اور نہ ہى ايك گروہ دوسرے كو اس كے گھر يا وطن سے دربدر كرے _ثم انتم هؤلاء تقتلون أنفسكم و تخرجون فريقاً منكم من ديارهم

۶ _ اديان الہى پر اعتقاد ركھنے والوں كو چاہيئے كہ اپنے دينى بھائيوں كو قتل كرنے يا ان كو دربدر كرنے ميں قاتلوں يا دربدر كرنے والوں كى مدد نہ كريں _تظاهرون عليهم بالاثم والعدوان

۷ _ اہل دين كے قاتلوں اور دربدر كرنے والوں كى مدد كرنا گناہ اور تجاوز ہے_تظاهرون عليهم بالاثم والعدوان

۸ _ گناہگاروں كے گناہ ميں مد د كرنا حرام ہے _تظاهرون عليهم بالاثم و العدوان

۹ _ بنى اسرائيل اپنے دينى بھائيوں كى قيد سے رہائي كے لئے فديہ ديتے تھے اگر چہ ان كے خلاف انہوں نے ہى لڑائي كى ہوتى اور ان كو ان كے گھر سے دربدر كيا ہوتا_و ان ياتوكم اسارى تفادوهم

''ياتوا'' كى ضمير ''فريقا'' كى طرف لوٹتى ہے _ ''تفادوا''كا مصدر ''مفادات'' ہے جسكا معنى ہے قيد سے رہائي كے لئے فديہ ادا كرنا يا اسى طرح كے معانى ہيں _پس ''ان ياتوكم اسارى ...'' كا معنى يہ بنتاہے وہى گروہ يا قبيلہ جس كو تم نے دربدر كيا ہو تا اگر دشمن كے ہتھے چڑھ جاتے تو تم فديہ ادا كركے ان كو آزاد كرواتے تھے_

۱۰_ بنى اسرائيل كا اپنے اسيروں كى آزادى كے لئے كوشش كرنا ان كى آسمانى كتابوں كے فرامين ميں سے تھا_و ان ياتوكم اسارى تفادوهم افتؤمنون ببعض الكتاب

''أفتؤمنون ببعض الكتاب'' اس معنى پر دلالت كرتاہے كہ يہوديوں كا يہودى اسيروں كو آزاد كرانے كا محرك يا جذبہ تورات كے احكام پر عمل كرنا تھا_

۱۱ _ اپنے دينى بھائيوں كے سلسلے ميں بنى اسرائيل كے معاشرتى سلوك ميں تناقض پايا جاتا تھا_

و ان ياتوكم اسارى تفادوهم و هو محرم عليكم اخراجهم اس جملہ ميں ضمير ''ہو'' ضمير شان ہے _ ''اخراجہم'' مبتدا ہے

۲۸۲

اور '' محرم عليكم'' اسكى خبر ہے يعنى جن كو تم نے خود دربدر كيا ہوتا تھا انكى آزادى كے لئے بھى خود ہى فديہ ديتے تھے جبكہ ان كو دربدر كرنا تم پر حرام تھا_

۱۲ _ بنى اسرائيل اپنے دينى بھائيوں كے قيد ہوجانے كے بعد ان كى آزادى كے لئے انہى سے فديہ ليتے تھے_

و ان ياتوكم اسارى تفادوهمبعض اہل لغت نے '' تفادو' ' كا معنى '' تم فديہ ليتے تھے'' كيا ہے _ اس اعتبار سے '' و ان ياتوكم ...'' كا معنى يہ ہوگا كہ تمہارے دينى بھائي جب اسير بن كے تمہارے پاس آتے تو تم ان كى آزادى كے لئے ان سے فديہ ليتے تھے_

۱۳ _ اپنے دينى بھائيوں كى آزادى كے لئے ان سے فديہ لينا دين يہود كے محرمات ميں سے تھا_و ان ياتوكم اسارى تفادوهم

۱۴ _ بنى اسرائيل كے نسلى تعصبات اور دين كے مقابل ان كے اعمال ( تورات كے بعض احكام پہ عمل كرنا اور بعض پر عمل نہ كرنا ) كے باعث اللہ تعالى نے ان كى توبيخ و سرزنش كى _أفتؤمنون ببعض الكتاب و تكفرون ببعض

'' أفتؤمنون'' اور '' تكفرون'' ميں ايمان اور كفر سے مراد عمل كرنا اور عمل نہ كرنا ہے_

۱۵ _ بنى اسرائيل تورات كے بعض احكام پر عمل كرتے اور بعض كى اعتنا نہ كرتے تھے_أفتؤمنون ببعض الكتاب و تكفرون ببعض

۱۶ _ آسمانى كتاب كے تمام تر احكام كى پابندى اس كتاب پر ايمان لانے والوں كا فريضہ ہے _أفتؤمنون ببعض الكتاب و تكفرون ببعض

۱۷_ آسمانى كتاب پر ايمان كى دليل اسكے احكامات پر عمل كرنا ہے _أفتؤمنون ببعض الكتاب

جملہ''وان ياتوكم ...''پر ''أفتؤمنون ...'' كى حرف فاء كے ذريعے تفريع اس مفہوم و معنى كى طرف اشارہ ہے يعنى يہ جو تم لوگ تورات كے حكم كے مطابق اسيروں كى آزادى كے در پے ہو تو گويا تورات كے اس حصے پر عمل پيرا ہو ليكن اپنے دينى بھائيوں كو جو دربدر كرتے ہو اس سے معلوم ہوتاہے كہ اس كام كى حرمت ( جو تورات ميں آئي ہے) كے منكرو كافر ہو _ پس دينى احكام پر عمل كرنا ايمان كى دليل ہے اور ان كو ترك كردينا كفر كى طرح ہے _

۱۸ _ سماوى كتاب كے فرامين و احكام پہ عمل نہ كرنا انكار كرنے كى طرح ہے اور اس كتاب كا كفر اختيار كرنے كى دليل ہے _أفتؤمنون و تكفرون ببعض

۲۸۳

۱۹_ جن يہوديوں نے عہد و پيمان الہى كو توڑا ان كى سزا دنيا ميں ذلت و خوارى ہے_إذ أخذنا ميثاقكم فما جزاء من يفعل ذلك منكم الاخزى فى الحى وة الدنيا '' ذلك'' ان تمام كاموں كى طرف اشارہ ہے جو آيہ مجيدہ نے يہوديوں كے بارے ميں نقل كيئے ہيں اور ان كاموں كو ناپسند گرداناگياہے ان كاموں ميں سے عہد و پيمان الہى كى پابندى نہ كرنا ، اپنے دينى بھائيوں كو قتل كرنا وغيرہ ہے _

۲۰ _ دنيا ميں ذلت و خوارى ميں مبتلا ہونا ان يہوديوں كى سزا ہے جنہوں نے ايك دوسرے كو قتل كيا اور اپنے دينى بھائيوں كو دربدر كيا _تقتلون أنفسكم فما جزاء من يفعل ذلك منكم الاخزى فى الحياة الدنيا

۱ ۲_ آخرت ميں شديد ترين عذاب ان يہوديوں كے لئے ہے جنہوں نے الہى عہد و پيمان كو توڑا _

إذ أخذنا ميثاقكم ويوم القيامة يردون الى اشد العذاب''العذاب'' كى طرف ''اشد_ شديد ترين '' كا اضافہ يہ صفت كا موصوف كى طرف اضافہ ہے يعنى ''العذاب الاشد''

۲۲_ جن يہوديوں نے اپنے دينى بھائيوں كو دربدر كيا يا ان كو قتل كيا ان كو قيامت ميں شديدترين عذاب ہوگا_تقتلون أنفسكم و يوم القيامة يردون الى اشد العذاب

۲۳ _ جن يہوديوں نے آسمانى كتاب ميں تبعيض (تورات كے بعض احكام پر عمل كيا اور بعض كو ترك كيا) انجام دى ان كى سزا دنيا ميں ذلت و خوارى ہے _أفتؤمنون ببعض فما جزاء من يفعل ذلك منكم الاخزى فى الحياة الدنيا

۲۴ _ وہ يہودى جو تورات كے احكام اور معارف كے ساتھ تبعيض كرتے تھے قيامت كے روز شديدترين عذاب ميں مبتلا ہوں گے _أفتؤمنون ببعض و يوم القيامة يردون الى اشد العذاب

۲۵ _ اخروى عذاب كے مختلف درجات ہيں _و يوم القيامة يردون الى اشد العذاب

۲۶ _ زمانہ بعثت كے بعض يہود، الہى عہد و پيمان پر عمل پيرا ہو كر ان كى پابندى كرتے تھے اور اپنے دينى بھائيوں كو قتل كرنے اور دربدر كرنے سے اجتناب كرتے تھے _فما جزاء من يفعل ذلك منكم ماسبق خطا بات كا سياق اس بات كا تقاضا كرتاہے كہ يہ جملہ ''فما جزاء ...'' يوں ہو ''فما جزاء كم بما تفعلون الا خزي'' _ تا ہم سياق سے اسطرح كا تغير اس مطلب كى طرف اشارہ ہے كہ سب يہودى ناروا اور بے جا اعمال كے مرتكب نہيں ہوئے جبكہ ''منكم'' كا من تبعيضيہ اس بات كى تائيد كررہاہے_

۲۸۴

۲۷ _ ايمان اور عمل ميں تبعيض ( بعض كو انجام دينا اور بعض كو ترك كردينا) دنيا ميں ذلت و خوارى اور آخرت ميں شديد عذاب كا باعث ہے_ما جزاء من يفعل ذلك منكم الا خزى فى الحياة الدنيا و يوم القيامة يردون الى اشد العذاب

۸ ۲ _ الہى مكتب پر اعتقاد ركھنے والے اگر اپنے دينى بھائيوں كو قتل كريں يا ان كو دربدر كريں تو دنيا ميں ذليل و خوار ہوں گے اور آخرت كے سخت ترين عذاب ميں مبتلا ہوں گے _فما جزاء من يفعل و يوم القيامة يردون الى اشد العذاب

۲۹_ داخلى جنگيں اور برادر كشى گناہان كبيرہ ميں سے ہيں جو دنيا ميں ذلت و خوارى كا سبب اور آخرت ميں عذاب كا باعث ہيں _تقتلون أنفسكم فما جزاء من يفعل ذلك منكم الا خزى فى الحياة الدنيا و يوم القيامة يردون الى اشد العذاب يہ گناہ چونكہ سخت ترين عذاب كا موجب ہيں اس سے معلوم ہوتاہے كہ يہ گناہان كبيرہ ہيں _

۳۰_ گناہگاروں كو اخروى عذاب كے علاوہ دنيا ميں بھى سزائيں مليں گى _فما جزاء من يفعل ذلك منكم الا خزى فى الحياة الدنيا

۳۱ _ اللہ تعالى انسان كے تمام تر اعمال و كردار سے آگاہ ہے _و ما الله بغافل عما تعملون

۳۲ _ اس بات كى طرف توجہ اور يقين كہ اللہ تعالى تمام اعمال سے آگاہ ہے انسان كو الہى عہد و پيمان توڑنے اور گناہ انجام دينے سے روكتاہے _و ما الله بغافل عما تعملون اللہ تعالى كے انسانى اعمال كے ناظر و شاہد ہونے كو بيان كرنے كا مقصد يہ ہے كہ انسان اللہ تعالى كے ناظر ہونے پر توجہ ركھيں تا كہ ناجائز اعمال سے پرہيز كريں _ بنابريں اللہ تعالى كى آگاہى اور نظارت كا تقاضا يہى ہے_

۳۳ _ امام صادقعليه‌السلام سے روايت ہے كہ آپعليه‌السلام نے ارشاد فرمايا ''.. الكفر فى كتاب الله على خمسة اوجه والوجه الرابع من الكفر ترك ما امر الله عزوجل به و هو قول الله عزوجل '' أفتؤمنون ببعض الكتاب و تكفرون ببعض فما جزاء من يفعل ذلك منكم'' فكفّرهم بترك ما امر الله عزوجل به ونسبهم الى الايمان و لم يقبله منهم و لم ينفعهم عنده (۱) اللہ تعالى كى كتاب ميں كفر كى پانچ قسميں ہيں اور چوتھى قسم اوامر الہى كا ترك كرناہے اور وہ اللہ تعالى كا يہ كلام ہے

____________________

۱) كافى ج/۲ ص ۳۹۰ ح/۱ نورالثقلين ج/۱ ص۹۵ ح ۲۶۹_

۲۸۵

''أفتؤمنون ببعض الكتاب و تكفرون ببعض فما جزاء من يفعل ذلك منكم'' پس اللہ تعالى نے ان كو اوامر الہى ترك كرنے كى وجہ سے كافر قرار ديا ہے_ اگر چہ ان كى طرف ايمان كى نسبت دى ہے ليكن يہ ايمان قابل قبول نہيں ہے اور خدا تعالى كے ہاں سے ان كو كوئي منفعت حاصل نہ ہوگي_

آسمانى كتابيں : آسمانى كتابوں پر عمل ۱۶،۱۷،۱۸

احكام: ۸

اسير: اسير كى آزادى ۱۳; اسير كى آزادى كى اہميت ۱۰; اسير كے لئے فديہ ۹،۱۲،۱۳

اللہ تعالى : اللہ تعالى كى سرزنشيں ۱۴; اللہ تعالى كا علم ۳۱; عہد الہى سے وفا ۲۶

انسان : انسان كا عمل ۳۱

ايمان : خدا كے علم پر ايمان كے نتائج ۳۲; قرآن كريم كے بعض حصے پر ايمان۳۳; ايمان كے متعلقات ۳۳; آسمانى كتاب پر ايمان كى علامتيں ۱۷

برادركشى : برادركشى كے نتائج۲۹; برادركشى كا گناہ ۲۹

بنى اسرائيل : بنى اسرائيل كے اسيروں كى آزادى ۹،۱۲; بنى اسرائيل كا اقرار ۱; صدر اسلام كے بنى اسرائيل ۱; بنى اسرائيل اور تورات ۱۵; بنى اسرائيل كى تاريخ ۱،۲،۳،۴،۹،۱۲; بنى اسرائيل كى وطن بدرى يا دربدرى ۲،۳،۴; بنى اسرائيل كے دربدر لوگ ۲; بنى اسرائيل كى تجاوزگرى ۴; بنى اسرائيل كى سماوى كتب كى تعليمات ۱۰; بنى اسرائيل كے جرائم ۱،۲ ، ۳،۴; بنى اسرائيل كے معاشرتى روابط ۱۱; بنى اسرائيل كى سرزنش ۱۴; بنى اسرائيل كا شرعى تكليف پر عمل ۱۴; اللہ تعالى كا بنى اسرائيل كے ساتھ عہد ۱; بنى اسرائيل كى عہد شكنى ۱،۲; بنى اسرائيل كا فديہ ۱۲; بنى اسرائيل ميں قتل كا واقعہ ۱،۳; بنى اسرائيل كا گناہ ۴

تجاوز: تجاوز كے موارد ۷ تورات: تورات كے بعض حصے پر عمل ۱۵،۲۳،۲۴

جرائم: جرائم ميں اعانت ۳،۴،۶،۷

جنگ: خانہ جنگى كے نتائج ۲۹; خانہ جنگى كا گناہ ۲۹

حديث: ۳۳ دربدر كرنا : دربدر كرنے سے اجتناب ۲۶; دربدر كرنے كى سزا ۲۸

دربدر كرنے والے: دربدر كرنے والوں كى مدد كرنے سے اجتناب ۶; دربدر كرنے والوں كى امداد ۷

۲۸۶

دين: دين كے بعض حصے پر عمل كے نتائج ۲۷; دين كا جزء جزء كرنا بعض پر عمل اور بعض كى مخالفت كرنا ۱۴ ، ۱۵; دين كو قبول كرنے ميں جزء جزء كرنا (بعض كو قبول اور بعض كو رد كرنا ) ۱۴،۲۳،۲۴

دين دار: دين داروں كو دربدر كرنے سے اجتناب ۵ دينداروں كے قتل سے اجتناب ۵;د ين داروں كى ذمہ دارى ۵،۶; دين داروں كو تنبيہ ۲۸

ذلت: دنياوى ذلت كے اسباب ۱۹،۲۰،۲۳، ۲۷، ۲۸، ۲۹

عذاب: شديد عذاب ۲۱،۲۲،۲۴،۲۷،۲۸; عذاب كے درجات ۲۱،۲۲،۲۴،۲۷،۲۸; عذاب كے اخروى درجات ۲۵; اخروى عذاب كے موجبات ۲۷، ۲۸ ، ۲۹

قاتل: قاتل كى امداد سے اجتناب۶; قاتل كى امداد ۷

قتل: قتل سے اجتناب ۱،۲۶; قتل كى سزا ۲۸; قتل ميں اعانت كرنا ۶،۷

قيامت: قيامت كے عذاب ۲۲

كائناتى نظريہ : كائناتى نظريہ اور آئيڈيالوجى ۳۲

كفر: قرآن حكيم كے بعض حصے كے بارے ميں كفر ۳۳; آسمانى كتابوں كے بارے ميں كفر ۱۸; كفر كے موجبات ۳۳

گناہ : گناہ ميں تعاون ۷; گناہ ميں تعاون كى حرمت ۸; گناہان كبيرہ كا گناہ ۲۹; گناہ كے موارد ۷; گناہ كى ركاوٹيں ۳۲

گناہگار: گناہگاروں كا اخروى عذاب ۳۰; گناہگاروں كا دنياوى عذاب ۳۰; گناہگاروں كو تنبيہ ۳۰

محرمات : ۸

مومنين: مومنين كى ذمہ دارى ۱۶

وعدہ شكني: اللہ تعالى كے ساتھ وعدہ شكنى كى سزا ۱۹،۲۱; اللہ تعالى كے ساتھ وعدہ شكنى كے موانع ۳۲

يہود: يہوديوں كے احكام ۱۳; يہوديوں كا تورات پر ايمان ۲۶; يہوديوں كى دنياوى ذلت ۱۹،۲۰، ۲۳; يہوديوں كا اخروى عذاب ۲۲ ،۲۴; يہوديوں كا دنياوى عذاب ۲۰; يہوديوں كى ذلت كے اسباب ۲۳; يہوديوں كى اخروى سزا و انجام ۲۱; يہوديوں كى لوگوں كو دربدر كرنے كى سزا ۲۰،۲۲; يہوديوں كى دنياوى سزا و انجام ۲۳; يہوديوں كے قتلوں كى سزا ۲۰،۲۲; وعدہ شكن يہوديوں كى سزا ۱۹،۲۱; يہوديوں كے محرمات ۱۳; يہودى قيامت ميں ۲۲; صدر اسلام كے مومن يہود ۲۶

۲۸۷

أُولَئِكَ الَّذِينَ اشْتَرَوُاْ الْحَيوةَ الدُّنْيَا بِالآَخِرَةِ فَلاَ يُخَفَّفُ عَنْهُمُ الْعَذَابُ وَلاَ هُمْ يُنصَرُونَ ( ۸۶ )

يہ وہ لوگہيں جنھوں نے آخرت كو دے كر دنيا خريدليہے اب نہ ان كے عذاب ميں تخفيف ہوگى اورنہ ان كى مدد كى جائے گى (۸۶)

۱ _عالم آخرت اور اسكى نعمتيں ان لوگوں كا سرمايہ ہے جو ايمان ركھتے اور آسمانى كتابوں كے مطابق عمل كرتے ہيں _

اولئك الذين اشتروا الحياة الدنيا بالاخرة

۲ _ بعض انسان آخرت اور اسكى نعمتوں كو كھوكر دنياوى نعمتوں يا حيثيتوں كے درپے ہيں _اولئك الذين اشتروا الحياة الدنيا بالاخرة

۳_ آخرت كو كھو كردنيا كا انتخاب كرنا ايسے اخروى عذاب كا باعث ہے جس ميں كمى يا تخفيف نہيں ہوگي_

اولئك فلا يخفف عنهم العذاب

۴ _ الہى عہد و پيمان كو توڑنے والے سرائے آخرت اور اسكى نعمتوں سے كچھ نہ پاسكيں گے _

إذ أخذنا ميثاقكم اولئك الذين اشتروا الحياة الدنيا بالاخرة

'' اولئك '' ان تمام گروہوں كو شامل ہے جن كے ناپسنديدہ اعمال و كردار كا ماقبل آيت ميں ذكر

ہوا ہے ان ميں سے بعض يہ ہيں ، الہى عہد و پيمان كو توڑنے والے ، اپنے دينى بھائيوں كے قاتل وغيرہ_

۵ _ الہى عہد و پيمان كو بے اہميت سمجھنے اور توڑنے والوں كا محرك دنياوى نعمتوں كا حصول ہے _

اولئك الذين اشتروا الحياة الدنيا بالاخرة

۶_ يہود دنياوى نعمتوں كو حاصل كرنے كے لئے اپنے دينى بھائيوں كو قتل كرتے اور ان كو ان كے گھر سے ، وطن سے دربدر كرتے تھے_ثم انتم هولاء تقتلون اولئك الذين اشتروا الحياة الدنيا بالاخرة

۷ _ يہوديوں نے دنياوى مفادات كے حصول كى خاطر آخرت اور اسكى نعمتوں كو كھوديا _

اولئك الذين اشتروا الحياة الدنيا بالاخرة

۸ _ اہل ايمان كو قتل كرنا ، ان كو دربدر كرنا اور دين ميں

۲۸۸

تبعيض (بعض پر عمل اور بعض كو ترك) كرنا عالم آخرت كو كھودينے اور قيامت ميں شديد عذاب كا باعث بنتاہے _

اولئك الذين اشتروا فلا يخفف عنهم العذاب ''العذاب'' كا ''ال'' عہد ذكرى ہے جو ''اشد العذاب'' كى طرف اشارہ ہے _

۹ _ جو لوگ دنيا كے حصول كى خاطر اپنى آخرت كو تباہ كرتے ہيں ان كو عذاب سے نجات كے لئے كوئي يار و ياور نہ ملے گا _فلا يخفف عنهم العذاب و لا هم ينصرون

۱۰_ دين ميں تبعيض كے (بعض احكام پر عمل كرنا اور بعض كو ترك كردينا ) محركات ميں سے ايك دنيا طلبى ہے _

أفتؤمنون ببعض الكتاب و تكفرون ببعض اولئك الذين اشتروا الحياة الدنيا

۱۱ _ مكتب الہى پر اعتقاد ركھنے والے گروہوں كے درميان خون ريز جنگوں اور معركہ آرائيوں كى ايك جڑ دنياطلبى ہے _ثم انتم هولاء تقتلون أنفسكم اولئك الذين اشتروا الحياة الدنيا

آخرت فروش افراد: ۲ آخرت فروشوں كا بے يار و مددگار ہونا ۹; آخرت فروشوں كا عذاب ۹; آخرت فروشوں كى سزا ۳

آخرت فروشي: آخرت فروشى كى سزا ۳

اختلاف: دينى اختلاف كے اسباب ۱۱

انسان: انسانى سرمايہ ۱

ترغيب و تحريك: ترغيب كے عوامل ۶

جنگ: جنگ كى زمين ہموار ہونا ۱۱

دنياطلب افراد:۲ دنيا كے طالبوں كو عذاب ۹; دنيا كے طالبوں كى سزا ۳

دنياطلبي: دنيا طلبى كا نتائج ۵،۱۰،۱۱

دين: دين كے صرف بعض حصے پر عمل كرنے كے نتائج ۸; دين كا جزء جزء كرنا ۱۰; دين كے بعض حصے پر عمل ۱۰

دينى سماج: دينى سما ج كو پہنچے والے نقصان كى شناخت ۱۱

عذاب:

۲۸۹

شديد عذاب۸; عذاب كے درجے ۸; اخروى عذاب كے موجبات ۸; عذاب سے نجات ۹

مومنين: مومنيں كو دربدر كرنے كے نتائج۸; مومنين كو قتل كرنے كے نتائج۸

نعمت : اخروى نعمتوں سے محروم لوگ ۴; اخروى نعمتيں ۱

وعدہ شكن : وعدہ شكنوں كى دنيا طلبى ۵; وعدہ شكنوں كا محروم ہونا ۴

وعدہ شكنى : اللہ تعالى كے ساتھ وعدہ شكنى كا فلسفہ ۵; اللہ تعالى كے ساتھ وعدہ شكنى كى سزا ۴

يہود: يہوديوں كى آخرت فروشى كا محرك ۷; يہوديوں كو دربدر كرنے كا محرك ۶; يہوديوں كے قتل كا محرك ۶; يہوديوں كے جرائم ۶; يہوديوں كى دنياطلبى ۶،۷; يہويوں كى صفات ۶

وَلَقَدْ آتَيْنَا مُوسَى الْكِتَابَ وَقَفَّيْنَا مِن بَعْدِهِ بِالرُّسُلِ وَآتَيْنَا عِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ الْبَيِّنَاتِ وَأَيَّدْنَاهُ بِرُوحِ الْقُدُسِ أَفَكُلَّمَا جَاءكُمْ رَسُولٌ بِمَا لاَ تَهْوَى أَنفُسُكُمُ اسْتَكْبَرْتُمْ فَفَرِيقاً كَذَّبْتُمْ وَفَرِيقاً تَقْتُلُونَ ( ۸۷ )

ہم نے موسى كو كتاب دى ان كے پيچھے رسولوں كا سلسلہقائم كيا عيسى بن مريم كو واضح بمعجزاتعطا كئے روح القدس سے ان كى تاييد كراديليكن كيا تمھارا مستقل طريقہ يہى ہے كہجب كوئي رسول تمھارى خواہش كے خلافكوئي پيغام لے كر آتاہے تو اكڑ جاتے ہواور ايك جماعت كو جھٹلا ديتے ہو اور ايككو قتل كرديتے ہو (۸۷)

۱_ حضرت موسىعليه‌السلام انبيائے الہى ميں سے تھے اور صاحب كتاب (تورات ) تھے_و لقد آتينا موسى الكتاب

۲ _ اللہ تعالى حضرت موسىعليه‌السلام كو كتاب عطا كرنے والا ہے _و لقد آتينا موسى الكتاب

۳ _ اللہ تعالى نے حضرت موسىعليه‌السلام كى رحلت كے بعد مسلسل انبياءعليه‌السلام كو بنى اسرائيل كى طرف بھيجا_

و قفينا من بعده بالرسل ''قفينا'' كا مصدر'' تقفيہ'' ہے جسكا معنى ہے كسى چيز يا شخص كسى كو كسى دوسرى چيز يا شخص كے بعد روانہ كرنا _ پس '' قفينا يعنى موسىعليه‌السلام كى رحلت كے بعد ہم نے (بنى اسرائيل كى طرف) پے درپے انبياءعليه‌السلام كو بھيجا_

۴ _ بنى اسرائيل كى طرف بہت سے انبياءعليه‌السلام بھيجے گئے _و قفينا من بعده بالرسل

''الرسل'' ميں '' ال'' استغراق كا ہے جو يہاں كثرت پر دلالت كرتاہے _

۲۹۰

۵ _ حضرت عيسىعليه‌السلام اللہ تعالى كے انبياءعليه‌السلام ميں سے تھے جو معجزات ركھتے تھے اور اپنى نبوت كے لئے واضح دلائل كے بھى حامل تھے_و آتينا عيسى ابن مريم البينات

۶ _ اللہ تعالى نے حضرت عيسىعليه‌السلام كو بہت سے معجزات اور واضح دلائل عنايت فرمائے _و آتينا عيسى ابن مريم البينات

''بينہ'' كا معنى واضح حجت اور روشن دليل ہے جبكہ معجزہ اس كے مصاديق ميں سے ہے_ ''البينات'' ميں الف لام عہد ذہنى كا ہے جو مردوں كو زندہ كرنے ، اندھوں كو آنكھيں دينے و غيرہ جيسے معجزات كى طرف اشارہ ہے يا پھر يہ الف لام استغراق كا ہے جو '' بينات'' كى كثرت و فراوانى كى حكايت كرتاہے _

۷ _ حضرت عيسىعليه‌السلام ايك ايسے انسان تھے جن كى ولادت و خلقت والد كے بغير ہوئي _و آتينا عيسى ابن مريم

قرآن حكيم نے بڑى صراحت و وضاحت سے بيان فرمايا ہے كہ حضرت عيسىعليه‌السلام حضرت مريمعليه‌السلام كے فرزند ہيں جبكہ يہ امر عرف عام كے برخلاف ہے جس ميں انسان كو اس كے والد سے منسوب كرتے ہيں _ يہ بات بعض نكات كى طرف اشارہ ہے ان ميں سے ايك يہ كہ حضرت عيسىعليه‌السلام كى والد كے بغير ولادت ہوئي دوسرا يہ كہ يہوديوں كے اس باطل خيال كو رد كيا جائے كہ آپعليه‌السلام كسى بڑھئي كے بيٹے ہيں _

۸ _ حضرت عيسىعليه‌السلام كو حضرت مريمعليه‌السلام نے جنم ديا اور وہ حضرت مريمعليه‌السلام كے ہى بيٹے ہيں نہ كہ فرزند خدا _

عيسى ابن مريم

يہ جو حضرت عيسىعليه‌السلام كو ان كى والدہ گرامى كى طرف نسبت دى گئي ہے ہوسكتاہے اس لئے ہو كہ عيسائيوں كے اس خيال كو باطل يارد كيا جائے جو وہ آپعليه‌السلام كو خداوند متعال كا بيٹا جانتے ہيں _

۹ _ حضرت عيسىعليه‌السلام حضرت موسىعليه‌السلام كى شريعت كے تابع نہ تھے بلكہ خود صاحب شريعت تھے_

و لقد آتينا موسى الكتاب و آتينا عيسى ابن مريم البينات

حضرت عيسىعليه‌السلام كا نام لينا اورجملہ '' قفينا '' پر اكتفا نہ كرنا جبكہ حضرت عيسىعليه‌السلام بھى حضرت موسىعليه‌السلام كے بعد مبعوث ہوئے تھے يہ بعض نكات كى طرف اشارہ ہوسكتاہے ايك يہ كہ حضرت موسىعليه‌السلام كے ما بعد آنے والے انبياءعليه‌السلام كے پاس كوئي مستقل كتاب يا شريعت نہ تھى بلكہ وہ حضرت موسىعليه‌السلام كى شريعت كے تابع تھے ليكن حضرت عيسىعليه‌السلام صاحب شريعت اور صاحب كتاب تھے_

۲۹۱

۱۰_ حضرت موسىعليه‌السلام كے بعد ميں آنے والے انبياءعليه‌السلام آپعليه‌السلام كى شريعت كے تابع اور اسى كى تبليغ كرتے تھے_و لقد آتينا موسى الكتاب و قفينا من بعده بالرسل

۱۱_ اللہ تعالى نے حضرت عيسىعليه‌السلام كى '' روح القدس'' كے ذريعے تائيد اور تقويت فرمائي_و ايدناه بروح القدس

''ايدناہ'' كا مصدر تائيد ہے جس كا معنى ہے تقويت كرنا اور توانائي عطا كرنا _

۱۲ _ حضرت عيسىعليه‌السلام كا روح القدس كے ذريعے تائيد ہونا يہ آپعليه‌السلام كى خصوصيات ميں سے ہے _و ايدناه بروح القدس

۱۳ _ انبياءعليه‌السلام كے پيغامات كى يہوديوں كى نفسانى خواہشات سے مطابقت يا عدم مطابقت ان پيغامات كو قبول كرنے يا قبول نہ كرنے كا معيار تھا_افكلما جاء كم رسول بما لا تهوى أنفسكم استكبرتم

۱۴ _ يہود نفس پرست لوگ اور احساس برترى كى نفسيات كے مالك تھے_بما لا تهوى أنفسكم استكبرتم

۱۵ _ يہودينے بعض انبياءعليه‌السلام كوجھٹلايا اور بعض كو قتل كيا_ففريقا كذبتم و فريقا تقتلون

۱۶_ يہود پيامبر اسلام (ص) كو قتل كرنے كے درپے تھے_و فريقاً تقتلون

يہ مفہوم دو نكتوں كى بناپر استفادہ ہوتاہے_ ۱_ آيت كے مخاطبين زمانہ بعثت كے يہودى ہيں اور ان كے زمانے ميں پيامبر اسلام (ص) كے علاوہ كوئي اور پيامبر (ص) نہ تھا جسكو قتل كرنا چاہتے تھے_ ۲ _ ''كذبتم'' جو فعل ماضى ہے اسكے مقابل فعل مضارع '' تقتلون'' كا استعمال كيا گيا ہے _

۱۷_ يہوديوں كى نفس پرستى اور احساس برترى ان كو اس بات پر آمادہ كرتے تھے كہ انبياءعليه‌السلام كو جھٹلائيں اور ان كو قتل كريں _بما لا تهوى أنفسكم استكبرتم ففريقاً كذبتم و فريقا تقتلون جملہ''فريقاً كذبتم و ...'' كى حرف فاء كے ذريعے جملہ''بما لا تهوى أنفسكم استكبرتم'' پر تفريع مذكورہ بالا مفہوم كا باعث ہے _

۱۸ _ حضرت عيسىعليه‌السلام كے پاس معجزات اور آشكار دلائل كے ہوتے ہوئے يہوديوں نے حضرت عيسىعليه‌السلام كى نبوت كو قبول نہ كيا _و آتينا عيسى ابن مريم البينات ففريقاً كذبتم

۱۹_ زمانہ بعثت كے يہود تكبرانہ نفسيات، نفس پرستى اور انبياءعليه‌السلام كى مخالفت كرنے ميں اپنے اسلاف كى طرح تھے_

افكلما جاء كم رسول ففريقاً كذبتم و فريقاً تقتلون

زمانہ بعثت كے يہوديوں كو انبياءعليه‌السلام كے جھٹلانے اور

۲۹۲

قتل كرنے كى نسبت دينا جبكہ ان كے اسلاف ايسا كرتے تھے_يہ اس مفہوم كى طرف اشارہ ہے كہ زمانہ بعثت كے يہود بھى ان صفات رذيلہ كے مالك تھے_

۲۰_ نفس پرستى اور احساس برترى ان رذائل ميں سے ہيں جو انسان كو گناہان كبيرہ كے ارتكاب كى ترغيب دلاتى ہيں _

بما لا تهوى أنفسكم استكبرتم ففريقاً كذبتم و فريقاً تقتلون

۲۱ _ امام باقرعليه‌السلام سے روايت ہے ''ان فى الانبياء والاوصياء خمسة ارواح، روح القدس فبروح القدس عرفوا ما تحت العرش الى ما تحت الثرى ..(۱) انبياءعليه‌السلام اور اوصياءعليه‌السلام الہى ميں پانچ ارواح ہوتى ہيں ان ميں سے ايك روح القدس ہے اس روح القدس كے ذريعے عرش سے لے كر تحت ثرى تك جو كچھ ہے وہ جان ليتے ہيں _

۲۲ _ پيامبر گرامى اسلام (ص) سے روايت ہے كہ آپ (ص) نے ارشاد فرمايا '' روح القدس'' جبرئيلعليه‌السلام (۲)

روح القدس سے مراد جبرائيلعليه‌السلام ہيں _

اللہ تعالى : اللہ تعالى كى امداد۱۱; اللہ تعالى اور فرزند ۸; اللہ تعالى كى عنايات ۲،۶

انبياءعليه‌السلام : اولوالعزم انبياءعليه‌السلام ۱،۹; حضرت موسىعليه‌السلام كے مابعد كے انبياءعليه‌السلام ۳،۱۰; انبياءعليه‌السلام كى تاريخ ۳،۴; انبياءعليه‌السلام كا علم ۲۱; انبياءعليه‌السلام كے جھٹلائے جانے كے عوامل ۱۷; انبياءعليه‌السلام كے قتل كے اسباب ۱۷; انبياءعليه‌السلام كا قتل۱۵

اوصياءعليه‌السلام : اوصياءعليه‌السلام كا علم ۲۱

بنى اسرائيل: بنى اسرائيل كے انبياءعليه‌السلام ۳،۴

ترغيب و تحريك: ترغيب كے عوامل ۱۷

تكبر: تكبر كے نتائج ۲۰

حضرت جبرائيلعليه‌السلام : حضرت جبرائيلعليه‌السلام كى اہميت و كردار۲۲

حضرت عيسىعليه‌السلام : حضرت عيسىعليه‌السلام كى روح القدس كے ذريعے تائيد ۱۱،۱۲; حضرت عيسىعليه‌السلام كى تكذيب ۱۸; حضرت عيسىعليه‌السلام كى نبوت كے دلائل ۵; حضرت عيسىعليه‌السلام كى شريعت ۹; حضرت عيسىعليه‌السلام حضرت مريمعليه‌السلام كے بيٹے۸; حضرت عيسىعليه‌السلام كا واقعہ ۸; حضرت عيسىعليه‌السلام كى والدہ ۸; حضرت عيسىعليه‌السلام كا معجزہ ۵،۶; حضرت عيسىعليه‌السلام كى

____________________

۱) كافى ج/ ۱ ص ۲۷۲ ، ح۲، نورالثقلين ج/ ۱ص ۹۸ ح ۲۷۳_ ۲) الدرالمنثور ج/ ۱ ص ۲۱۳ ، تفسير برہان ج/ ۱ ص ۱۲۴ ح۱_

۲۹۳

خلقت كى خصوصيات ۷ حضرت عيسىعليه‌السلام كى خصوصيات۱۲

روايت: ۲۱،۲۲

روح القدس: روح القدس سے مراد ۲۲; روح القدس كى اہميت و كردار۲۱

گناہ: گناہ كے اسباب۲۰

وَقَالُواْ قُلُوبُنَا غُلْفٌ بَل لَّعَنَهُمُ اللَّه بِكُفْرِهِمْ فَقَلِيلاً مَّا يُؤْمِنُونَ ( ۸۸ )

اور يہ لوگ كہتےہيں كہ ہمارے دلوں پر پردے پڑے ہوئے ہيں ہمارى كچھ سمجھ ميں نہيں آتا بيشك ان كےكفر كى بنا پر ان پر خدا كى مارہے اور يہبہت كم ايمان لے آئيں گے (۸۸)

۱ _ زمانہ بعثت كے يہوديوں كے قلوب اسلامى معارف كے ادراك كى توانائي نہ ركھتے تھے_و قالوا قلوبنا غلف بل لعنهم الله بكفرهم فقليلاً ''اغلف '' كى جمع '' غلف '' ہے جسكا معنى ہے ايسى چيز جسكو پردہ كہا جاسكتاہو بنابريں '' قلوبنا غلف '' يعنى ہمارے قلوب پر پردہ يا حجاب ہے_ يہوديوں كے مقصد كو دو طرح سے بيان كيا جاسكتاہے _ ۱_ ہمارے دلوں پر پردے پڑے ہيں لہذا اسلام كے معارف درك كرنے سے عاجز ہيں پس اے پيامبر (ص) كيا آپ (ص) كو توقع ہے كہ ہم آپ (ص) كے پيغام كو اپنے تك پہنچنے سے پہلے قبول كريں گے ؟ ۲ _ ہمارے دلوں پر پردے ہيں ايسے نہيں كہ ہر كلام كو قبول كريں بلكہ جو كلام حقيقت ركھتا ہو اسكو قبول كرتے ہيں _مذكورہ بالا مفہوم پہلے احتمال كى بناپر ہے_

۲ _ زمانہ بعثت كے يہوديوں كو معارف اسلام كے ادراك كے بارے ميں اپنى عاجزى و ناتوانى كا اعتراف تھا_

و قالوا قلوبنا غلف '' قالوا'' اعتراف پر دلالت كرتاہے_

۳ _ يہوديوں كا خيال تھا كہ وہ لوگ اسلام كوجو قبول كرنے سے عاجز ہيں يہ انكى فطرت اور خلقت كى وجہ سے ہے لہذا خود كو معذور سمجھتے تھے_و قالوا قلوبنا غلف ''لعنهم الله بكفرهم اللہ تعالى نے يہوديوں پر ان كے كفر كى وجہ سے لعنت كى '' يہ جملہ اور اس پر '' فائ'' كے ذريعے تفريع ہونے والا ما بعد كا جملہ ''فقليلاً ما يؤمنون پس ان ميں بہت كم افراد ايمان لاتے ہيں '' ، اس بات كى جانب اشارہ ہے

كہ يہوديوں كا اسلام كے ادراك سے عاجز ہونے كا دعوى صحيح ہے _ پس لفظ '' بل'' ، '' قلوبنا غلف'' كے مطابقى معنى كو رد نہيں كرتا، بلكہ اس مطلب كو رد كرتا ہے جو يہوديوں كا اصلى مقصود تھا كہ وہ درك نہ كرسكنے كى وجہ سے خود كو معذور سمجھتے تھے_

۲۹۴

۴ _ حق كو قبول نہ كرنے والے يہوديوں كو اللہ تعالى نے اپنى رحمت سے دور كرديا اور ان كو لعنت ميں مبتلا كرديا _

بل لعنهم الله بكفرهم

۵_ يہوديوں كا كفر اختيار كرنا ان كا رحمت الہى سے دور ہونے كا سبب بنا _لعنهم الله بكفرهم '' بكفر'' كى باء سببية كے لئے ہے _

۶ _ يہوديوں كے قلب و نظر پر پردے پڑنے كى وجہ ان كى فطرت يا خلقت نہيں ہے بلكہ اس كا باعث ان كا كفر اختيار كرنا اور رحمت الہى سے دور ہونا ہے _قالوا قلوبنا غلف بل لعنهم الله بكفرهم يہ گذر گيا ہے كہ ''بل''،'' قلوبنا غلف'' سے نفى كے معنى ميں ہے اور يہوديوں كا معذور ہونا ان كے نہ سمجھنے كى وجہ سے ہے _ '' بل'' يہوديوں كے معذور ہونے كى نفى كرتا ہے جبكہ جملہ '' لعنھم اللہ ...''بيان كررہاہے يہوديوں كے قلوب پر پردہ پڑنا ان كے كفر كى وجہ سے ہے نہ كہ فطرتاً ايسا ہے _ ايسى نافہمى جس كو انسان خود پيدا كرے قابل قبول عذر نہيں ہوسكتا_

۷_ كافر يہودى باوجود اس كے كہ ان كے دلوں پر پردے پڑنے سے وہ عاجز و ناتواں ہيں معذور نہيں ، ہيں _

قلوبنا غلف بل لعنهم الله بكفرهم

۸ _ يہوديوں كا اسلام كے معارف درك كرنے سے عجز كے اظہار كا مقصد پيامبر اسلام (ص) كو مايوس كرنا تھا_

قالوا قلوبنا غلفانسان معمولا فہم و ادراك ميں اپنے قصور كو تسليم نہيں كرتے يا اس پر يقين نہيں كرتے _ بنابريں يہوديوں كے درك نہ كرنے يا نہ سمجھنے كا اعتراف ممكن ہے پيامبر اسلام (ص) كو مايوس كرنے كے لئے ہو تا كہ ان كو اسلام كى دعوت دينے پر اصرار كرنے سے منصرف ہوجائيں _

۹ _ يہودى بہت كم معارف الہى پر ايمان ركھتے ہيں _فقليلاً ما يؤمنون يہ مفہوم اس بناپر ہے كہ'' قليلا'' مفعول مطلق محذوف كى صفت ہے يعنى '' ايماناً قليلاً'' _ حرف''ما'' اس قليلاً كى تاكيد ہے _ قابل توجہ يہ ہے كہ ايمان قليل كا معنى كمزور ايمان ہے يا يہ كہ دين كے كم حصے پر ايمان ركھنا اور دين كے اكثر حصے پر يقين نہ كرنا ہے _

۱۰_يہوديوں كا لعنت الہى ميں مبتلا ہونا اس ليئے تھا كيونكہ وہ معارف الہى كى اكثريت پر ايمان نہ لائے _

لعنهم الله بكفرهم فقليلاً ما يؤمنون

''فقليلاً ما '' ميں فاء تفريع اس مطلب كى طرف اشارہ ہے كہ اللہ تعالى كى طرف سے لعنت اس بات كا موجب بنى كہ يہودى ايمان كامل يا

۲۹۵

تمام معارف پر ايمان كى بنياديں كھوديں _

۱۱ _ يہوديوں ميں سے بہت ہى كم تعداد نے معارف اسلامى كا يقين كيا اور پيامبر اسلام (ص) پر ايمان لائے * _

فقليلاً ما يؤمنونيہ مفہوم اس بناپر ہے كہ '' قليلاً'' ، '' يؤمنون'' كے فاعل كے لئے حال ہو يعنى يہ كہ ''فما يؤمنون منهم الا نفر قليل_ پس يہوديوں ميں سے ايمان نہيں لاتے مگر بہت محدود افراد'' (مجمع البيان سے اقتباس)

۱۲ _ انسان حتى جب اللہ تعالى كى لعنت ميں مبتلا ہوتا ہے تب بھى ايمان كى طرف تمايل پيدا كركے اہل ايمان ميں سے ہوسكتاہے _لعنهم الله بكفرهم فقليلاً ما يؤمنون

جملہ''فقليلا ما يؤمنون'' كى جملہ''لعنهم الله بكفرهم'' پر تفريع اس مفہوم كى طرف اشارہ ہے كہ كفر اختيار كرنے اور رحمت الہى سے دور ہونے كے سبب ايمان كى بہت سارى بنياد ضائع ہوجاتى ہے نہ كہ كامل طور پر اس كى بنياديں كھوكھلى ہوجاتى ہيں _ گويا يہ كہ انسان لعنت الہى كے باوجود خودكوايمان كى طرف راغب كرسكتاہے_

۱۳ _ اللہ تعالى كى رحمت سے دور ہونا اور اس كى لعنت ميں مبتلا ہونا ايمان نہ لانے پر جبر كا باعث نہيں ہے_

لعنهم الله بكفرهم فقليلاً ما يؤمنون

۱۴ _ يہوديوں كا دعوى تھا كہ ان كے قلب و نظر اس قدر مضبوط ہيں كہ ان پر غير صحيح عقائد اور افكار اثر انداز نہيں ہوسكتے_قالوا قلوبنا غلف يہ مفہوم اس بناپر ہے كہ '' ان كے دلوں پر پردے پڑنے'' سے مراد يہ ہو كہ غير صحيح اور نادرست كلام سے متاثر نہيں ہوتے_ گويا ہر غلاف يا پردہ نادرست چيز كے اندر جانے اور نقصان پہنچانے كے لئے ركاوٹ ہے _ قابل توجہ ہے كہ لفظ ''بل'' اسى دعوے كى نفى كررہاہے_

اسلام : اسلام كے فہم سے عاجز ہونا ۱،۲

اللہ تعالى : اللہ تعالى كى لعنت كے نتائج ۶،۱۰،۱۳; اللہ تعالى كى لعنت ۴

انسان: انسان كى قوت و توانائي ۱۲

ايمان: ايمان ميں اختيار ۱۳; اسلام پر ايمان ۱۱; پيامبر اسلام (ص) پر ايمان ۱۱; ايمان سے متعلق امور۱۱

رحمت: رحمت سے محروم افراد۴،۵; رحمت سے محروم ہونا ۱۳

قلب: قلب پر پردے كے نتائج ۷; پردے كے اسباب ۶

۲۹۶

كفر: كفر كے نتائج ۵،۶

لعنت : لعنت كيئے جانےوالوں كا ايمان ۱۲; لعنت كيئے جانے والے افراد۴

يہود: يہوديو ں كے كفر كے نتائج ۶; يہوديوں كے دعوے ۱۴; يہوديوں كا كمزورى كا اظہار ۸; صدر

اسلام كے يہوديوں كا اقرار ۲; يہوديوں كى اقليت كا ايمان ۱۱; يہوديوں كا ايما ن۹ ;يہوديوں كى بصيرت ۳; يہوديوں كے قلب پر مہر ۶،۷; يہوديوں كے فہم كى كمزورى ۱،۲; يہوديوں كى محروميت كے اسباب ۴،۵; يہوديوں كى معذوريت كے اسباب ۳; يہوديوں كى فطرت ۳; يہوديوں كا قلب ۱۴; يہوديوں كا كفر ۵; يہوديوں پر لعنت ۴،۶،۱۰; يہوديوں كا معذور نہ ہونا ۷; يہوديوں كے قبول اسلام ميں ركاوٹيں ۳; يہوديوں كے ايمان لانے ميں ركاوٹيں ۳،۷،۱۰; يہوديوں كا حق قبول نہ كرنا ۴; صدر اسلام كے يہود ۱; يہود اور اسلام ۲; يہود اور پيامبر اسلام (ص) ۸

َلَمَّا جَاءهُمْ كِتَابٌ مِّنْ عِندِ اللّهِ مُصَدِّقٌ لِّمَا مَعَهُمْ وَكَانُواْ مِن قَبْلُ يَسْتَفْتِحُونَ عَلَى الَّذِينَ كَفَرُواْ فَلَمَّا جَاءهُم مَّا عَرَفُواْ كَفَرُواْ بِهِ فَلَعْنَةُ اللَّه عَلَى الْكَافِرِينَ ( ۸۹ )

اور جب انكے پاس خدا كى طرف سے كتاب آئي ہے جو انكى توريت و غيرہ كى تصديق بھى كرنے واليہے اور اس كے پہلے وہ دشمنوں كے مقابلہميں اسى كےذريعہ طلب فتح بھى كرتے تھےليكن اس كے آتے ہى منكر ہگئے حالانكہ اسےپہچانتے بھى تھے تو اب كافروں پر خدا كى لعنت ہے (۸۹)

۱_ قرآن كريم انتہائي باعزت و عظمت كتاب ہے جو اللہ تعالى كى بارگاہ اقدس سے نازل ہوئي ہے _و لما جاء هم كتاب من عند الله '' كتاب'' كو نكرہ لانا اور يہ صراحت و وضاحت كہ اللہ تعالى كے ہاں سے آئي ہے اس كى عظمت و بزرگى پر دلالت كرتى ہے _

۲ _ قرآن كريم نے تورات كے نفس كلام كے صحيح ہونے اور اسكے آسمانى ہونے كى تائيد و تصديق كى ہے_ كتاب مصدق لما معهم

۳ _ قرآن كريم تورات كى حقانيت اور اس كے آسمانى ہونے كى دليل ہے *مصدق لمامعهم قرآن كريم كى طرف سے تورات كى تصديق كا يہ معنى ہوسكتاہے كہ قرآن كريم كا نزول اس بات كا سبب بنا كہ تورات نے جو قرآن كے نزول كى خوش خبرى دى تھى وہ پورى ہوگئي پس قرآن كريم بھى تورات كى حقانيت كو ثابت كررہاہے_

۴ _ پيامبر اسلام (ص) كے زمانے تك تورات ميں تحريف نہ ہوئي تھى *مصدق لما معهم

۲۹۷

''ما معہم وہ جو ان كے ہمراہ ہے'' اس سے مراد وہ تورات ہے جو زمانہ بعثت كے يہوديوں كے اختيار ميں تھى اور

قرآن كريم نے اسى كى تائيد فرمائي ہے _ پس تورات اس زمانے تك تحريف سے محفوظ تھي_

۵ _ بعثت سے قبل يہود، نزول قرآن اور پيامبر اسلام (ص) كے مبعوث ہونے سے آگاہ تھے_و كانوا من قبل يستفتحون على الذين كفروا

۶ _ يہود ايك عرصے سے پيامبر اسلام (ص) اور نزول قرآن كے انتظار ميں تھے_وكانوا من قبل يستفتحون على الذين كفروا

۷ _ يہوديوں كى ،كفار پر قرآن اور بعثت پيامبر (ص) كے سائے تلے كاميابى كى تمنا اور آرزو بعثت سے قبل كى تھي_

و كانوا من قبل يستفتحون على الذين كفروا''فتح'' كا معنى نصرت و كاميابى ہے _ ''استفتاح'' كا معنى ہے كاميابى كا طلب كرنا _ فعل مضارع (يستفتحون) پر '' كان'' كا آنا زمانہ ماضى ميں استمرار پر دلالت كرتاہے _ جملہ ''و كانوا ...'' كا ماقبل اور ما بعد سے ارتباط اس بات كا تقاضا كرتاہے كہ يہ كاميابى نزول قرآن اور پيامبر اسلام (ص) سے مربوط ہو _ بنابريں ''و كانوا ...'' يعنى زمانہ بعثت سے بہت مدت قبل سے يہودى نزول قرآن اور بعثت پيامبر (ص) كے منتظر تھے تا كہ ان كے سائے تلے كفار پر كاميابى حاصل كريں _

۸ _قبل از اسلام مدينہ كے يہودى كفار سے دست و گريبان تھے اور ان كى جانب سے سختيوں ميں مبتلا تھے_وكانوامن قبل يستفتحون على الذين كفروا

۹_ تورات ميں نزول قرآن اور بعثت پيامبر اسلام (ص) كى بشارت دى گئي تھى _ *مصدق لما معهم و كانوا من قبل يستفتحون على الذين كفروا

''مصدق لما معہم'' يہ عبارت اس بات كا قرينہ ہے كہ يہوديوں كى آگاہى (نزول قرآن اور پيامبر اسلام كى بعثت كے بارے ميں ) كا سرچشمہ تورات تھي_

۱۰_ يہودى قبل از بعثت مدتوں سے پيامبر (ص) كى آمد اور نزول قرآن كے بارے ميں كفار سے ذكر كيا كرتے تھے_

و كانوا من قبل يستفتحون على الذين كفروا

''يستفتحون'' كا مصدر استفتاح ہے اور معنى مطلع كرنا بھى ہوسكتاہے _ مفردات راغب ميں آياہے ''فتح عليہ كذا '' كہا جاتاہے كہ اس سے ايك بات كا اعلان كيا اور اس كو اس امر سے مطلع كيا '' اس صورت ميں '' يفتحون'' كو باب استفعال ميں لے جانا تاكيد كے لئے ہے يعنى طلب كا معنى نہيں ديتا _

۲۹۸

۱۱ _ باوجود اس كے كہ كتاب اور پيامبر موعود كى خصوصيات قرآن كريم اور پيامبر اسلام (ص) سے بالكل مطابقت ركھتى تھيں يہودى كافر ہوگئے_فلما جاء هم ما عرفوا كفروا به

۱۲ _ اللہ تعالى نے پيامبر اسلام (ص) اور قرآن كے كافر يہوديوں كو اپنى رحمت سے دور اور اپنى لعنت كا مستحق قرا رديا ہے _فلعنة الله على الكافرين

۳ ۱ _ عناد ركھنے والے اور حق كو قبول نہ كرنے والے كافر، اللہ تعالى كى لعنت كے مستحق ہيں _فلعنة الله على الكافرين

۱۴ _ وہ لوگ جو عناد اور ضد كى وجہ سے پيامبر اسلام (ص) اور قرآن كا كفر اختيار كرتے ہيں ان پر لعنت اور نفرين كرنا جائز ہے _فلعنة الله على الكافرين

۱۵_ امام صادقعليه‌السلام سے اللہ تعالى كے اس كلام ( و كانوا من قبل يستفتحون على الذين كفروا كے بارے ميں روايت ہے كہ آپعليه‌السلام نے فرمايا''كانت اليهود تجد فى كتابها ان مهاجر محمد(ص) ما بين عير و أُحد فخرجوا يطلبون الموضع فاتخذوا بأرض المدينة الاموال فلما كثرت اموالهم بلغ تبع فغزاهم فخلّف حييّن الاوس والخزرج و كانت اليهود تقول لهم اما لو قد بعث محمد ليخرجنكم من ديارنا و اموالنا فلما بعث الله عزوجل محمداً آمنت به الانصار و كفرت به اليهود وهوقول الله عزوجل و كانوا من قبل يستفتحون على الذين كفروا فلما جاء هم ما عرفوا كفروا به فلعنة الله على الكافرين (۱) يہوديوں نے اپنى آسمانى كتابوں ميں پڑھا تھا كہ حضرت محمد(ص) كى ہجرت كا مقام عير اور احد پہاڑ كے مابين ہے لہذا اس مقام كى تلاش ميں اپنى جگہ سے نكلے اسكے بعد مدينہ ميں سكونت اختيار كى اور بہت زيادہ ا موال اكٹھے كيئے _ يہ خبر جب '' تُبَّع'' كو ملى تو اس نے ان سے جنگ كى اس كے نتيجے ميں دو قبيلے رہ گئے ايك اوس اور دوسرا خزرج پس يہودى ان (اوس و خزرج ) سے كہتے تھے : جب محمد (ص) مبعوث ہوں گے تو تم كو ہمارے گھروں او ر اموال سے نكال باہر كريں گے_ پس اللہ تعالى نے جب آنحضرت (ص) كو مبعوث فرمايا تو انصار( اوس و خزرج) آپ (ص) پر ايمان لے آئے اور يہوديوں نے كفر اختيار كيا پس قول خداوندى يہى ہے _ وہ لوگ (يہودي) پيامبر(ص) كى بعثت سے كفار پر كاميابى كے وعدہ كو ديكھ رہے تھے پس جب وہ كتاب جس كى ( پہلے سے ) معرفت ركھتے تھے ان كے پاس آئي تو اسكے كافرہوگئے پس اللہ تعالى كى لعنت ہو كافروں پر _

____________________

۱) كافى ج/۸ ص ۳۰۸ ح ۴۸۱ ، نورالثقلين ج/ ۱ ص ۱۰۰ ح ۲۷۹_

۲۹۹

احكام:۱۴

پيامبر اسلام (ص) : پيامبر اسلام (ص) تورات ميں ۹

تورات: تورات كى بشارتيں ۹; تورات كى تصديق ۲; تورات كى تعليمات ۹; صدر اسلام ميں تورات ۴; تورات كے وحى ہونے كے دلائل ۲،۳

خدا تعالى : خدا تعالى كى لعنت ۱۲،۱۳

رحمت : رحمت سے محروم افراد ۱۲

روايت:۱۵

قرآن كريم : قرآن كى قدر ومنزلت ۱; قرآن كريم كى عظمت ۱; قرآن كريم تورات ميں ۹; قرآن كريم اور تورات ۲،۳; قرآن كريم اور وحى ۱; قرآن كريم كى خصوصيات ۱

كفار : حق كو قبول نہ كرنے والے كفار پر لعنت ۱۳،۱۴

كفر(انكار): قرآن كے كفر كے نتائج ۱۲،۱۴; پيامبر اسلام (ص) كے كفر كے نتائج ۱۲،۱۴; قرآن كا كفر ۱۱; پيامبر اسلام (ص) كا كفر ۱۱،۱۵

لعنت: جائز لعنت ۱۴; جن لوگوں پر لعنت ہوئي ۱۲،۱۳

مدينہ كے يہود: مدينہ كے يہوديوں كى مشكلات ۸

يہود: يہوديوں كى آرزوئيں ۷; يہوديوں كى آگاہى ۵; يہوديوں كا انتظار۶; يہوديوں كى كاميابى ۷; يہوديوں كا كفر ۱۱،۱۵; كافر يہوديوں پر لعنت ۱۲; يہوديوں كى محروميت ۱۲; قبل از اسلام يہود ۷، ۸; يہود اور پيامبراسلام (ص) كى بعثت ۱۰; يہود اور قرآن ۵،۶،۱۱; يہود اور پيامبر اسلام (ص) ۶،۱۱; يہود اور پيامبر اسلام (ص) كى نبوت ۵; يہود اور نزول قرآن ۱۰

۳۰۰

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

461

462

463

464

465

466

467

468

469

470

471

472

473

474

475

476

477

478

479

480

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

501

502

503

504

505

506

507

508

509

510

511

512

513

514

515

516

517

518

519

520

521

522

523

524

525

526

527

528

529

530

531

532

533

534

535

536

537

538

539

540

541

542

543

544

545

546

547

548

549

550

551

552

553

554

555

556

557

558

559

560

561

562

563

564

565

566

567

568

569

570

571

572

573

574

575

576

577

578

579

580

581

582

583

584

585

586

587

588

589

590

591

592

593

594

595

596

597

598

599

600

601

602

603

604

605

606

607

608

609

610

611

612

613

614

615

616

617

618

619

620

621

622

623

624

625

626

627

628

629

630

631

632

633

634

635

636

637

638

639

640

641

642

643

644

645

646

647

648

649

650

651

652

653

654

655

656

657

658

659

660

661

662

663

664

665

666

667

668

669

670

671

672

673

674

675

676

677

678

679

680

681

682

683

684

685

686

687

688

689

690

691

692

693

694

695

696

697

698

699

700

701

702

703

704

705

706

707

708

709

710

711

712

713

714

715

716

717

718

719

720

721

722

723

724

725

726

727

728

729

730

731

732

733

734

735

736

737

738

739

740

741

742

743

744

745

746

747

748

749

750

751

752

753

754

755

756

757

758

759

760

761

762

763

764

765

766

767

768

769

770

771

772

773

774

775

776

777

778

779

780

781

782

783

784

785