تفسير راہنما جلد ۱

 تفسير راہنما 7%

 تفسير راہنما مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن
صفحے: 785

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴ جلد ۵ جلد ۶ جلد ۷ جلد ۸ جلد ۹ جلد ۱۰ جلد ۱۱
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 785 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 201055 / ڈاؤنلوڈ: 5794
سائز سائز سائز
 تفسير راہنما

تفسير راہنما جلد ۱

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

۳۔ سات ابواب کا ایک اور معنی

بعض حضرات کا خیال ہے کہ سات حروف سے مراد، امر، زجر، ترغیب، ترھیب، جدل ، قصّے اور مثالیں ہیں۔

اس احتمال پر محمد بن بشارکی روایت سے استدلال کیا گیا ہے جو ابو قلامہ سے منقول ہے، ابو قلامہ کہتا ہے:

''بلغنی أن النبی قال: انزل القرآن علی سبعة أحرف: أمر، وزجر، و ترغیب، و ترهیب، و جدل، و قصص، و مثل،،

''میں نے سنا ہے کہ پیغمبر اکرم(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) نے فرمایا:

قران سات حروف: امر، زجر، ترغیب، ترہیب، جدل، قصّوں اور مثالوں پر نازل کیا گیا ہے۔،،(۱)

گذشتہ تاویل کے جواب سے اس تاویل کا جواب بھی واضح ہے۔

۴۔ فصیح لغات

بعض علماء کرام نے فرمایا ہے کہ سات حروف سے مراد سات فصیح عربی لغات ہیں اور یہ لغتیں قرآن میں مختلف مقامات پر بکھری ہوئی ہیں۔ وہ لغتیں یہ ہےں:

۱۔ لغت قریش۔

۲۔ لغت ہذیل۔

۳۔ لغت ہوازن۔

۴۔ لغت یمن۔

۵۔ لغت کنانہ۔

۶۔ لغت تمیم۔

۷۔ لغت ثقیف۔

____________________

(۱) تفسیر طبری، ج ۱، ص ۲۴۔

۲۴۱

یہ قول علماء کی ایک جماعت سے منسو ب ہے۔جس میں بیہقی ابہری اور صاحب قاموس شامل ہیں۔ اس قول کے بھی چند جواب ہیں:

۱۔ گذشتہ روایات نے سات حروف کے معنی و مفہوم کو بیان کردیا ہے۔ اس کے باوجود اس قسم کے معنی مراد لینا مقام و موقع روایت سے سازگار نہیں ہے۔

۲۔ سات حروف سے سات لغات مراد لینا حضرت عمر کی روایت کے منافی ہے، جس میں کہا گیا ہے:''نزل القراٰن بلغة مضر،، (۱) یعنی سارا قرآن قبیلہ مضر کی لغت میں نازل ہوا ہے۔ اس کے علاوہ حضرت عمر نے ابن مسعود کی اس قراءت پر اعتراض کیا جس میں وہ ''حتی حین،، کی بجائے ''عتی حین،، پڑھا کرتا تھا اور انہوں نے اس کی طرف یہ بھی لکھ بھیجا کہ قرآن ھذیل کی لغت میں نازل نہیں ہوا۔ ا سلیے لوگوں کو لغت قریش کے مطابق قرآن پڑھایا گرو، لغت ھذیل کے مطابق نہیں۔(۲)

اسی طرح یہ احتمال حضرت عثمان کی روایت سے سازگار نہیں ہے جس مںی وہ قریش کے تین گروہوں سے مخاطب ہو کر کہتے ہیں: اگر قرآن کے بارے میں زید بن ثابت سے تمہارا اختلاف ہو تو اسے قریشی زبان میں لکھو کیوں کہ قرآن قریش ہی کی زبان میں نازل ہوا ہے۔(۳)

نیز یہ روایت بھی اس قول کے منافی ہے: ''سورۃ فرقان کی قراءت میں حضرت عمر اور ہشام بن حکیم میں اختلاف ہوا۔ جب رسول اللہ(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) کے پاس جاکر ہشام نے قراءت پڑھی تو آپ نے فرمایا قرآن ایسے ہی نازل ہوا ہے جیسے تو پڑھ رہا ہے۔ اس کے بعد حضرت عمر نے تلاوت کی۔ آپ نے فرمایا: قرآن ایسے ہی نازل ہوا ہے۔ اس کے بعد آپ نے فرمایا: قرآن سات حروف میں نازل کیا گیا ہے۔،،(۴)

____________________

(۱) التبیان، ص ۶۴۔

(۲) ایضاً، ص ۶۵۔

(۳) صحیح بخاری، باب نزل القرآن بلسان قریش، ص ۱۵۶۔

(۴) اس روایت کی طرف گذشتہ صفحات میں اشارہ کیا جاچکا ہے۔

۲۴۲

پوشیدہ نہ رہے کہ حضرت عمر اور ہشام دونوں کا تعلق قریش سے تھا۔ اس لیے ان میں اختلاف قراءت کا تصور بھی نہیں کیا جاسکتا کہ اختلاف حروف کی تفسیر اختلاف لغت کی صورت میں کی جائے۔ اس کے علاوہ سات حروف سے سات لغات مراد لینا کوئی عالمانہ بات نہیں ہے اور یہ ایک دعویٰ بلا دلیل ہے۔

۳۔ اگر اس قول کے قائل حضرات کا مقصد یہ ہے کہ قرآن ایسی لغات پر مشتمل ہے جن سے لغت قریش خالی ہے تو اس سے امت کی وہ سہولت ختم ہوجائے گی جس کی خاطر قرآن کو سات حروف میں نازل کیا گیا۔ بلکہ یہ بات خلاف حقیقت اور خلاف واقع ہے کیونکہ لغت قریش کو باقی لغات پر برتری حاصل ہے اور وہ تمام فصیح کلمات جو دوسری لغتوں میں ہیں وہ لغت قریش میں بھی ہیں۔ اسی لیے قریش عربیت کا معیار اور کسوٹی بن گئی ہے اور عربی قواعد کے لیے اسی لغت کی طرف رجوع کیا جاتا ہے۔

اگر ان کا مقصد یہ ہو کہ قرآن کچھ اور لغات پر بھی مشتمل ہے جو لغت قریش سے ملتی جلتی ہیں تو لغات کو سات میں منحصر کرنے کی کوئی وجہ نظر نہیں آتی بلکہ قرآن میں پچاس لغات موجود ہیں۔ چنانچہ ابوبکر واسطتی کہتے ہیں: ''قرآن میں پچاس لغات موجود ہیں۔ مثلاً لغت قریش، ھذیل، کنانہ، خثعم، خزرج، اشعر، نمیر۔۔۔،،(۱)

۵۔ قبیلہ ئ مضر کی لُغت

بعض علمائے کرام کی رائے یہ ہے کہ سات حروف سے مراد قبیلہ مضر کے مختلف خاندانوں کی لغات ہیں جو پورے قرآن میں پھیلی ہوئی ہیں اور وہ لغات یہ ہیں:

لغت قریش، لغت اسد، لغت کنانہ، لغت ھذیل، لغت تمیم، لغت ضبّۃ، اور لغت قیس، اس احتمال پر بھی وہی اعتراضات ہیں جو چوتھے احتمال پر کئے گئے ہیں۔

____________________

(۱)الاتقان، ج ۱، نوع ۳۷، ص ۲۳۰۔

۲۴۳

۶۔ قراءتوں میں اختلاف

سات حروف سے مراد قراءت کی قسمیں ہیں۔ چنانچہ بعض ماہرین کا کہنا ہے: ہم نے قرآن کی قراءتوں کی بنظر غائر دیکھا ہے جو کہ سات سے زیادہ نہیں ہیں:

۱۔ بعض قراءتیں ایسی ہیں کہ ان سے حرکت تو بدل جاتی ہے مگر کلمے کا معنی اور صورت نہیں بدلتی جیسے''هن اطهرلکم،، یا''اطهرلکم،، پڑھا جائے۔ یعنی ''ر،، کو پیش اور زبر دیا جائے۔

۲۔ بعض قراءتیں ایسی ہیں کہ جن میں حرکت بدلنے سے کلمہ کا معنی اور صورت بدل جاتی ہے جیسے ''ربّنا باعد بین اسفارنا،، میں ''باعد،، کو صیغہ امر ''باعد،، اور صیغہ ماضی ''باعد،، پڑھا جائے۔

۳۔ ان کی بعض صورتوں میں کلمے کی صورت تو ویسی ہی رہتی ہے مگر حروف کے اختلاف سے معنی بدل جاتے ہیں، جیسے ''ننشرھا،، اور ''ننشزھا،، 'را، اور 'زا، کے ساتھ۔

۴۔ بعض میں صورت تو بدل جاتی ہے لیکن اس کامعنی نہیں بدلتا، جیسے ''کالعھن المنفوش،، اور''کالصوف المنفوش،،۔

۵۔ صورت اور معنی دونوں بدل جاتے ہیں، جیسے ''طلح منضود،، اور ''طلع منضود،،۔

۶۔ ان میں کلمات کو مقدم اور مؤخر کردیا جائے، جیسے ''وجاء ت سکرۃ الموت بالحق،، اور ''وجاء ت سکرۃ الحق بالموت۔،،

۷۔ ان میں کمی بیشی کی جائے، جیسے''تسع و تسعون نعجة انثی،، میں''انثیٰ،، ۔''اما الغلام فکان کافراو کان أبواه مومنین،، میں ''فکان کافرا،، اور ''فان اللہ بعد اکراھھن لھن غفور رحیم۔،، میں ''لھن،، بڑھا دیا گیا ہے۔

۲۴۴

جواب:

۱۔ یہ دعویٰ ہی ہے، اس پر کوئی دلیل نہیں ہے اور ان روایات میں جن لوگوں کو مخاطب کیا گیا ہے وہ قراءتوں کے اختلاف کو سمجھتے ہی نہ تھے۔

۲۔ ان سات صورتوں میں معنیٰ کے بدلنے اور نہ بدلنے کی دو صورتیں بنائی گئی ہیں حالانکہ معنی کے بدلنے اور نہ بدلنے سے دو قسمیں نہیں بنتیں۔ کیونکہ معنیٰ کے بدلنے سے لفظ پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔ اس لیے کہ قراءتوں میں اختلاف تلفظ کی بنیاد پر ہے نہ کہ معنی کے۔ لہذا ایسی دو قراءتیں، ایک قراءت ہونی چاہیے نہ کہ دو۔ اس طرح قراءتیں چھ بنتی ہیں نہ کہ سات۔ اسی وجہ سے ''طلح منضود،، اور ''کالعھن المنفوش،، ایک ہی قسم شمار ہوگی۔ دو قسمیں نہیں۔

۳۔ ان قسموں میں لفظ کی صورت کے باقی رہنے جیسے۔ ''ننشزھا۔ ننشرھا،، اور باقی نہ رہنے جیسے ''طلح۔طلع،، کو بھی دو قسمیں قرار دیا گیا ہے حالانکہ یہ بھی دو قسمیں نہیں بلکہ ایک قسم ہے۔ اس لیے کہ اگرچہ کتابت میں ''ننشزھا،، اور ننشرھا،، کی ایک ہی صورت میں لیک تلفظ میں تو مختلف ہے، اس طرح ''طلح،، اور ''طلع،، میں صورت بدلی ہوئی ہے اور ''ننشزھا،، اور ننشرھا،، میں بھی بدلی ہوئی ہے۔ کیونکہ قرآن مکتوب کا نہیں مقرّر (پڑھا جائے) کا نام ہے۔ آسمان سے لفظ نازل ہوا ہے۔ مکتوب ناز نہیں ہوا۔

۴۔ ان سات حروف سے متعلق روایات میں اس بات کی تصریح کی گئی ہے کہ شروع میں قرآن ایک حرف میں نازل کیا گیا اور یہ واضح ہے کہ اس واحد حرف سے مراد مذکورہ اختلاف کی قسموں میں سے کوئی قسم نہیں ہوسکتی۔ لہذا باقی چھ قسمیں بھی ان میں سے نہیں ہونگی۔ بنابرایں سات حروف سے مراد سات قراءتیں نہیں ہوسکتیں۔

۵۔ قرآن کی بہت سی آیات اور کلمات پر تمام قاریوں کا اتفاق ہے اور ان میں کسی کابھی اختلاف نہیں ہے۔ جب اس اتفاقی قراءت کا ان اخلاقی قراءتوں میں اضافہ کریں گے تو مجموعاً آٹھ قراءتیں بنیں گی اور اس کا مطلب یہ ہوگا کہ قرآن آٹھ حروف میں نازل ہوا ہے۔

۲۴۵

۶۔ گذشتہ روایات سے ظاہر ہوتا ہے کہ قاریان قرآن، کلمات قرآن میں اختلاف کرتے تھے، جیسا کہ حضرت عمر کے واقعہ سے ظاہر ہے۔ ان کا یہ اختلاف قرآن کے سات حروف میں سے ایک ہی حرف پر تھا۔ اس اختلاف کو ختم کرنے کے لیے رسول اکرم(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) کو یہ عذر پیش کرنے کی ضرورت نہیں ہونی چاہیے تھی کہ قرآن سات حروف میں نازل ہوا ہے کیا یہ ممکن ہے کہ ان اختلاف کا مطلب ہم یہ لیں کہ جبرئیل نے پہلے قرآن ایک حرف میں نازل کیا پھر دو حرفوں میں اس کے بعد تین میں اور پھر سات حروف میں۔

جزائری نے انصاف سے کام لیا ہے ، وہ فرماتے ہیں: ''اس مسئلے، یعنی سات حروف میں بہت سے اقوال ہیں اور اکثر اقوال حق سے دور ہیں۔،،

ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ اقوال اختیار کرنے والوں کو خبر ہی نہیں کہ سات حروف سے متعلق روایات کس موقع پر بیان کی گئی ہیں، بس جو دل چاہا کہہ دیا۔(۱)

۷۔ اختلاف قراءت کا ایک اور معنی

ان روایات کی تفسیر و تاویل میں ساتواں قول یہ ہے کہ سات حروف سے مراد قراءتوں میں اختلاف ہے جو گذشتہ اختلاف قراءت سے کچھ مختلف ہے۔

____________________

۱) التبیان، ص ۵۹۔

۲۴۶

اس قول کو زرقانی نے اختیار کیا ہے جسے ابو الفضل رازی نے لوائح میں نقل کیا ہے۔ زرقانی فرماتے ہیں:

''کوئی بھی کلام ہو، اس میں سات قسم کے اختلافات ہوسکتے ہیں:

۱۔ اسموں کا مفرد، تثنیہ، جمع، مذکر اور مؤنث ہونے کے اعتبار سے،

۲۔ افعال میں تصریف او گردان کے اعتبار سے، جیسے ماضی ، مضارع اور امر ہے،

۳۔ اعراب اورحرکت کے اعتبار سے،

۴۔ کمی بیشی کے اعتبار سے،

۵۔ تقدیم و تاخیر کے اعتبار سے،

۶۔ کلمات کے ردّ و بدل کے لحاظ سے، اور

۷۔ لغتوں اورلہجوں کے اعتبار سے جیسے فتح امامہ ترقیق تفخیم اظہار ادغام وغیرہ ہیں۔،،

جواب:

چھٹی تاویل پر کئے جانے والے اعتراضات میں سے پہلا، چوتھا اور پانچواں اعتراض اس تاویل پر بھی وارد ہوتا ہے ان کے علاوہ اس پر یہ اعتراض بھی آتا ہے کہ اسماء میں۔ افراد تثنیہ کے اعتبار سے۔ اور افعال میں۔ تصریف کے اعتبار سے اختلاف ہیئت کے ذ یل میں آتا ہے۔ اس کو ایک مستقل قسم بنانے کا کوئی فائدہ نہیں۔ اگر اس تقسیم میں چھوٹی چھوٹی خصوصیات کا لحاظ کریں تو تثنیہ، جمع، مذکر، مؤنث، ماضی، مضارع اور امر ان سب کو مستقل قرار دینا پڑے گا پھر اس اختلاف کی قسمیں سات سے تجاوز کرجائیں گی۔ اس کے علاوہ ایک کلمہ میں ادغام، اظہار، روم، اشمام تخفیف اور تسہیل کے بعد بھی ایک ہی کلمہ شمار ہوتا ہے، زیادہ نہیں اور بقول زرقارنی، ابن قتیبہ نے اس بات کی تصریح کی ہے۔(۱)

____________________

(۱) مناہل العرفان، ص ۱۵۴۔

۲۴۷

حق تو یہ ہے کہ قراءت مںی جتنے بھی اختلاف ہوسکتے ہیں ان سب کی بازگشت چھ قسموں کی طرف ہے۔

۱۔ ہیئت و صورت میں اختلاف ہو مادہ (حروف) میں نہیں۔ جیسے ''باعد،، ماضی اور ''باعد،، امر یا ''امانٰتھم،، جمع اور ''امانتھم،، مفرد میں۔

۲۔ مادہئ (کلمہ) حروف مختلف ہوں۔ ھیئت اور صورت نہیں، جیسے ''ننشزھا،، اور ''ننشرھا،، میں۔

۳۔ مادہ اور ہیئت دونوںمیں اختلاف ہو۔ جیسے ''عھن،، اور ''صوف،، میں ہے۔

۴۔ اعراب کی وجہ سے جملے کی ہیئت و صورت میں اختلاف ہو۔ جیسے ''ارجلکم،، اور ''ارجلکم،، میں ہے۔

۵۔ تقدیم و تاخیر کے اعتبار سے اختلاف ہو۔ اس کی مثال گزر چکی ہے۔

۶۔ کمی اور بیشی کی وجہ سے اختلاف ہو۔ اس کی مثال بھی گزر چکی ہے۔

۸۔ اکائیوں کی کثرت

سات حروف کی تاویل میں آٹھواں قول یہ ہے کےہ سات حروف سے سات کا عدد مراد نہیں ہے بلکہ اس سے اکائیوں کی کثرت کی طرف اشارہ ہے۔ بنابرایں سات حروف سے مراد حروف کی کثرت ہے۔ جیسا کہ ستر سے دھائیوں کی کثرت مراد لی جاتی ہے۔ ستر کا عدد نہیں۔ اسی طرح سات سو سے سینکڑوں کی کثرت مراد لی جاتی ہے، سات سو کا عدد نہیں۔ یہ قول قاضی عیاض اور اس کے پیروکاروں کی طرف منسوب کیا گیا ہے۔

جواب:

یہ احتمال گذشتہ روایات کے ظاہری معنی کے خلاف ہے، بلکہ بعض روایات میں اس احتمال کے خلاف تصریح موجود ہے اس کے علاوہ آٹھویں تاویل گذشتہ سات تاویلات سے الگ کوئی مستقل تاویل نہیں ہے، اس لیے کہ اس میں صرف اتنا بتایا گیا ہے کہ سات سے مراد اکائیوں کی کثرت ہے، لیکن حروف کا کوئی معنی بیان نہیں کیا گیا۔ لہذا لا محالہ گذشتہ سات معانی میں سے کوئی معنی مراد ہوگا اور سات معنوں پر جو اعتراضات کئے گئے ہیں وہ اس پر بھی ہوں گے۔

۲۴۸

۹۔ سات قراءتیں

سات حروف (موضوع بحث) کی نویں تاویل یہ ہے کہ ان سے مراد سات قراءتیں ہیں۔

جواب:

اگر ان سات قراءتوں سے مراد مشہور سات قراءتیں ہیں تو تواتر قرااءات کی بحث میں اس کا بطلان ثابت کیا جاچکا ہے اور اگر سات قراءتوں سے مراد کوئی سی سات قراءتیں ہیں تو قراءتیں صرف سات نہیں ہیں۔

اس تاویل کی یہ توجیہ بھی صحیح نہیں ہے کہ اگرچہ مجموعی طور پر قرآن میں سات سے زیادہ قراءتیں ہیں لیکن اگر ایک ایک کلمہ کو دیکھاجائے تو اس میں سات سے زیادہ قراءتیں نہیں ہیں۔

یہ توجیہ اس لیے صحیح نہیں ہے کہ اگر ان کلمات سے مراد اکثر کلمات ہوں (یعنی ایسے اکثر کلمات جن میں سات قراءتیں پڑھی جاتی ہیں) تو یہ درست نہیں ہے کیونکہ بہت کم کلمات ایسے ہیں جن میں سات قراءتیں پڑھی جاتی ہیں۔

یہ بھی نہیں ہوسکتا کہ ان سے چند کلمات مراد ہوں کیونکہ قرآن کے کچھ کلمے ایسے ہیں جن میں سات سے زیادہ قراءتیں پڑھی جاتی ہیں۔ مثلاً، ''وعبد الطاغوت،، بائیس طریقوں سے پڑھا گیا ہے اور لفظ ''اُفّ،، کو تیس سے زیادہ طریقوں سے پڑھا گیا ہے۔

ان سب کے علاوہ تاویل کی یہ وجہ سات حروف کی روایات کے شان ورود سے بھی ساز گار نہیں ہے۔

۱۰۔ مختلف لہجے

دسویں تاویل یہ ہے کہ روایات میں سے سات حروف سے مراد ایک ہی لفظ کے مختلف لہجے ہیں۔ اس قول کو رافعی نے اپنی کتاب ''اعجاز القرآن،، میں اختیار کیا ہے۔(۱)

____________________

(۱) اعجاز القرآن، ص ۷۰۔

۲۴۹

اس قول کی وضاحت: کلمات کی ادائیگی میں عرب کی ہر قوم و قبیلے کا ایک مخصوص لہجہ ہے۔ اسی لیے ہم عربوں کو سنتے ہیں کہ وہ ایک ہی لفظ مختلف لہجوں میں استعمال کرتے ہیں۔ مثلاً ،یقول کے ''قاف،، کو عراق کے عرب ''گاف،، سے تلفظ کرتے ہیں اور شامی ''ہمزہ،، سے۔ چونکہ تمام قوموں اور قبیلوں کو ایک ہی لہجے کا پابند بنانا جس سے وہ نامانوس ہوں، ایک قسم کی سختی سے اس لیے عربوں کی سہولت اور آسانی کی خاطر متعدد لہجوں میں ادائیگی کی اجازت دی گئی ہے اور سات کا خصوصیت سے ذکر کرنے کا مقصد صرف قراءتوں کی کثرت کی طرف اشارہ کرنا ہے۔ لہذا قراءتوں کا سات سے زیادہ ہونا سات حروف کی روایات کے منافی نہیں ہے۔

جواب:

اگرچہ یہ تاویل باقی نو تاویلوں کی نسبت بہتر ہے۔ مگر پھر بھی نامکمل اور قابل اشکال ہے۔ کیونکہ:

۱۔ یہ تاویل حضرت عمر اور حضرت عثمان کی روایت سے منافات رکھتی ہے جس میں انہوں نے کہا ہے کہ قرآن قریش کی لغت میں نازل ہوا ہے اور یہ کہ حضرت عمر نے ابن مسعود کی لغت ہذیل کے مطابق ''حتی حین،، کی بجائے ''عتی حین،، پڑھنےسے منع کردیا تھا۔

۲۔ یہ تاویل حضرت عمر اور ہشام کے اختلاف کے بھی منافی ہے کیونکہ دونوں کا تعلق قریش سے تھا۔

۳۔ یہ تاویل روایت موقع اور شان ورود کے منافی ہے بلکہ بعض روایات میں اس بات کی تصریح کی گئی ہے کہ اختلاف لہجوں یا ادائیگی کی کیفیت کا نہیں ہے بلکہ اصل لفظ کا ہے اور مختلف الفاظ ہی وہ حروف ہیں جن میں قرآن نازل کیا گی اہے۔

۴۔ لفظ ''سات،، سے کثرت مراد لینا، ظاہر روایت کے خلاف ہے بلکہ بعض روایتوں میں موجود صراحت کے خلاف ہے۔

۵۔ اس تاویل کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ اب بھی قرآن کا مختلف لہجوں میں پڑھاجانا صحیح ہو۔ حالانکہ یہ بات تمام مسلمانوں کی سیرت کے خلاف ہے اور یہ بھی نہیں کہا جاسکتا کہ پہلے تو مختلف لہجوں میں پڑھنا جائز تھا مگر بعد میں یہ بات منسوخ ہوگئی، کیونکہ یہ ایک دعویٰ بلادلیل ہے۔

۲۵۰

یہ بھی ممکن کہ مشہور اور ایک لہجے کے مطابق پڑھے جانے پر جو اجماع قطعی و یقینی قائم ہے اس کو نسخ کی دلیل قرار دیا جائے، کیونکہ اس اجماع کا واحد ماءخذ و مدرک یہ ہے کہ قرآن کا مختلف لہجوں میں نازل ہونا ثابت نہیں اور اگر مختلف لہجوں میں قرآن کی قراءت کا جواز ثابت ہو جیسا کہ آخری تاویل میں دعویٰ کیا گیا ہے تو اس اجماع و اتفاق کی بنیاد منہدم ہو جائیگی۔

اس کے علاوہ نسخ کا احتمال اس لیے بھی درست نہیں کہ رسول اسلامؐ کی متعدد بار درخواست پر قرآن سات حروف میں اس غرض سے نازل کیا گیا تاکہ امت کے لئے سہولت رہے۔ اب یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ یہ سہولت نزول قرآن کے کچھ عرصے تک ہی حاصل رہے اور پھر سلب کرلی جائے اور اس پر اجماع علماء بھی قائم ہو جائے؟

یہ بات پوشیدہ نہیں ہے کہ امت محمدیؐ پہلے کی نسبت آج کے دور میں زیادہ رعایت و سہولت کی محتاج ہے۔ کیونکہ صدر اسلام میں اسلام کے پیروکاروں کی تعداد کم تھی اور قرآن کے ایک لہجے پر سب کا اتفاق ہوسکتا تھا، لیکن بعد میں یہ کام مشکل ہے۔

سات حروف کے بارے میں اتنے اقوال پر ہی اکتفا کرتے ہیں اور باقی اقوال کا ذکر کرنے اور ان کا جواب دینے سے احتراز کرتے ہیں۔

گذشتہ تمام بحث کاخلاصہ یہ ہے کہ قرآن کا سات حروف میں نازل ہونا کوئی صحیح معنی نہیں رکھتا، لہٰذا ان تمام راویتوں کو جو سات حروف پر دلالت کرتی ہیں رد کرنا ضروری ہے۔ خصوصاً جب معصومین (علیہم السلام) کی احادیث بھی اس کی تکذیب کریں اور یہ ثابت کریں کہ قرآن صرف ایک حرف میں نازل ہوا ہے اور اختلاف رایوں کاایجاد کردہ ہے۔

۲۵۱

مسئلہ تحریف قرآن

٭ معنوی تحریف کی تعریف

٭ تحریف کے بارے میں مسلمانوں کا نظریہ

٭ نسخ تلاوت

٭ تحریف، قرآن کی نظر میں

٭ تحریف اور سُنّت

٭ نماز میں سورتوں کی اجازت

٭ خلفاء پر تحریف کا الزام

٭ قائلین تحریف کے شبہات

٭ روایاتِ تحریف

٭ روایات کاحقیقی مفہوم

۲۵۲

اس موضوع میں وارد ہونے قبل مناسب ہے کہ کچھ ایسے امور بیان کئے جائیں جن کا اصل مقصد سے تعلق ہے اور مقصد کی تحقیق اور وضاحت کے لیے ان سے بے نیاز نہیں رہا جاسکتا۔

۱۔ معنی تحریف کی تعریف

لفظ تحریف متعدد معنوں میں مشترکہ طور پر استعمال ہوتا ہے۔ ان میں سے بعض معنیٰ میں قرآن میں تحریف بالاتفاق واقع ہوئی ہے اور بعض میں بالاتفاق واقع نہیں ہوئی اور کچھ کے بارے میں اختلاف ہے، اس کی وضاحت کچھ اس طرح سے ہے:(۱)

i ۔ کسی چیز کو اس کے اپنے اصلی مقام سے ہٹا کر کسی دوسرے مقام پر رکھنے کو تحریف کہتے ہیں۔ جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

( مِّنَ الَّذِينَ هَادُوا يُحَرِّفُونَ الْكَلِمَ عَن مَّوَاضِعِهِ ) (۴:۴۶)

''(اے رسول(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم)) یہود سے کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو باتوں میں ان کے محل و موقع سے ہیر پھیر ڈال دیتے ہیں۔،،

قرآن کریم میں اس معنیٰ میں تحریف واقع ہونے میں کسی کو اختلاف نہیں ہے۔ اس لیے کہ حقیقت قرآن کے معنی مقصود کے خلاف تفسیر کرنے کی کوشش کرنا تحریف ہے اور آپ دیکھتے ہیں کہ اہل بدعت اور فاسد مذاہب کے پیروکار ہمیشہ قرآن کی تعبیر اپنی آراء اور خواہشات کے مطابق کرکے تحریف کے مرتکب ہوئے ہیں اور اس قسم کی تحریف سے شریعت نے بھی

___________________

(۱) ملاحظہ ہو ضمیمہ نمبر۶۔

۲۵۳

منع فرمایا ہے اور اس قسم کے لوگوں کی مذمّت کی ہے۔ چنانچہ امام محمد باقر(علیہ السلام) نے سعد الخیر کے نام اپنے ایک خط میں فرمایا:

''وکان من نبذهم الکتاب أن أقاموا حروفه و حرّفوا حدوده، فهم یروونه ولا یرعونه، والجهال یعجبهم حفظهم للروایة، و العلماء یحزنهم ترکهم للرعایة،، (۱)

''قرآن کو پس پشت ڈالنے کا ان کا ایک طریقہ یہ تھا کہ انہوں نے حروف قرآن کو تو قائم رکھا لیکن اس کی حدود میں تحریف کی۔ وہ قرآن کی روایت تو کرتے ہیں لیکن اس کی رعایت نہیں کرتے۔ جہلاء اس کی روایت کے حفظ کو پسند کرتے ہیں اور علماء اس کی رعایت کے ترک سے محزون ہوتے ہیں۔،،

ii ۔ تحریف کا دوسرا معنیٰ یہ ہے کہ اصل قرآن تو محفوظ ہے لیکن اس کے حروف اور حرکات میں کمی و زیادتی ہوئی ہے۔ چنانچہ ہم ثابت کرچکے ہیں کہ ساری قراءتیں متواتر نہیں ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ قرآن ان قراءتوں میں سے ایک قراءت کے مطابق ہے اور باقی قراءتیں یا زیادتی پر مشتمل ہیں یا ان میں کمی واقع ہوئی ہے۔

iii ۔ تحریف کا ایک معنیٰ یہ لیا جاتا ہے کہ ایک یا دو کلموں کی کمی یا زیادتی ہوئی ہے اور خود اصل قرآن محفوظ ہے۔

اس معنی کے اعتبار سے صدر اسلام اور صحابہ کرام کے دور میں تحریف بنتی ہے اور اس ضمن میں مسلمانوں کا اس بات پر اجماع ہی کافی ہے کہ حضرت عثمان نے متعدد قراءتوں کو جلا دیا تھا اور انہوں نے اپنے والیوں کو حکم دیا تھا کہ وہ ہر اس قرآن کو جلا ڈالیں جو ان کا جمع کردہ نہیں ہے اور یہ اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ وہ قرآن حضرت عثمان کے جمع کردہ قرآن سے مختلف تھے ورنہ انہیں جلانے کی کوئی وجہ نہیں ہے۔ علماء نے وہ مقامات بھی اپنی تحریوں میں بیان کئے ہیں جہاں مختلف قرآنوں میں اختلاف موجود ہے۔ جیسا کہ عبد اللہ بن داؤد سبحستانی نے اپنی کتاب ''کتاب المصاحف،، میں تحریر کیا ہے۔ بنابرایں اس قسم کی تحرف حضرت عثمان کی طرف سے یا دوسرے قرآن لکھنے والوں کی طرف سے یقیناً واقع ہوئی تھی۔

____________________

(۱) الوافی، آخر کتاب الصلوٰۃ، ج ۵، ص ۲۷۴۔

۲۵۴

ہم آگے چل کر یہ بات بھی واضح کریں گے کہ حضرت عثمان نے جس قرآن کو جمع کرنے کا اہتمام کیا تھا وہ عیناً وہی قرآن تھا جو مسلمانوںمیں رائج تھا اور حضرت رسول کریمؐ کے زمانے سے دست بہ دست ان تک پہنچا تھا۔ اس لیے تحریف زیادتی و کمی کی صورت میں اگر واقع ہوئی ہے تو ان قرآنوں میں واقع ہوئی تھی جو حضرت عثمان کے زمانے کے بعد ختم ہوگئے تھے اور اس وقت جو قرآن ہمارے ہاتھ میں ہے، اس میں نہ کوئی کمی ہے اور نہ کوئی زیادتی۔

مختصر یہ کہ جو لوگ دیگر اصحاب کے مصاحف متواتر نہ ہونے کے قائل ہیں، جیسا کہ صحیح بھی یہی ہے تو اس معنیٰ میں اگرچہ

تحریف صدر اوّل میں واقع ہوئی تھی لیکن حضرت عثمان کے دور کے بعد اس قسم کی تحریف منقطع ہوگئی اور وہی قرآن ہمارے پاس باقی رہ گیا ج ورسول اکرم(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) سے تواتر ثابت ہے۔

جو لوگ تمام قرآنوں کے متواتر ہونے کے قائل ہیں ان کو لامحالہ متنازع فیہ معنیٰ میں تحریف قرآن اور قرآن کے کسی حصّے کے صائع ہونے کا قائل ہونا ہوگا۔ اس سلسلے میں طبری اور دوسرے لوگوں کی تصریح کا ذکر ہوچکا ہے کہ حضرت عثمان نے سات حروف میں سے چھ کو کالعدم کر دیا جس میں قرآن نازل ہوا تھا اور قرآن کو ایک ہی حرف میں منحصر کردیا۔(۱)

iv ۔ قرآنی آیات اور سورتوں میں کمی و زیادتی واقع ہوئی ہو لیکن پھر بھی رسول کریمؐ پر نازل شدہ قرآن محفوظ ہو اور رسول کریمؐ نے بھی مسلمہ طور پر ان آیات کی تلاوت فرمائی ہو۔

مثلاً بسم اللہ کے بارے میں مسلمانوں نے اتفاق کیا ہے کہ رسول کریمؐ نے سورہ براءت کے علاوہ تمام سورتوں سے پہلے بسم اللہ کی تلاوت فرمائی ہے اس کے باوجود علماء اہلسنت کا اختلاف ہے کہ آیا بسم اللہ قرآن کا حصّہ ہے؟

ان میں سے بعض نے یہی نظریہ اختیار کیا ہے کہ بسم اللہ قرآن کا حصہ نہیں ہے۔ بلکہ مالکی نظریہ یہ ہے کہ نماز میں سورۃ فاتحہ سے پہلے بسم اللہ پڑھنا مکروہ ہے۔ لیکن اگر نمازی اختلاف سے نکلنے کے لیے اس کو پڑھے مکروہ نہیں ہے۔

____________________

(۱) قرآن کے سات حروف میں نازل ہونے کے باب کی طرف رجوع فرمائیں۔

۲۵۵

ایک اور جماعت کا کہنا ہے کہ بسم اللہ قرآن کا حصہ ہے۔ شیعوں کے نزدیک مسلم ہے کہ بسم اللہ سوائے سورہ توبہ کے باقی سورتوں کی جزء ہے اور یہ قول بعض علماء اہل سنت نے بھی اختیار کیا ہے چنانچہ اس کی تفصیل سورہ فاتحہ کی تفسیر کے دوران بیان کی جائے گی۔ اس سے یہ بات ثابت ہ وجاتی ہے کہ قرآن میں (مثلاً بسم اللہ ہی کے بارے میں) کمی یا زیادتی واقع ہوئی ہے۔

v ۔ تحریف کا پانچواں معنی یہ ہے کہ جو قرآن اس وقت ہمارے ہاتھ میں ہے اس کا بعض حصہ قرآن نہیں ہے۔

تحریف کی اس قسم کے باطل ہونے پر تمام مسلمانوں کا اجماع ے بلکہ اس کا باطل ہونا بدیہی و آشکار ہے۔

vi ۔ کمی کے اعتبار سے تحریف ہو۔ بایں معنی کہ اس وقت جو قرآن ہمارے ہاتھ میں ہے وہ اس سارے قرآن پر مشتمل نہ ہو جو آسمان سے نازل ہوا ہے بلکہ اس کا بعض حصہ لوگوں کے ہاتھ سے ضائع ہوگیا ہو۔

ا س معنی میں تحریف محل بحث ہے۔ بعض اس تحریف کے قائل ہیں اور بعض منکر ہیں۔

۲۔ تحریف کے بارے میں مسلمانوں کا نظریہ

مسلمانوں میں مشہور قول یہی ہے کہ قرآن میں تحریف واقع نہیں ہوئی اور جو قرآن اس وقت ہمارے ہاتھ میں ہے، وہ وہی مکمل قرآن ہے جو رسول اکرم(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) پر نازل ہوا ہے۔ بہت سے علماء اعلام نے اس کی تصریح فرمائی ہے۔ جیسے رئیس المحدثین شیخ صدوق محمد بن بابویہ ہیں۔ انہوں نے فرمایا ہے کہ عقیدہئ عدم تحریف، عقائد امامیہ کا ایک حصہ ہے۔ انہی علماء میں شیخ ابو جعفر محمد بن الحسن الطوقی ہیں، جنہوں نے اپنی تفسیر التبیان میں اس کی تصریح فرمائی ہے اور اس قول کو اپنے محترم استاد سید مرتضیٰ علم الہدیٰ سے نقل فرمایا ہے۔ اس کے علاوہ انہوں نے عدم تحریف پر علم الہدیٰ کی نہایت مضبوط دلیل بھی نقل کی ہے۔

انہی علماء میں مشہو رمفسر طبرسی بھی شامل ہیں، جنہوں نے اپنی تفسیر مجمع البیان کے مقدمے میں ا س کی تصریح فرمائی ہے۔

انہی علماء میں شیخ الفقہا الشیخ جعفر بھی ہیں جنہوں نے اپنی کتاب ''کشف الغطائ،، میں قرآن پر بحث کے دوران عدم تحریف پر اجماع کا دعویٰ فرمایا ہے۔

۲۵۶

انہی علماء میں جلیل القدر علامہ شہشھانی بھی شامل ہیں۔ انہو ںنے اپنی کتاب ''العروۃ الوثقیٰ،، میں قرآن مجید پر بحث کے دوران اسی نظریئے کو اختیار کیا ہے اور اکثر مجتہدین کی طرف اس قول کی نسبت دی ہے۔

مشہور محّدث مولیٰ محسن کاشانی بھی انہی علماء میں سے ہیں۔ انہوں نے اپنی دونو ںکتب(۱) میں اسی قول کو اختیار فرمایا ہے۔

جلیل عالم اور مجاہد شیخ محمد بلاغی بھی انہی علماء میں سے ہیں۔ انہوں نے بھی اپنی تفسیر ''آلاء الرحمن،، میں یہی فرمایا ہے۔

علماء کی ایک جماعت نے بھی عدم تحریف کا قول بہت سے بزرگ علماء سے نقل کیا ہے۔ جیسا کہ شیخ المشایخ شیخ مفید، شیخ بہائی، محقق قاضی نور اللہ اور اس پایہ کے دیگر علماء کرام ہیں۔

یہ کہا جاسکتا ہے کہ شیعہ علماء میں سے جس نے بھی امامت کے موضوع پر کتاب لکھی ہے اور اس سلسلے میں جو ناخوشگوار واقعات تاریخ میں پیش آئے ہیں، ان سب کا ذکر انہوں نے کیا ہے لیکن تحریف قرآن کا کہیں ذکر نہیں ملتا۔ لہذا اگر ان کا نظریہ تحریف قرآن کا ہوتا تو وہ ضرور اس کا ذکر کرتے۔ اس لیے کہ یہ بات قرآن کو نذر آتش کرنے کے واقعہ سے کہیں زیادہ اہم اور قابل ذکر ہے۔

مختصر یہ کہ علماء محققین میں یہ امر مسلم ہے کہ قرآن میں تحریف نہیں ہوئی۔ البتہ شیعوں میں محدثین کی ایک جماعت اور کچھ علمائے اہل سنت تحریف کے قائل ہیں۔

رافعی کہتے ہیں:

''اہل کلام میں سے کچھ لوگ، جن کو سوائے ظن و تاویل اور ہر امر اور قول میں جدلی اسلوب اختیار کرنے کے اس فن میں دست رسی حاصل نہیں تھی، کہتے ہیں کہ ممکن ہے کہ قرآن میں سے کچھ چیزیں ساقط ہوگئی ہوں۔ یہ بات انہوں نے

____________________

(۱) الوافی، ج ۵، ص ۲۷۴ اور علم الیقین، ص ۱۳۰۔

۲۵۷

جمع قرآن کے سلسلے میں واقع ہونے والے حالات سے اخذ کی ہے۔،،(۱)

طبرسی نے ''مجمع البیان،،میں تحریف قرآن کے قول کو سنیوں کے ایک مذہب ''حشویہ،، کی طرف نسبت دی ہے۔

مؤلف: عنقریب آپ کے سامنے یہ بات واضح ہوجائے گی کہ نسخ تلاوت عیناً تحریف ہے۔ بنابرایں نسخ تلاوت کے نظریہ، جو علماء اہل سنت میں مشہور ہے، کا لازمہ ہے کہ تحریف کا نظریہ بھی مشہور ہو (یعنی جس کے نزدیک نسخ تلاوت مشہور ہے اس کے نزدیک تحریف قرآن بھی مشہور ہوناچاہیے)۔

۳۔ نسخ تلاوت

اکثر علماء اہل سنت نے اس بات کا ذکر کیا ہے کہ بعض قرآن کی تلاوت منسوخ ہوگئی ہے اور بعض راویات میں وارد شدہ اس مفہوم: ''اءنہ کان قرآناً علی عھد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کو انہوں نے نسخ تلاوت سمجھا ہے۔ پس ہمارے لیے مناسب ہے کہ اس قسم کی روایات کا ذکر کریں تاکہ واضح ہوجائے اس قسم کی روایات کو مان لینا تحریف قرآن کو ماننے کے مترادف ہے:

۱۔ ابن عباس سے روایت ہے کہ حضرت عمر نے منبر پر فرمایا:

''خدا نے محمدؐ ک وبرحق مبعوث فرمایا اور آپ پر کتاب نازل فرمائی۔ اس کتاب میں آیہ رجم بھی تھی۔ ہم نے اس کی تلاوت کی، ا س کو سمجھا اور اسے یا دیا۔ اسی لیے جب رسول(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) نے سنگساری فرمائی اس کے بعد ہم نے بھی سنگساری کی۔ مگر مجھے ڈر ہے کہ اس امت پر ایک ایسا وقت آئے گا جب کوئے کہنے والا یہ کہے گا کہ قسم بخدا آیہ رجم قرآن میں نہیں ہے اور اس طرح خدا کا ایک حکم ترک ہو جائے گا او رلوگ گمراہی میں مبتلا ہوجائیں گے، ہاں! حکم رجم، یعنی سنگساری کا حکم قرآن میں ہر اس مرد اور عورت کے لئے معین ہے جو بیوی رکھنے کے باوجود زنا کا مرتکب ہو اور جو آیہ ہم قرآن میں پڑھتے تھے وہ یہ تھی:أن لا ترغبوا عن آبائکم فانه کفر بکم أن ترغبوا عن آبائکم یا وہ اس طرح تھی:ان کفرا بکم ان ترغبوا عن آبائکم ۔(۲)

____________________

(۱) اعجاز القرآن، ص ۴۱۔

(۲) صحیح بخاری، ج ۸، ص ۲۶۔ صحیح مسلم ، ج ۵، ص ۱۱۶۔

۲۵۸

سیوطی لکھتے ہیں کہ ابن اشتر نے اپنی کتاب ''مصاحف،، میں لیث بن سعد سے روایت کی ہے:

''سب سے پہلے حضرت ابو بکر نے قرآن جمع کیا اور زید نے ان کے لیے لکھا اور جب حضرت عمر آیہ رجم لے کر آئے تو اس نے اسے نہیں لکھا، اس لیے کہ حضرت عمر اکیلے تھے۔(۱)

مؤلف: آیہ رجم، جس کے بارے میں حضرت عمر کا دعویٰ ہے کہ یہ قرآن کا حصہ ہے اور اسے قبول نہیں کیا گیا، اس کی چند صورتیں روایت ہوئی ہیں اور ان میں سے کچھ یہ ہیں:

i ۔''اذا زنی الشیخ و الشیخه فارجموهما البتة، نکالاً من الله، و الله عزیز حکیم،،

ii ۔''الشیخ و الشیخ ةفارجموهما البتة بما قضیا من اللذة،،

iii ۔''ان الشیخ و الشیخه اذا زنیا فارجموهما ألبتة،،

بہرحال موجودہ قرآن میں ایسی کوئی آیت نہیں ہے جس سے رجم کا حکم نکالا جاسکے۔ پس بنابرایں قرآن کے دو تہائی سے زیادہ حصے ساقط ہوگئے ہیں۔

۲۔ طبرانی نے موثق سند سے حضرت عمر بن الخطاب سے روایت کی ہے:

''قرآن دس لاکھ ستائیس ہزار حروف پر مشتمل ہے۔،،(۲)

جبکہ جو قرآن اس وقت ہمارے ہاتھ میں ہے یہ اس مقدار کے ایک تہائی بھی نہیں ہے۔ پس بنابرایں قرآن کے دو تہائی سے زیادہ حصے ساقط ہوگئے ہیں۔

____________________

(۱) الاتقان، ج ۱، ص ۱۰۱۔

(۲) الاتقان،ج ۱، ص ۱۲۱۔

۲۵۹

۳۔ ابن عباس نے حضرت عمر سے روایت کی ہے کہ انہوں نے کہا:

''اللہ تعالیٰ نے محمدؐ کو بر حق مبعوث فرمایا اور آپ پر کتاب نازل فرمائی۔ اس میں سنگساری کی آیہ بھی تھی۔ رسول اللہ(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) نے سنگساری رفمائی۔ اس کے بعد ہم نے بھی سنگساری کی۔ پھر کہا: ہم اس آیہ کو اسطرح پڑھتے تھے:''ولا ترغبوا عن آبائکم فانه کفر بکم،، یا''ان کفرا بکم ان ترغبوا عن آبائکم،، (۱)

۴۔ نافع روایت کرتا ہے کہ ابن عمر نے کہا:

''تم میں سے شاید کوئی یہ کہے کہ اس نے پورا قرآن پڑھ لیا ہے۔ اسے کیا پتہ کہ یہ پورا قرآن نہیں ہے اور اس کا ایک کثیر حصہ ضائع ہوچکا ہے۔ لہذا اسے یہ کہنا چاہیے کہ اس قرآن کا وہ حصہ اس نے لیا ہے جو موجود ہے۔(۲)

۵۔ عروۃ بن زبیر حضرت عائشہ سے روایت کرتا ہے کہ انہوں نے کہا:

''رسول اکرم(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) کے زمانے میں سورہ احزاب دو سو آیات پر مشتمل ہوا کرتی تھی لیکن جب حضرت عثمان نے قرآن لکھا تو اس وقت وہی سورے رہ گئے جو اب ہمارے ہاتھ میں موجود ہیں۔،،(۳)

۶۔ ابو یونس کی دختر حمیدہ ناقل ہے:

''میرے والد جو ۸۰ سالہ تھے، حضرت عائشہ کے قرآن سے یہ آیہ پڑھا کرتے تھے:

''ان الله و ملائکته یصلون علی النبی یاأیها الذین آمنوا صلوا علیه و سلموا تسلیما، و علی الذین یصلون الصفوف الأول،، حمیدہ کہتی ہے: قرآن میں حضرت عثمان کے تغیر و تبدل کرنے سے پہلے کی یہ بات ہے۔،،(۴)

____________________

(۱) مسند احمد، ج ۱، ص ۴۸۔

(۲) الاتقان،ج ۲، ص ۴۰۔۴۱۔

(۳) ایضاً۔

(۴) الاتقان، ج ۲، ص ۴۰۔۴۱۔

۲۶۰

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

ثُمَّ أَنتُمْ هَؤُلاء تَقْتُلُونَ أَنفُسَكُمْ وَتُخْرِجُونَ فَرِيقاً مِّنكُم مِّن دِيَارِهِمْ تَظَاهَرُونَ عَلَيْهِم بِالإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ وَإِن يَأتُوكُمْ أُسَارَى تُفَادُوهُمْ وَهُوَ مُحَرَّمٌ عَلَيْكُمْ إِخْرَاجُهُمْ أَفَتُؤْمِنُونَ بِبَعْضِ الْكِتَابِ وَتَكْفُرُونَ بِبَعْضٍ فَمَا جَزَاء مَن يَفْعَلُ ذَلِكَ مِنكُمْ إِلاَّ خِزْيٌ فِي الْحَيوةِ الدُّنْيَا وَيَوْمَ الْقِيَامَةِ يُرَدُّونَ إِلَى أَشَدِّ الْعَذَابِ وَمَا اللّهُ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُونَ ( ۸۵ )

ليكن اس كے بعدتم نے قتل و خون شروع كرديا _ لوگوں كوعلاقہ سے باہر نكالنے لگے اور گناہ وتعدى ميں ظالموں كى مدد كرنے لگے حالانكہكوئي قيدى بن كر آتاہے تو فديہ دے كرآزادبھى كراليتے ہو جب كہ شروع سے ان كانكالنا ہى حرام تھا_ كيا تم كتاب كے ايكحصہ پر ايمان ركھتےہو اور ايك كا انكاركرديتے ہو_ ايساكرنے والوں كى كيا سزا ہےسوائے اس كے كہ زندگانى دنيا ميں ذليلہوں اور قيامت كے دن سخت ترين عذاب كيطرف پلٹا ديئے جائيں گے_ اور اللہ تمھارےكر توت سے بےخبر نہيں ہے(۸۵)

۱ _ زمانہ بعثت كے بنى اسرائيل باوجود اس كے كہ پيمان الہى كا اعتراف ( خونريزى سے اجتناب) كرتے تھے پھر بھى ايك دوسرے كو قتل كرتے تھے_ثم اقررتم ثم انتم هولاء تقتلون أنفسكم

''ثم انتم ہولاء تم ہى ہو'' ميں لفظ ''ہولائ'' اس مطلب كى طرف اشارہ ہے كہ آيہ مجيدہ جس مورد كو بيان كررہى ہے وہ زمانہ بعثت كے بنى اسرائيل ہيں _ اس آيت كے خطا بات گذشتہ خطابات كى طرح نہيں ہيں جن ميں بنى اسرائيل

كے اسلاف كى صفات كو موجودہ بنى اسرائيل كى طرف نسبت دى گئي ہے _

۲ _ بعض بنى اسرائيل نے اپنے دينى بھائيوں كو انكے گھر اور وطن سے دربدر كركے الہى عہد و پيمان كو توڑا_

ثم انتم هولاء تخرجون فريقا منكم من ديارهم

مورد بحث آيت ان جنگوں اور قتل و غارت گرى كى طرف اشارہ كررہى ہے جو آنحضرت (ص) كى ہجرت سے قبل مدينہ كے يہودى قبائل ميں ہوتى تھيں _ بنى نضير كے يہودى بنى قريظہ كے يہوديوں سے دست و گريبان تھے جو جس پر غلبہ حاصل كرليتا دوسرے كو اسكے گھر اور جائے سكونت سے نكال كر دربدر كرديتا_

۳ _ بنى اسرائيل اپنے بعض دينى بھائيوں كو دربدر كرنے كے ليئے ايك دوسرے كى مدد و نصرت كرتے تھے _تظاهرون عليهم ''تظاہرون'' كا مصدر ''تظاہر'' ہے جسكا معنى ہے ايك دوسرے كى مدد كرنا ''تظاہرون عليہم'' يعنى ايك قبيلے كى دوسرے قبيلے كے ساتھ كشمكش اور ٹكراؤ كے دوران تم ميں سے بعض افراد ايك دوسرے كى مدد كرتے تھے_

۲۸۱

۴ _ اپنے دينى بھائيوں كو ان كے گھر سے دربدر كرنے كے لئے ايك دوسرے كى مدد كرنے كے باعث بنى اسرائيل گناہگار اور متجاوز لوگ تھے_تظاهرون عليهم بالاثم والعدوان

''بالاثم'' ميں باء ملابستہ ہے ''بالاثم و العدوان'' ، '' تظاہرون'' كے فاعل كے لئے حال ہے يعنى ان كے خلاف تم ايك دوسرے كى مدد كرتے تھے در آں حاليكہ تم گناہگار اور متجاوز تھے_

۵ _ اديان الہى پر اعتقاد ركھنے والے لوگوں كو نہ توايك دوسرے كو قتل كرنا چاہيئے اور نہ ہى ايك گروہ دوسرے كو اس كے گھر يا وطن سے دربدر كرے _ثم انتم هؤلاء تقتلون أنفسكم و تخرجون فريقاً منكم من ديارهم

۶ _ اديان الہى پر اعتقاد ركھنے والوں كو چاہيئے كہ اپنے دينى بھائيوں كو قتل كرنے يا ان كو دربدر كرنے ميں قاتلوں يا دربدر كرنے والوں كى مدد نہ كريں _تظاهرون عليهم بالاثم والعدوان

۷ _ اہل دين كے قاتلوں اور دربدر كرنے والوں كى مدد كرنا گناہ اور تجاوز ہے_تظاهرون عليهم بالاثم والعدوان

۸ _ گناہگاروں كے گناہ ميں مد د كرنا حرام ہے _تظاهرون عليهم بالاثم و العدوان

۹ _ بنى اسرائيل اپنے دينى بھائيوں كى قيد سے رہائي كے لئے فديہ ديتے تھے اگر چہ ان كے خلاف انہوں نے ہى لڑائي كى ہوتى اور ان كو ان كے گھر سے دربدر كيا ہوتا_و ان ياتوكم اسارى تفادوهم

''ياتوا'' كى ضمير ''فريقا'' كى طرف لوٹتى ہے _ ''تفادوا''كا مصدر ''مفادات'' ہے جسكا معنى ہے قيد سے رہائي كے لئے فديہ ادا كرنا يا اسى طرح كے معانى ہيں _پس ''ان ياتوكم اسارى ...'' كا معنى يہ بنتاہے وہى گروہ يا قبيلہ جس كو تم نے دربدر كيا ہو تا اگر دشمن كے ہتھے چڑھ جاتے تو تم فديہ ادا كركے ان كو آزاد كرواتے تھے_

۱۰_ بنى اسرائيل كا اپنے اسيروں كى آزادى كے لئے كوشش كرنا ان كى آسمانى كتابوں كے فرامين ميں سے تھا_و ان ياتوكم اسارى تفادوهم افتؤمنون ببعض الكتاب

''أفتؤمنون ببعض الكتاب'' اس معنى پر دلالت كرتاہے كہ يہوديوں كا يہودى اسيروں كو آزاد كرانے كا محرك يا جذبہ تورات كے احكام پر عمل كرنا تھا_

۱۱ _ اپنے دينى بھائيوں كے سلسلے ميں بنى اسرائيل كے معاشرتى سلوك ميں تناقض پايا جاتا تھا_

و ان ياتوكم اسارى تفادوهم و هو محرم عليكم اخراجهم اس جملہ ميں ضمير ''ہو'' ضمير شان ہے _ ''اخراجہم'' مبتدا ہے

۲۸۲

اور '' محرم عليكم'' اسكى خبر ہے يعنى جن كو تم نے خود دربدر كيا ہوتا تھا انكى آزادى كے لئے بھى خود ہى فديہ ديتے تھے جبكہ ان كو دربدر كرنا تم پر حرام تھا_

۱۲ _ بنى اسرائيل اپنے دينى بھائيوں كے قيد ہوجانے كے بعد ان كى آزادى كے لئے انہى سے فديہ ليتے تھے_

و ان ياتوكم اسارى تفادوهمبعض اہل لغت نے '' تفادو' ' كا معنى '' تم فديہ ليتے تھے'' كيا ہے _ اس اعتبار سے '' و ان ياتوكم ...'' كا معنى يہ ہوگا كہ تمہارے دينى بھائي جب اسير بن كے تمہارے پاس آتے تو تم ان كى آزادى كے لئے ان سے فديہ ليتے تھے_

۱۳ _ اپنے دينى بھائيوں كى آزادى كے لئے ان سے فديہ لينا دين يہود كے محرمات ميں سے تھا_و ان ياتوكم اسارى تفادوهم

۱۴ _ بنى اسرائيل كے نسلى تعصبات اور دين كے مقابل ان كے اعمال ( تورات كے بعض احكام پہ عمل كرنا اور بعض پر عمل نہ كرنا ) كے باعث اللہ تعالى نے ان كى توبيخ و سرزنش كى _أفتؤمنون ببعض الكتاب و تكفرون ببعض

'' أفتؤمنون'' اور '' تكفرون'' ميں ايمان اور كفر سے مراد عمل كرنا اور عمل نہ كرنا ہے_

۱۵ _ بنى اسرائيل تورات كے بعض احكام پر عمل كرتے اور بعض كى اعتنا نہ كرتے تھے_أفتؤمنون ببعض الكتاب و تكفرون ببعض

۱۶ _ آسمانى كتاب كے تمام تر احكام كى پابندى اس كتاب پر ايمان لانے والوں كا فريضہ ہے _أفتؤمنون ببعض الكتاب و تكفرون ببعض

۱۷_ آسمانى كتاب پر ايمان كى دليل اسكے احكامات پر عمل كرنا ہے _أفتؤمنون ببعض الكتاب

جملہ''وان ياتوكم ...''پر ''أفتؤمنون ...'' كى حرف فاء كے ذريعے تفريع اس مفہوم و معنى كى طرف اشارہ ہے يعنى يہ جو تم لوگ تورات كے حكم كے مطابق اسيروں كى آزادى كے در پے ہو تو گويا تورات كے اس حصے پر عمل پيرا ہو ليكن اپنے دينى بھائيوں كو جو دربدر كرتے ہو اس سے معلوم ہوتاہے كہ اس كام كى حرمت ( جو تورات ميں آئي ہے) كے منكرو كافر ہو _ پس دينى احكام پر عمل كرنا ايمان كى دليل ہے اور ان كو ترك كردينا كفر كى طرح ہے _

۱۸ _ سماوى كتاب كے فرامين و احكام پہ عمل نہ كرنا انكار كرنے كى طرح ہے اور اس كتاب كا كفر اختيار كرنے كى دليل ہے _أفتؤمنون و تكفرون ببعض

۲۸۳

۱۹_ جن يہوديوں نے عہد و پيمان الہى كو توڑا ان كى سزا دنيا ميں ذلت و خوارى ہے_إذ أخذنا ميثاقكم فما جزاء من يفعل ذلك منكم الاخزى فى الحى وة الدنيا '' ذلك'' ان تمام كاموں كى طرف اشارہ ہے جو آيہ مجيدہ نے يہوديوں كے بارے ميں نقل كيئے ہيں اور ان كاموں كو ناپسند گرداناگياہے ان كاموں ميں سے عہد و پيمان الہى كى پابندى نہ كرنا ، اپنے دينى بھائيوں كو قتل كرنا وغيرہ ہے _

۲۰ _ دنيا ميں ذلت و خوارى ميں مبتلا ہونا ان يہوديوں كى سزا ہے جنہوں نے ايك دوسرے كو قتل كيا اور اپنے دينى بھائيوں كو دربدر كيا _تقتلون أنفسكم فما جزاء من يفعل ذلك منكم الاخزى فى الحياة الدنيا

۱ ۲_ آخرت ميں شديد ترين عذاب ان يہوديوں كے لئے ہے جنہوں نے الہى عہد و پيمان كو توڑا _

إذ أخذنا ميثاقكم ويوم القيامة يردون الى اشد العذاب''العذاب'' كى طرف ''اشد_ شديد ترين '' كا اضافہ يہ صفت كا موصوف كى طرف اضافہ ہے يعنى ''العذاب الاشد''

۲۲_ جن يہوديوں نے اپنے دينى بھائيوں كو دربدر كيا يا ان كو قتل كيا ان كو قيامت ميں شديدترين عذاب ہوگا_تقتلون أنفسكم و يوم القيامة يردون الى اشد العذاب

۲۳ _ جن يہوديوں نے آسمانى كتاب ميں تبعيض (تورات كے بعض احكام پر عمل كيا اور بعض كو ترك كيا) انجام دى ان كى سزا دنيا ميں ذلت و خوارى ہے _أفتؤمنون ببعض فما جزاء من يفعل ذلك منكم الاخزى فى الحياة الدنيا

۲۴ _ وہ يہودى جو تورات كے احكام اور معارف كے ساتھ تبعيض كرتے تھے قيامت كے روز شديدترين عذاب ميں مبتلا ہوں گے _أفتؤمنون ببعض و يوم القيامة يردون الى اشد العذاب

۲۵ _ اخروى عذاب كے مختلف درجات ہيں _و يوم القيامة يردون الى اشد العذاب

۲۶ _ زمانہ بعثت كے بعض يہود، الہى عہد و پيمان پر عمل پيرا ہو كر ان كى پابندى كرتے تھے اور اپنے دينى بھائيوں كو قتل كرنے اور دربدر كرنے سے اجتناب كرتے تھے _فما جزاء من يفعل ذلك منكم ماسبق خطا بات كا سياق اس بات كا تقاضا كرتاہے كہ يہ جملہ ''فما جزاء ...'' يوں ہو ''فما جزاء كم بما تفعلون الا خزي'' _ تا ہم سياق سے اسطرح كا تغير اس مطلب كى طرف اشارہ ہے كہ سب يہودى ناروا اور بے جا اعمال كے مرتكب نہيں ہوئے جبكہ ''منكم'' كا من تبعيضيہ اس بات كى تائيد كررہاہے_

۲۸۴

۲۷ _ ايمان اور عمل ميں تبعيض ( بعض كو انجام دينا اور بعض كو ترك كردينا) دنيا ميں ذلت و خوارى اور آخرت ميں شديد عذاب كا باعث ہے_ما جزاء من يفعل ذلك منكم الا خزى فى الحياة الدنيا و يوم القيامة يردون الى اشد العذاب

۸ ۲ _ الہى مكتب پر اعتقاد ركھنے والے اگر اپنے دينى بھائيوں كو قتل كريں يا ان كو دربدر كريں تو دنيا ميں ذليل و خوار ہوں گے اور آخرت كے سخت ترين عذاب ميں مبتلا ہوں گے _فما جزاء من يفعل و يوم القيامة يردون الى اشد العذاب

۲۹_ داخلى جنگيں اور برادر كشى گناہان كبيرہ ميں سے ہيں جو دنيا ميں ذلت و خوارى كا سبب اور آخرت ميں عذاب كا باعث ہيں _تقتلون أنفسكم فما جزاء من يفعل ذلك منكم الا خزى فى الحياة الدنيا و يوم القيامة يردون الى اشد العذاب يہ گناہ چونكہ سخت ترين عذاب كا موجب ہيں اس سے معلوم ہوتاہے كہ يہ گناہان كبيرہ ہيں _

۳۰_ گناہگاروں كو اخروى عذاب كے علاوہ دنيا ميں بھى سزائيں مليں گى _فما جزاء من يفعل ذلك منكم الا خزى فى الحياة الدنيا

۳۱ _ اللہ تعالى انسان كے تمام تر اعمال و كردار سے آگاہ ہے _و ما الله بغافل عما تعملون

۳۲ _ اس بات كى طرف توجہ اور يقين كہ اللہ تعالى تمام اعمال سے آگاہ ہے انسان كو الہى عہد و پيمان توڑنے اور گناہ انجام دينے سے روكتاہے _و ما الله بغافل عما تعملون اللہ تعالى كے انسانى اعمال كے ناظر و شاہد ہونے كو بيان كرنے كا مقصد يہ ہے كہ انسان اللہ تعالى كے ناظر ہونے پر توجہ ركھيں تا كہ ناجائز اعمال سے پرہيز كريں _ بنابريں اللہ تعالى كى آگاہى اور نظارت كا تقاضا يہى ہے_

۳۳ _ امام صادقعليه‌السلام سے روايت ہے كہ آپعليه‌السلام نے ارشاد فرمايا ''.. الكفر فى كتاب الله على خمسة اوجه والوجه الرابع من الكفر ترك ما امر الله عزوجل به و هو قول الله عزوجل '' أفتؤمنون ببعض الكتاب و تكفرون ببعض فما جزاء من يفعل ذلك منكم'' فكفّرهم بترك ما امر الله عزوجل به ونسبهم الى الايمان و لم يقبله منهم و لم ينفعهم عنده (۱) اللہ تعالى كى كتاب ميں كفر كى پانچ قسميں ہيں اور چوتھى قسم اوامر الہى كا ترك كرناہے اور وہ اللہ تعالى كا يہ كلام ہے

____________________

۱) كافى ج/۲ ص ۳۹۰ ح/۱ نورالثقلين ج/۱ ص۹۵ ح ۲۶۹_

۲۸۵

''أفتؤمنون ببعض الكتاب و تكفرون ببعض فما جزاء من يفعل ذلك منكم'' پس اللہ تعالى نے ان كو اوامر الہى ترك كرنے كى وجہ سے كافر قرار ديا ہے_ اگر چہ ان كى طرف ايمان كى نسبت دى ہے ليكن يہ ايمان قابل قبول نہيں ہے اور خدا تعالى كے ہاں سے ان كو كوئي منفعت حاصل نہ ہوگي_

آسمانى كتابيں : آسمانى كتابوں پر عمل ۱۶،۱۷،۱۸

احكام: ۸

اسير: اسير كى آزادى ۱۳; اسير كى آزادى كى اہميت ۱۰; اسير كے لئے فديہ ۹،۱۲،۱۳

اللہ تعالى : اللہ تعالى كى سرزنشيں ۱۴; اللہ تعالى كا علم ۳۱; عہد الہى سے وفا ۲۶

انسان : انسان كا عمل ۳۱

ايمان : خدا كے علم پر ايمان كے نتائج ۳۲; قرآن كريم كے بعض حصے پر ايمان۳۳; ايمان كے متعلقات ۳۳; آسمانى كتاب پر ايمان كى علامتيں ۱۷

برادركشى : برادركشى كے نتائج۲۹; برادركشى كا گناہ ۲۹

بنى اسرائيل : بنى اسرائيل كے اسيروں كى آزادى ۹،۱۲; بنى اسرائيل كا اقرار ۱; صدر اسلام كے بنى اسرائيل ۱; بنى اسرائيل اور تورات ۱۵; بنى اسرائيل كى تاريخ ۱،۲،۳،۴،۹،۱۲; بنى اسرائيل كى وطن بدرى يا دربدرى ۲،۳،۴; بنى اسرائيل كے دربدر لوگ ۲; بنى اسرائيل كى تجاوزگرى ۴; بنى اسرائيل كى سماوى كتب كى تعليمات ۱۰; بنى اسرائيل كے جرائم ۱،۲ ، ۳،۴; بنى اسرائيل كے معاشرتى روابط ۱۱; بنى اسرائيل كى سرزنش ۱۴; بنى اسرائيل كا شرعى تكليف پر عمل ۱۴; اللہ تعالى كا بنى اسرائيل كے ساتھ عہد ۱; بنى اسرائيل كى عہد شكنى ۱،۲; بنى اسرائيل كا فديہ ۱۲; بنى اسرائيل ميں قتل كا واقعہ ۱،۳; بنى اسرائيل كا گناہ ۴

تجاوز: تجاوز كے موارد ۷ تورات: تورات كے بعض حصے پر عمل ۱۵،۲۳،۲۴

جرائم: جرائم ميں اعانت ۳،۴،۶،۷

جنگ: خانہ جنگى كے نتائج ۲۹; خانہ جنگى كا گناہ ۲۹

حديث: ۳۳ دربدر كرنا : دربدر كرنے سے اجتناب ۲۶; دربدر كرنے كى سزا ۲۸

دربدر كرنے والے: دربدر كرنے والوں كى مدد كرنے سے اجتناب ۶; دربدر كرنے والوں كى امداد ۷

۲۸۶

دين: دين كے بعض حصے پر عمل كے نتائج ۲۷; دين كا جزء جزء كرنا بعض پر عمل اور بعض كى مخالفت كرنا ۱۴ ، ۱۵; دين كو قبول كرنے ميں جزء جزء كرنا (بعض كو قبول اور بعض كو رد كرنا ) ۱۴،۲۳،۲۴

دين دار: دين داروں كو دربدر كرنے سے اجتناب ۵ دينداروں كے قتل سے اجتناب ۵;د ين داروں كى ذمہ دارى ۵،۶; دين داروں كو تنبيہ ۲۸

ذلت: دنياوى ذلت كے اسباب ۱۹،۲۰،۲۳، ۲۷، ۲۸، ۲۹

عذاب: شديد عذاب ۲۱،۲۲،۲۴،۲۷،۲۸; عذاب كے درجات ۲۱،۲۲،۲۴،۲۷،۲۸; عذاب كے اخروى درجات ۲۵; اخروى عذاب كے موجبات ۲۷، ۲۸ ، ۲۹

قاتل: قاتل كى امداد سے اجتناب۶; قاتل كى امداد ۷

قتل: قتل سے اجتناب ۱،۲۶; قتل كى سزا ۲۸; قتل ميں اعانت كرنا ۶،۷

قيامت: قيامت كے عذاب ۲۲

كائناتى نظريہ : كائناتى نظريہ اور آئيڈيالوجى ۳۲

كفر: قرآن حكيم كے بعض حصے كے بارے ميں كفر ۳۳; آسمانى كتابوں كے بارے ميں كفر ۱۸; كفر كے موجبات ۳۳

گناہ : گناہ ميں تعاون ۷; گناہ ميں تعاون كى حرمت ۸; گناہان كبيرہ كا گناہ ۲۹; گناہ كے موارد ۷; گناہ كى ركاوٹيں ۳۲

گناہگار: گناہگاروں كا اخروى عذاب ۳۰; گناہگاروں كا دنياوى عذاب ۳۰; گناہگاروں كو تنبيہ ۳۰

محرمات : ۸

مومنين: مومنين كى ذمہ دارى ۱۶

وعدہ شكني: اللہ تعالى كے ساتھ وعدہ شكنى كى سزا ۱۹،۲۱; اللہ تعالى كے ساتھ وعدہ شكنى كے موانع ۳۲

يہود: يہوديوں كے احكام ۱۳; يہوديوں كا تورات پر ايمان ۲۶; يہوديوں كى دنياوى ذلت ۱۹،۲۰، ۲۳; يہوديوں كا اخروى عذاب ۲۲ ،۲۴; يہوديوں كا دنياوى عذاب ۲۰; يہوديوں كى ذلت كے اسباب ۲۳; يہوديوں كى اخروى سزا و انجام ۲۱; يہوديوں كى لوگوں كو دربدر كرنے كى سزا ۲۰،۲۲; يہوديوں كى دنياوى سزا و انجام ۲۳; يہوديوں كے قتلوں كى سزا ۲۰،۲۲; وعدہ شكن يہوديوں كى سزا ۱۹،۲۱; يہوديوں كے محرمات ۱۳; يہودى قيامت ميں ۲۲; صدر اسلام كے مومن يہود ۲۶

۲۸۷

أُولَئِكَ الَّذِينَ اشْتَرَوُاْ الْحَيوةَ الدُّنْيَا بِالآَخِرَةِ فَلاَ يُخَفَّفُ عَنْهُمُ الْعَذَابُ وَلاَ هُمْ يُنصَرُونَ ( ۸۶ )

يہ وہ لوگہيں جنھوں نے آخرت كو دے كر دنيا خريدليہے اب نہ ان كے عذاب ميں تخفيف ہوگى اورنہ ان كى مدد كى جائے گى (۸۶)

۱ _عالم آخرت اور اسكى نعمتيں ان لوگوں كا سرمايہ ہے جو ايمان ركھتے اور آسمانى كتابوں كے مطابق عمل كرتے ہيں _

اولئك الذين اشتروا الحياة الدنيا بالاخرة

۲ _ بعض انسان آخرت اور اسكى نعمتوں كو كھوكر دنياوى نعمتوں يا حيثيتوں كے درپے ہيں _اولئك الذين اشتروا الحياة الدنيا بالاخرة

۳_ آخرت كو كھو كردنيا كا انتخاب كرنا ايسے اخروى عذاب كا باعث ہے جس ميں كمى يا تخفيف نہيں ہوگي_

اولئك فلا يخفف عنهم العذاب

۴ _ الہى عہد و پيمان كو توڑنے والے سرائے آخرت اور اسكى نعمتوں سے كچھ نہ پاسكيں گے _

إذ أخذنا ميثاقكم اولئك الذين اشتروا الحياة الدنيا بالاخرة

'' اولئك '' ان تمام گروہوں كو شامل ہے جن كے ناپسنديدہ اعمال و كردار كا ماقبل آيت ميں ذكر

ہوا ہے ان ميں سے بعض يہ ہيں ، الہى عہد و پيمان كو توڑنے والے ، اپنے دينى بھائيوں كے قاتل وغيرہ_

۵ _ الہى عہد و پيمان كو بے اہميت سمجھنے اور توڑنے والوں كا محرك دنياوى نعمتوں كا حصول ہے _

اولئك الذين اشتروا الحياة الدنيا بالاخرة

۶_ يہود دنياوى نعمتوں كو حاصل كرنے كے لئے اپنے دينى بھائيوں كو قتل كرتے اور ان كو ان كے گھر سے ، وطن سے دربدر كرتے تھے_ثم انتم هولاء تقتلون اولئك الذين اشتروا الحياة الدنيا بالاخرة

۷ _ يہوديوں نے دنياوى مفادات كے حصول كى خاطر آخرت اور اسكى نعمتوں كو كھوديا _

اولئك الذين اشتروا الحياة الدنيا بالاخرة

۸ _ اہل ايمان كو قتل كرنا ، ان كو دربدر كرنا اور دين ميں

۲۸۸

تبعيض (بعض پر عمل اور بعض كو ترك) كرنا عالم آخرت كو كھودينے اور قيامت ميں شديد عذاب كا باعث بنتاہے _

اولئك الذين اشتروا فلا يخفف عنهم العذاب ''العذاب'' كا ''ال'' عہد ذكرى ہے جو ''اشد العذاب'' كى طرف اشارہ ہے _

۹ _ جو لوگ دنيا كے حصول كى خاطر اپنى آخرت كو تباہ كرتے ہيں ان كو عذاب سے نجات كے لئے كوئي يار و ياور نہ ملے گا _فلا يخفف عنهم العذاب و لا هم ينصرون

۱۰_ دين ميں تبعيض كے (بعض احكام پر عمل كرنا اور بعض كو ترك كردينا ) محركات ميں سے ايك دنيا طلبى ہے _

أفتؤمنون ببعض الكتاب و تكفرون ببعض اولئك الذين اشتروا الحياة الدنيا

۱۱ _ مكتب الہى پر اعتقاد ركھنے والے گروہوں كے درميان خون ريز جنگوں اور معركہ آرائيوں كى ايك جڑ دنياطلبى ہے _ثم انتم هولاء تقتلون أنفسكم اولئك الذين اشتروا الحياة الدنيا

آخرت فروش افراد: ۲ آخرت فروشوں كا بے يار و مددگار ہونا ۹; آخرت فروشوں كا عذاب ۹; آخرت فروشوں كى سزا ۳

آخرت فروشي: آخرت فروشى كى سزا ۳

اختلاف: دينى اختلاف كے اسباب ۱۱

انسان: انسانى سرمايہ ۱

ترغيب و تحريك: ترغيب كے عوامل ۶

جنگ: جنگ كى زمين ہموار ہونا ۱۱

دنياطلب افراد:۲ دنيا كے طالبوں كو عذاب ۹; دنيا كے طالبوں كى سزا ۳

دنياطلبي: دنيا طلبى كا نتائج ۵،۱۰،۱۱

دين: دين كے صرف بعض حصے پر عمل كرنے كے نتائج ۸; دين كا جزء جزء كرنا ۱۰; دين كے بعض حصے پر عمل ۱۰

دينى سماج: دينى سما ج كو پہنچے والے نقصان كى شناخت ۱۱

عذاب:

۲۸۹

شديد عذاب۸; عذاب كے درجے ۸; اخروى عذاب كے موجبات ۸; عذاب سے نجات ۹

مومنين: مومنيں كو دربدر كرنے كے نتائج۸; مومنين كو قتل كرنے كے نتائج۸

نعمت : اخروى نعمتوں سے محروم لوگ ۴; اخروى نعمتيں ۱

وعدہ شكن : وعدہ شكنوں كى دنيا طلبى ۵; وعدہ شكنوں كا محروم ہونا ۴

وعدہ شكنى : اللہ تعالى كے ساتھ وعدہ شكنى كا فلسفہ ۵; اللہ تعالى كے ساتھ وعدہ شكنى كى سزا ۴

يہود: يہوديوں كى آخرت فروشى كا محرك ۷; يہوديوں كو دربدر كرنے كا محرك ۶; يہوديوں كے قتل كا محرك ۶; يہوديوں كے جرائم ۶; يہوديوں كى دنياطلبى ۶،۷; يہويوں كى صفات ۶

وَلَقَدْ آتَيْنَا مُوسَى الْكِتَابَ وَقَفَّيْنَا مِن بَعْدِهِ بِالرُّسُلِ وَآتَيْنَا عِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ الْبَيِّنَاتِ وَأَيَّدْنَاهُ بِرُوحِ الْقُدُسِ أَفَكُلَّمَا جَاءكُمْ رَسُولٌ بِمَا لاَ تَهْوَى أَنفُسُكُمُ اسْتَكْبَرْتُمْ فَفَرِيقاً كَذَّبْتُمْ وَفَرِيقاً تَقْتُلُونَ ( ۸۷ )

ہم نے موسى كو كتاب دى ان كے پيچھے رسولوں كا سلسلہقائم كيا عيسى بن مريم كو واضح بمعجزاتعطا كئے روح القدس سے ان كى تاييد كراديليكن كيا تمھارا مستقل طريقہ يہى ہے كہجب كوئي رسول تمھارى خواہش كے خلافكوئي پيغام لے كر آتاہے تو اكڑ جاتے ہواور ايك جماعت كو جھٹلا ديتے ہو اور ايككو قتل كرديتے ہو (۸۷)

۱_ حضرت موسىعليه‌السلام انبيائے الہى ميں سے تھے اور صاحب كتاب (تورات ) تھے_و لقد آتينا موسى الكتاب

۲ _ اللہ تعالى حضرت موسىعليه‌السلام كو كتاب عطا كرنے والا ہے _و لقد آتينا موسى الكتاب

۳ _ اللہ تعالى نے حضرت موسىعليه‌السلام كى رحلت كے بعد مسلسل انبياءعليه‌السلام كو بنى اسرائيل كى طرف بھيجا_

و قفينا من بعده بالرسل ''قفينا'' كا مصدر'' تقفيہ'' ہے جسكا معنى ہے كسى چيز يا شخص كسى كو كسى دوسرى چيز يا شخص كے بعد روانہ كرنا _ پس '' قفينا يعنى موسىعليه‌السلام كى رحلت كے بعد ہم نے (بنى اسرائيل كى طرف) پے درپے انبياءعليه‌السلام كو بھيجا_

۴ _ بنى اسرائيل كى طرف بہت سے انبياءعليه‌السلام بھيجے گئے _و قفينا من بعده بالرسل

''الرسل'' ميں '' ال'' استغراق كا ہے جو يہاں كثرت پر دلالت كرتاہے _

۲۹۰

۵ _ حضرت عيسىعليه‌السلام اللہ تعالى كے انبياءعليه‌السلام ميں سے تھے جو معجزات ركھتے تھے اور اپنى نبوت كے لئے واضح دلائل كے بھى حامل تھے_و آتينا عيسى ابن مريم البينات

۶ _ اللہ تعالى نے حضرت عيسىعليه‌السلام كو بہت سے معجزات اور واضح دلائل عنايت فرمائے _و آتينا عيسى ابن مريم البينات

''بينہ'' كا معنى واضح حجت اور روشن دليل ہے جبكہ معجزہ اس كے مصاديق ميں سے ہے_ ''البينات'' ميں الف لام عہد ذہنى كا ہے جو مردوں كو زندہ كرنے ، اندھوں كو آنكھيں دينے و غيرہ جيسے معجزات كى طرف اشارہ ہے يا پھر يہ الف لام استغراق كا ہے جو '' بينات'' كى كثرت و فراوانى كى حكايت كرتاہے _

۷ _ حضرت عيسىعليه‌السلام ايك ايسے انسان تھے جن كى ولادت و خلقت والد كے بغير ہوئي _و آتينا عيسى ابن مريم

قرآن حكيم نے بڑى صراحت و وضاحت سے بيان فرمايا ہے كہ حضرت عيسىعليه‌السلام حضرت مريمعليه‌السلام كے فرزند ہيں جبكہ يہ امر عرف عام كے برخلاف ہے جس ميں انسان كو اس كے والد سے منسوب كرتے ہيں _ يہ بات بعض نكات كى طرف اشارہ ہے ان ميں سے ايك يہ كہ حضرت عيسىعليه‌السلام كى والد كے بغير ولادت ہوئي دوسرا يہ كہ يہوديوں كے اس باطل خيال كو رد كيا جائے كہ آپعليه‌السلام كسى بڑھئي كے بيٹے ہيں _

۸ _ حضرت عيسىعليه‌السلام كو حضرت مريمعليه‌السلام نے جنم ديا اور وہ حضرت مريمعليه‌السلام كے ہى بيٹے ہيں نہ كہ فرزند خدا _

عيسى ابن مريم

يہ جو حضرت عيسىعليه‌السلام كو ان كى والدہ گرامى كى طرف نسبت دى گئي ہے ہوسكتاہے اس لئے ہو كہ عيسائيوں كے اس خيال كو باطل يارد كيا جائے جو وہ آپعليه‌السلام كو خداوند متعال كا بيٹا جانتے ہيں _

۹ _ حضرت عيسىعليه‌السلام حضرت موسىعليه‌السلام كى شريعت كے تابع نہ تھے بلكہ خود صاحب شريعت تھے_

و لقد آتينا موسى الكتاب و آتينا عيسى ابن مريم البينات

حضرت عيسىعليه‌السلام كا نام لينا اورجملہ '' قفينا '' پر اكتفا نہ كرنا جبكہ حضرت عيسىعليه‌السلام بھى حضرت موسىعليه‌السلام كے بعد مبعوث ہوئے تھے يہ بعض نكات كى طرف اشارہ ہوسكتاہے ايك يہ كہ حضرت موسىعليه‌السلام كے ما بعد آنے والے انبياءعليه‌السلام كے پاس كوئي مستقل كتاب يا شريعت نہ تھى بلكہ وہ حضرت موسىعليه‌السلام كى شريعت كے تابع تھے ليكن حضرت عيسىعليه‌السلام صاحب شريعت اور صاحب كتاب تھے_

۲۹۱

۱۰_ حضرت موسىعليه‌السلام كے بعد ميں آنے والے انبياءعليه‌السلام آپعليه‌السلام كى شريعت كے تابع اور اسى كى تبليغ كرتے تھے_و لقد آتينا موسى الكتاب و قفينا من بعده بالرسل

۱۱_ اللہ تعالى نے حضرت عيسىعليه‌السلام كى '' روح القدس'' كے ذريعے تائيد اور تقويت فرمائي_و ايدناه بروح القدس

''ايدناہ'' كا مصدر تائيد ہے جس كا معنى ہے تقويت كرنا اور توانائي عطا كرنا _

۱۲ _ حضرت عيسىعليه‌السلام كا روح القدس كے ذريعے تائيد ہونا يہ آپعليه‌السلام كى خصوصيات ميں سے ہے _و ايدناه بروح القدس

۱۳ _ انبياءعليه‌السلام كے پيغامات كى يہوديوں كى نفسانى خواہشات سے مطابقت يا عدم مطابقت ان پيغامات كو قبول كرنے يا قبول نہ كرنے كا معيار تھا_افكلما جاء كم رسول بما لا تهوى أنفسكم استكبرتم

۱۴ _ يہود نفس پرست لوگ اور احساس برترى كى نفسيات كے مالك تھے_بما لا تهوى أنفسكم استكبرتم

۱۵ _ يہودينے بعض انبياءعليه‌السلام كوجھٹلايا اور بعض كو قتل كيا_ففريقا كذبتم و فريقا تقتلون

۱۶_ يہود پيامبر اسلام (ص) كو قتل كرنے كے درپے تھے_و فريقاً تقتلون

يہ مفہوم دو نكتوں كى بناپر استفادہ ہوتاہے_ ۱_ آيت كے مخاطبين زمانہ بعثت كے يہودى ہيں اور ان كے زمانے ميں پيامبر اسلام (ص) كے علاوہ كوئي اور پيامبر (ص) نہ تھا جسكو قتل كرنا چاہتے تھے_ ۲ _ ''كذبتم'' جو فعل ماضى ہے اسكے مقابل فعل مضارع '' تقتلون'' كا استعمال كيا گيا ہے _

۱۷_ يہوديوں كى نفس پرستى اور احساس برترى ان كو اس بات پر آمادہ كرتے تھے كہ انبياءعليه‌السلام كو جھٹلائيں اور ان كو قتل كريں _بما لا تهوى أنفسكم استكبرتم ففريقاً كذبتم و فريقا تقتلون جملہ''فريقاً كذبتم و ...'' كى حرف فاء كے ذريعے جملہ''بما لا تهوى أنفسكم استكبرتم'' پر تفريع مذكورہ بالا مفہوم كا باعث ہے _

۱۸ _ حضرت عيسىعليه‌السلام كے پاس معجزات اور آشكار دلائل كے ہوتے ہوئے يہوديوں نے حضرت عيسىعليه‌السلام كى نبوت كو قبول نہ كيا _و آتينا عيسى ابن مريم البينات ففريقاً كذبتم

۱۹_ زمانہ بعثت كے يہود تكبرانہ نفسيات، نفس پرستى اور انبياءعليه‌السلام كى مخالفت كرنے ميں اپنے اسلاف كى طرح تھے_

افكلما جاء كم رسول ففريقاً كذبتم و فريقاً تقتلون

زمانہ بعثت كے يہوديوں كو انبياءعليه‌السلام كے جھٹلانے اور

۲۹۲

قتل كرنے كى نسبت دينا جبكہ ان كے اسلاف ايسا كرتے تھے_يہ اس مفہوم كى طرف اشارہ ہے كہ زمانہ بعثت كے يہود بھى ان صفات رذيلہ كے مالك تھے_

۲۰_ نفس پرستى اور احساس برترى ان رذائل ميں سے ہيں جو انسان كو گناہان كبيرہ كے ارتكاب كى ترغيب دلاتى ہيں _

بما لا تهوى أنفسكم استكبرتم ففريقاً كذبتم و فريقاً تقتلون

۲۱ _ امام باقرعليه‌السلام سے روايت ہے ''ان فى الانبياء والاوصياء خمسة ارواح، روح القدس فبروح القدس عرفوا ما تحت العرش الى ما تحت الثرى ..(۱) انبياءعليه‌السلام اور اوصياءعليه‌السلام الہى ميں پانچ ارواح ہوتى ہيں ان ميں سے ايك روح القدس ہے اس روح القدس كے ذريعے عرش سے لے كر تحت ثرى تك جو كچھ ہے وہ جان ليتے ہيں _

۲۲ _ پيامبر گرامى اسلام (ص) سے روايت ہے كہ آپ (ص) نے ارشاد فرمايا '' روح القدس'' جبرئيلعليه‌السلام (۲)

روح القدس سے مراد جبرائيلعليه‌السلام ہيں _

اللہ تعالى : اللہ تعالى كى امداد۱۱; اللہ تعالى اور فرزند ۸; اللہ تعالى كى عنايات ۲،۶

انبياءعليه‌السلام : اولوالعزم انبياءعليه‌السلام ۱،۹; حضرت موسىعليه‌السلام كے مابعد كے انبياءعليه‌السلام ۳،۱۰; انبياءعليه‌السلام كى تاريخ ۳،۴; انبياءعليه‌السلام كا علم ۲۱; انبياءعليه‌السلام كے جھٹلائے جانے كے عوامل ۱۷; انبياءعليه‌السلام كے قتل كے اسباب ۱۷; انبياءعليه‌السلام كا قتل۱۵

اوصياءعليه‌السلام : اوصياءعليه‌السلام كا علم ۲۱

بنى اسرائيل: بنى اسرائيل كے انبياءعليه‌السلام ۳،۴

ترغيب و تحريك: ترغيب كے عوامل ۱۷

تكبر: تكبر كے نتائج ۲۰

حضرت جبرائيلعليه‌السلام : حضرت جبرائيلعليه‌السلام كى اہميت و كردار۲۲

حضرت عيسىعليه‌السلام : حضرت عيسىعليه‌السلام كى روح القدس كے ذريعے تائيد ۱۱،۱۲; حضرت عيسىعليه‌السلام كى تكذيب ۱۸; حضرت عيسىعليه‌السلام كى نبوت كے دلائل ۵; حضرت عيسىعليه‌السلام كى شريعت ۹; حضرت عيسىعليه‌السلام حضرت مريمعليه‌السلام كے بيٹے۸; حضرت عيسىعليه‌السلام كا واقعہ ۸; حضرت عيسىعليه‌السلام كى والدہ ۸; حضرت عيسىعليه‌السلام كا معجزہ ۵،۶; حضرت عيسىعليه‌السلام كى

____________________

۱) كافى ج/ ۱ ص ۲۷۲ ، ح۲، نورالثقلين ج/ ۱ص ۹۸ ح ۲۷۳_ ۲) الدرالمنثور ج/ ۱ ص ۲۱۳ ، تفسير برہان ج/ ۱ ص ۱۲۴ ح۱_

۲۹۳

خلقت كى خصوصيات ۷ حضرت عيسىعليه‌السلام كى خصوصيات۱۲

روايت: ۲۱،۲۲

روح القدس: روح القدس سے مراد ۲۲; روح القدس كى اہميت و كردار۲۱

گناہ: گناہ كے اسباب۲۰

وَقَالُواْ قُلُوبُنَا غُلْفٌ بَل لَّعَنَهُمُ اللَّه بِكُفْرِهِمْ فَقَلِيلاً مَّا يُؤْمِنُونَ ( ۸۸ )

اور يہ لوگ كہتےہيں كہ ہمارے دلوں پر پردے پڑے ہوئے ہيں ہمارى كچھ سمجھ ميں نہيں آتا بيشك ان كےكفر كى بنا پر ان پر خدا كى مارہے اور يہبہت كم ايمان لے آئيں گے (۸۸)

۱ _ زمانہ بعثت كے يہوديوں كے قلوب اسلامى معارف كے ادراك كى توانائي نہ ركھتے تھے_و قالوا قلوبنا غلف بل لعنهم الله بكفرهم فقليلاً ''اغلف '' كى جمع '' غلف '' ہے جسكا معنى ہے ايسى چيز جسكو پردہ كہا جاسكتاہو بنابريں '' قلوبنا غلف '' يعنى ہمارے قلوب پر پردہ يا حجاب ہے_ يہوديوں كے مقصد كو دو طرح سے بيان كيا جاسكتاہے _ ۱_ ہمارے دلوں پر پردے پڑے ہيں لہذا اسلام كے معارف درك كرنے سے عاجز ہيں پس اے پيامبر (ص) كيا آپ (ص) كو توقع ہے كہ ہم آپ (ص) كے پيغام كو اپنے تك پہنچنے سے پہلے قبول كريں گے ؟ ۲ _ ہمارے دلوں پر پردے ہيں ايسے نہيں كہ ہر كلام كو قبول كريں بلكہ جو كلام حقيقت ركھتا ہو اسكو قبول كرتے ہيں _مذكورہ بالا مفہوم پہلے احتمال كى بناپر ہے_

۲ _ زمانہ بعثت كے يہوديوں كو معارف اسلام كے ادراك كے بارے ميں اپنى عاجزى و ناتوانى كا اعتراف تھا_

و قالوا قلوبنا غلف '' قالوا'' اعتراف پر دلالت كرتاہے_

۳ _ يہوديوں كا خيال تھا كہ وہ لوگ اسلام كوجو قبول كرنے سے عاجز ہيں يہ انكى فطرت اور خلقت كى وجہ سے ہے لہذا خود كو معذور سمجھتے تھے_و قالوا قلوبنا غلف ''لعنهم الله بكفرهم اللہ تعالى نے يہوديوں پر ان كے كفر كى وجہ سے لعنت كى '' يہ جملہ اور اس پر '' فائ'' كے ذريعے تفريع ہونے والا ما بعد كا جملہ ''فقليلاً ما يؤمنون پس ان ميں بہت كم افراد ايمان لاتے ہيں '' ، اس بات كى جانب اشارہ ہے

كہ يہوديوں كا اسلام كے ادراك سے عاجز ہونے كا دعوى صحيح ہے _ پس لفظ '' بل'' ، '' قلوبنا غلف'' كے مطابقى معنى كو رد نہيں كرتا، بلكہ اس مطلب كو رد كرتا ہے جو يہوديوں كا اصلى مقصود تھا كہ وہ درك نہ كرسكنے كى وجہ سے خود كو معذور سمجھتے تھے_

۲۹۴

۴ _ حق كو قبول نہ كرنے والے يہوديوں كو اللہ تعالى نے اپنى رحمت سے دور كرديا اور ان كو لعنت ميں مبتلا كرديا _

بل لعنهم الله بكفرهم

۵_ يہوديوں كا كفر اختيار كرنا ان كا رحمت الہى سے دور ہونے كا سبب بنا _لعنهم الله بكفرهم '' بكفر'' كى باء سببية كے لئے ہے _

۶ _ يہوديوں كے قلب و نظر پر پردے پڑنے كى وجہ ان كى فطرت يا خلقت نہيں ہے بلكہ اس كا باعث ان كا كفر اختيار كرنا اور رحمت الہى سے دور ہونا ہے _قالوا قلوبنا غلف بل لعنهم الله بكفرهم يہ گذر گيا ہے كہ ''بل''،'' قلوبنا غلف'' سے نفى كے معنى ميں ہے اور يہوديوں كا معذور ہونا ان كے نہ سمجھنے كى وجہ سے ہے _ '' بل'' يہوديوں كے معذور ہونے كى نفى كرتا ہے جبكہ جملہ '' لعنھم اللہ ...''بيان كررہاہے يہوديوں كے قلوب پر پردہ پڑنا ان كے كفر كى وجہ سے ہے نہ كہ فطرتاً ايسا ہے _ ايسى نافہمى جس كو انسان خود پيدا كرے قابل قبول عذر نہيں ہوسكتا_

۷_ كافر يہودى باوجود اس كے كہ ان كے دلوں پر پردے پڑنے سے وہ عاجز و ناتواں ہيں معذور نہيں ، ہيں _

قلوبنا غلف بل لعنهم الله بكفرهم

۸ _ يہوديوں كا اسلام كے معارف درك كرنے سے عجز كے اظہار كا مقصد پيامبر اسلام (ص) كو مايوس كرنا تھا_

قالوا قلوبنا غلفانسان معمولا فہم و ادراك ميں اپنے قصور كو تسليم نہيں كرتے يا اس پر يقين نہيں كرتے _ بنابريں يہوديوں كے درك نہ كرنے يا نہ سمجھنے كا اعتراف ممكن ہے پيامبر اسلام (ص) كو مايوس كرنے كے لئے ہو تا كہ ان كو اسلام كى دعوت دينے پر اصرار كرنے سے منصرف ہوجائيں _

۹ _ يہودى بہت كم معارف الہى پر ايمان ركھتے ہيں _فقليلاً ما يؤمنون يہ مفہوم اس بناپر ہے كہ'' قليلا'' مفعول مطلق محذوف كى صفت ہے يعنى '' ايماناً قليلاً'' _ حرف''ما'' اس قليلاً كى تاكيد ہے _ قابل توجہ يہ ہے كہ ايمان قليل كا معنى كمزور ايمان ہے يا يہ كہ دين كے كم حصے پر ايمان ركھنا اور دين كے اكثر حصے پر يقين نہ كرنا ہے _

۱۰_يہوديوں كا لعنت الہى ميں مبتلا ہونا اس ليئے تھا كيونكہ وہ معارف الہى كى اكثريت پر ايمان نہ لائے _

لعنهم الله بكفرهم فقليلاً ما يؤمنون

''فقليلاً ما '' ميں فاء تفريع اس مطلب كى طرف اشارہ ہے كہ اللہ تعالى كى طرف سے لعنت اس بات كا موجب بنى كہ يہودى ايمان كامل يا

۲۹۵

تمام معارف پر ايمان كى بنياديں كھوديں _

۱۱ _ يہوديوں ميں سے بہت ہى كم تعداد نے معارف اسلامى كا يقين كيا اور پيامبر اسلام (ص) پر ايمان لائے * _

فقليلاً ما يؤمنونيہ مفہوم اس بناپر ہے كہ '' قليلاً'' ، '' يؤمنون'' كے فاعل كے لئے حال ہو يعنى يہ كہ ''فما يؤمنون منهم الا نفر قليل_ پس يہوديوں ميں سے ايمان نہيں لاتے مگر بہت محدود افراد'' (مجمع البيان سے اقتباس)

۱۲ _ انسان حتى جب اللہ تعالى كى لعنت ميں مبتلا ہوتا ہے تب بھى ايمان كى طرف تمايل پيدا كركے اہل ايمان ميں سے ہوسكتاہے _لعنهم الله بكفرهم فقليلاً ما يؤمنون

جملہ''فقليلا ما يؤمنون'' كى جملہ''لعنهم الله بكفرهم'' پر تفريع اس مفہوم كى طرف اشارہ ہے كہ كفر اختيار كرنے اور رحمت الہى سے دور ہونے كے سبب ايمان كى بہت سارى بنياد ضائع ہوجاتى ہے نہ كہ كامل طور پر اس كى بنياديں كھوكھلى ہوجاتى ہيں _ گويا يہ كہ انسان لعنت الہى كے باوجود خودكوايمان كى طرف راغب كرسكتاہے_

۱۳ _ اللہ تعالى كى رحمت سے دور ہونا اور اس كى لعنت ميں مبتلا ہونا ايمان نہ لانے پر جبر كا باعث نہيں ہے_

لعنهم الله بكفرهم فقليلاً ما يؤمنون

۱۴ _ يہوديوں كا دعوى تھا كہ ان كے قلب و نظر اس قدر مضبوط ہيں كہ ان پر غير صحيح عقائد اور افكار اثر انداز نہيں ہوسكتے_قالوا قلوبنا غلف يہ مفہوم اس بناپر ہے كہ '' ان كے دلوں پر پردے پڑنے'' سے مراد يہ ہو كہ غير صحيح اور نادرست كلام سے متاثر نہيں ہوتے_ گويا ہر غلاف يا پردہ نادرست چيز كے اندر جانے اور نقصان پہنچانے كے لئے ركاوٹ ہے _ قابل توجہ ہے كہ لفظ ''بل'' اسى دعوے كى نفى كررہاہے_

اسلام : اسلام كے فہم سے عاجز ہونا ۱،۲

اللہ تعالى : اللہ تعالى كى لعنت كے نتائج ۶،۱۰،۱۳; اللہ تعالى كى لعنت ۴

انسان: انسان كى قوت و توانائي ۱۲

ايمان: ايمان ميں اختيار ۱۳; اسلام پر ايمان ۱۱; پيامبر اسلام (ص) پر ايمان ۱۱; ايمان سے متعلق امور۱۱

رحمت: رحمت سے محروم افراد۴،۵; رحمت سے محروم ہونا ۱۳

قلب: قلب پر پردے كے نتائج ۷; پردے كے اسباب ۶

۲۹۶

كفر: كفر كے نتائج ۵،۶

لعنت : لعنت كيئے جانےوالوں كا ايمان ۱۲; لعنت كيئے جانے والے افراد۴

يہود: يہوديو ں كے كفر كے نتائج ۶; يہوديوں كے دعوے ۱۴; يہوديوں كا كمزورى كا اظہار ۸; صدر

اسلام كے يہوديوں كا اقرار ۲; يہوديوں كى اقليت كا ايمان ۱۱; يہوديوں كا ايما ن۹ ;يہوديوں كى بصيرت ۳; يہوديوں كے قلب پر مہر ۶،۷; يہوديوں كے فہم كى كمزورى ۱،۲; يہوديوں كى محروميت كے اسباب ۴،۵; يہوديوں كى معذوريت كے اسباب ۳; يہوديوں كى فطرت ۳; يہوديوں كا قلب ۱۴; يہوديوں كا كفر ۵; يہوديوں پر لعنت ۴،۶،۱۰; يہوديوں كا معذور نہ ہونا ۷; يہوديوں كے قبول اسلام ميں ركاوٹيں ۳; يہوديوں كے ايمان لانے ميں ركاوٹيں ۳،۷،۱۰; يہوديوں كا حق قبول نہ كرنا ۴; صدر اسلام كے يہود ۱; يہود اور اسلام ۲; يہود اور پيامبر اسلام (ص) ۸

َلَمَّا جَاءهُمْ كِتَابٌ مِّنْ عِندِ اللّهِ مُصَدِّقٌ لِّمَا مَعَهُمْ وَكَانُواْ مِن قَبْلُ يَسْتَفْتِحُونَ عَلَى الَّذِينَ كَفَرُواْ فَلَمَّا جَاءهُم مَّا عَرَفُواْ كَفَرُواْ بِهِ فَلَعْنَةُ اللَّه عَلَى الْكَافِرِينَ ( ۸۹ )

اور جب انكے پاس خدا كى طرف سے كتاب آئي ہے جو انكى توريت و غيرہ كى تصديق بھى كرنے واليہے اور اس كے پہلے وہ دشمنوں كے مقابلہميں اسى كےذريعہ طلب فتح بھى كرتے تھےليكن اس كے آتے ہى منكر ہگئے حالانكہ اسےپہچانتے بھى تھے تو اب كافروں پر خدا كى لعنت ہے (۸۹)

۱_ قرآن كريم انتہائي باعزت و عظمت كتاب ہے جو اللہ تعالى كى بارگاہ اقدس سے نازل ہوئي ہے _و لما جاء هم كتاب من عند الله '' كتاب'' كو نكرہ لانا اور يہ صراحت و وضاحت كہ اللہ تعالى كے ہاں سے آئي ہے اس كى عظمت و بزرگى پر دلالت كرتى ہے _

۲ _ قرآن كريم نے تورات كے نفس كلام كے صحيح ہونے اور اسكے آسمانى ہونے كى تائيد و تصديق كى ہے_ كتاب مصدق لما معهم

۳ _ قرآن كريم تورات كى حقانيت اور اس كے آسمانى ہونے كى دليل ہے *مصدق لمامعهم قرآن كريم كى طرف سے تورات كى تصديق كا يہ معنى ہوسكتاہے كہ قرآن كريم كا نزول اس بات كا سبب بنا كہ تورات نے جو قرآن كے نزول كى خوش خبرى دى تھى وہ پورى ہوگئي پس قرآن كريم بھى تورات كى حقانيت كو ثابت كررہاہے_

۴ _ پيامبر اسلام (ص) كے زمانے تك تورات ميں تحريف نہ ہوئي تھى *مصدق لما معهم

۲۹۷

''ما معہم وہ جو ان كے ہمراہ ہے'' اس سے مراد وہ تورات ہے جو زمانہ بعثت كے يہوديوں كے اختيار ميں تھى اور

قرآن كريم نے اسى كى تائيد فرمائي ہے _ پس تورات اس زمانے تك تحريف سے محفوظ تھي_

۵ _ بعثت سے قبل يہود، نزول قرآن اور پيامبر اسلام (ص) كے مبعوث ہونے سے آگاہ تھے_و كانوا من قبل يستفتحون على الذين كفروا

۶ _ يہود ايك عرصے سے پيامبر اسلام (ص) اور نزول قرآن كے انتظار ميں تھے_وكانوا من قبل يستفتحون على الذين كفروا

۷ _ يہوديوں كى ،كفار پر قرآن اور بعثت پيامبر (ص) كے سائے تلے كاميابى كى تمنا اور آرزو بعثت سے قبل كى تھي_

و كانوا من قبل يستفتحون على الذين كفروا''فتح'' كا معنى نصرت و كاميابى ہے _ ''استفتاح'' كا معنى ہے كاميابى كا طلب كرنا _ فعل مضارع (يستفتحون) پر '' كان'' كا آنا زمانہ ماضى ميں استمرار پر دلالت كرتاہے _ جملہ ''و كانوا ...'' كا ماقبل اور ما بعد سے ارتباط اس بات كا تقاضا كرتاہے كہ يہ كاميابى نزول قرآن اور پيامبر اسلام (ص) سے مربوط ہو _ بنابريں ''و كانوا ...'' يعنى زمانہ بعثت سے بہت مدت قبل سے يہودى نزول قرآن اور بعثت پيامبر (ص) كے منتظر تھے تا كہ ان كے سائے تلے كفار پر كاميابى حاصل كريں _

۸ _قبل از اسلام مدينہ كے يہودى كفار سے دست و گريبان تھے اور ان كى جانب سے سختيوں ميں مبتلا تھے_وكانوامن قبل يستفتحون على الذين كفروا

۹_ تورات ميں نزول قرآن اور بعثت پيامبر اسلام (ص) كى بشارت دى گئي تھى _ *مصدق لما معهم و كانوا من قبل يستفتحون على الذين كفروا

''مصدق لما معہم'' يہ عبارت اس بات كا قرينہ ہے كہ يہوديوں كى آگاہى (نزول قرآن اور پيامبر اسلام كى بعثت كے بارے ميں ) كا سرچشمہ تورات تھي_

۱۰_ يہودى قبل از بعثت مدتوں سے پيامبر (ص) كى آمد اور نزول قرآن كے بارے ميں كفار سے ذكر كيا كرتے تھے_

و كانوا من قبل يستفتحون على الذين كفروا

''يستفتحون'' كا مصدر استفتاح ہے اور معنى مطلع كرنا بھى ہوسكتاہے _ مفردات راغب ميں آياہے ''فتح عليہ كذا '' كہا جاتاہے كہ اس سے ايك بات كا اعلان كيا اور اس كو اس امر سے مطلع كيا '' اس صورت ميں '' يفتحون'' كو باب استفعال ميں لے جانا تاكيد كے لئے ہے يعنى طلب كا معنى نہيں ديتا _

۲۹۸

۱۱ _ باوجود اس كے كہ كتاب اور پيامبر موعود كى خصوصيات قرآن كريم اور پيامبر اسلام (ص) سے بالكل مطابقت ركھتى تھيں يہودى كافر ہوگئے_فلما جاء هم ما عرفوا كفروا به

۱۲ _ اللہ تعالى نے پيامبر اسلام (ص) اور قرآن كے كافر يہوديوں كو اپنى رحمت سے دور اور اپنى لعنت كا مستحق قرا رديا ہے _فلعنة الله على الكافرين

۳ ۱ _ عناد ركھنے والے اور حق كو قبول نہ كرنے والے كافر، اللہ تعالى كى لعنت كے مستحق ہيں _فلعنة الله على الكافرين

۱۴ _ وہ لوگ جو عناد اور ضد كى وجہ سے پيامبر اسلام (ص) اور قرآن كا كفر اختيار كرتے ہيں ان پر لعنت اور نفرين كرنا جائز ہے _فلعنة الله على الكافرين

۱۵_ امام صادقعليه‌السلام سے اللہ تعالى كے اس كلام ( و كانوا من قبل يستفتحون على الذين كفروا كے بارے ميں روايت ہے كہ آپعليه‌السلام نے فرمايا''كانت اليهود تجد فى كتابها ان مهاجر محمد(ص) ما بين عير و أُحد فخرجوا يطلبون الموضع فاتخذوا بأرض المدينة الاموال فلما كثرت اموالهم بلغ تبع فغزاهم فخلّف حييّن الاوس والخزرج و كانت اليهود تقول لهم اما لو قد بعث محمد ليخرجنكم من ديارنا و اموالنا فلما بعث الله عزوجل محمداً آمنت به الانصار و كفرت به اليهود وهوقول الله عزوجل و كانوا من قبل يستفتحون على الذين كفروا فلما جاء هم ما عرفوا كفروا به فلعنة الله على الكافرين (۱) يہوديوں نے اپنى آسمانى كتابوں ميں پڑھا تھا كہ حضرت محمد(ص) كى ہجرت كا مقام عير اور احد پہاڑ كے مابين ہے لہذا اس مقام كى تلاش ميں اپنى جگہ سے نكلے اسكے بعد مدينہ ميں سكونت اختيار كى اور بہت زيادہ ا موال اكٹھے كيئے _ يہ خبر جب '' تُبَّع'' كو ملى تو اس نے ان سے جنگ كى اس كے نتيجے ميں دو قبيلے رہ گئے ايك اوس اور دوسرا خزرج پس يہودى ان (اوس و خزرج ) سے كہتے تھے : جب محمد (ص) مبعوث ہوں گے تو تم كو ہمارے گھروں او ر اموال سے نكال باہر كريں گے_ پس اللہ تعالى نے جب آنحضرت (ص) كو مبعوث فرمايا تو انصار( اوس و خزرج) آپ (ص) پر ايمان لے آئے اور يہوديوں نے كفر اختيار كيا پس قول خداوندى يہى ہے _ وہ لوگ (يہودي) پيامبر(ص) كى بعثت سے كفار پر كاميابى كے وعدہ كو ديكھ رہے تھے پس جب وہ كتاب جس كى ( پہلے سے ) معرفت ركھتے تھے ان كے پاس آئي تو اسكے كافرہوگئے پس اللہ تعالى كى لعنت ہو كافروں پر _

____________________

۱) كافى ج/۸ ص ۳۰۸ ح ۴۸۱ ، نورالثقلين ج/ ۱ ص ۱۰۰ ح ۲۷۹_

۲۹۹

احكام:۱۴

پيامبر اسلام (ص) : پيامبر اسلام (ص) تورات ميں ۹

تورات: تورات كى بشارتيں ۹; تورات كى تصديق ۲; تورات كى تعليمات ۹; صدر اسلام ميں تورات ۴; تورات كے وحى ہونے كے دلائل ۲،۳

خدا تعالى : خدا تعالى كى لعنت ۱۲،۱۳

رحمت : رحمت سے محروم افراد ۱۲

روايت:۱۵

قرآن كريم : قرآن كى قدر ومنزلت ۱; قرآن كريم كى عظمت ۱; قرآن كريم تورات ميں ۹; قرآن كريم اور تورات ۲،۳; قرآن كريم اور وحى ۱; قرآن كريم كى خصوصيات ۱

كفار : حق كو قبول نہ كرنے والے كفار پر لعنت ۱۳،۱۴

كفر(انكار): قرآن كے كفر كے نتائج ۱۲،۱۴; پيامبر اسلام (ص) كے كفر كے نتائج ۱۲،۱۴; قرآن كا كفر ۱۱; پيامبر اسلام (ص) كا كفر ۱۱،۱۵

لعنت: جائز لعنت ۱۴; جن لوگوں پر لعنت ہوئي ۱۲،۱۳

مدينہ كے يہود: مدينہ كے يہوديوں كى مشكلات ۸

يہود: يہوديوں كى آرزوئيں ۷; يہوديوں كى آگاہى ۵; يہوديوں كا انتظار۶; يہوديوں كى كاميابى ۷; يہوديوں كا كفر ۱۱،۱۵; كافر يہوديوں پر لعنت ۱۲; يہوديوں كى محروميت ۱۲; قبل از اسلام يہود ۷، ۸; يہود اور پيامبراسلام (ص) كى بعثت ۱۰; يہود اور قرآن ۵،۶،۱۱; يہود اور پيامبر اسلام (ص) ۶،۱۱; يہود اور پيامبر اسلام (ص) كى نبوت ۵; يہود اور نزول قرآن ۱۰

۳۰۰

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

461

462

463

464

465

466

467

468

469

470

471

472

473

474

475

476

477

478

479

480

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

501

502

503

504

505

506

507

508

509

510

511

512

513

514

515

516

517

518

519

520

521

522

523

524

525

526

527

528

529

530

531

532

533

534

535

536

537

538

539

540

541

542

543

544

545

546

547

548

549

550

551

552

553

554

555

556

557

558

559

560

561

562

563

564

565

566

567

568

569

570

571

572

573

574

575

576

577

578

579

580

581

582

583

584

585

586

587

588

589

590

591

592

593

594

595

596

597

598

599

600

601

602

603

604

605

606

607

608

609

610

611

612

613

614

615

616

617

618

619

620

621

622

623

624

625

626

627

628

629

630

631

632

633

634

635

636

637

638

639

640

641

642

643

644

645

646

647

648

649

650

651

652

653

654

655

656

657

658

659

660

661

662

663

664

665

666

667

668

669

670

671

672

673

674

675

676

677

678

679

680

681

682

683

684

685

686

687

688

689

690

691

692

693

694

695

696

697

698

699

700

701

702

703

704

705

706

707

708

709

710

711

712

713

714

715

716

717

718

719

720

721

722

723

724

725

726

727

728

729

730

731

732

733

734

735

736

737

738

739

740

741

742

743

744

745

746

747

748

749

750

751

752

753

754

755

756

757

758

759

760

761

762

763

764

765

766

767

768

769

770

771

772

773

774

775

776

777

778

779

780

781

782

783

784

785