تفسير راہنما جلد ۱

 تفسير راہنما 10%

 تفسير راہنما مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن
صفحے: 785

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴ جلد ۵ جلد ۶ جلد ۷ جلد ۸ جلد ۹ جلد ۱۰ جلد ۱۱
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 785 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 200938 / ڈاؤنلوڈ: 5793
سائز سائز سائز
 تفسير راہنما

تفسير راہنما جلد ۱

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

۱۳_ ابوسعيد خدرى سے روايت ہے كہ رسول خدا (ص) نے فرمايا:''قال عيسي عليه‌السلام ...''الرحمان'' رحمان الدنيا و الآخرة و''الرحيم'' رحيم الآخرة (۱)

حضرت عيسىعليه‌السلام نے فرمايا رحمان اللہ تعالى كى دنيا و آخرت كے لئے وسيع رحمت ہے _ اور رحيم اللہ تعالى كى آخرت ميں خصوصى رحمت ہے _

اسما و صفات: رحمان ۴،۱۰ َ; رحيم ۴،۱۰

اللہ: اسم اللہ كى خصوصيات۱

اللہ تعالى : اسم اعظم ۱۱;اللہ كا حسن و جمال ۱۰; اللہ كے نام كى اہميت ۷،۸; اللہ كى رحمت كے اسباب ۸; اللہ كى رحمت كے مظاہر ۹; اللہ كى سلطنت ۱۰; اللہ كى عظمت و بزرگي۱۰;خدا كى بلندى ۱۰;خدا كى رحمت كے نتائج ۵،۷; خدا كى رحمانيت ۹،۱۰،۱۳; خدا كى رحيميت ۹،۱۰،۱۳; خد ا كى عمومى رحمت ۵، ۷ ; خدا كى مہربانى ۶; خدا كا نام ۲،۳، ۱۰

بسم اللہ : بسم اللہ كى اہميت ۳; بسم اللہ كى باء ۱۰; بسم اللہ كى سين ۱۰ ،۱۲; بسم اللہ كى فضيلت ۱۱; بسم اللہ كى ميم ۱۰;كاموں ميں اسكے اثرات و نتائج۸

بندگي: بندگى كى نشانياں ۱۲

حديث ۱۰،۱۱،۱۲،۱۳

قرآن كريم: آغاز قرآن ۲; قرآن كى خصوصيات ۲، ۹ قرآن كا رحمت ہونا۲; قرآن كا سرچشمہ ۱;

كام: كام كے آداب ۳; كاموں ميں بسم اللہ ۳; كاموں ميں بسم اللہ كى حكمت يا فلسفہ ۷

مؤمنين: مومنين كے درجات ۱۰

____________________

۱) الدرالمنثور ج/۱ ص۲۳_

۲۱

الْحَمْدُ لِلّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ ( ۲ )

سارى تعريف اللہ كے لئے ہے جو عالمين كا پالنے والا ہے_

۱_سب تعريفيں اللہ كے لئے ہيں _

الحمدلله

''الحمدللہ'' ميں ''ال'' جنس كے لئے ہے جو استغراق كا مفہوم ديتاہے يعنى تمام حمد اللہ كے لئے ہے_

۲_ تما م تر كمالات رعنائيوں اور خوبيوں كا سرچشمہ اللہ تعالى ہے_الحمدلله اللہ تعالى كى حمد حسن و جمال اور كمالات كے مقابلے ميں ہے_ ''الحمدلله '' كے مطابق ہر توصيف و تعريف اللہ كے لئے ہے پس ہر حسن و كمال اسكى ذات اقدس سے ہے_

۳_ صرف اللہ تعالى ہى لائق حمد و ثنا ہے اور اسى كى ستائش ہونى چاہيئے_

الحمدلله

۴_ اللہ تعالى جہان ہستى كے عالمين كا مالك اور تدبير كرنے والا ہے_رب العالمين عالمين كا مفرد عالم ہے _ موجودات كے ايك مجموعہ يا گروہ كو ''عالَم'' كہتے ہيں _ پس عالمين يعنى تمام تر موجودات كے گروہ _

۵_ جہان خلقت متعدد عالموں سے تشكيل پاياہے _رب العالمين يہ مطلب''عالمين ''كے جمع ہونے سے سمجھاجاتاہے_

۶_ عالم ہستى تمام كا تمام خوبصورت اور اس ميں موجود تدبير و حكمت حسين و جميل ہے_

الحمد لله رب العالمين

''رب العالمين'' الحمدللہ كے لئے دليل كے طور پر ہے يعنى چونكہ عالم ہستى كى تدبير كرنے والا خداوند متعال ہے لہذا تمام تعريفيں اسى كے لئے ہيں اور تعريف و توصيف ہميشہ كمال و جمال كے لئے ہوتى ہے پس اسكا نتيجہ يہ نكلتاہے كہ سارے كا سارا جہاں ہستى خوبصورت اور اس ميں موجود تدبير حسين و جميل ہے_

۷_ كائنات كى تدبير و حكمت پروردگار عالم كے اختيار سے ہے اسكے انتظام و انصرام ميں جبر يا اضطرار نہيں پايا جاتا _

الحمدلله رب العالمين

فعل و صفت پر حمد و ثنا اس وقت صحيح ہے جب فعل و صفت حسين اور زيبا ہونے كے علاوہ اختيارى بھى ہوں يعنى اگر فعل يا صفت حسين و جميل ہوں تو فاعل كى حمد و ثنا كى جاسكتى ہے كيونكہ اس نے اپنے اختيار سے اسكو انجام دياہے_

۸_ عالم ہستى كمال كى طرف گامزن ہے_

۲۲

رب العالمين

''رب'' كا معنى تربيت كرنا ہے_ تربيت كا مفہوم پہلى حالت سے ايك نئي حالت پيدا كرنا ہے تا كہ كمال تك پہنچ جائے (مفردات راغب ) _ يہ معنى ايك تكاملى تحرك پر دلالت كرتاہے_ اس بات كى جانب اشارہ مناسب ہے كہ لفظ''رب'' صفت اور مصدر كے درميان مشترك لفظى ہے اور اس آيت ميں اسكا وصفى معنى آياہے_

۹_ اس جہان ہستى كے عالمين كى تدبير و حكمت كا پروردگار عالم كى طرف سےہونا اس بات كى دليل ہے كہ تمام ترتعريفيں مخصوص ہيں اسكى ذات اقدس كے ساتھ_الحمدلله رب العالمين

۱۰_عن ابى عبدالله عليه‌السلام فى قوله : ''الحمدلله'' قال: الشكر لله و فى قوله ''رب العالمين'' قال: خالق المخلوقين ...''(۱)

امام صادقعليه‌السلام سے روايت ہے كہ آپعليه‌السلام نے فرمايا: ''الحمدللہ'' يعنى شكر ، خدا كى ذات سے مخصوص ہے اور ''رب لعالمين'' يعنى اللہ تمام عالمين و مخلوقات كا خالق ہے_

اللہ تعالى : اللہ تعالى سے جو امور مختص ہيں ۱،۲،۳،۹،۱۰; اللہ تعالى كا اختيار ۷; اللہ كا خالق ہونا ۱۰;اللہ كا مالك ہونا ۴;ربوبيت الہي۴

حديث: ۱۰

حسن و رعنائي : حسن و رعنائي كا سرچشمہ۲

حمد: اللہ كى حمد ۱،۳،۱۰; حمد خدا كے دلائل ۹

كمال: كمال كا سرچشمہ ۲

كائنات ( عالم ہستي): خلقت كے عوالم ۵; عالم ہستى كا تحرك۸; عالم ہستى كا تكامل ۸; عالم ہستى كا حسن۶; عوالم ہستى كا مالك ۴;عالمين كا انتظام وانصرام ۴،۹; كائنات كى حكمت ۶،۷

موجودات: موجودات كا خالق ۱۰

____________________

۱) تفسير قمى ج/۱ ص ۲۸ ، نورالثقلين ج/۱ ص ۱۵ ح ۶۰_

۲۳

اَلرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ ( ۳ )

وہ عظيم اور دائمى رحمتوں والا ہے_

۱_ اللہ تعالى رحمان ( وسيع رحمت كا مالك) اور رحيم (مہربان) ہے_الرحمن الرحيم

۲_ تمام ترموجودات خدا وند متعال كى وسيع رحمت سے بہرہ مند ہيں _الرحمن

۳_اللہ تعالى تمام انسانوں پر مہربان ہے_الرحيم

۴_ عالم ہستى كے انتظام اور انصرام كى بنياد اللہ كى رحمت پر ہے_رب العالمين _ الرحمن الرحيم

عالم ہستى كى تدبير يا انتظام و انصرام كے بعد اللہ تعالى كى رحمانيت اور رحيميت كے ذكر سے يہ بات سامنے آتى ہے_

۵_ اللہ كى رحمانيت اور رحيميت اس بات كى دليل ہے كہ تمام تر تعريفيں اسكى ذات اقدس سے مختص ہيں _

الحمدلله رب العالمين _ الرحمن الرحيم

''الرحمن الرحيم''،''رب العالمين'' كى طرح '' الحمدللہ'' كے لئے دليل كا درجہ ركھتى ہے_ يعنى چونكہ خداوند متعال رحمان و رحيم ہے اس لئے تمام ترتعريفيں اسكى ذات اقدس كے لئے سزاوار ہيں _

۶_انتظام و انصرام اور تربيت كو مہربانى اور لطف و كرم كے ساتھ ساتھ ہونا چاہيئے_

رب العالمين _ الرحمن الرحيم

اسماء و صفات: رحمان۱; رحيم ۱

انتظام و انصرام: انتظام كى روش ۶; نظم و انتظام ميں لطف و عنايت ۶

تربيت : تربيت كى روش ۶; تربيت ميں مہربانى يا لطف و كرم ۶

حمد: اللہ تعالى كى حمد كے دلائل ۵

خداوند متعال: اللہ تعالى كى ربوبيت ۴; اللہ كى رحمانيت ۵; اللہ كى رحمت كے نتائج و اثرات ۴;اللہ كى رحمت سے استفادہ ۲; خدا كى رحيميت ۵; اللہ كى عمومى رحمت ۱،۲; اللہ تعالى سے مختص امور۵; اللہ كا مہربان ہونا ۱،۳

كائنات: كائنات كا انتظام و حكمت۴

مہربان ہونا : مہربان ہونے كى اہميت ۶

۲۴

مَالِكِ يَوْمِ الدِّينِ ( ۴ )

روز قيامت كا مالك و مختار ہے _

۱_ اللہ تعالى روز قيامت كا مالك اور فرمانروا ہے_مالك يوم الدين

''مالك يوم الدين'' ميں ملكيت حقيقى ہے يعنى وجودى وابستگى جسكا لازمى نتيجہ يہ ہے مالك ملكيت پر كامل اور ہر طرح كا تسلط ركھتاہے_''يوم الدين'' ممكن ہے مالك كے لئے مفعول ہو اورممكن ہے ظرف ہو_ اگر ظرف ہوتو اس صورت ميں مفعول ممكن ہے لفظ ''الامور'' يا اسكى مثل كوئي اور لفظ ہو اس صورت ميں جملے كى تركيب يوں ہوگي'' مالك الامور فى يوم الدين'' بہر حال يہ مفہوم اس آيہ مجيدہ سے نكل سكتا ہے_

۲_ قيامت كے دن حساب و كتا ب اور جزا و سزا خداوند متعال كے اختيار ميں ہے_مالك يوم الدين

۳_ قيامت كا برپا كرنا اور اہل دنيا كے لئے روز جزا كا قرار دينا اللہ تعالى كى رحمت كا ايك جلوہ ہے_

الرحمن الرحيم _ مالك يوم الدين

رحمت الہى كے بيان كے بعد قيامت كا ذكر كرنا اس مطلب كى طرف اشارہ ہے_

۴_قيامت كا برپا كرنا اللہ تعالى كى جہان ہستى پر ربوبيت كا ايك جلوہ ہے_رب العالمين مالك يوم الدين

مذكورہ بالا مفہوم ''مالك يوم الدين'' كے ''رب العالمين'' كے ساتھ ارتباط سے استفادہ كيا گيا ہے_

۵_ قيامت كا دن جزا و سزا كا دن ہے_

مالك يوم الدين

'' دين'' كا معنى يہاں جزا و سزا يا حساب و كتاب ہے يعنى ہر دو كى بازگشت ايك معنى كى طرف ہے_

۶_ روز جزا ميں خداوند متعال كى مالكيت اور اس دن اسكى فرمانروائي اس بات كى دليل ہے كہ تمام ترتعريفيں اسى كى ذات سے مختص ہيں _

الحمدلله مالك يوم الدين

گذشتہ صفات كى طرح''مالك يوم الدين''، ''الحمدللہ'' كے لئے دليل ہے_

۲۵

اللہ: آخرت ميں اللہ كى حاكميت ۱; آخرت ميں اللہ كي مالكيت ۲; اللہ تعالى سے مختص امور۲،۶; اللہ كى حاكميت ۶; اللہ كى ربوبيت كے مظاہر ۴; اللہ كى رحمت كے مظاہر ۳اللہ كى طرف سے آخرت ميں جزا ۲; اللہ كى طرف سے اخروى سزا ۲; اللہ كى طرف سے حساب و كتاب ۲; اللہ كى مالكيت ۶

حمد: اللہ كى حمد كے دلائل ۶

قيامت: قيامت كا برپا ہونا ۳،۴; قيامت كا مالك ۱،۶; قيامت كى خصوصيات ۵،۶قيامت ميں جزا۵; قيامت ميں حاكم۱،۶; قيامت ميں حساب كتاب ۲،۳;قيامت ميں سزا ۵

إِيَّاكَ نَعْبُدُ وإِيَّاكَ نَسْتَعِين ُ ( ۵ )

پروردگار ہم تيرى ہى عبادت كرتے ہيں اورتجھى سے مدد چاہتے ہيں _

۱_ فقط اللہ كى ذات اقدس لائق عبادت و بندگى ہے_

اياك نعبد

''اياك'' مفعول ہے اور اسكا نعبد پر مقدم ہونا حصر پر دلالت كرتاہے_

۲_ جہان ہستى پر اللہ كى ربوبيت، اسكى رحمانيت اور رحيميت قيامت كے دن اسكا مالك ہونا يہ دلائل ہيں اس امر كے كہ صرف وہى لائق عبادت و بندگى ہے_

رب العالمين _ الرحمن الرحيم _ مالك يوم الدين_ اياك نعبد

۳_اللہ كى ربوبيت كا يقين، اسكا رحمت نازل كرنا، روز جزا كا مالك ہونا يہ امور انسان كو اللہ كى پرستش كى ترغيب دلاتے ہيں _

رب العالمين _ الرحمن الرحيم_ مالك يوم الدين_ اياك نعبد

۴_ اللہ اور اسكى صفات كى معرفت توحيد عبادى كے حصول كا ذريعہ ہے _الحمدلله رب العالمين اياك نعبد

۵_ انسانى افكار و عقائد اسكے اعمال و كردار كى بنياد ہيں _الحمدلله رب العالمين_ الرحمن الرحيم_ مالك يو م الدين _ اياك نعبد

۲۶

۶_ خدا كے حضور خود كو ناچيز تصور كرنا اسكى بندگى كے آداب ميں سے ہيں _اياك نعبد

''ميں '' كى جگہ '' ہم'' كا استعمال بعض اوقات بڑائي كے اظہار كے لئے ہوتاہے اور كبھى انانيت، تكبر و خودپرستى سے اجتناب كے لئے آتاہے_ گفتگو كے قرينے سے مراد كا اندازہ لگايا جاسكتاہے_ يہاں بندگى و عبوديت كى مناسبت سے تكبر و انانيت سے اجتناب مراد ہے اس لئے ''نعبد '' جمع كا صيغہ استعمال ہوا ہے_

۷_ اللہ اور اسكى صفات پر ايمان اس يقين كا باعث ہے كہ سب اسكى بارگاہ اور اسكے حضور ميں ہيں _

الحمدلله رب العالمين اياك نعبد

سورہ حمد ميں اسلوب كلام كو تبديل كيا گياہے يعنى غائب سے خطاب كى طرف التفات ہوا ہے اور يہ امر بعض نكات كا حامل ہے_ ان ميں سے ايك يہ ہے كہ انسان جہان ہستى پر اللہ كى ربوبيت جيسى صفات خدا جاننے سے قبل گويا احساس نہيں كرتا كہ اللہ تعالى ہر چيز پر حاضر و ناظر ہے ليكن جب وہ ربوبيت الہى اور ديگر صفات پر ايمان و يقين حاصل كرليتاہے تو خود كو اور دوسروں كو اللہ كے حضور پاتاہے اسى طرح اللہ كو تمام ترحالات ميں حاضر جانتاہے_

۸_ خود كو خدا كے حضور تصور كرنا عبادت كے آداب ميں سے ہے _

اياك نعبد

غائب سے خطاب كى التفات كے نكات ميں سے ايك اور نكتہ سورہ حمد ميں عبادت اور دعا كے آداب ہيں يعنى شائستہ يہى ہے انسان كے لئے كہ عبادت و دعا كے وقت احساس كرے كہ ميں خدا كے حضور ہوں _

۹_ عبادت كى خاطر خدا كى حقيقى معرفت اور اسكى رحمتوں پر اميد اللہ كى بندگى كے لئے ترغيبات ہيں _

الحمدلله رب العالمين_ الرحمن الرحيم اياك نعبد

اللہ كى ربوبيت ، رحمانيت، رحيميت، مالكيت روز جزا جيسى صفات كے بيان كے بعد اللہ كى عبادت كو بيان كرنا اسكى عبادت كى ترغيبات ہيں يعنى چونكہ اللہ رب ہے اس لئے لائق بندگى ہے_ لوگ چونكہ اسكى رحمت كے محتاج ہيں اس لئے عبادت كريں اور اس لئے كہ عذاب آخرت سے خوف زدہ ہيں اسكى پرستش كريں _

۱۰_ عذاب آخرت كا خوف اور جہان آخرت ميں جزا كى اميد انسان كے لئے خدا كى عبادت كے محرّك ہيں _

مالك يوم الدين _ اياك نعبد

۱۱_ اللہ تعالى اور اسكى صفات كى معرفت خود كو اسكى بارگاہ

۲۷

ميں ناچيز سمجھنے كا باعث ہے_الحمدلله اياك نعبد و اياك نستعين

۱۲_ توحيدپرستوں كى آرزوہے كہ سب لوگ يكتا پرست، خدا پرست ہوجائيں _اياك نعبد

'' اعبد _ ميں عباد ت كرتاہوں '' كى جگہ '' نعبد _ ہم عبادت كرتے ہيں '' كا استعمال ہوسكتاہے اس بات كى طرف اشارہ ہو كہ يہ ہر توحيد پرست كى خواہش ہے_ يعنى وہ اس جملہ '' ہم عبادت كرتے ہيں '' كے ذريعے اس خواہش كا اظہار كرتا ہے كہ سب انسان ايسے ہى ہوں _

۱۳_ فقط وہ حقيقت يا ذات جس سے مدد طلب كى جاسكتى ہے وہ اللہ تعالى كى ذات اقدس ہے_و اياك نستعين

۱۴_ اللہ كى بندگى اور اس ميں خلوص كے لئے انسان امداد الہى كا محتاج ہے_اياك نعبد و اياك نستعين

'' نستعين'' كا متعلق تمام تر فرائض ہيں جو سورہ حمد سے استفادہ ہوتے ہيں ان ميں ايك يكتاپرستى يا توحيد پرستى كا واجب و ضرورى ہوناہے جو''اياك نعبد'' سے سمجھ ميں آتاہے يعنى ''نستعينك على عبادتك وخلوصہا''

۱۵_ باوجود اس كے كہ انسان اللہ كى بندگى پر اختيار ركھتا ہے اللہ كى مدد كے بغير عبادت كرنے كى توانائي نہيں ركھتا _

اياك نعبد و اياك نستعين

۱۶_ اللہ كى حمد و ثنا اسكى امداد و نصرت سے ہى امكان پذير ہے_الحمد لله اياك نستعين

جو فرائض سورہ حمد سے استفادہ ہوتے ہيں ان ميں سے ايك اللہ كى توصيف و ثنا كا واجب و ضرورى ہوناہے _بنابريں كہا جاسكتاہے كہ يہ معنى بھى نستعين سے متعلق ہے يعنى '' نستعينك على ان نحمدك''

۱۷_ تمام جہان ہستى پر اللہ كى ربوبيت كى معرفت، اس كى رحمانيت و رحيميت كا يقين اور اسكا روز جزا كے مالك ہونے كا يقين يہ سب اللہ كى امداد سے ہى ممكن ہے_الحمد لله رب العالمين اياك نستعين

اللہ كى ربوبيت كى معرفت اور ان شرعى فرائض ميں سے ہے جسے سورہ حمد سے استفادہ كيا جاسكتاہے لہذا يہ بھى نستعين سے متعلق ہيں يعنى''نستعينك على ان نعرف ربوبيتك و ...''

۱۸_ انسان اپنے تمام امور ميں اللہ كى مدد و نصرت كا محتاج ہے_اياك نستعين

بعض كى رائے يہ ہے كہ نستعين كا متعلق يا استعانت كا مورد ذكر نہيں كيا گيا تا كہ تمام تر امور مراد ہوں يعنى''نستعينك على امورنا كلها''

۱۹_اللہ تعالى بندوں كى تمام دعاؤں كو پورا كرنے كى مكمل توانائي ركھتاہے_ايا ك نستعين

۲۸

اس مطلب كا لازمہ يہ ہے كہ استعانت سے مراد تمام امور ہوں _

۲۰_ اللہ تعالى اور اسكى صفات (رب العالمين ، ...) كى معرفت انسان كو توحيد افعالى كى طرف راہنمائي كرتى ہے _

اياك نستعين

اس كى دليل يہ ہے كہ '' اياك نستعين '' اللہ تعالى كى '' رب العالمين'' كے ساتھ توصيف كے بعد آياہے_ اسكا مطلب يہ ہے كہ ان صفات كے ساتھ اللہ تعالى كى معرفت انسان كو اس مرحلے تك پہنچا ديتى ہے كہ وہ غير اللہ كو ناتواں سمجھے اور نتيجتاً توحيد افعالى تك پہنچ جائے_

۲۱_ توحيد پرستوں كى آرزو ہے كہ سب انسان توحيد افعالى كے قائل ہوجائيں _اياك نستعين

''استعين _ ميں مدد مانگتاہوں '' كى جگہ ''نستعين _ ہم مدد مانگتے ہيں '' كا استعمال مندرجہ بالا مطلب كى طرف اشارہ ہوسكتاہے_

۲۲_ امام رضاعليه‌السلام سے روايت ہے:اياك نعبد رغبة و تقرب الى الله تعالى ذكره و اخلاص له بالعمل دون غيره و '' اياك نستعين'' استزادة من توفيقه و عبادته و استدامة لما انعم الله عليه ونصره (۱) ''اياك نعبد'' يعنى بندے كا خدا كى طرف رغبت كا اظہار اور تقرب كى تلاش اسى طرح اللہ كے لئے عمل ميں خلوص جو كہ غير خدا كے لئے نہ ہو _ '' اياك نستعين '' اللہ كى بارگاہ ميں بہت زيادہ توفيق اور عبادت كى درخواست اسى طرح خدا كى نعمتوں ميں تسلسل اور اسكى مدد كى درخواست كرنا ہے_

اللہ تعالى : اللہ تعالى كى امداد كے اثرات ۱۶،۱۷; خدا شناسى كے نتائج و اثرات ۴،۱۱،۲۰; اللہ تعالى سے مختص امور ۱،۱۳; اللہ تعالى كى امداد ۱۵; اللہ كى ربوبيت ۲،۱۷; اللہ كى رحمانيت ۲،۱۷; اللہ كى رحيميت ۲،۱۷; اللہ تعالى كى قدرت ۱۹; آخرت ميں اللہ تعالى كى مالكيت ۲،۳; خدا كے حضور ۶،۷،۸،۱۱; اللہ تعالى كى مہربانى ۲

امداد طلب كرنا : اللہ تعالى سے طلب امداد ۱۳ ،۲۲

اميد: اخروى جزا كى اميد ۱۰; اللہ كى رحمت كى اميد۹

انانيت : انانيت سے اجتناب ۶

انسان : انسانى خواہشات ۱۹; انسان كا عاجز ہونا ۱۵; انسان كى ضروريات ۱۴، ۱۸; انسان كے اختيارات ۱۵

____________________

۱) من لايحضرہ الفقيہ ج/۱ ص ۲۰۴ ح۱۲، نورالثقلين ج/ ۱ ص ۱۹ ح ۸۱_

۲۹

ايمان: اللہ پر ايمان ۱۷; اللہ پر ايمان كے نتائج و اثرات۳،۷; اللہ كى ربوبيت پر ايمان ۳; اللہ كى رحمت پر ايمان ۳; اللہ كى صفات پر ايمان ۷;اللہ كى مالكيت پر ايمان ۳; توحيد پر ايمان ۲۱; ايمان سے متعلق امور ۳،۷

ترغيبات: ترغيبات كے عوامل ۳،۹،۱۰

تزكيہ : تزكيہ كے اسباب ۱۱

تفكر : تفكر كے اثرات و نتائج ۵

تقرب: تقرب كے عوامل ۲۲

توحيد : توحيد افعالى ۲۱; توحيد افعالى كى بنياد ۲۰; توحيد افعالى كى ترويج۲۱; توحيد عبادى كى بنياد ۴; توحيد كى ترويج ۱۲

توحيد پرست : توحيد پرستوں كى آرزو۱۲، ۲۱

توفيقات: توفيق كى درخواست ۲۲; خداشناسى كى توفيق ۱۷; عبادت كى توفيق ۱۴،۱۵، ۲۲

جہان بينى (نظريہ كائنات): جہان بينى اور آئيڈيالوجى ۳،۴ ، ۷، ۹ ، ۱۰ ،۱۱

حديث :۲۲

حمد: حمد خدا كى بنياد۱۶

خوف: عذاب سے خوف كے نتائج و اثرات ۱۰; اخروى عذاب سے خوف ۱۰

ضروريات: اللہ تعالى كى امداد كى ضرورت۱۴،۱۸

عالم ہستى ( كائنات): عالم ہستى كا نظم و انتظام۲، ۱۷

عبادت: اللہ كى بندگى كے دلائل ۲; بندگى كے محركات ۳خدا كى عبادت ۹،۱۰; عبادت كے آداب ۶،۸; عبادت كے اسباب ۹،۱۰; عبادت ميں اختيار ۱۵;

عبادت ميں خلوص ۱۴; عبادت ميں حضور قلب ۸;

عمل: عمل ميں خلوص ۲۲

قيامت : قيامت كا مالك ۲،۱۷

كردار: كردار و اعمال كى اساس ۵

نعمت : نعمتوں كى درخواست ۲۲

۳۰

اِهْدِنَا الصِّرَاطَ المُسْتَقِيمَ ( ۶ )

ہميں سيدھے راستہ كى ہدايت فرماتا رہ _

۱_ صراط مستقيم كى ہدايت كى درخواست ايك عارف و سالك الى اللہ انسان كى اہم ترين درخواست و دعا ہے_

الحمد لله اياك نستعين _ اهدنا الصراط المستقيم

اگر''اهدنا الصراط المستقيم '' كے''الحمدلله رب العالمين '' كے ساتھ ربط كو ملاحظہ كيا جائے تو يہ پيغام ملتاہے كہ اللہ تعالى كى معرفت كے بعد انسان كا ہدف صراط مستقيم پر گامزن رہناہے يعنى وہ راستہ جسكا منتہائے مقصود اللہ تعالى كى ذات اقدس ہے_

۲_ اللہ تعالى كى بارگاہ اقدس ميں دعا كرنے كا لازمى نتيجہ صراط مستقيم كا حصول ہے_اهدنا الصراط المستقيم

۳_اللہ تعالى كى تعريف اور اس كى بارگاہ ميں بندگى كا اظہار دعا كے آداب ميں سے ہے_

الحمدلله رب العالمين اهدناالصراط المستقيم

چونكہ خداوند قدوس كى حمد و ثنا اوراسكى عبوديت كے اظہار كے بعد اسكى بارگاہ ميں دعا اور'' اهدناالصراط المستقيم'' كى درخواست كى گئي ہے اس سے مذكورہ بالا مطلب نكلتاہے_

۴_ انسان ہميشہ كے لئے اللہ تعالى كى ہدايت و راہنمائي كا محتاج ہے _

اهدنا الصراط المستقيم

۵_ صراط مستقيم كى ہدايت كى دعاكرنا پروردگار متعال سے مدد طلب كرنے كا انتہائي شائستہ اور زيبا مورد ہے_

اياك نستعين _ اهدنا الصراط المستقيم

اگر '' اہدنا ...'' كو''اياك نستعين'' سے مربوط كركے ديكھا جائے تو اس كا مطلب يہ ہے كہ صراط مستقيم كى ہدايت وہ اعلى ترين مورد ہے جسكے حصول ميں انسان خدائے متعال كى امداد كا محتاج ہے_

۶_اللہ تعالى كى مدد و نصرت كے بغير انسان صراط مستقيم كو نہيں پاسكتا_اهدنا الصراط المستقيم

۷_ يكتاپرستى اور فقط خدا سے مدد طلب كرنا ''صراط مستقيم '' ہے_اياك نعبد و اياك نستعين _ اهدنا الصراط المستقيم

لفظ الصراط ميں الف لام عہد ذكرى ہوسكتاہے اور يہ ان حقائق كى طرف اشارہ ہے جو گذشتہ آيت ميں گذرچكے ہے اور ان ميں يكتاپرستى اور صرف خدا سے مدد طلب كرنا ہے_

۳۱

۸_ اللہ تعالى پر اور اسكى صفات پر ايمان لانا ''صراط مستقيم '' ہے_الحمدلله رب العالمين اهدنا الصراط المستقيم

''الصراط المستقيم'' كا جن حقائق كى طرف اشارہ ہے اللہ تعالى اور اسكى ربوبيت پر ايمان لانا ان ميں سے ہے_ ان كى طرف اشارہ''الحمدلله '' سے''مالك يوم الدين'' تك كيا گياہے_

۹_ ايك توحيد پرست انسان كى آرزو ہے كہ سب انسان صراط مستقيم كى ہدايت پاليں _اهدنا الصراط المستقيم

اس مطلب كى طرف راہنمائي اسطرح ہوتى ہے كہ ''اهدنا ہميں ہدايت فرما'' استعمال ہوا ہے نہ كہ ''اهدنى مجھے ہدايت فرما ''_

۱۰_ ہدايت كے بہت سارے درجات اور مراحل ہيں _اهدنا الصراط المستقيم

گذشتہ آيات كے بعد ''اہدنا'' كا استعمال اس امر كى طرف نشاندہى كررہاہے كہ يہ دعا كرنے والا انسان ہدايت يافتہ ہے_ بنابريں يہ كہنا چاہيئے كہ ہدايت كے بہت سارے مراحل ہيں اور يہ كہنا صحيح ہے : ہر وہ شخص جو ہدايت پاچكاہے اسكو بھى انتہائي سنجيدگى سے ہدايت كى دعا كرنى چاہيئے_

۱۱_ ہدايت كے حصول كے لئے بارگاہ رب العزت ميں دعا كا بہت موثر كردار ہے_اهد نا الصراط المستقيم

۱۲_ امام رضاعليه‌السلام سے روايت ہے :''اهدنا الصراط المستقيم استرشاد لدينه واعتصام بحبله و استزادة فى المعرفة لربه عزوجل ..(۱)

''اهدنا الصراط مستقيم'' اللہ كے دين كى طرف ہدايت، اسكى رسى كو مضبوطى سے تھامنے اور اللہ جل جلالہ كى معرفت ميں اضافے كى دعا ہے_

۱۳_ امام صادقعليه‌السلام سے روايت ہے كہ آپعليه‌السلام نے فرمايا:''الصراط المستقيم'' صراط الانبياء و هم الذين انعم الله عليهم (۲) ''صراط مستقيم '' سے مراد انبياءعليه‌السلام كا راستہ ہے يہى وہ ہستياں ہيں جن پر اللہ تعالى نے اپنى نعمتيں نازل فرمائيں _

۱۴_عن رسول الله (ص) انه قال ( فى قول الله عزوجل)_ اهدنا الصراط المستقيم دين الله الذى نزل به جبرئيل عليه‌السلام على محمد (ص) ... (۳)

____________________

۱) من لا يحضرہ الفقيہ ج/ ۱ ص ۲۰۴ ح ۱۲ ، نورالثقلين ج/ ۱ ص ۲۰ ح ۸۵_

۲) تفسير عياشى ج/ ۱ ص ۲۲ح۱۷ ، نورالثقلين ج/ ۱ ص ۲۰ ح ۸۶_

۳) تفسير فرات كوفى ص ۵۱،بحارالانوار ج/۳۶ ص۱۲۸ ح ۷۱_

۳۲

رسول اللہ (ص) سے روايت ہے كہ آپ (ص) نےاهدنا الصراط المستقيم كے بارے ميں فرمايا اس سے مراد اللہ كا دين ہے جو جبرائيلعليه‌السلام كے ذريعے محمد (ص) پر نازل ہوا _

۱۵_عن رسول الله(ص) وعن على عليه‌السلام فى معنى ''الصراط المستقيم '' انه كتاب الله (۱)

پيامبر اسلام (ص) اور حضرت علىعليه‌السلام سے روايت ہے كہ صراط مستقيم سے مراد اللہ كى كتاب ہے_

۱۶_ امام صادقعليه‌السلام سے روايت ہے كہ آپعليه‌السلام نے فرمايا:''الصراط المستقيم اميرالمومنين علي عليه‌السلام '' (۲)

صراط مستقيم امير المومنين على عليہ السلام ہيں _

اسلام: دين اسلام كى اہميت ۱۴

اعتصام: اللہ كى رسى كو مضبوطى سے تھامنا ۱۲

امام علىعليه‌السلام : امام علىعليه‌السلام كا راستہ ۱۶

انبياءعليه‌السلام : انبياءعليه‌السلام كا راستہ ۱۳

انسان: انسان كى امداد۶; انسان كا عاجز ہونا ۶; انسانى ضروريات ۴; انسانوں كى ہدايت ۹

ايمان: اللہ پر ايمان ۸; اللہ كى صفات پر ايمان ۸; ايمان كا متعلق ۸

توحيد : توحيد عبادى ۷

توحيد پرست : توحيد پرستوں كى آرزو ۹; توحيد پرستوں كى خواہشات ۱

توفيقات: ہدايت كى توفيق۶

حديث :۱۲،۱۳،۱۴،۱۵،۱۶

حمد: اللہ كى حمد ۳

خدا تعالى : اللہ كى امداد كے اثرات ۶; ہدايت الہى ۴

دعا: دعا كے اثرات ۱۱;دعا كے آداب ۳; دعا كى اہميت ۲،۱۱

____________________

۱) مجمع البيان ج/۱ص۱۰۴، نورالثقلين ج/ ۱ ص۲۰ ح ۸۷_

۲) معانى الاخبار ص ۳۲ ح ۲ ، نورالثقلين ج/ ۱ ص ۲۱ ح ۹۴_

۳۳

صراط مستقيم : صراط مستقيم سے كيا مراد ہے ۷،۸،۱۳،۱۴، ۱۵،۱۶

مددطلب كرنا : اللہ سے مدد طلب كرنا ۵،۷

ضروريات: ہدايت كى ضرورت ۴

عبوديت: عبوديت كا اظہار ۳

قرآن كريم: قرآن كى فضيلت ۱۵

نعمت : نعمتيں جن كے شامل حال ہيں ۱۳

ہدايت: صراط مستقيم كى ہدايت ۱،۲،۵،۶،۹; ہدايت كى اہميت ۱۲; ہدايت كى درخواست ۱،۵،۱۲; ہدايت كے اسباب ۶،۱۱; ہدايت كے درجات ۱۰;

صِرَاطَ الَّذِينَ أَنعَمْتَ عَلَيهِمْ غَيرِ المَغضُوبِ عَلَيهِمْ وَلاَ الضَّالِّينَ ( ۷ )

جو ان لوگوں كا راستہ ہے جن پر تو نے نعمتيں نازل كى ہيں ان كا راستہ نہيں جن پر غضب نازل ہوا ہے يا جو بہكے ہوئے ہيں _

۱_ قرآن كريم ميں انسانوں كو مختلف طبقات ميں تقسيم كيا گيا ہے ايك وہ ہيں جو ہدايت پر ثابت قدم ہيں اور دوسرے وہ جو گمراہ اور بارگاہ ايزدى ميں غضب كا شكار ہيں _

صراط الذين انعمت عليهم غير المغضوب عليهم و لا الضالين

''انعمت عليہم'' سے پہلے اور بعد والى آيات كے قرينے كى بناپر انعمت سے مراد ہدايت كى نعمت ہے نہ كہ مادى نعمتيں _ ان نعمات سے تمام مخلوقات حتى كافر بھى بہرہ مند ہيں _

۲_ بعض انسان اللہ تعالى كى خصوصى ہدايت سے بہرہ

۳۴

مند ہيں اور ہدايت كے اعلى مراتب و مراحل كے حامل ہيں _صراط الذين انعمت عليهم

جيسا كہ بيان ہوا ہے ''نعمت'' سے مراد ہدايت كى نعمت ہے جبكہ ہدايت كى دعا مانگنے والے خود ہدايت يافتہ ہيں لہذا يہاں مراد خاص ہدايت ہے_

۳_ صراط مستقيم كى ہدايت اللہ تعالى كى عظيم نعمتوں ميں سے ايك ہے_صراط الذين انعمت عليهم

يہاں نعمت مطلق بيان ہوئي ہے پس اس سے ہدايت كى نعمت كا ارادہ كرنا اس بات كى دليل ہے كہ متكلم ہدايت كى نعمت كے مقابل ديگر نعمتوں كو نعمت تصور نہيں كرتا اور يہ چيز حكايت كرتى ہے كہ ہدايت كى نعمت بہت ہى عظيم ہے_

۴_ بعض ہدايت يافتہ لوگ ہدايت پر ثابت قدم نہ رہے اور غضب شدہ اورگمراہ افراد ميں سے قرار پائے_

صراط الذين انعمت عليهم غير المغضوب عليهم و لا الضالين

مذكورہ مطلب اس بناپرہے كہ''غير المغضوب'' ،''الذين انعمت'' كے لئے ايك احترازى صفت ہے_ بنابريں جن كو نعمت دى گئي يعنى ہدايت يافتہ افراد كے تين گروہ ہيں ۱ _ وہ ہدايت يافتہ افراد جو ہدايت سے ہاتھ دھوبيٹھے اور ''مغضوبين'' ميں سے قرار پائے ۲_ وہ افراد جو وسط راہ سے گم ہوگئے اور '' ضالين'' ميں سے قرار پائے ۳_ وہ ہدايت يافتہ انسان جو صراط مستقيم پر آخر تك ثابت قدم رہے_

۵_ ہدايت يافتہ افراد كے لئے يہ خطرہ موجود ہے كہ وہ بھى غضب شدہ اورگمراہ افراد كے زمرے ميں آجائيں _

صراط الذين انعت عليهم غير المغضوب عليهم و لا الضالين

۶_ اللہ تعالى كى يكتائي كے قائل خداپرست انسان چاہتے ہيں كہ وہ ہدايت پر ثابت قدم انسانوں ميں سے ہوں _

الحمدلله اهدنا الصراط المستقيم _ صراط الذين انعمت عليهم

۷_ '' صراط مستقيم'' خدا كى طرف جانے والا راستہ ہے جس ميں كجى اور انحراف ہرگز نہيں پايا جاتا_

اهدنا الصراط المستقيم _ صراط الذين انعمت عليهم

'' غير المغضوب ...'' سے'' الذين ...'' كى صفت بيان كرنا اس بات كى طرف اشارہ ہے كہ ''صراط الذين ...'' ايسا راستہ ہے جس ميں انحراف اور كجى ہرگز نہيں ہوسكتى اور اسى راستے كو صراط مستقيم كہتے ہيں كيونكہ''صراط الذين'' ،''الصراط المستقيم '' كے لئے عطف بيان ہے_

۸_ ہدايت يافتہ انسانوں كے عملى نمونے صراط مستقيم كے حصول اور اس پر گامزن رہنے ميں انتہائي اہم كردار كے حامل ہيں _اهدنا الصراط المستقيم _ صراط الذين انعمت عليهم

۳۵

صراط مستقيم كو چونكہ ہدايت يافتہ انسانوں كى راہ سے تفسير و تعبير كيا گيا ہے اس لئے كہاجاسكتاہے كہ صراط مستقيم كے حصول كے لئے انسان عملى نمونوں كا محتاج ہے_ پس ضرورت ہے كہ ان سالكان راہ كى تلاش كرے اور ان كى پيروى كرے_

۹_جن كو نعمات سے نوازا گيا ہے( ہدايت يافتہ انسان) وہ ايسے لوگ ہيں جن پر اللہ كا غضب نہيں ہوا اور نہ ہى وہ گمراہ ہوئے_صراط الذين انعمت عليهم غير المغضوب عليهم و لا الضالين يہ مطلب اس طرح حاصل ہوتاہے كہ اگر '' غير المغضوب'' ، ''الذين'' كے لئے توضيحى صفت ہو يا بدل اور يا عطف بيان ہو_

۱۰_عن جعفر بن محمد عليه‌السلام قال: قول الله عزوجل فى الحمد''صراط الذين انعمت عليهم'' يعنى محمداً وذريته صلوات الله عليهم (۱) امام صادقعليه‌السلام سے روايت ہے كہ آپعليه‌السلام نے فرمايا: ''صراط الذين انعمت عليہم'' سے سورہ حمد ميں مراد حضرت محمد (ص) اور آپ (ص) كى ذريتعليه‌السلام ہيں _

۱۱_ امام رضاعليه‌السلام سے روايت ہے كہ آپعليه‌السلام نے فرمايا:غير المغضوب عليهم

استعاذة من ان يكون من المعاندين الكافرين المستخفين به و بامره و نهيه .(۲) غير المغضوب عليہم سے مراد اللہ كى پناہ طلب كرنا اس سے كہ انسان دشمنوں اور كافروں ميں سے ہو جو اللہ كو اہميت نہيں ديتے اور اللہ كے امر و نہى كو ہلكا سمجھتے ہيں _

استعاذہ: اللہ تعالى كى پناہ مانگنا ۱۱; پناہ طلب كرنے كے موارد ۱۱

اللہ تعالى : اللہ كى نعمتيں ۳; اللہ كے اوامر كو ہلكا سمجھنا ۱۱; اللہ تعالى كى خاص ہدايت۲;اللہ تعالى كى ذات اقدس كو سبك تصور كرنا ۱۱; اللہ تعالى كے نواہى كو ہلكا سمجھنا ۱۱

انحراف : انحراف كى ركاوٹيں ۷

انسان : انسانوں كى قسميں ۱

اہل بيتعليه‌السلام : اہل بيتعليه‌السلام كے فضائل ۱۰

پيامبر اسلام (ص) : آپ (ص) كے فضائل۱۰;جن پر خدا كا غضب نازل ہوا ۱،۴،۵

____________________

۱) معانى الاخبار ص ۳۶ ح ۷ ، نورالثقلين ج/۱ ص ۲۳ ح ۱۰۱_

۲) من لا يحضرہ الفقيہ ج/۱ ص۲۰۴ ح ۱۲ ، نورالثقلين ج/ ۱ ص ۲۴ ح ۱۰۸_

۳۶

توحيد پرست: توحيد پرستوں كى خواہشات ۶

حديث :۱۰،۱۱

صراط مستقيم: صراط مستقيم سے كيا مراد ہے ۱۰; صراط مستقيم كى خصوصيات ۷

گمراہ افراد :۱

معاشرتى طبقات :۱،۲

مغضوبان خدا : ۱ ، ۴، ۵

نعمت : ۹ ،۱۰

ہدايت: صراط مستقيم كى ہدايت ۳،۸;ہدايت ميں ثابت قدم انسان۱; ہدايت ميں ثابت قدمي۶ ; ہدايت ميں نمونے كى پيروى كرنا ۸; ہدايت كى درخواست ۶; ہدايت كى نعمت ۳; ہدايت كے درجات ۲;

ہدايت يافتہ انسان: ۲ ہدايت يافتہ انسانوں كى خصوصيات۹; ہدايت يافتہ انسانوں كى گمراہى كا خطرہ ۴،۵;

۳۷

سوره بقره

بِسْمِ اللّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ

الم ( ۱ )

عظيم اور دائمى رحمتوں والے خدا كے نام سے _

۱_عن على بن الحسين عليه‌السلام فى دعاء له : الهى و سيدى قلت: '' الم ذلك الكتاب لا ريب فيه ...'' ثنيت بالكتاب مع القسم الذى هو اسم من اختصصته لوحيك و استودعته سرّ غيبك (۱)

امام سجادعليه‌السلام سے روايت ہے كہ آپعليه‌السلام نے ايك دعا كے ضمن ميں بارگاہ رب الارباب ميں عرض كيا: اے ميرے معبود ، اے ميرے آقا تو نے فرماياہے الم ذلك الكتاب تو نے اپنى كتاب كى تعريف اس قسم كے ساتھ كى ہے جو نام ہے اسكا جسكو تو نے اپنى وحى كےساتھ مخصوص كيا اور اسكو تو نے اپنے غيب كا راز وديعت فرمايا

____________________

۱) بحار الانوار ج/۸۸ ص۷،۸ ح۳،نورالثقلين ج/۲ ص۰۲۹۱

۳۸

۲_ امام صادقعليه‌السلام سے روايت ہے آپعليه‌السلام نے فرمايا:''الم'' رمز و اشارة بينه و بين حبيبه محمد (ص) ا راد ان لا يطلع عليه سواهما ..(۱) '' الم'' اللہ اور اسكے حبيب محمد (ص) كے درميان رمز اور اشارہ ہے_ اللہ نے چاہا كہ اس راز سے فقط وہ اور اسكا حبيب ہى آگاہ رہيں _

۳_ سفيان ثورى كہتے ہيں : ''قلت لجعفر بن محمد عليه‌السلام يابن رسول الله ما معنى قول الله عزوجل الم قال عليه‌السلام اما '' الم'' فى اول البقرة فمعناه انا الله الملك (۲)

ميں نے امام صادقعليه‌السلام سے سوال كيا اے فرزند رسول (ص) يہ فرمائيں كہ اللہ كے اس قول '' الم '' كا كيا معنى ہے؟ آپعليه‌السلام نے فرمايا سورة بقرہ كے شروع ميں ''الم'' كامعنى يہ ہے ميں اللہہى بادشاہ_

۴_امام صادقعليه‌السلام سے روايت ہے آپعليه‌السلام نے فرمايا:

''الم'' هو حرف من حروف اسم الله الاعظم المقطع فى القرآن الذى يؤلفه النبى و الامام فاذا دعا به اجيب (۳) ''الم'' اللہ تعالى كے اسم اعظم كے حروف ميں سے ايك ہے جو مقطع صورت ميں قرآن ميں آياہے_ اس كو نبى (ص) اور امامعليه‌السلام تاليف كرتے ہيں اور جب اسكے ذريعے دعا كرتے ہيں تو مستجاب ہوتى ہے_

۵_ آئمہ ہدى (عليہم السلام) سے روايت ہے_'' ان الحروف المفتحة بها السور من المتشابهات التى استاثر الله تعالى بعلمها و لا يعلم تاويلها الا هو (۴) حروف ( مقطعہ) جن سے سورتوں كا آغاز ہوتاہے متشابہات ميں سے ہيں جن كا علم اللہ تعالى نے اپنے ساتھ مختص فرماياہے ان كى تاويل اسكے علاوہ كوئي اور نہيں جانتا_

اللہ تعالى : اللہ تعالى كا اسم اعظم ۴; اللہ تعالى كى سلطنت ۳

پيامبر اسلام(ص) : اللہ اور پيامبر خدا (ص) كے درميان رموز ۱،۲

حديث: ۱،۲،۳،۴،۵

حروف مقطعہ ۱: حروف مقطعہ كا علم ۵; حروف مقطعہ كا فلسفہ ۱،۲،۴

قرآن كريم: قرآن كے متشابہات۵

____________________

۱) بحار الانوار ج/ ۸۹ ص ۳۸۴_ ۲) معانى الاخبار ص۲۲ ح۱، نورالثقلين ج /۱ص ۲۶ ح ۴_ ۳) معانى الاخبار ص۲۳ ح۲ ، نورالثقلين ج/۱ص۲۶ ح۵_

۴) مجمع البيان ج/۱ ص۱۱۲ ، نور الثقلين ج / ۱ ص۳۰ح۸_

۳۹

ذَلِكَ الْكِتَابُ لاَ رَيْبَ فِيهِ هُدًى لِّلْمُتَّقِينَ ( ۲ )

يہ وہ كتاب ہے جس ميں كسى طرح كے شك و شبہہ كى گنجائش نہيں ہے_ يہ صاحبان تقوى اور پرہيزگار لوگوں كے لئے مجسم ہدايت ہے _

۱_ قرآن كريم كامل ترين اور باعظمت كتاب ہے_ذلك الكتاب

''ذلك'' مبتداء اور '' الكتاب'' خبر ہے_ اس اعتبار سے '' ال'' صفات كے استغراق كے لئے آياہے اور كمال پر دلالت كرتاہے_

۲_ آيات قرآن كى كتابت اور تدوين آنحضرت (ص) پر نزول كے بعد ہوئي _ذلك الكتاب

كتاب ( لكھا ہوا يا تحرير شدہ) كا قرآن حكيم پر اطلاق ،اسكى جہات مختلف ہوسكتى ہيں ۱_ آيات نازل ہونے كے بعد لكھى جاتى تھيں ۲_ پروردگار كى طرف سے تاكيد ہو كہ انہيں تحرير كيا جائے۳_ تحرير شدہ صورت ميں آنحضرت (ص) پر نازل ہوئيں _ مذكورہ بالا مطلب پہلے اور دوسرے احتمال كى بناپر ہے_

۳_ قرآن حكيم ايك انتہائي مستحكم كتاب ہے اور ہر اس چيز سے پاك و منزہ ہے جو اس كى حقانيت ميں ترديد اور شبہہ پيدا كرے_لا ريب فيه ريب كا معنى شك اور وہ چيز ہے جو شك كا باعث بنے _ مذكورہ بالا مطلب اسكے دوسرے معنى سے ماخوذ ہے_ پس '' لاريب فيہ'' كا مطلب يہ ہے كہ قرآن كريم ميں كوئي ايك مسئلہ بھى ايسا نہيں كہ جو اس كى حقانيت ميں شك و ترديد كا سبب بنے_

۴_ قرآن حكيم متقى اور پرہيزگار انسانوں كى ہدايت و تربيت كى پورى صلاحيت ركھتاہے يہى چيز قرآن كريم كے استحكام اور حقانيت كى دليل ہے_لا ريب فيه هدى للمتقين

''هدى للمتقين'' ،''لا ريب فيه'' كے لئے دليل كى حيثيت ركھتاہے_

۵_ قرآن حكيم اہل تقوى كو اعلى ترين مدارج كى طرف ہدايت اور راہنمائي كرنے والى كتاب ہے_

هدى للمتقين

۶_ ہدايت كے مختلف درجات اور مراحل ہيں _هدى للمتقين

بعد والى آيات ميں جو صفات بيان ہوئي ہيں خصوصاً آية مباركہ ۵ (اولئك على هديً )

۴۰

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

ان آیات کا تنقیدی جائزہ جن کے نسخ کا دعویٰ کیا گیا ہے

اس وقت ہمارا موضوع سخن وہ آیات ہیں جن کے نسخ کا دعویٰ کیا گیا ہے فی الحال ہم وہ آیات پیش کرتے ہیں جن کے بارے میں آسانی سے یہ معلوم نہیں ہوتا کہ ان میں نسخ واقع ہوا ہے یا نہیں اور جن آیات کا نسخ نہ ہونا (ہمارے گزشتہ بیانات کی روشنی میں) واضح ہے ان کو فی الحال پیش نہیں کرتے انشاء اللہ تعالیٰ ان کی تفسیر کے موقع پر اس پہلو (نسخ) پر نظر ڈالیں گے۔

ان آیات پر بحث ہم اسی ترتیب سے کریں گے جس ترتیب سے یہ قرآن میں موجود ہیں:

۱۔( وَدَّ كَثِيرٌ مِّنْ أَهْلِ الْكِتَابِ لَوْ يَرُدُّونَكُم مِّن بَعْدِ إِيمَانِكُمْ كُفَّارًا حَسَدًا مِّنْ عِندِ أَنفُسِهِم مِّن بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُمُ الْحَقُّ ۖ فَاعْفُوا وَاصْفَحُوا حَتَّىٰ يَأْتِيَ اللَّـهُ بِأَمْرِهِ ۗ إِنَّ اللَّـهَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ ) ۲:۱۰۹

''(مسلمانو)اہل کتاب میں سے اکثر لوگ اپنے دلی حسد کی وجہ سے یہ خواہش رکھتے ہیں کہ تم کو ایمان لانے کے بعد پھر کافربنا دیں (اور لطف تو یہ ہے) ان پر حق ظاہر ہو چکا ہے اس کے بعد بھی (یہ تمنا باقی ہے) پس تم معاف کرو اور درگزر کرو یہاں تک کہ خدا اپنا کوئی اور حکم بھیجے ، بیشک خداہر چیز پر قادر ہے،،

ابن عباس نے قتادہ اور سدی سے روایت کی ہے کہ یہ آیت ، آیہ سیف کے ذریعے نسخ ہو گئی ہے ابو جعفر نحاس نے بھی اسی قول کو اختیار کیا ہے(۱) آیہ سیف یہ ہے:

( قَاتِلُوا الَّذِينَ لَا يُؤْمِنُونَ بِاللَّـهِ وَلَا بِالْيَوْمِ الْآخِرِ وَلَا يُحَرِّمُونَ مَا حَرَّمَ اللَّـهُ وَرَسُولُهُ وَلَا يَدِينُونَ دِينَ الْحَقِّ مِنَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ حَتَّىٰ يُعْطُوا الْجِزْيَةَ عَن يَدٍ وَهُمْ صَاغِرُونَ ) ۹:۲۹

''اہل کتاب میں سے جو لوگ نہ تو (دل سے) خدا ہی پر ایمان رکھتے ہیں نہ روز آخرت پر اور نہ خدا اوراس کے رسول کی حرام کی ہوئی چیزوں کو حرام سمجھتے ہیں اور نہ سچے دین ہی کو اختیار کرتے ہیں ان لوگوںسے لڑے جاؤ یہاں تک کہ وہلوگ ذلیل ہو کر (اپنے) ہاتھ سے جزیہ دیں،،

____________________

(۱) الناسخ و المنسوخ ، ص ۲۶ ، طبع مکتبتہ العلامیہ ۔ مصر

۳۶۱

مذکورہ آیت کے نسخ کو اس وقت مانا جا سکتا ہے جب دو باتیں مان لی جائیں جو کہ صحیح نہیں ہیں:

(۱) اس حکم کے برطرف ہونے کو بھی نسخ کہا جائے جس کی مدت معین ہو اور اس مدت کے ختم ہو جانے کی وجہ سے حکم برطرف ہوگیا ہو۔

اس بات کا باطل ہونا واضح ہے اس لئے کہ نسخ وہاں بولا جاتا ہے جہاں حکم کے عارضی اور دائمی ہونے کا کوئی ذکر نہ کیا گیا ہو اور اگر کوئی حکم عارضی ہو ، اگرچہ وقت کی تعیین تفصیل سے نہ کی گئی ہو اور اجمالی طور پر معلوم ہو کہ یہ حکم عارضی ہے تو وہی دلیل ، جو وقت کی وضاحت اور حکم کی آخری مدت بیان کرے ، قرینہ بنے گی جومراد متکلم کی وضاحت کرے اس پر نسخ صادق نہیں آتا نسخ اصطلاحی یہ ہے کہ ایسے حکم کو برطرف کیا جائے جسے کلام کے اطلاق کی رو سے ظاہری طورپر دائمی سمجھا جائے اور وہ حکم کسی معین مدت سے مختص نہ ہو۔

فخر الدین رازی کا خیال ہے کہ کسی جداگانہ دلیل کے ذریعے عارضی حکم کا وقت (آخری مدت) بیان کرنابھی نسخ کہلاتا ہے ۔ رازی کا یہ خیال سراسر باطل ہے کیونکہ اصطلاح میں اسے کوئی بھی نسخ نہیں کہتا اور جس حکم کے ابدی اور دائمی ہونے کی تصریح کی گئی ہو اس میں نسخ کا واقع نہ ہونا تو اظہر من الشمس ہے۔

(۲) پیغمبر اکرم (ص) کو اہل کتاب سے جنگ لڑنے کا حکم دیا گیا ہو اور یہ بات درست نہیں ہے کیونکہ نبی اکرم (ص) کو اہل کتاب سے جنگ لڑنے کا حکم نہیں دیا گیا بلکہ آیت کریمہ میں مشرکین کو خدا اور اخرت پر ایمان لانے کی دعوت دینے اور ان سے جنگ لڑنے کا حکم دیا گیا ہے اہل کتاب سے ابتدائی طورپر جنگ لڑنا جائز نہیں یہ اور بات ہے کہ کسی اور وجہ سے اہل کتاب سے لڑنا جائز ہو مثلاً اگر اہل کتاب جنگ میں پہل کریں

۳۶۲

اور مسلمانوں پر حملہ آور ہوں تو اس صورت میں ان سے لڑنا جائز ہو گا چنانچہ اس سلسلے میں اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

(وَقَاتِلُوا فِي سَبِيلِ اللَّـهِ الَّذِينَ يُقَاتِلُونَكُمْ وَلَا تَعْتَدُوا ۚ إِنَّ اللَّـهَ لَا يُحِبُّ الْمُعْتَدِينَ ) ۲:۱۹۰

''اور جو لوگ تم سے لڑیں تم (بھی) خدا کی راہ میں ان سے لڑو اور زیادتی نہ کرو (کیونکہ) خدا زیادتی کرنے والوں کو ہگز دوست نہیں رکھتا،،

یا اس صورت میں اہل کتاب سے جنگ کی جا سکتی ہے جب وہ مسلمانوں میں فتنہ و فساد پھیلائیں اس لئے کہ فتنے کے بارے میں اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

(وَالْفِتْنَةُ أَشَدُّ مِنَ الْقَتْلِ ): ۱۹۱

''اور فتنہ پردازی (شرک) خونریزی سے بھی بڑھ کے ہے،،

یا اس صورت میں اہل کتاب سے لڑا جا سکتا ہے جب وہ طے شدہ جزیہ دینے سے انکار کر دیں جس کی طرف زیر بحث آیہ کریمہ میں اشارہ کیا جا رہا ہے:

لیکن اگر اس قسم کا کوئی سبب اور مجوز نہ ہو تو اہل کتاب سے صرف ان کے کفر کی بنیاد پر لڑنا جائز نہیں ہے۔

خلاصہ کلام یہ ہے کہ پہلی آیت میں مسلمانوں سے کہا جا رہا ہے کہ اگر اہل کتاب تمہیں دوبارہ کافر بنانا چاہیں جو ان کے کفر کا لازمی نتیجہ ہے تو اسے درگزر کرو اور ان سے جنگ نہ کرو۔

یہ حکم اس سے منافات نہیں رکھتا کہ دوسری آیت میں کسی اور سبب اور مجوز کی بنیاد پر ان سے لڑنے کا حکم دیا جائے بنا برایں دوسری آیت پہلی آیت کی ناسخ نہیں ، بلکہ پہلی آیت میں اہل کتاب سے قتال (جنگ) کا کوئی مجوز نہیں تھا اس لئے درگزر کرنے کا حکم دیا گیا اور دوسری آیت میں ان سے قتال کا مجوز موجود تھا اس لئے لڑنے کا حکم دیا گیا۔

اس کے علاوہ جس کو اس آیت کے نسخ پر شبہ ہوا ہے اس نے آیہ کریمہ:

(حَتَّىٰ يَأْتِيَ اللَّـهُ بِأَمْرِهِ ) ۲:۱۰۹

''یہاں تک کہ خدا اپنا کوئی اور حکم بھیجے،،۔

۳۶۳

میں امر کا معنی طلب اور حکم سمجھا ہے اور اس سے اس شبہ کا شکار ہوا ہے کہ کفار سے درگزر اور چشم پوشی سے کام لیا جائے حتیٰ کہ خدا ان سے جنگ لڑنے کا حکم دے اس طرح اس نے بعد والے حکم کو ناسخ قرار دیا ہے۔

محترم قارئین کے سامنے یہ حقیقت واضح ہو گئی کہ بالفرض اگرا سے درست بھی سمجھا جائے پھر بھی نسخ لازم نہیں آتا لیکن یہ احتمال سرے سے باطل ہے اس لئے کہ پہلی آیت میں امر سے مراد طلب اور حکم نہیں ہے بلکہ اس سے مراد امر تکوینی اور مخلوق میں قضا و قدر الٰہی ہے اس کی دلیل امر سے پہلے لفظ ''اتیان،، کا لانا ہے (کیونکہ ار بمعنی مطلب اتیان کے ساتھ استعمال نہیں ہوتا) اور دوسری دلیل آخری آیت ہے۔

( إِنَّ اللَّـهَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ ) ۲:۱۰۹

''بیشک خدا ہر چیز پر قادر ہے،،

اس آیہ شریفہ کا خلاصہ یہ ہے کہ مسلمانوں سے کہا جا رہا ہے: اگر اہل کتاب تمہیں دوبارہ کافر بنانا چاہیں تو انہیں معاف کر دو حتیٰ کہ اللہ تعالیٰاپنی مشیّت سے اسلام کو عزت عطا فرمائے اور کفار کی اکثریت دائرہ اسلام میں داخل ہو جائے کچھ کو اللہ تع الیٰ ہلاک کر دے اور انہیں آخرت میں شدید عذاب دے اور اس قسم کے دوسرے فیصلے فرمائے جن کی قضا و قدر الٰہی متقاضی ہو۔

۲۔( وَلِلَّـهِ الْمَشْرِقُ وَالْمَغْرِبُ ۚ فَأَيْنَمَا تُوَلُّوا فَثَمَّ وَجْهُ اللَّـهِ ۚ إِنَّ اللَّـهَ وَاسِعٌ عَلِيمٌ ) ۲:۱۱۵

''(ساری زمین) خدا ہی کی ہے (کیا) پورب (کیا) پچھم پس جہاں کہیں (قبلہ کی طرف) رخ کر لو وہیں خدا کا سامنا ہے بیشک خدا بڑی گجائش والا اور خوب واقف ہے،،۔

۳۶۴

علماء کی ایک جماعت ، جس میں ابن عباس ، ابو العالیہ ، حسن عطا ، مکرمہ قتادہ ، سدی اور زید بن اسلم شامل ہیں ، سے منسوب ہے کہ یہ آیت نسخ ہو گئی ہے(۱) البتہ اس کے ناسخ کے بارے میں علماء میں اختلاف ہے ابن عباس فرماتے ہیں:

یہ آیت قول اللہ تعالیٰ:

( وَحَيْثُ مَا كُنتُمْ فَوَلُّوا وُجُوهَكُمْ شَطْرَهُ ) ۲:۱۵۰

''اور (اے مسلمانو) تم (بھی) جہاں کہیں ہوا کرو نماز میں اپنا منہ (اسی کعبہ) کی طرف کر لیا کرو،،

کے ذریعے نسخ ہوئی ہے،،

قتادہ فرماتے ہیں:

یہ آیت ، آیہ :

( فَوَلِّ وَجْهَكَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ ۚ ) ۲:۱۵۰

''تم (نماز میں) اپنا منہ مسجد حرام کی طرف کرلیا کرو،،

کے ذریعے نسخ ہوئی ہے،،

قرطبی کا بھی یہ کہنا ہے(۲)

علماء نے اس آیت کے نسخ ہونے کی وجہ یہ بتائی ہے کہ رسول اللہ (ص) اور دوسرے تمام مسلمانوں کو پہلے یہ اختیار دیا گیا تھا کہ نماز میں جس طرف چاہیں رخ کریں اگرچہ رسول اللہ (ص) نے ان اطراف میں سے بیت المقدس کی سمت اختیار فرمائی تھی اس کے بعد یہ آیت نسخ ہو گئی اور صرف بیت الحرام کی طرف رخ کرنے کا حکم دے دیا گیا۔

____________________

(۱) تفسیر ابن کثیر ، ج ۱ ، ص ۱۵۷۔۱۵۸۔

(۲) تفسیر قرطبی ، ج ۲ ، ص ۷۴

۳۶۵

اس احتمال کا بے بنیاد ہونا محتاج نہیں کیونکہ فرمان الٰہی ہے:

( وَمَا جَعَلْنَا الْقِبْلَةَ الَّتِي كُنتَ عَلَيْهَا إِلَّا لِنَعْلَمَ مَن يَتَّبِعُ الرَّسُولَ مِمَّن يَنقَلِبُ عَلَىٰ عَقِبَيْهِ ۚ) ۲۔۱۴۳

''اور (اے رسول(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم)) جس قبلہ کی طرف تم پہلے (سجدہ کرتے) تھے ہم نے اس کو صرف اس وجہ سے (قبلہ( قرار دیا تھا کہ جب (قبلہ بدلا جائے تو) ہم ان لوگوں کو جو رسول(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) کی پیروی کرتے ہیں ان لوگوں سے الگ دیکھ لیں جو الٹے پاؤں پھرتے ہیں،،۔

اس آیت میں اس بات کی تصریح موجود ہے کہ اس وقت مصلحت کے تقاضوں کے مطابق اللہ کے حکم پر بیت المقدس کی طرف رخ کیا کرتے تھے اور اس میں رسول اللہ (ص) کے ذاتی اختیار کا کوئی دخل نہیں تھا حقیقت امر یہ ہے کہ کوئی جہت اور طرف خدا کی ذات سے مختص نہیں کیونکہ کوئی مکان اللہ تعالیٰ کا احاطہ نہیں کر سکتا انسان اپنی نماز ، دعا اور دیگر عبادات میں جس طرف بھی رخ کرے ، خدا ہی کی طرف رخ ہو گا۔

اسی آیت کریمہ کو اہل بیت عصمت (ع) نے اس حکم کی دلیل کے طور پر پیش کیا ہے کہ مسافر جس طرف چاہے رخ کر کے نفلی نماز پڑھ سکتا ہے اور اسی آیت کو اس واجب نماز کے صحیح ہونے کی دلیل قرار دیا ہے جو غلطی سے مشرق اور مغربی کے درمیانی رخ پڑھی گئی ہو۔

جو آدمی سرگرداں ہو اور اسے معلوم نہ ہو کہ قبلہ کس طرف ہے وہ جس طرف رخ کر کے نماز پڑھے صحیح ہے اور یہ کہ غیر قبلہ کی طرف رخ کر کے قرآن کے واجب سجدے کئے جا سکتے ہیں جب حجاج بن یوسف نے سعید بن جبیر (رح) کو زمین کی طرف رخ کر کے ذبح کرنے کا حکم دیا تو انہوں نے اسی آیہ شریفہ کی تلاوت فرمائی۔(۱)

_____________________

(۱) تفسیر قرطبی ، ج ۲ ، ص ۷۵

۳۶۶

معلوم ہوا یہ آیت مطلق ہے جس کی مختلف اوقات میں مختلف قیدوں سے تقیید کی گئی کبھی (واجب نماز میں) بیت المقدس کی طرف رخ کرنے کا حکم دیا گیا اور اس طرح اس آیت کی تقیید کی گئی اور کبھی خانہ کعبہ کی طرف رخ کر کے نماز پڑھنے کا حکم دیا گیا اور اس طرح اس آیت کی تقیید کی گئی اور بعض علماء کے مطابق نوافل بھی ، اگرچہ چلنے کی حالت میں نہ ہوں بنا برقول بعضے ، کسی بھی طرف رخ کر کے پڑھے جا سکتے ہیں باقی رہیں وہ روایات جن کے مطابق یہ آیت نوافل کے بارے میں نازل ہوئی ہے ان روایات کا مطلب یہ نہیں کہ یہ آیہ کریمہ صرف نوافل سے مختص ہے کیونکہ اس سے پہلے بتا چکے ہیں کہ آیات صرف شان نزول سے مختص نہیں ہوا کرتیں۔

خلاصہ کلام یہ ہے کہ اس آیہ شریفہ کا نسخ اس وقت قابل قبول ہو گا جب دو باتیں ثابت ہوں۔

( i ) یہ ثابت ہو کہ یہ آیہ کریمہ صرف واجب نمازوں کے بارے میں نازل ہوئی ہے یہ بات یقیناً باطل ہے اور اہل سنت کی کتب احادیث میں ایسی روایات موجود ہیں جن کی رو سے یہ آیت ، دعا ، مسافر کے نوافل ، متحیر و سرگرداں

آدمی کی نماز اور اس شخص کے بارے میں نازل ہوئی ہے جس نے غلطی سے غیر قبلہ کی طرف نماز پڑھی ہو(۱) اس سے قبل وہ مقامات بھی بیان کئے گئے جہاں اہل بیت اطہار (ع) نے اس آیہ شریفہ سے استدلال فرمایا ہے۔

( ii ) یہ ثابت ہو کہ یہ آیہ شریفہ ، اس آیہ شریفہ سے پہلے نازل ہوئی ہو جس میں خانہ کعبہ کی طرف رخ کر کے نماز پڑھنے کا حکم دیا گیا ہے یہ بات بھی ثابت اور مسلم نہیں ہے۔

بنا برایں یہ دعویٰ یقیناً باطل ہے کہ یہ آیت نسخ ہو گئی ہے اہل بیت (ع) سے ایسی روایات منقول ہیں جن میں اس بات کی تصریح کی گئی ہے کہ یہ آیت نسخ نہیں ہوئی۔

____________________

(۱) تفسیر طبری ، ج ۱ ، ص ۴۰۰۔۴۰۲

۳۶۷

ہاں! بعض اوقات نسخ بولا جاتا ہے اور اس سے ایک عام معنی مقصود ہوتا ہے جو تقیید کو بھی شامل ہوتا ہے چنانچہ اس معنی کی طرف اس سےقبل اشارہ کیا جا چکا ہے اگر زیر بحث آیہ شریفہ میں بھی اس معنی کا ارادہ کیا جائے تو پھر کوئی اعتراض لازم نہیں آتا اور عین ممکن ہے کہ اس آیت میں نسخ سے ابن عباس کی مراد یہی ہو اور اس سے قبل بھی ہم اس خقیقت کی طرف اشارہ کر چکے ہیں۔

۳۔( يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الْقِصَاصُ فِي الْقَتْلَى ۖ الْحُرُّ بِالْحُرِّ وَالْعَبْدُ بِالْعَبْدِ وَالْأُنثَىٰ بِالْأُنثَىٰ ۚ ) ۲:۱۷۸

''اے مومنو! جو لوگ (ناحق) مار ڈالے جائیں ان کے بدلے میں تم کو جان کے بدلے جان لینے کا حکم دیا جاتا ہے آزاد کے بدلے آزاد اور غلام کے بدلے غلام اور عورت کے بدلے عورت،،

بعض علمائے کرام کا یہ دعویٰ ہے کہآیہ شریفہ اس آیت کے ذریعے نسخ ہو گئی ہے۔

( وَكَتَبْنَا عَلَيْهِمْ فِيهَا أَنَّ النَّفْسَ بِالنَّفْسِ وَالْعَيْنَ بِالْعَيْنِ وَالْأَنفَ بِالْأَنفِ وَالْأُذُنَ بِالْأُذُنِ وَالسِّنَّ بِالسِّنِّ ) ۵:۴۵

''اور ہم نے توریت میں یہودیوں پر یہ (حکم) فرض کر دیا تھا کہ جان کے بدلے جان اور آنکھ کے بدلے آنکھ اور ناک کے بدلے ناک اور کان کے بدلے کان اور دانت کے بدلے دانت،،

(پہلی آیت اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ قصاص کے معاملے میں مرد ،عورت اور غلام آزاد میں مماثلت

۳۶۸

ضروری ہے یعنی مرد کے بدلے میں مرد اور عورت کے بدلے میں عورت ، آزاد کے بدلے میں آزاد اور غلام کے بدلے میں غلام کو قتل کیا جائے لیکن دوسری آیت کریمہ میں اس مطابقت کا کوئی تذکرہ نہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ پہلی آیت دوسری آیت کے ذریعے نسخ ہو گئی ہے اس بنا پر عورت کے بدلے میں مرد اور غلام کے بدلے میں آزاد کو قتل کیا جا سکتا ہے)

یہی وجہ ہے کہ اہل سنت کی اکثریت اس بات کی قائل ہے کہ عورت کے بدلے میں مرد کو قتل کیا جا سکتا ہے اور مرد کے وارثوں کو دیت سے کچھ حصہ دینا بھی ضرروی نہیں(۱) البتہ حسن اور عطاء نے اس حکم کی مخالفت کی ہے ، ان کا کہنا ہے کہ مرد کو عورت کے بدلے میں قتل نہیں کیا جا سکتا۔

لیث کہتے ہیں:

''اگر مرد اپنی بیوی کو قتل کر دے تو اسے صرف اپنی بیوی کے بدلے میں قتل نہیں کیا جا سکتا،،(۲)

امامہ اثنا عشریہ کے مطابق مقتولہ کے ولی و وارث کو اختیار حاصل ہے کہ عورت کی دیت اور خونبہا کا مطالبہ کرے اور چاہے تو قاتل کو قصاص میں قتل کر دے لیکن اس شرط کے ساتھ کہ مرد کی دیت اور خونبہا کا نصف حصہ اس کے وارثوں کو ادا کرنا ہو گا۔

اہل سنت میں مشہور یہی ہے کہ آزاد کو غلام کے بدلے میں قتل نہیں کیا جا سکتا اور امامیہ کا اس پر اجماع قائم ہے لیکن ابو حنیفہ ، ثوری ، ابن ابی لیلی ٰ اور داؤد نے اس حکم کی مخالفت کی ہے ان کا کہنا ہے کہ آزاد کسی دوسرے کے غلام کے بدلے میں قتل کیا جا سکتا ہے(۳) البتہ ان کے ایک گروہ کی رائے یہ ہے کہ آزاد کو غلام کے بدلے میں قتل کیا جائے گا خواہ وہ اس کا اپنا غلام ہی کیوں نہ ہو(۴)

_____________________

(۱) تفسیر قرطبی ، ج ۲ ، ص ۲۲۹

(۲) تفسیر ابن کثیر ، ج ۱ ، ص ۲۱۰

(۳) یضاً ، ج ۱ ، ص ۲۰۹۔

(۴) احکام القرآن للجصاص ، ج ۱ ، ص ۱۳۷

۳۶۹

لیکن قول حق یہی ہے کہ پہلی آیت محکم ہے اورا س کے معنی ظاہر ہیں اس کے بعد کوئی ناسخ آیت نازل نہیں ہوئی اس لئے کہ دوسری آیت میں آزاد و غلام اور مرد و عورت کے اعتبار سے اطلاق پایا جاتا ہے یعنی آیت کریمہ اس پہلو کو بیان نہیں کر رہی کہ عورت کے قصاص میں مرد کو قتل کیا جا سکتا ہے کہ نہیں؟ یا اگر آزاد ، غلام کو قتل کرے تو اسے غلام کے مقابلے میں قتل کیا جا سکتا ہے کہ نہیں ؟ بلکہ دوسری آیت میں صرف اس نکتے کو بیان کیا جا رہا ہے کہ قصاص کے موقع پر جرم کی مقدار اور نوعیت کا خیال رکھا جائے یعنی جس نوعیت کا جرم کیا گیا ہے اسی کے حساب سے انتقام لیا جائے۔

چنانچہ آیہ کریمہ:

( فَمَنِ اعْتَدَىٰ عَلَيْكُمْ فَاعْتَدُوا عَلَيْهِ بِمِثْلِ مَا اعْتَدَىٰ عَلَيْكُمْ ۚ ) ۲:۱۹۴

''پس جو شخص تم پر زیادتی کرے تو جیسی زیادتی اس نے تم پر کی ہے ویسی ہی زیادتی تو بھی اس پر کرو،،

کا مفہوم بھی یہی ہے۔

بہرحال اگر دوسری آیت میں مرد و عورت اور آزادو غلام کے اعتبار سے قاتل و مقتول کی خصوصیات بیان نہ کی گئی ہوں اور صرف ابتدائی جرم اور قصاص کی نوعیت میں مساوات کو بیان کیا گیا ہو جس کو اس آیہ شریفہ میں بیان کیا گیا ہے تو دوسری آیت مہمل رہیگی اور اس کا عموم میں ظہور نہیں ہو گا تاکہ پہلی آیت کیلئے ناسخ بن سکے اور اگر دوسری آیت مرد و زن اور غلام و آزاد کے اعتبار سے اطلاق میں ظہور رکھتی ہو اور اس آیت میں صرف اس بات کی خبر نہ دی گئی ہو کہ یہ حکم تورات میں موجود ہے بلکہ اس امت کیلئے بھی یہی حکم ثابت ہو تو پہلی آیت دوسری کیلئے مقید ثابت ہو گی اور اس کا قرینہ ہو گی کہ دوسری آیت میں مراد الٰہی کیا ہے اس لئے کہ مطلق ، اگرچہ مؤخر ہو ، مقید کیلئے ناسخ نہیں بن سکتا بلکہ مقید ظہور مطلق میں تصرف (ردوبدل) پر قرینہ ثابت ہو گا چنانچہ ہر مقید ، جو موخر ہو ، کا یہی حکم ہوا کرتا ہے۔ بنا برایں غلام کے بدلے میں آزادکے قتل کئے جانے کاقائل ہونے کا کوئی جواز نہیں ہے۔

۳۷۰

اس کے مقابلے میں دوسرا قول یہ ہے کہ غلام کے مقابلے میں آزاد کو قتل کیا جا سکتا ہے دلیل کے طور پر امیر المومنین (ع) کی روایت کو پیش کیا جاتا ہے جسے آپ (ع) نے رسول اللہ (ص) سے نقل فرمایاہے اس روایت میں رسول اللہ (ص) فرماتے ہیں:

المسلمون تتکافا دماؤهم ،،

''مسلمانوں کا خون (آزادہو یا غلام) یکساں ہے،،

جواب: فقرض تسلیم اگر یہ روایت درست بھی ہوتو آیہ کریمہ :( الْحُرُّ بِالْحُرِّ وَالْعَبْدُ بِالْعَبْدِ ) ۔۔۔۔۔۔ الخ کے ذریعے اس کی تخصیص کی جائے گی اس لئے کہ یہ روایت غلام کے مقابلے میں آزاد کے قتل کو تب جائز قرار دے گی جب اس کے عموم پر عمل کیا جائے ظاہر ہے عام اس وقت حجت اور قابل عمل ہو گا جب اس سے پہلے یا اس کے بعد کوئی مخصص وارد نہ ہو۔

باقی رہی وہ روایت جو حسن نے سمرہ سے اور اس نے رسول اللہ (ص) سے نقل کی ہے اس کی سند ضعیف ہے اور یہ قابل اعتماد نہیں چنانچہ ابوبکر بن عربی کہتے ہیں:

''بعض لوگوں کی جہالت اس حد تک پہنچ گئی ہے کہ وہ آزاد کے قتل کو اس کے اپنے غلام کے قتل کے بارے میں جائز سمجھتے ہیں اور اس کی دلیل کے طور پر رسول اللہ (ص) کے فرمان کو پیش کرتے ہیں جس کو حسن نے سمرہ سے نقل کیا ہے اور اس میں آپ (ص) فرماتے ہیں : من قتل عبدہ قتلناہ (یعنی )''جو اپنے غلام کو قتل کرے ہم اسے قتل کریں گے،، اوریہ حدیث ضعیف ہے،،(۱)

____________________

(۱) احکام القرآن لابی بکربن العربی ، ج ۱ ، ص ۲۷

۳۷۱

مولف: اس روایت کی سند ضعیف ہونے کے علاوہ تین روایات سے متعارض بھی ہے۔

i ) عمر بن شعیب اپنے باپ سے اور وہ اپنے جد سے روایت بیان کرتے ہیں:

''ایک شخص نے عملاً اپنے غلام کو قتل کر دیا اس قاتل کو رسول اللہ (ص) نے سزا میں کوڑے لگائے ، ایک سال کیلئے جلا وطن کر دیا اور بیت المال سے اس کا حصہ منقطع کر دیا لیکن اسے قتل نہیں کیا گیا،،(۱) اسی مضمون کی ایک روایت ابن عباس نے رسول اللہ (ص) سے بھی نقل کیا ہے۔

( ii ) جابر نے عامر سے اور اس نے امیر المومنین (ع) سے روایت بیان کی ہے:

''آزاد کو غلام کے بدلے میں قتل نہیں کیا جا سکتا ،،(۲)

( iii ) عمرو بن شعیب نے اپنے باپ سے اور انہوں نے اپنے جد سے روایت بیان کی ہے:

''حضرت ابوبکر اور حضرت عمر غلام کے بدلے میں آزاد کو قتل نہیں کرتے تھے ،،(۳)

قارئین کرام نے روایات اہل بیت (ع) ملا خطہ فرمائیں جن کا اتفاق ہے کہ آزاد آدمی کو غلام کے بدلے میں قتل نہیں کیا جا سکتا اور رسول اللہ (ص) کے بعد مرجع دین اہل بیت اطہار (ع) ہی ہیں ان تمام شواہد کے ہوتے ہوئے اس دعویٰ کی گنجائش نہیں رہتی کہ آیہ : ''الحر بالحر والعبد بالعبد،، نسخ ہو گئی اور غلام کے بدلے میں آزاد کو قتل کیا جا سکتا ہے۔

امامیہ ، حسن اور عطاء کے نقطہ نگاہ سے آیہ کریمہ اس اعتبار سے بھی نسخ نہیں ہوئی کہ عورت کے بدلے میں مرد کو قتل کیا جا سکے البتہ مذہب اہل سنت کے مطابق یہ اس اعتبار سے نسخ ہو گئی ہے یعنی عورت کے بدلے میں مرد کو قتل کیا جا سکتا ہے جبکہ پہلی آیہ (الانثی ٰ بالانثیٰ ) کی رو سے عورت کے بدلے میں مرد کو قتل نہیں کیا جا سکتا۔

____________________

(۱) سنن بیہقی ، ج ۸ ، ص ۳۶

(۲) ایضاً ص ۳۴۔۳۵

(۳) ایضاً ص ۳۴

۳۷۲

اس مسئلے کی وضاحت:

فرمان اللہ تعالیٰ:

( كُتِبَ عَلَيْكُمُ الْقِصَاصُ ) ۲:۱۷۸

''تم کو جان کے بدلے جان لینے کا حکم دیا جاتا ہے،،

کی رو سے قصاص لینا اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک فرض ہے اور دوسری ادلہ کے مطابق یہ فرض اس صورت میں ثابت ہوتا ہے جب مقتول کے ورثا قصاص کا مطالبہ کریں چنانچہ آیہ کریمہ:

( فَمَنْ عُفِيَ لَهُ مِنْ أَخِيهِ شَيْءٌ ) : ۱۷۸

''پس جس (قاتل) کو اس کے (ایمانی) بھائی (طالب قصاص) کی طرف سے کچھ معاف کر دیا جاوے،،۔

اس بات پر دلالت کرتی ہے (کیونکہ اس آیت میں قصاص سے درگزر کرنے کی تشویق اور ترغیب دلائی گئی ہے (بنا برایں آیت شریفہ کا مفہوم یہ ہے کہ حکم قصاص کے سامنے سر تسلیم خم کرنا قاتل پر اس وقت واجب ہے جب مقتول کے وارث خون کا بدلہ لینا چاہیں اور یہ حقیقت بھی پوشیدہ نہیں ہے کہ یہ حکم اس وقت مسلم ہے ، جب کوئی مرد ، مرد کو قتل کرے یا عورت ، مرد کو قتل کے یا عورت ، عورت کو قتل کرے۔

لیکن اگر مرد ، عورت کو قتل کرے تو عورت کے ورثا کی طرف سے قصاص کے مطالبے کے ساتھ ہی قصاص کیلئے اپنے آپ کو پیش کرنا مرد پر واجب نہیں ہے اور جب تک اپنی دیت کا نصف حصہ وصول نہ کرے مرد کو انکار کرنے کا حق پہنچتا ہے اور حاکم شرع بھی قاتل کے وارثوں کو دیت کا نصف حصہ دیئے بغیر قصاص کی حد جاری نہیں کر سکتا بالالفاظ دیگر آیت شریفہ اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ عورت کے بدلے میں عورت کو ہی قتل کیا جا سکتا ہے ، مرد کو قتل نہیں کیا جا سکتا اور آیہ کریمہ کایہ مفہوم ہرگز نسخ نہیں ہوا۔

۳۷۳

ہاں ! یہ اور بات ہے کہ آیہ شریفہ سے قطع نظر خارجی دلائل سے یہ ثابت ہے کہ جب مقتولہ کے ولی و وارث مرد کی دیت کا نصف حصہ ادا کر دیں تو مرد کیلئے ضروری ہے کہ وہ اپنے آپ کو قصاص کیلئے پیش کر دے اس طرح مرد ، عورت اور نصف دیت کے مجموعہ کابدلہ قرار پائے گا یہ ایک جداگان اور مستقل حکم ہے جس کا اس حکم سے کوئی تعلق نہیں جو آیہ کریمہ سے ابتداً سمجھا جاتا ہے اوریہ وہ نسخ نہیں جس کا دعویٰ کیا جاتا ہے۔

خلاصہ کلام یہ کہ آیہ( الْحُرُّ بِالْحُرِّ وَالْعَبْدُ بِالْعَبْدِ ) کا نسخ اس بات پر موقوف ہے کہ مقتولہ کے ولی و ورثا جب بھی قصاص کا مطالبہ کریں توقصاص کیلئے اپنے آپ کو پیش کرنا قاتل پر واجب ہو چنانچہ اہل سنت یہی کہتے ہیں لیکن یہ بات دلیل سے ثابت نہیں (اس کا اثبات جوئے شیر لانے کے مترادف ہے ۔ مترجم)

اہل سنت حضرات اس بات کے ثبوت میں کبھی تو دوسری آیت :( أَنَّ النَّفْسَ بِالنَّفْسِ وَالْعَيْنَ بِالْعَيْنِ ) کے اطلاق کا سہارالیتے ہیں ، کبھی حدیث شریف :المسلمون تتکافا دماؤهم کے عموم کا اس دلیل کا جواب دیا جا چکا ہے اور کبھی اس بات کے اثبات میں قتادہ کی روایت پیش کرتے ہیں جو اس نے سعید بن مسیب سے نقل کی ہے اس روایت میں ہے کہ حضرت عمر نے صنعاء کے کچھ لوگوں کو ایک عورت کے قتل کے جرم میں قتل کیا۔

لیث نے حکم سے روایت بیان کی ہے کہ امیر المومنین (ع) اور عبداللہ نے فرمایا:

''جب کوئی مرد کسی عورت کو قتل کرے تو اسے اس عورت کے بدلے میں قصاص کے طور پر قتل کیا جائیگا،،

زہری نےابوبکر بن محمد بن عمرو بن حزم سے اور اس نے اپنے والد سے ، اس نے اپنے جد سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ (ص) نے فرمایا:

''ان الرجل یقتل بالمراة ،، (۱)

''مرد ، عورت کے بدلے میں قتل کیا جائے گا،،

____________________

(۱) احکام القرآن للجصاص ، ج ۱ ، ص ۱۳۹

۳۷۴

لیکن یہ سب دلیلیں کئی اعتبار سے باطل ہیں۔

( i ) یہ سب روایات صحیح بھی ہوں لیکن کتاب خدا کی مخالف ہیں اور جو روایات کتاب الٰہی کی مخالف ہو وہ حجت نہیں ہوا کرتی یہ روایات خبر واحد ہیں اور علما کا اس پر اجتماع ہے کہ خبر واحد سے نسخ ثابت نہیں ہوتا۔

( ii ) ان میں سے پہلی روایت مرسلہ ہے کیونکہ سعید بن مسیّب ، خلافت حضرت عمر کے دو سال بعد پیدا ہوا(۱) اور یہ بات بہت بعید ہے کہ اس نے حضرت عمر سے بلا واسطہ روایت کی ہو اس کے علاوہ اگر اس روایت کو صحیح بھی مان لیا جائے تب بھی اس سے صرف اتنا ثابت ہوتا ہے کہ حضرت عمر نے اس کام کو انجام دیا اور حضرت عمر کا فعل بذات خود حجت نہیں۔

دوسری روایت ضعیف بھی ہے اورمرسلہ بھی ۔ تیسری روایت کو اگر صحیح بھی مان لیا جائے تو بھی یہ مطلقہ ہے اور اس روایت سے اس کی تقیید کی جائے گی جس کے مطابق قاتل کو اس کی نصف دیت ادا کرنے کے بعد قتل کیا جا سکتا ہے۔

گزشتہ مباحث کا نتیجہ یہ نکلا کہ آیہ کریمہ کا نسخ ثابت نہیں اور صرف فقہاء کی ایک جماعت کے فتویٰ کی بنیاد پر یہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ آیہ کریمہ نسخ ہو گئی ہے زیدیا عمرو کے قول اور فتویٰ کی بنیاد پر قول خداوند سے کیوں اور کس طرح دستبردار ہوا جا سکتا ہے ؟ اور مقام حیرت وتعجب ہے کہ علماء کی ایک جماعت جس کا اس بات پر اجماع ہے کہ خبر واحد کے ذریعے نسخ ثابت نہیں ہوتا ، اس کے باوجود ، قرآن کیخلاف اپنا فتویٰ صادر کرنے میں کوئی جھجک محسوس نہیں کرتی ہمارے گزشتہ بیانات سے یہ بات واضح ہو گئی ہے کہ آیہ کریمہ:

( وَمَن قُتِلَ مَظْلُومًا فَقَدْ جَعَلْنَا لِوَلِيِّهِ سُلْطَانًا ) ۱۷:۳۳

''اور جو شخص ناحق مارا جائے تو ہم نے اس کے وارث کو (قاتل پر قصاص کا) قابو دیا ہے،،۔

__________________

(۱) تہذیب التہذیب ، ج ۴ ، ص ۸۶

۳۷۵

اور آیہ کریمہ:

( وَلَكُمْ فِي الْقِصَاصِ حَيَاةٌ يَا أُولِي الْأَلْبَابِ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ ) ۲:۱۷۹

''اور اے عقلمندو ! قصاص میں تمہاری زندگی ہے اور اسی لئے جاری کیا گیا ہے،،

میں آیہ شریفہ (الانثی بالانثیٰ) جس میں مرد و زن اور آزاد و غلام میں فرق کو بیان کیا گیا ہے ، کی ناسخ بننے کی صلاحیت نہیں ہے انشاء اللہ اس آیت کریمہ کی تفسیر کے موقع پر اس موضوع پر مفصل بحث کی جائے گی۔

۴۔( كُتِبَ عَلَيْكُمْ إِذَا حَضَرَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ إِن تَرَكَ خَيْرًا الْوَصِيَّةُ لِلْوَالِدَيْنِ وَالْأَقْرَبِينَ بِالْمَعْرُوفِ ۖ حَقًّا عَلَى الْمُتَّقِينَ ) ۲:۱۸۰

''(مسلمانو!) تم کو حکم دیا جاتا ہے کہ جب تم میں سے کسی کے سامنے موت آ کھڑی ہو بشرطیکہ وہ کچھ مال چھوڑ جائے تو ماں باپ اور قرابتداروں کیلئے اچھی وصیت کرے جوخداسے ڈرتے ہیں ان پر یہ ایک حق ہے،،

بعض حضرات کا دعویٰ ہے کہ یہ آیت ، آیہ ارث کے ذریعے نسخ ہو گئی ہے کیونکہ صدر اسلام میں میراث کی تقسیم کی وہ کیفیت نہیںتھی جو اب ہے بلکہ سارے کا سارا ترکہ بیٹے کو مل جاتا تھا والدین اور دیگر رشتہ داروں کو جو کچھ ملتا تھا وہ وصیت کے ذریعے ملتا تھا اورآیہ میراث کے ذریعے یہ حکم منسوخ ہو گیا چنانچہ آیہ کریمہ میں اسی طرف اشارہ کیا جا رہا ہے کہ مالدار آدمی کو چاہئے کہ وہ مرتے وقت والدین اور دیگر رشتہ داروں کیلئے ضرور وصیت کرے۔

کچھ حضرات کا دعوی ہے کہ یہ آیت فرمان رسول اللہ:''ولاوصیة لوارث (۱) ،، (یعنی) وارث کیلئے کسی وصیت کی ضرورت نہیں،، کے ذریعے منسوخ ہو گئی ہے۔

____________________

(۱) الناسخ و المنسوخ للخاس ، ص ۲۰

۳۷۶

مگر حق یہی ہے کہ یہ آیت منسوخ نہیں ہوئی اس لئے کہ آیہ ارث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ میراث کی نوبت تب آتی ہے جب مرنے والے نے کوئی وصیت نہ کی ہو اور وہ مقروض بھی نہ ہو اس کے باوجود یہ کیسے معقول ہے کہ آیہ ارث ، آیہ وصیت کی ناسخ قرار پائے۔

اس کے علاوہ نسخ کی جو دلیل پیش کی جاتی ہے وہ بھی درست نہیں ، اس لئے کہ:

اولاً : اگرچہ صحیح بخاری میں یہ روایت موجود ہے لیکن اس سے نسخ ثابت نہیں ہوتا کیونکہ علماء کا اس پر اجتماع ہے کہ خبر واحد کے ذریعے نسخ ثابت نہیں ہوتا۔

ثانیاً: آیہ ارث کے ذریعے ، اس آیہ کا نسخ اس صورت میں ثابت ہو گا جب آیہ ارث ، اس آیہ( كُتِبَ عَلَيْكُمْ إِذَا حَضَرَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ ) ۔۔۔۔۔۔ الخ) کے بعد نازل ہوئی ہو اور قائلین نسخ کیلئے یہ بات ثابت کرنا مشکل ہے بعض حنفی حضرات کی طرف سے نسخ کے قطعی ہونے کا دعویٰ محتاج دلیل ہے۔

ثالثاً : مرنے والے کے رشتہ داروں کے بارے میں اس حکم کا نسخ ہونا قابل تصور نہیں کیونکہ مرنے والے کے بیٹے کی موجودگی میں دوسرے رشتہ دار ارث کے حقدار ہی نہیں بنتے تاکہ آیہ ارث کے ذریعے آیہ وصیت کو نسخ کر کے رشتہ داروں کیلئے ارث کو ثابت کیا جا سکتے لہٰذا مرنے والے کے رشتہ دار وصیت ہی سے استفادہ کر سکتےہیں بہرکیف چونکہ وصیت کے نہ ہونے کی صورت میں ارث کی نوبت پہنچتی ہے ، اس لئے آیہ ارث نہ صرف آیہ وصیت کیلئے ناسخ نہیں بن سکتی بلکہ اس سے آیہ وصیت کی تائید و تاکید بھی ہوتی ہے اس لئے کہ آیہ شریفہ (من بعد وصیۃ یوصی بہا اودین) کی رو سے وصیت ارث پر مقدم ہے۔

۳۷۷

بعض علماء کرام کا دعویٰ ہے کہ آیہ شریفہ( كُتِبَ عَلَيْكُمْ إِذَا حَضَرَ أَحَدَكُمُ الْمَوْتُ ) ۔۔۔۔۔۔ الخ) رسول اللہ (ص) کی حدیث(لاوصیة لوارث ) کے ذریعے نسخ ہو گئی ہے یہ دعویٰ کئی جہات سے باطل ہے:

( i ) اس روایت کی صحت ثابت نہیں ہے چنانچہ بخاری و مسلم نے بھی اس کی تصدیق نہیں کی اور تفسیر المنار میں اس روایت کی سند کو مورد اشکال و مناقشہ قرار دیاگیا ہے(۱)

( ii ) ایسی روایت اہل بیت اطہار (ع) کی ان مستفیض روایات سے متعارض ہیں جن کے مطابق وارث کے حق میں وصیت جائز ہے چنانچہ محمد بن مسلم کی روایت صحیحہ میں ہے کہ راوی نے امام محمد باقر (علیہ السلام) سے سوال کیا: کیا وارث کے حق میں وصیت کی جا سکتی ہے ؟ آپ (ع) نے فرمایا: جائز ہے پھر آپ (ع) نے اس ایت کی تلاوت فرمائی،

( إِن تَرَكَ خَيْرًا الْوَصِيَّةُ لِلْوَالِدَيْنِ وَالْأَقْرَبِينَ بِالْمَعْرُوفِ ) ۲:۱۸۰

''بشرطیکہ وہ کچھ مال چھوڑ جائے تو ماں باپ اور قرابتداروں کیلئے اچھی وصیت کرے،،

اس مضمون کی روایت اور بھی ہیں(۲)

( iii ) اگر اس روایت کے خبر واحد ہونے سے چشم پوشی کی جائے اور اسے اہل بیت (ع) کی روایات سے معارض بھی نہ مانیں تب بھی اس روایت اورآیہ شریفہ کے مفاہیم میں کوئی منافات نہیں پائی جاتی زیادہ سے زیادہ اس حدیث شریف سے آیہ کریمہ کے اطلاق کیلئے تقیید سمجھی جائے گی بایں معنی کہ والدین کیلئے اس وقت وصیت کی جائے جب کسی مانع کی وجہ سے وہ ارث کے مستحق نہ ہوں یا ان رشتہ داروں کیلئے وصیت کی جائے جنہیں ارث نہیں مل سکتا اور اگر حدیث اورآیہ کریمہ میں منافات فرض بھی کر لی جائے تب بھی یہ حدیث آیہ کریمہ کیلئے ناسخ نہیں بن سکتی کیونکہ خبر واحد قرآن کیلئے ناسخ نہیں بن سکتی جس پر مسلمانوں کا اجماع قائم ہے ، بنا برایں آیہ کریمہ محکم ہے منسوح نہیں۔

____________________

(۱) تفسیر المنار ، ج ۲ ، ص ۱۳۸

(۲) الوافی ، ج ۱۳ ، ص ۱۷

۳۷۸

اس مقام پر یہ نکتہ بھی قابل توجہ ہے کہ ''کتابۃ،، کا معنی کس چیز کا حتمی فیصلہ ہے چنانچہ آیت:

( كَتَبَ عَلَىٰ نَفْسِهِ الرَّحْمَةَ ۚ ) (۶:۱۲)

''اس نے اپنی ذات پر مہربانی لازم کر لی ہے،،

میں ''کتب،، اس معنی میں استعمال ہوا ہے اور عقل کا تقاضا یہ ہے کہ مولا کے حکم اور اس کے حتمی فیصلوں میں اس کا امتثال امر کیا جائے اگر یہ کہ اس کی طرف سے ترک کی اجازت ہو۔

بنا برایں آیہ کریمہ کی رو سے والدین اور دیگر رشتہ داروں کے حق میں وصیت کرنا لازم و واجب ہے لیکن مسلمانوں کی سیرت جو قطعی طور پر ثابت ہے، اہل بیت اطہار (ع) سے منقول روایات اورہر دور میں فقہاء کے اجتماع سے ترک وصیت کی اجازت ثابت ہے بنا برایں اس اجازت کے ثابت ہونے کے بعد آیت سے وصیت کا مستحب ہونا ثابت ہو گا بلکہ وصیت کی تاکید ثابت ہو گی اورا س آیت میں ''کتب،، سے مراد وصیت کی تشریع ہو گی اور اس کا حتمی اور لازمی قرار دینا نہیں:

۵۔( يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا كُتِبَ عَلَيْكُمُ الصِّيَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِينَ مِن قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ ) ۲:۱۸۳

''اے ایماندارو! روزہ رکھنا جس طرح تم سے پہلے کے لوگوں پر فرض تھا اسی طرح تم پر بھی فرض کیا گیا تاکہ تم (اس کی وجہ سے) بہت سے گناہوں سے بچو،،

اس آیہ کے بارے میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ یہ آیہ دوسری آیہ:

( أُحِلَّ لَكُمْ لَيْلَةَ الصِّيَامِ الرَّفَثُ إِلَىٰ نِسَائِكُمْ ) : ۱۸۷

''مسلمانو!) تمہارے واسطے روزوں کی راتوں میں اپنی بی بیوں کے پاس جانا حالا کر دیا گیا،،

کے ذریعے نسخ ہو گئی ہے ۔ اس کے نسخ ہونے کی کیفیت یہ بتائی گئی ہے کہ صدر اسلام میں مسلمانوں پر روزہ اسی کیفیت سے واجب تھا جس کیفیت سے گزشتہ اقوام پر واجب تھا گزشتہ اقوام پر واجب روزہ کے احکام میں سے ایک حکم یہ تھا کہ اگر کوئی شخص ماہ رمضان میں رات کا کھانا کھانے سے قبل سو جائے تو پھر رات کو کسی بھی وقت بیدار ہو کر کچھ کھانا اس کیلئے جائز نہیں تھا

۳۷۹

اور اگر کوئی عصر کے بعد سو جائے تو اس کیلئے کھانا پینا اور ہم بستری کرنا جائز نہیں تھا لیکن یہ آیہ جس میں مسلمانوں کے روزہ کو گزشتہ اقوام کے روزہ سے تشبیہ دی گئی ہے آیہ کریمہ:

( وَكُلُوا وَاشْرَبُوا حَتَّىٰ يَتَبَيَّنَ لَكُمُ الْخَيْطُ الْأَبْيَضُ مِنَ الْخَيْطِ الْأَسْوَدِ ) : ۱۸۷

''اور کھاؤ اور پیو یہاں تک کہ صبح کی سفیدی دھاری تمہیں صاف نظر آنے لگے،،

کے ذریعے نسخ ہو گئی ہے جس میں طلوع فجر تک کھانے پینے کی اجازت دی گئی ہے اس کے علاوہ اس آیت کو بھی ناسخ قراردیا جاتا ہے:

( أُحِلَّ لَكُمْ لَيْلَةَ الصِّيَامِ الرَّفَثُ إِلَىٰ نِسَائِكُمْ ۚ) : ۱۸۷

''(مسلمانو!) تمہارے واسطے روزوں کی راتوں میں اپنی بی بیوں کے پاس جانا حلال کر دیا گیا،،

علماء اہل سنت کا اتفاق ہے کہ آیہ تحلیل( أُحِلَّ لَكُمْ لَيْلَةَ الصِّيَامِ الرَّفَثُ ) ناسخ ہے(۱) البتہ اس کی منسوخی کے بارے میں اختلاف ہے بعض کا خیال ہے کہ منسوخ وہی آیت ہے جو ہمارے محل بحث ہے کیونکہ ان حضرات نے آیت( كُتِبَ عَلَيْكُمُ ) ۔۔۔۔۔الخ سے یہی سمجھا ہے کہ صدر اسلام میں مسلمانوں پر واجب روزہ اور گزشتہ اقوام پر واجب روزہ یکساں تھے بعد میں وہ آیہ کریمہ اس آیہ کریمہ :( أُحِلَّ لَكُمْ لَيْلَةَ الصِّيَامِ ) ۔۔۔۔۔۔ الخ کے ذریعے نسخ ہو گئی چنانچہ ابوالعالیہ اور علماء کا یہی خیال ہے اور ابو جعفر نحاس نے سدی کی طرف بھی اس بات کو منسوخ کیا ہے(۲)

بعض کا خیال ہے کہ آیہ تحلیل کے ذریعے گزشتہ اقوام کے عمل اور ان کی روش کو نسخ کیا گیا ہے اور آیہ کریمہ( كُتِبَ عَلَيْكُمُ ) ۔۔۔۔۔۔ الخ کو نسخ نہیں کیا گیا۔

یہ ایک واضح حقیقت ہے کہ پہلی آیت کا نسخ ہونا دو چیزوں پر موقوف ہے:

_________________

(۱) الناسخ و المنسوخ نحاس ، ص ۲۴

(۲) ایضاً ص ۲۱

۳۸۰

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

461

462

463

464

465

466

467

468

469

470

471

472

473

474

475

476

477

478

479

480

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

501

502

503

504

505

506

507

508

509

510

511

512

513

514

515

516

517

518

519

520

521

522

523

524

525

526

527

528

529

530

531

532

533

534

535

536

537

538

539

540

541

542

543

544

545

546

547

548

549

550

551

552

553

554

555

556

557

558

559

560

561

562

563

564

565

566

567

568

569

570

571

572

573

574

575

576

577

578

579

580

581

582

583

584

585

586

587

588

589

590

591

592

593

594

595

596

597

598

599

600

601

602

603

604

605

606

607

608

609

610

611

612

613

614

615

616

617

618

619

620

621

622

623

624

625

626

627

628

629

630

631

632

633

634

635

636

637

638

639

640

641

642

643

644

645

646

647

648

649

650

651

652

653

654

655

656

657

658

659

660

661

662

663

664

665

666

667

668

669

670

671

672

673

674

675

676

677

678

679

680

681

682

683

684

685

686

687

688

689

690

691

692

693

694

695

696

697

698

699

700

701

702

703

704

705

706

707

708

709

710

711

712

713

714

715

716

717

718

719

720

721

722

723

724

725

726

727

728

729

730

731

732

733

734

735

736

737

738

739

740

741

742

743

744

745

746

747

748

749

750

751

752

753

754

755

756

757

758

759

760

761

762

763

764

765

766

767

768

769

770

771

772

773

774

775

776

777

778

779

780

781

782

783

784

785