تفسير راہنما جلد ۱

 تفسير راہنما 10%

 تفسير راہنما مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن
صفحے: 785

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴ جلد ۵ جلد ۶ جلد ۷ جلد ۸ جلد ۹ جلد ۱۰ جلد ۱۱
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 785 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 206612 / ڈاؤنلوڈ: 5965
سائز سائز سائز
 تفسير راہنما

تفسير راہنما جلد ۱

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

 آگاہ ہوجاؤ کہ خالص بندگی صرف اللہ کے لئے ہے اور جن لوگوں نے اس کے علاوہ سرپرست بنائے ہیں یہ کہہ کر کہ ہم ان کی پرستش صرف اس لئے کرتے ہیں کہ یہ ہمیں اللہ سے قریب کردیں گے - اللہ ان کے درمیان تمام اختلافی مسائل میں فیصلہ کردے گا کہ اللہ کسی بھی جھوٹے اور ناشکری کرنے والے کو ہدایت نہیں دیتا ہے.

وَ جَعَلُواْ لَهُ مِنْ عِبَادِهِ جُزْءًا إِنَّ الْانسَانَ لَكَفُورٌ مُّبِینٌ (1)

اور ان لوگوں نے پروردگار کے لئے اس کے بندوں میں سے بھی ایک جزؤ (اولاد) قرار دیدیا کہ انسان یقیناً بڑا کھلا ہوا ناشکرا ہے.

أَ فَأَصْفَئکمْ رَبُّكُم بِالْبَنِینَ وَ اتخَذَ مِنَ الْمَلَئكَةِ إِنَاثًا إِنَّکمْ لَتَقُولُونَ قَوْلًا عَظِیمًا (2)

کیا تمہارے پروردگار نے تم لوگوں کے لئے لڑکوں کو پسند کیا ہے اور اپنے لئے ملائکہ میں سے لڑکیاں بنائی ہیں؟ یہ تم بہت بڑی بات کہہ رہے ہو.

وَ إِذَا مَسَّ الْانسَانَ ضُرٌّ دَعَا رَبَّهُ مُنِیبًا إِلَيْهِ ثمَّ إِذَا خَوَّلَهُ نِعْمَةً مِّنْهُ نَسىَ مَا کانَ يَدْعُواْ إِلَيْهِ مِن قَبْلُ وَ جَعَلَ لِلَّهِ أَندَادًا لِّيُضِلَّ عَن سَبِیلِهِ قُلْ تَمَتَّعْ بِكُفْرِكَ قَلِیلًا إِنَّكَ مِنْ أَصحَابِ النَّارِ. (3)

اور جب انسان کو کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو پوری توجہ کے ساتھ پروردگار کو آواز دیتا ہے پھر جب وہ اسے کوئی نعمت دے دیتا ہے تو جس بات کے لئے اس کو پکار رہا تھا اسے یکسر نظرانداز کردیتا ہے اور خدا کے لئے مثل قرار دیتا ہے تاکہ اس کے راستے سے بہکا سکے تو آپ کہہ دیجئے کہ تھوڑے دنوں اپنے کفر میں عیش کرلو اس کے بعد تو تم یقیناً جہّنم والوں میں ہو.

--------------

(1):- زخرف (15).

(2):- اسراء (40).

(3):- زمر (8)۔

۸۱

ضَرَبَ لَكُم مَّثَلًا مِّنْ أَنفُسِكُمْ هَل لَّكُم مِّن مَّا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُم مِّن شُرَكَاءَ فىِ مَا رَزَقْنَاكُمْ فَأَنتُمْ فِیهِ سَوَاءٌ تخَافُونَهُمْ كَخِیفَتِكُمْ أَنفُسَكُمْ كَذَالِكَ نُفَصِّلُ الاْيَاتِ لِقَوْمٍ يَعْقِلُونَ (1)

اس نے تمہارے لئے تمہاری ہی مثال بیان کی ہے کہ جو رزق ہم نے تم کو عطا کیا ہے کیا اس میں تمہارے مملوک غلام و کنیز میں کوئی تمہارا شریک ہے کہ تم سب برابر ہوجاؤ اور تمہیں ان کا خوف اسی طرح ہو جس طرح اپنے نفوس کے بارے میں خوف ہوتا ہے بیشک ہم اپنی نشانیوں کو صاحب عقل قوم کے لئے اسی طرح واضح کرکے بیان کرتے ہیں.

ان بیانات کی روشنی میں معلوم ہوتا ہے کہ:

1.  شیعہ  اور بت پرستوں میں کوئی شباہت نہیں  پائی جاتی، کیونکہ بت پرستوں نے اپنے لئے شفاعت کنندہ چن لئے ہیں لیکن ہمارے شفاعت کرنے والوں کو اللہ تعالیٰ نے چن  لیا ہے.

2.  وہ لوگ اپنے شفاعت کرنے والوں کو اللہ تعالیٰ سے مستقل مانتے ہیں جبکہ ہم اپنے آئمہ طاہرین (ع)کو کبھی اللہ تعالیٰٰ سے مستقل نہیں مانتے ہیں.

3.  وہ لوگ بتوں کی عبادت کرتے ہیں لیکن ہم اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کی عبادت نہیں کرتے پس کیسے آپ شیعوں کو بت پرستوں کی مانند جانتے ہو؟!(2)

--------------

(1):- روم (28)۔

(2):- پاسخ بہ شبہات(1)، ص: 7

۸۲

مُردوں سے کسی چیز کا مانگنا ؟

یہ لوگ سورہ نمل 80، فاطر 22، نحل 20 و 21 اور کئی آیات سے استدلال کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ مردہ لوگوں سے ارتباط پیدا کرنا شرک ہے

«انَّكَ لا تُسمِعُ المَوتی وَ لا تُسمِعُ الصُّمَّ الدُّعاءَ اذا وَ لَّوا مُدبِرینَ» (1)

آپ نہ مردوں کو سنا سکتے ہیں نہ ہی بہروں کو اپنی دعوت سنا سکتے ہیں جب وہ پیٹھ پھر کر جا رہے ہوں.

«وَ ما یستَوِی الاحیاءُ وَلَا الامواتُ انَّ اللهَ يُسمِعُ مَن يَشاءُ وَ ما انتَ بِمُسمِعٍ مَن فِی القُبُورِ» (2)

اور نہ ہی زندے اور نہ ہی مردے یکساں ہوسکتے ہیں، بے شک اللہ جسے چاہتا ہے سنواتا ہے اور آپ قبروں میں مدفون لوگوں کو تو نہیں سنا سکتے.

 «وَ الَّذینَ يَدعوُنَ مِن دوُنِ اللهِ لا يَخلُقوُنَ شَیئًا وَهُم يُخلَقوُنَ  امواتٌ غَیرٌ احیاءٍ وَ ما يَشعُرُونَ ایّانَ يُبعَثُونَ» (3)

اور اللہ کو چھوڑ کر جنہیں یہ لوگ پکارتے ہیں وہ کسی چیز کو خلق نہیں کر سکتے بلکہ خود مخلوق ہیں.وہ زندہ نہیں مردہ ہیں اورانہیں اتنا بھی معلوم نہیں کہ کب اٹھائے جائیں گے.

--------------

(1):-  نمل (80)۔

(2):- فاطر (22)۔

(3):- نحل (20 و 21)۔

۸۳

جواب:

آیات:

پہلی بات تو  یہ ہے کہ مردوں سے ارتباط پیدا کرنا شرک تو نہیں بلکہ ممکن ہے کہ اسے بیہودہ کام کہہ سکتا ہو، کیونکہ رسول خدا (ص)کے زمانے میں جو کام رائج تھا وہ آپ کی زندگی کے بعد شرک میں کیوں کر بدل سکتا ہے؟ اور یہ آیت آپ سے مربوط تھی کہ  رسول خدا(ص) تو مردوں کی آواز سن سکتے تھے.(1)

دوسری بات یہ ہے کہ شاید اللہ تعالیٰ یہ فرمانا چاہتا ہو کہ سننے کی قدرت پیدا کرنا میرا کام ہے نہ تیرا.

تیسری بات یہ ہے کہ مؤمنون 99 و 100 ،نحل 28 کے مطابق مرنے کے بعد برزخ کی زندگی شروع ہوتی ہے تو ہمارا روح وہاں زندگی کر رہا ہوتاہے :

«الَّذینَ تَتَوَفّاهُمُ المَلائِكَهُ ظالِمی انفُسِهِم فَالقَوُا السَّلَمَ ما كُنّا نَعمَلُ مِن سُوءٍ بَلی انَّ اللهَ عَلیمٌ بِما كُنتُم تَعمَلُونَ» (2)

جنہیں ملائکہ اس عالم میں اٹھاتے ہیں کہ وہ اپنے نفس کے ظالم ہوتے ہیں تو اس وقت اطاعت کی پیشکش کرتے ہیں کہ ہم تو کوئی برائی نہیں کرتے تھے. بیشک خدا خوب جانتا ہے کہ تم کیا کیا کرتے تھے.

 «حَتی اذا جاءَ احَدَهُمُ المَوتُ قالَ رَبِّ ارجِعُونِ  لَعَلّی اعمَلُ صالحًا فیما تَرَکتُ كَلّا انَّ ه ا كَلِمَهٌ هُوَ قائِلُ ه ا وَ مِن وَرائِهِم بَرزَخٌ الی يَومِ يُبعَثُونَ» (3)

--------------

(1):- صحیح مسلم  جلد 8 صفحہ  163.

(2):- نحل (28).

(3):- مؤمنون (99 و 100).

۸۴

یہاں تک کہ جب ان میں سے کسی کی موت آگئی تو کہنے لگا کہ پروردگار مجھے پلٹا دے شاید میں اب کوئی نیک عمل انجام دوں. ہرگز نہیں یہ ایک بات ہے جو یہ کہہ رہا ہے اور ان کے پیچھے ایک عالم ہ برزخ ہے جو قیامت کے دن تک قائم رہنے والا ہے. ان آیات سے بخوبی واضح ہے کہ مرنے والے بھی ہماری باتوں کو سمجھ جاتے ہیں لیکن ہم ان کو سننے سے قاصر  ہیں.

روایات :

صحیح مسلم اور صحیح بخاری:

صحیح بخاری اور مسلم میں بھی ہے کہ مردوں کے ساتھ  ارتباط پیدا کرنا ممنوع چیز نہیں ہے کیونکہ وہ  بھی دنیوی حالات سے باخبر ہیں اور ہماری باتوں کو سنتے ہیں.چنانچہ بخاری روایت کرتے ہیں کہ : اگر مردہ نیک انسان ہو تو وہ اپنے تشییع کرنے والوں سے کہتا ہے کہ مجھے جلدی قبر تک پہنچادیں اور اگر برا انسان ہو تو وہ کہے گا : مجھے کہاں لے جارہے ہو؟ افسوس ہو مجھ پر مجھے قبر کی طرف نہ لے جائیں.(1)

مرنے والا اس کے لواحقین کے رونے سے عذاب میں مبتلا ہوجا تا ہے.(2)

احمد بن حنبل:

مرنے والا اسے غسل وکفن دینے والے اور دفنانے والے کو پہچان لیتا ہے(3)

نماز میں ہم پھر السلام علیک ایہا النبی و رحمہ اللہ و برکاتہ کیوں پڑھتے ہیں؟اور یہ سلام مذاہب اربعہ میں واجب ہے .

--------------

(1):- صحیح بخاری جلد 2 صفحہ 87.

(2):- صحیح مسلم جلد 3 صفحہ 41.

(3):- مسند احمد- الامام احمد حنبل- ج 3- ص 3.

۸۵

جلال الدین سیوطی:

پیغمبر اکرم(ص) سے روایت ہے کہ جو بھی حج بیت اللہ الحرام کرے اور میری زیارت نہ کرے تو اس نے میرے ساتھ ظلم کیا ہے.(1)

ابن ابی شیبہ (بخاری کا استاد)

پیغمبر اکرم(ص) نے فرمایا: جو میرے مرنے کے بعدمیری زیارت کرے گویا اس نے میری زندگی میں زیارت کی ہے.جیسا کہ ایک صحابی نے باران رحمت کی نزول کے لئے پیغمبر اکرم(ص) کی رحلت کے بعد مدد مانگی اور قبول ہوئی(2)

قبور کی  زیارت:

چار دلیلوں کے ساتھ قبور کی زیارت کرنا جائز ہے :

1. قرآن کریم:

وَ مَا أَرْسَلْنَا مِن رَّسُولٍ إِلَّا لِيُطَاعَ بِإِذْنِ الل ه   وَ لَوْ أَنَّهُمْ إِذ ظَّلَمُواْ أَنفُسَهُمْ جَاءُوكَ فَاسْتَغْفَرُواْ الل ه وَ اسْتَغْفَرَ لَهُمُ الرَّسُولُ لَوَجَدُواْ الل ه تَوَّابًا رَّحِیمًا. (3)

--------------

(1):-  الدر المنشور- جلال الدین السیوطی- ج 1- ص 237.

(2):- السنن الکبری- البیہقی- ج 5- ص 246، ابن ابی شیبہ (استاد بخاری) مصنف جلد 7 ص 482، کنز العمال متقی ہندی جلد 7 ص 431

(3):- نساء 64.

۸۶

اور ہم نے جو بھی رسول بھیجا اس لیے بھیجا ہے کہ خدا کی اجازت سےاس کی اطاعت کی جائے اور جب یہ لوگ اپنے آپ پر ظلم کر بیٹھتے تھے تو اگر آپ کی خدمت میں حاضر ہو کر اللہ سے معافی مانگتے اور رسول بھی ان کے لیے مغفرت کی دعا کرتے تو وہ اللہ کو توبہ قبول کرنے والا، رحم کرنے والا پاتے.

2. روایات:

خود پیغمبراکرم(ص) فرماتے ہیں :

«حَیاتی خَیرٌ لَكُمْ تحدثون و نحدث لکم و وفاتی خیر لکم تعرض علیّ اعمالکم ..» (1)

میری زندگی تمھارے لئے بہتر ہے کہ تم مجھ سے سوال کریں اور میں تم کو جواب دوں ، اسی طرح میری وفات بھی تمھارے لئے بہتر ہے کہ تم اپنے اعمال کو عارضہ کرو. اسی طرح اپنی زیارت کرنے کی بھی لوگوں کو تشویق دلائی:

«مَنْ زَارَ قَبْرِی وَجَبَتْ لَهُ شَفَاعَتِی». (2)

جو بھی میری قبر کی زیارت  کرے گا اس کیلئے میری شفاعت اور بہشت واجب ہوگی.

جو بھی میری قبر کی زیارت کرے اس کی شفاعت کرنا میرے اوپر فرض ہے .(3)

3. صحابہ کی سیرت:

حضرت عمر نے فتوحات شام کے بعد جب مدینہ پہنچےتو سب سےپہلے مسجد نبوی میں آکر آپ پر سلام بھیجا ہے.

--------------

(1):-  طرح التثریب، ص 297.

(2):- السنن الکبری، ج 5، ص 5 24.

(3):- 40 منبع از کتاب ہای اہل سنت.

۸۷

 احمد بن حنبل، رملی شافعی، محبالدین طبری، زرقانی مالکی اور عزامی شافعی وغیرہ نےنقل کئے ہیں:جب احمد بن حنبل کے بیٹے عبداللہ نے اپنے باپ سے پوچھا کہ منبر  اورقبر رسول کو ثواب کی نیت سے  چومنا،مس کرناکیسا ہے؟ اس نے جواب دیا: کوئی اشکال نہیں ہے.کہتا ہے کہ قبر رسول یا کسی اور ولی اللہ کی قبر کا تبرک کے طور پر بوسہ لینا جائز ہے .رملی شافعی اورمحب الدین طبری شافعی کا بھی یہی عقیدہ ہے(1) اسی طرح تاریخ میں ثابت ہے کہ لوگ قبر پیغمبر اکرم اور حضرت حمزہ سے مٹی جذام اور صداع جیسے امراض کیلئے شفایابی کیلئے لے جاتے تھے ، ابو سلمہ پیغمبر اکرم سے نقل کرتے ہیں :غُبارُ الْمَدِینَةِ يُطْفِی

4. عقل:

 عقل انسان کہتی ہے کہ جسے اللہ تعالیٰ نے عزت اور عظمت دی ہے ان کی تعظیم کرنا واجب ہے اور زیارت بھی ایک قسم کی تعظیم ہے .

 ابن اثیر جزری نے پیغمبر اکرم (ص)سے نقل کیا ہے :

وَالَّذی نَفْسِی بِيَدِهِ انَّ فی غُبارِها شِفاءٌ مِنْ كُلِّ داءٍ (2)

اہل سنت بھی قبر سے تبرک  

ذہبی جو صحابی رسول ہیں کہتے ہیں: ایک آدمی نے سعد بن معاذ  کی قبر سے مٹی اٹھائی  پھر دیکھا کہ وہ مٹی اچانک مشک میں بدل گئی.(3)

-------------

(1):- کنز المطالب،ص219.اسنی المطالب،ج1،ص331.لجامع فی العلل ومعرفة الرجال،ج 2،ص 32؛وفاءالوفا،ج 4،ص 1414.

(2):- وفاء الوفا، ج 1، ص 69، ص 544.

(3):- بقات الکبری، 3، 10- سیر اعلام النبلاء، 1، 289.

۸۸

ابونعیم اصفہانی و ابن حجر عسقلانی کہتے کہ عبداللّہ حدانی ۸ذی الحجة سال 183  کو مارا گیا تو لوگوں نے اس کی قبر کی مٹی تبرک کے طور پر اٹھا کر لے گئے(1)

قسطلانی کہتا ہے:وَهُوَ مِن ابشع المسائل المنقولة عنه».

ابن تیمیّہ کا زیارت قبر رسول اللہ (ص)(ص)سے روکنا ان بدترین مسائل میں سے ہے جو ان سے نقل ہوئی ہے .غزالی کہتا ہے:

«کلّ من‏یتبرک بمشاهدته (ص) فی‏حیاته، یتبرک بزیارته بعد وفاته ویجوز شدّالرحال لهذا الغرض».

جو بھی پیغمبر اکرم (ص)کی زندگی میں ان کی زیارت کرتے تھے ان کی وفات کے بعد بھی ان کی زیارت کیلئے جانا جائز ہے(2)

«إِنَّ فاطِمَةَ کانَتْ تَزُورُ قَبْرَ عَمِّها حَمْزَةَ كُلّ جُمُعَةٍ فَتُصَلّی وَتَبْكِی عِنْدَهُ. » (3)

حضرت فاطمہ زہرا  ہر جمعہ کو اپنے چچا حضرت حمزہ کی قبر کی زیارت کیلئے جاتی اور گریہ کرتی تھیں.

قبور کی تعمیر اور ان پر گنبد بنانا

نَهی رَسُول اللّه (ص) ان یجصّص القبر وان یعقد علیه وان یبنی علیه (4)   پیغمبر اکرم (ص) نے قبر کو گچ کاری اور اس پر قبہ وغیرہ بنانے سے منع فرمایا ہے. اس حدیث کو دلیل بنا کر یہ لوگ مسلمانوں کے قبور کو مسمار کرنا واجب سمجھتے ہیں.

--------------

(1):-  حلیة الاولیاء، ج 2، ص 258- تہذیب التہذیب ج 5، ص 310.

(2):- مصنف عبدالرزاق، ج 3، ص 570- معجم البلدان 2، 214.

(3):-  سنن الکبری، ج 4، ص 132؛ مصنف عبدالرزاق، ج 3، ص 572.

(4):- صحیح مسلم، ج 3، ص 63.

۸۹

جواب: بہت ساری حدیثیں ایسی ہیں جن میں امر کیا ہوا ہے لیکن وہ کراہت پر حمل کئے جاتے ہیں اور یہ ضروری نہیں کہ ہمیشہ امر وجوب پر ہی دلالت کرتا ہو.چنانچہ حضرت فاطمہ اپنے چچا حضرت حمزہ کی قبر پر پتھروں سےعلامت بنا کر وہاں فاتحہ پڑھا کرتی تھیں.اور رسول خدا (ص)نے عثمان  بن مغطون کی قبر پر پتھر سے نشان بنایا. اور یہ کیسے ممکن ہے کہ عام انسانوں جیسے بخاری کی قبر پر گنبد بنانا جائز  لیکن آئمہ طاہرین کی قبروں پر گنبد بنانا شرک ہو جائے؟!

 ان کی صرف ایک دلیل ہے جو ابی الہیاج سے نقل ہوئی ہے  جو سند کے لحاظ سے ضعیف ہے کیونکہ وکیع اور حبیب بن ابی ثابت اہل سنت کے نزدیک مورد اعتماد نہیں  ہیں.دلالت حدیث بھی کامل نہیں ہے کیونکہ«وَ لا قَبراً الّا سوّیته» کا مطلب یہ تو نہیں  ہے کہ قبرکو مسمار کردے بلکہ اس  کا مطلب یہ ہے کہ قبر کو مسطح کیا جائے .نہ یہ کہ کوہان شترکی طرح بلند کردے.

قسطلانی کہتا ہے:«السنة فی القبر تسطیحه و انَّه لا یجوز ترک هذه السنّة لمجرّد انّها صارت شعاراً للروافض وانّه لا منافات بین التسطیح و حدیث ابی هیاج: لانّه لم يُرَد تسویته بالارض و انّما اراد تسطیحه جمعاً بین الاخبار ...» (1)

سنت پیغمبر(ص) تو یہ ہے کہ قبر کو مسطح کرتے تھے اور یہ شیعہ مذہب کا شعاربننے کی وجہ سے  ترک کرنا جائز نہیں ہے اور ابی الہیاج کی روایت سے بھی کوئی منافات نہیں ہے کیونکہ روایت کا مقصد یہ نہیں کہ زمین سے ہم سطح کر دیا جائے بلکہ صاف رکھنا مراد ہے اور قبروں کے کنارے مکان اور مسجد بنانا  مسلمانوں کی سنت رہی ہے تاکہ جن میں اللہ تعالیٰ کی عبادت کرسکیں.

1.  جس طرح  قبر پیغمبر کے کنارے مسجد تعمیر کی گئی.

2.  قبور آئمہ بقیع کو ۱۳۴۵؁ کو وہابیوں نے خراب کیا.

--------------

(1):-  ارشاد الساری، ج 2، ص 468.

۹۰

3.  رسول خدا کے بیٹے ابراہیم کی قبر کو جو محمد بن زید بن علی کے گھر میں تھی وہابیوں نے خراب کیا.

4.  حضرت حمزہ ؓ کی قبر پر مسجد بنی ہوئی تھی جسے دوم ہجری میں وہابیوں نے خراب کیا.

5.  سعد بن معاذ کی قبر پر عمر بن عبدالعزیز کے زمانے میں گنبد تعمیر کی گئی.(1)

6.  حضرت علیبن ابی طالب کی قبر پر دوسری صدی میں گنبد بنائی گئی.(2)

7.  حضرت سلمان فارسی کی قبر پر بھی گنبد بنائی گئی تھی.(3)

 خلاصہ یہ ہے کہ سارے مسلمانوں  میں یہ سیرت عام رہی ہے کہ اپنی اہم شخصیات  کی قبور  کے کنارے بارگاہیں بنایا جائے  ، مسجد تعمیر کی جائے ،تاکہ ان کو بھی یاد کریں اور ان کے توسط سے اللہ کی بارگاہ میں بھی متوسل ہوجائیں. سارے اہل سنت بھی اس کے قائل ہیں صرف وہابیوں کو ان سے اختلاف ہے.

 سند حدیث میں ابوالزبیر محمد بن مسلم آمدی- موجود  ہے جسے علمائے اہل سنت ، جیسے احمد بن حنبل اور ابن عینیہ  اور  ابو حاتم نے ضعیف قرار دیا ہے.(4) اسی طرح سند میں ربیعہ ہے جسے ازدی اور ابن ابی شیبہ اور ساجی نے مشکوک قرار دیا ہے(5)

--------------

(1):-  وفاء الوفا، ج 2، ص 545.

(2):- موسوعة العتبات 6، 97.

(3):- تاریخ بغداد، ج 1، ص 163.

(4):- تہذیب الکمال 407: 26.

(5):- تہذیبالتہذیب 2، 360- تاریخ بغداد 8، 199- سیر اعلام النبلاء 9، 31.

۹۱

مناظرہ:

 شیعہ: کیوں تم قبور کی بے احترامی کرتے ہو اور گنبد کو گرا دیتے ہو؟

وہابی: کیا تو علی کو مانتے ہو؟ اس نے کہا: وہ تو میرا پہلا امام ہے اور رسول کا خلیفہ بلافصل ہیں.

وہابی: ہماری معتبر کتابوں میں تین علماء نے لکھا ہے کہ جن کا نام یحیٰ ، ابوبکر اور زہیر ہیں، وکیع سے ، اس نے سفیان سے ، انہوں نے حبیب سے ، اس نے ابی وائل سے اور اس نے ابی الہیاج اسدی سے نقل کیا ہے کہ علی ابن ابیطالب نے ابی الہیاج سے فرمایا:کیا میں تمہیں کسی ایسے کام کا حکم دوں  جس کا مجھے رسول خدا (ص)نے حکم دیا تھا؟اس نے کہا: ہاں .

 تو آپ  نے فرمایا : کسی بھی تصویر کو مٹائے بغیر نہ رکھو اور کسی بھی قبر کو باقی نہ رکھو مگر وہ زمین کے برابر کردو(1)

شیعہ : یہ حدیث سند اور دلالت دونوں لحاظ سے ضعیف ہے کیونکہ اس کے سلسلہ سند میں درج ذیل افراد موجود ہیں 1. وَکیع. 2. سُفیان. 3. حبیب بن ابی ثابت. 4. ابی وائل ، جن کی سند کو  احمد بن حنبل نے اس تفصیل کے ساتھ بیان کیا ہے:وکیع نے پانچ سو حدیثوں میں خطا کیا ہے.(2) ، سفیان ثور ی کے بارے میں نقل ہوا ہے کہ ابن مبارک نے جب سفیان کو حدیث میں تدلیس(ناحق کو حق کا جلوہ دکھاتے  ہوئے ) کرتے ہوئے دیکھا تو وہ شرمسار ہوگیا.اسی طرح حبیب بن ابی ثابت بھی.(3) اور ابی وائل کے بارے میں تو کہا جاتا ہے کہ وہ ناصبی تھا اور امیر المؤمنین کے دشمنوں میں شمار ہوتا تھا.(4)

-------------

(1):- صحیح مسلم، ج 3، ص 61، سنن ترمذی، ج 2، ص 256، سنن نسائی، ج 4، ص 88.

(2):- تہذیب التّہذیب، ج 11، ص 125.

(3):- ہمان، ج 4، ص 115. ج 3، ص 179.

(4):- شرح نہجالبلاغہ حدیدی، ج 9، ص 99

۹۲

اور قابل توجہ بات تو یہ ہے کہ سارے صحاح ستہ میں یہی ایک حدیث  ہے جسے دلیل بنا کر یہ لوگ قبور آئمہ کو مسمار کرتے ہیں.

وہابی:قبور کے اطراف میں عمارت تعمیر کرنا عرف میں تو یہ پسندیدہ عمل ہے لیکن قرآن  میں اس پر کوئی دلیل موجود نہیں ہے.

جواب: کیوں نہیں ؟ ایک آیة مؤدت ہے :

قُلْ لا أَسْئَلُكُمْ عَلَيْهِ أَجْراً إِلَّا الْمَوَدَّةَ فِی الْقُرْبی‏.

اور دوسری دلیل اصحاب کہف  کا  قصّہ ہے کہ جب یہ لوگ تین سو سال کے بعد بیدار ہوئے تو  اس غار کے کنارے کسی نے کوئی شاندار  عمارت بنانے کا مشورہ دیا تو کسی نے  وہاں مسجد تعمیر کرنے کا مشورہ دیا اور مسجد بنانے پر اتفاق ہوا : ابْنوا علی ه م بُنیاناً: لنتَّخِذَنَّ علی ه م مسجداً. (1) اور یہ اولیاے خدا  کے قبور کا احترام کرنے کا ایک انداز ہے ، تیسری دلیل لوگوں کا  قبور کے اطراف میں مساجد بنانا ،صاحب قبر کی عزت اور ان کا احترم کرنے کا انداز ہے.

قبور پر چراٖغ جلانا

سوال : کیا قبور پر چراغ جلانے کی کوئی شرعی حیثیت ہے؟

جواب:

درج ذیل دلائل کی روشنی میں قبور پر چراغ جلا نا کوئی ممنوع نہیں ہے :

اہل سنت کی روایات کی روشنی میں کہ پیغمبر اکرم (ص) نے قبرستان میں جاتے وقت حکم دیا کہ وہاں چراغ جلائے جائیں(2)

--------------

(1):- کہف، 21 .

(2):- الجامع الصحیح، ج 3، ص 372

۹۳

مسلما نوں کی سیرت بھی یہی رہی ہے کہ ایوب انصار ی اور زبیر بن عوام  کی قبر پر  چراغ جلایا کرتے تھے.(1) اسی طرح مقبروں میں نماز پڑھنےکو جائز قرار دیتے تھے:

 قال مالک لا باس بالصلاة فی المقابر و قال بلغنی ان بعض اصحاب النبی کانوا یصلّون فی المقبرة» (2)

--------------

(1):-  تاریخ بغداد، ج 1، ص 154  المنتظم، ج 14، ص 383.

(2):- المدونة الکبری، ج 1، ص 90.

۹۴

چھٹی فصل:

 بحث امامت اور خلافت

امامت یا  خلافت پہ بحث کرنے کا کیا فائدہ  جس کی وجہ سے مسلمانوں میں اختلاف پیدا ہوجائے ؟ جو ہوا سو ہوا  ہم کیوں آپس میں الجھیں؟!

اس کا جواب دو حصوں پر مشتمل ہے :

الف: تاریخی ہے جو گذر گئی  کہ کھبی واپس نہیں آئے گی. 

ب: دینی ہے جو ابھی تک باقی ہے اور  قیامت تک باقی رہے گا.اب کوئی موجود ہو جو ان آنے والی مشکلات کو حل کرے  اور لوگ اس کی طرف رجوع کرے یہی وجہ ہے کہ شیعہ اس بات کا معتقد ہے کہ علی اور اولاد علی  کو رسول اللہ (ص)نے بعنوان خلیفہ مقرر کیا اس سے شیعہ نظریہ تثبیت ہوجاتا ہے.جس پر حدیث ثقلین صد در صد دلالت کرتی ہے اور اس کی سند فریقین کے نزدیک صد درصد صحیح بھی ہے اور متواتر بھی یہ منصب ایک الہی منصب ہے جس کی معرفت اور پہچان بھی الہی فریضہ ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں اس دنیا میں بھیجا اور زندگی کرنے کا طریقہ بھی بتایا اور اپنے رسول کے ذریعے ان رہنماؤں کی معرفی بھی کرائی  اور خبردار بھی کیا کہ ان سے جدا نہ ہونا. یہی وجہ ہے کہ اس بحث کو نظرانداز نہیں کرسکتا.

اگر ہم بغیر کسی تعصب  اور ٹھنڈے دماغ  کے ساتھ امامت یا خلافت سے بحث کریں تو یہ مسلمانوں کے صفوں میں اتحاد اور اتفاق کا باعث ہے.ایک دوسرے کے عقائد سے بھی آگاہ ہوجائیں گے جس کے باعث  ایک دوسرے کے قریب ہوجائیں گے.

۹۵

امامت کی حقیقت شیعہ اور اہل سنت کی نظر میں

لغت میں امامت اسے کہا جاتا ہے جس کی اتباع اور پیروی کی جائے خواہ وہ انسان ہو یا کتاب ہو ،  حق ہو یا باطل ہو .یہی وجہ ہے کہ قیامت کے دن انہی کے ساتھ انسان کو محشور کیا جائے گا :

يَوْمَ نَدْعُوا كُلَّ أُناسٍ بِإِمامِهِمْ فَمَنْ أُوتِيَ كِتابَهُ بِيَمینِهِ فَأُولئِكَ يَقْرَؤُنَ كِتابَهُمْ وَ لا يُظْلَمُونَ فَتیلاً . (1)

 قیامت کا دن وہ ہوگا جب ہم ہر گروہ انسانی کو اس کے پیشوا کے ساتھ بلائیں گے اور اس کے بعد جن کا نامہ اعمال ان کے داہنے ہاتھ میں دیا جائے گا وہ اپنے صحیفہ کو پڑھیں گے اور ان پر رائ برابر ظلم نہیں ہوگا.

لیکن اصطلاح میں امامت سے مراد رسول خدا (ص)کا جانشین ہے جو دین کی خاطر رسول کی جانب سے منتخب ہو جن کا اتباع کرنا تمام مسلمانوں پر واجب ہو.

امامت کو اصول دین میں کیوں شمار کیا جاتا ہے ؟

جواب شیعہ : ہم چونکہ امامت کو سلسلہ نبوت کی  ایک کڑی  سمجھتے ہیں  جس کے ساتھ اسے  بھی ذکر کرنا ضروری ہے

امامت کی خصوصیات 

شیعہ : وہی صفات کے حامل ہونا چاہئے کہ جس کا نبی یا رسول حامل ہوسواے  وحی کے .

اہل سنت: چار ہیں : عالم ہو، عادل ہو،  سیاسی امور سے آگاہ ہو ، اور حسن تدبیر کا مالک ہو.بعض نے کچھ اور اضافہ کیاہے جیسے : قریشی ہو، جسم کے سارے اعضاء و جوارح سالم ہو، شجاع اور دلیر ہو، بالغ ہو، مرد ہو،

--------------

(1):-  الاسراء : 71. 

۹۶

اشکال : کیوں ان خصوصیات کی تعداد میں اختلاف  ہے؟

 آیة اللہ جعفر سبحانی فرماتے  ہیں:کیونکہ انہوں نے نصوص میں دقت نہیں کی ہے:

الف:امامت کے متعلق نصوص دینی  کا مطالعہ ہی  نہیں کیا ہے .ان کے پاس جو نصوص موجود ہیں ان میں امامت کے متعلق ان مذکورہ شرائط کا تعین ہی نہیں کیا گیا ہے ان کے مذکورہ شرائط کا منبع استحسان اور اعتبارات عقلی ہیں عجیب بات تو یہ ہے کہ کیسے ممکن تھا کہ رسول خدا (ص)نے شرائط اور خصوصیات امام جیسی اہم  چیز کو بیان نہیں کیاہو اور امّت پر چھوڑ  گئے  ہوں جب کہ اللہ تعالیٰ نے مکروہات اور مستحبات کو بھی مفصل بیان کیا ہے.

ب:ان کی بیان کردہ صفات ، عدالت والی صفت کے ساتھ تضاد  رکھتی ہیں.باقلانی  نے کہا : فاسق اور فاجر ہونے کی وجہ سے منصب امامت سے نہیں ہٹایا جاسکتا بلکہ اسے نصیحت اور  ہدایت کی جائے گی..(1)

ج:امیر المؤمنین(ع) کے بعد اکثر خلفاء ان صفات کے حامل نہیں تھے یعنی یہ لوگ امام حاضر کیلئے شرائط ڈھونڈتے ہیں لیکن شیعہ امامت کو نبوت کا سلسلہ مانتے ہیں لہذا وحی اور نبوت  کے سوا نبی کی تمام صفات کو امام کیلئے لازم سمجھتے ہیں .

د:مزید اشکالات: امام ہونے کے لئےقریشی ہونا شرط  رکھی گئی ، اس صورت میں غیر قریشی خلفاء کا کیا کروگے؟ اسی طرح عدالت کی صفت در حدوث یا در بقاء؟ اسی طرح عالم ہونے کی قید ذکر کی گئی تو جو جاہل خلفاء گذرے ہیں ان کا کیا گروگے؟جیسا کہ تاریخ اس بات پر گواہ ہے کہ مروان کے پاس نہ علم تھا اور نہ دین تھا .

ان مباحث سے ثابت ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ  نے اپنے رسول کے  انتخاب کرنے میں کسی  سے رائے نہیں لی .یہ باتیں شیعہ اور سنی کے درمیان اختلاف کی وجہ تھیں، لیکن درج ذیل  چیز یں امامت کے بارے میں مورد اتفاق ہیں:

 الف: پیغمبر(ص) کے بعد کسی امام کا ہونا ضروری ہے

ب: پیغمبر(ص) کی جانب سے جو لوگوں پر حکومت کرے.

--------------

(1):-  الٰہیات،ص۵۰۸.

۹۷

اثبات امامت کی راہیں اور رکاوٹیں

شیعوں کے نزدیک تین راہیں  ہیں :

1.  اللہ تعالیٰ کی طرف سے منتخب ہو۔

2.  رسول خدا(ص) کی طرف سے منتخب ہو.

3.  پہلا امام کی طرف سے منتخب ہو.

اہل سنت کے نزدیک  بھی تین راہیں ہیں:

1.  وہی تین راہیں جن کے شیعہ معتقد ہیں. لیکن ان میں سے صرف تیسری صورت وقوع پذیر ہوئی.

2.  حل و عقد ( قوم کا سردار، ریش سفید اور زمینداروں) امام کو منتخب کریں گے.لیکن اس صورت میں یہ اشکال پیدا ہوتا ہے کہ یہ سردار یا وڈیروں  اور قوم کے بزرگوں کی تعداد کتنی ہونے چاہئے؟ ایک یا دو یا تین یا چھ یا دس یا سو ؟!!

اہل سنت کے ہاں چار قول ہیں:

     کم از کم پانچ افراد ہونے چاہئے کیونکہ ابوبکر کو پانچ افراد نے  انتخاب کیا تھا.. شیعہ اشکال کرتےہیں :یہ تو نقض لازم آتا ہے ، کیونکہ عمر کو چھ افراد نے انتخاب کیا ہے .

     کم از کم دو  افراد ہونےچاہئے ، کیونکہ نکاح میں دو گواہ لازم ہے

     حد اقل ایک نفر ہونا چاہئے ، کیونکہ قاضی کا حکم نافذ ہے جب کہ وہ ایک سے زیادہ نہیں ہے .

شیعہ اشکال کرتے ہیں : اگر ایک شخص سو آدمی کو منتخب کرےتو کیا انہیں بھی قبول کریں گے؟ اس صورت میں علی (ع)کو بھی   اباذر، سلمان اور مقداد  نے اپنا امام منتخب کیا تھا ، تو انہیں کیوں نہیں بنائے گئے؟ شاید آپ جواب دیں گے:

 بائُکَ تجُر و بائی لا تَجُر.

 یعنی تیرا (با) زیر دیتا ہے لیکن میرا (با ) زیر نہیں دیتا.

۹۸

     شوری کے ذریعے امام کا انتخاب  کیا جا تا ہے اہل سنت کے دانشور حضرات کہتے ہیں کہ خلیفہ یا امام شوری کے ذریعے انتخاب کیا جاتا ہے جس پر دلیل قرآنی پیش کرتے ہیں:

 فَبِما رَحْمَةٍ مِنَ الل ه لِنْتَ لَهُمْ وَ لَوْ كُنْتَ فَظًّا غَلِیظَ الْقَلْبِ لانْفَضُّوا مِنْ حَوْلِكَ فَاعْفُ عَنْهُمْ وَ اسْتَغْفِرْ لَهُمْ وَ شاوِرْهُمْ فِی الْأَمْرِ فَإِذا عَزَمْتَ فَتَوَكَّلْ عَلَی الل ه إِنَّ الل ه يُحِبُّ الْمُتَوَكِّلِینَ. (1)

"پیغمبر یہ اللہ کی مہربانی ہے کہ تم ان لوگوں کے لئے نرم ہو ورنہ اگر تم بدمزاج اور سخت دل ہوتے تو یہ تمہارے پاس سے بھاگ کھڑے ہوتے لہذا اب انہیں معاف کردو- ان کے لئے استغفار کرو اور ان سے امر جنگ میں مشورہ کرو اور جب ارادہ کرلو تو اللہ پر بھروسہ کرو کہ وہ بھروسہ کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے".

آیة شریفہ میں حکم ہوا ہے کہ اپنے مہم کاموں میں ایک دوسرے  کے ساتھ مشورہ کرو. اور امامت یا خلافت بھی ایک اہم کام ہے  اسی لئے ہم نے بھی باہمی مشورے سے اپنا خلیفہ انتخاب کیا ہے .

شیعہ اشکال کرتے ہیں : آیة شریفہ میں ہمارے اپنے کاموں میں  مشورہ کرنے کا حکم ہے لیکن امامت کا انتخاب کرنا ہمارا کام تو نہیں ہے بلکہ یہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول  کا کام ہے کہ وہ جس کا انتخاب کریں ، ان کی مرضی ہے  اس میں ہمارا کوئی عمل دخل نہیں ہے .دوسری دلیل یہ ہے کہ ہمارے  مشورے کے مطابق عمل کرنا رسول پر واجب نہیں ہے کیونکہ فرمایا : فتوکل علی اللہ. ثالثاً بنی عامر جب مسلمان ہوئے تو رسول خدا (ص)پر منت چڑھاتے ہوئے مطالبہ کیا تھا کہ چونکہ آپ  ہماری وجہ سے قوی ہو گئے ہیں تو اپنے بعد آپ کا جانشین ہماری قوم سے ہونا چاہئے.تو اس وقت فرمایا: یہ اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں  ہے جو جس کو چاہے منتخب کرے

--------------

(1):-  آلعمران ۱۵۹.

۹۹

لزوم امامت پر دلائل

سوال یہ ہےکہ امام کا ہونا کیوں ضروری ہے ؟

 جواب یہ کہ تین وجوہات کی بنا پر امام کا ہونا ضروری ہے :

۱.نبی کریم (ص)کے بعد مختلف علمی میدانوں جیسے تفسیر قرآن ، تبیین احکام، یہود و نصاری ٰکی طرف سے کئے جانے والے شکوک و شبہات  کا جواب دینے والا نیز دین مبین اسلام کو تحریفات سے بچانے والا موجود ہو.

۲.امّت اسلامی کیلئے اندرونی اور بیرونی خطرات لاحق تھے .بیرونی خطرات جیسے  روم  کی حکومت کہ جن کے ساتھ بہت سی جنگیں لڑی  گئیں .اور ایران کے اس بادشاہ نے ایک دفعہ بہت ہی اہانت کے ساتھ یمن کے والی کو لکھا : تو دو نفر کو بھیج کر  ان ( رسول خدا (ص)) کو میرے پاس  لے آؤ.اندرونی خطرات جیسے منافقین کی جانب سے تھے جو ستون پنجم کے نام سے مشہور تھے جن کی مذمت میں مکمل سورہ  منافقون نازل ہوا .

حیران کن بات یہ ہے کہ خلفائے ثلاثہ کے دور میں کبھی ان منافقین نے سر نہیں اٹھایا جو رسول اللہ (ص) کے زمانے میں ہر وقت اسلام کے خلاف جنگ کرتے رہےل تھے ، لیکن جب علی کی خلافت کا دور آیا تو پھر انہوں نے سر اٹھایا جس کی وجہ سے علی کو خلافت کے پورے چار سال جنگ اور جہاد میں مصروف رہنا پڑا .

سوال: یہ کس بات کی دلیل ہے ؟!! کیا ایسا نہیں کہ ان کے دور خلافت میں منافقین کو آسائشی زندگی میسر ہوئی؟

۳.قاعدہ لطف  ، کہ اللہ تعالیٰ کا لطف و کرم کا تقاضا یہ ہے کہ وہ اپنے بندوں کو گمراہی اور ضلالت سے بچنے کیلئے نبی کے بعد کسی ہادی یا رہبر یا امام بھیجا جائے .

اس کا منطقی قاعدہ  یہ ہے :

پہلامقدمہ : امامت کا منتخب کرنا بندوں پر ایک لطف ہے.

۱۰۰

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

وَلَن يَتَمَنَّوْهُ أَبَدًا بِمَا قَدَّمَتْ أَيْدِيهِمْ وَاللّهُ عَلِيمٌ بِالظَّالِمينَ ( ۹۵ )

اور يہ اپنے پچھلےاعمال كى بناپر ہرگز موت كى تمنا نہيں كريں گے كہ خدا ظالموں كے حالات سےخوبواقف ہے (۹۵)

۱_ اخروى سعادت سے مايوسى كى خاطر يہود ہرگز موت كے خواہشمند نہ تھے اور نہ ہى كبھى موت كا استقبال كريں گے _و لن يتمنوه ابدا

۲ _ موت سے گريز كرنا يہوديوں كے دعوى (انكا بہشتى ہونا ) كے غلط ہونے كى دليل ہے _

فتمنوا الموت ان كنتم صادقين _ و لن يتمنوه ابداً

۳ _ يہود گناہگار اور نارواوناپسنديدہ عمل كے مالك ہيں _و لن يتمنوه ابداً بما قدمت ايديهم '' ما قدمت ايديھم _ جو كچھ تم آگے بھيج چكے ہو'' ميں '' ما'' سے مراد گناہ اور ناپسنديدہ اعمال ہيں _

۴ _ گناہوں كے ارتكاب كى وجہ سے يہوديوں كو آخرت ميں بہرہ مند ہونے كى كوئي اميد نہيں ہے_

لن يتمنوه ابداً بما قدمت ايديهم

۵ _ انسانوں كے اعمال و كردار عالم آخرت ميں ان كے انجام كو متعين كرنے والے ہيں _بما قدمت ايديهم

۶ _ قيامت پر ايمان و يقين ركھنے والوں كا موت سے بچنا اور اس كو ناپسند جاننا، اس كى وجہ ان كے گناہ اور اخروى عذاب سے خوف ہے _و لن يتمنوه ابداً بما قدمت ايديهم

''بما قدمت'' ميں ''بائ'' سببية كے لئے ہے_ پس جملہ '' لن يتمنوہ ...'' اس حقيقت كو بيان كررہاہے كہ موت سے خوفزدہ ہونے كے اسباب ميں سے ايك گناہ ہيں _ قابل ذكر ہے كہ يہ جملہ چونكہ ان لوگوں كے بارے ميں ہے جو اللہ تعالى اور قيامت پر ايمان و يقين ركھتے ہيں لہذا مذكورہ دليل بھى انہى سے مخصوص ہے _

۷ _ يہودى ستم گر لوگ ہيں _و الله عليم بالظالمين

'' الظالمين '' كے مصاديق ميں سے ( ماقبل آيات اور اس آيہ مجيدہ كے صدر كلام كے قرينہ سے ) يہودى ہيں _

۳۲۱

۸ _ گناہگار ستم گر ہيں _بما قدمت ايديهم و الله عليم بالظالمين

۹_ اللہ تعالى ستم گروں كے ستم سے آگاہ ہے _والله عليم بالظالمين

۱۰_ گناہوں كے ارتكاب كے ہوتے ہوئے بہشتى ہونے كا دعوى كرنا ايك ظالمانہ ادعا ہے _

قل ان كانت لكم الدار الآخرة و الله عليم بالظالمين

يہوديوں كے گناہگار ہونے كے علاوہ ان كو ستم گر كہنا ہوسكتاہے اس ليئے ہو كہ ان كا دعوى بے جا ہے _

۱۱ _ اللہ تعالى ستم گروں كو ان كے اعمال كى سزا دے گا_والله عليم بالظالمين

ستم گروں سے اللہ تعالى كى آگاہى كو بيان كرنا گويا ان كو عذاب كى دھمكى دينا ہے _

اللہ تعالى : اللہ تعالى كا علم ۹; اللہ تعالى كى سزائيں ۱۱

انجام يا تقدير: تقدير ميں مؤثر عوامل ۵

انسان: انسان كا اخروى انجام ۵

تمنا: تمنائے موت ۱،۲

خوف : عذاب سے خوف كے نتائج ۶; عذاب اخروى سے خوف۶

دعوى : اخروى سعادت كا دعوى ۱۰ ;ظالمانہ دعوى ۱۰

ظالمين : ۷،۸ ظالمين كے بارے ميں اللہ تعالى كا علم ۹ ظالموں كا انجام ۱۱

ظلم : ظلم كا انجام ۱۱

عمل: عمل كے نتائج۵

قيامت : قيامت پر ايمان ركھنے والے ۶

گناہ : گناہ كے نتائج ۶; گناہ كا ارتكاب ۱۰;

گناہگار لوگ: ۳ گناہگاروں كا ظلم ۸

موت: موت سے فرار كا فلسفہ ۶

مومنين: مومنين اور موت ۶

۳۲۲

يہود: يہوديوں كى صفات۳،۷; يہوديوں كا ظلم ۷; يہوديوں كا ناپسنديدہ عمل ۳; يہوديوں كى مايوسى كے عوامل ۴ ; يہوديو ں كا موت سے فرا ر ۲ ; يہوديوں كى گناہگارى ۳،۴; يہوديوں كا آخرت سے محروم ہونا ۴; يہوديوں كے دعووں كے باطل ہونے كى علامتيں ۲; يہوديوں كى اخروى سعادت سے مايوسى ۱،۴; يہود اور موت ۱

وَلَتَجِدَنَّهُمْ أَحْرَصَ النَّاسِ عَلَى حَيَاةٍ وَمِنَ الَّذِينَ أَشْرَكُواْ يَوَدُّ أَحَدُهُمْ لَوْ يُعَمَّرُ أَلْفَ سَنَةٍ وَمَا هُوَ بِمُزَحْزِحِهِ مِنَ الْعَذَابِ أَن يُعَمَّرَ وَاللّهُ بَصِيرٌ بِمَا يَعْمَلُونَ ( ۹۶ )

اے رسول آپ ديكھيں گے كہ يہزندگى كے سب سے زيادہ حريص ہيں اور بعضمشركين تو يہ چاہتے ہيں كہ انھيں ہزاربرس كى عمر دےدى جائے جب كہ يہ ہزار برسبھى زندہ رہيں تو طول حيات انھيں عذابالہى سے نہيں بچا سكتا _ اللہ ان كےاعمال كو خوب ديكھ رہا ہے (۹۶)

۱_ زندہ رہنے اورطولانى عمر حاصل كرنے ميں حريص ترين لوگ يہود ہيں _و لتجدنهم احرص الناس على حياة

۲ _ ہر طرح كى دنياوى زندگى ، ( چاہے جتنى بھى پست ہو) اس پر يہودى حريص ہيں اور دل وابستہ كيئے ہوئے ہيں _

و لتجدنهم احرص الناس على حياة

'' حياة'' كو نكرہ لانا اس نكتہ كى طرف اشارہ ہے كہ يہودى كسى بھى خصوصيت كے ساتھ، كے ساتھ اگر چہ كتنى ہى پست و حقير ہو ليكن پھر بھى فقط زندہ رہنا چاہتے ہيں _

۳ _ يہوديوں كى روش اور چال ڈھال ان كى دنياوى زندگى كے بارے ميں شديد حرص اور موت سے خوف كى دليل ہے _

و لتجدنهم احرص الناس على حياة

''لتجدن'' فعل '' تجد _ تم پاتے ہو'' ، لام قسم اور نون تاكيد سے مركب ہے يعنى يقينا بلاشك تم ديكھتے ہو كہ يہودى انتہائي حريص لوگ ہيں _ اس بات پر تاكيد كہ تم تو يہوديوں كى دنياوى زندگى پر دلبستگى كو پاتے ہو، اس مفہوم كو بيان كررہاہے كہ يہوديوں كى چال ڈھال اس چيز كى دليل ہے كہ وہ لوگ دنياوى زندگى سے شديد محبت ركھتے ہيں _

۳۲۳

۴ _ يہوديوں كا دنياوى زندگى سے تعلق اوردنيا سے ان كى محبت كا نماياں ہونا اس امر ميں مانع ہے كہ وہ لوگ اخروى زندگى كا اشتياق و شوق ركھتے ہوں يا موت سے خوف نہ كھانے كا اظہار كريں _و لتجدنهم احرص الناس على حياة

جملہ '' لتجدنھم ...'' ، '' لن يتمنوہ'' كے لئے دليل ہے يعنى يہ حقيقت كہ يہوديوں كو آخرت ميں پہنچنے كى اور موت كى ہرگز كوئي خواہش نہيں ،يہ ان كى زندگى سے بہت واضح طور پر مشخص ہے _يہ حقيقت اتنى واضح ہے كہ وہ لوگ خود بھى اس كا انكار نہيں كرسكتے_

۵ _يہوديوں كا دنياوى زندگى كے بارے ميں شوق و اشتياق حتى مشركين سے بھى زيادہ ہے_و لتجدنهم احرص الناس و من الذين اشركوا '' من الذين'' ، '' الناس'' پر عطف ہے يعنى''و لتجدنهم احرص من الذين اشركوا .. تم ديكھتے ہو كہ وہ لوگ مشركين سے بھى زيادہ دنياوى زندگى پر حريص ہيں ''

۶_ يہوديوں كا دنياپرست ہونا قرآن كريم كى پيشين گوئيوں ميں سے ہے _لتجدنهم احرص الناس على حياة

۷ _ يہودى بھى اپنے دعوى ( كہ بہشت انكا مقدر ہے ) كے بے بنياد ہونے سے واقف ہيں _

ان كانت لكم الدار الاخرة و لتجدنهم احرص الناسہوسكتاہے يہ جملے '' لتجدنھم ...'' اور '' يود احدھم ...'' يہوديوں كے دعوى ( ان كانت آية ۹۴) پر ناظر ہو _ يعنى يہ كہ تم يہودى ايك طرف تو دعوى دار ہو كہ عالم آخرت بس تم سے متعلق ہے جبكہ دوسرى طرف تم دنيا كى زندگى ميں ہميشہ كے لئے رہنے كے خواہشمند ہو يہ بات دليل ہے كہ تمہيں خود بھى اپنے دعوى پر يقين نہيں ہے _

۸_ يہوديوں كا ہر فرد ہزار سال كى طولانى زندگى كا خواہشمند ہے _يود احدهم لو يعمر الف سنة

'' يعمرّ'' تعمير سے ہے جس كا معنى ہے جسے عمر دى گئي ہو_''احدھم'' كو '' يود'' كے فاعل كے طور پر لانا اور ضمير جمع (يودون) سے استفادہ نہ كرنا اس معنى كى وضاحت كرتاہے كہ ہزار سال كى طولانى عمر يہوديوں كے فرد فرد كى خواہش ہے_

۹_ دنيا سے محبت اور اس كى خاطر طولانى عمر كى آرزو كرنا ناپسنديدہ اور مكروہ صفت ہے _

و لتجدنهم احرص الناس على حياة يود احدهم لو يعمر الف سنة

آيت كا لب و لہجہ يہوديوں كى مذمت كررہاہے كہ دنيا كى محبت كى خاطر ان لوگوں نے طولانى عمر كى خواہش كى ہے _

۱۰_ مشركين دنيا كى زندگى سے دل وابستہ كيئے ہوئے ہيں اور اسى پر حريص ہيں _لتجدنهم احرص الناس و من الذين اشركوا

۳۲۴

۱۱ _ بعض مشركين ہزار سال كى طولانى زندگى كے خواہش مند ہيں _ومن الذين اشركوا يود احدهم لو يعمر الف سنة

يہ مفہوم اس اعتبار سے ہے كہ '' و من الذين اشركوا'' مبتدائے محذوف كى خبر ہے نہ كہ ''الناس'' پر عطف ہے يعنى مطلب يوں ہے ''و من الذين اشركوا طائفة يود احدھم'' بنابريں جملہ '' و من الذين ...'' حاليہ ہے اور '' يود احدھم'' انہى مشركين كى صفت بيان كى گئي ہے _ پس آيہ مجيدہ كا مفہوم يوں بنتاہے _ يہودى سب سے زيادہ دنيا سے دل وابستہ كيئے ہوئے ہيں در آں حاليكہ بعض مشركين ہزار سالہ عمر كے خواہشمند ہيں _

۱۲ _ گناہگار يہود عذاب جہنم ميں مبتلا ہوں گے _بما قدمت ايديهم و ما هو بمزحزحه من العذاب

''مزحزح'' كا مصدر ''زحزحة'' ہے جسكا معنى ہے دور كرنا _

۱۳ _ عالم آخرت سے يہوديوں كى مايوسى ،ان كى دنياوى زندگى پر حرص اور طولانى عمر كى آرزو كے بارے ميں زمين ہموار كرتى ہے _*يود احدهم لو يعمر الف سنة و ما هو بمزحزحه من العذاب ان يعمر

۱۴ _ دنياوى زندگى اور طولانى عمر يہوديوں كے اخروى عذاب سے نجات كا باعث نہيں ہوسكتي_و ما هو بمزحزحه من العذاب ان يعمر ''ان يعمر'' ''ہو'' كے لئے بدل ہے يا پھر ''مزحزح'' كے لئے فاعل ہے_ دونوں كى بازگشت ايك معنى كى طرف ہے_ جملہ ''ما ہو ...'' كا معنى يہ ہے يہوديوں كو بنابريں فرض كہ ہزار سالہ عمر دے دى جائے) ، كو يہ طولانى عمر عذاب سے نجات نہيں دلاسكتي_

۱۵ _ گناہگاروں كى عمر جتنى بھى طولانى ہو عذاب الہى سے نجات كا موجب نہيں ہوسكتي_بما قدمت ايديهم و ما هو بمزحزحه من العذاب ان يعمر

۱۶_ يہوديوں كے دنياپرستى پر مبنى اعمال و كردار پر اللہ تعالى ناظر ہے _و الله بصير بما يعملون

آرزو: طولانى عمر كى آرزو ۹،۱۳; ناپسنديدہ آرزو ۹

اخلاق: ناپسنديدہ اخلا ق۹

اسماء و صفات: بصير ۱۶

اعداد: ہزار كا عدد ۸،۱۱

اللہ تعالى :

۳۲۵

اللہ تعالى كى نظارت ۱۶

حريص لوگ : ۱،۲،۳،۵،۱۰ دنياطلب لوگ : ۶

دنياطلبي: دنياطلبى كى سرزنش ۹

زندگي: دنياوى زندگى كا حرص ۱۰

عذاب: اہل عذاب ۱۲

عقيدہ: باطل عقيدہ ۷

قرآن: قرآن كريم كى پيشين گوئي ۶

گناہگار لوگ: گناہگاروں كو عذاب ۱۵; گناہگاروں كى سزا ۱۲; گناہگار اور طولانى عمر ۱۵; گناہگاروں كى نجات ۱۵

مايوسي: آخرت سے مايوسى كے نتائج ۱۳

مشركين : زندگى كے بارے ميں مشركين كى حرص ۱۰; طولانى عمر كے بارے ميں مشركين كى حرص ۱۱; مشركين كى خواہشات ۱۱; مشركين كى صفات ۱۰; مشركين اور دنياوى زندگى ۵

يہود: يہوديوں كى مايوسى كے نتائج ۱۳; يہوديوں كى آرزوئيں ۱۳; يہوديوں كے دعوى كا باطل ہونا ۷; يہوديوں كا موت سے خوف ۳،۴; زندگى كے بارے ميں يہوديوں كى حرص ۱،۲،۳،۴ ،۵ ،۱۳; طولانى عمر كے بارے ميں يہوديوں كى حرص ۱،۸،۱۳; يہوديوں كى خواہشات ۸; يہوديوں كى دنياطلبى ۶،۱۶; يہوديوں كى دنياوى زندگى ۱۴; يہوديوں كى صفات ۱،۲،۶; يہوديوں كو اخروى عذاب ۱۲،۱۴; يہوديوں كا عقيدہ ۷; يہوديوں كا علم ۷; يہوديوں كا عمل ۱۶; يہوديوں كے نجات ۱۴; يہوديوں كى حرص كى نشانياں ۳،۴; گناہگار يہود ۱۲; يہود اور بہشت ۷; يہود اور طولانى عمر ۱۴

۳۲۶

قُلْ مَن كَانَ عَدُوًّا لِّجِبْرِيلَ فَإِنَّهُ نَزَّلَهُ عَلَى قَلْبِكَ بِإِذْنِ اللّهِ مُصَدِّقاً لِّمَا بَيْنَ يَدَيْهِ وَهُدًى وَبُشْرَى لِلْمُؤْمِنِينَ ( ۹۷ )

اے رسولكہہ ديجئےكہ جو شخص بھى جبريل كا دشمن ہےاسے معلوم ہونا چاہئے كہ جبريل نے آپ كےدل پرقرآن حكم خدا سے اتارا ہے جو سابقكتابوں كى تصديق كرنے والا ، ہدايت اورصاحبان ايمان كے لئے بشارت ہے (۹۷)

۱_ حضرت جبرائيلعليه‌السلام كے ساتھ يہوديوں كى عداوت اور كينہ پرورى _من كان عدواً لجبريل

''من كان'' سے مراد گذشتہ آيات كى روشنى ميں يہود ہيں _

۲ _ پيامبر اسلام (ص) كے قلب اطہر پر حضرت جبرائيلعليه‌السلام قرآن كريم لے كر آنے والے ہيں _فانه نزله على قلبك

۳ _ حضرت جبرائيلعليه‌السلام نے اپنى طرف سے نہيں بلكہ اللہ تعالى كے اذن اور فرمان سے قرآن كريم كو پيامبر اسلام (ص) كے قلب اطہر پر نازل كيا _فانه نزله على قلبك باذن الله

۴ _ فرشتے اللہ تعالى كے اذن اور فرمان كے بغير كوئي كام انجام نہيں ديتے _فانه نزله على قلبك باذن الله

۵ _ پيامبر اسلام(ص) پر حضرت جبرائيلعليه‌السلام كے ذريعے قرآن كريم كا نزول اس بات كا موجب بنا كہ يہود جبرائيلعليه‌السلام سے عداوت اور كينہ پرورى كريں _من كان عدواً لجبرئيل فانه نزله على قلبك باذن الله

جملہ '' فانہ جبرائيلعليه‌السلام نے قرآن كو اللہ كے اذن سے تيرے قلب پر نازل كيا '' يہوديوں كے جبرائيلعليه‌السلام سے كينہ كا سبب بيان كررہاہے_

۶ _ يہوديوں كا جبرائيلعليه‌السلام اور نظام وحى كے بارے ميں جاہلانہ تصور _قل من كان عدواً لجبريل فانه نزله على قلبك باذن الله

۷_ قرآن كريم نے تورات كے نفس كلام كى تائيد اور اسكى صداقت و سچائي كى تصديق كى _مصدقا لما بين يديه

يہ مفہوم اس بناپر ہے كہ ''مصدقا'' ، ''نزلہ'' كى ضمير مفعولى كے لئے حال ہو اور اس سے مراد قرآن كريم ہے _ ''ما بين يديہ _ وہ كتاب جو قرآن كريم سے پہلے تھى '' آيہ مجيدہ ميں اس سے مراد تورات ہے _

۳۲۷

۸ _ قرآن كريم كا وجود تورات كى حقانيت كے لئے گواہ اور شاہد كے طور پر ہے *مصدقا لما بين يديه

قرآن كريم كى طرف سے تورات كى تصديق (مصدقا لما بين يديہ ) كا معنى ممكن ہے يہ ہو كہ قرآن تورات كى صداقت و سچائي كا گواہ ہے يعنى قرآن كا نزول اس امر كا موجب ہوا كہ تورات ميں قرآن كے آنے كى جو پيشين گوئياں تھيں وہ پورى ہوگئيں پس اسى وجہ سے قرآن كريم تورات كى صداقت و سچائي كو ثابت كرنے والا اور اسكى حقانيت كا گواہ ہے _

۹ _ قرآن كريم اہل ايمان كو ہدايت كرنے والا ہے _هديً و بشرى للمومنين

'' ہدي'' مصدر ہے جو يہاں اسم فاعل ''ہادي'' كے معنى ميں آياہے _

۱۰_ قرآن كريم اہل ايمان كو دنيا وآخرت كى سعادت مندى كى خوش خبرى دينے والا ہے _و بشرى للمومنين

'' بشرى '' ايسى خبر كو كہتے ہيں كہ جس ميں كيف و سرور پايا جاتاہو اور آيت ميں اسكا معنى '' بشير _ بشارت دينے والا'' ہے _

۱۱ _ يہوديوں كى حضرت جبرائيلعليه‌السلام سے دشمنى كى بازگشت اللہ تعالى سے دشمنى كى طرف ہے _

من كان عدواً لجبريل فانه نزله على قلبك باذن الله

جملہ ''فانہ نزلہ'' سے'' بشرى للمومنين'' تك بيان شدہ حقائق يہوديوں كى جبرائيلعليه‌السلام سے كينہ پرورى كا جواب ہيں _ '' باذن اللہ'' كى قيد كا مطلب يہ ہے كہ جبرائيلعليه‌السلام اللہ تعالى كے فرمان سے پيامبر اسلام (ص) پر قرآن كريم لے كر آئے _ پس اگر قرآن كريم كا نزول عداوت كا باعث ہے تو پھر تم يہودى اللہ تعالى سے دشمنى كرو _ بنابريں جملہ شرطيہ '' من كان ...'' كا جواب يوں بنتاہے''فهو عدو الله ''

۱۲ _ يہوديوں كى جبرائيل (عليہ السلام) سے دشمنى در حقيقت تورات سے دشمني، انسانى ہدايت كے سرچشموں سے دشمنى اور بشارت كا پيغام لانے والوں سے دشمنى ہے _فانه نزله مصدقا لما بين يديه و هدى و بشرى للمومنين

''مصدقا ...'' ، ''ھدي'' اور '' بشرى للمومنين'' ميں سے ہر ايك تعريف '' باذن اللہ '' كى طرح ممكن ہے كہ جبرائيلعليه‌السلام سے كينہ ركھنے والے يہوديوں كے لئے جواب نقضى ہو يعنى يہ كہ قرآن جو تمھارے دين اور تمہارى كتاب كى تائيد كرنے والاہے، انسانى ہدايت كا سرچشمہ ہے اور سعادتوں كى بشارت ديتاہے اس قرآن كے لانے والے سے دشمنى در اصل تورات سے دشمنى اور سے دشمنى ہے _

۱۳ _ قرآن كريم كا حكم الہى سے نازل ہونا اس بات كى دليل ہے كہ يہوديوں كى جبرائيلعليه‌السلام سے دشمنى بے جا ہے _

۳۲۸

من كان عدواً لجبريل فانه نزله على قلبك باذن اللهيہ مفہوم اس بناپر ہے كہ''باذن اللہ'' كى قيد يہوديوں كى جبرائيل عليه‌السلام سے عداوت كا حلّى جواب ہو يعنى يہ كہ جبرائيل عليه‌السلام فرمان الہى سے پيامبر اسلام (ص) پر قرآن كريم لے كر آئے لہذا وہ جو فرمان الہى كى اطاعت كرتاہے اسے اللہ تعالى پر اعتقاد ركھنے والوں كے ہاں مورد غضب نہيں ہونا چاہيئے_

۱۴ _ تورات كى قرآن كريم كى جانب سے تائيد ، يہوديوں كى وحى كا پيام لانے والے ( جبرائيلعليه‌السلام ) سے دشمنى كے بے جا ہونے كى دليل ہے _فانه نزله على قلبك باذن الله مصدقا لما بين يديه

'' مصدقا لما بين يديہ _ قرآن تورات كى صداقت كى تائيد كرتاہے '' يہ جملہ جبرائيلعليه‌السلام كے دشمن يہوديوں كے جواب ميں ہے جو اس نكتہ كو بيان كررہاہے كہ جبرائيلعليه‌السلام ايك ايسى حقيقت كو لے كر آئے ہيں جو تمہارے دين اور كتاب كى تصديق كرنے والى ہے اور جو اس كى صداقت و سچائي پرگواہ ہے پس بے ج:ا ہے كہ تم اس كے لانے والے جبرائيلعليه‌السلام سے دشمنى ركھو _

۱۵ _ قرآن كريم كا ہدايت كرنا اور بشارت دينا، يہوديوں كى اس كے نازل كرنے والے (جبرائيلعليه‌السلام ) سے عداوت كے بے جا ہونے پر دليل ہے _فانه نزله على قلبك هديً و بشرى للمومنين ''ہدى و بشري'' ميں بھى ''مصدقا'' كى طرح يہ نكتہ موجود ہے كہ جبرائيلعليه‌السلام نے پيامبر اكرم (ص) كو ايسے معارف القا كيئے جو بشارت دينے والے اور ہدايت كرنے والے ہيں پس اس ( جبرائيلعليه‌السلام ) سے دشمنى كى كوئي معقول و جہ نہيں ہوسكتي_

اللہ تعالى : اذن الہى ۳،۴; اوامر الہى ۱۳

پيامبر اسلام (ص) : پيامبر اسلام (ص) كے قلب پر وحى ۲

تورات: تورات كى تصديق ۷،۸،۱۴; تورات كى حقانيت كے دلائل ۷،۸

حضرت جبرائيلعليه‌السلام : جبرائيلعليه‌السلام كا خضوع اور اطاعت ۳; جبرائيلعليه‌السلام كے دشمن ۱; جبرائيلعليه‌السلام كى اہميت ۲،۳،۵ ، ۱۴ ، ۱۵

دشمني: تورات سے دشمنى ۱۲; ہدايت كرنے والوں سے دشمنى ۱۲; جبرائيلعليه‌السلام سے دشمنى كا فلسفہ ۵; جبرائيلعليه‌السلام سے دشمنى كى ناپسنديدگى ۱۳،۱۴،۱۵

قرآن كريم : قرآن كريم كى بشارت ۱۰،۱۵; قرآن كريم اور تورات ۷،۸،۱۴; قرآن كريم كے نزول كى

۳۲۹

كيفيت ۲،۳،۵; قرآن كريم كى گواہى ۷،۸; قرآن كريم كا نزول ۱۳،۱۵; قرآن كريم كى اہميت ۸،۹،۱۰،۱۵; قرآن كريم كا ہدايت كرنا ۹،۱۵

ملائكة: ملائكہ كا خضوع ۴; ملائكہ كے عمل كا دائرہ ۴

مؤمنين: مؤمنين كو بشارت ۱۰; مؤمنين كى اخروى سعادت ۱۰; مؤمنين كى دنياوى سعادت۱۰; مومنين كى ہدايت ۹

يہود: يہوديوں كى جبرائيلعليه‌السلام سے دشمنى ۱،۵،۱۱،۱۲،۳ ۱، ۱۴، ۱۵; يہوديوں كى اللہ تعالى سے دشمنى ۱۱; يہوديوں كا عقيدہ ۶; يہوديوں كى دشمنى كے عوامل ۵; يہودى اور جبرائيلعليه‌السلام ۶; يہودى اور وحى ۶

مَن كَانَ عَدُوًّا لِّلّهِ وَمَلآئِكَتِهِ وَرُسُلِهِ وَجِبْرِيلَ وَمِيكَالَ فَإِنَّ اللّهَ عَدُوٌّ لِّلْكَافِرِينَ ( ۹۸ )

جوبھياللہ ، ملائكہ ، مرسلين اور جبريل وميكائيل كا دشمن ہوگا اسے معلوم رہے كہخدا بھى تمام كافروں كا دشمن ہے (۹۸)

۱_ جو لوگ فرشتوں اور انبياءعليه‌السلام كے دشمن ہيں اللہ تعالى ان كا دشمن ہے _

من كان عدوا ً لله و ملائكته و رسله فان الله عدو للكافرين

۲ _ جو حضرت جبرائيلعليه‌السلام اور حضرت ميكائيلعليه‌السلام سے دشمنى ركھے اللہ تعالى ان كا دشمن ہے _

من كان عدوا الله و جبريل و ميكال فان الله عدو للكافرين

۳ _ فرشتے اور انبياءعليه‌السلام اللہ تعالى كے ہاں بہت زيادہ مقام و منزلت ركھتے ہيں _من كان عدوا لله و ملائكته و رسله

قرآن كريم نے چونكہ فرشتوں اور انبياءعليه‌السلام كو لفظ اللہ كے ہمراہ بيان فرماياہے اور ان كے دشمنوں كو اللہ تعالى كے ہاں مبغوض ( مورد غضب) قرار ديا ہے اس سے معلوم ہوتاہے كہ فرشتے اورا نبياءعليه‌السلام اللہ تعالى كے ہاں بہت زيادہ مقام و منزلت ركھتے ہيں _

۴ _ حضرت جبرائيلعليه‌السلام اور حضرت ميكائيلعليه‌السلام باقى تمام فرشتوں كى نسبت اللہ تعالى كے ہاں بہت زيادہ مقام و منزلت كے مالك ہيں _

من كان عدوا لله و ملائكته و رسله و جبريل و ميكائيل

'' ملائكتہ'' كا لفظ جبرائيلعليه‌السلام اور ميكائيلعليه‌السلام كو بھى شامل ہے _ پس فرشتوں كے مابين خصوصى طور پر ان كا ذكر كرنا ہوسكتاہے ان كے باعظمت مقام كى طرف اشارہ ہو _

۳۳۰

۵ _ انبيائے الہى فرشتوں حتى جبرائيلعليه‌السلام اور ميكائيلعليه‌السلام سے بھى افضل ہيں *من كان عدواً لله و ملائكته و رسله و جبريل و ميكائيل

يہ بات گزرچكى ہے كہ تمام فرشتوں كے مابين جبرائيلعليه‌السلام اور ميكائيلعليه‌السلام كا خصوصى طور پر ذكر كرنا انكى فضيلت كى دليل ہے اور ''رسلہ'' كو ''جبرئيل و ميكائيل'' پر مقدم كرنا اس بات كى طرف اشارہ ہے كہ انبياءعليه‌السلام جبرائيلعليه‌السلام اور ميكائيلعليه‌السلام سے افضل ہيں _

۶ _ اللہ تعالى ، انبياءعليه‌السلام اور فرشتوں كے دشمن كافر ہيں _من كان عدوا لله فان الله عدو للكافرين

تقاضائے كلام يہ تھا كہ '' الكافرين'' كى جگہ ''ہم '' ضمير لائي جائے يہ امر دو نكتوں كا حامل ہے ۱_ اس بات كى وضاحت كہ يہ لوگ كافر ہيں _

۲ _ ان كى خدا تعالى سے دشمنى كى وجہ ان كا كفر ہے_ بنابريں آيہ مجيدہ كا معنى يہ بنتاہے وہ لوگ جو ا للہ تعالى كے دشمن ہيں تو اللہ تعالى ان كا دشمن ہے كيونكہ وہ لوگ كافر ہيں _

۷ _ جبرائيلعليه‌السلام اور ميكائيلعليه‌السلام كے دشمن كافرہيں _من كان عدوا لله و جبريل و ميكال فان الله عدو للكافرين

۸ _ خداوند متعال كفار كا دشمن ہے _فان الله عدو للكافرين

۹ _ يہود حضرت جبرائيلعليه‌السلام سے عداوت كے باعث كافر ہيں اور خداوند متعال انكا دشمن ہے _

من كان عدوا لله جبريل و ميكال فان الله عدو للكافرين

گذشتہ آيات كى روشنى ميں '' الكافرين '' كے مصاديق ميں سے يہود بھى ہيں _

اللہ تعالى : اللہ تعالى كى دشمنى ۱،۲،۸،۹

ابنياءعليه‌السلام : انبياءعليه‌السلام اور ملائكة۵; انبياءعليه‌السلام كى جبرائيلعليه‌السلام پر فضيلت ۵; انبياءعليه‌السلام كى ميكائيلعليه‌السلام پر فضيلت ۵; انبياءعليه‌السلام كے فضائل ۵; انبياءعليه‌السلام كے دشمنوں كا كفر ۶; انبياءعليه‌السلام كے درجات ۳

انبياعليه‌السلام ئے الہي: انبيائے الہىعليه‌السلام كے دشمن ۱

جبرائيلعليه‌السلام : جبرائيلعليه‌السلام كے دشمن ۲; جبرائيلعليه‌السلام كے دشمنوں كا كفر ۷،۹; جبرائيلعليه‌السلام كے درجات ۴

دشمن: اللہ تعالى كے دشمن ۱; دشمنان خدا كا كفر ۶

۳۳۱

دشمني: جبرائيلعليه‌السلام كے ساتھ دشمنى كے نتائج ۹; كفار كے ساتھ دشمنى ۸ كفار: ۶،۷،۹

كفر: كفر كے موجبات ۶،۷،۹

ملائكہ: لائكہ كے دشمن ۱; ملائكہ كے دشمنوں كا كفر ۶ ملائكہ كے درجات ۳،۴

ميكائيلعليه‌السلام : ميكائيلعليه‌السلام كے دشمن ۲; دشمنان ميكائيلعليه‌السلام كا كفر ۷; ميكائيلعليه‌السلام كے درجات ۴

يہود: يہوديوں كى جبرائيلعليه‌السلام سے دشمنى ۹

وَلَقَدْ أَنزَلْنَآ إِلَيْكَ آيَاتٍ بَيِّنَاتٍ وَمَا يَكْفُرُ بِهَا إِلاَّ الْفَاسِقُونَ ( ۹۹ )

ہمنے آپ كى طرف روشن نشانياں نازل كى ہيں اور ان كا انكار فاسقوں كے سوا كوئي نہ كرے گا (۹۹)

۱ _ پيامبر اسلام (ص) كى اپنى نبوت كى حقانيت كے لئے بہت واضح اور روشن دلائل و معجزات ہيں _

و لقد أنزلنا اليك آيات بيناتسورہ مباركة كے اس حصہ ميں چونكہ پيامبر اسلام(ص) كى رسالت اور قرآن كريم كى دعوت كے بارے ميں گفتگو ہوئي ہے لہذا كہا جاسكتاہے كہ ''آيات بينات_ (واضح اور روشن نشانياں ) كا متعلق قرآن كريم اور آنحضرت(ص) كى رسالت كى صداقت و سچائي ہو_

۲ _ يہوديوں كا آنحضرت (ص) پر يہ الزام يا تہمت تھى كہ آپ (ص) كے پاس آپ (ص) كى نبوت كى حقانيت كى واضح اور روشن دليل و برہان نہيں ہے _و لقد أنزلنا اليك آيات بينات

معمولاً كسى جملہ كے ساتھ تاكيد كو بيان كرنا اس امر كى حكايت كرتاہے كہ مخاطبين شك و ترديد كا شكارہيں يا انكار كرتے ہيں _ جملہ ''و لقد أنزلنا ...'' كا حرف لام جو قسم مقدر كى حكايت كرتاہے اور حرف ''قد'' كے ساتھ تاكيد كرنے سے معلوم ہوتاہے كہ آيہ مجيدہ كا مورد خطاب يہودى ہيں جو آيت كے مضمون كو شك و ترديد كى نگاہ سے ديكھتے تھے يا پھر منكر تھے_

۳ _ پيامبر اسلام (ص) كو دلائل و معجزات عطا كرنے والا اللہ تعالى ہے _و لقد أنزلنا اليك

۴ _ قرآن كريم ميں خود اسكى اپنى اور پيامبر اكرم ( ص) كى رسالت كى حقانيت پر مشتمل آيات اور واضح دلائل موجود ہيں _و لقد أنزلنا اليك آيات بينات

'' آيات'' سے مراد ممكن ہے قرآنى آيات ہوں يا ممكن ہے وہ معجزات اور دلائل مراد ہوں جو آنحضرت (ص) كى صداقت اور قرآن كريم كے آسمانى ہونے پر دلالت كررہے ہوں _ مذكورہ مفہوم پہلے احتمال كى بناپر ہے _

۳۳۲

۵ _ فقط فاسقين ( منحرف لوگ) ہيں جو قرآن كريم اور اسكے واضح دلائل كو قبول نہيں كرتے اور ان كے بارے ميں كفر اختيار كرتے ہيں _و ما يكفر بها الا لفاسقون

۶ _ فسق اور انحراف خدا تعالى كى آيات كے انكار كا سرچشمہ اور ايمان كى بنياديں كھودينے كا باعث ہے_

و ما يكفر بها الا الفاسقون

۷_ يہوديوں كا فسق اور انحراف ان كے قرآن كريم اور آيات الہى سے كفر كا موجب بنا_

و ما يكفر بها الا الفاسقونماقبل اور ما بعد كى آيات كے قرينے سے ''الفاسقون'' كا واضح مصداق يہودى ہيں _ گزشتہ آيات ميں ايمان سے منہ موڑنے كے بعض يہودى بہانوں كا ذكر كيا گيا ہے اور اس آيہ مجيدہ ميں بيان كيا جارہاہے كہ يہوديوں كے ايمان سے منہ پھيرنے كى اصلى وجہ ان كا پہلے سے موجود انحراف اور فسق و فجور ہے _

۸ _ قرآن كريم اور پيامبر اسلام (ص) كى رسالت كے دلائل كا انكار_ منكر كے فسق اور انحراف كى دليل ہے_

و ما يكفر بها الا الفاسقون

۹ _ دنياپرستى ، فرشتوں سے دشمني، انبياءعليه‌السلام اور دينى قائدين كے قتل جيسے گناہوں كا ارتكاب اور الہى عہد و پيمان توڑنا يہ سب فسق كے مصاديق ہيں _و ما يكفر بها الا الفاسقون يہوديوں كے قرآن كريم اور پيامبر اكرم (ص) پر ايمان لانے كى راہ ميں ركاوٹوں كا ذكر گزشتہ آيات (۷۴ ، ۹۸) ميں كيا گيا ہے اس آيہ مجيدہ ميں قرآن كريم اور پيامبر اسلام (ص) كے انكار كى بنياد پہلے سے موجود فسق كو قرار ديا گيا ہے پس ان آيات ميں جن ركاوٹوں كا ذكر كيا گياہے وہ قرآن حكيم كى نظر ميں فسق كے مصاديق اور فسق كے معنى كو بيان كرنے والى ہيں _

۱۰_ نفس پرستي، حسد ، نسل پرستي، احساس برترى اور تكبر اور خودكو بغير كسى دليل كے اہل بہشت ميں سے سمجھنا فسق كے مصاديق ميں سے ہے _

و ما يكفر بها الا الفاسقون

۳۳۳

۱۱ _ قرآن حكيم كا انكار، وحى و رسالت كى معرفت كےلئے درست بصيرت سے باہر نكل جانے كى دليل ہے _

و ما يكفر بها الا الفاسقون

يہ مفہوم فسق كے معنى ( حد اعتدال سے نكلنا ) كے اعتبار سے ہے مقولہ ايمان '' جو معرفت و شناخت كا ايك مقولہ ہے'' ميں اعتدال سے خارج ہونا اس سے مراد درست بصيرت و تدبر كا نہ ہونا ہے _

اسلام : صدر اسلام كى تاريخ ۲

اللہ تعالى : اللہ تعالى كى عنايات ۳

انبياءعليه‌السلام : انبياءعليه‌السلام كا قتل ۹

ايمان: ايمان كے زوال كى زمين كا فراہم ہونا ۶; ايمان كى راہ ميں ركاوٹيں ۶

بصيرت: غلط بصيرت كى نشانياں ۱۱

پيامبر اسلام (ص) :پيامبر اسلام (ص) كو جھٹلانا ۸; پيامبر اسلام(ص) پر تہمت ۲; پيامبر اسلام كى حقانيت ۲; پيامبر اسلام (ص) كى حقانيت كے دلائل ۱; پيامبر اسلام (ص) كو جھٹلانے والوں كا فسق ۸; پيامبر اسلام (ص) كا معجزہ ۱،۳

حسد : حسد كا فسق ۱۰

دشمنى : ملائكہ سے دشمنى ۹

دعوى : اخروى سعادت كا دعوى ۱۰

دنيا طلبي: دنيا طلبى كا فسق ۹

دينى قائدين: دينى قائدين كا قتل ۹

عہد شكنى : اللہ تعالى كے ساتھ عہد شكنى ۹

فاسقين : فاسقين اور قرآن كريم ۵; فاسقين كا كفر ۵;

فسق: فسق كے نتائج ۶،۷; فسق كے موارد ۹،۱۰; فسق كى علامتيں ۸

قرآن كريم : قرآن كريم كى بينات ۴،۵; قرآنى تعليمات ۴; قرآن كا جھٹلانا ۸; قرآن كى حقانيت كے دلائل ۴; قرآن كريم كو جھٹلانے والوں كا فسق ۸

كفار:۵

۳۳۴

كفر: آيات الہى كے كفر كے بارے ميں عوامل ۶،۷; قرآن كريم كے بارے ميں كفر كے عوامل ۷; قرآن كريم كے بارے ميں كفر ۵،۱۱

معجزہ: معجزہ كا سرچشمہ ۳

منحرفين : منحرفين اور قرآن كريم ۵

نسلى تعصب: نسلى تعصب كا فسق ۱۰

نفس پرستى : نفس پرستى كا فسق ۱۰

يہود: يہوديوں كے فسق كے نتائج ۷; يہوديوں كى تہمتيں ۲; يہوديوں كے كفر كے عوامل ۷; صدر اسلام كے يہودى ۲; يہودى اور پيامبر اسلام (ص) ۲

أَوَكُلَّمَا عَاهَدُواْ عَهْداً نَّبَذَهُ فَرِيقٌ مِّنْهُم بَلْ أَكْثَرُهُمْ لاَ يُؤْمِنُونَ ( ۱۰۰ )

ان كا حال يہ ہے كہ جب بھيانھوں نے كوئي عہد كيا تو ايك فريق نےضرور توڑ ديا بلكہ ان كى اكثريت بے ايمانہى ہے (۱۰۰)

۱_ يہوديوں نے اپنى پورى تاريخ ميں اللہ تعالى اور انبياءعليه‌السلام سے عہد و پيمان باندھے تھے_او كلما عاهدوا عهداً

يہ جملہ ''كلما عاہدوا جب كبھى بھى تم نے عہد باندھا'' متعدد اور مختلف عہد و پيمان پر دلالت كرتاہے _ ''بل اكثرہم لا يؤمنون'' كى طرح كے قرائن دلالت كرتے ہيں كہ ان عہد و پيمان سے مراد يہوديوں كے اللہ تعالى اور انبياعليه‌السلام ء سے كيئے گئے عہد و پيمان تھے_

۲ _ يہوديوں كى تاريخ عہد شكنى اور الہى عہد و پيمان سے لاپروائي كے ساتھ پرُ ہے _او كلما عاهدوا عهداً نبذه فريق منهم

''نبذ'' كا معنى ہے پھينكنا اور چھوڑ دينا البتہ آيہ مجيدہ ميں توڑنے سے كنايہ ہے_

۳_ يہود عہدشكنى اور الہى عہد وپيمان توڑنے كى وجہ سے اللہ تعالى كى توبيخ و سرزنش كے سزاوار قرار پائے_

او كلما عاهدوا عهداً نبذه فريق منهم

'' او كلما ...'' ميں استفہام انكار توبيخى ہے_

۴ _ الہى عہد و پيمان كى پابندى كرنا ضرورى ہے _او كلما عاهدوا عهداً نبذه فريق منهم

۳۳۵

اللہ تعالى كى جانب سے عہد شكنوں كى توبيخ و سرزنش اس بات پر دلالت كرتى ہے كہ معاہدوں اور عہد و پيمان كى پابندى ضرورى اور واجب ہے _

۵ _ بہت سارے يہوديوں كى نظر ميں الہى عہد و پيمان كم قدر قيمت كا معاملہ ہے _نبذه فريق منهم

يہ مفہوم اس معنى كى بناپر ہے جو راغب نے ''نبذ''كے بارے ميں بيان كيا ہے _ راغب نے المفردات ميں كہاہے '' كسى چيز كى كم قدر قيمت ہونے كے باعث اسكو گرانا يا دور پھينكنا ہے _

۶ _ كسى امت كے عہد شكن گروہ كے مقابل اس امت كے سارے افراد ذمہ دار ہيں _-*او كلما عاهدو عهداً نبذه فريق منهم بعض يہوديوں كى عہدشكنى كى وجہ سے آيہ مجيدہ تمام يہوديوں كى ملامت كررہى ہے يہ بات اس مطلب كى طرف اشارہ ہے كہ ذمہ دار لوگوں كو چاہيئے كہ امر بمعروف اور نہى از منكر كے ذريعے دوسروں كو عہد شكنى سے روكيں ورنہ سب لوگ ملامت كے مستحق قرا رپائيں گے _

۷_ يہوديوں كى اكثريت حتى اپنے انبياءعليه‌السلام اور آسمانى كتابوں پر ايمان نہيں ركھتے _بل اكثرهم لا يؤمنون

گذشتہ آيات كى روشنى ميں ايمان كا متعلق انبياءعليه‌السلام اور آسمانى كتابيں ہيں _ اس جملہ ميں ''بل'' ترقى كے لئے ہے يعنى عہد شكنى سے بالاتر يہ كہ ان لوگوں كى اكثريت تو صاحب ايمان ہى نہيں ہے _

۸_ يہوديوں ميں عہد شكنى كا عام ہونا ان كى اكثريت كے ايمان سے خالى ہونے كى دليل ہے _او كلما عاهدوا عهداً نبذه فريق منهم بل اكثرهم لا يؤمنون

۹_ انسان كے الہى عہد و پيمان سے وفادار اور پابند نہ ہونے كے علل و اسباب ميں سے ايك ايمان كا فقدان ہے _

او كلما عاهدوا عهداً نبذه فريق منهم بل اكثرهم لا يؤمنون

۱۰_ اكثر يہودى جنہوں نے الہى عہد و پيمان سے وفا نہ كى وہ ان عہد و پيمان پر ايمان و اعتقاد ہى نہ ركھتے تھے_

كلما عاهدوا عهداً نبذه فريق منهم بل اكثرهم لا يؤمنون

يہ مطلب اس بناپر ہے كہ '' يؤمنون'' كا متعلق عہد و پيمان ہوں يعنى عہد شكنوں كى اكثريت نے ان عہد و پيمان كو جان و دل سے قبول نہ كيا اگر چہ ظاہر يہ كيا كہ انہوں نے ان عہد و پيمان كو قبول كرلياہے _ قابل توجہ ہے كہ اس مطلب ميں ''اكثرہم'' كى ضمير كو '' فريق'' كى طرف لوٹا يا گيا ہے _

۱۱ _ بہت سارے يہودى قرآن حكيم اور پيامبر اسلام (ص) پر ايمان نہ لائيں گے _بل اكثرهم لا يؤمنون

يہ مفہوم اس بنا پر ہے كہ ''لا يؤمنون'' كا متعلق

۳۳۶

ما قبل آيت كى روشنى ميں قرآن حكيم اور پيامبر اسلام(ص) ہوں _ فعل مضارع''لا يؤمنون'' اس احتمال كى تائيد كررہاہے _

اللہ تعالى : اللہ تعالى كى سرزنشيں ۳

ذمہ داري: ذمہ دارى كا عمومى ہونا ۶

عہد: وفائے عہد كى اہميت ۴; اللہ تعالى سے وفائے عہد ۴

عہدشكني: عہدشكنى كے عوامل ۹; اللہ تعالى كے ساتھ عہدشكنى ۲،۳،۹; عہدشكنى كے ساتھ نبردآزمائي ۶

قرآن كريم: قرآن كريم كى پيشين گوئي ۱۱

كفر: كفر كے نتائج۹; انبياءعليه‌السلام كے بارے ميں كفر ۷; قرآن كے بارے ميں كفر ۱۱; آسمانى كتابوں كے بارے ميں كفر ۷; پيامبر اسلام (ص) كا كفر ۱۱

يہود: يہوديوں كى تاريخ ۱،۲; يہوديوں كى سرزنش ۳; يہوديوں كى اكثريت كا عقيدہ ۱۰; يہوديوں كا عقيدہ ۵; يہوديوں كا انبياءعليه‌السلام سے عہد۱; يہوديوں كى اكثريت كى عہد شكنى ۱۰; يہوديوں كى عہد شكنى ۲، ۳، ۸; يہوديوں كا اللہ تعالى سے عہد ۱،۳; يہوديوں كى اكثريت كاكفر ۷،۸،۱۰،۱۱; يہوديوں كا كفر ۷،۱۱; يہوديوں كے كفر كى نشانياں اور علامتيں ۸; يہود اور اللہ تعالى كا عہد۵

وَلَمَّا جَاءهُمْ رَسُولٌ مِّنْ عِندِ اللّهِ مُصَدِّقٌ لِّمَا مَعَهُمْ نَبَذَ فَرِيقٌ مِّنَ الَّذِينَ أُوتُواْ الْكِتَابَ كِتَابَ اللّهِ وَرَاء ظُهُورِهِمْ كَأَنَّهُمْ لاَ يَعْلَمُونَ ( ۱۰۱ )

اور جب ان ے پاس خدا كى طرفسے سابق كى كتابوں كى تصديق كرنے والارسول آيا تو اہل كتاب كى ايك جماعت نےكتاب خدا كو پس پشت ڈال ديا جيسے وہاسے جانتے ہى نہ ہوں (۱۰۱)

۱_حضرت محمد (ص) اللہ تعالى كى جانب سے مبعوث كيئے گئے رسول ہيں _

و لما جاء هم رسول من عند الله

ظاہراً ''رسول'' سے مراد پيامبر گرامى اسلام (ص)

ہيں _البتہ بعض مفسرين كے نزديك مراد حضرت عيسى عليہ السلام ہيں _

۲ _ يہود بھى ديگر لوگوں كى طرح پيامبر اسلام (ص) كى رسالت كے وسيع دائرہ ميں داخل ہيں _و لما جاء هم رسول من عند الله

۳۳۷

۳ _ پيامبر اسلام (ص) نے تورات كى حقانيت كى تصديق اور اس كے آسمانى ہونے كى تائيد فرمائي _

۴ _ تورات ميں آنحضرت (ص) كى بعثت كى بشارت دى گئي تھى _و لما جاء هم رسول نبذ فريق من الذين اوتوا الكتاب كتاب الله و راء ظهورهم

جملہ''نبذ فريق'' ، '' لما جاء ہم '' كے لئے جواب شرط ہے پيامبر (ص) كے آنے كے ساتھ يہوديوں كے تورات كو دور پھينكنے كا ذكر اس حقيقت كى طرف اشارہ ہے كہ اس كتاب ميں پيامبر (ص) كے آنے كى بشارت دى گئي تھى اور آنحضرت (ص) كى خصوصيات بيان كى گئي تھيں _

۵ _ آنحضرت (ص) كى بعثت تورات كى صداقت و سچائي اور اس كے آسمانى ہونے كى دليل و گواہ ہے _مصدق لما معهم

آيات ۴۱ ، ۹۱ ، ۹۷ سے يہ مطلب نكلتاہے _

۶ _ علمائے اہل كتاب نے آنحضرت (ص) كى بعثت كے بعد تورات كى پيامبر موعود كے بارے ميں بشارتوں كو نظر انداز كيا اور بالكل ان پر توجہ نہ كى _و لما جاء هم رسول نبذ فريق من الذين اوتوا الكتاب كتاب الله و راء ظهورهم

معلوم ہوتاہے كہ اس جملہ ميں '' فريق'' سے مراد علمائے يہود ہيں كيونكہ تورات كے احكام اور معارف كو بيان كرنا ان كى ذمہ دارى تھى اور جملہ ''كانھم لا يعلمون_ گويا كہ وہ لوگ عالم نہ تھے'' اس مطلب كى تائيد كررہاہے_

۷_ علمائے اہل كتاب كو پورا ا طمينان تھا كہ تورات ميں بيان كى گئي پيامبر موعود كى خصوصيات آنحضرت (ص) پر منطبق ہوتى ہيں _و لما جاء هم رسول نبذ فريق من الذين اوتوا الكتاب كتاب الله وراء ظهورهم

پيامبر اسلام (ص) كے انكار كے لئے علمائے يہود كے پاس دو راستے تھے ۱ _ تورات كى بشارتوں كو نظر انداز كرنا ۲ _ اس بات كا اظہار كرنا كہ تورات ميں بيان شدہ خصوصيات آنحضرت (ص) پر منطبق نہيں ہوتيں يہ جو يہودى علماء نے پہلى راہ كا انتخاب كيا اس سے معلوم ہوتاہے پيامبر كى خصوصيات كا منطبق ہونا ايك مسلّم اور ناقابل ترديد معاملہ تھا_

۸ _ علمائے يہود كا تورات كى بشارتوں كو نظر انداز كرنے كا محرك يہ تھا كہ پيامبر اسلام (ص) كى رسالت كے انكار كى زمين فراہم كى جائے _و لما جاء هم رسول نبذ فريق من الذين اوتوا الكتاب كتاب الله وراء ظهورهم

۹ _ با وجود اس كے كہ علمائے يہود نے تورات ميں پيامبر اسلام (ص) كى خصوصيات كو ديكھ ليا انہوں نے خود كو اس سے بے خبر ظاہر كيا _

۳۳۸

نبذ فريق كتاب الله وراء ظهورهم كانهم لا يعلمون

'' لا يعلمون'' كا متعلق اس پيامبر كى خصوصيات ہيں جسكى بعثت كى بشارت تورات نے دى تھي_

۱۰_ تورات اللہ تعالى كى جانب سے نازل كى گئي كتاب ہے _اوتوا الكتاب كتاب الله

۱۱_ پيامبر اسلام (ص) پر ايمان لانا اللہ تعالى كے اہل كتاب سے معاہدوں ميں سے تھا_او كلما عاهدوا عهداً و لما جاء هم رسول نبذ فريق يہ مطلب اس بناپر ہے كہ يہوديوں كے اللہ تعالى كے ساتھ عہد و پيمان اور پھر ان كى عہد شكنى كے ذكر كے بعد پيامبر اسلام (ص) كى رسالت كے انكار اور تورات ميں بيان شدہ حقائق كے نظر انداز كرنے كا بيان آياہے_

۱۲ _ مكاتب الہى پر اعتقاد ركھنے والے لوگ حتى علمائے دين اور آسمانى كتابوں سے عالم و دانا افراد بھى انحراف اور حق پوشى كے خطرے ميں مبتلا ہوسكتے ہيں _نبذ فريق من الذين اوتوا الكتاب كتاب الله وراء ظهورهم

۱۳ _ آسمانى كتابوں ميں بيان شدہ تمام معارف اور احكام كى پابندى ضرورى ہے_

نبذ فريق من الذين اوتوا الكتاب كتاب الله وراء ظهورهم

۱۴ _ آسمانى كتابوں كے بعض احكام يا معارف سے لاپروائي يا بے اعتنائي برتناسب فرامين اور معارف سے بے اعتنائي كے مترادف ہے_نبذ فريق من الذين اوتوا الكتاب كتاب الله وراء ظهورهم واضح ہے كہ علمائے يہود نے بعثت كے بعد تورات كے تمام فرامين اور معارف كو نظر انداز نہ كيا بلكہ ان ميں بعض جو پيامبر اسلام (ص) كى ذات گرامى سے مربوط تھے ان سے بے اعتنائي اختيار كى ليكن اللہ تعالى فرماتاہے '' انہوں نے كتاب خدا كو دور پھينك ديا '' يہ تعبير بيان كرتى ہے كہ آسمانى كتابوں كے بعض معارف كو نظر انداز كرنا گويا سب معارف كو نظر انداز كرنا ہے _

۱۵_ اہل كتاب كے بعض علماء نے پيامبر اسلام (ص) كى بعثت كے بعد تورات سے وفادار رہنے اور پيامبر موعود كى خصوصيات اور ان كے پيامبر اسلام(ص) پر منطبق ہونے كا اعتراف كيا _نبذ فريق من الذين اوتوا الكتاب كتاب الله وراء ظهورهم

يہ مطلب اس بناپر ہے كہ '' الذين اوتوا الكتاب'' سے مراد علمائے يہود ہوں _ اس صورت ميں '' فريق من الذين'' كا معنى يہ ہوگا كہ بعض علماء نے اللہ كى كتاب كو دور پھينكا جبكہ بعض ديگر نے ايسا نہ كيا _

۱۶ _ حقائق كے مقابل خودفريبى يا عارفانہ تجاہل كا مظاہرہ كرنا ناپسنديدہ اور بے جا عمل ہے _

نبذ فريق من الذين اوتوا الكتاب ...كانهم لا يعلمون

۳۳۹

۱۷_ امام باقرعليه‌السلام نے سعد الخير كو تحرير فرمايا: ''و كان من نبذهم الكتاب ان اقاموا حروفه و حرفوا حدوده فهم يروونه و لا يرعونه وكان من نبذهم الكتاب ان ولّوه الذين لايعلمون فاوردوهم الهوى و اصدروهم الى الردى و غيرّوا عرى الدين (۱) وہ مواردجن ميں انہوں ( اہل كتاب ) نے كتاب الہى كو پس پشت ڈال ديا ، ان ميں سے ايك يہ تھا كہ كتاب كے ظاہر كو تو محفوظ ركھا ليكن اسكى حدود ميں تحريف كى _ اسكے ظاہر كو بيان كرتے ليكن اس پر عمل نہ كرتے تھے انہى موارد ميں سے جن ميں انہوں نے كتاب الہى كو پس پست ڈالا ايك يہ تھا كہ ايسے افراد كو انہوں نے كتاب كا سرپرست بنايا جو كتاب خدا كے بارے ميں كچھ بھى نہ جانتے تھے لہذا انہو ں نے لوگوں كو اپنى ہوائے نفس كى طرف دعوت دى اور ان كو پستى و گراوٹ كى طرف لے گئے ،انہوں نے دين كے مضبوط دستوں كو تبديل كرديا _

انحراف : انحراف كا خطرہ ۱۲

اہل كتاب: اہل كتاب كا كتاب الہى سے منہ پھيرنا ۱۷; اہل كتاب كا تحريف كرنا ۱۷; اللہ تعالى كا اہل كتاب سے معاہدہ ۱۱

ايمان: پيامبر اسلام(ص) پر ايمان ۱۱ ; ايمان كے متعلقات۱۱

پيامبر اسلام (ص) : پيامبر اسلام (ص) كى بعثت كى بشارت ۴،۶; پيامبر اسلام (ص) كى بعثت ۱،۵; پيامبر اسلام (ص) كى رسالت۱; پيامبر اسلام كو جھٹلانے كى زمين تيار ہونا ۸; پيامبر اسلام (ص) كى رسالت كا دائرہ ۲; پيامبر اكرم (ص) تورات ميں ۴،۷،۹،۱۵; پيامبر اسلام(ص) اور تورات ۳; پيامبر اسلام (ص) اور يہود ۲

تجاہل عارفانہ: تجاہل عارفانہ كى سرزنش ۱۶

تورات: تورات كى بشارتيں ۴،۶،۸; تورات ميں پيامبر موعود ۶،۷،۱۵; تورات كى تصديق ۳،۵; تورات كى تعليمات ۴،۹; تورات كى حقانيت ۳; تورات كا نزول ۱۰; تورات كا وحى ہونا ۳،۵،۱۰

خود : خودفريبى كى سرزنش ۱۶ روايت:۱۷

علماء : علمائے دين اور انحراف ۱۲; علمائے دين اور حق كا چھپانا۱۲; علمائے دين كو تنبيہ ۱۲

علمائے اہل كتاب: علمائے اہل كتاب كا اقرار ۱۵; علمائے اہل كتاب كا تجاہل عارفانہ ۹; علمائے اہل كتاب اور تورات ۱۵; علمائے اہل كتاب اور پيامبر اسلام (ص) ۶،۷،۱۵ علمائے يہود: علمائے يہود اور پيامبر اكرم (ص) ۸

____________________

۱) كافى ج/۸ ص ۵۳ ح ۱، نورالثقلين ج/ ۱ ص ۱۰۶ ح ۲۹۳_

۳۴۰

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

461

462

463

464

465

466

467

468

469

470

471

472

473

474

475

476

477

478

479

480

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

501

502

503

504

505

506

507

508

509

510

511

512

513

514

515

516

517

518

519

520

521

522

523

524

525

526

527

528

529

530

531

532

533

534

535

536

537

538

539

540

541

542

543

544

545

546

547

548

549

550

551

552

553

554

555

556

557

558

559

560

561

562

563

564

565

566

567

568

569

570

571

572

573

574

575

576

577

578

579

580

581

582

583

584

585

586

587

588

589

590

591

592

593

594

595

596

597

598

599

600

601

602

603

604

605

606

607

608

609

610

611

612

613

614

615

616

617

618

619

620

621

622

623

624

625

626

627

628

629

630

631

632

633

634

635

636

637

638

639

640

641

642

643

644

645

646

647

648

649

650

651

652

653

654

655

656

657

658

659

660

661

662

663

664

665

666

667

668

669

670

671

672

673

674

675

676

677

678

679

680

681

682

683

684

685

686

687

688

689

690

691

692

693

694

695

696

697

698

699

700

701

702

703

704

705

706

707

708

709

710

711

712

713

714

715

716

717

718

719

720

721

722

723

724

725

726

727

728

729

730

731

732

733

734

735

736

737

738

739

740

741

742

743

744

745

746

747

748

749

750

751

752

753

754

755

756

757

758

759

760

761

762

763

764

765

766

767

768

769

770

771

772

773

774

775

776

777

778

779

780

781

782

783

784

785