تفسير راہنما جلد ۱

 تفسير راہنما 7%

 تفسير راہنما مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن
صفحے: 785

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴ جلد ۵ جلد ۶ جلد ۷ جلد ۸ جلد ۹ جلد ۱۰ جلد ۱۱
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 785 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 200946 / ڈاؤنلوڈ: 5793
سائز سائز سائز
 تفسير راہنما

تفسير راہنما جلد ۱

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

وَلَن يَتَمَنَّوْهُ أَبَدًا بِمَا قَدَّمَتْ أَيْدِيهِمْ وَاللّهُ عَلِيمٌ بِالظَّالِمينَ ( ۹۵ )

اور يہ اپنے پچھلےاعمال كى بناپر ہرگز موت كى تمنا نہيں كريں گے كہ خدا ظالموں كے حالات سےخوبواقف ہے (۹۵)

۱_ اخروى سعادت سے مايوسى كى خاطر يہود ہرگز موت كے خواہشمند نہ تھے اور نہ ہى كبھى موت كا استقبال كريں گے _و لن يتمنوه ابدا

۲ _ موت سے گريز كرنا يہوديوں كے دعوى (انكا بہشتى ہونا ) كے غلط ہونے كى دليل ہے _

فتمنوا الموت ان كنتم صادقين _ و لن يتمنوه ابداً

۳ _ يہود گناہگار اور نارواوناپسنديدہ عمل كے مالك ہيں _و لن يتمنوه ابداً بما قدمت ايديهم '' ما قدمت ايديھم _ جو كچھ تم آگے بھيج چكے ہو'' ميں '' ما'' سے مراد گناہ اور ناپسنديدہ اعمال ہيں _

۴ _ گناہوں كے ارتكاب كى وجہ سے يہوديوں كو آخرت ميں بہرہ مند ہونے كى كوئي اميد نہيں ہے_

لن يتمنوه ابداً بما قدمت ايديهم

۵ _ انسانوں كے اعمال و كردار عالم آخرت ميں ان كے انجام كو متعين كرنے والے ہيں _بما قدمت ايديهم

۶ _ قيامت پر ايمان و يقين ركھنے والوں كا موت سے بچنا اور اس كو ناپسند جاننا، اس كى وجہ ان كے گناہ اور اخروى عذاب سے خوف ہے _و لن يتمنوه ابداً بما قدمت ايديهم

''بما قدمت'' ميں ''بائ'' سببية كے لئے ہے_ پس جملہ '' لن يتمنوہ ...'' اس حقيقت كو بيان كررہاہے كہ موت سے خوفزدہ ہونے كے اسباب ميں سے ايك گناہ ہيں _ قابل ذكر ہے كہ يہ جملہ چونكہ ان لوگوں كے بارے ميں ہے جو اللہ تعالى اور قيامت پر ايمان و يقين ركھتے ہيں لہذا مذكورہ دليل بھى انہى سے مخصوص ہے _

۷ _ يہودى ستم گر لوگ ہيں _و الله عليم بالظالمين

'' الظالمين '' كے مصاديق ميں سے ( ماقبل آيات اور اس آيہ مجيدہ كے صدر كلام كے قرينہ سے ) يہودى ہيں _

۳۲۱

۸ _ گناہگار ستم گر ہيں _بما قدمت ايديهم و الله عليم بالظالمين

۹_ اللہ تعالى ستم گروں كے ستم سے آگاہ ہے _والله عليم بالظالمين

۱۰_ گناہوں كے ارتكاب كے ہوتے ہوئے بہشتى ہونے كا دعوى كرنا ايك ظالمانہ ادعا ہے _

قل ان كانت لكم الدار الآخرة و الله عليم بالظالمين

يہوديوں كے گناہگار ہونے كے علاوہ ان كو ستم گر كہنا ہوسكتاہے اس ليئے ہو كہ ان كا دعوى بے جا ہے _

۱۱ _ اللہ تعالى ستم گروں كو ان كے اعمال كى سزا دے گا_والله عليم بالظالمين

ستم گروں سے اللہ تعالى كى آگاہى كو بيان كرنا گويا ان كو عذاب كى دھمكى دينا ہے _

اللہ تعالى : اللہ تعالى كا علم ۹; اللہ تعالى كى سزائيں ۱۱

انجام يا تقدير: تقدير ميں مؤثر عوامل ۵

انسان: انسان كا اخروى انجام ۵

تمنا: تمنائے موت ۱،۲

خوف : عذاب سے خوف كے نتائج ۶; عذاب اخروى سے خوف۶

دعوى : اخروى سعادت كا دعوى ۱۰ ;ظالمانہ دعوى ۱۰

ظالمين : ۷،۸ ظالمين كے بارے ميں اللہ تعالى كا علم ۹ ظالموں كا انجام ۱۱

ظلم : ظلم كا انجام ۱۱

عمل: عمل كے نتائج۵

قيامت : قيامت پر ايمان ركھنے والے ۶

گناہ : گناہ كے نتائج ۶; گناہ كا ارتكاب ۱۰;

گناہگار لوگ: ۳ گناہگاروں كا ظلم ۸

موت: موت سے فرار كا فلسفہ ۶

مومنين: مومنين اور موت ۶

۳۲۲

يہود: يہوديوں كى صفات۳،۷; يہوديوں كا ظلم ۷; يہوديوں كا ناپسنديدہ عمل ۳; يہوديوں كى مايوسى كے عوامل ۴ ; يہوديو ں كا موت سے فرا ر ۲ ; يہوديوں كى گناہگارى ۳،۴; يہوديوں كا آخرت سے محروم ہونا ۴; يہوديوں كے دعووں كے باطل ہونے كى علامتيں ۲; يہوديوں كى اخروى سعادت سے مايوسى ۱،۴; يہود اور موت ۱

وَلَتَجِدَنَّهُمْ أَحْرَصَ النَّاسِ عَلَى حَيَاةٍ وَمِنَ الَّذِينَ أَشْرَكُواْ يَوَدُّ أَحَدُهُمْ لَوْ يُعَمَّرُ أَلْفَ سَنَةٍ وَمَا هُوَ بِمُزَحْزِحِهِ مِنَ الْعَذَابِ أَن يُعَمَّرَ وَاللّهُ بَصِيرٌ بِمَا يَعْمَلُونَ ( ۹۶ )

اے رسول آپ ديكھيں گے كہ يہزندگى كے سب سے زيادہ حريص ہيں اور بعضمشركين تو يہ چاہتے ہيں كہ انھيں ہزاربرس كى عمر دےدى جائے جب كہ يہ ہزار برسبھى زندہ رہيں تو طول حيات انھيں عذابالہى سے نہيں بچا سكتا _ اللہ ان كےاعمال كو خوب ديكھ رہا ہے (۹۶)

۱_ زندہ رہنے اورطولانى عمر حاصل كرنے ميں حريص ترين لوگ يہود ہيں _و لتجدنهم احرص الناس على حياة

۲ _ ہر طرح كى دنياوى زندگى ، ( چاہے جتنى بھى پست ہو) اس پر يہودى حريص ہيں اور دل وابستہ كيئے ہوئے ہيں _

و لتجدنهم احرص الناس على حياة

'' حياة'' كو نكرہ لانا اس نكتہ كى طرف اشارہ ہے كہ يہودى كسى بھى خصوصيت كے ساتھ، كے ساتھ اگر چہ كتنى ہى پست و حقير ہو ليكن پھر بھى فقط زندہ رہنا چاہتے ہيں _

۳ _ يہوديوں كى روش اور چال ڈھال ان كى دنياوى زندگى كے بارے ميں شديد حرص اور موت سے خوف كى دليل ہے _

و لتجدنهم احرص الناس على حياة

''لتجدن'' فعل '' تجد _ تم پاتے ہو'' ، لام قسم اور نون تاكيد سے مركب ہے يعنى يقينا بلاشك تم ديكھتے ہو كہ يہودى انتہائي حريص لوگ ہيں _ اس بات پر تاكيد كہ تم تو يہوديوں كى دنياوى زندگى پر دلبستگى كو پاتے ہو، اس مفہوم كو بيان كررہاہے كہ يہوديوں كى چال ڈھال اس چيز كى دليل ہے كہ وہ لوگ دنياوى زندگى سے شديد محبت ركھتے ہيں _

۳۲۳

۴ _ يہوديوں كا دنياوى زندگى سے تعلق اوردنيا سے ان كى محبت كا نماياں ہونا اس امر ميں مانع ہے كہ وہ لوگ اخروى زندگى كا اشتياق و شوق ركھتے ہوں يا موت سے خوف نہ كھانے كا اظہار كريں _و لتجدنهم احرص الناس على حياة

جملہ '' لتجدنھم ...'' ، '' لن يتمنوہ'' كے لئے دليل ہے يعنى يہ حقيقت كہ يہوديوں كو آخرت ميں پہنچنے كى اور موت كى ہرگز كوئي خواہش نہيں ،يہ ان كى زندگى سے بہت واضح طور پر مشخص ہے _يہ حقيقت اتنى واضح ہے كہ وہ لوگ خود بھى اس كا انكار نہيں كرسكتے_

۵ _يہوديوں كا دنياوى زندگى كے بارے ميں شوق و اشتياق حتى مشركين سے بھى زيادہ ہے_و لتجدنهم احرص الناس و من الذين اشركوا '' من الذين'' ، '' الناس'' پر عطف ہے يعنى''و لتجدنهم احرص من الذين اشركوا .. تم ديكھتے ہو كہ وہ لوگ مشركين سے بھى زيادہ دنياوى زندگى پر حريص ہيں ''

۶_ يہوديوں كا دنياپرست ہونا قرآن كريم كى پيشين گوئيوں ميں سے ہے _لتجدنهم احرص الناس على حياة

۷ _ يہودى بھى اپنے دعوى ( كہ بہشت انكا مقدر ہے ) كے بے بنياد ہونے سے واقف ہيں _

ان كانت لكم الدار الاخرة و لتجدنهم احرص الناسہوسكتاہے يہ جملے '' لتجدنھم ...'' اور '' يود احدھم ...'' يہوديوں كے دعوى ( ان كانت آية ۹۴) پر ناظر ہو _ يعنى يہ كہ تم يہودى ايك طرف تو دعوى دار ہو كہ عالم آخرت بس تم سے متعلق ہے جبكہ دوسرى طرف تم دنيا كى زندگى ميں ہميشہ كے لئے رہنے كے خواہشمند ہو يہ بات دليل ہے كہ تمہيں خود بھى اپنے دعوى پر يقين نہيں ہے _

۸_ يہوديوں كا ہر فرد ہزار سال كى طولانى زندگى كا خواہشمند ہے _يود احدهم لو يعمر الف سنة

'' يعمرّ'' تعمير سے ہے جس كا معنى ہے جسے عمر دى گئي ہو_''احدھم'' كو '' يود'' كے فاعل كے طور پر لانا اور ضمير جمع (يودون) سے استفادہ نہ كرنا اس معنى كى وضاحت كرتاہے كہ ہزار سال كى طولانى عمر يہوديوں كے فرد فرد كى خواہش ہے_

۹_ دنيا سے محبت اور اس كى خاطر طولانى عمر كى آرزو كرنا ناپسنديدہ اور مكروہ صفت ہے _

و لتجدنهم احرص الناس على حياة يود احدهم لو يعمر الف سنة

آيت كا لب و لہجہ يہوديوں كى مذمت كررہاہے كہ دنيا كى محبت كى خاطر ان لوگوں نے طولانى عمر كى خواہش كى ہے _

۱۰_ مشركين دنيا كى زندگى سے دل وابستہ كيئے ہوئے ہيں اور اسى پر حريص ہيں _لتجدنهم احرص الناس و من الذين اشركوا

۳۲۴

۱۱ _ بعض مشركين ہزار سال كى طولانى زندگى كے خواہش مند ہيں _ومن الذين اشركوا يود احدهم لو يعمر الف سنة

يہ مفہوم اس اعتبار سے ہے كہ '' و من الذين اشركوا'' مبتدائے محذوف كى خبر ہے نہ كہ ''الناس'' پر عطف ہے يعنى مطلب يوں ہے ''و من الذين اشركوا طائفة يود احدھم'' بنابريں جملہ '' و من الذين ...'' حاليہ ہے اور '' يود احدھم'' انہى مشركين كى صفت بيان كى گئي ہے _ پس آيہ مجيدہ كا مفہوم يوں بنتاہے _ يہودى سب سے زيادہ دنيا سے دل وابستہ كيئے ہوئے ہيں در آں حاليكہ بعض مشركين ہزار سالہ عمر كے خواہشمند ہيں _

۱۲ _ گناہگار يہود عذاب جہنم ميں مبتلا ہوں گے _بما قدمت ايديهم و ما هو بمزحزحه من العذاب

''مزحزح'' كا مصدر ''زحزحة'' ہے جسكا معنى ہے دور كرنا _

۱۳ _ عالم آخرت سے يہوديوں كى مايوسى ،ان كى دنياوى زندگى پر حرص اور طولانى عمر كى آرزو كے بارے ميں زمين ہموار كرتى ہے _*يود احدهم لو يعمر الف سنة و ما هو بمزحزحه من العذاب ان يعمر

۱۴ _ دنياوى زندگى اور طولانى عمر يہوديوں كے اخروى عذاب سے نجات كا باعث نہيں ہوسكتي_و ما هو بمزحزحه من العذاب ان يعمر ''ان يعمر'' ''ہو'' كے لئے بدل ہے يا پھر ''مزحزح'' كے لئے فاعل ہے_ دونوں كى بازگشت ايك معنى كى طرف ہے_ جملہ ''ما ہو ...'' كا معنى يہ ہے يہوديوں كو بنابريں فرض كہ ہزار سالہ عمر دے دى جائے) ، كو يہ طولانى عمر عذاب سے نجات نہيں دلاسكتي_

۱۵ _ گناہگاروں كى عمر جتنى بھى طولانى ہو عذاب الہى سے نجات كا موجب نہيں ہوسكتي_بما قدمت ايديهم و ما هو بمزحزحه من العذاب ان يعمر

۱۶_ يہوديوں كے دنياپرستى پر مبنى اعمال و كردار پر اللہ تعالى ناظر ہے _و الله بصير بما يعملون

آرزو: طولانى عمر كى آرزو ۹،۱۳; ناپسنديدہ آرزو ۹

اخلاق: ناپسنديدہ اخلا ق۹

اسماء و صفات: بصير ۱۶

اعداد: ہزار كا عدد ۸،۱۱

اللہ تعالى :

۳۲۵

اللہ تعالى كى نظارت ۱۶

حريص لوگ : ۱،۲،۳،۵،۱۰ دنياطلب لوگ : ۶

دنياطلبي: دنياطلبى كى سرزنش ۹

زندگي: دنياوى زندگى كا حرص ۱۰

عذاب: اہل عذاب ۱۲

عقيدہ: باطل عقيدہ ۷

قرآن: قرآن كريم كى پيشين گوئي ۶

گناہگار لوگ: گناہگاروں كو عذاب ۱۵; گناہگاروں كى سزا ۱۲; گناہگار اور طولانى عمر ۱۵; گناہگاروں كى نجات ۱۵

مايوسي: آخرت سے مايوسى كے نتائج ۱۳

مشركين : زندگى كے بارے ميں مشركين كى حرص ۱۰; طولانى عمر كے بارے ميں مشركين كى حرص ۱۱; مشركين كى خواہشات ۱۱; مشركين كى صفات ۱۰; مشركين اور دنياوى زندگى ۵

يہود: يہوديوں كى مايوسى كے نتائج ۱۳; يہوديوں كى آرزوئيں ۱۳; يہوديوں كے دعوى كا باطل ہونا ۷; يہوديوں كا موت سے خوف ۳،۴; زندگى كے بارے ميں يہوديوں كى حرص ۱،۲،۳،۴ ،۵ ،۱۳; طولانى عمر كے بارے ميں يہوديوں كى حرص ۱،۸،۱۳; يہوديوں كى خواہشات ۸; يہوديوں كى دنياطلبى ۶،۱۶; يہوديوں كى دنياوى زندگى ۱۴; يہوديوں كى صفات ۱،۲،۶; يہوديوں كو اخروى عذاب ۱۲،۱۴; يہوديوں كا عقيدہ ۷; يہوديوں كا علم ۷; يہوديوں كا عمل ۱۶; يہوديوں كے نجات ۱۴; يہوديوں كى حرص كى نشانياں ۳،۴; گناہگار يہود ۱۲; يہود اور بہشت ۷; يہود اور طولانى عمر ۱۴

۳۲۶

قُلْ مَن كَانَ عَدُوًّا لِّجِبْرِيلَ فَإِنَّهُ نَزَّلَهُ عَلَى قَلْبِكَ بِإِذْنِ اللّهِ مُصَدِّقاً لِّمَا بَيْنَ يَدَيْهِ وَهُدًى وَبُشْرَى لِلْمُؤْمِنِينَ ( ۹۷ )

اے رسولكہہ ديجئےكہ جو شخص بھى جبريل كا دشمن ہےاسے معلوم ہونا چاہئے كہ جبريل نے آپ كےدل پرقرآن حكم خدا سے اتارا ہے جو سابقكتابوں كى تصديق كرنے والا ، ہدايت اورصاحبان ايمان كے لئے بشارت ہے (۹۷)

۱_ حضرت جبرائيلعليه‌السلام كے ساتھ يہوديوں كى عداوت اور كينہ پرورى _من كان عدواً لجبريل

''من كان'' سے مراد گذشتہ آيات كى روشنى ميں يہود ہيں _

۲ _ پيامبر اسلام (ص) كے قلب اطہر پر حضرت جبرائيلعليه‌السلام قرآن كريم لے كر آنے والے ہيں _فانه نزله على قلبك

۳ _ حضرت جبرائيلعليه‌السلام نے اپنى طرف سے نہيں بلكہ اللہ تعالى كے اذن اور فرمان سے قرآن كريم كو پيامبر اسلام (ص) كے قلب اطہر پر نازل كيا _فانه نزله على قلبك باذن الله

۴ _ فرشتے اللہ تعالى كے اذن اور فرمان كے بغير كوئي كام انجام نہيں ديتے _فانه نزله على قلبك باذن الله

۵ _ پيامبر اسلام(ص) پر حضرت جبرائيلعليه‌السلام كے ذريعے قرآن كريم كا نزول اس بات كا موجب بنا كہ يہود جبرائيلعليه‌السلام سے عداوت اور كينہ پرورى كريں _من كان عدواً لجبرئيل فانه نزله على قلبك باذن الله

جملہ '' فانہ جبرائيلعليه‌السلام نے قرآن كو اللہ كے اذن سے تيرے قلب پر نازل كيا '' يہوديوں كے جبرائيلعليه‌السلام سے كينہ كا سبب بيان كررہاہے_

۶ _ يہوديوں كا جبرائيلعليه‌السلام اور نظام وحى كے بارے ميں جاہلانہ تصور _قل من كان عدواً لجبريل فانه نزله على قلبك باذن الله

۷_ قرآن كريم نے تورات كے نفس كلام كى تائيد اور اسكى صداقت و سچائي كى تصديق كى _مصدقا لما بين يديه

يہ مفہوم اس بناپر ہے كہ ''مصدقا'' ، ''نزلہ'' كى ضمير مفعولى كے لئے حال ہو اور اس سے مراد قرآن كريم ہے _ ''ما بين يديہ _ وہ كتاب جو قرآن كريم سے پہلے تھى '' آيہ مجيدہ ميں اس سے مراد تورات ہے _

۳۲۷

۸ _ قرآن كريم كا وجود تورات كى حقانيت كے لئے گواہ اور شاہد كے طور پر ہے *مصدقا لما بين يديه

قرآن كريم كى طرف سے تورات كى تصديق (مصدقا لما بين يديہ ) كا معنى ممكن ہے يہ ہو كہ قرآن تورات كى صداقت و سچائي كا گواہ ہے يعنى قرآن كا نزول اس امر كا موجب ہوا كہ تورات ميں قرآن كے آنے كى جو پيشين گوئياں تھيں وہ پورى ہوگئيں پس اسى وجہ سے قرآن كريم تورات كى صداقت و سچائي كو ثابت كرنے والا اور اسكى حقانيت كا گواہ ہے _

۹ _ قرآن كريم اہل ايمان كو ہدايت كرنے والا ہے _هديً و بشرى للمومنين

'' ہدي'' مصدر ہے جو يہاں اسم فاعل ''ہادي'' كے معنى ميں آياہے _

۱۰_ قرآن كريم اہل ايمان كو دنيا وآخرت كى سعادت مندى كى خوش خبرى دينے والا ہے _و بشرى للمومنين

'' بشرى '' ايسى خبر كو كہتے ہيں كہ جس ميں كيف و سرور پايا جاتاہو اور آيت ميں اسكا معنى '' بشير _ بشارت دينے والا'' ہے _

۱۱ _ يہوديوں كى حضرت جبرائيلعليه‌السلام سے دشمنى كى بازگشت اللہ تعالى سے دشمنى كى طرف ہے _

من كان عدواً لجبريل فانه نزله على قلبك باذن الله

جملہ ''فانہ نزلہ'' سے'' بشرى للمومنين'' تك بيان شدہ حقائق يہوديوں كى جبرائيلعليه‌السلام سے كينہ پرورى كا جواب ہيں _ '' باذن اللہ'' كى قيد كا مطلب يہ ہے كہ جبرائيلعليه‌السلام اللہ تعالى كے فرمان سے پيامبر اسلام (ص) پر قرآن كريم لے كر آئے _ پس اگر قرآن كريم كا نزول عداوت كا باعث ہے تو پھر تم يہودى اللہ تعالى سے دشمنى كرو _ بنابريں جملہ شرطيہ '' من كان ...'' كا جواب يوں بنتاہے''فهو عدو الله ''

۱۲ _ يہوديوں كى جبرائيل (عليہ السلام) سے دشمنى در حقيقت تورات سے دشمني، انسانى ہدايت كے سرچشموں سے دشمنى اور بشارت كا پيغام لانے والوں سے دشمنى ہے _فانه نزله مصدقا لما بين يديه و هدى و بشرى للمومنين

''مصدقا ...'' ، ''ھدي'' اور '' بشرى للمومنين'' ميں سے ہر ايك تعريف '' باذن اللہ '' كى طرح ممكن ہے كہ جبرائيلعليه‌السلام سے كينہ ركھنے والے يہوديوں كے لئے جواب نقضى ہو يعنى يہ كہ قرآن جو تمھارے دين اور تمہارى كتاب كى تائيد كرنے والاہے، انسانى ہدايت كا سرچشمہ ہے اور سعادتوں كى بشارت ديتاہے اس قرآن كے لانے والے سے دشمنى در اصل تورات سے دشمنى اور سے دشمنى ہے _

۱۳ _ قرآن كريم كا حكم الہى سے نازل ہونا اس بات كى دليل ہے كہ يہوديوں كى جبرائيلعليه‌السلام سے دشمنى بے جا ہے _

۳۲۸

من كان عدواً لجبريل فانه نزله على قلبك باذن اللهيہ مفہوم اس بناپر ہے كہ''باذن اللہ'' كى قيد يہوديوں كى جبرائيل عليه‌السلام سے عداوت كا حلّى جواب ہو يعنى يہ كہ جبرائيل عليه‌السلام فرمان الہى سے پيامبر اسلام (ص) پر قرآن كريم لے كر آئے لہذا وہ جو فرمان الہى كى اطاعت كرتاہے اسے اللہ تعالى پر اعتقاد ركھنے والوں كے ہاں مورد غضب نہيں ہونا چاہيئے_

۱۴ _ تورات كى قرآن كريم كى جانب سے تائيد ، يہوديوں كى وحى كا پيام لانے والے ( جبرائيلعليه‌السلام ) سے دشمنى كے بے جا ہونے كى دليل ہے _فانه نزله على قلبك باذن الله مصدقا لما بين يديه

'' مصدقا لما بين يديہ _ قرآن تورات كى صداقت كى تائيد كرتاہے '' يہ جملہ جبرائيلعليه‌السلام كے دشمن يہوديوں كے جواب ميں ہے جو اس نكتہ كو بيان كررہاہے كہ جبرائيلعليه‌السلام ايك ايسى حقيقت كو لے كر آئے ہيں جو تمہارے دين اور كتاب كى تصديق كرنے والى ہے اور جو اس كى صداقت و سچائي پرگواہ ہے پس بے ج:ا ہے كہ تم اس كے لانے والے جبرائيلعليه‌السلام سے دشمنى ركھو _

۱۵ _ قرآن كريم كا ہدايت كرنا اور بشارت دينا، يہوديوں كى اس كے نازل كرنے والے (جبرائيلعليه‌السلام ) سے عداوت كے بے جا ہونے پر دليل ہے _فانه نزله على قلبك هديً و بشرى للمومنين ''ہدى و بشري'' ميں بھى ''مصدقا'' كى طرح يہ نكتہ موجود ہے كہ جبرائيلعليه‌السلام نے پيامبر اكرم (ص) كو ايسے معارف القا كيئے جو بشارت دينے والے اور ہدايت كرنے والے ہيں پس اس ( جبرائيلعليه‌السلام ) سے دشمنى كى كوئي معقول و جہ نہيں ہوسكتي_

اللہ تعالى : اذن الہى ۳،۴; اوامر الہى ۱۳

پيامبر اسلام (ص) : پيامبر اسلام (ص) كے قلب پر وحى ۲

تورات: تورات كى تصديق ۷،۸،۱۴; تورات كى حقانيت كے دلائل ۷،۸

حضرت جبرائيلعليه‌السلام : جبرائيلعليه‌السلام كا خضوع اور اطاعت ۳; جبرائيلعليه‌السلام كے دشمن ۱; جبرائيلعليه‌السلام كى اہميت ۲،۳،۵ ، ۱۴ ، ۱۵

دشمني: تورات سے دشمنى ۱۲; ہدايت كرنے والوں سے دشمنى ۱۲; جبرائيلعليه‌السلام سے دشمنى كا فلسفہ ۵; جبرائيلعليه‌السلام سے دشمنى كى ناپسنديدگى ۱۳،۱۴،۱۵

قرآن كريم : قرآن كريم كى بشارت ۱۰،۱۵; قرآن كريم اور تورات ۷،۸،۱۴; قرآن كريم كے نزول كى

۳۲۹

كيفيت ۲،۳،۵; قرآن كريم كى گواہى ۷،۸; قرآن كريم كا نزول ۱۳،۱۵; قرآن كريم كى اہميت ۸،۹،۱۰،۱۵; قرآن كريم كا ہدايت كرنا ۹،۱۵

ملائكة: ملائكہ كا خضوع ۴; ملائكہ كے عمل كا دائرہ ۴

مؤمنين: مؤمنين كو بشارت ۱۰; مؤمنين كى اخروى سعادت ۱۰; مؤمنين كى دنياوى سعادت۱۰; مومنين كى ہدايت ۹

يہود: يہوديوں كى جبرائيلعليه‌السلام سے دشمنى ۱،۵،۱۱،۱۲،۳ ۱، ۱۴، ۱۵; يہوديوں كى اللہ تعالى سے دشمنى ۱۱; يہوديوں كا عقيدہ ۶; يہوديوں كى دشمنى كے عوامل ۵; يہودى اور جبرائيلعليه‌السلام ۶; يہودى اور وحى ۶

مَن كَانَ عَدُوًّا لِّلّهِ وَمَلآئِكَتِهِ وَرُسُلِهِ وَجِبْرِيلَ وَمِيكَالَ فَإِنَّ اللّهَ عَدُوٌّ لِّلْكَافِرِينَ ( ۹۸ )

جوبھياللہ ، ملائكہ ، مرسلين اور جبريل وميكائيل كا دشمن ہوگا اسے معلوم رہے كہخدا بھى تمام كافروں كا دشمن ہے (۹۸)

۱_ جو لوگ فرشتوں اور انبياءعليه‌السلام كے دشمن ہيں اللہ تعالى ان كا دشمن ہے _

من كان عدوا ً لله و ملائكته و رسله فان الله عدو للكافرين

۲ _ جو حضرت جبرائيلعليه‌السلام اور حضرت ميكائيلعليه‌السلام سے دشمنى ركھے اللہ تعالى ان كا دشمن ہے _

من كان عدوا الله و جبريل و ميكال فان الله عدو للكافرين

۳ _ فرشتے اور انبياءعليه‌السلام اللہ تعالى كے ہاں بہت زيادہ مقام و منزلت ركھتے ہيں _من كان عدوا لله و ملائكته و رسله

قرآن كريم نے چونكہ فرشتوں اور انبياءعليه‌السلام كو لفظ اللہ كے ہمراہ بيان فرماياہے اور ان كے دشمنوں كو اللہ تعالى كے ہاں مبغوض ( مورد غضب) قرار ديا ہے اس سے معلوم ہوتاہے كہ فرشتے اورا نبياءعليه‌السلام اللہ تعالى كے ہاں بہت زيادہ مقام و منزلت ركھتے ہيں _

۴ _ حضرت جبرائيلعليه‌السلام اور حضرت ميكائيلعليه‌السلام باقى تمام فرشتوں كى نسبت اللہ تعالى كے ہاں بہت زيادہ مقام و منزلت كے مالك ہيں _

من كان عدوا لله و ملائكته و رسله و جبريل و ميكائيل

'' ملائكتہ'' كا لفظ جبرائيلعليه‌السلام اور ميكائيلعليه‌السلام كو بھى شامل ہے _ پس فرشتوں كے مابين خصوصى طور پر ان كا ذكر كرنا ہوسكتاہے ان كے باعظمت مقام كى طرف اشارہ ہو _

۳۳۰

۵ _ انبيائے الہى فرشتوں حتى جبرائيلعليه‌السلام اور ميكائيلعليه‌السلام سے بھى افضل ہيں *من كان عدواً لله و ملائكته و رسله و جبريل و ميكائيل

يہ بات گزرچكى ہے كہ تمام فرشتوں كے مابين جبرائيلعليه‌السلام اور ميكائيلعليه‌السلام كا خصوصى طور پر ذكر كرنا انكى فضيلت كى دليل ہے اور ''رسلہ'' كو ''جبرئيل و ميكائيل'' پر مقدم كرنا اس بات كى طرف اشارہ ہے كہ انبياءعليه‌السلام جبرائيلعليه‌السلام اور ميكائيلعليه‌السلام سے افضل ہيں _

۶ _ اللہ تعالى ، انبياءعليه‌السلام اور فرشتوں كے دشمن كافر ہيں _من كان عدوا لله فان الله عدو للكافرين

تقاضائے كلام يہ تھا كہ '' الكافرين'' كى جگہ ''ہم '' ضمير لائي جائے يہ امر دو نكتوں كا حامل ہے ۱_ اس بات كى وضاحت كہ يہ لوگ كافر ہيں _

۲ _ ان كى خدا تعالى سے دشمنى كى وجہ ان كا كفر ہے_ بنابريں آيہ مجيدہ كا معنى يہ بنتاہے وہ لوگ جو ا للہ تعالى كے دشمن ہيں تو اللہ تعالى ان كا دشمن ہے كيونكہ وہ لوگ كافر ہيں _

۷ _ جبرائيلعليه‌السلام اور ميكائيلعليه‌السلام كے دشمن كافرہيں _من كان عدوا لله و جبريل و ميكال فان الله عدو للكافرين

۸ _ خداوند متعال كفار كا دشمن ہے _فان الله عدو للكافرين

۹ _ يہود حضرت جبرائيلعليه‌السلام سے عداوت كے باعث كافر ہيں اور خداوند متعال انكا دشمن ہے _

من كان عدوا لله جبريل و ميكال فان الله عدو للكافرين

گذشتہ آيات كى روشنى ميں '' الكافرين '' كے مصاديق ميں سے يہود بھى ہيں _

اللہ تعالى : اللہ تعالى كى دشمنى ۱،۲،۸،۹

ابنياءعليه‌السلام : انبياءعليه‌السلام اور ملائكة۵; انبياءعليه‌السلام كى جبرائيلعليه‌السلام پر فضيلت ۵; انبياءعليه‌السلام كى ميكائيلعليه‌السلام پر فضيلت ۵; انبياءعليه‌السلام كے فضائل ۵; انبياءعليه‌السلام كے دشمنوں كا كفر ۶; انبياءعليه‌السلام كے درجات ۳

انبياعليه‌السلام ئے الہي: انبيائے الہىعليه‌السلام كے دشمن ۱

جبرائيلعليه‌السلام : جبرائيلعليه‌السلام كے دشمن ۲; جبرائيلعليه‌السلام كے دشمنوں كا كفر ۷،۹; جبرائيلعليه‌السلام كے درجات ۴

دشمن: اللہ تعالى كے دشمن ۱; دشمنان خدا كا كفر ۶

۳۳۱

دشمني: جبرائيلعليه‌السلام كے ساتھ دشمنى كے نتائج ۹; كفار كے ساتھ دشمنى ۸ كفار: ۶،۷،۹

كفر: كفر كے موجبات ۶،۷،۹

ملائكہ: لائكہ كے دشمن ۱; ملائكہ كے دشمنوں كا كفر ۶ ملائكہ كے درجات ۳،۴

ميكائيلعليه‌السلام : ميكائيلعليه‌السلام كے دشمن ۲; دشمنان ميكائيلعليه‌السلام كا كفر ۷; ميكائيلعليه‌السلام كے درجات ۴

يہود: يہوديوں كى جبرائيلعليه‌السلام سے دشمنى ۹

وَلَقَدْ أَنزَلْنَآ إِلَيْكَ آيَاتٍ بَيِّنَاتٍ وَمَا يَكْفُرُ بِهَا إِلاَّ الْفَاسِقُونَ ( ۹۹ )

ہمنے آپ كى طرف روشن نشانياں نازل كى ہيں اور ان كا انكار فاسقوں كے سوا كوئي نہ كرے گا (۹۹)

۱ _ پيامبر اسلام (ص) كى اپنى نبوت كى حقانيت كے لئے بہت واضح اور روشن دلائل و معجزات ہيں _

و لقد أنزلنا اليك آيات بيناتسورہ مباركة كے اس حصہ ميں چونكہ پيامبر اسلام(ص) كى رسالت اور قرآن كريم كى دعوت كے بارے ميں گفتگو ہوئي ہے لہذا كہا جاسكتاہے كہ ''آيات بينات_ (واضح اور روشن نشانياں ) كا متعلق قرآن كريم اور آنحضرت(ص) كى رسالت كى صداقت و سچائي ہو_

۲ _ يہوديوں كا آنحضرت (ص) پر يہ الزام يا تہمت تھى كہ آپ (ص) كے پاس آپ (ص) كى نبوت كى حقانيت كى واضح اور روشن دليل و برہان نہيں ہے _و لقد أنزلنا اليك آيات بينات

معمولاً كسى جملہ كے ساتھ تاكيد كو بيان كرنا اس امر كى حكايت كرتاہے كہ مخاطبين شك و ترديد كا شكارہيں يا انكار كرتے ہيں _ جملہ ''و لقد أنزلنا ...'' كا حرف لام جو قسم مقدر كى حكايت كرتاہے اور حرف ''قد'' كے ساتھ تاكيد كرنے سے معلوم ہوتاہے كہ آيہ مجيدہ كا مورد خطاب يہودى ہيں جو آيت كے مضمون كو شك و ترديد كى نگاہ سے ديكھتے تھے يا پھر منكر تھے_

۳ _ پيامبر اسلام (ص) كو دلائل و معجزات عطا كرنے والا اللہ تعالى ہے _و لقد أنزلنا اليك

۴ _ قرآن كريم ميں خود اسكى اپنى اور پيامبر اكرم ( ص) كى رسالت كى حقانيت پر مشتمل آيات اور واضح دلائل موجود ہيں _و لقد أنزلنا اليك آيات بينات

'' آيات'' سے مراد ممكن ہے قرآنى آيات ہوں يا ممكن ہے وہ معجزات اور دلائل مراد ہوں جو آنحضرت (ص) كى صداقت اور قرآن كريم كے آسمانى ہونے پر دلالت كررہے ہوں _ مذكورہ مفہوم پہلے احتمال كى بناپر ہے _

۳۳۲

۵ _ فقط فاسقين ( منحرف لوگ) ہيں جو قرآن كريم اور اسكے واضح دلائل كو قبول نہيں كرتے اور ان كے بارے ميں كفر اختيار كرتے ہيں _و ما يكفر بها الا لفاسقون

۶ _ فسق اور انحراف خدا تعالى كى آيات كے انكار كا سرچشمہ اور ايمان كى بنياديں كھودينے كا باعث ہے_

و ما يكفر بها الا الفاسقون

۷_ يہوديوں كا فسق اور انحراف ان كے قرآن كريم اور آيات الہى سے كفر كا موجب بنا_

و ما يكفر بها الا الفاسقونماقبل اور ما بعد كى آيات كے قرينے سے ''الفاسقون'' كا واضح مصداق يہودى ہيں _ گزشتہ آيات ميں ايمان سے منہ موڑنے كے بعض يہودى بہانوں كا ذكر كيا گيا ہے اور اس آيہ مجيدہ ميں بيان كيا جارہاہے كہ يہوديوں كے ايمان سے منہ پھيرنے كى اصلى وجہ ان كا پہلے سے موجود انحراف اور فسق و فجور ہے _

۸ _ قرآن كريم اور پيامبر اسلام (ص) كى رسالت كے دلائل كا انكار_ منكر كے فسق اور انحراف كى دليل ہے_

و ما يكفر بها الا الفاسقون

۹ _ دنياپرستى ، فرشتوں سے دشمني، انبياءعليه‌السلام اور دينى قائدين كے قتل جيسے گناہوں كا ارتكاب اور الہى عہد و پيمان توڑنا يہ سب فسق كے مصاديق ہيں _و ما يكفر بها الا الفاسقون يہوديوں كے قرآن كريم اور پيامبر اكرم (ص) پر ايمان لانے كى راہ ميں ركاوٹوں كا ذكر گزشتہ آيات (۷۴ ، ۹۸) ميں كيا گيا ہے اس آيہ مجيدہ ميں قرآن كريم اور پيامبر اسلام (ص) كے انكار كى بنياد پہلے سے موجود فسق كو قرار ديا گيا ہے پس ان آيات ميں جن ركاوٹوں كا ذكر كيا گياہے وہ قرآن حكيم كى نظر ميں فسق كے مصاديق اور فسق كے معنى كو بيان كرنے والى ہيں _

۱۰_ نفس پرستي، حسد ، نسل پرستي، احساس برترى اور تكبر اور خودكو بغير كسى دليل كے اہل بہشت ميں سے سمجھنا فسق كے مصاديق ميں سے ہے _

و ما يكفر بها الا الفاسقون

۳۳۳

۱۱ _ قرآن حكيم كا انكار، وحى و رسالت كى معرفت كےلئے درست بصيرت سے باہر نكل جانے كى دليل ہے _

و ما يكفر بها الا الفاسقون

يہ مفہوم فسق كے معنى ( حد اعتدال سے نكلنا ) كے اعتبار سے ہے مقولہ ايمان '' جو معرفت و شناخت كا ايك مقولہ ہے'' ميں اعتدال سے خارج ہونا اس سے مراد درست بصيرت و تدبر كا نہ ہونا ہے _

اسلام : صدر اسلام كى تاريخ ۲

اللہ تعالى : اللہ تعالى كى عنايات ۳

انبياءعليه‌السلام : انبياءعليه‌السلام كا قتل ۹

ايمان: ايمان كے زوال كى زمين كا فراہم ہونا ۶; ايمان كى راہ ميں ركاوٹيں ۶

بصيرت: غلط بصيرت كى نشانياں ۱۱

پيامبر اسلام (ص) :پيامبر اسلام (ص) كو جھٹلانا ۸; پيامبر اسلام(ص) پر تہمت ۲; پيامبر اسلام كى حقانيت ۲; پيامبر اسلام (ص) كى حقانيت كے دلائل ۱; پيامبر اسلام (ص) كو جھٹلانے والوں كا فسق ۸; پيامبر اسلام (ص) كا معجزہ ۱،۳

حسد : حسد كا فسق ۱۰

دشمنى : ملائكہ سے دشمنى ۹

دعوى : اخروى سعادت كا دعوى ۱۰

دنيا طلبي: دنيا طلبى كا فسق ۹

دينى قائدين: دينى قائدين كا قتل ۹

عہد شكنى : اللہ تعالى كے ساتھ عہد شكنى ۹

فاسقين : فاسقين اور قرآن كريم ۵; فاسقين كا كفر ۵;

فسق: فسق كے نتائج ۶،۷; فسق كے موارد ۹،۱۰; فسق كى علامتيں ۸

قرآن كريم : قرآن كريم كى بينات ۴،۵; قرآنى تعليمات ۴; قرآن كا جھٹلانا ۸; قرآن كى حقانيت كے دلائل ۴; قرآن كريم كو جھٹلانے والوں كا فسق ۸

كفار:۵

۳۳۴

كفر: آيات الہى كے كفر كے بارے ميں عوامل ۶،۷; قرآن كريم كے بارے ميں كفر كے عوامل ۷; قرآن كريم كے بارے ميں كفر ۵،۱۱

معجزہ: معجزہ كا سرچشمہ ۳

منحرفين : منحرفين اور قرآن كريم ۵

نسلى تعصب: نسلى تعصب كا فسق ۱۰

نفس پرستى : نفس پرستى كا فسق ۱۰

يہود: يہوديوں كے فسق كے نتائج ۷; يہوديوں كى تہمتيں ۲; يہوديوں كے كفر كے عوامل ۷; صدر اسلام كے يہودى ۲; يہودى اور پيامبر اسلام (ص) ۲

أَوَكُلَّمَا عَاهَدُواْ عَهْداً نَّبَذَهُ فَرِيقٌ مِّنْهُم بَلْ أَكْثَرُهُمْ لاَ يُؤْمِنُونَ ( ۱۰۰ )

ان كا حال يہ ہے كہ جب بھيانھوں نے كوئي عہد كيا تو ايك فريق نےضرور توڑ ديا بلكہ ان كى اكثريت بے ايمانہى ہے (۱۰۰)

۱_ يہوديوں نے اپنى پورى تاريخ ميں اللہ تعالى اور انبياءعليه‌السلام سے عہد و پيمان باندھے تھے_او كلما عاهدوا عهداً

يہ جملہ ''كلما عاہدوا جب كبھى بھى تم نے عہد باندھا'' متعدد اور مختلف عہد و پيمان پر دلالت كرتاہے _ ''بل اكثرہم لا يؤمنون'' كى طرح كے قرائن دلالت كرتے ہيں كہ ان عہد و پيمان سے مراد يہوديوں كے اللہ تعالى اور انبياعليه‌السلام ء سے كيئے گئے عہد و پيمان تھے_

۲ _ يہوديوں كى تاريخ عہد شكنى اور الہى عہد و پيمان سے لاپروائي كے ساتھ پرُ ہے _او كلما عاهدوا عهداً نبذه فريق منهم

''نبذ'' كا معنى ہے پھينكنا اور چھوڑ دينا البتہ آيہ مجيدہ ميں توڑنے سے كنايہ ہے_

۳_ يہود عہدشكنى اور الہى عہد وپيمان توڑنے كى وجہ سے اللہ تعالى كى توبيخ و سرزنش كے سزاوار قرار پائے_

او كلما عاهدوا عهداً نبذه فريق منهم

'' او كلما ...'' ميں استفہام انكار توبيخى ہے_

۴ _ الہى عہد و پيمان كى پابندى كرنا ضرورى ہے _او كلما عاهدوا عهداً نبذه فريق منهم

۳۳۵

اللہ تعالى كى جانب سے عہد شكنوں كى توبيخ و سرزنش اس بات پر دلالت كرتى ہے كہ معاہدوں اور عہد و پيمان كى پابندى ضرورى اور واجب ہے _

۵ _ بہت سارے يہوديوں كى نظر ميں الہى عہد و پيمان كم قدر قيمت كا معاملہ ہے _نبذه فريق منهم

يہ مفہوم اس معنى كى بناپر ہے جو راغب نے ''نبذ''كے بارے ميں بيان كيا ہے _ راغب نے المفردات ميں كہاہے '' كسى چيز كى كم قدر قيمت ہونے كے باعث اسكو گرانا يا دور پھينكنا ہے _

۶ _ كسى امت كے عہد شكن گروہ كے مقابل اس امت كے سارے افراد ذمہ دار ہيں _-*او كلما عاهدو عهداً نبذه فريق منهم بعض يہوديوں كى عہدشكنى كى وجہ سے آيہ مجيدہ تمام يہوديوں كى ملامت كررہى ہے يہ بات اس مطلب كى طرف اشارہ ہے كہ ذمہ دار لوگوں كو چاہيئے كہ امر بمعروف اور نہى از منكر كے ذريعے دوسروں كو عہد شكنى سے روكيں ورنہ سب لوگ ملامت كے مستحق قرا رپائيں گے _

۷_ يہوديوں كى اكثريت حتى اپنے انبياءعليه‌السلام اور آسمانى كتابوں پر ايمان نہيں ركھتے _بل اكثرهم لا يؤمنون

گذشتہ آيات كى روشنى ميں ايمان كا متعلق انبياءعليه‌السلام اور آسمانى كتابيں ہيں _ اس جملہ ميں ''بل'' ترقى كے لئے ہے يعنى عہد شكنى سے بالاتر يہ كہ ان لوگوں كى اكثريت تو صاحب ايمان ہى نہيں ہے _

۸_ يہوديوں ميں عہد شكنى كا عام ہونا ان كى اكثريت كے ايمان سے خالى ہونے كى دليل ہے _او كلما عاهدوا عهداً نبذه فريق منهم بل اكثرهم لا يؤمنون

۹_ انسان كے الہى عہد و پيمان سے وفادار اور پابند نہ ہونے كے علل و اسباب ميں سے ايك ايمان كا فقدان ہے _

او كلما عاهدوا عهداً نبذه فريق منهم بل اكثرهم لا يؤمنون

۱۰_ اكثر يہودى جنہوں نے الہى عہد و پيمان سے وفا نہ كى وہ ان عہد و پيمان پر ايمان و اعتقاد ہى نہ ركھتے تھے_

كلما عاهدوا عهداً نبذه فريق منهم بل اكثرهم لا يؤمنون

يہ مطلب اس بناپر ہے كہ '' يؤمنون'' كا متعلق عہد و پيمان ہوں يعنى عہد شكنوں كى اكثريت نے ان عہد و پيمان كو جان و دل سے قبول نہ كيا اگر چہ ظاہر يہ كيا كہ انہوں نے ان عہد و پيمان كو قبول كرلياہے _ قابل توجہ ہے كہ اس مطلب ميں ''اكثرہم'' كى ضمير كو '' فريق'' كى طرف لوٹا يا گيا ہے _

۱۱ _ بہت سارے يہودى قرآن حكيم اور پيامبر اسلام (ص) پر ايمان نہ لائيں گے _بل اكثرهم لا يؤمنون

يہ مفہوم اس بنا پر ہے كہ ''لا يؤمنون'' كا متعلق

۳۳۶

ما قبل آيت كى روشنى ميں قرآن حكيم اور پيامبر اسلام(ص) ہوں _ فعل مضارع''لا يؤمنون'' اس احتمال كى تائيد كررہاہے _

اللہ تعالى : اللہ تعالى كى سرزنشيں ۳

ذمہ داري: ذمہ دارى كا عمومى ہونا ۶

عہد: وفائے عہد كى اہميت ۴; اللہ تعالى سے وفائے عہد ۴

عہدشكني: عہدشكنى كے عوامل ۹; اللہ تعالى كے ساتھ عہدشكنى ۲،۳،۹; عہدشكنى كے ساتھ نبردآزمائي ۶

قرآن كريم: قرآن كريم كى پيشين گوئي ۱۱

كفر: كفر كے نتائج۹; انبياءعليه‌السلام كے بارے ميں كفر ۷; قرآن كے بارے ميں كفر ۱۱; آسمانى كتابوں كے بارے ميں كفر ۷; پيامبر اسلام (ص) كا كفر ۱۱

يہود: يہوديوں كى تاريخ ۱،۲; يہوديوں كى سرزنش ۳; يہوديوں كى اكثريت كا عقيدہ ۱۰; يہوديوں كا عقيدہ ۵; يہوديوں كا انبياءعليه‌السلام سے عہد۱; يہوديوں كى اكثريت كى عہد شكنى ۱۰; يہوديوں كى عہد شكنى ۲، ۳، ۸; يہوديوں كا اللہ تعالى سے عہد ۱،۳; يہوديوں كى اكثريت كاكفر ۷،۸،۱۰،۱۱; يہوديوں كا كفر ۷،۱۱; يہوديوں كے كفر كى نشانياں اور علامتيں ۸; يہود اور اللہ تعالى كا عہد۵

وَلَمَّا جَاءهُمْ رَسُولٌ مِّنْ عِندِ اللّهِ مُصَدِّقٌ لِّمَا مَعَهُمْ نَبَذَ فَرِيقٌ مِّنَ الَّذِينَ أُوتُواْ الْكِتَابَ كِتَابَ اللّهِ وَرَاء ظُهُورِهِمْ كَأَنَّهُمْ لاَ يَعْلَمُونَ ( ۱۰۱ )

اور جب ان ے پاس خدا كى طرفسے سابق كى كتابوں كى تصديق كرنے والارسول آيا تو اہل كتاب كى ايك جماعت نےكتاب خدا كو پس پشت ڈال ديا جيسے وہاسے جانتے ہى نہ ہوں (۱۰۱)

۱_حضرت محمد (ص) اللہ تعالى كى جانب سے مبعوث كيئے گئے رسول ہيں _

و لما جاء هم رسول من عند الله

ظاہراً ''رسول'' سے مراد پيامبر گرامى اسلام (ص)

ہيں _البتہ بعض مفسرين كے نزديك مراد حضرت عيسى عليہ السلام ہيں _

۲ _ يہود بھى ديگر لوگوں كى طرح پيامبر اسلام (ص) كى رسالت كے وسيع دائرہ ميں داخل ہيں _و لما جاء هم رسول من عند الله

۳۳۷

۳ _ پيامبر اسلام (ص) نے تورات كى حقانيت كى تصديق اور اس كے آسمانى ہونے كى تائيد فرمائي _

۴ _ تورات ميں آنحضرت (ص) كى بعثت كى بشارت دى گئي تھى _و لما جاء هم رسول نبذ فريق من الذين اوتوا الكتاب كتاب الله و راء ظهورهم

جملہ''نبذ فريق'' ، '' لما جاء ہم '' كے لئے جواب شرط ہے پيامبر (ص) كے آنے كے ساتھ يہوديوں كے تورات كو دور پھينكنے كا ذكر اس حقيقت كى طرف اشارہ ہے كہ اس كتاب ميں پيامبر (ص) كے آنے كى بشارت دى گئي تھى اور آنحضرت (ص) كى خصوصيات بيان كى گئي تھيں _

۵ _ آنحضرت (ص) كى بعثت تورات كى صداقت و سچائي اور اس كے آسمانى ہونے كى دليل و گواہ ہے _مصدق لما معهم

آيات ۴۱ ، ۹۱ ، ۹۷ سے يہ مطلب نكلتاہے _

۶ _ علمائے اہل كتاب نے آنحضرت (ص) كى بعثت كے بعد تورات كى پيامبر موعود كے بارے ميں بشارتوں كو نظر انداز كيا اور بالكل ان پر توجہ نہ كى _و لما جاء هم رسول نبذ فريق من الذين اوتوا الكتاب كتاب الله و راء ظهورهم

معلوم ہوتاہے كہ اس جملہ ميں '' فريق'' سے مراد علمائے يہود ہيں كيونكہ تورات كے احكام اور معارف كو بيان كرنا ان كى ذمہ دارى تھى اور جملہ ''كانھم لا يعلمون_ گويا كہ وہ لوگ عالم نہ تھے'' اس مطلب كى تائيد كررہاہے_

۷_ علمائے اہل كتاب كو پورا ا طمينان تھا كہ تورات ميں بيان كى گئي پيامبر موعود كى خصوصيات آنحضرت (ص) پر منطبق ہوتى ہيں _و لما جاء هم رسول نبذ فريق من الذين اوتوا الكتاب كتاب الله وراء ظهورهم

پيامبر اسلام (ص) كے انكار كے لئے علمائے يہود كے پاس دو راستے تھے ۱ _ تورات كى بشارتوں كو نظر انداز كرنا ۲ _ اس بات كا اظہار كرنا كہ تورات ميں بيان شدہ خصوصيات آنحضرت (ص) پر منطبق نہيں ہوتيں يہ جو يہودى علماء نے پہلى راہ كا انتخاب كيا اس سے معلوم ہوتاہے پيامبر كى خصوصيات كا منطبق ہونا ايك مسلّم اور ناقابل ترديد معاملہ تھا_

۸ _ علمائے يہود كا تورات كى بشارتوں كو نظر انداز كرنے كا محرك يہ تھا كہ پيامبر اسلام (ص) كى رسالت كے انكار كى زمين فراہم كى جائے _و لما جاء هم رسول نبذ فريق من الذين اوتوا الكتاب كتاب الله وراء ظهورهم

۹ _ با وجود اس كے كہ علمائے يہود نے تورات ميں پيامبر اسلام (ص) كى خصوصيات كو ديكھ ليا انہوں نے خود كو اس سے بے خبر ظاہر كيا _

۳۳۸

نبذ فريق كتاب الله وراء ظهورهم كانهم لا يعلمون

'' لا يعلمون'' كا متعلق اس پيامبر كى خصوصيات ہيں جسكى بعثت كى بشارت تورات نے دى تھي_

۱۰_ تورات اللہ تعالى كى جانب سے نازل كى گئي كتاب ہے _اوتوا الكتاب كتاب الله

۱۱_ پيامبر اسلام (ص) پر ايمان لانا اللہ تعالى كے اہل كتاب سے معاہدوں ميں سے تھا_او كلما عاهدوا عهداً و لما جاء هم رسول نبذ فريق يہ مطلب اس بناپر ہے كہ يہوديوں كے اللہ تعالى كے ساتھ عہد و پيمان اور پھر ان كى عہد شكنى كے ذكر كے بعد پيامبر اسلام (ص) كى رسالت كے انكار اور تورات ميں بيان شدہ حقائق كے نظر انداز كرنے كا بيان آياہے_

۱۲ _ مكاتب الہى پر اعتقاد ركھنے والے لوگ حتى علمائے دين اور آسمانى كتابوں سے عالم و دانا افراد بھى انحراف اور حق پوشى كے خطرے ميں مبتلا ہوسكتے ہيں _نبذ فريق من الذين اوتوا الكتاب كتاب الله وراء ظهورهم

۱۳ _ آسمانى كتابوں ميں بيان شدہ تمام معارف اور احكام كى پابندى ضرورى ہے_

نبذ فريق من الذين اوتوا الكتاب كتاب الله وراء ظهورهم

۱۴ _ آسمانى كتابوں كے بعض احكام يا معارف سے لاپروائي يا بے اعتنائي برتناسب فرامين اور معارف سے بے اعتنائي كے مترادف ہے_نبذ فريق من الذين اوتوا الكتاب كتاب الله وراء ظهورهم واضح ہے كہ علمائے يہود نے بعثت كے بعد تورات كے تمام فرامين اور معارف كو نظر انداز نہ كيا بلكہ ان ميں بعض جو پيامبر اسلام (ص) كى ذات گرامى سے مربوط تھے ان سے بے اعتنائي اختيار كى ليكن اللہ تعالى فرماتاہے '' انہوں نے كتاب خدا كو دور پھينك ديا '' يہ تعبير بيان كرتى ہے كہ آسمانى كتابوں كے بعض معارف كو نظر انداز كرنا گويا سب معارف كو نظر انداز كرنا ہے _

۱۵_ اہل كتاب كے بعض علماء نے پيامبر اسلام (ص) كى بعثت كے بعد تورات سے وفادار رہنے اور پيامبر موعود كى خصوصيات اور ان كے پيامبر اسلام(ص) پر منطبق ہونے كا اعتراف كيا _نبذ فريق من الذين اوتوا الكتاب كتاب الله وراء ظهورهم

يہ مطلب اس بناپر ہے كہ '' الذين اوتوا الكتاب'' سے مراد علمائے يہود ہوں _ اس صورت ميں '' فريق من الذين'' كا معنى يہ ہوگا كہ بعض علماء نے اللہ كى كتاب كو دور پھينكا جبكہ بعض ديگر نے ايسا نہ كيا _

۱۶ _ حقائق كے مقابل خودفريبى يا عارفانہ تجاہل كا مظاہرہ كرنا ناپسنديدہ اور بے جا عمل ہے _

نبذ فريق من الذين اوتوا الكتاب ...كانهم لا يعلمون

۳۳۹

۱۷_ امام باقرعليه‌السلام نے سعد الخير كو تحرير فرمايا: ''و كان من نبذهم الكتاب ان اقاموا حروفه و حرفوا حدوده فهم يروونه و لا يرعونه وكان من نبذهم الكتاب ان ولّوه الذين لايعلمون فاوردوهم الهوى و اصدروهم الى الردى و غيرّوا عرى الدين (۱) وہ مواردجن ميں انہوں ( اہل كتاب ) نے كتاب الہى كو پس پشت ڈال ديا ، ان ميں سے ايك يہ تھا كہ كتاب كے ظاہر كو تو محفوظ ركھا ليكن اسكى حدود ميں تحريف كى _ اسكے ظاہر كو بيان كرتے ليكن اس پر عمل نہ كرتے تھے انہى موارد ميں سے جن ميں انہوں نے كتاب الہى كو پس پست ڈالا ايك يہ تھا كہ ايسے افراد كو انہوں نے كتاب كا سرپرست بنايا جو كتاب خدا كے بارے ميں كچھ بھى نہ جانتے تھے لہذا انہو ں نے لوگوں كو اپنى ہوائے نفس كى طرف دعوت دى اور ان كو پستى و گراوٹ كى طرف لے گئے ،انہوں نے دين كے مضبوط دستوں كو تبديل كرديا _

انحراف : انحراف كا خطرہ ۱۲

اہل كتاب: اہل كتاب كا كتاب الہى سے منہ پھيرنا ۱۷; اہل كتاب كا تحريف كرنا ۱۷; اللہ تعالى كا اہل كتاب سے معاہدہ ۱۱

ايمان: پيامبر اسلام(ص) پر ايمان ۱۱ ; ايمان كے متعلقات۱۱

پيامبر اسلام (ص) : پيامبر اسلام (ص) كى بعثت كى بشارت ۴،۶; پيامبر اسلام (ص) كى بعثت ۱،۵; پيامبر اسلام (ص) كى رسالت۱; پيامبر اسلام كو جھٹلانے كى زمين تيار ہونا ۸; پيامبر اسلام (ص) كى رسالت كا دائرہ ۲; پيامبر اكرم (ص) تورات ميں ۴،۷،۹،۱۵; پيامبر اسلام(ص) اور تورات ۳; پيامبر اسلام (ص) اور يہود ۲

تجاہل عارفانہ: تجاہل عارفانہ كى سرزنش ۱۶

تورات: تورات كى بشارتيں ۴،۶،۸; تورات ميں پيامبر موعود ۶،۷،۱۵; تورات كى تصديق ۳،۵; تورات كى تعليمات ۴،۹; تورات كى حقانيت ۳; تورات كا نزول ۱۰; تورات كا وحى ہونا ۳،۵،۱۰

خود : خودفريبى كى سرزنش ۱۶ روايت:۱۷

علماء : علمائے دين اور انحراف ۱۲; علمائے دين اور حق كا چھپانا۱۲; علمائے دين كو تنبيہ ۱۲

علمائے اہل كتاب: علمائے اہل كتاب كا اقرار ۱۵; علمائے اہل كتاب كا تجاہل عارفانہ ۹; علمائے اہل كتاب اور تورات ۱۵; علمائے اہل كتاب اور پيامبر اسلام (ص) ۶،۷،۱۵ علمائے يہود: علمائے يہود اور پيامبر اكرم (ص) ۸

____________________

۱) كافى ج/۸ ص ۵۳ ح ۱، نورالثقلين ج/ ۱ ص ۱۰۶ ح ۲۹۳_

۳۴۰

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

لیکن قول حق یہی ہے کہ یہ تینوں آیتیں نسخ نہیں ہوئیں کیونکہ ان آیات کی تصریح کے مطابق رسول اللہ (ص) کو اس صورت میں اجازت دینے سے روکا جا رہا ہے اور سرزنش کی جا رہی ہے جب سچے اور جھوٹے میں تمیز نہ کی جا سکے اور اللہ تعالیٰ نے بھی یہ فرما دیا ہے کہ جو لوگ قرآن نہیں لائے ، وہ جنگ سے فرار ہونے کے بہانے تلاش کرتے ہیں اور آپ (ص) سے جنگ میں نہ جانے کی اجازت مانگتے ہیں نیز رسول اللہ (ص) کو حکم دیا ہے کہ اس وقت تک نہ جانے کی اجازت نہ دیں جب تک ان کی صحیح صورتحال معلوم نہ ہو جائے لیکناگر مسلمانوں کی صحیح صورتحال معلوم ہو جائے تو خدا نے مسلمانوں کو اجازت دی ہے کہ وہ اپنی ضروریات کیلئے رسول اللہ (ص) سے اجازت لیں اور رسول اللہ (ص) کو بھی انہیں رخصت دینے کا مجاز قرار دیا ہے۔

معلوم ہوا ان دونوں آیتوں میں کسی قسم کی منافات نہیں پائی جاتی تاکہ ایک دوسری کیلئے ناسخ بن سکے۔

۲۶۔( مَا كَانَ لِأَهْلِ الْمَدِينَةِ وَمَنْ حَوْلَهُم مِّنَ الْأَعْرَابِ أَن يَتَخَلَّفُوا عَن رَّسُولِ اللَّـهِ وَلَا يَرْغَبُوا بِأَنفُسِهِمْ عَن نَّفْسِهِ ۚ ) ۹:۱۲۰

''مدینہ کے رہنے والوں اور ان کے گردونواح کے دیہاتیوں کو یہ جائز نہ تھا کہ رسول(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) خدا کا ساتھ چھوڑ دیں اور نہ یہ جائز تھا کہ رسول کی جان سے بے پرواہ ہو کر اپنی جانوں کے بچانے کی فکر کریں،،۔

ابن زید سے منقول ہے کہ یہ آیت اس آیت کے ذریعے نسخ ہو گئی ہے(۱)

( وَمَا كَانَ الْمومنونَ لِيَنفِرُوا كَافَّةً ۚ ) ۹:۱۲۲

''اور یہ (بھی) مناسب نہیں کہ مومنین کل کے کل (اپنے گھروں سے) نکل کھڑے ہوں،،۔

لیکن حق یہی ہے کہ یہ آیت نسخ نہیں ہوئی کیونکہ دوسری آیت تک ایک قرینہ ہے جو آیہ اول سے متصل ہے اور یہ آیہ اول کا مطلب بیان کر رہی ہے۔

____________________

(۱) الناسخ و المنسوخ للخاس ، ص ۸۷ قرطبی نے اس قول کی نسبت مجاہد کی طرف بھی دی ہے ، ج ۸ ، ص ۳۹۲

۴۶۱

دونوں آیات کا مفہوم یہ ہے کہ بطور واجب کفائی صرف بعض مسلمانوں پر واجب ہے کہ وہ جنگ میں جائیں اس طرح دوسری آیت ، پہلی آیت کیلئے ناسخ نہیں بنے گی۔

ہاں ! اگر کسی خاص موقع پر کسی ضرورت کا یہ تقاضا ہو کہ تمام مسلمان جہاد کیلئے روانہ ہوں یا حاکم شرع سب کو جہاد پر جانے کا حکم دے یا کسی او وجہ سے سب کا جہاد پر جانا ضروری ہو جائے تو اس ضرورت کو پورا کریں یہ عمومی جہاد ، وہ جہاد نہیں جو اسلام میں بطور واجب کفائی مسلمانوں پر واجب ہے بلکہ یہ ایک جداگانہ حکم ہے جوب عض مخصوص حالات میں ثابت ہے یہ دونوں حکم اپنے طور پر مستقل ثابت ہیں اور ایک دوسرے کا ناسخ نہیں ہے:

۲۷۔( وَاتَّبِعْ مَا يُوحَىٰ إِلَيْكَ وَاصْبِرْ حَتَّىٰ يَحْكُمَ اللَّـهُ ۚ وَهُوَ خَيْرُ الْحَاكِمِينَ ) ۱۰۔۱۰۹

''اور (اے رسول(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) ) تمہارے پاس جو وحی بھیجی جاتی ہے تم بس اسی کی پیروی کرو اور صبر کرو یہاں تک کہ خدا (تمہارے اور کافروں کے درمیان) فیصلہ فرمائے اور وہ تمام فیصلہ کرنے والوں سے بہتر ہے،،۔

ابن زید کی رائے یہ ہے کہ یہ آیت ، آیہ جہاد (جس میں کفار پر سختی کرنے کا حکم دیا گیا ہے ) کے ذریعے نسخ ہو گئی ہے(۱) گزشتہ آیات کے بارے میں ہمارے بیان سے اس آیت کے نسخ کا دعویٰ بھی باطل ثابت ہو جاتا ہے ان بیانات کو یہاں دہرانے کی ضرورت نہیں ہے۔

کسی دلیل سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ آیت میں صبر سے مراد کفار کے مقابلے میں صبر ہو (یعنی ان سے جنگ نہ کی جائے) البتہ اس آیت میں مطلق صبر کا حکم دیا جا رہا ہے جو کفار کے مقابلے میں صبر کو بھی شامل ہے ۔

بنا برایں زیر بحث آیہ شریفہ میں نسخ کے دعویٰ کی کوئی وجہ نہیں۔

____________________

(۱) الناسخ و المنسوخ للخاس ، ص ۱۷۸

۴۶۲

۲۸۔( فَاصْدَعْ بِمَا تُؤْمَرُ وَأَعْرِضْ عَنِ الْمُشْرِكِينَ ) ۱۵:۹۴

''اور قیامت یقیناً ضرور آنے والی ہے تو تم (اے رسول(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم)) ان کافروں سے شائستہ عنوان کے ساتھ درگزر کرو،،۔

ابن عباس ، سعید اور قتادہ کا عقیدہ یہ ہے کہ یہ آیت ، آیہ سیف کے ذریعے نسخ ہو گئی ہے۔

لیکن یہ حقیقت پوشیدہ نہیں کہ ''صفح،، (چشم پوشی) سے مراد یہ ہے کہ آپ (ص) ان اذیتوں اور تکلیفوں سے درگزر کریں جو تبلیغ شریعت کی راہ میں مشرکین کی طرف سے دی جاتی تھیں اس آیت کا راہ خدا میں قتال وجہاد سے کوئی ربط و تعلق نہیں اس امر کی تائید بعد والی آیت سے بھی ہوتی ہے جس میں اللہ تعالیٰ کافرمان ہے:

( فاصدع بما تومر و اعرض عن المشرکین) ۱۵:۹۴

پس جس کا تمہیں حکم دیا گیا ہے اسے واضح کر کے سنا دو اور مشرکین کی طر ف سے منہ پھیر لو،،۔

( إِنَّا كَفَيْنَاكَ الْمُسْتَهْزِئِينَ ) : ۹۵

''جو لوگ تمہاری ہنسی اڑاتے ہیں ہم تمہاری طرف سے ان کیلئے کافی ہیں،،۔

آیہ کریمہ کا خلاصہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس میں رسول اللہ (ص) کو اوامرالٰہی کی تبلیغ اور اسلام کے نشرو اشاعت کی تشویق و ترغیب دلائی ہے اور آپ (ص) کو تسلی دی ہے کہ اس سلسلے میں آپ (ص) مشرکین کی اذیت اور ان کے تمسخر کی پروا تک نہ کریں۔

یہ ایک جداگانہ حکم ہے اور اس کا اس بات سے کوئی تعلق نہیں کہ جب اسلام کی حجت مکمل ہو اور مسلمانوں کی کثرت سے تقویت حاصل ہو تو کفارسے جہاد کریں۔

۴۶۳

ہاں ! یہ بات مسلم ہے کہ رسول اللہ (ص) کو اسلام کے آغاز ہی میں قتال و جہاد کا حکم نہیں دیا گیا کیونکہ اس وقت معجزہ اور دوسرے غیر معمولی اقدامات کے علاوہ عام مادی وسائل و اسباب کے بل پر کفار سے جنگ کرنے کی قدرت حاصل نہ تھی لیکن جب قدرت حاصل ہوئی اور مسلمانوں میں اتنی طاقت اور کثرت آ گئی جس سے کفار کا مقابلہ کیا جا سکے تو آپ (ص) کو جہاد کا حکم دیا گیا۔ اس سے قبل بھی یہ حقیقت بیان کی گئی ہے کہ احکام اسلام تدریجاً نافذ کئے گئے ہ یں جو نسخ نہیں کہلاتا۔

۲۹۔( وَمِن ثَمَرَاتِ النَّخِيلِ وَالْأَعْنَابِ تَتَّخِذُونَ مِنْهُ سَكَرًا وَرِزْقًا حَسَنًا ۗ ) ۱۶:۶۷

''اور اسی خرمے اور انگور کے پھل سے (ہم تم کو شیرہ پلاتے ہیں) جس کی (کبھی تو ) شراب بنا لیا کرتے ہو اور (کبھی) اچھی روزی (سرکہ وغیرہ)

قتادہ ، سعید بن جبیر ، شعبی ، مجاہد ، ابراہیم اور ابورزین کا عقیدہ ہے کہ یہ آیت ، اس آیت کے ذریعے نسخ ہو گئی ہے جس میں شراب نوشی کو حرام قرار دیا گیا ہے(۱)

لیکن قول حق یہی ہے کہ باقی آیات کی طرح یہ آیت بھی محکم ہے (نسخ نہیں ہوئی) کیونکہ اس آیت کا نسخ ہونا دو چیزوں پر موقوف ہے:

( i ) ''سکر،، سے مراد نشہ آور شراب ہو لیکن نسخ کے قائلین یہ ثابت نہیں کر سکتے کہ آیت میں ''سکر،، سے مراد نشہ آور شراب ہے کیونکہ ''سکر،، کے معانی میں سے ایک معنی ''سرکہ،، بھی ہے چنانچہ مشہور مفسر علی بن ابراہیم نے اپنی تفسیر میں ''سکر،، کے اسی معنی (سرکہ) کا ذکر کیا ہے(۲) بنا برایں ''رزق حسن،، سے مراد سرکہ اور اس قسم کے دیگر لذیذ کھانے ہوں گے نشہ آور شراب نہیں تاکہ آیہ تحریم خمر کے ذریعے یہ آیت نسخ ہو جائے۔

____________________

(۱) الناسخ و المنسوخ للخاس، ص ۱۸۱

(۲) تفسیر برہان، ج ۱، ص ۵۷۷

۴۶۴

( ii ) آیہ کریمہ مسکر (نشہ آور چیز) کے مباح ہونے پر دلالت کرے تاکہ دوسری آیت ''مسکر،، کو حرام قرار دے اور پہلی آیت کیلئے ناسخ قرار پائے۔

لیکن نسخ کا قائل اس مطلب کو بھی ثابت نہیں کر سکتا کیونکہ اس آیہ کریمہ میں ایسے کام اور واقعہ کی خبر دی جارہی ہے جسکو عام لوگ انجام دیتے تھے۔ اس آیت سے یہ نہیں سمجھا جاتا کہ اللہ تعالیٰ نے لوگوں کو اس کام کی اجامت بھی دی ہو۔

یہ آیت، اس آیت کے بعد نازل ہوئی ہے جس میں کائنات کے طول و عرض میں پھیلی ہوئی نشانیوں کے ذریعے خدائے واجب الوجود کو ثابت کیا گیا ہے، چنانچہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

( وَاللَّـهُ أَنزَلَ مِنَ السَّمَاءِ مَاءً فَأَحْيَا بِهِ الْأَرْضَ بَعْدَ مَوْتِهَا ۚ إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَآيَةً لِّقَوْمٍ يَسْمَعُونَ ) ۱۶:۶۵

''اور خد ہی نے آسمان سے پانی برسایا تو اس کے ذریعہ سے زمین کو مردہ (پڑتی) ہونے کے بعد زندہ (شاداب) کیا کچھ شک نہیں کہ اس میں جو لوگ بستے، ان کے واسطے (قدرت خدا) بہت بڑی نشانی ہے۔،،

( وَإِنَّ لَكُمْ فِي الْأَنْعَامِ لَعِبْرَةً ۖ نُّسْقِيكُم مِّمَّا فِي بُطُونِهِ مِن بَيْنِ فَرْثٍ وَدَمٍ لَّبَنًا خَالِصًا سَائِغًا لِّلشَّارِبِينَ ) : ۶۶

اور اس میں شک نہیں کہ چوپایوں میں بھی تمہارے لیے عبرت (کی بات) ہے کہ ان کے پیٹ میں (خاک ملا)گوبر اور خون (جو کچھ بھرا ہوا ہے) ا س میں سے ہم تم کو خالص دودھ پلاتے ہیں جو پینے والوں کے لیے خوشگوار ہے۔،،

( وَمِن ثَمَرَاتِ النَّخِيلِ وَالْأَعْنَابِ تَتَّخِذُونَ مِنْهُ سَكَرًا وَرِزْقًا حَسَنًا ۗ إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَآيَةً لِّقَوْمٍ يَعْقِلُونَ ) :۶۷

''اور اسی طرح خرمے اور انگور کے پھل سے (ہم تم کو شیرہ پلاتے ہیں) جس کی (کبھی تو) شراب بنالیا کرتے ہو اور (کبھی) اچھی روزی (سرکہ وغیرہ) اس میں شک نہیں کہ اس میں بھی سمجھ دار لوگوں کے لیے (قدرت خدا کی) بڑی نشانی ہے۔،،

۴۶۵

( وَأَوْحَىٰ رَبُّكَ إِلَى النَّحْلِ أَنِ اتَّخِذِي مِنَ الْجِبَالِ بُيُوتًا وَمِنَ الشَّجَرِ وَمِمَّا يَعْرِشُونَ ) :۶۸

''اور (اے رسول(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم)) تمہارے پروردگار نے شہد کی مکھی کے دل میں یہ بات ڈال دی کہ تو پہاڑوں اور درختوں اور لوگ جو اونچی اونچی ٹیٹاں (اور مکانات پاٹ کر) بناتے ہیں ان میں چھتّے بنا۔،،

( ثُمَّ كُلِي مِن كُلِّ الثَّمَرَاتِ فَاسْلُكِي سُبُلَ رَبِّكِ ذُلُلًا ۚ يَخْرُجُ مِن بُطُونِهَا شَرَابٌ مُّخْتَلِفٌ أَلْوَانُهُ فِيهِ شِفَاءٌ لِّلنَّاسِ ۗ إِنَّ فِي ذَٰلِكَ لَآيَةً لِّقَوْمٍ يَتَفَكَّرُونَ ) : ۶۹

''پھر ہر طرح کے پھلوں (کے بورے سے) ان کا چوس پھر اپنے پروردگار کی راہوں میں تابعداری کے ساتھ چلی جا مکھیوں کے پیٹ سے پینے کی ایک چیز نکلتی ہے (شہد) جس کے مختلف رنگ ہوتے ہیں اس میں لوگوں (کی بیماریوں) کی شفا (بھی) ہے اس میں شک نہیں کہ اس میں غور و فکر کرنے والوں کے واسطے (قدرت خدا کی) بہت بڑی نشانی ہے۔،،

اس آیت میں منجملہ آثار قدثرت میں سے ایک یہ ہے کہ خدا نے آسمان سے پانی نازل کیا اور اس سے مردہ زمین کو زندہ کردیا۔ اس کے بعد حیوانات کی خلقت میں تدبیر خداوندی کا بیان ہے اور یہ کہ اللہ تعالیٰ گوبر اور خون کے درمیان سے خالص دودھ پیدا کرتا ہے۔ پھر یہ بیان ہے کہ اللہ تعالیٰ نے کھجور اور انگور میں وہ صلاحیت پیدا کی جس کے ذریعے لذیذ چیزوں سے نشہ آور اشیاء بنائی جاسکتی ہےں اور باقی پھلوں میں یہ امتیاز صرف کھجور اور انگور کو حاصل ہے۔

اس کے بعد شہد کی مکھی کے ان حیرت انگیز کارناموں کا ذکر فرمایاجنہیں سن اور دیکھ کر وہ صاحبان عقل دنگ رہ جاتے ہیں جو شہد بنانے کے طریقوں اور اس کی خصوصیات سے آگاہ ہوتے ہیں اور یہ کہ شہد کی مکھی یہ سب کچھ خدا کی وحی اور الہام کے ذریعے انجام دیتی ہے۔

۴۶۶

پس معلوم ہوا ہے کہ اس آیت میں مسکر کو مباح و حلال قرار دینے کی کوئی دلیل نہیں۔ اس کے علاوہ اسی آیت میں اس بات کی طرف اشارہ موجود ہے کہ (بفرض تسلیم سکر سے مراد نشہ آور چیز بھی ہو تو) نشہ آور چیز کو پینا جائز نہیں اس لیے کہ نشہ آور چیز کو رزق حسن کے مقابلے میں پیش کیا گیا ہے۔ اس سے یہ بات ہوتا ہے کہ نشہ آور چیز کا شمار رزق حسن میں نہیں ہوتا اس لیے یہ مباح بھی نہیں ہوگا۔

اہل بیت اطہار (ع) کی روایات بھی اس پر دلالت کرتی ہیں کہ شراب نوشی کسی وقت اور زمانے میں حلال نہیں تھی۔ چنانچہ شیخ صدوق اپنی سند کے ذریعے محمد بن مسلم سے روایت کرتے ہیں:

''قال: سئل ابو عبد الله علیه السلام عن الخمر فقال: قال رسول الله ان اول ما نهانی عنه ربی عزوجل عبادة الاوثان و شرب الخمرٍ،،

''حضرت امام جعفر صادق(علیہ السلام) سے شراب کے بارے میں سوال کیا گیا تو آپ (ع) نے فرمایا: رسول اللہ نے فرمایا: پہلی چیز جس سے اللہ نے مجِھے منع فرمایا وہ بت پرستی اور شراب نوشی ہے۔۔۔،،

نیز ریان، امام رضا (علیہ السلام) سے نقل کرتے ہیں کہ آپ(ع) نے فرمایا:

قال : ما بعث الله نبیّا الا بتحریم الخمر،، (۱)

''اللہ تعالٰ نے جس نبی کو بھی بھیجا اسے حرمت شراب کا حکم دے کر بھیجا۔،،

____________________

(۱)البحار، ج ۱۶، ص ۱۸۔۲۰، باب حرمۃ شرب الخمر۔ وافی، ج ۱۱، ص ۷۹ میں اس کے لیے ایک مستقل باب مخصوص کیا گیا ہے۔

۴۶۷

اعجاز کی بحث میں بھی گزر چکا ہے کہ شراب کو تورات میں بھی حرام قرار دیا گیا ہے۔(۱) لیکن ایک حقیقت، جس میں کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں، یہ ہے کہ اسلام نے ایک عرصہ تک حرمت شراب کا اعلان نہیں کیا اور یہ بات صرف شراب سے مختص نہیں ہے، تمام احکامات پر اسی طریقے سے عمل کیا گیا ہے، ظاہر ہے اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں ہے کہ شراب پہلے حلال تھی اور بعد میں حرام قرار دی گئی۔

( الزَّانِي لَا يَنكِحُ إِلَّا زَانِيَةً أَوْ مُشْرِكَةً وَالزَّانِيَةُ لَا يَنكِحُهَا إِلَّا زَانٍ أَوْ مُشْرِكٌ ۚ وَحُرِّمَ ذَٰلِكَ عَلَى الْمومنينَ ) ۲۴:۳

''زنا کرنے والا مرد تو زنا کرنے والی ہی عورت یا مشرکہ سے نکایح کرے گا اور زنیا کرنے والی عورت بھی بس زنیا کرنے والے ہی مرد یا مشرک سے نکاح کرے گی اور سچے ایمانداروں پر تو اس قسم کے تعلقات حرام ہیں۔،،

سعید بن مسیّب اور بہت سے دیگر علماء کا عقیدہ یہ ہے کہ یہ آیت اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کے ذریعے نسخ ہو گئی ہے:

( وَأَنكِحُوا الْأَيَامَىٰ مِنكُمْ وَالصَّالِحِينَ مِنْ عِبَادِكُمْ وَإِمَائِكُمْ ۚ ) ۲۴:۳۲

''اوراپنی (قوم کی) بے شوہر عورتوں اور اپنے نیک بخت غلاموں اور لونڈیوں کا بھی نکاح کردیا کرو۔،،

آیہ اوّل کے مطابق زانی عورت سے وہی نکاح کرسکتا ہے جو خود زانی یا مشرک ہو۔ جب کہ دوسری آیت کیمطابق مطلق بے ہمسر مسلمان سے نکاح جائز ہے چاہے وہ زانی ہو یا نہ ہو۔ کیونکہ ''ایامیٰ،، (بے ہمسر) دونوں کو شامل ہے۔ اس طرح دوسری آیت پہلی آیت کے لیے ناسخ قرار پائے گی۔

لیکن حق یہی ہے کہ گذشتہ آیات کی طرح یہ آیت بھی نسخ نہیں ہوئی۔ کیونکہ اس آیت کا نسخ ہونا اس بات پر موقوف ہے کہ آیت میں نکاح سے مراد ازدواج ہو، اور کسی دلیل سے یہ ثابت نہیں کہ اس آیت میں نکاح سے مراد شادی یا ازدواج ہے۔

____________________

) ۱) اسی کتاب کے صفحہ ۵۶ کی طرف رجوع فرمائیں۔

۴۶۸

اس کے علاوہ اگر اس آیت میں نکاح سے مراد ازدواج ہو تو اس کا لازمی نتیجہ یہ ہوگا کہ زانی مسلمان کے لیے مشرک عورت سےشادی کرنا جائز ہے۔ اسی طرح یہ بھی لازم آتا ہے کہ مسلمان زانی عورت کے لیے مشرک مرد سے شادی کرنا جائز ہے اور یہ بات ظاہر کتابِ الہی اور سیرتِ مسلمین کے خلاف ہے

بنابرایں آیت سے یہی ظاہر ہوتا ہے کہ نکاح سے مراد مطلق ہمبستری ہے۔ چاہے جائز طریقے سے ہو یا زنا ہو۔ اس آیت میں جواز یا عدم جواز کا حکم بیان نہیں کیا جارہا بلکہ یہ ایک جملہ خبر یہ ہے۔ اس کے ذریعے حرمتِ زنا کی شدّت بیان کی جارہی ہے اور اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ زانی مرد صرف زانی عورت یا اس سے بھی پست، مشرک عورت سے زنا کرتاہے اسی طرح زانی عورت بھی صرف کسی زانی مرد یا اس سے بھی پست مشرک مرد سے زنا کرتی ہے۔ مومن انسان کبھی بھی اس قسم کے گناہوں کا مرتکب نہیں ہوتا کیونکہ زنا ایک حرام فعل ہے اور وہ حرام فعل انجام نہیں دیتا۔

( قُل لِّلَّذِينَ آمَنُوا يَغْفِرُوا لِلَّذِينَ لَا يَرْجُونَ أَيَّامَ اللَّـهِ ) ۴۵:۱۴

''(اے رسول(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم)) مومنوں سے کہدو کہ جو لوگ خدا کے دنوں کی (جو جزا کے لیے مقرر ہیں) توقع نہیں رکھتے ان سے درگزر کریں۔،،

بعض مفسرین کا یہ عقیدہ ہے کہ یہ آیت، آیہ سیف کے ذریعے نسخ ہوگئی ہے اس آیت کا شان نزول یوں بیان کرتے ہیں کہ یہ آیت مکی ہے اور یہ اس وقت نازل ہوئی جب ہجرت سے قبل مکّہ میں حضرت عمر بن خطاب کو کسی مشرک نے گالی دی اور اور ان کی توہین کی اور حضرت عمر اسے سزا دینا چاہتے تھے اس موقع پر اللہ تعالیٰ نے یہ ایت نازل فرمائی۔ لیکن بعد میں آیت، اس آیہ سیف کے ذریعے منسوخ ہوگئی:

( فَاقْتُلُوا الْمُشْرِكِينَ حَيْثُ وَجَدتُّمُوهُمْ ) ۹:۵

''تو مشرکوں کو جہاں پاؤ (بے تامّل) قتل کردو۔،،

۴۶۹

یہ حضرات اپنے دعویٰ کی دلیل کے طور پر اس روایت کو پیش کرتے ہیں جس کی روایت علیل بن احمد نے محمد بن ہاشم سے، اس نے عاصم بن سلیمان سے، اس نے جویبر سے اس نے ضحاک سے او ضحاک نے ابن عباس سے کی ہے۔(۱)

لیکن یہ روایت ہے بہت ضعیف ہے، اس کا سب سے معمولی اور کمزور پہلو یہ ہے کہ اس کے سلسلہئ سند میں عاصم بن سلیمان شامل ہے جو بہت بڑا جھوٹا اور جعل ساز راوی ہے۔(۲) اس کے علاوہ یہ روایت متن کے اعتبار سے

بھی کمزور اور ناقابل عمل ہے۔ کیونکہ ہجرت سے پہلے مسلمان کمزور تھے اورایسے حالات میں حضرت عمر کے لیے یہ کیسے ممکن تھا کہ وہ اس مشرک سے انتقال لیتے۔ نیز اس روایت میں لفظ ''غفران،، استعمال ہوا ہے۔ یہ لفظ ایسے مقام ہر استعمال کیاجاتا ہے جہاں کوئی انتقال لینے پر قادر ہو لیکن چشم پوشی اور درگزر کرے اور یہ مسلّم ہے کہ ہجرت سے قبل حضرت عمر کے لیے یہ ممکن نہ تھا۔ اس لیے کہ اگر حضرت عمر انتقام لیتے تو مشرک بھی جوابی کارروائی کرتا۔

پس حق یہی ہے کہ یہ آیت محکم ہے (نسخ نہیں ہوئی) آیہ شریفہ کے مطلب یہ ہے کہ جو لوگ آخرت کی امید نہیں رکھتے ان کی طرف سے اگر تمہیں ذاتی طور پر کوئی اذیت پہنچے اور تمہاری توہین کی جائے تو تمہیں اسے درگزرکردینا چاہیے، اس حقیقت پر یہ آیت بھی دلالت کرتی ہے:

( لِيَجْزِيَ قَوْمًا بِمَا كَانُوا يَكْسِبُونَ ) ۴۵:۱۴

''تاکہ وہ لوگوں کے اعمال کا بدلہ دے۔،،

____________________

(۱) الناسخ و المنسوخ للخاس، ص ۲۱۸

(۲) اس کے بارے میں ابن عدی کا کہنا ہے کہ یہ شخص من گھڑت احادیث وضع کرنے والوں میں سے ایک ہے، اور یہ کہ اس کی اکثر احادیث متن اور سند کے اعتبار سے متزلزل ہیں۔

۴۷۰

( مَنْ عَمِلَ صَالِحًا فَلِنَفْسِهِ ۖ وَمَنْ أَسَاءَ فَعَلَيْهَا ۖ ثُمَّ إِلَىٰ رَبِّكُمْ تُرْجَعُونَ ) : ۱۵

''جو شخص نیک کام کرتا ہے تو خاص اپنے لیے اور برا کام کرے گا تو اس کا وبال اسی پر ہوگا پھر (آخر) تم اپنے پروردگار کی طرف لوٹا ئے جاؤگے۔،،

پس اس آیت سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ جو آدمی روز آخرت کا امیدوار نہیں، چاہے وہ مشرک، اہل کتاب یا مسلمان ہو، جو اپنے دین کا صحیح پابند نہی، اس کے بُرے اعمال اور زیادتیوں کی سزا خدا کے ہاتھ میں ہے۔ کوئی ظالم، ظلم کرکے خدا سے بچ نہیں سکتا لہذا مسلمان اور مومن کو چاہےے کہ وہ ظالموں سے انتقام لینے میں جلد بازی نہ کرے، اس لیے کہ خدا کا انتقام، مظلوم کے انتقام سے زیادہ سخت ہے، یہ ایک اخلاقی اور تادیبی حکم ہے اور یہ دعوتِ اسلام یا کسی اور ضرورت کی خاطر کفار سے قتال و جہاد کے منافی نہیں ہے۔ اس لحاظ سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ یہ آیت، آیہ سیف سے پہلے نازل ہوئی ہو یا اس کے بعد نازل ہوئی ہو۔

( فَإِذَا لَقِيتُمُ الَّذِينَ كَفَرُوا فَضَرْبَ الرِّقَابِ حَتَّىٰ إِذَا أَثْخَنتُمُوهُمْ فَشُدُّوا الْوَثَاقَ فَإِمَّا مَنًّا بَعْدُ وَإِمَّا فِدَاءً ) ۴۷:۴

'' تو جب تم کافروں سے بھڑو تو (ان کی) گردنیں مارو یہاں تک کہ جب انہیں زحموں سے چور کر ڈالو تو ان کی مشکیں کس لو پھر اس کے بعد یا تو احسان رکھ کر چھوڑ دینا یا معاوضہ لے کر رہا کرنا۔

علماء کی ایک جماعت کا عقیدہ ہے کہ یہ آیت، آیہ سیف کے ذریعے نسخ ہوگئی ہے اور بعض کا خیال ہے کہ آیہ سیف، اس آیت کے ذریعے نسخ ہوئی ہے۔(۱)

لیکن قول حق یہی ہے کہ یہ آیت ناسخ ہے اور نہ منسوخ۔ البتہ اس مسئلے کی تحقیق مزید تفیصل کی متقاضی ہے۔

____________________

(۱) الناسخ و المنسوخ للخاس، ص ۲۲۰۔

۴۷۱

مسلمانوں سے برسر پیکار کفار کے احکام

شیعہ امامیہ میں یہ حکم مشہور ہے کہ مسلمانوں سے برسرپیکار کفار جب تک اسلام نہ لے آئیں، مکمل شکست سے دوچار نہ ہوجائیں اور زیادہ تعداد میں مارے جانے کی وجہ سے عاجز نہ آجائیں، وہ واجب القتل ہیں۔ صرف اسیری کی وجہ سے کافر کا قتل ساقط نہیں ہوتا۔ اگر کافر مسلمان ہوجائے تو قتل کا موضوع ہی برطرف ہوجاتا ہے کیونکہ موضوع قتل، کفر ہے۔

اسی طرح کفار کی مکمل شکست کے بعد ان کا قتل ساقط ہوجاتا ہے۔ کیونکہ آیت میں اس موقت تک کفار کو قتل کرنے کا حکم دیا گیا ہے جب تک انہیں شکست نہ ہوجائے البتہ قتل کے ساقط ہو نے کے بعد حاکم شرع کو اختیار ہے کہ چاہے تو پکڑے جانے والے کافروں کو اسیر بنائے یا ان سے فدیہ و تاوان وصول کرے یا ان پر احسان کرتے ہوئے انہیں بلاعوض آزاد کردے اس حکم میں بت پرست ،مشرک اور اہل کتاب شریک ہیں۔

ان احکام پر علماء کے اجماع و اتفاق کا دعویٰ کیا گیا ہے اور بہت شاذ و نادر افراد نے ان احکام کی مخالفت کی ہے ار ان کی رائے بھی قابل توجہ نہیں۔ چناچنہ آئندہ بحثوں میں اس کی مزید وضاحت آئے گی۔ انشاء اللہ تعالیٰ۔

اگر ''شد الوثاق،، سے مراد غلام بنانا ہو تو آیہ کریمہ کے ظہور سے بھی یہی احکام سمجھے جاتے ہیں، جن کا ذکر کیا گیا ہے '' شد الوثاق،، سے غلام بنانے کا معنی اس لیے سمجھا گیا ہے کہ ''شدّ الوثاق،، کا معنی ہے: کسی کی آزادی کا سلب کرنا، جب تک اسے بلاعوض یا عوض لے کر آزاد نہ کیا جائے اور یہ معنی غلام بنانے سے زیادہ سازگار ہے۔

اگر ''شدّ الوثاق،، کا معنی غلام بنانا نہ ہو پھر بھی کافر سے فدیہ لینے اور اس پر احسان کرتے ہوئے اسے ازاد کرنے کے ساتھ، اسے غلام بنانے کا بھی حکم موجود ہے، کیونکہ دلیل سے ثابت ہے کہ کافر کو غلام بناناجائز ہے۔ اس دلیل کے ذریعے آیت کے اطلاق کی تقیید ہوگی۔

۴۷۲

مذکورہ احکام اس روایت میں موجود ہیں جسے کلینی اور شیخ طوسی نے طلحہ بن زید سے اور اس نے حضرت ابو عبد اللہ الصادق (علیہ السلام) سے روایت کی ہے: امام (ع) فرماتے ہیں:

''میرے والد گرامی فرماتے تھے: جنگ کے دو حکم ہیں: ایک یہ کہ اگر کفار کے ساتھ جنگ جاری ہو اور ابھی کفار کو شکست نہ ہوئی تو کافر قیدیوں کے بارے میں امام (ع) کو اختیار ہے کہ چاہے تو انہیں قتل کردے اور چاہے تو ان کا بایاں پاؤں کاٹے اور اسے بدن سے جدا نہ کرے تاکہ ان کا خون نکلتا رہے اور اس طرح وہ مرجائیں چنانچہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

( إِنَّمَا جَزَاءُ الَّذِينَ يُحَارِبُونَ اللَّـهَ وَرَسُولَهُ وَيَسْعَوْنَ فِي الْأَرْضِ فَسَادًا أَن يُقَتَّلُوا أَوْ يُصَلَّبُوا أَوْ تُقَطَّعَ أَيْدِيهِمْ وَأَرْجُلُهُم مِّنْ خِلَافٍ أَوْ يُنفَوْا مِنَ الْأَرْضِ ۚ ذَٰلِكَ لَهُمْ خِزْيٌ فِي الدُّنْيَا ۖ وَلَهُمْ فِي الْآخِرَةِ عَذَابٌ عَظِيمٌ ) ۵:۳۳

'' جو لوگ خدا اور اس کے رسول(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) سے لڑتے بھڑتے اور (احکام کو نہیں مانتے) اور فساد پھیلانے کی غرض سے ملکوں (ملکوں) دوڑتے پھرتے ہیں ان کی سزا بس یہی ہے کہ (چن چن کر) یا تو مار ڈالے جائیں یا انہیں سولی دے دی جائے یا ان کے ہاتھ پاؤں ہیر پھیر کے (ایک طرف کا ہاتھ، دوسری طرف کا پاؤں) کاٹ ڈالے جائیں، یا انہیں اپنے وطن کی سرزمین سے شہر بدر کردیا جائے، یہ رسوائی تو ان کی دنیا میں ہوئی اور پر آخرت میں تو ان کے لیے بہت بڑا عذاب ہی ہے۔،،

اس کے بعد امام (ع) نے فرمایا:

''کیا تم دیکھتے نہیں اللہ تعالیٰ نے صرف کفر کی صورت میں امام (ع) کو یہ اختیار دیا ہے، ہر مقام پر نہیں طلحہ کہتے ہیں کہ میں نے امام (ع) سے عرض کیا: آیہ کریمہ :''او ینفوا من الارض،، کا کیا مطلب ہے؟ آپ نے فرمایا: اس کا مطلب یہ ہے کہ مسلمان کفار کو منتشر کردیں اور انہیں بھگا دیں اور اگر مسلمان کفار کا تعاقب کریں اور انہیں گرفتار کرلیں تو ان پر وہ احکام لاگو ہوں گے۔

۴۷۳

دوسرا یہ کہ جب کفار سے جنگ بند ہوجائے اور انہیں شکست دے دی جائے، اس وقت جو بھی قیدی بنایا جائے اور وہ مسلمانوں کے قبضے میں ہو، اس کے لیے امام (ع) کو اختیار ہے کہ چاہے تو اس پر احسان کرے اور اسے آزاد کر دے، چاہے تو اس سے فدیہ و تاوان وصول کرے اور اگر چاہے تو اسے غلام بنالے۔،،(۱)

کفار کی شکست کے بعد ان سے قتل کے ساقط ہونے پر ضحاک اور عطاء بھی ہم سے متفق ہےں اور حسن نے بھی اس بات کی تصریح کی ہے کہ اس صورت میں امام (ع) کو آزاد کرنے، فدیہ لینے اور غلام بنانے میں اختیارحاصل ہے۔(۲)

گذشتہ بیانات کی روشنی میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ زیر بحث آیہ کریمہ نسخ نہیں ہوئی یہ اور بات ہے کہ بعض مقامات سے قتل مختص ہے اور بعض مقامات پر عدم قتل۔ اس اعتبار سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ آیہ سیف زیر بحث آیت سے پہلے نازل ہوئی ہو یا بعد میں۔

مقام تعجب ہے کہ شیخ طوسی نے اس مسئلے میں علمائے امامیہ کی طرف اس قول کی نسبت دی ہے کہ جنگ بندی کے بعد اسیر کے بارے میں امام کو اسیر کے قتل، آزاد کرنے، اس سے تاوان وصول کرنے اور اسے غلام بنانے میں اختیار حاصل ہے۔ چنانچ شیخ طوسی فرماتے ہیں:

''ہمارے اصحاب نے یہ روایت کی ہے کہ اگر جنگ بندی سے پہلے کسی قیدی کو گرفتار کیا جائے تو امام کو اختیار ہے کہ چاہے اس قتل کردے، چاہے اس کے ہاتھ پاؤں کاٹ دے اور اس طرح چھوڑ دے کہ وہ مرجائے۔ وہ اسے بلاعوض آزاد نہیں کرسکتا اور نہ اس سے تاوان وصول کرکے آزاد کرسکتا ہے اور اگر جنگ بندی کے بعد کسی کافر کو قیدی بنایا جائے تو امام کو اسے بلاعوض آزاد کرنے، تاوان مالی یا جانی لے کر آزاد کرنے، غلام بنانے اور قت کرنے میں اختیار ہے۔،،

____________________

(۱) الوافی، ج ۹، ص۲۳

(۲) قرطبی، ج ۱۶، ص ۲۲۷، الناسخ و المنسوخ، ص ۲۲۱۔

۴۷۴

طبرسی نے اپنی تفسیر میں بھی شیخ طوسی کی متابعت کی ہے۔(۱) جبکہ اس مضمون کی کوئی روایت وارد نہیں ہوئی، بلکہ خود شیخ طوسی اپنی کتاب ''مبسوط،،(۲) میں اس بات کی تصریح کرتے ہیں کہ جو قیدی جنگ بندی کے بعد گرفتار کیا جائے اس کے بارے میں امام کو اختیار ہے کہ اس پر احسان کرکے اسے بلا عوض آزاد کردے یا اسے غلام بنائے اور یا اس سے تاوان وصول کرکے آزاد کرے۔ اسے قتل نہیں کیا جاتا۔ چنانچہ ہمارے علماء کی روایات بھی اسی بات پر دلالت کرتی ہیں۔

بلکہ چیخ طوسی نے اپنی کتاب ''خلاف،، کے باب ''فئی، اور ''غنائم،، میں اس بات پر اجماع کا دعویٰ کیا ہے جن حضرات نے اس بات پر اجماع کا دعویٰ کیا ہے ان میں علاّمہ مرحوم بھی ہیں انہوں نے اپنی دونوں کتابوں ''المنتہیٰ،، اور ''التذکرہ،، کے باب جہاد میں، اسیروں کے احکام میں اجماع کا دعویٰ کیا ہے۔

میرے خیال میں شیخ طوسی کی کتاب ''التبیان،، میں لفظ ''ضرب الرقاب،، (اسیروں کو قتل کرنا) لغزشِ قلم کا نتیجہ ہوگا اور مرحوم طبرسی نے بغیر کسی تحقیق کے اس بات کو لے لیا ہے۔

یہاں تک اس مسئلے میں علمائے شیعہ امامیہ، ضحاک، عطاء اورحسن کے نظریات بیان کیے گئے۔

آیت کے بارے میں بعض دیگر عقائد

اس مسئلے میں باقی علمائے اہل سنت کے مختلف اقوال نظر آتے ہیں:

۱۔ یہ آیت مشرکین کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔ پھر یہ آیت، آیہ سیف کے ذریعے نسخ ہوگئی۔ یہ قول قتادہ، ضحاک، سدی، ابن جریح، ابن عباس اور بہت سے کوفی علماء کی طرف منسوب ہے۔ یہ حضرات کہتے ہیں کہ مشرک قیدی کو قتل کرنا واجب ہے اسے بلا عوض یا تاوان وصول کرکے آزاد کرنا جائز نہیں۔(۳)

____________________

(۱) التبیان، ج ۹، ص ۲۹۱، طبع نجف۔

(۲) المبسوط، کتاب الجہاد، فصل فی اضاف الکفار و کیفیۃ قتالہم۔

(۳) تفسیر قرطبی، ج ۱۶، ص ۲۲۷

۴۷۵

جواب: اس قول کے رو سے آیت کے نسخ کی کو ئی وجہ او جواز نہیں بنتا۔ کیونکہ یہ آیت مقید ہے اور آیہ سیف مطلق ہے، چاہے یہ آیت، آیہ سیف سے پہلے نازل ہوئی ہو یا بعد میں۔ اس سے پہلے ہم اس بات کی وضاحت کرچکے ہیں کہ عامِ مؤخر خاصِ مقدم کا ناسخ نہیں بن سکتا تو مطلق متاخر مقید مقدم کے لیے بطریقِ اولیٰ ناسخ نہیں بن سکتا۔(۱)

۲۔ یہ عام کفار کے بارے میں نازل ہوئی لیکن صرف مشرکین کے سلسلے میں نسخ ہوگئی ہے۔ یہ قول قتادہ، مجاہد اور حکم کی طرف منسوبگ ہے۔ مذہب ابو حنیفہ میں بھی قول مشہور ہے۔(۲)

جواب: پہلے کی طرح یہ قول بھی باطل ہے۔ کیونکہ یہ قول اس صورت میں صحیح ہوسکتا ہے جب آیہ سیف، زیرِ بحث آیت کے بعد نازل ہوئی ہو اور نسخ کے قائل حضرات یہ بات ثابت نہیں کرسکتے یہ حضرات اپنے مدعیٰ کے اثبات کے لیے صرف خبر واحد سے تمسک کرسکتے ہیں او علماء کا اجماع ہے کہ خبر واحد سے نسخ ثابت نہیں ہوسکتا۔

اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ خبر واحد سے نسخ ثابت ہو جاتا ہے پھر بھی آیہ سیف کے ناسخ ہونے کی دلیل نہیں بنتی تاکہ یہ قول ثابت ہو۔ بلکہ ثابت یہ ہوگا کہ زیر بحث آیت، آیہ سیف کے لیے مقید ہو۔ اس لیے کہ امت کا اس پر اتفاق ہے کہ یہ آیت مشرکین کو بھی شامل ہے یا اس سے صرف مشرکین ہی مراد ہیں۔ بنابرایں یہ آیت، آیہ سیف کے لیے ایک قرینہ ہوگی کیونکہ مطلق مقید کے لیے ناسخ نہیں بن سکتا۔

اگر ان تمام باتوں سے چشم پوشی بھی کی جائے تو یہ مسلّم ہے کہ زیربحث آیت اور آیہ سیف میں عموم اور حصوص من وجہ کی نسبت پائی جاتی ہے۔ یعنی کہیں تو مشرک ہے لیکن جنگ بندی کے بعد قیدی نہیں۔ یہاں مشرک کے لیے حکم قتل ہی ثابت ہوگا اور کہیں جنگ بندی کے بعد قیدی ہوگا مشرک نہیں۔ یہاں اسے قتل نہیں کیا جائے گا۔

____________________

(۱) ہم نے اپنی کتاب ''اجود التقریرات،، کی عموم و خصوص کی بحث میں اس مسئلے کو تفصیل سے بیان کیا ہے۔

(۲) تفسیر قرطبی، ج ۱۶، ص ۲۲۷

۴۷۶

ایک مقام وہ ہوسکتا ہے جہاں کافر، مشرک ہو اور جنگ بندی کے بعد اسے اسیر بنالیا جائے۔ یہاں دو مختلف احکام میں ٹکراؤ ہوگا۔ ظاہرہے اس صورت میں دونوں آیتیں ایک دوسرے کے لیے ناسخ نہیں ہونگی بلکہ اس آیت کے مضمون پر عمل ہوگا جس کی تائید کوئی دوسری دلیل کرے۔

۳۔ زیر بحث آیت، آیہ سیف کی ناسخ ہے یہ قول ضحاک وغیرہ کی طرف منسوب ہے۔(۱)

جواب: یہ قول اس صورت میں صحیح ہوگا جب اس آیت کا آیہ سیف کے بعد نازل ہونا ثابت ہو۔ اس کو ضحاک وغیرہ ثابت نہیں کرسکتے۔اس کے علاوہ اس سے قبل اس امر کی وضاحت کر دی گئی ہے کہ چاہے یہ آیت، آیہ سیف سے مقدم ہو یا مؤخر، اس کے نسخ ہونے کی کوئی وجہ نہیں ہے۔

۴۔ ہر حالت میں قتل کرنے، غلام بنانے، فدیہ لے کر آزاد کرنے اور بلا عوض آزاد کرنے کا اختیار امام کو حاصل ہے۔ اس قول کو ابو طلحہ نے ابن عباس سے نقل کیا ہے جسے بہت سے علمائے کرام نے اپنایا ہے۔ ان میں ابن عمر، حسن اور عطاء شامل ہیں۔ مالک، شافعی، ثوری، اوزاعی اور ابی عبید وغیرہ کا بھی یہی عقیدہ ہے۔ اس قول کے مطابق آیہ کریمہ میں کسی قسم کا نسخ نہیں ہوا۔(۲) نحاس اس قول کو ذکر کرنے کے بعد کہتے ہیں:

''یہ قول اس بنیاد پر قائم ہے کہ دونوں آیتیں، آیہ سیف اور آیہ عفو، محکم ہیں (نسخ نہیں ہوئیں) اور دونوں کے ظاہر پر عمل کیا گیا ہے۔ یہ قول بالکل صحیح ہے کیونکہ نسخ کے لیے کسی قطعی اور مسلّم دلیل کی ضرورت ہوتی ہے اور جہاں پر دونوں آیتوں پر عمل کرنا ممکن ہے وہاں نسخ کوئی معنی نہیں رکھتا۔ یہ قول اہل مدینہ، شافعی اور ابو عبید سے منقول ہے۔،،(۳)

____________________

(۱) تفسیر قرطبی، ج ۱۶، ص ۲۲۷

(۲) تفسیر قرطبی، ج ۱۶، ص ۲۲۸

(۳) الناسخ و المنسوخ، ص ۲۲۱

۴۷۷

جواب: اگرچہ اس قول سے آیہ شریفہ کا نسخ ہونا لاز م نہیں آتا لیکن پھر بھی یہ باطل ہے کیونکہ آیت میں اس امر کی تصریح ہے کہ کفار کی شکست اور جنگ بندی کے بعد ہی ان قیدیوں کو بلا عوض یا عوض لیکر آزاد کیا جاسکتا ہے۔ بنابریں کفار کی شکست سے پہلے بلاعوض یا عوض لے کر اسیروں کی آزادی کا قائل ہونا سراسر قرآن کی خلاف ورزی ہے۔

اسی طرح آیہ کی رو سے قتل کی اس وقت تک اجازت ہے جب تک کفار کو شکست نہیں ہوتی۔ لیکن کفار کی شکست کے بعد بھی ان کے قتل کا قائل ہونا، خلاف قرآن ہے۔

اس سے قبل بیان کیا جاچکا ہے کہ اس آیت کے ذریعے آیہ سیف کی تقیید کی گئی ہے۔

اس قول کی دلیل یہ پیش کی گئی ہے کہ رسول اللہ(ص) نے بعض قیدیوں کو قتل کیا، بعض کو ان پر احسان کرتے ہوئے آزاد کردیا اوربعض سے فدیہ و تاوان لے کر ان کو آزاد کردیا تھا۔

اس کا جواب یہ ہے کہ بفرض تسلیم اگر یہ روایت صحیح ہو پھر بھی یہ ثابت نہیں ہوتا کہ قتل کرنے، فدیہ لینے اور بلاعوض آزاد کرنے میں امام کو اختیار حاصل ہے کیونکہ عین ممکن ہے کہ نبی اکرم(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) نے اسیر کو جنگ بندی اور کفار کی شکست سے پہلے قتل کیا ہو۔ اسی طرح یہ بھی ممکن ہے کہ آپ نے کفار کی شکست کے بعد اسیروں کو ان سے فدیہ لے کر اور بغیر فدیہ کے آزادکیا ہو۔

ممکن ہے یہ حضرات (جو ہر حالت میں قتل اور آزاد کرنے میں اختیار کے قائل ہیں) حضرت ابوبکر اور حضرت عمر کے عمل سے استدلال کریں جس کے مطابق انہوں نے اسیروںکو قتل کیا تھا۔

۴۷۸

اس کا جواب یہ ہے کہ اوّلاً یہ واقعہ تاریخی اعتبار سے ثابت نہیں ہے بفرض تسلیم اگر یہ واقعہ صحیح بھی ہو پھر بھی مدعیٰ ثابت نہیں ہوسکتا کیونکہ حضرت ابوبکر اور حضرت عمر کا عمل حجیّت نہیں رکھتا تاکہ اس کی بنیاد پر ظاہر قرآن سے دست بردار ہوا جائے۔

۳۳۔( وَفِي أَمْوَالِهِمْ حَقٌّ لِّلسَّائِلِ وَالْمَحْرُومِ ) ۵۱:۱۹

''اور ان کے مال میں مانگنے والے اور نہ مانگنے والے (دونوں) کا حصّہ تھا۔،،

۳۴۔( وَالَّذِينَ فِي أَمْوَالِهِمْ حَقٌّ مَّعْلُومٌ ) ۷۰:۲۴

( لِّلسَّائِلِ وَالْمَحْرُومِ ) : ۲۵

''اور جن کے مال میں مانگنے والے اور نہ مانگنے والے کے لیے ایک مقرر حصّہ ہے۔،،

ان دونوں آیات کے بارے میں اختلاف ہے کہ آیا یہ نسخ ہوئی ہےں؟ کیونکہ ان آیات میں جس معلوم اور آشکار حق کا ذکر کیا گیا ہے ممکن ہے اس سے مراد واجب زکوٰۃ ہو جو ایک واجب حق ہے۔ ممکن ہے اس سے مراد کوئی اور م الی حق ہو جو واجب ہو اور یہ بھی ممکن ہے کہ اس سے مراد ایک مالی حق ہو جو مستحب ہو۔

اگر اس حق سے مراد زکوٰۃ کے علاوہ کوئی دوسرا واجب حق ہے تو اس صورت میں دونوں آیتیں نسخ ہوں گی اس لیے کہ واجب زکوٰۃ کی وجہ سے قرآن میں موجود تمام دوسرے واجب صدقات نسخ ہوگئے ہیں۔ چنانچہ اس احتمال کو علماء کی ایک جماعت نے اختیار کیا ہے۔ اگر اس حق سے مردا واجب زکوٰۃ یا کوئی دوسرا مالی حق ہے تو اس صورت میں دونوں آیتیں محکم ہوں گی۔

تحقیق اس امر کی متقاضی ہے کہ ان دونوں آیتوں میں حق سے مراد واجب زکوٰۃ کے علاوہ کوئی دوسرا حق ہے جس کی ادائیگی کی شارع نے ترغیب دی ہے۔ شیعہ اور اہل سنت کی بہت سی روایات اس بات کی دلیل ہیں کہ زکوٰۃ کے علاوہ کوئی اور صدقہ واجب نہیں ہے اور اہل بیت اطہار (ع) کی روایات میںیہ بیان موجود ہے کہ اس حق سے کیا مراد ہے۔

۴۷۹

شیخ کلینی نے ابو بصیر سے روایت کی ہے ابو بصیر کہتے ہیں:

''ہم امام صادقؑ کی خدمت میں بیٹھے تھے، ہمارے ساتھ کچھ دولت مند افراد بھی تھے انہوں زکوٰۃ کا ذکر کیا تو امام(ع) نے فرمایا: زکوٰۃ کوئی ایسی چیز نہیں کہ زکوٰۃ ادا کرنے والے تعریف کی جائے۔

یہ تو ایک ظاہر ہے اور مسلّم چیز ہے اسی کی وجہ سے تو مسلمانوں کے خون کو تحفظ ملا ہے اور اسی کی بدولت انسان مسلمان کہلانے کا مستحق قرار پاتا ہے۔ اگر مسلمان زکوٰۃ ادا نہ کرے تو اس کی نماز قبول نہیں ہوگی۔ یہ دیکھو کہ زکوٰۃ کے علاوہ بھی تمہارے اموال میں لوگوں کے کچھ حقوق ہیں۔ میں (ابو بصیر) نے عرض کیا: مولا! زکوٰۃ کے علاوہ ہمارے اموال میں اور کون سے حقوق موجود ہیں؟ آپ نے فرمایا: سبحان اللہ! کیا تم نے اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان نہیں سنا: :( وَالَّذِينَ فِي أَمْوَالِهِمْ حَقٌّ مَّعْلُومٌ ) ( لِّلسَّائِلِ وَالْمَحْرُومِ ) ۔ میں نے عرض کی: آحر وہ کون سا حق ہے۔ آپ نے فرمایا: خدا کی قسم! یہ وہی حق ہے جس کی طرف ہر شخص متوجہ ہے۔ اسے چاہیے کہ ہر روز یا جمعہ میںیا مہینے میں ایک مرتبہ کچھ نہ کچھ دیتا رہے۔،،

نیز کلینی نے اپنی سندسے اسماعیل بن جابر سے اور انہوں نے امام صادقؑ سے نقل کیا ہے:

''آپ سے آیہ کریمہ:( وَالَّذِينَ فِي أَمْوَالِهِمْ حَقٌّ مَّعْلُومٌ ) ( لِّلسَّائِلِ وَالْمَحْرُومِ ) کے بارے میں سوال کیا گیا کہ کیا یہ زکوٰۃ کے علاوہ کوئی حق ہے؟ آپ نے فرمایا: اس حق کا مطلب یہ ہے کہ جس شخص کو خدا مال و دولت دے اسے چاہیے کہ اس میں سے ایک ہزار، دو ہزار یا تین ہزار الگ کرلے اور اس کے ذریعے صلہ رحمی کرے اور قریبی رشتہ داروں کی مشکلات کو حل کرے۔،،

ان کے علاوہ بھی امام باقر اور امام صادق (علیھما السلام) سے اس مضمون کی روایات منقول ہیں۔(۱)

____________________

(۱) الوافی باب الحق المعلوم، ج ۶، ص ۵۲

۴۸۰

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

501

502

503

504

505

506

507

508

509

510

511

512

513

514

515

516

517

518

519

520

521

522

523

524

525

526

527

528

529

530

531

532

533

534

535

536

537

538

539

540

541

542

543

544

545

546

547

548

549

550

551

552

553

554

555

556

557

558

559

560

561

562

563

564

565

566

567

568

569

570

571

572

573

574

575

576

577

578

579

580

581

582

583

584

585

586

587

588

589

590

591

592

593

594

595

596

597

598

599

600

601

602

603

604

605

606

607

608

609

610

611

612

613

614

615

616

617

618

619

620

621

622

623

624

625

626

627

628

629

630

631

632

633

634

635

636

637

638

639

640

641

642

643

644

645

646

647

648

649

650

651

652

653

654

655

656

657

658

659

660

661

662

663

664

665

666

667

668

669

670

671

672

673

674

675

676

677

678

679

680

681

682

683

684

685

686

687

688

689

690

691

692

693

694

695

696

697

698

699

700

701

702

703

704

705

706

707

708

709

710

711

712

713

714

715

716

717

718

719

720

721

722

723

724

725

726

727

728

729

730

731

732

733

734

735

736

737

738

739

740

741

742

743

744

745

746

747

748

749

750

751

752

753

754

755

756

757

758

759

760

761

762

763

764

765

766

767

768

769

770

771

772

773

774

775

776

777

778

779

780

781

782

783

784

785