تفسير راہنما جلد ۱

 تفسير راہنما 10%

 تفسير راہنما مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن
صفحے: 785

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴ جلد ۵ جلد ۶ جلد ۷ جلد ۸ جلد ۹ جلد ۱۰ جلد ۱۱
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 785 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 200925 / ڈاؤنلوڈ: 5793
سائز سائز سائز
 تفسير راہنما

تفسير راہنما جلد ۱

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

۱۳_ ابوسعيد خدرى سے روايت ہے كہ رسول خدا (ص) نے فرمايا:''قال عيسي عليه‌السلام ...''الرحمان'' رحمان الدنيا و الآخرة و''الرحيم'' رحيم الآخرة (۱)

حضرت عيسىعليه‌السلام نے فرمايا رحمان اللہ تعالى كى دنيا و آخرت كے لئے وسيع رحمت ہے _ اور رحيم اللہ تعالى كى آخرت ميں خصوصى رحمت ہے _

اسما و صفات: رحمان ۴،۱۰ َ; رحيم ۴،۱۰

اللہ: اسم اللہ كى خصوصيات۱

اللہ تعالى : اسم اعظم ۱۱;اللہ كا حسن و جمال ۱۰; اللہ كے نام كى اہميت ۷،۸; اللہ كى رحمت كے اسباب ۸; اللہ كى رحمت كے مظاہر ۹; اللہ كى سلطنت ۱۰; اللہ كى عظمت و بزرگي۱۰;خدا كى بلندى ۱۰;خدا كى رحمت كے نتائج ۵،۷; خدا كى رحمانيت ۹،۱۰،۱۳; خدا كى رحيميت ۹،۱۰،۱۳; خد ا كى عمومى رحمت ۵، ۷ ; خدا كى مہربانى ۶; خدا كا نام ۲،۳، ۱۰

بسم اللہ : بسم اللہ كى اہميت ۳; بسم اللہ كى باء ۱۰; بسم اللہ كى سين ۱۰ ،۱۲; بسم اللہ كى فضيلت ۱۱; بسم اللہ كى ميم ۱۰;كاموں ميں اسكے اثرات و نتائج۸

بندگي: بندگى كى نشانياں ۱۲

حديث ۱۰،۱۱،۱۲،۱۳

قرآن كريم: آغاز قرآن ۲; قرآن كى خصوصيات ۲، ۹ قرآن كا رحمت ہونا۲; قرآن كا سرچشمہ ۱;

كام: كام كے آداب ۳; كاموں ميں بسم اللہ ۳; كاموں ميں بسم اللہ كى حكمت يا فلسفہ ۷

مؤمنين: مومنين كے درجات ۱۰

____________________

۱) الدرالمنثور ج/۱ ص۲۳_

۲۱

الْحَمْدُ لِلّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ ( ۲ )

سارى تعريف اللہ كے لئے ہے جو عالمين كا پالنے والا ہے_

۱_سب تعريفيں اللہ كے لئے ہيں _

الحمدلله

''الحمدللہ'' ميں ''ال'' جنس كے لئے ہے جو استغراق كا مفہوم ديتاہے يعنى تمام حمد اللہ كے لئے ہے_

۲_ تما م تر كمالات رعنائيوں اور خوبيوں كا سرچشمہ اللہ تعالى ہے_الحمدلله اللہ تعالى كى حمد حسن و جمال اور كمالات كے مقابلے ميں ہے_ ''الحمدلله '' كے مطابق ہر توصيف و تعريف اللہ كے لئے ہے پس ہر حسن و كمال اسكى ذات اقدس سے ہے_

۳_ صرف اللہ تعالى ہى لائق حمد و ثنا ہے اور اسى كى ستائش ہونى چاہيئے_

الحمدلله

۴_ اللہ تعالى جہان ہستى كے عالمين كا مالك اور تدبير كرنے والا ہے_رب العالمين عالمين كا مفرد عالم ہے _ موجودات كے ايك مجموعہ يا گروہ كو ''عالَم'' كہتے ہيں _ پس عالمين يعنى تمام تر موجودات كے گروہ _

۵_ جہان خلقت متعدد عالموں سے تشكيل پاياہے _رب العالمين يہ مطلب''عالمين ''كے جمع ہونے سے سمجھاجاتاہے_

۶_ عالم ہستى تمام كا تمام خوبصورت اور اس ميں موجود تدبير و حكمت حسين و جميل ہے_

الحمد لله رب العالمين

''رب العالمين'' الحمدللہ كے لئے دليل كے طور پر ہے يعنى چونكہ عالم ہستى كى تدبير كرنے والا خداوند متعال ہے لہذا تمام تعريفيں اسى كے لئے ہيں اور تعريف و توصيف ہميشہ كمال و جمال كے لئے ہوتى ہے پس اسكا نتيجہ يہ نكلتاہے كہ سارے كا سارا جہاں ہستى خوبصورت اور اس ميں موجود تدبير حسين و جميل ہے_

۷_ كائنات كى تدبير و حكمت پروردگار عالم كے اختيار سے ہے اسكے انتظام و انصرام ميں جبر يا اضطرار نہيں پايا جاتا _

الحمدلله رب العالمين

فعل و صفت پر حمد و ثنا اس وقت صحيح ہے جب فعل و صفت حسين اور زيبا ہونے كے علاوہ اختيارى بھى ہوں يعنى اگر فعل يا صفت حسين و جميل ہوں تو فاعل كى حمد و ثنا كى جاسكتى ہے كيونكہ اس نے اپنے اختيار سے اسكو انجام دياہے_

۸_ عالم ہستى كمال كى طرف گامزن ہے_

۲۲

رب العالمين

''رب'' كا معنى تربيت كرنا ہے_ تربيت كا مفہوم پہلى حالت سے ايك نئي حالت پيدا كرنا ہے تا كہ كمال تك پہنچ جائے (مفردات راغب ) _ يہ معنى ايك تكاملى تحرك پر دلالت كرتاہے_ اس بات كى جانب اشارہ مناسب ہے كہ لفظ''رب'' صفت اور مصدر كے درميان مشترك لفظى ہے اور اس آيت ميں اسكا وصفى معنى آياہے_

۹_ اس جہان ہستى كے عالمين كى تدبير و حكمت كا پروردگار عالم كى طرف سےہونا اس بات كى دليل ہے كہ تمام ترتعريفيں مخصوص ہيں اسكى ذات اقدس كے ساتھ_الحمدلله رب العالمين

۱۰_عن ابى عبدالله عليه‌السلام فى قوله : ''الحمدلله'' قال: الشكر لله و فى قوله ''رب العالمين'' قال: خالق المخلوقين ...''(۱)

امام صادقعليه‌السلام سے روايت ہے كہ آپعليه‌السلام نے فرمايا: ''الحمدللہ'' يعنى شكر ، خدا كى ذات سے مخصوص ہے اور ''رب لعالمين'' يعنى اللہ تمام عالمين و مخلوقات كا خالق ہے_

اللہ تعالى : اللہ تعالى سے جو امور مختص ہيں ۱،۲،۳،۹،۱۰; اللہ تعالى كا اختيار ۷; اللہ كا خالق ہونا ۱۰;اللہ كا مالك ہونا ۴;ربوبيت الہي۴

حديث: ۱۰

حسن و رعنائي : حسن و رعنائي كا سرچشمہ۲

حمد: اللہ كى حمد ۱،۳،۱۰; حمد خدا كے دلائل ۹

كمال: كمال كا سرچشمہ ۲

كائنات ( عالم ہستي): خلقت كے عوالم ۵; عالم ہستى كا تحرك۸; عالم ہستى كا تكامل ۸; عالم ہستى كا حسن۶; عوالم ہستى كا مالك ۴;عالمين كا انتظام وانصرام ۴،۹; كائنات كى حكمت ۶،۷

موجودات: موجودات كا خالق ۱۰

____________________

۱) تفسير قمى ج/۱ ص ۲۸ ، نورالثقلين ج/۱ ص ۱۵ ح ۶۰_

۲۳

اَلرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ ( ۳ )

وہ عظيم اور دائمى رحمتوں والا ہے_

۱_ اللہ تعالى رحمان ( وسيع رحمت كا مالك) اور رحيم (مہربان) ہے_الرحمن الرحيم

۲_ تمام ترموجودات خدا وند متعال كى وسيع رحمت سے بہرہ مند ہيں _الرحمن

۳_اللہ تعالى تمام انسانوں پر مہربان ہے_الرحيم

۴_ عالم ہستى كے انتظام اور انصرام كى بنياد اللہ كى رحمت پر ہے_رب العالمين _ الرحمن الرحيم

عالم ہستى كى تدبير يا انتظام و انصرام كے بعد اللہ تعالى كى رحمانيت اور رحيميت كے ذكر سے يہ بات سامنے آتى ہے_

۵_ اللہ كى رحمانيت اور رحيميت اس بات كى دليل ہے كہ تمام تر تعريفيں اسكى ذات اقدس سے مختص ہيں _

الحمدلله رب العالمين _ الرحمن الرحيم

''الرحمن الرحيم''،''رب العالمين'' كى طرح '' الحمدللہ'' كے لئے دليل كا درجہ ركھتى ہے_ يعنى چونكہ خداوند متعال رحمان و رحيم ہے اس لئے تمام ترتعريفيں اسكى ذات اقدس كے لئے سزاوار ہيں _

۶_انتظام و انصرام اور تربيت كو مہربانى اور لطف و كرم كے ساتھ ساتھ ہونا چاہيئے_

رب العالمين _ الرحمن الرحيم

اسماء و صفات: رحمان۱; رحيم ۱

انتظام و انصرام: انتظام كى روش ۶; نظم و انتظام ميں لطف و عنايت ۶

تربيت : تربيت كى روش ۶; تربيت ميں مہربانى يا لطف و كرم ۶

حمد: اللہ تعالى كى حمد كے دلائل ۵

خداوند متعال: اللہ تعالى كى ربوبيت ۴; اللہ كى رحمانيت ۵; اللہ كى رحمت كے نتائج و اثرات ۴;اللہ كى رحمت سے استفادہ ۲; خدا كى رحيميت ۵; اللہ كى عمومى رحمت ۱،۲; اللہ تعالى سے مختص امور۵; اللہ كا مہربان ہونا ۱،۳

كائنات: كائنات كا انتظام و حكمت۴

مہربان ہونا : مہربان ہونے كى اہميت ۶

۲۴

مَالِكِ يَوْمِ الدِّينِ ( ۴ )

روز قيامت كا مالك و مختار ہے _

۱_ اللہ تعالى روز قيامت كا مالك اور فرمانروا ہے_مالك يوم الدين

''مالك يوم الدين'' ميں ملكيت حقيقى ہے يعنى وجودى وابستگى جسكا لازمى نتيجہ يہ ہے مالك ملكيت پر كامل اور ہر طرح كا تسلط ركھتاہے_''يوم الدين'' ممكن ہے مالك كے لئے مفعول ہو اورممكن ہے ظرف ہو_ اگر ظرف ہوتو اس صورت ميں مفعول ممكن ہے لفظ ''الامور'' يا اسكى مثل كوئي اور لفظ ہو اس صورت ميں جملے كى تركيب يوں ہوگي'' مالك الامور فى يوم الدين'' بہر حال يہ مفہوم اس آيہ مجيدہ سے نكل سكتا ہے_

۲_ قيامت كے دن حساب و كتا ب اور جزا و سزا خداوند متعال كے اختيار ميں ہے_مالك يوم الدين

۳_ قيامت كا برپا كرنا اور اہل دنيا كے لئے روز جزا كا قرار دينا اللہ تعالى كى رحمت كا ايك جلوہ ہے_

الرحمن الرحيم _ مالك يوم الدين

رحمت الہى كے بيان كے بعد قيامت كا ذكر كرنا اس مطلب كى طرف اشارہ ہے_

۴_قيامت كا برپا كرنا اللہ تعالى كى جہان ہستى پر ربوبيت كا ايك جلوہ ہے_رب العالمين مالك يوم الدين

مذكورہ بالا مفہوم ''مالك يوم الدين'' كے ''رب العالمين'' كے ساتھ ارتباط سے استفادہ كيا گيا ہے_

۵_ قيامت كا دن جزا و سزا كا دن ہے_

مالك يوم الدين

'' دين'' كا معنى يہاں جزا و سزا يا حساب و كتاب ہے يعنى ہر دو كى بازگشت ايك معنى كى طرف ہے_

۶_ روز جزا ميں خداوند متعال كى مالكيت اور اس دن اسكى فرمانروائي اس بات كى دليل ہے كہ تمام ترتعريفيں اسى كى ذات سے مختص ہيں _

الحمدلله مالك يوم الدين

گذشتہ صفات كى طرح''مالك يوم الدين''، ''الحمدللہ'' كے لئے دليل ہے_

۲۵

اللہ: آخرت ميں اللہ كى حاكميت ۱; آخرت ميں اللہ كي مالكيت ۲; اللہ تعالى سے مختص امور۲،۶; اللہ كى حاكميت ۶; اللہ كى ربوبيت كے مظاہر ۴; اللہ كى رحمت كے مظاہر ۳اللہ كى طرف سے آخرت ميں جزا ۲; اللہ كى طرف سے اخروى سزا ۲; اللہ كى طرف سے حساب و كتاب ۲; اللہ كى مالكيت ۶

حمد: اللہ كى حمد كے دلائل ۶

قيامت: قيامت كا برپا ہونا ۳،۴; قيامت كا مالك ۱،۶; قيامت كى خصوصيات ۵،۶قيامت ميں جزا۵; قيامت ميں حاكم۱،۶; قيامت ميں حساب كتاب ۲،۳;قيامت ميں سزا ۵

إِيَّاكَ نَعْبُدُ وإِيَّاكَ نَسْتَعِين ُ ( ۵ )

پروردگار ہم تيرى ہى عبادت كرتے ہيں اورتجھى سے مدد چاہتے ہيں _

۱_ فقط اللہ كى ذات اقدس لائق عبادت و بندگى ہے_

اياك نعبد

''اياك'' مفعول ہے اور اسكا نعبد پر مقدم ہونا حصر پر دلالت كرتاہے_

۲_ جہان ہستى پر اللہ كى ربوبيت، اسكى رحمانيت اور رحيميت قيامت كے دن اسكا مالك ہونا يہ دلائل ہيں اس امر كے كہ صرف وہى لائق عبادت و بندگى ہے_

رب العالمين _ الرحمن الرحيم _ مالك يوم الدين_ اياك نعبد

۳_اللہ كى ربوبيت كا يقين، اسكا رحمت نازل كرنا، روز جزا كا مالك ہونا يہ امور انسان كو اللہ كى پرستش كى ترغيب دلاتے ہيں _

رب العالمين _ الرحمن الرحيم_ مالك يوم الدين_ اياك نعبد

۴_ اللہ اور اسكى صفات كى معرفت توحيد عبادى كے حصول كا ذريعہ ہے _الحمدلله رب العالمين اياك نعبد

۵_ انسانى افكار و عقائد اسكے اعمال و كردار كى بنياد ہيں _الحمدلله رب العالمين_ الرحمن الرحيم_ مالك يو م الدين _ اياك نعبد

۲۶

۶_ خدا كے حضور خود كو ناچيز تصور كرنا اسكى بندگى كے آداب ميں سے ہيں _اياك نعبد

''ميں '' كى جگہ '' ہم'' كا استعمال بعض اوقات بڑائي كے اظہار كے لئے ہوتاہے اور كبھى انانيت، تكبر و خودپرستى سے اجتناب كے لئے آتاہے_ گفتگو كے قرينے سے مراد كا اندازہ لگايا جاسكتاہے_ يہاں بندگى و عبوديت كى مناسبت سے تكبر و انانيت سے اجتناب مراد ہے اس لئے ''نعبد '' جمع كا صيغہ استعمال ہوا ہے_

۷_ اللہ اور اسكى صفات پر ايمان اس يقين كا باعث ہے كہ سب اسكى بارگاہ اور اسكے حضور ميں ہيں _

الحمدلله رب العالمين اياك نعبد

سورہ حمد ميں اسلوب كلام كو تبديل كيا گياہے يعنى غائب سے خطاب كى طرف التفات ہوا ہے اور يہ امر بعض نكات كا حامل ہے_ ان ميں سے ايك يہ ہے كہ انسان جہان ہستى پر اللہ كى ربوبيت جيسى صفات خدا جاننے سے قبل گويا احساس نہيں كرتا كہ اللہ تعالى ہر چيز پر حاضر و ناظر ہے ليكن جب وہ ربوبيت الہى اور ديگر صفات پر ايمان و يقين حاصل كرليتاہے تو خود كو اور دوسروں كو اللہ كے حضور پاتاہے اسى طرح اللہ كو تمام ترحالات ميں حاضر جانتاہے_

۸_ خود كو خدا كے حضور تصور كرنا عبادت كے آداب ميں سے ہے _

اياك نعبد

غائب سے خطاب كى التفات كے نكات ميں سے ايك اور نكتہ سورہ حمد ميں عبادت اور دعا كے آداب ہيں يعنى شائستہ يہى ہے انسان كے لئے كہ عبادت و دعا كے وقت احساس كرے كہ ميں خدا كے حضور ہوں _

۹_ عبادت كى خاطر خدا كى حقيقى معرفت اور اسكى رحمتوں پر اميد اللہ كى بندگى كے لئے ترغيبات ہيں _

الحمدلله رب العالمين_ الرحمن الرحيم اياك نعبد

اللہ كى ربوبيت ، رحمانيت، رحيميت، مالكيت روز جزا جيسى صفات كے بيان كے بعد اللہ كى عبادت كو بيان كرنا اسكى عبادت كى ترغيبات ہيں يعنى چونكہ اللہ رب ہے اس لئے لائق بندگى ہے_ لوگ چونكہ اسكى رحمت كے محتاج ہيں اس لئے عبادت كريں اور اس لئے كہ عذاب آخرت سے خوف زدہ ہيں اسكى پرستش كريں _

۱۰_ عذاب آخرت كا خوف اور جہان آخرت ميں جزا كى اميد انسان كے لئے خدا كى عبادت كے محرّك ہيں _

مالك يوم الدين _ اياك نعبد

۱۱_ اللہ تعالى اور اسكى صفات كى معرفت خود كو اسكى بارگاہ

۲۷

ميں ناچيز سمجھنے كا باعث ہے_الحمدلله اياك نعبد و اياك نستعين

۱۲_ توحيدپرستوں كى آرزوہے كہ سب لوگ يكتا پرست، خدا پرست ہوجائيں _اياك نعبد

'' اعبد _ ميں عباد ت كرتاہوں '' كى جگہ '' نعبد _ ہم عبادت كرتے ہيں '' كا استعمال ہوسكتاہے اس بات كى طرف اشارہ ہو كہ يہ ہر توحيد پرست كى خواہش ہے_ يعنى وہ اس جملہ '' ہم عبادت كرتے ہيں '' كے ذريعے اس خواہش كا اظہار كرتا ہے كہ سب انسان ايسے ہى ہوں _

۱۳_ فقط وہ حقيقت يا ذات جس سے مدد طلب كى جاسكتى ہے وہ اللہ تعالى كى ذات اقدس ہے_و اياك نستعين

۱۴_ اللہ كى بندگى اور اس ميں خلوص كے لئے انسان امداد الہى كا محتاج ہے_اياك نعبد و اياك نستعين

'' نستعين'' كا متعلق تمام تر فرائض ہيں جو سورہ حمد سے استفادہ ہوتے ہيں ان ميں ايك يكتاپرستى يا توحيد پرستى كا واجب و ضرورى ہوناہے جو''اياك نعبد'' سے سمجھ ميں آتاہے يعنى ''نستعينك على عبادتك وخلوصہا''

۱۵_ باوجود اس كے كہ انسان اللہ كى بندگى پر اختيار ركھتا ہے اللہ كى مدد كے بغير عبادت كرنے كى توانائي نہيں ركھتا _

اياك نعبد و اياك نستعين

۱۶_ اللہ كى حمد و ثنا اسكى امداد و نصرت سے ہى امكان پذير ہے_الحمد لله اياك نستعين

جو فرائض سورہ حمد سے استفادہ ہوتے ہيں ان ميں سے ايك اللہ كى توصيف و ثنا كا واجب و ضرورى ہوناہے _بنابريں كہا جاسكتاہے كہ يہ معنى بھى نستعين سے متعلق ہے يعنى '' نستعينك على ان نحمدك''

۱۷_ تمام جہان ہستى پر اللہ كى ربوبيت كى معرفت، اس كى رحمانيت و رحيميت كا يقين اور اسكا روز جزا كے مالك ہونے كا يقين يہ سب اللہ كى امداد سے ہى ممكن ہے_الحمد لله رب العالمين اياك نستعين

اللہ كى ربوبيت كى معرفت اور ان شرعى فرائض ميں سے ہے جسے سورہ حمد سے استفادہ كيا جاسكتاہے لہذا يہ بھى نستعين سے متعلق ہيں يعنى''نستعينك على ان نعرف ربوبيتك و ...''

۱۸_ انسان اپنے تمام امور ميں اللہ كى مدد و نصرت كا محتاج ہے_اياك نستعين

بعض كى رائے يہ ہے كہ نستعين كا متعلق يا استعانت كا مورد ذكر نہيں كيا گيا تا كہ تمام تر امور مراد ہوں يعنى''نستعينك على امورنا كلها''

۱۹_اللہ تعالى بندوں كى تمام دعاؤں كو پورا كرنے كى مكمل توانائي ركھتاہے_ايا ك نستعين

۲۸

اس مطلب كا لازمہ يہ ہے كہ استعانت سے مراد تمام امور ہوں _

۲۰_ اللہ تعالى اور اسكى صفات (رب العالمين ، ...) كى معرفت انسان كو توحيد افعالى كى طرف راہنمائي كرتى ہے _

اياك نستعين

اس كى دليل يہ ہے كہ '' اياك نستعين '' اللہ تعالى كى '' رب العالمين'' كے ساتھ توصيف كے بعد آياہے_ اسكا مطلب يہ ہے كہ ان صفات كے ساتھ اللہ تعالى كى معرفت انسان كو اس مرحلے تك پہنچا ديتى ہے كہ وہ غير اللہ كو ناتواں سمجھے اور نتيجتاً توحيد افعالى تك پہنچ جائے_

۲۱_ توحيد پرستوں كى آرزو ہے كہ سب انسان توحيد افعالى كے قائل ہوجائيں _اياك نستعين

''استعين _ ميں مدد مانگتاہوں '' كى جگہ ''نستعين _ ہم مدد مانگتے ہيں '' كا استعمال مندرجہ بالا مطلب كى طرف اشارہ ہوسكتاہے_

۲۲_ امام رضاعليه‌السلام سے روايت ہے:اياك نعبد رغبة و تقرب الى الله تعالى ذكره و اخلاص له بالعمل دون غيره و '' اياك نستعين'' استزادة من توفيقه و عبادته و استدامة لما انعم الله عليه ونصره (۱) ''اياك نعبد'' يعنى بندے كا خدا كى طرف رغبت كا اظہار اور تقرب كى تلاش اسى طرح اللہ كے لئے عمل ميں خلوص جو كہ غير خدا كے لئے نہ ہو _ '' اياك نستعين '' اللہ كى بارگاہ ميں بہت زيادہ توفيق اور عبادت كى درخواست اسى طرح خدا كى نعمتوں ميں تسلسل اور اسكى مدد كى درخواست كرنا ہے_

اللہ تعالى : اللہ تعالى كى امداد كے اثرات ۱۶،۱۷; خدا شناسى كے نتائج و اثرات ۴،۱۱،۲۰; اللہ تعالى سے مختص امور ۱،۱۳; اللہ تعالى كى امداد ۱۵; اللہ كى ربوبيت ۲،۱۷; اللہ كى رحمانيت ۲،۱۷; اللہ كى رحيميت ۲،۱۷; اللہ تعالى كى قدرت ۱۹; آخرت ميں اللہ تعالى كى مالكيت ۲،۳; خدا كے حضور ۶،۷،۸،۱۱; اللہ تعالى كى مہربانى ۲

امداد طلب كرنا : اللہ تعالى سے طلب امداد ۱۳ ،۲۲

اميد: اخروى جزا كى اميد ۱۰; اللہ كى رحمت كى اميد۹

انانيت : انانيت سے اجتناب ۶

انسان : انسانى خواہشات ۱۹; انسان كا عاجز ہونا ۱۵; انسان كى ضروريات ۱۴، ۱۸; انسان كے اختيارات ۱۵

____________________

۱) من لايحضرہ الفقيہ ج/۱ ص ۲۰۴ ح۱۲، نورالثقلين ج/ ۱ ص ۱۹ ح ۸۱_

۲۹

ايمان: اللہ پر ايمان ۱۷; اللہ پر ايمان كے نتائج و اثرات۳،۷; اللہ كى ربوبيت پر ايمان ۳; اللہ كى رحمت پر ايمان ۳; اللہ كى صفات پر ايمان ۷;اللہ كى مالكيت پر ايمان ۳; توحيد پر ايمان ۲۱; ايمان سے متعلق امور ۳،۷

ترغيبات: ترغيبات كے عوامل ۳،۹،۱۰

تزكيہ : تزكيہ كے اسباب ۱۱

تفكر : تفكر كے اثرات و نتائج ۵

تقرب: تقرب كے عوامل ۲۲

توحيد : توحيد افعالى ۲۱; توحيد افعالى كى بنياد ۲۰; توحيد افعالى كى ترويج۲۱; توحيد عبادى كى بنياد ۴; توحيد كى ترويج ۱۲

توحيد پرست : توحيد پرستوں كى آرزو۱۲، ۲۱

توفيقات: توفيق كى درخواست ۲۲; خداشناسى كى توفيق ۱۷; عبادت كى توفيق ۱۴،۱۵، ۲۲

جہان بينى (نظريہ كائنات): جہان بينى اور آئيڈيالوجى ۳،۴ ، ۷، ۹ ، ۱۰ ،۱۱

حديث :۲۲

حمد: حمد خدا كى بنياد۱۶

خوف: عذاب سے خوف كے نتائج و اثرات ۱۰; اخروى عذاب سے خوف ۱۰

ضروريات: اللہ تعالى كى امداد كى ضرورت۱۴،۱۸

عالم ہستى ( كائنات): عالم ہستى كا نظم و انتظام۲، ۱۷

عبادت: اللہ كى بندگى كے دلائل ۲; بندگى كے محركات ۳خدا كى عبادت ۹،۱۰; عبادت كے آداب ۶،۸; عبادت كے اسباب ۹،۱۰; عبادت ميں اختيار ۱۵;

عبادت ميں خلوص ۱۴; عبادت ميں حضور قلب ۸;

عمل: عمل ميں خلوص ۲۲

قيامت : قيامت كا مالك ۲،۱۷

كردار: كردار و اعمال كى اساس ۵

نعمت : نعمتوں كى درخواست ۲۲

۳۰

اِهْدِنَا الصِّرَاطَ المُسْتَقِيمَ ( ۶ )

ہميں سيدھے راستہ كى ہدايت فرماتا رہ _

۱_ صراط مستقيم كى ہدايت كى درخواست ايك عارف و سالك الى اللہ انسان كى اہم ترين درخواست و دعا ہے_

الحمد لله اياك نستعين _ اهدنا الصراط المستقيم

اگر''اهدنا الصراط المستقيم '' كے''الحمدلله رب العالمين '' كے ساتھ ربط كو ملاحظہ كيا جائے تو يہ پيغام ملتاہے كہ اللہ تعالى كى معرفت كے بعد انسان كا ہدف صراط مستقيم پر گامزن رہناہے يعنى وہ راستہ جسكا منتہائے مقصود اللہ تعالى كى ذات اقدس ہے_

۲_ اللہ تعالى كى بارگاہ اقدس ميں دعا كرنے كا لازمى نتيجہ صراط مستقيم كا حصول ہے_اهدنا الصراط المستقيم

۳_اللہ تعالى كى تعريف اور اس كى بارگاہ ميں بندگى كا اظہار دعا كے آداب ميں سے ہے_

الحمدلله رب العالمين اهدناالصراط المستقيم

چونكہ خداوند قدوس كى حمد و ثنا اوراسكى عبوديت كے اظہار كے بعد اسكى بارگاہ ميں دعا اور'' اهدناالصراط المستقيم'' كى درخواست كى گئي ہے اس سے مذكورہ بالا مطلب نكلتاہے_

۴_ انسان ہميشہ كے لئے اللہ تعالى كى ہدايت و راہنمائي كا محتاج ہے _

اهدنا الصراط المستقيم

۵_ صراط مستقيم كى ہدايت كى دعاكرنا پروردگار متعال سے مدد طلب كرنے كا انتہائي شائستہ اور زيبا مورد ہے_

اياك نستعين _ اهدنا الصراط المستقيم

اگر '' اہدنا ...'' كو''اياك نستعين'' سے مربوط كركے ديكھا جائے تو اس كا مطلب يہ ہے كہ صراط مستقيم كى ہدايت وہ اعلى ترين مورد ہے جسكے حصول ميں انسان خدائے متعال كى امداد كا محتاج ہے_

۶_اللہ تعالى كى مدد و نصرت كے بغير انسان صراط مستقيم كو نہيں پاسكتا_اهدنا الصراط المستقيم

۷_ يكتاپرستى اور فقط خدا سے مدد طلب كرنا ''صراط مستقيم '' ہے_اياك نعبد و اياك نستعين _ اهدنا الصراط المستقيم

لفظ الصراط ميں الف لام عہد ذكرى ہوسكتاہے اور يہ ان حقائق كى طرف اشارہ ہے جو گذشتہ آيت ميں گذرچكے ہے اور ان ميں يكتاپرستى اور صرف خدا سے مدد طلب كرنا ہے_

۳۱

۸_ اللہ تعالى پر اور اسكى صفات پر ايمان لانا ''صراط مستقيم '' ہے_الحمدلله رب العالمين اهدنا الصراط المستقيم

''الصراط المستقيم'' كا جن حقائق كى طرف اشارہ ہے اللہ تعالى اور اسكى ربوبيت پر ايمان لانا ان ميں سے ہے_ ان كى طرف اشارہ''الحمدلله '' سے''مالك يوم الدين'' تك كيا گياہے_

۹_ ايك توحيد پرست انسان كى آرزو ہے كہ سب انسان صراط مستقيم كى ہدايت پاليں _اهدنا الصراط المستقيم

اس مطلب كى طرف راہنمائي اسطرح ہوتى ہے كہ ''اهدنا ہميں ہدايت فرما'' استعمال ہوا ہے نہ كہ ''اهدنى مجھے ہدايت فرما ''_

۱۰_ ہدايت كے بہت سارے درجات اور مراحل ہيں _اهدنا الصراط المستقيم

گذشتہ آيات كے بعد ''اہدنا'' كا استعمال اس امر كى طرف نشاندہى كررہاہے كہ يہ دعا كرنے والا انسان ہدايت يافتہ ہے_ بنابريں يہ كہنا چاہيئے كہ ہدايت كے بہت سارے مراحل ہيں اور يہ كہنا صحيح ہے : ہر وہ شخص جو ہدايت پاچكاہے اسكو بھى انتہائي سنجيدگى سے ہدايت كى دعا كرنى چاہيئے_

۱۱_ ہدايت كے حصول كے لئے بارگاہ رب العزت ميں دعا كا بہت موثر كردار ہے_اهد نا الصراط المستقيم

۱۲_ امام رضاعليه‌السلام سے روايت ہے :''اهدنا الصراط المستقيم استرشاد لدينه واعتصام بحبله و استزادة فى المعرفة لربه عزوجل ..(۱)

''اهدنا الصراط مستقيم'' اللہ كے دين كى طرف ہدايت، اسكى رسى كو مضبوطى سے تھامنے اور اللہ جل جلالہ كى معرفت ميں اضافے كى دعا ہے_

۱۳_ امام صادقعليه‌السلام سے روايت ہے كہ آپعليه‌السلام نے فرمايا:''الصراط المستقيم'' صراط الانبياء و هم الذين انعم الله عليهم (۲) ''صراط مستقيم '' سے مراد انبياءعليه‌السلام كا راستہ ہے يہى وہ ہستياں ہيں جن پر اللہ تعالى نے اپنى نعمتيں نازل فرمائيں _

۱۴_عن رسول الله (ص) انه قال ( فى قول الله عزوجل)_ اهدنا الصراط المستقيم دين الله الذى نزل به جبرئيل عليه‌السلام على محمد (ص) ... (۳)

____________________

۱) من لا يحضرہ الفقيہ ج/ ۱ ص ۲۰۴ ح ۱۲ ، نورالثقلين ج/ ۱ ص ۲۰ ح ۸۵_

۲) تفسير عياشى ج/ ۱ ص ۲۲ح۱۷ ، نورالثقلين ج/ ۱ ص ۲۰ ح ۸۶_

۳) تفسير فرات كوفى ص ۵۱،بحارالانوار ج/۳۶ ص۱۲۸ ح ۷۱_

۳۲

رسول اللہ (ص) سے روايت ہے كہ آپ (ص) نےاهدنا الصراط المستقيم كے بارے ميں فرمايا اس سے مراد اللہ كا دين ہے جو جبرائيلعليه‌السلام كے ذريعے محمد (ص) پر نازل ہوا _

۱۵_عن رسول الله(ص) وعن على عليه‌السلام فى معنى ''الصراط المستقيم '' انه كتاب الله (۱)

پيامبر اسلام (ص) اور حضرت علىعليه‌السلام سے روايت ہے كہ صراط مستقيم سے مراد اللہ كى كتاب ہے_

۱۶_ امام صادقعليه‌السلام سے روايت ہے كہ آپعليه‌السلام نے فرمايا:''الصراط المستقيم اميرالمومنين علي عليه‌السلام '' (۲)

صراط مستقيم امير المومنين على عليہ السلام ہيں _

اسلام: دين اسلام كى اہميت ۱۴

اعتصام: اللہ كى رسى كو مضبوطى سے تھامنا ۱۲

امام علىعليه‌السلام : امام علىعليه‌السلام كا راستہ ۱۶

انبياءعليه‌السلام : انبياءعليه‌السلام كا راستہ ۱۳

انسان: انسان كى امداد۶; انسان كا عاجز ہونا ۶; انسانى ضروريات ۴; انسانوں كى ہدايت ۹

ايمان: اللہ پر ايمان ۸; اللہ كى صفات پر ايمان ۸; ايمان كا متعلق ۸

توحيد : توحيد عبادى ۷

توحيد پرست : توحيد پرستوں كى آرزو ۹; توحيد پرستوں كى خواہشات ۱

توفيقات: ہدايت كى توفيق۶

حديث :۱۲،۱۳،۱۴،۱۵،۱۶

حمد: اللہ كى حمد ۳

خدا تعالى : اللہ كى امداد كے اثرات ۶; ہدايت الہى ۴

دعا: دعا كے اثرات ۱۱;دعا كے آداب ۳; دعا كى اہميت ۲،۱۱

____________________

۱) مجمع البيان ج/۱ص۱۰۴، نورالثقلين ج/ ۱ ص۲۰ ح ۸۷_

۲) معانى الاخبار ص ۳۲ ح ۲ ، نورالثقلين ج/ ۱ ص ۲۱ ح ۹۴_

۳۳

صراط مستقيم : صراط مستقيم سے كيا مراد ہے ۷،۸،۱۳،۱۴، ۱۵،۱۶

مددطلب كرنا : اللہ سے مدد طلب كرنا ۵،۷

ضروريات: ہدايت كى ضرورت ۴

عبوديت: عبوديت كا اظہار ۳

قرآن كريم: قرآن كى فضيلت ۱۵

نعمت : نعمتيں جن كے شامل حال ہيں ۱۳

ہدايت: صراط مستقيم كى ہدايت ۱،۲،۵،۶،۹; ہدايت كى اہميت ۱۲; ہدايت كى درخواست ۱،۵،۱۲; ہدايت كے اسباب ۶،۱۱; ہدايت كے درجات ۱۰;

صِرَاطَ الَّذِينَ أَنعَمْتَ عَلَيهِمْ غَيرِ المَغضُوبِ عَلَيهِمْ وَلاَ الضَّالِّينَ ( ۷ )

جو ان لوگوں كا راستہ ہے جن پر تو نے نعمتيں نازل كى ہيں ان كا راستہ نہيں جن پر غضب نازل ہوا ہے يا جو بہكے ہوئے ہيں _

۱_ قرآن كريم ميں انسانوں كو مختلف طبقات ميں تقسيم كيا گيا ہے ايك وہ ہيں جو ہدايت پر ثابت قدم ہيں اور دوسرے وہ جو گمراہ اور بارگاہ ايزدى ميں غضب كا شكار ہيں _

صراط الذين انعمت عليهم غير المغضوب عليهم و لا الضالين

''انعمت عليہم'' سے پہلے اور بعد والى آيات كے قرينے كى بناپر انعمت سے مراد ہدايت كى نعمت ہے نہ كہ مادى نعمتيں _ ان نعمات سے تمام مخلوقات حتى كافر بھى بہرہ مند ہيں _

۲_ بعض انسان اللہ تعالى كى خصوصى ہدايت سے بہرہ

۳۴

مند ہيں اور ہدايت كے اعلى مراتب و مراحل كے حامل ہيں _صراط الذين انعمت عليهم

جيسا كہ بيان ہوا ہے ''نعمت'' سے مراد ہدايت كى نعمت ہے جبكہ ہدايت كى دعا مانگنے والے خود ہدايت يافتہ ہيں لہذا يہاں مراد خاص ہدايت ہے_

۳_ صراط مستقيم كى ہدايت اللہ تعالى كى عظيم نعمتوں ميں سے ايك ہے_صراط الذين انعمت عليهم

يہاں نعمت مطلق بيان ہوئي ہے پس اس سے ہدايت كى نعمت كا ارادہ كرنا اس بات كى دليل ہے كہ متكلم ہدايت كى نعمت كے مقابل ديگر نعمتوں كو نعمت تصور نہيں كرتا اور يہ چيز حكايت كرتى ہے كہ ہدايت كى نعمت بہت ہى عظيم ہے_

۴_ بعض ہدايت يافتہ لوگ ہدايت پر ثابت قدم نہ رہے اور غضب شدہ اورگمراہ افراد ميں سے قرار پائے_

صراط الذين انعمت عليهم غير المغضوب عليهم و لا الضالين

مذكورہ مطلب اس بناپرہے كہ''غير المغضوب'' ،''الذين انعمت'' كے لئے ايك احترازى صفت ہے_ بنابريں جن كو نعمت دى گئي يعنى ہدايت يافتہ افراد كے تين گروہ ہيں ۱ _ وہ ہدايت يافتہ افراد جو ہدايت سے ہاتھ دھوبيٹھے اور ''مغضوبين'' ميں سے قرار پائے ۲_ وہ افراد جو وسط راہ سے گم ہوگئے اور '' ضالين'' ميں سے قرار پائے ۳_ وہ ہدايت يافتہ انسان جو صراط مستقيم پر آخر تك ثابت قدم رہے_

۵_ ہدايت يافتہ افراد كے لئے يہ خطرہ موجود ہے كہ وہ بھى غضب شدہ اورگمراہ افراد كے زمرے ميں آجائيں _

صراط الذين انعت عليهم غير المغضوب عليهم و لا الضالين

۶_ اللہ تعالى كى يكتائي كے قائل خداپرست انسان چاہتے ہيں كہ وہ ہدايت پر ثابت قدم انسانوں ميں سے ہوں _

الحمدلله اهدنا الصراط المستقيم _ صراط الذين انعمت عليهم

۷_ '' صراط مستقيم'' خدا كى طرف جانے والا راستہ ہے جس ميں كجى اور انحراف ہرگز نہيں پايا جاتا_

اهدنا الصراط المستقيم _ صراط الذين انعمت عليهم

'' غير المغضوب ...'' سے'' الذين ...'' كى صفت بيان كرنا اس بات كى طرف اشارہ ہے كہ ''صراط الذين ...'' ايسا راستہ ہے جس ميں انحراف اور كجى ہرگز نہيں ہوسكتى اور اسى راستے كو صراط مستقيم كہتے ہيں كيونكہ''صراط الذين'' ،''الصراط المستقيم '' كے لئے عطف بيان ہے_

۸_ ہدايت يافتہ انسانوں كے عملى نمونے صراط مستقيم كے حصول اور اس پر گامزن رہنے ميں انتہائي اہم كردار كے حامل ہيں _اهدنا الصراط المستقيم _ صراط الذين انعمت عليهم

۳۵

صراط مستقيم كو چونكہ ہدايت يافتہ انسانوں كى راہ سے تفسير و تعبير كيا گيا ہے اس لئے كہاجاسكتاہے كہ صراط مستقيم كے حصول كے لئے انسان عملى نمونوں كا محتاج ہے_ پس ضرورت ہے كہ ان سالكان راہ كى تلاش كرے اور ان كى پيروى كرے_

۹_جن كو نعمات سے نوازا گيا ہے( ہدايت يافتہ انسان) وہ ايسے لوگ ہيں جن پر اللہ كا غضب نہيں ہوا اور نہ ہى وہ گمراہ ہوئے_صراط الذين انعمت عليهم غير المغضوب عليهم و لا الضالين يہ مطلب اس طرح حاصل ہوتاہے كہ اگر '' غير المغضوب'' ، ''الذين'' كے لئے توضيحى صفت ہو يا بدل اور يا عطف بيان ہو_

۱۰_عن جعفر بن محمد عليه‌السلام قال: قول الله عزوجل فى الحمد''صراط الذين انعمت عليهم'' يعنى محمداً وذريته صلوات الله عليهم (۱) امام صادقعليه‌السلام سے روايت ہے كہ آپعليه‌السلام نے فرمايا: ''صراط الذين انعمت عليہم'' سے سورہ حمد ميں مراد حضرت محمد (ص) اور آپ (ص) كى ذريتعليه‌السلام ہيں _

۱۱_ امام رضاعليه‌السلام سے روايت ہے كہ آپعليه‌السلام نے فرمايا:غير المغضوب عليهم

استعاذة من ان يكون من المعاندين الكافرين المستخفين به و بامره و نهيه .(۲) غير المغضوب عليہم سے مراد اللہ كى پناہ طلب كرنا اس سے كہ انسان دشمنوں اور كافروں ميں سے ہو جو اللہ كو اہميت نہيں ديتے اور اللہ كے امر و نہى كو ہلكا سمجھتے ہيں _

استعاذہ: اللہ تعالى كى پناہ مانگنا ۱۱; پناہ طلب كرنے كے موارد ۱۱

اللہ تعالى : اللہ كى نعمتيں ۳; اللہ كے اوامر كو ہلكا سمجھنا ۱۱; اللہ تعالى كى خاص ہدايت۲;اللہ تعالى كى ذات اقدس كو سبك تصور كرنا ۱۱; اللہ تعالى كے نواہى كو ہلكا سمجھنا ۱۱

انحراف : انحراف كى ركاوٹيں ۷

انسان : انسانوں كى قسميں ۱

اہل بيتعليه‌السلام : اہل بيتعليه‌السلام كے فضائل ۱۰

پيامبر اسلام (ص) : آپ (ص) كے فضائل۱۰;جن پر خدا كا غضب نازل ہوا ۱،۴،۵

____________________

۱) معانى الاخبار ص ۳۶ ح ۷ ، نورالثقلين ج/۱ ص ۲۳ ح ۱۰۱_

۲) من لا يحضرہ الفقيہ ج/۱ ص۲۰۴ ح ۱۲ ، نورالثقلين ج/ ۱ ص ۲۴ ح ۱۰۸_

۳۶

توحيد پرست: توحيد پرستوں كى خواہشات ۶

حديث :۱۰،۱۱

صراط مستقيم: صراط مستقيم سے كيا مراد ہے ۱۰; صراط مستقيم كى خصوصيات ۷

گمراہ افراد :۱

معاشرتى طبقات :۱،۲

مغضوبان خدا : ۱ ، ۴، ۵

نعمت : ۹ ،۱۰

ہدايت: صراط مستقيم كى ہدايت ۳،۸;ہدايت ميں ثابت قدم انسان۱; ہدايت ميں ثابت قدمي۶ ; ہدايت ميں نمونے كى پيروى كرنا ۸; ہدايت كى درخواست ۶; ہدايت كى نعمت ۳; ہدايت كے درجات ۲;

ہدايت يافتہ انسان: ۲ ہدايت يافتہ انسانوں كى خصوصيات۹; ہدايت يافتہ انسانوں كى گمراہى كا خطرہ ۴،۵;

۳۷

سوره بقره

بِسْمِ اللّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ

الم ( ۱ )

عظيم اور دائمى رحمتوں والے خدا كے نام سے _

۱_عن على بن الحسين عليه‌السلام فى دعاء له : الهى و سيدى قلت: '' الم ذلك الكتاب لا ريب فيه ...'' ثنيت بالكتاب مع القسم الذى هو اسم من اختصصته لوحيك و استودعته سرّ غيبك (۱)

امام سجادعليه‌السلام سے روايت ہے كہ آپعليه‌السلام نے ايك دعا كے ضمن ميں بارگاہ رب الارباب ميں عرض كيا: اے ميرے معبود ، اے ميرے آقا تو نے فرماياہے الم ذلك الكتاب تو نے اپنى كتاب كى تعريف اس قسم كے ساتھ كى ہے جو نام ہے اسكا جسكو تو نے اپنى وحى كےساتھ مخصوص كيا اور اسكو تو نے اپنے غيب كا راز وديعت فرمايا

____________________

۱) بحار الانوار ج/۸۸ ص۷،۸ ح۳،نورالثقلين ج/۲ ص۰۲۹۱

۳۸

۲_ امام صادقعليه‌السلام سے روايت ہے آپعليه‌السلام نے فرمايا:''الم'' رمز و اشارة بينه و بين حبيبه محمد (ص) ا راد ان لا يطلع عليه سواهما ..(۱) '' الم'' اللہ اور اسكے حبيب محمد (ص) كے درميان رمز اور اشارہ ہے_ اللہ نے چاہا كہ اس راز سے فقط وہ اور اسكا حبيب ہى آگاہ رہيں _

۳_ سفيان ثورى كہتے ہيں : ''قلت لجعفر بن محمد عليه‌السلام يابن رسول الله ما معنى قول الله عزوجل الم قال عليه‌السلام اما '' الم'' فى اول البقرة فمعناه انا الله الملك (۲)

ميں نے امام صادقعليه‌السلام سے سوال كيا اے فرزند رسول (ص) يہ فرمائيں كہ اللہ كے اس قول '' الم '' كا كيا معنى ہے؟ آپعليه‌السلام نے فرمايا سورة بقرہ كے شروع ميں ''الم'' كامعنى يہ ہے ميں اللہہى بادشاہ_

۴_امام صادقعليه‌السلام سے روايت ہے آپعليه‌السلام نے فرمايا:

''الم'' هو حرف من حروف اسم الله الاعظم المقطع فى القرآن الذى يؤلفه النبى و الامام فاذا دعا به اجيب (۳) ''الم'' اللہ تعالى كے اسم اعظم كے حروف ميں سے ايك ہے جو مقطع صورت ميں قرآن ميں آياہے_ اس كو نبى (ص) اور امامعليه‌السلام تاليف كرتے ہيں اور جب اسكے ذريعے دعا كرتے ہيں تو مستجاب ہوتى ہے_

۵_ آئمہ ہدى (عليہم السلام) سے روايت ہے_'' ان الحروف المفتحة بها السور من المتشابهات التى استاثر الله تعالى بعلمها و لا يعلم تاويلها الا هو (۴) حروف ( مقطعہ) جن سے سورتوں كا آغاز ہوتاہے متشابہات ميں سے ہيں جن كا علم اللہ تعالى نے اپنے ساتھ مختص فرماياہے ان كى تاويل اسكے علاوہ كوئي اور نہيں جانتا_

اللہ تعالى : اللہ تعالى كا اسم اعظم ۴; اللہ تعالى كى سلطنت ۳

پيامبر اسلام(ص) : اللہ اور پيامبر خدا (ص) كے درميان رموز ۱،۲

حديث: ۱،۲،۳،۴،۵

حروف مقطعہ ۱: حروف مقطعہ كا علم ۵; حروف مقطعہ كا فلسفہ ۱،۲،۴

قرآن كريم: قرآن كے متشابہات۵

____________________

۱) بحار الانوار ج/ ۸۹ ص ۳۸۴_ ۲) معانى الاخبار ص۲۲ ح۱، نورالثقلين ج /۱ص ۲۶ ح ۴_ ۳) معانى الاخبار ص۲۳ ح۲ ، نورالثقلين ج/۱ص۲۶ ح۵_

۴) مجمع البيان ج/۱ ص۱۱۲ ، نور الثقلين ج / ۱ ص۳۰ح۸_

۳۹

ذَلِكَ الْكِتَابُ لاَ رَيْبَ فِيهِ هُدًى لِّلْمُتَّقِينَ ( ۲ )

يہ وہ كتاب ہے جس ميں كسى طرح كے شك و شبہہ كى گنجائش نہيں ہے_ يہ صاحبان تقوى اور پرہيزگار لوگوں كے لئے مجسم ہدايت ہے _

۱_ قرآن كريم كامل ترين اور باعظمت كتاب ہے_ذلك الكتاب

''ذلك'' مبتداء اور '' الكتاب'' خبر ہے_ اس اعتبار سے '' ال'' صفات كے استغراق كے لئے آياہے اور كمال پر دلالت كرتاہے_

۲_ آيات قرآن كى كتابت اور تدوين آنحضرت (ص) پر نزول كے بعد ہوئي _ذلك الكتاب

كتاب ( لكھا ہوا يا تحرير شدہ) كا قرآن حكيم پر اطلاق ،اسكى جہات مختلف ہوسكتى ہيں ۱_ آيات نازل ہونے كے بعد لكھى جاتى تھيں ۲_ پروردگار كى طرف سے تاكيد ہو كہ انہيں تحرير كيا جائے۳_ تحرير شدہ صورت ميں آنحضرت (ص) پر نازل ہوئيں _ مذكورہ بالا مطلب پہلے اور دوسرے احتمال كى بناپر ہے_

۳_ قرآن حكيم ايك انتہائي مستحكم كتاب ہے اور ہر اس چيز سے پاك و منزہ ہے جو اس كى حقانيت ميں ترديد اور شبہہ پيدا كرے_لا ريب فيه ريب كا معنى شك اور وہ چيز ہے جو شك كا باعث بنے _ مذكورہ بالا مطلب اسكے دوسرے معنى سے ماخوذ ہے_ پس '' لاريب فيہ'' كا مطلب يہ ہے كہ قرآن كريم ميں كوئي ايك مسئلہ بھى ايسا نہيں كہ جو اس كى حقانيت ميں شك و ترديد كا سبب بنے_

۴_ قرآن حكيم متقى اور پرہيزگار انسانوں كى ہدايت و تربيت كى پورى صلاحيت ركھتاہے يہى چيز قرآن كريم كے استحكام اور حقانيت كى دليل ہے_لا ريب فيه هدى للمتقين

''هدى للمتقين'' ،''لا ريب فيه'' كے لئے دليل كى حيثيت ركھتاہے_

۵_ قرآن حكيم اہل تقوى كو اعلى ترين مدارج كى طرف ہدايت اور راہنمائي كرنے والى كتاب ہے_

هدى للمتقين

۶_ ہدايت كے مختلف درجات اور مراحل ہيں _هدى للمتقين

بعد والى آيات ميں جو صفات بيان ہوئي ہيں خصوصاً آية مباركہ ۵ (اولئك على هديً )

۴۰

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

461

462

463

464

465

466

467

468

469

470

471

472

473

474

475

476

477

478

479

480

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

''اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ شب قدر کو اس سال رونما ہونے والے حق و باطل اور اس سال جو کچھ بھی ہونے والا ہے، کو مقدر فرماتا ہے۔ اس کے باوجود ان مقدرات میں مشیّت الہٰی کے مطابق تعیّر و تبدل (بدائ) بھی واقع ہوتا ہے۔ اس طرح اللہ اجل، رزق، بلائیں، بیماریاں اور دیگر عارضوں میں سے جسے چاہتا ہے مقدم اور جسے چاہتا ہے مؤخر فرماتا ہے۔ نیز ان مقدرات میں جو چاہے اضافہ اور جو چاہے کمی کردیتا ہے۔،،(۱)

iii ) کتب احتجاج طبرسی میں امیر المومنین(ع) سے مروی ہے:

''انه قال: لولا اٰیة فی کتاب الله ، لاخبر تکم بما کان و بما یکون و بما هوکائن الیٰ یو القیامة و هی هذه الایة: یمحوا الله ۔۔۔،(۲)

آپ نے فرمایا: اگر قرآن کی ایک آیہ: یمحوا اللہ۔۔۔ نہ ہوتی تو میں تمہیں خبر دیتا کہ ماضی میں کیا کیا واقعات پیش آئے، اب کیا ہو رہا ہے اور قیامت تک کیا ہوگا۔،،

iv ) تفسیر عیاشی میں زرارہ نے امام صادق(ع) سے روایت نقل کی ہے کہ آپ نے فرمایا:

''امام زین العابدینؑ فرمایا کرتے تھے: اگر کتاب الہٰی کی ایک آیت نہ ہوتی تو میں تمہیں قیامت تک رونما ہونے والے واقعات کی خبر دیتا۔ میں (زرارہ) نے عرض کی: وہ کون سی آیت ہے۔ آپ نے فرمایا:( یَمْحُوْا اللهُ ) ۔۔۔(۳)

) ''قرب الاسناد،، میں بزنطی نے امام رضا(ع) سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا:

''امام جعفر صادق، امام محمد باقر، امام زین العابدین، امام حسن اور امیر المومنین (علیہم السلام) فرمایا کرتے تھے: اگر کتاب الہٰی کی آیت( یَمْحُوْا اللهُ ) ۔۔ نہ ہوتی تو ہم قیامت تک رونما ہونے والے واقعات کی تمہیں خبر دیتے۔،،(۴)

____________________

(۱) ایضاً ص ۱۳۴

(۲) احتجاج طبرسی، ص ۱۳۷

(۳) منقول از بحار، ج ۲، ص ۱۳۹

(۴) ایضاً ص ۱۳۲

۵۰۱

ان کے علاوہ بھی کچھ روایات ہیں جن سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ان مقدرات الہٰی اور فیصلوں میں تغیر و تبدل واقع ہوتا ہے جو مشیّت الہٰی پر موقوف ہوتے ہیں۔

خلاصہئ بحث یہ ہے کہ حتمی قضائے الہٰی، جسے لوحِ محفوظ، ام الکتاب اور علم مخزون عند اللہ سے تعبیر کیا جاتا ہے، میں کسی قسم کے تغیر و تبدل اور بداء کا واقع ہونا محال ہے اور اس میں کیونکر بداء واقع ہوسکتا ہے جبکہ اللہ تعالیٰ روز ازل سے تمام اشیاء کا عالم ہے اور زمین و آسمان میں سے ذرہ بھر بھی اس کے علم سے خارج نہیں ہے۔

کتاب ''اکمال الدین،، میں صدوق، ابو بصیر اور سماعۃ کی سند سے امام صادق(ع) سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا:

''جو شخص یہ خیال کرے کہ خدا کے سامنے ایسی تازہ چیز ظاہر ہوتی ہے جسے وہ کل نہیں جانتا تھا، ایسے شخص سے برات کرو۔،،(۱)

عیاشی نے ابن سنان سے اور اس نے امام صادق(ع) سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا:

''اللہ تعالیٰ جس کو چاہتا ہے مقدم اور جس کو چاہتا ہے مؤخر فرما دیتا ہے۔ نیز جسے چاہے محو اور جسے چاہے ثبت کردیتا ہے۔ کتاب کااصلی نسخہ اللہ ہی کے پاس ہے۔ پھر آپ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ جو کچھ کرنا چاہے اسے انجام دینے سے پہلے ہی اس کا علم رکھتا ہے جس کام میں بھی بداء واقع ہو وہ اللہ کے علم میں ہوتا ہے۔ افعال الہٰی میں کوئی تغیر و تبدل جہالت کی بنیاد پر نہیں ہوتا۔،،(۲)

عمار بن موسیٰ امام صادق(ع) سے روایت کرتے ہیں کہ جب آپ سے فرمان الہٰی: یمحوا اللہ۔۔۔ کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا:

____________________

(۱) ایضاً ص ۱۳۶

(۲) ایضاً ص ۱۳۹

۵۰۲

''یہ وہ کتاب ہے جس میں خدا جو چاہتا ہے ثبت کرتا ہے جو چاہتا ہے محو کردیتا ہے۔ دعا کے ذریعے اس قسم کے مقدرات بدل جاتے ہیں لیکن جب مقدرات اس کتاب (لوح محو و اثبات) سے منتقل ہو کر امّ الکتاب یا لوح محفوظ میں آجاتے ہیں تو اس پر دعا کوئی اثر نہیں کرتی اور وہ ہو کر رہتے ہیں۔،،(۱)

شیخ طوسی اپنی کتاب ''الغیبۃ،، میں بزنطی سے اور وہ امام رضا(ع) سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: امام زمین العابدینؑ اور آپ سے پہلے امیر المومنین، امام محمد باقر اور امام جعفر صادق (علیہم السلام) فرمایا کرتے تھے:

''آیہ کریمہ : یمحوا اللہ۔۔۔ کی موجودگی میں ہم کیسے کسی واقعہ کے بارے میں حتمی پیشگوئی کرسکتے ہیں۔ البتہ خدا کے بارے میں جس شخص کا عقیدہ یہ ہو کہ اللہ کو کسی بھی چیز کے واقع ہونے کے بعد اس کا علم ہوتا ہے وہ کافر اور دائرہ اسلام سے خارج ہے۔،،(۲)

اہل بیت اطہار(ع) کی وہ روایات، جن کی رو سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ مخلوق کی خلقت سے پہلے ہی اس کا عالم ہوتا ہے، حدو حصر سے زیادہ ہیں۔ کتاب الہیٰ و سنت پیغمبر(ص) کی پیروی کرتے ہوئے تمام شیعہ امامیہ کا اس پر اتفاق ہے اور صحیح و فطری عقل سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے۔

عقیدہ ئ بداء کے ثمرات

اس سے قبل بیان کیا جاچکا ہے کہ بداء ان مقدرات الہی میں واقع ہوتاہے جو مشیت الہی ہر موقوف ہوتے ہیں اور جن کو لوح محو و اثبات سے تعبیر کیا جاتا ہے اور اس بداء کا قائل ہونے کا لازمہ یہ نہیں کہ ہم نے اللہ کی طرف (العیاذ باللہ) جہالت کی نسبت دی ہو اور نہ ہی یہ کوئی عقیدہ عظمت الہی کے منافی ہے۔

____________________

(۱) منقول ازبحار باب البداء و النسخ، ج ۲، ص ۱۳۹

(۲) ایضاً، ص ۱۳۶۔ شیخ کلینی نے اپنی سند سے عبد اللہ ابن سنان سے اور اس نے امام جعفر صادق(ع) سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا: کسی بھی چیز میں بداء واقع ہونے سے پہلے ہی خدا اس کا عالم ہوتا ہے۔ الوافی، باب ج۱، ص ۱۱۳

۵۰۳

بداء کا قائل ہونا واضح اعتراف ہے کہ پورا عالم ہستی اپنے وجود و بقاء میں قدرت و سلطنت الہٰی کے تابع ہے اور یہ کہ ارادہئ الہٰی ازل تا ابد تمام چیزوں میں کار فرما ہے بلکہ عقیدہئ بداء ہی کی بدولت علم الہٰی اور علم مخلوق میں فرق واضح ہوتا ہے اس لیے کہ مخلوق کا علم، خواہ وہ انبیاء(ع) و اولیاء کا علم ہی کیوں نہ ہو، ان چیزوں کا احاطہ نہیں کرسکتا جن کا احاطہ، علم خدا کرتا ہے اور بعض اولیاء اللہ اگرچہ تعلیم الہی کی بنیاد پر، تمام ممکنات اور اعلمین کا علم رکھتے ہیں پھر بھی ان کا علم ان چیزوں کا احاطہ نہیں کرسکتا جن کا احاطہ اللہ کا مخزون اور اپنی ذات سے مختص علم کرتا ہے۔ کیونکہ کسی بھی چیز کے بارے میں مشیت الہی اور عدم مشیت الہی کا عالم وہی ہوسکتا ہے جسے اللہ نے حتمی طور پر خبر دی ہو۔

بداء کا قائل ہونا اس امر کا باعث بنتا ہے کہ بندے ہمہ تن اللہ کی طرف متوجہ ہوں اور بندوں سے اپنی

امیدوں کے بندھن توڑ دیں اور استجابت دعا، حاجت روائی، اطاعت کی توفیق اور معصیت سے دوری کی درخواست اس کی ذات اقدس سے کریں۔

کیونکہ بداء کا انکار کرنا اور یہ عقیدہ رکھنا کہ جو کچھ قلم تقدیر نے لکھ دیا ہے وہ بلا استثناء ہو کر رہے گا، اپنے کو استجابت دعا سے مایوس کر دینا ہے، اس لیے کہ انسان جس چیز کی دعا کرتا ہے، اگر قلم تقدیر نے اس کے واقع ہونے کی پیشگوئی کی ہے تو وہ لامحالہ ہو کر رہے گی۔ انسان کی دعا اور توسّل کی ضرورت ہی نہیں اور اگر قلم تقدیر نے اس کی دعا کے خلاف لکھا ہو تو وہ کام کبھی بھی نہیں ہوسکتا اور دعا و تضرع کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا اور جب انسان استجابت دعا سے مایوس ہوگا تو وہ اپنے خالق کے دربار میں دعا و تضرع ترک کردے گا کیونکہ یہ بے فائدہ ثابت ہوگی اس طرح وہ عبادات اور صدقات بھی ترک ہو جائیں گے جو روایات معصومین(ع) کے مطابق عمر اور رزق میں اضافہ اور حاجت روائی کا باعث بنتے ہیں۔

۵۰۴

یہی وہ راز ہے جس کی وجہ سے معصومین(ع) سے بداء کی شان اور اہمیت کے بارے میں کثرت سے روایات وارد ہوئی ہےں۔

مرحوم صدوق نے کتاب ''توحید،، میں زرارہ سے اور انہوں نے امام محمد باقرؑ اور امام صادق(ع) سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا:

'' ما عبد الله عزوجل بشیئ مثل البدائ،، (۱)

''بداء کی مانند ایسا کوئی عمل نہیں جس سے خدا کی عبادت کی جائے۔،،

یعنی عقیدہ بداء کے مانند کوئی عبادت نہیں۔ نیز ہشام بن سالم، امام صادق(ع) سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا:

''خدا کی جو تعظیم بداء کے ذریعے ہوسکتی ہے کسی اور عمل کے ذریعے نہیں ہوسکتی۔،،(۲)

صدق نے محمد بن مسلم سے اور انہوں امام صادق(ع) سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا:

''اللہ نے جس نبی کو بھی بھیجا (پہلے) اس سے تین باتوں کا اقرار لیا: اللہ کی عبودیت کا اقرار، شریک خدا کی نفی اور یہ کہ اللہ جسے چاہتا ہے مقدم کرتا ہے اور جسے چاہتا ہے مؤخر کرتا ہے۔،،(۳)

اس اہمیت کا راز یہ ہے کہ بداء کا انکار کرنا اور اس بات کا قائل ہونا کہ جو کچھ قلم تقدیر نے لکھ دیا ہے اللہ اس میں تبدیلی پر قادر نہیں ہے، دونوں کا نتیجہ ایک ہے۔ کیونکہ یہ دونوں عقیدے انسان کو استجابت دعا سے مایوس

____________________

(۱) روایت کے دوسرے نسخے کے مطابق: بداء سے بہتر کوئی ایسا عمل نہیں جس سے خدا کی عبادت کی جائے۔

(۲) التوحید للصدوق باب البداء ص ۲۷۲۔ اس کی روایت شیخ کلینی نے بھی کی ہے۔ وافی باب البدائ، ج ۱، ص ۱۱۳

(۳) التوحید للصدوق باب البداء ص ۲۷۲۔ اس کی روایت شیخ کلینی نے بھی کی ہے۔ وافی باب البدائ، ج ۱، ص ۱۱۳

۵۰۵

کر دیتے ہیں۔ جس کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ انسان اپنی مشکلات اور مقاصد میں اپنے ربّ کی طرف توجہ نہ کرے۔

حقیقت بداء شیعوں کی نظر میں

جس بداء کے شیعہ امامیہ قائل ہیں، حقیقت میں اس کا معنی ''اظہار،، ہے (یعنی ایک چیز جو بندوں کے لیے پوشیدہ ہو اور اللہ اسے ظاہر کردے) اسکی جگہ ''بدائ،، (جس کا معنی خلقت اور آفرینش ہے) کا استعمال اس لیے ہوتا ہے کہ ان دونوں کے معنی میں شباہت پائی جاتی ہے کیونکہ ''اظہار،، کی طرح ''خلقت،، کے ذریعے مخلوق کو ظاہر کیا جاتا ہے۔ چنانچہ اہل سنت کی کچھ روایات میں بھی ''بدائ،، اسی معنی (اظہار) میں استعمال ہوا ہے۔

بخاری نے ابو عمرہ سے راویت کی ہے کہ ابو ہریرہ نے کہا: میں نے رسول اللہ کو یہ فرماتے سنا:

''بنی اسرائیل میں تین ایسے آدمی تھے جن میں سے ایک برص کا مریض، دوسرا اندھا اور تیسرا گنجا تھا۔ اللہ کے لیے بداء واقع ہوا کہ ان کا امتحان لیا جائے، چنانچہ برص کے مریض کے پاس ایک فرشتہ بھیجا ۔۔۔،،(۱)

قرآن میں بھی اس کی متعدد مثالین ملتی ہیں:

( الْآنَ خَفَّفَ اللَّـهُ عَنكُمْ وَعَلِمَ أَنَّ فِيكُمْ ضَعْفًا ۚ ) ۸:۶۶

''اب خدا نے سے (اپنے حکم کی سختی ہیں) تخفیف کردی ہے اور دیکھ لیا کہ تم میں یقیناً کمزوری ہے۔،،

( لِنَعْلَمَ أَيُّ الْحِزْبَيْنِ أَحْصَىٰ لِمَا لَبِثُوا أَمَدًا ) ۱۸:۱۲

''تاکہ ہم دیکھیں کہ گروہوں میں سے کس کو (غار میں) ٹھہرنے کی مدّت خوب یاد ہے۔،،

( لِنَبْلُوَهُمْ أَيُّهُمْ أَحْسَنُ عَمَلًا ) ۱۸:۷

''تاکہ ہم لوگ کا امتحان لیں کہ ان میں سے کون سب سے اچھے چلن کا ہے۔،،

____________________

(۱) صحیح بخاری، ج ۴ باب ماذکر عن بنی اسرائیل، ص ۱۴۲

۵۰۶

اہل سنّت کی روایات کثیرہ میں ہے کہ دعا اور صدقہ قضائے الہی کو تبدیل کردیتے ہیں۔(۱)

جہاں تک اہل بیت اطہار(ع) کی ان روایات کا تعلّق ہے، جن میں مستقبل میں رونما ہونے والے واقعات کی پیش گوئی کی گئی ہے، ان میں تحقیق یہی ہے کہ اگر معصوم(ع) حتمی طور پر اور بغیر کسی شرط و قید کے مستقبل میں کسی واقعہ کے رونما ہونے کی خبر دے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ مقدرات کی وہ قسم ہے جو حتمی ہے اور اس میں کسی قسم کا بداء واقع نہیں ہوسکتا۔ کیونکہ اللہ نہ اپنی ذات کو جھٹلاتا ہے اور نہ اپنے نبی کو اور اگر معصوم(ع) کسی امر کی پیشگوئی اس شرط پر کرے کہ مشیّت الہی اس کے خلاف نہ ہو اس پر کوئی قرینہ متصل و منفصل قائم کریں تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ یہ مقدرات کی وہ قسم ہے جو مشیّت الہٰی پر موقوف ہے اور اس میں بداء واقع ہوسکتا ہے اور معصوم(ع) کی یہ خبر اور پیشگوئی سو فیصد صادق ہوگی اگرچہ اس میں بداء واقع ہو اور مشیّت الہٰی اس پیشگوئی کے خلاف ہو، کیونکہ معصوم(ع) کی پیشگوئی میں اس شرط پر واقع کے رونما ہونے کی خبر دی گئی ہے کہ مشیّت الہٰی اس کے خلاف نہ ہو۔

عیاشی نے عمرو بن حمق سے روایت کی ہے:

''جس وقت امیر المومنین(ع) کے سرمبارک پر ضربت لگی، میں آپ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ آپ نے فرمایا: اے عمرو! عنقریب میں تم سے جدا ہو جاؤں گا۔ تمہیں معلوم ہونا چاہےے کہ ۷۰ھ میں ایک بلا نازل ہوگی۔ میں نے عرض کی: میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں کیا ۷۰ھ کے بعد یہ بلاٹل جائے گی؟ آپ نے فرمایا: ہاں۔ بلا کے بعد آسائش ہوگی۔ پھر آپ نے آیہ کریمہ: یمحوا اللہ۔۔۔ کی تلاوت فرمائی۔،،

____________________

(۱) دعا سے قضاء کے تبدیل ہونے کے بارے میں روایات اسی کتاب کے ضمیمہ نمبر ۱۱ میں ملاحظہ فرمائیں۔

۵۰۷

اصول تفسیر

مدارک تفسیر

خبر واحدسے قرآن کی تخصیص

چند توہمات اور ان کا ازالہ

۵۰۸

تفسیر، کتاب الٰہی کی کسی آیت میں مقصود الہی کی وضاحت کا نام ہے بنا برایں اس سلسلے میں ظن اور عقلی استحسانات پر اعتماد اور ان پر عمل کرنا جائز نہیں ہے اور نہ ایسی چیز پر اعتماد کیا جا سکتا ہے جس کی تجیت عقلی اور شرعی طورپر ثابت نہ ہو کیونکہ قرآن میںظن کی پیروی کرنے سے منع فرمایا گیا ہے اور اللہ کی اجازت کے بغیر اس کی طرف کسی چیز کی نسبت دینا حرام ہے اللہ تعالیٰ کاارشاد ہے۔

( قُلْ آللَّـهُ أَذِنَ لَكُمْ ۖ أَمْ عَلَى اللَّـهِ تَفْتَرُونَ ) ۱۰:۵۹

(''اے رسولؐ) تم کہہ دو کہ کیا خدا نے تمہیں اجازت دی ہے یاتم خدا پر بہتان باندھتے ہو،،۔

( وَلَا تَقْفُ مَا لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ ۚ ) ۱۷:۳۶

''اور جس چیز کا تمہیں یقین نہ ہو(خواہ مخواہ) اس کے پیچھے نہ پڑا کرو،،۔

انکے علاوہ بھی قرآنی آیات اور روایات موجود ہیں جن میں غیر علم پر عمل کرنے سے منع کیا گیا ہے شیعہ اورسنی کتب احادیث میں کثرت سے روایات موجود ہیں جن میں تفسیر بالائے سے نہی کی گئی ہے۔

ان آیات اور روایات سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ تفسیر قرآن کے سلسلے میں مفسرین کی ذاتی رائے پر عمل کرناجائز نہیں ہے چاہے یہ مفسر کوئی صحیح المسلک آدمی ہو یا نہ ہو کیونکہ ذاتی رائے پر عمل کرنا اتباع ظن ہے جو حق سے بے نیاز نہیں کرسکتا۔

مدارک تفسیر

مفسر کیلئے ضروری ہے کہ وہ فہم قرآن اور تفسیر قرآن میں ان ظواہر پر عمل کرے جو ایک صحیح عرب سمجھتاہے (ہم اس سے پہلے ظواہر کی حجیت کو ثابت کر چکے ہیں) یا ان فیصلوں پر عمل کرے جو ایک صحیح اور فطری عقل صادر کرے کیونکہ جس طرح نبی حجت ظاہری ہے اسی طرح عقل حجت باطنی ہے یااس معنی اور مفہوم پر عمل کرے جو معصومین (ع) سے ثابت ہو کیونکہ یہی ہسپتال مرجع دین ہیں اور رسول اللہ (ص) نے انہی سے تمسک کی وصیت فرمائی ہے آپ (ص) نے فرمایا۔

۵۰۹

انی تارک فکم الثقلین کتاب الله و عترتی اهل بینی ، ما ان تمسکم بهما لن تضلوا بعدی ابدا (۱)

''میں (ص) تم میں دو گرانقدار چیزیں چھوڑے جا رہا ہوں کتاب اللہ اور میری عترت اہل بیت (ع) جب تک تم ان دونوں سے متمسک رہو گے کبھی بھی میرے بعدگمراہ نہیں ہو گے،،۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ قطعی اور یقینی ذریعے سےاہل بیت اطہار (ع) کا قول ثابت ہو جاتا ہے اور خبر ضعیف (جس میں حجیت کی شرائط موجود نہ ہوں) کے ذریعے قول معصوم (ع) ثابت نہیں ہوتا۔

لیکن اس میں اختلاف ہے کہ آیا اس ظنی طریقے (خبر واحد اور دیگر دلائل) سے قول معصوم (ع) ثابت ہو جاتاہے جس کی حجیت پر قطعی دلیل قائم ہو؟

بعض علمائے کرام اس خبر واحد کی حجیت کو مورد اشکال قرار دیتے ہیں جو تفسیر کے بارے میں وارد ہوئی ہو اعتراض یہ ہے کہ خبر واحد اور دوسرے ظنی ادلہ کی حجیت کا مطلب یہ ہے کہ جب حقیقت اور واقع ہونا معلوم نہ ہو تو اس خبر واحد کے مفہوم پر واقع کے آثار مرتب کئے جائیں جس طرح واقع اور یقین حاصل ہونے کی صورت میں آثار مرتب کئے جاتے ہیںاس معنی میں حجیت وہاں متحقق ہو سکتی ہے جہاں خبر واحد کا مفہوم کوئی حکم شرعی ہویاکوئی ایسا موضوع ہو جس پر کوئی حکم شرعی مرتب کیا گیا اور ممکن ہے جہاںخبر واحد کا مفہوم کوئی حکم شرعی ہو یا کوئی ایسا موضوع ہو جس پر کوئی حکم شرعی مرتب کیا گیا ہو اور ممکن ہے کہ یہ شرط اس خبر واحد میں نہ پائی جائے جوتفسیر کے بارے میں ورد ہوئی ہے (کیونکہ کچھ روایات ایسی ہیں جو گزشتہ اقوام کے قصوں اور داستانوں کے متعلق قرآنی آیات کی تفسیر میں وارد ہوئی ہیں جن کا حکم اور موضوع حکم سے کوئی تعلق نہیں ہوتا)

____________________

نمبر۱اس حدیث کے حوالے اسی کتاب کے آخر پر ضمیمہ نمبر ۱ میں ذکر کئے جائیں گے نیز کنز العمال باب الاعتصام بالکتاب و السنتہ ج ۱ ، ص ۱۵۳ اور ۳۳۲

نمبر۲ جب کہا جائے شراب حرام ہے یانماز واجب ہے تو''شراب ،، اور ''نماز،، موضوع اور ''وجوب،، اور ''حرمت،، حکم کہلاتے ہیں (مترجم)۔

۵۱۰

لیکن یہ اشکال تحقیق کیخلاف ہے کیونکہ ہم نے علم ا صول میں اس کی وضاحت کر دی ہے کہ اجتہادی دلیل جس کی نظر واقع پر ہوتی ہے یعنی جو واقع کی نشاندہی کرتی ہے کہ حجیت کا مطلب یہ ہے کہ اس کو حکم شرع میں علم کامقام دیا گیا ہے گویا اس طرح واجب العمل ظنی دلیل کو علم شمار کیا گیا ہے یہ ایسا علم ہے جس کو شارع نے علم کارتبہ دیا ہے یہ علم وجدانی نہیں ہے لہٰذا اس پر بھی وہی آثار مرتب ہوں گے جو قطع و یقین پر مرتب ہوتے

ہیں نیز ان روایات کے مضمون کے مطابق خبر دینا صحیح ہو گا جس طرح وجدانی علم کے مطابق خبر دی جاتی ہے اس طرح یہ (خبر واحد وغیرہ پر عمل کرنا) بغیر علم کے خبر دینے کے مترادف نہیں ہوگا۔

چنانچہ اس طرز عمل کی تائیدسیرت عقلاء سے بھی ہوتی ہے کیونکہ عقلاء اس قسم کی دلیلوں پر اسی طرح عمل کرتے ہیں جس طرح وجدانی علم پر کرتے ہیں اور دونوں کے آثار میں کسی قسم کے فرق کے قائل نہیں ہوتے مثلاً جس کسی کے ہاتھ میں کوئی چیز ہو ، عقلاء کے نزدیک قبضہ اس شخص کی ملکیت کی دلیل سمجھا جاتا ہے جس کے ہاتھ میں مال ہو اس بنیاد پر کہا جاتاہے کہ فلاں آدمی فلاں چیز کامالک ہے اس روش کا کوئی منکر نہیں اور شارع مقدس نے بھی عقلاء کی اس دائمی سیرت اور روش پر کوئی پابندی نہیں لگائی۔

ہاں ! البتہ خبر موثق اور دیگر شرعی دلیلوں کے قابل عمل ہونے کی شرط یہ ہے کہ وہ حجیت کی تمام شرائط پر مشتمل ہوں۔ ان میں سے ایک اہم شرط یہ ہے کہ اس خبر کے جھوٹے ہونے کا یقین نہ ہو کیونکہ جس خبر کاکذب یقینی ہو اسے حجیت کی دلیل شامل ہی نہیں ہو سکتی بنا برایں وہ روایات جو اجماع ، سنت قطعیہ ، کتاب الٰہی اور صحیح حکم عمقل کے خلاف ہوں کبھی بھی حجیت نہیں ہو سکتیں اگرچہ حجیت کی باقی شرائط اس خبر واحد اور روایت میں موجود ہوں اس حکم میں وہ اخبار جو کسی حکم شرعی پر مشتمل ہوں اور دوسرے اخبار یکساں ہیں۔

۵۱۱

اس شرط کاراز یہ ہے کہ راوی ، چاہے کتنا ہی موثق ہو اس کی خبر واقع کیخلاف بھی ہو سکتی ہے کیونکہ کم از کم یہ احتمال دیا جا سکتا ہے کہ راوی کیلئے حقیقت حال مشتبہ ہو گئی ہو خصوصاً جب واسطے (سلسلہ رواۃ) زیادہ ہوں تو اس احتمال کو اور زیادہ تقویت ملتی ہے اس لئے اس احتمال کے ازالے اور اس کالعدم فرض کرنے کیلئے حجیت کی دلیل کاسہارالیناضروری ہو جاتا ہے۔

لیکن جہاں خبر کیخلاف واقع ہونے کا یقین ہو وہاں پرتعبداً اسے معدوم فرض کرنا غیر معقول ہے کیونکہ یقین کی کاشفیت ذاتی ہے یعنی اس کی یہ ذاتی خصوصیت ہے کہ وہ واقع کاانکشاف کرتا ہے اور اس کی حجیت بحکم عقل بدیہی طورپر ثابت ہے۔

بنا بریں حجیت خبر واحد کے دلائل صرف انہی روایات کو شامل ہوں گے جن کے کاذب اور مخالف واقع ہونے کا علم اور یقین نہ ہو۔ یہی حکم خبر واحد کے علاوہ دوسرے شرعی دلائل کا بھی ہو گا جو واقع کاانکشاف کرتے ہیں یہ حقائق ایک ایسا دروازہ ہے جس سے کئی اور دروازے کھلتے ہیں اور اس سے بہت سے اعتراضات اور اشکالات کا جواب دیا جا سکتا ہے اس لئے قارئین کرام کو یہ ذہن نشین کر لینا چاہئے۔

خبر واحد سے قرآن کی تخصیص

یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب کسی قطعی دلیل کے ذریعے خبر واحد کی حجیت ثابت ہو جائے تو کیا اس خبر واحد کے ذریعے ان عمومات کی تخصیص ہو سکتی ہے جو قرآن میں موجود ہیں؟

مشہور کا مسلک یہی ہے کہ خبر واحد کے ذریعے عمومات قرآن کی تخصیص جائز ہے اور بعض علمائے اہل سنت نے اس (جواز) کی مخالفت سنی ہے البتہ ان میں سے بعض نے تو معطلقاً اسے ناجائز قرار دیا ہے عیسیٰ بن ابان کا عقیدہ یہ ہے کہ اگر عام قرآن کی پہلے کسی قطعی دلیل کے ذریعے تخصیص ہو چکی ہو تو خبر واحد کے ذریعے اس کی مزید تخصیص جائز ہے ورنہ جائز نہیں۔

کرخی کا نظریہ ہے کہ اگر کسی دلیل منفصل کے ذریعے عام قرآن کی تخصیص ہوئی ہو تو خبر واحد کے ذریعے مزید تخصیص جائز ہے ورنہ نہیں اور قاضی ابوبکر نے توقف اختیار کیا ہے (وہ نہ جواز کاقائل ہوا ہے اور نہ عدم جواز کا)۔

۵۱۲

ہمارا عقیدہ وہی ہے جو مشہور علماء کا ہے یعنی خبر واحد کے ذریعے عام قرآن کی تخصیص ہو سکتی ہو۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ خبر واحد کی حجیت (اس کا لازم العمل ہونا) قطعی اور یقینی ہے اور اس کا تقاضا یہی ہے کہ جب تک کوئی مانع پیش نہ آئے اس خبر کے مدلول و مضمون پر عمل کرنا واجب ہے اس کالازمی نتیجہ یہی ہے کہ اس کے ذریعے عام قرآن کی تخصیص ہو جاتی ہے۔

چندتوہمات اور ان کاازالہ

چند چیزوں کو مانع کے طورپر ذکر کیا گیا ہے لیکن درحقیقت وہ مانع بننے کی صلاحیت نہیں رکھتیں ۔

۱۔ مانعین کا کہنا یہ ہے کہ قرآن کریم کلام الٰہی ہے جس کو اللہ نے اپنے نبی (ص) پر نازل فرمایا ہے یہ ایک ایسی حقیقت ہے جس میں کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں لیکن خبر واحدکے مطابق واقع ہونے کا یقین نہیں اور نہ اس بات کا یقین ہے کہ یہ خبر معصوم (ع) سے صادر ہوئی ہے کیونکہ کم از کم یہ احتمال باقی ہے کہ راوی کو اشتباہ ہوا ہو اور عقل کبھی بھی اس بات کی اجازت نہیں دیتی کہ ایک ایسی دلیل کی وجہ سے جس میں خطاء کا احتمال موجود ہو ایک قطعی دلیل سے دستبردار ہوا جائے۔

جواب: یہ درست ہے کہ قرآن قطعی ا لصدور ہے (اس کے کلام خدا ہونے میں کوئی شک نہیں) لیکن ہمیں اس بات کا یقین نہیں کہ حکم واقعی ، عمومات قرآن کے مطابق ہو عمومات قرآن اس لئے واجب العمل ہیں کہ یہ ظاہر کلام ہیں اور عقلاء کی سیرت اس بات پر قائم ہے کہ وہ ظواہر کو حجت جانتے ہیں اور شارع مقدس نے بھی اس سیرت اور روش سے منع نہیں فرمایا۔

لیکن یہ بھی واضح ہے کہ سیرت عقلاء کی رو سے ظواہراس صورت میں حجت ہیں جب ان کے ظاہری معنی کیخلاف کوئی قریہ متصل و مقصل قائم نہ ہو اور اگر کسی مقام پر ظاہری معنی کیخلاف کوئی قرینہ قائم ہو تو اس طاہری معنی سے دستبردار ہونا اور قرینہ کے مطابق عمل کرنا ضروری ہے۔

۵۱۳

بنا برایں یہ بات تسلیم کرناناگزیر ہے کہ عمومات قرآن کی اس خبر واحد کے ذریعے تخصیص جائز ہے جس کی حجیت پر کوئی قطعی دلیل قائم ہو اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم اس خبر کا مضمون ، معصوم (ع) سے صادر ہونے کو شرعی طور سے تسلیم کر لیں دوسرے الفاظ میں اگرچہ قرآن کی سند قطعی ہے لیکن اس کی دلالت ظنی ہے اور عقل کے نزدیک اس میں کوئی قباحت نہیں ہے کہ ایک ظنی دلالت سے کسی ایسی ظنی دلیل کی بنیاد پر دستبردار ہوا جائے جس کی حجیت پر قطعی دلیل قائم ہو۔

۲۔ دوسرا تو ہم یہ ہے کہ معصومین (ع) کی صحیح روایات کہتی ہیں کہ روایات کو کتاب خدا کے سامنے پیش کیا جائے ان میں سے جو روایات کتاب خدا کے خلاف ہو اس کو ترک کر دیا جائے اور اسے دیوار پر مار دیا جائے اور یہ کہ وہ روایت معصوم (ع) سے صادر ہی نہیں ہوئی جو مخالف کتاب خداہو یہ روایت صحیحہ اس خبر واحد کو بھی شامل ہوں گی جو عموم قرآن کیخلاف ہو یعنی اس کو مخالف قرآن ہونے کی وجہ سے ترک کر دیا جائے گا۔

جواب: وہ قرائن عرفیہ جو مراد خداوندی کو بیان کریں ، عرف کے نزدیک مخالف قرآن نہیں سمجھتے جاتے اور دلیل خاص ہمیشہ دلیل عام کی وضاحت ہوا کرتی ہے کوئی دو دلیلیں اس وقت ایک دوسری کی مخالف سمجھی جاتی ہیں جب ان کا آپس میں تعارض ہو۔ بایں معنی کہ جب کسی متکلم سے یہ دونوں دلیلیں صادر ہوں تو اہل عرف اس سے مقصود و متکلم کو نہ سمجھیں اور حیران رہ جائیں بنا برایں خبر واحد جو خاص ہو عام قرآن کی مخالف نہیں بلکہ وہ مراد اور مقصود قرآن کو بیان کرتی ہے۔

اس کی دلیل یہ ہے کہ ہمیں قطعی طورپر علم ہے کہ معصومین (ع) سے ایسی روایات صادر ہوئی ہیں جو عمومات قرآن کیلئے مخصص اور مطلقات قرآن کیلئے مقید ہیں اگر تخصیص و تقیید ، قرآن کی مخالفت کہلاتی تو ان کایہ فرمان درست نہ ہوتا ''جو کلام خدا کا مخالف ہے وہ ہمارا قول نہیں ہے بلکہ جھوٹ یاباطل ہے،، لہٰذا ان روایات کا ائمہ (ع) سے صادر ہونا اس امر کی دلیل ہے کہ تخصیص و تقیید قرآن کی مخالف نہیں ہے۔

۵۱۴

اس کے علاوہ معصومین(ع) نے دو روایتوں میں سے ایک کے موافق قرآن ہونے کو ، دوسری روایت پر مقدم ہونے کامرجح قرار دیا ہے اس کامطلب یہ ہوا کہ مخالف روایت بھی (جو موافق قرآن نہیں) اگر معارض نہ ہوتی تو بذات خود حجیت تھی اور یہ حقیقت بھی پوشیدہ نہیں کہ اگر اس متروک روایت کی مخالفت اس نوعیت کی ہوتی جو قرآن کے ساتھ ہرگز سازگار نہ ہوتی توبذات خود بھی حجیت نہ ہوتی اور تعارض اور ترجیح کی نوبت نہ آتی۔

معلوم ہوا روایت کا موافق کتاب نہ ہونے کامطلب یہ ہے کہ عرفاً یہ دونوں تخصیص یا تقیید کے ذریعے ہم آہنگ ہو سکتے ہیں۔

اس بحث کانتیجہ یہ نکلا کہ خبر واحد جو کسی عام کیلئے مخصص یا مطلق کیلئے مقید قرار پائے بذات خود حجیت اور لازم العمل ہے مگر یہ کہ کسی دوسری دلیل سے اس کاتعارض ہو۔

۳۔ تیرا شبہ یہ ذکر کیا جاتا ہے کہ اگر خبر واحد کے ذریعے قرآن کی تخصیص جائز ہو تو اس کے ذریعے قرآن کا نسخ بھی جائز ہونا چاہئے جبکہ خبر واحد کے ذریعے قرآن کا نسخ ہونا یقیناً جائز نہیں ہے اس لئے تخصیص بھی جائز نہیں ہونی چاہئے۔

اس ملازمہ کی دلیل یہ ہے کہ نسخ (جس کی وضاحت ہم نسخ کی بحث میں کر چکے ہیں) زمانے کے اعتبار سے تخصیص کانام ہے اور دلیل ناسخ اس کا انکشاف کرتی ہے کہ حکم سابق (منسوخ) ایک خاص زمانے اور مدت سے مختص تھا جو دلیل ناسخ کے آنے پر ختم ہو گیا بنا برایں کسی حکم کا نسخ ہو جانا حقیقی معنوں میں اس حکم کا اٹھا دینا نہیں بلکہ ظاہری شکل میں حکم کا ازالہ ہوتا ہے افراد کی تخصیص (حکم عام سے اس کے بعض افرادکو خارج کرنا) زمانے کے اعتبار سے تخصیص کے مانند ہے اس طرح یہ دونوں تخصیص ہیں۔ اگر پہلی تخصیص جائز ہو تو دوسری کوبھی جائز ہونا چاہئے۔

۵۱۵

جواب: یہ درست ہے کہ یہ دونوں تخصیص ہیں لیکن ان دونوں تخصیصوں میں فرق ہے یہ کہ اجتماع قطعی اس بات پر قائم ہے کہ خبر واحد کے ذریعے نسخ جائز نہیں ہے اگر عدم جواز پر اجتماع قائم نہ ہوتاتو خبر واحد کے ذریعے تخصیص کی طرح اس کے ذریعے نسخ بھی جائز ہوتا اس سے قبل یہ بیان کیا جا چکا ہے کہ قرآن اگرچہ قطعی الصدور ہے مگر اس کی دلالت ظنی ہے قطعی نہیں اور خبر واحد ، جس کی حجیت دلیل قطعی سے ثابت ہے کہ ذریعے اس ظنی دلالت سے دستبردار ہوا جا سکتا ہے۔

ہاں ! یہ بات ضرور ہے کہ عدم جواز نسخ پر قائم ہونے والا اجماع تعبدی نہیں بلکہ بعض مسائل اور واقعات اس اہمیت اور خصوصیت کے حامل ہوتے ہیں کہ اگر خارج میں رونما ہوں تو خبر متواتر کے ذریعے ہی نقل ہوتے ہیں ایسے مسائل اور واقعات کوصرف چند آدمی نقل کریں تواس راوی کے کذب اور اس کی خطا کی دلیل ہو گی اور حجیت خبر واحد کی دلیلیں ایسی خبروں اور روایات کو شامل نہیں ہوں گی جنہیں ا ہمیت کی حامل ہونے کے باوجود ایک یا چندآدمی نقل کریں اسی لئے ہم کہتے ہیں کہ خبر واحد کے ذریعے قرآن ثابت نہیں ہوسکتا۔

یہ حقیقت بھی ناقابل انکار ہے کہ نسخ قرآن کوئی ایسا مسئلہ نہیں جو مسلمانوں کی صرف ایک قوم سے مختص ہو اس کے علاوہ نسخ واقع ہونے کی صورت میں اس کی خبر نقل ہونے کے اسباب و عوامل بھی زیادہ ہوتے ہیںبنا برایں اگر نسخ واقع ہو تو یہ ایک ایسی غیر معمولی خبر ہے جسے خبر متواتر کے ذریعے ہی نقل ہونا چاہئے اگر اسے صرف ایک یا دو آدمی نقل کریں تو یہ اس راوی کے جھوٹ یا اشتباہ کا ثبوت ہو گا یہیں سے نسخ اور تخصیص کے درمیان فرق واضح ہو جاتا ہے اور وہ ملازمہ بھی باطل ہو جاتا ہے جس کی رو سے یہ دعویٰ کیا گیا تھا کہ اگر خبر واحد کے ذریعے تخصیص جائز ہو تو نسخ بھی جائز ہونا چاہئے۔

۵۱۶

قرآن حادث ہے قدیم

یونانی فلسفہ کا مسلمانوںکی زندگی پر اثر

اللہ کی صفات ذاتی و فعلی

کلام نفسی

کیا ''طلب،، کلام نفسی ہے ؟

کلام نفسی کا کوئی وجود نہیں

کلام نفسی پر اشاعرہ کے دلائل

۵۱۷

کسی مسلمان کو اس بات میں شک نہیں کہ کلام اللہ وہی ہے جسے اللہ نے نبوت کی دلیل کے طور پر رسول اللہ (ص) پر نازل فرمایانیز اس بات میں بھی کسی مسلمان کو شک نہیں کہ ''تکلم،، خدا کی صفات ثبوتیہ میں سے ایک صفت ہے ، جن کو صفات جمال کہتے ہیںچنانچہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں اس صفت کو اپنی ذات کیلئے استعمال کیا ہے۔

( وَكَلَّمَ اللَّـهُ مُوسَىٰ تَكْلِيمًا ) ۴:۱۶۴

''اور خدا نے تو موسیٰ سے (بہت سی) باتیںبھی کیں،،

یونانی فلسفہ کا مسلمانوں کی زندگی پر اثر

تمام مسلمانوں کا مذکورہ دو باتوں پر اتفاق تھا اور ان میں کسی قسم کا اختلاف نہیںپایا جاتاتھا یہاں تک کہ یونانی فلسفہ مسلمانوں میں داخل ہو گیا اور مسلمانوں کو مختلف فرقوں میں بانٹ کر رکھ دیا حتیٰ کہ ایک فرقہ دوسرے کو کافر گرداننے لگا اور زبانی اختلاف ہاتھا پائی اور قتل و قتال میں تبدیل ہو گیا کئی مسلمانوں کی ناموس کی توہین کی گئی اور کئی بے گناہ افرادکا خون بہایا گیا جبکہ قاتل اور مقتول دونوں توحید کے قائل تھے اور رسالت و معاد کا اقرار کرتے تھے۔

کیا یہ مقام تعجب نہیں کہ ایک مسلمان دوسرے مسلمان بھائی کی عصمت دری اور قتل کے درپے ہو جب کہ دونوں مسلمان گواہی دیتے ہیں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور اس کا کوئی شریک نہیں اور یہ کہ محمد (ص) اللہ کے بن دہ اور رسول ہیں جو اللہ کی طرف سے پیام حق لے کر آئے ہیں اوریہ کہ اللہ روز محشر تمام لوگوںکو (حساب کتاب کیلئے) قبروں سے دوبارہ اٹھائے گا۔

کیا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ(ص) کے بعد ولی امر (ع) کی سیرت یہ نہیں رہی کہ جو شخص بھی ان باتوں کی گواہی دے اس پر مسلمان کے احکام و آثار مرتب کئے جائیں ؟ کیا کوئی روایت یہ کہتی ہے کہ رسول اللہ (ص) یا آپ (ص) کے جانشینوں (ع) میں سے کسی نے کسی بھی شخص سے قرآن کے قدیم یا حادث ہونے یا اس کے علاوہ دوسرے اختلافی مسائل کے بارے میں سوال فرمایا ہو اور ان کے اختلافی مسائل میں سے کسی ایک کا اقرار لینے کے بعد اسے مسلمان قرار دیا ہو؟

۵۱۸

میں نہیں سمجھتا کہ (اور کاش سمجھتا) کہ جو لوگ اس طرح مسلمانوں میں اختلاف و انتشار کا بیج بوتے ہیں خدا کو کیا جواب دیں گے اور کیاعذر پیش کریں گے ۔انا لله و انا الیه راجعون ۔

حدوث قرآن اور قدم قرآن کے مسئلے نے اس وقت جنم لیا جب مسلمان دو گروہوں (اشعری اور غیر اشعری) میں تقسیم ہو گئے اشاعرہ اس بات کے قائل ہوئے کہ قرآن کریم ہے (یعنی ابد سے ہے اور اس کی کوئی ابتداء نہیں) اوریہ کہ کلام کی دو قسمیں ہیں ۔ ۱۔کلام لفظی ۲۔ کلام نفسی۔ کلام نفسی اللہ کی ذات کے ساتھ قائم اور موجود ہے اور اللہ کے قدیم ہونے کے ساتھ ساتھ اس کا کلام نفسی بھی قدیم ہے اور یہ کہ کلام نفسی خدا کی صفات ذاتیہ میں سے ایک صفت ہے معزلہ اور عدلیہ (امامیہ) کا یہ عقیدہ ہے کہ ''قرآن،، حادث (مخلوق) ہےاور یہ کہ کلام صرف لفظی ہی ہوا کرتی ہے کلام نفسی نامی کوئی چیز موجودن ہیں ہے اور ''تکلم،، اللہ کی صفات فعلیہ میں سے ہے۔

اللہ کی صفات ذاتی و فعلی

اللہ کی صفات ذاتی اور فعلی میں فرق یہ ہے کہ اس کی ذات میں صفات ذاتی کا نقیض و عکس کبھی نہیں پایا جا سکتا دوسرے الفاظ میں اللہ کی ذاتی صفات وہ صفات ہیں جو کبھی بھی اللہ سے سلب نہیں ہو سکتیں جس طرح علم ، قدرت اور حیات ہیں اللہ کی ذات ہمیشہ سے عالم ، قادر اور زندہ ہے اور عالم ، قادر اور زندہ رہے گی یہ امر محال ہے کہ ایک لمحہ کیلئے بھی اللہ عالم ، قادر اور حّی نہ ہو۔

اللہ کی صفات فعلیہ وہ ہیں کہ اللہ کی ذات کبھی ان سے متصف ہوتی اور کبھی ان کے نقیض و عکس سے متصف ہوتی ہے جس طرح خلق کرنا اور رزق دینا ہے یہ کہا جا سکتا ہے کہ اللہ نے فلاں چیز کو خلق فرمایا اور فلاں چیز کو خلق نہیں فرمایا فلاں کو اللہ نے فرزند عطا فرمایا اور مال عطا نہیں فرمایا۔

اس بیان کی روشنی میں یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ ''تکلم،، صفات فعلیہ میں سے ہے صفات ذاتیہ میں سے نہیں کیونکہ یہ کہنا بالکل درست ہے کہ اللہ ت عالیٰ حضرت موسی ٰ (علیہ السلام) سے ہمکلام ہوا اور فرعون سے ہمکلام نہیں ہوا یااللہ کوہ طور پر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے ہمکلام ہوا ، اور بحرنیل میں ہمکلام نہیں ہوا۔

۵۱۹

کلام نفسی

تمام اشاعرہ کا اتفاق ہے کہ عام اور مشہور کلام لفظی کے علاوہ بھی ایک کلام موجود ہے جس کانام انہوںنے کلام نفسی رکھا ہے البتہ کلام نفسی کی حقیقت کے بارے میں ان سے اختلاف ہے بعض اشاعرہ کا کہنا ہے کہ کلام نفسی ، کلام لفظی کے مدلول اور اس کے معنی کا نام ہے اور بعض اشاعرہ کا عقیدہ یہ ہے کہ کلام نفسی مدلول لفظ سے مختلف ہے اور لفظ اس کلام نفسی پر دلالت و وضعیہ نہیں کرتا بلکہ لفظ کی دلالت اس کلام پر ایسی ہے جیسے انسان کے اختیاری افعال ہیں جو فاعل کے ارادہ علم اور اس کی حیات پر دلالت کرتے ہیں بہرحال اشاعرہ کا عقیدہ یہ ہے کہ قرآن مجید میں موجود کلام ہی قدیم ہے لیکن فاضل قوشجی نے بعض اشاعرہ کی طرف یہ قول منسوب کیا ہے کہ کلام قرآن کی طرح اس کی جلد اور غلام بھی قدیم ہے جیسا کہ اس سے پہلے بھی بتایا گیا ہے کہ اشاعرہ کے علاوہ سب کا اتفاق ہے کہ قرآن حادث ہے اور یہ کہ اللہ کا کلام لفظی کائنات کی دیگر مخلوقات کی طرحایک مخلوق ہے اور اس کی آیات اور نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے۔

البتہ اس مسئلہ میں بحث و تمحیص اور تحقیق سے کوئی نتیجہ نہیں نکلتا اس لئے کہ یہ مسئلہ اصول دین میں سے ہے اور نہ فروغ دین میں سے بلکہ اس کا دنی مسائل اور الٰہی معارف سے دُور کابھی واسطہ نہیں ۔ تاہم میں نے چاہا کہ اس مسئلے کے بارے میں بھی کچھ بحث کی جائے تاکہ ہمارے اشاعرہ بھائیوں (جن کی مسلمانوں میںا کثریت ہے) کیلئے یہ بات واضح ہو جائے کہ جس مسلک کو انہوں نے اختیار کیا ہے اور جس عقیدے کو واجب سمجھتے ہیں وہ محض ایک خیالی چیز ہے عقلی اور شرعی اعتبار سے اس کی کوئی بنیاداور اساس نہیں۔

۵۲۰

521

522

523

524

525

526

527

528

529

530

531

532

533

534

535

536

537

538

539

540

541

542

543

544

545

546

547

548

549

550

551

552

553

554

555

556

557

558

559

560

561

562

563

564

565

566

567

568

569

570

571

572

573

574

575

576

577

578

579

580

581

582

583

584

585

586

587

588

589

590

591

592

593

594

595

596

597

598

599

600

601

602

603

604

605

606

607

608

609

610

611

612

613

614

615

616

617

618

619

620

621

622

623

624

625

626

627

628

629

630

631

632

633

634

635

636

637

638

639

640

641

642

643

644

645

646

647

648

649

650

651

652

653

654

655

656

657

658

659

660

661

662

663

664

665

666

667

668

669

670

671

672

673

674

675

676

677

678

679

680

681

682

683

684

685

686

687

688

689

690

691

692

693

694

695

696

697

698

699

700

701

702

703

704

705

706

707

708

709

710

711

712

713

714

715

716

717

718

719

720

721

722

723

724

725

726

727

728

729

730

731

732

733

734

735

736

737

738

739

740

741

742

743

744

745

746

747

748

749

750

751

752

753

754

755

756

757

758

759

760

761

762

763

764

765

766

767

768

769

770

771

772

773

774

775

776

777

778

779

780

781

782

783

784

785