تفسير راہنما جلد ۱

 تفسير راہنما 7%

 تفسير راہنما مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن
صفحے: 785

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴ جلد ۵ جلد ۶ جلد ۷ جلد ۸ جلد ۹ جلد ۱۰ جلد ۱۱
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 785 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 201079 / ڈاؤنلوڈ: 5794
سائز سائز سائز
 تفسير راہنما

تفسير راہنما جلد ۱

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

متقدمین اور متاخرین میں اہل تحقیق کا صحیح نظریہ یہی ہے۔ اسی کی امام حافظ ابوعمرو عثمان بن سعید دانی نے تصریح کی ہے۔ امام ابو محمد مکی بن ابی طالب نے متعدد مقامات پر اور امام ابو العباس احمد بن عمار المھدوی نے صاف الفاظ میں اسی نظریہ کو بیان کیا ہے۔ امام حافظ ابو القاسم عبد الرحمن بن اسماعیل المعروف ابی شامہ کی تحقیق بھی یہی ہے۔ یہ وہ نظریہ ہے جس پر گذشتہ علماء کا اتفاق ہے اور اس کا کوئی مخالف دیکھنے میں نہیں آتا۔

۲۔ ابو شامہ اپنی کتاب ''المرشد الوجیز،، میں لکھتے ہیں:

''کبھی بھی ہر اس قراءت جو ان سات قاریوں میں سے کسی ایک کی طرف منسوب ہو، سے فریب نہ کھائیں اور اس پر مہر صحت ثبت نہ کریں اور نہ ہی یہ سمجھیں کہ قرآن اسی قراءت کے مطابق نازل ہوا ہے مگر یہ کہ صحت قراءت کے قواعد و ضوابط اس پر منطبق ہوں اور یہ شرائط صحت پر مشتمل ہو تو پھر اس کا ناقل تنہاایک مصنف نہیں ہوگا بلکہ یہ قراءت اجماعی ہوگی۔ کیونکہ دیکھا یہ جاتا ہے کہ صحت کی شرائط موجود ہیں یا نہیں۔ یہ نہیں دیکھا جاتا کہ یہ قراءت کس قاری سے منسوب ہے۔ جتنی قراءتیں بھی ان سات قاریوں یا کسی اور قاری سے منسوب ہیں وہ دو قسم کی ہیں۔

i ) متفق علیہ۔

ii ) شاذ۔

لیکن چونکہ ان سات قاریوں کی شہرت ہے اور ان کی قراءتوں میں صحیح و اجماعی قراءتوں کی کثرت ہے اس لیے دوسروں کی نسبت ان کی قراءتوں پر انسان زیادہ مطمئن ہوتا ہے۔،،(۱)

____________________

(۱) النشر فی القراات العشر، ج ۱، ص ۹۔

۲۰۱

۳۔ ابن جزری کہتے ہیں:

''بعض متاخری نے قراءت کی صحت سند پر اکتفاء نہیں کیا بلکہ اس میں تواتر کو شرط قرار دیا ہے۔ ان حضرات کا خیال ہے کہ قرآن خبر متواتر ہی ثابت ہوتا ہے خبر واحد سے نہیں۔ مخفی نہ رہے کہ یہ قول خالی از اشکال نہیں ہے۔ اس لی ےکہ جب کوئی قراءت تواتر سے ثابت ہو تو پھر باقی دو شرطوں لغت عرب اور عثمانی قرآن سے مطابقت کی ضرورت نہیں رہتی کیونکہ جو اختلافی قراءت بطور تواتر پیغمبر اکرم(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) سے منقول ہوگی اس کو تسلیم کرنا لازمی ہوگا اور اس کے قراّ ہونے کا یقین حاصل ہوگا چاہے باقی شرائط اس میں موجود ہوں یا نہ ہوں اور اگر ہر اختلافی قراءت میں تواتر شرط ہو تو بہت ساری اختلافی قراءتیں جو سات مشہور قاریوں سے منقول ہیں باطل ثابت ہوں گی۔ پہلے میں اس نظریئے کی طرف رحجان اور جھکاؤ رکھتا تھا۔ بعد میں میرے نزدیک اس کا بطلان ثابت ہوا اور میں نے ان موجودہ اور گذشتہ علماء کرام کی رائے کو اپنایا جو تواتر شرط نہیں سمجھتے۔،،

۴۔ امام ابو شامہ اپنی کتاب ''المرشد،، میں فرماتے ہیں:

''متاخرین میں سے بعض اساتذہئ قراءت اور ان کے تابعین میں یہ مشہور ہے کہ قرااءات ہفتگانہ (سات قراءتیں) سب کی سب متواتر ہیں یعنی ان سات قاریوں میں سے ہر ایک کی ہر قراءت متواتر ہے۔ متاخرین مزید کہتے ہیں: اس بات کا یقین رکھنا بھی لازمی ہے کہ یہ قراءتیں اللہ کی طرف سے نازل ہوئی ہیں۔ ہم بھی اسی کے قائل ہیں لیکن صرف ان قراءتوں میں جن کی سند نقل میں سب متفق ہوں، تمام فرقوں کا ان پر اتفاق ہو اور ان کا کوئی منکر نہ ہو، جبکہ ان قراءتوں میں اختلافات کثرت سے ہیں اور ان کے منکرین بھی بہت سے ہیں۔ بنابرایں اگر کوئی قراءت تواتر سے ثابت نہیں ہوت تو کم از کم اسے مختلف فیہ بھی نہیں ہونا چاہیے اور اس کا انکار کرنے والے بھی موجود نہیں ہونے چاہیں۔،،(۱)

____________________

(۱) النشر فی القراات العشر،ج ۱، ص ۱۳۔

۲۰۲

۵۔ سیوطی فرماتے ہیں:

''قراءت کے موضوع پر سب سے عمدہ کلام اپنے دور کے امام القراء اور استاذ الاساتید ابوالخیر ابن جزری کا ہے۔ وہ اپنی کتاب ''النشر فی القراءات العشر،، میں فرماتے ہیں: ہر وہ قراءت جو لغت عرب اور عثمانی قرآنوں کے کسی نسخے کے مطابق ہو اور اس کی سند صحیح ہو وہ قراءت صحیح سمجھی جائے گی۔،،

اس کے بعد سیوطی فرماتے ہیں:

''میں تو یہ کہوں گا، ابن جزری نے اس باب میں نہایت مضبوط اور مستحکم بات کہی ہے۔،،(۱)

۶۔ ابو شامہ''کتاب البسملة،، میں فرماتے ہیں:

''ہم ان کلمات میں تواتر کے قائل نہیں جن کے بارے میں قاریوں میں اختلاف ہے کہ بلکہ تمام قراءتوں میں بعض متواتر ہیں اور بعض غیر متواتر اوریہ بات اہل انصاف و معرفت اور مختلف قراءتوں پر عبور رکھنے والوں کے لیے واضح ہے۔،،(۲)

۷۔ بعض علماء فرماتے ہیں:

''آج تک اصولیین میں سے کسی نے بھی تصریح نہیں کی کہ قراءتیں متواتر ہیں البتہ بعضوں نے کہا ہے کہ قراءتیں سات مشہور قاریوں سے بطور تواتر ثابت ہیں لیکن کا پیغمبر اکرم(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) سے بطور تواتر ثابت ہونااشکال سے خالی نہیں ہے۔ کیونکہ ان قاریوں نے خبر واحد کے ذریعے قراءتوں کو پیغمبر اکرم(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) سے منسوب کیا ہے۔،،(۳)

____________________

(۱) الاتقان النوع ۲۲۔۲۷، ج ۱، ص ۱۲۹۔

(۲) التبیان، ص ۱۰۲۔

(۳) التبیان، ص ۱۰۵۔

۲۰۳

۸۔ علماء حدیث میں سے بعض متاءخرین کا کہنا ہے:

''کچھ اصولی حضرت قرااءات ہفتگانہ اور بعض حضرات دس قراءتوں کے متواتر ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں لیکن ان کے پاس کوئی علمی دلیل نہی ںہے۔ اس کے علاوہ قاریوں ہی کی ایک جماعت نے اس بات پر اجماع کا دعویٰ کیا ہے کہ انہی سات قراءتوں میں سے بعض متواتر ہیں اور بعض غیر متواتر (آحاد) ہیں۔ ان قاریوں میں سے کسی نے بھی سات کی سات قراءتوں کے متواتر ہونے کا دعویٰ نہیں کیا چہ جائیکہ دس کی دس قراءتیں متواتر ہوں۔ البتہ بعض علماء اصول تمام قراءتوں کے متواتر ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں لیکن اہل فن ہی اپنے فن کے بارے میں دوسروں سے زیادہ آگاہ اور آشنا ہوا کرتے ہیں۔(۱)

۹۔ قراءتوں کے بارے میں مکّی کہتے ہیں:

''بعض حضرات صرف ان قراءتوں کو معتبر اور قابل عمل سمجھتے ہیں جن پر نافع اور عاصم متفق ہوں، کیونکہ باقی قراءتوں میں سے ان کی قراءت افضل، سند کے اعتبار سے صحیح اور عربی لغت کے اعتبار سے زیادہ فصیح ہے۔،،(۲)

۱۰۔ جن حضرات نے قرائتوں حتی کہ قرااءات ہفتگانہ کے متواتر نہ ہونے کا اعتراف کیا ہے ان میں شیخ محمد سعید العریان بھی شامل ہے۔ اس نے اپنی ''تعلیقات،، میں اس کا ذکر کیا ہے، یہ فرماتے ہیں:

''تمام کی تمام قراءتیں، حتی کہ قراءات ہفتگانہ بھی شاذ اور نامشہور قراءتوں سے خالی نہیں ہےں۔،،

یہ مزید فرماتے ہیں:

''علماء کرام کے نزدیک موثق سندکے اعتبار سے سب سے زیادہ صحیح قراءت نافع اور عاصم کی ہے اور فصاحت کے دیگر پہلوؤں کے اعتبار سے ابوعمرو اور کسائی کی ہے۔،،(۳)

____________________

(۱) ایضاً، ص ۱۰۶۔

(۲) ایضاً، ص ۹۰۔

(۳) اعجاز القرآن، رافعی، طبع چہارم، ص ۵۲۔۵۳۔

۲۰۴

اقوال علماء میں قراءتوں کے متواتر نہ ہونے کا اعتراف کیا گیا ہے کو نقل کرنے میں اب تک ہم نے اختصار سے کام لیا ہے۔ اس کے بعد بھی ہم مزید علماء کرام کے اعترافات نقل کریں گے۔

خدا را ذرا غور فرمائیے! کیا اتنے علماء کرام کی تصریحات کے باوجود بھی قراءتوں کے متواتر ہونے کے دعویٰ کی کوئی وقعت و ارزش باقی رہتی ہے؟

کیا یہ ممکن ہے کہ بغیر کسی دلیل کے صرف تقلید اور بعض افراد کے دعویٰ بلا دلیل کی بنیاد پر تواتر قراءت کو ثابت کیا جائے خصوصاً جب انسان کا وجدان بھی اس قسم کے دعویٰ کی تکذیب کرے؟

مجھے اس سے زیادہ تعجب اندلس کے مفتی پر ہو رہا ہے جس نے ان لوگوں کے کفر کا فتویٰ صادر کردیا جو تواتر قراءت کے منکر ہیں!!!۔

بفرض تسلیم، اگر قراءتیں بالاتفاق متواتر بھی ہوں تب بھی جب تک یہ ضروریات دین میں سے نہ ہوں، ان کا منکر کافر نہیںگردانا جاسکتا۔

فرض کیجئے! اس خیالی تواتر کی وجہ سے قراءت ضروریات دین میں سے قرار پائے تو کیا اس کے انکار سے وہ آدمی بھی کافر ہو جاتا ہے جس کے نزدیک ان کا متواتر ہونا ثابت نہیں ہے؟

اے اللہ! یہ تیری بارگاہ میں جراءت، جسارت، تیری حدود سے تجاوز اور مسلمانوں میں انتشار پھیلانے کے علاوہ کچھ نہیں!!!

۲۰۵

تواتر قراءت کے دلائل

جو حضرات قراءت ہفتگانہ کے قائل ہیں انہوں نے اپنے دعویٰ پر چند دلائل پیش کئے ہیں:

۱۔ ان حضرات نے تواتر قراءت پر موجودہ اورگذشتہ علماء کرام کے اجماع کا دعویٰ کیا ہے۔

ہمارے گذشتہ بیانات سے یہ نتیجہ اخذ کیا جاسکتا ہے کہ یہ دعویٰ باطل اور بے بنیاد ہے۔ اس کے علاوہ ایک ہی مذہب کے ماننے والوں کے اتفاق سے اجماع وجود میں نہیں آتا جبکہ دوسروں کے مخالفت بھی موجود ہےں۔ انشاء اللہ آئندہ کسی مناسب موقع پر ہم اس کی مزید وضاحت کریں گے۔

۲۔ صحابہ کرام اور ان کے تابعین، قرآن کو جس اہمیت کی نگاہ سے دیکھتے تھے اس کا تقاضا یہ ہے کہ قرآن کی قراءت متواتر ہو اور یہ ہر مصنف مزاج اور حقیقت طلب انسان کے لیے ایک واضح حقیقت ہے۔

جواب:

اس دلیل سے تو یہ ثابت ہوتا ہے کہ خود قرآن متواتر ہے، اس سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ قراءتوں کی کیفیتیں بھی متواتر ہیں۔ خصوصیاً جب اکثر علمائے قراءت کی قراءتیں ان کے ذاتی اجتہاد یا ایک دو آدمیوں کی نقل پر مبنی ہیں۔ جیسا کہ گذشتہ مباحث میں آپ نے ملاحظہ فرمایا۔

اگر اس دلیل میں یہ قسم موجود نہ ہو تو اس کا تقاضا یہ ہے کہ تمام کی تمام قراءتیں متواتر ہیں، صرف سات یا دس قراءتوں کے متواتر ہونے کی کوئی وجہ نہیں ہے۔

جیسا کہ ہم بعد میں وضاحت کریں گے کہ قراءتوں کو سات میں منحصر کرنے کا عمل تیسری صدی ہجری میں انجام دیا گیا اور اس سے پہلے اس کا کوئی نام و نشان نہ تھا۔ بنابرایں یا تو تمام کی تمام قراءتوں کو متواتر ہونا چاہیے یا پھر کسی بھی قراءت کو متواتر نہیں ہونا چاہیے۔

۲۰۶

پہلا احتمال تو مسلماً باطل ہے اس لیے لامحالہ ماننا پڑے گا کہ دوسرا احتمال و نظریہ صحیح اور قابل قبول ہے۔

۳۔ اگر قرااءات ہفتگانہ متواتر نہ ہوں تو اس سے یہ لازم آئے گا کہ قرآن مجید بھی متواتر نہ ہو اور قرآن کا متواتر نہ ہونا یقیناً باطل ہے جو محتاج بیان نہیں۔ لہذا قراءتوں کا متواتر نہ ہونا بھی باطل ہے۔ قراءتوں کے متواتر نہ ہونے سے قرآن کا متواتر نہ ہونا لازم آتا ہے۔ چونکہ قرآن ہم تک حافظان قرآن اور مشہور و معروف قاریوں کے ذریعے پہنچا ہے اس لیے اگر ان قاریوں کی قراءتیں متواتر ہونگی تو قرآن بھی متواتر ہوگا ورنہ قران بھی متواتر نہیں ہوگا، لہذا لامحالہ ماننا پڑے گا کہ قراءتیں متواتر ہیں۔

جواب:

اولاً:تواتر قرآن کا لازمہ یہ نہیں ہے کہ قراءتیں بھی متواتر ہیں۔ کیونکہ کسی کلمہ کی کیفیت اور ادائیگی میں اختلاف اصل کلمہ پر اتفاق ہونے سے منافات نہیں رکھتا۔ اسی وجہ سے ہم دیکتے ہیں کہ ''متنبی،، کے قصیدوں کے الفاظ میں بعض راویوں کا احتلاف کرنا اس بات کے منافی نہیں ہے کہ اصل قصیدہ بھی اس سے متواتراً ثابت نہ ہو۔ اسی طرح ہجرت رسول اکرم(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) کی خصوصیات میں راویوں کا اختلاف اصل ہجرت کے متواتر ہونے سے منافات نہیں رکھتا۔

ثانیاً: قاریوں کے ذریعے جو چیز ہم تک پہنچی ہے وہ ان کی قراءتوں کی خصوصیات ہیں اور جہاں تک اصل قرآن کا تعلق ہے وہ مسلمانوں میں تواتر کے ذریعے ہم تک پہنچا اور گذشتہ مسلمانوں سے آنے والے مسلمانوں میں منتقل ہونے سے ثابت ہوا جو کہ ان کے سینوں اور تحریروں میں محفوظ تھھا۔ اصل قران کی نقل میں قاری حضرات کا کوئی دخل نہیں ہے، اسی لیے ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ اگر یہ سات یا دس قاری موجود نہ ہوتے تب بھی قرآن کریم بطور تواتر موجود ہوتا اور کلام مجید کی عظمت و شرف اس سے بالاتر ہے کہ چند گنے چنے افراد کی نقل پر یہ موقوف و منحصر ہو۔

۲۰۷

۴۔ اگر قراءتیں متواتر نہ ہوں تو اس سے یہ لازم آئے گا کہ قرآن کے بعض حصے متواتر نہیں ہیں جس طرح ''ملک یوم الدین،، اور ''مالک یوم الدین،، ہے۔ کیونکہ اگر ان میں سے صرف ایک کو متواتر سمجھیں گے تو یہ دعویٰ بلا دلیل ہوگا، جو باطل ہے۔ اس دلیل کو ابن حاجب اور پھر علماء کی ایک جماعت نے اسی کی پیروی میں ذکر کیا ہے۔

جواب:

اولاً: اس دلیل کا تقاضا تو یہ ہے کہ تمام کی تمام قراءتیں متواتر ہوں اور صرف سات قراءتوں کو متواتر قرار دینا دعویٰ بلادلیل ہے جو باطل ہے۔ خصوصاً جب دوسرے قاریوں میں ایسے افراد بھی موجود ہیں جو ان سات قاریوں سے زیادہ باعظمت اور زیادہ موثق ہیں جس کا بعض حضرات نے اعتراف بھی کی ہے۔

اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ سات مشہور قاری دوسروں سے زیادہ باوثوق اور جہاتِ قراءت کو زیادہ بہتر سمجھتے ہیں تو اس سے بھی یہ ثابت نہیں ہوتا کہ ان کی قراءتیں متواتر ہیں اور دوسرے قاریوں کی قراءتیں متواتر نہیں ہیں۔

ہاں، یہ بات قابل قبول ہے کہ عمل کے مقام پر ان کی قراءت کو ترجیح دی جائے گی۔ لیکن کسی قراءت کا مقدم سمجھا جانا اور بات ہے اور اس جا متواتر ہونا دوسری بات ہے بلکہ ان دونوں میں مشرق و مغرب کا فاصلہ ہے اور تمام کی تمام قراءتوں کو متواتر قرار دینا مسلماً باطل ہے۔

ثانیاً: قراءتوں میں اختلاف اس چیز کا باعث بنتا ہے کہ قرآن کو غیر قرآن سے تمیز نہ دی جاسکے۔ البتہ یہ ابہام الفاظ قرآن کی ہیئت (شکل و صورت) اور اعراب قرآن کے اعتبار سے پایا جائے گا، یعنی یہ معلوم نہ ہوگا کہ کون سی ہیئت اور اعراب قرآن ہیں اور کون سے نہیں اور یہ اصل قرآن کے متواتر ہوے کے منافی نہیں ہے۔

۲۰۸

بنابرایں مادہئ قرآن (مفردات قرآن) متواتر ہے اور صرف اس کی مخصوص شکل و صورت اور اعراب (زبر زیر پیش) مختلف فیہ ہیں اور ان دو یا دو سے زیادہ کیفیتوں اور حالتوں میں سے کوئی نہ کوئی ضرور قرآن ہے اگرچہ ہم اس کیفیت و حالت کوخصوصیت سے نہ جائیں۔

تتمہ

حق یہ ہے کہ قرآن کے متواتر ہونے سے یہ لازم نہیں آتا کہ قراءتیں بھی متواتر ہوں۔ چنانچہ اس حقیقت کا ''زرقانی،، نے اعتراف کیا ہے وہ فرماتے ہیں:

''بعض علماء نے سا ت قراءتوں کی تائید و تقویت میں مبالغہ سے کام لیا ہے اور کہا کہ قراءتوں میں تواتر کو ضروری نہ سمجھنا کفر ہے کیونکہ قراءتوں میں تواتر کا انکار قرآن کے متواتر نہ ہونے پر منتج ہوتا ہے (یعنی قراءتوں کے تواتر میں انکار کا نتیجہ تواتر قرآن کا انکار ہے) یہ رائے مفتیئ اندلس استاد ابی سعید فرج بن لب کی طرف منسوب کی جاتی ہے۔ اس نے اپنا نظریہ پیش کرنے کی کافی کوشش کی ہے اور اپنے نظریئے کی تائید میں ایک بڑا سا رسالہ بھی لکھا ہے اور اپنے نظریئے پر ہونے پر والے اشکالات کا جواب دیا ہے۔ مگر اس کی دلیل اس کے مدعا کو ثابت نہیں کرتی، کیونکہ قرااءات ہفتگانہ کے عدم تواتر کے قائل ہونے کا لازمہ یہ نہیں ہے کہ قرآن بھی متواتر نہ ہو۔ اس لیے کہ اصل قرآن اور قرآن کی قراءتوں میں بہت فرق ہے اور عین ممکن ہے کہ قرآن ان سات قراءتوں کے بغیر بھی متواتر ہو یا ان الفاظ میں متواتر ہو جن پر تمام قاریوں کا اتفاق ہے یا اس مقدار میں متواتر ہو کہ جس پر اتنے افراد متفق ہیں جن کے کذب پر متفق ہونے کا خدشہ نہیں ہے۔ چاہے یہ لوگ قاری ہوں یا نہ ہوں۔،،(۱)

بعض علمائے کرام نے فرمایا ہے: ''تواتر قرآن سے قراءتوں کا متواتر ہونا لازم نہیں آتا اور علمائے اصول میں سے کسی نے آج تک اس بات کی تصریح نہیں کی کہ قراءتیں متواتر ہیں اور یہ کہ قرآن کا متواتر ہونا قراءتوں کے متواتر ہونے پر موقوف ہے، البتہ ابن حاجب نے یہ بات کہیں ہے۔،،(۲)

____________________

(۱) مناہل العرفان، ص ۴۲۸۔

(۲) التبیان، ص ۱۰۵۔

۲۰۹

زرکشی ''برہان،، میں لکھتے ہیں:

''قرآن اور قراءتیں دو مختلف حقائق ہیں، قرآن وہ وحی الہٰی ہے جو محمد مصطفیٰ (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) پر بیان احکام اور اعجاز کی غرض سے نازل ہوا اور قراءتیں وحی کے مختلف تلفظ، لہجہ، لفظی کیفیت مثلاً شد اور جزم وغیرہ سے عبارت ہیں، اکثر علماء کے نزدیک سات قراءتیں متواتر ہیں اور بعض کے نزدیک یہ متواتر نہیں بلکہ مشہور ہیں۔،،

آگے چل کر زرکشی کہتے ہیں:

''بتحقیق یہ قراءتیں سات قاریوں سے متواتر منقول ہیں لیکن ان کا پیغمبر اکرم(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) سے متواتر منقول ہونا اشکال سے خالی نہیں ہے کیونکہ جس سلسلہ سند سے یہ روائتیں نقل کی گئی ہیں وہ قراءت کی کتب میں مذکور ہے اور اس میں صرف ایک راوی نے ایک راوی سے نق لکی ہے۔،،(۱)

قراءتیں اور سات اسلوب

کبھی یہ تصور کیا جاتا ہے کہ سات حروف سے مراد سات قراءتیں ہیں۔ اس کے بعد اس بات کے ثبوت میں کہ یہ سات قراءتیں قرآن میں داخل ہیں، ان احادیث و روایات سے تمسک کیا ہے جو یہ کہتی ہیں کہ قرآن سات حروف میں نازل ہوا ہے۔

اس غلط فہمی کی طرف قارئین کرام کی توجہ مبذول کرانا لازمی ہے کہ علماء کرام اور محققین میں سے کوئی بھی اس توہم کا شکار نہیں ہوا۔ اس لیے کہ ہم ان روایات کو تسلیم نہیں کرتے۔ ابھی ہم ان روایات کا ذکر نہیں کرتے آئندہ تفصیل سے بات ان کا ذکرکیں گے۔ انشاء اللہ تعالیٰ۔

____________________

(۱) الاتقان النوع، ۲۲۔۲۷، ج ۱، ص ۱۳۸۔

۲۱۰

اس سلسلے میں ہم شروع میں جزائری کا کلام پیش کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے:

''سات قراءتوں کو باقی قراءتوں پر کوئی امتیاز حاصل نہیں تھا۔ یہاں تک کہ ابوبکر احمد بن موسیٰ بن عباس بن مجاہد نے تیسری صدی کے آغاز میں بغداد میں بیٹھ کر مکّہ، مدینہ، کوفہ، بصرہ اور شام کے علماء قراءت میں سے سات قاریوں نافع، عبد اللہ بن کثیر، ابو عمرو بن علائ، عبد اللہ بن عامر، عاصم، حمزہ اور کسائی کا انتخاب کیا۔ اس سے لوگوں کو یہ وہم ہونے لگا کہ یہ سات قراءتیں وہی سات حروف ہیں، حالانکہ ایسا نہیں ہے۔ بعض علماء نے ان سات عدد قراءتوں کے انتخاب کیا ہے انتہائی نامناسب عمل انجام دیا ہے۔ کیونکہ کم فکر افراد اس غلط فہمی کا شکار ہوگئے کہ روایات میں موجود سات حروف سے مراد سات قراءتیں ہیں۔ اس لیے بہتر یہ تھا کہ سات سے کم یا زیادہ کا

انتخاب کیا جاتا تاکہ لوگ اس غلط فہمی میں مبتلا نہ ہوتے۔،،

استاد اسماعیل بن ابراہیم بن محمد قراب کتاب شافی میں لکھتے ہیں:

''صرف سات قراءتوں کے انتخاب ان کی تائید کرنے اور دوسری قراءتوں کو باطل قرار دینے کی کوئی دلیل نہی ںہے یہ تو بعض متاخرین کا کارنامہ ہے جن کو سات سے زیادہ قراءتوں کا علم نہ تھا۔ چنانچہ انہوں نے اس موضوع پر ایک کتاب لکھی اور اس کا نام ''کتاب السبعہ،، رکھ دیا اس کتاب کی لوگوں میں تشہیر کی گئی اور یہ سات مشہور قراءتوں کی بنیاد و دلیل قرار پائی۔،،

امام ابو محمد مکّی فرماتے ہیں:

''ائمہ قراءت نے اپنی کتاب میں ستر سے زیادہ ایسے افراد کا ذکر کیا ہے جن کا مرتبہ ان سات مشہور قاریوں سے بلند ہے۔ اس کے باوجود یہ احتمال کیسے دیا جاسکتا ہے کہ ان سات قاریوں کی قراءتیں وہی سات حروف ہیں جن کا ذکر روایات میں ہوا ہے۔ یہ تو حق وحقیقت سے انحراف ہے۔

۲۱۱

کیا رسول اکرم(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) نے کسی روایت میں یہ تصریح فرمائی ہے کہ سات حروف سے مراد سات قراءتیں ہیں؟! اگر نہیں تو پھر کس دلیل کی بنیاد پر یہ نظریہ قائم کیا گیا ہے اور جبکہ کسائی ابھی کل یعنی مامون رشید کے دور میں ان سات قاریوں میں شامل کیا گیا ہے اور اس سے پہلے ساتواں قاری یعقوب حضرمی تھا اور ۳۰۰ھ میں ابن مجاہد نے یعقوب حضرمی کی جگہ کسائی کو ان قاریوں کی فہرست میں شامل کیا ہے۔،،(۱)

شرف مرسی کہتے ہیں:

''اکثر عوام کا خیال یہ ہے کہ روایات میں سات حروف سے مراد سات قراءتیں ہیں اور یہ فاش غلطی و جہالت ہے۔،،(۲)

قرطبی کا کہنا ہے:

''داؤدی، ابن ابی سفرۃ اور دیگر ہمارے علمائے کرام کا کہنا ہے کہ سات مشہور قاریوں سے منسوب یہ سات قراءتیں، وہ سات حروف نہیں ہیں جن میں سے کسی کے مطابق بھی قرآن پڑھنے کا اختیار صحابہ کرام کو دیا گیا تھا۔ ابن نحاس اور دیگر علماء کی رائے کے مطابق ان سات قراءتوں کی برگشت تو ایک حرف ہے جس کے مطابق حضرت عثمان نے قرآن جمع کیا تھا اور یہ مشہور قراءتیں علماء قراءت کا اپنا انتحاب ہے۔،،(۳)

ابن جزری اس نظریئے کو با ط ل قرار دیتے ہیں جس کے مطابق جن سات حروف پر قرآن نازل ہوا تھا وہ آج تک برقرار ہیں، وہ فرماتے ہیں:

____________________

(۱) التبیان، ص ۸۲۔

(۲) ایضاً، ص ۶۱۔

(۳) تفسیر قرطبی، ج ۱، ص ۴۲۔

۲۱۲

''اس نظریہ کی کمزوری و بے مائیگی کسی سے پوشیدہ نہیں، کیونکہ سات دس اور تیرہ قراءتیں جو آج کل مشہور ہیں وہ ان قراءتوں کے مقابلے میں سمندر کے سامنے قطرہ کی مانند ہیں جو پہلی صدی میں مشہور تھیں۔ کیونکہ ان سات اور ان کے علاوہ دیگر قاریوں نے جن سے قراءتیں اخذ کی ہیں وہ ان گنت ہیں حتی کہ جب تیسری صدی آئی علماء کی مصروفیات زیادہ اور حافظے کم ہوگئے اور کتاب و سنت کے علم کا رواج عام ہوگیا تو بعض علمائے قراءت نے ان قراءتوں کی تدوین شروع کردی جو انہو ںنے گذشتہ علماء قراءت سے حاصل کی تھیں۔ سب سے پہلا بااعتماد امام قراءت جس نے تمام قراءتوں کو ایک کتاب میں جمع کیا وہ ابو عبید القاسم بن سلام تھے۔ میری معلومات کے مطابق انہوں نے سات مشہور قراءتوں سمیت کل پچیس قراءتیں قرار دیں۔ ان کا انتقال ۲۲۴ھ میں ہوا۔ اس کے بعد انطاکیہ کے رہنے والے احمد بن جبیربن محمد کوفی پانچ قراءتوں پر مشتمل ایک کتاب لکھی جو ہر شہر سے ایک قاری پر مشتمل تھی۔ ان کا انتقال ۲۵۸ھ میں ہوا۔ ان کے بعد قالون کے ہم عصر قاضی اسماعل بن اسحاق مالکی نے قراءت پر ایک کتاب لکھی جس میں بیس ائمہ قراءت کی قراءتیں موجود ہیں۔ ان میں سات مشہور قراءتیں بھی شامل ہیں۔ ان کا انتقال ۲۸۲ھ میں ہوا۔ اس کے بعد امام ابو جعفر محمد بن جریر طبری نے ایک مفصل کتاب ''الجامع،، لکھی جو بیس یا اس سے زیادہ ائمہ قراءت کی قراءتوں پر مشتمل ہے۔ انہوں نے ۳۱۰ھ میں وفات پائی۔ طبری کے کچھ ہی عرصہ بعد ابو بکر محمد بن احمد بن عمرو اجونی نے قراءت کے موضوع پر ایک کتاب لکھی جس میں انہوں نے ابوجعفر، جو دس قاریوں میں سے ایک ہے، کو بھی شامل کردیا۔ ان کی وفات ۳۲۴ھ میں ہوئی۔ اس کے بعد ابوبکر احمد بن موسیٰ بن عباس بن مجاہد وہ پہلا قاری ہے، جس نے صرف سات قراءتوں پر اکتفا کیا اور داجونی اور ابن جریر سے بھی اس نے قراءت نقل کی ان کا انتقال ۳۲۴ھ میں ہوا۔،،

۲۱۳

ابن جزری نے ان کے علاوہ بھی قراءت کے موضوع پر کتاب لکھنے والوں کا نام لیا ہے اور پھر فرمایا ہے:

''اس باب کو طول دینے کی وجہ یہ ہے کہ ہمیں بعض جاہلوں کے بارے میں یہ اطلاع ملی ہے کہ وہ صحیح قراءتیں صرف ان سات قراءتوں میں منحصر سمجھتے ہیں اور اور وہ سمجھتے ہیں کہ وہ سات حروف جن کی طرف رسول اکرم(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) نے اشارہ فرمایا تھا یہی سات قراءتیں ہیں بلکہ ان جاہلوں میں سے بعض کا تو غالب خیال یہ ہے کہ صحیح قراءتیں وہی ہیں جو کتب ''الشاطبیہ اور التیسیر،، میں ہیں اور پیغمبر اکرم(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) کی حدیث:

''انزل القرآن علیٰ سبعة أحرف،،

''قرآن سات حروف میں نازل کیا گیا۔،،

کا اشارہ انہی دو کتب میں موجود قراءتوں کی طر فہے حتی کہ ان میں سے بعض نے ہر اس قراءت کو شاذ و نادر قرار دیا ہے جو ان دونوں کتابوں میں موجود نہ ہو جبکہ حق تو یہ ہے کہ بہت سی ایسی قراءتیں جو ان کتب ''الشاطیبہ اور التیسیر،، اور ان سات قراءتوں میں شامل نہیں ہیں وہ ان کتب میں موجود قراءتوں سے زیادہ صحیح ہیں۔ لوگوں کے اس غلط فہمی کاشکار ہونے کی وجہ یہ ہے کہ ہے ان لوگوں نے رسول اکرم(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) کی حدیث: ''انزل القرآن علی سبعۃ اءحرف،، سن رکھی تھی۔ اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے سات قراءتوں کا نام بھی سن لیا۔ اس سے یہ شبہ پیدا ہوا کہ سات قراءتیں وہی ہیں جن کا حدیث میں ذکر ہوا ہے۔ اسی لیے گذشتہ ائمہ قراءت نے ابن مجاہد کی اس رائے کو پسند نہیں کیا اور اسے غلط قرار دیا جس کے مطابق قراءتوں کو سات میں منحصر کردیا گیا۔ اسے چاہیے تھا کہ یا تو وہ قراءتوں کو سات سے زیادہ یا ان سے کم بیان کرتایا پھر اپنے مقصد کی صحیح وضاحت کرتا تا کہ عوام غلط فہی کا شکار نہ ہوتے۔،،

۲۱۴

اس کے بعد ابن جزری نے ابن عمار مہدوی اور ابو محمد مکی کی عبارتیں نقل کی ہیں جن کا ذکر پہلے ہوچکا ہے۔(۱)

ابوشامہ فرماتے ہیں:

''ایک قوم کا گمان ہے کہ موجودہ مروج سات قراءتوں کا ہی حدیث میں ذکر ہے۔ یہ گمان تمام اہل علم کے اجماع کے خلاف ہے اور صرف جاہل ہی اس غلط فہمی میں مبتلا ہوسکتا ہے۔،،(۲)

ہمارے ان بیانات سے قارئین کے سامنے یہ حقیقت واضح ہو جانی چاہیے کہ یہ سات قراءتیں نہ رسول اسلامؐ سے اور نہ قاریوں سے بطور تواتر منقول ہیں بفرض تسلیم اگر یہ قراءتیں قاریوں سے بطور تواتر منقول ہیں تو رسول اکرم(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) سے یقیناً بطور تواتر منقول نہیں بلکہ خبر واحد کے ذریعے منقول ہیں یا قاریوں کا اپنااجتہاد ہے۔

قراءت سے متعلق دو مقامات پر بحث کی جائے گی:

۱۔ حجیت قراءت

علماء کی ایک جماعت کے نزدیک یہ قراءتیں حجت اور سند ہیں اور ان کے ذریعے حکم شرعی پر استدلال کیا جاسکتا ہے۔ جس طرح حیض والی عورت سے خون بند ہونے کے بعد اور غسل کرنے سے پہلے ہمبستری حرام ہونے پر حفص کے علاوہ باقی کوفی قاریوں کی قراءت:''ولا تقربوا هن حتیٰ یطهرن،، میں ط مشدد سے استدلال کیا گیا ہے۔ جس کا ترجمہ یہ ہے: ''جب تک (تمہاری عورتیں) اپنے آپ کو (غسل کے ذریعے) پاک نہ کرلیں ان کے نزدیک نہ جاؤ۔،،(۳)

___________________

(۱) النشر فی القرات العشر، ج۱، ص ۳۳۔۳۷۔

(۲) الاتقان النوع۔ ۲۲۔۲۷، ج ۱، ص ۱۳۸۔

(۳) ''حفص،، کے علاوہ کوفی قاری اسے ''یطھرن،، پڑھتے ہیں جو باب تفعل ہے اور باب تفعل میں ایک معنی ''اتخاذ،، یعنی مبداء کو اپنانا اور حاصل کرنا ہے۔ اس کی رو سے آیہ شریفہ کا ترجمہ یہی ہوگا کہ جب تک عورت غسل کے ذریعے اپنے آپ کو پاک نہ کرے اس سے ہمبستری جائز نہیں۔ دوسرے قول کے مطابق ''یطھرن،، پڑھا گیا ہے اس کا مطلب یہ ہے: ''اپنی عورتوں کے پاس نہ جاؤ جب تک وہ پاک نہ ہو جائیں،، ظاہر ہے خودبخود تو صرف خون بند ہو جانے سے پی پاک ہوا جاسکتا ہے۔ اس قراءت کی رو سے خون بند ہونے کے بعد اور غسل کرنے سے پہلے بھی اس سے ہمبستری کی جاسکتی ہے۔ (مترجم)

۲۱۵

جواب:

لیکن حق یہی ہے کہ قراءتیں حجت نہیں ہیں اور ان کے ذریعے کسی حک شرعی کو ثابت نہیں کیاجاسکتا۔ کیونکہ ہر قاری اشتباہ و غلطی کرسکتا ہے او رمتعدد قاریوں میں سے کسی خاص کی اتباع و پیروی پر ہمارے پاس نہ کوئی عقلی دلیل ہے اور نہ نقلی دلیل اور اس بات پر عقلی و شرعی دلیل قائم ہے کہ غیر علم کی اتباع کرنا جائز نہیں ہے۔ اس کی مزید وضاحت آئندہ کی جائے گی۔ انشاء اللہ تعالیٰ۔

ہوسکتا ہے ہمارے اس جواب پریہ اعتراض کیا جائے کہ اگرچہ قراءتیں خود متواتر نہیں ہیں لیکن خبر واحد کے ذریعے رسول اسلامؐ سے ضرور منقول ہیں، اس بناء پر وہ دلائل قطعیہ و یقینیہ ان قراءتوں کو شامل ہوں گے جو خبر واحد کے حجت ہونے پر دلالت کرتے ہیں۔ جب یہ دلائل یقینیہ و قطعیہ ان قراءتوں کو شامل ہوں تو پھر ان قراءتوں پر عمل کرنا ورود یا حکومت یا تخصیص(۱) کی بنیاد پر عمل بالظن سے خارج ہو جائے گا (یعنی عمل بالظن نہیں کہلائے گا)۔

جواب:

اولاً: یہ ثابت نہیں کہ یہ قراءتیں روایت کے ذریعے منقول ہیں کہ خبر واحد کی حجیت کے دلائل ان کو بھی شامل ہوں۔ اس لئے یہ احتمال دیا جاسکتا ہے کہ یہ قراءتیں ہر قاری کا اپنا اجتہاد ہوں۔ چنانچہ اس احتمال کی تائید بعض علمائے کرام کے کلام سے بھی ہوتی ہے بلکہ جب قاریوں کے اختلاف کی وجہ و منشاء کو دیکھتے ہیں تو اس احتمال کو مزید تقویت ملتی ہے کیوں کہ اس وقت (حضرت عثمان کے دور حکومت میں) مرکز سے دیگر علاقوں میں بھیجے جانے والے قرآنی نسخوں پر نقطے اور اعراب نہیں ہوتے تھے۔

____________________

(۱) ان معانی اور اصلاحات کی وضاحت ہم اپنے اصول فقہ کے درس کے دوران ''تعادل و ترجیح،، کی بحث میں کرچکے ہیں جو طبع ہوچکا ہے۔

۲۱۶

ابن ابی ہاشم کہتے ہیں:

''سات قراءتوں میں اختلاف کا سبب یہ ہے کہ جن علاقوں میں قرآنی نسخے مرکز سے بھیجے جاتے تھے ان علاقوں میں موجود صحابہ کرام سے لوگ قرآن سیکھتے تھے اور یہ نسخے نقطوں اور اعراب سے خالی ہوا کرتے تھے۔ یہ آگے چل کر فرماتے ہیں:

''ان علاقوں کے لوگوں نے اسی قراءت کو اخذ کیا جو انہوں نے اپنے علاقے کے اصحاب سے سیکھی تھی اور اس میں وہ صرف یہ دیکھتے تھے کہ قرآن کے خط کے موافق ہے یا نہیں۔ اگر یہ قرآنی خط کے مخالف ہوتی تو اسے چھوڑ دیتے تھے۔

پس یہیں سے مختلف شہروں کے لوگوں کی قراءتوں میں اختلاف پیدا ہوگیا۔،،(۱)

زرقانی کہتے ہیں:

''صدر اول کے علمائے کرام قرآن کو نقطے اور حرکات دینا صحیح نہیں سمجھتے تھے کیونکہ اس سے قرآن میں تغیر و تبدل

ہونے کا اندیشہ تھا، ان حرکات اور نقطے دینے کے نتیجے میں قرآن کی اصلی شکل و صورت تبدیل ہوسکتی تھی۔ مگر زمانہ گزرنے کے ساتھ ساتھ مسلمانوں نے محسوس کیا کہ جس مقصد کے لیے حرکات اور نقطے نہیں دیئے گئے اب اسی مقصد کے لیے حرکات اور نقطے دینا لازمی ہوگیا تاکہ کہیں کوئی شخص اپنی مرضی و منشاء کے مطابق کوئی حرکت اور نقطہ دے کر قرآن کو تبدیل نہ کرسکے۔،،(۲)

ثانیاً: ان قراءتوں کے راویوں کا باوثوق ہونا ثابت نہیں ہے اور جب تک ان کا باوثوق ہونا ثابت نہ ہو، خبر واحد کی حجیت کی دلیل ان قراءتوں کو شامل نہ ہوگی۔ چنانچہ قاریوں اور ان کے رایوں کی سوانح حیات سے یہ بات ظاہر ہوچکی ہے۔

____________________

(۲) التبیان، ص ۸۶۔

(۱) مناہل العرفان، ص ۴۰۲، طبع دوم۔

۲۱۷

ثالثاً: اگر یہ تسلیم بھی کرلیا جائے کہ ان قراءتوں کا مسند اور مدرک وہ روایات ہیں اور یہ بھی مان لیا جائے کہ ان روایات کے راوی موثق ہیں پھر بھی ایک سقم باقی رہ جاتا ہے یہ کہ ہم اجمالی طور پر اتنا ضرور جانتے ہیں کہ ان روایات میں سے بعض یقیناً رسول اکرم(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) سے صادر نہیں ہوئیں اور یہ اجمالی علم روایات کے باہمی تعارض اور ٹکراؤ کا باعث بنتا ہے اور بعض روایات سے بعض روایات کی تکذیب ہوتی ہے۔ جس کے نتیجے میں یہ روایات حجت نہیں بنتیں۔

اس کے علاوہ بعض مخصوص روایات کو حجت اور معتبر سمجھنا ترجیح بلا مرجع(۱) ہے جو کہ قبیح ہے۔ لامحالہ کسی نہ کسی مرجح(۲) کو تلاش کرنا پڑے گا، جو روایات کے تعارض اور ٹکراؤ کی صورت میں لازمی ہے او رمرجح کے بغیر ان روایات میں سے کسی روایت کو کسی حکم شرعی کی دلیل قرار دینا جائز نہیں ہے۔

اگر ہم ان روایات کو متواتر سمجھیں تب بھی یہی نتیجہ نکلتا ہے کیوکہ جب دو مختلف قراءتیں رسول اکرم(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) سے بطور تواتر منقول ہوں تو اس سے یہ یقین حاصل ہو جاتا ہے کہ دونوں قراءتیں قرآن ہیں جو خدا کی طرف سے نازل ہوئی ہیں اور ان میں سند کے اعتبار سے کوئی تعارض و ٹکراؤ نہیں ہے بلکہ صرف دلالت اور مفہوم کے اعتبار سے ان میں ٹکراؤ ہوگا۔

جب ہمیں اجمالی طور پر یہ علم ہے کہ دنوں ظاہری معنوںمیں سے ایک معنی کا فی الواقع ارادہ نہیں کیا گیا تو اس صورت میں دونوں معانی ساقط اور ناقابل عمل ہو جائیں گے اور کسی اور دلیل لفظی یا عملی کی طرف رجوع کرنا پڑے گا۔ کیو نکہ دونوں دلیلوں کے سند ظنی ہو، یقینی اور قطعی نہ ہو۔ ترجیح اور تخییر کی دلیلیں ان دلائل کو شامل نہیں جن کی سند قطعی ہو۔ اس کی تفصیل علم اصول کی تعادل و ترجیح کی بحث میں مذکور ہے۔

____________________

(۱) بلا وجہ کسی روایت کو دوسری روایت پر ترجیح دینا۔ (مترجم)

(۲) ترجیح دینے کی وجہ (مترجم)۔

۲۱۸

۲۔ نماز میں ان قراءتوں کا پڑھنا جائز ہے

اکثر شیعہ و سنی علمائے کرام کی رائے یہی ہے کہ نماز میں ان سات قراءتوں کا پڑھنا جائز ہے بلکہ ان علماء میں سے بہت سوں کے کلام میں اس مسئلہ پر اجماع کا دعویٰ کیا گیا ہے۔

بعض کی رائے ہے کہ دس قراءتوں میں سے کوئی بھی نماز میں پڑھی جاسکتی ہے اور بعض کا کہنا ہے کہ نماز میں ہر اس قراءت کا پڑھنا جائز ہے جس کے لغت عرب اور عثمانی قرآنوں میں سے کسی کے مطابق ہونے کا احتمال ہو۔ البتہ سند صحیح ہو لیکن ان قراءتوں کی تعداد معین نہیں کی گئی۔

حق تو یہ ہے کہ قاعدہ اولیہ کی رو سے ہر اس قراءت کا پڑھنا جائز نہیں جس کے بارے میں یہ ثابت نہ ہو کہ اسے رسول اسلامؐ یا کسی امام معصوم نے پڑھا ہے۔ کیونکہ نماز میں قرآن کا پڑھنا واجب ہے۔ بنابرایں ایسی چیز کا پڑھنا کافی نہ ہوگا، جس کا قرآن ہونا ثابت نہ ہو اور عقل کا یہ فیصلہ ہے کہ اگر ایک چیز کے واجب ہونے کا یقین ہو تو اس کی ادائیگی کا یقین کرنا لازمی ہے۔ لہذا ضروری ہے کہ یا تو اتنی نمازیں پڑھی جایں جتنی قراءتیں ہیں یا ایک ہی مقام میں اس اختلافی مقام کو مکرر پڑھا جائے تاکہ امتثال یقینی حاصل ہو۔ مثلاً سورۃ فاتحہ میں دونوں اختلافی قراءتیں ''مالک،، اور ''ملک،، کو پڑھے اور باقی ایک سورہ جو حمد کے پڑھنا چاہیے اس میں یا تو ایسا سورہ پڑھیں جس میں کوئی اختلاف نہ ہو یا سورہ فاتحہ کی طرح اختلافی الفاظ کو مکرر پڑھیں۔

۲۱۹

(یہ وہ احکام تھے جن کا قاعدہئ اولیہ متقاضی ہے) لیکن جہاں تک ائمہ کے زمانے میں مشہور قراءتوں کے بارے میں شیعوں کے لیے معصومین کی قطعی تقریر(۱) کا تعلق ہے، اس میں کوئی شک نہیں کہ کسی بھی ایسی قراءت پر اکتفاء کیا جاسکتا ہے جو معصومین(ع) کے زمانے میں مشہور تھی اور معصومین(ع) نے اسے پڑھنے سے روکا بھی نہیں۔ اس لیے کہ اگر کسی امام(علیہ السلام) نے روکا ہوتا تو اس کی خبر بطور تواتر ہم تک پہنچتی یا کم از کم خبر واحد کے ذریعے ہی پہنچتی۔ بلکہ روایات سے یہ استفادہ ہوتا ہے کہ ائمہ ھدیٰ نے ان قراءتوں کی تصدیق و تائید فرمائی ہے۔ چنانچہ معصوم کا فرمان ہے۔

''اقرأ کما یقرأ الناس،، ۔۔۔''جس طرح دوسرے پڑھتے ہیں تم بھی اسی طرح پڑھو۔،،

''اقروا کما علمتم،، ۔۔۔''جس طرح تمہیں سکھایا جاے اسی طرح پڑھو۔،،(۲)

ان روایات کی موجودگی میں صرف سات یا دس قراءتوں پر اکتفاء کرنے کی کوئی وجہ نظر نہیں آتی۔ ہاں! ایسی قراءت پر اکتفاء نہیں کیا جاسکتا جو شاذ و نادر ہو، اہلسنت کے نزدیک موثق راویوں کے ذریعے ثابت نہ ہو اور من گھڑت ہو۔

مثال کے طور پر ''ملک یوم الدین،، میں ''ملک،، کے لیے صیغہ ماضی کا ہو اور یوم منصوب ہو۔ یہ شاذ و غیر معروف ہے اور جعلی قراءت کی مثال یہ ہے ۔''انما یخشی الله من عباده العلمائ،، میں لفظ ''اللہ،، پر پیش اور لفظ ''العلمائ،، پر زبر دیا گیا ہے۔ یہ خزاعی کی قراءت ہے جو ابو حنیفہ سے منقول ہے۔

اس بحث کا خلاصہ یہ ہے کہ نماز مںی ہر اس قراءت کا پڑھنا جائز ہے جو اہل بیت اطہار (علیہم السلام) کے زمانے میں مشہور تھی۔

____________________

(۱) یعنی کوئی فعل امام(علیہ السلام) کے سامنے انجام دیا جائے اور امام(علیہ السلام) اس سے نہ روکیں۔(مترجم)

(۲) الکافی: باب النو ادر کتاب فضل القرآن۔

۲۲۰

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

مَا نَنسَخْ مِنْ آيَةٍ أَوْ نُنسِهَا نَأْتِ بِخَيْرٍ مِّنْهَا أَوْ مِثْلِهَا أَلَمْ تَعْلَمْ أَنَّ اللّهَ عَلَىَ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ ( ۱۰۶ )

اور اےرسول ہم جب بھى كسى آيت كو منسوخ كرتےہيں يادلوں سے محو كرديتے ہيں تو اس سےبہتر يا اى كى جيسى آيت ضرورے آتے ہيں _كيا تم نہيں جانتے كہ الله ہرشے پر قادر ہے(۱۰۶)

۱ _ اديان الہى قابل نسخ ہيں _ما ننسخ من آية او ننسها

گذشتہ آيات جن ميں بعثت پيامبر (ص) اور اہل كتاب كو شريعت اسلام كى دعوت كا ذكر تھا ان كى روشنى ميں '' آية'' كے مصاديق ميں سے ايك گزشتہ اديان ہيں _ '' ماننسخ'' ميں '' ما'' شرطيہ ہے اور '' ننسخ'' كے لئے مفعول ہے جبكہ ''من'' بيانيہ ہے يعنى وہ جو ہم آيات ميں سے منسوخ كرتے ہيں

۲ _ اللہ تعالى ممكن ہے بعض اديان يا ايك دين كے بعض احكام كو ذہنوں سے اور دلوں سے محو كردے_ما ننسخ من آية او ننسها

'' ننسي'' كا مصدر '' انسائ'' ہے جس كا معنى ہے مٹادينا دلوں سے محو كردينا _ يہ معنى ممكن ہے كسى فرمان سے اديان كے ترك يا احكام كے ترك كرنے كے ساتھ پورا ہوتاہواس طرح كہ ذہنون سے مٹ جائيں _

۳ _ قرآن كريم كى آيات اور اسلام كے احكام ميں نسخ كا امكان پايا جاتاہے_ما ننسخ من آية او ننسها

'' آية'' كے مصاديق ميں سے ممكن ہے قرآن كريم كى كوئي آيت يا اسلام كا كوئي حكم مراد ہو_

۴ _ اديان كو منسوخ كرنا، قرآن كريم كى بعض آيات كو منسوخ كرنا يا دين كے بعض احكام كو منسوخ كرنا يہ فقط اللہ تبارك و تعالى كے اختيار ميں ہے _ما ننسخ من آية الم تعلم ان الله على كل شى قدير

يہ مطلب اس طرح سے ہے كہ نسخ كى نسبت اللہ تعالى كى طرف دى گئي ہے اور اس كى دليل اللہ تعالى كے اقتداراور قدرت سے بيان كى گئي ہے ''الم تعلم ''

۵ _ لوگوں كو سابقہ اديان كے ترك كرنے يا بعض آيات اور اسلام كے بعض احكام كو چھڑانے پہ آمادہ كرنا يہ فقط اللہ تعالى ہى كے اختيار ميں ہے_

'' انساء ذہنوں سے محو كرنا '' كى نسبت اللہ تعالى كو دينا نيز جملہ '' الم تعلم ...'' سے يہ مطلب نكلتاہے_

۳۶۱

۶_ گذشتہ اديان كو منسوخ كرنے اور لوگوں كو ان كے ترك پر آمادہ كرنے كے ساتھ ساتھ اللہ تعالى انسانوں كو ان سے بہتر يا ان اديان كى طرح كا دين پيش فرماتاہے_ما ننسخ من آية او ننسها نأت بخير منها او مثلها

حرف '' او'' تنويع كے لئے ہے _ پس '' نأت بخير منہا ہم اس سے بہتر يا اسى كى مثل لاتے ہيں '' سے مراد نئے احكام كا آناہے ان ميں سے بعض احكام منسوخ شدہ احكام سے بہتر اور بعض احكام انہى كى مثل ہيں _

۷_ اللہ تعالى اگر قرآن كى كسى آيت يا اسلام كے كسى حكم كو منسوخ فرماتا ہے يا ان كے ترك كرنے كا حكم ديتاہے تو ان كى جگہ ان سے بہتر يا ان كے مثل آيت يا حكم نازل فرماتاہے_ما ننسخ من آية او ننسها نأت بخير منها او مثلها

۸_ احكام الہى ميں انسانوں كے لئے مصلحت پائي جاتى ہے اور يہ خير و سعادت كے ضامن ہيں _

نأت بخير منها او مثلها

۹_ زمانوں كے نشيب و فراز ميں اديان نے ارتقائي سفر طے كيا _ما ننسخ من آية او ننسها نأت بخير منها او مثلها

۱۰_ آيات الہى ميں تفاوت پايا جاتاہے بعض بعض پر فضيلت ركھتى ہيں _نأت بخير منها

۱۱_ گذشتہ اديان كو منسوخ كرنا اور ان كى جگہ بہتر يا انہى كى مثل دين پيش كرنا يہ بندگان خدا پر اللہ تعالى كى رحمت اور فضل ہے _والله ذو الفضل العظيم ما ننسخ من آية نأت بخير منها او مثلها

پہلى آيت ميں فضل و رحمت الہى كا ذكر كرنا اور اسكے بعد ايك دين كو منسوخ كركے نئي شريعت كو نازل كرنا يہ چيز حكايت كرتى ہے كہ ايك دين كو منسوخ كركے اسكى جگہ نئي شريعت كا نفاذ يہ اللہ تعالى كى رحمت اور فضل كے مصاديق ميں سے ہے _

۱۲ _ اللہ تعالى كى طاقت اور قدرت انتہائي وسيع اور لامحدود ہے _ان الله على كل شيء قدير

۱۳ _ اللہ رب العزت كا انتہائي وسيع اور لامحدود قدرت كا مالك ہونا يہ امر انسانوں كے لئے ايك واضح اور روشن مسئلہ ہے _الم تعلم ان الله على كل شى قدير

اس جملہ ميں موجود استفہام تقريرى ہے اور يہ ايسے موارد ميں استعمال ہوتاہے جہاں مخاطب جملے كے مضمون كو مانتا اور اس پر يقين ركھتا ہو _

اس جملہ ميں مورد خطاب سب انسان ہيں يعنى ''الم تعلم ايہا الانسان'' معلوم ہوتاہے كہ سب انسان اللہ تعالى كى لامحدود قدرت و طاقت سے آگاہ ہيں _

۳۶۲

۱۴_ اديان يا دين كے بعض احكام كو منسوخ كرنا يہ اللہ تعالى كى لامحدود قدرت كى وجہ سے ہے _

ما ننسخ من آية او ننسها الم تعلم ان الله على كل شيء قدير

يہ جملہ'' الم تعلم يقينا تم جانتے ہو كہ اللہ تعالى ہر چيز پر قادر ہے '' آيت ميں موجود حقائق كے لئے دليل ہے اور احكام كا منسوخ كرنا يا فراموش كروادينا انہى حقائق ميں سے ہيں يعنى چونكہ اللہ تعالى لامحدود قدرت كا مالك ہے لہذا دين كو منسوخ كرسكتاہے_

۱۵ _ منسوخ شدہ دين كى جگہ نيادين يا نئي شريعت نافذ كرنا يا منسوخ حكم كى جگہ نيا حكم نازل كرنا يہ لامحدود قدرت كى وجہ سے ہے _نا ت بخير منها او مثلها الم تعلم ان الله على كل شيء قدير

اس مطلب ميں جملہ تعليليہ'' الم تعلم ...'' كا معنى اس جملہ ''نأت بخير ...'' سے ارتباط كے عنوان سے ہوا ہے يعنى چونكہ اللہ تعالى قادر مطلق ہے لہذا بہتر شريعت يا منسوخ شدہ شريعت كى مثل انتخاب كرنے ميں بھى قادر ہے _

۱۶ _ عالم تشريع اور عالم تكوين كا آپس ميں گہرا رابطہ ہے_*نأت بخير منها او مثلها الم تعلم ان الله على كل شيء قدير جملہ '' الم تعلم ...'' جملہ'' ما ننسخ ...'' كے لئے تعليل ہے اور اس مطلب كو پہنچارہاہے كہ شريعت كو وہ ہستى منسوخ كرسكتى ہے جو قادر مطلق ہو بنابريں شريعت كا عالم ہستى اور اس پر حكمران قوانين كے ساتھ گہرا ارتباط ہے _

۱۷_ اللہ تعالى كے اس كلام '' ما ننسخ من آية او ننسھا نأت بخير منھا او مثلہا'' كے بارے ميں امام باقرعليه‌السلام سے روايت ہے آپعليه‌السلام نے فرمايا''الناسخ ما حوّْل مثل قوم يونس إذ بداله فرحمهم (۱)

ناسخ يعنى جو كسى چيز كو تبديل كردے جيسا كہ حضرت يونسعليه‌السلام كى قوم جب اللہ تعالى كو ان كے عذاب كے بارے ميں ''بدائ'' حاصل ہوا تو اللہ تعالى نے انہيں اپنى رحمت سے نوازا ...''

آيات الہي: آيات الہى كا تفاوت ۱۰

احكام: منسوخ شدہ احكام كى جگہ دوسرے احكام كا آنا ۷،۱۵; احكام كو فراموش كروادينا ۲; فلسفہ احكام ۸; احكام كا منسوخ ہونا ۱۴،۱۵

اديان:

____________________

۱) تفسير عياشى ج/ ۱ ص ۵۵ ح ۷۷ ، تفسير برہان ج/ ۱ ص ۱۴۰ ح ۲_

۳۶۳

اديان كى تاريخ ۹; اديان كا تكامل ۹; منسوخ شدہ اديان كى جگہ دوسرے اديان كا آنا ۶،۱۱،۱۵;

اديان كا فراموش كرادينا ۲،۵،۶; اديان كا منسوخ ہونا ۱،۴،۶،۱۱،۱۴،۱۵

اسلام : اسلام كے احكام كا منسوخ ہونا ۳،۴،۷; اسلام كى اہميت و كردار۵

اسماء اور صفات: قدير ۱۲،۱۳

اللہ تعالى : اللہ تعالى كى قدرت كے آثار۱۵; اللہ تعالى كے مختصات ۴،۵; اللہ تعالى كے اختيارات ۴۰،۵; افعال الہى ۲; اللہ تعالى كے لئے بداء ۱۷; قدرت الہى ۱۳،۱۴; فضل الہى كے مظاہر ۱۱; قدرت الہى كا وسيع ہونا ۱۲،۱۳; قدرت الہى كى خصوصيات۱۲

انسان: انسانوں كى خداشناسى ۱۳

خير: خير كى زمين ہموار ہونا ۸

دين : دين كا نظام تعليمات۱۶

روايت:۱۷

سعادت: سعادت كے اسباب ۸

عالم تشريع : تشريع اور تكوين ۱۶

قرآن حكيم: قرآن حكيم كى منسوخ شدہ آيات كى جگہ دوسرى آيات كا آنا ۷; قرآن حكيم كى آيات كا منسوخ ہونا ۷; قرآن حكيم ميں نسخ ۳،۴

ناسخ: ناسخ سے كيا مراد ہے ؟ ۱۷

نسخ: نسخ كا سرچشمہ ۴،۱۴

۳۶۴

أَلَمْ تَعْلَمْ أَنَّ اللّهَ لَهُ مُلْكُ السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضِ وَمَا لَكُم مِّن دُونِ اللّهِ مِن وَلِيٍّ وَلاَ نَصِيرٍ ( ۱۰۷ )

كياتم نہيں جانتے كه آسمان و زمين كى حكومت صرف الله كے لئے هے اوراس كے علاوه كوئى سر پرست هے نه مددگار _

۱ _ زمين اور آسمانوں ( عالم ہستى ) پر سلطنت و حكومت فقط اللہ تعالى كے ہى اختيار ميں ہے _

الم تعلم ان الله له ملك السماوات والأرض

مبتدا ( ملك السماوات ...) پر خبر ''لہ'' كا مقدم ہونا حصر پر دلالت كرتاہے_

۲ _ عالم ہستى پر فقط اللہ تعالى كى حاكميت كا منحصر ہونا يہ حقيقت سب كے لئے روشن اور واضح ہے _

الم تعلم ان الله له ملك السماوات والأرض

''الم تعلم '' ميں استفہام تقريرى اس مطلب پر دلالت كررہاہے_ اس كے لئے ماقبل آيت كے نكتہ ۱۳ كى طرف رجوع كريں _

۳ _ عالم آفرينش ميں متعدد آسمان وجود ركھتے ہيں _

ان الله له ملك السماوات

۴ _ انسانوں كے امور كى تدبير اور سرپرستى فقط اللہ تعالى كے ہى اختيار ميں ہے _

و ما لكم من دون الله من ولى ولا نصير

۵ _ انسانوں كا اللہ تعالى كے علاوہ كوئي مددگار يا ناصر نہيں _

و ما لكم من دون الله من ولى ولا نصير

۶ _ اديان الہى اور احكام دين كا عالم ہستى اور جہان خلقت سے بڑا گہرا رابطہ ہے _

نأت بخير منها او مثلها الم تعلم ان الله له ملك السماوات والأرض

كسى دين كے منسوخ ہونے اور نئے دين كى تشريع كے امكان كيلئے يہ جملہ ''الم تعلم ان الله ...'' دليل كى طرح ہے _ كسى دين كے منسوخ ہونے اور نئے دين كى تشريع كے لئے اللہ تعالى كى عالم ہستى پر حاكميت سے استدلال كرنا اس نكتہ كى طرف اشارہ ہے كہ دين اور دين كے قوانين كا عالم ہستى اور اس كے قوانين سے بہت گہرا رابطہ ہے _

۳۶۵

۷ _ اللہ تعالى كى ہمہ پہلو قدرت اور عالم ہستى پرصرف اسى كى حاكميت كے انحصار پر توجہ اديان اور احكام دين كے منسوخ ہونے كے بارے ميں ہر شبہہ كو زائل كرديتى ہے _

ما ننسخ من آية او ننسها الم تعلم ان الله على كل شيء قديرالم تعلم ان الله له ملك السماوات والأرض

ان دو جملوں ميں ''الم تعلم ان الله على ...'' اور ''الم تعلم ان الله له ...'' موجود استفہام تقريرى اس نكتہ كو بيان كررہاہے كہ دين كے منسوخ ہونے اور اس كى جگہ نيادين آنے كے بارے ميں مخاطبين (انسانوں )كو شكوك وشبہات تھے يا ان كے لئے شكوك و شبہات پيدا ہونے والے تھے تو اللہ تعالى نے ان شبہات كا جواب دينے كے لئے فرماياہے كہ اللہ كى ہمہ پہلو قدرت اور اس كى لامحدود حاكميت پر نظر دوڑائيں _

۸_ اللہ رب العزت كى قدرت مطلق اور عالم ہستى پر اس كى حاكميت پر توجہ اس يقين كا موجب ہے كہ خداوند متعال منسوخ شدہ دين سے بہتر دين يا اس كى مثل نازل كرسكتاہے _

نأت بخير منها او مثلها الم تعلم ان الله على كل شى قدير _ الم تعلم ان الله له ملك السماوات والأرض

۹ _ اديان كو منسوخ كرنا اور اللہ تعالى كى جانب سے نيا دين نازل كرنا انسانوں كے امور كى تدبير اور ان كى مدد كے لئے ہے _

ما ننسخ من آية و ما لكم من دون الله من ولى و لا نصير

يہ مطلب جملہ ''ما ننسخ من آية '' اور جملہ '' و ما لكم ...'' ميں ارتباط كا تقاضا ہے_

۱۰_ عالم ہستى پر اللہ تعالى كى ہى مالكيت اور حاكميت كا انحصار اس امر كا تقاضا كرتاہے كہ اس كى ہستى كے علاوہ بندوں كا كوئي اور سرپرست اور مدد گار نہ ہو_

له ملك السماوات والأرض و ما لكم من دون الله من ولى ولا نصير

آسمان: آسمانوں كا متعدد ہونا ۳; آسمانوں كا حكمران ۱

احكام: احكام كا نسخ ۷

اديان : منسوخ شدہ اديان كى جگہ نئے دين كا جاگزيں ہونا ۸،۹; اديان كے منسوخ ہونے كا فلسفہ ۹ اديان كا منسوخ ہونا ۷

اللہ تعالى : اللہ تعالى كے مختصات ۱،۲،۴،۵،۷،۱۰;اللہ تعالى كى حاكميت ۱،۱۰; اللہ تعالى كى مالكيت ۱۰; نصرت الہى ۵،۹;اللہ تعالى كى سرپرستى ۴،۱۰

امور: امور كى تدبير كا سرچشمہ ۴

۳۶۶

انسان: انسانوں كے امور كى تدبير ۴،۹; انسانوں كى خداشناسى ۲; انسانوں كى مدد ۹; انسانوں كا سرپرست ۴،۱۰;انسانوں كا ياور و مددگار ۵،۱۰

ايمان: اللہ تعالى كى قدرت پہ ايمان ۸; ايمان كا متعلق ۸

تشريع: تشريع اور تكوين ۶

خلقت: عالم خلقت كا حكمران ۱،۲،۸

دين: دين كا نظام تعليمات ۶

ذكر: اللہ تعالى كى حاكميت كا ذكر ۷،۸; قدرت الہى كا ذكر ۷،۸

زمين : زمين كا حكمران ۱

نسخ: نسخ كے شبہات كا رد ۷

أَمْ تُرِيدُونَ أَن تَسْأَلُواْ رَسُولَكُمْ كَمَا سُئِلَ مُوسَى مِن قَبْلُ وَمَن يَتَبَدَّلِ الْكُفْرَ بِالإِيمَانِ فَقَدْ ضَلَّ سَوَاء السَّبِيلِ ( ۱۰۸ )

اے لوگو كيا تم يہ چاہتے ہو كہاپنے رسول سے ويساہى مطالبہ كرو جيسا كہموسى سے كيا گيا تھا تو ياد ركھو كہ جسنے ايمان كو كفر سے بدل ليا وہ بدترينراستہ پر گمراہ ہوگيا ہے ( ۱۰۸)

۱_ صدر اسلام كے بعض مسلمان اس امر كے در پے تھے كہ بعض احكام اسلام كے تبديل كرنے كى درخواست كريں _

ام تريدون ان تسئلوا رسولكم

''سؤال'' يا اس كے مشتقات جب كبھى بھى ''عن'' اور اس كى مانند حرف جركے ساتھ دوسرے مفعول كى طرف متعدى ہوں تو سوال كرنے كا معنى ديتے ہيں ورنہ انكا معنى درخواست كرنا بنتاہے_ آيہ مجيدہ ميں جو مفعول دوم كا ذكر نہيں ہوا تو دونوں معانى كا احتمال پايا جاتاہے پس اگر '' ان تسئلوا'' كا معنى درخواست ہو تو ماقبل آيت كى روشنى ميں بعض احكام كا منسوخ ہونا مورد تقاضا ہے _

۲ _ احكام كى تبديلى اور نسخ كا امكان بعض مسلمانوں كو ترغيب دلانے والا ہے كہ وہ بعض احكام كى تبديلى كى درخواست كريں _ما ننسخ من آية ام تريدون ان تسئلوا رسولكم

ما قبل آيت كى روشنى ميں كہا جاسكتاہے كہ بعض مسلمانوں كى بعض احكام كى تبديلى كى طرف رغبت كا سرچشمہ يہ تھا كہ منسوخى احكام كا امكان تھا_

۳۶۷

۳ _ اديان كى منسوخى نيز قرآن كريم كى بعض آيات اور احكام كى منسوخى نے مسلمانوں كو تحريك دلائي كہ پيامبر اسلام (ص) سے بے تكے اور نامناسب سؤالات پوچھيں _ام تريدون ان تسئلوا رسولكم

يہ مطلب اس بناپر ہے كہ '' ان تسئلوا'' كا معنى سوال كرنا ہو_ آيت كے لب و لہجہ ميں چونكہ مذمت موجود ہے پس يہ سوالات غير مناسب ہيں _

۴ _ وہ مسلمان جو بعض احكام كى تبديلى يا نسخ كى درخواست كرنا چاہتے تھے پروردگار عالم كى طرف سے ان كى شديد مذمت كى گئي _ام تريدون ان تسئلوا رسولكم

''ان تسئلوا '' كا مورد خطاب مسلمان ہيں يا اہل كتاب اس سلسلے ميں دو آراء پائي جاتى ہيں يہ جملہ ''كما سئل موسي'' اس بات كى تائيد كرتاہے كہ يہ مسلمان ہوں ورنہ جملہ يوں ہوتا ''كما سئلتم موسى '' جملہ '' ام تريدون _ كيا تم چاہتے ہو '' دلالت كرتاہے كہ درخواست يا سوال انجام نہيں ہوا اسى لئے ہم نے اوپر بيان كيا كہ ''درخواست كرنے كے درپے تھے''_

۵ _ حضرت موسىعليه‌السلام نبى اسلام صلى اللہ عليہ و آلہ و سلم سے پہلے مبعوث ہونے والے نبى تھے_كما سئل موسى من قبل

۶_ بنى اسرائيل نے حضرت موسىعليه‌السلام سے نامناسب سوالات اور درخواستيں كيں _كما سئل موسى من قبل

۷_بنى اسرائيل كى طرح كے انحرافات كى زمين مسلمانوں ميں بھى فراہم تھى _

ام تريدون ان تسئلوا رسولكم كما سئل موسى من قبل

۸_ انبياءعليه‌السلام كے ساتھ روابط و معاملات، ان سے توقعات اور ان سے نامناسب خواہشات كے پورا كرنے معاملے ميں حضرت موسىعليه‌السلام كى قوم بہانہ باز ترين اقوام ميں سے نمونے كى قوم ہے _

ام تريدون ان تسئلوا رسولكم كماسئل موسى من قبل

يہ بعيد نظر آتاہے كہ گذشتہ امتوں ميں فقط حضرت موسىعليه‌السلام كى قوم ہو جو انبياءعليه‌السلام سے غير مناسب خواہشات اور سوالات كيا كرتى تھي_ اس سے يہ نتيجہ نكلتاہے كہ فقط حضرت موسىعليه‌السلام كى قوم كا ذكر كرنا اس لئے ہے كہ يہ صفت ان ميں سب سے زيادہ تھي_

۹ _ بعض احكام كى تبديلى يا نسخ كى درخواست كرنا ايمان كے كھوجانے اور كفر كى طرف رجحان كى بنياديں فراہم كرتاہے _

۳۶۸

ام تريدون ان تسئلوا و من يتبدل الكفر بالايمان

۱۰_ حضرت موسىعليه‌السلام سے نامناسب خواہشات اور سوالات نے آپعليه‌السلام كى قوم كو كفر كى طرف كھينچا اور ايمان سے دور كرديا _و من يتبدل الكفر بالايمان

۱۱ _ آيات الہى اور احكام دين پر ايمان ہى صحيح طريقہ اور اعتدال كا راستہ ہے _

و من يتبدل الكفر بالايمان فقد ضل سواء السبيل

۱۲ _ ايمان كے بعد كفر اختيار كرنا صحيح طريقہ سے منحرف ہونا اور كجروى كى طرف رجحان ہے _

و من يتبدل الكفر بالايمان فقد ضل سواء السبيل

احكام: احكام كے نسخ كے نتائج ۲،۳; احكام كى تبديلى كى درخواست ۱،۲; احكام كے نسخ كى درخواست ۴،۹

اديان : اديان كے نسخ كے نتائج و اثرات۳

ارتداد: ارتداد كى حقيقت ۱۲

اسلام : صدر اسلام كى تاريخ ۱

اللہ تعالى : اللہ تعالى كى سرزنشيں ۴

انبياءعليه‌السلام : انبياءعليه‌السلام كى تاريخ ۵

انحراف: انحراف كے موارد ۱۲

ايمان : آيات الہى پر ايمان ۱۱; دين پر ايمان ۱۱; ايمان كا متعلق۱۱

بنى اسرائيل: بنى اسرائيل كا انحراف ۷; بنى اسرائيل اور انبياءعليه‌السلام ۸; بنى اسرائيل كى بہانہ تراشى ۸; بنى اسرائيل كے سوالات ۶،۱۰; بنى اسرائيل كى تاريخ ۱۰; بنى اسرائيل كى خواہشات ۶،۸ ، ۱۰; بنى اسرائيل كى صفات ۸; بنى اسرائيل كا كفر ۱۰

بے جا توقعات : ۸ بے جا توقعات كے نتائج ۱۰

تحريك: تحريك كے عوامل ۲

حضرت موسىعليه‌السلام : حضرت موسىعليه‌السلام كا واقعہ ۵; حضرت موسىعليه‌السلام كى نبوت ۵

۳۶۹

راہ اعتدال : ۱۱

سوال: نامناسب سوال كے نتائج۱۰; نامناسب سوال ۳،۶

قرآن كريم : قرآن كريم كى آيات كے نسخ كے نتائج ۳

كفر: كفر كى زمين فراہم ہونا ۹،۱۰

مسلمان : صدر اسلام كے مسلمانوں كى خواہشات ۱،۴; مسلمانوں ميں انحراف كى زمين ۷; مسلمانوں ميں سوال كى زمين ۳; مسلمانوں كى سرزنش ۴

نبى اسلام (ص) : نبى اسلام سے سوال ۳

وَدَّ كَثِيرٌ مِّنْ أَهْلِ الْكِتَابِ لَوْ يَرُدُّونَكُم مِّن بَعْدِ إِيمَانِكُمْ كُفَّاراً حَسَدًا مِّنْ عِندِ أَنفُسِهِم مِّن بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُمُ الْحَقُّ فَاعْفُواْ وَاصْفَحُواْ حَتَّى يَأْتِيَ اللّهُ بِأَمْرِهِ إِنَّ اللّهَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ ( ۱۰۹ )

بہت سےاہل كتاب يہ چاہتے ہيں كہ تمھيں بھيايمان كے بعد كافر بناليں وہ تم سے حسدركھتے ہيں ورنہ حق ان پر بالكل واضح ہےتو اب تم انھيں معاف كردو اور ان سےدرگذر كرو يہاں تك كہ خدا اپنا كوئي بھيجدے اور الله ہرشے پر قادر اعمال كو خوبديكھنے والا ہے (۱۰۹)

۱ _ بہت سے اہل كتاب عشق كى حد تك چاہتے تھے كہ مسلمان مرتد ہوجائيں اور شرك كى طرف لوٹ آئيں _

ودّ كثير من اهل الكتاب لو يردونكم من بعد ايمانكم كفاراً

جملہ'' يردونكم'' حرف مصدرى '' لو '' كى وجہ سے مفرد ميں تبديل ہوگيا ہے لہذا '' ودّ'' كے لئے مفعول قرار پاياہے '' كفاراً'' كافر كى جمع ہے اور ''يردونكم'' كا دوسرا مفعول ہے ''يردون'' كى روشنى ميں كافر سے مراد مشرك ہے نہ كہ يہودى يا نصرانى كيونكہ صدر اسلام كے مسلمان اسلام قبول كرنے سے قبل مشرك تھے_

۲ _ اہل كتاب نے مسلمانوں كو مرتد بنانے كى مسلسل كوششيں كيں _

ودّ كثير من اهل الكتاب لو يردونكم من بعد ايمانكم كفاراً''ودّ'' كا معنى ہے چاہنا ، محبت كرنا ليكن جملہ ''فاعفوا ...'' سے معلوم ہوتاہے كہ اہل كتاب اپنى آرزو (مسلمانوں اور اہل ايمان كو مرتد بنانا) كو پورا كرنے كے لئے مسلسل سازشيں بھى كرتے رہے_

۳۷۰

۳ _ صدر اسلام كے مسلمانوں كو مرتد بنانے كى يہود و نصارى كى آرزو خام تھى اور اس سلسلے ميں ان كى كوششوں كو ناكاميوں كا سامنا كرنا پڑا_ودّ كثير من اهل الكتاب لو يردونكم فعل مضارع ( چاہتے ہيں ) كى جگہ فعل ماضى ( ودّ چاہتے تھے) كا استعمال اس نكتہ كى طرف اشارہ ہے كہ ان كى كوششيں بے ثمر رہيں اس طرح كہ گويا اس امر سے انكى محبت اور سعى جاتى رہي_

۴ _ زمانہ بعثت كے يہود و نصارى مسلمانوں كے ايمان پر رشك كرتے اور ان سے حسد كرتے تھے_ودّ كثير من اهل الكتاب لو يردونكم من بعد ايمانكم كفاراً حسداً '' و قالوا لن يدخل ...'' آيت ۱۱۱ كى روشنى ميں اہل كتاب سے مراد يہود ونصارى ہيں _

۵ _ يہود ونصارى كى اہل ايمان كو اسلام سے مرتد بنانے كے لئے كوشش اور عشق كا سرچشمہ ان كا حسد تھا_

ودّ كثير من اهل الكتاب لو يردونكم من بعد ايمانكم كفاراً حسداً'' ودّ كثير ...'' كے لئے '' حسدا'' مفعول لہ ہے يعنى يہ كہ اہل كتاب كى مسلمانوں كو مرتد بنانے كى كوشش اور محبت ان كے حسد كى وجہ سے تھي_

۶ _ مسلمانوں سے اہل كتاب كا حسد ان كے رگ و پے ميں سمايا ہوا تھا _حسداً من عند أنفسهم

۷_ حق كا انكار اور اس كے خلاف معركہ آرائي كے عوامل ميں سے ايك حسد ہے _لو يردونكم من بعد ايمانكم كفاراً حسداً

۸ _ انسانى حسد كے وسيع ميدان ميں ايمان اور دينى عقائد_ودّ كثير من اهل الكتاب حسداً من عند أنفسهم

۹اسلام و قرآن كے خلاف يہود و نصارى كى تبليغاتى كوششيںودَّ كثيرمن اهل الكتاب لو يردونكم من بعدايمانكم كفاراً

۱۰_ اسلام اور مسلمانوں كے خلاف اہل كتاب كى تبليغاتى فعاليت حتى ان كى اپنى نظر ميں اس كى كوئي دينى يا مذہبى بنياد نہ تھي*ودّ كثير من اهل الكتاب لو يردونكم من عند أنفسهم يہ مطلب اس بناپر ہے كہ''من عند أنفسهم'' ، '' ودّ كثير'' سے متعلق ہو يعنى اہل كتاب كوئي مذہبى ذمہ دارى كے احساس كے طور پر مسلمانوں كو اسلام سے مرتد كرنے كے درپے نہ تھے_

۱۱_ پيامبر اسلام (ص) پر ايمان حتى اہل كتاب كى نظر ميں بھى قابل قدر اور كمال كا باعث تھا_ودّ كثير من اهل الكتاب لو يردونكم من بعد ايمانكم كفاراً حسداً انسان ميں حسد كى آگ اس وقت بھڑك اٹھتى ہے جب كسى ميں مادى نعمتوں يا كمالات كو ديكھتاہے پس اہل كتاب جو مسلمانوں كے پيامبر اسلام (ص) پر ايمان لانے پر رشك كرتے تھے ان كى

۳۷۱

نظر ميں ايمان كو ايك بڑى نعمت اور كمال ہونا چاہيئے _

۱۲ _ اديان اور قرآن كريم كى بعض آيات كے نسخ كو بہانہ بناكر يہود ونصارى مسلمانوں كے ذہنوں ميں شبہات پيدا كرنا چاہتے تھے_ما ننسخ من آية ام تريدون ان تسئلوا رسولكم ودّ كثير من اهل الكتاب اہل كتاب كے نسخ كے بارے ميں نامناسب سؤالات اور خواہشات كا ذكر كرنے اور ان خواہشات (ايمان كا كفر ميں تبديل ہونا ) كے برے اثرات بيان كرنے كے بعد اہل كتاب كى مسلمانوں كو مرتد بنانے كى كوششوں كا ذكر كرنا اس معنى كى طرف اشارہ ہے كہ اہل كتاب اس امر كے درپے تھے كہ مسلمانوں ميں نسخ كے بارے ميں شبہات پيدا كريں اور پيامبر اسلام (ص) پر ان كے ايمان كو شك و ترديد سے دوچار كرديں _

۱۳ _ يہود ونصارى مسلمانوں كو ترغيب دلاتے كہ آنحضرت صلى اللہ عليہ و آلہ و سلم سے غير مناسب سوالات و خواہشات كريں _ام تريدون ان تسئلوا ودّ كثير من اهل الكتاب لو يردونكم

۱۴ _ اسلام كى حقانيت حتى يہوديوں اور عيسائيوں كى نظر ميں ايك نہايت واضح ، روشن اور بلاترديد مسئلہ تھا_من بعد ما تبين لهم الحق

۱۵ _ زمانہ بعثت كے مسلمانوں كو اللہ تعالى نے فرمايا كہ اہل كتاب كى سازشوں پرعفو و بخشش سے كام ليں_ فاعفوا وأصفحوا حتى ياتى الله بامره

''عفو '' اور ''صفح'' كا معنى ہے گناہ اور غلطى سے درگذر كرنا _ البتہ يہ بھى كہا گيا ہے كہ ''صفح'' علاوہ بر ايں سرزنش نہ كرنے پر بھى دلالت كرتاہے_

۱۶_ اہل كتاب كى سازشوں سے درگذر كرنا اور ان كے ساتھ جھگڑے و غيرہ سے پرہيز كرنا يہ ايك وقتى حكم تھا_

فاعفوا و أصفحوا حتى ياتى الله بامره

۱۷_ اللہ تعالى نے سازشيوں كے خلاف نئے حكم ( ان سے صف آرائي) كى خوشخبرى مسلمانوں كو دى _

فاعفوا و أصفحوا حتى ياتى الله بامرهاس جملہ '' حتى ياتى اللہ بامرہ_ يہاں تك كہ اللہ تعالى اپنا حكم صادر فرمائے '' سے مراد عفو و درگزر كے قرينہ مقابلہ كو ديكھتے ہوئے جہاد و معركہ آرائي كا حكم ہے_

۱۸_ جب تك مناسب حالات و شرائط آمادہ نہ ہوں دشمن سے آمنا سامنا كرنے ميں احساسات پر كنٹرول كرنا ضرورى ہے _فاعفوا و أصفحوا حتى ياتى الله بامره

۱۹_قوانين اور تعليمات كى قبوليت كے لئے زمين آمادہ كرنا يہ احكام كے بيان ميں قرآنى روشوں ميں سے ايك ہے _

۳۷۲

فاعفوا و أصفحوا حتى ياتى الله بامره سازشيوں كے بارے ميں بخشش و درگزر كے حكم كا وقتى ہونا اسكے مختلف اہداف ہيں _ ان اہداف ميں سے ايك اس حكم كى قبوليت كے لئے زمين كو فراہم كرناہے كيونكہ اگر مسلمانوں كو يہ علم نہ ہوتا كہ يہ حكم وقتى ہے تو ممكن ہے اس حكم كو صحيح ہى نہ سمجھتے اور تسليم بھى نہ كرتے _

۲۰_دشمنوں كى سازشوں كو نظر انداز كرنا اور ان كے آزار و اذيت پر درگزر كرنا ان كے ساتھ نبردآزمائي كا ايك مرحلہ اور ٹيكنيك ہے _فاعفوا و أصفحوا حتى ياتى الله بامره

۲۱ _ سازشى دشمنوں سے آمنا سامنا كرنے كے لئے مرحلہ وار اقدامات كرنا ضرورى ہيں _فاعفوا و أصفحوا حتى ياتى الله بامره

۲۲ _ اللہ تعالى كى قدرت و طاقت لامحدود، وسيع اور ہمہ پہلو ہے _ان الله على كل شى قدير

۲۳ _ اللہ تعالى ايك حكم كو ثابت ركھنے اور دوسرے وقت ميں اسكو اٹھانے نيز ايك حكم كى جگہ دوسرے فرمان كو جاگزيں كرنے پر قدرت ركھتاہے_فاعفوا و أصفحوا حتى ياتى الله بامره ان الله على كل شى قدير آيت ميں بيان شدہ تمام حقائق سے اس جملہ''ان الله'' كو مربوط سمجھا جاسكتاہے اور اسكا ہدف مخاطبين كو اللہ تعالى كى عظيم قدرت كى طرف متوجہ كرنا ہے مذكورہ بالا مطلب ميں اس جملہ''ان الله '' كو عفو و بخشش اور آئندہ زمانے ميں نسخ كے اعتبار سے ملاحظہ كيا گيا ہے

۲۴ _ اللہ تعالى كا سازشى اہل كتاب كو متنبہ كرنا اور ان كو مناسب جواب كے ساتھ دھمكى دينا _حتى ياتى الله بامره ان الله على كل شى قدير اس مطلب ميں جملہ '' ان اللہ ...'' كو حكم جہاد ( جو ما ''ياتى اللہ بامرہ'' سے سمجھ ميں آتاہے) كے اعتبار سے ملاحظہ كيا گيا ہے _

۲۵_ اللہ تعالى كا سازشى اہل كتاب كے ساتھ درگزر كرنے كا فرمان دينے كا مطلب ہرگز يہ نہ تھا كہ پروردگار عالم صدر اسلام كے مسلمانوں كى مدد كرنے كى قدرت نہ ركھتا تھا_فاعفوا و أصفحوا حتى ياتى الله بامره ان الله على كل شى قدير اس مطلب ميں جملہ''ان الله '' كو''فاعفوا وأصفحوا'' كے اعتبار سے ملاحظہ كيا گيا ہے يعنى يہ كہ كہيں ايسا گمان نہ ہو كہ عفو و بخشش يا مقابلہ آرائي كا ترك كرنا اس ليئے ہے كہ اللہ تعالى قدرت نہيں ركھتا بلكہ مسلمانوں كى مصلحت اسى ميں ہے _

۲۶ _صدر اسلام كے مسلم معاشرے كے ساتھ اہل كتاب كا لين دين اور ديگر معاملات تھے_فاعفوا و أصفحوا حتى ياتى الله بامره ان الله على كل شى قدير

۳۷۳

آرزو: صدر اسلام كے مسلمانوں كے مرتد ہونے كى آرزو ۳

احكام: وقتى احكام ۱۶; تبديلى احكام ۲۳; احكام كے بيان كرنے كى روش۱۹;احكام كى قبوليت كى زمين كا فراہم ہونا ۱۹; احكام كا نسخ ہونا ۲۳

احساسات: احساسات كا تعادل ۱۸

اديان: اديان كا نسخ ہونا ۱۲

ارتداد: ارتداد كے عوامل ۲

اسلام: صدر اسلام كى تاريخ ۳،۴،۵،۱۲،۱۳،۲۵،۲۶; اسلام كے خلاف پراپيگنڈہ۹،۱۰; اسلام كى حقانيت ۱۴

اسماء اور صفات: قدير۲۲

اللہ تعالى : اوامر الہى ۲۵; الہى بشارتيں ۱۷; الہى نصيحتيں ۱۵; قدرت الہى ۲۲،۲۳; اللہ تعالى كى تنبيہات ۲۴

اہل كتاب: اہل كتاب كے ساتھ آمنا سامنا كرنے سے اجتناب۱۶; صدر اسلام ميں اہل كتاب ۲۵، ۲۶; اہل ا كتاب اور مسلمانوں كا مرتد ہونا ۱،۲; اہل كتاب اور مسلمان ۶; اہل كتاب اور صدر اسلام كے مسلمان ۲۶; اہل كتاب كى بصيرت ۱۰،۱۱; اہل كتاب كى تبليغ ۱۰;اہل كتاب كى سازش ۲۴; سازشى اہل كتاب ۱۵،۱۷،۲۵; اہل كتاب كو دھمكى ۲۴; اہل كتاب كى سازش سے چشم پوشى ۱۶; اہل كتاب كا حسد ۶; اہل كتاب كے لئے عفو و درگذر ۱۵; اہل كتاب كے رجحانات ۱; اہل كتاب سے معركہ آرائي ۱۷; اہل كتاب سے نرم رويہ ۲۵

ايمان: پيامبر اسلام (ص) پر ايمان لانے كى اہميت ۱۱

پيامبر اسلام(ص) : پيامبر اسلام (ص) سے سوال ۱۳

جذبہ محركہ (تحريك): جذبہ محركہ كے اسباب ۵

حسد: حسد كے نتائج ۵،۷; عقيدے سے حسد ۸; حسد كا دائرہ۸

۳۷۴

حق : حق كو جھٹلانے كے اسباب ۷; حق كے خلاف نبرد آزمائي كے اسباب ۷

دشمن: دشمنوں كى سازش سے چشم پوشى ۲۰; دشمنوں سے سامنا كرنے يا نمٹنے كى روش ۱۸; دشمنوں سے درگزر ۲۰; دشمنوں سے نبرد آزمائي ۲۰; دشمنوں سے سامنا كرنے كے مراحل ۲۱

دين: دين كے نقصانات كى پہچان ۲،۱۲

سوال : بے جا سوال ۱۳

شبہات: شبہات كے اسباب ۱۲

عيسائي: عيسائيوں كے حسد كے نتائج ۵; عيسائيوں كى آرزوئيں ۳; عيسائيوں كا پراپيگنڈہ۹; صدر اسلام كے عيسائيوں كا حسد ۴; عيسائيوں كا شبہہ ميں مبتلا كرنا ۱۲; عيسائيوں كے رجحانات۵; عيسائي اور مسلمانوں كا مرتد ہونا ۳،۵; عيسائي اور اسلام ۹،۱۴; عيسائي اور قرآن ۹; عيسائي اور مسلمان ۴،۱۲،۱۳

قدريں : قدروں كا معيار۱۱

قرآن كريم : قرآن كريم كے خلاف پراپيگنڈہ ۹; قرآن كريم ميں نسخ۱۲

مسلمان : صدر اسلام كے مسلمانوں كى امداد۲۵; مسلمانوں كو خوشخبرى ۱۷; صدر اسلام كے مسلمانوں كى خواہشات ۱۳; صدر اسلام كے مسلمان ۱۵

ميل جول: غيروں سے ميل جو ل۲۶

نبرد آزمائي: نبرد آزمائي ميں احساسات كو متوازن ركھنا ۱۸; نبردآزمائي كى روش ۱۸،۲۰،۲۱; معركہ آرائي كے مراحل ۲۰

نسخ: نسخ كا منبع ۲۳

يہودي: يہوديوں كے حسد كے نتائج ۵; يہوديوں كى آرزوئيں ۳; يہوديوں كا پراپيگنڈہ۹; صدر اسلام كے يہوديوں كا حسد ۴; يہوديوں كا شبہہ ميں مبتلا كرنا ۱۲; يہوديوں كے رجحانات ۵; يہود اور مسلمانوں كا مرتد ہونا ۳،۵; يہود اور اسلام ۹،۱۴; يہود اورقرآن ۹; يہود اور مسلمان ۴،۱۲،۱۳

۳۷۵

وَأَقِيمُواْ الصَّلوةَ وَآتُواْ الزَّكَوةَ وَمَا تُقَدِّمُواْ لأَنفُسِكُم مِّنْ خَيْرٍ تَجِدُوهُ عِندَ اللّهِ إِنَّ اللّهَ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرٌ ( ۱۱۰ )

اور تم نماز قائمكرو اور زكوة ادا كرو كہ جو كچھ اپنےواسطے پہلے بھيج دوگے سب كے يہاں مل جائےگا _ خدا تمھارے اعمال كو خوب ديكھنےوالا ہے ( ۱۱۰)

۱_ نماز قائم كرنا اورزكوة ادا كرنا ضرورى ہے _و اقيموا الصلاة و آتوا الزكاة

۲ _ مسلمانوں كى دشمنوں سے صف آرائي كى آمادگى كے لئے نماز كے قيام اورزكوة كى ادائيگى كى بہت زيادہ اہميت ہے _

فاعفوا و أصفحوا حتى ياتى الله بامره و اقيموا الصلاة و آتوا الزكاة

اس آيت كے نزول مبارك سے قبل مسلمانوں كے لئے نماز اورزكوة كا وجوب بيان ہوچكا تھا لہذا يہاں اس كى تاكيد سے معلوم ہوتاہے كہ يہ ماقبل آيت ميں موجودامر( فاعفوا و أصفحوا) كے وقوع پذير ہونے كے لئے راہنمائي ہے نيز جہاد اور معركہ آرائي ( جس كا ''حتى ياتى اللہ بامرہ'' ميں اشارہ ہوچكا ہے) كى زمين كے آمادہ ہونے كى طرف بھي

اشارہ ہے _ مذكورہ بالا مطالب ميں ''اقيموا الصلاة ...'' كا''حتى ياتى الله ...'' كے ساتھ ارتباط كے لحاظ سے معنى كيا گيا ہے _

۳ _ نماز كا قيام اورزكوة كى ادائيگي، دشمنوں كے آزار و اذيت پر صبر اور ان كے ساتھ نرم رويہ ركھنے كے لئے آمادگى كے عوامل ميں سے ہيں _فاعفوا و أصفحوا و اقيمواالصلاة و آتوا الزكاة

اس مطلب ميں جملہ ''اقيمو الصلاة'' كو جملہ '' فاعفوا و أصفحوا'' كے ساتھ ارتباط كے اعتبار سے ملاحظہ كيا گيا ہے _اس لحاظ سے نماز كے قيام اورزكوة كى ادائيگى پر تاكيد كا ہدف اللہ تعالى كے امر ( دشمنوں سے عفوو درگزر اور ان سے نرم برتاؤ) پر اطاعت كے لئے توانائي اور طاقت پيدا كرنا ہے _

۳۷۶

۴ _ صدر اسلام كے مسلمانوں كا فريضہ تھا كہ نماز كے قيام اورزكوة كى ادائيگى سے اپنى عقيدتى اور اقتصادى بنيادوں كو مضبوط كريں ( تا كہ جہاد اور معركہ آرائي كے لئے آمادہ ہوں )حتى ياتى الله بامره و اقيمو الصلاة و آتو الزكاة

۵ _ اہل ايمان كا اللہ تعالى سے ارتباط اور معاشرتى ضروريات كو پورا كرنا يہ وعدہ الہى ( سازشيوں كے خلاف نبردآزمائي) كى تكميل كى شرائط اور حالات كو تيار كرنا ہے _فاعفوا و أصفحوا حتى ياتى الله بامره و اقيموا الصلاة و آتوا الزكاة

۶ _ نيك اعمال انجام دينا انسان كے لئے عالم آخرت كا توشہ ہے _و ما تقدموا لأنفسكم من خير تجدوه عند الله

۷_ نماز كا قيام اورزكوة كى ادائيگى عالم آخرت كے لئے بہترين نيك كام اوربہت ہى اعلى توشہ ہے _اقيموا الصلاة و آتواالزكاة و ما تقدموا لأنفسكم من خير تجدوه عند الله '' خير_ نيك اور پسنديدہ عمل '' نماز كو بھى شامل ہے ان دو اعمال كا خصوصى طور پر ذكر كرنا اس معنى كى طرف اشارہ ہے كہ نيك كاموں ميں سے يہ دو فريضے انتہائي بہترين اور آخرت كے لئے انتہائي نفع بخش توشہ ہيں _

۸ _ انسان كے اعمال خير كبھى بھى فنا نہيں ہوتے اور اللہ تعالى كے ہاں باقى رہتے ہيں _و ما تقدموا لأنفسكم من خير تجدوه عند الله

۹_اللہ تعالى انسان كے نيك اعمال كا خازن اورامين ہے_تجدوه عند الله

۱۰_ قيامت ان نيك اور پسنديدہ اعمال كے ظہور كا ميدان ہے جو انسان نے دنيا ميں انجام ديئے ہيں _و ما تقدموا لأنفسكم من خير تجدوه عند الله '' تجدوہ _ تم اسكو پاؤ گے '' كى مفعولى ضمير '' خير '' كى طرف لوٹتى ہے اسكا تقاضا يہ ہے كہ انسان نے جو نيك عمل انجام ديا ہے اسى كے روبرو ہوگا_ يعنى يہ كہ انسان كے نيك اعمال قيامت كے دن كسى نہ كسى طرح ظاہر ہوں گے _

۱۱_ قيامت ميں اعمال كا مجسم ہونا _و ما تقدموا تجدوه عند الله

۱۲ _ نيك كاموں كا اجر بغير كسى ذرہ برابر كمى كے ديا جائے گا، اسكى ضمانت اللہ تعالى كى جانب سے دى گئي ہے _

و ما تقدموا لأنفسكم من خير تجدوه عند الله اس مطلب ميں '' تجدوہ'' كا معنى جيسا كہ اكثر مفسرين نے كيا ہے '' عمل كى جزا پانا'' كيا گيا ہے '' عمل كى جزا پانا '' اسكى جگہ يہ تعبير '' خود عمل كو پانا'' استعمال كرنا اس ميں يہ نكتہ موجود ہے كہ انسانوں كو نيك اعمال كى جزا بغير كسى ذرہ برابر كمى كے اسطرح عطاكى جائے گى كہ گويا وہ عمل ان كو عنايت كيا گيا ہے_

۳۷۷

۱۳ _ اللہ تعالى انسانوں كے نيك اعمال ( نماز كا قيام،زكوة كى ادائيگى و غيرہ ) سے بے نياز ہے_و ما تقدموا لأنفسكم من خيرتجدوه عند الله '' لأنفسكم _ تمہارے اپنے لئے '' اس قيد كو لانے كا مقصد انسانوں كو اس حقيقت كى طرف متوجہ كرناہے كہ جو كچھ انجام ديتے ہو اسكا فائدہ خود تمہيں ہى ہے كہيں ايسا خيال نہ كرنا كہ اللہ تعالى كو اسكى ضرورت ہے اور اس كو بھى اسكا كوئي نفع حاصل ہوتاہے _

۱۴ _ اللہ تعالى انسانوں كے اعمال اور نيك كردار سے آگاہ ہے _ان الله بما تعملون بصير

۱۵ _ انسان كے نيك اعمال پر اللہ تعالى كى نظارت پر توجہ اور يقين ان اعمال كے انجام دينے كى بنياديں فراہم كرتے ہيں _ان الله بما تعملون بصير

اللہ تعالى كى انسانى اعمال پر نظارت كے بيان كرنے كے اہداف ميں سے ايك يہ ہے كہ نيك اعمال كى زمين فراہم كى جائے_

اجر: اجر كى ضمانت ۱۲

اسماء اور صفات: بصير ۱۴،۱۵; جمالى صفات ۱۳

اقتصاد: اقتصادى بنيادوں كى تقويت ۴

اللہ تعالى : افعال الہى ۹; اللہ تعالى كى بصيرت ۱۴; اللہ تعالى كى بے نيازى ۱۳; اللہ تعالى كى جزائيں ۱۲; وعدہ الہى كا پورا ہونا ۵; علم الہى ۱۴

انسان: انسان كا اخروى توشہ ۶; انسانى عمل ۱۳،۱۴

ايمان: اللہ تعالى كى نظارت پر ايمان ۱۵; ايمان كا متعلق ۱۵

توشہ: بہترين توشہ آخرت ۷

دشمن: دشمن سے نرم برتاؤ كى بنياد۳ دشمنوں سے نبردآزمائي ۲

زكوة: زكوة كے نتائج۲،۳،۴;زكوة كى اہميت ۱،۷، ۱۳

روابط: اللہ تعالى كے ساتھ ارتباط كے نتائج۵

سازش كرنے والے: سازشيوں سے نبرد آزمائي كى بنياد ۵

۳۷۸

صبر:دشمنوں كى اذيت و آزار پر صبر ۳; صبر كے عوامل ۳

عقيدہ: عقيدتى بنياد كى تقويت ۴

قيامت: قيامت ميں عمل كا مجسم ہونا ۱۰،۱۱; نيك عمل كا قيامت ميں ظہور ۱۰; قيامت كى خصوصيات ۱۰

مسلمان: مسلمانوں كى تقويت كے اسباب ۴; صدر اسلام كے مسلمانوں كى ذمہ دارى ۴

معاشرہ : معاشرتى ضروريات پورا كرنا ۵

نبردآزمائي: نبردآزمائي كى شرائط ۲،۴

نظريہ كائنات: كائناتى نظريہ اور آئيڈيالوجى ۱۵

نماز : قيام نماز كے نتائج ۲،۳،۴; نماز قائم كرنے كى اہميت ۱،۷; نماز كا قيام ۱۳

نيك عمل: نيك عمل كى اہميت ۶; نيك عمل كى بقا ۸،۹; بہترين نيك عمل ۷; نيك عمل كى جزا ۱۲; نيك عمل كى بنياد ۱۵

وَقَالُواْ لَن يَدْخُلَ الْجَنَّةَ إِلاَّ مَن كَانَ هُوداً أَوْ نَصَارَى تِلْكَ أَمَانِيُّهُمْ قُلْ هَاتُواْ بُرْهَانَكُمْ إِن كُنتُمْ صَادِقِينَ ( ۱۱۱ )

يہ يہودى كہتے ہيں كہجنّت ميں يہوديوں اور عيسائيوں كے علاوہكوئي داخل نہ ہوگا _ يہ صرف ان كى اميديں ہيں _ ان سے كہہ ديجئے كہ اگر تم سچے ہوتو كوئي دليل لے آؤ(۱۱۱)

۱_ اہل كتاب (يہود ونصارى ) فقط خو دكو بہشت كا اہل اور دوسروں كو اس سے محروم سمجھتے ہيں _و قالوا لن يدخل الجنة الا من كان هوداً او نصارى '' قالوا'' كى ضمير (آيت ۱۰۹ ميں ) اہل كتاب كى طرف لوٹتى ہے

۲ _ يہودبہشت كو فقط خود سے مخصوص اور دوسروں كو اس

۳۷۹

سے محروم سمجھتے ہيں _و قالوا لن يدخل الجنة الا من كان هوداً آيت ۱۱۳ بيان كرتى ہے كہ يہود و نصارى دونوں ايك دوسرے كو اہل نجات نہيں سمجھتے بنابريں اہل ادب كى اصطلاح ميں مورد بحث آيت ميں ''اجمالى لفّ'' موجود ہے جبكہ '' او'' تفصيل كے لئے ہے يعنى جملہ'' قالوالن ...'' در حقيقت دو جملوں كى حكايت كررہاہے ۱ _ قالت اليہود'' لن يدخل الجنة الا من كان ہوداً '' ۲ _ و قالت النصارى '' لن يدخل الجنة الا من كان نصاري''

۳ _ نصارى خود كو بہشت كا اہل اور دوسروں كو اس سے محروم خيال كرتے ہيں _قالوا لن يدخل الجنة الا من كان هوداً او نصارى '' نصارى '' نصرانى كى جمع ہے جو حضرت مسيحعليه‌السلام كے پيروكاروں كو كہا جاتاہے _ '' ہود'' ہائد كى جمع ہے جو حضرت موسىعليه‌السلام كے پيروكاروں كے لئے استعمال ہوتاہے_

۴ _ يہود و نصارى كا اس پر اتفاق رائے ہے كہ مسلمان بہشت سے محروم ہيں _قالوا لن يدخل الجنة الا من كان هوداً او نصارى يہ جو قرآن حكيم نے يہود و نصارى كے خيال كو ''لفّ اجمالي'' كے ساتھ بيان فرماياہے در اصل اس معنى كى طرف اشارہ ہے كہ يہود و نصارى كا اس دعوى ميں اصل مقصد مسلمانوں كى بہشت سے محروميت كا بيان كرنا ہے _

۵ _ مسلمانوں كے جذبوں كو كمزور كرنے اور ان كى اسلام كى طرف ترغيب و رجحان كو روكنے كى يہود و نصارى كى كوششيں _قالوا لن يدخل الجنة الا من كان هوداً او نصارى

۶_ مسلمانوں كا بہشت سے محروم ہونا يہ يہودو نصارى كا باطل اور نادرست وہم و گمان ہے _تلك امانيهم

''اماني'' ،'' امنية'' كى جمع ہے جس كا معنى ہے آرزوئيں ، باطل خيالات اور گھڑے ہوئے جھوٹ_

۷_ يہود و نصارى كے دينى عقائد او ر معارف باطل خيالات اور توہمات سے ملے ہوئے ہيں _تلك امانيهم

'' تلك امانيھم'' حكايت كررہاہے كہ يہود و نصارى كا ايك دوسرے كى بہشت سے محروميت كا خيال ان كى آرزوؤں اور خيالات ميں سے ہے در آں حاليكہ يہو د و نصارى اس كو ايك دينى عقيدہ خيال كرتے ہيں _ پس يہودو نصارى كے دينى و مذہبى عقائد ان كے خيالات اور آرزؤں سے ملے ہوئے ہيں _

۸_ يہود و نصارى كے پاس اپنے دعوى (بہشت ان سے مخصوص ہے اور مسلمان اس سے محروم ہيں ) كے لئے كوئي دليل نہيں ہے _قل هاتوا برهانكم ان كنتم صادقين '' ہات'' كى جمع'' ہاتوا'' ہے يہ اسم فعل ہے جس كا معنى ہے عطاكر _ ''ہاتو برہانكم'' يعنى اپنى دليل و برہان پيش كرو _

۳۸۰

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

461

462

463

464

465

466

467

468

469

470

471

472

473

474

475

476

477

478

479

480

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

501

502

503

504

505

506

507

508

509

510

511

512

513

514

515

516

517

518

519

520

521

522

523

524

525

526

527

528

529

530

531

532

533

534

535

536

537

538

539

540

541

542

543

544

545

546

547

548

549

550

551

552

553

554

555

556

557

558

559

560

561

562

563

564

565

566

567

568

569

570

571

572

573

574

575

576

577

578

579

580

581

582

583

584

585

586

587

588

589

590

591

592

593

594

595

596

597

598

599

600

601

602

603

604

605

606

607

608

609

610

611

612

613

614

615

616

617

618

619

620

621

622

623

624

625

626

627

628

629

630

631

632

633

634

635

636

637

638

639

640

641

642

643

644

645

646

647

648

649

650

651

652

653

654

655

656

657

658

659

660

661

662

663

664

665

666

667

668

669

670

671

672

673

674

675

676

677

678

679

680

681

682

683

684

685

686

687

688

689

690

691

692

693

694

695

696

697

698

699

700

701

702

703

704

705

706

707

708

709

710

711

712

713

714

715

716

717

718

719

720

721

722

723

724

725

726

727

728

729

730

731

732

733

734

735

736

737

738

739

740

741

742

743

744

745

746

747

748

749

750

751

752

753

754

755

756

757

758

759

760

761

762

763

764

765

766

767

768

769

770

771

772

773

774

775

776

777

778

779

780

781

782

783

784

785