تفسير راہنما جلد ۱

 تفسير راہنما 10%

 تفسير راہنما مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن
صفحے: 785

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴ جلد ۵ جلد ۶ جلد ۷ جلد ۸ جلد ۹ جلد ۱۰ جلد ۱۱
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 785 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 200928 / ڈاؤنلوڈ: 5793
سائز سائز سائز
 تفسير راہنما

تفسير راہنما جلد ۱

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

21

22

23

24

25

26

27

28

29

30

31

32

33

34

35

36

37

38

39

40

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

221

222

223

224

225

226

227

228

229

230

231

232

233

234

235

236

237

238

239

240

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

مَا نَنسَخْ مِنْ آيَةٍ أَوْ نُنسِهَا نَأْتِ بِخَيْرٍ مِّنْهَا أَوْ مِثْلِهَا أَلَمْ تَعْلَمْ أَنَّ اللّهَ عَلَىَ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ ( ۱۰۶ )

اور اےرسول ہم جب بھى كسى آيت كو منسوخ كرتےہيں يادلوں سے محو كرديتے ہيں تو اس سےبہتر يا اى كى جيسى آيت ضرورے آتے ہيں _كيا تم نہيں جانتے كہ الله ہرشے پر قادر ہے(۱۰۶)

۱ _ اديان الہى قابل نسخ ہيں _ما ننسخ من آية او ننسها

گذشتہ آيات جن ميں بعثت پيامبر (ص) اور اہل كتاب كو شريعت اسلام كى دعوت كا ذكر تھا ان كى روشنى ميں '' آية'' كے مصاديق ميں سے ايك گزشتہ اديان ہيں _ '' ماننسخ'' ميں '' ما'' شرطيہ ہے اور '' ننسخ'' كے لئے مفعول ہے جبكہ ''من'' بيانيہ ہے يعنى وہ جو ہم آيات ميں سے منسوخ كرتے ہيں

۲ _ اللہ تعالى ممكن ہے بعض اديان يا ايك دين كے بعض احكام كو ذہنوں سے اور دلوں سے محو كردے_ما ننسخ من آية او ننسها

'' ننسي'' كا مصدر '' انسائ'' ہے جس كا معنى ہے مٹادينا دلوں سے محو كردينا _ يہ معنى ممكن ہے كسى فرمان سے اديان كے ترك يا احكام كے ترك كرنے كے ساتھ پورا ہوتاہواس طرح كہ ذہنون سے مٹ جائيں _

۳ _ قرآن كريم كى آيات اور اسلام كے احكام ميں نسخ كا امكان پايا جاتاہے_ما ننسخ من آية او ننسها

'' آية'' كے مصاديق ميں سے ممكن ہے قرآن كريم كى كوئي آيت يا اسلام كا كوئي حكم مراد ہو_

۴ _ اديان كو منسوخ كرنا، قرآن كريم كى بعض آيات كو منسوخ كرنا يا دين كے بعض احكام كو منسوخ كرنا يہ فقط اللہ تبارك و تعالى كے اختيار ميں ہے _ما ننسخ من آية الم تعلم ان الله على كل شى قدير

يہ مطلب اس طرح سے ہے كہ نسخ كى نسبت اللہ تعالى كى طرف دى گئي ہے اور اس كى دليل اللہ تعالى كے اقتداراور قدرت سے بيان كى گئي ہے ''الم تعلم ''

۵ _ لوگوں كو سابقہ اديان كے ترك كرنے يا بعض آيات اور اسلام كے بعض احكام كو چھڑانے پہ آمادہ كرنا يہ فقط اللہ تعالى ہى كے اختيار ميں ہے_

'' انساء ذہنوں سے محو كرنا '' كى نسبت اللہ تعالى كو دينا نيز جملہ '' الم تعلم ...'' سے يہ مطلب نكلتاہے_

۳۶۱

۶_ گذشتہ اديان كو منسوخ كرنے اور لوگوں كو ان كے ترك پر آمادہ كرنے كے ساتھ ساتھ اللہ تعالى انسانوں كو ان سے بہتر يا ان اديان كى طرح كا دين پيش فرماتاہے_ما ننسخ من آية او ننسها نأت بخير منها او مثلها

حرف '' او'' تنويع كے لئے ہے _ پس '' نأت بخير منہا ہم اس سے بہتر يا اسى كى مثل لاتے ہيں '' سے مراد نئے احكام كا آناہے ان ميں سے بعض احكام منسوخ شدہ احكام سے بہتر اور بعض احكام انہى كى مثل ہيں _

۷_ اللہ تعالى اگر قرآن كى كسى آيت يا اسلام كے كسى حكم كو منسوخ فرماتا ہے يا ان كے ترك كرنے كا حكم ديتاہے تو ان كى جگہ ان سے بہتر يا ان كے مثل آيت يا حكم نازل فرماتاہے_ما ننسخ من آية او ننسها نأت بخير منها او مثلها

۸_ احكام الہى ميں انسانوں كے لئے مصلحت پائي جاتى ہے اور يہ خير و سعادت كے ضامن ہيں _

نأت بخير منها او مثلها

۹_ زمانوں كے نشيب و فراز ميں اديان نے ارتقائي سفر طے كيا _ما ننسخ من آية او ننسها نأت بخير منها او مثلها

۱۰_ آيات الہى ميں تفاوت پايا جاتاہے بعض بعض پر فضيلت ركھتى ہيں _نأت بخير منها

۱۱_ گذشتہ اديان كو منسوخ كرنا اور ان كى جگہ بہتر يا انہى كى مثل دين پيش كرنا يہ بندگان خدا پر اللہ تعالى كى رحمت اور فضل ہے _والله ذو الفضل العظيم ما ننسخ من آية نأت بخير منها او مثلها

پہلى آيت ميں فضل و رحمت الہى كا ذكر كرنا اور اسكے بعد ايك دين كو منسوخ كركے نئي شريعت كو نازل كرنا يہ چيز حكايت كرتى ہے كہ ايك دين كو منسوخ كركے اسكى جگہ نئي شريعت كا نفاذ يہ اللہ تعالى كى رحمت اور فضل كے مصاديق ميں سے ہے _

۱۲ _ اللہ تعالى كى طاقت اور قدرت انتہائي وسيع اور لامحدود ہے _ان الله على كل شيء قدير

۱۳ _ اللہ رب العزت كا انتہائي وسيع اور لامحدود قدرت كا مالك ہونا يہ امر انسانوں كے لئے ايك واضح اور روشن مسئلہ ہے _الم تعلم ان الله على كل شى قدير

اس جملہ ميں موجود استفہام تقريرى ہے اور يہ ايسے موارد ميں استعمال ہوتاہے جہاں مخاطب جملے كے مضمون كو مانتا اور اس پر يقين ركھتا ہو _

اس جملہ ميں مورد خطاب سب انسان ہيں يعنى ''الم تعلم ايہا الانسان'' معلوم ہوتاہے كہ سب انسان اللہ تعالى كى لامحدود قدرت و طاقت سے آگاہ ہيں _

۳۶۲

۱۴_ اديان يا دين كے بعض احكام كو منسوخ كرنا يہ اللہ تعالى كى لامحدود قدرت كى وجہ سے ہے _

ما ننسخ من آية او ننسها الم تعلم ان الله على كل شيء قدير

يہ جملہ'' الم تعلم يقينا تم جانتے ہو كہ اللہ تعالى ہر چيز پر قادر ہے '' آيت ميں موجود حقائق كے لئے دليل ہے اور احكام كا منسوخ كرنا يا فراموش كروادينا انہى حقائق ميں سے ہيں يعنى چونكہ اللہ تعالى لامحدود قدرت كا مالك ہے لہذا دين كو منسوخ كرسكتاہے_

۱۵ _ منسوخ شدہ دين كى جگہ نيادين يا نئي شريعت نافذ كرنا يا منسوخ حكم كى جگہ نيا حكم نازل كرنا يہ لامحدود قدرت كى وجہ سے ہے _نا ت بخير منها او مثلها الم تعلم ان الله على كل شيء قدير

اس مطلب ميں جملہ تعليليہ'' الم تعلم ...'' كا معنى اس جملہ ''نأت بخير ...'' سے ارتباط كے عنوان سے ہوا ہے يعنى چونكہ اللہ تعالى قادر مطلق ہے لہذا بہتر شريعت يا منسوخ شدہ شريعت كى مثل انتخاب كرنے ميں بھى قادر ہے _

۱۶ _ عالم تشريع اور عالم تكوين كا آپس ميں گہرا رابطہ ہے_*نأت بخير منها او مثلها الم تعلم ان الله على كل شيء قدير جملہ '' الم تعلم ...'' جملہ'' ما ننسخ ...'' كے لئے تعليل ہے اور اس مطلب كو پہنچارہاہے كہ شريعت كو وہ ہستى منسوخ كرسكتى ہے جو قادر مطلق ہو بنابريں شريعت كا عالم ہستى اور اس پر حكمران قوانين كے ساتھ گہرا ارتباط ہے _

۱۷_ اللہ تعالى كے اس كلام '' ما ننسخ من آية او ننسھا نأت بخير منھا او مثلہا'' كے بارے ميں امام باقرعليه‌السلام سے روايت ہے آپعليه‌السلام نے فرمايا''الناسخ ما حوّْل مثل قوم يونس إذ بداله فرحمهم (۱)

ناسخ يعنى جو كسى چيز كو تبديل كردے جيسا كہ حضرت يونسعليه‌السلام كى قوم جب اللہ تعالى كو ان كے عذاب كے بارے ميں ''بدائ'' حاصل ہوا تو اللہ تعالى نے انہيں اپنى رحمت سے نوازا ...''

آيات الہي: آيات الہى كا تفاوت ۱۰

احكام: منسوخ شدہ احكام كى جگہ دوسرے احكام كا آنا ۷،۱۵; احكام كو فراموش كروادينا ۲; فلسفہ احكام ۸; احكام كا منسوخ ہونا ۱۴،۱۵

اديان:

____________________

۱) تفسير عياشى ج/ ۱ ص ۵۵ ح ۷۷ ، تفسير برہان ج/ ۱ ص ۱۴۰ ح ۲_

۳۶۳

اديان كى تاريخ ۹; اديان كا تكامل ۹; منسوخ شدہ اديان كى جگہ دوسرے اديان كا آنا ۶،۱۱،۱۵;

اديان كا فراموش كرادينا ۲،۵،۶; اديان كا منسوخ ہونا ۱،۴،۶،۱۱،۱۴،۱۵

اسلام : اسلام كے احكام كا منسوخ ہونا ۳،۴،۷; اسلام كى اہميت و كردار۵

اسماء اور صفات: قدير ۱۲،۱۳

اللہ تعالى : اللہ تعالى كى قدرت كے آثار۱۵; اللہ تعالى كے مختصات ۴،۵; اللہ تعالى كے اختيارات ۴۰،۵; افعال الہى ۲; اللہ تعالى كے لئے بداء ۱۷; قدرت الہى ۱۳،۱۴; فضل الہى كے مظاہر ۱۱; قدرت الہى كا وسيع ہونا ۱۲،۱۳; قدرت الہى كى خصوصيات۱۲

انسان: انسانوں كى خداشناسى ۱۳

خير: خير كى زمين ہموار ہونا ۸

دين : دين كا نظام تعليمات۱۶

روايت:۱۷

سعادت: سعادت كے اسباب ۸

عالم تشريع : تشريع اور تكوين ۱۶

قرآن حكيم: قرآن حكيم كى منسوخ شدہ آيات كى جگہ دوسرى آيات كا آنا ۷; قرآن حكيم كى آيات كا منسوخ ہونا ۷; قرآن حكيم ميں نسخ ۳،۴

ناسخ: ناسخ سے كيا مراد ہے ؟ ۱۷

نسخ: نسخ كا سرچشمہ ۴،۱۴

۳۶۴

أَلَمْ تَعْلَمْ أَنَّ اللّهَ لَهُ مُلْكُ السَّمَاوَاتِ وَالأَرْضِ وَمَا لَكُم مِّن دُونِ اللّهِ مِن وَلِيٍّ وَلاَ نَصِيرٍ ( ۱۰۷ )

كياتم نہيں جانتے كه آسمان و زمين كى حكومت صرف الله كے لئے هے اوراس كے علاوه كوئى سر پرست هے نه مددگار _

۱ _ زمين اور آسمانوں ( عالم ہستى ) پر سلطنت و حكومت فقط اللہ تعالى كے ہى اختيار ميں ہے _

الم تعلم ان الله له ملك السماوات والأرض

مبتدا ( ملك السماوات ...) پر خبر ''لہ'' كا مقدم ہونا حصر پر دلالت كرتاہے_

۲ _ عالم ہستى پر فقط اللہ تعالى كى حاكميت كا منحصر ہونا يہ حقيقت سب كے لئے روشن اور واضح ہے _

الم تعلم ان الله له ملك السماوات والأرض

''الم تعلم '' ميں استفہام تقريرى اس مطلب پر دلالت كررہاہے_ اس كے لئے ماقبل آيت كے نكتہ ۱۳ كى طرف رجوع كريں _

۳ _ عالم آفرينش ميں متعدد آسمان وجود ركھتے ہيں _

ان الله له ملك السماوات

۴ _ انسانوں كے امور كى تدبير اور سرپرستى فقط اللہ تعالى كے ہى اختيار ميں ہے _

و ما لكم من دون الله من ولى ولا نصير

۵ _ انسانوں كا اللہ تعالى كے علاوہ كوئي مددگار يا ناصر نہيں _

و ما لكم من دون الله من ولى ولا نصير

۶ _ اديان الہى اور احكام دين كا عالم ہستى اور جہان خلقت سے بڑا گہرا رابطہ ہے _

نأت بخير منها او مثلها الم تعلم ان الله له ملك السماوات والأرض

كسى دين كے منسوخ ہونے اور نئے دين كى تشريع كے امكان كيلئے يہ جملہ ''الم تعلم ان الله ...'' دليل كى طرح ہے _ كسى دين كے منسوخ ہونے اور نئے دين كى تشريع كے لئے اللہ تعالى كى عالم ہستى پر حاكميت سے استدلال كرنا اس نكتہ كى طرف اشارہ ہے كہ دين اور دين كے قوانين كا عالم ہستى اور اس كے قوانين سے بہت گہرا رابطہ ہے _

۳۶۵

۷ _ اللہ تعالى كى ہمہ پہلو قدرت اور عالم ہستى پرصرف اسى كى حاكميت كے انحصار پر توجہ اديان اور احكام دين كے منسوخ ہونے كے بارے ميں ہر شبہہ كو زائل كرديتى ہے _

ما ننسخ من آية او ننسها الم تعلم ان الله على كل شيء قديرالم تعلم ان الله له ملك السماوات والأرض

ان دو جملوں ميں ''الم تعلم ان الله على ...'' اور ''الم تعلم ان الله له ...'' موجود استفہام تقريرى اس نكتہ كو بيان كررہاہے كہ دين كے منسوخ ہونے اور اس كى جگہ نيادين آنے كے بارے ميں مخاطبين (انسانوں )كو شكوك وشبہات تھے يا ان كے لئے شكوك و شبہات پيدا ہونے والے تھے تو اللہ تعالى نے ان شبہات كا جواب دينے كے لئے فرماياہے كہ اللہ كى ہمہ پہلو قدرت اور اس كى لامحدود حاكميت پر نظر دوڑائيں _

۸_ اللہ رب العزت كى قدرت مطلق اور عالم ہستى پر اس كى حاكميت پر توجہ اس يقين كا موجب ہے كہ خداوند متعال منسوخ شدہ دين سے بہتر دين يا اس كى مثل نازل كرسكتاہے _

نأت بخير منها او مثلها الم تعلم ان الله على كل شى قدير _ الم تعلم ان الله له ملك السماوات والأرض

۹ _ اديان كو منسوخ كرنا اور اللہ تعالى كى جانب سے نيا دين نازل كرنا انسانوں كے امور كى تدبير اور ان كى مدد كے لئے ہے _

ما ننسخ من آية و ما لكم من دون الله من ولى و لا نصير

يہ مطلب جملہ ''ما ننسخ من آية '' اور جملہ '' و ما لكم ...'' ميں ارتباط كا تقاضا ہے_

۱۰_ عالم ہستى پر اللہ تعالى كى ہى مالكيت اور حاكميت كا انحصار اس امر كا تقاضا كرتاہے كہ اس كى ہستى كے علاوہ بندوں كا كوئي اور سرپرست اور مدد گار نہ ہو_

له ملك السماوات والأرض و ما لكم من دون الله من ولى ولا نصير

آسمان: آسمانوں كا متعدد ہونا ۳; آسمانوں كا حكمران ۱

احكام: احكام كا نسخ ۷

اديان : منسوخ شدہ اديان كى جگہ نئے دين كا جاگزيں ہونا ۸،۹; اديان كے منسوخ ہونے كا فلسفہ ۹ اديان كا منسوخ ہونا ۷

اللہ تعالى : اللہ تعالى كے مختصات ۱،۲،۴،۵،۷،۱۰;اللہ تعالى كى حاكميت ۱،۱۰; اللہ تعالى كى مالكيت ۱۰; نصرت الہى ۵،۹;اللہ تعالى كى سرپرستى ۴،۱۰

امور: امور كى تدبير كا سرچشمہ ۴

۳۶۶

انسان: انسانوں كے امور كى تدبير ۴،۹; انسانوں كى خداشناسى ۲; انسانوں كى مدد ۹; انسانوں كا سرپرست ۴،۱۰;انسانوں كا ياور و مددگار ۵،۱۰

ايمان: اللہ تعالى كى قدرت پہ ايمان ۸; ايمان كا متعلق ۸

تشريع: تشريع اور تكوين ۶

خلقت: عالم خلقت كا حكمران ۱،۲،۸

دين: دين كا نظام تعليمات ۶

ذكر: اللہ تعالى كى حاكميت كا ذكر ۷،۸; قدرت الہى كا ذكر ۷،۸

زمين : زمين كا حكمران ۱

نسخ: نسخ كے شبہات كا رد ۷

أَمْ تُرِيدُونَ أَن تَسْأَلُواْ رَسُولَكُمْ كَمَا سُئِلَ مُوسَى مِن قَبْلُ وَمَن يَتَبَدَّلِ الْكُفْرَ بِالإِيمَانِ فَقَدْ ضَلَّ سَوَاء السَّبِيلِ ( ۱۰۸ )

اے لوگو كيا تم يہ چاہتے ہو كہاپنے رسول سے ويساہى مطالبہ كرو جيسا كہموسى سے كيا گيا تھا تو ياد ركھو كہ جسنے ايمان كو كفر سے بدل ليا وہ بدترينراستہ پر گمراہ ہوگيا ہے ( ۱۰۸)

۱_ صدر اسلام كے بعض مسلمان اس امر كے در پے تھے كہ بعض احكام اسلام كے تبديل كرنے كى درخواست كريں _

ام تريدون ان تسئلوا رسولكم

''سؤال'' يا اس كے مشتقات جب كبھى بھى ''عن'' اور اس كى مانند حرف جركے ساتھ دوسرے مفعول كى طرف متعدى ہوں تو سوال كرنے كا معنى ديتے ہيں ورنہ انكا معنى درخواست كرنا بنتاہے_ آيہ مجيدہ ميں جو مفعول دوم كا ذكر نہيں ہوا تو دونوں معانى كا احتمال پايا جاتاہے پس اگر '' ان تسئلوا'' كا معنى درخواست ہو تو ماقبل آيت كى روشنى ميں بعض احكام كا منسوخ ہونا مورد تقاضا ہے _

۲ _ احكام كى تبديلى اور نسخ كا امكان بعض مسلمانوں كو ترغيب دلانے والا ہے كہ وہ بعض احكام كى تبديلى كى درخواست كريں _ما ننسخ من آية ام تريدون ان تسئلوا رسولكم

ما قبل آيت كى روشنى ميں كہا جاسكتاہے كہ بعض مسلمانوں كى بعض احكام كى تبديلى كى طرف رغبت كا سرچشمہ يہ تھا كہ منسوخى احكام كا امكان تھا_

۳۶۷

۳ _ اديان كى منسوخى نيز قرآن كريم كى بعض آيات اور احكام كى منسوخى نے مسلمانوں كو تحريك دلائي كہ پيامبر اسلام (ص) سے بے تكے اور نامناسب سؤالات پوچھيں _ام تريدون ان تسئلوا رسولكم

يہ مطلب اس بناپر ہے كہ '' ان تسئلوا'' كا معنى سوال كرنا ہو_ آيت كے لب و لہجہ ميں چونكہ مذمت موجود ہے پس يہ سوالات غير مناسب ہيں _

۴ _ وہ مسلمان جو بعض احكام كى تبديلى يا نسخ كى درخواست كرنا چاہتے تھے پروردگار عالم كى طرف سے ان كى شديد مذمت كى گئي _ام تريدون ان تسئلوا رسولكم

''ان تسئلوا '' كا مورد خطاب مسلمان ہيں يا اہل كتاب اس سلسلے ميں دو آراء پائي جاتى ہيں يہ جملہ ''كما سئل موسي'' اس بات كى تائيد كرتاہے كہ يہ مسلمان ہوں ورنہ جملہ يوں ہوتا ''كما سئلتم موسى '' جملہ '' ام تريدون _ كيا تم چاہتے ہو '' دلالت كرتاہے كہ درخواست يا سوال انجام نہيں ہوا اسى لئے ہم نے اوپر بيان كيا كہ ''درخواست كرنے كے درپے تھے''_

۵ _ حضرت موسىعليه‌السلام نبى اسلام صلى اللہ عليہ و آلہ و سلم سے پہلے مبعوث ہونے والے نبى تھے_كما سئل موسى من قبل

۶_ بنى اسرائيل نے حضرت موسىعليه‌السلام سے نامناسب سوالات اور درخواستيں كيں _كما سئل موسى من قبل

۷_بنى اسرائيل كى طرح كے انحرافات كى زمين مسلمانوں ميں بھى فراہم تھى _

ام تريدون ان تسئلوا رسولكم كما سئل موسى من قبل

۸_ انبياءعليه‌السلام كے ساتھ روابط و معاملات، ان سے توقعات اور ان سے نامناسب خواہشات كے پورا كرنے معاملے ميں حضرت موسىعليه‌السلام كى قوم بہانہ باز ترين اقوام ميں سے نمونے كى قوم ہے _

ام تريدون ان تسئلوا رسولكم كماسئل موسى من قبل

يہ بعيد نظر آتاہے كہ گذشتہ امتوں ميں فقط حضرت موسىعليه‌السلام كى قوم ہو جو انبياءعليه‌السلام سے غير مناسب خواہشات اور سوالات كيا كرتى تھي_ اس سے يہ نتيجہ نكلتاہے كہ فقط حضرت موسىعليه‌السلام كى قوم كا ذكر كرنا اس لئے ہے كہ يہ صفت ان ميں سب سے زيادہ تھي_

۹ _ بعض احكام كى تبديلى يا نسخ كى درخواست كرنا ايمان كے كھوجانے اور كفر كى طرف رجحان كى بنياديں فراہم كرتاہے _

۳۶۸

ام تريدون ان تسئلوا و من يتبدل الكفر بالايمان

۱۰_ حضرت موسىعليه‌السلام سے نامناسب خواہشات اور سوالات نے آپعليه‌السلام كى قوم كو كفر كى طرف كھينچا اور ايمان سے دور كرديا _و من يتبدل الكفر بالايمان

۱۱ _ آيات الہى اور احكام دين پر ايمان ہى صحيح طريقہ اور اعتدال كا راستہ ہے _

و من يتبدل الكفر بالايمان فقد ضل سواء السبيل

۱۲ _ ايمان كے بعد كفر اختيار كرنا صحيح طريقہ سے منحرف ہونا اور كجروى كى طرف رجحان ہے _

و من يتبدل الكفر بالايمان فقد ضل سواء السبيل

احكام: احكام كے نسخ كے نتائج ۲،۳; احكام كى تبديلى كى درخواست ۱،۲; احكام كے نسخ كى درخواست ۴،۹

اديان : اديان كے نسخ كے نتائج و اثرات۳

ارتداد: ارتداد كى حقيقت ۱۲

اسلام : صدر اسلام كى تاريخ ۱

اللہ تعالى : اللہ تعالى كى سرزنشيں ۴

انبياءعليه‌السلام : انبياءعليه‌السلام كى تاريخ ۵

انحراف: انحراف كے موارد ۱۲

ايمان : آيات الہى پر ايمان ۱۱; دين پر ايمان ۱۱; ايمان كا متعلق۱۱

بنى اسرائيل: بنى اسرائيل كا انحراف ۷; بنى اسرائيل اور انبياءعليه‌السلام ۸; بنى اسرائيل كى بہانہ تراشى ۸; بنى اسرائيل كے سوالات ۶،۱۰; بنى اسرائيل كى تاريخ ۱۰; بنى اسرائيل كى خواہشات ۶،۸ ، ۱۰; بنى اسرائيل كى صفات ۸; بنى اسرائيل كا كفر ۱۰

بے جا توقعات : ۸ بے جا توقعات كے نتائج ۱۰

تحريك: تحريك كے عوامل ۲

حضرت موسىعليه‌السلام : حضرت موسىعليه‌السلام كا واقعہ ۵; حضرت موسىعليه‌السلام كى نبوت ۵

۳۶۹

راہ اعتدال : ۱۱

سوال: نامناسب سوال كے نتائج۱۰; نامناسب سوال ۳،۶

قرآن كريم : قرآن كريم كى آيات كے نسخ كے نتائج ۳

كفر: كفر كى زمين فراہم ہونا ۹،۱۰

مسلمان : صدر اسلام كے مسلمانوں كى خواہشات ۱،۴; مسلمانوں ميں انحراف كى زمين ۷; مسلمانوں ميں سوال كى زمين ۳; مسلمانوں كى سرزنش ۴

نبى اسلام (ص) : نبى اسلام سے سوال ۳

وَدَّ كَثِيرٌ مِّنْ أَهْلِ الْكِتَابِ لَوْ يَرُدُّونَكُم مِّن بَعْدِ إِيمَانِكُمْ كُفَّاراً حَسَدًا مِّنْ عِندِ أَنفُسِهِم مِّن بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُمُ الْحَقُّ فَاعْفُواْ وَاصْفَحُواْ حَتَّى يَأْتِيَ اللّهُ بِأَمْرِهِ إِنَّ اللّهَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ ( ۱۰۹ )

بہت سےاہل كتاب يہ چاہتے ہيں كہ تمھيں بھيايمان كے بعد كافر بناليں وہ تم سے حسدركھتے ہيں ورنہ حق ان پر بالكل واضح ہےتو اب تم انھيں معاف كردو اور ان سےدرگذر كرو يہاں تك كہ خدا اپنا كوئي بھيجدے اور الله ہرشے پر قادر اعمال كو خوبديكھنے والا ہے (۱۰۹)

۱ _ بہت سے اہل كتاب عشق كى حد تك چاہتے تھے كہ مسلمان مرتد ہوجائيں اور شرك كى طرف لوٹ آئيں _

ودّ كثير من اهل الكتاب لو يردونكم من بعد ايمانكم كفاراً

جملہ'' يردونكم'' حرف مصدرى '' لو '' كى وجہ سے مفرد ميں تبديل ہوگيا ہے لہذا '' ودّ'' كے لئے مفعول قرار پاياہے '' كفاراً'' كافر كى جمع ہے اور ''يردونكم'' كا دوسرا مفعول ہے ''يردون'' كى روشنى ميں كافر سے مراد مشرك ہے نہ كہ يہودى يا نصرانى كيونكہ صدر اسلام كے مسلمان اسلام قبول كرنے سے قبل مشرك تھے_

۲ _ اہل كتاب نے مسلمانوں كو مرتد بنانے كى مسلسل كوششيں كيں _

ودّ كثير من اهل الكتاب لو يردونكم من بعد ايمانكم كفاراً''ودّ'' كا معنى ہے چاہنا ، محبت كرنا ليكن جملہ ''فاعفوا ...'' سے معلوم ہوتاہے كہ اہل كتاب اپنى آرزو (مسلمانوں اور اہل ايمان كو مرتد بنانا) كو پورا كرنے كے لئے مسلسل سازشيں بھى كرتے رہے_

۳۷۰

۳ _ صدر اسلام كے مسلمانوں كو مرتد بنانے كى يہود و نصارى كى آرزو خام تھى اور اس سلسلے ميں ان كى كوششوں كو ناكاميوں كا سامنا كرنا پڑا_ودّ كثير من اهل الكتاب لو يردونكم فعل مضارع ( چاہتے ہيں ) كى جگہ فعل ماضى ( ودّ چاہتے تھے) كا استعمال اس نكتہ كى طرف اشارہ ہے كہ ان كى كوششيں بے ثمر رہيں اس طرح كہ گويا اس امر سے انكى محبت اور سعى جاتى رہي_

۴ _ زمانہ بعثت كے يہود و نصارى مسلمانوں كے ايمان پر رشك كرتے اور ان سے حسد كرتے تھے_ودّ كثير من اهل الكتاب لو يردونكم من بعد ايمانكم كفاراً حسداً '' و قالوا لن يدخل ...'' آيت ۱۱۱ كى روشنى ميں اہل كتاب سے مراد يہود ونصارى ہيں _

۵ _ يہود ونصارى كى اہل ايمان كو اسلام سے مرتد بنانے كے لئے كوشش اور عشق كا سرچشمہ ان كا حسد تھا_

ودّ كثير من اهل الكتاب لو يردونكم من بعد ايمانكم كفاراً حسداً'' ودّ كثير ...'' كے لئے '' حسدا'' مفعول لہ ہے يعنى يہ كہ اہل كتاب كى مسلمانوں كو مرتد بنانے كى كوشش اور محبت ان كے حسد كى وجہ سے تھي_

۶ _ مسلمانوں سے اہل كتاب كا حسد ان كے رگ و پے ميں سمايا ہوا تھا _حسداً من عند أنفسهم

۷_ حق كا انكار اور اس كے خلاف معركہ آرائي كے عوامل ميں سے ايك حسد ہے _لو يردونكم من بعد ايمانكم كفاراً حسداً

۸ _ انسانى حسد كے وسيع ميدان ميں ايمان اور دينى عقائد_ودّ كثير من اهل الكتاب حسداً من عند أنفسهم

۹اسلام و قرآن كے خلاف يہود و نصارى كى تبليغاتى كوششيںودَّ كثيرمن اهل الكتاب لو يردونكم من بعدايمانكم كفاراً

۱۰_ اسلام اور مسلمانوں كے خلاف اہل كتاب كى تبليغاتى فعاليت حتى ان كى اپنى نظر ميں اس كى كوئي دينى يا مذہبى بنياد نہ تھي*ودّ كثير من اهل الكتاب لو يردونكم من عند أنفسهم يہ مطلب اس بناپر ہے كہ''من عند أنفسهم'' ، '' ودّ كثير'' سے متعلق ہو يعنى اہل كتاب كوئي مذہبى ذمہ دارى كے احساس كے طور پر مسلمانوں كو اسلام سے مرتد كرنے كے درپے نہ تھے_

۱۱_ پيامبر اسلام (ص) پر ايمان حتى اہل كتاب كى نظر ميں بھى قابل قدر اور كمال كا باعث تھا_ودّ كثير من اهل الكتاب لو يردونكم من بعد ايمانكم كفاراً حسداً انسان ميں حسد كى آگ اس وقت بھڑك اٹھتى ہے جب كسى ميں مادى نعمتوں يا كمالات كو ديكھتاہے پس اہل كتاب جو مسلمانوں كے پيامبر اسلام (ص) پر ايمان لانے پر رشك كرتے تھے ان كى

۳۷۱

نظر ميں ايمان كو ايك بڑى نعمت اور كمال ہونا چاہيئے _

۱۲ _ اديان اور قرآن كريم كى بعض آيات كے نسخ كو بہانہ بناكر يہود ونصارى مسلمانوں كے ذہنوں ميں شبہات پيدا كرنا چاہتے تھے_ما ننسخ من آية ام تريدون ان تسئلوا رسولكم ودّ كثير من اهل الكتاب اہل كتاب كے نسخ كے بارے ميں نامناسب سؤالات اور خواہشات كا ذكر كرنے اور ان خواہشات (ايمان كا كفر ميں تبديل ہونا ) كے برے اثرات بيان كرنے كے بعد اہل كتاب كى مسلمانوں كو مرتد بنانے كى كوششوں كا ذكر كرنا اس معنى كى طرف اشارہ ہے كہ اہل كتاب اس امر كے درپے تھے كہ مسلمانوں ميں نسخ كے بارے ميں شبہات پيدا كريں اور پيامبر اسلام (ص) پر ان كے ايمان كو شك و ترديد سے دوچار كرديں _

۱۳ _ يہود ونصارى مسلمانوں كو ترغيب دلاتے كہ آنحضرت صلى اللہ عليہ و آلہ و سلم سے غير مناسب سوالات و خواہشات كريں _ام تريدون ان تسئلوا ودّ كثير من اهل الكتاب لو يردونكم

۱۴ _ اسلام كى حقانيت حتى يہوديوں اور عيسائيوں كى نظر ميں ايك نہايت واضح ، روشن اور بلاترديد مسئلہ تھا_من بعد ما تبين لهم الحق

۱۵ _ زمانہ بعثت كے مسلمانوں كو اللہ تعالى نے فرمايا كہ اہل كتاب كى سازشوں پرعفو و بخشش سے كام ليں_ فاعفوا وأصفحوا حتى ياتى الله بامره

''عفو '' اور ''صفح'' كا معنى ہے گناہ اور غلطى سے درگذر كرنا _ البتہ يہ بھى كہا گيا ہے كہ ''صفح'' علاوہ بر ايں سرزنش نہ كرنے پر بھى دلالت كرتاہے_

۱۶_ اہل كتاب كى سازشوں سے درگذر كرنا اور ان كے ساتھ جھگڑے و غيرہ سے پرہيز كرنا يہ ايك وقتى حكم تھا_

فاعفوا و أصفحوا حتى ياتى الله بامره

۱۷_ اللہ تعالى نے سازشيوں كے خلاف نئے حكم ( ان سے صف آرائي) كى خوشخبرى مسلمانوں كو دى _

فاعفوا و أصفحوا حتى ياتى الله بامرهاس جملہ '' حتى ياتى اللہ بامرہ_ يہاں تك كہ اللہ تعالى اپنا حكم صادر فرمائے '' سے مراد عفو و درگزر كے قرينہ مقابلہ كو ديكھتے ہوئے جہاد و معركہ آرائي كا حكم ہے_

۱۸_ جب تك مناسب حالات و شرائط آمادہ نہ ہوں دشمن سے آمنا سامنا كرنے ميں احساسات پر كنٹرول كرنا ضرورى ہے _فاعفوا و أصفحوا حتى ياتى الله بامره

۱۹_قوانين اور تعليمات كى قبوليت كے لئے زمين آمادہ كرنا يہ احكام كے بيان ميں قرآنى روشوں ميں سے ايك ہے _

۳۷۲

فاعفوا و أصفحوا حتى ياتى الله بامره سازشيوں كے بارے ميں بخشش و درگزر كے حكم كا وقتى ہونا اسكے مختلف اہداف ہيں _ ان اہداف ميں سے ايك اس حكم كى قبوليت كے لئے زمين كو فراہم كرناہے كيونكہ اگر مسلمانوں كو يہ علم نہ ہوتا كہ يہ حكم وقتى ہے تو ممكن ہے اس حكم كو صحيح ہى نہ سمجھتے اور تسليم بھى نہ كرتے _

۲۰_دشمنوں كى سازشوں كو نظر انداز كرنا اور ان كے آزار و اذيت پر درگزر كرنا ان كے ساتھ نبردآزمائي كا ايك مرحلہ اور ٹيكنيك ہے _فاعفوا و أصفحوا حتى ياتى الله بامره

۲۱ _ سازشى دشمنوں سے آمنا سامنا كرنے كے لئے مرحلہ وار اقدامات كرنا ضرورى ہيں _فاعفوا و أصفحوا حتى ياتى الله بامره

۲۲ _ اللہ تعالى كى قدرت و طاقت لامحدود، وسيع اور ہمہ پہلو ہے _ان الله على كل شى قدير

۲۳ _ اللہ تعالى ايك حكم كو ثابت ركھنے اور دوسرے وقت ميں اسكو اٹھانے نيز ايك حكم كى جگہ دوسرے فرمان كو جاگزيں كرنے پر قدرت ركھتاہے_فاعفوا و أصفحوا حتى ياتى الله بامره ان الله على كل شى قدير آيت ميں بيان شدہ تمام حقائق سے اس جملہ''ان الله'' كو مربوط سمجھا جاسكتاہے اور اسكا ہدف مخاطبين كو اللہ تعالى كى عظيم قدرت كى طرف متوجہ كرنا ہے مذكورہ بالا مطلب ميں اس جملہ''ان الله '' كو عفو و بخشش اور آئندہ زمانے ميں نسخ كے اعتبار سے ملاحظہ كيا گيا ہے

۲۴ _ اللہ تعالى كا سازشى اہل كتاب كو متنبہ كرنا اور ان كو مناسب جواب كے ساتھ دھمكى دينا _حتى ياتى الله بامره ان الله على كل شى قدير اس مطلب ميں جملہ '' ان اللہ ...'' كو حكم جہاد ( جو ما ''ياتى اللہ بامرہ'' سے سمجھ ميں آتاہے) كے اعتبار سے ملاحظہ كيا گيا ہے _

۲۵_ اللہ تعالى كا سازشى اہل كتاب كے ساتھ درگزر كرنے كا فرمان دينے كا مطلب ہرگز يہ نہ تھا كہ پروردگار عالم صدر اسلام كے مسلمانوں كى مدد كرنے كى قدرت نہ ركھتا تھا_فاعفوا و أصفحوا حتى ياتى الله بامره ان الله على كل شى قدير اس مطلب ميں جملہ''ان الله '' كو''فاعفوا وأصفحوا'' كے اعتبار سے ملاحظہ كيا گيا ہے يعنى يہ كہ كہيں ايسا گمان نہ ہو كہ عفو و بخشش يا مقابلہ آرائي كا ترك كرنا اس ليئے ہے كہ اللہ تعالى قدرت نہيں ركھتا بلكہ مسلمانوں كى مصلحت اسى ميں ہے _

۲۶ _صدر اسلام كے مسلم معاشرے كے ساتھ اہل كتاب كا لين دين اور ديگر معاملات تھے_فاعفوا و أصفحوا حتى ياتى الله بامره ان الله على كل شى قدير

۳۷۳

آرزو: صدر اسلام كے مسلمانوں كے مرتد ہونے كى آرزو ۳

احكام: وقتى احكام ۱۶; تبديلى احكام ۲۳; احكام كے بيان كرنے كى روش۱۹;احكام كى قبوليت كى زمين كا فراہم ہونا ۱۹; احكام كا نسخ ہونا ۲۳

احساسات: احساسات كا تعادل ۱۸

اديان: اديان كا نسخ ہونا ۱۲

ارتداد: ارتداد كے عوامل ۲

اسلام: صدر اسلام كى تاريخ ۳،۴،۵،۱۲،۱۳،۲۵،۲۶; اسلام كے خلاف پراپيگنڈہ۹،۱۰; اسلام كى حقانيت ۱۴

اسماء اور صفات: قدير۲۲

اللہ تعالى : اوامر الہى ۲۵; الہى بشارتيں ۱۷; الہى نصيحتيں ۱۵; قدرت الہى ۲۲،۲۳; اللہ تعالى كى تنبيہات ۲۴

اہل كتاب: اہل كتاب كے ساتھ آمنا سامنا كرنے سے اجتناب۱۶; صدر اسلام ميں اہل كتاب ۲۵، ۲۶; اہل ا كتاب اور مسلمانوں كا مرتد ہونا ۱،۲; اہل كتاب اور مسلمان ۶; اہل كتاب اور صدر اسلام كے مسلمان ۲۶; اہل كتاب كى بصيرت ۱۰،۱۱; اہل كتاب كى تبليغ ۱۰;اہل كتاب كى سازش ۲۴; سازشى اہل كتاب ۱۵،۱۷،۲۵; اہل كتاب كو دھمكى ۲۴; اہل كتاب كى سازش سے چشم پوشى ۱۶; اہل كتاب كا حسد ۶; اہل كتاب كے لئے عفو و درگذر ۱۵; اہل كتاب كے رجحانات ۱; اہل كتاب سے معركہ آرائي ۱۷; اہل كتاب سے نرم رويہ ۲۵

ايمان: پيامبر اسلام (ص) پر ايمان لانے كى اہميت ۱۱

پيامبر اسلام(ص) : پيامبر اسلام (ص) سے سوال ۱۳

جذبہ محركہ (تحريك): جذبہ محركہ كے اسباب ۵

حسد: حسد كے نتائج ۵،۷; عقيدے سے حسد ۸; حسد كا دائرہ۸

۳۷۴

حق : حق كو جھٹلانے كے اسباب ۷; حق كے خلاف نبرد آزمائي كے اسباب ۷

دشمن: دشمنوں كى سازش سے چشم پوشى ۲۰; دشمنوں سے سامنا كرنے يا نمٹنے كى روش ۱۸; دشمنوں سے درگزر ۲۰; دشمنوں سے نبرد آزمائي ۲۰; دشمنوں سے سامنا كرنے كے مراحل ۲۱

دين: دين كے نقصانات كى پہچان ۲،۱۲

سوال : بے جا سوال ۱۳

شبہات: شبہات كے اسباب ۱۲

عيسائي: عيسائيوں كے حسد كے نتائج ۵; عيسائيوں كى آرزوئيں ۳; عيسائيوں كا پراپيگنڈہ۹; صدر اسلام كے عيسائيوں كا حسد ۴; عيسائيوں كا شبہہ ميں مبتلا كرنا ۱۲; عيسائيوں كے رجحانات۵; عيسائي اور مسلمانوں كا مرتد ہونا ۳،۵; عيسائي اور اسلام ۹،۱۴; عيسائي اور قرآن ۹; عيسائي اور مسلمان ۴،۱۲،۱۳

قدريں : قدروں كا معيار۱۱

قرآن كريم : قرآن كريم كے خلاف پراپيگنڈہ ۹; قرآن كريم ميں نسخ۱۲

مسلمان : صدر اسلام كے مسلمانوں كى امداد۲۵; مسلمانوں كو خوشخبرى ۱۷; صدر اسلام كے مسلمانوں كى خواہشات ۱۳; صدر اسلام كے مسلمان ۱۵

ميل جول: غيروں سے ميل جو ل۲۶

نبرد آزمائي: نبرد آزمائي ميں احساسات كو متوازن ركھنا ۱۸; نبردآزمائي كى روش ۱۸،۲۰،۲۱; معركہ آرائي كے مراحل ۲۰

نسخ: نسخ كا منبع ۲۳

يہودي: يہوديوں كے حسد كے نتائج ۵; يہوديوں كى آرزوئيں ۳; يہوديوں كا پراپيگنڈہ۹; صدر اسلام كے يہوديوں كا حسد ۴; يہوديوں كا شبہہ ميں مبتلا كرنا ۱۲; يہوديوں كے رجحانات ۵; يہود اور مسلمانوں كا مرتد ہونا ۳،۵; يہود اور اسلام ۹،۱۴; يہود اورقرآن ۹; يہود اور مسلمان ۴،۱۲،۱۳

۳۷۵

وَأَقِيمُواْ الصَّلوةَ وَآتُواْ الزَّكَوةَ وَمَا تُقَدِّمُواْ لأَنفُسِكُم مِّنْ خَيْرٍ تَجِدُوهُ عِندَ اللّهِ إِنَّ اللّهَ بِمَا تَعْمَلُونَ بَصِيرٌ ( ۱۱۰ )

اور تم نماز قائمكرو اور زكوة ادا كرو كہ جو كچھ اپنےواسطے پہلے بھيج دوگے سب كے يہاں مل جائےگا _ خدا تمھارے اعمال كو خوب ديكھنےوالا ہے ( ۱۱۰)

۱_ نماز قائم كرنا اورزكوة ادا كرنا ضرورى ہے _و اقيموا الصلاة و آتوا الزكاة

۲ _ مسلمانوں كى دشمنوں سے صف آرائي كى آمادگى كے لئے نماز كے قيام اورزكوة كى ادائيگى كى بہت زيادہ اہميت ہے _

فاعفوا و أصفحوا حتى ياتى الله بامره و اقيموا الصلاة و آتوا الزكاة

اس آيت كے نزول مبارك سے قبل مسلمانوں كے لئے نماز اورزكوة كا وجوب بيان ہوچكا تھا لہذا يہاں اس كى تاكيد سے معلوم ہوتاہے كہ يہ ماقبل آيت ميں موجودامر( فاعفوا و أصفحوا) كے وقوع پذير ہونے كے لئے راہنمائي ہے نيز جہاد اور معركہ آرائي ( جس كا ''حتى ياتى اللہ بامرہ'' ميں اشارہ ہوچكا ہے) كى زمين كے آمادہ ہونے كى طرف بھي

اشارہ ہے _ مذكورہ بالا مطالب ميں ''اقيموا الصلاة ...'' كا''حتى ياتى الله ...'' كے ساتھ ارتباط كے لحاظ سے معنى كيا گيا ہے _

۳ _ نماز كا قيام اورزكوة كى ادائيگي، دشمنوں كے آزار و اذيت پر صبر اور ان كے ساتھ نرم رويہ ركھنے كے لئے آمادگى كے عوامل ميں سے ہيں _فاعفوا و أصفحوا و اقيمواالصلاة و آتوا الزكاة

اس مطلب ميں جملہ ''اقيمو الصلاة'' كو جملہ '' فاعفوا و أصفحوا'' كے ساتھ ارتباط كے اعتبار سے ملاحظہ كيا گيا ہے _اس لحاظ سے نماز كے قيام اورزكوة كى ادائيگى پر تاكيد كا ہدف اللہ تعالى كے امر ( دشمنوں سے عفوو درگزر اور ان سے نرم برتاؤ) پر اطاعت كے لئے توانائي اور طاقت پيدا كرنا ہے _

۳۷۶

۴ _ صدر اسلام كے مسلمانوں كا فريضہ تھا كہ نماز كے قيام اورزكوة كى ادائيگى سے اپنى عقيدتى اور اقتصادى بنيادوں كو مضبوط كريں ( تا كہ جہاد اور معركہ آرائي كے لئے آمادہ ہوں )حتى ياتى الله بامره و اقيمو الصلاة و آتو الزكاة

۵ _ اہل ايمان كا اللہ تعالى سے ارتباط اور معاشرتى ضروريات كو پورا كرنا يہ وعدہ الہى ( سازشيوں كے خلاف نبردآزمائي) كى تكميل كى شرائط اور حالات كو تيار كرنا ہے _فاعفوا و أصفحوا حتى ياتى الله بامره و اقيموا الصلاة و آتوا الزكاة

۶ _ نيك اعمال انجام دينا انسان كے لئے عالم آخرت كا توشہ ہے _و ما تقدموا لأنفسكم من خير تجدوه عند الله

۷_ نماز كا قيام اورزكوة كى ادائيگى عالم آخرت كے لئے بہترين نيك كام اوربہت ہى اعلى توشہ ہے _اقيموا الصلاة و آتواالزكاة و ما تقدموا لأنفسكم من خير تجدوه عند الله '' خير_ نيك اور پسنديدہ عمل '' نماز كو بھى شامل ہے ان دو اعمال كا خصوصى طور پر ذكر كرنا اس معنى كى طرف اشارہ ہے كہ نيك كاموں ميں سے يہ دو فريضے انتہائي بہترين اور آخرت كے لئے انتہائي نفع بخش توشہ ہيں _

۸ _ انسان كے اعمال خير كبھى بھى فنا نہيں ہوتے اور اللہ تعالى كے ہاں باقى رہتے ہيں _و ما تقدموا لأنفسكم من خير تجدوه عند الله

۹_اللہ تعالى انسان كے نيك اعمال كا خازن اورامين ہے_تجدوه عند الله

۱۰_ قيامت ان نيك اور پسنديدہ اعمال كے ظہور كا ميدان ہے جو انسان نے دنيا ميں انجام ديئے ہيں _و ما تقدموا لأنفسكم من خير تجدوه عند الله '' تجدوہ _ تم اسكو پاؤ گے '' كى مفعولى ضمير '' خير '' كى طرف لوٹتى ہے اسكا تقاضا يہ ہے كہ انسان نے جو نيك عمل انجام ديا ہے اسى كے روبرو ہوگا_ يعنى يہ كہ انسان كے نيك اعمال قيامت كے دن كسى نہ كسى طرح ظاہر ہوں گے _

۱۱_ قيامت ميں اعمال كا مجسم ہونا _و ما تقدموا تجدوه عند الله

۱۲ _ نيك كاموں كا اجر بغير كسى ذرہ برابر كمى كے ديا جائے گا، اسكى ضمانت اللہ تعالى كى جانب سے دى گئي ہے _

و ما تقدموا لأنفسكم من خير تجدوه عند الله اس مطلب ميں '' تجدوہ'' كا معنى جيسا كہ اكثر مفسرين نے كيا ہے '' عمل كى جزا پانا'' كيا گيا ہے '' عمل كى جزا پانا '' اسكى جگہ يہ تعبير '' خود عمل كو پانا'' استعمال كرنا اس ميں يہ نكتہ موجود ہے كہ انسانوں كو نيك اعمال كى جزا بغير كسى ذرہ برابر كمى كے اسطرح عطاكى جائے گى كہ گويا وہ عمل ان كو عنايت كيا گيا ہے_

۳۷۷

۱۳ _ اللہ تعالى انسانوں كے نيك اعمال ( نماز كا قيام،زكوة كى ادائيگى و غيرہ ) سے بے نياز ہے_و ما تقدموا لأنفسكم من خيرتجدوه عند الله '' لأنفسكم _ تمہارے اپنے لئے '' اس قيد كو لانے كا مقصد انسانوں كو اس حقيقت كى طرف متوجہ كرناہے كہ جو كچھ انجام ديتے ہو اسكا فائدہ خود تمہيں ہى ہے كہيں ايسا خيال نہ كرنا كہ اللہ تعالى كو اسكى ضرورت ہے اور اس كو بھى اسكا كوئي نفع حاصل ہوتاہے _

۱۴ _ اللہ تعالى انسانوں كے اعمال اور نيك كردار سے آگاہ ہے _ان الله بما تعملون بصير

۱۵ _ انسان كے نيك اعمال پر اللہ تعالى كى نظارت پر توجہ اور يقين ان اعمال كے انجام دينے كى بنياديں فراہم كرتے ہيں _ان الله بما تعملون بصير

اللہ تعالى كى انسانى اعمال پر نظارت كے بيان كرنے كے اہداف ميں سے ايك يہ ہے كہ نيك اعمال كى زمين فراہم كى جائے_

اجر: اجر كى ضمانت ۱۲

اسماء اور صفات: بصير ۱۴،۱۵; جمالى صفات ۱۳

اقتصاد: اقتصادى بنيادوں كى تقويت ۴

اللہ تعالى : افعال الہى ۹; اللہ تعالى كى بصيرت ۱۴; اللہ تعالى كى بے نيازى ۱۳; اللہ تعالى كى جزائيں ۱۲; وعدہ الہى كا پورا ہونا ۵; علم الہى ۱۴

انسان: انسان كا اخروى توشہ ۶; انسانى عمل ۱۳،۱۴

ايمان: اللہ تعالى كى نظارت پر ايمان ۱۵; ايمان كا متعلق ۱۵

توشہ: بہترين توشہ آخرت ۷

دشمن: دشمن سے نرم برتاؤ كى بنياد۳ دشمنوں سے نبردآزمائي ۲

زكوة: زكوة كے نتائج۲،۳،۴;زكوة كى اہميت ۱،۷، ۱۳

روابط: اللہ تعالى كے ساتھ ارتباط كے نتائج۵

سازش كرنے والے: سازشيوں سے نبرد آزمائي كى بنياد ۵

۳۷۸

صبر:دشمنوں كى اذيت و آزار پر صبر ۳; صبر كے عوامل ۳

عقيدہ: عقيدتى بنياد كى تقويت ۴

قيامت: قيامت ميں عمل كا مجسم ہونا ۱۰،۱۱; نيك عمل كا قيامت ميں ظہور ۱۰; قيامت كى خصوصيات ۱۰

مسلمان: مسلمانوں كى تقويت كے اسباب ۴; صدر اسلام كے مسلمانوں كى ذمہ دارى ۴

معاشرہ : معاشرتى ضروريات پورا كرنا ۵

نبردآزمائي: نبردآزمائي كى شرائط ۲،۴

نظريہ كائنات: كائناتى نظريہ اور آئيڈيالوجى ۱۵

نماز : قيام نماز كے نتائج ۲،۳،۴; نماز قائم كرنے كى اہميت ۱،۷; نماز كا قيام ۱۳

نيك عمل: نيك عمل كى اہميت ۶; نيك عمل كى بقا ۸،۹; بہترين نيك عمل ۷; نيك عمل كى جزا ۱۲; نيك عمل كى بنياد ۱۵

وَقَالُواْ لَن يَدْخُلَ الْجَنَّةَ إِلاَّ مَن كَانَ هُوداً أَوْ نَصَارَى تِلْكَ أَمَانِيُّهُمْ قُلْ هَاتُواْ بُرْهَانَكُمْ إِن كُنتُمْ صَادِقِينَ ( ۱۱۱ )

يہ يہودى كہتے ہيں كہجنّت ميں يہوديوں اور عيسائيوں كے علاوہكوئي داخل نہ ہوگا _ يہ صرف ان كى اميديں ہيں _ ان سے كہہ ديجئے كہ اگر تم سچے ہوتو كوئي دليل لے آؤ(۱۱۱)

۱_ اہل كتاب (يہود ونصارى ) فقط خو دكو بہشت كا اہل اور دوسروں كو اس سے محروم سمجھتے ہيں _و قالوا لن يدخل الجنة الا من كان هوداً او نصارى '' قالوا'' كى ضمير (آيت ۱۰۹ ميں ) اہل كتاب كى طرف لوٹتى ہے

۲ _ يہودبہشت كو فقط خود سے مخصوص اور دوسروں كو اس

۳۷۹

سے محروم سمجھتے ہيں _و قالوا لن يدخل الجنة الا من كان هوداً آيت ۱۱۳ بيان كرتى ہے كہ يہود و نصارى دونوں ايك دوسرے كو اہل نجات نہيں سمجھتے بنابريں اہل ادب كى اصطلاح ميں مورد بحث آيت ميں ''اجمالى لفّ'' موجود ہے جبكہ '' او'' تفصيل كے لئے ہے يعنى جملہ'' قالوالن ...'' در حقيقت دو جملوں كى حكايت كررہاہے ۱ _ قالت اليہود'' لن يدخل الجنة الا من كان ہوداً '' ۲ _ و قالت النصارى '' لن يدخل الجنة الا من كان نصاري''

۳ _ نصارى خود كو بہشت كا اہل اور دوسروں كو اس سے محروم خيال كرتے ہيں _قالوا لن يدخل الجنة الا من كان هوداً او نصارى '' نصارى '' نصرانى كى جمع ہے جو حضرت مسيحعليه‌السلام كے پيروكاروں كو كہا جاتاہے _ '' ہود'' ہائد كى جمع ہے جو حضرت موسىعليه‌السلام كے پيروكاروں كے لئے استعمال ہوتاہے_

۴ _ يہود و نصارى كا اس پر اتفاق رائے ہے كہ مسلمان بہشت سے محروم ہيں _قالوا لن يدخل الجنة الا من كان هوداً او نصارى يہ جو قرآن حكيم نے يہود و نصارى كے خيال كو ''لفّ اجمالي'' كے ساتھ بيان فرماياہے در اصل اس معنى كى طرف اشارہ ہے كہ يہود و نصارى كا اس دعوى ميں اصل مقصد مسلمانوں كى بہشت سے محروميت كا بيان كرنا ہے _

۵ _ مسلمانوں كے جذبوں كو كمزور كرنے اور ان كى اسلام كى طرف ترغيب و رجحان كو روكنے كى يہود و نصارى كى كوششيں _قالوا لن يدخل الجنة الا من كان هوداً او نصارى

۶_ مسلمانوں كا بہشت سے محروم ہونا يہ يہودو نصارى كا باطل اور نادرست وہم و گمان ہے _تلك امانيهم

''اماني'' ،'' امنية'' كى جمع ہے جس كا معنى ہے آرزوئيں ، باطل خيالات اور گھڑے ہوئے جھوٹ_

۷_ يہود و نصارى كے دينى عقائد او ر معارف باطل خيالات اور توہمات سے ملے ہوئے ہيں _تلك امانيهم

'' تلك امانيھم'' حكايت كررہاہے كہ يہود و نصارى كا ايك دوسرے كى بہشت سے محروميت كا خيال ان كى آرزوؤں اور خيالات ميں سے ہے در آں حاليكہ يہو د و نصارى اس كو ايك دينى عقيدہ خيال كرتے ہيں _ پس يہودو نصارى كے دينى و مذہبى عقائد ان كے خيالات اور آرزؤں سے ملے ہوئے ہيں _

۸_ يہود و نصارى كے پاس اپنے دعوى (بہشت ان سے مخصوص ہے اور مسلمان اس سے محروم ہيں ) كے لئے كوئي دليل نہيں ہے _قل هاتوا برهانكم ان كنتم صادقين '' ہات'' كى جمع'' ہاتوا'' ہے يہ اسم فعل ہے جس كا معنى ہے عطاكر _ ''ہاتو برہانكم'' يعنى اپنى دليل و برہان پيش كرو _

۳۸۰

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

461

462

463

464

465

466

467

468

469

470

471

472

473

474

475

476

477

478

479

480

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

''اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ شب قدر کو اس سال رونما ہونے والے حق و باطل اور اس سال جو کچھ بھی ہونے والا ہے، کو مقدر فرماتا ہے۔ اس کے باوجود ان مقدرات میں مشیّت الہٰی کے مطابق تعیّر و تبدل (بدائ) بھی واقع ہوتا ہے۔ اس طرح اللہ اجل، رزق، بلائیں، بیماریاں اور دیگر عارضوں میں سے جسے چاہتا ہے مقدم اور جسے چاہتا ہے مؤخر فرماتا ہے۔ نیز ان مقدرات میں جو چاہے اضافہ اور جو چاہے کمی کردیتا ہے۔،،(۱)

iii ) کتب احتجاج طبرسی میں امیر المومنین(ع) سے مروی ہے:

''انه قال: لولا اٰیة فی کتاب الله ، لاخبر تکم بما کان و بما یکون و بما هوکائن الیٰ یو القیامة و هی هذه الایة: یمحوا الله ۔۔۔،(۲)

آپ نے فرمایا: اگر قرآن کی ایک آیہ: یمحوا اللہ۔۔۔ نہ ہوتی تو میں تمہیں خبر دیتا کہ ماضی میں کیا کیا واقعات پیش آئے، اب کیا ہو رہا ہے اور قیامت تک کیا ہوگا۔،،

iv ) تفسیر عیاشی میں زرارہ نے امام صادق(ع) سے روایت نقل کی ہے کہ آپ نے فرمایا:

''امام زین العابدینؑ فرمایا کرتے تھے: اگر کتاب الہٰی کی ایک آیت نہ ہوتی تو میں تمہیں قیامت تک رونما ہونے والے واقعات کی خبر دیتا۔ میں (زرارہ) نے عرض کی: وہ کون سی آیت ہے۔ آپ نے فرمایا:( یَمْحُوْا اللهُ ) ۔۔۔(۳)

) ''قرب الاسناد،، میں بزنطی نے امام رضا(ع) سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا:

''امام جعفر صادق، امام محمد باقر، امام زین العابدین، امام حسن اور امیر المومنین (علیہم السلام) فرمایا کرتے تھے: اگر کتاب الہٰی کی آیت( یَمْحُوْا اللهُ ) ۔۔ نہ ہوتی تو ہم قیامت تک رونما ہونے والے واقعات کی تمہیں خبر دیتے۔،،(۴)

____________________

(۱) ایضاً ص ۱۳۴

(۲) احتجاج طبرسی، ص ۱۳۷

(۳) منقول از بحار، ج ۲، ص ۱۳۹

(۴) ایضاً ص ۱۳۲

۵۰۱

ان کے علاوہ بھی کچھ روایات ہیں جن سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ان مقدرات الہٰی اور فیصلوں میں تغیر و تبدل واقع ہوتا ہے جو مشیّت الہٰی پر موقوف ہوتے ہیں۔

خلاصہئ بحث یہ ہے کہ حتمی قضائے الہٰی، جسے لوحِ محفوظ، ام الکتاب اور علم مخزون عند اللہ سے تعبیر کیا جاتا ہے، میں کسی قسم کے تغیر و تبدل اور بداء کا واقع ہونا محال ہے اور اس میں کیونکر بداء واقع ہوسکتا ہے جبکہ اللہ تعالیٰ روز ازل سے تمام اشیاء کا عالم ہے اور زمین و آسمان میں سے ذرہ بھر بھی اس کے علم سے خارج نہیں ہے۔

کتاب ''اکمال الدین،، میں صدوق، ابو بصیر اور سماعۃ کی سند سے امام صادق(ع) سے روایت ہے کہ آپ نے فرمایا:

''جو شخص یہ خیال کرے کہ خدا کے سامنے ایسی تازہ چیز ظاہر ہوتی ہے جسے وہ کل نہیں جانتا تھا، ایسے شخص سے برات کرو۔،،(۱)

عیاشی نے ابن سنان سے اور اس نے امام صادق(ع) سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا:

''اللہ تعالیٰ جس کو چاہتا ہے مقدم اور جس کو چاہتا ہے مؤخر فرما دیتا ہے۔ نیز جسے چاہے محو اور جسے چاہے ثبت کردیتا ہے۔ کتاب کااصلی نسخہ اللہ ہی کے پاس ہے۔ پھر آپ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ جو کچھ کرنا چاہے اسے انجام دینے سے پہلے ہی اس کا علم رکھتا ہے جس کام میں بھی بداء واقع ہو وہ اللہ کے علم میں ہوتا ہے۔ افعال الہٰی میں کوئی تغیر و تبدل جہالت کی بنیاد پر نہیں ہوتا۔،،(۲)

عمار بن موسیٰ امام صادق(ع) سے روایت کرتے ہیں کہ جب آپ سے فرمان الہٰی: یمحوا اللہ۔۔۔ کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا:

____________________

(۱) ایضاً ص ۱۳۶

(۲) ایضاً ص ۱۳۹

۵۰۲

''یہ وہ کتاب ہے جس میں خدا جو چاہتا ہے ثبت کرتا ہے جو چاہتا ہے محو کردیتا ہے۔ دعا کے ذریعے اس قسم کے مقدرات بدل جاتے ہیں لیکن جب مقدرات اس کتاب (لوح محو و اثبات) سے منتقل ہو کر امّ الکتاب یا لوح محفوظ میں آجاتے ہیں تو اس پر دعا کوئی اثر نہیں کرتی اور وہ ہو کر رہتے ہیں۔،،(۱)

شیخ طوسی اپنی کتاب ''الغیبۃ،، میں بزنطی سے اور وہ امام رضا(ع) سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا: امام زمین العابدینؑ اور آپ سے پہلے امیر المومنین، امام محمد باقر اور امام جعفر صادق (علیہم السلام) فرمایا کرتے تھے:

''آیہ کریمہ : یمحوا اللہ۔۔۔ کی موجودگی میں ہم کیسے کسی واقعہ کے بارے میں حتمی پیشگوئی کرسکتے ہیں۔ البتہ خدا کے بارے میں جس شخص کا عقیدہ یہ ہو کہ اللہ کو کسی بھی چیز کے واقع ہونے کے بعد اس کا علم ہوتا ہے وہ کافر اور دائرہ اسلام سے خارج ہے۔،،(۲)

اہل بیت اطہار(ع) کی وہ روایات، جن کی رو سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ مخلوق کی خلقت سے پہلے ہی اس کا عالم ہوتا ہے، حدو حصر سے زیادہ ہیں۔ کتاب الہیٰ و سنت پیغمبر(ص) کی پیروی کرتے ہوئے تمام شیعہ امامیہ کا اس پر اتفاق ہے اور صحیح و فطری عقل سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے۔

عقیدہ ئ بداء کے ثمرات

اس سے قبل بیان کیا جاچکا ہے کہ بداء ان مقدرات الہی میں واقع ہوتاہے جو مشیت الہی ہر موقوف ہوتے ہیں اور جن کو لوح محو و اثبات سے تعبیر کیا جاتا ہے اور اس بداء کا قائل ہونے کا لازمہ یہ نہیں کہ ہم نے اللہ کی طرف (العیاذ باللہ) جہالت کی نسبت دی ہو اور نہ ہی یہ کوئی عقیدہ عظمت الہی کے منافی ہے۔

____________________

(۱) منقول ازبحار باب البداء و النسخ، ج ۲، ص ۱۳۹

(۲) ایضاً، ص ۱۳۶۔ شیخ کلینی نے اپنی سند سے عبد اللہ ابن سنان سے اور اس نے امام جعفر صادق(ع) سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا: کسی بھی چیز میں بداء واقع ہونے سے پہلے ہی خدا اس کا عالم ہوتا ہے۔ الوافی، باب ج۱، ص ۱۱۳

۵۰۳

بداء کا قائل ہونا واضح اعتراف ہے کہ پورا عالم ہستی اپنے وجود و بقاء میں قدرت و سلطنت الہٰی کے تابع ہے اور یہ کہ ارادہئ الہٰی ازل تا ابد تمام چیزوں میں کار فرما ہے بلکہ عقیدہئ بداء ہی کی بدولت علم الہٰی اور علم مخلوق میں فرق واضح ہوتا ہے اس لیے کہ مخلوق کا علم، خواہ وہ انبیاء(ع) و اولیاء کا علم ہی کیوں نہ ہو، ان چیزوں کا احاطہ نہیں کرسکتا جن کا احاطہ، علم خدا کرتا ہے اور بعض اولیاء اللہ اگرچہ تعلیم الہی کی بنیاد پر، تمام ممکنات اور اعلمین کا علم رکھتے ہیں پھر بھی ان کا علم ان چیزوں کا احاطہ نہیں کرسکتا جن کا احاطہ اللہ کا مخزون اور اپنی ذات سے مختص علم کرتا ہے۔ کیونکہ کسی بھی چیز کے بارے میں مشیت الہی اور عدم مشیت الہی کا عالم وہی ہوسکتا ہے جسے اللہ نے حتمی طور پر خبر دی ہو۔

بداء کا قائل ہونا اس امر کا باعث بنتا ہے کہ بندے ہمہ تن اللہ کی طرف متوجہ ہوں اور بندوں سے اپنی

امیدوں کے بندھن توڑ دیں اور استجابت دعا، حاجت روائی، اطاعت کی توفیق اور معصیت سے دوری کی درخواست اس کی ذات اقدس سے کریں۔

کیونکہ بداء کا انکار کرنا اور یہ عقیدہ رکھنا کہ جو کچھ قلم تقدیر نے لکھ دیا ہے وہ بلا استثناء ہو کر رہے گا، اپنے کو استجابت دعا سے مایوس کر دینا ہے، اس لیے کہ انسان جس چیز کی دعا کرتا ہے، اگر قلم تقدیر نے اس کے واقع ہونے کی پیشگوئی کی ہے تو وہ لامحالہ ہو کر رہے گی۔ انسان کی دعا اور توسّل کی ضرورت ہی نہیں اور اگر قلم تقدیر نے اس کی دعا کے خلاف لکھا ہو تو وہ کام کبھی بھی نہیں ہوسکتا اور دعا و تضرع کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا اور جب انسان استجابت دعا سے مایوس ہوگا تو وہ اپنے خالق کے دربار میں دعا و تضرع ترک کردے گا کیونکہ یہ بے فائدہ ثابت ہوگی اس طرح وہ عبادات اور صدقات بھی ترک ہو جائیں گے جو روایات معصومین(ع) کے مطابق عمر اور رزق میں اضافہ اور حاجت روائی کا باعث بنتے ہیں۔

۵۰۴

یہی وہ راز ہے جس کی وجہ سے معصومین(ع) سے بداء کی شان اور اہمیت کے بارے میں کثرت سے روایات وارد ہوئی ہےں۔

مرحوم صدوق نے کتاب ''توحید،، میں زرارہ سے اور انہوں نے امام محمد باقرؑ اور امام صادق(ع) سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا:

'' ما عبد الله عزوجل بشیئ مثل البدائ،، (۱)

''بداء کی مانند ایسا کوئی عمل نہیں جس سے خدا کی عبادت کی جائے۔،،

یعنی عقیدہ بداء کے مانند کوئی عبادت نہیں۔ نیز ہشام بن سالم، امام صادق(ع) سے روایت کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا:

''خدا کی جو تعظیم بداء کے ذریعے ہوسکتی ہے کسی اور عمل کے ذریعے نہیں ہوسکتی۔،،(۲)

صدق نے محمد بن مسلم سے اور انہوں امام صادق(ع) سے روایت کی ہے کہ آپ نے فرمایا:

''اللہ نے جس نبی کو بھی بھیجا (پہلے) اس سے تین باتوں کا اقرار لیا: اللہ کی عبودیت کا اقرار، شریک خدا کی نفی اور یہ کہ اللہ جسے چاہتا ہے مقدم کرتا ہے اور جسے چاہتا ہے مؤخر کرتا ہے۔،،(۳)

اس اہمیت کا راز یہ ہے کہ بداء کا انکار کرنا اور اس بات کا قائل ہونا کہ جو کچھ قلم تقدیر نے لکھ دیا ہے اللہ اس میں تبدیلی پر قادر نہیں ہے، دونوں کا نتیجہ ایک ہے۔ کیونکہ یہ دونوں عقیدے انسان کو استجابت دعا سے مایوس

____________________

(۱) روایت کے دوسرے نسخے کے مطابق: بداء سے بہتر کوئی ایسا عمل نہیں جس سے خدا کی عبادت کی جائے۔

(۲) التوحید للصدوق باب البداء ص ۲۷۲۔ اس کی روایت شیخ کلینی نے بھی کی ہے۔ وافی باب البدائ، ج ۱، ص ۱۱۳

(۳) التوحید للصدوق باب البداء ص ۲۷۲۔ اس کی روایت شیخ کلینی نے بھی کی ہے۔ وافی باب البدائ، ج ۱، ص ۱۱۳

۵۰۵

کر دیتے ہیں۔ جس کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ انسان اپنی مشکلات اور مقاصد میں اپنے ربّ کی طرف توجہ نہ کرے۔

حقیقت بداء شیعوں کی نظر میں

جس بداء کے شیعہ امامیہ قائل ہیں، حقیقت میں اس کا معنی ''اظہار،، ہے (یعنی ایک چیز جو بندوں کے لیے پوشیدہ ہو اور اللہ اسے ظاہر کردے) اسکی جگہ ''بدائ،، (جس کا معنی خلقت اور آفرینش ہے) کا استعمال اس لیے ہوتا ہے کہ ان دونوں کے معنی میں شباہت پائی جاتی ہے کیونکہ ''اظہار،، کی طرح ''خلقت،، کے ذریعے مخلوق کو ظاہر کیا جاتا ہے۔ چنانچہ اہل سنت کی کچھ روایات میں بھی ''بدائ،، اسی معنی (اظہار) میں استعمال ہوا ہے۔

بخاری نے ابو عمرہ سے راویت کی ہے کہ ابو ہریرہ نے کہا: میں نے رسول اللہ کو یہ فرماتے سنا:

''بنی اسرائیل میں تین ایسے آدمی تھے جن میں سے ایک برص کا مریض، دوسرا اندھا اور تیسرا گنجا تھا۔ اللہ کے لیے بداء واقع ہوا کہ ان کا امتحان لیا جائے، چنانچہ برص کے مریض کے پاس ایک فرشتہ بھیجا ۔۔۔،،(۱)

قرآن میں بھی اس کی متعدد مثالین ملتی ہیں:

( الْآنَ خَفَّفَ اللَّـهُ عَنكُمْ وَعَلِمَ أَنَّ فِيكُمْ ضَعْفًا ۚ ) ۸:۶۶

''اب خدا نے سے (اپنے حکم کی سختی ہیں) تخفیف کردی ہے اور دیکھ لیا کہ تم میں یقیناً کمزوری ہے۔،،

( لِنَعْلَمَ أَيُّ الْحِزْبَيْنِ أَحْصَىٰ لِمَا لَبِثُوا أَمَدًا ) ۱۸:۱۲

''تاکہ ہم دیکھیں کہ گروہوں میں سے کس کو (غار میں) ٹھہرنے کی مدّت خوب یاد ہے۔،،

( لِنَبْلُوَهُمْ أَيُّهُمْ أَحْسَنُ عَمَلًا ) ۱۸:۷

''تاکہ ہم لوگ کا امتحان لیں کہ ان میں سے کون سب سے اچھے چلن کا ہے۔،،

____________________

(۱) صحیح بخاری، ج ۴ باب ماذکر عن بنی اسرائیل، ص ۱۴۲

۵۰۶

اہل سنّت کی روایات کثیرہ میں ہے کہ دعا اور صدقہ قضائے الہی کو تبدیل کردیتے ہیں۔(۱)

جہاں تک اہل بیت اطہار(ع) کی ان روایات کا تعلّق ہے، جن میں مستقبل میں رونما ہونے والے واقعات کی پیش گوئی کی گئی ہے، ان میں تحقیق یہی ہے کہ اگر معصوم(ع) حتمی طور پر اور بغیر کسی شرط و قید کے مستقبل میں کسی واقعہ کے رونما ہونے کی خبر دے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ مقدرات کی وہ قسم ہے جو حتمی ہے اور اس میں کسی قسم کا بداء واقع نہیں ہوسکتا۔ کیونکہ اللہ نہ اپنی ذات کو جھٹلاتا ہے اور نہ اپنے نبی کو اور اگر معصوم(ع) کسی امر کی پیشگوئی اس شرط پر کرے کہ مشیّت الہی اس کے خلاف نہ ہو اس پر کوئی قرینہ متصل و منفصل قائم کریں تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ یہ مقدرات کی وہ قسم ہے جو مشیّت الہٰی پر موقوف ہے اور اس میں بداء واقع ہوسکتا ہے اور معصوم(ع) کی یہ خبر اور پیشگوئی سو فیصد صادق ہوگی اگرچہ اس میں بداء واقع ہو اور مشیّت الہٰی اس پیشگوئی کے خلاف ہو، کیونکہ معصوم(ع) کی پیشگوئی میں اس شرط پر واقع کے رونما ہونے کی خبر دی گئی ہے کہ مشیّت الہٰی اس کے خلاف نہ ہو۔

عیاشی نے عمرو بن حمق سے روایت کی ہے:

''جس وقت امیر المومنین(ع) کے سرمبارک پر ضربت لگی، میں آپ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ آپ نے فرمایا: اے عمرو! عنقریب میں تم سے جدا ہو جاؤں گا۔ تمہیں معلوم ہونا چاہےے کہ ۷۰ھ میں ایک بلا نازل ہوگی۔ میں نے عرض کی: میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں کیا ۷۰ھ کے بعد یہ بلاٹل جائے گی؟ آپ نے فرمایا: ہاں۔ بلا کے بعد آسائش ہوگی۔ پھر آپ نے آیہ کریمہ: یمحوا اللہ۔۔۔ کی تلاوت فرمائی۔،،

____________________

(۱) دعا سے قضاء کے تبدیل ہونے کے بارے میں روایات اسی کتاب کے ضمیمہ نمبر ۱۱ میں ملاحظہ فرمائیں۔

۵۰۷

اصول تفسیر

مدارک تفسیر

خبر واحدسے قرآن کی تخصیص

چند توہمات اور ان کا ازالہ

۵۰۸

تفسیر، کتاب الٰہی کی کسی آیت میں مقصود الہی کی وضاحت کا نام ہے بنا برایں اس سلسلے میں ظن اور عقلی استحسانات پر اعتماد اور ان پر عمل کرنا جائز نہیں ہے اور نہ ایسی چیز پر اعتماد کیا جا سکتا ہے جس کی تجیت عقلی اور شرعی طورپر ثابت نہ ہو کیونکہ قرآن میںظن کی پیروی کرنے سے منع فرمایا گیا ہے اور اللہ کی اجازت کے بغیر اس کی طرف کسی چیز کی نسبت دینا حرام ہے اللہ تعالیٰ کاارشاد ہے۔

( قُلْ آللَّـهُ أَذِنَ لَكُمْ ۖ أَمْ عَلَى اللَّـهِ تَفْتَرُونَ ) ۱۰:۵۹

(''اے رسولؐ) تم کہہ دو کہ کیا خدا نے تمہیں اجازت دی ہے یاتم خدا پر بہتان باندھتے ہو،،۔

( وَلَا تَقْفُ مَا لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ ۚ ) ۱۷:۳۶

''اور جس چیز کا تمہیں یقین نہ ہو(خواہ مخواہ) اس کے پیچھے نہ پڑا کرو،،۔

انکے علاوہ بھی قرآنی آیات اور روایات موجود ہیں جن میں غیر علم پر عمل کرنے سے منع کیا گیا ہے شیعہ اورسنی کتب احادیث میں کثرت سے روایات موجود ہیں جن میں تفسیر بالائے سے نہی کی گئی ہے۔

ان آیات اور روایات سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ تفسیر قرآن کے سلسلے میں مفسرین کی ذاتی رائے پر عمل کرناجائز نہیں ہے چاہے یہ مفسر کوئی صحیح المسلک آدمی ہو یا نہ ہو کیونکہ ذاتی رائے پر عمل کرنا اتباع ظن ہے جو حق سے بے نیاز نہیں کرسکتا۔

مدارک تفسیر

مفسر کیلئے ضروری ہے کہ وہ فہم قرآن اور تفسیر قرآن میں ان ظواہر پر عمل کرے جو ایک صحیح عرب سمجھتاہے (ہم اس سے پہلے ظواہر کی حجیت کو ثابت کر چکے ہیں) یا ان فیصلوں پر عمل کرے جو ایک صحیح اور فطری عقل صادر کرے کیونکہ جس طرح نبی حجت ظاہری ہے اسی طرح عقل حجت باطنی ہے یااس معنی اور مفہوم پر عمل کرے جو معصومین (ع) سے ثابت ہو کیونکہ یہی ہسپتال مرجع دین ہیں اور رسول اللہ (ص) نے انہی سے تمسک کی وصیت فرمائی ہے آپ (ص) نے فرمایا۔

۵۰۹

انی تارک فکم الثقلین کتاب الله و عترتی اهل بینی ، ما ان تمسکم بهما لن تضلوا بعدی ابدا (۱)

''میں (ص) تم میں دو گرانقدار چیزیں چھوڑے جا رہا ہوں کتاب اللہ اور میری عترت اہل بیت (ع) جب تک تم ان دونوں سے متمسک رہو گے کبھی بھی میرے بعدگمراہ نہیں ہو گے،،۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ قطعی اور یقینی ذریعے سےاہل بیت اطہار (ع) کا قول ثابت ہو جاتا ہے اور خبر ضعیف (جس میں حجیت کی شرائط موجود نہ ہوں) کے ذریعے قول معصوم (ع) ثابت نہیں ہوتا۔

لیکن اس میں اختلاف ہے کہ آیا اس ظنی طریقے (خبر واحد اور دیگر دلائل) سے قول معصوم (ع) ثابت ہو جاتاہے جس کی حجیت پر قطعی دلیل قائم ہو؟

بعض علمائے کرام اس خبر واحد کی حجیت کو مورد اشکال قرار دیتے ہیں جو تفسیر کے بارے میں وارد ہوئی ہو اعتراض یہ ہے کہ خبر واحد اور دوسرے ظنی ادلہ کی حجیت کا مطلب یہ ہے کہ جب حقیقت اور واقع ہونا معلوم نہ ہو تو اس خبر واحد کے مفہوم پر واقع کے آثار مرتب کئے جائیں جس طرح واقع اور یقین حاصل ہونے کی صورت میں آثار مرتب کئے جاتے ہیںاس معنی میں حجیت وہاں متحقق ہو سکتی ہے جہاں خبر واحد کا مفہوم کوئی حکم شرعی ہویاکوئی ایسا موضوع ہو جس پر کوئی حکم شرعی مرتب کیا گیا اور ممکن ہے جہاںخبر واحد کا مفہوم کوئی حکم شرعی ہو یا کوئی ایسا موضوع ہو جس پر کوئی حکم شرعی مرتب کیا گیا ہو اور ممکن ہے کہ یہ شرط اس خبر واحد میں نہ پائی جائے جوتفسیر کے بارے میں ورد ہوئی ہے (کیونکہ کچھ روایات ایسی ہیں جو گزشتہ اقوام کے قصوں اور داستانوں کے متعلق قرآنی آیات کی تفسیر میں وارد ہوئی ہیں جن کا حکم اور موضوع حکم سے کوئی تعلق نہیں ہوتا)

____________________

نمبر۱اس حدیث کے حوالے اسی کتاب کے آخر پر ضمیمہ نمبر ۱ میں ذکر کئے جائیں گے نیز کنز العمال باب الاعتصام بالکتاب و السنتہ ج ۱ ، ص ۱۵۳ اور ۳۳۲

نمبر۲ جب کہا جائے شراب حرام ہے یانماز واجب ہے تو''شراب ،، اور ''نماز،، موضوع اور ''وجوب،، اور ''حرمت،، حکم کہلاتے ہیں (مترجم)۔

۵۱۰

لیکن یہ اشکال تحقیق کیخلاف ہے کیونکہ ہم نے علم ا صول میں اس کی وضاحت کر دی ہے کہ اجتہادی دلیل جس کی نظر واقع پر ہوتی ہے یعنی جو واقع کی نشاندہی کرتی ہے کہ حجیت کا مطلب یہ ہے کہ اس کو حکم شرع میں علم کامقام دیا گیا ہے گویا اس طرح واجب العمل ظنی دلیل کو علم شمار کیا گیا ہے یہ ایسا علم ہے جس کو شارع نے علم کارتبہ دیا ہے یہ علم وجدانی نہیں ہے لہٰذا اس پر بھی وہی آثار مرتب ہوں گے جو قطع و یقین پر مرتب ہوتے

ہیں نیز ان روایات کے مضمون کے مطابق خبر دینا صحیح ہو گا جس طرح وجدانی علم کے مطابق خبر دی جاتی ہے اس طرح یہ (خبر واحد وغیرہ پر عمل کرنا) بغیر علم کے خبر دینے کے مترادف نہیں ہوگا۔

چنانچہ اس طرز عمل کی تائیدسیرت عقلاء سے بھی ہوتی ہے کیونکہ عقلاء اس قسم کی دلیلوں پر اسی طرح عمل کرتے ہیں جس طرح وجدانی علم پر کرتے ہیں اور دونوں کے آثار میں کسی قسم کے فرق کے قائل نہیں ہوتے مثلاً جس کسی کے ہاتھ میں کوئی چیز ہو ، عقلاء کے نزدیک قبضہ اس شخص کی ملکیت کی دلیل سمجھا جاتا ہے جس کے ہاتھ میں مال ہو اس بنیاد پر کہا جاتاہے کہ فلاں آدمی فلاں چیز کامالک ہے اس روش کا کوئی منکر نہیں اور شارع مقدس نے بھی عقلاء کی اس دائمی سیرت اور روش پر کوئی پابندی نہیں لگائی۔

ہاں ! البتہ خبر موثق اور دیگر شرعی دلیلوں کے قابل عمل ہونے کی شرط یہ ہے کہ وہ حجیت کی تمام شرائط پر مشتمل ہوں۔ ان میں سے ایک اہم شرط یہ ہے کہ اس خبر کے جھوٹے ہونے کا یقین نہ ہو کیونکہ جس خبر کاکذب یقینی ہو اسے حجیت کی دلیل شامل ہی نہیں ہو سکتی بنا برایں وہ روایات جو اجماع ، سنت قطعیہ ، کتاب الٰہی اور صحیح حکم عمقل کے خلاف ہوں کبھی بھی حجیت نہیں ہو سکتیں اگرچہ حجیت کی باقی شرائط اس خبر واحد اور روایت میں موجود ہوں اس حکم میں وہ اخبار جو کسی حکم شرعی پر مشتمل ہوں اور دوسرے اخبار یکساں ہیں۔

۵۱۱

اس شرط کاراز یہ ہے کہ راوی ، چاہے کتنا ہی موثق ہو اس کی خبر واقع کیخلاف بھی ہو سکتی ہے کیونکہ کم از کم یہ احتمال دیا جا سکتا ہے کہ راوی کیلئے حقیقت حال مشتبہ ہو گئی ہو خصوصاً جب واسطے (سلسلہ رواۃ) زیادہ ہوں تو اس احتمال کو اور زیادہ تقویت ملتی ہے اس لئے اس احتمال کے ازالے اور اس کالعدم فرض کرنے کیلئے حجیت کی دلیل کاسہارالیناضروری ہو جاتا ہے۔

لیکن جہاں خبر کیخلاف واقع ہونے کا یقین ہو وہاں پرتعبداً اسے معدوم فرض کرنا غیر معقول ہے کیونکہ یقین کی کاشفیت ذاتی ہے یعنی اس کی یہ ذاتی خصوصیت ہے کہ وہ واقع کاانکشاف کرتا ہے اور اس کی حجیت بحکم عقل بدیہی طورپر ثابت ہے۔

بنا بریں حجیت خبر واحد کے دلائل صرف انہی روایات کو شامل ہوں گے جن کے کاذب اور مخالف واقع ہونے کا علم اور یقین نہ ہو۔ یہی حکم خبر واحد کے علاوہ دوسرے شرعی دلائل کا بھی ہو گا جو واقع کاانکشاف کرتے ہیں یہ حقائق ایک ایسا دروازہ ہے جس سے کئی اور دروازے کھلتے ہیں اور اس سے بہت سے اعتراضات اور اشکالات کا جواب دیا جا سکتا ہے اس لئے قارئین کرام کو یہ ذہن نشین کر لینا چاہئے۔

خبر واحد سے قرآن کی تخصیص

یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ جب کسی قطعی دلیل کے ذریعے خبر واحد کی حجیت ثابت ہو جائے تو کیا اس خبر واحد کے ذریعے ان عمومات کی تخصیص ہو سکتی ہے جو قرآن میں موجود ہیں؟

مشہور کا مسلک یہی ہے کہ خبر واحد کے ذریعے عمومات قرآن کی تخصیص جائز ہے اور بعض علمائے اہل سنت نے اس (جواز) کی مخالفت سنی ہے البتہ ان میں سے بعض نے تو معطلقاً اسے ناجائز قرار دیا ہے عیسیٰ بن ابان کا عقیدہ یہ ہے کہ اگر عام قرآن کی پہلے کسی قطعی دلیل کے ذریعے تخصیص ہو چکی ہو تو خبر واحد کے ذریعے اس کی مزید تخصیص جائز ہے ورنہ جائز نہیں۔

کرخی کا نظریہ ہے کہ اگر کسی دلیل منفصل کے ذریعے عام قرآن کی تخصیص ہوئی ہو تو خبر واحد کے ذریعے مزید تخصیص جائز ہے ورنہ نہیں اور قاضی ابوبکر نے توقف اختیار کیا ہے (وہ نہ جواز کاقائل ہوا ہے اور نہ عدم جواز کا)۔

۵۱۲

ہمارا عقیدہ وہی ہے جو مشہور علماء کا ہے یعنی خبر واحد کے ذریعے عام قرآن کی تخصیص ہو سکتی ہو۔ اس کی دلیل یہ ہے کہ خبر واحد کی حجیت (اس کا لازم العمل ہونا) قطعی اور یقینی ہے اور اس کا تقاضا یہی ہے کہ جب تک کوئی مانع پیش نہ آئے اس خبر کے مدلول و مضمون پر عمل کرنا واجب ہے اس کالازمی نتیجہ یہی ہے کہ اس کے ذریعے عام قرآن کی تخصیص ہو جاتی ہے۔

چندتوہمات اور ان کاازالہ

چند چیزوں کو مانع کے طورپر ذکر کیا گیا ہے لیکن درحقیقت وہ مانع بننے کی صلاحیت نہیں رکھتیں ۔

۱۔ مانعین کا کہنا یہ ہے کہ قرآن کریم کلام الٰہی ہے جس کو اللہ نے اپنے نبی (ص) پر نازل فرمایا ہے یہ ایک ایسی حقیقت ہے جس میں کسی شک و شبہ کی گنجائش نہیں لیکن خبر واحدکے مطابق واقع ہونے کا یقین نہیں اور نہ اس بات کا یقین ہے کہ یہ خبر معصوم (ع) سے صادر ہوئی ہے کیونکہ کم از کم یہ احتمال باقی ہے کہ راوی کو اشتباہ ہوا ہو اور عقل کبھی بھی اس بات کی اجازت نہیں دیتی کہ ایک ایسی دلیل کی وجہ سے جس میں خطاء کا احتمال موجود ہو ایک قطعی دلیل سے دستبردار ہوا جائے۔

جواب: یہ درست ہے کہ قرآن قطعی ا لصدور ہے (اس کے کلام خدا ہونے میں کوئی شک نہیں) لیکن ہمیں اس بات کا یقین نہیں کہ حکم واقعی ، عمومات قرآن کے مطابق ہو عمومات قرآن اس لئے واجب العمل ہیں کہ یہ ظاہر کلام ہیں اور عقلاء کی سیرت اس بات پر قائم ہے کہ وہ ظواہر کو حجت جانتے ہیں اور شارع مقدس نے بھی اس سیرت اور روش سے منع نہیں فرمایا۔

لیکن یہ بھی واضح ہے کہ سیرت عقلاء کی رو سے ظواہراس صورت میں حجت ہیں جب ان کے ظاہری معنی کیخلاف کوئی قریہ متصل و مقصل قائم نہ ہو اور اگر کسی مقام پر ظاہری معنی کیخلاف کوئی قرینہ قائم ہو تو اس طاہری معنی سے دستبردار ہونا اور قرینہ کے مطابق عمل کرنا ضروری ہے۔

۵۱۳

بنا برایں یہ بات تسلیم کرناناگزیر ہے کہ عمومات قرآن کی اس خبر واحد کے ذریعے تخصیص جائز ہے جس کی حجیت پر کوئی قطعی دلیل قائم ہو اس کا مطلب یہ ہے کہ ہم اس خبر کا مضمون ، معصوم (ع) سے صادر ہونے کو شرعی طور سے تسلیم کر لیں دوسرے الفاظ میں اگرچہ قرآن کی سند قطعی ہے لیکن اس کی دلالت ظنی ہے اور عقل کے نزدیک اس میں کوئی قباحت نہیں ہے کہ ایک ظنی دلالت سے کسی ایسی ظنی دلیل کی بنیاد پر دستبردار ہوا جائے جس کی حجیت پر قطعی دلیل قائم ہو۔

۲۔ دوسرا تو ہم یہ ہے کہ معصومین (ع) کی صحیح روایات کہتی ہیں کہ روایات کو کتاب خدا کے سامنے پیش کیا جائے ان میں سے جو روایات کتاب خدا کے خلاف ہو اس کو ترک کر دیا جائے اور اسے دیوار پر مار دیا جائے اور یہ کہ وہ روایت معصوم (ع) سے صادر ہی نہیں ہوئی جو مخالف کتاب خداہو یہ روایت صحیحہ اس خبر واحد کو بھی شامل ہوں گی جو عموم قرآن کیخلاف ہو یعنی اس کو مخالف قرآن ہونے کی وجہ سے ترک کر دیا جائے گا۔

جواب: وہ قرائن عرفیہ جو مراد خداوندی کو بیان کریں ، عرف کے نزدیک مخالف قرآن نہیں سمجھتے جاتے اور دلیل خاص ہمیشہ دلیل عام کی وضاحت ہوا کرتی ہے کوئی دو دلیلیں اس وقت ایک دوسری کی مخالف سمجھی جاتی ہیں جب ان کا آپس میں تعارض ہو۔ بایں معنی کہ جب کسی متکلم سے یہ دونوں دلیلیں صادر ہوں تو اہل عرف اس سے مقصود و متکلم کو نہ سمجھیں اور حیران رہ جائیں بنا برایں خبر واحد جو خاص ہو عام قرآن کی مخالف نہیں بلکہ وہ مراد اور مقصود قرآن کو بیان کرتی ہے۔

اس کی دلیل یہ ہے کہ ہمیں قطعی طورپر علم ہے کہ معصومین (ع) سے ایسی روایات صادر ہوئی ہیں جو عمومات قرآن کیلئے مخصص اور مطلقات قرآن کیلئے مقید ہیں اگر تخصیص و تقیید ، قرآن کی مخالفت کہلاتی تو ان کایہ فرمان درست نہ ہوتا ''جو کلام خدا کا مخالف ہے وہ ہمارا قول نہیں ہے بلکہ جھوٹ یاباطل ہے،، لہٰذا ان روایات کا ائمہ (ع) سے صادر ہونا اس امر کی دلیل ہے کہ تخصیص و تقیید قرآن کی مخالف نہیں ہے۔

۵۱۴

اس کے علاوہ معصومین(ع) نے دو روایتوں میں سے ایک کے موافق قرآن ہونے کو ، دوسری روایت پر مقدم ہونے کامرجح قرار دیا ہے اس کامطلب یہ ہوا کہ مخالف روایت بھی (جو موافق قرآن نہیں) اگر معارض نہ ہوتی تو بذات خود حجیت تھی اور یہ حقیقت بھی پوشیدہ نہیں کہ اگر اس متروک روایت کی مخالفت اس نوعیت کی ہوتی جو قرآن کے ساتھ ہرگز سازگار نہ ہوتی توبذات خود بھی حجیت نہ ہوتی اور تعارض اور ترجیح کی نوبت نہ آتی۔

معلوم ہوا روایت کا موافق کتاب نہ ہونے کامطلب یہ ہے کہ عرفاً یہ دونوں تخصیص یا تقیید کے ذریعے ہم آہنگ ہو سکتے ہیں۔

اس بحث کانتیجہ یہ نکلا کہ خبر واحد جو کسی عام کیلئے مخصص یا مطلق کیلئے مقید قرار پائے بذات خود حجیت اور لازم العمل ہے مگر یہ کہ کسی دوسری دلیل سے اس کاتعارض ہو۔

۳۔ تیرا شبہ یہ ذکر کیا جاتا ہے کہ اگر خبر واحد کے ذریعے قرآن کی تخصیص جائز ہو تو اس کے ذریعے قرآن کا نسخ بھی جائز ہونا چاہئے جبکہ خبر واحد کے ذریعے قرآن کا نسخ ہونا یقیناً جائز نہیں ہے اس لئے تخصیص بھی جائز نہیں ہونی چاہئے۔

اس ملازمہ کی دلیل یہ ہے کہ نسخ (جس کی وضاحت ہم نسخ کی بحث میں کر چکے ہیں) زمانے کے اعتبار سے تخصیص کانام ہے اور دلیل ناسخ اس کا انکشاف کرتی ہے کہ حکم سابق (منسوخ) ایک خاص زمانے اور مدت سے مختص تھا جو دلیل ناسخ کے آنے پر ختم ہو گیا بنا برایں کسی حکم کا نسخ ہو جانا حقیقی معنوں میں اس حکم کا اٹھا دینا نہیں بلکہ ظاہری شکل میں حکم کا ازالہ ہوتا ہے افراد کی تخصیص (حکم عام سے اس کے بعض افرادکو خارج کرنا) زمانے کے اعتبار سے تخصیص کے مانند ہے اس طرح یہ دونوں تخصیص ہیں۔ اگر پہلی تخصیص جائز ہو تو دوسری کوبھی جائز ہونا چاہئے۔

۵۱۵

جواب: یہ درست ہے کہ یہ دونوں تخصیص ہیں لیکن ان دونوں تخصیصوں میں فرق ہے یہ کہ اجتماع قطعی اس بات پر قائم ہے کہ خبر واحد کے ذریعے نسخ جائز نہیں ہے اگر عدم جواز پر اجتماع قائم نہ ہوتاتو خبر واحد کے ذریعے تخصیص کی طرح اس کے ذریعے نسخ بھی جائز ہوتا اس سے قبل یہ بیان کیا جا چکا ہے کہ قرآن اگرچہ قطعی الصدور ہے مگر اس کی دلالت ظنی ہے قطعی نہیں اور خبر واحد ، جس کی حجیت دلیل قطعی سے ثابت ہے کہ ذریعے اس ظنی دلالت سے دستبردار ہوا جا سکتا ہے۔

ہاں ! یہ بات ضرور ہے کہ عدم جواز نسخ پر قائم ہونے والا اجماع تعبدی نہیں بلکہ بعض مسائل اور واقعات اس اہمیت اور خصوصیت کے حامل ہوتے ہیں کہ اگر خارج میں رونما ہوں تو خبر متواتر کے ذریعے ہی نقل ہوتے ہیں ایسے مسائل اور واقعات کوصرف چند آدمی نقل کریں تواس راوی کے کذب اور اس کی خطا کی دلیل ہو گی اور حجیت خبر واحد کی دلیلیں ایسی خبروں اور روایات کو شامل نہیں ہوں گی جنہیں ا ہمیت کی حامل ہونے کے باوجود ایک یا چندآدمی نقل کریں اسی لئے ہم کہتے ہیں کہ خبر واحد کے ذریعے قرآن ثابت نہیں ہوسکتا۔

یہ حقیقت بھی ناقابل انکار ہے کہ نسخ قرآن کوئی ایسا مسئلہ نہیں جو مسلمانوں کی صرف ایک قوم سے مختص ہو اس کے علاوہ نسخ واقع ہونے کی صورت میں اس کی خبر نقل ہونے کے اسباب و عوامل بھی زیادہ ہوتے ہیںبنا برایں اگر نسخ واقع ہو تو یہ ایک ایسی غیر معمولی خبر ہے جسے خبر متواتر کے ذریعے ہی نقل ہونا چاہئے اگر اسے صرف ایک یا دو آدمی نقل کریں تو یہ اس راوی کے جھوٹ یا اشتباہ کا ثبوت ہو گا یہیں سے نسخ اور تخصیص کے درمیان فرق واضح ہو جاتا ہے اور وہ ملازمہ بھی باطل ہو جاتا ہے جس کی رو سے یہ دعویٰ کیا گیا تھا کہ اگر خبر واحد کے ذریعے تخصیص جائز ہو تو نسخ بھی جائز ہونا چاہئے۔

۵۱۶

قرآن حادث ہے قدیم

یونانی فلسفہ کا مسلمانوںکی زندگی پر اثر

اللہ کی صفات ذاتی و فعلی

کلام نفسی

کیا ''طلب،، کلام نفسی ہے ؟

کلام نفسی کا کوئی وجود نہیں

کلام نفسی پر اشاعرہ کے دلائل

۵۱۷

کسی مسلمان کو اس بات میں شک نہیں کہ کلام اللہ وہی ہے جسے اللہ نے نبوت کی دلیل کے طور پر رسول اللہ (ص) پر نازل فرمایانیز اس بات میں بھی کسی مسلمان کو شک نہیں کہ ''تکلم،، خدا کی صفات ثبوتیہ میں سے ایک صفت ہے ، جن کو صفات جمال کہتے ہیںچنانچہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں اس صفت کو اپنی ذات کیلئے استعمال کیا ہے۔

( وَكَلَّمَ اللَّـهُ مُوسَىٰ تَكْلِيمًا ) ۴:۱۶۴

''اور خدا نے تو موسیٰ سے (بہت سی) باتیںبھی کیں،،

یونانی فلسفہ کا مسلمانوں کی زندگی پر اثر

تمام مسلمانوں کا مذکورہ دو باتوں پر اتفاق تھا اور ان میں کسی قسم کا اختلاف نہیںپایا جاتاتھا یہاں تک کہ یونانی فلسفہ مسلمانوں میں داخل ہو گیا اور مسلمانوں کو مختلف فرقوں میں بانٹ کر رکھ دیا حتیٰ کہ ایک فرقہ دوسرے کو کافر گرداننے لگا اور زبانی اختلاف ہاتھا پائی اور قتل و قتال میں تبدیل ہو گیا کئی مسلمانوں کی ناموس کی توہین کی گئی اور کئی بے گناہ افرادکا خون بہایا گیا جبکہ قاتل اور مقتول دونوں توحید کے قائل تھے اور رسالت و معاد کا اقرار کرتے تھے۔

کیا یہ مقام تعجب نہیں کہ ایک مسلمان دوسرے مسلمان بھائی کی عصمت دری اور قتل کے درپے ہو جب کہ دونوں مسلمان گواہی دیتے ہیں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور اس کا کوئی شریک نہیں اور یہ کہ محمد (ص) اللہ کے بن دہ اور رسول ہیں جو اللہ کی طرف سے پیام حق لے کر آئے ہیں اوریہ کہ اللہ روز محشر تمام لوگوںکو (حساب کتاب کیلئے) قبروں سے دوبارہ اٹھائے گا۔

کیا رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور آپ(ص) کے بعد ولی امر (ع) کی سیرت یہ نہیں رہی کہ جو شخص بھی ان باتوں کی گواہی دے اس پر مسلمان کے احکام و آثار مرتب کئے جائیں ؟ کیا کوئی روایت یہ کہتی ہے کہ رسول اللہ (ص) یا آپ (ص) کے جانشینوں (ع) میں سے کسی نے کسی بھی شخص سے قرآن کے قدیم یا حادث ہونے یا اس کے علاوہ دوسرے اختلافی مسائل کے بارے میں سوال فرمایا ہو اور ان کے اختلافی مسائل میں سے کسی ایک کا اقرار لینے کے بعد اسے مسلمان قرار دیا ہو؟

۵۱۸

میں نہیں سمجھتا کہ (اور کاش سمجھتا) کہ جو لوگ اس طرح مسلمانوں میں اختلاف و انتشار کا بیج بوتے ہیں خدا کو کیا جواب دیں گے اور کیاعذر پیش کریں گے ۔انا لله و انا الیه راجعون ۔

حدوث قرآن اور قدم قرآن کے مسئلے نے اس وقت جنم لیا جب مسلمان دو گروہوں (اشعری اور غیر اشعری) میں تقسیم ہو گئے اشاعرہ اس بات کے قائل ہوئے کہ قرآن کریم ہے (یعنی ابد سے ہے اور اس کی کوئی ابتداء نہیں) اوریہ کہ کلام کی دو قسمیں ہیں ۔ ۱۔کلام لفظی ۲۔ کلام نفسی۔ کلام نفسی اللہ کی ذات کے ساتھ قائم اور موجود ہے اور اللہ کے قدیم ہونے کے ساتھ ساتھ اس کا کلام نفسی بھی قدیم ہے اور یہ کہ کلام نفسی خدا کی صفات ذاتیہ میں سے ایک صفت ہے معزلہ اور عدلیہ (امامیہ) کا یہ عقیدہ ہے کہ ''قرآن،، حادث (مخلوق) ہےاور یہ کہ کلام صرف لفظی ہی ہوا کرتی ہے کلام نفسی نامی کوئی چیز موجودن ہیں ہے اور ''تکلم،، اللہ کی صفات فعلیہ میں سے ہے۔

اللہ کی صفات ذاتی و فعلی

اللہ کی صفات ذاتی اور فعلی میں فرق یہ ہے کہ اس کی ذات میں صفات ذاتی کا نقیض و عکس کبھی نہیں پایا جا سکتا دوسرے الفاظ میں اللہ کی ذاتی صفات وہ صفات ہیں جو کبھی بھی اللہ سے سلب نہیں ہو سکتیں جس طرح علم ، قدرت اور حیات ہیں اللہ کی ذات ہمیشہ سے عالم ، قادر اور زندہ ہے اور عالم ، قادر اور زندہ رہے گی یہ امر محال ہے کہ ایک لمحہ کیلئے بھی اللہ عالم ، قادر اور حّی نہ ہو۔

اللہ کی صفات فعلیہ وہ ہیں کہ اللہ کی ذات کبھی ان سے متصف ہوتی اور کبھی ان کے نقیض و عکس سے متصف ہوتی ہے جس طرح خلق کرنا اور رزق دینا ہے یہ کہا جا سکتا ہے کہ اللہ نے فلاں چیز کو خلق فرمایا اور فلاں چیز کو خلق نہیں فرمایا فلاں کو اللہ نے فرزند عطا فرمایا اور مال عطا نہیں فرمایا۔

اس بیان کی روشنی میں یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ ''تکلم،، صفات فعلیہ میں سے ہے صفات ذاتیہ میں سے نہیں کیونکہ یہ کہنا بالکل درست ہے کہ اللہ ت عالیٰ حضرت موسی ٰ (علیہ السلام) سے ہمکلام ہوا اور فرعون سے ہمکلام نہیں ہوا یااللہ کوہ طور پر حضرت موسیٰ (علیہ السلام) سے ہمکلام ہوا ، اور بحرنیل میں ہمکلام نہیں ہوا۔

۵۱۹

کلام نفسی

تمام اشاعرہ کا اتفاق ہے کہ عام اور مشہور کلام لفظی کے علاوہ بھی ایک کلام موجود ہے جس کانام انہوںنے کلام نفسی رکھا ہے البتہ کلام نفسی کی حقیقت کے بارے میں ان سے اختلاف ہے بعض اشاعرہ کا کہنا ہے کہ کلام نفسی ، کلام لفظی کے مدلول اور اس کے معنی کا نام ہے اور بعض اشاعرہ کا عقیدہ یہ ہے کہ کلام نفسی مدلول لفظ سے مختلف ہے اور لفظ اس کلام نفسی پر دلالت و وضعیہ نہیں کرتا بلکہ لفظ کی دلالت اس کلام پر ایسی ہے جیسے انسان کے اختیاری افعال ہیں جو فاعل کے ارادہ علم اور اس کی حیات پر دلالت کرتے ہیں بہرحال اشاعرہ کا عقیدہ یہ ہے کہ قرآن مجید میں موجود کلام ہی قدیم ہے لیکن فاضل قوشجی نے بعض اشاعرہ کی طرف یہ قول منسوب کیا ہے کہ کلام قرآن کی طرح اس کی جلد اور غلام بھی قدیم ہے جیسا کہ اس سے پہلے بھی بتایا گیا ہے کہ اشاعرہ کے علاوہ سب کا اتفاق ہے کہ قرآن حادث ہے اور یہ کہ اللہ کا کلام لفظی کائنات کی دیگر مخلوقات کی طرحایک مخلوق ہے اور اس کی آیات اور نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے۔

البتہ اس مسئلہ میں بحث و تمحیص اور تحقیق سے کوئی نتیجہ نہیں نکلتا اس لئے کہ یہ مسئلہ اصول دین میں سے ہے اور نہ فروغ دین میں سے بلکہ اس کا دنی مسائل اور الٰہی معارف سے دُور کابھی واسطہ نہیں ۔ تاہم میں نے چاہا کہ اس مسئلے کے بارے میں بھی کچھ بحث کی جائے تاکہ ہمارے اشاعرہ بھائیوں (جن کی مسلمانوں میںا کثریت ہے) کیلئے یہ بات واضح ہو جائے کہ جس مسلک کو انہوں نے اختیار کیا ہے اور جس عقیدے کو واجب سمجھتے ہیں وہ محض ایک خیالی چیز ہے عقلی اور شرعی اعتبار سے اس کی کوئی بنیاداور اساس نہیں۔

۵۲۰

521

522

523

524

525

526

527

528

529

530

531

532

533

534

535

536

537

538

539

540

541

542

543

544

545

546

547

548

549

550

551

552

553

554

555

556

557

558

559

560

561

562

563

564

565

566

567

568

569

570

571

572

573

574

575

576

577

578

579

580

581

582

583

584

585

586

587

588

589

590

591

592

593

594

595

596

597

598

599

600

601

602

603

604

605

606

607

608

609

610

611

612

613

614

615

616

617

618

619

620

621

622

623

624

625

626

627

628

629

630

631

632

633

634

635

636

637

638

639

640

641

642

643

644

645

646

647

648

649

650

651

652

653

654

655

656

657

658

659

660

661

662

663

664

665

666

667

668

669

670

671

672

673

674

675

676

677

678

679

680

681

682

683

684

685

686

687

688

689

690

691

692

693

694

695

696

697

698

699

700

701

702

703

704

705

706

707

708

709

710

711

712

713

714

715

716

717

718

719

720

721

722

723

724

725

726

727

728

729

730

731

732

733

734

735

736

737

738

739

740

741

742

743

744

745

746

747

748

749

750

751

752

753

754

755

756

757

758

759

760

761

762

763

764

765

766

767

768

769

770

771

772

773

774

775

776

777

778

779

780

781

782

783

784

785