تفسير راہنما جلد ۱

 تفسير راہنما 7%

 تفسير راہنما مؤلف:
زمرہ جات: تفسیر قرآن
صفحے: 785

جلد ۱ جلد ۲ جلد ۳ جلد ۴ جلد ۵ جلد ۶ جلد ۷ جلد ۸ جلد ۹ جلد ۱۰ جلد ۱۱
  • ابتداء
  • پچھلا
  • 785 /
  • اگلا
  • آخر
  •  
  • ڈاؤنلوڈ HTML
  • ڈاؤنلوڈ Word
  • ڈاؤنلوڈ PDF
  • مشاہدے: 200989 / ڈاؤنلوڈ: 5794
سائز سائز سائز
 تفسير راہنما

تفسير راہنما جلد ۱

مؤلف:
اردو

1

2

3

4

5

6

7

8

9

10

11

12

13

14

15

16

17

18

19

20

۱۳_ ابوسعيد خدرى سے روايت ہے كہ رسول خدا (ص) نے فرمايا:''قال عيسي عليه‌السلام ...''الرحمان'' رحمان الدنيا و الآخرة و''الرحيم'' رحيم الآخرة (۱)

حضرت عيسىعليه‌السلام نے فرمايا رحمان اللہ تعالى كى دنيا و آخرت كے لئے وسيع رحمت ہے _ اور رحيم اللہ تعالى كى آخرت ميں خصوصى رحمت ہے _

اسما و صفات: رحمان ۴،۱۰ َ; رحيم ۴،۱۰

اللہ: اسم اللہ كى خصوصيات۱

اللہ تعالى : اسم اعظم ۱۱;اللہ كا حسن و جمال ۱۰; اللہ كے نام كى اہميت ۷،۸; اللہ كى رحمت كے اسباب ۸; اللہ كى رحمت كے مظاہر ۹; اللہ كى سلطنت ۱۰; اللہ كى عظمت و بزرگي۱۰;خدا كى بلندى ۱۰;خدا كى رحمت كے نتائج ۵،۷; خدا كى رحمانيت ۹،۱۰،۱۳; خدا كى رحيميت ۹،۱۰،۱۳; خد ا كى عمومى رحمت ۵، ۷ ; خدا كى مہربانى ۶; خدا كا نام ۲،۳، ۱۰

بسم اللہ : بسم اللہ كى اہميت ۳; بسم اللہ كى باء ۱۰; بسم اللہ كى سين ۱۰ ،۱۲; بسم اللہ كى فضيلت ۱۱; بسم اللہ كى ميم ۱۰;كاموں ميں اسكے اثرات و نتائج۸

بندگي: بندگى كى نشانياں ۱۲

حديث ۱۰،۱۱،۱۲،۱۳

قرآن كريم: آغاز قرآن ۲; قرآن كى خصوصيات ۲، ۹ قرآن كا رحمت ہونا۲; قرآن كا سرچشمہ ۱;

كام: كام كے آداب ۳; كاموں ميں بسم اللہ ۳; كاموں ميں بسم اللہ كى حكمت يا فلسفہ ۷

مؤمنين: مومنين كے درجات ۱۰

____________________

۱) الدرالمنثور ج/۱ ص۲۳_

۲۱

الْحَمْدُ لِلّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ ( ۲ )

سارى تعريف اللہ كے لئے ہے جو عالمين كا پالنے والا ہے_

۱_سب تعريفيں اللہ كے لئے ہيں _

الحمدلله

''الحمدللہ'' ميں ''ال'' جنس كے لئے ہے جو استغراق كا مفہوم ديتاہے يعنى تمام حمد اللہ كے لئے ہے_

۲_ تما م تر كمالات رعنائيوں اور خوبيوں كا سرچشمہ اللہ تعالى ہے_الحمدلله اللہ تعالى كى حمد حسن و جمال اور كمالات كے مقابلے ميں ہے_ ''الحمدلله '' كے مطابق ہر توصيف و تعريف اللہ كے لئے ہے پس ہر حسن و كمال اسكى ذات اقدس سے ہے_

۳_ صرف اللہ تعالى ہى لائق حمد و ثنا ہے اور اسى كى ستائش ہونى چاہيئے_

الحمدلله

۴_ اللہ تعالى جہان ہستى كے عالمين كا مالك اور تدبير كرنے والا ہے_رب العالمين عالمين كا مفرد عالم ہے _ موجودات كے ايك مجموعہ يا گروہ كو ''عالَم'' كہتے ہيں _ پس عالمين يعنى تمام تر موجودات كے گروہ _

۵_ جہان خلقت متعدد عالموں سے تشكيل پاياہے _رب العالمين يہ مطلب''عالمين ''كے جمع ہونے سے سمجھاجاتاہے_

۶_ عالم ہستى تمام كا تمام خوبصورت اور اس ميں موجود تدبير و حكمت حسين و جميل ہے_

الحمد لله رب العالمين

''رب العالمين'' الحمدللہ كے لئے دليل كے طور پر ہے يعنى چونكہ عالم ہستى كى تدبير كرنے والا خداوند متعال ہے لہذا تمام تعريفيں اسى كے لئے ہيں اور تعريف و توصيف ہميشہ كمال و جمال كے لئے ہوتى ہے پس اسكا نتيجہ يہ نكلتاہے كہ سارے كا سارا جہاں ہستى خوبصورت اور اس ميں موجود تدبير حسين و جميل ہے_

۷_ كائنات كى تدبير و حكمت پروردگار عالم كے اختيار سے ہے اسكے انتظام و انصرام ميں جبر يا اضطرار نہيں پايا جاتا _

الحمدلله رب العالمين

فعل و صفت پر حمد و ثنا اس وقت صحيح ہے جب فعل و صفت حسين اور زيبا ہونے كے علاوہ اختيارى بھى ہوں يعنى اگر فعل يا صفت حسين و جميل ہوں تو فاعل كى حمد و ثنا كى جاسكتى ہے كيونكہ اس نے اپنے اختيار سے اسكو انجام دياہے_

۸_ عالم ہستى كمال كى طرف گامزن ہے_

۲۲

رب العالمين

''رب'' كا معنى تربيت كرنا ہے_ تربيت كا مفہوم پہلى حالت سے ايك نئي حالت پيدا كرنا ہے تا كہ كمال تك پہنچ جائے (مفردات راغب ) _ يہ معنى ايك تكاملى تحرك پر دلالت كرتاہے_ اس بات كى جانب اشارہ مناسب ہے كہ لفظ''رب'' صفت اور مصدر كے درميان مشترك لفظى ہے اور اس آيت ميں اسكا وصفى معنى آياہے_

۹_ اس جہان ہستى كے عالمين كى تدبير و حكمت كا پروردگار عالم كى طرف سےہونا اس بات كى دليل ہے كہ تمام ترتعريفيں مخصوص ہيں اسكى ذات اقدس كے ساتھ_الحمدلله رب العالمين

۱۰_عن ابى عبدالله عليه‌السلام فى قوله : ''الحمدلله'' قال: الشكر لله و فى قوله ''رب العالمين'' قال: خالق المخلوقين ...''(۱)

امام صادقعليه‌السلام سے روايت ہے كہ آپعليه‌السلام نے فرمايا: ''الحمدللہ'' يعنى شكر ، خدا كى ذات سے مخصوص ہے اور ''رب لعالمين'' يعنى اللہ تمام عالمين و مخلوقات كا خالق ہے_

اللہ تعالى : اللہ تعالى سے جو امور مختص ہيں ۱،۲،۳،۹،۱۰; اللہ تعالى كا اختيار ۷; اللہ كا خالق ہونا ۱۰;اللہ كا مالك ہونا ۴;ربوبيت الہي۴

حديث: ۱۰

حسن و رعنائي : حسن و رعنائي كا سرچشمہ۲

حمد: اللہ كى حمد ۱،۳،۱۰; حمد خدا كے دلائل ۹

كمال: كمال كا سرچشمہ ۲

كائنات ( عالم ہستي): خلقت كے عوالم ۵; عالم ہستى كا تحرك۸; عالم ہستى كا تكامل ۸; عالم ہستى كا حسن۶; عوالم ہستى كا مالك ۴;عالمين كا انتظام وانصرام ۴،۹; كائنات كى حكمت ۶،۷

موجودات: موجودات كا خالق ۱۰

____________________

۱) تفسير قمى ج/۱ ص ۲۸ ، نورالثقلين ج/۱ ص ۱۵ ح ۶۰_

۲۳

اَلرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ ( ۳ )

وہ عظيم اور دائمى رحمتوں والا ہے_

۱_ اللہ تعالى رحمان ( وسيع رحمت كا مالك) اور رحيم (مہربان) ہے_الرحمن الرحيم

۲_ تمام ترموجودات خدا وند متعال كى وسيع رحمت سے بہرہ مند ہيں _الرحمن

۳_اللہ تعالى تمام انسانوں پر مہربان ہے_الرحيم

۴_ عالم ہستى كے انتظام اور انصرام كى بنياد اللہ كى رحمت پر ہے_رب العالمين _ الرحمن الرحيم

عالم ہستى كى تدبير يا انتظام و انصرام كے بعد اللہ تعالى كى رحمانيت اور رحيميت كے ذكر سے يہ بات سامنے آتى ہے_

۵_ اللہ كى رحمانيت اور رحيميت اس بات كى دليل ہے كہ تمام تر تعريفيں اسكى ذات اقدس سے مختص ہيں _

الحمدلله رب العالمين _ الرحمن الرحيم

''الرحمن الرحيم''،''رب العالمين'' كى طرح '' الحمدللہ'' كے لئے دليل كا درجہ ركھتى ہے_ يعنى چونكہ خداوند متعال رحمان و رحيم ہے اس لئے تمام ترتعريفيں اسكى ذات اقدس كے لئے سزاوار ہيں _

۶_انتظام و انصرام اور تربيت كو مہربانى اور لطف و كرم كے ساتھ ساتھ ہونا چاہيئے_

رب العالمين _ الرحمن الرحيم

اسماء و صفات: رحمان۱; رحيم ۱

انتظام و انصرام: انتظام كى روش ۶; نظم و انتظام ميں لطف و عنايت ۶

تربيت : تربيت كى روش ۶; تربيت ميں مہربانى يا لطف و كرم ۶

حمد: اللہ تعالى كى حمد كے دلائل ۵

خداوند متعال: اللہ تعالى كى ربوبيت ۴; اللہ كى رحمانيت ۵; اللہ كى رحمت كے نتائج و اثرات ۴;اللہ كى رحمت سے استفادہ ۲; خدا كى رحيميت ۵; اللہ كى عمومى رحمت ۱،۲; اللہ تعالى سے مختص امور۵; اللہ كا مہربان ہونا ۱،۳

كائنات: كائنات كا انتظام و حكمت۴

مہربان ہونا : مہربان ہونے كى اہميت ۶

۲۴

مَالِكِ يَوْمِ الدِّينِ ( ۴ )

روز قيامت كا مالك و مختار ہے _

۱_ اللہ تعالى روز قيامت كا مالك اور فرمانروا ہے_مالك يوم الدين

''مالك يوم الدين'' ميں ملكيت حقيقى ہے يعنى وجودى وابستگى جسكا لازمى نتيجہ يہ ہے مالك ملكيت پر كامل اور ہر طرح كا تسلط ركھتاہے_''يوم الدين'' ممكن ہے مالك كے لئے مفعول ہو اورممكن ہے ظرف ہو_ اگر ظرف ہوتو اس صورت ميں مفعول ممكن ہے لفظ ''الامور'' يا اسكى مثل كوئي اور لفظ ہو اس صورت ميں جملے كى تركيب يوں ہوگي'' مالك الامور فى يوم الدين'' بہر حال يہ مفہوم اس آيہ مجيدہ سے نكل سكتا ہے_

۲_ قيامت كے دن حساب و كتا ب اور جزا و سزا خداوند متعال كے اختيار ميں ہے_مالك يوم الدين

۳_ قيامت كا برپا كرنا اور اہل دنيا كے لئے روز جزا كا قرار دينا اللہ تعالى كى رحمت كا ايك جلوہ ہے_

الرحمن الرحيم _ مالك يوم الدين

رحمت الہى كے بيان كے بعد قيامت كا ذكر كرنا اس مطلب كى طرف اشارہ ہے_

۴_قيامت كا برپا كرنا اللہ تعالى كى جہان ہستى پر ربوبيت كا ايك جلوہ ہے_رب العالمين مالك يوم الدين

مذكورہ بالا مفہوم ''مالك يوم الدين'' كے ''رب العالمين'' كے ساتھ ارتباط سے استفادہ كيا گيا ہے_

۵_ قيامت كا دن جزا و سزا كا دن ہے_

مالك يوم الدين

'' دين'' كا معنى يہاں جزا و سزا يا حساب و كتاب ہے يعنى ہر دو كى بازگشت ايك معنى كى طرف ہے_

۶_ روز جزا ميں خداوند متعال كى مالكيت اور اس دن اسكى فرمانروائي اس بات كى دليل ہے كہ تمام ترتعريفيں اسى كى ذات سے مختص ہيں _

الحمدلله مالك يوم الدين

گذشتہ صفات كى طرح''مالك يوم الدين''، ''الحمدللہ'' كے لئے دليل ہے_

۲۵

اللہ: آخرت ميں اللہ كى حاكميت ۱; آخرت ميں اللہ كي مالكيت ۲; اللہ تعالى سے مختص امور۲،۶; اللہ كى حاكميت ۶; اللہ كى ربوبيت كے مظاہر ۴; اللہ كى رحمت كے مظاہر ۳اللہ كى طرف سے آخرت ميں جزا ۲; اللہ كى طرف سے اخروى سزا ۲; اللہ كى طرف سے حساب و كتاب ۲; اللہ كى مالكيت ۶

حمد: اللہ كى حمد كے دلائل ۶

قيامت: قيامت كا برپا ہونا ۳،۴; قيامت كا مالك ۱،۶; قيامت كى خصوصيات ۵،۶قيامت ميں جزا۵; قيامت ميں حاكم۱،۶; قيامت ميں حساب كتاب ۲،۳;قيامت ميں سزا ۵

إِيَّاكَ نَعْبُدُ وإِيَّاكَ نَسْتَعِين ُ ( ۵ )

پروردگار ہم تيرى ہى عبادت كرتے ہيں اورتجھى سے مدد چاہتے ہيں _

۱_ فقط اللہ كى ذات اقدس لائق عبادت و بندگى ہے_

اياك نعبد

''اياك'' مفعول ہے اور اسكا نعبد پر مقدم ہونا حصر پر دلالت كرتاہے_

۲_ جہان ہستى پر اللہ كى ربوبيت، اسكى رحمانيت اور رحيميت قيامت كے دن اسكا مالك ہونا يہ دلائل ہيں اس امر كے كہ صرف وہى لائق عبادت و بندگى ہے_

رب العالمين _ الرحمن الرحيم _ مالك يوم الدين_ اياك نعبد

۳_اللہ كى ربوبيت كا يقين، اسكا رحمت نازل كرنا، روز جزا كا مالك ہونا يہ امور انسان كو اللہ كى پرستش كى ترغيب دلاتے ہيں _

رب العالمين _ الرحمن الرحيم_ مالك يوم الدين_ اياك نعبد

۴_ اللہ اور اسكى صفات كى معرفت توحيد عبادى كے حصول كا ذريعہ ہے _الحمدلله رب العالمين اياك نعبد

۵_ انسانى افكار و عقائد اسكے اعمال و كردار كى بنياد ہيں _الحمدلله رب العالمين_ الرحمن الرحيم_ مالك يو م الدين _ اياك نعبد

۲۶

۶_ خدا كے حضور خود كو ناچيز تصور كرنا اسكى بندگى كے آداب ميں سے ہيں _اياك نعبد

''ميں '' كى جگہ '' ہم'' كا استعمال بعض اوقات بڑائي كے اظہار كے لئے ہوتاہے اور كبھى انانيت، تكبر و خودپرستى سے اجتناب كے لئے آتاہے_ گفتگو كے قرينے سے مراد كا اندازہ لگايا جاسكتاہے_ يہاں بندگى و عبوديت كى مناسبت سے تكبر و انانيت سے اجتناب مراد ہے اس لئے ''نعبد '' جمع كا صيغہ استعمال ہوا ہے_

۷_ اللہ اور اسكى صفات پر ايمان اس يقين كا باعث ہے كہ سب اسكى بارگاہ اور اسكے حضور ميں ہيں _

الحمدلله رب العالمين اياك نعبد

سورہ حمد ميں اسلوب كلام كو تبديل كيا گياہے يعنى غائب سے خطاب كى طرف التفات ہوا ہے اور يہ امر بعض نكات كا حامل ہے_ ان ميں سے ايك يہ ہے كہ انسان جہان ہستى پر اللہ كى ربوبيت جيسى صفات خدا جاننے سے قبل گويا احساس نہيں كرتا كہ اللہ تعالى ہر چيز پر حاضر و ناظر ہے ليكن جب وہ ربوبيت الہى اور ديگر صفات پر ايمان و يقين حاصل كرليتاہے تو خود كو اور دوسروں كو اللہ كے حضور پاتاہے اسى طرح اللہ كو تمام ترحالات ميں حاضر جانتاہے_

۸_ خود كو خدا كے حضور تصور كرنا عبادت كے آداب ميں سے ہے _

اياك نعبد

غائب سے خطاب كى التفات كے نكات ميں سے ايك اور نكتہ سورہ حمد ميں عبادت اور دعا كے آداب ہيں يعنى شائستہ يہى ہے انسان كے لئے كہ عبادت و دعا كے وقت احساس كرے كہ ميں خدا كے حضور ہوں _

۹_ عبادت كى خاطر خدا كى حقيقى معرفت اور اسكى رحمتوں پر اميد اللہ كى بندگى كے لئے ترغيبات ہيں _

الحمدلله رب العالمين_ الرحمن الرحيم اياك نعبد

اللہ كى ربوبيت ، رحمانيت، رحيميت، مالكيت روز جزا جيسى صفات كے بيان كے بعد اللہ كى عبادت كو بيان كرنا اسكى عبادت كى ترغيبات ہيں يعنى چونكہ اللہ رب ہے اس لئے لائق بندگى ہے_ لوگ چونكہ اسكى رحمت كے محتاج ہيں اس لئے عبادت كريں اور اس لئے كہ عذاب آخرت سے خوف زدہ ہيں اسكى پرستش كريں _

۱۰_ عذاب آخرت كا خوف اور جہان آخرت ميں جزا كى اميد انسان كے لئے خدا كى عبادت كے محرّك ہيں _

مالك يوم الدين _ اياك نعبد

۱۱_ اللہ تعالى اور اسكى صفات كى معرفت خود كو اسكى بارگاہ

۲۷

ميں ناچيز سمجھنے كا باعث ہے_الحمدلله اياك نعبد و اياك نستعين

۱۲_ توحيدپرستوں كى آرزوہے كہ سب لوگ يكتا پرست، خدا پرست ہوجائيں _اياك نعبد

'' اعبد _ ميں عباد ت كرتاہوں '' كى جگہ '' نعبد _ ہم عبادت كرتے ہيں '' كا استعمال ہوسكتاہے اس بات كى طرف اشارہ ہو كہ يہ ہر توحيد پرست كى خواہش ہے_ يعنى وہ اس جملہ '' ہم عبادت كرتے ہيں '' كے ذريعے اس خواہش كا اظہار كرتا ہے كہ سب انسان ايسے ہى ہوں _

۱۳_ فقط وہ حقيقت يا ذات جس سے مدد طلب كى جاسكتى ہے وہ اللہ تعالى كى ذات اقدس ہے_و اياك نستعين

۱۴_ اللہ كى بندگى اور اس ميں خلوص كے لئے انسان امداد الہى كا محتاج ہے_اياك نعبد و اياك نستعين

'' نستعين'' كا متعلق تمام تر فرائض ہيں جو سورہ حمد سے استفادہ ہوتے ہيں ان ميں ايك يكتاپرستى يا توحيد پرستى كا واجب و ضرورى ہوناہے جو''اياك نعبد'' سے سمجھ ميں آتاہے يعنى ''نستعينك على عبادتك وخلوصہا''

۱۵_ باوجود اس كے كہ انسان اللہ كى بندگى پر اختيار ركھتا ہے اللہ كى مدد كے بغير عبادت كرنے كى توانائي نہيں ركھتا _

اياك نعبد و اياك نستعين

۱۶_ اللہ كى حمد و ثنا اسكى امداد و نصرت سے ہى امكان پذير ہے_الحمد لله اياك نستعين

جو فرائض سورہ حمد سے استفادہ ہوتے ہيں ان ميں سے ايك اللہ كى توصيف و ثنا كا واجب و ضرورى ہوناہے _بنابريں كہا جاسكتاہے كہ يہ معنى بھى نستعين سے متعلق ہے يعنى '' نستعينك على ان نحمدك''

۱۷_ تمام جہان ہستى پر اللہ كى ربوبيت كى معرفت، اس كى رحمانيت و رحيميت كا يقين اور اسكا روز جزا كے مالك ہونے كا يقين يہ سب اللہ كى امداد سے ہى ممكن ہے_الحمد لله رب العالمين اياك نستعين

اللہ كى ربوبيت كى معرفت اور ان شرعى فرائض ميں سے ہے جسے سورہ حمد سے استفادہ كيا جاسكتاہے لہذا يہ بھى نستعين سے متعلق ہيں يعنى''نستعينك على ان نعرف ربوبيتك و ...''

۱۸_ انسان اپنے تمام امور ميں اللہ كى مدد و نصرت كا محتاج ہے_اياك نستعين

بعض كى رائے يہ ہے كہ نستعين كا متعلق يا استعانت كا مورد ذكر نہيں كيا گيا تا كہ تمام تر امور مراد ہوں يعنى''نستعينك على امورنا كلها''

۱۹_اللہ تعالى بندوں كى تمام دعاؤں كو پورا كرنے كى مكمل توانائي ركھتاہے_ايا ك نستعين

۲۸

اس مطلب كا لازمہ يہ ہے كہ استعانت سے مراد تمام امور ہوں _

۲۰_ اللہ تعالى اور اسكى صفات (رب العالمين ، ...) كى معرفت انسان كو توحيد افعالى كى طرف راہنمائي كرتى ہے _

اياك نستعين

اس كى دليل يہ ہے كہ '' اياك نستعين '' اللہ تعالى كى '' رب العالمين'' كے ساتھ توصيف كے بعد آياہے_ اسكا مطلب يہ ہے كہ ان صفات كے ساتھ اللہ تعالى كى معرفت انسان كو اس مرحلے تك پہنچا ديتى ہے كہ وہ غير اللہ كو ناتواں سمجھے اور نتيجتاً توحيد افعالى تك پہنچ جائے_

۲۱_ توحيد پرستوں كى آرزو ہے كہ سب انسان توحيد افعالى كے قائل ہوجائيں _اياك نستعين

''استعين _ ميں مدد مانگتاہوں '' كى جگہ ''نستعين _ ہم مدد مانگتے ہيں '' كا استعمال مندرجہ بالا مطلب كى طرف اشارہ ہوسكتاہے_

۲۲_ امام رضاعليه‌السلام سے روايت ہے:اياك نعبد رغبة و تقرب الى الله تعالى ذكره و اخلاص له بالعمل دون غيره و '' اياك نستعين'' استزادة من توفيقه و عبادته و استدامة لما انعم الله عليه ونصره (۱) ''اياك نعبد'' يعنى بندے كا خدا كى طرف رغبت كا اظہار اور تقرب كى تلاش اسى طرح اللہ كے لئے عمل ميں خلوص جو كہ غير خدا كے لئے نہ ہو _ '' اياك نستعين '' اللہ كى بارگاہ ميں بہت زيادہ توفيق اور عبادت كى درخواست اسى طرح خدا كى نعمتوں ميں تسلسل اور اسكى مدد كى درخواست كرنا ہے_

اللہ تعالى : اللہ تعالى كى امداد كے اثرات ۱۶،۱۷; خدا شناسى كے نتائج و اثرات ۴،۱۱،۲۰; اللہ تعالى سے مختص امور ۱،۱۳; اللہ تعالى كى امداد ۱۵; اللہ كى ربوبيت ۲،۱۷; اللہ كى رحمانيت ۲،۱۷; اللہ كى رحيميت ۲،۱۷; اللہ تعالى كى قدرت ۱۹; آخرت ميں اللہ تعالى كى مالكيت ۲،۳; خدا كے حضور ۶،۷،۸،۱۱; اللہ تعالى كى مہربانى ۲

امداد طلب كرنا : اللہ تعالى سے طلب امداد ۱۳ ،۲۲

اميد: اخروى جزا كى اميد ۱۰; اللہ كى رحمت كى اميد۹

انانيت : انانيت سے اجتناب ۶

انسان : انسانى خواہشات ۱۹; انسان كا عاجز ہونا ۱۵; انسان كى ضروريات ۱۴، ۱۸; انسان كے اختيارات ۱۵

____________________

۱) من لايحضرہ الفقيہ ج/۱ ص ۲۰۴ ح۱۲، نورالثقلين ج/ ۱ ص ۱۹ ح ۸۱_

۲۹

ايمان: اللہ پر ايمان ۱۷; اللہ پر ايمان كے نتائج و اثرات۳،۷; اللہ كى ربوبيت پر ايمان ۳; اللہ كى رحمت پر ايمان ۳; اللہ كى صفات پر ايمان ۷;اللہ كى مالكيت پر ايمان ۳; توحيد پر ايمان ۲۱; ايمان سے متعلق امور ۳،۷

ترغيبات: ترغيبات كے عوامل ۳،۹،۱۰

تزكيہ : تزكيہ كے اسباب ۱۱

تفكر : تفكر كے اثرات و نتائج ۵

تقرب: تقرب كے عوامل ۲۲

توحيد : توحيد افعالى ۲۱; توحيد افعالى كى بنياد ۲۰; توحيد افعالى كى ترويج۲۱; توحيد عبادى كى بنياد ۴; توحيد كى ترويج ۱۲

توحيد پرست : توحيد پرستوں كى آرزو۱۲، ۲۱

توفيقات: توفيق كى درخواست ۲۲; خداشناسى كى توفيق ۱۷; عبادت كى توفيق ۱۴،۱۵، ۲۲

جہان بينى (نظريہ كائنات): جہان بينى اور آئيڈيالوجى ۳،۴ ، ۷، ۹ ، ۱۰ ،۱۱

حديث :۲۲

حمد: حمد خدا كى بنياد۱۶

خوف: عذاب سے خوف كے نتائج و اثرات ۱۰; اخروى عذاب سے خوف ۱۰

ضروريات: اللہ تعالى كى امداد كى ضرورت۱۴،۱۸

عالم ہستى ( كائنات): عالم ہستى كا نظم و انتظام۲، ۱۷

عبادت: اللہ كى بندگى كے دلائل ۲; بندگى كے محركات ۳خدا كى عبادت ۹،۱۰; عبادت كے آداب ۶،۸; عبادت كے اسباب ۹،۱۰; عبادت ميں اختيار ۱۵;

عبادت ميں خلوص ۱۴; عبادت ميں حضور قلب ۸;

عمل: عمل ميں خلوص ۲۲

قيامت : قيامت كا مالك ۲،۱۷

كردار: كردار و اعمال كى اساس ۵

نعمت : نعمتوں كى درخواست ۲۲

۳۰

اِهْدِنَا الصِّرَاطَ المُسْتَقِيمَ ( ۶ )

ہميں سيدھے راستہ كى ہدايت فرماتا رہ _

۱_ صراط مستقيم كى ہدايت كى درخواست ايك عارف و سالك الى اللہ انسان كى اہم ترين درخواست و دعا ہے_

الحمد لله اياك نستعين _ اهدنا الصراط المستقيم

اگر''اهدنا الصراط المستقيم '' كے''الحمدلله رب العالمين '' كے ساتھ ربط كو ملاحظہ كيا جائے تو يہ پيغام ملتاہے كہ اللہ تعالى كى معرفت كے بعد انسان كا ہدف صراط مستقيم پر گامزن رہناہے يعنى وہ راستہ جسكا منتہائے مقصود اللہ تعالى كى ذات اقدس ہے_

۲_ اللہ تعالى كى بارگاہ اقدس ميں دعا كرنے كا لازمى نتيجہ صراط مستقيم كا حصول ہے_اهدنا الصراط المستقيم

۳_اللہ تعالى كى تعريف اور اس كى بارگاہ ميں بندگى كا اظہار دعا كے آداب ميں سے ہے_

الحمدلله رب العالمين اهدناالصراط المستقيم

چونكہ خداوند قدوس كى حمد و ثنا اوراسكى عبوديت كے اظہار كے بعد اسكى بارگاہ ميں دعا اور'' اهدناالصراط المستقيم'' كى درخواست كى گئي ہے اس سے مذكورہ بالا مطلب نكلتاہے_

۴_ انسان ہميشہ كے لئے اللہ تعالى كى ہدايت و راہنمائي كا محتاج ہے _

اهدنا الصراط المستقيم

۵_ صراط مستقيم كى ہدايت كى دعاكرنا پروردگار متعال سے مدد طلب كرنے كا انتہائي شائستہ اور زيبا مورد ہے_

اياك نستعين _ اهدنا الصراط المستقيم

اگر '' اہدنا ...'' كو''اياك نستعين'' سے مربوط كركے ديكھا جائے تو اس كا مطلب يہ ہے كہ صراط مستقيم كى ہدايت وہ اعلى ترين مورد ہے جسكے حصول ميں انسان خدائے متعال كى امداد كا محتاج ہے_

۶_اللہ تعالى كى مدد و نصرت كے بغير انسان صراط مستقيم كو نہيں پاسكتا_اهدنا الصراط المستقيم

۷_ يكتاپرستى اور فقط خدا سے مدد طلب كرنا ''صراط مستقيم '' ہے_اياك نعبد و اياك نستعين _ اهدنا الصراط المستقيم

لفظ الصراط ميں الف لام عہد ذكرى ہوسكتاہے اور يہ ان حقائق كى طرف اشارہ ہے جو گذشتہ آيت ميں گذرچكے ہے اور ان ميں يكتاپرستى اور صرف خدا سے مدد طلب كرنا ہے_

۳۱

۸_ اللہ تعالى پر اور اسكى صفات پر ايمان لانا ''صراط مستقيم '' ہے_الحمدلله رب العالمين اهدنا الصراط المستقيم

''الصراط المستقيم'' كا جن حقائق كى طرف اشارہ ہے اللہ تعالى اور اسكى ربوبيت پر ايمان لانا ان ميں سے ہے_ ان كى طرف اشارہ''الحمدلله '' سے''مالك يوم الدين'' تك كيا گياہے_

۹_ ايك توحيد پرست انسان كى آرزو ہے كہ سب انسان صراط مستقيم كى ہدايت پاليں _اهدنا الصراط المستقيم

اس مطلب كى طرف راہنمائي اسطرح ہوتى ہے كہ ''اهدنا ہميں ہدايت فرما'' استعمال ہوا ہے نہ كہ ''اهدنى مجھے ہدايت فرما ''_

۱۰_ ہدايت كے بہت سارے درجات اور مراحل ہيں _اهدنا الصراط المستقيم

گذشتہ آيات كے بعد ''اہدنا'' كا استعمال اس امر كى طرف نشاندہى كررہاہے كہ يہ دعا كرنے والا انسان ہدايت يافتہ ہے_ بنابريں يہ كہنا چاہيئے كہ ہدايت كے بہت سارے مراحل ہيں اور يہ كہنا صحيح ہے : ہر وہ شخص جو ہدايت پاچكاہے اسكو بھى انتہائي سنجيدگى سے ہدايت كى دعا كرنى چاہيئے_

۱۱_ ہدايت كے حصول كے لئے بارگاہ رب العزت ميں دعا كا بہت موثر كردار ہے_اهد نا الصراط المستقيم

۱۲_ امام رضاعليه‌السلام سے روايت ہے :''اهدنا الصراط المستقيم استرشاد لدينه واعتصام بحبله و استزادة فى المعرفة لربه عزوجل ..(۱)

''اهدنا الصراط مستقيم'' اللہ كے دين كى طرف ہدايت، اسكى رسى كو مضبوطى سے تھامنے اور اللہ جل جلالہ كى معرفت ميں اضافے كى دعا ہے_

۱۳_ امام صادقعليه‌السلام سے روايت ہے كہ آپعليه‌السلام نے فرمايا:''الصراط المستقيم'' صراط الانبياء و هم الذين انعم الله عليهم (۲) ''صراط مستقيم '' سے مراد انبياءعليه‌السلام كا راستہ ہے يہى وہ ہستياں ہيں جن پر اللہ تعالى نے اپنى نعمتيں نازل فرمائيں _

۱۴_عن رسول الله (ص) انه قال ( فى قول الله عزوجل)_ اهدنا الصراط المستقيم دين الله الذى نزل به جبرئيل عليه‌السلام على محمد (ص) ... (۳)

____________________

۱) من لا يحضرہ الفقيہ ج/ ۱ ص ۲۰۴ ح ۱۲ ، نورالثقلين ج/ ۱ ص ۲۰ ح ۸۵_

۲) تفسير عياشى ج/ ۱ ص ۲۲ح۱۷ ، نورالثقلين ج/ ۱ ص ۲۰ ح ۸۶_

۳) تفسير فرات كوفى ص ۵۱،بحارالانوار ج/۳۶ ص۱۲۸ ح ۷۱_

۳۲

رسول اللہ (ص) سے روايت ہے كہ آپ (ص) نےاهدنا الصراط المستقيم كے بارے ميں فرمايا اس سے مراد اللہ كا دين ہے جو جبرائيلعليه‌السلام كے ذريعے محمد (ص) پر نازل ہوا _

۱۵_عن رسول الله(ص) وعن على عليه‌السلام فى معنى ''الصراط المستقيم '' انه كتاب الله (۱)

پيامبر اسلام (ص) اور حضرت علىعليه‌السلام سے روايت ہے كہ صراط مستقيم سے مراد اللہ كى كتاب ہے_

۱۶_ امام صادقعليه‌السلام سے روايت ہے كہ آپعليه‌السلام نے فرمايا:''الصراط المستقيم اميرالمومنين علي عليه‌السلام '' (۲)

صراط مستقيم امير المومنين على عليہ السلام ہيں _

اسلام: دين اسلام كى اہميت ۱۴

اعتصام: اللہ كى رسى كو مضبوطى سے تھامنا ۱۲

امام علىعليه‌السلام : امام علىعليه‌السلام كا راستہ ۱۶

انبياءعليه‌السلام : انبياءعليه‌السلام كا راستہ ۱۳

انسان: انسان كى امداد۶; انسان كا عاجز ہونا ۶; انسانى ضروريات ۴; انسانوں كى ہدايت ۹

ايمان: اللہ پر ايمان ۸; اللہ كى صفات پر ايمان ۸; ايمان كا متعلق ۸

توحيد : توحيد عبادى ۷

توحيد پرست : توحيد پرستوں كى آرزو ۹; توحيد پرستوں كى خواہشات ۱

توفيقات: ہدايت كى توفيق۶

حديث :۱۲،۱۳،۱۴،۱۵،۱۶

حمد: اللہ كى حمد ۳

خدا تعالى : اللہ كى امداد كے اثرات ۶; ہدايت الہى ۴

دعا: دعا كے اثرات ۱۱;دعا كے آداب ۳; دعا كى اہميت ۲،۱۱

____________________

۱) مجمع البيان ج/۱ص۱۰۴، نورالثقلين ج/ ۱ ص۲۰ ح ۸۷_

۲) معانى الاخبار ص ۳۲ ح ۲ ، نورالثقلين ج/ ۱ ص ۲۱ ح ۹۴_

۳۳

صراط مستقيم : صراط مستقيم سے كيا مراد ہے ۷،۸،۱۳،۱۴، ۱۵،۱۶

مددطلب كرنا : اللہ سے مدد طلب كرنا ۵،۷

ضروريات: ہدايت كى ضرورت ۴

عبوديت: عبوديت كا اظہار ۳

قرآن كريم: قرآن كى فضيلت ۱۵

نعمت : نعمتيں جن كے شامل حال ہيں ۱۳

ہدايت: صراط مستقيم كى ہدايت ۱،۲،۵،۶،۹; ہدايت كى اہميت ۱۲; ہدايت كى درخواست ۱،۵،۱۲; ہدايت كے اسباب ۶،۱۱; ہدايت كے درجات ۱۰;

صِرَاطَ الَّذِينَ أَنعَمْتَ عَلَيهِمْ غَيرِ المَغضُوبِ عَلَيهِمْ وَلاَ الضَّالِّينَ ( ۷ )

جو ان لوگوں كا راستہ ہے جن پر تو نے نعمتيں نازل كى ہيں ان كا راستہ نہيں جن پر غضب نازل ہوا ہے يا جو بہكے ہوئے ہيں _

۱_ قرآن كريم ميں انسانوں كو مختلف طبقات ميں تقسيم كيا گيا ہے ايك وہ ہيں جو ہدايت پر ثابت قدم ہيں اور دوسرے وہ جو گمراہ اور بارگاہ ايزدى ميں غضب كا شكار ہيں _

صراط الذين انعمت عليهم غير المغضوب عليهم و لا الضالين

''انعمت عليہم'' سے پہلے اور بعد والى آيات كے قرينے كى بناپر انعمت سے مراد ہدايت كى نعمت ہے نہ كہ مادى نعمتيں _ ان نعمات سے تمام مخلوقات حتى كافر بھى بہرہ مند ہيں _

۲_ بعض انسان اللہ تعالى كى خصوصى ہدايت سے بہرہ

۳۴

مند ہيں اور ہدايت كے اعلى مراتب و مراحل كے حامل ہيں _صراط الذين انعمت عليهم

جيسا كہ بيان ہوا ہے ''نعمت'' سے مراد ہدايت كى نعمت ہے جبكہ ہدايت كى دعا مانگنے والے خود ہدايت يافتہ ہيں لہذا يہاں مراد خاص ہدايت ہے_

۳_ صراط مستقيم كى ہدايت اللہ تعالى كى عظيم نعمتوں ميں سے ايك ہے_صراط الذين انعمت عليهم

يہاں نعمت مطلق بيان ہوئي ہے پس اس سے ہدايت كى نعمت كا ارادہ كرنا اس بات كى دليل ہے كہ متكلم ہدايت كى نعمت كے مقابل ديگر نعمتوں كو نعمت تصور نہيں كرتا اور يہ چيز حكايت كرتى ہے كہ ہدايت كى نعمت بہت ہى عظيم ہے_

۴_ بعض ہدايت يافتہ لوگ ہدايت پر ثابت قدم نہ رہے اور غضب شدہ اورگمراہ افراد ميں سے قرار پائے_

صراط الذين انعمت عليهم غير المغضوب عليهم و لا الضالين

مذكورہ مطلب اس بناپرہے كہ''غير المغضوب'' ،''الذين انعمت'' كے لئے ايك احترازى صفت ہے_ بنابريں جن كو نعمت دى گئي يعنى ہدايت يافتہ افراد كے تين گروہ ہيں ۱ _ وہ ہدايت يافتہ افراد جو ہدايت سے ہاتھ دھوبيٹھے اور ''مغضوبين'' ميں سے قرار پائے ۲_ وہ افراد جو وسط راہ سے گم ہوگئے اور '' ضالين'' ميں سے قرار پائے ۳_ وہ ہدايت يافتہ انسان جو صراط مستقيم پر آخر تك ثابت قدم رہے_

۵_ ہدايت يافتہ افراد كے لئے يہ خطرہ موجود ہے كہ وہ بھى غضب شدہ اورگمراہ افراد كے زمرے ميں آجائيں _

صراط الذين انعت عليهم غير المغضوب عليهم و لا الضالين

۶_ اللہ تعالى كى يكتائي كے قائل خداپرست انسان چاہتے ہيں كہ وہ ہدايت پر ثابت قدم انسانوں ميں سے ہوں _

الحمدلله اهدنا الصراط المستقيم _ صراط الذين انعمت عليهم

۷_ '' صراط مستقيم'' خدا كى طرف جانے والا راستہ ہے جس ميں كجى اور انحراف ہرگز نہيں پايا جاتا_

اهدنا الصراط المستقيم _ صراط الذين انعمت عليهم

'' غير المغضوب ...'' سے'' الذين ...'' كى صفت بيان كرنا اس بات كى طرف اشارہ ہے كہ ''صراط الذين ...'' ايسا راستہ ہے جس ميں انحراف اور كجى ہرگز نہيں ہوسكتى اور اسى راستے كو صراط مستقيم كہتے ہيں كيونكہ''صراط الذين'' ،''الصراط المستقيم '' كے لئے عطف بيان ہے_

۸_ ہدايت يافتہ انسانوں كے عملى نمونے صراط مستقيم كے حصول اور اس پر گامزن رہنے ميں انتہائي اہم كردار كے حامل ہيں _اهدنا الصراط المستقيم _ صراط الذين انعمت عليهم

۳۵

صراط مستقيم كو چونكہ ہدايت يافتہ انسانوں كى راہ سے تفسير و تعبير كيا گيا ہے اس لئے كہاجاسكتاہے كہ صراط مستقيم كے حصول كے لئے انسان عملى نمونوں كا محتاج ہے_ پس ضرورت ہے كہ ان سالكان راہ كى تلاش كرے اور ان كى پيروى كرے_

۹_جن كو نعمات سے نوازا گيا ہے( ہدايت يافتہ انسان) وہ ايسے لوگ ہيں جن پر اللہ كا غضب نہيں ہوا اور نہ ہى وہ گمراہ ہوئے_صراط الذين انعمت عليهم غير المغضوب عليهم و لا الضالين يہ مطلب اس طرح حاصل ہوتاہے كہ اگر '' غير المغضوب'' ، ''الذين'' كے لئے توضيحى صفت ہو يا بدل اور يا عطف بيان ہو_

۱۰_عن جعفر بن محمد عليه‌السلام قال: قول الله عزوجل فى الحمد''صراط الذين انعمت عليهم'' يعنى محمداً وذريته صلوات الله عليهم (۱) امام صادقعليه‌السلام سے روايت ہے كہ آپعليه‌السلام نے فرمايا: ''صراط الذين انعمت عليہم'' سے سورہ حمد ميں مراد حضرت محمد (ص) اور آپ (ص) كى ذريتعليه‌السلام ہيں _

۱۱_ امام رضاعليه‌السلام سے روايت ہے كہ آپعليه‌السلام نے فرمايا:غير المغضوب عليهم

استعاذة من ان يكون من المعاندين الكافرين المستخفين به و بامره و نهيه .(۲) غير المغضوب عليہم سے مراد اللہ كى پناہ طلب كرنا اس سے كہ انسان دشمنوں اور كافروں ميں سے ہو جو اللہ كو اہميت نہيں ديتے اور اللہ كے امر و نہى كو ہلكا سمجھتے ہيں _

استعاذہ: اللہ تعالى كى پناہ مانگنا ۱۱; پناہ طلب كرنے كے موارد ۱۱

اللہ تعالى : اللہ كى نعمتيں ۳; اللہ كے اوامر كو ہلكا سمجھنا ۱۱; اللہ تعالى كى خاص ہدايت۲;اللہ تعالى كى ذات اقدس كو سبك تصور كرنا ۱۱; اللہ تعالى كے نواہى كو ہلكا سمجھنا ۱۱

انحراف : انحراف كى ركاوٹيں ۷

انسان : انسانوں كى قسميں ۱

اہل بيتعليه‌السلام : اہل بيتعليه‌السلام كے فضائل ۱۰

پيامبر اسلام (ص) : آپ (ص) كے فضائل۱۰;جن پر خدا كا غضب نازل ہوا ۱،۴،۵

____________________

۱) معانى الاخبار ص ۳۶ ح ۷ ، نورالثقلين ج/۱ ص ۲۳ ح ۱۰۱_

۲) من لا يحضرہ الفقيہ ج/۱ ص۲۰۴ ح ۱۲ ، نورالثقلين ج/ ۱ ص ۲۴ ح ۱۰۸_

۳۶

توحيد پرست: توحيد پرستوں كى خواہشات ۶

حديث :۱۰،۱۱

صراط مستقيم: صراط مستقيم سے كيا مراد ہے ۱۰; صراط مستقيم كى خصوصيات ۷

گمراہ افراد :۱

معاشرتى طبقات :۱،۲

مغضوبان خدا : ۱ ، ۴، ۵

نعمت : ۹ ،۱۰

ہدايت: صراط مستقيم كى ہدايت ۳،۸;ہدايت ميں ثابت قدم انسان۱; ہدايت ميں ثابت قدمي۶ ; ہدايت ميں نمونے كى پيروى كرنا ۸; ہدايت كى درخواست ۶; ہدايت كى نعمت ۳; ہدايت كے درجات ۲;

ہدايت يافتہ انسان: ۲ ہدايت يافتہ انسانوں كى خصوصيات۹; ہدايت يافتہ انسانوں كى گمراہى كا خطرہ ۴،۵;

۳۷

سوره بقره

بِسْمِ اللّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ

الم ( ۱ )

عظيم اور دائمى رحمتوں والے خدا كے نام سے _

۱_عن على بن الحسين عليه‌السلام فى دعاء له : الهى و سيدى قلت: '' الم ذلك الكتاب لا ريب فيه ...'' ثنيت بالكتاب مع القسم الذى هو اسم من اختصصته لوحيك و استودعته سرّ غيبك (۱)

امام سجادعليه‌السلام سے روايت ہے كہ آپعليه‌السلام نے ايك دعا كے ضمن ميں بارگاہ رب الارباب ميں عرض كيا: اے ميرے معبود ، اے ميرے آقا تو نے فرماياہے الم ذلك الكتاب تو نے اپنى كتاب كى تعريف اس قسم كے ساتھ كى ہے جو نام ہے اسكا جسكو تو نے اپنى وحى كےساتھ مخصوص كيا اور اسكو تو نے اپنے غيب كا راز وديعت فرمايا

____________________

۱) بحار الانوار ج/۸۸ ص۷،۸ ح۳،نورالثقلين ج/۲ ص۰۲۹۱

۳۸

۲_ امام صادقعليه‌السلام سے روايت ہے آپعليه‌السلام نے فرمايا:''الم'' رمز و اشارة بينه و بين حبيبه محمد (ص) ا راد ان لا يطلع عليه سواهما ..(۱) '' الم'' اللہ اور اسكے حبيب محمد (ص) كے درميان رمز اور اشارہ ہے_ اللہ نے چاہا كہ اس راز سے فقط وہ اور اسكا حبيب ہى آگاہ رہيں _

۳_ سفيان ثورى كہتے ہيں : ''قلت لجعفر بن محمد عليه‌السلام يابن رسول الله ما معنى قول الله عزوجل الم قال عليه‌السلام اما '' الم'' فى اول البقرة فمعناه انا الله الملك (۲)

ميں نے امام صادقعليه‌السلام سے سوال كيا اے فرزند رسول (ص) يہ فرمائيں كہ اللہ كے اس قول '' الم '' كا كيا معنى ہے؟ آپعليه‌السلام نے فرمايا سورة بقرہ كے شروع ميں ''الم'' كامعنى يہ ہے ميں اللہہى بادشاہ_

۴_امام صادقعليه‌السلام سے روايت ہے آپعليه‌السلام نے فرمايا:

''الم'' هو حرف من حروف اسم الله الاعظم المقطع فى القرآن الذى يؤلفه النبى و الامام فاذا دعا به اجيب (۳) ''الم'' اللہ تعالى كے اسم اعظم كے حروف ميں سے ايك ہے جو مقطع صورت ميں قرآن ميں آياہے_ اس كو نبى (ص) اور امامعليه‌السلام تاليف كرتے ہيں اور جب اسكے ذريعے دعا كرتے ہيں تو مستجاب ہوتى ہے_

۵_ آئمہ ہدى (عليہم السلام) سے روايت ہے_'' ان الحروف المفتحة بها السور من المتشابهات التى استاثر الله تعالى بعلمها و لا يعلم تاويلها الا هو (۴) حروف ( مقطعہ) جن سے سورتوں كا آغاز ہوتاہے متشابہات ميں سے ہيں جن كا علم اللہ تعالى نے اپنے ساتھ مختص فرماياہے ان كى تاويل اسكے علاوہ كوئي اور نہيں جانتا_

اللہ تعالى : اللہ تعالى كا اسم اعظم ۴; اللہ تعالى كى سلطنت ۳

پيامبر اسلام(ص) : اللہ اور پيامبر خدا (ص) كے درميان رموز ۱،۲

حديث: ۱،۲،۳،۴،۵

حروف مقطعہ ۱: حروف مقطعہ كا علم ۵; حروف مقطعہ كا فلسفہ ۱،۲،۴

قرآن كريم: قرآن كے متشابہات۵

____________________

۱) بحار الانوار ج/ ۸۹ ص ۳۸۴_ ۲) معانى الاخبار ص۲۲ ح۱، نورالثقلين ج /۱ص ۲۶ ح ۴_ ۳) معانى الاخبار ص۲۳ ح۲ ، نورالثقلين ج/۱ص۲۶ ح۵_

۴) مجمع البيان ج/۱ ص۱۱۲ ، نور الثقلين ج / ۱ ص۳۰ح۸_

۳۹

ذَلِكَ الْكِتَابُ لاَ رَيْبَ فِيهِ هُدًى لِّلْمُتَّقِينَ ( ۲ )

يہ وہ كتاب ہے جس ميں كسى طرح كے شك و شبہہ كى گنجائش نہيں ہے_ يہ صاحبان تقوى اور پرہيزگار لوگوں كے لئے مجسم ہدايت ہے _

۱_ قرآن كريم كامل ترين اور باعظمت كتاب ہے_ذلك الكتاب

''ذلك'' مبتداء اور '' الكتاب'' خبر ہے_ اس اعتبار سے '' ال'' صفات كے استغراق كے لئے آياہے اور كمال پر دلالت كرتاہے_

۲_ آيات قرآن كى كتابت اور تدوين آنحضرت (ص) پر نزول كے بعد ہوئي _ذلك الكتاب

كتاب ( لكھا ہوا يا تحرير شدہ) كا قرآن حكيم پر اطلاق ،اسكى جہات مختلف ہوسكتى ہيں ۱_ آيات نازل ہونے كے بعد لكھى جاتى تھيں ۲_ پروردگار كى طرف سے تاكيد ہو كہ انہيں تحرير كيا جائے۳_ تحرير شدہ صورت ميں آنحضرت (ص) پر نازل ہوئيں _ مذكورہ بالا مطلب پہلے اور دوسرے احتمال كى بناپر ہے_

۳_ قرآن حكيم ايك انتہائي مستحكم كتاب ہے اور ہر اس چيز سے پاك و منزہ ہے جو اس كى حقانيت ميں ترديد اور شبہہ پيدا كرے_لا ريب فيه ريب كا معنى شك اور وہ چيز ہے جو شك كا باعث بنے _ مذكورہ بالا مطلب اسكے دوسرے معنى سے ماخوذ ہے_ پس '' لاريب فيہ'' كا مطلب يہ ہے كہ قرآن كريم ميں كوئي ايك مسئلہ بھى ايسا نہيں كہ جو اس كى حقانيت ميں شك و ترديد كا سبب بنے_

۴_ قرآن حكيم متقى اور پرہيزگار انسانوں كى ہدايت و تربيت كى پورى صلاحيت ركھتاہے يہى چيز قرآن كريم كے استحكام اور حقانيت كى دليل ہے_لا ريب فيه هدى للمتقين

''هدى للمتقين'' ،''لا ريب فيه'' كے لئے دليل كى حيثيت ركھتاہے_

۵_ قرآن حكيم اہل تقوى كو اعلى ترين مدارج كى طرف ہدايت اور راہنمائي كرنے والى كتاب ہے_

هدى للمتقين

۶_ ہدايت كے مختلف درجات اور مراحل ہيں _هدى للمتقين

بعد والى آيات ميں جو صفات بيان ہوئي ہيں خصوصاً آية مباركہ ۵ (اولئك على هديً )

۴۰

41

42

43

44

45

46

47

48

49

50

51

52

53

54

55

56

57

58

59

60

61

62

63

64

65

66

67

68

69

70

71

72

73

74

75

76

77

78

79

80

81

82

83

84

85

86

87

88

89

90

91

92

93

94

95

96

97

98

99

100

101

102

103

104

105

106

107

108

109

110

111

112

113

114

115

116

117

118

119

120

121

122

123

124

125

126

127

128

129

130

131

132

133

134

135

136

137

138

139

140

141

142

143

144

145

146

147

148

149

150

151

152

153

154

155

156

157

158

159

160

161

162

163

164

165

166

167

168

169

170

171

172

173

174

175

176

177

178

179

180

181

182

183

184

185

186

187

188

189

190

191

192

193

194

195

196

197

198

199

200

201

202

203

204

205

206

207

208

209

210

211

212

213

214

215

216

217

218

219

220

کیا قرآن سات حروف پر نازل ہوا؟

٭ روایات کے کمزور پہلو

٭ روایات میں تضاد

٭ سات حروف کی تاویل و توجیہ

٭ قریب المعنی الفاظ

٭ سات ابواب

٭ سات ابواب کا ایک اور معنی

٭ فصیح لغات

٭ قبیلہ ئ مضر کی لغت

٭ قراءتوں میں اختلاف

٭ اختلاف قراءت کا ایک اور معنی

٭ اکائیوں کی کثرت

٭ سات قراءتیں

٭ مختلف لہجے

۲۲۱

اہل سنت کی روایات بتاتی ہیں کہ قرآن سات حروف میں نازل کیا گیا ہے۔ بہتر ہے کہ پہلے ان روایات کو بیان کیا جائے اور پھر ان کے بارے میں اپنی تحقیق پیش کی جائے۔

۱۔ طبری نے یونس اور ابی کریب سے انہوں نے ابی شہاب سے اور اس نے ابن عباس سے روایت کی ہے کہ رسول خدا(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) نے فرمایا:

قال:''أقرأنی جبرئیل علی حرف فراجعته، فلم أزل أستزیده فیزیدنی حتی انتهی الی سبعة أحرف،،

''مجھے جبرئیل نے ایک حرف میں پڑھایا۔ میں نے دوبارہ جبرئیل کی طرف رجوع کیا اور یہ سلسلہ سات حروف تک منتہی ہوا۔،،

اس روایت کومسلم نے حرملہ سے، حرملہ نے ابن وھب سے اور اس نے یونس سے نقل کیا ہے۔(۱) بخاری نے دوسری سند سے یہ روایت بیان کی ہے اور اس کا مضمون ابن برقی اور ابن عباس کے ذریعے نقل کیا ہے۔(۲)

۲۔ ابی کریب نے عبد الرحمن بن ابی لیلیٰ کی سند سے اس نے اپنے جد کی سند سے اور اس نے ابی ابن کعب کی سند سے روایت کی ہے۔ ابیّ کہتا ہے:

''کنت فی المسجد فدخل رجل یصلی فقرأ قراءة أنکرتها علیه، ثم دخل رجل آخر فقرأ قراء ة غیر قراء ة صاحبه، فدخلنا جمیعاً علی رسول الله قال: فقلت یا رسول الله ان هذا قرأ قراء ة أنکرتها علیه، ثم دخل هذا فقرأ قراءة غیر قراءة صاحبه، فامرهما رسول الله(صلّی اللّه علیه وآله وسلّم) فقرأا ، فحسن رسول الله(صلّی اللّه علیه وآله وسلّم) شأهما، فوقع فی نفسی من التکذیب، ولا اذ کنت فی الجاهلیة فلما رأی رسول الله(صلّی اللّه علیه وآله وسلّم) ما غشینی ضرب صدری، ففضت عرقا کأنما أنظر الی الله فرقا فقال لی: یاأبی أرسل الی ان اقرأ القرآن علی حرف، فرددت علیه أن هون علی أمتی، فرد علی فی الثانیة أن اقرأ القرآن علی حرف فرددت علیه أن هون علی أمتی، فرد علی فی الثالثة أن اقرأه علی سبعة أحرف، و لک بکل ردة رددتها مسألة تسألنبها، فقلت: اللهم اغفر لأمتی اللهم اغفر لأمتی، و اخرت الثالثه لیوم یرغب فیه الی الخلق کلهم حتی ابراهیم علیه السلام،،

____________________

(۱)صحیح مسلم باب ان القرآن انزل علی سبعة أحرف ، ج ۲، ص ۲۰۲، طبع محمد علی صبیح، مصر۔

(۲)صحیح البخاری باب انزل القرآن علی سبعة أحرف ،ج ۲، ص ۱۰۰، مطبع عامرہ۔

۲۲۲

''میں مسجد رسول میں بیٹھا ہوا تھا، اتنے میں ایک آدمی مسجد میں داخل ہوا اور اس نے نماز پڑھنی شروع کی۔ اس نے ایک ایسی قراءت پڑھی جسے میں نہ جانتا تھا۔ اس اثنا میں دوسرا آدمی مسجد میں داخل ہوا اور اس نے ایک اور قراءت سے نماز شروع کی۔ پھر جب ہم سب نماز پڑھ چکے تو رسول اللہ(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ میں نے آپ کی خدمت میں عرض کی کہ اس شخص نے ایسی قراءت سے نمام پڑھی کہ مجھے تعجب ہوا اور دوسرا آیا تو اس نے اس کے علاوہ ایک اور قراءت پڑھی۔ آپ نے ان دونوں کو دوبارہ نماز پڑھنے کا حکم دیا۔ ان دونوں نے اسی طرح نماز پڑھی جس طرح پہلے پڑھی تھی، آپ نے دونوں کی نماز کو سراہا، اس سے میرے دل میں تکذیب آئی لیکن ایسی تکذیب نہیں جیسی زمانہ جاہلیت میں تھی۔ جب رسول اللہ(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) نے میری یہ کیفیت دیکھی تو میرے سینے پر ہاتھ مارا جس سے میں شرم کے مارے پسینہ سے شرابور ہوگیا اور یوں لگا جیسے میں اللہ کو دیکھ رہا ہوں۔ اس کے بعد پیغمبر اکرم(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) نے فرمایا: اے اُبیّ! مجھے یہ حکم دیا گیا کہ قرآن کو ایک حرف میں پڑھوں۔ میں نے خالق کے دربار میں درخواست کی کہ میری امت پر اس فریضہ کو آسان فرما مجھے دوبارہ یہی حکم ملا کہ قرآن کو ایک حرف میں پڑھوں۔ میں نے پھر وہی درخواست دہرائی۔ اس دفعہ مجھے حکم دیا گیا کہ میری ہر دعا، جو قبول نہیں ہوئی، کے عوض ایک دعا قبول کی جائے گی۔ اس پر میں نے یہ دعا مانگی: پالنے والے! میری امت کو بخش دے۔ پالنے والے! میری اُمّت کو بخش دے اور تیسری دعا کو اس دن کے لیے محفوظ رکھا ہے جس دن حضرت ابراہیم (علیہ السلام) تک میری دعا کے محتاج ہوں گے۔،،

اس روایت کو مُسلم نے بھی معمولی اختلاف کے ساتھ بیان کیا ہے۔(۱) طبری نے بھی ایک اور سند سے معمولی اختلاف کے ساتھ اس کو نقل کیا ہے اور تقریباً اسی مضمون کی یونس بن عبد الاعلیٰ اور محمد بن عبد الاعلیٰ اور محمد بن عبد الاعلیٰ صنعانی کے ذریعے اُبیّ بن کعب سے روایت کی گئی ہے۔

____________________

(۱) صحیح مسلم، ج ۲، ص ۲۰۳۔

۲۲۳

۳۔ ابی کریب نے سلیمان بن صرد کی سند سے اُبیّ بن کعب سے روایت کی ہے۔ اُبیّ بن کعب کہتا ہے:

قال: ''رحت الی المسجد فسمعت رجلاً یقرأ فقلت: من أقرأک؟ فقال: رسول الله(صلّی اللّه علیه وآله وسلّم) فانطلقت به الی رسول الله(صلّی اللّه علیه وآله وسلّم) فقلت: استقریئ هذاں، فقرأ فقال: أحسنت قال: فقلت انک أقرأتنی کذا و کذا فقال: وأنت قد أحسنت قال: فقلت قد أحسنت قد أحسنت قال: فضرب بیده علی صدری، ثم قال: اللهم أذهب عن أبیّ الشک قال: ففضت عرقاً و امتلأ جو فی فرقاً ثم قال: ان اللکین أتیانی فقال أحدهما: اقرأ القرآن علی حرف، و قال الآخر: زده قال: فقلت زدنی قال: اقرأه علی حرفین حتی بلغ سبعة أحرف فقال: اقرأ علی سبعة أحرف،،

''میں مسجد میں داخل ہوا تو ایک آدمی کی قراءت سُنی، میں نے اس سے دریافت کیا تمہیں یہ قراءت کس نے پڑھائی ہے، اس نے جواب دیا رسول اللہ(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) نے پڑھائی ہے چنانچہ میں اسے لے کر رسول اللہ(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا: یا رسول اللہ(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) اس کی قراءت سنیئے۔ اس شخص نے قراءت پڑھی اور سول اللہؐ نے سننے کے بعد فرمایا: عمدہ ہے۔ میں نے کہا: آپ نے تو مجھے اس طرح اور اس طرح قراءت پڑھائی تھی۔ آپ نے فرمایا: یقیناً تمہاری قراءت بہت اچھی ہے میں نے آپ کی نقل اتارتے ہوئے کہا: تمہاری قراءت بھی بہت اچھی ہے۔ آپ نے اپنا ہاتھ میرے سینے پر مارا اور فرمایا: پالنے والے! اُبیّ کے دل شک دور فرما۔ میں (اُبیّ) خجالت کے مارے پسینے سے شرابور ہو گیا اور میری پورا وجود خوف سے لرزنے لگا۔ پھر آپ نے فرمایا: میرے پاس دو فرشتے نازل ہوئے ان میں سے ایک نے کہا: قرآن کو ایک حرف میں پڑھیئے۔ دوسرے فرشتے نے پہلے سے کہا: اس ایک حرف میں اضافہ کریں۔ میںؐ نے بھی فرشتے سے یہی کہا۔ فرشتے نے کہا: قرآن کو دو حرفوں میں پڑھیئے۔ فرشتہ حروف کی تعداد بڑھاتا گیا یہاں تک کہ فرشتے نے کہا قرآن کو سات حروف میں پڑھیئے۔،،

۲۲۴

۴۔ ابو کریب نے عبد الرحمن بن ابی بکرہ کی سند سے اور اس نے اپنے باپ کی سند سے روایت کی ہے۔ ابو کریب کہتا ہے:

قال: ''قال رسول الله(صلّی اللّه علیه وآله وسلّم): قال جبرئیل: اقرأ القرآن علی حرف فقال میکائیل استزده فقال: علی حرفین، حتی بلغ ستة أو سبعة أحرف و الشک من أبی کریب فقال: کهها شاف کاف ما لم تختم آیة عذاب برحمة، أو آیة رحمة بعذاب کقولک: هلم و تعال،،

''پیغمبر اکرم(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) فرماتے ہیں: جبرئیل نے کہا قرآن کو ایک حرف میں پڑھیئے۔ میکائیل نے کہا کہ جبرئیل سے درخواست کریں کہ اسے بڑھا دے، میریؐ درخواست پر جبرئیل نے کہا دو حروف میں پڑھیئے۔ اس طرح حروف کو بڑھاتے گئے یہاں تک کہ چھ یا ست تک پہنچ گئے (چھ اور سات میں تردد ابی کریب کی طرف سے ہے) پھر آپ نے فرمایا: ان میں سے جس حرف میں بھی پڑھیں کافی ہے اور سب کا مطلب ایک ہے، جس طرح ''ھلم،، اور ''تعال،، دونوں کا معنی ہے ''آجاؤ،، بشرطیکہ رحمت کی آیہ عذاب میں اور عذاب کی آیہ رحمت میں تبدیل نہ ہو۔،،

۵۔ طبری نے احمد بن منصور کی سند سے اس نے عبد اللہ بن ابی طلحہ سے اس نے اپنے باپ سے اور اس نے اپنے باپ سے روایت بیان کی ہے:

قال: ''قرأ رجل عند عمر بن الخطاب فغیر علیه فقال: لقد قرأت علی رسول الله(صلّی اللّه علیه وآله وسلّم) فلم یغیر علی قال: فاختصما عند النبی فقال: یا رسول الله ألم تقرئنی آیة کذا و کذا؟ قال: بلی، فوقع فی صدر عمر شیئ فعرف النبی ذلک فی وجهه قال: فضرب صدره وقال: أبعد شیطاناً، قالها ثلاثاً ثم قال: یا عمر ان القرآن کله سوائ، ما لم تجعل رحمةً عذاباً و عذاباً رحمة،،

''ایک شخص نے حضرت عمر بن خطاب کے سامنے قرآن پڑھا حضرت عمر بن خطاب نے اس پر اعتراض کیا اور اس کی اصلاح کی کوشش کی۔ اس شحص نے کہا: میں نے پیغمبر اکرم(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) کے سامنے بھی اسی طرح قراءت پڑھی تھی۔ لیکن آپ نے اعتراض نہیں کیا تھا۔ چنانچہ یہ دونوں فیصلے کے لیے رسول اللہ(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) کی خدمت میں حاضر ہوئے۔

۲۲۵

اس شخص نے کہا: یا رسول اللہ(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم)! کیا آپ نے مجھے اس آیہ کی قراءت اس طرح نہیں پڑھائی تھی؟ آپ نے فرمایا: ہاں اسی طرح پڑھائی تھی؟ آپ نے فرمایا: ہاں اسی طرح پڑھائی تھی۔ حضرت عمر کے دل میں شکوک و شبہات پیدا ہوئے جنہیں رسول اللہ(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) نے حضرت عمر کے چہرے پر نمایاں محسوس فرمایا۔ راوی کہتا ہے: رسول اللہ(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) نے حضرت عمر کے سینے پر ہاتھ مارا اور تین مرتبہ فرمایا: شیطان کو اپنے آپ سے دور رکھو۔ اس کے بعد فرمایا: یہ سب قرآن ایک جیسے ہیں جب تک کسی رحمت کو عذاب میں اور عذاب کو رحمت میں تبدیل نہ کرو۔،،

طبری نے یونس بن عبد الاعلیٰ سے حضرت عمر اور ہشام بن حکیم کا اسی قسم کا ایک واقعہ نقل کیا ہے جس کی سند خود حضرت عمر تک پہنچتی ہے۔

بخاری، مسلم اور ترمذی نے بھی حضرت عمر کا ہشام کے ساتھ ایک واقعہ بیان کیا ہے جس کی سند اور حدیث کے الفاظ کچھ مختلف ہیں۔(۱)

۶۔ طبری نے محمد بن مثنی سے اس نے ابن ابی لیلیٰ سے اور اس نے اُبیّ بن کعب سے روایت کی ہے:

قال: ''فأتاه جبرئیل فقال: ان الله یأمرک أن تقریئ أمّتک القرآن علی حرف فقال: أسأل الله معافاته و مغفرته، و ان أمتی لا تطبق ذلک قال: ثم أتاه الثانیة فقال: ان الله یأمرک أن تقریئ أمتک القرآن علی حرفین فقال: أسأل الله معافاته و مغفرته، و ان أمتی لا تطبق ذلک، ثم جاء الثالثة فقال: ان الله یأمرک أن تقری، امّتک القرآن علی ثلاثة أحرف فقال: أسأل الله معافاته و مغفرته، و ان أمتی لاتطبق ذلک، ثم جاء الرابعة فقال: ان الله یأمرک أن قری، أمّتک القرآن علی سبعة أحرف، فأنما حرف قرأوا علیه فقد أصابوا،،

''رسول اللہ(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) قبیلہ بنی غفار کے ہاں تھے، اس وقت جبرئیل نازل ہوئے اور فرمایا: اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اپنی اُمّت کو ایک حرف میں قرآن پڑھایئے۔ آپ نے فرمایا: اللہ سے مغفرت اور عفو کی درخواست ہے کیونکہ میری امّت اس کی قدرت نہیں رکھتی

____________________

(۱) صحیح مسلم، ج ۲، ص ۲۰۲۔ صحیح بخاری، ج ۳، ص ۹۰ اور ج ۶، ص ۱۰۰،۱۱۱، ج ۸، ص ۵۳۔۲۱۵۔صحیح ترمذی، بشرح ابن العربی باب ما جاء انزل القرآن علی سبعة احرف ، ج ۱۱، ص ۶۰۔

۲۲۶

اُبیّ کہتا ہے: جبرئیل دوسری مرتبہ نازل ہوئے اور فرمایا: اپنی اُمّت کو دو حروف میں قرآن پڑھایئے۔ آپ نے فرمایا: اللہ سے مغفرت اور عفو کی درخوات ہے کیونکہ میری امت اس کی قدرت نہیں رکھتی۔ تیسری مرتبہ جبرئیل نازل ہوئے اور فرمایا: اپنی امت کو تین حروف میں قرآن پڑھایئے۔ آپ نے فرمایا: اللہ سے مغفرت اور عفو کی درخواست ہے کیونکہ میری امت اس کی قدرت نہیں رکھتی۔ جبرئیل پھر چوتھی مرتبہ نازل ہوئے اور فرمایا: اپنی امت کو سات حروف میں قرآن پڑھایئے، ان میں سے جس حرف پر بھی وہ قرآن پڑھے صحیح ہے۔،، اس روایت کو مسلم نے اپنی صحیح(۱) میں بیان کیا ہے۔ نیز طبری نے اس روایت کے کچھ حصے احمد بن محمد طوقی سے، اس نے ابن ابی لیلیٰ سے اور اس نے اُبیّ بن کعب سے معمولی اختلاف سے بیان کئے ہیں۔ اس کے علاوہ طبری نے محمد بن مثنیٰ سے اور اس نے ابیّ بن ابی کعب سے روایت کی ہے۔

۷۔ طبری نے ابی کریب سے اس نے زر سے اور اس نے اُبیّ سے نقل کیا ہے:

قال: ''لقی رسول الله صلی الله علیه وآله جبرئیل عند أحجار المرائ ۔فقال: انی بعثت الی أمّة أمیین منهم الغلام و الخادم، و فیهم الشیخ الفانی و العجوز فقال جبرئیل: فلیقرأوا القرآن علی سبعة أحرف،، (۲)

''مقام''مراء احجار،، پر رسول اللہ(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) نے جبرئیل کو دیکھا آپ نے فرمایا میں ایسی ان پڑھ قوم کی طرف بھیجا گیاہوں جس میں غلام، بوڑھے اور عورتیں شامل ہیں۔ جبرئیل نے فرمایا: آپ کی امّت سات حروف میں قرآن پڑھے۔،،

۸۔ طبری نے عمرو بن عثمان عثمانی سے، اس نے مقبری سے اور اس نے ابوہریرہ سے نقل کیا ہے کہ رسول اللہ(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) نے فرمایا:

''قال رسول الله(صلّی اللّه علیه وآله وسلّم): ان هذا القران انزل علی سبعة أحرف، فاقرأوا و لاحرج، و لکن لا تختموا طذکر رحمة بعذاب، ولا ذکر عذاب برحمة،،

''قرآن سات حروف میں نازل کیا گیا ہے۔ جس حرف میں چاہو اسے پڑھو، کوئی حرف نہیں۔ لیکن یہ خیال رکھو کہ رحمت کی آیہ کو عذاب کی آیہ میں اور عذاب کی آیہ کو رحمت کی آیہ میں بدل نہ دینا۔،،

___________________

(۱) صحیح مسلم ، ج ۲، ص ۲۰۳۔

(۲) اس روایت کو ترمذی نے بھی معمولی اختلاف کے ساتھ بیان کیا ہے۔ ج ۱۱، ص ۶۲۔

۲۲۷

۹۔ طبری نے عبید بن اسباط سے، اس نے ابی سلمہ سے اور اس نے ابوہریرہ سے نقل کیا ہے کہ رسول اللہ(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) نے فرمایا:

''قرآن چار حرفوں میں نازل کیا گیا ہے علیم، حکیم، غفور اور رحیم،،۔

اسی قسم کی روایت طبری نے ابی کریب سے اس نے ابی سلمہ سے اور اس نے ابوہریرہ سے نقل کی ہے۔

۱۰۔ طبری سعید بن یحییٰ سے، اس نے عاصم کی سند سے، اس نے زر سے اور اس نے عبداللہ بن مسعود سے روایت کی ہے، عبد اللہ ابن مسعود کہتا ہے:

قال: ''تمارینا فی سورة من القرآن، فقلنا: خمس و ثلاثون، أوست و ثلاثون آیة، قال: فانطلقنا الی رسول الله(صلّی اللّه علیه وآله وسلّم) فوجدنا علیاً یناجیه قال: فقلنا انما اختلفنا فی القراء ة قال: فاحمر وجه رسول الله(صلّی اللّه علیه وآله وسلّم) و قال: انما هلک من کان قبلکم باختلافهم بینهم قال: ثم أسرَّ الی علی شیأا فقال لنا علی: ان رسول الله یأمرکم ان تقرأوا کما علّمتم،،

''قرآن کے کسی سورۃ کے بارے میں ہمارا اختلاف ہوا۔ بعض نے کہا اس کی آیئتیں پینتیس ہیں اور بعض نے کہا چھتیس ہیں۔ چنانچہ ہم رسول اللہ(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) کی خدمت میں حاضر ہوئے دیکھا کہ آپ حضرت علی(علیہ السلام) سے راز و نیاز میں مشغول ہیں۔ ابن مسعود کہتا ہے کہ ہم نے رسول اللہ(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) سے عرض کیا: یا رسول اللہ(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم)! قراءت کے بارے میں ہمارا آپس میں اختلاف ہو رہا ہے۔ ہماری بات سن کر آپ کا چہرہ مبارک غصّے سے سرخ ہوگیا آپ نے فرمایا: تم سے پہلے لوگ آپس کے اختلاف کی وجہ سے ہلاکت میں مبتلا ہوگئے

پھر آپ نے آہستہ سے امیر المومنین (علیہ السلام) سے کچھ فرمایا۔ اس کے بعد حضرت علی (علیہ السلام) نے ہم سے کہا: رسول اللہ(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) فرماتے ہیں کہ جس طرح تمہیں قرآن پڑھایا گیا ہے اسی طرح پڑھو۔،،(۱)

____________________

(۱) یہ سب روایتیں تفسیر طبری، ج ۱، ص ۹۔۱۵ میں مذکور ہیں۔

۲۲۸

۱۱۔ قرطبی نے اُبی داؤد سے اور اس نے اُبیّ بن کعب سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) نے فرمایا:''یا اُبیّ انی قرأت القرآن ۔فقیل لی: علی حرف أوحرفین ۔فقال الملک الذی معی: قل علی حرفین ۔فقیل لی: علی حرفین أو ثلاثة ۔فقال الملک الذی معی: قل علی ثلاثة، حتی بلغ سبعة أحرف، ثم قال: لیس منها الا شاف کاف، ان قلت سمیعاً، علیماً، عزیزاً، حکیماً، مالم تخلط آیة عذاب برحمة، أو آیة رحمة بعذاب،،

''اے اُبی! میں نے قرآن کی تلاوت کی تو مجھ سے پوچھا گیا: آپ ایک حرف میں قرآن پڑھیں گے یا دو حرف میں؟ میرے ساتھ موجود فرشتے نے کہا: کہیئے دو حرف میں۔ فرشتے نے کہا: کہیئے تین حروف میں۔ اس طرح سات حروف تک سلسلہ جا پہنچا۔ اس کے بعد مجھ سے کہا گیا کہ ان سات حروف میں سے جس میں چاہیں پڑھیں، کافی ہے۔ چاہیں تو سمیعاً پڑھیں یا علیماً یا عزیزاً یا حکیماً پڑھیں البتہ عذاب کی آیہ کو رحمت کی آیہ سے اور رحمت کی آیہ کو عذاب کی آیہ سے خلط ملط نہ کردیں۔،،(۱)

i ۔ ان روایات کے کمزور پہلو

یہ تھیں اس مضمون کی اہم روایات جو اہل سُنّت کے سلسلہئ سند سے منقول ہیں اور یہ سب روایتیں صحیحہ زرارہ کی مخالف ہیں جو حضرت امام جعفر صادق (علیہ السلام) سے مروی ہے، آپ فرماتے ہیں:

''ان القرآن واحد نزل من عند واحد، و لکن الاختلاف یحیئ من قبل الرواة،،

''قرآن ایک ہی ہے اور ایک ہی ذات کی طرف سے نازل کیا گیا ہے اور اختلاف راویوں کے پیدا کردہ ہیں۔،،(۲)

____________________

(۱) تفسیر قرطبی، ج ۱، ص ۴۳۔

(۲) اصول کافی کتاب فضل القرآن، باب نوادر روایت ۱۲۔

۲۲۹

فضیل بن یسار نے حضرت ابا عبد اللہ(ع) سے پوچھا: یہ لوگ کہتے ہیں کہ قرآن سات حروف میں نازل ہوا ہے۔ امام(ع) نے فرمایا:

''أبو عبد الله علیه السلام: کذبوا أعداء الله ولکنه نزل علی حرف واحدمن عند الواحد،،

''یہ دشمنان خدا جھوٹ بولتے ہیں۔ قرآن کو صرف ایک حرف میں اور ایک ذات کی طرف سے نازل کیا گیا۔،،(۱)

اسسے پہے بطور اختصار بیان کیا جاچکا ہے کہ دینی معاملات میں رسول اللہ(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) کے بعد واحد مرجع و مرکز کتابِ خدا اور اہل بیت پیغمبرؐ ہیں جن سے خدا نے ہر قسم کے رجس و ناپاکی کو دور رکھا ہے۔ انشاء اللہ تعالیٰ اس کی مزید وضاحت بعد میں آئے گی۔

ان روایات کی کوئی وقعت نہیں ہے جو اہل بیتؑ کی صحیح روایات کی مخالف ہیں۔ اس لئے دوسری روایات کی سند کے بارے میں کسی بحث کی نوبت نہیں آئی اور روایات اہل بیتؑ کی مخالفت کی وجہ سے ہی وہ روایات ناقابل اعتبار قرار پاتی ہیں اس کے علاوہ بھی ان روایات میں آپس میں تضاد پایا جاتا ہے اور بعض روایات ایسی ہیں جن کے سوال و جواب کا آپس میں کوئی تعلق نہیں ہے۔

ii ۔ روایات میں تضاد

تضاد کا ایک نمونہ یہ ہے کہ بعض روایات کے مطابق جبرئیل نے رسول اللہ(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) کو ایک حرف میں قرآن پڑھایا اور آپ نے مزید حروف کی درخواست کی یہاں تک کہ یہ سلسلہ سات حروف تک منتہی ہوا۔

____________________

(۱) اصول کافی کتاب فضل القرآن، باب نوارد روایت ۱۳۔

۲۳۰

اس سے معلوم ہوتا ہے کہ حروف میں اضافہ تدریجاً ہوا ہے بعض روایات کے مطابق یہ اضافہ ایک ہی نشست میں ہوا اور آپ نے ان میں اضافے کا مطالبہ میکائیل کی ہدایت پر کیا اور جبرئیل نے سات حرف تک اضافہ کردیا اور بعض روایات کے مطابق میکائیل کی رہنمائی اور رسول اللہ(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) کی درخواست کے بغیر ہی جبرئیل آسمان پر جاتے اور نازل ہوتے تھے حتیٰ کہ سات حروف مکمل ہوئے۔

تضاد کا تیسرا نمونہ یہ ہے کہ بعض روایات کہتی ہیں کہ اُبیّ بن کعب مسجد میں داخل ہوا اور کسی کو اپنی قراءت کے خلاف قرآن پڑھتے سنا اور بعض روایات یہ کہتی ہےں کہ اُبیّ بن کعب پہلے سے مسجد میں موجود تھا اور بعد میں دو آدمیوں نے مسجد میں داخل ہو کر اس کی قراءت کے خلاف قرآن پڑھا۔ اس کے علاوہ ان روایات میں وہ کلام بھی مختلف طریقے سے مذکور ہے جو

آنحضرت(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) نے اُبیّ سے فرمایا۔

سوال و جواب میں مناسبت نہ ہونے کا نمونہ ابن مسعود کی روایت میں حضرت علی (علیہ السلام) کا یہ فرمانا ہے کہ رسول اللہ(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) فرماتے ہیں: جس طرح تمہیں پڑھایا گیا ہے اسی طرح پڑھو۔ یہ جواب سائل کے سوال سے مطابقت نہیں رکھتا کیونکہ ابن مسعود نے آیتوں کی تعدادکے بارے میں پوچھاتھا آیہ کی کیفیت اور قراءت کے بارے میں نہیں۔

ان تمام اشکالات کے علاوہ بھی قرآن کے سات حروف میں نازل ہونے کا کوئی معنی نہیں بنتا اور کوئی صاحب فکر و نظر کسی صحیح نتیجے تک نہیں پہنچ سکتا۔

۲۳۱

سات حروف کی تاویل و توجیہ

سات حروف کی تاویل و توجیہ میں چند اقوال ذکر کیے گئے ہیں۔ ذیل میں ہم ان میں سے اہم اقوال اور ان میں موجود سقم اور اشکال بیان کریں گے:

۱۔ قریب المعنی الفاظ

سات حروف کی پہلی توجیہ اور تاویل یہ کی گئی ہے کہ الفاظ مختلف ہیں اور ان کے معانی قریب قریب ہیں، جس طرح عجل اسرع اور اسع ہیں۔ ان تینوں الفاظ کا معنی ہے۔ ''جلدی کرو،، یہ حروف حضرت عثمان کے زمانے تک موجود تھے۔ اس کے بعد حضرت عثمان نے ان حروف کو ایک حرف میں منحصر کردیا اور باقی چھ حروف پر مشتمل قرآنوں کو نذر آتش کرنے کا حکم دے دیا۔

اس تاویل کو طبری اور علماء کی ایک جماعت نے بھی اختیار کیا ہے(۱) قرطبی کا کہنا ہے کہ اکثر اہل علم کا یہی نظریہ ہے(۲) اور ابو عمرو بن عبد البر کی رائے بھی یہی ہے(۳) ۔

اس تاویل پر ابن ابی بکرہ اور ابی داؤد کی روایت کے علاوہ یونس کی روایت سے استدلال کیا جاتا ہے جو ابن شہاب سے منقول ہے، اس میں انہوں نے کہا ہے:

سعید بن المسیب نے مجھے خبر دی ے کہ جس شخص کی طرف خدا نے آیہ کریمہ( إِنَّمَا يُعَلِّمُهُ بَشَرٌ ) ۱۶:۱۰۳

یعنی اس (رسول) کو تو ایک بشر قرآن سکھاتا ہے،، میں نے جس کی طرف اشارہ فرمایا ہے وہ ایک کاتب وحی تھا جو اس لیے شک و شبہ میں مبتلا ہوگیا کہ آپ اس سے آیتوں کے آحر میں سمیع علیم یا عزیز حکیم لکھواتے تھے پھر آپ سے پوچھتا: یا رسول اللہ(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم)! عزیز حکیم لکھوں یا سمیع علیم یا عزیز علیم؟ آپ فرماتے: ان

____________________

(۱) تفسیر طبری، ج ۱، ص ۱۵۔

(۲) تفسیر قرطبی، ج ۱، ص ۴۲۔

(۳) التبیان، ص ۳۹۔

۲۳۲

میں سے جو بھی لکھو صحیح ہے۔ اس بات سے یہ شخص اس غلط فہمی میں مبتلا ہوگیا کہ محمدؐ نے قرآن میرے سپرد کرد یا ہے، میں جو چہے لکھوں۔،،

نیز یونس کی اس قراءت سے بھی استدلال کیا گیا ہے:''ان ناشئة اللیل هی اشد وطا و اصوب قیلا ۔،، (۱) کچھ لوگوں نے یونس پر اعتراض کیا: اے ابو حمزہ قرآن میں تو ''اقوم،، ہے۔ یونس نے جواب دیا: اقوم اصوب اور اھدی کا معنی ایک ہی ہے۔

اسی طرح ابن مسعود کی قراءت ''ان کانت الا زقیۃ واحدۃ،، سے استدلال کیا گیا ہے۔ اس نے ''ان کانت صیحۃ واحدۃ،، کی بجائے ''ان کانت الا ذقیۃ واحدۃ،، پڑھا ہے۔ اس لیے کہ''صیحة،، اور''زقیة،، کا معنی ایک ہے۔(۱)

اس کے علاوہ طبری کی یہ روایت بھی بطور دلیل پیش کی جاتی ہے۔ طبری نے محمد بن بشار اور ابی السائب اور انہوں نے ہمام سے روایت کی ہے:

''ابو الدرداء ایک شخص کو آیہ کریمہ،( إِنَّ شَجَرَتَ الزَّقُّومِ ﴿﴾ طَعَامُ الْأَثِيمِ ) (۴۴:_۴۴_۴۳) پڑھ رہا تھا اس سے یہ آیہ نہیں پڑھی جارہی تھی اور وہ بار بار بتانے کے باوجوداس شخص سے ''طعام الاثیم،، نہیں پڑھا گیا تو ابو الدرداء نے اس سے کہا کہ اس کی جگہ پڑھو''ان شجرة الزقوم طعام الفاجر،، اس لیے کہ ''اثیم،، اور ''فاجر،، کا معنی ایک ہے۔،،(۲)

اس کے علاوہ اس تاویل کی دلیل میں ان روایات کو پیش کیا جاتا ہے جن میں یہ کہہ کر قراءت میں کافی گنجائش رکھی ہے:

ما لم تختم اٰیة رحمة بعذاب او اٰیة عذاب برحمة (یعنی) قرآن میں اتنی تبدیلی کرسکتے ہو کہ رحمت کی آیہ عذاب کی آیہ میں اور عذاب کی آیہ رحمت کی آیہ میں تبدیل نہ ہوجائے۔

____________________

(۱) تفسیر طبری، ج۱،ص ۱۸۔

(۲) ایضاً، ج ۲۵، ص ۷۸۔ آیہ مبارکہ کی تفسیر کے ذیل میں۔

۲۳۳

اس حد بندی کی یہی معنی ہوسکتا ہے کہ سات حروف سے مراد سات کلمات میں سے بعض کو بعض کی جگہ استعمال کرنا ہے۔ البتہ اس سے صرف اس صورت کو مستثنیٰ قرار دیا گیا جس سے رحمت کی کوئی آیہ عذاب کی آیہ میں اور عذاب کی آیہ رحمت کی آیہ میں تبدیل ہوجائے۔ بنابرایں ان روایات میں سے مجمل(۱) روایات کی مبین(۲) روایات پر محمول کرنے کے بعد ان سے وہی معنی مراد لیے جائیں جو ہم نے بیان کئے ہیں۔

مؤلف: سات حروف کے بارے میں جتنی بھی تاویلیں کی گئی ہیں ان میں سے کوئی بھی روایت سے سازگار نہیں، چانچہ اس کے بارے میں آئندہ بیان کیا جائے گا۔ بنابرایں یہ تمام روایات ناقابل قبول ہیں کیونکہ ان کے مفہوم کو اپنانا اور ان پر عمل کرنا ناممکن ہے، اس لیے کہ:

اولا: یہ تاویل، قرآن کے بعض معانی پر منطبق ہوسکتی ہے جس کی سات حروف سے تعبیر ہوسکتی ہو۔ اور یہ بدیہی امر ہے کہ قرآن میں اکثریت ان معانی کی ہے جنہیں مختلف الفاظ سے تعبیر نہیں کیا جاسکتا تو پھر یہ کیسے کہا جاسکتا ہے کہ قرآن ان سات حروف میں نازل ہوا ہے۔

ثانیاً: اگر اس تاویل سے مراد یہ ہو کہ خود رسول اللہ(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) نے بعض الفاظ جن کے معنی ملتے جلتے ہوں، میں تبدیل کرنے کی اجازت دی ے اور گذشتہ روایات کو اس کے ثبوت میں پیش کیا جائے تو یہ احتمال، اس قرآن کی بنیاد کو منہدم کرنے کا باعث بنے گا جو ایک ابدی معجزہ اور پوری انسانیت پر خدا کی طرف سے حجّت ہے، اور کسی بھی عاقل کو اس بات میں شک نہیں ہوگا کہ یہ احتمال حقیقی قرآن کے متروک اور اس کے بے وقعت ہوے کا متقاضی ہے۔

____________________

(۱) ایسا کلام جس کا معنی واضح نہ ہو۔ (مترجم)

(۲) ایسا کلام جس کا معنی واضح ہو۔ (مترجم)

۲۳۴

کوئی عاقل یہ سوچ سکتا ہے کہ پیغمبر اکرم(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) نے سورہ یٰس میں موجود آیات کی جگہ ان الفاظ کی تلاوت کی اجازت دی ہو:''یٰس والذکر العظیم، انک لمن الانبیآئ، علی طریق سویّ، انزال الحمید الکریم، التخوف قوماً خوف اسلافهم فهم ساهون ۔

ہم تو کہیں گے ان کی آنکھیں ٹھنڈی رہیں جو اسے جائز سمجھتے ہیںاللهمّ ان هٰذا الا بهتان عظیم ، پالنے والے! تو جانتا ہے کہ یہ تیرے رسول پر بہتان عظیم ہے۔ اللہ تعالیٰ تو فرماتا ہے:

( قُلْ مَا يَكُونُ لِي أَنْ أُبَدِّلَهُ مِن تِلْقَاءِ نَفْسِي ۖ إِنْ أَتَّبِعُ إِلَّا مَا يُوحَىٰ إِلَيَّ ۖ) ۱۰:۱۵

''(اے رسول) تم کہہ دو کہ مجھے یہ اختیار نہیں کہ میں اسے اپنے جی سے بدل ڈالوں میں تو بس اسی کا پابند ہوں جو میری طرف وحی کی گئی ہے۔،،

جب رسول اللہ(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) کو قرآن میں اپنی طرف سے کسی قسم کی تبدیلی کا اختیار نہیں ہے تو آپ دوسروں کو کیسے اس کی اجازت دے سکتے ہیں۔

رسول اللہ(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) نے براء بن عازب کو ایک دعا کی تعلیم فرمائی تھی جس میں یہ جملہ بھی شامل تھا: ''و نبیک الذی ارسلت،، اس کو براء نے ''و رسولک الذی ارسلت،، پڑھا تو آپ نے براء کو ٹوکا اور فرمایا ''نبی،، کی جگہ ''رسول،، مت پڑھو۔(۱)

____________________

(۱) التبیان، ص ۵۸۔

۲۳۵

جب دعا کی یہ شان اور اہمیت ہے تو قرآن کی اہمیت کتنی زیادہ ہوگی۔

اگر اس تاویل سے مراد یہ ہو کہ خود رسول اللہ(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) نے سات حروف کے مطابق قرآن پڑھا ہے اور ان روایات کو اس کے ثبوت میں پیش کیا جائے توپھر مدعی کو ان سات حروف کی ٹھیک ٹھیک نشاندہی کرنی چاہیے جن کے مطابق رسول اللہ(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) نے قرآن پڑھا ہے کیوں کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کی حفاظت کا وعدہ فرمایا ہے:

( إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَإِنَّا لَهُ لَحَافِظُونَ ) ۱۵:۹

''بیشک ہم ہی نے قرآن نازل کیا اور ہم ہی تو اس کے نگہبان بھی ہیں۔،،

ثالثاً: گذشتہ روایات میں اس بات کی تصریح کی گئی ہے کہ قرآن کو سات حروف میں نازل کرنے کی حکمت، اُمّت کی سہولت اور آسانی ہے، اس لیے کہ اُمّت ایک حرف میں قراءت کی استطاعت نہیں رکھتی اور اسی غرض سے رسول اللہ(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) نے سات حروف تک اضافہ کرنے کی درخواست کی تھی۔

لیکن آپ نے دیکھا کہ قراءتوں میں اختلاف باعث بنا کہ مسلمان ایک دوسرے کو کافر گردانیں، حتیٰ کہ حضرت عثمان نے قراءت کو ایک حرف میں منحصر کردیا اور باقی قرآنوں کو نذر آتش کردیا۔

اس سے ہم درج ذیل نتائج تک پہنچتے ہیں:

۱۔ قراءتوں میں اختلاف اُمّت کے لیے ایک عذاب تھا حضرت عثمان کے دور میں ظاہر ہوا۔ رسول اللہ(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) خدا سے ایسی چیز کا مطالبہ کس طرح کرسکتے تھے۔ جس میں اُمّت کا فساد و نقصان ہو اور کیایہ صحیح ہے کہ خدا ایسی درخواست منطور فرمالے؟ جبکہ بہت سی روایات میں اختلاف سے روکا گیا ہے اور اختلاف کو امّت کی ہلاکت کا باعث قرار دیا گیا ہے۔ بعض روایات تو یہاں تک کہتی ہیںکہ جب آپ نے قراءتوں میں اختلاف کی بات سنی تو غصے سے آپ کا چہرہ مبارک سُرخ ہوگیا۔ ان میں س کچھ روایات کا ذکر ہو چکا ہے اور کچھ روایات کا ذکر بعد میں کیا جائے گا۔

۲۳۶

۲۔ گذشتہ روایات کا مفہوم یہ تھا کہ نبی اکرم(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) نے فرمایا: میری اُمّت ایک حرف میں قرآن پڑھنے کی استطاعت نہیں رکھتی اور یہ صریحاً جھوٹ ہے۔ عقل اس کو نبی کریمؐ کی طرف نسبت دینے کی اجازت نہیں دیتی۔ کیونکہ ہم دیکھتے ہیں کہ حضرت عثمان کے بعد اُمّت پیغمبر، جس میں مختلف عناصر قبیلے اور مختلف زبانوں والے شامل تھے، قرآن کو ایک حرف میں پڑھنے پر قادر تھی۔ اب یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا رسول اکرم(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) کے زمانے میں ایک قراءت پر اتفاق کرنا کوئی مشکل تھا جبکہ اس وقت امّت پیغمبر اکرم(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) فصیح عربوں پر مشتمل تھی۔

۳۔ قراءتوں میں اختلاف، جس کی بنیاد پر حضرت عثمان نے قراءتوں کو ایک حرف میں منحصر کیا، خود پیغمبر اکرم(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) کے زمانے میں بھی تھا۔ آپ نے ہر قاری کی تائید بھی فرمائی تھی اور مسلمانوں کو حکم دیا تھا کہ وہ ان تمام قراءتوں کو تسلیم کرلیں اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی فرما دیا کہ قراءتوں میں اختلاف خدا کی طرف سے رحمت ہے۔

اب حضرت عثمان اور ان کے تابعین کو کیا حق پہنچتا ہے کہ وہ رحمت کے دروازے بند کردیں؟ جبکہ رسول اعظمؐ نے قراءت قرآن روکنے سے ممانعت فرمائی تھی۔

مسلمانوں کے پاس کیا جواز تھا کہ وہ رسول اکرم(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) کے قول کو تو ٹھکرا دیں اور حضرت عثمان کی بات مان کر اس پر عمل کریں؟

کیا مسلمانوں کی نظر میں حضرت عثمان، رحمۃ العالمین سے زیادہ مہربان اور ہمدرد تھے؟

معاذ اللہ کیا حضرت عثمان کے پیش نظر ایسی حکمت اور مصلحت تھی جس سے رسول اکرم(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) نے خبر تھی؟ یا حاشا وکلا حضرت عثمان پر ان حروف کے منسوخ ہونے کی وحی نازل ہوئی تھی؟!

۲۳۷

اس بحث کا خلاصہ یہ ہے کہ سات حروف سے متعلق روایات کی یہ بدنما تاویل اس قابل نہیں ہے کہ اسے ردّ بھی کیا جائے۔ اسی وجہ سے علمائے اہل سُنّت میں سے متاخرین نے اس تاویل کو ٹھکرا دیا ہے اور ابو جعفر محمد بن سعد ان النحوی اور حافظ جلال الدین سیوطی ان روایات کو مشکل اور متشابہ قرار دینے پر مجبور ہوگئے۔ چنانچہ کہا جاتا ہے کہ ان روایات کا کوئی مفہوم واضح نہیں ہے۔(۱) حالانکہ آپ نے ملاحظہ فرمایا کہ ان روایات کا مفہوم واضح ہے اور جو بھی ان روایات کا بنظر غائر مطالعہ کرے، اس کے لیے کوئی شک و تردد باقی نہیں رہتا۔

۲۔ سات ابواب

سات حروف کی تفسیر و تاویل کے سلسلے میں دوسری رائے یہ ہے کہ ان سے مراد سات ابواب ہیں اور قرآن ان سات ابواب میں تقسیم کیا گیا ہے ان کے عنوان یہ ہیں:

i ۔ آیات زجر (نہی)۔

ii ۔ آیات امر۔

iii ۔ آیات حلال۔

iv ۔ آیات حرام۔

v ۔ آیات محکم۔

vi ۔ آیات متشابہ۔

vii ۔ آیات امثال۔

اس نظریہ پر یونس کی روایت سے استدلال کیا گیا ہے، جسے اس نے ابن مسعود کی سند سے پیغمبر اکرم(صلّی اللّہ علیہ وآلہ وسلّم) سے نقل کیا ہے۔ آپ نے فرمایا:

____________________ _

(۱) التبیان، ص ۶۱۔

۲۳۸

انه قال: ''کان الکتاب الأول نزل من باب واحد علی حرف واحد، و نزل القرآن من سبعة أبواب، و علی سبعة أحرف: زجر، و أمر، و حلال، و حرام، و محکم، و متشابه، و أمثال ۔فأحلّوا حلاله، و حرّموا واعتبروا بأمثاله، و اعملوا بمحکمه، و آمنوا بمتشابهه، و قولوا آمنا به کل من عند ربنا،،

''پہلی آسمانی کتاب کا ایک ہی باب تھا اور وہ ایک ہی حرف پر نازل کی گئی تھی۔ قرآن مجید سات ابواب اور سات حروف میں نازل کیا گیاہے۔ زجر، امر، حلال، حرام، محکم، متشابہ اور امثال۔ حلال خدا کو حلا ل اور حرام خدا کو حرام سجھو، جس چیز کا تمہیں حکم دیا جائے اسے انجام دو اور جس چیز سے تمہیں منع کیا جائے اس سے باز آجاؤ، قرآن کی مثالوں سے عبرت حاصل کرو، محکم آیات پر عمل کرو اور متشابہ آیات پر ایمان لے آؤ اور کہو ہم اس پر ایمان لے آئے یہ سب کچھ ہمارے ربّ کی طرف سے ہے۔،،(۱)

اس نظریہ پر بھی چند اعتراضات ہیں:

۱۔ اس روایت سے یہی ظاہر ہوتا ہے کہ سات حروف، جن میں قرآن نازل ہوا ہے اور ہیں، اور سات ابواب، جن میں قرآن تقسیم ہوا ہے اور ہیں، لہذا اس روایت کو ان مجمل روایات کی تفسیر قرار نہیں دیا جاسکتا۔

۲۔ یہ روایت ابو کریب کی روایت سے متصادم ہے، جو اس نے ابن مسعود سے نقل کی ہے اور جس میں کہا گیا ہے:

ان الله انزل القرآن علی خمسة احرفٍ ۔حلال و حرام و محکم و متشابه و امثال ۔(۲) (یعنی) اللہ نے قرآن کو پانچ حروف ، حلال، حرام، محکم، متشابہ اور امثال میں نازل فرمایا ہے

____________________

(۱) تفسیر طبری، ج ۱، ص ۳۲۔

(۲) ایضاً، ج ۱، ص ۲۴۔

۲۳۹

۳۔ اس روایت کا مفہوم مضطرب و متزلزل ہے۔ کیونکہ ''زجر،، اور ''حرام،، ایک چیز ہے، اس طرح چھ ابواب ہو جائیں گے نہ کہ سات۔ اس کے علاوہ قرآن میں اور بہت سے موضوعات کا بھی ذکر ہے جو ان سات ابواب میں شامل نہیں ہیں۔جیسے: مبدائ، معاد، قصّے، احتجاجات ، دلائل اور علوم و معارف ہیں اور اگر اس تاویل کے قائل کا مقصد یہ ہے کہ باقی ماندہ موضوعات بھی محکم و متشابہ می داخل ہیں تو باقی پانچ ابواب، حلال، حرام، امر، زجر اور امثال کو بھی دوسرے موضوعات کی طرح محکم و متشابہ میں داخل ہونا چاہیے تھا۔ اس طرح قرآن دو حروف محکم و متشابہ میں منحصر ہو جاتا۔ اس لیے کہ قرآن میں جو کچھ ہے و محکم یا متشابہ ہے۔

۴۔ سات حروف کی تفسیر، سات ابواب کرنا گذشتہ روایات سے سازگار نہیں کیونکہ گذشتہ روایات میں قرآن کے سات حروف میں نازل ہونے کی وجہ امّت کی سہولت بیان کی گئی ہے۔ اس لیے کہ اُمّت ایک حرف پر قرآن پڑھنے کی قدرت نہیں رکھتی تھی۔

۵۔ بعض گذشتہ روایات اس بات کی تصریح کرتی ہیں کہ سات حروف سے مراد قراءت کی قسمیں ہیں، جن میں قاریوں کا اختلاف ہے۔

فرض کیا اگر اس روایت کا معنی سات ابواب ہیں تب بھی اس ایک روایت کی وجہ سے ان متعدد روایات کے ظاہری معنی سے دستبردار نہیں ہوا جاسکتا اور نہ ہی یہ ایک روایت گذشتہ روایات کے ظاہری معنی کے خلاف کسی معنی کے لیے قرینہ اور علامت بن سکتی ہے۔

۲۴۰

241

242

243

244

245

246

247

248

249

250

251

252

253

254

255

256

257

258

259

260

261

262

263

264

265

266

267

268

269

270

271

272

273

274

275

276

277

278

279

280

281

282

283

284

285

286

287

288

289

290

291

292

293

294

295

296

297

298

299

300

301

302

303

304

305

306

307

308

309

310

311

312

313

314

315

316

317

318

319

320

321

322

323

324

325

326

327

328

329

330

331

332

333

334

335

336

337

338

339

340

341

342

343

344

345

346

347

348

349

350

351

352

353

354

355

356

357

358

359

360

361

362

363

364

365

366

367

368

369

370

371

372

373

374

375

376

377

378

379

380

381

382

383

384

385

386

387

388

389

390

391

392

393

394

395

396

397

398

399

400

401

402

403

404

405

406

407

408

409

410

411

412

413

414

415

416

417

418

419

420

421

422

423

424

425

426

427

428

429

430

431

432

433

434

435

436

437

438

439

440

441

442

443

444

445

446

447

448

449

450

451

452

453

454

455

456

457

458

459

460

461

462

463

464

465

466

467

468

469

470

471

472

473

474

475

476

477

478

479

480

481

482

483

484

485

486

487

488

489

490

491

492

493

494

495

496

497

498

499

500

501

502

503

504

505

506

507

508

509

510

511

512

513

514

515

516

517

518

519

520

521

522

523

524

525

526

527

528

529

530

531

532

533

534

535

536

537

538

539

540

541

542

543

544

545

546

547

548

549

550

551

552

553

554

555

556

557

558

559

560

561

562

563

564

565

566

567

568

569

570

571

572

573

574

575

576

577

578

579

580

581

582

583

584

585

586

587

588

589

590

591

592

593

594

595

596

597

598

599

600

601

602

603

604

605

606

607

608

609

610

611

612

613

614

615

616

617

618

619

620

621

622

623

624

625

626

627

628

629

630

631

632

633

634

635

636

637

638

639

640

641

642

643

644

645

646

647

648

649

650

651

652

653

654

655

656

657

658

659

660

661

662

663

664

665

666

667

668

669

670

671

672

673

674

675

676

677

678

679

680

681

682

683

684

685

686

687

688

689

690

691

692

693

694

695

696

697

698

699

700

701

702

703

704

705

706

707

708

709

710

711

712

713

714

715

716

717

718

719

720

721

722

723

724

725

726

727

728

729

730

731

732

733

734

735

736

737

738

739

740

741

742

743

744

745

746

747

748

749

750

751

752

753

754

755

756

757

758

759

760

761

762

763

764

765

766

767

768

769

770

771

772

773

774

775

776

777

778

779

780

781

782

783

784

785